ماہِ رمضان کی جدائی میں کیوں نہ رویا جائے!:

سیِّدُنا شیخ شعیب حریفیش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میرے بھائیو! ماہِ رمضان کے روزوں اور راتوں کے قیام(یعنی راتوں کی عبادت ) میں کیوں رغبت نہ کی جائے! اُس مبارَک مہینے پر کیوں حسرت نہ کی جائے جس میں بندے کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اوراُس بابَرَکت مہینے کی جدائی پر کیوں نہ رویاجائے جس کے تشریف لے جانے سے خوب نیکیاں کمانے کاموقع بھی جاتا رہتاہے۔  (اَلرّوضُ الفائق ص ۴۱)

خوب روتاہے تڑپتا ہے غمِ رَمَضان میں

جو مسلماں قَدر دان و عاشقِ رَمَضان ہے   (وسائلِ بخشش ص۷۰۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جُمُعَۃُ الْوَداع کے بیان میں جان دیدی(حکایت):

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ649 صفحات پر مشتمل کتاب، ’’حکایتیں اور نصیحتیں ‘‘ صَفْحَہ96تا 97 پردی ہوئی حکایت قدرے تصرف کے ساتھ بیان کی جاتی ہے:ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میں ماہِ رَمَضان کے جُمُعَۃُ الوَداع کے روز حضرتِ سیِّدُنا منصور بن عمار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکی محفل میں حاضر ہوا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ رَمضان شریف کے روزوں کی فضیلت، راتوں کی عبادت اور مخلصین یعنی خلوص کے ساتھ عبادت کرنے والوں کے لئے جواجر تیار کیا گیا ہے اُس کے متعلق بیان فرمارہے تھے اوریوں لگ رہاتھاگویا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بیان کے اثر سے ٹھوس پتھروں سے آگ ظاہر ہو رہی ہے۔بلاشبہاللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! (ایسا ہوسکتا ہے ) کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُؕ- (پ۱،البقرہ:۷۴)

ترجَمۂ کنزالایمان: اورپتھروں میں توکچھ وہ ہیں جن سے ندیاں بہہ نکلتی ہیں ۔

        لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی محفل میں نہ کسی نے حرکت کی ، نہ ہی کسی نے اپنے گناہوں پرنَدامت کا اظہار کیا، جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے محفل کی یہ حالت ملاحظہ کی تو ارشاد فرمایا: اے لوگو! کیا اپنے عیوب (یعنی عیبوں )سے آگاہ ہو کرکوئی رونے والا نہیں ؟ کیایہ توبہ و استغفار کا مہینا نہیں ؟ کیا یہ عفوو مغفرت (یعنی معافی ملنے اور بخشے جانے )کا مہینا


 

 نہیں ؟ کیا اس ماہِ مبارَک میں جنت کے دروازے نہیں کھولے جا تے؟ کیا اس میں جہنَّم کے دروازے بند نہیں کئے جاتے؟ کیا اِس میں شیاطین کو قید نہیں کیاجاتا؟ کیا اِس ماہِ صیام (یعنی روزوں کے مہینے)میں انعام و اکرام کی بارِشیں نہیں ہوتیں ؟ کیااس بابرکت ماہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّتجلی نہیں فرماتا؟ کیا اس ماہِ مبارَک میں ہر رات بوقتِ اِفطار دس لاکھ گنہگار جہنَّم سے آزادنہیں کئے جاتے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اس ثوابِ عظیم سے خود کو محروم رکھتے اور لباسِ مخالفت میں اِتراتے ہو (مطلب یہ کہ عمل نہیں کرتے اور گناہوں میں مصروف رہتے ہو)۔ ارشادِ ربّانی ہے:

اَفَسِحْرٌ هٰذَاۤ اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَۚ(۱۵) (پ۲۷،الطور :۱۵)

ترجَمۂ کنزالایمان: توکیایہ جادوہے یا تمہیں سوجھتانہیں ۔

        (اس کے بعد آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا:)سب خدائے غفارعَزَّوَجَلَّکے دربار میں حاضر ہوکرتوبہ واستغفارکرو! تو تمام حاضرین بلند آواز سے گریہ وزاری کرنے اور رونے دھونے لگے، اِتنے میں ایک نوجوان روتا ہوا کھڑاہو گیا اور عرض کرنے لگا:’’یاسیِّدی!(یعنی اے میرے آقا!)ارشاد فرمایئے کیا میرے روزے مقبول ہیں ؟ کیا میرا(رمضان کی) راتوں کا قیام(یعنی راتوں میں عبادت کرنا) قبولیت پانے والے عبادت گزاروں کے ساتھ لکھا جا ئے گا؟ حالانکہ مجھ سے بہت سارے گناہ سرزدہوئے ہیں ، میں نے تواپنی تمام عمر نافرمانیوں میں برباد کردی ہے،آہ!میں عذاب کے دن سے غافل رہا۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! اللہ عَزَّوَجَلَّتجلی کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ اُس نے قراٰنِ کریم میں ارشادفرمایاہے:

وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ (پ۱۶،طٰہٰ:۸۲)

ترجَمۂ کنزالایمان: اوربیشک میں بہت بخشنے والا ہوں اُسے جس نے تو بہ کی ۔

        آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قاری کو یہ آیت ِ مبارَکہ پڑھنے کاحکم فرمایا:


 

وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ (پ۲۵،اَلشُّورٰی:۲۵)

ترجَمۂ کنزالایمان: اوروہی ہے جواپنے  بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گنا ہوں سے در گزر فرماتاہے۔

        اُس نوجوان نے سن کر ایک زور دار چیخ ماری اور کہا: ’’میری خوش نصیبی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکا اِحسا ن مجھ تک پہنچتا رہا لیکن اِس کے باوجود میں نافرمانیوں میں اضافہ کرتا رہا اورغلط راستے سے نہ لوٹا۔ کیا گزرے ہوئے وقت کی جگہ کوئی اور وقت ہو گاکہ جس میں اللہ تَعَالٰی درگزر فرمائے گا؟‘‘ پھر اُس نے دوبارہ چیخ ماری اور اپنی جان جانِ آفرِیں کے سِپُرد کر دی۔(یعنی وفات پا گیا) یہ حکایت نقل کرنے کے بعد صاحبِ کتاب فرماتے ہیں :

        میرے بھائیو! ماہِ رمضان کے فراق(یعنی جدائی) پر کیوں نہ رویاجائے اورعفوومغفرت کے مہینے کی رخصت پر کیوں نہ افسوس کیا جائے! اِس مہینے کی جُدائی پر کیوں نہ غم کیاجائے جس میں گنہگاروں کو جہنَّم سے آزادی نصیب ہوتی ہے!     (اَلرّوضُ الفائق ص۴۵)

کر رہے ہیں تجھ کو رو رو کر مسلماں الوداع    آہ! اب تو چند گھڑیوں کا فقط مہمان ہے

واسطہ رمضان کا یارب! ہمیں تو بخش دے   نیکیوں کا اپنے پلّے کچھ نہیں سامان ہے       (وسائلِ بخشش ص۷۰۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ماہِ رَمضان کی آخری رات خوفِ خدا سے وفات(حکایت):

ماہِ رمضان عبادات و ریاضات میں گزارنے کے بعد آخری رات وفات پانے والی ایک نیک بندی کی حکایت ملاحظہ فرمایئے اوراِس میں سے اپنے لئے عبرت کے مَدَنی پھول  تلاش کیجئے چنانچِہ حضرتِ سیِّدُنامحمدبن ابو فرج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :مجھے ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں ایک کنیز کی ضرورت پڑی


 

 جو ہمیں کھانا تیار کردے،میں نے بازارمیں ایک کنیز کو دیکھا، اُس کاچہرہ زَرد(یعنی پیلا)، بدن کمزوراورجلد(Skin) خشک تھی۔ میں اُس پرترس کھاتے ہوئے اُسے خرید کر گھر لے آیا اور کہا: برتن پکڑو اوررَمَضانُ الْمبارَک کی ضرور ی اشیا (یعنی چیزوں ) کی خریداری کے لئے میرے ساتھ بازار چلو۔ تو وہ کہنے لگی: اے میرے آقا! میں تو ایسے لوگوں کے پاس تھی جن کا پورا زما نہ ہی گویا رَمَضان ہوا کرتا تھا!(یعنی وہ لوگ رَمَضانُ الْمبارَک کے فرض روزوں کے علاوہ نفل روزے بھی کثرت سے رکھتے اور دن رات عبادات میں مشغول رہا کرتے تھے)۔اس کی یہ بات سن کر میں نے اندازہ لگایا کہ یہ ضرور اللہ عَزَّوَجَلَّکی نیک بندی ہوگی۔ مَاشَآءَاللہ ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں وہ ساری ساری رات عبادت کرتی رہی اورجب آخری رات  آئی تومیں نے اس کو کہا:عید کی ضروری اشیا خریدنے کے لئے میرے ساتھ بازار چلو۔تو وہ پوچھنے لگی:اے میرے آقا! عام لوگوں کی ضروریات خریدیں گے یا خاص لوگوں کی؟ میں نے اس سے کہا: اپنی بات کی وضاحت کرو!توکہنے لگی: ’’عام لوگوں کی ضروریات تو عید کے مشہور کھانے ہیں ، جبکہ خاص لوگوں کی ضَروریات مخلوق سے کَناراکَش ہونا، عبادت کے لئے فارغ ہونا، نوافِل کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّکاقرب حاصل کرنااوراُس کی بارگاہ میں عجزو انکساری کا اظہار ہے۔‘‘ یہ سن کر میں نے کہا: میری مراد کھانے کی ضروری اَشیاہیں ۔اُس نے پھر پوچھا:کون سا کھانا؟ جو جسموں کی غذا ہے وہ یا دِلوں کی؟تومیں نے کہا: اپنی بات واضِح کرو!تواُس نے مجھے بتایا:’’جسموں کی غذا تو کھاناپینا ہے جبکہ دلوں کی غذاگناہ چھوڑنا اوراپنے عیوب دُور کرنا، محبوب کے دیدارسے لطف اندوز ہونا اور مقصود کے حصول (یعنی مُراد پوری ہونے) پر راضی ہونا ہے لیکن یہ چیزیں حاصِل کرنے کے لئے خشوع، پرہیزگاری، ترکِ تکبُّر ، مالک و مولیٰعَزَّوَجَلَّکی طرف رُجوع اور ظاہر و باطن میں صِرف اُسی پر بھروسا کرنا ہے۔‘‘ پھر وہ کنیز نما ز کے لئے کھڑی ہو گئی، اُس نے پہلی رَکعت میں پوری سُوْرَۃُ الْبَقْرَہپڑھی، پھر سُوْرَۂ اٰلِ عِمْرٰن شروع کر دی، پھر ایک سورت ختم کر کے دوسری سورت شروع کرتی رہی یہاں تک کہ سُوْرَۃُ اِبْرٰاھِیْمکی آیت نمبر 17پر پہنچ گئی:


 

یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ(۱۷)

ترجَمۂ کنزالایمان: بمشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے گا اورگلے سے نیچے اُتارنے کی اُمید نہ ہوگی اوراسے ہرطرف سے موت آئے گی اور مرے گا نہیں اوراس کے پیچھے ایک گاڑھا عذاب۔

      پھر وہ روتی ہوئی اِسی آیت کودہراتی رہی یہا ں تک کہ بے ہو ش ہو کر زمین پر گرپڑی جب میں نے اُسے ہلایا جلایا تو اس کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔ (اَلرّوضُ الفائق ص ۴۱) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

دست بستہ التجا ہے  ہم سے راضی ہو کے جا          بخشوانا حشر میں ہاں تو مَہِ غفران ہے

السلام اے ماہِ رَمضاں تجھ پہ ہوں لاکھوں سلام     ہِجر میں اب تیرا ہر عاشق ہوا بے جان ہے          (وسائلِ بخشش ۷۰۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’اَلودَاع ماہِ رَمضان‘‘ کاشرعی ثبوت کیا ہے؟:

’’اَلْوَدَاع ماہِ رَمضان ‘‘ کے اشعار پڑھنا سننایقینا بہت عمدہ کام ہے ، یہ فرض یا واجب یا سنت نہیں بلکہ صرف مباح وجائز ہے۔اورمباح کام (یعنی ایسا عمل جس پر ثواب ملے نہ گناہ اس)میں اگر اچھی نیت شامل کر لی جائے تو وہ مستحب وکارِ ثواب بن جاتا ہے۔ لہٰذا ’’الوداع ماہِ رمضان‘‘ بھی اچھے مقصد مَثَلاً گناہوں اور کوتاہیوں پر ندامت اور آیندہ نیکیوں بھرا رمضان گزارنے کی نیت سے پڑھنا سننا کارِ ثواب ہے۔اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  ’’خطبۃُ الوداع‘‘ کے متعلق کئے جانے والے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :وہ( یعنی ’’ الوداع‘‘ کا خطبہ) اپنی ذات میں مُباح ہے، ہر مباح نیتِ حسن (یعنی اچھی نیت) سے مستحب ہو جاتا ہے۔ اورعروض و عوارِض خلاف(یعنی شرعی ممنوعات پر مشتمل ہو نے )  سے مکروہ سے حرام تک (جیسے


 

مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ ہونا یا اسے یعنی الوداع کے خطبے کو واجب وضروری سمجھنایاعورتوں کا راگ سے اس طرح پڑھنا کہ ان کی آواز مردوں تک پہنچے یااَلوداع کے اَشعار کاخلافِ شرع ہونا )۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۸ ص ۴۵۲)بہرحال اَلْوَدَاع ماہِ رمضان کے کہنے کا موجودہ انداز نیا ہی سہی مگر شرعاً اس میں حرج نہیں ۔ یاد رہے! مباح کے کرنے یانہ کرنے پرملامت نہیں ہوتی ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہے: ’’حلال وہ جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائی وہ مُعاف ہے۔‘‘

(تِرمذی ج ۳ ص ۲۸۰حدیث۱۷۳۲)

             مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیثِ پاک کے اس حصے،’’جس سے خاموشی فرمائی وہ معاف ہے۔‘‘کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جن چیزوں کو نہ قراٰنِ کریم نے حلال یا حرام کہا نہ حدیثِ پاک نے یعنی ان کا ذِکر ہی کہیں نہیں وہ حلال ہیں ۔ یہاں ’’ مرقات([1]) ‘‘ اور ’’اَشِعَّۃُ اللَّمْعات([2]) ‘‘ اور ’’لمعات ([3]) ‘‘نے فرمایا کہ: اس حدیث  سے معلوم ہوا کہ اصل، اشیا میں اِباحت ہے یعنی جس سے قراٰن و حدیث میں خاموشی ہو وہ حلال ہے۔ آم، مالٹا یوں ہی پلاؤ زَردہ،فرنی،یوں ہی لٹھا ململ۔یوں ہی میلاد شریف و فاتحہ کی شیرینی سب حلال ہیں ،کیوں ؟اس لیے کہ انہیں قراٰن و حدیث نے حرام نہیں کیا، یہ اسلام کاکلی(یعنی اکثری )قانون ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ج۶ص۴۳)

اصل اشیا میں اِباحت ہے:

میرے آقا اعلٰی حضرت ، امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے والد ماجد رئیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن حضرت مولانانقی علی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان لکھتے ہیں :  اصل اشیا میں اباحت ہے یعنی جس عمل کے فعل وترک(یعنی کرنے اور چھوڑنے ) میں شرعاً کچھ حرج نہ پایا جائے وہ شرعاً مباح وجائز ہے۔(اُصُوْلُ الرَّشاد ص۹۹ مُلَخَّصاً)(اس قاعدے وضابطے:’’ اصل اشیا میں اباحت ہے‘‘ کی تفصیلات ’’اُصُوْلُ الرَّشاد‘‘ صفحہ 99 تا 116 پر ملاحظہ فرمائیے)


 

دین میں نئے اچھے طریقے نکالنے کی حدیث میں اجازت ہے:

’’اَلْوَدَاع ماہِ رَمضان ‘‘ کے اشعار پڑھنے سننے سے لوگوں کے دلوں پر چوٹ لگتی ، رَمَضانُ الْمبارَک کی اَھَمِّیَّت قلوب میں اُجاگر ہوتی، اپنی کوتاہیاں یاد آتیں اور گناہوں سے توبہ کرنے کا ذِہن ملتا ہے لہٰذا یہ ایک عمدہ انداز ہے۔ بے شک قیامت تک کیلئے دین میں اچھے اچھے طریقے ایجاد کرتے رہنے کی خود حدیثِ پاک میں اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمہے:جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے اس کے بعد اُس طریقے پر عمل کیا گیا تواس طریقے پر عمل کرنے والوں جیساثواب اس(جاری کرنے والے) کو بھی ملے گااور اُن(عمل کرنے والوں ) کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص اِسلام میں برا طریقہ جار ی کرے اس کے بعد اُس طریقے پر عمل کیا گیا تواس طریقے پر عمل کرنے والوں جیسا گناہ اس (جاری کرنے والے)کوبھی ملے گا اور اُن(عمل کرنے والوں ) کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ ( مُسلم ص۱۴۳۸،حدیث۱۰۱۷)

عاشِقانِ ماہِ رَمضاں رو رہے ہیں پھوٹ کر          دل بڑا بے چین ہے اَفسردہ روح و جان ہے

داستانِ غم سنائیں کس کو جا کر آہ! ہم      یا رسولَ اللّٰہ! دیکھو چل دیا رَمضان ہے (وسائلِ بخشش ص۷۰۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’الوداع‘‘ سننے سے توبہ و نیکی کاجذبہ ملتا ہے:

خلیفۂ امام احمد رضا خان،مفسِّرِ قراٰن،صاحِبِ تفسیر خزائن العرفان صدرُ الاْفاضِل حضرتِ علامہ مولانا مفتی سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی سے بھی ’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ پڑھنے کے متعلق سوال ہوا جس کا جواب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اتنا خوب صورت دیا کہ اس کا ایک ایک لفظ اُمت کی خیر خواہی، نیکی کی دعوت کے جذبے ، مسلمانوں کی اصلاح وفَلاح کا درد اور احکامِ اسلامیہ کی حکمتوں پر مشتمل ہے اُس سُوال جواب کے بعض اِقتباسات مع خلاصہ ملاحظہ فرمایئے: سوال:رَمَضانُ المبارَک کے اَخیر جمعے کو خُطبۃُ الوَداعپڑھاجاتا ہے جس میں رَمَضانُ الْمبارَک


 

 کے فضائل و برکات کا بیان ہوتا ہے اور ا س ماہِ مبارَک کے رخصت ہونے اور ایسے بابرکت مہینے میں حسنات وخیرات (یعنی نیکیوں اور بھلائیوں ) کے ذخیرے جمع نہ کرنے پر حسرت و افسوس اور آیندہ کے لئے لوگوں کو عملِ خیر کی ترغیب اور باقی ایّامِ رَمضان میں کثرتِ عبادت کا شوق دلایا جاتا ہے، مسلمان اس خطبے کو سن کر خوب روتے اور گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے اور آیندہ کے لئے نیکی کاعزم کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا کام جائز ہے یا نہیں ؟کیونکہ بعض لوگ الوداع پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔

جواب: صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی نے اس خطبے سے منع کرنے والوں کے  اعتراضات کا جواب دیا چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ : اِن منع کرنے والوں کے پاس ممانعت کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور نہ وہ کوئی ایک حدیث یا ایک فقہی عبارت اس کے عَدَمِ جواز (یعنی ناجائز ہونے) میں پیش کرسکتے ہیں ۔ مگرایسے لوگوں کا طریقہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی ذاتی رائے اور خیال کودین میں داخل کر دیتے ہیں اور اپنے خیال سے جس چیز کو چاہتے ہیں نا جائز کر ڈالتے ہیں ! آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : خُطبۃُ الوَداع آخر کس طرح ناجائز ہوگیا؟خطبے میں جو چیزیں شرعاً مطلوب ہیں (یعنی شریعت جو چیزیں چاہتی ہے) ان میں سے کونسی ان میں نہیں پائی جاتی؟ یا کون سا امر ممنوع  (یعنی ایسا کام جسے اسلام نے منع فرمایا ہو وہ) اس میں داخل ہے؟ تذکیر (یعنی کوئی ایسی بات جس سے مسلمانوں کو نصیحت ہو)خطبے کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ رَمَضانُ الْمبارَک کے گزرے ہوئے اَیام (یعنی دنوں ) میں عملِ خیر (یعنی نیکیاں رہ جانے )پر حسرت و افسوس اور بابرکت ایّام کو غفلت میں گزارنے پر قلق وندامت (یعنی پچھتاوا) اور (اس مبارَک ) مہینے کی رخصتی کے وقت اپنی گزشتہ کوتاہیوں (یعنی گزری ہوئی سُستیوں ) کو مدنظر لا کر آیندہ کے لیے تَیَقُّظْ ( یعنی ہوشیاری) و بیداری اور مسلمانوں کو عملِ خیر کی تحریص وتشویق کا(یعنی نیکیوں پر ابھارنے کا)یہ بہترین طریقۂ تذکیر (یعنی نصیحت کا بہت اچّھا انداز ) ہے اور اِس (اندازِ ’’الوادعِ ماہِ رَمَضان‘‘) میں نہایت نافع و سود مند نصیحت و پَند


 

 (یعنی انتہائی مفید وعظ ونصیحت ) ہے، اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور انہیں سچی توبہ نصیب ہوتی ہے، بارگاہِ الٰہی میں اِستغفار کرتے ہیں ، آیندہ کے لیے عملِ نیک کامصمم (یعنی پکا)ارادہ کر لیتے ہیں ۔ اِس تذکیر (یعنی وعظ و نصیحت)  کو فقہا نے سنت فرمایا ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: (عَاشِرُہَا ) اَلْعِظَۃُ وَ التَّذْکِیرُ۔ یعنی ’’خطبے کی دسویں سنت پندو نصیحت (یعنی نیکی کی دعوت)ہے۔‘‘

(فتاویٰ صدر الافاضل ص۴۶۶ تا ۴۸۲)

 صدرُ الافاضل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فتوے سے حاصل ہونے والے 9مدنی پھول

٭رَمَضانُ المبارَک کے آخری دنوں میں الوداع پڑھنے سننے سے نیکیاں رہ جانے پر غم و افسوس ہوتا ہے جو کہ نہایت محمود یعنی پسندیدہ کام ہے اور ٭’’الوداع‘‘ رمضان شریف کے مبارک دِنوں کو غفلت میں گزارنے پر پچھتاوے کی ایک صورت ہے  ٭ اِس سے گزری ہوئی سستیوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آیندہ کے لئے عملِ خیر یعنی نیکیاں کرنے کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اور ٭یہ الوداع مسلمانوں کے دل میں نیکیوں کی حرص اور لالچ پیدا کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہی٭ اس انداز سے  الوداع میں انتہائی مفید نصیحت ملتی ہی٭  الوداع سے سچی توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے(دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں تو اس کا باقاعدہ مشاہدہ ہے بلکہ خود شرکت کرکے اِ ن برکات کا نظارہ کر سکتے ہیں ) اور بارگاہ ِ خداوندی میں رونا نصیب ہوتا ہے ٭  الوداع سے لوگ بارگاہِ الٰہی میں استغفار کرتے ہیں ٭ الوداع کی برکت سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آیندہ نیکیاں کرنے کا پکا ارادہ کر لیتی ہے(اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ بہت سے خوش نصیبوں کو اِس نیّت پر استقامت بھی مل جاتی ہے ) ٭خطبۂ جمعہ میں تذکیر یعنی وعظ و نصیحت کرنا سنَّت ہے اور خطبے میں الوداع پڑھنا اِسی سنَّت پر عمل کی ایک صورت ہے (یعنی موجود ہ ہیئت اگرچہ سنَّت نہیں لیکن اس کی اَصل ثابت ہے جو کہ تذکیر ہے اور تذکیر(یعنی وعظ و نصیحت) سنَّت ہے)


 

 

        یادرہے ! صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی کا فتوی خطبۂ جمعہ میں الوداع پڑھنے کے متعلق ہے لیکن الوداع پڑھنے سننے کے جو فوائد وبرکات بیان ہوئے ہیں وہ اس خطبے کے علاوہ آخِری جمعے کی نماز کے بعد صلوٰۃ و سلام کے وقت اوریونہی رَمضان شریف کے آخری دِنوں میں بعد نمازِ عصر یا کسی دوسرے وقت پڑھنے سننے سے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔

خطب علمی میں اَلوداعی اشعار:

کسی دور میں ہند کے اندر خوب پڑھی جانے والی خطبوں کی کتاب ’’خطب علْمیؔ‘‘ میں نہایت حسرت کے ساتھ ماہِ رَمَضانُ الْمبارک  کو الوداع کہا گیا ہے۔میرے آقا اعلٰی حضرت، مولانا شاہ امام احمد رضاخا ن عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے ’’خطب علْمیؔ‘‘ کے مصنف کا تعارف ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’ مولانا محمد حسن علْمیؔ بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سنی صحیح العقیدہ اور واعظ و ناصح ( یعنی وعظ و نصیحت کرنے والے) اور حضورِ اقدس  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے مداح (یعنی تعریف بیان کرنے والے) اور میرے جد امجدقُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز ( یعنی دادا جان حضرت مولانا رضاعلی خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان)کے شاگرد تھے(فتاویٰ رضویہ ج۸ ص۴۴۷ )  حضرت مولانا محمد حسن عِلمیؔ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاپنے خطبوں کے مجموعے ’’خطب علمیؔ‘‘ میں ’’جمعۃُ الوداع‘‘ کے خطبے میں رَمَضانُ الْمبارَک کو ’’الوداع‘‘ کہتے ہوئے لکھتے ہیں : اَلْوَدَاعُ اَلْوَدَاعُ یَا شَہْرَ رَمَضَانَ ۔ فَتَحَسَّرُ وْاعَلٰی اِتْمَامِہٖ وَتَأَسَّفُوْاعَلٰی اِخْتِتَامِہٖ۔ اَلْوَدَاعُ اَلْوَدَاعُ یَا شَہْرَ رَمَضَانَ ۔(یعنی :الوداع الوداع اے ماہِ رمضان!(اے لوگو!) اس مہینے کے ختم ہونے پر حسرت وافسوس کرو!الوداع الوداع اے ماہِ رمضان!) اُنہوں نے اپنی اسی کتاب کے اندر اُردو میں بھی الوَداعی کلام شامل فرمایا ہے، اس کلام میں سے 12اشعار پیش کئے جاتے ہیں ، آپ بھی پڑھئے اورہو سکے تو غمِ رَمضان میں آنسو بہایئے:


 

افسوس تو رخصت ہوا ماہِ مبارک الوادع

افسوس تو رخصت ہوا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع روروکے دل نے یوں کہا: ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

مدت سے تھے ہم منتظر، شکر خدا آیا تُو پِھر          پر حیف جلدی چل دیا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

دوزخ کے اندر بالیقیں ، تھا قید شیطانِ لعین        مؤمن عذابوں سے بچا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

پڑھتا تھا سنت کوئی جب، یا کوئی پڑھتا مستحب        پاتا ثواب اِک اَجر کا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

جو فرض ادا تجھ میں کرے، اَجر اُس کو ستر کا ملے     تھا یمن ورحمت سے بھرا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

عاصیِ روزہ دار پر، پہنچے گی جب نارِ سقر             بن کر سپر لے گا بچا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

اب کوچ ہے پیش نظر، آنکھوں میں اَشک آتے ہیں بھر        کرتا ہے دل آہ وبکا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

تو ماہ، اِستِغفار کا، اور طاعت غَفّار کا                  کچھ بھی نہ ہم سے ہوسکا، ماہِ مبارک اَلْوَدَاع

گر زِیست ہے پھر پائیں گے، ورنہ بہت پچھتائیں گے          تو اب ہے ر خصت ہو چلا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

رخصت سے ہے دل پر اَلم، فرقت سے جاں پر سخت غم          شدت سے ہے رنج و عنا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

تعریف کیا کوئی کرے، خالی نہیں ہے فضل سے     روز اور شب صبح و مسا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

علمیؔ نہ کی کچھ بندگی، ازبس کہ ہے  شرمندگی

واحسرتا واحسرتا، ماہِ مبارَک اَلْوَدَاع

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

الفاظ و معانی:حیف: افسوس۔یمن :برکت ۔ نارِ سقر: دوزخ کی آگ۔ سپر:ڈھال ۔آہ و بکا: رونا دھونا ۔ زِیست: زندگی۔ پُراَلم : غمگین۔:فرقت:جدائی۔عنا: غم۔مسا: شام۔اَزبس: نتیجہ۔

 خطبے کا ایک اَہم مسئلہ:

’’بہارِ شریعت‘‘ میں ہے:غیر عربی میں خطبہ پڑھنا یا عر بی کے ساتھ دوسری زبان خطبے میں خلط کرنا(یعنی ملانا) خلافِ سنت متوارِثہ(یعنی ہمیشہ


 

سے چلی آنے والی سنّت کے خلاف)ہے۔ یوہیں خطبے میں اَشعار پڑھنا بھی نہ چاہیے اگرچہ عر بی ہی کے ہوں ، ہاں دو ایک شعر پندونصائح کے اگر کبھی پڑھ لے تو حر ج نہیں ۔(بہار ِ شریعت ج۱ص۷۶۹)  لہٰذا اردومیں الوداع یا کوئی سا بھی کلام پڑھنا ہو تو خطبے سے پہلے یا نماز کے بعد پڑھا جائے۔

’’الوداع ماہِ رَمضان‘‘ کی مدنی بہار:

بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی مَدَنی ماحول میں آنے سے پہلے عام لڑکوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے ، نمازوں کی پابندی کا ذِہن نہیں تھا ، نہ اِسلامی حُلیے کی کوئی ترکیب تھی ۔ غفلتوں میں زندگی کے قیمتی لمحات ضائع ہورہے تھے ۔ 1999ء میں اُنہوں نے میٹرک کا امتحان دیا، اِس کے بعد اسکول کی چھٹیاں ہوگئیں ،اُنہی دِنوں ’’شبِ برائَ ت‘‘ کی تشریف آوری ہوئی اور اُن کے اپنے علاقے ’’ڈالمیا‘‘کے قریب ’’کنز الایمان مسجد‘‘ کا اِفتتاح ہوا، وہاں نمازِ مغرب کے فرض و سنّت کے بعد شَعبَانُ الْمُعَظَّم کے چھ نوافل بھی پڑھائے گئے، پھرماہِ رَمضانُ المبارک میں اِسی زیر تعمیر مسجد میں اُنہیں ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی طرف سے کئے جانے والے اجتماعی اعتکاف میں عاشقانِ رسول کے ساتھ اعتکاف کرنے کی سعادت بھی ملی، اِس اعتکاف کی برکت سے بہت سا علمِ دین سیکھنے کا موقع ملا اور آخری دن رُخصت ماہِ رَمضان کے موقع پر ’’اَلْوَداع‘‘ پڑھی گئی تو عاشقانِ رسول پر رِقت طاری تھی ،اُن پر بھی رِقت طاری ہوئی اور وہ کافی دیر تک روتے رہے، یہاں تک کہ اِسلامی بھائیوں نے اُنہیں کھانے کے لئے بٹھایا مگر اُن کی ہچکیاں جاری ہی تھیں ۔ پھر اُنہیں عمامہ شریف سجانے کاشرف ملا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن (تادمِ تحریر) وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہیں ، کئی مَدَنی قافلوں میں سفر اور مدینۃ الاولیا ملتان شریف کے تین دن کے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی سعادت بھی ملی، تادم تحریر4 رجبُ المرجب 1438ھ چار سال سے مسجد کے اندرمنصب اِمامت پر بھی فائز ہیں ۔ جامعۃ المدینہ فیضان محمدی گلشن معمار(کراچی) میں عصری علوم یعنی ریاضی اور انگلش کی تدریس بھی فرما رہے ہیں ۔ اور(یہ الفاظ لکھتے وقت) اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاُنہیں تین بار عالمی مَدَنی مرکز ’’فیضانِ مدینہ‘‘ میں اِجتماعی اعتکاف کی سعادت بھی نصیب ہوچکی ہے۔نیزتادم تحریر شعبۂ تعلیم (دعوت اسلامی) کی ڈویژن سطح کی ذمّے داری بھی حاصل ہے ۔

Description: C:\Users\KFMAM907\Desktop\Capture.JPG


 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

فیضانِ اعتکاف

دُرُود شریف کی فضیلت:

فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:جس نے مجھ پرصبح و شام دس دس مرتبہ درودِ پاک پڑھا اُسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔ (مَجْمَعُ الزَّوَائِد ج۱۰ص۱۶۳حدیث۱۷۰۲۲)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رَمَضانُ الْمُبارَک کی برکتوں کے کیا کہنے ! یوں تواس کی ہرہرگھڑی رَحمت بھری اور ہر ہر ساعت اپنے جلو میں بے پایاں برکتیں لئے ہوئے ہے، مگر اس ماہِ محترم میں شبِ قدر سب سے زیادہ اَہَمِّیَّت کی حامل ہے۔اسے پانے کے لئے ہمارے پیارے آقا ، مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے ماہِ رَمَضانِ پاک کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایاہے اور آخِری دس دن کابہت زیادہ اہتمام تھا۔یہاں تک کہ ایک بار کسی خاص عذرکے تحت ’’آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمرَمَضانُ الْمُبارَک میں اعتکاف نہ کرسکے تو شَوّالُ الْمکرم کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۶۷۱حدیث۲۰۴۱) ’’ایک مرتبہ سفرکی وَجہ سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا اعتکاف  رہ گیاتواگلے رَمضان شریف میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔‘‘ (تِرمذِی ج۲ص۲۱۲حدیث۸۰۳ مُلَخّصاً)


 

اعتکاف پرانی عبادت ہے:

پچھلی اُمَّتوں میں بھی اعتکا ف کی عبادت موجود تھی۔ چنانچہ پارہ اوّل سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر 125 میں اللہ عَزَّوَجَلَّکا فرمانِ عالی شان ہے:

وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)

ترجَمۂ کَنزُالْاِیمَان:اورہم نے تا کید فرمائی ابراہیم واسمٰعیل کو کہ میر ا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتِکاف والوں اور رُکوع و سجود والوں کیلئے ۔

مسجدوں کو صاف رکھنے کا حکم ہے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  طواف ونماز واعتکاف کیلئے کعبۂ مُشَرَّفہ کی پاکیزگی او ر صفائی کاخودربِّ کعبہعَزَّوَجَلَّکی طرف سے فرمان جاری کیا گیا ہے۔ مفسر شہیر حکیمُ الْاُمَّتحضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرما تے ہیں :’’ معلوم ہوا کہ مسجِدوں کو پاک صاف رکھا جائے ، وہاں گندگی اور بد بو دار چیز نہ لائی جائے یہ سنّتِ انبیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اعتکاف عبادت ہے اور پچھلی اُمتوں کی نماز و ں میں رکوع سجود دونوں تھے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجِدوں کا متولی ہونا چاہئے اور متولی صالح ( پر ہیز گار) انسان ہو۔‘‘ مزید آگے فرماتے ہیں : ’’طواف و نماز و اعتکاف بڑی پرانی عبادتیں ہیں جو زمانۂ ابراہیمی میں بھی تھیں ۔‘‘

(نورالعرفان ص ۲۹)

دس دن کا اعتکاف:

اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایت فرماتی ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمرَمَضانُ المبارَک کے آخری عشرہ (یعنی آخری دس دن) کا اِعتکاف فرمایا کرتے۔ یہاں تک کہاللہ عَزَّوَجَلَّنے آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو وفاتِ(ظاہری) عطا فرمائی۔ پھر آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے بعد آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی ازواجِ مطہرات


 

 اعتکاف کرتی رہیں ۔  (بُخاری ج۱ص۶۶۴حدیث۲۰۲۶)

عاشقوں کی دُھن:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یوں تو اعتکاف کے بے شمارفضائل ہیں مگر عشّاق کیلئے تواتنی ہی بات کافی ہے کہ آخری عشرہ کااِعتکاف سُنت ہے۔ یہ تصوُّر ہی ذَوق اَفْزاہے کہ ہم پیارے سرکار ، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی ایک پیاری پیاری سنت اداکررہے ہیں ۔ عاشقوں کی تو دُھن یہی ہوتی ہے کہ فلاں فلاں کام ہمارے پیارے آقاصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے کیاہے بس اسی لئے ہمیں بھی کرناہے،مگر عمل کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے لئے کوئی شرعی ممانعت نہ ہو ۔

اونٹنی کے ساتھ پھیرے لگانے کی حکمت:

حضرتِ سیِدُنا عبد اللہ ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابہت زیادہمتَّبِع سنّتتھے اور ادائے مصطَفٰے کو ادا کرنے کا جذبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہو ا تھا چُنانچہ ایک مقام پر آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنی اونٹنی کو گھمایا، پوچھنے پر ارشاد فرمایا: ’’مجھے اس کے بارے میں معلوم نہیں ،صِرْف اتنا یاد ہے کہ میں نے  رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کواس مقام پر ایسا کرتے دیکھاتھالہٰذا مَیں نے بھی ایسا ہی کیا ہے ۔‘‘ (اَلشِّفاء ج ۲ ص ۱۵)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

معتکف کا مقصودِ اصلی انتظارِ نمازِ باجماعت:

فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’اعتکاف کی خوبیاں بالکل ہی ظاہرہیں کیونکہ اس میں بندہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا حاصل کرنے کیلئے کُلِّیَّۃً (یعنی مکمل طور پر ) اپنے آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت میں مُنْہَمِک کر دیتا ہے اوران تمام مشاغل دنیا سے کنارہ کش ہوجاتاہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّکے قرب کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اورمعتکف  کے تمام اوقات حقیقۃ ًیا حکما ًنماز میں گزرتے ہیں ۔(کیونکہ نَماز کا انتظار کرنابھی نمازکی طرح ثواب رکھتاہے)اور اعتکاف کا


 

مقصودِ اصلی جماعت کے ساتھ نماز کا انتظار کرناہے اورمعتکف ان(فرشتوں ) سے مشابہت رکھتاہے جواللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو کچھ انہیں حکم ملتاہے اسے بجالاتے ہیں اور ان کے ساتھ مشابہت رکھتاہے جوشب و روزاللہ عَزَّوَجَلَّکی تسبیح(پاکی) بیان کرتے رَہتے ہیں اوراس سے اُکتاتے نہیں ۔ ‘‘               (عالمگیری ج۱ ص۲۱۲)

ایک دن کے اعتکاف کی فضیلت:

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:’’جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا وخوشنودی کیلئے ایک دن کااعتکاف کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّاس کے اورجہنّم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا ہر خندق کی مسافت(یعنی دُوری) مشرق ومغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔‘‘ (مُعْجَم اَ وْسَط ج۵ص۲۷۹حدیث ۷۳۲۶)

سابقہ گناہوں کی بخشش:

اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے رِوایت ہے کہ سرکارِ ابدقرار،شفیع روزِ شمار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ خوشبودار ہے: مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ ترجَمہ:’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کی نیَّت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے گناہ  بخش دئیے جائیں گے۔‘‘ (جامعِ صَغِیر ص۵۱۶حدیث۸۴۸۰)

آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی جائے ا عتکاف:

حضرتِ سیِّدُنا نافِعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : مدینے کے سلطان، رحمتِ عالمیان، سرورِ ذیشان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ماہِ رَمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔ حضرتِ سیِّدُنانافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے مجھے مسجِد میں وہ جگہ دکھائی جہاں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اعتکاف فرماتے تھے۔  (مسلم ص۵۹۷ حدیث ۱۱۷۱ )


 

 

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مسجِدِنَبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں جس جگہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اعتکاف کیلئے سریر(یعنی تخت)بچھاتے تھے وہاں بطورِیادگارایک مبارَک سُتون بنام ’’اُسْطُوَانَۃُ السَّرِیْر‘‘ آج بھی قائم ہے۔ خوش نصیب عاشِقانِ رسول اس کی زیارت کرتے اور حصولِ بَرَکت کیلئے یہاں نوافل اداکرتے ہیں ۔

سارے مہینے کا اعتکاف:

حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے : ایک مرتبہ سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون و مکان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یکم رَمضان سے بیس رَمضان تک اِعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: ’’میں نے شبِ قدر کی تلاش کیلئے رَمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گیا کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے لہٰذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اِعتکاف کرنا چاہے وہ کر لے ۔‘‘ (مُسلم ص۵۹۴حدیث۱۱۶۷)

ترکی خیمے میں اعتکاف:

حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ایک ترکی خیمے کے اندر رَمضانُ الْمُبارَک کے پہلے عشرے کااعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے کا، پھر سراقدس باہر نکالا اور فرمایا: ’’میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شبِ قدر تلاش کرنے کیلئے کیا، پھراسی مقصد کے تحت دوسرے عشرے کااعتکاف بھی کیا، پھر مجھےاللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے یہ خبر دی گئی کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے۔ لہٰذا جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔  اس لئے کہ مجھے پہلے شب قدر دکھادی گئی تھی پھر بھلادی گئی ، اور اب میں نے یہ دیکھاہے کہ شب قدر کی صبح کو گیلی مٹی میں سجدہ کررہاہوں ۔لہٰذا اب تم شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اُس شب بارِش ہوئی اور مسجِد شر یف کی چھت مبارک ٹپکنے لگی ، چنانچِہ اکیس رَمضانُ الْمُبارَک کی صبح کو میری آنکھوں نے میٹھے میٹھے آقا، مکی

مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کواس حالت میں دیکھاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مبارک پیشانی پر گیلی مٹی کانشان عالی شان تھا۔    (مِشکٰوۃ ج ۱ ص ۳۹۲ حدیث ۲۰۸۶)

اعتکاف کا مقصدِ عظیم:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں زندَگی میں ایک بار تواِس ادائے مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو ادا کرتے ہوئے پورے ماہِ رَمضانُ الْمُبارَککا اِعتکاف کرہی لینا چاہئے۔ رَمضانُ الْمُبارَکمیں اِعتکاف کرنے کا سب سے بڑا مقصد شبِ قَدْر کی تلاش ہے۔ اور راجِح (یعنی غالِب) یہی ہے کہ شبِ قَدْر رَمضانُ المُبارَک کے آخری دس۱۰   دنوں کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اِس حدیثِ مبارَک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اُس بار شبِ قَدْر اِکیسویں ۲۱    شب تھی مگر یہ فرماناکہ’’آخِری عشرے کی طاق راتوں میں اِس کو تلاش کرو۔ ‘‘اس بات کو ظاہرکرتاہے کہ شبِ قَدْر بدلتی رَہتی ہے۔ یعنی کبھی اِکیسویں ۲۱   ، کبھی تئیسویں ۲۳    ، کبھی پچیسویں ۲۵    کبھی ستائیسویں ۲۷      توکبھی انتیسو یں ۲۹    شب۔ مسلما نو ں کوشبِ قَدْرکی سعادت حاصِل کرنے کیلئے آخری عشرے کے اِعتکاف کی ترغیب دلائی گئی ہے، کیوں کہ مُعتَکِف  دسو۱۰ں دن مسجدہی میں گزارتاہے اوران د۱۰س دنوں میں کوئی سی ایک رات شبِ قَدر ہوتی ہے۔اور یوں وہ شبِ قدر مسجد میں گزارنے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ایک اور نکتہ اس حدیثِ پاک سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسولِ پاک،صاحب لولاک،سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے خاک پر سجدہ ادا فرمایاجبھی توخاک کے خوش نصیب ذَرّات سرورِ کائنات ،شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی نورانی پیشانی سے چِمٹ گئے تھے۔

زمین پربلا حائل سجدہ کرنا مستحب ہے:

فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :’’ زمین پر بلاحائل (یعنی مصلّٰی ، کپڑا وغیرہ نہ ہو یوں ) سجدہ کرنا افضل ہے۔‘‘ (مراقِی الْفَلاح ص۱۹۰)حُجَّۃُ الْاِسلام  حضرت سیِّدُناامام محمدبن محمدبن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالینقل فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمیشہ زمین ہی پرسجدہ کرتے یعنی سجدے کی جگہ مصلّی وغیرہ نہ بچھاتے۔ (اِحیاء العُلُوم ج۱ص۲۰۴)

دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

دو حج اور دو عمروں کا ثواب:

{۱}’’جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک  میں دس دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کئے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان  ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۶) {۲}’’اِعتکاف کرنے والاگناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کیلئے تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں ۔‘‘(ابنِ ماجہ ج۲ص۳۶۵حدیث۱۷۸۱)

بغیر کیے نیکیوں کا ثواب:

مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیث نمبر 2 کے تحت مراٰۃ جلد 3 صفحہ 217 پر فرماتے ہیں : ’’یعنی اعتکاف کا فوری فائدہ تو یہ ہے کہ یہ معتکف کو گناہوں سے باز رکھتا ہے۔ عَکْف کے معنی ہیں روکنا، باز رکھنا، کیونکہ اکثر گناہ غیبت، جھوٹ اور چغلی وغیرہ لوگوں سے اختلاط کے باعث ہوتی ہے معتکف گوشہ نشین ہے اور جو اس سے ملنے آتا ہے وہ بھی مسجد و اعتکاف کا لحاظ رکھتے ہوئے بری باتیں نہ کرتا ہے نہ کراتا ہے۔ یعنی معتکف اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں سے محروم ہوگیا جیسے زیارتِ قبور مسلمان سے ملاقات بیمار کی مزاج پرسی ، نمازِ جنازہ میں حاضری اسے ان سب نیکیوں کا ثواب اسی طرح ملتا ہے جیسے یہ کام کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ غازی، حاجی ، طالب علم دین کا بھی یہ ہی حال ہے۔‘‘

روزانہ حج کا ثواب:

حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے: ’’معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتاہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۸)


 

اعتکاف کی تعریف:

’’مسجِد میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔‘‘ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے۔بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تواُس کا اعتکاف صحیح ہے۔        (عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱ )

اعتکاف کے لفظی معنی:

اِعتکاف کے لغوی معنی ہیں :’’ایک جگہ جمے رہنا‘‘ مطلب یہ کہ معتکفاللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی بارگاہِ عظمت میں اُس کی عبادت پرکمر بستہ ہو کر ایک جگہ جم کر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی یہی دُھن ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا پَروردگارعَزَّوَجَلَّاس سے راضی ہوجائے۔

اب تو غنی کے در پر بستر جمادیئے ہیں :

حضرتِ سیِّدُنا عطا خراسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللہ تَعَالٰی کے در پر آپڑا ہو اور یہ کہہ رہا ہو: ’’ یااللہ عَزَّوَجَلَّکی! جب تک تو میر ی مغفرت نہیں فرمادے گا میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔‘‘ (بَدائعُ الصنائع ج۲ص۲۷۳)

ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے

اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں     (حدائقِ بخشِش ص۱۰۱)

اعتکاف کی قسمیں :

اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں {۱}اعتکافِ واجِب{۲}اعتکافِ سُنّت {۳} اِعتکافِ نَفْل۔

اعتکافِ واجب :

اِعتکاف کی نذر(یعنی منّت)مانی یعنی زَبان سے کہا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکیلئے میں فلاں دن یا اتنے دن کااِعتکاف کر و ں گا۔‘‘ تواب جتنے


 

 دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتکاف کرناواجب ہو گیا ۔  منَّت کے اَلفاظ زَبان سے اداکرنا شرط ہے،صرف دل ہی دل میں منَّت کی نیَّت کرلینے سے منَّت صحیح نہیں ہوتی۔ (اور ایسی منَّت کاپوراکرناواجب نہیں ہوتا)     ( رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۴۹۵ مُلَخَّصاً )

        منَّت کااعتکاف مردمسجدمیں کرے اورعورت مسجد بیت میں ، اِس میں روزہ بھی شرط ہے ۔ (عورت گھر میں جو جگہ نمازکیلئے مخصوص کرلے اُسے ’’مسجدِ بیت‘‘کہتے ہیں ) ([4])

اعتکافِ سنت:

رَمَضانُ الْمُبارَککے آخِری عشرے کااعتکاف ’’سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ‘‘ ہے۔ (دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵) اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔   بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)

        اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کوغروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِدکے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس (اُن۔تیس)کے چاندکے بعد یاتیس کے غُروبِ آفتاب کے بعدمسجِدسے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کوغروبِ آفتاب کے بعدمسجدمیں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادانہ ہوئی۔

اعتکاف کی نیت اس طرح کیجئے:

’’میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضاکیلئے  رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کے سنّتِ اِعتکاف کی نیَّت کرتا ہوں ۔‘‘(دل میں نیت ہونا شرط ہے، دل میں نیت حاضر ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے)

اعتکافِ نفل

نذر اور سنّتِ  مُؤَکَّدہکے علاوہ جو اعتکاف کیاجائے وہ مستحب و سنّتِ غیر مُؤَکَّدہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)اِس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وَقت کی قید، جب بھی مسجِد


 

میں داخل ہوں اِعتکاف کی نیّت کرلیجئے،جب مسجِد سے باہرنکلیں گے اِعتکاف ختم ہوجائے گا۔ میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جب مسجد میں جائے اِعتکاف کی نیَّت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اِعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۹۸)نیَّت دل کے ارادے کوکہتے ہیں ، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کر لیا کہ ’’میں سنّتِ اِعتکاف کی نیّت کرتا ہوں ۔‘‘ آپ معتکف ہو گئے، دل میں نیّت حاضر ہوتے ہوئے زَبان سے بھی یہی الفاظ کہہ لینا بہتر ہے ۔ مادَری زَبان میں بھی نیّت ہوسکتی ہے مگرعربی میں زیادہ بہتر جبکہ معنی ذہن میں موجود ہوں ۔ ’’ملفوظاتِ اعلٰی حضرت‘‘ صَفْحَہ317پرہے: 

’’نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَاف

ترجَمہ:میں نے سنّتِ اِعتکاف کی نیت کی۔‘‘

     مسجدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدیم اور مشہور دروازے’’بابُ الرَّحمَۃ‘‘سے داخل ہوں تو سامنے ہی ستون مبارک ہے اس پر یاد دہانی کیلئے قدیم زمانے سے نمایاں طور پر نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاعتِکَاف  لکھا ہوا ہے۔

مسجد میں کھانا پینا

یاد رکھئے! مسجِدکے اندر کھانے پینے، سحرو افطار کرنے، آبِ زم زم یا دم کیا ہوا پانی پینے اور سونے کی شَرْعاً اجازت نہیں ، اگر اعتکاف کی نیّت تھی توضمناً ان سب کاموں کی اجازت ہوجائے گی۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لیناضروری ہے کہ اعتکاف کی نیَّت صرف کھانے،پینے اورسونے وغیرہ کیلئے نہ کی جائے، ثواب کیلئے کی جائے۔ رَدُّالْمُحْتَار(شامی) میں ہے:’’ اگرکوئی مسجِد میں کھانا ، پینا یا سونا چاہے تو اعتکا ف کی نیت کرلے،کچھ دیر ذِکرُاللہ عَزَّوَجَلَّکرے پھر جو چاہے کرے (یعنی اب چاہے تو کھاپی یاسوسکتا ہے)۔‘‘  (رَدُّالمُحتار ج۳ص۵۰۶)

        اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّک تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی  کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک کے جد اجدا شہروں میں پورے ماہِ رمضان اور آخری عشرے کے اجتماعی اعتکاف کی ترکیب کی جاتی ہے،


 

 دعوت اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کی جانب سے معتکفین کیلئے باقاعدہ تربیتی جدول بھی پیش کیا جاتا ہے۔

اجتماعی اعتکاف کی 41نیتیں :

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:نِیَّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ۔ ’’مسلما ن کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘ (مُعْجَم کبِیرج۶ص۱۸۵ حدیث ۵۹۴۲)

اپنے اعتکاف کی عظیم الشان نیکی کے ساتھ مزید اچھی اچھی نیتیں شامل کر کے ثواب میں خوب اِضافہ کیجئے ۔ مکتبۃُ المدینہ کی طرف سے شائع کردہ کارڈ میں سے سرکارِ اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی بیان کردہ مسجد میں جانے کی40 نیتوں میں سے حسبِ حال نیتیں کرنے کے ساتھ ساتھ موقع کی مناسبت سے مزیدیہ نیتیں بھی کر کے گھر سے نکلئے، ( مسجِد میں آکر بھی حسبِ حال نیتیں کی جا سکتی ہیں ، جب بھی اچھی اچھی نیتیں کریں ثواب کی نیت پیش نظر رکھا کریں )

{۱} یکسوئی کے ساتھ عبادت بجالانے، ذاتی مطالعہ یا اہلِ علم کے مُیَسَّر ہونے پر اس سے علم دین سیکھنے کے موا قع سے فائدہ اٹھانے، لَیْلَۃُ الْقَدْر کی برکتیں پانے اور ماہِ رمَضانُ الْمُبارَک کے قیمتی لمحات سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لئے پورے ماہِ رمَضانُ الْمُبارَک (یا آخِری دس دن)کے سنّتِ اعتکاف کیلئے جا رہا ہوں {۲} تصوُّف کے ان اُصولوں (الف)تقلیلِ طعام ( یعنی کم کھانا) (ب) تقلیلِ کلام ( یعنی کم بولنا) (ج) تقلیلِ منام ( یعنی کم سونا) پر کار بند رہوں گا {۳} روزانہ پانچوں نمازیں پہلی صف میں {۴}  تکبیراولیٰ کے ساتھ {۵}  با جما عت ادا کروں گا{۶}  ہر اذان اور {۷}  ہر اِقامت کا جواب دوں گا{۸} ہر بار مع اوّل و آخر دُرُود شریف اذان کے بعد کی دُعا پڑھوں گا {۹} روزانہ تہجُّد {۱۰} اِشراق {۱۱}  چاشت و{۱۲}  اَوّابین کے نوافل ادا کروں گا{۱۳}  تلاوت اور{۱۴}  دُرُود شریف کی کثرت کروں گا {۱۵}روزانہ رات سُورۃُ الْمُلْک پڑھو ں یا سُنوں گا {۱۶}  کم از کم طاق(ODD) راتوں میں صلوٰۃُ التسبیح ادا کروں گا{۱۷} تمام سنتوں بھرے حلقوں اور {۱۸} بیانات میں اوّل تا آخر شرکت کروں گا {۱۹} رِشتے دار وں اور ملاقاتیوں کو بھی اِنفرادی کوشش کر کے سنتوں بھرے حلقوں میں بٹھا ؤں گا {۲۰} زَبان پر


 

 قفلِ مدینہ لگاؤں گا یعنی فضول گوئی سے بچوں گا اور ممکن ہوا تو اِس نیت خیر کے ساتھ ضرورت کی بات بھی حتی الامکان لکھ کر یا اشارے سے کروں گا تاکہ فضول ، یابری باتوں میں نہ جاپڑوں یا شوروغل کاسبب نہ بن جاؤں {۲۱}مسجد کو ہر طرح کی بد بو سے بچاؤں گا {۲۲}مسجد میں نظر آنے والے تنکے اور بالوں کے گچھے وغیرہ اٹھاکر ڈالنے کیلئے اپنی جیب میں شاپر رکھوں گا۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: ’’جو مسجِد سے اَذِیت کی چیز نکالےاللہ عَزَّوَجَلَّاُس کیلئے جنت میں ایک گھر بنائے گا‘‘ (ابنِ ماجہ ج۱ص۴۱۹حدیث۷۵۷) {۲۳}اپنے پسینے اور منہ کی رال وغیرہ کی آلودَگی سے مسجِد کے فرش یا دری یا کارپیٹ کو بچانے کیلئے صِرف اپنی ذاتی چادر یاچٹائی پر ہی سوؤں گا{۲۴}بہ نیت حیا ،سونے میں پردے میں پردہ رہے اس کا ہر طرح سے خیال رکھوں گا( سوتے وقت پاجامے پر تہبند باندھ کر مزید اوپر سے چادر اوڑھ لینا مفید ہے۔جامعۃ المدینہ، مَدَنی قافلے اورگھر وغیرہ میں ہر جگہ سوتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے ) {۲۵} مسجد میں گندگی نہ ہو اس لئے وُضو خانہ فنائے مسجِد میں ہونے کی صورت میں تیل کنگھی وَہیں کروں گا اور جو بال جھڑیں گے اُٹھا لوں گا ( اگر کوئی وُضو کیلئے منتظر ہو تو نشست سے ہٹ کر تیل کنگھی کیجئے) {۲۶}بِغیر اجازت کسی کی کوئی چیز استعمال نہ کر کے خود کو گناہ سے بچاؤں گا مَثَلاًاِستنجا خانے جانے کیلئے دوسروں کے چپل وغیرہ استعمال نہیں کروں گا بلکہ {۲۷}جن سے پہلے سے لین دین اور دوستی نہیں تھی ان سے ہلکی پھلکی چیزیں بھی عاریۃً نہ مانگ کر خود کو خلافِ مروَّت کام سے بچاؤں گا اور اگر وہ چیز اُس کے استعمال میں ہے تو اُسے پریشانی نہ پہنچانے کی نیّت بھی مد نظر رکھوں گا لہٰذا چپل، چادر، تکیہ وغیرہ کسی چیز کیلئے دوسروں سے سُوال نہیں کروں گا {۲۸}وَقف اِملاک کو نقصان سے محفوظ رکھنے، نمازیوں کو اَذیت سے بچانے اور مسجد انتظامیہ کو پریشانی سے دور رکھنے کے لئے کھانا فنائے مسجد میں وہ بھی کھانے کی مخصوص دری یا دسترخوان وغیرہ بچھا کر اس پر کھاؤں گا، نماز کی دری پرہر گز نہیں کھاؤں گا{۲۹}کھانا کم ہونے کی صورت میں بھوک کے باوُجود ایثار کی نیت سے آہستہ آہستہ کھاؤں گا تاکہ دوسرے اسلامی بھائی زِیادہ کھا سکیں ۔ ایثار کا ثواب بے شمارہے چنانچِہ تاجدارِ رِسالت، ماہِ نُبُوَّت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم


 

کا فرمانِ بخشش نشان ہے:’’جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُ س خواہش کو روک کر اپنے اوپرکسی اور کو ترجیح دے، تواللہ عَزَّوَجَلَّاُسے بخش دیتا ہے‘‘  (ابنِ عَساکِر ج۳۱ص۱۴۲){۳۰}پیٹ کا قُفلِ مدینہ لگاؤں گا یعنی  خواہِش سے کم کھاؤں گا تا کہ عبادت میں سستی واقع نہ ہو اور زیادہ کھانے کی وجہ سے صحّت میں کوئی ایسی خرابی نہ ہو جائے جو عبادات کو مُتَأَثِّر کرے {۳۱}اگر کسی نے زیادَتی کی تو اللہ تَعَالٰی کی رضا کے لئے صَبْر کروں گااور {۳۲} اُس کواللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے معاف کروں گا {۳۳}خصوصاًپڑ و سی مُعتَکِف کے ساتھ اورعموماً ہر ایک کے ساتھ حسنِ سلوک کروں گا {۳۴}اعتکاف کے حلقہ نگران کی انتِظامی معاملات اورجَدوَل کے تعلُّق سے اطاعت کروں گا تا کہ مسجد کے اجتماعی نظم و نسق میں کوئی خلل نہ پڑے اور بد انتِظامی پیدا نہ ہو {۳۵} فکر مدینہ کرتے ہوئے روزانہ مَدَنی اِنعاما ت کا رسالہ پر کروں گا {۳۶}اسلامی بھائیوں کے سامنے موقع کی مناسبت سے مسکرا مسکرا کر صدقے کا ثواب کماؤں گا {۳۷}کوئی میری طرف دیکھ کر مسکرائے گا تو یہ دعا پڑھوں گا: اَضْحَکَ اللہ سِنَّکَ (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّتجھے ہنستا رکھے) {۳۸}اپنے لئے، گھر والوں ، اَحباب اور ساری اُمت کیلئے دعائیں کروں گا {۳۹}اگر کوئی معتکف بیمار ہو گیا تو جتنا ہو سکا اُس کی دلجوئی اور خدمت کروں گا {۴۰}بزرگ (یعنی عمر رسیدہ) معتکفین کے ساتھ بہت زیادہ حسنِ سلوک کروں گا{۴۱}دَورانِ اعتکاف حسبِ توفیق رسائل تقسیم کروں گا( ہرمعتکف اسلامی بھائی کی خدمت میں درد بھری مَدَنی التجا ہے کہ حسبِ توفیق یا دورانِ اعتکاف کم از کم 112 روپے کے مکتبۃُ المدینہ کے رسائل یا سنتوں بھرے بیان کی C.D. یا مَدَنی پھولوں کے مَدَنی پمفلٹ آنے والے ملاقاتیوں وغیرہ میں ضَرور تقسیم فرمائیں ۔  رمَضانُ الْمُبارَک میں تقسیمِ رسائل کا ثواب بھی زِیادہ ملے گا)

اعتکاف کس مسجد میں کرے؟:

مسجد جامِع ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہوسکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و مُؤَذِّن مقرر ہوں ، اگرچِہ اس میں پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مُطْلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے


 

 اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو، خصوصاً اس زمانہ میں کہ بہتیری مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ مُؤَذِّن۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۴۹۳) سب سے افضل مسجد حرم شریف میں اعتکاف ہے پھرمسجِدُالنَّبَوِی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پھر مسجِد اقصیٰ (یعنی بیتُ الْمَقْدِس) میں پھر اُس میں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔ ( جَوْہَرہ ص۱۸۸،بہارِشریعتج۱ص۱۰۲۰۔۱۰۲۱)

معتکف اور احترامِ مسجد:

پیارے معتکف اسلامی بھائیو! آپ کو دس روز مسجِدہی میں گزار نے ہیں اِس لئے چند باتیں اِحترامِ مسجِد سے مُتَعَلِّق سیکھ لیجئے۔ دَورانِ اعتکاف مسجِد کے اندر ضَرورۃًدُنیوی بات کرنے کی اجازت ہے لیکن اس طرح کہ کسی نمازی یا عبادت کرنے والے یا سونے والے کو تشویش نہ ہو۔ یادرکھئے! مسجِد میں بلاضرو ر ت دُنیوی بات چیت کی معتکف کو بھی اجاز ت نہیں ۔  

اللہ ان پر کرم نہ کرے گا:

حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی  سے روایت ہے کہ نبی رَحمت ،شفیعِ اُمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کافرمانِ ذی شان ہے:  لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ مساجد میں دنیا کی باتیں ہوں گی، تم ان کے ساتھ مت بیٹھوکہاللہ عَزَّوَجَلَّکوایسے لوگوں کی کوئی حاجت نہیں ۔(شُعَبُ الایمان ج۳ ص ۸۶ حدیث ۲۹۶۲)

        مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اللہ ان پرکرم نہ کرے گا،ورنہ رب کو کسی بندے کی ضرورت نہیں ،وہ ضرورتوں سے پاک ہے۔(مراٰۃ المناجیح ج۱ ص۴۵۷)

اللہ تیری گمشدہ چیز نہ ملائے:

حضرتِ سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ، صاحبِ معطر پسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کسی کو مسجِد میں گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے (یا دیکھے) تو کہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکرے تجھے وہ چیز نہ ملے۔‘‘ کیونکہ مسجِدیں اس لیے نہیں بنی ہیں ۔(مسلم ص۲۸۴ حدیث ۵۶۸)

  تو تمہیں سز ادیتا:

حضرتِ سیِّدُنا سَائِب بن یزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں مسجِد میں کھڑا تھا کہ مجھے کسی نے کنکری ماری میں نے دیکھا تو وہ امیرُالْمُؤمِنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے، اُنھوں نے مجھ سے (اشارہ کرکے) فرمایا: ’’اُن دو شخصوں کو میرے پاس لاؤ!‘‘میں ان دونوں کولے آیا۔ حضرت سیِّدُناعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُن سے اِسْتِفْسار فرمایا:’’تم کہاں سے تَعَلُّق رکھتے ہو؟ عرض کی:’’طائف سے۔‘‘ فرمایا: ’’اگرتم مدینۂ منوَّرہ کے رہنے والے ہوتے (کیونکہ وہ مسجِدکے آداب بخوبی جانتے ہیں ) تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ) تم رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو!‘‘ (بُخاری ج۱ص۱۷۸حدیث۴۷۰)

مباح کلام نیکیوں کو کھا جاتا ہے :

حضرتِ سیِّدُنا علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی، مُحَقِّق عَلَی الْاِطْلاقشیخ ابن ھمام عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ السَّلَامکے حوالے سے نَقْل فرماتے ہیں : ’’مسجِد میں مُباح (یعنی جس میں نہ ثواب ہو نہ گناہ ایسی جائز) بات کرنا مکروہ ہے اور نیکیو ں کو کھاجاتا ہے۔‘‘ (مِرقاۃُ المَفاتیح ج ۲ ص ۴۴۹)

40 سال کے اَعمال بربادفرما دے:

٭امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں : جو مسجِد میں دُنیا کی بات کرے ،اللہ عَزَّوَجَلَّاُس کے چالیس برس کے نیک اعمال اکارت ( یعنی برباد) فرمادے۔                    (فتاوٰی رضویہ ج۱۶ ص۳۱۱،غَمزُ الْعُیون ج۳ص۱۹۰)

مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا لاتا ہے:

سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تبار، بِاِذْنِ پروَردگار دو جہاں کے مالِک ومختار، شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اَلضَّحِکُ فِی الْمَسْجِدِ ظُلْمَۃٌ فِی الْقَبْرِ ۔


 

ترجمہ:’’مسجِد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے۔‘‘  (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۴۳۱حدیث۳۸۹۱)

قبر میں اندھیرا:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ بالا رِوایات باربارپڑھئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّکے خوف سے لرزئیے!کہیں ایسانہ ہوکہ مسجدمیں داخِل تو ہوئے ثواب کمانے مگر خوب ہنس بول کرنیکیاں بربادکرکے باہرنکلے کہ مسجِد میں بلا اجازتِ شرعی دُنیا کی جائز بات بھی نیکیوں کوکھاجاتی ہے، لہٰذا مسجِد میں پرسکون اور خاموش رہئے۔ بیان بھی کریں یاسنیں توسنجیدگی کے ساتھ کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے لوگوں کو ہنسی آئے۔نہ خودہنسئے نہ لوگوں کوہنسنے دیجئے کہ مسجد میں ہنسنا قَبْر میں اندھیرا لاتا ہے۔ ہاں ضرورتاً مسکرانا منع نہیں ۔مسجِد کے اِحترام کا ذِہن بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں سفر کا معمول بنائیے ۔آپ کی ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار گوش گزار کرتا ہوں چنانچہ 

مفتی دعوتِ اسلامی کا اعتکاف:

حویلیاں کینٹ (خیبر پختونخواہ،پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے ، بچے جوان ہو چکے تھے پھر بھی فیشن کا آسیب نہیں اُترتا تھا۔ ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَکمیں بابُ المدینہ کراچی سے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے عاشِقان رسول کا ایک ماہ کا مَدَنی قافِلہ حویلیاں تشریف فرما ہوا۔ اُس مَدَنی قافلے  کی خصوصیت یہ تھی کہ اُس میں دعوتِ اسلامی کی مجلسِ شوریٰ کے رُکن مفتی دعوتِ اسلامی الحاج الحافظ محمد فاروق عطاری مَدَنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْغَنِیبھی شریک تھے۔ اس اسلامی بھائی کے بڑے صاحبزادے انہیں مَدَنی قافلے والے عاشقانِ رسول سے ملوانے لے گئے۔ مفتی دعوتِ اسلامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامیکی  انفرادی کوشش سے وہ بھی مَدَنی قافلے کے ساتھ آخری عشرے میں مُعتَکِف ہوگئے۔ مفتی دعوتِ اسلامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامیکے حسنِ اَخلاق نے ان کا دل جیت لیا، دیگر عاشِقانِ رسول نے بھی ان پر خوب اِنفرادی کوشش کی، حتّٰی کہ ان کا دل موم ہو گیا اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّان کے قلب میں مَدَنی انقلاب


 

 برپا ہو گیا۔انہوں نے فیشن سے منہ موڑ ا، سنّتوں سے رِشتہ جوڑا ، داڑھی مُنڈانا چھوڑا، برائیوں سے ناطہ توڑا اور بھرپور طریقے پر مَدَنی ماحول سے تعلُّق جوڑا۔ اَلغَرَضانہوں نے گناہوں سے توبہ کر لی، داڑھی رکھ لی اور عمامہ شریف کا تاج سر پر سجا لیا۔ مدنی ماحول سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی کوشش یہ ہوتی کہ جو بھی سنّت معلوم ہو جائے اُس پر عمل کریں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّان دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کی دھومیں مچانے کیلئے تنظیمی طور پر حلقہ سطح کے ذمے دار بھی بنے۔

آئیں گی سنتیں جائیں گی شامتیں          مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف

                   تم سدھر جاؤگے، پاؤ گے برکتیں         مَدَنی ماحول میں کر لو تُم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۳۹)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مفتی دعوتِ اسلامی نے بعد وفات بھی مدنی قافلے کی دعوت دی:

مفتیِ دعوتِ اسلامیقُدِّسَ سِرُّہُ السّامیکی بھی کیا بات ہے ! مَدَنی ماحول میں رہ کر انہوں نے مَدَنی قافلوں میں خوب سفر کیا اور بے شمار اسلامی بھائیوں کی اصلاح کر کے اپنے لئے ثوابِ جارِیہ کا ذخیرہ جمع کر کے 18محرمُ الحرام ( ۱۴۲۷؁ ھ ۔17.2.2006 )کو بعد نمازِجمعہ رِحلت فرمائی اور دنیا سے جانے کے بعد بھی خواب میں انفرادی کوشش کے ذَرِیعے ایک اسلامی بھائی کو مَدَنی قافلے کا مسافر بنادیا اور پھر مَدَنی قافلے میں پہنچ کر بھی اُس کو جلوہ دِکھایا اور بِاذنِ اللہ عَزَّوَجَلَّمثانے کے مرض سے چھٹکارا دلایا چنانچہ ایک اسلامی بھائی کو مثانے میں کچھ عرصے سے تکلیف تھی، انہوں نے خواب میں حضرتِ قبلہ مفتی دعوتِ اسلامی مولانا الحاج الحافظ محمد فاروق عطاری مَدَنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْغَنِی کی زِیارت کی، انہوں نے انہیں مَدَنی قافِلے میں سفر کا حکم فرمایا ۔ انہوں نے سفر کی نیت کر لی مگر جُمادَی الاُولٰی (۱۴۲۷؁ ھ) میں سفر نہ کر سکے۔ 24 جُمادَی الآخِرۃ (۱۴۲۷؁ ھ) کو انہوں نے تین روزہ مَدَنی قافِلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر اختیار کیا۔ قافلے والی مسجِدمیں پہنچ کر جب لیٹے تو


 

 خواب کی دنیا میں پہنچ گئے ، کیا دیکھتے ہیں کہ مفتی دعوتِ اسلامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی پردے میں پردہ کئے( یعنی گود میں چادر پھیلا کر رانیں وغیرہ چھپائے) تشریف فرما ہیں اور اپنے ملفوظات سے نواز رہے ہیں ،مگروہ ان کے ارشادات سمجھ نہ پائے۔ مَدَنی قافِلے میں سفر کی برکت سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّانہیں مثانے کی تکلیف سے نجات مل چکی ہے۔

درد گرچِہ تمہارے مَثانے میں ہے      درس فاروق دیں قافلے میں چلو

فائدہ آخرت کے بنانے میں ہے             سب مُبلِّغ کہیں قافِلے میں چلو   (وسائل بخشش ص۶۷۷)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے  اُنیس حروف کی

نسبت سےمسجد کے متعلق 19 مَدَنی پھول

{۱}مروی ہوا کہ ایک مسجِد  اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّکے حضور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ۔ ملائکہ اُسے آتے ہوئے ملے اور بولے: ہم ان ( مسجِد میں دنیا کی باتیں کرنے والوں )کے ہلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۱۶ ص۳۱۲)

{۲}روایت کیا گیا ہے کہ’’ جو لوگ غیبت کرتے اور جو لوگ مسجِد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ عَزَّوَجَلَّکے حضور ان کی شکایت کرتے ہیں ۔‘‘ سُبحٰنَ اللہ!جب مباح و جائز بات    بلا ضرورتِ شرعیہ کرنے کو مسجد میں بیٹھنے پر یہ آفتیں ہیں تو(مسجِد میں ) حرام و ناجائز کام کرنے کا کیا حال ہو گا!     ( ایضاً )

{۳}درزی کواجازت نہیں کہ مسجِد میں بیٹھ کر کپڑے سئیے،ہاں بچوں کو روکنے اورمسجِدکی حفاظت کیلئے بیٹھا توحرج


 

نہیں ۔اسی طرح کاتب (یعنی لکھنے والے) کو ( مسجِد میں ) اُجرت پرکتابت کرنے (یعنی لکھنے) کی اجازت نہیں ۔                (عالمگیری ج۱ص۱۱۰)

{۴}مسجِدکے اندر کسی قسم کاکوڑا(یعنی کچرا)ہرگزنہ پھینکیں ۔سیِّدُناشیخ عبدُالحق محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی  ’’جذب القلوب‘‘ میں نقل کرتے ہیں کہ مسجدمیں اگر خس(یعنی معمولی سا تنکا یا ذَرّہ) بھی پھینکاجائے تواس سے مسجِدکو اس قدر تکلیف پہنچتی ہے جس قَدَر تکلیف انسان کواپنی آنکھ میں خس (معمولی ذَرّہ) پڑجانے سے ہوتی ہے۔ (جذبُ الْقُلُوب ص۲۲۲)

{۵}مسجد کی دیوار،اِس کے فرش،چٹا ئی یادَری کے اوپریااس کے نیچے تھوکنا ، ناک سنکنا،ناک یاکان میں سے میل نکال کرلگانا،مسجدکی دری یا چٹائی سے دھاگایا تنکا وغیرہ نوچناسب شرعاًممنوع ہے۔

{۶}ضرورتاً(مسجد کے اندر)اپنے رومال وغیرہ سے ناک پونچھنے میں مضایقہ نہیں ۔

{۷}مسجد کا کوڑا(کچرا) جھاڑکر کسی ایسی جگہ نہ ڈالیں جہاں بے اَدَبی ہو۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۶۴۷)

{۸}جوتے اُتارکرمسجِدمیں ساتھ لے جانا چاہیں تو گرد وغیرہ باہر جھاڑ لیجئے۔ اگر پاؤں کے تلووں میں گرد کے ذَرّات لگے ہوں تورومال وغیرہ سے پونچھ کر مسجِد میں داخل ہوں ۔مسجِد میں گرد کا کوئی ذرّہ نہ گرنے پائے اِس کا خیال رکھئے۔

{۹} وضوکے بعدپاؤں وضوخانے ہی پر خشک کرلیجئے،گیلے پاؤں سے مسجدکافرش گندااورد ر یا ں میلی ہوجاتی ہیں ۔

اب میرے آقااعلٰی حضرت،امامِ اہل سنت ،مجدّدِدین وملت مولاناشاہ احمدرضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے ملفوظاتِ شریفہ سے بعض آدابِ مسجد پیش کئے جارہے ہیں :

{۱۰}مسجِد میں دوڑنایازورسے قدم رکھنا،جس سے دَھمک پیدا ہو منع ہے۔

{۱۱}وُضو کرنے کے بعد اَعضائے وُضوسے ایک بھی چھینٹ پانی فرش مسجد پر نہ گرے ۔(یادرکھئے!اعضائے وُضوسے وُضوکے پانی کے قطرے فرشِ مسجِد پر گرانا، ناجائز وگناہ ہے)


 

{۱۲}مسجِد کے ایک دَرَجے سے دوسرے دَرَجے کے داخلے کے وَقت(مَثَلًا صحن میں داخل ہوں تب بھی اورصحن سے اندرونی حصّے میں جائیں جب بھی) سیدھا قدم بڑھایاجائے حتیّٰ کہ اگر صف بچھی ہو اُس پربھی پہلے سیدھاقدم رکھیں اور جب وہاں سے ہٹیں تب بھی سیدھا قدم فرشِ مسجد پر رکھیں (یعنی آتے جاتے ہر بچھی ہوئی صف پر پہلے سیدھا قدم رکھیں ) یا خطیب جب منبرپر جانے کاارادہ کرے، پہلے سیدھاقدم رکھے اور جب اُترے تو(بھی) سیدھاقدم اُتارے۔

{۱۳}مسجد میں اگرچھینک آئے توکوشِش کریں آہستہ آوازنکلے اسی طرح کھانسی ۔ سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں زور کی چھینک کو نا پسند فرماتے۔اِسی طرح ڈَکارکوضبط کرناچاہیے اورنہ ہو توحتی الْاِمکان  آواز دبائی جائے اگرچہ غیرمسجدمیں ہو۔خصوصاًمجلس میں یاکسی معظم ( یعنی بزرگ) کے سامنے بے تہذیبی ہے۔ حدیث میں ہے :ایک شخص نے دربارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ڈَکارلی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ہم سے اپنی ڈکار دُور رکھ کہ دنیامیں جوزیادہ مدَّت تک پیٹ بھرتے تھے وہ قیامت کے دن زیادہ مدت تک بھوکے رہیں گے ۔ ‘‘ (تِرمِذی ج۴ص۲۱۷حدیث۲۴۸۶) اورجماہی میں آوازکہیں بھی نہیں نکالنی چاہئے۔ اگر چہ مسجدسے باہر تنہا ہو کیونکہ یہ شیطان کا قہقہہ ہے۔ جماہی جب آئے حتی الاِمکان منہ بند رکھیں منہ کھولنے سے شیطان منہ میں تھوک دیتاہے ۔ اگر یوں نہ رُکے تو اُوپرکے دانتوں سے نیچے کاہونٹ دبالیں اور اس طرح بھی نہ رکے توحَتَّی الاِمکان منہ کم کھولیں اور اُلٹا ہاتھ اُلٹی طرف سے منہ پر رکھ لیں ۔ چونکہ جماہی شیطان کی طرف سے ہے اور انبیاءِکرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاماس سے محفوظ ہیں ۔ لہٰذ ا جماہی آئے تویہ تصور کریں کہ ’’انبیاءِکرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکو جماہی نہیں آتی ۔‘‘ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّفو راً رُک جائے گی۔(رَدُّالْمُحتار ج۲ ص ۴۹۸،۴۹۹)

{۱۴}تَمَسْخُر (مسخرہ پن) ویسے ہی ممنوع ہے اور مسجِدمیں سخت ناجائز۔

{۱۵}مسجِد میں ہنسنامنع ہے کہ قبرمیں تاریکی(یعنی اندھیرا)لاتاہے۔موقع کے لحاظ سے تبسم(یعنی مسکرانے) میں حرج نہیں ۔


 

{۱۶}مسجِد کے فرش پرکوئی چیزپھینکی نہ جائے بلکہ آہستہ سے رکھ دی جائے۔ موسم گرما میں لوگ پنکھاجھلتے جھلتے پھینک دیتے ہیں (مسجدمیں ٹوپی ، چادر وغیرہ بھی نہ پھینکیں اسی طرح چادریا رومال سے فرش اس طرح نہ جھاڑیں کہ آواز پیداہو) یا لکڑی، چھتری وغیرہ رکھتے وقت دُورسے چھوڑ دیا کرتے ہیں ۔ اِس کی ممانعت ہے۔غرض مسجدکااِحترام ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

{۱۷}مسجِد میں حدث(یعنی رِیح خارِج کرنا)منع ہے ضرورت ہو تو(جو اعتکاف میں نہیں ہیں وہ ) باہرچلے جائیں ۔ لہٰذا مُعتکِف کوچاہیے کہ ایامِ اعتکاف میں تھوڑا کھائے، پیٹ ہلکارکھے کہ قضائے حاجت کے وَقت کے سوا کسی وَقت اِخراجِ رِیح کی حاجت نہ ہو۔وہ اس کے لئے باہر نہ جاسکے گا۔(البتہ فنائے مسجِد میں موجود بیتُ الخلا میں رِیح خارِج کرنے کیلئے جاسکتا ہے )

{۱۸}قبلے کی طرف پاؤں پھیلاناتوہرجگہ َمنع ہے،مسجِدمیں کسی طرف نہ پھیلائے کہ یہ خلافِ آدابِ دربار ہے۔ حضرتِ ابراہیمِ اَدہم(یعنی ابراہیم بن اَدہم) رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمسجِد میں تنہابیٹھے تھے ،پاؤں پھیلا لیا ، گوشۂ مسجِد سے ہاتِف نے آواز دی:’’ابراہیم ! بادشاہوں کے حضورمیں یوں ہی بیٹھتے ہیں ؟ ‘‘ معاً (یعنی فوراً) پاؤں سمیٹے اور ایسے سمیٹے کہ وَقتِ انتقال ہی پھیلے۔ (انوار القدسیۃ لِلشّعرانی ج۲ص۶۷)(چھوٹے بچوں کوبھی پیار کرتے، اُٹھاتے، لٹاتے وقت احتیاط کیجئے کہ ان کے پاؤں قبلے کی طرف نہ ہوں اور متاتے(پوٹی کرواتے)وقت بھی ضروری ہے کہ اُس کا رُخ یا پیٹھ قبلے کی طرف نہ ہو)

{۱۹}استعمال شدہ جوتا مسجد میں پہن کرجانا گستاخی وبے ادبی ہے۔         (مُلَخَّص ازملفوظات اعلٰی حضرت ص۳۱۷تا۳۲۳)

کرم از پئے مصطَفٰے میرے رب ہو

مجھے مسجدوں کا میسر ادب ہو

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مسجدیں خوشبودار رکھیں !

مسجد میں بلغم دیکھ کر سرکار کی ناگواری:

ایک مرتبہ حضورِاکرم ، رسُولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسجدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں قبلے کی طرف بلغم پڑا دیکھا تو ناراضی کا اظہار فرمایا۔ یہ دیکھ کر ایک انصاری صحابیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے اُٹھ کر اُسے کھرچ کر صاف کرکے وہاں خوشبو لگا دی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے(مسرت آمیز لہجے میں ) ارشاد فرمایا: ’’یہ کتنا عمدہ کام ہے۔‘‘ (نَسائی ص۱۲۶حدیث۷۲۵)

فاروقِ اعظم اور مسجد میں خوشبو:

سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہر جُمُعَۃُ الْمُبارَک کو مسجِدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں خوشبو کی دھونی دیاکرتے تھے۔    (اَبُو یَعْلٰی ج۱ص۱۰۳حدیث۱۸۵)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مسجدیں خوشبودار رکھئے!:

اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا رِوایت فرماتی ہیں : حضورِ پرنور ، شافِعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے محلوں میں مسجِدیں بنانے کاحکم دیااوریہ کہ وہ صاف اور خوشبودار رکھی جائیں ۔    (ابو داوٗد ج۱ص۱۹۷حدیث۴۵۵)

ائیر فریشنَر سے کینسر ہو سکتا ہے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مسجدیں عود، لوبان اور اگربتی وغیرہ سے خوشبودار رکھنا کارِ ثواب ہے، مسجِد کو بدبو سے بچانا واجب ہے لہٰذا دِیا سلائی (یعنی ماچس کی تیلی) نہ جلائیے کہ اس سے بارُود کی بدبو نکلتی ہے ۔ بارُود کا بدبودَار دُھواں اندرنہ آنے پائے اتنی دُور


 

باہر سے لوبان یا اگر بتی وغیرہ سلگا کرمسجد میں لائیے۔ اگر بتیوں کوکسی بڑے طشت وغیرہ میں رکھئے تاکہ اِس کی راکھ مسجد میں نہ گرے۔ اگربتی کے پیکِٹ پر اگر جاندار کی تصویر بنی ہوئی ہو تو اُس کوکھرچ ڈالئے۔ مسجد( نیز گھروں اور کاروں وغیرہ) میں ’’ائیر فریشنر‘‘ (Air Freshner) سے خوشبو کا چھڑکاؤ مت کیجئے کہ اُس کے کیمیاوی مادّے فضا میں پھیل جاتے اور سانس کے ذَریعے پھیپھڑوں میں پہنچ کر نقصان پہنچاتے ہیں ۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق ائیر فریشنر کے استعمال سے جلد کا سرطان ( Skin Cancer) ہو سکتا ہے۔جہاں عرف ہو وہاں مسجد کے چند ے سے خوشبو سلگانے کی اجازت ہے اور جہاں عُرف نہ ہو وہاں خوشبو کی صراحت کرکے الگ سے چندہ حاصل کیجئے۔

منہ میں بد بو ہو تو مسجد میں جانا حرام ہے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بھوک سے کم کھانے کی عادت بنایئے ، ابھی خواہش باقی ہوکہ ہاتھ روک لیجئے۔ اگر خوب ڈٹ کر کھاتے رہے اور وَقت بے وَقت سیخ کباب، برگر ، آلو چھولے، پِزّے،آئسکریم ، ٹھنڈی بوتلیں وغیرہ پیٹ میں پہنچاتے رہے ، پیٹ خراب ہو گیا اور خدا نخواستہ’’ گندہ دَ ہنی‘‘ یعنی منہ سے بدبوآنے کی بیماری لگ گئی تو سخت امتحان ہو جائے گا، کیوں کہ مُنہ سے بدبو آتی ہو تو مسجد کا داخلہحرام ہے ،یہاں تک کہ جس وَقت منہ سے بدبو آ رہی ہو اُس وَقت باجماعت نماز پڑھنے کے لئے بھی مسجد میں آنا گناہ ہے۔ چونکہ فکر آخرت کی کمی کے باعث لوگوں کی بھاری اکثریت میں کھانے کی حرص زیادہ اور آج کل ہر طرف ’’ فوڈ کلچر ‘‘ کا دَور دَورہ ہے،شاید اِ س وجہ سے یا منہ کی صفائی میں کوتاہی کرنے کے سبب ایک تعداد ہے جن کے منہ سے بدبو آتی ہے۔ مجھے بارہا کا تجربہ ہے کہ جب کوئی منہ قریب کر کے بات کرتا ہے تو اُس کے منہ کی بدبو کے سبب سانس روکنا پڑتا ہے۔ افسوس! بد بو دار منہ والے کئی افراد مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّمسجد کے اندر معتکف بھی دیکھے جاتے ہیں ۔ یاد رکھئے! شرعی حکم یہ ہے کہ اگر دورانِ اعتکاف بھی مُنہ میں بدبو کا مرض ہو جائے تو اعتکاف توڑ کر مسجد سے چلے جانا ہوگا۔ بعد میں ایک دن کے اعتکاف کی قضاکر لے۔ رَمَضانُ الْمُبارَک میں کباب سموسے اور دیگر تلی ہوئی چیزیں اور طرح


 

طرح کی مرغن غذائیں ٹھونس ٹھانس کر کھانے کے سبب منہ کی بد بووالے مریضوں میں اِضافہ ہو جاتا ہو تو کیا عجب! اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ سادہ غذا اور وہ بھی خواہش سے کم کھائے اور ہاضمہ دُرُست رکھے نیز جب بھی کھا چکے خِلال کرنے اور خوب اچھی طرح کلیاں وغیرہ کر کے منہ صاف رکھنے کی عادت بنائے، ورنہ غذا کے اَجزا دانتوں کے خلا (Gaps) میں رہ جاتے، سڑتے اور بد بو لاتے ہیں ۔ صرف منہ ہی کی بدبو نہیں ہر طرح کی بد بو سے مسجد کو بچانا واجب ہے۔

منہ میں بدبو ہو تو نماز مکروہ ہوتی ہے:

فتاویٰ رضویہ جلد 7 صَفْحہ 384 پر ہے:مُنہ میں بدبو ہونے کی حالت میں (گھر میں پڑھی جانے والی ) نَماز بھی مکروہ ہے اور ایسی حالت میں مسجد جانا حرام ہے جب تک منہ صاف نہ کر لے۔ اور دوسرے نمازی کو اِیذا پہنچانی حرام ہے اور دوسرا نمازی نہ بھی ہو توبھی بدبوسے ملائکہ کو اِیذا پہنچتی ہے۔ حدیث میں ہے:’’ جس چیز سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں فرشتے بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔  ‘‘

 ( مُسلِم ص۲۸۲ حدیث ۵۶۴)

بد بودار مرہم لگا کر مسجد میں آنے کی ممانعت:

میرے آقااعلٰی حضرت ،امامِ اہلِ سنّت ،مجدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’جس کے بدن میں بد بوہو کہ اُس سے نَمازیوں کو اِیذا ہو مَثَلاً مَعَاذَ اللہ گندہ دَہن( یعنی جس کومنہ سے بد بو آنے کی بیماری ہو)، گندہ بغل (یعنی جس کے بغل سے بد بو آنے کا مرض ہو) یا جس نے خارِش وغیرہ کے باعث گندھک ملی (یاکوئی سا بدبو دار مرہم یا لوشن لگایا) ہو اُسے بھی مسجد میں نہ آنے دیا جائے۔‘‘         

(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ، ج ۸ ص ۷۲)

کچی پیاز کھانے سے بھی منہ بد بودار ہو جاتا ہے:

کچی مولی، کچی پیاز،کچا لہسن اور ہر وہ چیز کہ جس کی بو نا پسند ہو اسے کھا کر مسجِد میں اُس وقت تک جانا جائز نہیں جب تک کہ ہاتھ منہ وغیرہ میں بو باقی ہو کہ فرشتوں کو اس سے تکلیف ہوتی


 

ہے۔ حدیث شریف میں ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب ، فاتِحُ القُلوب ، دانائے غُیُوب ،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’جس نے پیاز، لہسن یاگندنا(لہسن سے ملتی جلتی ایک ترکاری) کھائی وہ ہماری مسجِد کے قریب ہرگز نہ آئے۔‘‘ (مُسلِم ص۲۸۲ حدیث ۵۶۴) اور فرمایا: ’’اگر کھانا ہی چاہتے ہو تو پکا کر اس کی بو دُور کر لو۔‘‘ (ابوداوٗد ج ۳ ص ۵۰۶ حدیث ۳۸۲۷)

مسجد میں کچا گوشت نہ لے جائیں :

صَدرُ الشَّریعہ، بَدرُ الطَّریقہحضرتِ علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : مسجِد میں کچا لہسن اور کچی پیاز کھانا یا کھا کر جانا جائز نہیں جب تک کہ بو باقی ہو اور یہی حکم ہر اُس چیز کا ہے جس میں بو ہو جیسے گِندَنا( یہ لہسن سے ملتی جلتی ترکاری ہے)، مولی، کچا گوشت اورمٹی کا تیل ،وہ دِیا سلائی (ماچس کی تیلی) جس کے رگڑنے میں بو اُڑتی ہو، رِیاح خارِج کرنا وغیرہ وغیرہ۔ جس کو گندہ دہنی کا عارِضہ ( یعنی منہ سے بد بوآنے کی بیماری) یا کوئی بد بودار زَخم ہو یا کوئی بد بودار دوا لگائی ہو تو جب تک بومنقطع( یعنی ختم) نہ ہو اُس کو مسجد میں آنے کی ممانعت ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۶۴۸) کچا گوشت وغیرہ پاک چیز کی اگر ا س طرح پیکنگ کر لی جائے کہ معمو لی سی بھی  بد بو نہ آئے تو اب مسجد میں لے جانے میں حرج نہیں ۔

کچی پیاز والے کچومر اور رائتے سے محتاط رہئے:

کچی پیاز والے آلوچنے،رائتے اور کچومرنیز کچے لہسن والے اَچار چٹنی وغیرہ کھانے سے نَماز کے اوقات میں پرہیز کیجئے۔ افطار کے لئے مسجد میں لائے جانے والے بازاری چھولے اور سموسوں میں اکثر کچی پیاز کی ٹکڑیاں ہوتی ہیں ، ان کو مسجد میں نہ لایئے ، بلکہ گھر میں بھی نماز سے پہلے مت کھایئے ۔

مجمع میں اگر بتی سلگانا:

مسلمانوں کے اجتماع میں خوشبو پہنچانے کی نیّت سے اگر بتی وغیرہ جلانا کارِ ثواب ہے۔اگرلوبان یا اگر بتی کے دھوئیں سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو تو ایسے موقع پر خوشبو نہ جلائی جائے، اِسی طرح مجمع پر ’’ خوشبو دار پانی‘‘چھڑکنے سے بھی بچیں کہ عام طور پر اِ س سے لوگوں کو کوفت اور پریشانی ہوتی ہے۔

بد بودار منہ لیکر مسلمانوں کے مجمع میں جانے کی ممانعت:

        مفسرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں : مسلمانوں کے مَجمَعوں ، درسِ قراٰن کی مجلسوں ، علمائے دین و اولیائے کاملین کی بارگاہوں میں بد بو دار منہ لے کر نہ جاؤ۔  مزید فرماتے ہیں :جب تک منہ میں بد بو رہے گھر میں ہی رہو ، مسلمانوں کے جلسوں ، مَجمَعوں میں نہ جاؤ۔ حقہ پینے والے ، تمباکو والے، پان کھا کر کلی نہ کرنے والوں کو اس سے عبرت پکڑنی چاہئے ۔ فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :جسے گندہ دَہنی کی بیماری ہو اُسے مسجدوں کی حاضری مُعاف ہے۔ (مِراٰۃُ المناجیح ج۶ ص ۲۵،۲۶)

نماز کے اوقات میں کچی پیاز کھانا کیسا ؟:

سُوال:’’گندہ دَہن‘‘ کو مسجِد کی حاضری معاف ہے ، تو کیا کچی پیاز والا رائتہ یا کچومر یا ایسے کباب سموسے جن میں لہسن پیاز برابر پکے ہوئے نہ ہوں اور اُن کی بو آتی ہویا مسلی ہوئی باجرے کی روٹی جس میں کچا لہسن شامل ہوتا ہے ایسی غذا وغیرہ جماعت سے کچھ دیر پہلے اس نیت سے کھا سکتے ہیں کہ منہ میں بو ہو جائے اورجماعت واجب نہ رہے!

جواب:ایسا کرنا جائز نہیں ۔ مَثَلاً جہاں عشا کی جماعت اوّل وَقت میں ہوتی ہے وہاں نمازِ مغرب کے بعد ایسا کچومر یا سلاد وغیرہ نہ کھائے جس میں کچی مولی یا کچی پیاز یا کچا لہسن ہو کیوں کہ اِتنی جلدی منہ صاف کر کے مسجِد میں پہنچنا دُشوار ہوتا ہے۔ ہاں اگر جلد مُنہ صاف کرنا ممکن ہے یا کسی اور وجہ سے مسجِد کی حاضری سے معذور ہے مَثَلاً عورت۔ یا نَماز پڑھنے میں ابھی کافی دیر ہے اُس وقت تک بوختم ہو جا ئے گی تو کھانے میں مضایقہ نہیں ۔ میرے آقا اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :’’کچا لہسن پیاز کھانا کہ بلاشبہہ حلال ہے اور اُسے کھا کر جب تک بو زائل نہ ہومسجِد میں جانا ممنوع مگر جو حقہ ایسا کثیف (یعنی گاڑھا) و بے اِہتمام ہو کہمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّتغیر باقی (یعنی دیر پا بد بو ) پیدا کرے کہ وقتِ جماعت تک کلی سے بھی بکلی( یعنی مکمَّل طور پر) زائل(یعنی دور) نہ ہو تو

قربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ ترکِ جماعت و ترکِ سجدہ یا بدبو کے ساتھ دُخولِ مسجِد کا موجب(سبب) ہوگا اور یہ دونوں ممنوع و ناجائز ہیں اور( یہ شرعی اصول ہے کہ) ہر مباح فی نفسہ( یعنی ہر وہ کام جو حقیقت میں جائز ہو مگر) امر ممنوع کی طرف مُؤَدّی( یعنی ممنوع کام کی طرف لے جانے والا) ہو ممنوع و نارَوا ہے۔ ‘‘         (فتاوٰی رضویہ ج۲۵ ص ۹۴)

کچی پیاز کھاتے وَقت بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے:

’’فتاوٰی فیض الرسول‘‘ جلد 2 صفحہ 506پر ہے :حقہ ،بیڑی، سگریٹ پینے اور (کچے) لہسن، پیاز جیسی (بدبودار) چیز کھانے کے وَقت اورنجاست کی جگہوں میں بِسْمِ اللہِ پڑھنا مکروہ (تنزیہی) ہے۔

        نجاست کی جگہوں میں بِسْمِ اللہِ پڑھنا تو مکروہ تنزیہی ہے البتّہ علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامینے لفظِ قِیْلَ سے ایک قول یہ بھی نقل فرمایا ہے کہ دُخان پینے کے وَقت بھی بِسْمِ اللہِ پڑھنا مکروہ ہے اور پھر اسکی وضاحت میں علامہ شامی نے ہر بدبودار چیز مَثَلًا پیاز ولہسن کا بھی ذکر کیا ہے، اس اعتبار سے اس ایک قول پر بدبودار چیز کھانے کے وَقت بِسْمِ اللہِ پڑھنا بھی مکروہ ہے۔(مُلَخّص اَز رَدُّالْمُحْتَار ج۱ص۳۸) اور اگرچہ ’’شامی‘‘ میں تحریمی وتنزیہی کی صراحت نہیں لیکن یہاں مراد مکروہِ تنزیہی ہی ہے۔

منہ کی بدبو معلوم کرنے کا طریقہ:

اگر منہ میں کوئی تَغَیُّرِ رائِحَہ( یعنی بد بو) ہو تو جتنی بار مسواک اور کلیوں سے اس (بدبو) کا اِزالہ( یعنی دُور کرنا ممکن) ہو(اُتنی بار کلیاں وغیرہ کرنا) لازِم ہے ، اِس کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ۔ بد بو دارکثیف (یعنی گاڑھا)بے احتیاطی کا حقہ پینے والوں کو اِس کا خیال (رکھنا) سخت ضروری ہے اور اُن سے زیادہ سگریٹ والے کوکہ اس کی بد بومُرَکَّبتمباکو ( یعنی جس میں کچھ چیزیں ملائی جاتی ہیں ) سے (بھی) سخت تر اور زیادہ دیر پا ہے اور ان سب سے زائد اَشد ضرورت تمباکو کھانے والوں کو ہے جن کے منہ میں اُس کا جرم (یعنی دھوئیں کے بجا ئے خود تمباکو ہی) دبا رہتا اور منہ اپنی بدبو سے بسا دیتا ہے۔ یہ سب لوگ وہاں تک مسواک اورکلیاں کریں کہ منہ بالکل صاف ہو جائے اور بو کا اصلاً (بالکل نام و)نشان نہ رہے اور اس کا امتحان یوں ہے کہ ہاتھ اپنے منہ کے قریب لے


 

جاکر منہ کھول کر زور سے تین بار حلق سے پوری سانس ہاتھ پر لیں اورمعاً (یعنی فوراً) سونگھیں ۔ بغیر اس کے اندر کی بدبو خود کم محسوس ہوتی ہے اور جب منہ میں بدبو ہو تو مسجِد میں جانا حرام، نماز میں داخل ہونا منع۔ وَاللہ الْہَادِی۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۶۲۳)  میرے آقا اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے سگریٹ کی بد بو کو حقے اور مرکب تمباکو سے زائد قرار دیا ہے۔ یہ سگریٹ کی قسم پر منحصر ہے۔ کچھ سگریٹ حقے سے زیادہ اور کچھ کم بدبودار بھی ہوسکتے ہیں ۔

منہ کی بدبو کا علاج:

اگر کسی چیز کے کھانے کے سبب منہ میں بدبوآتی ہوتو ’’ہرا دھنیا ‘‘چبا کر کھایئے نیز گلاب کے تازہ یا سوکھے ہوئے پھولوں سے دانت مانجھئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ فائدہ ہو گا۔ ہاں اگر پیٹ کی خرابی کی وجہ سے بدبو آتی ہو تو’’ کم خوری‘‘ (یعنی کھانے میں کمی کرنے)کی سعادت حاصل کر کے بھوک کی بَرَکتیں لوٹنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ ٹانگوں اور بدن کے مختلف حصّوں کے درد ، قبض،سینے کی جلن، مُنہ کے چھالے ،باربار ہونے والے(یعنی دائمی) نزلے کھانسی اور گلے کے درد ، مَسُوڑھوں میں خون آنا وغیرہ بَہُت سارے اَمراض کے ساتھ ساتھ مُنہ کی بدبوسے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ بھوک باقی رہے اِس طرح سے کم کھانے میں 80 فیصد اَمراض سے بچت ہوسکتی ہے۔( تفصیلی معلومات کیلئے فیضانِ سنّت جلد اوّل کے باب ’’ پیٹ کا قفلِ مدینہ‘‘ کا مطالَعَہ فرمایئے)اگرنفس کی حِرص کا علاج ہو جائے توکئی جسمانی اور روحانی امراض خود ہی دم توڑجائیں ۔    ؎

رضاؔ نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا

کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے   (حدائقِ بخشش شریف ص۱۵۹)

منہ کی بدبو کا مَدَنی علاج:

اللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلَی النَّبِیِّ الطَّاہِر مُندَرَجَۂ بالا دُرُود شریف موقع بہ موقع ایک ہی سانس میں 11مرتبہ پڑھ لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ منہ کی  بدبو  زائل (یعنی دُور)ہو جا ئے گی ۔ ایک ہی سانس میں پڑھنے کا


 

 بہتر طریقہ یہ ہے کہ منہ بند کر کے آہستہ آہستہ ناک سے سانس لینا شروع کیجئے اورممکنہ حد تک ہوا  پَھیپھڑوں میں بھر لیجئے ۔ اب دُرُود شریف پڑھنا شرو ع کیجئے، چند بار اس طرح مشق کریں گے تو سانس ٹوٹنے سے قبل اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ مکمّل گیارہ بار دُرُود شریف پڑھنے کی ترکیب بن جائے گی ۔ مذکورہ طریقے پر ناک سے گہرا سانس لیکر ممکن حد تک روک رکھنے کے بعد منہ سے خارِج کرنا صحت کیلئے انتہائی مفید ہے۔ دن بھر میں جب جب موقع ملے بالخصوص کھلی فضا میں روزانہ چند بار تو ایسا کر ہی لینا چاہئے۔ مجھے ( یعنی سگِ مدینہ  عفی عنہ کو) ایک سن رَسیدہ(یعنی بوڑھے) حکیم صاحِب نے بتا یا تھا کہ میں سانس لینے کے بعد آدھے گھنٹے تک ( یا کہا )دو گھنٹے تک ہوا کو اندر روک لیتا ہوں اور اِس دَوران اپنے وِردو وَ ظائف بھی پڑھ سکتا ہوں ۔ بقول اُن حکیم صاحب کے سانس روکنے کے ایسے ایسے مشاق (یعنی مشق کر کے ماہر ہو جانے والے لوگ) بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ صبح سانس لیتے ہیں تو شام کو نکالتے ہیں !

استنجا خانے مسجد سے کتنی دُور ہونے چاہئیں ؟:

بارگاہِ رضویت میں سوال ہوا کہ نمازیوں کیلئے اِستنجا خانے مسجِد سے کتنی دُور بنانے چاہئیں ؟ اِس پر میرے آقا اعلٰی حضرت امامِ اَہلِ سنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے جواباً ارشاد فرمایا: مسجِد کو بو سے بچانا واجب ہے وَ لہٰذا مسجِد میں مٹی کا تیل جلانا حرام، مسجدمیں دِیا سلائی ( یعنی بد بودار بارُود والی ماچس کی تیلی) سلگانا حرام، حتّٰی کہ حدیث میں ارشاد ہوا: مسجِد میں کچا گوشت لے جانا جائز نہیں ۔ (اِبن ماجہ ج۱ ص۴۱۳ حدیث ۷۴۸) حالانکہ کچے گوشت کی بو بہت خفیف (یعنی ہلکی) ہے۔ تو جہاں سے مسجِد میں بو پہنچے وہاں تک (اِستنجا خانے بنانے کی) ممانعت کی جائے گی۔(فتاوٰی رضویہ ج ۱۶ص ۲۳۲) کچے گوشت کی بد بو ہلکی ہوتی ہے جب یہ بھی مسجِد میں لے جانا جائز نہیں تو کچی مچھلی لے جانا بَدَرَجَۂ اَولیٰ ناجائز ہوگا کیوں کہ اس کی بو گوشت سے زیادہ تیز ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات پکانے والوں کی بے احتیاطی کے سبب اِس کا سالن کھانے سے ہاتھ اور مُنہ میں ناگوار بو ہو جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں بو دُورکئے بغیر مسجِد میں نہ جائے۔


 

اِستنجا خانوں کی جب صفائی کی جاتی ہے اُس وَقت بد بو کافی پھیلتی ہے لہٰذا (اِستنجاخانے اور مسجِد کے درمیان)اتنا فاصلہ رکھنا ضروری ہے کہ صفائی کے موقع پر بھی بدبو  مسجِد میں داخل نہ ہو سکے۔ اِستنجا خانے اِحاطۂ مسجِد میں کھلتے ہوں تو ضرورتاً دیوار پاٹ کر باہر کی جانب دروازے نکال کر بھی بدبو سے مسجِد کو بچایا جاسکتا ہے ۔

اپنے لباس وغیرہ پر غور کرنے کی عادت بنائیے:

مسجِد میں  بدبو  لے جانا حرام ہے،نیز ہر طرح کے بدبو والے شخص کا داخِل ہونا بھی حرام ہے ۔مسجِد میں کسی تنکے سے خلال بھی نہ کریں کہ جو پابندی سے ہر کھانے کے بعد اِس کے عادی نہیں ہوتے خلال کرنے سے ان کے دانتوں سے بد بو نکلتی ہے۔ معتکف فنائے مسجِد میں بھی اتنی دُور دانتوں کا خلال کرے کہ بدبو اصلِ مسجِد میں داخل نہ ہو۔ بد بودار زَخم والا یا وہ مریض جس نے پیشاب یا پاخانے کی تھیلی (Stool Bag Urion Bag) لگائی ہوئی ہے وہ مسجِد میں داخل نہ ہوں ۔ اسی طرح لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کیلئے لی ہوئی خون یا پیشاب کی شیشی، ذَبیحہ کے بوقتِ ذَبح نکلے ہوئے خون سے آلود کپڑے وغیرہ کسی چیز میں چھپا کر بھی مسجِد کے اندر نہیں لے جا سکتے چنانچِہ فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : ’’مسجِد میں نجاست لے کرجانا اگر چِہ اس سے مسجِد آلود ہ نہ ہو یا جس کے بدن پر نجاست لگی ہو اُس کو مسجِد میں جانا منع ہے۔‘‘ (رَدُّ الْمُحتار ج۲ ص۵۱۷) مسجِد میں کسی برتن کے اندر پیشاب کرنا یا فصد کا خون لینا (یعنی رگ کھول کر فاسد خون نکالنا، ٹیسٹ کیلئے سرنج کے ذَرِیعے خون نکالنا) بھی جائز نہیں ۔ (دُرِّ مُختار ج۲ ص۵۱۷) پاک بدبو چھپی ہوئی ہو جیسا کہ اکثر لوگوں کے بدن میں پسینے کی بد بو ہوتی ہے مگر لباس کے نیچے چھپی ہوئی ہوتی ہے اور محسوس نہیں ہوتی تو اِس صورتمیں مسجِد کے اندر جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح اگر رومال میں پسینے وغیرہ کی بدبو ہے جیسا کہ گرمی میں منہ کا پسینہ پونچھنے سے اکثر ہو جاتی ہے تو ایسا رومال مسجِد کے اندر نہ نکالے ، جیب ہی میں رہنے دے، اگرعمامہ یا ٹوپی اُتارنے سے پسینے یامیل کچیل وغیرہ کی بدبو آتی ہے تو مسجِد میں نہ اُتارے ۔ چنانچہ اِس کی مثال دیتے ہوئے مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت مفتی


 

 احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں :’’ ہاں اگر کسی صورت سے مِٹی کے تیل کی بد بو اُڑادی جائے یا اِس طرح لیمپ وغیرہ میں بند کیا جائے کہ اس کی بد بو ظاہر نہ ہو تو (مسجِد میں ) جائز ہے۔‘‘ (فتاوٰی نعیمیہ ص۴۹) ہرمسلمان کو اپنے مُنہ، بدن، رومال، لباس اور جوتی چپل وغیرہ پر غور کرتے رہنا چاہئے کہ اس میں کہیں سے بد بُو تو نہیں آ رہی اور ایسا میلا کچیلا لباس پہن کر بھی مسجِد میں نہ آئیں جس سے لوگوں کوگھن آئے۔ افسوس ! دُنیوی افسروں وغیرہ کے پاس تو عمدہ لباس پہن کر جائیں اور اپنے پیارے پیارے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کے دربار میں حاضری کے وَقت یعنی نَماز میں نفاست( صفائی اور پاکیزگی وغیرہ) کا کوئی اِہتمام نہ کریں ، مسجِد میں آتے وقت انسان کم ازکم وہ لباس تو پہنے جو دعوتوں میں پہن کر جاتا ہے، مگر اس بات کا خیال رکھئے کہ لباس شریعت و سنّت کے مطابِق ہو۔

سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ با قرینہ ہے: ’’مسجدوں کو بچوں اور پاگلوں اور خریدو فروخت اور جھگڑے اور آواز بلند کرنے اور حُدود قائم کرنے اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ ۔‘‘( اِبن ماجہ ج ۱ ص ۴۱۵ حدیث ۷۵۰ )

  مسجد میں بچے کو لانے کی ممانعت:

                                         بچے اور پاگل کو جن سے نجاست کا گمان ہو مسجد میں لے جانا حرام ہے ورنہ مکروہ، جو لوگ جوتیاں مسجِد کے اندر لے جاتے ہیں ان کو اِس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر نجاست لگی ہو تو صاف کرلیں اور جو تا پہنے مسجد میں چلے جانا سُوء ِ ادب (یعنی بے اَدَبی) ہے۔ (رَدُّ الْمُحْتار ج ۲ ص ۵۱۸) بچّے یا پاگل (یابے ہوش یا جس پر جِنّ آیا ہوا ہو اس) کو دم کروانے کیلئے چاہے ’’ پمپَر‘‘ لگا ہو تب بھی مسجد میں  ہر گز نہ لے جایا جائے۔ اگر آپ ایسوں کو مسجِدمیں لانے کی بھول کرچکے ہیں جن کا لانا جائز نہ تھا توفوراً توبہ کرکے آیندہ نہ لانے کاعہد کیجئے ۔ ہاں فنائے مسجِد مَثَلاً امام صاحِب کے حجرے میں لے جاسکتے ہیں جبکہ مسجِد کے اندر سے لے کر نہ گزرنا پڑے۔


 

گوشت ، مچھلی بیچنے والے:

                                                گوشت یا مچھلی بیچنے والے کے لباس میں سخت بدبو ہوتی ہے لہٰذاان کو چاہئے کہ فارِغ ہو کر اچھی طرح نہائیں ، صاف لباس زیب تن فرمائیں ، خوشبو لگائیں اور پھر مسجِد میں آئیں ۔نہانا اور خوشبو لگانا شرط نہیں صرف مشورۃً عرض کیا ہے، کوئی بھی ایسی ترکیب کریں کہ بد بو مکمَّل طور پر زائل(یعنی دُور) ہو جائے۔

سونے سے منہ میں بدبو ہو جاتی ہے:

سوتے میں پیٹ کی گندی ہوائیں اُوپر کی طرف اٹھتی ہیں ، لہٰذا بیدار ہونے پر منہ میں اکثر بدبو ہوتی ہے۔ اِس ضمن میں فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ375 تا 376 سے ’’سوال جواب ‘‘ ملاحظہ ہوں ۔سوال: سونے سے اُٹھ کر آیۃُ الکرسی پڑھنا کیسا ہے؟ بعض اُستاد حقہ پیتے ہیں اور شاگرد کو (قراٰن کریم)  پڑھاتے جاتے ہیں ۔جواب: سونے سے اُٹھ کر ہاتھ دھوکر کلی کرلے اس کے بعد آیۃُ الکُرسی پڑھے۔ اگر منہ میں حقے وغیرہ کی بدبو ہو یا کوئی کھانے پینے کی چیز ہو تو بغیر کلی کئے تلاوت نہ کرے۔ جو اُستاد ایسا کرتے ہیں برا کرتے ہیں ۔ وَاللہ تعالٰی اَعلم۔(فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص ۳۷۵ ، ۳۷۶) ہمارے معطر معطر آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وجودِ مسعود ہر وَقت مہکتا رہتا تھا،مزاجِ مبارک میں نہایت نفاست (یعنی صفائی،پاکیزگی )تھی ، سوکر اُٹھنے کے بعد مِسواک کرنا سُنَّت ہے۔چُنانچہاُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدَتنا عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے کہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس رات کو وُضو کا پانی اورمِسواک رکھی جاتی تھی، جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات میں اُٹھتے تو پہلے قضائے حاجت کرتے پھر مسواک فرماتے ۔      (ابوداوٗد ج۲حدیث۵۶)

پسینے کی بدبو والے کپڑے:

 خصوصاً گرمی میں بعض لوگوں کے کپڑوں سے نمایاں طور پر پسینے کی بدبوآ رہی ہوتی ہے، ایسوں کو ایسی حالت میں مسجد کا داخلہ حرام ہے۔ بعض غذائیں ایسی ہوتی ہیں جن کے کھانے سے بدبو دارپسینہ آتا ہے ایسے اَفراد غذائیں تبدیل فرمائیں ۔


 

منہ کی صفائی کا طریقہ:

جو مسواک او ر کھانے کے بعد خلال نہیں کرتے اور دانتوں کی صفائی کرنے میں سست ہوتے ہیں اکثر اُن کے منہ بد بو دار ہوتے ہیں ۔ صرف رَسمی طور پر مسواک اور خلال کا تنکا دانتوں سے مس(Touch) کر دینا کافی نہیں ہو تا۔ مسوڑھے زخمی نہ ہو ں اِس احتیاط کے ساتھ ممکنہ صورت میں غذا کا ایک ایک ذرّہ دانتوں سے نکالنا ہو گا ورنہ دانتوں کے در میان غذائی اَجزا پڑے پڑے سڑتے اور سخت سڑاند(یعنی بدبو)کا باعث بنتے رہیں گے ۔ دانتوں کی صفائی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کوئی چیز کھانے اور چائے وغیرہ پینے کے بعد اور اِس کے علاوہ بھی جب جب موقع ملے مَثَلاً بیٹھے بیٹھے کوئی کام کر رہے ہیں اُس وَقت پانی کا گھونٹ منہ میں بھر لیں اور جُنبِشَیں دیتے رہیں یعنی ہلاتے  رہیں ، اِس طرح منہ کا کچرا اورمیل کچیل صاف ہوتا رہے گا۔ سادہ پانی بھی چل جائے گا اور اگر نمک والا قابل برداشت گرم پانی ہو تو یہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ ایک اچھا ’’ماؤتھ واش‘‘ ثابت ہو گا۔

داڑھی کو بدبو سے بچائیے:

داڑھی میں بسا اوقات غذائی اَجزا اٹک جاتے ہیں ،کبھی سونے میں منہ کی بد بودار رال بھی داخل ہو جاتی ہے اور اِس طرح بد بوآتی ہے لہٰذاوقتاً فوقتاً صابن سے داڑھی دھو لینا مناسب ہے اوراِسی طرح سر کے بال بھی دھوتے رہئے۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:  ’’جس کے بال ہوں ان کا اکرام کرے۔‘‘(ابو داوٗد ج۴ ص۱۰۳ حدیث۴۱۶۳) یعنی انہیں دھوئے ، تیل لگائے اور کنگھی کر ے۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج۳ ص ۶۱۷)

خوشبودار تیل بنانے کا آسان طریقہ:

سر میں سرسوں کا تیل ڈالنے والا سر سے ٹوپی یاعمامہ اُتارتا ہے تو بعض اوقات بدبو کا بھپکا نکلتا ہے لہٰذا جس سے بن پڑے وہ سر میں عمدہ خوشبو دار تیل ڈالے۔ خوشبو دار تیل بنانے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ کھوپرے کے تیل کی شیشی


 

 میں اپنے پسندیدہ عِطر کے چند قطرے ڈال کر حل کر لیجئے۔ خوشبو دار تیل تیّار ہے۔ (خوشبو دار تیل بنانے کے مخصوص ایسینس بھی خوشبویات کی دُکانوں سے حاصِل کئے جاسکتے ہیں )

ہو سکے تو روز نہائیے:

        جس سے بن پڑے وہ روزانہ نہائے کہ کافی حد تک بدن کی باہری بدبو زائل ہو گی اور یہ صحت کیلئے بھی مفید ہے۔(مگرمُعتکِفین مسجِد کے غسل خانوں میں بلا سخت ضرورت کے نہ نہائیں کہ نمازیوں کیلئے وُضو کے پانی کی تنگی ہو سکتی ہے اور موٹر بھی بار بار چلنے کی وجہ سے خراب ہوسکتی ہے نیز تب نہائیں جب غسل خانے فنائے مسجِد میں ہوں اگر خارِج مسجِد میں ہوں تو غسلِ جمعہ کی بھی اجازت نہیں صرف فرض غسل کی اجازت ہے )

عمامہ وغیرہ کو بدبوسے بچانے کا طریقہ:

بعض اسلامی بھائی کافی بڑے سائز کا عمامہ شریف باندھنے کا جذبہ تو رکھتے ہیں مگر صفائی رکھنے میں کوتاہی کر جاتے ہیں اور یوں بسا اوقات لاشعوری میں مسجِد کے اندر ’’ بدبو‘‘پھیلانے کے جرم میں پھنس جاتے ہیں ۔ لہٰذا مَدَنی التجا ہے کہ عمامہ،سر بند شریف اور چادر استعمال کرنے والے اسلامی بھائی موسم کے اعتبار سے یا ضرورتاً مزید جلدی جلدی انہیں دھونے کی ترکیب بناتے رہیں ، ورنہ میل کچیل،پسینہ اورتیل وغیرہ کے سبب ان چیزوں میں بدبو ہوجاتی ہے، اگرچہ خود کو محسوس نہیں ہوتی مگر دوسروں کو بد بو کے سبب کافی گھن آتی ہے، خود کو اس لئے پتا نہیں چلتا کہ جس کے پاس زیادہ دیر تک کوئی مخصوص خوشبو یا بدبو ہو اِس سے اُس کی ناک اَٹ جاتی ہے ۔

عمامہ کیسا ہونا چاہئے:

سخت ٹوپی پر بندھے بندھائے عمامے کا استعمال بے شک جائز ہے مگر زیادہ دن بندھے رہنے سے اس کے اندر بد بو پیدا ہو سکتی ہے ۔ اگر ہو سکے تو ململ کے ہلکے پھلکے کپڑے کا عمامہ شریف استعمال کیجئے اور اس کیلئے سفید کپڑے کی ایسی ٹوپی پہنئے جو سر سے چپڑی ہوئی ہو کہ سُنت ہے۔بندھا بندھایا عمامہ شریف سر پر رکھ لینے اور اُتار کر رکھ دینے کے بجائے باندھتے وقت ایک ایک پیچ


 

 کر کے باندھئے اور اِسی طرح کھولنے کی ترکیب کیجئے،ہو سکتا ہے یوں بار بار ہوا لگنے سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ بد بو سے بچت کی صورت ہو۔ عمامہ ، سر بند، چادر اور لباس وغیرہ اُتار کر دھوپ میں ڈالنے سے بھی پسینے وغیرہ کی بد بو دُور ہو سکتی ہے۔نیز ان پر اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ عمدہ عطر لگاتے رہنا بھی بد بو دُور کر سکتا ہے۔ضمناً عطر لگانے کی نیتیں او ر مواقع بھی ملاحظہ فرما لیجئے:

 خوشبو لگانے کی نیتیں اور مواقع

   فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ’’مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ ‘‘  (مُعْجَم کبِیر ج۶ص۱۸۵حدیث۵۹۴۲)ارشادِ غزالی:خوشبو استعمال کرنا جائز ہے البتہ ا س پر ثواب پانے کے لئے اچھی نیَّت ضروری ہے۔(اِحیاء العلوم ج۵ص۹۷ مُلخّصاً ){۱}سنّتِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے اس لئے خوشبولگاؤں گا {۲}لگانے سے قبل بِسمِ اللہ {۳}خوشبو لیتے یا سونگھتے وقت اس نیّت سے دُرُود شریف پڑھوں گا کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسے پسند کرتے اور بکثرت استعمال فرماتے تھے اور{۴} ادائے شکر نعمت کی نیت سے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱)کہوں گا {۵}ملائکہ اور {۶}مسلمانوں کو فرحت (خوشی)پہنچاؤں گا {۷}عقل بڑھے گی تواَحکا مِ شرعی یاد کرنے، سنتیں سیکھنے اور اہم دینی کام بآسانی انجام پانے پر قوت حاصِل کروں گا (حضرت علامہ زَبیدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیلکھتے ہیں : اَطبا ( یعنی طبیب لوگ) اس بات پر متفق ہیں کہ خوشبو سے دماغ کو طاقت و دُرُستی ملتی ہے۔(اِتحافُ السّادۃ ج ۱۳ص ۵۰) امام شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافیِفرماتے ہیں : ’’عمدہ خوشبو لگانے سے عقل بڑھتی ہے۔‘‘ (اِحیاء العلوم ج۱ ص۲۴۴)) {۸}اپنے بدن کی بدبو سے لوگوں کو بچاؤں گا ( خصوصاً گرمیوں میں پسینے کی بدبو سے بچانے کی نیَّت کی جا سکتی ہے) {۹} لباس وغیرہ سے بدبودُور کرکے مسلمانوں کو غیبت کے گناہ سے بچاؤں گا (کیونکہ کسی مسلمان کالباس وغیرہ بد بُودار ہو تو اُس کے پیچھے سے مَثَلاً اِس طرح کہنا کہ:’’اِس کے لباس یا ہاتھوں یا منہ سے بدبو آرہی تھی‘‘ غیبت ہے۔امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں :جو بچ سکنے کے باوُجُود خود کوغیبت پر پیش کرے وہ بھی اس غیبت کے گناہ میں شریک


 

ہوگا(ایضاًج۵ص۹۸))  موقع کی مناسبت سے یہ نیتیں بھی کی جا سکتی ہیں ، مَثَلاً: {۱۰}نماز کیلئے زینت حاصل کروں گا {۱۱}مسجد اللہ کا گھر ہے اس کی تعظیم کی نیت {۱۲} نماز کی صف میں ساتھ بیٹھے ہوؤں کو راحت پہنچانے کیلئے {۱۳}نمازِ تہجد {۱۴} جمعہ {۱۵} پیرشریف {۱۶}رَمَضانُ المُبارَک {۱۷} عیدُالفطر {۱۸}عید الاضحی {۱۹}شب میلاد {۲۰}عید میلاد النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ {۲۱}جلوس میلاد {۲۲} شب معراج النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ {۲۳}شبِ براء ت {۲۴}گیارہویں شریف {۲۵} یومِ رضا {۲۶}درسِ قراٰن و {۲۷}حدیث {۲۸}تِلاوت {۲۹}اَوراد و وظائف {۳۰}دُرُود شریف {۳۱}دینی کتاب کا مطالعہ {۳۲}تدریس علم دین {۳۳}تعلیمِ علمِ دین {۳۴}فتویٰ نویسی {۳۵}دینی کتب کی تصنیف و تالیف {۳۶}سنتوں بھرے اجتماع {۳۷} اجتماع ذکرو نعت {۳۸}درسِ فیضانِ سنّت {۳۹} مَدَنی دورہ برائے نیکی کی دعوت {۴۰}سنتوں بھرا بیان کرتے وَقت {۴۱} عالم {۴۲}ماں {۴۳}باپ {۴۴}مومنِ صالح {۴۵}پیر صاحب {۴۶}موئے مبارَک و تبرُّکات ِ شریفہ کی زیارت اور {۴۷} مزار شریف کی حاضری کے مواقع پر بھی تعظیم کی نیّت سے خوشبو لگائی جا سکتی ہے۔علما ءِ کرام سے درجِ ذیل(یعنی نیچے دیئے ہوئے) مواقع پر بھی خوشبو لگانے کا استحباب (یعنی مستحب ہونا) ثابت ہے  ([5]){۴۸}وضو کرنے کے بعد {۴۹} احرام کی نیت کرنے سے پہلے لباس اور بدن دونوں پر {۵۰}حج کا احرام کھل جانے پر طوافِ زیارت سے پہلے {۵۱} مرد و عورت دونوں کے لئے’’ملاپ‘‘ سے پہلے {۵۲}میِّت(یعنی جو مرنے کے قریب ہو اُس)کو نزع کے وقت {۵۳}میت کو نہلاتے وقت خوشبو سلگانابلکہ جس تخت یا چار پائی پر نہلانا ہو اسے تین یا پانچ یا سات بار دھونی دینا {۵۴}میِّت کو غسل دینے کے بعد اس کے بدن پر کافور (جو کہ ایک خوشبودارمادّہ ہے اُس) کا پانی بہانا{۵۵}میِّت کو کفن پہنانے کے بعد داڑھی اور تمام


 

 بدن پر خوشبو ملنااورمواضع سجود(یعنی بدن کے وہ حصے جو سجدے میں زمین پر لگتے ہیں اُن) پر کافور لگانا۔ جتنی اچھی اچھی نیتیں کریں گے اُتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا۔ جبکہ نیت کا موقع محل بھی ہو اور وہ نیت شرعاً دُرُست بھی ہو، زیادہ یاد نہ بھی رہیں تو کم از کم دو تین نیتیں تو کر ہی لینی چاہئیں ۔

      اے ہمارے پیارے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ! آج تک ہم سے جتنی بار بھی مسجِد میں بد بو لے جانے کا گناہ ہوا ہواُس سے توبہ کرتے ہیں اور یہ عزم کرتے ہیں کہ آیندہ کبھی بھی مسجِد میں کسی طرح کی بد بو نہیں لے جائیں گے۔یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ! ہمیں مسجدیں خوشبو دار رکھنے کی سعادت دے۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ!ہمیں ہر طرح کی ظاہری باطنی بد بوؤں سے پاک ہو کر مسجد میں حاضری کی سعادت عنایت فرما۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمارے خوشبودار سرکارِ والا تبار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صَدقے ہمیں گناہوں کی بد بوؤں سے نجات دے اور خوشبوؤں سے مہکتی ہوئی جنت الفردوس میں اپنے معطر معطرحبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوس نصیب فرما ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

وَ اللہ   جو   مل   جائے   مرے   گل   کا   پسینا

مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دُلھن پھول (حدائقِ بخشش شریف ص۷۸ )

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

فنائے مسجد اور معتکف:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معتکف بلا ضرورت بھی فنائے مسجِد میں جائے تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ فنائے مسجد سے مرادوہ جگہیں ہیں جو مسجِد کی مصالح یعنی ضروریاتِ مسجدکے لئے احاطۂ مسجد کے اندر ہوں ، جیسے منارہ ، وُضو خانہ ، اِستنجا خانہ،غسل خانہ ، مسجِدسے متصل مَدْرَسہ ، مسجِد سے ملحق اِمام و مُؤَذِّن وغیرہ کے حجرے،جوتے اُتارنے کی جگہ وغیرہ یہ مقامات بعض معاملات میں حکمِ مسجِد میں ہیں اور بعض معاملات میں خارِج مسجد ۔ مثلاً یہاں پر جنبی (یعنی جس پرغسل فرض ہو) جاسکتاہے۔اِسی طرح اقتدا اور اعتکاف کے معاملے


 

 میں یہ مقامات حکمِ مسجِدمیں ہیں ۔ معتکف بلاضرورت بھی یہاں جاسکتا ہے گویا وہ مسجدہی کے کسی ایک حصے میں گیا۔

معتکف فنائے مسجد میں جاسکتا ہے:         

حضرتِ صدرُالشَّریعہ،صاحب بہارِ شریعت حضرت مولاناامجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’فنائے مسجِد جو جگہ مسجدسے باہراس سے ملحق ضروریاتِ مسجدکیلئے ہے ، مَثَلًا جوتا اُتارنے کی جگہ اورغسل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اِعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔‘‘ مزید آگے فرماتے ہیں :’’ فنائے مسجِداس معاملے میں حکمِ مسجد میں ہے۔‘‘(فتاویٰ امجدیہ ج۱ص۳۹۹)

         اِسی طرح منارہ بھی فنائے مسجدہے، اگرا س کا راستہ مسجدکی چار دیواری (باؤنڈ ری وال ) کے اندرہوتومعتکف بلا تکلُّف اِس پرجاسکتاہے اور اگر مسجد کے باہرسے راستہ ہو تو صرف اذان دینے کے لئے جاسکتا ہے کہ اذان دیناحاجت شرعی ہے۔

اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتویٰ:

میرے آقا اعلٰی حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’بلکہ جب وہ مدارِس متعلق مسجِد حدودِ مسجِدکے اندر ہیں ، ان میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل(یعنی دیوار) سے صحنوں کا امتیاز کر دیا ہے توان میں جانا مسجدسے باہر جانا ہی نہیں ،یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کاجاناجائزکہ وہ گویا مسجد ہی کاایک قطعہ(یعنی حصہ)ہے۔‘‘

        {وضاحت: اس عبارت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ مدارس متعلق مسجد تھے یعنی جس طرح مساجد میں ضمنی مدارس لگائے جاتے ہیں جبکہ وہ جگہ جہاں مدرسہ لگتا ہے ضروریات و مصالحِ مسجد کے لئے وقف ہوتی ہے تو درحقیقت ان مدارس میں جانا فنائے مسجد ہی میں جانا ہوا ،اس لئے امامِ ا ہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے فرمایا کہ وہاں معتکف جاسکتا ہے ۔یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ مساجد کے ساتھ متصل جدا گانہ مدارِس میں جانا بھی معتکف کا جائز


 

ہے اس لئے کہ جداگانہ مستقل مدارس پر فنائے مسجد کا ہر گز اطلاق نہیں ہوتا ان کی مستقل وقف کی حیثیت ہوتی ہے اس لئے ایسے مدارس اگرچہ مسجد کے ساتھ متصل احاطہ میں بنے ہوئے ہوں وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا}رَدُّالْمُحتار(جلد3صفحہ436)میں ’’ بَدائِعُ الصَّنائع‘‘ کے حوالے سے ہے:اگرمعتکف منارہ پر چڑھا تو بالاتفاق اس کااعتکاف فاسدنہ ہوگاکیوں کہ منارے مسجد ہی(کے حکم )میں ہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۷ ص۴۵۳)

مسجد کی چھت پر چڑھنا:                    

صحن، مسجدکاحصہ ہے لہٰذامعتکف کوصحنِ مسجد میں آنا جانا بیٹھے رہنا مطلقاً جائز ہے۔ مسجدکی چھت پر بھی آجاسکتا ہے لیکن یہ اُس وَقت ہے کہ چھت پر جانے کاراستہ مسجِدکے اندرسے ہو۔ اگر اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں اِحاطۂ مسجد سے باہر ہوں تو معتکف نہیں جاسکتا، اگر جائے گاتو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔یہ بھی یادرہے کہ معتکف و غیرمعتکف  دونوں کو مسجدکی چھت پربلا ضرورت چڑھنامکروہ ہے کہ یہ بے ادَبی ہے ۔

معتکف کے مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں :

اعتکاف کے دَوران دو وجوہات کی بنا پر (احاطۂ) مسجِدسے باہرنکلنے کی اجازت ہے: {۱} حاجت شرعی {۲} حاجت طبعی۔

(۱)حاجت شرعی:

حاجتِشرعی مَثَلًانمازِجمعہ ادا کرنے کیلئے جانا یااذان کہنے کیلئے جانا وغیرہ۔

’’کرم‘‘کے تین حُرُوف کی نسبت سے

حاجت شرعی کے متعلق3 مَدَنی پھول

{۱}اگرمنارے کاراستہ خارِجِ مسجِد(یعنی اِحاطۂ مسجِد سے باہر)ہو توبھی اذان کیلئے معتکف جاسکتاہے کیونکہ اب یہ مسجد سے نکلنا حاجتِ شرعی کی وجہ سے ہے۔ (رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۵۰۲ مُلَخَّصاً)


 

{۲}اگر وہاں جمعہ نہ ہوتا ہو تو معتکف جمعہ کی نماز کیلئے دوسری  مسجد میں جاسکتا ہے۔ اور اپنی اعتکاف گاہ سے اندازاً ایسے وَقْت میں نکلے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر چار  رَکعت سنت پڑھ سکے اور نمازِجمعہ کے بعد اتنی دیر مزید ٹھہرسکتا ہے کہ چا ر ر یا چھ رکعت پڑھ لے۔اوراگر اس سے زیادہ ٹھہرا رہابلکہ باقی اِعتکاف اگر وَہیں پورا کرلیاتب بھی اِعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔لیکن نَمازِ جمعہ کے بعد چھ رکعت سے زیادہ ٹھہرنامکروہ ہے۔   (دُ رِّ مُخْتَار، رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۵۰۲)

{۳}اگر اپنے محلے کی ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جس میں جماعت نہ ہوتی ہو تو اب جماعت کیلئے نکلنے کی اجازت نہیں کیونکہ اب افضل یہی ہے کہ بغیر جماعت ہی اِس مسجِد میں نماز اداکی جائے۔   (جَدُّ المُمتار ج۴ص۲۸۸)

(۲)حاجت طبعی

حاجت طبعی کے متعلق 4 پیرے:

{۱} حاجتِطبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ، پیشاب، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل، مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں نہ ہو سکیں یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں وضو و غسل کا پانی لے سکے اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجدمیں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔یوہیں اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں ۔ (دُرِّمُختار،رَدُّالْمُحتارج۳ص۵۰۱، بہارِشریعت ج۱ ص۱۰۲۳ تا۱۰۲۴)

{۲}قضائے حاجت کو گیا تو طہارت کرکے فوراً چلا آئے ٹھہرنے کی اجازت نہیں اور اگر معتکف کا مکان مسجد سے دُور ہے اور اس کے دوست کا مکان قریب تو یہ ضرور نہیں کہ دوست کے یہاں قضائے حاجت کوجائے بلکہ اپنے


 

مکان پر بھی جا سکتا ہے اور اگر اس کے خود دو مکان ہیں ایک نزدیک دوسرا دُور تو نزدیک والے مکان میں جائے کہ بعض مشایخ فرماتے ہیں دُور والے میں جائے گا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔  (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۵۰۱، عالمگیری ج۱ص۲۱۲)

{۳}عام طور پر نمازیوں کی سہولت کیلئے مسجدکے اِحاطے میں بیت الخلا، غسل خانہ ، اِستنجا خانہ اور وُضوخانہ ہوتا ہے۔ لہٰذا معتکف ان ہی کو استعمال کرے ۔

{۴}بعض مساجدمیں استنجا خانوں ،غسل خانوں وغیرہ کیلئے راستہ اِحاطۂ مسجد(یعنی فنائے مسجد)کے بھی باہرسے ہوتا ہے لہٰذا اِن استنجا خانوں اور غسل خانوں وغیرہ میں حاجت طبعی کے علاوہ نہیں جاسکتے۔

اعتکاف توڑنے والی چیزوں کا بیان:

اب ان چیزوں کابیان کیاجاتاہے جن سے اِعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ جہاں جہاں مسجِد سے نکلنے پر اعتکاف ٹوٹنے کاحکم ہے وہاں اِحاطۂ مسجِد (یعنی عمارتِ مسجد کی باؤنڈری وال) سے نکلنا مراد ہے۔

’’سیدی قطبِِ مدینہ ‘‘ کے بارہ حُرُوف کی نسبت سے

اعتکاف توڑنے والی چیزوں کے متعلق 12 مَدَنی پھول

{۱} اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بغیر عذر نکلنا حرام ہے، اگر نکلاتو اعتکاف جاتا رہا اگرچہ بھول کر نکلا ہو۔ یوہیں (رَمضانُ المبارَک کے آخری عشرے کا) اعتکافِ سنت بھی بغیر عذر نکلنے سے جاتا رہتا ہے۔

(بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۲۳)

{۲} مسجدسے نکلنااُس و قت کہاجائے گا جب کہ پاؤں مسجد سے اس طرح باہر ہوجائیں کہ اسے عرفاًمسجدسے نکلنا کہا جا سکے۔ اگر صرف سرمسجدسے نکالا تو اس سے اِعتکاف فاسد نہیں ہو گا۔

(اَلْبَحرُالرَّائِق ج۲ص۵۳۰)


 

{۳} شرعی اجازت سے باہرنکلے،لیکن فراغت کے بعدایک لمحے کیلئے بھی باہرٹھہرگئے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

{۴} چونکہ اس میں روزہ شرط ہے،اِس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے۔ خواہ یہ روزہ کسی عذرسے توڑا ہو یا بلاعذر،جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹاہو،ہرصورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔ اگر بھول کرکچھ کھاپی لیا، تونہ روزہ ٹوٹا نہ اِعتکاف۔

{۵}یہ ضابطہ یاد رکھئے کہ وہ تمام اُمور جن سے روزہ ٹوٹ جاتاہے،اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔

{۶}پاخانہ پیشاب کیلئے (احاطۂ مسجِدسے باہر) گیا تھا۔ قرض خواہ نے روک لیا، اعتکاف فاسدہوگیا۔ (عالمگیری ج۱ص۲۱۲)

{۷}بے ہوشی اور جنون اگر طویل ہوں کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف جاتا رہا اور قضا واجب ہے، اگرچہ کئی سال کے بعد صحت ہو۔ (اَیضاًص۲۱۳)

{۸}معتکف مسجِدہی میں کھائے پئے سوئے،ان اُمورکیلئے مسجِدسے باہر ہو جائے گا تو اِعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (اَلْبَحْرُالرَّائِق ج۲ص۵۳۰) مگریہ خیال رہے کہ مسجِد آلودہ نہ ہو۔

{۹}کھانالانے والاکوئی نہیں توپھر اپنا کھانالانے کیلئے آپ باہرجاسکتے ہیں ، لیکن مسجِدمیں لاکرکھائیے۔     

{۱۰}مرض کے علاج کیلئے مسجدسے نکلے تو اِعتکاف فاسدہوگیا۔نیند کی حالت میں چلنے کی بیماری ہواور نیند میں چلتے چلتے مسجِدسے نکل جائے تواِعتکاف فاسدہوجائے گا۔

{۱۱}اگر ڈوبنے یا جلنے والے کے بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا یا گواہی دینے کے لیے گیا یا جہاد میں سب لوگوں کا بلاوا ہوا اور یہ بھی نکلا یا مریض کی عیادت یا نمازِ جنازہ کے لیے گیا، اگرچہ کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو تو ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسِدہوگیا۔     (بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۲۵)

{۱۲}کوئی بدنصیب دَورانِ اعتکاف مرتَد ہوگیا (نَعُوذُ بِاللہ عَزَّوَجَلَّ) تو اِعتکاف فاسد ہو گیا اور پھراگر اللہ عَزَّوَجَلَّ

 مرتدکوایمان کی توفیق عنایت فرمائے تو فاسد شدہ اعتکاف کی قضا نہیں ۔    (ماخوذاز  دُرِّمُخْتَار ج۳ ص۵۰۴ )

میری کمر کا درد چلا گیا:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اعتکاف کی عظمت کے کیا کہنے اور اگر اعتکاف میں عاشِقانِ رسول کی صحبت بھی میسر آجائے تو کیا ہی بات ہے! چنانچہ عطار آباد (جیکب آباد، بابُ الاسلام سندھ )کے ایک اسلامی بھائی دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے پہلے آوارہ گرد اور گندی ذہنیت کے مالک تھے ، دوستوں کی منڈلیوں میں فحش باتیں کرنا پھر اوپر سے زور دار قہقہے مارنا ان کاخاص مشغلہ تھا۔ ایک ناشائستہ گناہ کی وجہ سے ان کیکمر میں درد رہنے لگا تھا، جو کسی طرح کے علاج سے نہ جاتا تھا ۔ان کی قسمت کاستارہ یوں چمکا کہ بعض شناسا اسلامی بھائیوں کے اصرار پر آخری عشرۂ  رَمَضانُ المُبارَک (۱۴۲۶؁ ھ) میں عاشقانِ رسول کے ساتھ میمن مسجد( عطاّر آباد) میں معتکف ہوگئے وہ گویا کسی نئی دنیا میں آگئے تھے، پانچوں نمازوں کی بہاریں ،سنتوں بھرے پر سوز بیانات، رِقت انگیز دعائیں ، سنتوں بھرے حلقے پھر اوپر سے  عاشقانِ رسول کی شفقتیں اور ان کی برکتیں ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدَورانِ اِعتکاف ان کی کمر کا درد بغیر کسی دوا کے خود بخود ٹھیک ہوگیا اور ان کے قلب میں مَدَنی انقلاب برپا ہو گیا۔انہوں نے گناہوں سے توبہ کی ،چہرے کو مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت کی مبارک نشانی داڑھی سے آ راستہ کیا اور سبز عمامہ شریف سے سر بھی سر سبز ہوگیا۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ41 دن کا مَدَنی قافلہ کورس کرنے کی سعادت حاصل کی اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کی دھومیں مچانے کیلئے کوشاں ہو گئے۔

اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ بھائی! سدھر جاؤ گے، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف

مرضِ عصیاں سے چھٹکارا تم پاؤگے، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف     (وسائل بخشش ص۶۴۴)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

چپ کا روزہ:

حضورِ پُرنور،شافِعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے’’صَومِ وِصال‘‘ (یعنی بغیرسحری واِفطار کے مسلسل روزہ رکھنے) اور ’’صومِ سکوت‘‘ (یعنی ’’چپ کا روزہ ‘ ‘ رکھنے) سے منع فرمایا۔     (مُسندِ امامِ اَعْظَم ص۱۹۲)

        بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ معتکف کو مسجِدمیں پردے لگا کرا س کے اندربالکل چپ چاپ پڑے رہناچاہئے، بلکہ بعض تو اسے ضَروری سمجھتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ۔ اگر ضرورت ہو اور کوئی رُکاوٹ نہ ہو تو پردہ لگالینا بہت عمدہ ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اعتکاف کیلئے خیمہ لگاناثابت ہے،البتہ بغیرپردہ لگائے بھی اعتکاف دُرُست ہے۔ خاموشی کو بذاتِ خود عبادت سمجھنا غلط ہے چُنانچِہ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ 1026تا1027پر مسئلہ 32 ہے: معتکف اگر بہ نیت عبادت سکوت کرے یعنی چپ رہنے کو ثواب کی بات سمجھے تو مکروہِ تحریمی ہے اور اگر چپ رہنا ثواب کی بات سمجھ کر نہ ہو تو حرج نہیں اور بری بات سے چپ رہا تو یہ مکروہ نہیں ، بلکہ یہ تو اعلٰی درجہ کی چیز ہے کیونکہ بری بات زبان سے نہ نکالنا واجب ہے اور جس بات میں نہ ثواب ہو نہ گناہ یعنی مباح بات بھی معتکف کو مکروہ ہے، مگر بوقت ضرورت اور بے ضرورت مسجد میں مباح کلام نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔  (دُرِّمُخْتَار ج۳ص۵۰۷)

حاجت روائی اور ایک دن کے اعتکاف کی فضیلت:

حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مسجِدِ نَبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممیں معتکف تھے۔ ایک غمگین شخص آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی خدمتِ بابرکت میں حاضِر ہوا ۔ وَجہ غم دریافت کرنے پراُس نے عرض کیا: ’’اے رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچاجان کے لخت جگر!فلاں کا میرے ذمے کچھ حق ہے۔‘‘ میں اُس کاحق اداکرنے کی اِستطاعت (یعنی طاقت)  نہیں رکھتا۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: ’’کیا میں تمہاری سفارش کروں ؟‘‘اُس نے عرض کی:’’جس طرح آ پ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبہتر سمجھیں ۔‘‘یہ سن کر


 

 حضرت ابن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فوراً مسجِدِ نَبَوِیِّ الشَّریفعَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے باہرنکل آئے ۔ یہ دیکھ کر وہ شخص عرض گزارہوا : ’’عالی جاہ!کیاآپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاِعتکافبھول گئے ؟ ‘‘ فرمایا:’’ نا ، اعتکاف نہیں بھولا ۔ ‘‘ پھر مَدَنی تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مزارِ نور بار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اَشکبا ر ہو گئے ۔ اور فرمایا: زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ میں نے اِس مزار شریف میں آرام فرمانے والے محبوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے خوداپنے کانوں سے سنا ہے کہ فرمارہے تھے: ’’جو اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلے اور اس کو پوراکردے تویہ دس سال کے اعتکاف سے افضل ہے اور جو رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرے گاتو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کے اور جہنَّم کے درمِیان تین خندقیں حائل فرمادے گا ہر خندق کا فاصِلہ مشرِق ومغرب کے درمِیانی فاصلے سے بھی زیادہ ہوگا۔‘‘  (شُعَبُ الْایمان ج ۳ ص ۴۲۴ حدیث ۳۹۶۵  مُلَخّصاً)

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمعربی لغت کی مشہُور کتاب ’’اَلْقامُوسُ الْمُحِیط‘‘میں ہے: خندق اس گڑھے کو کہتے ہیں جو کسی شہر کے اردگرد کھودا جاتا ہے([6])۔ مراد یہ ہے کہ وہ جہنَّم سے بَہُت دُور کر دیا جاتا ہے۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مسلمان کو خوش کرنے کی فضیلت:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُبحٰن اللہ عَزَّ وَجَلَّ!جب ایک دن کے اعتکاف کی اتنی فضیلت ہے تو پھر ’’دس   سال کے اِعتکاف سے بھی افضل ‘‘عمل کی بَرَکتوں کاکون اندازہ کر سکتا ہے !اِس حکایت سے اپنے اسلامی بھائیوں کی حاجت رَوَائی کی فضیلت بھی معلوم ہوئی۔یاد رہے! حاجت روائی کے لیے بھی مسجِد سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے ۔ ہم اگر کسی کی ضرورت پوری کر دیں گے تو اُس کا دل خوش ہو جائے گا اور دلِ مسلم میں خوشی داخل کرنے کے بھی کیا کہنے!


 

 چنانچہ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:’’فرائض کے بعد سب اعمال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کو زِیادہ پیارا ،مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔‘‘ (مُعْجَم کَبِیْر ج۱۱ ص۵۹ حدیث۱۱۰۷۹)  واقعی اگرا س گئے گزرے دَور میں ہم سب ایک دوسرے کی غمخواری وغمگساری میں لگ جائیں تو دُنیا کا نقشہ ہی بدل جائے۔لیکن آہ! آج تومسلمان کی عزت وآبرو اور اُس کے جان ومال مسلمان ہی کے ہاتھوں پامال ہوتے نظر آرہے ہیں ! اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ ہمیں آپس کی نفرتیں مٹانے اور مَحَبَّتیں بڑھانے کی سعادت عنایت فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

 ’’مسجدِ نبوی کے آٹھ حُرُوف کی نسبت سےاعتکاف

میں جائز کاموں کی اجازت پر مشتمل8 مَدَنی پھول

{۱}کھانا،پینا،سونا(مگرمسجِدکی دَری پرکھانے اور سونے کے بجائے اپنی چادَر یاچٹائی پر کھائیں اورسوئیں ،مگر اپنی چادر اور چٹائی کو غذا وغیرہ کی آلودَگی سے بچانا ضروری ہے تاکہ بدبو نہ ہو )

{۲}ضرورتاًدُنیوی بات چیت کرنا۔(مگرآہستگی کے ساتھ اورفالتوباتیں ہر گز مت کیجئے)

{۳}مسجِد میں کپڑے تبدیل کرنا،عطرلگانا ،سریاداڑھی میں تیل ڈالنا۔

{۴}داڑھی کاخط بنوانا،زُلفیں تراشنا،کنگھی کرنا،مگران سب کاموں میں یہ اِحتیاط ضروری ہے کہ کوئی بال مسجِدمیں نہ گرے، تیل یا کھانے وغیرہ سے مسجِدکی صفیں اور دیواریں وغیرہ آلودہ نہ ہوں ۔اس کی آسان صورت یہ ہے کہ یہ کام وُضو خانے یا فنائے مسجِدمیں اپنی چادربچھاکر کریں ۔

{۵}مسجِد میں بلااُجرت کسی مریض کا معاینہ کر نا،دوا بتانا یا نسخہ لکھ کردینا ۔

{۶}مسجِد میں بلا اُجرت قراٰنِ کریم یاعلمِ دین پڑھنا، پڑھانا یا سنتیں اور دُعائیں سیکھنا ، سکھانا ۔


 

{۷}اپنی یااَہل وعیال کی ضرورت کیلئے مسجِدمیں خریدوفروخت معتکف کیلئے جائز ہے ۔ مگرتجارت کی کوئی چیز مسجد میں نہیں لاسکتے۔ہاں اگر تھوڑی سی چیز ہے کہ مسجِد میں جگہ نہ گھرے تولاسکتے ہیں ۔ خرید و فروخت صرف ضرورت کیلئے ہواور مال کمانا مقصود ہوتوجائزنہیں ، چاہے وہ مال مسجِد کے باہَر ہی کیوں نہ ہو۔   

(دُرِّمُخْتَار ج۳ص۵۰۶ ، بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۲۶)

{۸}کپڑے،برتن وغیرہ مسجِدکے اندردھوناجائزہے بشرطیکہ مسجِدکی دری یافرش پراس کاکوئی چھینٹانہ پڑے اس کی صورت یہ ہے کہ کسی بڑے برتن وغیرہ میں دھوئیں ۔

ان باتوں کے علاوہ بھی تمام وہ کام جواعتکاف کیلئے مفسدوممنوع نہیں اورفی نفسہٖ جائز بھی ہیں اوران سے مسجدکی بے حرمتی بھی نہیں ہوتی اور کسی عبادت کرنے یا سونے والے کے لئے باعث تشویش بھی نہیں ، معتکف کیلئے جائز ہیں ۔

اعتکاف قضا کرنے کا طریقہ:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کا سنت اِعتکاف ٹوٹ گیا  تو آپ کے ذمے صرف اُس ایک دن کی قضاہے جس دن اِعتکاف ٹوٹا ہے، اگر ماہِ رَمضان شریف کے دن باقی ہیں تو ان میں بھی قضا ہو سکتی ہے،ورنہ بعد میں کسی دن کر لیجئے ۔ مگر عیدُالْفِطْر اور ذُوالحِجَّۃِ الْحَرام کی دسویں تا تیرھویں کے علاوہ کہ ان پانچ دنوں کے روزے مکروہِ تحریمی ہیں ۔ قضا کا طریقہ یہ ہے کہ کسی دن غروبِ آفتاب کے وقت ( بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ چند منٹ قبل ) بہ نیّتِ قضا اعتکاف مسجد میں داخل ہو جایئے اور اب جو دن آئے گا اُس کے غروبِ آفتاب تک معتکف رہئے۔ اِس میں روزہ شرط ہے۔

اعتکاف کا فدیہ:

اگر قضا کرنے کی مہلت ملنے کے باوجود قضا نہ کی اور موت کا وقت آپہنچا تو وارِثوں کو وصیت کرنا واجب ہے کہ وہ اِس اِعتکاف کے بدلے فدیہ ادا کر دیں ، اگر وصیت نہ کی اور وُرَثا فدیے کی ادائیگی کی اجازت دے دیں توبھی فدیہ ادا کرنا جائز ہے ۔ ( عالمگیری ج ۱ ص ۲۱۴ )


 

 فدیہ ادا کرنا زیادہ مشکل نہیں ۔ اعتکاف کے فدیے کی نیت سے کسی مستحق زکوٰۃ کو صَدَقۂ فطر کی مقدارمیں  (یعنی2کلو میں 80 گرام کم) گیہوں یا اس کی رقم ادا کر دیجئے ۔

اعتکاف توڑنے کی توبہ:

اگراِعتکاف کسی صحیح مجبوری کے تحت توڑا تھا یا بھولے سے ٹوٹاتوگناہ نہیں اور اگر جان بوجھ کر بغیرکسی صحیح مجبوری کے توڑاتھاتویہ گناہ ہے لہٰذاقضا کے ساتھ ساتھ توبہ بھی کیجئے۔

مشہور بینڈ پارٹی کے مالک کی توبہ:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک،  دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں آ کر بے شمار بگڑے ہوئے افراد نمازوں اور سنتوں کے پابند ہو گئے، اِس ضمن میں ایک مشکبار مَدَنی بہار ملاحظہ فرمایئے چنانچہ مند سور شہر( M.P. الھند) کی مشہور بینڈ پارٹی کا مالک ایک مبلغ دعوتِ اسلامی کی اِنفرادی کوشِش کے نتیجے میں آخری عشرۂ  رَمَضَانُ المُبارَک ۱۴۲۶؁ ھ میں عاشقانِ رسول کے ساتھ معتکف ہو گیا۔ تربیتی حلقوں میں گناہوں کی تباہ کاریاں سن کر اُس کا دل چوٹ کھا گیا ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اُس نے سابقہ گناہوں سے توبہ کی، داڑھی سجانے اور عاشقانِ رسول کے ساتھ ایک ماہ کے مَدَنی قافلے میں سنتوں بھراسفر کرنے کی نیت کی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بینڈ باجے بجانے کا گناہوں بھرا حرام رُوزگاراُس نے ترک کر دیا۔

چوٹ کھا جائے گا ا ِک نہ اِک روز دل ،  مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف

فضل رب سے ہدایت بھی جائے گی مل،  مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۳۹)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

معتکفین کے لیے ضرورت کی اشیا:

{۱}یکسوئی حاصِل کرنے اورحفاظت سامان کیلئے اگرپردہ لگانا ہو تو حسبِ ضرورت کپڑا (سبزہوتومدینہ مدینہ )ڈوری اور بکسوئے(سیفٹی پنیں ) {۲} کَنْزُ الْایْمان شریف{۳} اپنے پیر صاحب کا شجرہ {۴}تسبیح {۵}مسواک {۶}مَدَنی اِنعامات کارسالہ {۷}قلم {۸}عطر {۹} قفل مدینہ پیڈ {۱۰}قفلِ مدینہ کی عینک {۱۱}ڈائری {۱۲} حسب ضرورت اِسلامی کتابیں {۱۳} سوئی دھاگا {۱۴}ناخن تراش {۱۵} قینچی {۱۶} سرمہ ،سلائی {۱۷}تیل کی شیشی {۱۸}کنگھا {۱۹} آئینہ {۲۰} حسبِ ضرورت سنتوں بھرے ملبوسات(موسم کے مطابق) {۲۱}عمامہ شریف مع سربند اور ٹوپی {۲۲} سر پر اوڑھنے کیلئے سفید چادر {۲۳} تہبند {۲۴}سونے کیلئے ایسی چٹائی جس سے مسجِد میں تنکے نہ جھڑیں {۲۵}ضر و ر ت ہوتو تکیہ {۲۶} سونے میں اوڑھنے کیلئے چادر یا کمبل {۲۷} سوتے وقت سرہانے رکھنے کیلئے سنت بکس{۲۸} پردے میں پردہ کرنے کیلئے کتھئی(Brown) چادر {۲۹} مٹی کی رِکابی {۳۰}مٹی کاپیالہ {۳۱}تھرماس {۳۲}دَسترخوان {۳۳} دانتوں کے خلال کیلئے تنکے {۳۴}تولیہ {۳۵}ٹشو پیپرز {۳۶}ضرورت ہو تو ٹائلیٹ پیپرز {۳۷}دردِسر، نزلہ، بخار وغیرہ کیلئے گولیاں {۳۸}حسبِ ضرورت رقم {۳۹}مسجد کے گرے پڑے تنکے وغیرہ جمع کرنے کیلئے شاپر (کچھ زیادہ لے لیجئے تا کہ دوسروں کو دے سکیں )

مَدَنی مشورہ:اپنی چیزوں پر کوئی نشانی(مَثَلاً ۸  ٭ وغیرہ ) بنالیجئے تاکہ خلْط مَلْط(Mix) ہوجانے کی صورت میں تلاشنا آسان ہو،چادروغیرہ پراپنا نام بلکہ کوئی انگریزی حرف بھی نہ لکھئے ورنہ ہو سکتاہے بے اَدَبی ہوتی رہے (نشانیوں کے نمونے اِسی باب ’’ فیضانِ اِعتکاف ‘‘ کے آخری صفحے پرملاحظہ فرمایئے)


 

’’رمضان شریف کے اعتکاف کی بھی کیا بات ہے!‘‘کے

تیس حُرُوف کی نسبت سے اِعتکاف کے30مَدَنی پھول

{۱}مسجِدکی دیواروں یادَرْیوں وغیرہ پرناک یا کان کا میل اورچکنے ہاتھ مت لگایئے ، فنائے مسجد کے کونے کھدروں میں بھی پان کی پیک وغیرہ نہ ڈالئے۔ مسجِد کی صفائی کا خاص خیال رکھئے، فرشِ مسجد پر گرے پڑے بالوں کے گچھے اور تنکے وغیرہ ڈالنے کیلئے ہو سکے تو ایک شاپر جیب میں رکھ لیں ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: جو مسجِد سے اذیت کی چیز نکالے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا ئے گا۔  ( ابنِ ماجہ ج۱ص۴۱۹حدیث۷۵۷)

{۲}مسجِدکی دریوں کے دھاگے اورچٹائیوں کے تنکے نَوچنے سے پرہیز کیجئے ۔ (ہرجگہ اس بات کاخیال رکھئے )

{۳}مسجد میں اپنے لئے مانگنا جائز نہیں اور اسے دینے سے بھی علمانے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ امام اسمعیل زاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: جو مسجد کے سائل کو ایک پیسہ دے اسے چاہئے کہ ستر پیسے اللہ تَعَالٰی کے نام پر اور دے کہ اس پیسے کا کَفّا رہ ہوں اور کسی دوسرے کے لئے مانگا یا مسجد خواہ کسی اور ضرورت دینی کے لئے چندہ کرنا جائز اور سنّت سے ثابت ہے۔ (فتاویٰرضویہ ج۱۶ ص ۴۱۸)

{۴}معتکف نے صرف ایک پاؤں مسجِد سے باہر نکالا تو کوئی حرج نہیں ۔

{۵}دونوں ہاتھ مع سر بھی اگر مسجِد سے باہَر نکال دیئے تو مضایقہ نہیں ۔

{۶}بے خیالی میں مسجِد سے باہر نکل گئے اور یاد آنے پر فوراًمسجِد کے اندر آ بھی گئے پھر بھی اعتکاف ٹوٹ چکا۔

{۷}رات کے وقت جتنی دیر تک مسجِد میں بتی جلانے کا عرف (رواج) ہے اُتنی دیر تک اُس کی روشنی میں دینی مُطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

{۸}اَخبارات جانداروں کی تصاویر بلکہ فلمی اشتہارات سے عموماً پر ہوتے ہیں لہٰذامسجِد میں ان کے مطالعے سے بچئے ۔


 

{۹}چور اپنے یا کسی اسلامی بھائی کے جوتے وغیرہ چرا کر بھاگا تو اُس کو پکڑنے کیلئے مسجد سے باہرنکل گئے تو اِعتکاف  ٹوٹ گیا۔

{۱۰}مسجد میں بیان کرنے یا نعت شریف وغیرہ پڑھنے میں احتیاط لازمی ہے، کسی کی عبادت یاآرام میں خلل نہیں پڑنا چاہئے۔

{۱۱}مسجِد کی چھت وغیرہ اگر گر پڑی یا کسی نے زبردستی نکال دیا تو فوراً دوسری مسجِدمیں معتکف ہوجائیں ، اِعتکاف صحیح ہوجائے گا۔

{۱۲}دَورانِ اعتکاف حتی الامکان اپناوَقت،نوافل،تلاوتِ قراٰن، ذِکرو دُرود ، مطالعۂ کتبِ اِسلامیہ اورسنتیں اور دُعائیں وغیرہ سیکھنے سکھانے میں گزارئیے۔

{۱۳}اِعتکاف کیلئے اگرمسجِدمیں پردہ لگائیں توکم سے کم جگہ گھیریں ۔ میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگر (مسجِد میں ) چیزیں رکھے جن سے نَماز کی جگہ رُکے تو سخت ناجائز ہے۔  (فتاویٰ رضویہ ج۸ص۹۷)

{۱۴}مسجِد میں شور و غل،ہنسی مَذاق وغیرہ کرنا گناہ ہے۔

{۱۵}آپ گھر سے آئے تو نیکیاں کمانے مگر کہیں ایسانہ ہوکہ مسجد کی بے ادبیاں کر کے گناہوں کاڈھیرلے کر پلٹیں ۔ لہٰذا خبردار! مسجِد میں بلا ضرورت کوئی لفظ منہ سے نہ نکلے ، زَبان پر مضبوط  قفل مدینہ لگائیے۔

{۱۶}اپنی ضرورت کی اشیا پہلے ہی سے مہیاکرلیجئے تاکہ کسی سے سُوال کی حاجت نہ رہے، دوسروں سے چیزیں مانگتے رہنا بھی اچھی عادت نہیں ۔چنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ695 صفحات پر مشتمل کتاب، ’’ اللہ والوں کی باتیں ‘‘ جلد1 صَفْحَہ340تا 341پر ہے: حضرت سیِّدُنا ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ، حُسنِ اَخلاق کے پیکر ، محبوبِ رَبِّ اَکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔‘‘میں نے عرض کی: ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں ضمانت دیتا ہوں ۔‘‘ ارشاد فرمایا : ’’ کبھی کسی سے سوال نہ کرنا ۔‘‘ راوی فرماتے ہیں :’’بعض اوقات

 حضرت سیِّدُنا ثوبانرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاُونٹ پر سوار ہوتے او ر کوڑا گر جاتاتواس کے لئے بھی کسی سے سوال نہ کرتے بلکہ خود اُتر کر اُٹھالیتے۔‘‘

{۱۷}خوب خوب تلاوتِ قراٰن کیجئے مگر یہ مسئلہ ذہن میں رکھئے جیسا کہ بہارِ شریعت جلد1 صفحہ552 پر مسئلہ53 ہے: ’’مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے پڑھیں یہ حرام ہے، اکثر تیجوں میں سب بلند آواز سے پڑھتے ہیں یہ حرام ہے، اگر چند شخص پڑھنے والے ہوں تو حکم ہے کہ آہستہ پڑھیں ۔ ‘‘                        

{۱۸}دیگر  مُعْتَکِفِین کے حقوقِ صحبت کا لحاظ رکھئے اُن کی خدمت اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھئے، اُن کی ضروریات پوری کرنے کی سعی کیجئے اور ایثار کا مظاہرہ کرتے رہئے۔ایثار کا ثواب بے شمارہے، تاجدارِ رِسالت، ماہِ نُبُوَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ بخشش نشان ہے:’’جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُ س خواہش کو روک کر اپنے اوپرکسی اور کو ترجیح دے، تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے بخش دیتا ہے۔‘‘ (ابنِ عَساکِر ج۳۱ ص۱۴۲)

{۱۹} مَدَنی انعا مات پرعمل کرتے ہوئے روزانہ فکر مدینہ کے ذریعے رسالہ پرکیجئے اور اِس کی ہمیشہ کیلئے عادت بنالیجئے۔

{۲۰}مسجدکے فرش،دری یا چٹائی پر سونے سے پرہیز کیجئے کہ پسینے کی بدبو اور سر کے تیل کا دھبا ہونے نیز گندے خواب کی صورت میں ناپاک ہوجانے کا بھی خطرہ ہے۔ لہٰذااپنی چٹائی یا موٹی چادر بچھا لیجئے۔

{۲۱}گھر ہویا مسجِد،جہاں بھی سوئیں ’’ پردے میں پردہ‘‘ کر لیجئے، پاجامے پر تہبند باندھ لیجئے یا ایک چادر تہبند کی طرح لپیٹ لیجئے اور لیٹ کر اوپر بھی ایک چادر یا لحاف اوڑھ لیجئے کیوں کہ نیند میں بعض اوقات کپڑے پہنے ہوئے بھی مَعَاذَ اللہ سخت بے پردَگی ہورہی ہوتی ہے۔

{۲۲}ہرگزہرگزدواسلامی بھائی ایک تکیے پریاایک چادرمیں نہ سوئیں ۔

{۲۳}اِسی طرح محل فتنہ میں کسی کی ران یاگودمیں سررکھ کرلیٹنے سے بھی پرہیزکیجئے۔


 

{۲۴}جب29رَمَضانُ الْمُبارَک کوعیدُالْفِطْرکے چاندکی خبرسنیں یا30 رَمضان شریف کاسورج ڈوب جائے تو اعتکاف پورا ہوجانے کے سبب مسجد سے ایسے مت دوڑپڑیئے جیسے قید سے رہا ہوئے، بلکہ ہونایہ چاہیے کہ رَمَضانُ الْمُبارَککے رخصت ہونے کی خبر سنتے ہی صدمے سے دل ڈوبنے لگے کہ آہ !محترم ماہ ہم سے جدا ہوگیا، خوب رورو کر اور نہ ہو سکے تورونی صورت بنا کرماہ ِرمضان کو اَلوَداع کیجئے۔کاش! کیفیت یوں ہو کہ   ؎

تم گھر کو نہ کھینچو نہیں جاتا نہیں جاتا

میں چھوڑ کے فیضانِ مدینہ نہیں جاتا

{۲۵}اختتامِ اعتکاف پر خوب روروکر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اپنی کوتاہیوں اور مسجِد کی بے اَدبیوں سے مُعافی طلب کیجئے۔ خوب گڑ گڑا کر اپنے اور دنیا بھر کے معتکفین کے اعتکاف کی قبولیت اورکل اُمَّت کیمَغْفِرَتْکی دعا مانگئے۔

{۲۶}آپس میں ایک دوسرے سے حق تلفیاں مُعاف کروایئے۔

{۲۷} امام صاحِب، مُؤذِّن صاحب اورخدامِ  مسجِدکوبھی ہو سکے توکچھ نہ کچھ نذرانہ پیش کر کے ان کا دل خوش کیجئے۔ انتظامیۂ مسجدکا بھی شکریہ اداکیجئے۔

{۲۸}اعتکاف میں روزمرہ کے مقابلے میں اضافی بجلی کا استعمال ہوتا ہے لہٰذا مشورہ ہے کہ ہر معتکف بطورِ چندہ کم از کم 100 روپے مسجد کی انتظامیہ کو پیش کرے۔ ( زیادہ مُعتَکِفِین ہوں تو رقم اِکٹھی کر کے بھی دے سکتے ہیں )

{۲۹}شب عیدالفطرہوسکے توعبادت میں گزاریئے۔ورنہ کم ازکم عشا اور فجرکی نمازیں باجماعت اداکیجئے کہ بحکم حدیث پوری رات کی عبادت کا ثواب ملے گا۔

{۳۰}کوشش کرکے نفل اعتکاف کی نیت سے چاندرات اُسی مسجد میں گزاریئے جہاں سنت اعتکاف کیا ہے۔  حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم نَخَعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’بزرگا نِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنمعتکف کے لئے اس بات کو


 

 پسند فرماتے تھے کہ عید الفطر کی رات  مسجدہی میں گزارے تاکہ وہیں سے اس کے دن (یعنی عید کے مبارک روز) کی ابتدا ہو۔‘‘([7])حضرتِ سیِّدُناامام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِقنے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکایہ معمول بیان فرمایا ہے کہ وہ حضرات رَمَضانُ المبارَک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے اور چاندرات اپنے گھروں پر نہیں لوٹتے تھے جب تک کہ لوگوں کے ساتھ عیدکی نماز ادا نہ کرلیتے۔   (تفسیردُرّمنثور ج۱ص۴۸۸)

عاشقانِ رسول کی صحبت نے مجھے کیا سے کیا بنادیا!:

تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کی طرف سے جہاں اجتماعی اعتکاف کیا جاتا ہے، وہاں چاند رات کو یا رات مسجِد میں گزار کر عید کے روز سنّتوں کی تربیت کے مَدَنی قافِلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر کی سعادت حاصل کیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اِس کی بَرَکتیں خود ہی دیکھ لیں گے ۔ اگر ماڈَرْن دوستوں وغیرہ کے ساتھ گناہوں بھرے ماحول میں عیدگزاری تو ہو سکتا ہے کہ اعتکاف کی کمائی ضائع ہو جائے۔ آپ کی ترغیب کیلئے عید کے مَدَنی قافلے کی ایک مشکبار وخوشگوار مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔ چنانچہ لائنزایریا، بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی پہلے ایک عام سے ماڈَرن اور بے نَماز نوجوان تھے، زندَگی کے شب و روز غفلتوں اور گناہوں میں بسر ہو رہے تھے۔ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک ۱۴۲۳؁ ھ میں ایک اسلامی بھائی نے ان پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے انہی کے علاقے کی فیضانِ رضا مسجِد ( لائنز ایریا) میں ہونے والے اِجتماعی سنت اِعتکاف میں بیٹھنے کی رغبت دلائی ، انہوں نے ہامی بھر لی اور گھر والوں سے اجازت لیکر رَمَضانُ الْمبارَک کے آخری عشرے میں معتکف ہوگئے۔ اِعتکاف میں دس دن تک عاشِقانِ رسول کی صحبتوں کی برکتوں سے خوب مالا مال ہوئے اور عمربھر کیلئے پنج وقتہ نمازی بنے رہنے کا عزم بالجزم کر لیا، دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ داڑھی منڈانے سے بھی توبہ کر لی،ہاتھوں ہاتھ عمامہ

شریف بھی سجا لیا اور سنّتوں بھرے مَدَنی لباس کی بھی نیّت کر لی۔ عید کے دوسرے دن عاشِقانِ رسول کے ساتھ تین روزہ مَدَنی قافلے میں سنتوں بھرا سفر کیا اور اِس مبارَک سفر کی بَرَکت سے وہ تبلیغ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے ہوکر رہ گئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کرے کہ مرتے دم تک دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول ان سے نہ چھوٹے۔ اب وہ فیشن ایبل ماڈَرن نوجوان نہ رہے تھے۔ اعتِکاف اور ہاتھوں ہاتھ مَدَنی قافِلے کے سفر کے دوران عاشقانِ رسول کے قرب نے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّانہیں کیا سے کیا بنا دیا!وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کرم سے اپنے علاقے میں مَدَنی انعامات کے ذمے دار کی حیثیت سے سنتوں کی خدمت کرنے لگے۔

فضلِ ربّ سے گناہوں کی کالک دُھلے، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف

نیکیوں کا تمہیں خوب جذبہ ملے، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف         (وسائل بخشش ص۶۳۹) 

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اپنی چیزیں سنبھالنے کا طریقہ:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّتبلیغ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، ’’دعوتِ اسلامی‘‘ سے وابستہ ہزاروں اسلامی بھائی دُنیا کی مختلف مساجد میں پورے ماہِ رمضان المبارک کا اجتماعی اعتکاف کرتے ہیں اور آخری عشرے میں معتکفین کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان سب کی خدمت میں عرض ہے: شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگردُوسرے کی کوئی چیزغلطی سے تبدیل ہو کر آجائے ، چاہے اپنی چیز سے ملتی جلتی ہوتب بھی اُس کااستعمال ناجائزوگناہ ہے۔ لہٰذا مُعْتَکِفِین (اور مدرَسوں کے مقیم طلبہ بلکہ ہر ایک) کو چاہئے کہ اپنی اپنی اُن چیزوں پر کوئی علامت لگالیں جن کا دوسروں کی چیزوں کے ساتھ خلط ملط(Mix) ہوجانے کا اندیشہ ہو۔رہنمائی کیلئے کچھ نشان آگے آ رہے ہیں ۔             

          (چپل،چادروغیرہ پر نام یاکسی بھی زَبان کاکوئی حَرف مثلاًA,Bوغیرہ نہ لکھئے بلکہ ہوسکے توچپل، چادر پرسے کمپنی کانام بھی


 

 مٹادیجئے، چٹ لگی ہو تو وہ بھی جُدا کر لیجئے۔ تاکہ پاؤں تلے آنے پر بے ادَبی نہ ہو۔ ہر زَبان کے حُرُوفِ تَہَجّی(Alphabets) کا ادَب کیجئے۔اس مسئلے کی تفصیل فیضانِ سنّت کے باب ’’فیضانِ بِسم اللّٰہ‘‘ صفحہ 89تا 123 پر مُلاحَظہ فرمایئے)

اعتکاف میں بیمار پڑجانے کے اسباب:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ سگ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ برسہا برس سے مُعتَکِفِین کی خدمتوں میں حاضریوں سے مُشَرَّف ہے۔  اعتِکاف کے دَوران کئی اسلامی بھائیوں کو بیمار پڑ تے دیکھا ہے۔ اِس کاایک بہت بڑا سبب ’’ غِذائی بے احتیاطِیاں ‘‘ ہے۔ گھر والے اور احباب وغیرہ عُمدہ و لذیذ کھانے، خوشبو دار میٹھی میٹھی ڈِشیں ، کباب سموسے، پِزّے،پکوڑے ، کھٹّی چٹنیاں ، کھچڑا اور چٹپٹے آلو چھولے اور سحری میں ملائی پر اٹھے ، کَھجلہ پھینی وغیرہ عنایت فرماتے ہیں اوربعض مُعْتَکِفِین مَغلوبُ الحِرص ہو کر ، انجام سے بے خبر جو کچھ سامنے آیا اُس کا خیر مقدم کرکے اچّھی طرح چَبائے بِغیر ہی جھٹ پٹ پیٹ میں پہنچاتے چلے جاتے ہیں ۔ نتیجۃً قبض، گیس،پیٹ میں درد، بدہَضمی،دست، قے، جسم میں سُستی، نزلہ، بخار، سر اور بدن میں درد وغیرہ اَمراض لپٹ جاتے ہیں ۔ بعض بے چارے بڑے جذبے کے ساتھ خوب عبادت کا ذہن لے کر اعتکاف کے لئے گھر سے چلے ہوتے ہیں مگر کھا کھا کر بیمار پڑ جاتے ہیں اور بعض اَوقات تونوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ نماز کی جماعت کھڑی ہو جاتی ہے مگر یہ غریب سر درد و بخار کے مارے مسجِد میں لیٹے کَراہ رہے ہوتے ہیں ۔ 

ناسمجھ بیمار کو اَمْرَت بھی زہر آمیز ہے

سچ یہی ہے سو دوا کی اِک دوا پرہیز ہے

کھانے کی احتیاط کا فائدہ:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّتبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے عالَمی   مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں رَمَضانُ الْمبارَک کے آخری عشرہ میں ہزاروں عاشقانِ رسول ماہِ رَمَضان المبارک میں معتکف  ہوتے ہیں ۔آخری


 

عشرے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان کو پیش کئے جانے والے کھانے میں بنا سپتی گھی کا استِعمال بند کروانے، تیل اور مَصالَحَہ جات میں بھی آدھوں آدھ کمی لانے اور کباب سموسوں اور پکوڑوں پر پابندی ڈلوانے کی درخواستیں کرتے رہنے سے کچھ نہ کچھ عمل ہوا اور اِس طرح دَورانِ اعتکاف مریضوں کی شَرْح میں اچّھی خاصی کمی دیکھی گئی۔ کاش ! ہر اعتکاف والی مسجِد بلکہ مسلمانوں کے ہر گھر میں مذکورہ احتیاطیں اپنا لی جائیں ۔

مجھے مسلمانوں کی صحت عزیز ہے:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمیں مسلمانوں کی روحانی اصلاح کے ساتھ ساتھ جسمانی صحّت و فَلاح کا بھی آرزو مند ہوں ۔کاش! کاش! کاش ! میری درخواستوں کے مطابِق خواہش سے کم کھاکر اور بے وقت مختلف چیزیں کھانے سے خود کو بچا کر مُعتَکِفِین صحّت و عافیت کے ساتھ عبادت و تربیت میں حصّہ لے کر اجتماعی اِعتکاف کے اِختتام پر چاند رات کو ہاتھوں ہاتھ مَدَنی قافِلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر کرنے کے قابِل رہیں ۔ اگر میری عرض کردہ غذائی احتیاطوں پر عمر بھر عمل پیرا رہیں گے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کی زندَگی خوشگوار رہے گیاور ڈاکٹروں اور دواؤں کے اَخراجات سے بھی نجات ملے گی۔ (براہِ کرم ! فیضانِ سنّت کے باب آدابِ طعام صفحہ 440تا 451 پرکھانے کاجدول اور طبّی مشوروں سے بھر پور  مکتوبِ عطارؔ پڑھ لیجئے)آپ کی تندُرُستی میں مجھے یوں بھی دلچسپی ہے کہ اس طرح اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ عبادتوں کا ذَوق بھی بڑھے گااور سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافِلوں میں سفر کا شوق بھی بڑھے گا ۔ آپ صحّت مند ہوں گے تو نمازوں کی ادائیگی، سنتوں پر عمل نیز والدین اور بال بچّوں کی خدمت کیلئے بھاگ دوڑ کر سکیں گے۔

ظالموں کے لیے درازیٔ عمر کی دُعا کرنا کیسا ؟:

اپنے مسلمان بھائیوں پرظُلم و ستم کی آندھیاں چلانے والوں اور گناہوں کا بازار گرم کرنے والوں کو اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ ہدایت عنایت فرمائے۔ ایسوں کی صحّت بھی اکثر اوقات گناہوں میں زِیادت کا سبب بنتی ہے۔


 

 حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’جوکسی ظالم کیلئے درازیِ عُمْر کی دُعا کرتا ہے، گویا اِس بات کو پسند کرتا ہے کہ اللہ تَعَالٰی کی ( مزید) نافرمانی ہو۔‘‘(حِلْیَۃُ الْاولیاء  ج۷ ص ۴۸رقم۹۵۴۸ ) ہاں ظالموں کیلئے ظلم سے تائب ہو کر صحّت وعافیت کے ساتھ سنتوں بھری طویل عمر پانے کی دعا کی جاسکتی ہے۔کھانے کی احتیاطوں کی نرالی معلومات کیلئے فیضانِ سنّت کا باب پیٹ کا قفلِ مدینہ ضرور پڑھ لیجئے۔

مسلمانوں کی بھلائی چاہنا کارِ ثواب ہے:

حضرتِ سیِّدُنا جریر بن عبد اللّٰہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : ’’میں نے حضور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نماز پڑھنے ،زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔‘‘ (بُخاری ج۱ص۳۵حدیث۵۷)اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ ہر فردِاسلام کی خیرخواہی (یعنی بھلائی چاہنا) ہرمسلمان پر  فرض ہے ۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص ۴۱۵)اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّخود کو مسلمانوں کے خیر خواہوں میں کھپانے اور ثواب کمانے کے مقدّس جذبے کے تَحت دُعا کے ساتھ ساتھ صحّت مند رَہنے کیلئے چند مَدَنی پھول نذر ِحاضِر کئے ہیں ۔ اگرمَحض دُنیا کی رنگینیوں سے لُطف اندوز ہونے کیلئے تندُرُست رَہنے کی آرزو ہے توبے شک پڑھنا یہیں مَوقُوف کر دیجئے اور اگر عُمدہ صِحّت کے ذَرِیعے عبادَت اور سُنّتوں کی خدمت پر قُوّت حاصِل کرنے کا ذِہن ہے توثواب کمانے کی غَرَض سے اچّھی اچّھی نیّتیں کرتے ہوئے دُرُود شریف پڑھ کر آگے بڑھئے اورشوق سے پڑھئے :

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد  

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ میری ،آپ کی ،جُملہ اہلِ خاندان اور ساری اُمّت کی مغفِرت فرمائے۔ ہمیں صِحّت و عافیت کے ساتھ اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں رَہتے ہوئے اِسلام کی خدمت پر اِستِقامت عنایت فرمائے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری جسمانی بیماریاں دُور کرکے ہمیں بیمارِ مدینہ بنائے اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم


 

کباب سموسے کھانے والے متوجہ ہوں :

بازاروں اور دعوتوں کے چٹ پٹے کباب سموسے کھانے والے توجُّہ فرمائیں ! کباب سموسے بیچنے والے عُموماً  قیمہ دھوتے نہیں ہیں ۔ ان کے بقول قیمہ دھو کر ڈالیں تو کباب سموسے کا ذائقہمُتَأَثِّر ہو تا ہے! بازاری قیمے میں بعض اَوقات کیا کیا ہوتا ہے یہ بھی سن لیجئے! گائے کی اوجھڑی کا چِھلکا اتار کراُس کی ’’بَٹ‘‘میں تلی بلکہ کہا جاتا ہے کبھی تو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جماہوا خون ڈال کر مشین میں پیستے ہیں ، اِس طرح سفید بٹ کے قیمے کا رنگ گوشت کی مانِند گلابی ہوجاتا اور وہ دھوکے سے گوشت کے قیمے میں کھپا دیاجاتا ہے۔ بسا اوقات کباب سموسے بیچنے والے حسبِ ضَرورت ادرک لہسن وغیرہ بھی اُسی قیمے کے ساتھ پِسوالیتے ہیں ۔ اب اس قیمے کے دھونے کا سُوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اُسی قیمے میں مرچ مَسالا ڈال کر بھون کر اُس کے کباب سموسے بناکر فَروخت کرتے ہیں ۔ ہوٹلوں میں بھی اِسی طرح کے قیمے کے سالن کا اندیشہ رہتا ہے۔ گندے کباب سموسے والوں سے پکوڑے وغیرہ بھی نہ لئے جائیں کہ کڑاہی ایک اور تیل بھی وُہی گندے قیمے والا۔ خیر میں یہ نہیں کہتا کہ مَعَاذَ اللہ ہر گوشت بیچنے والا اس طرح کرتا ہے یا خُدانخواستہ ہرہوٹل والا اور ہر کباب سموسے والا ناپاک قِیمہ ہی استعمال کرتا ہے۔ یقینا خالص گوشت کا قیمہ بھی ملتا ہے اور اگر دھوکا دیئے بغیر ’’بٹ‘‘ کا قیمہ کہہ کر ہی فروخت کیا تب بھی گناہ نہیں ۔ عَرض کرنے کامَنشا یہ ہے کہ قِیمہ یا کباب سموسے قابِل اطمینان مسلمان سے لینے چاہئیں اور جو مسلمان گناہوں بھری حَرَکتیں کرتے ہیں ان کو توبہ کرنی چاہئے۔

 ’’یا رب!لذّاتِ نفسانی سے بچا‘‘ کے اُنیس حُرُوف کی نسبت سے

 تلی ہوئی چیزوں سے ہونے والی19 بیماریوں کی نشاندہی

{۱}بَدَن کا وزْن  بڑھتا ہے {۲} آنتوں کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے {۳} اِجابت( پیٹ کی صفائی) میں گڑ بڑ


 

پیدا ہوتی ہے {۴}پیٹ کادرد {۵} متلی{۶} قے یا{۷} اِسہال ( یعنی پانی جیسے دست) ہوسکتے ہیں {۸} تلی ہوئی چیزوں کا استِعمال خون میں نقصان دِہ کولیسٹرول یعنیLDL بناتا ہے {۹} مُفید کولیسٹرول یعنی HDLمیں کمی آتی ہے{۱۰}خون میں لوتھڑے یعنی جمی ہوئی ٹکڑیاں بنتی ہیں {۱۱} ہاضِمہ خراب ہوتا ہے {۱۲} گیس ہوتی ہے {۱۳} زیادہ گرم کردہ تیل میں ایک زَہریلا مادّہ ’’ایکرولِین‘‘(Acrolein) پیدا ہوجاتا ہے جو کہ آنتوں میں خَراش پیدا کرتا ہے بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ {۱۴}کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے{۱۵} تیل کو زِیادہ دیر تک گر م کرنے اور اُس میں چیزیں تلنے کے عمل سے اس میں ایک اور خطرناک زَہریلا مادّہ ’’ فری ریڈ یکلز‘‘ پیدا ہوجاتا ہے جو کہ دل کے امراض {۱۶} کینسر {۱۷} جوڑوں میں شوزِش{۱۸} دماغ کے اَمراض اور{۱۹} جلد بڑھاپا لانے کا سبب بنتا ہے ۔

        ’’فری ریڈیکلز‘‘ نامی خطرناک زہریلا مادّہ پیدا کرنے والے مزید اور بھی عَوامِل ہیں مَثَلاً ٭تمباکو نوشی ٭ہوا کی آلودَگی (جیسا کہ آج کل گھروں میں ہر وقت کمرہ بند رکھا جاتا ہے نہ دھوپ آنے دی جاتی ہے نہ تازہ ہوا ) ٭کارکا دُھواں ٭ایکسرے  (X-ray) ٭مائیکرووَیْو اَووَن  ٭. T.Vاور  ٭ کمپیوٹر کی اِسکرین کی شُعائیں ٭فَضائی سفر کی تابکاری ( یعنی ہوائی جہاز کا شعائیں پھینکنے کا عمل)

خطر ناک زَہر کا توڑ:

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اِس خطر ناک زَہر یعنی’’ فری ریڈیکلز ‘‘کا توڑ بھی پیدا فرمایا ہے چُنانچِہ جن سبزیوں اور پھلوں کا رنگ سبز ،زَرد یا نارنجی یعنی سُرخی مائل زرد ہوتا ہے یہ اِس خطرناک زہر کو تباہ کردیتے ہیں اِس طرح کے پھلوں اور سبزیوں کا رنگ جس قدر گہرا ہوگا اُن میں وٹامنز اور مَعدَنی اجزا کی مقدار بھی زِیادہ ہوتی ہے وہ اِس زہر کازِیادہ قوّت کے ساتھ توڑ کرتے ہیں ۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

تلی ہوئی چیزوں کانقصان کم کرنے کا طریقہ:

دو باتوں پر عمل کرنے سے تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات میں کمی ا ٓسکتی ہے: (۱)کباب، سَموسے، پکوڑے، انڈہ آملیٹ، مچھلی وغیرہ تلنے کیلئے جو کڑاہی یا فرائی پین استِعمال کیا جائے وہ نان اسٹک (Non-stick) ہو(۲)تلنے کے بعد ایک ایک چیز کوبے خوشبو ٹِشو پیپر میں اچّھی طرح لپیٹ لیا جائے تاکہ کچھ نہ کچھ تیل جَذب ہوجائے ۔

بچا ہوا تیل دوبارہ استعمال کرنے کا طریقہ:

ماہرین کاکہنا ہے کہ :ایک بار تلنے کیلئے استعمال کرنے کے بعد تیل کو دوبارہ گرم نہ کیا جائے ۔اگر دوبارہ استعمال کرنا ہوتواس کا طریقہ یہ ہے کہ اِس کو چھان کر ریفریجریٹر میں رکھ دیا جائے ،بغیر چھانے فرج میں نہ رکھاجائے۔

فن طب یقینی نہیں:

تلی ہوئی چیزوں کے نقصانات کے تعلُّق سے میں نے جو کچھ عرض کیا وہ میری اپنی نہیں طبیبوں کی تحقیق ہے۔ یہ اُصول یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فنِّ طِبّ سارے کا سارا ظنی ہے یقینی نہیں ۔

فیشن پرست’’ مبلغ سنت‘‘ بن گئے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!نقصان دِہ چیزیں کھانے پینے کی حِرص مٹا نے، فَرنگی فیشن سے جان چھڑا نے ،سنّتیں اپنانے اور اپنا سینہ عشقِ رسول کا مدینہ بنانے کیلئے تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے سدابہار مدنی ماحول سے ہردم وابَستہ رہئے۔آئیے! آپ کی ترغیب کیلئے ایک خوشگوارومشکبار مدنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں چُنانچِہ اندور شہر (M.P. الھند) کے ایک ماڈَرْن نوجوان نے آخِری عَشَرَ ۂ  رَمَضَانُ الْمُبارَک ۱۴۲۶؁ ھ میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ اِعتِکاف کرنے کی سعادت حاصِل کی۔عاشِقانِ رسول کی صحبت کی بَرَکت سے قَلب میں مَدَنی اِنقِلاب برپا ہو گیا، چہرے پر داڑھی کی بہار یں مُسکرانے لگیں اور سبز عمامہ شریف سے سر سبز ہو گیا، ہاتھوں ہاتھ 12دن کے لئے سنّتوں کی تربیت کے مَدَنی قافِلے کے مسافِر بن گئے، خوب مَدَنی رنگ چڑھا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمبلّغِ دعوتِ اسلامی بن گئے اور


 

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّتادمِ تحریر اپنے شہر کے اندر دعوتِ اسلامی کی ایک حلَقہ مُشاوَرَت کے نگران کی حیثیت سے مَدَنی کامو ں کی دھومیں مچا رہے ہیں ۔

گرچِہ دل  میں ہے فیشن کی اُلفت بھری،           مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف

عمر آیندہ گزرے گی سنَّت بھری،                   مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف   (وسائل بخشش ص۶۳۹)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اسلامی بہنوں کا اعتکاف:

اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایَت فرماتی ہیں : ’’نبیوں کے سلطان ،رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری دس دنوں کا اعتکاف فرمایا کر تے تھے،یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وفاتِ(ظا ہِری) عطا فرمائی۔ پھرآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اِعتکاف کرتی تھیں ۔‘‘ ( بُخاری ج ۱ ص ۶۶۴ حدیث ۲۰۲۶ )

اسلامی بہنیں بھی اعتکاف کریں:

اِسلامی بہنوں کوبھی اعتکاف کی سعادت حاصِل کرنی چاہئے۔ اسلامی بہنوں کو چُونکہ مسجِد بَیت(تفصیل آگے آتی ہے)جوکہ نہایت مختصر جگہ ہوتی ہے میں اعتکاف کرنا ہوتا ہے اس میں ایک طرح سے قبر کی بھی یاد ہے،کہ بہو بیٹیوں اور مُنّے مُنّیوں کی رَونَقَوں میں دس دن کو نے میں بیٹھنا گِراں گزر رہاہے تو ناراضی خدا ومصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صورَت میں تنہاقبرمیں ہزاروں سال کس طرح گزارہ ہوگا !کیاعَجَب کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس اعتکاف کی بَرَکت اور اپنی رَحمت سے آپ کی قبرتاحدِ نظر وسیع کرکے نورِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جگمگ جگمگ فرمادے۔ ہر اسلامی بہن کوزندگی میں کم ازکم ایک بارتو یہ سعادت حاصِل کرناہی چاہئے۔


 

’’فیضانِ خاتونِ جنّت‘‘ کے تیرہ ھُرُوف کی نسبت

سےاسلامی بہنوں کیلئے 13 مَدَنی پھول

{۱}اسلامی بہنیں مسجِدبیت میں اعتکاف کریں ۔ مسجِدبیت اُس جگہ کوکہتے ہیں جوعورت گھر میں اپنی نمازکیلئے مخصوص کرلیتی ہے۔ اسلامی بہنوں کیلئے یہ مستحب بھی ہے کہ گھرمیں نمازکیلئے جگہ مقرر کریں اور اُس جگہ کوپاک وصاف رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ اُس جگہ کوچبوترے وغیرہ کی طرح بلند کر لیں ۔ بلکہ اسلامی بھائیوں کو بھی چاہیے کہ نوافل کیلئے گھر میں کوئی جگہ مقررکرلیں کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔

(دُرِّمُخْتَار،رَدّالْمُحْتَارج۳ص۴۹۴، بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۲۱ ملخّصاً)

{۲}اگراسلامی بہن نے نَمازکے لئے کوئی جگہ مقررنہیں کررکھی توگھرمیں اِعتکاف نہیں کرسکتی البتہ اگراُس وَقت یعنی جبکہ اِعتکاف کاارادہ کیاکسی جگہ کونمازکیلئے خاص کرلیاتواُس جگہ اِعتکاف کرسکتی ہے ۔(دُرِّمُختَار، رَدّالْمُحْتَارج۳ص۴۹۴)

{۳}کسی اورکے گھر جا کر اسلامی بہن اعتکاف نہیں کر سکتی ۔                                 

{۴}شوہرکی اجازت کے بغیربیوی کیلئے اِعتکاف کرناجائز نہیں ۔      ( رَدّ الْمُحْتَار ج۳ ص۴۹۴ )

{۵}اگربیوی نے شوہرکی اجازت سے اِعتکاف شروع کردیا، بعد میں شوہر منع کرناچاہتاہے تواب منع نہیں کرسکتا اور اگر منع کرے گاتوبیوی کے ذِمے اس کی تعمیل واجب نہیں ۔          (عالمگیری ج۱ ص۲۱۱)

{۶}اسلامی بہنوں کے اِعتکاف کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ  حیض و نفاس سے پاک ہوں کہ ان دنوں میں نماز، روزہ اورتلاوتِ قراٰن حرام ہے۔ (عامۂ کُتُب) (عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا رہتا ہے اس کو نفاس کہتے ہیں ، اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن اور چالیس رات ہے، چالیس دن رات کے بعد اگر خون بند نہ ہو تو بیماری ہے، غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دیں ۔ اسلامی بہنوں میں یہ عام غلط فہمی ہے کہ نفاس کی مدت مکمل چالیس دن ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔حکمِ شریعت یہ


 

 ہے کہ اگر خون ایک دن میں بند ہو گیا، بلکہ بچہ ہونے کے بعد فوراً ہی بند ہو گیا تو نِفاس ختم ہوا، غسل کر کے نَماز روزہ شروع کر دیں ۔ حیض کی مدّت کم از کم تین   د  ن رات اور زیادہ سے زیادہ دس دن رات ہے۔ تین دن اور تین رات کے بعد جب بھی خون بند ہوا فوراً غسل کر لیں اور نماز وغیرہ شروع کر دیں ۔( یہاں شوہر والیوں کیلئے کچھ تفصیل ہے اسے بہارِ شریعت جلد اوّل کے حصہ 2میں لازِمی ملا حظہ فرمائیں ) اور اگر دس دن رات کے بعد خون جاری رہا تو اِستِحاضہ یعنی بیماری ہے، دس دن رات پورے ہوتے ہی غسل کر کے نَماز روزہ شروع کر دیں )

{۷}اگر ماہواری کی تاریخیں رمضان شریف کے آخِری عشرے میں آنے والی ہوں تو اعتکاف شُروع ہی نہ کریں ۔

{۸}اگرعورت کو حیض آجائے تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔ (بدائع الصنائع ج۲ص۲۸۷) اِس صُورت میں جس دن اس کااِعْتِکاف ٹوٹاہے صِرْف اُس ایک دن کی قَضا اُس کے ذِمّے واجب ہوگی۔(رَدُّ الْمُحْتَار ج۳ ص۵۰۰) ماہواری سے پاک ہونے کے بعدکسی دن بہ نیّت قضااعتکاف کرلے ۔ اگررَمَضان شریف کے دن باقی ہوں تو ان میں بھی قَضا کرسکتی ہے، اس صورت میں رَمَضانُ الْمُبارَک کا روزہ ہی کافی ہوجائے گا ۔اگر اُن دنوں قضا کرنا نہیں چاہتی یاپاک ہونے تک رَمَضانُ الْمُبارَک ختم ہوجائے توکسی اور دن قَضا کرلے۔ مگر عیدُالْفِطْر اور  ذُوالحِجَّۃِ الْحَرام کی دسویں تا تیرھویں کے علاوہ،کہ ان پانچ دنوں کے روزے مکروہِ تحریمی ہیں ۔

(دُرِّمُخْتَارج۳ص۳۹۱)

اسلامی بہن کے لئے اعتکاف قضا کرنے کا طریقہ

{۹}اس کا طریقہ یہ ہے کہ غروبِ آفتاب کے وقت ( بلکہ اِحتیاط اس میں ہے کہ چند منٹ قبل) بہ نیّتِ قضا اعتکاف مسجدِ بَیت میں آجائے اور اب جو دن آئے گا اُس کے غروبِ آفتاب تک معتکف رہے۔ اِس میں روزہ شَرْط ہے۔

{۱۰}شَرعی ضروریات کے بغیرجائے اعتکاف سے نکلنا جائزنہیں ، وہاں سے اٹھ کرگھرکے کسی اورحصّے میں بھی نہیں جاسکتی ، اگرجائے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔


 

{۱۱}اسلامی بہنوں کیلئے بھی اعتکاف کی جگہ سے ہٹنے کے وُہی اَحْکام ہیں جواسلامی بھائیوں کے ہیں ۔یعنی جن ضروریات کی وجہ سے اِسلامی بھائیوں کو مسجِد سے نکلناجائزہے،اُنہیں کے لئے اِسلامی بہنوں کو بھی اِعتکاف کی جگہ سے ہٹنا جائز اور جن کاموں کیلئے مَردوں کو مسجِد سے نکلنا جائز نہیں ، اُن کیلئے اِسلامی بہنوں کو بھی اپنی جگہ سے ہٹنا جائز نہیں ۔

{۱۲}اِسلامی بہنیں اعتکاف کے دَوران اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے سِینے پِرونے کا کام کرسکتی ہیں ،گھرکے کاموں کے لئے دُوسروں کوہدایات بھی دے سکتی ہیں مگر خود اُٹھ کرنہ جائیں ۔

{۱۳}بہتر یہ ہے کہ اعتکاف کے دَوران ساری تَوَجُّہ تِلاوت، ذِکرودُرُود ، تسبیحات، دینی مطالَعَہ سنتوں بھرے بیانات کی C.Ds کیسٹیں سننے وغیرہ عِبادات کی طرف رہے۔

        یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ!ہر اسلامی بھائی اور ہر اسلامی بہن کا اعتکاف قبول فرما اور اس کی برکتوں سے مالا مال کر۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں بھی اعتکاف کرنے کی سعادت نصیب فرما۔   ٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

’’جنّتِ نعیم‘‘ کے سات حُرُوف کی نسبت سے

 7 فرامین مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

{۱} ’’جو مسجد سے مَحَبَّت رکھتا ہے، اللہ تَعَالٰی اس سے مَحَبَّت فرماتا ہے([8])۔‘‘ حضرت علّامہ عبدالرَّء ُوف مُناوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاس کی شَرْح میں لکھتے ہیں : مسجد سے مَحَبَّت اِس طرح ہے کہ رِضائے الٰہی کے لیے اس میں اعتِکاف، نماز، ذکرُاللہ اور شَرْعی مسائل سیکھنے سکھانے کے لیے بیٹھے رہنے کی عادت بنانا ہے([9]){۲} ’’بیشک مسجدیں زمین میں اللہ تَعَالٰی کے گھر ہیں


 

اور اللہ تَعَالٰی پر حق ہے کہ وہ (اپنے گھر کی) زیارت کرنے والے کا اکرام (عزّت) کرے۔‘‘([10])حضرت علّامہ عبدالرَّء ُوف مُناویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاس کی شَرْح میں فرماتے ہیں : یعنی مسجِد یں وہ جگہیں ہیں ، جنہیں اللہ تَعَالٰی نے اپنی رحمتیں اتارنے کے لئے چُنا ہے([11]){۳}’’ مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے([12]) ‘‘{۴}جو کوئی جان بوجھ کر ایک نماز بھی ترک کردیتا ہے، اُس کا نام جہنَّم کے اُس دروازے پر لکھ دیا جائے گاجس سے وہ جہنَّم میں داخل ہوگا ([13]) {۵} مسواک منہ کی پاکیزگی اوراللہ عَزَّوَجَلَّکی خوشنودی کا سبب ہے([14])؎{۶} چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا([15]) {۷} گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں ([16])۔

نشانیوں کے نمونے


 

عید مُبارک

بعدِ رَمضان عید ہوتی ہے          رب کی رَحمت مزید ہوتی ہے

جس کو آقا کی دید ہوتی ہے اُس پہ قربان ’’عید‘‘ ہوتی ہے

عید تجھ کو مبارَک اے صائِم([17])! روزہ داروں کی عید ہوتی ہے

روزہ خورو! خدا کی ناراضی                سن لو! تم پر شدید ہوتی ہے

تیری شیطان! ماہِ رَمضاں میں       کیسی مِٹّی پلید ہوتی ہے!

روزہ    داروں    کے    واسطے    وَاللہ        مغفِرت کی نَوِید([18]) ہوتی ہے

عید کے دن عمر یہ رو رو کر          بولے، ’’نیکوں کی عید ہوتی ہے‘‘

جو کوئی رب کو کرتے ہیں ناراض    اُن سے رحمت بعید([19]) ہوتی ہے

فِلم بِینوں ([20])کے حق میں سن لو یہ   عید، یومِ وعید([21])ہوتی ہے

بے نمازوں کی روزہ خوروں کی     کون کہتا ہے عید ہوتی ہے!

جس کو آقا مدینے بُلوائیں            اُس مسلماں کی عید ہوتی ہے

مجھ کو ’’عیدی‘‘ میں دو بقیع آقا     جانے کب میری عید ہوتی ہے!

جو بچھڑ جائے ان کی گلیوں سے     کیا بھلا اُس کی عید ہوتی ہے!

عید عطارؔ اُس کی ہے جس کو

خواب میں ان کی دید ہوتی ہے


 


 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

فیضانِ عیدُ الْفطر

مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے خالی ہتھیلی پر دم کیا اور۔۔۔

ایک بار کسی بھکا ری نے کفار سے سو ال کیا، اُنہوں نے مذاقاً امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا مولیٰ مشکل کشا، علیُّ الْمُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے پاس بھیج دیا جو کہ سا منے تشریف فرما تھے ۔ اُس نے حا ضر ہو کر دست سوال دراز کیا، آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے 10 بار دُرُود شریف پڑھ کر اُس کی ہتھیلی پر دم کر دیا اور فرمایا:’’ مٹھی بند کر لو اور جن لوگوں نے بھیجا ہے اُن کے سامنے جا کر کھول دو۔‘‘ (کفار ہنس رہے تھے کہ خالی پھو نک مارنے سے کیا ہوتا ہے! ) مگر جب سائل نے اُن کے سامنے جاکر مٹھی کھولی تو اُس میں ایک دِینار تھا! یہ کرامت دیکھ کر کئی کافر مسلمان ہو گئے۔ (راحتُ القلوب ص۵۰)

وِرد جس نے کیا دُرود شریف       اور دل سے پڑھا دُرود شریف

حاجتیں سب رَواہوئیں اُس کی           ہے عجب کیمیا دُرُود شریف

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

        میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو ! اللہ عَزَّوَجَلَّکے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


 

 وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رَمضان شریف کے مبارَک مہینے کے مُتَعَلِّق ارشاد فرمایاہے کہ اِس مہینے کا پہلا عشرہ رَحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنَّم سے آزادی کا ہے۔ (ابن خُزَیمہ ج۳ص۱۹۲حدیث۱۸۸۷)

     معلوم ہوا کہ رَمَضانُ الْمُبَارَک رَحمت ومغفرت اور جہنَّم سے آزادی کا مہینا ہے ،لہٰذا اِس رحمتوں اور برکتوں بھرے مہینے کے فوراً بعد ہمیں عید سعید کی خوشی منانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے اور عید الفطرکے روز خوشی کا اِظہار مستحب ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّکے فضل ورحمت پر خوشی کرنے کی ترغیب تو قراٰنِ کریم میں بھی موجود ہے ۔ چنانچہ پارہ11 سُوْرَۂ یُوْنُسْ کی آیت نمبر8 5 میں ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)

ترجَمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اُسی کی رَحمت، اور اِسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ۔

دل زندہ رہے گا:

نبیوں کے سلطان ، رحمتِ عالمیان ، سردارِ دو جہان محبوبِ رحمن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان برکت نشان ہے: ’’جس نے عیدین کی رات (یعنی شبِ عیدالفطر اور شب عِیدُ الْاَضْحٰی)طلبِ ثواب کیلئے قیام کیا ،اُس دن اُس کا دِل نہیں مرے گا، جس دن (لوگوں کے) دِل مرجائیں گے۔‘‘  ( ابنِ ماجہ ج۲ص۳۶۵حدیث۱۷۸۲)

جنت واجب ہوجاتی ہے:

ایک اور مقام پر حضرتِ سَیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے ، فرماتے ہیں : جو پانچ راتوں میں شبِ بیداری کرے اُس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ذُو الْحِجّہ شریف کی آٹھویں ، نویں اور دسویں رات (اِس طرح تین راتیں تو یہ ہوئیں ) اور چوتھی عِیدُ الفِطْر کی رات، پانچویں شَعْبانُ الْمُعظَّمکی پندرھویں رات (یعنی شبِ بَرَاء ت ) ۔ ( اَلتَّرْغِیْب وَ التَّرْھِیْب ج۲ ص۹۸ حدیث ۲ )


 

معافی کا اعلان عام:

       حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی ایک رِوایت میں یہ بھی ہے : جب عیدُ الْفِطْر کی مبارَک رات تشریف لاتی ہے تواِسے ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘ یعنی ’’اِنعام کی رات‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب عید کی صبح ہوتی ہے تواللہ عَزَّوَجَلَّاپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اِس طرح ندا دیتے ہیں : ’’اے اُمَّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اُس ربِّ کریمعَزَّوَجَلَّکی بارگاہ کی طرف چلو!جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے‘‘ ۔ پھراللہ عَزَّوَجَلَّاپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: ’’اے میرے بندو!مانگو!کیا مانگتے ہو؟ میری عزت وجلال کی قسم! آج کے روزاِس (نماز عیدکے) اِجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگوگے اُس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا(یعنی اِس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتر ی ہو)میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا۔میری عزت وجلال کی قسم !میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کے ساتھ رُسوا نہ کروں گا۔ بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یا فتہ  لوٹ جاؤ۔تم نے مجھے راضی کردیا اورمیں بھی تم سے راضی ہوگیا۔‘‘          (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرھِیْب ج۲ص۶۰حدیث۲۳)

کوئی سائل مایوس نہیں جاتا:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! غور تو فرمائیے! عِیدُ الْفِطْر کا دِن کس قدر اَہم ترین دن ہے، اِس دِن  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت نہایت جوش پرہوتی ہے، دربارِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ سے کوئی سائل مایوس نہیں لوٹا یا جاتا ۔ ایک طرفاللہ عَزَّوَجَلَّکے نیک بندےاللہ عَزَّوَجَلَّکی بے پایاں رَحمتوں اور بخششوں پر خوشیاں منارہے ہوتے ہیں تو دُوسری طرف مؤمنوں پراللہ عَزَّوَجَلَّکی اِتنی کرم نوازیاں دیکھ کر اِنسان کا بد ترین دشمن شیطان آگ بگولہ ہوجاتا ہے ۔ چنانچِہ


 

شیطان کی بدحواسی:

حضرت سَیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہ(مُ۔نَبْ۔بِہْ)رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : جب بھی عید آتی ہے، شیطان چلا چلا کر روتا ہے ۔اِس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہوکر پوچھتے ہیں : اے آقا!آپ کیوں غضب ناک اور اُداس ہیں ؟ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس ! اللہ عَزَّوَجَلَّنے آج کے دِن اُمّتِ مُحمّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بخش دیا ہے، لہٰذا تم اِنہیں لذات اورنفسانی خواہشات میں مشغول کردو۔                    (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص۳۰۸)

کیا شیطان کامیاب ہے؟:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے! شیطان پر عید کا دِن نہایت گراں گزرتا ہے لہٰذا وہ شیاطین کو حکم صادِر کردیتا ہے کہ تم مسلمانوں کو لذاتِ نفسانی میں مشغول کردو!ایسا لگتا ہے،فی زمانہ شیطان اپنے اِس وار میں کامیاب نظر آرہا ہے۔ عید کی آمد پر ہونا تو یہ چاہئے کہ عبادات وحسنات کی کثرت وبہتات کرکے ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّکا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کیا جائے،مگر افسوس ! صدکروڑ افسوس!اب اکثر مسلمان عید سعیدکا حقیقی مقصد ہی بھلا بیٹھے ہیں ! وَا حسرتا! اب تو عید منانے کا یہ انداز ہوگیا ہے کہ بے ہودہ نقش و نگار بلکہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّجاندار کی تصویر والے بھڑ کیلے کپڑے پہنے جاتے ہیں (بہار شریعت میں ہے کہ جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اُسے پہن کر نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے،نماز کے علاوہ بھی ایسا کپڑا پہننا ناجائز ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۶۲۷)) رَقص و سُرُود (سُ۔رُوْ۔د) کی محفلیں گرم کی جاتی ہیں ،گناہوں بھرے مَیلوں ، گندے کھیلوں ، ناچ گانوں اور فِلموں ڈِراموں کا اِہتمام کیا جاتا ہے اور جِی کھول کر وَقْت و دولت دونوں کو خِلافِ سُنَّت و شریعت اَفعال میں برباد کیاجاتا ہے۔ افسوس !صَد ہزار افسوس! اب اِس مُبارَک دن کو کس قدر غلط کاموں میں گزاراجانے لگا ہے ۔ میرے اسلامی بھائیو!اِن خلافِ شرع باتوں کے سبب ہوسکتا ہے کہ یہ عید سعید ناشکروں کے لئے ’’یومِ وَعید‘‘ بن جائے۔ لِلّٰہ! اپنے حال پر رحم کیجئے ! فیشن پرستی اور فُضُول خرچی سے باز آجائیے ! اللہ عَزَّوَجَلَّنے


 

 فضول خرچوں کو قراٰنِ پاک میں شیطانوں کا بھائی قراردیا ہے۔چنانچہ پارہ سُوْرَۃُ بَنِیْ اِسْرَآءِیْل کی آیت نمبر26 اور27 میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)

ترجَمۂ کنزالایمان:اور فُضُول نہ اُڑابے شک اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بڑاناشکرا ہے۔

        مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ’’ تفسیرِ صِراطُ الْجِنان‘‘  جلد5صفحہ447تا448  پراِن آیاتِ مبارک کے تحت ہے : { وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)اور فضول خرچی نہ کرو۔} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے’’تبذ یر ‘‘کے متعلق سوال کیا گیا تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک دِرہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔         (خازن  ج ۳ص۱۷۲)

 اِسرا ف کی گیارہ تعریفات:

اِسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علمائِ کرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ،ان میں سے11تعریفات درج ذیل ہیں : {۱}غیرحق میں صرف کرنا{۲} اللہ تَعَالٰی کے حکم کی حد سے بڑھنا {۳}ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مطہر یا مروت کے خلاف ہو ،اوَّل(یعنی خلافِ شریعت خرچ کرنا) حرام ہے اور ثانی(یعنی خلافِ مروت خرچ کرنا) مکروہِ تنزیہی ۔ {۴}طاعت الٰہی کے غیر میں صرف کرنا {۵}شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا {۶}غیر طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا {۷} دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا {۸}ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا {۹} حرام میں سے کچھ یا حلال کو اعتدال سے زیادہ کھانا {۱۰}لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا {۱۱}بے فائدہ خرچ کر نا ۔


 

اِسراف کی واضح تر تعریف:غیر حق میں مال خرچ کرنا:

اعلٰی حضرت امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ان تعریفات کو ذِکر کرنے اور ان کی تحقیق و تفصیل بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ہمارے کلام کا ناظر (یعنی نظر کرنے والا)خیال کرسکتا ہے کہ ان تمام تعریفات میں سب سے جامع ومانع وواضح تر تعریف اول ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اُس عبد اللہ کی تعریف ہے جسے رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَعلم کی گٹھڑی فرماتے اور جو خلفائے اَربعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد تمام جہان سے علم میں زائد ہے اور ابو حنیفہ جیسے امام الائمہ کا مورثِ عِلْم ہے رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ وَعَنْہُ وَعَنْہُمْ اَجْمَعِیْن۔             (فتاوٰی رضویہ ج ۱(ب)ص۹۳۷)

تبذیر اوراِ سراف میں فرق:

اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے’’تبذیر‘‘اور ’’اِسراف‘‘ میں فرق سے متعلق جو کلام ذِکر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے بارے میں علما ئِ کرام کے دو قول ہیں : (1)…تبذیر اور اِسراف دونوں کے معنیٰ ’’ناحق صَرف کرنا ‘‘ ہیں ۔ یہی صحیح ہے کہ یہی قول حضرت عبد اللہ بن مسعود اور حضرت عبد اللہ بن عباس اور عام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ہے۔ (2)…تبذیر اور اِسراف میں فرق ہے، تبذیر خاص گناہوں میں مال برباد کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں اِسراف تبذیر سے عام ہوگا کہ ناحق صرف کرنا عبث میں صرف کرنے کو بھی شامل ہے اور عبث مطلقاً گناہ نہیں توچونکہ اِسراف ناجائز ہے ا س لئے یہ خرچ کرنا معصیت ہوگا مگر جس میں خرچ کیا وہ خود معصیت نہ تھا۔ اور عبارت ’’لَاتُعْطِ فِی الْمَعَاصِیْ‘‘ (اس کی نافرمانی میں مت دے) کا ظاہر یہی ہے کہ وہ کام خود ہی معصیت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ تبذیر کے مقصود اور حکم دونوں معصیت ہیں اور اِسراف کو صرف حکم میں معصیت لازم ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱(ب)ص۹۳۷ تا۹۳۹ ملخّصاً)

انسان و حیوان کا فرق:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! اِنسان اور حَیوان میں جو مابِہِ الْاِمْتِیاز (یعنی فرق کرنے والی چیز) ہے وہ عقل وتدبیر، دُوربینی اور دُور اَندیشی


 

ہے، عموماً حیوان کو’’ کل ‘‘کی فکر نہیں ہوتی اور عام طور پر اُس کی کوئی حرکت کسی حکمت کے ماتحت نہیں ہوتی، برخلاف انسان کے اور مسلمان کو تو نہ صرف’’دُنیوی کل‘‘ کی بلکہ اِس دُنیوی کل کے بعد آنے والی ’’اُخروی(اُخ۔رَ،وی) کل‘‘ کی بھی فکر ہوتی ہے۔یقینا سمجھدار انسان وُہی ہے بلکہ حقیقۃًانسان ہی وہ ہے جو’’اُخروی کل‘‘ یعنی آخرت کی بھی فکر کرے، حکمتِ عملی سے کام لے اور اس فانی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے باقی آخرت کیلئے کوئی اِنتظام کرلے۔ آہ!اب تو اکثرلوگ اپنی زندگی کا مقصد مال کمانا، خوب ڈٹ کر کھانا اورپھر خوب غفلت کی نیند سوجانا ہی سمجھتے ہیں ۔    ؎

کیا  کہوں  اَحباب  کیا  کارِ  نمایاں  کرگئے!

میٹرک کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی پھر مرگئے!!

زندگی کا مقصد کیا ہے ؟:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! زندگی کا مقصد صرف بڑی بڑی ڈِگریاں حاصِل کرنا، کھانا پینا ، اور مزے اُڑانا نہیں ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّنے آخر ہمیں زندگی کیوں مرحمت فرمائی؟ آئیے ! قراٰنِ پاک کی خدمت میں عرض کریں کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّکی سچی کتاب! تو ہی ہماری رَہنمائی فرما کہ ہمارے جینے اور مرنے کا مقصد کیا ہے؟قراٰنِ عظیم سے جواب مل رہا ہے:

خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-                  (پ۲۹، الملک:۲)

ترجَمۂ کنزالایمان:مَوت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو (دُنیاوی زندگی میں )تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔

         ( یعنی اِس موت و زندگی کو اِس لئے پیدا کیا گیا تاکہ آزمایا جائے کہ)اس دنیا کی زندگی میں کون زیادہ مطیع (فرماں بردار ) ومخلص ہے۔             (خزائن العرفان ص ۱۰۴۰ )

گھر ہی پر ولادت ہوگئی:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شیطا ن کے وار سے بچنے کی کوشِش کے ضمن میں عید کی حسین ساعتیں عاشِقانِ رسول کے ساتھ


 

 مَدَنی قافلے میں گزاریئے۔ آپ کی ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار عرض کرتا ہوں :جہلم( صوبۂ پنجاب، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی نے کچھ اس طرح بتایا کہ شادی کے کم و پیش 6 ماہ بعد گھر میں ’’ اُمید‘‘ کے آثار ظاہر ہوئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کا کیس پیچیدہ ہے، خون کی بھی کافی کمی ہے، ہوسکتا ہے آپریشن کرنا پڑے! میں نے اُسی وَقت ایک ماہ کے مَدَنی قافلے کا مسافر بننے کی نیت کر لی، اور چند روز کے بعد عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گیا ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمَدَنی قافلے کی بَرَکت سے ایسا کرم ہو گیا کہ نہ اَسپتال جانے کی نوبت آئی اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کو دِکھانا پڑا ،گھر ہی میں مَدَنی مُنّے کی ولادت ہو گئی۔

گھر میں ’’ اُمّید‘‘ ہو، اس کی تمہید ہو    جلد ہی چل پڑیں ، قافِلے میں چلو

زَچہ کی خیر ہو، بچّہ بالخیر ہو     اُٹھئے ہمت کریں ، قافِلے میں چلو         (وسائلِ بخشش ص۶۷۵)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حفاظت حمل کے 2روحانی علاج:

{۱} لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ 11 بارکسی رکابی( یا کاغذ) پر لکھ کر دھو کر عورت کو پلا دیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ حَمْل کی حفاظت ہو گی۔ جس عورت کو دُودھ نہ آتا ہو یا کم آتا ہو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کیلئے بھی یہ عمل مُفید ہے، چاہیں تو ایک ہی دن پلائیں یا کئی روز تک روزانہ ہی لکھ کر پلائیں ہر طرح سے اختیار ہے{۲}یا حَیُّ    یا قَیُّومُ 111 بار کسی کاغذ پر لکھ کر حامِلہ کے پیٹ پر باندھ دیجئے اور وِلادت کے وَقت تک باندھے رہئے۔( ضَرورتاً کچھ دیر کیلئے کھولنے میں حَرَج نہیں ) اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ حَمْل بھی محفوظ رہے گا اور بچہ بھی صحت مند پیدا ہو گا۔

عید یا وعید:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!لائقِ عذاب کاموں کااِرْتکاب کر کے ’’یومِ عید‘‘ کو اپنے لئے ’’یومِ وَعید‘‘ نہ بنائیے۔ اور یاد رکھئے!    ؎


 

لَیْسَ الْعِیدُ لِمَنْ لَّبِسَ الْجَدِیْد    اِنَّمَاالْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْد

(یعنی عید اُس کی نہیں ،جس نے نئے کپڑے پہن لئے ،عید تو اُس کی ہے جو عذابِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے ڈر گیا )

اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہ تَعالٰی بھی تو عید مناتے رہے ہیں :

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج کل گویا لوگ صِرف نئے نئے کپڑے پہننے اورعمدہ کھانے تناول کرنے کو ہی مَعَاذَ اللہ عید سمجھ بیٹھے ہیں ۔ذرا غور توکیجئے !ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنبھی توآخر عید مناتے رہے ہیں ، مگر اِن کے عید منانے کا انداز ہی نرالا رہا ہے،وہ دُنیا کی لذتوں سے کوسوں دُور بھاگتے رہے ہیں اور ہر حال میں اپنے نفس کی مخا لفت کرتے رہے ہیں ۔ چنانچہ

عید کا انوکھا کھانا:

حضرت سَیِّدُنا ذُو النُّون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی  نے دس برس تک کوئی لذیذ کھانا تناول نہ فرمایا،نفس چاہتا رہا اورآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نفس کی مخالفت فرماتے رہے، ایک بار عید مبارَک کی مقدس رات کو دِل نے مشورہ دیا کہ کل اگر عِیدِ سعید کے روزکوئی لذیذ کھانا کھالیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اِس مشورے پر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی دِل کو آزمائش میں مبتلا کرنے کی غرض سے فرمایا: ’’میں اَوّلاً دو رَکعت نفل میں پورا قراٰنِ پاک ختم کروں گا، اے میرے دِل! تو اگراِس بات میں میرا ساتھ دے تو کل لذیذ کھانا مل جائے گا۔‘‘لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے دو رَکعَت ادا کی اور اِن میں پورا قراٰنِ کریم ختم کیا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے دِل نے اِس اَمرمیں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ساتھ دیا۔(یعنی دونوں رَکعتیں دِل جمعی کے ساتھ ادا کرلی گئیں ) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عید کے دِن لذیذ کھانا منگوایا، نِوالہ اُٹھاکر منہ میں ڈالنا ہی چاہتے تھے کہ بے قرار ہوکر پھر رکھ دیا اور نہ کھایا۔لوگوں نے اِس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: جس وَقت میں نوالہ منہ کے قریب لایا تو میرے نفس نے کہا: دیکھا ! میں آخر اپنی دس سال پرانی خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو گیا نا!میں نے اُسی وَقت کہا


 

کہ اگر یہ بات ہے تو میں تجھے کامیاب نہ ہونے دوں گااور ہر گزہرگز لذیذ کھانا نہ کھاؤں گا۔چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لذیذ کھانا کھانے کا اِرادہ ترک کردیا۔اتنے میں ایک شخص لذیذ کھانے کا طباق اٹھائے حاضر ہوا اور عرض کی: یہ کھانامیں نے رات اپنے لئے تیار کیا تھا، رات جب سویا تو قسمت انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی ، خواب میں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زیارت کی سعادت حاصِل ہوئی، میرے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا: اگر تو کل قیامت کے روز بھی مجھے دیکھنا چاہتا ہے تو یہ کھانا ذُوالنُّون(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کے پاس لے جا اور اُن سے جا کر کہہ کہ ’’حضرتِ مُحمّد بن عبدُ اللہ بن عبدُ المُطَّلِب (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) فرماتے ہیں کہ دَم بھر کیلئے نفس کے ساتھ صلح کرلواور چند نوالے اِس لذیذ کھانے سے کھا لو ۔ ‘ ‘  حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالنُّون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی  یہ سن کر جھوم اُٹھے اور کہنے لگے: ’’میں فرمانبردار ہوں ،میں فرمانبردار ہوں ۔‘‘اور لذیذ کھانا کھانے لگے ۔  (تذکرۃُ الاولیاء ج ۱ ص ۱۱۷)

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

رب ہے معطی یہ ہیں قاسم    رِزق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں

ٹھنڈا ٹھنڈا میٹھا میٹھا            پیتے ہم ہیں پلاتے یہ ہیں         (حدائق بخشش ص۴۸۲،۴۸۳)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

روح کو بھی سجائیے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے دِن غسل کرنا ، نئے یا دُھلے ہوئے عمدہ کپڑے پہننا اور عطرلگانا مستحب ہے،یہ مستجبات ہمارے ظاہری بدن کی صفائی اور زینت سے متعلق ہیں ۔لیکن ہمارے اِن صاف ،اُجلے اور نئے کپڑوں اور نہائے ہوئے اور خوشبو ملے ہوئے جسم کے ساتھ ساتھ ہماری روح بھی ہم پر ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان خدائے رَحمنعَزَّوَجَلَّکی

محبت و اِطاعت اور امّت کے غمخوار، دو جہاں کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی اُلفت وسُنَّت سے خوب سجی ہوئی ہونی چائیے ۔

نجاست پر چاندی کا وَرَق:

ذرا سوچئے توسہی ! روزہ ایک بھی نہ رکھا ہو ، سارا ماہِ رَمضان اللہ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانیوں میں گزرا ہو،بجائے عبادات کے ساری ساری راتیں ،فلم بینیوں ، گانے باجوں اورآوارہ گَردیوں میں گزری ہوں ، اپنے جسم و رُوح کو دِن رات گناہوں میں ملوث رکھا ہو اور آج عید کے دِن کے اِنگلش فیشن والے بے ڈھنگے کپڑے پہن بھی لئے تو اسے یوں سمجھئے کہ گویا ایک نجاست تھی جس پر چاندی کا وَرَق چسپاں کرکے اُس کی نمائش کردی گئی۔

عید کس کے لیے ہے؟:

سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمکی مَحَبَّت سے سرشار دیوانو! سچی بات تویہی ہے کہ عید اُن خوش بخت مسلمانوں کاحصہ ہے جنہوں نے ماہِ محترم، رَمَضانُ المُبارک کو  رَوزوں ، نمازوں اور دیگر عبادتوں میں گزارا۔تو یہ عید اُن کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے مزدوری ملنے کا دِن ہے۔ ہمیں تواللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتے رہنا چاہئے کہ آہ !ماہِ محترم کا ہم حق ادا ہی نہ کر سکے۔

سیدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عید:

حضرتِ علامہ مولانا عبد المصطفٰی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی  فرماتے ہیں : عید کے دِن چند حضرات مکانِ عالی شان پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ در وا زہ بند کرکے زَارو قطار رو رہے ہیں ۔ لوگوں نے حیران ہوکر عرض کی: یاامیرَالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      !آج تو عید ہے جو کہ خوشی منانے کا دِن ہے ، خوشی کی جگہ یہ رونا کیسا؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا: ’’ھٰذا یَوْمُ الْعِیْدِ وَھٰذا یَوْمُ الْوَعِیْد‘‘یعنی یہ عید کا دِن بھی ہے اور وَعید کا دِن بھی ۔ جس کے نَمازو روزے مقبول ہوگئے بلا شبہ اُس کے لئے آج عید کا دِن ہے،لیکن جس کے نَمازو روزے رَد کر کے اُس کے منہ پر ماردیئے گئے اُس کیلئے تو آج وَعید کا دِن ہے


 

 (مزید انکساراً فرمایا:) اور میں تواِس خوف سے رو رہا ہوں کہ آہ!’’اَنَا لَا اَدْرِیْ اَ مِنَ الْمَقْبُوْلِیْنَ اَمْ مِنَ الْمَطْرُوْدِیْنَ ‘‘ یعنی مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوا ہُوں یا رَد کردیا گیا ہوں ۔ (نورانی تقریریں ص۱۸۴)

عید کے دن عمر یہ رو رو کر

بولے نیکوں کی عید ہوتی ہے   (وسائل بخشش ص۷۰۷)

اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

ہماری خوش فہمی:

اللہ اکبر!(عَزَّوَجَلَّ)مَحَبَّت والو!ذرا سوچئے ! خوب غور فرمائیے! وہ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کو مالک جنت، تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ ظاہری ہی میں جنت کی بشارت عنایت فرمادی تھی۔ اُن کے خوف وخشیت کا تو یہ عالم ہو اور ہم جیسے نکمے اور باتونی لوگوں کی یہ حالت ہے کہ نیکی کے’’ن‘‘کے نقطے تک تو پہنچ نہیں پاتے مگر خوش  فہمیکا حال یہ ہے کہ ہم جیسا نیک اور پارسا تو شاید اب کوئی رہا ہی نہیں !اِس رِقت انگیز حکایت سے اُن لوگوں کو خصوصاًدرسِ عبرت حاصِل کرنا چائیے جو اپنی عبادات پر ناز کرتے ہوئے پھولے نہیں سماتے اور بلا مصلحت شرعی اپنے نیک اعمال مَثَلاً نَماز، روزہ ، حج ، مساجد کی خدمت ،خلقِ خدا کی مدد اور سماجی فلاح وبہبود وغیرہ وغیرہ کاموں کا ہرجگہ اِعلان کرتے پھرتے ، ڈَھنڈوراپیٹتے نہیں تھکتے ، بلکہ اپنے نیک کاموں کی مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اخبارات ورَسائل میں تصاویر تک چھپوانے سے گریز نہیں کرتے۔ آہ! اِن کا ذِہن کس طرح بنایا جائے!اِن کو اخلاصِ نیت کی سوچ کس طرح فراہم کی جائے!اِنہیں کس طرح باوَر کرایا جائے کہ اپنی نیکیوں کا اِعلان کرنے میں رِیا کاری کی آفت میں  پڑنے کا شدید خدشہ ہے۔ اور اپنا فوٹو چھپوانا؟ توبہ! توبہ! اپنے اعمال کی نمائش کا اتنا شوق کہ فوٹو جیسے حرام ذَرِیعے کو بھی نہ چھوڑا گیا۔اللہ عَزَّوَجَلَّرِیا کاری کی تَباہ کاری ، ’’مَیں مَیں ‘‘ کی مصیبت اور اَنانیت کی


 

 آفت سے ہم سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

شہزادے کی عید:

امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ عید کے دِن اپنے شہزادے کو پرانی قمیص پہنے دیکھا تو رَو پڑے، بیٹے نے عر ض کی:پیارے اباجان! کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا:میرے لال ! مجھے اَندیشہ ہے کہ آج عید کے دِن جب لڑکے تمہیں اِس پرانی قمیص میں دیکھیں تو کہیں تمہارا دِل نہ ٹوٹ جائے! بیٹے نے جواباً عرض کیا: دِل تو اُس کا ٹوٹے جو رِضائے اِلٰہی عَزَّوَجَلَّ کے کام میں ناکام رہا ہویا جس نے ماں یا باپ کی نافرمانی کی ہو، مجھے اُمید ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رِضا مندی کے طفیلاللہ عَزَّوَجَلَّبھی مجھ سے راضی ہو جائے گا۔یہ سن کر حضرتِ عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے شہزادے کو گلے لگایا اور اُس کیلئے دُعا فرمائی۔  (مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب ص ۳۰۸ مُلَخَّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

شہزادیوں کی عید:

امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدُ الْعَزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں عید سے ایک دِ ن قبل آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہزادیاں حاضر ہوئیں اور بولیں :’’ ابو جان!  عید کے دِن ہم کون سے کپڑے پہنیں گی؟ ‘‘فرمایا: ’’یہی کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں ، اِنہیں دھو لو، کَل پہن لینا! ‘‘نہیں ! ابو جان!  ہمیں نئے کپڑے بنوادیجئے،‘‘ بچیوں نے ضد کرتے ہوئے کہا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’میری بچیو!عید کا دِناللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی عبادت کرنے ،اُ س کا شکر بجالانے کا دِن ہے، نئے کپڑے پہننا ضروری تو نہیں ! ‘‘ ’’ ابو جان!  ! آپ کا فرمانا بیشک دُرُست ہے لیکن ہماری سہیلیاں ہمیں طعنے دیں گی کہ تم امیرُ المؤمنین کی لڑکیاں ہو اور عید کے روز بھی وُہی پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں ! ‘‘ یہ کہتے ہوئے بچیوں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ بچیوں کی باتیں سن کر امیرُالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دِل بھی پسیج گیا۔ خازِن (وزیر مالیات) کو بلا کر

 فرمایا:’’مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لادو۔ ‘‘ خازِن نے عرض کی: ’’حضور!  کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہیں گے؟‘‘ فرمایا: ’’جَزَاکَ اللّٰہ!بے شک! تم نے صحیح اور عمدہ بات کہی ۔ ‘‘ خازِن چلا گیا۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بچیوں سے فرمایا: ’’پیاری بیٹیو! اللہ و رَسُولَ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی رِضا پر اپنی خواہشات قربان کردو۔‘‘ (مَعْدَنِ اَخلاق حصۂ اوّل ص ۲۵۷ تا ۲۵۸ بتغیرٍ قلیل)  اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

والد مرحوم پر کرم:

احتیاطوں بھرا مَدَنی ذہن بنانے کیلئے مَدَنی قافِلے میں سفر کی سعادت حاصِل کیجئے ، مَدَنی قافلے کی برکتوں کے کیا کہنے ! نشتربستی( بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی نے جو کچھ بیان کیاوہ بِالتَّصَرُّفعرض کرتا ہوں : میں نے اپنے والدِ مرحوم کو خواب میں اِنتِہائی کمزوری کی حالت میں برہنہ  (بَ۔رَہ۔نَہ)کسی کے سہارے پر چلتا ہوا دیکھا۔ مجھے تشویش ہوئی۔ میں نے ایصالِ ثواب کی نیت سے ہر ماہ تین دن کے مَدَنی قافلے میں سفر کی نیت کر لی اور سفر شروع بھی کر دیا۔ تیسرے ماہ مَدَنی قافلے سے واپسی کے بعد جب گھر پر سویا تو میں نے خواب میں یہ دِلکش منظر دیکھا کہ والد مرحوم سبزسبز لباس زیبِ تن کئے بیٹھے مسکرا رہے ہیں اور ان پر بارِش کی ہلکی پھلکی پھوار برس رہی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَدَنی قافلے میں سفر کی اَھَمِّیَّت مجھ پر خوب اُجاگر ہوئی اور اب پکی نیت ہے کہ اِنْ شَآءَاللہ عَزّوَجَلَّ ہر ماہ تین دن کیلئے عاشقانِ رسول کے ساتھ سفر جاری رکھوں گا ۔

قافلے میں ذرا مانگو آکر دُعا     پاؤ گے نعمتیں ، قافِلے میں چلو

خوب ہوگا ثواب، اور ٹلے گا عذاب      پاؤ گے بخششیں ، قافلے میں چلو

جو کہ مفقود ہو وہ بھی موجود ہو           اِنْ شاءَ اللہ چلیں ، قافلے میں چلو       (وسائل بخشش ص۶۷۷،۶۷۲،۶۷۳)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

حضور غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی عید:

اللہ عَزَّوَجَلَّکے مقبول بندوں کی ایک ایک ادا ہمارے لئے موجب صد درسِ عبرت ہوتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ہمارے حضور سَیِّدُنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی شان بے حد اَرفع واعلٰی ہے ، اِس کے باوجودآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمارے لئے کیا چیز پیش فرماتے ہیں ! سنئے اور عبرت حاصِل کیجئے ۔   ؎

خلق گَوید کہ فر د ا روزِ عید اَسْت         خوشی دَررُوحِ ہر مؤمن پدید اَسْت

دَراں رَوزے کہ بااِیماں بمیرم         مِرادَر مُلک خودآں رَوزِ عید اَسْت

یعنی ’’لوگ کہہ رہے ہیں ،’’کل عید ہے!کل عید ہے!‘‘او رسب خوش ہیں ۔ لیکن میں تو جس دِن اِس دنیا سے اپنا اِیمان سلامت لے کر گیا ، میرے لئے تو وُہی دِن عید ہوگا ۔‘‘

        سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ) سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ)کیا شانِ تقوی ہے ! اتنی بڑی شان کہ اَولیائِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے سردار! اور اِس قَدَر تواضع واِنکِسار ! ! اس میں ہمارے لئے بھی دَرْسِ عبرت ہے اور ہمیں سمجھا یا جا رہا ہے کہ خبردار! ایمان کے مُعامَلے میں غفلت نہ کرنا ،ہر وَقت ایمان کی حِفاظت کی فِکر میں لگے رہنا، کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہاری غفلت اور معصیت کے سَبَب ایمان کی دَولت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے ۔

رضا  ؔ   کا     خاتمہ     بِالْـخیر    ہوگا

اگر رحمت تری شامل ہے یاغوث        (حدائقِ بخشش ص۲۶۳)

ایک ولی کی عید:

حضرت سَیِّدُنا شیخ نجیب الدین مُتَوَکِّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ، حضرتِ سیِّدُنا شیخ بابا فرید الدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بھائی اور خلیفہ ہیں ،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کالقب مُتَوَکِّل ہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ 70برس شہر میں رہے اور کوئی ظاہری ذَرِیعۂ مَعَاش نہ ہونے کے باوجود اہل وعیال نہایت اطمینان سے زندگی بسر کرتے رہے۔ ایک بار عید کے دِن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے گھر میں بہت سے مہمان


 

 جمع ہوگئے ، گھر میں خورد و نوش (یعنی کھانے پینے) کا کوئی سامان نہیں تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بالاخانے پر جا کر یادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول ہوگئے اور دِل ہی دل میں یہ کہہ رہے تھے: ’’آج عید کا دِن ہے اور میرے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں ۔‘‘ اچانک ایک شخص چھت پرظاہر ہوا، اُس نے کھانوں سے بھرا ہوا ایک خوان پیش کیااور کہا:  اے نجیب الدین ! تمہارے توَکُّل کی دُھوم مَلاءِ اعلٰی (یعنی فرشتوں ) میں مچی ہوئی ہے اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم ایسے خیال( یعنی کھانا طلبی) میں مشغول ہو! آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’حق تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ خوب جانتا ہے کہ میں اپنی ذات کے لئے نہیں صرف اپنے مہمانوں کے باعث اِس طرف مُتَوَجِّہ ہوگیا تھا۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا نجیب الدین مُتَوکِّل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ صاحبِ کرامت ہونے کے باوجود اِنتہائی مُنْکَسِرُالْمِزاج تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اِنکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز ایک فقیر بہت دُور سے ملاقات کیلئے آیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پوچھا کہ کیا نجیب الدین مُتَوَکِّل(یعنی توکُّلکرنے والا) آپ ہی ہیں ؟ تو اِنکساراً فرمایا کہ بھائی! میں تو نجیب الدین مُتَأَکِّل(یعنی بہت زیادہ کھانے والا ) ہوں ۔  ( اَخبارُ الاخیار ص۶۰مُلَخّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

کرامت کا ایک شعبہ:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!اِس حکایت سے معلوم ہوا کہاللہ عَزَّوَجَلَّجب چاہتا ہے اپنے دوستوں کی ضروریات کاغیب سے انتظام فرما دیتا ہے ۔ بوقت ضرورت کھانا، پانی وغیرہ ضروریات ِ زندگی کا اچانک حاضر ہوجانا بزرگوں سے کرامت کے طور پر وُقوع میں آتا ہے۔ چنانچہ ’’ شرحِ عقائدِنسفیہ‘‘میں جہاں کرامت کی چند اَقسام کا بیان ہے وَہاں یہ بھی مَذکور ہے کہ ضرورت کے وَقت کھانے پانی کا حاضر ہوجانا بھی کرامت ہی کا ایک شعبہ ہے ۔بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکے خداداد تصرفات وکرامات کا کیا کہنا ؟یہ ایسے مقبولانِ بارگاہِ خداوندیعَزَّوَجَلَّہوتے ہیں کہ اُن کی زَبانِ پاک سے نکلی ہوئی بات اور دِل میں پیدا ہونے والی خواہشات ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّاپنی رحمت سے پوری فرما دیتا ہے۔


 

ایک سخی کی عید:

سَیِّدُنا عبدُ الرَّحمٰن بِن عَمْرْو اَوْزاعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بَیان کرتے ہیں کہ عِیْدُ الفِطْر کی شب دروازے پر دَستک ہوئی ، دیکھا تومیرا ہمسایہ کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا:کہو بھائی !کیسے آنا ہوا؟اُس نے کہا: ’’کل عید ہے لیکن خرچ کیلئے کچھ نہیں ،اگر آپ کچھ عنایت فرمادیں تو عزت کے ساتھ ہم عید کا دِن گزارلیں گے۔‘‘میں نے اپنی بیوی سے کہا: ہمارا فلاں پڑوسی آیا ہے اُس کے پاس عید کیلئے ایک پیسہ تک نہیں ، اگر تمہاری رائے ہو تو جو پچیس دِرہم ہم نے عید کیلئے رکھ چھوڑے ہیں اس کو پیش کر دیں ہمیں اللہ تَعَالٰی اور دیدے گا۔ نیک بیوی نے کہا: بہت اچھا۔ چنانچہ میں نے وہ سب دِرہم اپنے ہمسائے کے حوالے کردئیے، وہ دُعائیں دیتا ہوا چلاگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر کسی نے دروازہ کَھٹکَھٹایا۔ میں نے جونہی دروازہ کھولا، ایک آدمی آگے بڑھ کر میرے قدموں پر گر پڑا اور رو روکر کہنے لگا: میں آپ کے والد کابھاگا ہوا غلام ہوں ، مجھے اپنی حرکت پر بہت ندامت لاحق ہوئی توحاضر ہو گیا ہوں ، یہ پچیس دینار میری کمائی کے ہیں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں قبول فرمالیجئے، آپ میرے آقا ہیں اور میں آپ کا غلام ۔میں نے وہ دِینار لے لئے اور غلام کو آزاد کردیا۔ پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا: خدا عَزَّوَجَلَّکی شان دیکھو!اُس نے ہمیں دِرہم کے بدلے دِینار عطا فرمائے(پہلے درہم چاندی کے اور دینار سونے کے ہوتے تھے)! اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

سلام اُس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی:

میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّکی شان بھی کتنی نرالی ہے کہ اُس نے پچیس دِرہم(چاندی کے سکے) دینے والے کو آن کی آن میں پچیس دِینار (سونے کے سکے) عطا فرمادئیے۔ اور بزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکا اِیثار بھی خوب تھا کہ وہ اپنی تمام تر آسائشیں دُوسرے مسلمانوں کی خاطر قربان کردیتے تھے۔


 

قوتِ سماعت بحال ہوگئی:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اپنے دل میں عظمت مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمبڑھانے، سینے میں شمعِ اُلفتِ مُصطَفٰے جلانے اور عید سعید کی حقیقی خوشیاں پانے کیلئے ہو سکے تو چاند رات کو دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرے سفر کی سعادت حاصل کیجئے۔ مَدَنی قافلے کی برکتیں تو دیکھئے! بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے، کوئٹہ میں ہونے والے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے تین روزہ سنتوں بھرے اجتماع میں شریک ایک بہرے اسلامی بھائی نے ہاتھوں ہاتھ تین دن کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر کی سعادت حاصِل کی ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ دَورانِ سفر ہی ان کی قوتِ سماعت بحال ہو گئی اور وہ عام لوگوں کی طرح سننے لگے۔

کان بہرے ہیں گر، رکھو ربّ پر نظر     ہوگا لطف خدا، قافلے میں چلو

دُنیوی آفتیں ، اُخروی شامتیں             دور ہوں گی ذرا، قافِلے میں چلو

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !                                                                                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صدقۂ فطر:

 اللہ تبارَک وَ تعالیٰ پارہ 30 سُوْرَۃُ  الْاَعْلٰیکی آیت نمبر 14تا15 میں ارشاد فرماتا ہے :

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵)

ترجَمۂ کنزالایمان:بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا  اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔

        صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی’’ خَزائِنُ العِرفان‘‘ میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقۂِ فطر دینا اور رب کا نام


 

لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نمازِ عید مراد ہے۔           (خزائن العرفان ص۱۰۹۹)

صدقۂ فطر واجب ہے:

سرکار مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکّۂ مُعَظّمہ کے گلی کوچوں میں اِعلان کر دو، ’’صَدَ قَۂِ فِطْر واجب ہے۔‘‘               ( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)

صدقۂ فطر لغو باتوں کا کفارہ ہے:

حضرت سَیِّدُنا اِبنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں : مَدَنی سرکار، غریبوں کے غَمخوارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمنے صَدَقَۂِِ فِطْرمقرر فرمایا تاکہ فضول اور بے ہودہ کلام سے روزوں کی طَہارت (یعنی صفائی) ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورِش (یعنی خوراک)بھی ہوجائے۔                                  (ابوداوٗد ج۲ص۱۵۸حدیث۱۶۰۹)

روزہ معلق رہتا ہے:

حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالِکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جب تک صَدَقَۂِ فِطْر ادا نہیں کیا جاتا، بندے کا روزہ زَمین و آسمان کے درمیان مُعلَّق (یعنی لٹکا ہوا ) رہتاہے۔      (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)

’’عید‘‘ کی خوشیاں مبارک ‘‘ کے سولہ حروف

 کی نسبت سے فطرے کے16مَدَنی پھول

{۱}صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو ’’صاحب نصاب ‘‘ ہوں اور اُن کا نصاب ’’حاجاتِ اَصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارِغ ہو۔

  (ماخوذ از  عالمگیری ج۱ص۱۹۱)

{۲}جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت


 

کامالِ تجارت ہو (اور یہ سب حاجاتِ اَصْلِیَّہ سے فارِغ ہوں ) یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جاتا ہے ([22])۔

{۳} صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مَجْنُون (یعنی پاگل ) بھی اگر صاحبِ نصاب ہوتو اُس کے مال میں سے اُن کا وَلی (یعنی سرپرست) ادا کرے۔ (ردّالْمُحتار ۳ص۳۶۵)’’صَدَقَۂِ فِطْر‘‘ کے لئے مقدارِ نصاب تو وُہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے جیسا کہ مذکور ہوا لیکن فرق یہ ہے کہ صَدَقَۂِ فِطْر کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (مَثَلاًعمومی ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہا)اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔               (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملَخَّصاً)

{۴} مالک نصاب مردپر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے،ہاں اگر وہ بچہ یا مَجْنُون خود صاحِب نصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔              (عالمگیری ج۱ص۱۹۲ مُلَخَّصاً)

{۵} مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رِشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔ (ایضاً ص۱۹۳ملَخَّصاً)

{۶}والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحِب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے اُن پہصَدَقَۂِ فِطْر دینا واجِب ہے۔ (دُرَّمُختار ج۳ص۳۶۸)

{۷} ماں پراپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجب نہیں ۔ ( رَدُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۸)

{۸} باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا   فِطْرہ واجِب نہیں ۔   (دُ رِّمُختار مع رَدِّالْمُحتار ج۳ص۳۷۰)


 

{۹} کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکایا مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے نہ رکھے اُس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صَدَقَۂِ فِطْر واجِب ہے۔  (رَدّالْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)

{۱۰} بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذِمے ہے، وہ اگر اِن کی اجازت کے بغیر ہی اِن کا  فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نفقہ اُس کے ذِمے نہیں ہے مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان نفقے(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذِمے دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازتفطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔

{۱۱}بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔                     (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸ مُلَخَّصاً)

{۱۲} عِیدُ الْفِطْر کی صبح صادِق طلوع ہوتے وَقت جو صاحبِ نصاب  تھا اُسی پر صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ،اگر صبحِ صادِق کے بعد صاحبِ نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔                        (ماخوذ از عا لمگیری ج۱ص۱۹۲)

{۱۳} صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھیفطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔              (اَیضاً)

{۱۴}اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (اَیضاً)

{۱۵}صَدَقَۂِ فِطْر کے مصا رِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کوفطرہبھی نہیں دے سکتے۔             (اَیضاًص۱۹۴ مُلَخّصاً)

{۱۶}سادات کرام کو صَدَقَۂِ فِطْر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔   



[1] ۔۔۔ مرقاۃ المفاتیح ج۸ص۵۷تحت الحدیث ۴۲۲۸۔

[2] ۔۔۔ اشعۃ اللمعات ج۳ص۵۴۰۔

[3] ۔۔۔ لمعات التنقیع ج۷ص تحت الحدیث ۴۲۲۸۔

[4] ۔۔۔ منت کے بارے میں تفصیلی احکام  جاننےکیلئے بہارِ شریعت   جلد1صفحہ1015تا1019اور بہارِ شریعت   جلد2صفحہ 311تا318کامُطالَعہ کیجئے۔

[5] ۔۔۔ اس کی تفصیل دارُالافتاء اہلِ سنّت کے فتویٰ نمبر:7982۔norغیرمطبوعہ میں  موجود ہے۔

[6] ۔۔۔ اَلْقامُوسُ الْمُحِیط ج۲ص ۱۱۷۰

[7] ۔۔۔ مصنّف  ابن شیبہ ج۲ص ۵۰۴

[8] ۔۔۔ معجم اوسط ج۴ص ۴۰۰ حدیث ۸۳۶۳

[9] ۔۔۔ فیض القدیر ج۶ص ۱۱۲ تحت الحدیث ۸۵۲۴

[10] ۔۔۔ معجم کبیر ج۱۰ص ۱۶۱ حدیث ۱۰۳۲۴

[11] ۔۔۔ فیض القدیر ج۲ص ۵۶۴

[12] ۔۔۔ الفردوس بما ثورالخطاب ج۲ص ۴۳۱ حدیث ۳۸۹۱

[13] ۔۔۔ حلیۃ الاولیاء  ج۷ص ۲۹۹حدیث ۱۰۵۹

[14] ۔۔۔ ابن ماجہ ج۱ص ۱۸۶ حدیث ۲۸۹

[15] ۔۔۔ بخاری ج۴ص ۱۱۵ حدیث ۶۰۵۶

[16] ۔۔۔ ابن ماجہ ج۴ص ۴۹۱ حدیث ۴۲۵۰

[17] ۔۔۔ روزہ دار

[18] ۔۔۔ خوشخبری

[19] ۔۔۔ دُور

[20] ۔۔۔ فلم دیکھنے والے

[21] ۔۔۔ سزا دینے کی دھمکی ،سزا دینے کا وعدہ۔

[22] ۔۔۔ صاحب  نصاب، غنی" "فقیرحاجات اصلیہ وغیرہ اصلاحات کی تفصیلی معلومات فقہ حنفی کی مشہور کتاب بہارشریعت حصہ پنجم میں ملاحظہ فرمایئے۔