اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ (ترجمہ: یااللہ عَزَّوَجَلَّ!مجھے حلال رزق عطا فرما کر حرام سے بچا اور اپنے فضل وکرم سے اپنے سوا غیروں سے بے نیاز کردے)تا حصولِ مرادہر نماز کے بعد 11 ،11 بار اور صبح وشام 100، 100 بار روزانہ( اوّل وآخر ایک ایک بار دُرُودشریف) پڑھئے۔ مروی ہوا کہ ایک مکاتب([1]) نے حضرت مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی بارگاہ میں عرض کی: ’’میں اپنی کتابت(یعنی آزادی کی قیمت) ادا کرنے سے عاجِز ہوں میری مدد فرمائیے۔‘‘ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی نے فرمایا: میں تمہیں چند کلمات نہ سکھاؤں جورَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھے سکھائے ہیں ، اگر تم پر جبل صِیر([2])جتنا دَین (یعنی قرض) ہوگا تو اللہ تَعَالٰی تمہاری طرف سے ادا کردے گا ،تم یوں کہا کرو: اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ (ترجمہ : یااللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے حلال رِزق عطا فرما کر حرام سے بچا اور اپنے فضل وکرم سے اپنے سواغیروں سے بے نیاز کردے) ( تِرمِذی ج۵ ص۳۲۹ حدیث۳۵۷۴)
صُبح وشام کی تعریف:آدھی رات کے بعد سے لے کر سورج کی پہلی کرن چمکنے تک صبح اور ابتدائِ وقتِ ظہر سے غروبِ آفتاب تک شام کہلاتی ہے۔
مَدَنی مشورہ: پریشان حال اسلامی بھائی کو چاہئے کہ دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھراسفرکرکے وہاں دعا مانگے،اگر خودمجبور ہے مَثَلًا اسلامی بہن ہے تو اپنے گھر میں سے کسی اورکو سفرپربھجوائے۔
جب غروبِ آفتاب کا یقین ہوجائے، اِفطَار کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے، نہ سائرن کا اِنتظار کیجئے نہ اَذان کا، فَوراً کوئی چیز کھایا پی لیجئے مگر کَھجور یا چھوہارا یا پانی سے اِفطَار کرنا سُنَّت ہے۔ ’’فتاوٰی رضویہ ‘‘ میں ہے، سوال : روزہ اِفطار کرنا کس چیز سے مسنون (سنّت)ہے۔ جواب: خرمائے تر(یعنی کھجور) اور نہ ہوتو خشک (یعنی چھوہارا)اور نہ ہوتو پانی ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص ۶۲۸۔۶۲۹)
اِفطار کرلینے کے بعد مثلاًکَھجورکھا کر یا تھوڑا سا پانی پی لینے کے بعد سنت پر عمل کرنے کی نیت سے نیچے دی ہوئی دُعا بھی پڑھئے، کہ مدینے کے تاجدار ، شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبوقت افطار یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔(ترجمہ:اے اللہ عَزَّوَجَلَّمیں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی عطا کردہ رِزق سے اِفطار کیا۔) ( ابو داوٗد ج۲ص۴۴۷ حدیث ۲۳۵۸ )دوسری حدیث پاک میں فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’اے علی! جب تم رمضان کے مہینے میں روزہ رکھو تو افطار کے بعد یہ دعا پڑھو: اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ (ترجمہ: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!میں نے تیرے لئے روزہ رکھااور تجھی پر بھروسا کیا اور تیرے ہی عطا کردہ رِزق سے اِفطار کیا) تو تمہارے لیے تمام روزے داروں کی مثل اجر لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں بھی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘(بُغْیَۃُ الْباحِث عن زوائِدِ مسندِ الْحارث ج۱ص۵۲۷ حدیث۴۶۹) اس کے بعد ہوسکے تو مزید دعائیں بھی کیجئے کہ وقت قبول ہے۔
اِفطار کی
دُعا عموماًقبل از اِفطار پڑھنے کا رواج ہے مگر امامِ اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا
خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے ’’
فتاویٰ رضویہ(مُخَرَّجہ) جلد10 صفحہ631‘‘ میں
اپنی تحقیق یہی پیش کی ہے کہ دُعا اِفطار کے بعد پڑھی جائے۔افطار کیلئے اذان شرط
نہیں ، ورنہ اُن عَلاقوں یاشہروں میں روزہ کیسے کھلے گا جہاں مساجد ہی نہیں یا
اذان کی آواز نہیں آتی ۔ بہر حال اَذان نَمازِ مغرب کیلئے ہوتی ہے ۔ جہاں مساجد
ہوں ! زہے نصیب! وہاں یہ طریقہ رائج ہو جائے کہ جیسے ہی آفتاب غروب ہونے کا یقین
ہوجائے، بلندآواز سے ’’ صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلٰی مُحَمَّد
‘‘کہنے کے بعد اس طرح تین بار اِعلان کر دیا جائے : ’’عاشقانِ رسول!
روزہ اِفطار کرلیجئے۔‘‘
’’مدینہ‘‘ کے پانچ حروف کی نسنت سےافطار کے فضائل
کے متعلق 5 فرامین مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
{۱} ’’ہمیشہ لوگ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک اِفطار میں جلدی کر یں گے۔‘‘ ( بُخاری ج۱ص۶۴۵حدیث۱۹۵۷)
{۲} ’’جس نے حلال کھانے یا پانی سے(کسی مسلمان کو)روزہ اِفطار کروایا،فرشتے ماہِ رَمضان کے اَوقات میں اُس کے لئے اِستغفار کرتے ہیں اور جبریل(عَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) شبِ قدرمیں اُس کیلئے اِستغفار کرتے ہیں ۔ ‘ ‘ ( مُعجَم کبیر ج۶ ص۲ ۶ ۲ حدیث۶۱۶۲)
{۳}’’جو حلال کمائی سے رَمضان میں روزہ اِفطار کروائے رَمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اُس پر دُرُودبھیجتے ہیں اور شبِ قدر میں جبریل(عَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)اُس سے مُصَافَحَہ کرتے ہیں اور جس سے جبریل(عَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) مُصافَحَہ کرلیں اُس کی آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں اور اس کا دل نرم ہوجاتا ہے۔‘‘ (جَمْعُ الْجَوامِع ج۷ص۲۱۷حدیث۲۲۵۳۴)
{۴}’’جو روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ عَزَّوَجَلَّاُسے میرے حوض سے پلائے گا کہ جنت میں داخِل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔‘‘ (ابن خُزَیمہ ج ۳ ص۱۹۲ حدیث۱۸۸۷)
{۵} ’’جب تم میں کوئی روزہ اِفطار کرے تو کَھجُور یا چھوہارے سے اِفطار کرے کہ وہ برکت ہے اور اگر نہ ملے تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے ۔‘‘ ( تِرْمذی ج۲ص۱۶۲حدیث۶۹۵)
سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اِفطار
حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہسے رِوایت ہے: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّکے حبیب، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنماز سے پہلے تر
کھجوروں سے روزہ اِفطار فرماتے ،تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوریں یعنی چھوہاروں سے اور یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چلو پانی پیتے۔‘‘ ( ابوداوٗد ج۲ص۴۴۷حدیث۲۳۵۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! احادیثِ مبارَکہ میں سحری اور افِطار میں کھجور کے استعمال کی ترغیب موجود ہے، بے شککھجور میں لا تعداد برکتیں اورکئی بیماریوں کا علاج ہے ۔
’’سیِّدی اعلٰی حضرت کی پچیسویں شریف‘‘ کے پچیس
حروف کی نسبت سے کھجور کے 25 مَدَنی پھو ل
{۱} اللہ کے حبیب ، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ صحت نشان ہے: ’’عالِیہ‘‘ ( یعنی مدینۂ منوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں مسجد قبا شریف کی جانِب ایک جگہ کا نام ) کی عَجْوَہ (مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی سب سے عظیم کھجور کا نام ) میں ہر بیماری سے شفا ہے ۔ ایک روایت کے مطابق ’’سات روزتک روزانہ سات عجوہ کَھجوریں کھاناجذام(یعنی کوڑھ) میں نفع دیتا ہے ۔‘‘(الکامل لابن عدی ج۷ ص ۴۰۷)
{۲}میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمان جنت نشان ہے: عجوہ کھجور جنت سے ہے، اس میں زہر سے شفا ہے ۔(تِرمذی ۴ ص۱۷حدیث ۲۰۷۳ ) بخاری شریف کی روایت کے مطابق جس نے نہارمنہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھالئے اس دن اسے جادو اورزہر بھی نقصان نہ دے سکیں گے ۔ (بُخارِی ج۳ص۵۴۰ حدیث ۵۴۴۵)
{۳}سیِّدُنا ابوہر یرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہسے روایت ہے ، کھجورکھانے سے قولنج(یعنی بڑی انتڑی کا درد) نہیں ہوتا۔ (کَنْزُ الْعُمَّال ج۱۰ ص۱۲حدیث۲۸۱۹۱)
{۴} طبیبوں کے طبیب ، اللہ کے حبیب ، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمان صحت نشان ہے:
’’نہارمنہ کھجور کھاؤ اس سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں ۔‘‘ (اَلْجَامِعُ الصَّغِیْرص۳۹۸حدیث۶۳۹۴)
{۵}حضرت سیِّدُنا رَبِیع بن خُثَیْمرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہفرماتے ہیں :’’میرے نزدیک حاملہ کے لئے کھجور سے اور مریض کیلئے شہد سے بہتر کسی چیز میں شفا نہیں ۔‘‘ (تفسیرِدُرِّ مَنْثُورج۵ص۵۰۵)
{۶}سیِّد ی محمد احمد ذَہبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’حاملہ کوکھجوریں کھلانے سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
لڑکا پیداہو گا جو کہ خوبصورت بردبار اورنرم مزاج ہو گا ۔‘‘
{۷}جو فاقے(یعنی بھوک) کی وجہ سے کمزور ہو گیا ہو اُس کیلئے کھجوربہت مفید ہے کیونکہ یہ غذائیت سے بھرپور ہے اس کے کھانے سے جلد توانائی بحال ہو جاتی ہے، لہٰذا کھجورسے اِفطار کرنے میں یہ حکمت بھی ہے۔
{۸} روزے میں فوراً برف کا ٹھنڈا پانی پی لینے سے گیس ، تبخیر (تَبْ۔ خیر) مِعدہ اور جگر کے ورم کا سخت خطرہ ہے، کھجور کھا کر ٹھنڈاپانی پینے سے نقصان کا خطرہ ٹل جاتاہے ،مگر سخْت ٹھنڈاپانی ہرگز نہیں پیناچاہئے۔
{۹}کھجوراور ککڑی([3])،نیز کھجور اور تربوز ایک ساتھ کھانانبیِّ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ثابت ہے([4])۔ اس میں بھی حکمتوں کے مدنی پھول ہیں ۔ طبیبوں کا کہنا ہے کہ اس سے جنسی و جسمانی کمزوری اور دبلاپن دور ہوتا ہے۔ مکّھن کے ساتھ کھجورکھانا بھی نبیِّ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ثابت ہے۔ (ابن ماجہ ج۴ص۴۱حدیث۳۳۳۴)
{۱۰}کھجور کھانے سے پُر انی قبض دور ہوتی ہے ۔
{۱۱} دَمے ،دل، گردے ،مثانے ،پتے اور آنتوں کے امراض میں کھجور مفید ہے ۔ یہ بلغم خارِج کرتی ، منہ کی خشکی دور کر تی اور پیشاب آور ہے ۔
{۱۲} دل کی بیماری اور کالا موتیا کیلئے کجھور گٹھلی سمیت کوٹ کر کھانا مفید ہے۔
{۱۳}کھجور بھگو کراس کا پانی پی لینے سے جگر کی بیماریا ں دور ہوتی ہیں ۔ دست کی بیماری میں بھی یہ پانی مفید ہے۔ (رات کو بھگو کرصبح نہار منہ اس کا پانی پئیں مگر بھگونے کے لئے پانی ڈال کر فریزر میں نہ رکھیں )
{۱۴}کھجور دودھ میں اُبال کرکھانابہترین مقوی(مُ۔قَوْ۔وِی یعنی طاقت دینے والی)غذا ہے، یہ غذا بیماری کے بعد کی کمزوری دور کرنے کیلئے بے حد مفید ہے۔
{۱۵}کھجورکھانے سے زَخم جلدی بھرتا ہے ۔
{۱۶} یرقان(یعنی پیلیا ) کیلئے کھجور بہترین دواہے ۔
{۱۷}تازہ پکی کھجوریں صفرا (یعنی ’’ پت ‘‘ جس سے قے کے ذَریعے کڑوا پانی نکلتا ہے) اور تیزابیت کوختم کرتی ہیں ۔
{۱۸}کھجورکی گٹھلیاں آگ میں جلا کر اس کا منجن بنا لیجئے، یہ دانت چمکدار اور منہ کی بدبو دور کرتا ہے ۔
{۱۹}کھجورکی جلی ہوئی گٹھلیوں کی راکھ لگانے سے زخم کا خون بند ہوتا اور زخم بھر جاتا ہے ۔
{۲۰}کھجورکی گٹھلیوں کوآگ میں ڈال کردھونی لینے سے بواسیرکے مسے خشک ہو جاتے ہے۔
{۲۱}کھجورکے درخت کی جڑوں یا پتوں کی راکھ سے منجن کرنا دانتوں کے درد کیلئے مفید ہے، جڑوں یا پتوں کو پانی میں اُبال کر اُس سے کلیاں کرنا بھی دانتوں کے درد میں فائدے مند ہے ۔
{۲۲}جسے کھجور کھانے سے کسی قسم کا نقصان) (side effectہوتا ہو وہ انار کے رس یا خشخاش یا کالی مرچ کے ساتھ استعمال کرے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّفائدہ ہو گا ۔
{۲۳} اَدھ پکی اور پرانی کھجوریں بیک وقت(یعنی ایک ہی وقت میں ) کھانا نقصان دہ ہے ۔اسی طرح کھجور کے ساتھ انگور یا کشمش یا منقہ ملا کر کھانا ، کھجور اور انجیربیک وقت کھانا ، بیماری سے اٹھتے ہی کمزوری میں زیادہ کھجوریں کھانااور آنکھوں کی بیماری میں کھجوریں کھانا مضر یعنی نقصان دہ ہے ۔
{۲۴}ایک وقت میں 5 تولہ(یعنی 58.32گرام )سے زیادہ کھجوریں نہ کھائیں ۔ پرانی کھجورکھاتے وقت کھول کر اندر سے دیکھ لیجئے کیوں کہ اس میں بعض اوقات سرسریاں ( یعنی چھوٹے چھوٹے لال کیڑے )ہوتی ہیں ، لہٰذا صاف کرکے کھائیے۔ جس کھجور میں کیڑے ہونے کا گمان ہو اُسے صاف کئے بغیر کھانا مکروہ ہے۔بیچنے والے چمکانے کیلئے اکثر سرسوں کا تیل لگا دیتے ہیں لہٰذ ا بہتر یہ ہے کہ کھجوریں چند منٹ کیلئے پانی میں بھگو دیجئے تاکہ مکھیوں کی بیٹ اورمیل کچیل وغیرہ چھو ٹ جائے پھر دھوکر استعما ل فرمائیے ۔ درخت کی پکی ہوئی کھجوریں زیادہ مفید ہوتی ہیں ۔(مگر دھوئے بغیر کھجوریں بلکہ کوئی سا پھل اور سبزی وغیرہ استعمال نہ کریں ورنہ گرد و غبار ، مکھیوں ، کیڑے مکوڑوں کی بیٹ اور جراثیم کش دواؤں کے اثرات پیٹ میں جا کر بیماریوں کا باعث ہوسکتے ہیں )
{۲۵}مدینۂ منوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی کھجوروں کی گٹھلیاں مت پھینکئے، کسی ادب کی جگہ ڈالدیجئے یا دریا برد فرما دیجئے، بلکہ ہوسکے تو سروتے(سَ۔رَوْ۔تے) سے باریک ٹکڑیاں کر کے یا پیس کر ڈِبیہ میں ڈالکر جیب میں رکھ لیجئے اور چھالیہ کی جگہ استعمال کر کے اس کی برکتیں لوٹئے۔ کوئی چیز خواہ دنیا کے کسی بھی خطے کی ہو جب مدینۂ منوّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکی فضاؤں میں داخل ہوئی تو مدینے کی ہوگئی لہٰذا عاشِقانِ رسول اُس کا ادب کرتے ہیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان
کردہ’’ کھجور کے25مدنی پھول ‘‘ میں مختلف امراض میں ’’کھجور‘‘
کے ذریعے علاج تجویز کیا گیا ہے، اِس سلسلے میں آیندہ سطور کا بغور مطالعہاِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّنفع
بخش پائیں گے ۔ چنانچہ (حدیثِ پاک: ’’فِی الْحَبَّۃِ السَّوْدَائِ
شِفَائٌ مِّنْ کُلِّ دَائٍ اِلَّا السَّامَ۔یعنی کالا دانہ(کلونجی) میں موت
کے سوا ہر بیماری سے شفاہے‘‘ کے تحت) مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ
مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
الحَنّانفرماتے
ہیں : ہر مرض(میں
شفا) سے
مراد ہر بلغمی اور رطوبت کے اَمراض میں (شفا ہے)،
کیونکہ کلونجی گرم
اور خشک ہوتی ہے لہٰذا مرطوب(یعنی تری والی) اور سردی کی
بیماریوں میں مفید ہو گی ۔آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : یہاں مراد عرب کی عام بیماریاں ہیں (مرقات) یعنی کلونجی عرب کی عام بیماریوں میں مفید ہے۔ خیال رہے کہ احادیثِ شریفہ کی دوائیں کسی حاذِق طبیب(یعنی ماہر طبیب ) کی رائے سے استعمال کرنی چاہئیں (اہلِ عرب کو تجویز کردہ دوائیں ) صرف (اپنی) رائے سے استعمال نہ کریں کہ ہمارے (طبعی ) مزاج اہلِ عرب کے(طبعی ) مزاج سے جداگانہ ہیں ۔ ( مراٰۃ ج ۶ ص ۲۱۶،۲۱۷)ساتھ ہی یہ بھی خاص تاکید ہے کہ اِس کتاب میں دیا ہوا کوئی بھی نسخہ اپنے طبیب سے مشورہ کئے بغیر استعمال نہ کیاجائے اگر چِہ یہ نسخہ اُسی بیماری کیلئے ہو جس سے آپ دو چار ہوں ۔ یاد رہے ! لوگوں کی طبعی(طَب۔عی) کیفیات جدا جدا ہوتی ہیں ،بسا اوقات ایک ہی دوا کسی کیلئے شفاو آرام کا باعث بنتی ہے تو کسی کیلئے موت کا پیام لاتی ہے۔ لہٰذا آپ کی جسمانی کیفیات سے واقف آپ کا مخصوص طبیب ہی یہ طے کر سکتا ہے کہ آپ کو کون سانسخہ موافق آ سکتا ہے اور کون سا نہیں ۔
دو فرامینِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:(1)’’بے شک روزہ دار کے لئے اِفطار کے وَقت ایک ایسی دُعا ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی۔‘‘( ابنِ ماجہ ج۲ ص۲۵۰ حدیث ۱۷۵۳ ) (2)’’تین شخصوں کی دُعا رَدّ نہیں کی جاتی{۱} بادشاہِ عادِل کی اور {۲} روزہ دار کی بوقت اِفطار اور {۳}مظلوم کی۔اِن تینوں کی دُعا اللہ عَزَّوَجَلَّبادَلوں سے بھی اُوپر اُٹھا لیتا ہے اور آسمان کے دروازے اُس کیلئے کھل جاتے ہیں اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ) فرماتا ہے:’’مجھے میری عزت کی قسم!میں تیری ضرور مَدَد فرماؤں گااگرچہ کچھ دیر بعد۔‘‘ (اَیضاً ص ۳۴۹ حدیث ۱۷۵۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیارے روزہ دارو! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اِفطَار کے وَقت دعا قبول ہوتی ہے، آہ! اِس قبولیت کی گھڑی میں ہمارا نفس اِس موقع پر سخت آزمائش میں پڑجاتا ہے ۔ کیونکہ اِس وَقت اکثر ہمارے آگے اَنواع واَقسام کے پھلوں ، کباب، سموسوں ، پکوڑوں
کے ساتھ ساتھ گرمی کا موسم ہو تو ٹھنڈے ٹھنڈے شربت کے جام بھی موجود ہوتے ہیں ، اِدھر سورج غروب ہوا،اُدھر کھانوں اور شربتوں پر ہم ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ دُعا یادہی نہیں رہتی! دُعا تَو دُعا ہمارے کچھ اِسلامی بھائی اِفطَار کے دَوران کھانے پینے میں اس قَدَر مشغول ہوجاتے ہیں کہ ان کو نَمازِ مغرب کی پوری جماعت تک نہیں ملتی، بلکہ مَعَاذَ اللہ بعض تو اِس قدر سستی کرتے ہیں کہ گھر ہی میں اِفطار کرکے وَہیں پر بغیر جماعت نماز پڑ ھ لیتے ہیں ۔ توبہ! توبہ!!
جنت کے طلب گارو ! اتنی بھی غفلت مت کیجئے!!نمازِ باجماعت کی شریعت میں نہایت سخت تاکید آئی ہے ۔یاد رکھئے! بلا کسی صحیح شَرْعی مجبوری کے مسجِد کی پنج وقتہ نماز کی پہلی جماعت ترک کردینا گناہ ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ایک آدھ کھجور سے اِفطار کر کے فوراً اچّھی طرح مُنہ صاف کر لے اورنمازِ باجماعت میں شریک ہوجائے ۔ آ ج کل مسجِد میں لوگ پھل پکوڑے وغیرہ کھانے کے بعداچھی طرح منہ صاف نہیں کرتے یوں ہی جماعت میں شریک ہو جاتے ہیں حالانکہ غِذا کا معمولی ذرّہ یا ذائقہ بھی مُنہ میں نہیں ہونا چاہئے کہ میرے آقا اعلٰی حضرت، امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں : متعدد احادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’جب بندہ نماز کو کھڑا ہوتا ہے فرشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو پڑھتا ہے اِس کے منہ سے نکل کر فرشتے کے منہ میں جاتا ہے اُس وقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے دانتوں میں ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سخت ایذ ا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں ہوتی۔‘‘ حضورِ اکرم ،نورِ مجسّم ،شاہِ بنی آدم، رسولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نَماز کیلئے کھڑا ہو تو چاہئے کہ مسواک کرلے کیونکہ جب وہ اپنی نماز میں قرا ء ت(قرا۔ئَ ت) کرتا ہے تو فرشتہ اپنا منہ اِس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اِس کے منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں داخل ہوجاتی ہے۔([5])۔اور ’’طَبَرانینے کبِیر ‘‘میں حضرت ِ سیِّدُنا ابو ایوب انصاریرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہسے روایت کی ہے
کہ دونوں فرشتوں پر اس سے زِیادہ کوئی چیزگراں نہیں کہ وہ اپنے ساتھی کو نماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے ریزے پھنسے ہوں ۔(مُعْجَم کبِیرج۴ص۱۷۷حدیث۴۰۶۱، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ ص۶۲۴۔ ۶۲۵) مسجدمیں افطار کرنے والوں کیلئے اکثر منہ صاف کرنا دشوار ہوتا ہے کہ اچھی طرح صفائی کرنے بیٹھیں تو جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا مشورہ ہے کہ صرف ایک آدھ کھجور کھا کرپانی پی لیں پانی کو منہ کے اندر خوبجُنبِش دیں یعنی ہلائیں تا کہ کھجور کی مٹھاس اور اس کے اجزا چھوٹ کر پانی کے ساتھ پیٹ میں چلے جائیں ضرورتاً دانتوں میں خلال بھی کریں ۔ اگر منہ صاف کرنے کا موقع نہ ملتا ہو تو آسانی اسی میں ہے کہ صرف پانی سے افطار کر لیجئے۔ مجھے وہ روزہ دار بڑے پیارے لگتے ہیں جو طرح طرح کی نعمتوں کے تھالوں سے بے نیاز ہو کرغروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجد کی پہلی صف میں ، پانی لے کر بیٹھ جائیں کہ اِس طرح افطار سے جلدی فراغت بھی ملے، منہ بھی صاف رہے اور پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز بھی نصیب ہوجائے۔
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!گزشتہ حدیثِ مبارَک میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اِفطار کے وَقت دُعا رَدّ نہیں کی جاتی ۔ ‘‘ بعض اَوقات قبولیت دُعاکے اظہار میں تاخیر ہوجاتی ہے توذِہن میں یہ بات آتی ہے کہ دُعا آخر قبول کیوں نہیں ہوئی! جبکہ حدیثِ مبارَک میں تو قبول دُعا کی بشارت آئی ہے۔پیارے اسلامی بھائیو! بظاہر تاخیر سے نہ گھبرائیے۔ سیِّد ی اعلٰی حضرتعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکے والد گرامی حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن سیِّدُنا نقی علی خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن’’اَحسَنُ الْوِعائِ لِاٰدَابِ الدُّعائِ‘‘ صفحہ55 پرنقل کرتے ہیں :
سرورِ معصوم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت ہے :دُعا بندے کی ،تین باتوں سے خالی نہیں ہوتی: {۱}یا اُس کا گناہ بخشا جاتا ہے۔یا {۲}دنیا میں اُسے فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔یا {۳} اُس کے لئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے کہ جب بندہ آخرت میں اپنی دُعاؤں کا ثواب دیکھے گا جو دُنیا میں مستجاب (یعنی مقبول ) نہ ہوئی تھیں تمنا کرے گا:کاش !دُنیا میں میری کوئی دُعا قبول نہ ہوتی اور سب یہیں (یعنی آخرت ) کے
واسطے جمع رہتیں ۔ (اَلْمُستَدرَک ج۲ص۱۶۵حدیث۱۸۶۲،احسنُ الوعا ء ص۵۵)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!دُعا رائگاں توجاتی ہی نہیں ، اِس کا دُنیا میں اگر اثر ظاہر نہ بھی ہو تب بھی آخرت میں اَجر و ثواب مل ہی جائے گا لہٰذا دُعا میں سستی کرنا مناسب نہیں ۔
{۱} پہلا فائدہ یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم کی پیروی ہوتی ہے کہ اُ س کا حکم ہے مجھ سے دُعا مانگا کرو۔چنانچہ پارہ 24 سُوْرَۃُ الْمُؤمِنُوْنآیت 60 میں ارشاد ہے:
اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- ترجَمۂ کنزالایمان: مجھ سے دُعا کرو میں قَبول کروں گا۔
{۲} دُعا مانگنا سُنَّت ہے کہ ہمارے پیارے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکثر اَوقات دُعا مانگتے۔ لہٰذا دُعا مانگنے میں اِتّباعِ سُنَّت کا بھی شرف حاصل ہوگا۔
{۳} دُعا مانگنے میں اِطاعت رَسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دُعا کی اپنے غلاموں کو تاکِید فرماتے رہتے ۔
{۴} دُعا مانگنے والا عابدوں کے زُمرے (یعنی گروہ)میں داخل ہوتا ہے کہ دُعا بذاتِ خود ایک عبادَت بلکہ عبادَت کا بھی مغز ہے۔جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ ۔ یعنیدُعا عبادَت کا مغزہے ۔ ( تِرمذِی ج۵ص۲۴۳حدیث۳۳۸۲)
{۵} دُعا مانگنے سے یا تو اُس کا گناہ مُعاف کیا جاتا ہے یا دُنیا ہی میں اُس کے مسائل حل ہوتے ہیں یا پھر وہ دُعا اُس کے لئے آخرت کا ذَخیرہ بن جاتی ہے۔
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ دُعا مانگنے میں اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّاور اُس کے پیارے حبیب ماہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت بھی ہے، دُعا مانگنا سُنَّت بھی ہے، دُعا مانگنے سے عبادَت کا ثواب بھی ملتا ہے نیز دُنیا و آخرت کے مُتَعَدِّد فوائد حاصِل ہوتے ہیں ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ دُعا کی قبولیت کیلئے بہت جلدی مچاتے بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عرصے سے دُعائیں مانگ رہے ہیں ، بزرگوں سے بھی دُعائیں کرواتے رہے ہیں ، کوئی پیر فقیر نہیں چھوڑا، یہ وظائف پڑھتے ہیں ، وہ اَوراد پڑھتے ہیں ، فلاں فلاں مزار پر بھی گئے مگر ہماری حاجت پوری ہوتی ہی نہیں ، بلکہ بعض یہ بھی کہتے سنے جاتے ہیں :
’’کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!!‘‘
حیرت انگیز تو یہ ہے کہ اس طرح کی’’ بھڑا س ‘‘نکالنے والے بسا اوقات بے نمازی ہوتے ہیں ! گویا نماز نہ پڑھنا تو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) کوئی گناہ ہی نہیں ہے! چہرہ دیکھو تو دُشمنانِ مصطَفٰے آتش پرستوں جیسایعنی تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظیم سُنَّت داڑھی مُبارَک چہرے سے غائب ! نیز جھوٹ ،غیبت ،چغلی ،وَعدہ خلافی ، بدگمانی، بدنگاہی، والدین کی نافرمانی ،فلمیں ڈِرامے،گانے باجے وغیرہ وغیرہ گناہ عادت میں شامل ہونے کے باوجود زَبان پر یہ اَلفاظِ شکوہ کھیل رہے ہوتے ہیں : ؎
’’کیا خطا ہم سے ایسی ہوئی ہے !جس کی ہم کو سزامل رہی ہے!!‘‘
ذرا سوچئے توسہی !کوئی جِگری دَوست کئی بارکچھ کام بتائے مگر آپ اُس کا کام نہ کریں ۔اتفاق سے کبھی اُسی دَوست سے کام پڑجائے تو آپ پہلے ہی سہمے رہیں گے کہ میں نے تو اُس کا ایک بھی کام نہیں کیا، اب وہ بھلا میرا کام کیسے کرے گا! اگر آپ نے ہمت کرکے بات کی اور اُس نے کام نہ کیا تب بھی آپ شکوہ نہیں کرسکیں گے، کیوں کہ آپ نے بھی تو اپنے اُس دوست کا کام نہیں کیا تھا۔
اب ذرا ٹھنڈے دِل سے غور کیجئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے کتنے کتنے کام بتائے ، کیسے کیسے اَحکام جاری فرمائے، مگرہم اُس کے کون کون سے حکم پر عمل کرتے ہیں ؟غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ اُس کے کئی اَحکامات کی بجاآوَری میں ہم نے غفلت سے کام لیا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکرے بات سمجھ میں آگئی ہو کہ خود تو اپنے پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّکے حکموں پرعمل نہ کریں ، مگروہ کسی بات (یعنی دُعا) کا اثرظاہرنہ فرمائے توشکوہ و شکایت لے کر بیٹھ جائیں ۔ دیکھئے نا!آپ اگر اپنے کسی جگری دَوست کی کوئی بات بار بار ٹالتے رہیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ آپ سے دوستی ہی ختم کر دے ،لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّبندوں پر کس قدر مہربان ہے کہ لاکھ اُس کے فرمانِ عالی کی خلاف وَرزی کریں ،پھر بھی وہ اپنے بندوں کی فہرس سے خارِج نہیں کرتا، لطف وکرم فرماتا ہی رہتا ہے۔ذرا غور تو فرمائیے! جوبندے اِحسان فراموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اگر وہ بھی بطورِ سزا اپنے اِحسانات ان سے روک لے توان کا کیا بنے ؟یقینا اُس کی عنایت کے بغیر بندہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاسکتا، ارے! وہ اپنی عظیم الشان نعمت ہوا جو کہ بالکل مفت عطا فرما رکھی ہے اگرچند لمحوں کیلئے روک لے تو لاشوں کے اَنبار لگ جائیں !!
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!بسا اَوقات قبولیت دُعا کی تاخیر میں کافی مصلحتیں ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ حضور، سراپا نور، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ پرسرور ہے: جباللہ عَزَّوَجَلَّکا کوئی پیارا دُعا کرتا ہے تو اللہ تَعَالٰی جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) سے
ارشاد فرماتا ہے: ’’ٹھہرو! ابھی نہ دو تاکہ پھر مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز پسند ہے۔‘‘ اور جب کوئی کافریا فاسق دُعا کرتا ہے ، فرماتا ہے، ’’اے جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام)! اِس کاکام جلدی کردو،تاکہ پھر نہ مانگے کہ مجھ کو اِس کی آواز مکروہ (یعنی ناپسند )ہے۔‘‘(کَنْزُ الْعُمّال ج۲ص۳۹حدیث۳۲۶۱، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹)
حضرت سَیِّدُنا یَحْیٰ بن سعید بن قطان(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان) نے اللہ عَزَّوَجَلَّکا کو خواب میں دیکھا،عرض کی: اِلٰہیعَزَّوَجَلَّ!میں اکثر دُعا کرتا ہوں اور تو قبول نہیں فرماتا؟حکم ہوا:’’اے یَحْیٰ! میں تیری آواز کو پسند کرتا ہوں ، اِس واسطے تیری دُعا کی قبولیت میں تاخیر کرتا ہوں ۔‘‘ (رسالہ قُشریہ ص۲۹۷، اَحْسَنُ الْوِعَاء ص۹۹)
’’فضائلِ دعا ‘‘صفحہ97 میں آدابِ دُعا بیان کرتے ہوئے حضرتِ رئیسُ الْمُتَکَلِّمِین مولانانقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :
(دعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ) دُعا کے قبول میں جلدی نہ کرے۔ حدیث شریف میں ہے کہ خدائے تعالیٰ تین آدمیوں کی دُعا قبول نہیں کرتا۔ایک وہ کہ گناہ کی دُعامانگے۔دوسرا وہ کہ ایسی بات چاہے کہ قطع رِحم ہو۔تیسرا وہ کہ قبول میں جلدی کرے کہ میں نے دُعا مانگی اب تک قبول نہیں ہوئی۔ ( مسلم ص۱۴۶۳حدیث۲۷۳۵)
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ناجائز کام کی دُعا نہ مانگی جائے کہ وہ قبول نہیں ہوتی۔نیز کسی رِشتے دار کا حق ضائع ہوتا ہوایسیدُعا بھی نہ مانگیں اور دُعاکی قبولیت کیلئے جلدی بھی نہ کریں ورنہ دُعا قبول نہیں کی جائے گی۔
اَحسَنُ الْوِعَاءِ لِاٰدابِ
الدُّعاءِپر
اعلٰی حضرت
،امامِ
اَہلِ سُنَّت ، مو لانا شاہ احمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے
حاشیہ تحریر فرمایا ہے اور اس کا نام ذَیلُ الْمُدَّعاءِ لِاَحسَن الْوِعاءِ رکھا
ہے ۔ مکتبۃُ
المدینہ
نے تخریج و
تسہیل کے ساتھ اِسے ’’فضائلِ دعا‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔اسی کتاب کے حاشیے میں ایک مقام پر دُعا کی قبولیت میں جلدی مچانے والوں کو اپنے مخصوص اور نہایت ہی علمی انداز میں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
سگانِ دُنیا (یعنی دُنیوی اَفسروں ) کے اُمیدواروں (یعنی اُن سے کام نکلوانے کے آرزو مندوں )کو دیکھا جاتا ہے کہ تین تین برس تک اُمیدواری (اور انتظار)میں گزارتے ہیں ،صبح وشام اُن کے دروازوں پر دَوڑتے ہیں ،(دَھکے کھاتے ہیں ) اور وہ (اَفسران)ہیں کہ رُخ نہیں ملاتے، جواب نہیں دیتے، جھڑکتے، دِل تنگ ہوتے، ناک بھوں چڑھاتے ہیں ، اُمیدواری میں لگایا تو بیگار(بے کار محنت) سرپرڈالی، یہ حضرت گرہ (یعنی اُمید وار جیب ) سے کھاتے، گھر سے منگاتے، بیکار بیگار (فضول محنت) کی بلا اُٹھاتے ہیں ، اور وہاں ( یعنی افسروں کے پاس دھکے کھانے میں ) برسوں گزریں ہنوز (یعنی ابھی تک گویا)روزِ اوّل(ہی) ہے، مگر یہ( دنیوی افسروں کے پاس دھکے کھانے والے ) نہ اُمیدتوڑَیں ، نہ (افسروں کا )پیچھا چھوڑَیں ۔ اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین، اَکْرَمُ الْاَکْرَمِیْن عَزَّ جَلَالُہٗکے دروازے پراَوّل تَو آتا ہی کون ہے! اور آئے بھی تو اُکتاتے ،گھبراتے ،کل کا ہوتا آج ہوجائے،ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گزرا اور شکایت ہونے لگی، صاحب! پڑھا تو تھا، کچھ اَثر نہ ہوا!یہ اَحمق اپنے لئے اِجابَت (یعنی قبولیت )کا دروازہ خود بند کرلیتے ہیں ۔ مُحمَّد رَّسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : یُسْتَجَابُ لِاَحَدِ کُمْ مَا لَمْ یَعْجَلْ، یَقُوْلُ: دَعَوْتُ فَلَمْ یُسْتَجَبْ لِیْ۔ ترجمہ: ’’تمہاری دُعا قبول ہوتی ہے جب تک جلدی نہ کرو یہ مت کہوکہ میں نے دُعا کی تھی قبول نہ ہوئی۔‘‘ (بُخاری ج۴ص۲۰۰حدیث۶۳۴۰)
بعض تَواِس پر ایسے جامے سے باہر(یعنی بے قابو ) ہوجاتے ہیں کہ اَعمال واَدعیہ (یعنی اَوراد و دُعاؤں)کے اَثر سے بے اِعتقاد ،بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے وَعدئہ کرم سے بے اِ عتماد، وَالْعِیَاذُ بِاللہ الْکَرِیْمِ الْجَوَاد۔ ایسوں سے کہاجائے کہ اَے بے حیا!بے شرمو!!ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈالو۔اگر کوئی تمہارا برابر والا دَوست تم سے ہزار بار کچھ کام اپنے
کہے اورتم اُس کا ایک کام نہ کروتو اپنا کام اُس سے کہتے ہوئے اَوّل تَو آپ لجاؤ (شرماؤ)گے،(کہ) ہم نے تواُس کا کہنا کیا ہی نہیں اب کس منہ سے اُس سے کام کو کہیں ؟اور اگر غرض دِیوانی ہوتی ہے(یعنی مطلب پڑا تو) کہہ بھی دیا اور اُس نے (اگر تمہاراکام)نہ کیا تواصلاً محل شکایت نہ جانو گے( یعنی اس بات پر شکایت کروگے ہی نہیں ظاہر ہے خود ہی سمجھتے ہو) کہ ہم نے (اُس کاکام ) کب کیا تھا جو وہ کرتا۔
اب جانچو، کہ تم مالِک عَلَی الْاِطْلَاق عَزَّ جَلَالُہٗ کے کتنے اَحکام بجالاتے ہو؟ اُس کے حکم بجا نہ لانا اور اپنی دَرخواست کا خواہی نخواہی (ہرصورت میں )قبول چاہنا کیسی بے حیائی ہے!
او اَحمَق! پھرفرق دیکھ ! اپنے سر سے پاؤں تک نظر غور کر! ایک ایک رُوئیں میں ہر وَقت ہر آن کتنی کتنی ہزار دَر ہزار دَر ہزار صَد ہزار بے شمارنعمتیں ہیں ۔تو سوتا ہے اور اُس کے معصوم بندے (یعنی فرشتے)تیری حفاظت کو پہرا دے رہے ہیں ،تو گناہ کررہا ہے اور (پھربھی) سرسے پاؤں تک صحت و عافیت،بلاؤں سے حفاظت ،کھانے کا ہضم ، فضلات (یعنی جسم کے اندر کی گندگیوں ) کا دَفع ، خون کی رَوانی ، اَعضا میں طاقت، آنکھوں میں روشنی ۔ بے حساب کرم بے مانگے بے چاہے تجھ پر اُتر رہے ہیں ۔ پھر اگر تیری بعض خواہشیں عطا نہ ہوں ،کس منہ سے شکایت کرتا ہے ؟ تو کیا جانے کہ تیرے لئے بھلائی کا ہے میں ہے!تو کیا جانے کیسی سخت بلاآنے والی تھی کہ اِس (بظاہرنہ قبول ہونے والی ) دُعا نے دَفْعْ کی ،تو کیا جانے کہ اِس دُعا کے عوض کیسا ثواب تیرے لئے ذَخیرہ ہورہا ہے ،اُس کا وَعدہ سچا ہے اور قبول کی یہ تینوں صورتیں ہیں جن میں ہر پہلی، پچھلی سے اعلٰی ہے۔ ہاں ، بے اِعتقادی آئی تویقین جان کہ ماراگیااور اِبلیسِ لعین نے تجھے اپنا ساکر لیا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی ( اور اللہ کی پناہ وہ پاک ہے اورعظمت والا)۔
اَے ذَلیل خاک! اے آبِ ناپاک!اپنا منہ دیکھ اور اِس عظیم شرف پر غور کر کہ اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے ، اپنا پاک، متعالی (یعنی بلند) نام لینے، اپنی طرف منہ کرنے، اپنے پکارنے کی تجھے اجازت دیتا ہے۔ لاکھوں مرادیں اِس فضل عظیم پر نثار۔
اوبے صبرے! ذرابھیک مانگنا سیکھ۔اِس آستانِ رَفیع کی خاک پر لَوٹ جا۔ اور لپٹا رہ اور ٹکٹکی بندھی رکھ کہ اب دیتے ہیں ، اب دیتے ہیں !بلکہ پکارنے ، اُس سے مناجات کرنے کی لذت میں ایسا ڈوب جا کہ اِرادہ ومراد کچھ یاد نہ رہے، یقین جان کہ اِس دروازے سے ہرگز محروم نہ پھریگا کہ مَنْ دَقَّ بَابَ الْکَرِیْم انْفَتَحَ (جس نے کریم کے دروازے پر دستک دی تو وہ اس پر کھل گیا) وَبِا للّٰہِِ التَّوْفِیْقُ (اور توفیق اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہے) ۔( فضائلِ دُعا ص۱۰۰ تا ۱۰۴ )
حضرت سَیِّدُنا مولانا نقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں : اَے عزیز! تیرا پروَردگارعَزَّوَجَلَّفرماتا ہے:
اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ- (پ۲،البقرۃ:۱۸۶)
تَرجَمہ: میں دُعا مانگنے والے کی دُعا قبول کرتا ہوں جب مجھ سے دُعا مانگے۔
فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ٘ۖ(۷۵) (پ۲۳،صٰفٰت:۷۵)
تَرجَمہ: ہم کیا اَچھے قبول کرنے والے ہیں ۔
اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- (پ۲۴،مؤمِن:۶۰)
تَرجَمہ: مجھ سے دُعا مانگو میں قَبول فرماؤں ۔
پس یقین سمجھ کہ وہ تجھے اپنے دَر سے محروم نہیں کرے گااوراپنے وَعدے کو وَفا فرمائے گا۔وہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرماتا ہے :
وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(۱۰) (پ۳۰،الضحٰی:۱۰)
تَرجَمہ :سائِل کو نہ جِھڑک ۔
آپ کس طرح اپنے خوانِ کرم سے دُور کرے گا!بلکہ وہ تجھ پر نظر کرم رکھتا ہے کہ تیری دُعا کے قبول کرنے میں دیر کرتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حال۔ (فضائلِ دُعا ص۹۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّتبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، ’’دعوت اسلامی‘‘ کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتو ں بھرا سفر کر کے دعا مانگنے والوں کے مسائل حل ہونے کے کافی واقعات ہیں ۔ایک اسلامی بھائی کا بیان اپنے انداز میں عرض کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔ ہمارا مَدَنی قافلہ ٹھٹھہ شہر وارِد ہوا ،شرکا میں سے ایک اسلامی بھائی کو عِرقُ النساء کا شدید درد اُٹھتا تھا،بے چارے شدتِ درد سے ماہیِ ٔ بے آب کی طرح تڑپتے تھے۔ ایک بار درد کے سبب رات بھر سو نہ سکے۔ آخری دن امیرقافلہ نے فرمایا: آیئے ! سب مل کر ان کیلئے دُعا کرتے ہیں ۔ چنانچہ دُعا شروع ہوئی، ان اسلامی بھائی کا بیان ہے: اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّدَورانِ دُعا ہی درد میں کمی آنی شروع ہو گئی اور کچھ دیر کے بعدعرق النساء کا درد بالکل جاتا رہا ۔اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّیہ بیان دیتے وَقت کافی عرصہ ہو چکا ہے وہ دن، آج کا دن ان کو پھر کبھیعرق النساء کی تکلیف نہیں ہوئی ۔ اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّانہیں عَلاقائی مَدَنی قافلہ ذِمے دار کی حیثیت سے مَدَنی قافلوں کی دھومیں مچانے کی خدمت بھی ملی ۔
گر ہو عرق النسا، عارِضہ کوئی سا دے خدا صحتیں ، قافلے میں چلو
دُور بیماریاں اور پریشانیاں ہوں گی بس چل پڑیں ، قافلے میں چلو (وسائل بخشش ص۶۷۵،۶۷۷)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! مَدَنی قافلے کی برکت سے عِرقُ النِّساء جیسی موذی بیماری سے نجات مل گئی ۔ عِرقُ النِّساء کی پہچان یہ ہے کہ اِس میں چَڈھے( یعنی ران کے جوڑ) سے لے کر پاؤں کے ٹخنے تک شدید درد ہوتا ہے۔ یہ مرض برسوں تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔
{۱}درد کے مقام پر ہاتھ رکھ کر اوّل آخر دُرُود شریف ، سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہ ایک بار اور سا۷ت مرتبہ یہ دُعا پڑھ کر دم کر دیجئے: اَللّٰھُمَّ اذْھِبْ عَنِّیْ سُوءَ مَا اَجِدُ (یعنی اےاللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھ سے مرض دور فرما دے) اگر دوسرا دم کرے تو عَنِّیْ کی جگہ عَنْہُ (یعنی اس سے) کہے۔ ( مدّت : تا حصولِ شِفا){۲} یا مُحْیِیْسات بارپڑھ کرگیس ہو یاپیٹھ یاپیٹ میں تکلیف یا عرق النساء یا کسی بھی جگہ درد ہو یا کسی عضوکے ضائع ہو جانے کا خوف ہو، اپنے اوپردم کردیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ فائِدہ ہوگا۔ (مدتِ علاج:تا حصولِ شفا )
{۱} کھانے ، پینے یا ہمبستری کرنے سے روزہ جاتا رہتا ہے جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۹۸۵ )
{۲} حقہ،سگار،سگریٹ ،چرٹ وغیرہ پینے سے بھی روزہ جاتا رہتا ہے، اگرچہ اپنے خیال میں حلق تک دُھواں نہ پہنچتا ہو۔ (ایضاً ص۹۸۶)
{۳} پان یا صرف تمباکو کھانے سے بھی روزہ جاتا رہے گا اگر چِہ بار بار اس کی پیک تھوکتے رہیں ،کیوں کہ حلق میں اُس کے باریک اَجزا ضرور پہنچتے ہیں ۔ (اَیضاً)
{۴} شکر وغیرہ ایسی چیزیں جو منہ میں رکھنے سے گھل جاتی ہیں مُنہ میں رکھی اورتھوک نگل گئے ،روزہ جاتا رہا۔( اَیضاً)
{۵}دانتوں کے دَرمیان کوئی چیز چنے کے برابر یا زیادہ تھی اُسے کھا گئے یا کم ہی تھی مگر منہ سے نکال کر پھر کھا لی تو روزہ ٹوٹ گیا۔ (دُرِّ مُخْتَار ج۳ص۴۵۲)
{۶} دانتوں سے خون نکل کر حلق سے نیچے اُترا اور خون تھوک سے زیادہ یا برابر یا کم تھا مگر اُس کا مزا حلق میں محسوس ہواتوروزہ جاتا رہا اور اگر کم تھا اور مزا بھی حلق میں محسوس نہ ہوا تو روزہ نہ گیا۔ (ایضاًص۴۲۲)
{۷} روزہ یاد رہنے کے باوجود حُقنَہ([6])لیا۔ یا ناک کے نتھنوں سے دواچڑھائی روزہ جاتا رہا ۔ (عالمگیری ج۱ ص۲۰۴)
{۸} کلی کررہے تھے بلا قصد (یعنی بغیر ارادے کے)پانی حلق سے اُتر گیا یا ناک میں پانی چڑھایا اور دِماغ کو چڑ ھ گیا روزہ جاتا رہا مگرجبکہ روزہ دار ہونا بھول گیا ہوتو نہ ٹوٹے گا اگرچہ قصداً(یعنی جان بوجھ کر) ہو۔یوں ہی روزے دار کی طرف کسی نے کوئی چیز پھینکی وہ اُس کے حلق میں چلی گئی توروزہ جاتا رہا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۲)
{۹}سوتے میں (یعنی نیند کی حالت میں ) پانی پی لیا یا کچھ کھالیا،یامُنہ کھلا تھا،پانی کا قطرہ یا بارِش کا اوْلا حلق میں چلاگیاتوروزہ جاتا رہا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۶، جوہرہ ج۱ ص۱۷۸)
{۱۰} دُوسرے کا تھوک نگل لیا یا اپنا ہی تھوک ہاتھ میں لے کر نگل لیا تو روزہ جاتا رہا۔ (عالمگیری ج۱ص ۲۰۳)
{۱۱}جب تک تھوک یا بلغم منہ کے اندر موجود ہواُسے نگل جانے سے روزہ نہیں جاتا،بار بارتھوکتے رہنا ضروری نہیں ۔
{۱۲} منہ میں رنگین ڈَورا وغیرہ رکھاجس سے تھوک رنگین ہوگیا پھر تھوک نگل لیا روزہ جاتا رہا۔ (اَیضاً)
{۱۳} آنسو منہ میں چلاگیا اور نگل لیا ،اگر قَطْرہ دو قَطْرہ ہے تو روزہ نہ گیا اور زیادہ تھا کہ اُس کی نمکینی پورے مُنہ میں محسوس ہوئی تو جاتا رہا ۔ پسینے کا بھی یہی حُکم ہے۔ (اَیضاً)
{۱۴} پاخانے کا مَقام باہَر نکل پڑا تَو حکم ہے کہ کپڑے سے خوب پونچھ کر اُٹھے کہ تری بالکل باقی نہ رہے۔اوراگر کچھ پانی اُس پر باقی تھا اور کھڑا ہوگیا کہ پانی اندرکو چلاگیا تَو روزہ فاسدہو(یعنی ٹوٹ) گیا ۔ اِسی وجہ سے فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ روزہ دار اِستنجا(یعنی پانی سے پاکی حاصل) کرنے میں سانس نہ لے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۸،عالمگیری ج۱ص۲۰۴)
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:{۱}جس کو ماہ ِ رَمضان میں خود بخود قے آئی اس کا روزہ نہ ٹوٹا اور جس نے جان بوجھ کر قے کی اس کا روزہ ٹوٹ گیا (کنزُالعُمّال ج۸ص۲۳۰ حدیث ۲۳۸۱۴) {۲}’’جس کو خود بخود
قے آئی اس پر قضا نہیں اور جس نے جان بوجھ کر قے کی وہ روزے کی قضا کرے۔‘‘ (تِرمذی ج۲ص۱۷۳حدیث۷۲۰)
{۱}روزے میں خود بخود کتنی ہی قَے(یعنی اُلٹی۔Vomiting) ہوجائے(خواہ بالٹی ہی کیوں نہ بھر جائے)اِس سے روزہ نہیں ٹوٹتا (دُرِّمُختَار ج۳ص۴۵۰) {۲} اگر روزہ یاد ہونے کے باوُجُود قَصْداً (یعنی جان بُوجھ کر) قَے کی اور اگر وہ مُنہ بھر ہے (مُنہ بھر کی تعریف آگے آتی ہے)تَو اب روزہ ٹوٹ جائے گا(ایضاً ص۴۵۱) {۳} قَصْداً (یعنی جان بوجھ کر) مُنہ بھر ہونے والی قَے سے بھی اِس صورت میں روزہ ٹوٹے گا جبکہ قَے میں کھانا یا (پانی) یا صَفْرا(یعنی کڑوا پانی) یا خُون آئے (عالمگیری ج۱ص۲۰۴) {۴} اگر(منہ بھر) قَے میں صرف بلغم نکلا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا (دُرِّمُختَار ج۳ص۴۵۲){۵} قصداً قَے کی مگر تھوڑی سی آئی، مُنہ بھر نہ آئی تواب بھی روزہ نہ ٹوٹا (ایضاً ص۴۵۱) {۶} مُنہ بھر سے کم قے ہوئی اور منہ ہی سے دوبارہ لوٹ گئی یا خود ہی لَوٹا دی، ان دونوں صورَتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا (اَیْضاً ص۴۵۰) {۷}مُنہ بھرقے بلا اِختیار ہوگئی تو روزہ تو نہ ٹوٹاالبتہ اگر اِس میں سے ایک چنے کے برابر بھی واپس لوٹا دی تو روزہ ٹو ٹ جائے گااور ایک چنے سے کم ہو تَو روزہ نہ ٹوٹا۔ (دُرِّمُختَارج۳ص۴۵۰)
مُنہ بھر قے کے مَعنٰی یہ ہیں : ’’اُسے بلاتکلف نہ روکا جاسکے۔‘‘ (عالمگیری ج۱ص۱۱)
{۱} وضو کی حالت میں (جان بوجھ کرقے کریں یا خود بخود ہوجائے دونوں صُورتوں میں )اگر مُنہ بھر قے آئی اور اِس میں کھانا، پانی یا صفرا (کڑوا پانی )آیا تووضو ٹوٹ جائے گا۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۳۰۶ )
{۲} اگر بلغم کی مُنہ بھر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ ( اَیضاً)
{۳} بہتے خون کی قے وُضو توڑدیتی ہے۔ ( اَیضاً)
{۴} بہتے خون کی قیسے وُضو اُس وَقت ٹوٹتا ہے جبکہ خون تھوک سے مغلوب (یعنی کم )نہ ہو۔(بہارِ شریعت ج ۱ ص ۳۰۶، رَدُّالْمُحتار ج۱ص۲۶۷) یعنی خون کی وجہ سے قے سرخ ہورہی ہے تو خون غالب ہے وُضو ٹوٹ گیا اور اگرتھوک زیادہ ہے اور خون کم تو وُضو نہیں ٹوٹے گا۔خون کم ہونے کی نشانی یہ ہے کہ پوری قے جو تھوک پر مشتمل ہے وہ زرد (یعنی پیلی ) ہوگی۔
{۵} اگرقے میں جما ہوا خون نکلا اور وہ مُنہ بھر سے کم ہے تو وُضو نہیں ٹوٹے گا۔ (مُلَخَّص اَز:بہارِ شریعت ج۱ص۳۰۶)
مُنہ بھر قے(علاوہ بلغم کے) ناپاک ہے،اِس کا کوئی چھینٹا کپڑے یا جسم پر نہ گرنے پائے اِس کی اِحتیاط فرمائیے۔ اکثر لوگ اِس میں بڑی بے اِحتیاطی کرتے ہیں ،کپڑوں پر چھینٹے پڑنے کی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور مُنہ وغیرہ پر جوناپاک قَیلگ جاتی ہے اُس کو بھی بلاجھجک اپنے کپڑوں سے پونچھ لیتے ہیں ۔ اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّہمیں نجاست سے بچنے کا ذِہن عنایت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون و مکان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے : ’’جس روزہ دار نے بھول کر کھایا پیا وہ اپنا روزہ پورا کرے کہ اُسے اللہ عَزَّوَجَلَّنے کھلایا اور پلایا۔ ‘‘ ( مسلم ص۵۸۲ حدیث ۱۱۵۵ )
{۱} بھول کر کھایا،پیا یا جماع کیا روزہ فاسد نہ ہوا،خواہ وہ روزہ فرض ہو یا نفل۔ (دُرِّمُخْتار ،رَدُّ المحتار ج۳ص۴۱۹)
{۲} کسی روزہ دار کو اِن اَفعال میں دیکھیں تو یاد دِلانا واجب ہے،ہاں روزہ دار بہت ہی کمزور ہو کہ یاد دِلانے پر وہ کھانا چھوڑدے گا جس کی وجہ سے کمزوری اِتنی بڑھ جائے گی کہ اِس کیلئے روزہ رکھنا ہی دُشوار ہوجائے گااور اگر کھالے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پُورا کرلے گا اور دیگر عبادَتیں بھی بخوبی اداکرسکے گا(اور چونکہ بھول کر کھاپی رہا ہے اِس لئے اِس کا روزہ تو ہو ہی جائے گا) لہٰذا اِس صورت میں یاد نہ دِلانا ہی بِہتر ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۱) بعض مشائخِ کرام (رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام )فرماتے ہیں :’’جو ان کو دیکھے تو یاد دِلادے اور بوڑھے کو دیکھے تو یاد نہ دِلانے میں حَرج نہیں ۔‘‘ مگر یہ حُکم اکثر کے لحاظ سے ہے کیونکہ جوان اکثر قوی (یعنی طاقتور ) ہوتے ہیں اور بوڑھے اکثر کمزور۔ چنانچہ اَصل حُکم یہی ہے کہ جوانی اور بڑھاپے کو کوئی دَخل نہیں ، بلکہ قوت وضعف (یعنی طاقت اور کمزوری) کا لحاظ ہے لہٰذا اگر جوان اِس قَدَر کمزور ہوتو یاد نہ دِلانے میں حرج نہیں اور بوڑھا قوی (یعنی طاقتور) ہو تو یاد دِلانا واجب ہے۔ ( رَدُّ الْمُحتَار ج۳ص۴۲۰ )
{۳} روزہ یاد ہونے کے باوجود بھی مکھی یا غبار یا دُھواں حلق میں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ خواہ غبار آٹے کا ہو جو چکی پیسنے یا آٹا چھاننے میں اُڑتا ہے یاغلے(یعنی اناج) کا غبار ہویا ہوا سے خاک اُڑی یاجانور وں کے کھر یا ٹاپ سے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۲، دُرِّ مُخْتار، رَدُّ المحتار ج۳ص۴۲۰)
{۴} اسی طرح بس یا کا ر کا دُھواں یا اُن سے غبار اُڑ کر حلق میں پہنچا اگر چِہ روزہ دار ہونایا د تھا،روزہ نہیں جائے گا۔
{۵} اگر بتی سلگ رہی ہے اوراُس کا دُھواں ناک میں گیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ہاں لوبان یا اگر بتی سلگ رہی ہو اور روزہ یاد ہونے کے باوجود منہ قریب لے جاکر اُس کا دُھواں ناک سے کھینچا توروزہ فاسد ہوجا ئے گا۔ (اَیضاً، اَیضاً ص۴۲۱)
{۶} بھری سِینگی([7]) لگوائی یا تیل یا سرمہ لگایا توروزہ نہ گیا ، تیل یا سرمے کا مزا حلق میں محسوس ہوتا ہو بلکہ تھوک میں سُرمے کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہو جب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۴۲۰)
{۷}غسل کیا اور پانی کی خنکی (خُ۔نُ۔کی یعنی ٹھنڈک )اندر محسوس ہوئی جب بھی روزہ نہیں ٹوٹا۔(عالمگیری ج۱ص۲۰۳)
{۸} کلی کی اور پانی بالکل پھینک دیا صرف کچھ تری منہ میں باقی رہ گئی تھی تھوک کے ساتھ اِسے نگل لیا،روزہ نہیں ٹوٹا۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۴۲۰)
{۹}دوا کوٹی اور حلق میں اِس کا مزا محسوس ہوا روز ہ نہیں ٹوٹا۔ (اَیضاً ص۴۲۲)
{۱۰} کان میں پانی چلاگیا جب بھی روزہ نہیں ٹوٹابلکہ خود پانی ڈالا جب بھی نہ ٹوٹا۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۲۲) البتّہ کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو تو کان میں پانی ڈالنے سے حلق کے نیچے چلا جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائے گا۔
{۱۱} تنکے سے کان کھجایا اور اُس پر کان کا میل لگ گیا پھر وُہی میل لگاہوا تنکا کان میں ڈالا اگرچہ چند بار ایسا کیا ہو جب بھی روزہ نہ ٹوٹا۔(اَیضاً)
{۱۲} دانت یا منہ میں خفیف (یعنی معمولی )چیز بے معلوم سی رہ گئی کہ لعاب کیساتھ خود ہی اُترجائے گی اور وہ اُترگئی ، روزہ نہیں ٹوٹا۔ (اَیضاً)
{۱۳} تل یا تل کے
برابرکوئی چیز چبائی اور تھوک کے ساتھ حلق سے اُتر گئی تَو روزہ نہ گیا
مگر جب کہ اُس کا مزا حلق میں
محسوس ہوتا ہوتو روزہ جاتا رہا۔ (فَتحُ القدیر ج۲ص۲۵۹)
{۱۴} تھوک یا بلغم منہ میں آیا پھر اُسے نِگل گیا تو روزہ نہ گیا۔ (دُرِّ مُخْتار، رَدُّ المحتار ج۳ ص۴۲۸)
{۱۵} اِسی طرح ناک میں رِینٹھ جمع ہوگئی ،سانس کے ذَرِیعے کھینچ کر نِگل جانے سے بھی روزہ نہیں جاتا۔ (دُرِّ مُخْتار ج۳ ص۴۲۲)
{۱۶} دانتوں سے خون نکل کر حلق تک پہنچا مگر حلق سے نیچے نہ اُترا تو روزہ نہ گیا۔ (اَیضاً)
{۱۷} مکھی حَلْق میں چلی گئی روزہ نہ گیا اور قَصْداً (یعنی جا ن بو جھ کر) نگلی تَو چلاگیا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۳)
{۱۸} بھولے سے کھانا کھارہے تھے ،یا دآتے ہی لقمہ پھینک دیا یا پانی پی رہے تھے یاد آتے ہی مُنہ کا پانی پھینک دیا تو روزہ نہ گیا ۔اگر مُنہ میں کا لقمہ یا پانی یادآنے کے باوُجود نگل گئے تو روزہ گیا۔ (اَیضاً)
{۱۹} صبح صادِق سے پہلے کھایا پی رہے تھے اور صبح ہوتے ہی(یعنی سَحَری کا وَقتخَتْم ہوتے ہی)مُنہ میں کا سب کچھ اُگل دیا تَو روزہ نہ گیا،اور اگر نگل لیا تو جاتا رہا۔ (اَیضاً)
{۲۰}غیبت کی توروزہ نہ گیا۔اگر چہ غیبت سخت کبیرہ گناہ ہے، قراٰنِ مجید میں غیبت کرنے کی نسبت فرمایا: ’’جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔‘‘ اور حدیث پاک میں فرمایا: ’’غیبت زِنا سے سخت تر ہے۔‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۵ص۶۳حدیث۶۵۹۰) غیبت کی وجہ سے روزے کی نورانیت جاتی رہتی ہے ۔ (بہارِشریعت ج۱ص۹۸۴)
{۲۱} جنابت (یعنی غسل فرْ ض ہونے)کی حالت میں صبح کی بلکہ اگرچہ سارے دِن جُنُب (یعنی بے غسل) رہا روزہ نہ گیا۔ (دُرِّ مُخْتار ج۳ص۴۲۸) مگر اتنی دیر تک قصداً (یعنی جان بُوجھ کر) غسل نہ کرنا کہ نَماز قَضا ہوجائے گناہ و حرام ہے ۔ حدیثِ شریف میں فرمایا:’’جس گھر میں جُنُب ہو اُس میں رَحمت کے فرشتے نہیں آتے۔‘‘
(ابوداوٗد ج۱ص۱۰۹حدیث۲۲۷ ، بہارِشریعت ج۱ص۹۸۴)
اب رَوزے کے مکروہات کابیان کیاجاتا ہے جن کے کرنے سے روزہ ہو تو جاتا ہے مگر اُس کی نورانیت چلی جاتی ہے۔لفظ ’’نبی ‘‘ کے تین حروف کی نسبت سے پہلے تین احادیثِ مُبارَکہ ملاحظہ فرمایئے۔پھر فقہی اَحکام عرض کئے جائیں گے{۱} ’’جو بری بات کہنا اور اُس پرعمل کرنا نہ چھوڑے تواللہ عَزَّوَجَلَّ کو اِس کی کچھ حاجت نہیں کہ اُس نے کھانا ،پینا چھوڑ دیا ہے‘‘([8]){۲}’’روزہ اس کا نام نہیں کہ کھانے اور پینے سے باز رہنا ہو، روزہ تویہ ہے کہ لغو و بیہودہ باتوں سے بچا جائے‘‘([9]){۳}’’روزہ سپر (یعنی ڈھال) ہے جب تک اُسے پھاڑا نہ ہو۔ عرض کی گئی : کس چیز سے پھاڑ ے گا؟ اِرشاد فرمایا:’’جھوٹ یا غیبت سے۔‘‘([10])
{۱} جھوٹ ،چغلی ،غیبت ، گالی دینا، بیہودہ بات، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز وحرام ہیں روزے میں اور زِیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزے میں کراہت آتی ہے۔ (بہار ِ شریعت ج۱ ص۹۹۶)
{۲} روزہ دار
کوبلا عذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔چکھنے کے لئے عذر یہ ہے کہ مَثَلاً
عورت کا شوہر بد مزاج ہے کہ نمک کم یازیادہ ہوگا تواُس کی ناراضی کا باعث ہوگا،اِس
وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں ۔چبانے کیلئے عذر یہ ہے کہ اِتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی
نہیں چبا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اُسے کھلائی جاسکے ،نہ حیض و نفا س([11]) والی
یا کوئی اور ایسا ہے کہ اُسے چبا کر دے۔ تو بچے کے کھلانے کیلئے روٹی وغیرہ چبانا
مکروہ نہیں ۔ (دُرِّ
مُخْتار ج۳ ص۴۵۳) مگر پوری احتیاط رکھئے کہ غذا کا کوئی ذرّہ
حلق سے نیچے نہ اترنے پائے۔
چکھنے کے معنٰی وہ نہیں جو آج کل عام محاوَرہ ہے یعنی کسی چیز کا مزا دَریافت کرنے کیلئے اُس میں سے تھوڑا کھالیا جاتا ہے!کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گابلکہ کفارے کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازِم ہوگا۔ چکھنے سے مراد یہ ہے کہ صرف زبان پر رکھ کر مزا دَریافت کرلیں اور اُسے تھوک دیں ، اُس میں سے حلق میں کچھ بھی نہ جانے پائے۔ (بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۶)
{۳} کوئی چیز خریدی اور اُس کا چکھنا ضروری ہے کہ اگر نہ چکھا تَو نقصان ہوگاتو ایسی صورت میں چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔ (دُرِّمُخْتارج۳ص۴۵۳)
{۴} بیوی کا بوسہ لینا اور گلے لگانا اور بدن کو چھونا مکروہ نہیں ۔ ہاں یہ اَندیشہ ہوکہ اِنْزال ہو جائے گا(یعنی منی نکل جائے گی) یاجماع میں مبتلا ہوگا اور ہونٹ اور زبان چوسنا روزے میں مُطلقاًمکروہ ہیں ۔یوں ہی مباشر تِ فاحشہ(یعنی شرمگاہ سے شرمگاہ ٹکرانا) ([12]) (رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۵۴)
{۵} گلاب یا مشک وغیرہ سُونگھنا ،داڑھی مونچھ میں تیل لگانا اور سُرمہ لگانا مکروہ نہیں ۔ (اَیضاً ص۴۵۵)
{۶} روزے کی حالت میں ہرقِسْم کا عِطْر سونگھ بھی سکتے ہیں اور لگا بھی سکتے ہیں ۔(اَیضاً) اِسی طرح روزے میں بدن پر تیل کی مالش (Massage)کرنے میں بھی حرج نہیں ۔
{۷}روزے میں مسواک کرنا مکروہ نہیں بلکہ جیسے اور دِنوں میں سُنَّت ہے وَیسے ہی روزے میں بھی سُنَّت ہے، مسواک خشک ہویا تر، اگر چہ پانی سے تر کی ہو، زَوال سے پہلے کریں یا بعد، کسی وَقت بھی مکروہ نہیں۔(اَیضاً ص۴۵۸)
{۸} اکثر لوگوں
میں مشہور ہے کہ دوپہر کے بعد روزہ دار کیلئے مسواک کرنا مکروہ ہے یہ ہمارے مذہب
حنفیہ
کے
خلاف ہے۔
(بہار
شریعت ج۱ ص۹۹۷)
حضرتِ
سَیِّدُنا عامر بن رَبیعہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے:
’’میں نے رسولِ پاک
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے شمار بار روزے میں مسواک کرتے دیکھا۔‘‘ (تِرمذی ج ۲ ص ۱۷۶ حدیث ۷۲۵)
{۹} اگر مسواک چبانے سے ریشے چھوٹیں یا مزا محسوس ہو تو ایسی مسواک روزے میں نہیں کرنا چاہئے۔ (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ص۵۱۱) اگر روزہ یاد ہوتے ہوئے مسواک چباتے یا دانت مانجھتے ہوئے اس کا ریشہ یا کوئی جزحلق سے نیچے اتر گیا اور اس کا مزا حلق میں محسوس ہوا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔اور اگر اتنے سارے ریشے حلق سے نیچے اتر گئے جو ایک چنے کی مقدار کے برابر ہوں تواگرچہ حلق میں ذائقہ محسوس نہ ہو تب بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
{۱۰} وضو وغسل کے علاوہ ٹھنڈک پہنچانے کی غر ض سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈک کیلئے نہانا بلکہ بَدَن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا بھی مکروہ نہیں ۔ہاں پریشانی ظاہِر کرنے کیلئے بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ ہے کہ عبادَت میں دِل تنگ ہونا اچھی بات نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۹۷،رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۵۹ )
{۱۱} بعض اِسلامی بھائی روزے میں بار بارتھوکتے رہتے ہیں ، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ روزے میں تھوک نہیں نگلنا چاہئے،ایسا نہیں ۔ البتہ منہ میں تھوک اِکٹھا کرکے نگل جانا،یہ تو بغیر روزہ کے بھی ناپسند یدہ ہے اور روزے میں مکروہ۔(بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۸)
{۱۲} رَمَضانُ الْمُبارَک کے دِنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے ایسا ضعف (یعنی کمزوری) آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظن غالب ہو۔لہٰذا نانبائی کو چاہئے کہ دوپہرتک روٹی پکائے پھر باقی دِن میں آرام کرے۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۶۰) معمار ومزدور اور دیگر مشقت کے کام کرنے والے اس مسئلے پر غور فرما لیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! روزوں کے شرعی اَحکام سیکھنے کا جذبہ اُجاگر کرنے کیلئے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرے سفر کو اپنا معمول بنا لیجئے۔ایک بار سفر کر کے تجربہ کر لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّوہ وہ دینی منافع حاصل ہوں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔ ترغیب کیلئے
مَدَنی قافِلے کی ایک مدنی بہار آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے: قَصبہ کالونی ( بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی کے خاندان میں لڑکیاں کافی تھیں ، چچا جان کے یہاں سات لڑکیاں تو بڑے بھائی جان کے یہاں 9 لڑکیاں ! ان کی شادی ہوئی تو ان کے یہاں بھی لڑکی کی وِلادت ہوئی۔ سب کو تشویش سی ہونے لگی اور آج کل کے ایک عام ذِہن کے مطابق سب کو وَہم سا ہونے لگا کہ کسی نے جادو کر کے اولادِ نرینہ کا سلسلہ بند کروا دیا ہے! انہوں نے مَنّت مانی کہ میرے یہاں لڑکا پیدا ہوا تو دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیَت کے ایک ماہ کے مَدَنی قافلے میں سفر کروں گا۔ ان کی مَدَنی منی کی امی نے ایک بار خواب دیکھا کہ آسمان سے کوئی کاغذ کا پرزہ ان کے قریب آ کر گرا،اُٹھا کر دیکھا تو اُس پر لکھا تھا: ’’بلال۔‘‘ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّایک ماہ کے مَدَنی قافلے کی (نیت کی)برکت سے ان کے یہاں مَدَنی منے کی آمد ہو گئی ! نہ صرف ایک بلکہ آگے چل کریکے بعد دیگرے دومَدَنی منے مزید پیدا ہوئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کرم دیکھئے! ایک ماہ کے مَدَنی قافلے کی(نیت کی) برکت صرف ان تک محدود نہ رہی ،بلکہ ان کے خاندان میں جو بھی اولادِ نرینہ سے محروم تھا سب کے یہاں مَدَنی منے تولد(یعنی پیدا) ہوئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ انہیں علاقائی مَدَنی قافلہ ذمہ دار کی حیثیت سے مَدَنی قافلوں کی بہاریں لٹا نے کی کوششیں کرنے کی سعادت بھی ملی۔
آکے تم با ادب، دیکھ لو فضلِ رب مَدَنی منے ملیں ، قافِلے میں چلو
کھوٹی قسمت کھری،گود ہو گی ہری منا منی ملیں ، قافلے میں چلو (وسائل بخشش ص۶۷۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! مَدَنی قافلے کی برکت سے کس طرح من کی مرادیں برآتی ہیں ! اُمیدوں کی سوکھی کھیتیاں ہری ہو جاتی ہیں ،دلوں کی پژ مردہ کلیاں کھل اٹھتی ہیں اور خانماں برباد وں کی خوشیاں لوٹ آتی ہیں ۔ مگر یہ ذِہن میں رہے کہ ضروری نہیں ہر ایک
کی دلی مراد لازِمی ہی پوری ہو ۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ بندہ جو طلب کرتا ہے وہ اُس کے حق میں بہتر نہیں ہوتا اور اُس کا سُوال پورا نہیں کیا جاتا، اُس کی منہ مانگی مراد نہ ملنا ہی اُس کیلئے اِنعام ہوتا ہے ۔ مَثَلاً یہی کہ وہ اولادِ نرینہ مانگتا ہے مگر اُس کو مَدَنی منیوں سے نوازا جاتا ہے اور یہی اُس کے حق میں بارہابہتر بھی ہوتا ہے۔چُنانچِہ پارہ دوسرا سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر 216 میں ربُّ العِباد عَزَّ وَجَلَّ کا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے:
عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ- (پ۲،البقرۃ:۲۱۶)
ترجَمۂ کنزالایمان:قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بُری ہو۔
یا درکھئے! بیٹی کی فضیلت کسی طرح کم نہیں اس ضمن میں مُلا حَظہ ہوں تین فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:{۱}جس نے اپنی تین بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنت میں جائے گا اور اسے راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں اُس جہاد کرنے والے کی مثل اَجر ملے گا جس نے دورانِ جہاد روزے رکھے اورنَماز قائم کی۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۳ص۴۶حدیث۲۶) {۲} جس کی تین بیٹیاں ہوں ، وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کیلئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ عرض کی گئی: اور دو ہوں تو؟ فرمایا: اور دو ہوں تب بھی۔ عرض کی گئی: اگر ایک ہو تو؟ فرمایا: ’’ اگر ایک ہو تو بھی۔‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۴ ص۳۴۷ حدیث ۶۱۹۹ مُلَخّصاً) {۳}جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کیا یہاں تک کہ اللہ تَعَالٰی انہیں بے نیاز کر دے(یعنی ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں یا ان کی وفات ہو جائے) تووہ اس کیلئے آگ سے آڑ ہوجائیں گی۔ (مسند امام احمد ج۱۰ص ۱۷۹ حدیث ۲۶۵۷۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بعض مجبوریاں ایسی ہیں جن کے سَبَب رَمَضانُ الْمُبارَک میں روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ مجبوری میں روزہ مُعاف نہیں وہ مجبوری ختم ہوجانے کے بعد اس کی قضا رکھنا فرض ہے، البتّہ قضا کا گناہ نہیں ہوگا جیسا کہ ’’بہارِ شریعت
جلداوّل صفحہ1002‘‘ پر ’’دُرِّمختار‘‘ کے حوالے سے لکھاہے کہ سفر وحمل اور بچے کو دُودھ پلانا اورمرض اور بڑھاپا اور خوفِ ہلاکت و اِکراہ ( یعنی اگر کوئی جان سے مار ڈالنے یا کسی عضو کے کاٹ ڈالنے یا سخت مار مارنے کی صحیح دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ ڈال اگر روزہ دار جانتا ہو کہ یہ کہنے والا جو کچھ کہتا ہے کر گزرے گا تو ایسی صورت میں روزہ فاسِد کر دینا یاترک کرنا گناہ نہیں ۔ ’’اِکراہ سے مراد یہی ہے‘‘) ونقصانِ عقل اور جہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے عذر ہیں اِن وجوہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گُناہ گار نہیں ۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۶۲)
دَورانِ سفربھی روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔ سفر کی مقدار بھی ذِہن نشین کر لیجئے۔ سَیِّدی و مرشدی امامِ اَہلِ سنت،اعلٰی حضرت، مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکی تحقیق کے مطابق شرعاً سفر کی مقدارساڑھے ستاون میل (یعنی تقریباً 92 کلو میٹر )ہے جو کوئی اِتنی مقدار کا فاصِلہ طے کرنے کی غرض سے اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہرنکل آیا ، وہ اب شرعاً مسافر ہے،اُسے روزہ قضا کرکے رکھنے کی اِجاز ت ہے اور نَماز میں بھی وہ قصر کرے گا۔مسافر اگر روزہ رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے مگر چار رَکعت والی فرض نمازوں میں اُسے قصر کرنا واجب ہے، نہیں کرے گا تَو گناہ گار ہوگا۔ اور قصدًا چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہو گئے اور پچھلی دو رَکْعَتیں نفل ہوگئیں مگر گنہگار و عذابِ نار کا حقدار ہے کہ واجب ترک کیا لہٰذا توبہ کرے (اور نماز کا اِعادہ بھی واجب ہے) اور دورَکعت پرقعدہ نہ کیا تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۴۳مُلَخّصاً)’’ اور جہالتاً (یعنی علم نہ ہونے کی وجہ سے) پوری (چار)پڑھی تو اس نَماز کا پھیرنابھی واجب ہے‘‘ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۲۷۰مُلَخّصاً) یعنی معلومات نہ ہونے کی بِنا پر بھی آج تک جتنی نمازیں سفر میں پوری پڑھی ہیں ان کا حساب لگا کرچار رکعتی فرض کی جگہ قصر کی نیّت سے دو دوفرض لوٹانے ہوں گے۔ ہاں مسافر کو مقیم امام کے پیچھے فرض چار پورے پڑھنے ہوتے ہیں ، سنتیں اور وتر لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔ قصر صرف ظہر ،عصر اور عشا کی فرض رَکعتوں میں کرنا ہے۔ یعنی اِن میں چار رَکعت فرض
کی جگہ دو رَکعت ادا کی جائیں گی،باقی سُنتوں اور وِتر کی رَکعتیں پوری اداکی جائیں گی، دُوسرے شہر یا گاؤں وغیرہ میں پہنچنے کے بعد جب تک پندرہ دِن سے کم مُدَّت تک قِیام کی نیت تھی مسافر ہی کہلائے گا اورمسافرکے اَحکام رہیں گے اور اگر مسافر نے وہاں پہنچ کر پندرہ دِن یا اُس سے زِیادہ قیام کی نیت کرلی تو اب مسافر کے اَحکام ختم ہو جائیں گے اور وہ مقیم کہلائے گا۔ اب اسے روزہ بھی رکھنا ہوگا اور نَماز بھی قصر نہیں کرے گا۔ سفر کے متعلق ضروری اَحکام کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے بہار ِ شریعت حصہ چہارم کے باب’’ نمازِ مسافِر کا بیان‘‘یا مکتبۃ المدینہ کے رسالے ’’مسافر کی نماز‘‘ کامُطالعہ فرمائیں ۔
’’ الصَّلٰوۃ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یا سَیِّدی یارسولَ اللہ‘‘ کے تینتیس حروف کی
نسبت سے روزہ نہ رکھنے کی اجازات پر مبنی33 مَدَنی پھول
(وہ مجبوری ختم ہوجانے کی صورت میں ہرروزے کے بدلے ایک روزہ قضا رکھنا ہوگا)
{۱} مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اِختیار ہے۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)
{۲} اگر خود اُس مسافر کو اور اُس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرر (یعنی نقصَان)نہ پہنچے توروزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے اور اگر دونوں یا اُن میں سے کسی ایک کونقصان ہورہا ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ ص۴۶۵)
{۳} مسافر نے ضَحْوَۂ کُبریٰ ([13])سے پیشتر اِقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں توروزے کی نیت کرلینا واجب ہے ۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۸۶)
{۴}دِن میں اگر سفر کیا تواُس دِن کا روزہ چھوڑ دینے کیلئے آج کا سفر عذر نہیں ۔ البتہ اگر دَورانِ سفر توڑ دیں گے تو
کفارہ لازِم نہ آئے گا مگر گناہ ضرور ہوگا۔ ( عالمگیری ج۱ص۲۰۶) اور روزہ قضا کرنا فرض رہے گا۔
{۵} اگر سفر شروع کرنے سے پہلے توڑدیا پھر سفر کیا تو (اگر کفارے کے شرائط پائے گئے تو قضا کے ساتھ ساتھ) کفارہ بھی لازِ م آئے گا۔ (اَیْضاً)
{۶} اگر دن میں سفر شروع کیا (اور دَورانِ سفر روزہ توڑ انہ تھا) اور مکان پرکوئی چیز بھول گئے تھے اسے لینے واپس آئے اور اب اگر آکر روزہ توڑ ڈالا تو(شرائط پائے جانے کی صورت میں ) کفارہ بھی واجب ہے ۔اگر دَورانِ سفر ہی توڑدیا ہوتا تو صرف قضارکھنا فرض ہوتا جیسا کہ نمبر4 میں گزرا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۷)
{۷}کسی کو روزہ توڑ ڈالنے پر مجبور کیا گیا توروزہ تو توڑ سکتا ہے مگر صبر کیا تو اَجر ملے گا۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)
(مجبوری کی تعریف صفحہ143 پر دیکھ لیجئے)
{۸} سانپ نے ڈَس لیا اور جان خطرے میں پڑگئی تو روزہ توڑدے ۔ (اَیضاً)
{۹} جن لوگوں نے اِن مجبوریوں کے سبب روزہ توڑااُن پر فرض ہے کہ اُن روزوں کی قضا رکھیں اور اِن قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں ، لہٰذا اگر اُن روزوں کی قضا کرنے سے قبل نفل روزے رکھے تو یہ نفل روزے ہوگئے، مگرحکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعدآیندہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آنے سے پہلے پہلے قضا رکھ لیں ۔ حدیثِ پاک میں فرمایا: ’’جس پر گزشتہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے ، اُس کے اِس رَمَضانُ الْمبارَک کے روزے قبول نہ ہوں گے۔ ‘‘ (مسند امام احمد ج۳ص۲۶۶حدیث۸۶۲۹) اگر وَقت گزرتا گیا اور قضا روزے نہ رکھے یہاں تک کہ دُوسرا رَمضان شریف آگیا تو اب قضا روزے رکھنے کے بجائے پہلے اِسی رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے رکھ لیجئے، قضا بعد میں رکھ لیجئے۔بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضاکی نیت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اِسی رَمضان شریف کے روزے ہیں ۔ (دُرِّ مُختار ج۳ ص۴۶۵)
{۱۰} بھوک اور پیاس ایسی ہوکہ ہلاک (یعنی جان چلی جانے )کا خوفِ صحیح ہو یانقصان عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے ۔ (دُرِّمُختار، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۲)
{۱۱} فقہا ئِ کرام نے روزہ نہ رکھنے کیلئے جو رُخصتیں بیان کی ہیں ان میں یہ بھی داخل ہے کہ مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمانِ غالب ہو تو اِجازت ہے کہ اُس دِن روزہ نہ رکھے۔اس گمانِ غالِب کے حصول(یعنی حاصل کرنے) کی تیسری صورت کسی مسلمان، حاذِق طبیب مستور یعنی غیر فاسِق ماہر ڈاکٹر کی خبر بھی ہے لیکن فی زمانہ ایسے طبیب (ڈاکٹر)کا ملنا بہت ہی مشکل ہے تو اب ضرورت ِ زمانہ کا لحاظ کرتے ہوئے اس بات کی اجازت ہے کہ اگر کوئی قابلِ اعتماد فاسق یا غیر مسلم طبیب (ڈاکٹر) بھی روزہ رکھنے کو صحت کیلئے نقصان دِہ قرار دے اور روزہ ترک کرنے کا کہے اور مریض بھی اپنی طرف سے ظن و تحری (یعنی اچھی طرح غور)کرے جس سے اُسے روزہ توڑنا یا نہ رکھنا ہی سمجھ آئے تو اب اگر اس نے اپنے ظنِّ غالِب (یعنی مضبوط سوچ)پر عمل کرتے ہوئے روزہ توڑا یا روزہ نہ رکھا تو اسے گناہ نہیں ہوگا اور روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ بھی اس پر لازِم نہ ہوگا مگر قضا بہرصورت ضرور فرض ہوگی اور تحری(یعنی غور کرنے) میں یہ بھی ضروری ہے کہ مریض کا دل اِس بات پر جمے کہ یہ طبیب(یعنی ڈاکٹر) خواہ مخواہ روزہ توڑنے کا نہیں کہہ رہا اور اس میں بھی زیادہ بہتریہ ہوگا کہ ایک سے زائد ڈاکٹرز سے رائے لے ۔
{۱۲}روزے کی حالت میں حیض یا نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہااس کی قضا رکھے، فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب۔ حیض و نفاس کی حالت میں سجدۂ شکر و سجدۂ تلاوت حرام ہے اور آیت سجدہ سننے سے اس
پر سجدہ واجب نہیں ۔ (بہارشریعت ج۱ص۳۸۲){۱۳} حیض یا نفاس کی حالت میں نماز، روزہ حرام ہے اور ایسی حالت میں نَماز و روزہ صحیح ہوتے ہی نہیں ۔ نیز تلاوت قراٰنِ پاک یا قراٰنِ پاک کی آیاتِ مقدَّسہ یا اُن کا ترجمہ چھونا یہ سب بھی حرام ہے۔ (ایضاًص۳۷۹،۳۸۰){۱۴} حیض یانفاس والی کے لئے اِختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا ظاہراً ،روزہ دار کی طرح رہنا اُس پر ضَروری نہیں ۔ ( جوہرہ ج۱ص۱۸۶) {۱۵} مگر چھپ کرکھانا بہتر ہے خصوصاً حیض والی کے لئے ۔ (بہارشریعت ج۱ص۱۰۰۴){۱۶}حمل والی یا دُودھ پلانے والی عورت کو اگر اپنی یا بچے کی جان جانے کا صحیح اَندیشہ ہے تو اجازت ہے کہ اِ س وقت روزہ نہ رکھے،خواہ دُودھ پلانے والی بچے کی ماں ہو یا دائی، اگر چہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں دُودھ پلانے کی نوکری اِختیار کی ہو۔ (دُرِّمُختار، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۳)
{۱۷} ’’شیخِ فانی ‘‘یعنی وہ معمربزرگ جن کی عمرایسی ہو گئی کہ اب وہ روزبروز کمزور ہی ہوتے جائیں گے، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز(یعنی مجبور وبے بس) ہوجائیں یعنی نہ اب رکھ سکتے ہیں نہ آیِندہ روزے کی طاقت آنے کی اُمید ہے اُنہیں اب روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے ،لہٰذا ہر روزے کے بدلے میں ’’ فدیہ‘‘ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلا نا اُس پر واجب ہے یا ہر روزے کے بدلے ایک صَدَقۂ فِطْرکی مقدار مسکین کو د ے دیں ۔(دُرِّمُختار ج ۳ ص ۴۷۱) (صدقۂ فطر کی ایک مقدار 2کلو میں 80گرام کم گیہوں یا اُس کا آٹا یا اُن گیہوں کی رقم ہے)
{۱۸}اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے مگر اِس کے بدلے سردیوں میں رکھنا فرض ہے۔ (ردُّالْمُحتار ج۳ص۴۷۲)
{۱۹} اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو دیا ہوا فدیہ صَدَقۂ نفل ہو گیا۔اُن روزوں کی قضا رکھیں ۔(عالمگیری ج۱ص۲۰۷)
{۲۰} یہ اِختیار ہے کہ شروعِ رَمضان ہی میں پورے رَمضان (کے تمام روزوں )کا ایک دَم فدیہ دے دیں یا آخِر
میں (سب اِکٹّھے دے)دیں ۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۲)
{۲۱}فدیہ دینے میں یہ ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اُتنے ہی مَساکین کو الگ الگ دیں ،بلکہ ایک ہی مسکین کو کئی دِن کے(ایک ساتھ) بھی دیئے جاسکتے ہیں ۔ (اَیضاً)
{۲۲} نفل روزہ قصداً شروع کرنے والے پر اب پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے کہ توڑ دیا تو قضا واجب ہوگی۔(ردُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۴۷۳)
{۲۳} اگر آپ نے یہ گمان کرکے روزہ رکھا کہ میرے ذِمے کوئی روزہ ہے مگر روزہ شروع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مجھ پر کسی قسم کاکوئی روزہ نہیں ہے، اب اگر فوراً توڑ دیا توکچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے بعد اگر فوراًنہ توڑا، تو اب نہیں توڑسکتے ،اگر توڑیں گے تو قضا واجب ہوگی۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۳)
{۲۴}نفل روزہ قصداً (یعنی جان بوجھ کر)نہیں توڑا بلکہ بلا اِختیار ٹوٹ گیا،مَثَلاً دَورانِ روزہ عورت کوحیض آگیا، جب بھی قضا واجب ہے۔ (اَیضاًص۴۷۴)
{۲۵} عید الفطر یا بقرعید کے چار دِن یعنی10،11،12،13ذُوالحِجّۃِ الْحرام میں سے کسی بھی دِن کا روزئہ نفل رکھا تو (چونکہ اِن پانچ دِنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے لہٰذا ) اِس روزے کا پورا کرنا واجب نہیں ،نہ اِس کے توڑنے پر قضا واجب،بلکہ اِس کا توڑدینا ہی واجب ہے اور اگر اِن دِنوں میں روزہ رکھنے کی منت مانی تو منت پوری کرنی واجب ہے مگر اِن دِنوں میں نہیں بلکہ اور دِنوں میں ۔ (ردُّ الْمُحتارج۳ص۴۷۴)
{۲۶} نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اُسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اَذِیت ہوگی تو نفل روزہ توڑدینے کیلئے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروساہو کہ اِس کی
قضا رکھ لے گا اور ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پہلے توڑدے بعد کو نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۰۰۷ ،عالمگیری ج۱ص۲۰۸)
{۲۷} دعوت کے سبب ضَحْوَۂ کُبریٰسے پہلے(نفل) روزہ توڑ سکتا ہے جبکہ دعوت کرنے والا محض(یعنی صرف) اس کی موجودَگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسا ہوکہ بعد میں رکھ لے گا،لہٰذا اب روزہ توڑ لے اور اُس کی قضا رکھے ۔لیکن اگر دعوت کرنے والامحض(یعنی صرف) اس کی موجودَگی پر راضی ہو جائے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۸)
{۲۸}نفل روزہ زَوَال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑسکتا ہے، اوراِس میں عصر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔ (دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۷)
{۲۹}عورت بغیر شوہر کی اِجازت کے نفل اور منت وقسم کے روزے نہ رکھے اور رکھ لئے تو شوہرتڑواسکتا ہے مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی مگر اِس کی قضا میں بھی شوہر کی اِجازت دَرکار ہے۔یاشوہر اوراُس کے دَرمیان جدائی ہوجائے یعنی طلاقِ بائن( طلاقِ بائن: اُس طلاق کو کہتے ہیں جس سے بیوی نکاح سے باہر ہو جاتی ہے ، اب شوہر رُجوع نہیں کر سکتا)دے دے یا مرجائے ۔ہاں اگر روزہ رکھنے میں شوہر کا کچھ حرج نہ ہو،مَثَلاً وہ سفر میں ہے یا بیمارہے یا اِحرام میں ہے تو ان حالتوں میں بغیر اِجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے بلکہ وہ منع کرے جب بھی رکھ سکتی ہے۔البتہ اِن دنوں میں بھی شوہر کی اِجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔(رَدُّالْمحتار ج۳ص۴۷۷،۴۷۸)
{۳۰} رَمَضانُ الْمُبارَک اور قضائے رَمَضانُ الْمُبارَک کیلئے شوہر کی اِجازت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اُس کی ممانعت پر بھی رکھے۔ (دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۸)
{۳۱} اگر آپ کسی کے ملازِم ہیں یا اُس کے یہاں مزدوری پر کام کرتے ہیں تواُس کی اِجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتے کیوں کہ روزے کی وجہ سے کام میں سستی آئے گی۔ہاں روز ہ رکھنے کے باوُجود آپ باقاعدہ کام کرسکتے ہیں ،اُس کے کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی، کام پورا ہوجاتا ہے تواب نفل روزے کی اِجازت لینے کی ضَرورت نہیں ۔ (ردُّالْمحتار ج۳ص۴۷۸)
{۳۲} نفل روزے کیلئے بیٹی کو باپ ، ماں کو بیٹے، بہن کو بھائی سے اِجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔ (اَیضاً)
{۳۳} ماں باپ اگر بیٹے کو روزئہ نفل سے منْع کردیں اِس وجہ سے کہ مَرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اِطاعت کرے۔ (اَیضاً)
اب ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ‘‘کے بارہ حروف کی نسبت سے ’’12مدنی پھول ‘‘ ان چیزوں کے مُتَعَلِّق بیان کئے جاتے ہیں جن کے کرنے سے صِرف قضا لازِم آتی ہے ۔ قضاکا طریقہ یہ ہے کہ ہر روزے کے بدلے رَمَضانُ الْمُبارَک کے بعد قضا کی نیَّت سے ایک روزہ رکھ لیں ۔
{۱} یہ گمان تھا کہ صبح نہیں ہوئی اور کھایا ،پیا یا جماع کیا بعد کومعلوم ہواکہ صبح ہوچکی تھی تو روزہ نہ ہوا،اِس روزے کی قضا کرنا ضروری ہے یعنی اِس روزے کے بدلے میں ایک روزہ رکھنا ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۸۹، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۳۰)
{۲}کھانے پر سخت مجبور کیا گیا یعنی اِکراہِ شرعی پایا گیا، اب چونکہ مجبوری ہے،لہٰذا خواہ اپنے ہاتھ سے ہی کھایا ہو
صرف قضا لازِ م ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۸۹) اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص قتل یا عضو کاٹ ڈالنے یاشدید مار لگانے کی صحیح دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ ڈال! اگر روزہ دار یہ سمجھے کہ دھمکی دینے والا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ کر گزرے گا تو اب ’’ اِکراہِ شرعی‘‘ پایا گیا اور ایسی صورت میں روزہ توڑ ڈالنے کی رخصت ہے مگر بعد میں اِس روزے کی قضا لازِمی ہے۔
{۳} بھول کر کھایا، پیایا جماع کیاتھا یا نظرکرنے سے اِنزال ہوا تھا(یعنی منی نکل گئی تھی) یا اِحتلام ہوا یا قے ہوئی اور ان سب صورَتوں میں یہ گمان کیا کہ روزہ جاتا رہا، اب قصْداً (یعنی جان بوجھ کر) کھالیا تَو صرف قضا فر ض ہے۔(دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۱)
{۴} روزے کی حالت میں ناک میں دَوا چڑھائی تو روزہ ٹوٹ گیااور اِس کی قضا لازِم ہے۔ (اَیضاًص۴۳۲)
{۵} پتھر ،کنکری، مٹی، رُوئی ،گھاس ،کاغذ وغیرہ ایسی چیزکھائی جن سے لوگ گھن کرتے ہوں ، اِن سے روزہ تو ٹوٹ گیامگر صرف قضا کرناہوگا۔ (دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۳ مُلَخّصاً)
{۶} بارِش کاپانی یا اولاحلْق میں چلاگیا تَو روزہ ٹوٹ گیا اور قضا لازِم ہے۔ (اَیضاًص۴۳۴ مُلَخّصاً)
{۷} بہت سارا پسینہ یا آنسو نِگل لیا تَو روزہ ٹوٹ گیا،قضا کرنا ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۸۹)
{۸} گمان کیاکہ ابھی تَو رات باقی ہے،سحری کھاتے رہے اور بعد میں پتا چلا کہ سحری کا وَقْت ختم ہوچکا تھا۔اِس صورت میں بھی روزہ گیا اور قضا کرنا ہوگا۔ (دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۶)
{۹} اِسی طرح گمان کر کے کہ سورج غروب ہوچکا ہے ،کھاپی لیااور بعد میں معلوم ہوا کہ سورج نہیں ڈوبا تھا جب بھی روزہ ٹوٹ گیا اور قضا کریں ۔ (دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۶، بہار شریعت ج۱ص۹۸۹)
{۱۰} اگر غروبِ آفتاب سے پہلے ہی سائرن کی آواز گونج اُٹھی یا اذانِ مغرب شروع ہوگئی اور روزہ اِفطار کرلیااور
بعد میں معلوم ہوا کہ سائرن یا اَذان وَقت سے پہلے ہی شروع ہوگئے تھے، روزہ ٹوٹ گیا قضا کرنا ہوگا۔( رَدِّالْمُحتَار ج۳ص۴۳۹ ماخوذاً)
{۱۱}آج کل بے پروائی کا دَور دَورا ہے، ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے روزے کی خود حفاظت کرے۔سائرن ،ریڈیو ،ٹی وی کے اِعلان بلکہ مسجِد کی اذان پربھی اکتِفا کرنے کے بجائے خود سحری وا ِفطار کے وَقت کی صحیح صحیح معلومات رکھے ۔
{۱۲} وضو کررہا تھا پانی ناک میں ڈالا اور دِماغ تک چڑھ گیا یاحلق کے نیچے اُتر گیا،روزہ دار ہونایا د تھا تو روزہ ٹوٹ گیا اورقضا لازِم ہے ۔ ہاں اُس وَقت روزہ دار ہونا یادنہیں تھا تو روزہ نہ گیا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۲)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! رَمَضانُ الْمُبارَک کا روزہ رکھ کربغیر کسی صحیح مجبوری کے جان بوجھ کر توڑ دینے سے بعض صورتوں میں صرف قضا لازِم آتی ہے اور بعض صورتوں میں قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی واجب ہوجاتا ہے۔
روزے کے کفارے کا طریقہ:
روزہ توڑ نے کا کَفَّارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تَو ایک باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کرسکے مَثَلاً اِس کے پاس نہ لونڈی ، غلام ہے نہ اتنا مال کہ خریدسکے، یا مال توہے مگر غلام میسر نہیں ،جیسا کہ آج کل لونڈی غلام نہیں ملتے تواب پے دَرْپے ساٹھ روزے رکھے۔( یاد رہے!اگرسن ہجری کے مہینے کی یکم (پہلی) سے شروع کریں تو دوماہ پورے روزے رکھئے، ہو سکتا ہے کہ دونوں مہینے انتیس انتیس کے ہوں تو 58 روزوں سے کفارہ ادا ہو جائے گا اور اگر یکم کے بعد کسی دن سے روزے شروع کریں تو اب پے دَرپے 60 روزے رکھنے ہوں گے)یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کر دونوں وَقت کھانا کھلائے یہ ضروری ہے کہ جس کو ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی اُسی کو کھلائے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ساٹھ مساکین کو ایک ایک صدقۂ فطر (مَثَلاً 2کلو میں 80 گرام کم گیہوں یا اُس کی رقم )کا مالک کر دیا جائے۔ ایک ہی مسکین کو اکٹھے ساٹھ صدقۂ فطر نہیں دے سکتے،ہاں یہ
کر سکتے ہیں کہ ایک ہی کو ساٹھ دن تک روزانہ ایک ایک صدقۂ فطر دیں ([14])۔ رَوزوں کی صورَت میں (دَورانِ کفارہ) اگر درمیان میں ایک دِن کا بھی روزہ چھوٹ گیا توپھر نئے سرے سے ساٹھ روزے رکھنے ہوں گے پہلے کے روزے شاملِ حساب نہ ہوں گے اگر چہ اُنسٹھ(59) رکھ چکا تھا،چاہے بیماری وغیرہ کسی بھی عذر کے سبب چھوٹا ہو۔ (بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۴مُلَخصاً )
اگر عورت نے رَمضان کا روزہ توڑدیا اور کفّارے میں روزے رکھ رہی تھی اور حیض آگیا تو سرے سے رکھنے کا حکم نہیں بلکہ جتنے باقی ہیں اُن کا رکھنا کافی ہے۔ ہاں اگر اس حیض کے بعد ’’آئسہ‘‘ ہوگئی یعنی اب ایسی عمر ہوگئی کہ حیض نہ آئے گا، تو سرے سے رکھنے کا حکم دیا جائے گا کہ اب وہ پے در پے دومہینے کے روزے رکھ سکتی ہے اور اگر اِثنائے کفّارہ میں (یعنی کفارہ کے روزے رکھنے کے دوران) عورت کے بچہ ہوا تو سرے سے رکھے۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۲۱۴)
کم سے کم نوبرس کی عمر سے حیض شروع ہو گا اور انتہائی عمر حیض آنے کی پچپن سال ہے۔ اس عمر والی عورت کو آئسہ اور اس عمر کو’’سِنِ اَیاس‘‘ کہتے ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۷۲)
کفارہ واجب ہونے کی ایک صورت:
جوکوئی رات سے ہی رَمضان کے اداروزے کی نیت کرچکا ہو اور پھر صبح یادِن میں کسی بھی وَقت بلکہ اگر اِفطار سے ایک لمحہ بھی قبل کسی صحیح مجبوری کے بغیر کسی ایسی چیز جس سے طبیعت اِنسانی نفرت نہ کرتی ہو(مَثَلاً کھانا،پانی،چائے ،پھل ، بسکٹ ، شربت ، شہد ،مٹھائی وغیرہ وغیرہ)سے عمداً(یعنی جان بوجھ کر) روزہ توڑ ڈالے تو اب رَمضان شریف کے بعد اِس روزے کی قضا کی نیت سے ایک روزہ رکھنا ہوگا اور اُس کا کفارہ بھی دینا ہوگا۔ میرے آقااعلٰی حضرت ،امام احمد رضاخان
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : کسی نے بلا عذر شرعی رَمَضانُ الْمبارَک کا ادا روزہ جس کی نیت رات سے کی تھی بالقصد (یعنی جان بوجھ کر) کسی غذا یا دوا یا نفع رَساں شیٔ( یعنی نفع پہنچانے والی چیز) سے توڑ ڈالا اور شام تک (یعنی اِفطارسے پہلے) کوئی ایسا عارِضہ لاحِق نہ ہوا جس کے باعث شرعاً آج روزہ رکھنا ضرور نہ ہوتا ( مثَلاً عورت کو اُسی دن میں حیض یانفاس آگیا یا روزہ توڑنے کے بعد اُسی دن میں ایسا بیمار ہوگیا جس میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے)تو اس جر م کے جُرمانے میں ساٹھ روزے پے در پے رکھنے ہوتے ہیں ۔ ویسے جو روزہ نہ رکھا ہو اس کی قضا صِرف ایک روزہ ہے۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص۵۱۹)
{۱}رَمَضانُ الْمُبارَک میں کسی عاقل بالغ مقیم (یعنی جو شرعی مسافر نہ ہو)نے ادائے روزئہ رَمضان کی نیت سے روزہ رکھا اور بغیر کسی صحیح مجبوری کے جان بوجھ کر جماع کیا یا کروایا ،یاکوئی بھی چیز لذت کیلئے کھائی یا پی تَو روزہ ٹوٹ گیا اور اِس کی قضا اور کفارہ دونوں لازِم ہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۹۹۱)
{۲} جس جگہ روزہ توڑنے سے کفارہ لازِم آتا ہے،اُس میں شرط یہ ہے کہ رات ہی سے روزَئہ رَمَضانُ المُبَارَک کی نیت کی ہو،اگر دِن میں نیت کی اور توڑدیا تو کفارہ لازِم نہیں صرف قضا کافی ہے ۔ (جَوْہَرہ ج ۱ ص ۱۸۰ )
{۳} قے آئی یا بھول کرکھایا یا جماع کیا اور اِن سب صورَتوں میں اِسے معلوم تھا کہ روزہ نہ گیاپھربھی کھالیا تو کفَّارہ لازِم نہیں ۔ (رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۳۱)
{۴} اِحتلام ہوا اور اسے معلوم بھی تھا کہ روزہ نہ گیااِس کے باوجود کھالیا تو کفَّارہ لازِم ہے۔ (اَیضاً)
{۵} اپنا لعاب(یعنی تھوک) تھوک کر چاٹ لیایا دُوسرے کا تھوک نگل لیا تَو کفَّارہ نہیں مگر محبوب (یعنی پیارے) کالذت یا معظم دینی (یعنی بزرگ) کا تَبَرُّک کے طور پرتھوک نگل لیاتو کفارہ لازِم ہے۔(اَیضاًص۴۴۴)خربوزے یا تربوز کا چھلکا کھایا،
اگر خشک ہویا ایسا ہوکہ لوگ اِس کے کھانے سے گھن کرتے ہوں ، تو کفارہ نہیں ،ورنہ ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۲)
{۶}کچے چاول، باجرہ، مسور، مونگ کھائی تو کفارہ لازِم نہیں ، یہی حکم کچے جو کا ہے اور بھنے ہوئے ہوں تو کفارہ لازِم۔(بہار شریعت ج۱ص۹۹۳،عالمگیری ج۱ص۲۰۲)
{۷} سحری کا نوالہ منہ میں تھا کہ صبح صادِق کا وَقت ہوگیا،یا بھول کر کھا رہے تھے ،نوالہ منہ میں تھا کہ یاد آگیا،پھر بھی نگل لیا تو اِن دونوں صورَتوں میں کفارہ واجب اور اگر نوالہ منہ سے نکال کر پھرکھالیاہوتو صرف قضا واجب ہوگی کفارہ نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۰۳)
{۸} باری سے بخار آتا تھا اور آج باری کا دِن تھالہٰذا یہ گمان کرکے کہ بخار آئے گا،روزہ قصداً (یعنی ارادۃً)توڑ دیا تو اِس صورت میں کفارہ ساقط ہے (یعنی کفارے کی ضرورت نہیں صرف قضا کافی ہے)یوں ہی عورت کو معین (یعنی مقررہ) تارِیخ پر حیض آتا تھا اور آج حیض آنے کا دِن تھا اُس نے قصداً روزہ توڑدیا اور حیض نہ آیا توکفارہ ساقط ہوگیا۔ (مگر قضا فرض ہے) (دُرِّ مُختار، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۴۸)
{۹} اگر دو روزے توڑے تو دونوں کیلئے دو کفارے دے اگرچہ پہلے کا اَبھی کفارہ ادا نہ کیا تھا جب کہ دونوں دورَمضان کے ہوں ، اور اگر دونوں روزے ایک ہی رَمضان کے ہوں اور پہلے کا کَفَّارہ نہ ادا کیا ہو تو ایک ہی کَفَّارہ دونوں کیلئے کافی ہے۔ (جَوْہَرہ ج۱ص۱۸۲)
{۱۰}کفارہ لازِم ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ روزہ توڑنے کے بعدکوئی ایسااَمر(یعنی معاملہ) واقِع نہ ہوا ہو جو روزے کے مُنافی(یعنی خلاف۔ الٹ) ہے یا بغیر اختیار ایسااَمر (یعنی معاملہ)نہ پایا گیا ہو جس کی وجہ سے روزہ توڑنے کی رخصت ہوتی، مثلاً عورت کو اُس دن حیض یا نفاس آگیا یا روزہ توڑنے کے بعد اُسی دن میں ایسا بیمار ہوا جس میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے تو کفَّارہ ساقط ہے اور سفر سے ساقط نہ ہو گا کہ یہ اختیا ری اَمر (معاملہ ) ہے۔(اَیضاً ص۱۸۱)
{۱۱} جن صورَتوں میں روزہ توڑنے پر کفّارہ لازِم نہیں ان میں شرط ہے کہ ایک بار ایسا ہوا ہو اور معصیت (یعنی نافرمانی) کا قصد (ارادہ) نہ کیا ہو ورنہ ان میں کفارہ دینا ہوگا۔ (دُرِّمُختار ج ۳ ص ۴۴۰)
تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کے کیا کہنے اورمَدَنی قافلوں کی بھی کیا ہی بات ہے! ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار ملا حظہ ہو۔شالیمار ٹاؤن ( مرکزالاولیا لاہور) کے ایک اسلامی بھائی بے حد بگڑے ہوئے انسان تھے، فلموں ڈراموں کے رسیاہونے کے ساتھ ساتھ جوان لڑکیوں کے ساتھ چھیڑخانیاں ، اوباش نوجوانوں کے ساتھ دوستیاں ، رات گئے تک آوارہ گردیاں وغیرہ ان کے معمولات تھے۔ ان حرکاتِ بد کے باعِث خاندان والے بھی ان سے کتراتے، اپنے گھروں میں ان کی آمد سے گھبراتے نیز اپنی اولاد کو ان کی صحبت سے بچاتے تھے۔ ان کی گناہوں بھری خزاں رسیدہ شام کے صبحِ بہاراں بننے کی سبیل یوں ہوئی کہ دعوت اسلامی والے ایک عاشقِ رسول کی ان پر شفقت بھری نظر پڑ گئی ، انہوں نے نہایت شفقت کے ساتھ اِنفرادی کوشِش کرتے ہوئے انہیں مَدَنی قافلے میں سفر کی رغبت دِلا ئی ، بات ان کے دل میں اتر گئی اور انہوں نے مَدَنی قافلے میں سفر کی سعادت حاصل کی ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کی صحبتوں نے ان کے دل میں نیکیوں کی محبت ڈال دی ۔ گناہوں سے توبہ کا تحفہ اور سنتوں بھرے مَدَنی لباس کا جذبہ ملا، سر پر سبز سبز عمامہ سجا اور سنتوں کے مَدَنی پھول لٹانے میں مشغول ہوگئے۔ جو عزیز و اقربا دیکھ کر کتراتے تھے،اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاب وہ گلے لگاتے ہیں ، پہلے وہ خاندان کے اندر بد ترین تھے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلے کی برکت سے اب عزیز ترین ہو گئے ہیں ۔ ؎
جب تک بکے نہ تھے کوئی تو پوچھتا نہ تھا
تو نے خرید کر مجھے انمول کر دیا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آ پ نے! بری صُحبتوں کا کتنا زبردست نقصان ہوتا ہے۔ بری صحبت میں رہ کر بگڑجانے والے آدَمی پر لوگ تھو تھو کرتے ہیں اور اچھیصُحبتوں کی بھی کیا خوب بَرَکت ہے کہ گناہوں سے بھی بچت ہوتی اور لوگ بھی مَحَبَّت کرتے ہیں ۔ ہمیشہ ایسی صحبت اختیار کرنی چاہئے جس سے عبادت کا شوق اور سنت پر عمل کرنے کا ذوق بڑھے ۔ ہمنشین(یعنی ہم صحبت) ایسا ہو جسے دیکھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ یاد آ جائے، اُس کی باتوں سے نیکیوں کی طرف رغبت بڑھے، دنیا کی مَحَبَّت میں کمی اورفکر آخرت میں زِیادَتی ہو۔ مصاحب(یعنی جس کی صحبت میں رہیں وہ) ایسا ہو کہ اُس کے سبب اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اُس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیمَحَبَّت میں اضافہ ہو۔ غیر سنجیدہ حرکتیں کرنے والوں ،فیشن پر ستو ں اور بے نَمازیوں کی صحبت سے بچنا چاہئے۔ بے نمازیوں کی بابت کئے گئے ایک سوال کے جواب میں میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا:( بے نمازیوں کو) بہ نرمی سمجھائیں ، ترکِ نماز و ترکِ جماعت و ترک مسجد پر قراٰنِ عظیم و احادیث میں جو سخت وعیدیں ہیں بار بار سنائیں جن کے دلوں میں ایمان ہے انھیں ضرور نفع پہنچے گا۔ اللہ تَبارَکَ وَ تَعَالٰی پارہ27 سُوْرَۃُ الْذّٰرِیٰتکی آیت نمبر55میں ارشاد فرماتا ہے:
وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔
اللہ کے کلام واَحکام یا د دلاؤ کہ بیشک ان کا یاد دلانا ایمان والوں کو نفع دے گا ۔ اور جو کسی طرح نہ مانیں اُس پر اگر کسی کا دباؤ ہے اس کے ذَرِیعے سے دباؤ ڈالیں اور یُوں بھی باز نہ آئے تو اس سے سلام و کلام ، میل جول یک لخت(یعنی بالکل) ترک کر دیں ، قَالَ اللہ تَعالٰی(یعنی اللہ تبارَکَ وَ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے):
وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۶۸) (پ۷،الانعام:۶۸)
ترجَمۂ کنزالایمان: اورجو کہیں تجھے شیطان بھلا وے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۶ص۱۹۱، ۱۹۲)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’بے شک دُعازمین وآسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اُس سے کوئی چیز اوپر کی طرف نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودِ پاک نہ پڑھ لو ۔‘‘ (تِرمِذی ج۲ص۲۸حدیث۴۸۶)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جو رَمضان میں ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کے لیے قیام کرے ،تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(مسلم ص۳۸۲حدیث۷۵۹) مُفسِّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّاناس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : تراویح کی پابندی کی برکت سے سارے صغیرہ (یعنی چھوٹے)گناہ معاف ہوجائیں گے کیونکہ گناہ ِکبیرہ(یعنی بڑے گناہ) توبہ سے اور حقوق العباد (اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں توبہ کے ساتھ)حق والے کے معاف کرنے سے معاف ہوتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ص۲۸۸)
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:بے شک اللہ تَبارَک وَ تَعَالٰی نے رَمضان کے روزے تم پر فرض کئے اور میں نے
تمہارے لیے رَمضان کے قیام کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص رَمضان میں روزے رکھے اور ایمان کے ساتھ اورحصولِ ثواب کی نیت سے قیام کرے (یعنی تراویح پڑھے) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے ولادت کے دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔(نَسائی ص ۳۶۹ حدیث ۲۲۰۷)
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّرَمَضانُ الْمبارَک میں جہاں ہمیں بے شمار نعمتیں میسر آتی ہیں انہی میں تراویح کی سنت بھی شامِل ہے اور سنت کی عظمت کے کیا کہنے ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: ’’جس نے میری سنت سیمَحَبَّتکی اُس نے مجھ سیمَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔‘‘ (ابن عساکر ج۹ص۳۴۳)
تراویح سنّتِ مُؤَکَّدَہ ہے اور اس میں کم از کم ایک بار ختم قراٰن بھی سنّتِمُؤَکَّدَہ۔
{۱}ہمارے امامِ اعظم سیِّدُناامام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رَمَضانُ الْمبارَک میں 61 بار قراٰنِ کر یم خَتْم کیا کرتے۔ تیس دن میں ، تیس رات میں اور ایک تراویح میں نیز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے 45 برس عشا کے وُضو سے نمازِ فجر ادا فرمائی۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۶۸۸، ۶۸۹،۶۹۵){۲}ایک روایت کے مطابق امامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے زندگی میں 55 حج کئے اور جس مکان میں وفات پائی اُس میں سات ہزار بار قراٰنِ مجید خَتْم فرمائے تھے۔ (دُرِّمُخْتار ج۱ص۱۲۶، الخیرات الحسان ص ۵۰ ) {۳} میرے آقا ا علیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :’’امامُ الائمہ سیِّدُنا امامِ اعظم (ابو حنیفہ ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تیس برس کامل ہر رات ایک رَکْعت میں قراٰنِ کریمخَتْم کیا ہے۔‘‘ ( فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۷ص۴۷۶) {۴}علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا ہے: سلف صالحین(رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن) میں بعض اَکابر دن رات میں دو خَتْم فرماتے بعض چار بعض آٹھ۔
{۵}میزان الشریعۃ اَز امام عبدُ الوہاب شعرانی (قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی ) میں ہے کہ سیِّدی علی مَرْصَفِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے ایک رات دن میں تین لاکھ ساٹھ ہزارختم فرمائے۔( المیزانُ الشریعۃ الکبرٰی ج۱ص۷۹ ) {۶}آثار میں ہے ، امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰیشیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمبایاں پاؤں رِکاب میں رکھ کر قراٰنِ مجید شروع فرماتے اور دَہنا ( سیدھا)پاؤں رکاب تک نہ پہنچتا کہ کلام شریف ختم ہو جاتا۔( فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۷ ص۷ ۴۷) {۷}بخاری شریف میں فرمانِ مصطَفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے کہ حضرت سیِّدُناداوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاماپنی سواری تیار کرنے کا حکم فرماتے اور اس سے پہلے کہ سواری پر زین کس دی جائے زبورشریف ختم فرما لیتے۔ ( بُخا ری ج ۲ص۴۴۷حدیث۳۴۱۷ملخّصاً )
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہو سکتا ہے کسی کووسوسہ آئے کہ ایک دن میں کئی بار بلکہ لمحہ بھر میں ختم قراٰنِ پاک یا ختم زَبور شریف کیسے ممکن ہے ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ اولیائِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی کرامات اور حضرت سیِّدُنا داوٗدعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکا معجزہ ہے اور معجزہ اور کرامت عادۃً محال ہوتے ہیں یعنی ان کا بطورِ عادت ظاہر ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
افسوس!
آج
کل دینی مُعاملات میں سستی کادَور دورہ ہے،عموماً تراویح میں قراٰنِ
کریم ایک بار بھی صحیح معنوں میں ختم نہیں ہو پاتا۔ قراٰنِ پاک ترتیل کے ساتھ یعنی
ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے، مگر حال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے تواکثر لوگ اُس کے ساتھ
تراویح
پڑھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے!اب وُہی حافظ پسند کیا جاتا ہے
جو
تراویح
سے جلد فارِغ کردے۔ یاد رکھئے ! تر اویح اور
نمازکے علا وہ بھی تلاوت میں حر ف چبا جا نا حرام ہے۔ اگرتراویح میں حافظ
صاحب پورے قراٰنِ کریممیں سے
صرف ایک حرف بھی چبا گئے تو ختم قران کی سنت ادا نہ ہو گی۔بلکہ دورانِ نماز حرف چب جانے کی وجہ سے معنیٰ فاسد ہونے یا مہمل یعنی بے معنیٰ ہو جانے کی صورت میں وہ نماز بھی فاسد ہو جائے گی ۔لہٰذاکسی آیت میں کوئی حرف ’’چب‘‘ گیا یا دُرست ’’مخرج‘‘ سے نہ نکلا اور بدل گیا تو لوگوں سے شرمائے بغیرپلٹ پڑیئے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے ۔ ایک افسو س ناک اَمریہ بھی ہے کہ حفا ظ کی ایک تعداد ایسی ہوتی ہے جسیترتیل کے ساتھ پڑھنا ہی نہیں آتا! تیزی سے نہ پڑ ھیں تو بھو ل جا تے ہیں ! ایسوں کی خد متوں میں ہمدردانہ مشورہ ہے، لوگوں سے نہ شر ما ئیں ،خدا کی قسم! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی بہت بھاری پڑے گی لہٰذا بلا تاخیر تجوید کے ساتھ پڑھانے والے کسی قا ری صاحب کی مدد سے از اِبتدا تا اِنتہااپنا حفظ دُرُست فر ما لیں ۔ مدولین ([15])کا خیا ل رکھنا لا زِمی ہے نیز مد،غنہ، اظہار، اِخفا وغیرہ کی بھی رعایت فرمائیں ۔ صاحبِ بہارِشریعت حضرت صدرُ الشَّریعہ بدرُ الطَّریقہ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرما تے ہیں :’’فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قرا ء َت کرے اور تر اویح میں مُتَوَ سِّط (یعنی درمیانہ) انداز پر اور رات کے نوافل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ’’مد‘‘ کا جو دَرَجہ قا رِیو ں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے۔اس لئے کہ ترتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قراٰن پڑھنے کا حکم ہے ۔ ‘‘ (بہار شریعت ج۱ص۵۴۷،دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۲ص۳۲۰)
پارہ 29 سُوْرَۃُ الْمُزَّمِّلکی چو تھی آیت میں ارشا د ِربّا نی ہے:
وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجَمۂ کنزالایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔
میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِ’’ کمالین علیٰ حاشیہ جلالین‘‘ کے حوالے سے
’’ ترتیل ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں : ’’قراٰنِ مجید اِس طرح آہستہ اور
ٹھہر کر پڑھو کہ سننے والا اِس کی آیات و الفاظ گن سکے۔‘‘
(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۶ ۲۷)نیزفرض نماز میں اس طرح تلاوت کرے کہ جدا جدا ہر حرف سمجھ آئے، تراویح میں مُتَوَسِّط (یعنی درمیانہ )طریقے پر اور رات کے نوافل میں اتنی تیز پڑھ سکتا ہے جسے وہ سمجھ سکے ۔(دُرِّمُختَار ج۲ص۳۲۰) ’’مدارِکُ التَّنْزِیل‘‘ میں ہے: ’’قراٰن کو آہستہ اور ٹھہر کر پڑھو ، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ ،حروف جدا جدا ، وقف کی حفاظت اور تمام حرکات کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،’’ تَرْتِیْلًا ‘‘اس مسئلے میں تاکید پیدا کر رہا ہے کہ یہ بات تلاوت کرنے والے کے لئے نہایت ہی ضَروری ہے۔‘‘
( مدارکُ التّنزیل ص۱۲۹۲، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص۸ ۲۷،۲۷۹) ( ترتیل کے اَحکام جاننے کیلئے فتاوٰی رضویہ جلد6صَفحہ 275تا282کامطالعہ فرمائیے)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
قراٰنِ کریمپڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضروری ہے اگر حافظ اپنی تیزی دکھانے، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کیلئے قراٰنِ کریم پڑھے گا تو ثواب تو دُور کی بات ہے، اُلٹا حب جاہ اور ریاکاری کی تباہ کاری میں جا پڑے گا !اِسی طرح اُجرت کا لین دین بھی نہ ہو، طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے آتے اِسی لئے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو، تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلہ(یعنی اناج) وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت،اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحب نیت کے ساتھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا۔پھر بعد میں حافظ صاحب کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیثِ مبارَک میں ہے: اِنّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات۔ یعنی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ ( بُخاری ج۱ص۶حدیث۱)
میرے آقا اعلٰی حضرت،امامِ اہل سنت مولانا شاہ امام احمدرضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکی بارگاہ میں اُجرت دے کرمیت کے ایصالِ ثواب کیلئے خَتْمِ قرٰان و ذِکرُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کروانے سیمُتَعَلِّق جب اِستفتا پیش ہوا تو جوا باً ارشاد فرمایا: ’’ تلاوتِ قراٰن وذکرِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پر اُجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے دینے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں ) کو بھیجیں گے؟گناہ پر ثواب کی اُمید اور زیادہ سخت واَشد(یعنی شدید ترین جرم) ہے۔اگر لوگ چاہیں کہ ایصالِ ثواب بھی ہو اور طریقۂ جائزہ شرعیہ بھی حاصل ہو (یعنی شرعاً جائز بھی رہے) تو اِس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اُتنی دیر کی ہرشخص کی مُعَیَّن(مقرر) کردیں ۔مَثَلاً پڑھوانے والا کہے: ’’میں نے تجھے آج فلاں وَقت سے فلاں وَقت کیلئے اِ س اُجرت پر نوکر رکھا (کہ)جو کام چاہوں گا لوں گا۔‘‘وہ کہے : ’’میں نے قبول کیا۔‘‘اب وہ اُتنی دیر کے واسطے اَجیر(یعنی ملازِم) ہوگیا، جو کام چاہے لے سکتا ہے اس کے بعد اُس سے کہے فلاں مَیت کے لئے اِتنا قراٰنِ عظیم یا اِس قدر کلِمۂ طیبہ یا دُرُود پاک پڑھ دو۔ یہ صورت جواز (یعنی جائز ہونے) کی ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ص۵۳۷)
اِ س مبارَک فتوے کی روشنی میں تراویح کیلئے حافظ صاحب کی بھی ترکیب ہوسکتی ہے ۔ مَثَلاً مسجد کمیٹی والے اُجرت طے کرکے حافظ صاحب کو ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں نماز عشا کیلئے امامت پر رکھ لیں اور حافظ صاحب بِالتَّبَع یعنی ساتھ ہی ساتھ تراویح بھی پڑھا دیا کریں کیوں کہ رَمَضانُ المبارَک میں تراویح بھی نمازِ عشا کے ساتھ ہی شامل ہوتی ہے۔ یا یوں کریں کہ ماہِ رَمَضان المبارَک میں روزانہ دویا تین گھنٹے کیلئے( مَثَلاًرات8تا11) حافظ صاحب کو نوکری کی آفر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم جو کام دیں گے وہ کرنا ہوگا،تنخواہ کی رقم بھی بتادیں ، اگر حافظ صاحب منظور فرمالیں گے تووہ ملازم ہو گئے ۔
اب روزانہ حافظ صاحب کی ان تین گھنٹوں کے اندر ڈیوٹی لگادیں کہ وہ تراویح پڑھادیاکریں ۔ یادرکھئے! چاہے امامت ہو یا مؤَذِّنی ہو یا کسی قسم کی مَزدوری جس کا م کیلئے بھی اِجارہ کرتے وقت یہ معلوم ہو کہ یہاں اُجرت یاتنخواہ کا لین دَین یقینی ہے توپہلے سے رقم طے کرنا واجِب ہے،ورنہ دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہوں گے۔ ہاں جہاں پہلے ہی سے اُجرت کی مقررہ رقم معلوم ہومَثَلاًبس کاکرایہ،یابازارمیں بوری لادنے ، لے جانے کی فی بوری مزدوری کی رقم وغیرہ۔ تواب باربارطے کرنے کی حاجت نہیں ۔یہ بھی ذِہن میں رکھئے کہ جب حافظ صاحب کو (یاجس کوبھی جس کام کیلئے) نوکر رکھا اُس وقت یہ کہہ دینا جائز نہیں کہ ہم جو مناسب ہوگا دے دیں گے یا آپ کو راضی کر دیں گے ،بلکہ صَراحَۃً یعنی واضح طورپر رقم کی مقدار بتانی ہوگی، مَثَلاًہم آپ کو12ہزار روپے پیش کریں گے اور یہ بھی ضروری ہے کہ حافظ صاحب بھی منظور فرمالیں۔اب بارہ ہزاردینے ہی ہوں گے۔ یاد رہے! مسجد کے چندے سے دی جانے والی اُجرت وہاں کے عرف سے زائد نہیں ہونی چاہئے ، پہلے سے موجود امام صاحب دل برداشتہ نہ ہوں اِس کا بھی خیال رکھا جائے، پورے ماہِ رَمضان میں نَمازِ عشا کی امامت کی چھٹی کے سبب امام صاحب کو مسجد کے چندے سے اُس ماہ کی عشا کی نمازوں کی تنخواہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسی طرح کا عرف یعنی معمول جاری ہے۔ہاں حافظ صاحب کومطالبے کے بغیر اپنی مرضی سے طے شدہ سے زائد مسجد کے چندے سے نہیں بلکہ اپنے پلے سے یا اسی مقصد کے لیے جمع کی ہوئی رقم دے دیں تب بھی جائز ہے۔جو حافظ صاحبان ،یانعت خوان بغیر پیسوں کے تراویح ، قراٰن خوانی یا نعت خوانی میں حصہ نہیں لے سکتے وہ شرم کی وجہ سے ناجائز کام کا ارتکاب نہ کریں۔میرے آقااعلٰی حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کرکے پا ک روزی حاصل کریں ۔اور اگر سخت مجبوری نہ ہو تو حیلے کے ذَرِیعے بھی رقم حاصِل کرنے سے گریز کریں کہ جس کاعمل ہوبے غرض اُس کی جزاکچھ اور ہے ۔ ایک امتحان سخت امتحان یہ ہے کہ جو رقم قبول نہیں کرتااُس کی کافی واہ !واہ! ہوتی ہے۔یہاں اپنے آپ کو حب جاہ اور ریاکاری سے بچاناضروری ہے، بلا حاجت دوسروں سے تذکرہ کرنے
سے بچنا اور دعائے اخلاص کرتے رہنا ایسے مواقع پر مفید ہوتا ہے۔ ؎
مرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اخلاص ایسا عطا یاالٰہی (وسائل بخشش ص۱۰۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جہاں تراویح میں ایک بار قراٰنِ پاک کی تلاوت کی جائے وہاں بہتر یہ ہے کہ ستائیسویں شب کو ختم کریں ، رقت و سوز کے ساتھ اِختتام ہو اور یہ اِحساس دل کو تڑپا کر رکھ دے کہ میں نے صحیح معنوں میں قراٰنِ پاک پڑھا یاسنا نہیں ،کوتاہیاں بھی ہوئیں ،دل جمعی بھی نہ رہی،اِخلاص میں بھی کمی تھی۔ صد ہزار افسوس !دُنیوی شخصیت کا کلام تو توجہ کے ساتھ سنا جاتا ہے مگر سب کے خالق و مالک اپنے پیارے پیا رے اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کا پاکیزہ کلام دھیان سے نہ سنا،ساتھ ہی یہ بھی غم ہو کہ افسوس ! اب ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک چند گھڑیوں کا مہمان رَہ گیا ،نہ جانے آیند ہ سال اس کی تشریف آوَری کے وَقت اس کی بہاریں لوٹنے کیلئے میں زندہ رہوں گایا نہیں !اِس طرح کے تصورات جما کر اپنی غفلتوں پر خود کو شرمندہ کرے اور ہوسکے تو روئے اگر رونا نہ آئے تو رونے کی سی صورت بنائے کہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہے،اگر کسی کی آنکھ سیمَحَبَّتِ قراٰن و فراقِ رَمضان میں ایک آدھ قطرہ آنسو ٹپک کر مقبولِ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہو گیا تو کیا بعید کہ اُسی کے صدقے خدائے غفار عَزَّوَجَلَّ سبھی حاضرین کو بخش دے۔
لاج رکھ لے گناہ گاروں کی نام ر حمٰن ہے تِرا یارب!
عیب میرے نہ کھول محشر میں نام ستار ہے تِرا یارب!
بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل نام غفار ہے تِرا یارب!
تو کریم اور کریم بھی ایسا!
کہ نہیں جس کا دوسرا یارب! (ذوقِ نعت)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود بھی تراویح ادا فرمائی اور اسے خوب پسند بھی فرمایا، چنانچہ صاحب قراٰن، مدینے کے سلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: ’’جو ایمان و طلبِ ثواب کے سبب سے رَمضان میں قیام کرے اُس کے پچھلے گناہ(یعنی صغیرہ گناہ) بخش دیئے جائیں گے۔‘‘([16]) پھر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس اندیشے کی وجہ سے ترک فرمائی کہ کہیں امّت پر (تراویح)فرض نہ کر دی جائے([17]) ۔ ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے : امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (اپنے دورِ خِلافت میں ) ماہِ رَمَضان المُبَارَککی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جدا جدا انداز پر (تراویح) اداکر رہے ہیں ، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقتدا میں پڑھ رہے ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں ۔ لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سیّد نا اُبَی بِن کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوسب کا امام بنا دیا، پھر جب دوسری رات تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ باجماعت (تراویح) ادا کر رہے ہیں ( توبہت خوش ہوئے اور) فرمایا: نِعْمَ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ۔ یعنی’’ یہ اچّھی بدعت ہے۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۱۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! محبوبِ ر بِّ ذُوالجلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہمارا کتنا خیال ہے ! محض اِس خوف سیجماعتِ تراویح پر ہمیشگی نہ فرمائی کہ کہیں اُمّت پر فرض نہ کر دی جائے۔ اِس حدیثِ پاک سے بعض وَساوِس کا علا ج بھی ہو گیا۔مثَلاً تراویح کی باقاعدہ جماعت سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی جاری فرما سکتے تھے مگر نہ فرمائی اور یوں اسلام میں اچھے اچھے طریقے رائج کرنے کا اپنے غلاموں کو موقع فراہم کیا ۔ جو کام شاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہیں کیا وہ کام سیّدُِنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے محض اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ سرکارِ عالمِ مدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تا قِیا مت ایسے اچھے اچھے کام جاری کرتے رہنے کی اپنی حیاتِ ظاہِری میں ہی اجازت مَرحمت فرمادی تھی۔چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اس کا ثواب ملے گااور اُس کا بھی جو (لوگ) اِس کے بعداُس پر عمل کریں گے اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں برا طریقہ جار ی کرے اُس پر اِس کا گناہ بھی ہے اور ان (لوگوں ) کا بھی جو اِس کے بعد اِس پر عمل کریں اور اُن کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔‘‘ ( مُسلم ص۵۰۸حدیث۱۰۱۷)
اِس حدیثِ مبارَک سے معلو م ہوا، قیامت تک اسلام میں اچھے اچھے نئے طریقے جاری کرنے کی اجازت ہے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّنکالے بھی جار ہے ہیں جیسا کہ {۱} امیرُ الْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کا اہتمام کیا اور اس کو خود ’’اچھی بدعت‘‘ بھی قرار دیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وِصال ظاہری کے بعد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی جونیا اچھا کام جاری کریں وہ بھی بدعت حَسَنہ کہلاتا ہے {۲}مسجِد میں امام کیلئے طاق نما محراب نہیں ہوتی تھی سب سے پہلے حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےمسجدُ النَّبَوِی الشّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں محراب بنانے کی سعادت حاصل کی اِس نئی ایجاد( بد عتِ حَسَنہ) کو اس قدر مقبولیت حاصل ہے کہ اب دنیابھر میں مسجد کی پہچان اِسی سے ہے {۳}اِسی طرح مساجِد پر گنبدومینار بنانابھی بعدکی ایجادہے،یہاں تک کہ مسجد الحرام کے مَنارے بھی سرکارمدینہ و صحابۂ کرام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے دَور میں نہیں تھے {۴} ایمانِ مفصل {۵} ایمانِ مُجْمَل {۶} چھ کلمے اور ان کی
تعداد و ترکیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا اور ان کے نام {۷}قراٰنِ کریم کے تیس پارے بنانا،اِعراب لگانا، ان میں رُکوع بنانا،رُموزِ اَوقاَف کی علامات لگانا۔ بلکہ نقطے بھی بعدمیں لگائے گئے،خوبصورت جِلدیں چھاپنا وغیرہ {۸}احادیثِ مبارَکہ کو کتابی شکل دینا،اس کی اَسناد پر جرح کرنا،ان کی صحیح ، حسن، ضعیف اور موضوع وغیرہ اَقسام بنانا {۹} فقہ ، اُصولِ فقہ و علم کلام {۱۰}زکٰوۃ و فطر ہ سکۂ رائج الْوقت بلکہ با تصویر نوٹوں سے ادا کرنا {۱۱} اونٹوں وغیرہ کے بجائے سفینے یاہوائی جہازکے ذَرِیعے سفر حج کرنا {۱۲} شریعت و طریقت کے چاروں سلسلے یعنی حنفی ، شافعی، مالکی ، حنبلی اسی طرح قادِری، نقشبندی، سہروردی اور چشتی۔
ہوسکتا ہے کہ کسی کے ذِہن میں یہ سُوال پیدا ہو کہ ان دو احادیث مبارکہ (۱)کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار ۔ یعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) (۲)شَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلالۃ یعنی بدترین کام نئے طریقے ہیں ہر بدعت (نئی بات)گمراہی ہے۔ (مسلم ص۴۳۰ حدیث۸۶۷)کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں احادیثِ مبارَکہ حق ہیں ۔ یہاں بدعت سے مراد بدعتِ سَیِّـَٔہ (سَیْ۔یِ۔ئَ ہْ) یعنی بری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بری ہے جو کسی سنت کے خلاف یا سنت کو مٹانے والی ہو۔جیسا کہ دیگر احادیثِ مقدسہ میں اس مسئلے کی وضاحت موجود ہے، چنانچہ ہمارے پیارے پیار ے آقا، مکی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ہروہ گمراہ کرنے والی بدعت جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی نہ ہو، تو اُس گمراہی والی بدعت کو جاری کرنے والے پر اُس بدعت پر عمل کرنے والوں کی مثل گناہ ہے، اُسے گناہ مل جانا لوگوں کے گناہوں میں کمی نہیں کرے گا۔‘‘( تِرمذی ج ۴ ص۳۰۹ حدیث۲۶۸۶) بخاری شریف میں فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: ’’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ہَذَا مَا لَیْسَ فِیْہِ فَہُوَ رَد۔‘‘ (بخاری ج۲ص۲۱۱حدیث ۲۶۹۷) یعنی ’’جو ہمارے دین میں ایسی نئی
بات نکالے جو اُس(کی اصل) میں سے نہ ہو وہ مردود ہے۔‘‘ ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا ایسی نئی بات جو سنت سے دُور کرکے گمراہ کرنے والی ہو، جس کی اَصْل دین میں نہ ہووہ بدعتِ سَیِّـَٔہ یعنی بری بدعت ہے، جبکہ دین میں ایسی نئی بات جو سنت پر عمل کرنے میں مدد کرنے والی ہو یا جس کی اصل دین سے ثابت ہو وہ بدعت ِحسنہ یعنی اچھی بدعت ہے ۔
حضرتِ سیِّدُ نا شیخ عبدالحق محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیحدیثِ پاک،’’ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار‘‘ کے تحت فرماتے ہیں :جو بدعت اُصول اور قواعد سنت کے موافق اور اُس کے مطابق قیاس کی ہوئی ہے ( یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔(اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج۱ص۱۳۵)
اچھی اور بری بدعات کی تقسیم ضروری ہے کیوں کہ کئی اچھی اچھی بدعتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کو صرف اس لئے ترک کر دیا جائے کہ قرونِ ثلاثہ یعنی (۱) شاہِ خیر الانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان (۲) تابعینِ عظام اور(۳)تبع تابعینِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے اَدوارِ پر انوارمیں نہیں تھیں ،تو دین کا موجود ہ نظام ہی نہ چل سکے، جیسا کہ دینی مدارِس ، ان میں درسِ نظامی،قراٰن و احادیث اور اسلامی کتابوں کی پریس میں چھپائی وغیرہ وغیرہ یہ تمام کام پہلے نہ تھے بعدمیں جاری ہوئے اور بدعت حسنہ میں شا مل ہیں ۔ربِّ مجیب عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یقینا یہ سارے اچھے اچھے کام اپنی حیاتِ ظاہری میں بھی ر ائج فرما سکتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غلاموں کے لئے ثوابِ جاریہ کمانے کے بے شمار مواقع فراہم کر دئیے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں نے صَدَقۂِ جارِیہ کی خاطر جو شریعت سے نہیں ٹکراتی ہیں ایسی نئی ایجادوں کی دھوم مچا دی۔ کسی نے اذان سے پہلے دُرُو د و سلا م پڑھنے کا رَواج ڈالا ، کسی نے عید میلاد النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منانے کا طریقہ نکالا پھر اس میں چراغاں اور سبز سبز پرچموں اور مرحبا کی دھومیں مچاتے جلوسِ میلاد کا سلسلہ ہوا،کسی نے گیارھویں شریف تو کسی
نے اَعراسِ بزرگانِ دین رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِینکی بنیاد رکھ دی اور اب بھی یہ سلسلے جاری ہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی والوں نے سنتو ں بھرے اجتماعات وغیرہ میں اُذْکُرُوا اللّٰہ! (یعنی اللہ کا ذِکْر کرو!) اور صلُّوا علَی الْحبیب! (یعنی حبیب پر دُرود بھیجو !) کے نعرے لگانے کی بالکل نئی ترکیب نکال کر اللہ اللہ اور دُرُود و سلام کی پرکیف صداؤں کا حسین سماں قائم کر دیا ! اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تری دھوم مچی ہو (وسائل بخشش ص۳۱۵)
سبز سبز گنبد جس کے دیدار کے لئے ہر عا شق کا دل بے قرارہوتااور آنکھ اشک بارہوجایا کرتی ہے یہ بھی بدعتِ حسنہ ہے کیوں کہ وہ سرکا رِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصا لِ ظاہری کے سینکڑوں برس بعد بنا ہے، اس کی مختصر اً معلو مات بھی حا صِل کر لیجئے :
سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے روضۂ انور پر سب سے پہلا گنبد شریف ۶۷۸ ھ (1269ء) میں تعمیر ہوا اور اس پر زَرد(یعنی پیلا) رنگ کروایا گیا۔ پھر مختلف اَدوار میں تَغَیُّرو تَبَدُّل ہو تا رہا یہاں تک کہ ۸۸۸ ھ (1483ء) میں کالے پتھر سے نیا گنبد بنایا گیا اور اس پر سفید رنگ کروایا گیا، ۹۸۰ ھ (1572ء) میں انتہائی حسین گنبد بنایا گیا اور اُس کو رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا۔ ۱۲۳۳ ھ (1818ء) میں از سر نواس کی تعمیر کی گئی۔ 1253ھ مطابق 1837ء میں اِسے سبز رنگ کردیا گیا۔ جواَلْقُبَّۃُ الْخَضْراء یعنی سبز گنبدکے نام سے مشہور ہوا۔اس کے بعد اب تک کسی نے اس میں ردو بدل نہیں کیا۔ ہاں سبز رنگ کو یہ سعادت ملتی رہتی ہے کہ وہ خدام کے ہاتھوں اُوپرپہنچ کر لِپَٹجاتا ہے ۔ گنبدخضرا جو کہ یقیناقطعاً بدعتِ حسنہ ہے وہ اب دنیا بھر کے مسلمانوں کا مرجع ، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹاسکتی،جو اس کو عناداً(یعنی بغض کی وجہ سے) مٹانا چاہے گااِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّخود ہی مِٹ جائے گا۔
گنبد خضرا! خدا تجھ کو سلامت رکھے
دیکھ لیتے ہیں تجھے پیاس بجھا لیتے ہیں
اِن جیسے تمام نوایجاد نیک کاموں کی بنیاد وُہی حدیثِ پاک ہے جومسلم شریف کے حوالے سے ،صفحہ168 پر گزری جس میں فرمایا گیا ہے:’’جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اُس کو اِس کا ثواب ملے گا اور اُس کا بھی جواِس کے بعد اس پر عمل کریں ۔‘‘([18])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عقائد و اعمال کی اصلاح اور ضروری معلومات کے حصول کی خاطر تبلیغ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں سفر کو اپنا معمول بنا لیجئے ۔ اس کی ایک ایمان افروزمَدَنی بہار سنئے اور جھومئے چُنانچِہ دعوت اسلامی کے تین روزہ بینَ الاقوامی سنتوں بھرے اجتماع (ملتان شریف) کے اختتام پر آگرہ تاج کالونی ( بابُ المدینہ کراچی) کا ایک مَدَنی قافلہ سفر کرتا ہوا ترکیب کے مطابق ایک مسجِد میں قیام پذیر ہوا ۔ شب کو جب سب سو گئے تو مَدَنی قافلے میں شریک ایک نئے اسلامی بھائی کی قسمت انگڑائی لے کرجاگ اٹھی اور ان کو خواب میں مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیدار ہو گیا !وہ بہت خوش ہوئے ، دعوت اسلامی کی حقانیت کے دل و جان سے معترف ہو کر مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو گئے۔
کوئی آیا پا کے چلا گیا کوئی عمر بھر بھی نہ پا سکا
مرے مولیٰ تجھ سے گلہ نہیں یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! عاشقانِ رسول کے مَدَنی قافلے کی برکت سے ایک خوش قسمت اسلامی بھائی کو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہو گئی۔ مَدَنی قافلے میں سفر کرنے والے خوش نصیبوں کو اچھوں کی صحبت اور نیک بندوں سے مَحَبَّت کرنے کا بہترین موقع نصیب ہو جاتا ہے۔ رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کیلئے اچھوں سے مَحَبَّت رکھنے کے آٹھ فضائل سنئے اور جھومئے:
{1} اللہ تَعَالٰی قیامت کے دن فرمائے گا: کہاں ہیں جو میرے جلال کی وجہ سے آپس میں مَحَبَّت رکھتے تھے!آج میں اُن کو اپنے سائے میں رکھوں گا، آج میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ([19]){2} اللہ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے:جو لوگ میری وجہ سے آپس میں مَحَبَّت رکھتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور آپس میں ملتے جُلتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں اُن سے میری مَحَبَّتواجب ہوگئی([20]){3} اللہ تَعَالٰی نے فرمایا: جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپس میں مَحَبَّترکھتے ہیں اُن کیلئے نور کے منبر ہونگے، انبیا وشہدا اُن پر غبطہ( یعنی رشک ) کریں گے([21]){4}دو شخصوں نے اللہ کے لئے باہم مَحَبَّت کی اور ایک مشرق میں ہے دوسرا مغرب میں ، قیامت کے دن اللہ تَعَالٰی دونوں کو جمع کر ے گا اور فرما ئے گا:یہی وہ ہے جس سے تو نے میرے لیے مَحَبَّت کی تھی([22]){ 5} جنت میں یاقوت کے ستون ہیں ، اُن پر زَبرجد کے بالا خانے ہیں ، ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ، وہ ایسے روشن ہیں جیسے چمکدار ستارے۔ لوگوں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ان میں کون رہے گا؟ فرمایا: ’’وہ لوگ جو اللہ کے لئے آپَس میں مَحَبَّت
رکھتے ہیں ، ایک جگہ بیٹھتے ہیں ، آپس میں ملتے ہیں ‘‘([23]){6} اللہ کیلئے مَحَبَّت رکھنے والے عرش کے گِرد یا قوت کی کرسیوں پر ہوں گے([24]){7} جو کسی سے اللہ کے لیے مَحَبَّت رکھے اور اللہ کے لیے دشمنی رکھے اور اللہ کے لیے دے اور اللہ کے لیے منع کرے اُ س نے اپنا ایمان کامل کر لیا([25]){8} دو شخص جب اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے لیے باہم مَحَبَّت رکھتے ہیں ، اُن کے درمیان میں جدائی اُس وَقت ہوتی ہے کہ ان میں سے ایک نے کوئی گناہ کیا۔([26]) یعنی اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے لیے جومَحَبَّت ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اگر ایک نے گناہ کیا تو دوسرا اس سے جدا ہو جائے۔ (تفصیلی معلومات کیلئے پڑھئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعتجلد3صَفحَہ576 تا579 )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱}تراویح ہر عاقِل و بالغ اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کیلئے سنَّت ِمُؤَکَّدہ ہے۔ (دُرِّ مُخْتارج ۲ص۵۹۶) اس کا تَرْک جائز نہیں ۔ (بہار شریعت ج۱ص۶۸۸)
{۲}تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ہیں ۔سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں بیس رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔ (السُّنَن ُالکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷)
{۳}تراویح کی جماعت سنّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہہے، اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اِسائَ ت کے مرتکب ہوئے (یعنی بُرا کیا)اور اگرچند افراد نے با جماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا۔ (ہِدایہ ج۱ص۷۰)
{۴}تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادِق تک ہے۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۱۵ )
{۵} وترکے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۵۹۷) جیساکہ بعض اوقات 29 کو رویت ہلا ل کی شہادت (یعنی چاند نظر آنے کی گواہی) ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔
{۶}مُستَحَب یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کریں ، اگر آدھی رات کے بعد پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ۔ (لیکن عشا کے فرض اتنے مؤخّر (Late) نہ کئے جائیں ) (اَیضاًص۵۹۸)
{۷}تراویح اگر فوت ہو ئی تو اس کی قضا نہیں ۔ (اَیضاً)
{۸}بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس رَکْعَتَیں دو دو کر کے دس سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔ (اَیضاص۵۹۹)
{۹}تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ایک سلام کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں ، مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی)ہے۔(اَیضاً)ہر دو رَکعت پر قعدہ کرنافرض ہے،ہرقعدے میں اَلتَّحِیَّاتُکے بعد دُرُود شریف بھی پڑھے اور طاق رَکعت (یعنی پہلی ، تیسری،پانچویں وغیرہ) میں ثَنا پڑھے اور امام تعوذو تَسْمِیہبھی پڑھے ۔
{۱۰}جب دو دو رَکعت کر کے پڑ ھ رہا ہے تو ہر دو رَکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگر بیس رَکْعَتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۲ص۵۹۷)
{۱۱}بلاعذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نز د یک تو ہوتی ہی نہیں ۔ (دُرِّمُختار ج۲ص۶۰۳)
{۱۲}تراویح مسجِدمیں باجماعت ادا کرنا افضل ہے،اگر گھر میں باجماعت ادا کی توترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا۔(عالمگیری ج۱ص۱۱۶) عشا کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کرکے پھر گھر
یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِشرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترک واجب کے گناہ گار ہوں گے ۔ اس کا تفصیلی مسئلہ فیضان سنت (جلد اوّل)کے باب ’’پیٹ کا قفل مدینہ‘‘ صفحہ135 پر ملاحَظہ فرمالیجئے۔
{۱۳}نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔
{۱۴}بالِغکی تراویح( بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی۔
{۱۵}تراویح میں پورا کلامُ اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنَّتِمُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تراویح میں ختم قراٰن کا اہتما م کرلیا تو بقیہ علاقے والوں کیلئے کفایت کرے گا۔’’فتاوٰی رضویہ ‘‘ جلد10 صفحہ334 پر ہے: قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْ دَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے۔ اورصفحہ335 پرہے:خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے۔
{۱۶}اگر با شرائط حافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجئے اگر چاہیں تو اَلَمْ تَرَسے وَالنَّاس دو بار پڑھ لیجئے، اِس طرح بیس رَکْعَتَیں یا د رکھنا آسان رہے گا۔ (ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
{۱۷}ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط جَہر کے ساتھ( یعنی اُونچی آواز سے ) پڑھنا سنت ہے اور ہرسورت کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُستَحَب ہے۔ مُتَأَخِّرین (یعنی بعد میں آنے والے فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام )نے ختم تراویح میں تین بار قُل ھُوَ اللہ شریف پڑھنا مُسْتَحَب کہا نیز بہتریہ ہے کہ ختم کے دن پچھلی رَکعت میں الٓمّٓۚ(۱)سے مُفْلِحُوْن تک پڑھے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۴،۶۹۵)
{۱۸}اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قراٰنِ پاک اُن رَکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اِعادہ
کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
{۱۹}امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے۔ (اَیضاً)
{۲۰}الگ الگ مسجِد میں تراویح پڑھ سکتاہے جبکہ ختم قراٰن میں نقصا ن نہ ہو، مَثَلاًتین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روزسوا پارہ پڑھا جا تا ہے تو تینوں میں روزانہ باری باری جا سکتا ہے۔
{۲۱}دو رَکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جا ئے، آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔اور اگر تیسری کاسجدہ کر لیا توچارپوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ہاں دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔ (اَیضاً)
{۲۲}تین رَکْعَتَیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رَکْعَتَیں دوبارہ پڑھے۔ (اَیضاً)
{۲۳}سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہو اُس کا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب(یعنی شک و شبہ) کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اُس کی بات مان لے (اَیضاًص۱۱۷)
{۲۴} اگرلوگوں کوشک ہوکہ بیس ہوئیں یااٹھارہ؟تودورَکْعَت تنہا تنہا پڑھیں ۔ (اَیضاً)
{۲۵}افضل یہ ہے کہ تمام شفعوں میں قرائَ ت برابر ہو اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں ،اِسی طرح ہر شفع (کہ دو رکعت پر مشتمل ہوتا ہے اس ) کی پہلی اور دوسری رَکعت کی قرائَ ت مساوی (یعنی یکساں ) ہو، دوسری کی قرائَ ت پہلی سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ (اَیضاً)
{۲۶}امام و مقتدی ہر دو رَکعت کی پہلی میں ثنا پڑھیں (امام اَعُوْذ اور بِسْمِ اللّٰہبھی پڑھے ) اور اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُودِابراہیم اور دعابھی۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)
{۲۷}اگر مقتدیوں پر گِرانی(دشواری) ہوتی ہو توتشہدکے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍوَّاٰلِہٖ پر اکتفاکرے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰،دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)
{۲۸}اگر ستائیسویں کویا اس سے قبل قراٰنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخرِ رَمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۸)
{۲۹}ہر چاررَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ ہے جتنی دیر میں چاررَکعات پڑھی ہیں ۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰، عالمگیری ج۱ص۱۱۵)
{۳۰} اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار رَکعتیں تنہا نفل پڑھے (دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰،بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰) یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں :
سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ
{۳۱}بیس رَکْعَتَیں ہو چکنے کے بعدپانچواں ترویحہ بھی مُسْتَحَب ہے،اگر لوگوں پر گراں ہو تو پانچویں بار نہ بیٹھے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۵)
{۳۲}مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام رکوع کرنے والا ہو تو کھڑا ہو جائے، یہ مُنافقین سے مشابہت ہے۔سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے: وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ (ترجَمۂ کنزالایمان: اور (منافِق ) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے) (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳، غُنیہ ص۴۱۰) فرض کی جماعت میں بھی اگر امام
رُکوع سے اُٹھ گیا توسجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُس کے کھڑے ہونے کاانتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں شامل ہو گئے اور امام کھڑا ہو گیا تو اَلتَّحِیَّاتُُپوری کئے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔
{۳۳}رَمضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے،مگر جس نے عشا کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۲،۶۹۳ مُلَخَّصاً )
{۳۴} یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا و وِتر پڑھائے اور دوسرا تراویح ۔
{۳۵}حضرت سیّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرض و وِتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرتِ سیِّدُنا اُبَیِّ بِنْ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تراویح پڑھاتے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۱۶)
اے ہمارے پیارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں نیک ،مخلص اور دُرُست قراٰنِ کریم پڑھنے والے حافظ صاحب کے پیچھے خشوع وخضوع کے ساتھ تراویح ادا کرنے کی سعادت نصیب کر اور قَبول بھی فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کابے حد کرم ہے۔ بارہا سننے میں آیا کہ ڈاکٹروں نے جن مریضوں کو لا علاج قرار دے دیا ان کا مَدَنی قافلوں میں خیر سے علاج ہوگیا! چنانچہ ماڑی پور (بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی نے ایک ایمان افروز مدنی بہار لکھ کر دی جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے: ہاکس بے ( بابُ المدینہ کراچی) کے مقیم ایک اسلامی بھائی جو کہ کینسر کے مریض تھے، انہوں نے تبلیغ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی
تحریک، دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سفرکی سعادت حاصِل کی۔ دورانِ سفر بے چارے کافی سہمے ہوئے اور مایوس سے تھے ۔شرکائے قافلہ ڈھارس بندھاتے اور ان کیلئے دعائیں بھی فرماتے ۔ ایک دن صبح کے وقت بیٹھے بیٹھے اچانک انہیں قے ہوئی اور اُس میں ایک گوشت کی بوٹی حلق سے نکل پڑی!قے کے بعد اُن کو کافی سکون مل گیا ۔ مَدَنی قافلے سے واپسی پر جب ڈاکٹروں سے رُجوع کیا اور دوبارہ ٹیسٹ کروائے تو حیرت بالائے حیرت کہ مَدَنی قافلے میں سفر کی برکت سے اُن کا کینسر کا مرض ختم ہو چکا تھا۔
اَلسر اور کینسر اب، یا ہو دردِ کمر چلئے ہمت کریں ، قافِلے میں چلو
دور بیماریاں ، اور پریشانیاں ہوں گی بس چل پڑیں ، قافلے میں چلو (وسائل بخشش ص۶۷۷)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تُوبُوااِلیَ اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: ’’جس نے مجھ پر دن میں ایک ہزار مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا ،وہ مرے گا نہیں جب تک جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لے۔‘‘ (التَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج ۲ ص ۳۲۸ حدیث ۲۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! لَیْلَۃُ الْقَدْر انتہائی بَرَکت والی رات ہے اِس کو لَیْلَۃُالْقَدْر اِس لئے کہتے ہیں کہ اِس میں سال بھر کے اَحکام نافذ کئے جاتے ہیں اور فرشتوں کو سال بھر کے کاموں اور خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں پرشرافت وقدر کے باعث اس کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں نیک اَعمال مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی قَدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں ۔(تفسیر خازن ج ۴ص ۴۷۳)اور بھی مُتَعَدِّد شر افتیں اِس مبارَک رات کو حاصِل ہیں ۔
بخاری شریف میں ہے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: ’’ جس نے لَیْلَۃُ الْقَدْر میں ایمان اور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز پڑھی) تو اُس کے گزشتہ(صغیرہ) گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۶۰حدیث۲۰۱۴)
اِس مقدس رات کو ہرگز ہرگز غفلت میں نہیں گزارنا چاہئے،اِس رات عبادت کرنے والے کو ایک ہزار ماہ یعنی تراسی سال چار ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب عطا کیا جاتا ہے اور اِس ’’زیادہ ‘‘ کا علم اللہ عَزَّ وَجَلَّ جانے یا اُس کے بتائے سے اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم جانیں کہ کتنا ہے۔اِس رات میں حضرتِ سَیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَاماور فرشتے نازِل ہوتے ہیں اور پھر عبادت کرنے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں ۔ اِس مبارَک شب کا ہر ایک لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے اور یہ سلامتی صبحِ صادِق تک برقرار رہتی ہے۔یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خاص الخاص کرم ہے کہ یہ عظیم رات صرف اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے صدقے میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت کو عطا کی گئی ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲)لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳) تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ(۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵) (پ۳۰،سورۃُ القدر)
ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔ بے شک ہم نے اسے شبِ قَدر میں اُتارا اورتم نے کیا جانا، کیا شبِ قدر؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اِس میں فرشتے اور جبریل اُترتے ہیں اپنے رب کے حُکم سے، ہرکام کیلئے ، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔
مفسرین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی سُوْرَۃُ الْقَدْر کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’اِس رات میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قراٰنِ کریم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازِل فرمایا اور پھر تقریباً 23 برس کی مُدَّت میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر اسے بتدرِیج نازِل کیا۔‘‘ ( تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۳۹۸)
نَبِیِّ مُعَظَّم، رَسُولِ مُحتَرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تَعَالٰی نے میری امت کو شب قدر
عطا کی اور یہ رات تم سے پہلے کسی امت کو عطا نہیں فرمائی۔ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۱ص۱۷۳حدیث۶۴۷)
حضرتِ سیِّدُنا امام مجاہد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَاحِد فرماتے ہیں : بنی اسرائیل کا ایک شخص ساری رات عبادت کرتا اور سارا دن جہاد میں مصروف رہتا تھا اور اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے ،تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ مبارَکہ نازِل فرمائی : ’’ لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ‘‘ (ترجَمۂ کنز الایمان :شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر) یعنی شب ِ قدر کا قیام اس عابد(یعنی عبادت گزار) کی ایک ہزارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ (تَفسیرِ طَبَری ج ۲۴ ص ۵۳۳)
اور’’ تفسیرعزیزی‘‘ میں ہے:حضراتِ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے جب حضرتِ شمعون رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی عبادات وجہاد کا تذکرہ سنا تو انہیں حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِپر بڑا رَشک آیا اور مصطَفٰے جانِ رَحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ بابرکت میں عرض کیا: ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ، اِس میں بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں ، کھانے پکانے میں اور دیگر اُمورِ دُنیوی میں بھی کچھ وَقت صرف ہوجاتا ہے۔لہٰذا ہم تو حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی طرح عبادت کرہی نہیں سکتے ، یوں بنی اِسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘ اُمت کے غمخوار آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم یہ سن کر غمگین ہوگئے۔ اُسی وَقت حضرتِ سَیِّدُنا جبرئیل اَمین عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام لے کر حاضر خدمت بابرکت ہوگئے اور تسلی دے دی گئی کہ پیارے حبیب(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) رَنجیدہ نہ ہوں ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت کو ہم نے ہر سال میں ایک ایسی رات عنایت فرمادی کہ اگر وہ اُس رات میں عبادت کریں گے تو (حضرتِ) شمعون (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کی ہزار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔ (ماخوذ از تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۷)
انہی حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے بارے میں ’’مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب‘‘ میں ایک نہایت اِیمان اَفروز حکایت بیان کی گئی ہے، اِس کا مضمون کچھ اس طرح ہے: بنی اسرائیل کے ایک بزرگ حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ہزار ماہ اِس طرح عبادت کی کہ رات کو قیام اور دِن کو روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں کفار کے ساتھ جہاد بھی کرتے ۔ وہ اِس قدر طاقتور تھے کہ لوہے کی وَزنی اور مضبوط زنجیریں ہاتھوں سے توڑ ڈالتے تھے۔ کفارِ ناہنجار نے جب دیکھا کہ حضرتِ شمعو نرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پر کوئی بھی حربہ کار گر نہیں ہوتا توباہم مشورہ کرنے کے بعد مال و دولت کا لالچ دے کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی زَوجہ کو اِس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ کسی رات نیند کی حالت میں پائے توانہیں مضبوط رَسیوں سے باندھ کر اِن کے حوالے کردے۔ بے وَفا بیوی نے ایساہی کیا ۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِبیدار ہوئے اور اپنے آپ کو رَسیوں سے بندھا ہوا پایا تو فوراً اپنے اَعضا کوحرکت دی، دیکھتے ہی دیکھتے رسیاں ٹوٹ گئیں اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِآزاد ہوگئے۔ پھر اپنی بیوی سے اِستفسار کیا: ’’مجھے کِس نے باندھ دیا تھا؟‘‘ بے وفا بیوی نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں نے تو آپ کی طاقت کا اندازہ کرنے کے لئے ایساکیا تھا۔ بات رَفع دَفع ہوگئی۔
بے وفا بیوی موقع کی تاک میں رہی ۔ ایک بار پھرجب نیند کا غلبہ ہوا تو اُس ظالمہ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو لوہے کی زنجیروں میں اچھی طرح جکڑ دیا۔ جوں ہی آنکھ کھلی ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ایک ہی جھٹکے میں زنجیر کی ایک ایک کڑی الگ کردی اورآزاد ہوگئے ۔ بیوی یہ دیکھ کر سٹپٹا گئی مگر پھر مکاری سے کام لیتے ہوئے وُہی بات دُہرادی کہ میں توآپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کو آزما رہی تھی۔دَورانِ گفتگو( حضرتِ ) شمعون(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)نے اپنی بیوی کے آگے اپنا راز اِفشا(یعنی ظاہر) کر تے ہوئے فرمایا: مجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بڑا کرم ہے، اُس نے مجھے اپنی وِلایت کا شرف عنایت فرمایا ہے، مجھ پر دُنیا کی کوئی چیز اَثر نہیں کرسکتی مگر ، ’’میرے سر کے بال۔ ‘‘ چالاک عورت ساری بات سمجھ گئی۔
آہ! اُسے دُنیا کی مَحَبَّت نے اندھا کردیا تھا۔ آخر ایک بار موقعہ پاکر اُس نے آپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کو آپ(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) ہی کے اُن آٹھ گیسوؤں (یعنی زلفوں ) سے باندھ دیا جن کی درازی زَمین تک تھی۔ ( یہ اگلی اُمت کے بزرگ تھے، ہمارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی سنّتِ گیسو آدھے کان ، پورے کان اور مبارک کندھوں تک ہے،کندھوں سے نیچے تک مرد کو بال بڑھانا حرام ہے) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آنکھ کھلنے پر زور لگایا مگرآزاد نہ ہو سکے ۔دُنیا کی دولت کے نشے میں بَدمست بے وفا عورت نے اپنے نیک و پارسا شوہر کو دشمنوں کے حوالے کردیا۔
کُفَّارِ بَد اَطوار نے حضرت شمعون(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کو ایک ستون سے باندھ دیا اور اِنتہائی بے دردی کے ساتھ اُن کے ہونٹ اور کان کاٹ ڈالے۔ تب اس نیک بندے نے اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں دعا کی کہ اسے ان بندھنوں کو توڑنے کی قوت بخشے اور ان کافروں پر یہ ستون مع چھت گرادے اور اسے ان سے نجات دے دے چنانچہ اللہ تَعَالٰی نے ان کو قوت بخشی وہ ہلے تو ان کے تمام بندھن ٹوٹ گئے، تب انہوں نے ستون کو ہلایا جس کی وجہ سے چھت کافروں پر آگری اور وہ سب ہلاک ہو گئے اور اس نیک بندے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نجات بخشی۔ (ماخوذ ازمُکاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۶ وغیرہ)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! خدائے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ اپنے محبوبِ ذیشان، رَحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی اُمت پر کس قدر مہربان ہے اور اُس نے ہم پر کیسا عظیم الشان اِحسان فرمایا کہ اگر شب قدر میں عبادت کرلیں تو ایک ہزار ماہ سے بھی زیادہ کی عبادت کا ثواب پالیں ۔ مگر آہ! ہمیں شبِ قدر کی قد ر کہاں !ایک صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبھی تو تھے کہ جن کی حسرت پر ہم سب کو اِتنا بڑا اِنعام بغیر کسی خواہش کے مل گیا! بے شک اُنہوں نے اِس کی قدربھی کی مگر افسوس! ہم ناقدر ے ہی رہے!آہ! ہر سال ملنے والے اِس عظیم الشان اِنعام کو ہم غفلت کی نذر کردیتے ہیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شبِ قدر کی دل میں عظمت بڑھانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّمسلمانوں کو نیک نمازی بنانے کے تعلُّق سے اسلامی بھائیوں کیلئے 72،اسلامی بہنوں کیلئے 63اور طلبۂ علمِ دین کیلئے 92 ،دینی طالبات کیلئے 83، مَدَنی منوں اور منیوں کیلئے40، خصوصی ( یعنی گونگے بہرے اور نابینا اسلامی بھائیوں )کیلئے25اور قیدیوں کیلئے 52 مَدَنی اِنعامات بصورتِ سوالات مرتب کئے گئے ہیں ۔ فکرمدینہ ( یعنی اپنے اعمال کا محاسبہ ) کرتے ہوئے روزانہ مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کر کے دعوتِ اسلامی کے مقامی ذمے دار کو ہر مَدَنی ماہ یعنی اسلامی مہینے کی پہلی تاریخ کوجمع کروانا ہوتا ہے۔ مَدَنی انعامات نے نہ جانے کتنے ہی اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب برپاکردیا ہے! اِس کی ایک جھلک ملا حظہ ہو: نیو کراچی کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح بیان ہے: علاقے کی مسجِد کے امام صاحب جو کہ دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہیں ،انہوں نے اِنفرادی کوشش کرتے ہوئے میرے بڑے بھائی جان کو مَدَنی انعامات کا ایک رسالہ تحفے میں دیا۔ وہ گھر لے آئے اور پڑھا تو حیران رَہ گئے کہ اِس مختصر سے رسالے میں ایک مسلمان کو اسلامی زندگی گزارنے کا اتنا زبردست فارمولا دے دیا گیا ہے! مَدَنی انعامات کارسالہ ملنے کی برکت سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اُن کو نماز کا جذبہ ملا اورنمازِ با جماعت کی ادائیگی کے لئے مسجد میں حاضر ہو گئے اور اب پانچ وَقت کے نمازی بن چکے ہیں ، داڑھی مبارَک بھی سجا لی اور مَدَنی انعامات کا رسالہ بھی پرکرتے ہیں ۔
مَدَنی انعامات کے عامِل پہ ہر دم ہر گھڑی یاالٰہی!خوب برسا رحمتوں کی تو جھڑی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مَدَنی انعامات کا رسالہ پر کرنے والے کس قدر خوش قسمت ہوتے ہیں اِس کا اندازہ اس مَدَنی بہار سے لگایئے، چنانچہ زم زم نگر (حیدَرآباد، بابُ الاسلام سندھ پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح
حلفیہ بیان ہے کہ ماہِ رجبُ المرجَّب ۱۴۲۶ ھ کی ایک شب مجھے خواب میں مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زیارت کی عظیم سعادت ملی۔ لبہائے مبارکہ کو جنبش ہوئی اور رحمت کے پھول جھڑنے لگے ، الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے: جو اس ماہ روزانہ پابندی سے مَدَنی انعامات سے مُتَعَلِّق فکر مدینہ کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کی مغفرت فرما دے گا۔
مَدنی انعامات کی بھی مرحبا کیا بات ہے قربِ حق کے طالبوں کے واسطے سوغات ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!یہ رات ہر طرح سے خیریت وسلامتی کی ضامِن ہے۔یہ رات اَوَّل تا آخِر رَحمت ہی رَحمت ہے۔مُفَسِّرِینِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیفرماتے ہیں : ’’یہ رات سانپ بچھو ، آفات وبَلیَّات اور شیاطین سے بھی محفوظ ہے، اِس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔‘‘
حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس بِن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : ایک بارجبماہِ رَمضان شریف تشریف لایا تو سلطانِ دوجہان ،رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’ تمہارے پاس یہ مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا ،گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔‘‘ (ابنِ مَاجَہ ج۲ص۲۹۸حدیث۱۶۴۴)
ایک فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا حصہ ہے: ’’جب شب قدر آتی ہے تو حکمِ الٰہی سے (حضرتِ) جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) ایک سبز جھنڈا لئے فرشتوں کی بہت بڑی فوج کے ساتھ زمین پرنزول فرماتے ہیں (اور ایک روایت کے مطابق:’’ اِن فرشتوں کی تعداد زمین کی کنکریوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے‘‘)([27]) اور وہ
سبز جھنڈا کعبۂ مُعَظّمہ پر لہرادیتےہیں۔ (حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کے سو بازُو ہیں ، جن میں سے دوبازُو صرف اِسی رات کھولتے ہیں ، وہ بازُو مشرق ومغرب میں پھیل جاتے ہیں ،پھر( حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرشتوں کو حُکم دیتے ہیں کہ جو کوئی مسلمان آج رات قیام ،نماز یا ذِکرُاللہ عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہے اُس سے سلام ومصافحہ کرونیز اُن کی دُعاؤں پر آمین بھی کہو ۔ چنانچہ صبح تک یہی سلسلہ رہتا ہے ۔ صبح ہونے پر(حضرتِ)جبریل(عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرشتوں کو واپسی کا حکم دیتے ہیں ۔ فرشتے عرض کرتے ہیں : اے جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُ مَّتِ محمدیہ(عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کی حاجتوں کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟( حضرتِ) جبریل (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) فرماتے ہیں : ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اِن لوگوں پر خصوصی نظر کرم فرمائی اور چار قسم کے لوگوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا۔‘‘ صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کیـ:’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہ چار قسم کے لوگ کون ہیں ؟‘‘ ارشاد فرمایا: {۱} ایک تو عادی شرابی {۲} دُوسرے والدین کے نافرمان {۳}تیسرے قطع رِحمی کرنے والے (یعنی رشتے داروں سے تَعلُّقات توڑنے والے) اور {۴} چوتھے وہ لوگ جو آپس میں عداوت رکھتے ہیں اور آپس میں قطع تعلق کرنے والے۔‘‘ (شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۳۶حدیث۳۶۹۵)
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے رِوایت ہے کہ میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لائے تاکہ ہم کو شب قدر کے بارے میں بتائیں (کہ کس رات میں ہے) دومسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اِس لئے آیا تھا کہ تمہیں شبِ قدر بتاؤں لیکن فلاں فلاں شخص جھگڑرہے تھے، اِس لئے اِس کا تعین اُٹھالیا گیا،اورممکن ہے کہ اِسی میں تمہاری بہتری ہو، اب اِس کو (آخری عشرے کی) نویں ، ساتویں اور پانچویں را توں میں ڈھونڈو۔‘‘ ( بُخاری ج ۱ ص ۶۶۳ حدیث۲۰۲۳)
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراۃ جلد 3 صفحہ 210پراس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :یعنی میرے علم سے اس کا تقرر دور کردیا گیا اور مجھے بھلا دی گئی ، یہ مطلب نہیں کہ خود شب قدر
ہی ختم کردی اب وہ ہوا ہی نہ کرے گی۔ معلوم ہوا کہ دنیاوی جھگڑے منحوس ہیں ان کا وبال بہت ہی زیادہ ہے ان کی وجہ سے اللہ کی آتی ہوئی رحمتیں رُک جاتی ہیں ۔
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا کرنا رَحمت سے دُوری کا سَبَب بن جاتا ہے۔ مگر آہ ! اب کون کس کو سمجھائے! آج تو بڑے فخرسے کہا جا رہا ہے کہ ’’میاں اِس دُنیا میں شریف رہ کر تَو گزارہ ہی نہیں ، ہم تو شریفوں کے ساتھ شریف اور بدمعاش کے ساتھ بد معاش ہیں ! ‘‘ صرف اس قول ہی پر اِکتفا نہیں ، اب تو معمولی سی بات پر پہلے زَبان درازی ،پھر دست اندازی ،اس کے بعد چاقو بازی بلکہ گولیاں تک چل جاتی ہیں ۔اَفسوس ! آج کل بعض مسلمان کبھی پٹھان بن کر کبھی پنجابی کہلا کر ،کبھی مہاجر ہوکر ،کبھی سندھی اور بلوچ قومیَّت کا نعرہ لگا کر ایک دُوسرے کا گلاکاٹ رہے ہیں ، ایک دوسرے کی اَملاک واَموال کو آگ لگا رہے ہیں ۔ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صرف نسلی اور لسانی فرق کی بنا پر محاذ آرائی ہورہی ہے۔ مسلمانو! آپ تو ایک دوسرے کے محافظ تھے آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان تویہ ہے کہ: ’’مؤمنوں کی مثال تو ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اُس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔‘‘ ( بُخاری ج۴ص۱۰۳حدیث۶۰۱۱)
ایک شاعر نے کتنے پیارے انداز میں سمجھایاہے:
مبتلائے دَرد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! ہمیں آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگساری کرنی چاہئے۔مسلمان ایک دوسرے کو مارنے ، کاٹنے اور لُوٹنے والا نہیں ہوتا۔
حضرتسَیِّدُنا فضالہ بن عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے رِوایت ہے کہ تاجدارِ رسالت ، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حَجَّۃُ الْوَداعکے موقع پر ارشاد فرمایا:’’کیا تمہیں مؤمن کے بارے میں خبر نہ دوں ؟‘‘پھر ارشاد فرمایا :’’مؤمن وہ ہے جس سے دوسرے مسلمان اپنی جان اوراپنے اَموال سے بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زَبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مجاہد وہ ہے جس نے اطاعت ِخداوندی عَزَّوَجَلَّ کے معاملے میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کیا اور مہاجر وہ ہے جس نے خطا اور گناہوں سے علٰیحدگی اختیار کی۔‘‘ (اَلْمُستَدرَک ج۱ص ۱۵۸حدیث۲۴) اور ارشاد فرمایا: مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ دو سرے مسلمان کی طرف آنکھ سے اِس طرح اشارہ کرے جس سے تکلیف پہنچے۔ (اِتحافُ السّادَۃ ج۷ ص۱۷۷) ایک مقام پر ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔ ( اَ بو داوٗد ج۴ ص۳۹۱حدیث۵۰۰۴)
طریقِ مصطَفٰے کو چھوڑنا ہے وجہِ بربادی
اِسی سے قوم دنیا میں ہوئی بے اقتدار اپنی
حضرتِ سَیِّدُنا مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : دوزخیوں کو ایسی خارِش میں مبتلا کردیا جائے گاکہ کھجاتے کھجاتے اُن کی کھال اُدھڑ جائے گی یہاں تک کہ اُن میں سے کسی کی ہڈیاں ظاہر ہوجائیں گی۔پھر ندا سُنائی دے گی ، اے فلاں : کیا اس سے تکلیف ہورہی ہے؟ وہ کہے گا: ہاں ۔ تب انہیں بتایا جائے گا: ’’ دُنیا میں جو تم مسلمانوں کو ستایا کرتے تھے یہ اُس کی سزا ہے۔‘‘(اِتحافُ السّادَۃ ج۷ص۱۷۵)
تکلیف دور کرنے کا ثواب:
حضور اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظَّم ہے: ’’میں نے ایک شخص کو جنت میں گھومتے ہوئے دیکھا کہ جدھر چاہتا ہے نکل جاتا ہے کیوں کہ اُس نے اِس دنیا میں ایک ایسے دَرَخت کو راستے سے کاٹ دیا تھا جو کہ لوگوں کو
تکلیف دیتا تھا۔‘‘ ( مُسلم ص۱۴۱۰حدیث۲۶۱۸)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!اِن احادیثِ مُبارَکہ سے دَرْس حاصِل کیجئے اور آپَس میں لڑائی جھگڑا اور لُوٹ مارسے پرہیز کیجئے۔اگرلڑنا ہی ہے تو مَردُود شیطان سے لڑیئے، بلکہ ضرور لڑیئے،نَفْسِ اَمّارہ سے لڑائی کیجئے،بَوَقتِ جِہاد دین کے دشمنوں سے قِتال کیجئے، مگر آپَس میں بھائی بھائی بن کر رہئے۔
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں کسی قسم کا لسانی اور قومی اختلاف نہیں ، ہر زَبان بولنے والا اور ہربرادری سے تعلُّق رکھنے والا تاجدارِ حرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامنِ کرم ہی میں پناہ گزیں ہے۔ آپ بھی ہر دم دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہئے اور عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ڈوبی ہوئی زندگی گزارنے کیلئے اپنے آپ کو مَدَنی اِنعامات کے سانچے میں ڈھال لیجئے ۔ ترغیب وتحریص کیلئے ایک خوشگوار و خوشبودار مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے، تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں مَدَنی قافلہ کورس کرنے کیلئے تشریف لائے ہوئے راولپنڈی کے ایک مبلغ نے جو کچھ حلفیہ لکھ کر دیا اس کا خلاصہ ہے کہ: میں عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں سورہا تھا، سر کی آنکھیں تو کیا بند ہوئیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدل کی آنکھیں کھل گئیں ، عالَمِ خواب میں دیکھا کہ سرکارِ رسالت مَآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک بلند چبوترے پر جلوہ افروز ہیں ،قریب ہی مَدَنی انعامات کے کارڈز کی بوریاں رکھی ہیں ۔ سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
مَدَنی انعامات کے ایک ایک کارڈ کو مسکراتے ہوئے بغورملاحظہ فرمارہے ہیں ۔پھر میری آنکھ کھل گئی۔
مَدَنی انعامات سے عطاّر ہم کو پیار ہے
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّدو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سَیِّدُنا اسمٰعیل حَقِّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینقل فرماتے ہیں : یہ رات آفات سے سلامتی کی ہے کہ اس میں رَحمت اور خیر (یعنی بھلائی)ہی زمین پر اترتی ہے۔ اور نہ اِس میں شیطان برائی کروانے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ جادو گر کا جادو اِس میں چلتاہے۔ (رُوْحُ الْبَیان ج۱۰ص۴۸۵ مُلَخَّصاً )
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رسالت میں شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو سرکارِ مدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’شب قدر رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اِکیسو یں ،تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا اُنتیسویں شب میں تلاش کرو ۔تو جو کوئی اِیمان کے ساتھ بہ نیتِ ثواب اِس مبارَک رات میں عبادت کرے ، اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ اُس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارَک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بالکل صاف وشفاف ہوتی ہے، اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے،گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے،اِس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جاتے ۔مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس دِن طلوعِ آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔‘‘ (اِس ایک دِن کے علاوہ ہر روز سورج کے ساتھ ساتھ شیطان بھی نکلتا ہے)
(مُسند اِمام احمد ج۸ص۴۰۲، ۴۱۴حدیث۲۲۷۷۶،۲۲۸۲۹)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں یا آخری رات میں سے چاہے وہ 30 ویں شب ہو کوئی ایک رات شب قدر ہے ۔اِس رات کو مخفی(یعنی پویشدہ) رکھنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مسلمان اِس رات کی جستجو (یعنی تلاش ) میں ہر رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں گزارنے کی کوشِش کریں کہ نہ جانے کون سی رات، شب قدر ہو۔
حضرتِ سَیِّدُنا عثمان ابن ابی الْعاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے غلام نے اُن سے عرض کی: ’’ اے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)! مجھے کشتی بانی کرتے ایک عرصہ گزرا، میں نے سمندر کے پانی میں ایک ایسی عجیب بات محسوس کی۔‘‘ پوچھا: ’’وہ عجیب بات کیا ہے ؟ ‘‘ عرض کی: ’’اے میرے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)!ہر سال ایک ایسی رات بھی آتی ہے کہ جس میں سمندر کا پانی میٹھا ہوجاتا ہے۔ ‘‘ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے غلام سے فرمایا: ’’اِس بار خیال رکھنا جیسے ہی رات میں پانی میٹھا ہو جائے مجھے مطلع کرنا۔‘‘ جب رَمضان کی ستائیسویں رات آئی تو غلام نے آقا سے عرض کی کہ’’ آقا! آج سمندر کا پانی میٹھا ہوچُکا ہے۔‘‘
(تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۸، تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰)
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! شب
قدر کی
مُتَعَدِّدعلامات
کا ذِکر گزرا ۔ ہمارے ذِہن میں یہ سوال اُبھر سکتا ہے کہ ہماری عمر کے کافی سال
گزرے ہر سال شب قدر آتی اور تشریف لے جاتی ہے مگر ہمیں تو اب تک اِس کی علامات نظر
نہیں آئیں ؟اِ س کے جواب میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : اِن
باتوں کا تَعَلُّق کشف و
کرامت
سے ہے،
انہیں عام آدَمی نہیں دیکھ سکتا۔صِرف وُہی دیکھ سکتا ہے جس کو بصیرت (یعنی قلبی نظر)کی نعمت حاصل ہو۔ہر وَقت معصیت کی نجاست میں لت پت رہنے والا گنہگار اِنسان اِن نظاروں کوکیسے دیکھ سکتا ہے! ؎
آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے
دِیدۂِ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے رِوایت ہے: نبیوں کے سرتاج ، صاحب معراج صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’شب قدر، رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (یعنی اِکیسویں ، تیئسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں اوراُنتیسویں راتوں ) میں تلاش کرو۔‘‘ ( بُخاری ج۱ص۶۶۱حدیث۲۰۱۷)
حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا رِوایت کرتے ہیں : بحرو بر کے بادشاہ ، دو عالم کے شہنشاہ ، اُمت کے خیر خواہ، آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے مہر و ماہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بعض صحابۂ کرام رِضوانُ اللہ تعالٰی عَلَیْہِم اجْمَعِیْن کو خواب میں آخری سات راتوں میں شبِ قدر دِکھائی گئی۔ میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں میں مُتَّفِق ہوگئے ہیں ۔ اِس لئے اِس کا تلاش کرنے والا اِسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔‘‘( بُخاری ج۱ص۶۶۰حدیث۲۰۱۵)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سُنَّتِ کریمہ ہے کہ اُس نے بعض اَہم ترین مُعاملات کو اپنی مَشِیَّت سے بندوں پر پوشیدہ رکھا ہے۔ جیسا کہ منقول ہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضاکو نیکیوں میں ،اپنی ناراضیکو گناہوں میں اور اپنے
اَولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکواپنے بندوں میں پوشیدہ رکھا ہے ۔ ‘‘(اَخلاقُ الصالحین ص ۵۶) اِس کا خلاصہ ہے کہ بندہ چھوٹی سمجھ کر کوئی نیکی نہ چھوڑے۔کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کس نیکی پر راضی ہو گا، ہوسکتا ہے بظاہر چھوٹی نظر آنے والی نیکی ہی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہو جائے ۔ مَثَلاً قیامت کے روز ایک گنہگار شخص صرف اِس نیکی کے عوض بخش دیا جائے گا کہ اُس نے ایک پیاسے کتے کو دُنیا میں پانی پلادیا تھا۔اِسی طرح اپنی ناراضی کو گناہوں میں پوشیدہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو چھوٹا تَصَوُّر کرکے کر نہ بیٹھے ،بس ہر گناہ سے بچتا رہے ۔کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰیکس گناہ سے ناراض ہوجائے گا۔اِسی طرح اَولیارَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکو بندوں میں اِس لئے پوشیدہ رکھا ہے کہ اِنسان ہر نیک حقیقی پابند شرع مسلمان کی رِعایَت و تعظیم بجالائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ’’وہ ‘‘ وَلیُّ اللہ ہو۔ جب ہم نیک لوگوں کی دل سے تعظیم کیا کریں گے،بد گمانی سے بچتے رہیں گے اور ہر مسلمان کو اپنے سے اچھا تصور کرنے لگیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی صحیح ہوجائے گا اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّہماری عاقبت بھی سنور جائے گی۔
امام فخر
الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ’’تفسیرکبیر‘‘میں
فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے شبِ قدر کو
چند وجوہ کی بنا پر پوشیدہ رکھا ہے۔ اوّل یہ کہ جس طرح
دیگر اشیا کو پوشیدہ رکھا،مَثَلاً اللہ عَزَّوَجَلَّ نے
اپنی رِضا کو
اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رَغبت حاصِل کریں ۔ اپنے غضب کو
گناہوں میں پوشیدہ فرمایا کہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں
میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ،قبولیت دعا کو
دعاؤں میں پوشیدہ رکھا کہ سب دعاؤں میں مُبالغہ کریں اور اسمِ
اعظم کو
اَسما میں پوشیدہ رکھا کہ سب اسما کی تعظیم کریں ۔اور صلوۃِ وسطیٰ کو
نمازوں میں پوشیدہ رکھا کہ تمام نمازوں پر محافظت(یعنی ہمیشگی
اختیار)
کریں اور
قبولِ تو بہ
کوپوشیدہ رکھاکہ بندہ توبہ
کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے، اور موت کا
وَقت پوشیدہ رکھا کہ مُکلَّف (بندہ) خوف
کھاتا رہے۔ اسی طرح شبِ قدر کوبھی پوشیدہ رکھا
کہ
َرمَضان الْمُبارَک کی
تمام راتوں کی تعظیم کرے۔ دوسرے یہ کہ گویا اللہ عَزَّوَجَلَّارشاد فرماتا ہے: ’’اگر میں شب قدر کو مُعَیَّن(Fix) کر (کے تجھ پر ظاہر فرما)دیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جُرْأَت بھی جانتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اِس رات میں معصیت کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اِس رات کو جاننے کے باوُجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے بڑھ کر سخت ہوتا، پس اِس وجہ سے میں نے اِسے پوشیدہ رکھا ۔ تیسرے یہ کہ میں نے اِس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ اِس کی طلب میں محنت کرے اور اِس محنت کا ثواب کمائے۔ چوتھے یہ کہ جب بندے کو شب قدر کا تعین حاصِل نہ ہوگا تو رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر رات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کوشش کرے گا اِس امید پر کہ ہوسکتا ہے یہی رات شبِ قدر ہو۔ (تفسِیرِ کبیر ج۱۱ص۲۹ مُلَخَّصاً )
شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کا کافی اِختلاف پایا جاتا ہے ۔یہاں تک کہ بعض بزرگوں رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکے نزدیک شَبِ قدر پورے سال میں پھرتی رہتی ہے، مَثَلاً فَقِیْہُ الْاُمَّۃحضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ ابنِ مَسْعُودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا فرمان ہے: شبِ قدر وہی شخص پاسکتا ہے جو پورے سال کی راتوں پر توجُّہ رکھے ۔ (تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰) اِس قول کی تائِید کرتے ہوئے امامُ الْعارِفین سَیِّدُنا شیخ مُحی الدّین ابنِ عربی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ میں نے شَعْبانُ المُعَظَّمکی پندرہویں شب (یعنی شبِ بَرَاء ت ) اور ایک بار شَعْبانُ المُعَظَّم ہی کی اُنیسویں شب میں شبِ قَدرپائی ہے۔ نیز رَمَضانُ الْمُبارَک کی تیرہویں شب اور اٹھارہویں شب میں بھی دیکھی،اور مختلف سالوں میں رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں اِسے پایا ہے۔مزید فرماتے ہیں : اگر چہ زیادہ تر شبِ قدر رَمضان شریف میں ہی پائی جاتی ہے تاہم میرا تجربہ تو یہی ہے کہ یہ پورا سال گھومتی رہتی ہے۔ یعنی ہر سال کیلئے اِس کی کوئی ایک ہی رات مخصوص نہیں ہے۔ (اِتحافُ السّادَۃ ج۴ص۳۹۲ ملخّصاً)
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں رَمَضانُ الْمُبارَککے اعتکاف کی خوب بہاریں ہوتی ہیں ، دنیا کے مختلف مقامات پر اسلامی بھائی مساجد میں اور اسلامی بہنیں ’’مسجد بیت‘‘ میں اعتکاف کی سعادت حاصل کرتے اور خوب جلوے سمیٹتے ہیں ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے : تحصیل لیاقت پور ، ضلع رحیم یار خان( پنجاب ، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا لبِّ لباب ہے: میں فلموں کاایسا رسیا تھا کہ ہمارے گاؤں کی سی ڈیز کی دکان کی تقریبا ً آدھی سی ڈیزدیکھ چکا تھا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمجھے طلبانی گاؤ ں کی مدنی مسجد میں آخری عشرۂ رَمَضانُ الْمُبارَک (۱۴۲۲ ھ ، 2001ء) کے اعتکاف کی سعادت نصیب ہو گئی۔ دعوتِ اسلامی کے عاشقانِ رسول کی صحبت کی برکتوں کے کیا کہنے! 27 رَمَضانُ الْمُبارَک کا ناقابلِ فراموش ایمان افروز واقعہ تحدیث نعمت کیلئے عرض کرتا ہوں : شب بھر بیدار رہ کر میں نے خوب رو رو کر سرکارِ نامدارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے دیدار کی بھیک مانگی ۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّصبحِ دم مجھ پر بابِ کرم کھل گیا، میں نے عالمِ غنودَگی میں اپنے آپ کو کسی مسجِد کے اندر پایا، اتنے میں کسی نے اعلان کیا:’’ سرکار مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تشریف لائیں گے اور نماز کی امامت فرمائیں گے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں رحمتِ کونین، سلطانِ دارین ، نانائے حسنین، ہم دُکھیادلوں کے چین، مع شیخین کریمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن جلوہ نما ہو گئے اور میری آنکھ کھل گئی ۔ صرف ایک جھلک نظر آئی اور وہ حسین جلوہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا، اس پر دل ایک دم بھر آیا اورآنکھوں سے سیل اشک رواں ہو گیا یہاں تک کہ روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں اے کاش! ؎
اتنی مدت تک ہو دیدِ مصحف عارِض نصیب
حفظ کر لوں ناظرہ پڑھ پڑھ کے قراٰنِ جمال (ذوقِ نعت)
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاِس کے بعد میرے دل میں تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کی مَحَبَّت اور بڑھ گئی بلکہ میں دعوتِ اسلامی ہی کا ہو کر رہ گیا ۔ گھر سے ترکیب بنا کر میں نے بابُ المدینہ کراچی کا رُخ کیا اور درسِ نِظامی کرنے کیلئے جامِعۃُ المدینہ میں داخلہ لے لیا۔ یہ بیان دیتے وقت درجہ اولیٰ میں علمِ دین حاصِل کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیمی طور پر ایک ذیلی حلقے کے قافِلہ ذمہ دار کی حیثیت سے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کی دھومیں مچانے کی کوشِش کر رہا ہوں ۔
جلوۂ یار کی آرزو ہے اگر، مدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
میٹھے آقا کریں گے کرم کی نظر، مدنی ماحول میں کر لو تُم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۳۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سَیِّدُنا اِمامِ اعظم اَبو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اِس بارے میں دو قول منقول ہیں : {۱}لیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں {۲} سَیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ایک مشہور قول یہ ہے کہ لَیْلَۃُ الْقَدْر پورا سال گھومتی رہتی ہے، کبھی ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں ہوتی ہے اور کبھی دوسرے مہینوں میں ۔ یہی قول سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عباس، سَیِّدُنا عبد اللہ ابن مسعود اور سَیِّدُناعکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن سے بھی منقول ہے ۔ (عُمدۃُ القاری ج۸ ص ۲۵۳ تحتَ الحدیث ۲۰۱۵)
سَیِّدُنا امام شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے نزدیک ’’شبِ قدر‘‘ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے میں ہے اور اس کی رات مُعَیَّن (Fix) ہے ، ا س میں قیامت تک تبدیلی نہیں ہوگی۔(اَیضاً)
سَیِّدُنا امام ابویوسف اور سَیِّدُنا امام محمد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے نزدیکلیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں
ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں ۔اور ان کاایک قول یہ ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخِری پندرہ راتوں میں لَیْلَۃُ الْقَدْر ہوتی ہے۔ (اَیضاً)
سَیِّدُنا امامِ مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک شبِ قدررَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔مگر کوئی ایک رات مخصوص نہیں ،ہر سال اِن طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے،یعنی کبھی اِکیسویں شب لَیْلَۃُ القَدْرہوجاتی ہے توکبھی تئیسویں ،کبھی پچیسویں تو کبھی ستائیسویں اور کبھی کبھی اُنتیسویں شب بھی شبِ قدر ہوجایا کرتی ہے۔ (عمدۃُ القاری ج۱ص۳۳۵)
سلسلۂ قادریہ شاذِلیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابُو الْحَسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی (متوفّٰی656ھ)فرماتے ہیں : ’’جب کبھی اتوار یا بُدھ کو پہلا روزہ ہوا تَو اُنتیسویں شب ، اگرپیر کا پہلا روزہ ہو ا تو اکیسویں شب، اگر پہلا روزہ منگل یاجمعہ کو ہوا تو ستائیسویں شب اگر پہلا روزہ جمعرات کو ہوا تو پچیسویں شب اور اگر پہلاروزہ ہفتے کو ہوا تو میں نے تئیسویں شب میں شَبِ قَدْر کوپایا۔ ‘‘ (تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۴۰۰)
ستائیسویں رات شب قدر:
اگرچہ بزرگانِ دین اور مفسرین و محدّثینرَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن کا شبِ قدر کے تعین میں اِختلاف ہے، تاہم بھاری اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستائیسویں شب ہی شب قدر ہے۔ سیّد الانصار، سیِّدُالقراء، حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی’’ شب قدر‘‘ ہے۔(مسلم ص۳۸۳حدیث۷۶۲)
حضرتِ سَیِّدُنا
شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی فرماتے ہیں کہ شب
قدر رَمضان
شریف کی
ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ اپنے بَیان کی تائید کیلئے اُنہوں نے دو دلائل بَیان فرمائے ہیں :{۱} ’’لَیْلَۃُ الْقَدْر‘ ‘ میں نو حروف ہیں اور یہ کلمہ سُوْرَۃُ الْقَدْر میں تین مرتبہ ہے، اِس طرح ’’تین ‘‘کو ’’نو‘‘ سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ’’ستائیس ‘‘ آتا ہے جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔ {۲} اِس سورئہ مبارَکہ میں تیس کلمات (یعنی تیس الفاظ) ہیں ۔ ستائیسواں کلمہ ’’ھِیَ‘‘ہے جس کا مرکز لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے۔ گویا اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کی طرف سے نیک لوگوں کیلئے یہ اِشارہ ہے کہ َرمضان شریف کی ستائیسویں شبِ قَدْر ہوتی ہے۔(تَفسِیر عَزیزی ج۳ص۲۵۹ ملخّصاً)
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:جس نے ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ،سُبحٰنَ اللہ ِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم ‘‘([28])تین مرتبہ پڑھا تو اُس نے گویا شب قدر حاصل کر لی ۔(ابنِ عَساکِر ج۶۵ ص۲۷۶)ہو سکے تو ہررات تین بار یہ دُعا پڑھ لینی چاہئے۔
رِضائے
الٰہیعَزَّ
وَجَلَّ
کے خواہشمندو! ہوسکے تو سارا ہی سال ہر رات اہتمام کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک عمل
کرلینا چاہیے کہ نہ جانے کب شب قدر ہوجائے ۔ ہر رات
میں دو فرض نَمازیں آتی ہیں ، دیگر نَمازوں کے ساتھ ساتھ مغرب و عِشا کی نَمازوں کی
جماعت کابھی خوب اِہتمام ہونا چاہئے کہ اگر شب قدر میں ان
دونوں کی جماعت نصیب ہوگئی تو
اِنْ شَآءَاللہ
عَزَّوَجَلَّبیڑا
ہی پارہے ، بلکہ اسی طرح پانچوں نمازوں کے ساتھ ساتھ روزانہ عشا و فجر کی جماعت کی
بھی خصو صِیَّت کے ساتھ عادت ڈال لیجئے۔ دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ملاحظہ ہوں : {۱}جس نے
عشا کی نماز باجماعت پڑھی اُس نے گویا آدھی رات قیام کیااور جس نے فجر کی نماز
باجماعت ادا کی اُس نے گویا پوری رات قیام کیا۔ (مُسلم ص ۳۲۹ حدیث۶۵۶) {۲} ’’جس نے عشا
کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے لَیْلَۃُ الْقَدْر سے اپنا حصہ حاصل
کرلیا۔‘‘ (مُعجَم کبیر ج۸ص۱۷۹حدیث۷۷۴۵)
اللہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمت کے متلاشیو! اگر تمام سال یہی عادتِ جماعت رہی تو شب قدر میں بھی اِن دونوں نَمازوں کی جماعتاِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّنصیب ہوجائے گی اور رات بھر سونے کے باوُجود اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّروزانہ کی طرح شب قدر میں بھی گویا ساری رات کی عبادت کرنے والے قرار پائیں گے۔
اُمّ الْمُؤمِنِینحضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایَت فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں ؟‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔ یعنی اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔ ( تِرمذی ج۵ص۳۰۶حدیث۳۵۲۴)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! کاش !ہم روزانہ رات یہ دُعا کم ازکم ایک بار ہی پڑھ لیا کریں کہ کبھی تو شَب قدر نصیب ہو جائے گی۔ اور ستائیسویں شب تو یہ دُعا بارہا پڑھنی چاہئے۔
حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’تفسیرِ رُوْحُ الْبَیان‘‘ میں یہ رِوایت نقل کرتے ہیں : جو شبِ قدر میں اِخلاصِ نیت سے نوافل پڑھے گااُس کے اگلے پچھلے گناہ مُعاف ہوجائیں گے۔ (رُوْحُ البَیان ج۱۰ص۴۸۰)
سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب رَمَضانُ المُبارککے آخری دس دِن آتے تو عبادت پر کمر باند ھ لیتے، ان میں راتیں جاگا کرتے اور اپنے اہل کو جگایا کرتے۔ ( ابنِ ماجہ ج۲ص۳۵۷حدیث۱۷۶۸)
حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نقل کرتے ہیں کہبزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن
اس عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شبِ قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض اکابر سے منقول ہے کہ جو ہررات دس آیات
اِس نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقینا یہ رات منبعِ برکات ہے ۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک بارجبماہِ رَمضان شریف تشریف لایاتوحضورِ انور ،شافِعِ مَحشر ،مدینے کے تاجور ،باِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس یہ مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا ،گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔‘‘ (ابنِ مَاجَہ ج۲ص۲۹۸حدیث۱۶۴۴)
اے ہمارے پیارے پیار ےاللہ عَزَّوَجَلَّ!اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم گناہ گاروں کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کی برکتوں سے مالا مال کر اور زیادہ سے زیادہ اپنی عبادَت کی توفیق مرحمت فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
لَیْلَۃُ الْقَدْر میں مَطْلَعِ الْفَجْرِ حق
مانگ کی استِقامت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشِش ص۲۹۹)
ہوا جاتا ہے رخصت ماہِ رَمضاں یارسولَ اللہ رہا اب چند گھڑیوں کا یہ مہماں یارسولَ اللّٰہ
خوشی کی لہر دوڑی ہر طرف رَمضان جب آیا ہیں اب رنجیدہ رنجیدہ مسلماں یارسولَ اللّٰہ
مسرت ہی مسرت اورخوشی ہی تھی خوشی جس دم نظر آیا ہِلالِ ماہِ رَمضاں یارسولَ اللّٰہ
شہا! اب غم کے مارے خون کے آنسو بہاتے ہیں چلا تڑپا کے ہائے ماہِ رَمضاں یارسولَ اللّٰہ
چلا اب جلد یہ رَمضاں ستائیس آگئی تاریخ فقط دو دن کا اب رَمضاں ہے مہماں یارسولَ اللّٰہ
فضائیں نور برساتیں ہوائیں مسکراتی تھیں سماں اب ہوگیا ہر سمت ویراں یارسولَ اللّٰہ
رِیاضت کچھ نہ کی ہم نے عبادت کچھ نہ کی ہم نے رہے بس ہر گھڑی مشغولِ عصیاں یارسولَ اللّٰہ
میں ہائے جی چُراتا ہی رہا رب کی عبادت سے گزارا غفلتوں میں سارا رَمضاں یارسولَ اللّٰہ
میں سوتا رہ گیا غفلت کی چادر تان کر افسوس خدارا میری بخشش کا ہو ساماں یارسولَ اللّٰہ
جدائی کی گھڑی جاں سوز ہے عشاقِ رَمضاں پر چلا ان کو رُلا کر ماہِ رَمضاں یارسولَ اللّٰہ
تڑپتے ہیں بلکتے ہیں قرار آتا نہیں ان کو بہت بے چین ہیں عشاقِ رَمضاں یارسولَ اللّٰہ
گناہوں کی سِیاہی چھا رہی ہے رُخ پہ محشر میں مِرا چہرہ پئے رَمضاں ہو تاباں یارسولَ اللّٰہ
مہِ رَمضاں کی رخصت جانِ عاشق پر قِیامت ہے گدا تیرے ہیں حیران وپریشاں یارسولَ اللّٰہ
خدا کے نیک بندے نیکیوں میں لگ گئے لیکن گنہ کرتا رہا عطارؔ ناداں یارسولَ اللّٰہ
(وسائل بخشش ص۶۷۸)
(اِس کلام میں بیچ میں کہیں کہیں مصرعے کسی نامعلوم شاعر کے ہیں ، کلام نہایت پُر سوز تھا اِس لئے کسی کی فرمائش پر اُسی کلام کی مدد سے اپنے متلاطم جذبات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کی سعی کی ہے)
قلب عاشق ہے اب پارہ پارہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
کلفت([29])ہجر و فرقت نے مارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تیرے آنے سے دل خوش ہوا تھا اور ذَوقِ عبادت بڑھا تھا
آہ! اب دل پہ ہے غم کا غَلبہ اَلوداع اَلوداع آہ! رمضاں
مسجدوں میں بہار آگئی تھی جوق در جوق آتے نمازی
ہو گیا کم نمازوں کا جذبہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
بزمِ اِفطار سجتی تھی کیسی! خوب سحری کی رونق بھی ہوتی
سب سماں ہو گیا سُونا سُونا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تیرے دیوانے اب رَو رہے ہیں مضطرب سب کے سب ہو رہے ہیں
ہائے اب وقت رخصت ہے آیا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تیرا غم ہم کو تڑپا رہا ہے آتش شوق بھڑکا رہا ہے
پھٹ رہا ہے ترے غم میں سینہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
یاد رَمضاں کی تڑپا رہی ہے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ہے
کہہ رہا ہے یہ ہر ایک قطرہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
دل کے ٹکڑے ہوئے جا رہے ہیں تیرے عاشق مرے جا رہے ہیں
رو رو کہتا ہے ہر اک بچارہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
حسرتا ماہِ رَمضاں کی رخصت قلب عشاق پر ہے قِیامت
کون دے گا انہیں اب دِلاسا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
کوہِ غم عاشقوں پر پڑا ہے ہر کوئی خون اب رو رہا ہے
کہہ رہا ہے یہ ہر غم کا مارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
تم پہ لاکھوں سلام آہ! رَمضاں اَلوداع آہ! اے رب کے مہماں !
جاؤ حافِظ خدا اب تمہارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
نیکیاں کچھ نہ ہم کر سکے ہیں آہ! عصیاں میں ہی دن کٹے ہیں
ہائے! غفلت میں تجھ کو گُزارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
واسطہ تجھ کو میٹھے نبی کا حشر میں ہم کو مت بھول جانا
روزِ محشر ہمیں بخشوانا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ تیری آمد کا پھر شور ہوگا
کیا مری زندگی کا بھروسا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
ماہِ رَمضاں کی رنگیں فضاؤ! ابر رَحمت سے مملو ہواؤ
لو سلام آخِری اب ہمارا اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
کچھ نہ حسن عمل کر سکا ہوں نذر چند اشک میں کر رہا ہوں
بس یہی ہے مرا کل اَثاثہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
ہائے عطارِؔ بدکار کاہِل رہ گیا یہ عبادت سے غافل
اس سے خوش ہو کے ہونا روانہ اَلوداع اَلوداع آہ! رَمضاں
سالِ آیندہ شاہِ حرم تم کرنا عطارؔ پر یہ کرم تم
تم مدینے میں رَمضاں دِکھانا الوداع الوداع آہ! رَمضاں
(وسائل بخشش ص۶۵۱)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ہے: ’’ جس نے مجھ پر ایک بار دُرُود ِ پاک پڑھا اللہ عَزَّوَجَلَّاُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے۔‘‘ (مُسلِم ص۲۱۶حدیث۴۰۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’الوداع ماہِ رمضان‘‘ کے ایسے اَشعار جن میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو اُن کا پڑھنا سننا مباح و جائز ہے،البتہ اس میں ثواب حاصل کرنے کیلئے اچھی نیت ضروری ہے اورجس قدر اچھی نیتیں زیادہ ہوں گی اُسی قدر ثواب بھی زیادہ ملے گا۔
{۱}’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ پڑھنے سننے کے ذریعے وعظ و نصیحت حاصل کروں گا {۲} اللہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مَحَبَّت، ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی اُلفت دل میں بڑھاؤں گا{۳} نیکیوں میں رغبت
حاصل کروں گا{۴} گناہوں سے بچنے کا ذِہن بناؤں گا۔( یہ نیتیں اُسی صورت میں دُرُست ہوں گی جبکہ پڑھا جانے والا کلام شریعت کے مطابق ہو اور اُس میں وعظ و نصیحت وغیرہ شامل بھی ہو) {۵}رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخری گھڑی تک بارگاہِ الٰہی میں اپنی مغفرت کیلئے وقتاً فوقتاً گریہ وزاری کی کوشش کرتا رہوں گا۔ (آہ!آہ!آہ!ایک فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّممیں یہ بھی ہے:’’محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں مغفرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی! ‘‘ (مُعجَم اَوسَط ج۵ص۳۶۶حدیث۷۶۲۷))
واسطہ رَمضان کا یارب! ہمیں تو بخش دے
نیکیوں کا اپنے پلے کچھ نہیں سامان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۴)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۶} اس نیت سے’’ الوداع ماہ ِ رمضان ‘‘کے اجتماع میں شرکت کروں گا کہ نیکیوں کا جذبہ باقی رہے بلکہ مزید بڑھے۔ (کیونکہ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَکمیں نیک لوگوں کے اندر نیکیوں کا جذبہ بڑھ جاتا ہے) {۷}بہت سے لوگ خوف ِ خدا کے سبب گناہوں سے رُک جاتے ہیں مگر افسوس! رَمَضان شریف جوں ہی رخصت ہوتا ہے بے عملی ایک بارپھربڑھ جاتی ہے اور نمازیوں کی تعدادمیں بھی کمی آجاتی ہے ،آہ! مسجدیں خالی خالی نظر آتی ہیں ، ان تصوُّرات کے ساتھ نہ صرف خود بھی بے عملی سے بچنے کی نیت سے بلکہ دوسروں کے متعلق دل میں کڑھن (یعنی دُکھ) رکھ کر سوزورقت کے ساتھ ماہِ رَمضان کواَلوداع کر کے اپنا خوفِ خدا بڑھاؤں گا {۸}آیندہ سال ماہِ رَمضان نصیب ہونے کی آرزو اور اُس میں خوب خوب نیکیاں کرنے کی نیَّت شامل رکھ کر رو رو کر اِس سال کے ماہِ رَمضان کو اَلوداع کروں گا {۹} تَشَبُّہ بِالصّٰلِحِین (یعنی نیک لوگوں سے مشابہت) اختیار کروں گا کہ سلَف صالحین(یعنی گزشتہ زمانے کے بُزرگانِ دین) رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنرَمَضانُ الْمبارَک کی جدائی پرغمگین ہوتے تھے {۱۰} خائفین(یعنی خوفِ خدا رکھنے والوں ) کے اجتماع کی بَرَکات حاصل کروں گا(اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
اس طرح کے روح پرور اجتماعات دعوت ِ اسلامی میں دیکھے جا سکتے ہیں ){۱۱} اشعارکی صورت میں مانگی جانے والی دعاؤں میں شرکت کروں گا کہ الوداع کے بعض اشعار ،اصلاحِ اعمال ،خاتمہ بالخیر اور مغفرت وغیرہ کی دعا پر مشتمل ہوتے ہیں {۱۲} اللہ ورَسُولَ اور نیک اعمال کیمَحَبَّت میں رونے کی کوشش کروں گاکہ الوداع پڑھنے سننے والوں کو اللہ ورَسُولَ عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اور ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی مَحَبَّت میں عموماً رونے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔جو علمِ نیت رکھتا ہے وہ مزید نیتیں بڑھا سکتا ہے۔
ہائے عطارِؔ بدکار کاہِل رہ گیا یہ عبادت سے غافل
اِس سے خوش ہو کے ہونا روانہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیثِ پاک کے اِس حصے : اَتَاکُمْ رَمَضانُ شَھْرٌ مُّبارَکٌ یعنی ’’رَمضان کا مہینا آگیا ہے جو کہ نہایت ہی با برکت ہے‘‘کے تحت ’’مراٰۃ‘‘ جلد3 صفحہ137 پر فرماتے ہیں :برکت کے معنیٰ ہیں بیٹھ جانا ،جم جانا۔ اِسی لیے اُونٹ کے طویلے کو مبارَکُ الْاِبِل کہا جاتا ہے کہ وہاں اونٹ بیٹھتے بندھتے ہیں ۔ اب وہ زیادتیِ خیر(یعنی بھلائی کا بڑھنا) جو آکر نہ جائے برکت کہلاتی ہے، چونکہ ماہِ رَمضان میں حسی(یعنی محسوس کی جاسکنے والی) برکتیں بھی ہیں اور غیبی برکتیں بھی، اِس لیے اس مہینے کا نام’’ ماہِ مبارَک‘‘ بھی ہے ۔رَمضان میں قدرَتی طور پر مومنوں کے رزق میں برکت ہوتی ہے اور ہر نیکی کا ثواب 70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی آمد (یعنی آنے) پر خوش ہونا، ایک دوسرے کو مبارَک باد دینا سنت(سے ثابِت)ہے اور جس کی آمد(یعنی آنے ) پر خوشی ہونی چاہیے اُس کے جانے پر غم بھی ہونا چاہیے،
دیکھو! نکاح ختم ہونے پر عورت کو شرعاً غم لازِم ہے، اسی لیے اکثر مسلمان جُمُعَۃُ الْوَداع کو مغموم اور چشم پر نم (یعنی غمگین ہوتے اور رو رہے) ہوتے ہیں اورخطبا (یعنی خطیب صاحبان) اس دن میں کچھ وَداعیہ کلمات (الوداع ماہِ رمضان سے متعلق کچھ جملے) کہتے ہیں تاکہ مسلمان باقی ( بچی ہوئی )گھڑیوں کو غنیمت جان کر نیکیوں میں اور زیادہ کوشش کریں ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۳ص۱۳۷)
کوہِ غم عاشقوں پر پڑا ہے ہر کوئی خون اب رو رہا ہے
کہہ رہا ہے یہ ہر غم کا مارا اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک کی عظمتوں سے کون واقف نہیں ! اِس کے تشریف لانے پر مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی ، زندَگی کا انداز ہی تبدیل ہو جاتا ہے ، مسجِدیں آباد ہو جاتیں اورعبادت وتلاوت کی لذت بڑھ جاتی ہے،نیز سحرو اِفطار کی بھی اپنی اپنی کیا خوب بہاریں ہوتی ہیں !یہ ماہِ مبارَک خوب خوب بارِشِ رَحمت برساتا، مغفرت کی بشارت سناتا اور گنہگاروں کو جہنَّم سے آزادی دِلاتا ہے۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں دنیا کی لاتعداد مساجد کے اندر بے شمار عاشقانِ رسول پورے ماہِ رَمضان شریف کا نیز ہزاروں ہزار عاشقانِ رسول آخری عشرے کا اعتکاف کرتے ہیں ،اعتکاف میں ان کی سنتوں بھری تربیت کی جاتی ہے ، انہیں نیکیوں کی رغبت اور گناہوں سے نفرت دلائی جاتی ہے،خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ اورعشقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے خوب جام پینے کو ملتے ہیں ۔بہرحال کیا مُعْتَکِف اورکیا غیر معتکف، سبھی ماہِ رمضان کی برکتیں لوٹتے ہیں ۔ ماہِ رَمضان سے مَحَبَّت کے اظہار کا ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے، رخصت کے ایام قریب آنے پر بالخصوص مُعْتَکِفین عاشِقانِ رَمضان کا دل غمِ رَمَضان میں ڈوبنے لگتا ہے!
قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں
کلفت ہجر و فرقت نے ماراا َلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۱)
الفاظ و معانی: پارہ پارہ: ٹکڑے۔کلفتِ:رَنج،تکلیف۔ہجر و فرقت:جدائی۔
دل کو یہ غم کھائے جا تا ہے کہ آہ! محترم ماہ عنقریب ہم سے وَداع(یعنی رخصت) ہونے والا ہے ! افسوس ! مسجِد کے اِس پر کیف و روح پرور مَدَنی ماحول سے نکل کر ایک بار پھر ہم دُنیا کی جَھنجَھٹوں میں پھنسنے والے ہیں ،آہ!اب جلد ہی ہمیں غفلت بھرے بازار وں میں دوبارہ جانا پڑجائے گا ، ہائے ! ہم جلد بہت جلد اعتکاف کی برکتوں اور رَمَضانُ الْمبارَک کی رَحمتوں بھری فضاؤں سے جُدا ہو جائیں گے ! اِس طرح کی سوچوں کے سبب عاشِقانِ رَمضان کے دل غمِ رَمضان سے بھر جاتے ہیں ! ؎
تیرے آنے سے دل خوش ہوا تھا اور ذَوقِ عبادت بڑھا تھا
آہ! اب دل پہ ہے غم کا غَلبہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۱)
غفلت میں گزارے ہوئے ا یامِ رَمضان کا خوب صدمہ ہوتا ہے، اپنی عبادتوں کی سُستیاں یاد آتی ہیں ،دل پر ایک خوف سا چھا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہماری کوتاہیوں کے سبب ہمارا پیارا پیارا ربّ عَزَّوَجَلَّ ہم سے ناراض ہو گیاہو ! اللہ عَزَّوَجَلَّکی بے پایاں رحمتوں پر ٹکٹکی بھی لگی ہوتی ہے، خوف و رَجا یعنی ڈر اور اُمید کی ملی جلی کیفیات ہوتی ہیں ، کبھی رحمتوں کی اُمیدپر دل کی مرجھائی ہوئی کلی کھل اٹھتی اور رُخ پربشاشت(یعنی چہرے پر تازگی) کے آثارنمایاں ہوجاتے ہیں تو کبھی خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّکا غلبہ ہوتا ہے تو دل غم میں ڈوب جاتا ، چہرے پر اُداسی چھا جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔ ؎
کچھ نہ حُسنِ عمل کر سکا ہوں نَذْر چند اشک میں کر رہا ہوں
بس یِہی ہے مِرا کُل اَثاثہ اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمَضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)
الفاظ و معانی:حُسنِ عمل: نیکیاں ۔اَثاثہ:سرمایہ۔
عاشقانِ رمضان کو یہ احساس بالخصوص تڑپا کر رکھ دیتا ہے کہ رَمَضانُ الْمبارَک نے اگر چہ آیندہ سال پھر ضرورتشریف لاناہے مگرنہ جانے ہم زندہ رہیں گے یا نہیں ! ؎
جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ تیری آمد کا پھر شور ہوگا
کیا مری زندگی کا بھروسا اَلوَداع اَلوَداع آہ! رَمضاں (وسائلِ بخشش ص۶۵۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :پہلے کے لوگ رَمَضانُ الْمبارَک سے قبل چھ مہینے رَمَضان شریف کو پانے کی اور رَمَضانُ الْمبارَک کے بعد چھ مہینے عباداتِ رَمضان کی قبولیَّت کی دعا کیا کرتے تھے۔ (لطائف المعارف لابن رجب ص۳۷۶)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
رَمَضانُ المبارَک کے آخری دنوں یا لمحوں میں ماہِ رَمضان سے مَحَبَّت کی وجہ سے کوئی عاشقِ رَمضان رنجیدہ ہو جائے،غمِ رَمضان میں روئے، ماہِ رَمضان غفلت میں گزار دینے کے صدمے سے آنسو بہائے تو یہ بھی ایک نہایت عمدہ عمل ہے اور اچھی نیّت پر یقینا وہ ثواب کاحقدارہے۔ بے شک رَمَضانُ المبارَک میں بے شمار گنہگار بخشے جاتے ہیں مگرہم نہیں جانتے کہ ہمارے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ! یقینا جو غافِل مسلمان ماہِ رَمَضان میں مغفِرت سے محروم ہوا وہ بہت زیادہ محروم ہواجیسا کہ ایک فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں یہ بھی ہے : رَغِمَ اَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَیْہِ
رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ اَنْ یُّغْفَرَ لَہٗ۔یعنی’’ اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر رَمضان آئے پھر اُس کی بخشش سے پہلے ہی گزرجائے۔‘‘ ( تِرمذی ج۵ص۳۲۰حدیث۳۵۵۶)
میں ہائے! جی چراتا ہی رہا ربّ کی عبادت سے گزارا غفلتوں میں سارا رمضاں یارسولَ اللّٰہ!
میں سوتا رہ گیا غفلت کی چادر تان کر افسوس! خدارا !میری بخشش کا ہو ساماں یارسولَ اللّٰہ! (وسائل بخشش ص۶۷۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
آج ( یعنی تادمِ تحریر) سے تقریباً 625سال پہلے گزرے ہوئے قاہرہ (مصر) کے صوفی بزرگ اور مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے مقیم، مبلِّغِ اسلام، سیِّدُنا شیخ شعیب حریفیش(حری۔فیش ) رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 810ہجری)فرماتے ہیں : اے لوگو!تم ماہِ رَمَضان کی جُدائی میں غمگین ہوجاؤ !کیونکہ یہ ایسا موسِم ہے جس میں تم بارِشِ رَحمت اور دعاؤں کی قبولیت کی سعادت پاتے ہو۔ (الروضُ الفائق ص۴۰ مُلَخَّصاً)
جاں فِدا تجھ پہ نانائے حَسَنَین! قلب ہے غمزدہ اور بے چَین
دل پہ صدمہ بڑھا جا رہا ہے ہائے! تڑپا کے رَمَضاں چلا ہے (وسائلِ بخشش ص۶۸۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سیِّدُنا شیخ شعیب حریفیش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میرے بھائیو! ماہِ رمضان کے روزوں اور راتوں کے قیام(یعنی راتوں کی عبادت ) میں کیوں رغبت نہ کی جائے! اُس مبارَک مہینے پر کیوں حسرت نہ کی جائے جس میں بندے کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اوراُس بابَرَکت مہینے کی جدائی پر کیوں نہ رویاجائے جس کے تشریف لے جانے سے خوب نیکیاں کمانے کاموقع بھی جاتا رہتاہے۔ (اَلرّوضُ الفائق ص ۴۱)
خوب روتاہے تڑپتا ہے غمِ رَمَضان میں
جو مسلماں قَدر دان و عاشقِ رَمَضان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1] ۔۔۔ مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے آقا سے مال کی ادائیگی کے بدلے آزادی کا معاہدہ کیا ہوا ہو۔ (المختصر القدوری ، کتاب المکاتب ص ۳۷۶)
[3] ۔۔۔مسلم ص۱۱۳۰حدیث۲۰۴۳
[4] ۔۔۔شمائلِ ترمذی ص۱۲۱حدیث۱۹۰
[5] ۔۔۔شعب الایمان ج۲ص۳۸۱ رقم۲۱۱۷۔
[6] ۔۔۔یعنی کسی دوا کی بتّی یاپچکاری پیچھے کے مقام میں چڑھنا جس سے اجابت ہو جائے۔
[7] ۔۔۔ یہ درد کے علاج کا ایک مخصوص طریقہ ہے جس میں سوراخ کیا ہوا سینگ درد کی جگہ رکھ کر منہ کے ذریعے جسم کی گرمی کھینچتے ہیں۔
[8] ۔۔۔ صحیح بُخاری ج۱ص۶۲۸حدیث۱۶۱۱
[9] ۔۔۔ المستدرک ج۲ص۶۷حدیث۱۹۰۳
[10] ۔۔۔ معجم اوسط ج۳ص۲۶۴حدیث۴۵۳۶
[11] ۔۔۔ حیض و نفاس کی حالت میں عورت کو روزہ ، نماز ، تلاوت،مسجد میں جانا،طواف ِ کعبہ کرناحرام ہے۔ نماز معاف ہے مگربعد فراغت روزقضا کرنا لازمی ہے۔
[12] ۔۔۔ شادی شدگان’’ ملاپ‘‘ کی نیتوں وغیرہ کی معلومات کیلئے فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ نمبر ۳۸۵،۳۸۶ پر مسئلہ نمبر ۴۲،۴۱ کا معالعہ فرمالیں۔
[13] ۔۔۔ ضحوۂ کُبریٰ کی تعریف صفحہ100تا101پر دیکھ لیجئے۔
[14] ۔۔۔ کفّارے میں صدقۂ فطر دینے کا مسئلہ بہارِ شریعت جلد2صفحہ215پر سے دیکھا جاسکتاہے۔
[15] ۔۔۔ وؤا،ی اور الف ساکن اور قبل کی حرکت موافق ہوتو (یعنی واؤ کے پہلے پیش اور ی کے پہلے زیر اور الف کے پہلے زبر)اس کو مد اور واؤ اور ی ساکن ماقبل مفتوح کو لین کہتے ہیں۔
[16] ۔۔۔ صحیح بخاری ج۱ص۶۵۸حدیث۲۰۰۹
[17] ۔۔۔ ایضاًحدیث۲۰۱۲
[18] ۔۔۔مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانکی کتاب مستطاب" جاء الحق وزھق الباطل" میں بدعات ا ور ان کی اقسام وغیرہ کے بارے میں مزید تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔
[19] ۔۔۔صحیح مسلم ، ص ۱۳۸۸ ،حدیث ۲۵۶۶۔
[20] ۔۔۔المُؤَطّا ، ج ۲ ص ۴۳۹، حدیث ۱۸۲۸۔
[21] ۔۔۔سنن الترمذی ،ج ۴ ، ص ۱۷۴ ،حدیث ۲۳۹۷ ۔
[22] ۔۔۔شعب الایمان ،ج۶،ص۴۹۲ حدیث ۹۰۲۲۔
[23] ۔۔۔شعب الایمان ،ج۶،ص۴۸۷ ، حدیث ۹۰۰۲۔
[24] ۔۔۔المعجم الکبیر ج ۴ ص ۱۵۰ ،حدیث ۳۹۷۳۔
[25] ۔۔۔سنن ابی داو،د ، ج ۴ ، ص ۲۹۰ ، حدیث ۴۶۸۱۔
[26] ۔۔۔الادب المفرد ، ص ۱۰۹،حدیث ۴۰۱۔
[27] ۔۔۔مسند احمد ،ج۳،ص۶۰۶، حدیث ۱۰۷۳۹۔
[28] ۔۔۔ترجمہ :یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سِوا کوئی عِبادت کے لائِق نہیں جو حِلم وکرم والا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ پاک ہے جو ساتوں آسمانوں اور بڑےعرش کامالک ہے۔
[29] ۔۔۔ رنج۔تکلیف ۔