اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنط

اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم طبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

کفن کی واپسی 

شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ(26صفحات)مکمَّل پڑھ

لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کے فوائد خود ہی دیکھ لیں گے۔

دُرُود شریف کی فضیلت

       حضور ِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ رحمت نشان ہے: ’’جس نے کتاب میں مجھ پر دُرُودِ پاک لکھا تو جب تک میرا نام اُس میں رہے گا فرشتے اُس کے لیے استغفار(یعنی دعائے مغفِرت) کرتے رہیں گے۔‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط  ج۱ص۴۹۷ حدیث۱۸۳۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

     بصرہ کی ایک نیک خاتون نے بو قتِ وفات اپنے بیٹے کو وصیّت کی:’’ مجھے اُس کپڑے کا کفَن دینا جسے پہن کر میں رَجَبُ الْمُرَجَّب میں عبادت کیا کرتی تھی۔ بعد اَز وفات بیٹے نے کسی اور کپڑے میں کفنا کر دَفْنا دیا۔ جب وہ قبرستان سے گھر آیا تودیکھاکہ جو کفَن اُس نے پہنایا تھا وہ گھرمیں موجود تھا! اُس نے گھبرا کر ماں کی وصیّت والے کپڑے

 

 

تلاش کئے تو وہ اپنی جگہ سے غائب تھے۔اِتنے میں ایک غیبی آواز گونج اٹھی: ’’اپنا کفَن واپس لے لو  (جس کی اُس نے وصیّت کی تھی) ہم نے اُس کو اُسی کپڑے میں کفنایا ہے (کیوں کہ) جو رجب کے روزے رکھتاہے ہم اُس کو قبرمیں رنجیدہ نہیں رہنے دیتے۔‘‘(نُزہَۃُ المَجالِس ج۱ ص۲۰۸ ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

رَجَب میں یہ دعا پڑھنا سنّت ہے!

جب رَجب کا مہینا آتاتو نبیِّ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَیہ دُعا پڑھتے تھے:اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَّشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَارَمَضَان۔یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!تو ہمارے لیے رَجب اور شعبان میں بَرَکتیں عطا فرمااور ہمیں رَمَضان تک پہنچا۔(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی،ج۳،ص۸۵،الحدیث: ۳۹۳۹)

اللّہ کا مہینا

       فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:رَجَبٌ شَہْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَشَعْبَانُ شَہْرِیْ وَ رَمَضَانُ شَہْرُ اُمَّتِیْ۔ یعنی رَجب اللّٰہ تعالٰی کا مہینا اور شعبان میرا مہینا اوررَمضان میری اُمت کا مہینا ہے۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۲۷۵ حدیث ۳۲۷۶)

رجب کے مختلف نام اور معانی

     ’’رجب ‘‘دراصل تَرجِیْب سے مُشْتَق (یعنی نکلا )  ہے اِس کے معنٰی ہیں :’’ تعظیم کرنا۔‘‘


اِس کواَلْاَصَبْ(یعنی تیز بہاؤ) بھی کہتے ہیں اِس لئے کہ اس ماہِ مبارَک میں توبہ کرنے والوں پر رَحمت کا بہاؤ تیز ہوجاتا اور عبادت کرنے والوں پر قَبولِیَّت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے ۔ اسے اَلْاَصَمّ(یعنی  بَہرا) بھی کہتے ہیں کیونکہ اِس میں جنگ و جَدَل کی آوازبِالکل سنائی نہیں دیتی۔(مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۳۰۱  )اس ماہ کو ’’شَہرِرجم‘‘بھی کہتے ہیں کیونکہ اِس میں شیطانوں  کو رجم کیا جاتا ہے (یعنی پتھر مارے جاتے ہیں )تاکہ وہ مسلمانوں کو اِیذاء نہ دیں۔(غُنْیَۃُ الطّا لِبِیْن ج۱ ص۳۱۹،۳۲۰)

رجب کے تین حروف کی بھی کیا بات ہے!

           سُبحٰن اللہ عَزَّ وَجَلَّ  ! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ماہِ رَجبُ المُرَجَّب کی بہاروں  کی توکیا بات ہے! ’’مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب‘‘میں ہے، بُزُرگانِ دین رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِین فرماتے ہیں : ’’رجب‘‘ میں تین حُرُوف ہیں۔ ر،ج،ب ،   ’’ر‘‘سے مُراد رَحمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ، ’’ج‘‘ سے مُراد بندے کا جُرم،’’ب‘‘ سے مُراد بِرّ یعنی اِحسان و بھلائی ۔ گویا اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : میرے بندے کے جُرم کو میری رَحمت اور بھلائی کے درمِیان کردو۔(مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۳۰۱)

عصیاں سے کبھی ہم نے کَنارا نہ کیا         پَر تو نے دل آزُردَہ ہمارا نہ کیا

ہم نے تو جہنَّم کی بَہُت کی تجویز            لیکن تِری رَحمت نے گوارا نہ کیا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

                                                عبادت کا بیج بونے کا مہینا

      حضرتِ سَیِّدُنا علّامہ صَفُّوری رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :رَجَبُ الْمُرَجَّب  بِیج


بونے کا ،شَعْبانُ الْمُعَظَّم آبپاشی(یعنی پانی دینے ) کا اور رَمَضانُ الْمُبارَک فَصل کاٹنے کا مہینا ہے۔لہٰذا جو رَجَبُ الْمُرَجَّبمیں عبادت کا بیج نہ بوئے اور شَعْبانُ الْمُعَظَّممیں اُسےآنسوؤں سے سَیراب نہ کرے وہ رَمَضانُ الْمُبارَکمیں فصلِ رَحمت کیوں کر کاٹ سکے گا؟مزید فرماتے ہیں : رَجَبُ الْمُرَجَّبجسم کو ، شَعْبانُ الْمُعَظَّمدل کو اور رَمَضانُ الْمُبارَک رُوح کو پاک کرتا ہے۔(نُزْہَۃُ الْمَجالِس ج۱ص۲۰۹)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!رَجَبُ المُر جّب میں نفلی روزوں اور دیگر عبادتوں کا ذہن بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے مر بوط (یعنی وابستہ)رہئے ۔ سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافِلوں کے مسافِر بنئے اور دعوتِ اسلامی کی جانب سے رَمَضانُ الْمُبارَک میں کئے جانے والے اجتِماعی اعتکاف میں حصّہ لیجئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ آپ کی زندگی میں مَدَنی انقِلاب آجائے گا۔ ترغیباً ایک مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں چُنانچِہ فتح پور کمال (ضلع رحیم یار خان ،پنجاب،پاکستان)کے ایک اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ مدنی ماحول سے پہلے میں نمازتوپابندی سے پڑھتاتھامگراس کے باوجودمختلف گناہوں کاعادی تھا۔مثلاً گانے باجے سننا،فلمیں ڈرامے دیکھنا،تاش کھیلناوغیرہ ۔میں ہمیشہ کالج جاتے ہوئے اپنی سائیکل ایک اسلامی بھائی کی دکان پرکھڑی کرتاتھا۔رَجَبُ المُر جّبکے ایّا م  تھے ایک روزجب میں اپنی سائیکل دکان پرکھڑی کرنے کے لئے گیاتواس اسلامی بھائی نے شبِ معراج کے سلسلے میں ہونے والے اجتماعِ ذِکرونعت کی دعوت دی ۔میں نے شرکت کی ہامی بھرلی اوراس


رات اکیلا اپنی بستی سے جو کہ کچھ فاصلے پرتھی آیااورپوری رات اجتماعِ ذِکرونعت میں شرکت کی۔مجھے اس اجتماع پاک میں بہت ہی سکون ملا جس کی وجہ سے میں نے ہفتہ واراجتماع میں پابندی کے ساتھ شرکت کرناشروع کردی ۔اس دُ و ران رَمَضانُ الْمُبارَک کابابرکت مہینا بھی تشریف لاچکاتھا۔اسلامی بھائیوں نےانفرادی کوشش کے ذریعے آخری عشرے کے اعتکاف کے لئے مجھے راضی کر لیا۔ اعتکاف میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے گناہوں سے نفرت ہو گئی،میں نے اعتکاف میں داڑھی رکھ لی اور عمامہ شریف کاتاج بھی سجا لیا۔ تادمِ تحریرڈویژن مدنی اِنعامات کا ذمّے دار ہوں۔اللّٰہُ ربُّ العزَّت عَزَّ وَجَلَّ  اس مَدَنی ماحول میں استقامت عنایت فرمائے۔

ایک جنّتی نہر کا نام رجب ہے

       حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بن مالِک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایک نَہر ہے  جسے ’’رجب‘‘ کہا جا تا ہے جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے تو جو کوئی رجب کا ایک روزہ رکھے تو اللہ عَزَّوَجَل اسے اس نَہر سے سیرَ اب کر ے گا۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۷حدیث۳۸۰۰)

جنّتی محل

       تابِعی بُزُرگ حضرتِ سَیِّدُنا ابوقِلابہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:رجبکے روزہ داروں کیلئے جنت میں ایک مَحَل ہے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۸حدیث۳۸۰۲)

 

 

پانچ بابرکت راتیں

       حضرت ِسیِّدُناابو اُمامہرضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ نبیِّ کریم، رء ُوْفٌ رّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلٰوةِ وَالتَّسْلِيْم کا فرمانِ عظیم ہے:’’پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دُعا رَد نہیں کی جاتی{۱}رجَب کی پہلی (یعنی چاند )رات{۲}پندَرَہ شعبان کی رات(یعنی شبِ براءَ ت ) {۳} جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات{۴} عیدالفطرکی (چاند )رات{۵} عیدُالْاَضْحٰی کی (یعنی ذُوالْحِجّہ کی دسویں )رات ۔ ‘‘(تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۱۰ص۴۰۸)

    حضرت ِسیِّدُناخالِد بن مَعْدان رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیّتِ ثواب ان کو عبادت میں گزارے تو اللہ تَعَالٰی اُسے داخل جنت فرمائے گا{۱}رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور اسکے دن میں روزہ رکھے{۲}شعبان کی پندرَھویں رات (یعنی شبِ براءَ ت)کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے{۳،۴}عِیدَین (یعنی عید الفطر اور عیدُ الْاَضْحٰی یعنی9اور10ذُوالْحِجّہ کی درمیانی شب ) کی راتیں کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے(عیدین کے دن روزہ رکھنا ناجائز ہے){۵}اور شب ِعاشوراء (یعنی مُحَرَّمُ الْحَرَام کی دَسویں شب ) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔(اَلبَدْرُ الْمُنِیر لابنِ الْمُلَقِّن ج۵ص۴۰ ،غُنْیَۃُ الطّا لِبِیْن ج۱ ص۳۲۷)


پہلا روزہ تین سال کے گناہوں کا کَفّارہ

       فرمانِ مصطفٰےصَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:’’رجَبکے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کَفّارہ ہے ،اور دوسرے دن کا روزہ دو سال کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کَفّارہ ہے ،پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفّارہ ہے۔‘‘(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۱۱ حدیث ۵۰۵۱، فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ، لِلخَلّال ص۷)یہاں ’’گناہ کا کَفّارہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہ روزے ، گناہِ صغیرہ کی معافی کا ذَرِیعہ بن جاتے ہیں۔

کشتی نوح میں رجب کے روزے کی بہار

حضرتِ سَیِّدُنااَنَس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: جس نے رجب کاایک روزہ رکھا تو وہ ایک سال کے روزوں کی طرح ہوگا۔جس نے سات روزے رکھے اُس پر جہنَّم کے ساتوں دروازے بند کرد ئیے جا ئیں گے ، جس نے آٹھ روزے رکھے اُس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے، جس نے دس روزے  رکھے وہ اللہ عَزَّوَجَل سے جو کچھ مانگے گا اللہ عَزَّوَجَل اُسے عطا فرما ئے گا۔اور جس نے پندرہ روزے رکھے تو آسمان سے ایک مُنادی نِدا(یعنی اعلان کرنے والااعلان) کرتا ہے کہ تیرے پچھلے گُناہ بَخش دئیے گئے پس تُو ازسرِ نَو عمل شروع کر کہ تیری بُرائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں۔اور جو زائد کرے تو اللہ عَزَّوَجَل اُسے زیادہ دے ۔اور رَجَب میں نُوح (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کشتی میں سُوار ہوئے توخود بھی روزہ رکھا اور ہمراہیوں کو بھی روزے کا حکم دیا۔ان کی کشتی دس مُحرَّم تک چھ ماہ برسرِ سفر رہی۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۸حدیث۳۸۰۱)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 ایک روزے کی فضیلت

       حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینَقْل کرتے ہیں کہ سلطانِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے:ماہِ رَجَب حُرمَت والے مہینوں میں سے ہے اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اِس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں۔اگر کوئی شخصرجَب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ(روزے والا)دن اس بندے کیلئے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے مغفِرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے:یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ !اِ س بندے کو بخش دے اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگا ر ی   کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اُس کی بخشِش کی درخواست نہیں کریں گے اور اُس شخص سے کہتے ہیں :’’اے بندے !تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا۔‘‘(مَاثَبَتَ بِالسُّنۃ ص۲۳۴،فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ، لِلخَلّال ص۳،۴)

         میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ روزے سے مقصود صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ، تما م اعضاء کو گناہوں سے بچانا بھی ہے، اگر روزہ رکھنے کے باوُجُود بھی گناہوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر محرومی دَر محرومی ہے۔

 60 مھینوں کا ثواب

       حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :جو کوئیستّائیسویں رجب کا  روزہ رکھے، اللہ تَعَالٰی اُس کیلئے ساٹھ مہینے کے روزوں کا ثواب لکھے۔ (فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ، لِلخَلّال ص۱۰)

سوسال کے روزے کا ثواب

         ستّائیسویں رَجَبُ الْمُرَجَّب کی عظمتوں کے کیا کہنے !اِسی تاریخ میں ہمارے


پیارے پیارے ،میٹھے میٹھے آقامکّی مدنی مصطفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   کومِعراج شریف کاعظیم الشّان مُعجِز ہ عطا ہوا۔(شَرحُ الزَّرقانی عَلَی المَواہِبِ اللَّدُنِّیۃ ج۸ص۱۸) چنانچِہ 27ویں رَجَب شریف کے روزے کی بڑی فضیلت ہے ۔ جیسا کہحضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ، دانائے غُیُوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ ذِیشان ہے:’’رجَبمیں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قِیام (عبادت )کرے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے ، سو برس کی شب بیداری کی اور یہ رَجَب کی ستائیس(ست۔تا۔ئیس) تاریخ ہے۔‘‘    (شُعَبُ الْاِیْمَان ج۳ص۳۷۴حدیث ۳۸۱۱)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

رجب میں پریشانی دور کرنے کی فضیلت

     حضرتِسیِّدُنا عبد اللہ ابنِ زُبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے :’’جو ماہِ رجب میں کسی مسلمان کی پریشانی دورکرے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کو جنت میں ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو حدِّ نظر تک وسیع ہوگا۔تم رجَبکا اکرام کرو اللہ تَعَالٰی تمہار ا ہزار کر امتوں کے ساتھ اِکرام فرمائے گا۔(غُنیۃُ الطّالِبین ج۱ ص۳۲۴،معجمُ السّفر لِلسّلفی ص۴۱۹رقم۱۴۲۱)

27 ویں شب کے12نوافل کی  فضیلت

       رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شَب ہے ۔جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میںسُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ اورکوئی سی ایک سُورت اور ہر دو رکعت پراَلتَّحِیّاتُ پڑھے


اور بارہ پوری ہونے پر سلام پھیرے، اس کے بعد100بار یہ پڑھے:سُبْحٰنَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ  وَاللہُ اَکْبَر ، اِستِغفار100 بار،دُرُودشریف100بارپڑھے اوراپنی دنیاوآخِرت سے جس چیز کی چاہے دُعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی سب دُعائیں قَبو ل فرمائے سوائے اُس دُعا کے جوگناہ کے لئے ہو۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۷۴حدیث۳۸۱۲)

حُرمت والے چار مہینے

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَل  ! کے نزدیک چار مہینے خصوصیت کے ساتھ حر مت والے ہیں۔ چنانچِہ پارہ10 سُوْرَۃُالتَّوبَہ آیت 36میں ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۳۶)

ترجَمَۂ کنزُا لایمان:بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں، جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حُرمت والے ہیں، یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہروقت لڑتے ہیں اورجان لو کہ اللہ پرہیزگارں کے ساتھ ہے۔

بیان کردہ آیت مُبارَکہ کے تحت صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی ’’خَزائِنُ العِرفان‘‘میں فرماتے ہیں :(چار حرمت


والے مہینوں سے مراد)تین متَّصل (یعنی یکے بعد دیگرے)ذُوالْقَعدہ،ذُوالْحِجّہ،مُحَرَّم اور ایک جُدا رَجَب ۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان میں قتال (یعنی جنگ )حرام جانتے تھے۔اسلام میں ان مہینوں کی حُرمت وعَظَمت اور زیادہ کی گئی ۔  (خزائنُ العِرفان ص۳۶۲) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آیتِ مُبارَکہ میں قمری(یعنی ہجری سِن کے12) مہینوں کا ذِکر ہے جن کا حساب چاند سے ہوتا ہے ، بہت سے اَحکامِ شَرع کی بِنا(یعنی بنیاد) بھی قمری مہینوں پر ہے،مَثَلاً رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے،زَکوٰۃ،مَناسک حج شریف وغیرہ نیز اسلامی تہوار مَثَلاً عید میلادُ النبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، عیدُ الفطر،عیدُ الْاَضْحٰی،شبِ معراج،شب براءَت،گیارہویں شریف،اَعراسِ بزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن وغیرہ بھی قمری مہینوں کے حساب سے منائے جاتے ہیں ۔ افسوس! آجکل مسلمان جہاں بے شمار سنتوں سے دُور جاپڑا ہے وَہاں اسلامی تاریخوں سے بھی ناآشنا ہوتا جارہا ہے ۔غالِباً ایک لاکھ مسلمانوں کے اجتماع میں اگر یہ سُوال کیا جائے کہ ’’بتاؤ آج کس ہِجری سِن کے کون سے مہینے کی کتنی تاریخ ہے ؟‘‘تو شاید بمشکل سو مسلمان ایسے ہوں گے جو صحیح جواب دے سکیں ! یادرہے کہ بہت سے مُعاملات جیسے زکوٰۃکی فرضیت وغیرہ میں قمری مہینوں کا لحاظ رکھنا فرض ہے۔                   

رَجَب کے احتِرام کی بَرَکت کی حکایت

       حضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ رُوحُاللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے دَور کا واقعہ  ہے کہ ایک شخص مدت سے کسی عورت پر عاشق تھا۔ایک بار اُس نے اپنی معشوقہ پر قابو پالیا،


لوگوں کا مجمع دیکھ کر اُس نے اندازہ لگایا کہ وہ چاند دیکھ رہے ہیں ،اُس نے اُس عورت سے پوچھا:لوگ کس ماہ کا چاند دیکھ رہے ہیں؟جواب دیا:’’رجب کا۔‘‘یہ شخص حالانکہ غیر مسلم تھا مگررجب شریف کا نام سنتے ہی تعظیماً فوراً الگ ہوگیا اور’’ گندے کام‘‘ سے باز رہا ۔ حضرتِ سَیِّدُناعیسیٰ رُوحُاللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کوحکم ہوا: ہما ر ے فلاں بندے کی ملاقات کرو۔‘‘آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامتشریف لے گئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم اور اپنی تشریف آوَری کا سبب ارشاد فرمایا۔یہ سنتے ہی اُس کا دل نورِ اسلام سے جگمگا اٹھا اور اُس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔(انیسُ الواعِظینص۱۷۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھی آپ نے رجب کی بہاریں!رجَبُ المُرَجَّب کی تعظیم کرنے سے جب ایک غیر مسلم کو ایمان کی دولت نصیب ہوسکتی ہے تو جومسلمان  رجَبُ الْمُرَجَّب کا احترام کرے اُس کو نہ جانے کیا کیا اِنعامات ملیں گے!قراٰنِ پاک میں حرمت(یعنی عزت) والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے روکا گیا ہے چنانچہ ’’نُور العرفان‘‘میں: فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ (ترجَمَۂ کنزُا لایمان: تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو) کے تحت ہے:’’یعنی خصوصیَّت سے ان چار مہینوں میں گناہ نہ کرو۔‘‘   (نورُالعِرفان ص۳۰۶)

دو سال کی عبادت کا ثواب

    حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، سرکارِ نامدار، دوعالَم کے مالِک ومختار


بِاِذنِ پروَردَگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مشکبار ہے:’’جس نے ماہِ حرام میں تین دن جُمعرات، جُمُعہ اور ہفتہ (یعنی سنیچر)کے روزے رکھے ، اس کے لئے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔‘‘(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج۱ص۴۸۵حدیث۱۷۸۹)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں ’’ماہِ حرام‘‘ سے یہی چار ماہ یعنی ذُوالْقَعدہ ، ذُوالْحِجّہ ، مُحَرَّمُ الْحرام اوررَجَبُ الْمُرَجَّب مُرادہیں ،ا ن چاروں مہینوں میں سے جس ماہ میں بھی بیان کردہ تین دنوں کا روزہ رکھ لیں گے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ دوسال کی عبادت کاثواب پائیں گے ۔

تیرے کرم سے اے کریم !مجھے کون سی شے ملی نہیں

جھولی ہی میری تنگ ہے،تیرے یہاں کمی نہیں

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 نورانی پہاڑ

        ایک بارحضرتِ سَیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا۔ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ  میں عرض کی: يَااللہ عَزَّ وَجَلَّ !اِس پہاڑ کو قُوّتِ گویائی(یعنی بولنے کی طاقت) عطا فرما۔وہ پہاڑ بول اُٹھا: یا رُوحَ اللّٰہ!(عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)  آپ کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا:اپنا حال بیان کر۔پہاڑ بولا :’’میرے اندر ایک آدَمی رہتا ہے۔‘‘سَیِّدُناعیسیٰ رُوحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں عرض کی : ’’ يَااللہ عَزَّ وَجَلَّ!اُس کو مجھ پر ظاہر فرما دے۔ ‘‘یکایک پہاڑ


شق ہوا(یعنی پھٹ)گیا اور اُس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ایک بزرگ برآمد ہوئے اُنہوں نے عرض کی:’’میں حضرتِ سَیِّدُنا موسٰی کلیمُ اللّٰہ (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) کا اُمَّتی ہوں میں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے یہ دُعا کی ہوئی ہے کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب، نبیِّ آخِرُ الزَّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بِعْثَتِ مُبارَکہ تک زندہ رکھے تاکہ میں اُن کی زیارت بھی کروں اور ان کا اُمَّتی بننے کا شَرَف بھی حاصِل کروں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت میں مشغول ہوں ۔ ‘‘ حضرتِ سَیِّدُناعیسیٰ رُوحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: يَااللہ عَزَّ وَجَلَّ!کیا رُوئے زمین پر کوئی بندہ اِس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم(یعنی عزت والا) ہے ؟ ارشاد ہوا:اے عیسیٰ( عَلَيْهِ السَّلَام) !اُمَّتِ محمدی میں سے جو ماہ ِرجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اِس سے بھی زیادہ مکرّم  ہے ۔ (نُزْہَۃ المجالس ج۱ ص۲۰۸)اللّٰہ ربُّ العزّت عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

رجب کے کونڈے

    صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:ماہِ رجب میں بعض جگہ حضرتِ( سَیِّدُنا )امام جعفر صادِق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کو


ایصالِ ثواب کے لیے پور یوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کررکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے۔ اس کونڈے کے متعلق ایک کتاب بھی ہے جس کا نام ’’داستانِ عجیب‘‘ ہے، اس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھواتے ہیں اس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبو ت نہیں وہ نہ پڑھی جائے فاتحہ دلا کر ایصالِ ثواب کریں۔(بہارِشریعت ج ۳ص۶۴۳)اِسی طرح ’’دس بیبیوں کی کہانی،‘‘ ’’لکڑہارے کی کہانی‘‘ اور’’ جنابِ سیِّدہ کی کہانی‘‘ سب من گھڑت قِصّے ہیں ان کو نہ پڑھا کریں، اِس کے بجائے ایک بار سُوْرَۂ یٰسٓ پڑھ لیا کریں کہ دس قراٰنِ کریم ختم کرنے کا ثواب ملے گا ۔یہ بھی یاد رہے کہ کونڈے ہی میں کھیر کھانا ،کھلانا ضَروری نہیں، دوسرے برتن میں بھی کھا اور کھلا سکتے ہیں ۔ ایصالِ ثواب(یعنی ثواب پہنچانا) قراٰنِ کریم و احادیثِ مبارَکہ سے ثابت ہے ، ایصالِ ثواب دُعا کے ذریعے بھی کیاجاسکتا ہے اور کھاناوغیرہ پکا کر اُس پر فاتحہ دلا کر بھی ۔ کونڈوں کی نیاز بھی ایصالِ ثواب ہی کی ایک صورت ہے اِس کو ناجائز کہنا شریعت پر اِفترا (یعنی تہمت باندھنا) ہے۔ناجائز کہنے والے پارہ 7 سُوْرَۃُ الْمَائِدہکی آیت نمبر87میں بیان کردہ حکمِ الٰہی سے عبرت پکڑیں چنانچِہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(۸۷)

ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو!حرام نہ ٹھہرا ؤ وہ ستھری چیزیں کہاللہنے تمہارے لئے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو۔ بے شک حد سے بڑھنے والےاللہکوناپسند ہیں ۔


’’رَجَب کے کونڈے ‘‘کِس تاریخ کو کریں؟

     پورے ماہِ رَجب میں بلکہ سارے سال میں جب چاہیں ایصالِ ثواب کیلئے کونڈوں کی نیاز کر سکتے ہیں، البتّہ مناسب یہ ہے کہ 15 رَجَبُ المُرَجَّب کو ’’ رَجب کے کونڈے‘‘ کئے جائیں کیوں کہ یہ آپ کا یومِ عُرس ہے جیسا کہ فتاوٰی فقیہِ ملّت جلد 2 صَفْحَہ 265 پر ہے:’’حضرتِ (سَیِّدُنا ) امام جعفرِ صادِق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نیاز 15رجب کو کریں کہ حضرت کا وصال 15 ہی کو ہواہے۔‘‘نیز مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب شرحِ شجرۂ قادریہ ‘‘ صَفْحَہ59پر ہے:آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو68برس کی عمر میں([1]) 15 رَجَبُ المُرَجَّب([2]) ۱۴۸؁ھ کو کسی شَقِیُّ الْقَلْب(یعنی سنگ دل۔ظالم)نے زہر دیاجو آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کا سبب بنا ۔ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مزارِ اقدس جنَّتُ الْبقیع (مدینۃُ المنوّرہ)میں والد محترم حضرت سیِّدُنا امام محمد باقِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پہلو میں ہے ۔ اللّٰہ ربُّ العزّت عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

           کھانا کھلانے کے ذریعے ایصالِ ثواب کرنا سنّتِ صحابہ ہے اور رجب کے کونڈے میں بھی غذا یعنی کھانے ہی کی چیز ہوتی ہے جو کہ ایصالِ ثواب کیلئے کھلائی جاتی ہے۔چُنانچِہ

 

 

 

 

 

صَحابہ سات دن تک ایصالِ ثواب کرتے

         حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطِی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینقل فرماتے ہیں کہ  صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سات روز تک وفات پاجانے والوں کی طرف سے کھانا کھلایا کرتے تھے ۔(اَلْحاوِی لِلْفَتاوِی لِلسُّیُوطی ج۲ص۲۲۳) 

 صحابی نے ماں کی طرف سے باغ صدقہ کر دیا

       بخاری شریف میں ہے:حضرتِ سیِّدُنا سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی امّی جان کا انتقال ہوا توانہوں نے بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میری امّی جان کا میری غیر موجودگی میں انتقال ہو گیا ہے ،اگر میں ان کی طرف سے کچھ صَدَقہ کروں تو کیا انہیں کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ہاں ، عرض کی: تو میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میر ا باغ ان کی طرف سے صَدَقہ ہے ۔ ( بُخاری  ج۲ص ۲۴۱ حدیث۲۷۶۲)معلوم ہو ا کھانا کھلانے  کے علاوہ باغ یعنی مال خرچ کرنے کے ذَرِیعے بھی ایصالِ ثواب جائز ہے اور کونڈے شریف کی نیاز بھی مالی ایصالِ ثواب  میں شامل ہے۔میرے آقااعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:امواتِ مسلمین (یعنی مرحومین)کے نام پر کھانا پکاکر ایصالِ ثواب کے لئے تَصَدُّق(یعنی خیرات) کرنا بلا شبہ جائز ومُسْتَحسَن(یعنی پسندیدہ)ہے اور اس پر فاتحہ


(کے ذریعے )سے ایصالِ ثواب (کرنا) دوسرا مُسْتَحسَن(یعنی پسندیدہ)ہے اور دوچیزوں کا جمع کرنا زِیادتِ خیر(یعنی بھلائی میں اِضافہ) ہے(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۹ ص۵۹۵) ہر شخص کو افضل یہی کہ جو عملِ صالح (یعنی جو بھی نیک کام)کرے اُس کا ثواب اوّلین وآخِرین اَحیاء واَموات (یعنی سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے لے کر تا قیامت ہونے والے)تمام مؤمنین ومؤمِنات کے لیے ہدِیَّہ(ہَ۔دی۔یہ) بھیجے (یعنی ایصالِ ثواب کرے)، سب کو ثواب پہنچے گااور اُسے(یعنی جس نے ایصالِ ثواب کیا)اُن سب کے برابر اجرملے گا۔(ایضاً ص۶۱۷) ایصالِ ثواب اچّھی نیّت سے کیا جائے اس میںنُمود و نمائش (یعنی دِکھاوا ) مقصود نہ ہو، نہ اس کی اُجرت اور مُعاوَضہ لیا گیا ہو، ورنہ نہ ثواب ہے نہ ایصالِ ثواب۔ یعنی جب ثواب ہی نہ ملا تو پہنچے گا کیسے!(ماخوذاز بہار شریعت ج۱ ص۱۲۰۱ ج۳ ص۶۴۳)

دن مقرَّر کرنا

وسوسہ :تیجہ ، چالیسواں ، گیارہویں ، بارہویں اوررجب کے کونڈے وغیرہ کے نام سے ایصالِ ثواب کے دن کیوں مخصوص کر لئے گئے ہیں؟

جواب وسوسہ: ایصالِ ثواب کے لئے شریعت میں کوئی مدّت اور وَقت متعین   ( مُتَ۔عَ۔یَّن یعنی مقرّر ) نہیں ،البتّہ دن وغیرہ مقرر کرنے میں شَرْعاً حَرج بھی نہیں ،وقت مُقرَّرکرنا دو طرح ہے (۱) شَرعی: شریعت نے کسی کام کے لیے وقت مقرَّر فرمایا ہو۔ مَثَلًا


قربانی ،حج وغیرہ (۲) عُرفی: شریعت کی جانب سے وَقت مقرّر نہ ہو لیکن لوگ اپنی اور دوسروں کی سَہولت اوریادد ہانی یا کسی خاص مَصلَحَت کے لیے کوئی وقت خاص کر لیں۔ جیسے آج کل مساجِد میں نمازوں کی جماعت کے لیے اوقات مخصوص کرناوغیرہ، حالانکہ پہلے جماعت کے لئے وقت طے نہیں ہوتا تھا جب نمازی اکٹّھے ہو جاتے جماعت کھڑی کر دی جاتی۔ بعض کاموں کے لیے تو خود سرکار ِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وَقت مقرَّر فرمایا نیز صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اوربُزُرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن سے بھی ایسا کرنا ثابت ہے مَثَلاً {۱} حضور پر نور سیِّد عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہرسال شہدائے اُحُد عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی قبروں پر تشریف لے جانے کا وقت مقرَّر فرمالیا تھا([3]){۲}سنیچر(یعنی ہفتے) کے دن سرکارِ مدینہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کامسجد قبا میں تشریف لانا  ([4]){۳} اورسیِّدُنا صدِّیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے دینی مُشاوَرت کے لیے وقتِ صبح وشام کی تعیین ([5]){۴} حضرتِ عبدُاللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے وعظ وتذکیر کے لیے پنجشنبہ(یعنی جمعر ات) کا دن مقرر کیا  ([6]){۵}اورعُلما نے سبق شروع کرنے کے لیے بدھ کا دن رکھا ۔([7]) (ماخوذ از فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ  ج۹ ص ۵۸۵۔۵۸۶)

 

 

 

مکتوبِ عطّاؔر

          بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ط سگِ مدینہ محمد الیاس عطّارؔ قادری رضوی عفی عنہ کی جانب سے ، تمام اسلامی بھائیوں، اسلامی بہنوں، مدارس المدینہ اور جامعات المدینہ کے اَساتذہ، طَلَبہ، مُعلِّمات اور طالِبات کی خدمات میں کعبۂ مُشرَّفہکے گرد گھومتا ہوا گنبدِ خضرا کو چومتا ہوا رَجَبُ الْمُرَجَّب،  شَعْبانُ الْمُعَظَّم اوررَمَضانُ الْمُبارَک کے روزہ داروں کی برکتوں سے مالا مال جھومتا ہوا سلام،

اَلسَّلامُ عَلَیکُم وَرَحمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ  اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمِینَ عَلٰی کُلِّ حال

ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حُضور میں ہوا

ورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں(حدائقِ بخشش شریف۹۷)

        اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ایک بار پھر خوشی کے دن آنے لگے، ماہِ رَجَبُ الْمُرَجَّب کی آمد آمد ہے۔ اِس ماہِ مبارَک میں عبادت کا بیج بویا جاتا ، شَعْبانُ الْمُعَظَّممیں ندامت کے اشکوں سے آبپاشی کی جاتی اور ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک میں رحمت کی فصل کاٹی جاتی ہے۔

 تین ماہ کے روزے

        رَجَبُ الْمُرَجَّبکے قَدر دانو! تعلیم و تعلُّم (یعنی سیکھنے اور سکھانے)اور کسب حلال میں رُکاوٹ نہ ہو، ماں باپ بھی بے سبب منع نہ کریں،کسی کی بھی حق تلفی نہ ہوتی ہو تو جلدی جلدی اور بہت جلدی مسلسل تین ماہ کے یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے مکمَّل فرض روزوں کے ساتھ


ساتھ جس سے جتنے بن پڑیں اُتنے  نفل روزوں کے لیے کمر بستہ ہوجائے، سحری اور اِفطار میں کم کھا کر پیٹ کا قفلِ مدینہ بھی لگائے۔ کاش ! ہر گھر میں اور میرے جملہ مدارسُ المدینہ اور تمام جامِعاتُ المدینہ میں روزوں کی بہاریں آجائیں، بس پہلی رجب شریف سے ہی روز و ں  کا آغاز فرمادیجئے۔

رجب کے ابتدائی تین روزوں کی فضیلت

       رَجب شریف کے ابتدائی تین روزوں کے فضائل کی بھی کیا بات ہے ! حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ بے چین دلوں کے چین ، رحمتِ دارَین، تاجدارِحرمین ، سرورِ کونین ، نانائے حَسنین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ رَحمت نشان ہے:’’رجبکے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کَفّارہ ہے اور دوسرے دن کا روزہ دو سال کا  اور تیسرے دن کا ایک سال کا کَفّارہ ہے ،پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفّارہ ہے۔‘‘(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۱۱ حدیث ۵۰۵۱،فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب  لِلخَلّال ص  ۶۴)

میں گنہگار گناہوں کے سوا کیا لاتا

نیکیاں ہوتی ہیں سرکار نِکو کار کے پاس

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

نفلی روزوں کی بھی کیا فضائل ہیں! اِس ضِمن میں دو احادیثِ مبارَکہ مُلاحَظہ فرما ئیے:


{۱} فِرشتے دُعائے مغفِرت کرتے ہیں

        حضرتِ سیِدَّتُنا اُمّ عُمارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں : حضورِ پاک ، صاحبِ لولاک ، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے یہاں تشریف لائے تو میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ سراپا بَرَکت میں کھانا پیش کیا تو ارشاد فرمایا :’’ تم بھی کھائو۔‘‘ میں نے عرض کی : میں روزے سے ہوں۔ تو رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب تک روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے،فِرشتے اس( روزہ دار) کے لیے دُعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔(سُنَنِ تِرمِذی ج ۲ ص ۲۰۵ حدیث ۷۸۵)

{۲} روزہ دار کی ہڈیاں کب تسبیح کرتی ہیں

      حضرتِ سیِّدُنابِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  نبیِّ اکرم، نورِ مُجَسَّم ، شاہِ آدم وبنی آدم ، رسُولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمتِ معظَّم میں حاضِرہوئے، اُس وقت حضور پُرنو ر ، شافِع یوم النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ناشتا کررہے تھے، فرمایا : اے بِلال !’’ ناشتا کرلو۔‘‘ عرض کی: ’’ یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں روزہ دار ہوں۔‘‘ تو رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ہم اپنی روزی کھارہے ہیں اور بلال کا ر ِزق جنت میں بڑھ رہا ہے۔‘‘اے بلال ! کیا تمہیں خبر ہے کہ جب تک روزہ دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اُس کی ہڈّیاں تسبیح کرتی ہیں، اسے فرشتے دُعائیں دیتے ہیں۔‘‘( شُعَبُ الْاِیمانج ۳ ص ۲۹۷حدیث ۳۵۸۶)

         مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں:


اس سے معلوم ہوا کہ اگر کھانا کھاتے میں کوئی آجائے تو اُسے بھی کھانے کے لیے بُلانا سُنَّت ہے، مگر دِلی ارادے سے بُلائے جھوٹی تواضع نہ کرے، اور آنے والا بھی جھوٹ بول کر یہ نہ کہے کہ مجھے خواہش نہیں ، تاکہ بھوک اور جھوٹ کا اجتماع نہ ہوجائے، بلکہ اگر ( نہ کھانا چاہے یا) کھانا کم دیکھے تو کہہ دے : بَارَکَ اللّٰہ( یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ  برکت دے) یہ بھی معلوم ہوا کہ سرورِ کائنات ، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی عبادات نہیں چھپانی چا ہئیں بلکہ ظاہر کردی جائیں تاکہ حضور پرنور، شافع یومُ النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر گواہ بن جائیں۔ یہ اظہار ریا   نہیں۔( حضرتِ سیِّدُنا بلال کے روزے کا سُن کر جو کچھ فرمایا گیا اُس کی شرح یہ ہے) یعنی آج کی روزی ہم تو اپنی یہیں کھائے لیتے ہیں اور حضرتِ بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اس کے عوض ( عِ۔ وَض ) جنت میں کھائیں گے وہ عوض ( یعنی بدلہ ) اِس سے بہتر بھی ہوگا اور زِیادہ بھی۔ حدیث بالکل اپنے ظاہری معنی پر ہے، واقعی اُس وقت روزہ دار کی ہر ہڈّی و جوڑ بلکہ رگ رگ تسبیح ( یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پاکی بیان) کرتی ہے، جس کا روزہ دار کو پتا نہیں ہوتا مگرسرکار ِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنتے ہیں۔(مراٰۃ ج ۳، ص ۲۰۲بتغیر قلیل )

      مُطالَعہ کرلیا ہو تب بھی دونوں رِسالے ( ۱)’’ کفن کی واپسی مَعَ رجب کی بہاریں ‘‘اور (۲) ’’آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہینا‘‘ پڑ ھ لیجئے ۔ نیز ہر سال  شَعْبانُ الْمُعَظَّم  میں فیضانِ سنت جلداوّل کا باب ’’فیضانِ رَمضان‘‘ بھی ضَرور پڑھ لیا کریں۔ ہوسکے تو عید ِمعراج النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نسبت سے 127یا27رسالے یا حسبِ توفیق


فیضانِ رَمضان بھی تقسیم فرمائیے اور ڈھیروں ڈھیر ثواب کمائیے، تمام اسلامی بھائیوں  بالعموم اور جامِعاتُ المدینہ اور مدارِس المدینہ کے جملہ قاری صاحبان ، اَساتِذہ، ناظمین اور طلبہ کی خدمتوں میں بالخصوص تڑپتی ہوئی مَدَنی عرض ہے کہ براہِ کرم ! ( میرے جیتے جی اور مرنے کے بعد بھی) زکوٰۃ ، فِطرہ ، قربانی کی کھالیں اور دیگرمَدَنی عطیات جمع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا کیجئے۔( اسلامی بہنیں دیگر اسلامی بہنوں اور محارِم کومَدَنی عطیات کی ترغیب دلائیں)  خدا کی قسم ! مجھے اُن اساتِذہ اور طلبہ کے بارے میں سن کر بہت خوشی ہوتی ہے جو اپنے گائوں یا شہر میں جانے کی خواہش کو قربان کرکے رَمَضانُ المبارک جامِعات میں گزارتے اور اپنی مجلس کی ہِدایات کے مطابق مَدَنی عطیّات کے بستوں پر ذمّے داریاں سنبھالتے ہیں، جو اساتذہ اور طلبہ بغیر کسی عذر کے محض سستی یا غفلت کے باعث عدم دلچسپی کا مُظاہرہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے میرا دل روتا ہے۔

       خصوصی مَدَنی پھول: جو بھی اسلامی بھائی یااسلامی بہن مَدَنی عطیات اکٹھا کرنا چاہتے ہیں انہیں چندے کے ضروری احکام معلوم ہونا فرض ہے،تاکید ہے کہ اگر پڑھ چکے ہیں تب بھی  دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ الْمدینہ کی مطبوعہ 100 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ چندے کے بارے میں سُوال جواب‘‘ کا دوبارہ مُطالَعہ فرما لیجئے۔ یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! رَمَضانُ الْمُبارَک میںمدنی عطیّات  اور بقرعید میں کھالیں جمع کرنے کے لیے کوشش کرکے جو عاشقانِ رسول میرا دل خوش کرتے ہیں، تُوان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خوش ہوجا


اور اُن کے صدقے مجھ گنہگاروں کے سردار سے بھی سدا کے لیے راضی ہوجا، یَا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! جو اسلامی بھائی اور اسلامی بہن ( عذر نہ ہونے کی صورت میں) ہر سال تین ماہ کے روزے رکھنے اور ہر برس جُمادَی الْاُخرٰی میں رسالہ’’ کفن کی واپسی ‘‘اور ماہ  رَجَبُ الْمُرَجَّب میں ’’آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا مہینا ‘‘اور شَعْبانُ الْمُعَظَّم میں ’’فیضانِ رَمَضان‘‘ ( مکمَّل)  پڑھ یا سن لینے کی سعادت حاصل کرے مجھے اور اُس کو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں نصیب فرما اور ہمیں بے حساب بخش کر جنت الفردوس میں اپنے مَدَنی حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پڑوس میں اِکٹھا رکھ۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جشنِ معراج النَّبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

       دعوتِ اسلامی کی طرف سے رَجَبُ الْمُرَجَّب کی 27ویں شب، جشنِ معراج النّبی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سلسلے میں ہونے والے اجتماع ِ ذکر و نعت میں تمام اسلامی بھائی از ابتدا تا انتہا شرکت فرمایا کیجئے، نیز 27رجب شریف کا روزہ رکھ کر 60ماہ کے روزوں کے ثواب کے حقدار بنئے۔

رجب کی بہاروں کا صدقہ بنادے

ہمیں عاشقِ مصطَفٰی یاالٰہی

آنکھوں کی حفاظت کے لیے مَدَنی پھول

                      پانچوں وقت نماز کے بعد سیدھا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر ’’ یَا نُوْرُ ‘‘11  بارایک سانس میں پڑھئے اور دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیوں پر دم کرکے آنکھوں پر پھیر لیجئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ  نابینائی، نظر کی کمزوری اور آنکھوں کے جُملہ امراض سے تحَفُّظ حاصل


ہوگا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کی رحمت سے اندھا پن بھی دُور ہوسکتا ہے۔

مَدَنی التِجا:

یہ مکتوب ہر سال جُمادَی الْاُخرٰی کی آخِری جمعرات کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع /جامِعاتُ المدینہ / مدارسُ المدینہ میں پڑھ کر سنا دیجئے۔   

( اسلامی بہنیں ضَرورتاً ترمیم فرمالیں)            وَالسَّلامُ مَع الاکرام۔

یہ رسالہ پڑھ لینے کے بعد ثواب کی نیّت سے کسی کو دیدیجئے

یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔

ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ

غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

۸ ربیع الاوّل ۱۴۳۶ھ

2015-03-26



[1] ۔۔۔ سیر اَعلام النبلاء للذھبی ج۶ص۴۴۷۔  

[2] ۔۔۔ شواہدالنبوۃص۲۴۵

 

[3] ۔۔۔ مصنّف عبدالرزاق ج۳ص ۳۸۱حدیث ۶۷۴۵

[4] ۔۔۔ مُسلِم ص۷۲۴حدیث۱۳۹۹

[5] ۔۔۔ بُخاری ج ۱ص۱۸۰حدیث۴۷۶ 

[6] ۔۔۔ بُخاری ج ۱ص۴۲حدیث۷۰ 

[7] ۔۔۔ تعلیم المتعلّم ص۷۲