گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مقدار ہے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۱،دُرِّمُختارج۳ص۳۷۲) ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو ا۳۵۱کاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پَچھتَّر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (اَیضاً)
منقول ہے کہ جو شخص عیدکے دِن تین سو مرتبہ ’’سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ ‘‘ پڑھے اورفوت شدہ مسلمانوں کی اَرواح کو اِس کا ایصالِ ثواب کرے تو ہر مسلمان کی قَبْر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جب وہ پڑھنے والا خود مرے گا، اللہ تَعَالٰی اُس کی قَبْر میں بھی ایک ہزار انوار داخِل فرمائیگا۔ (مُکَاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۸)
میٹھے میٹھے اِسلا می بھائیو!اب اُن باتوں کا بیان کیا جاتا ہے جو عیدین (یعنی عید الفطر اور بقر عید دونوں ) میں سُنَّت ہیں ۔چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت ، شہنشاہِ نُبُوَّت ، پیکر جودو سخاوت، سراپا رَحمت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم عِیْدُ الفِطْر کے دِن کچھ کھا کر نَماز کیلئے تشریف لے جاتے تھے اور
عیدالْاَضْحٰی کے روز اُس وقت تک نہیں کھاتے تھے جب تک نَماز سے فارِغ نہ ہو جاتے۔ ( ترمذی ج۲ ص ۷۰ حدیث ۵۴۲) اور ’’بخاری ‘‘ کی رِوایت حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہے کہ عیدالفطر کے دِن(نمازِ عید کیلئے) تشریف نہ لے جاتے جب تک چند کھَجوریں نہ تناول فرمالیتے او روہ طاق ہوتیں ۔(بُخاری ج۱ ص ۳۲۸ حدیث ۹۵۳) حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ نبیِّ رَحمت، شفیعِ امّت، شہَنْشاہِ نُبُوَّت، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمعید کو (نمازِ عید کیلئے )ایک راستے سے تشریف لے جاتے اور دُوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔ ( تِرمذِی ج۲ص۶۹حدیث۵۴۱)
نمازِ عید کا طریقہ(حنفی)
پہلے اِس طرح نیت کیجئے : ’’میں نیت کرتا ہوں دو رَکعَت نَماز عیدُ الْفِطْر( یا عیدُالْاَضْحٰی )کی ،ساتھ چھ زائد تکبیروں کے ،واسِطے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ، پیچھے اِس امام کے‘‘ پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہہ کر حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیجئے اور ثنا پڑھئے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اُٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہتے ہوئے لٹکا دیجئے ،پھر ہاتھ کانوں تک اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہہ کر لٹکا دیجئے، پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائیے اور اَللہُ اَکْبَرکہہ کر باندھ لیجئے یعنی پہلی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھئے اس کے بعد دوسری اور تیسری تکبیر میں لٹکائیے اور چوتھی میں ہاتھ باند ھ لیجئے ، اس کو یوں یادرکھئے کہ جہاں قِیام میں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھنے ہیں اور جہاں نہیں پڑھنا وہاں ہاتھ لٹکانے ہیں ۔ پھر امام تَعَوُّذاور تَسْمِیَہ آہستہ پڑھ کر اَ لْحَمْدُ شریف اور سورۃ جہر( یعنی بلند آواز ) کے ساتھ پڑھے، پھر رُکوع کرے ۔ دوسری رَکعَت میں پہلے اَ لْحَمْدُ شریف اور سورۃ جہر کے ساتھ پڑھے ، پھر تین بار کان تک ہاتھ اٹھا کر اَللہُ اَکْبَرکہئے اور ہاتھ نہ باندھئے اور چوتھی باربغیر ہاتھ اُٹھا ئے اَللہُ اَکْبَرکہتے ہوئے رُکوع میں جائیے
اور قاعدے کے مطابق نماز مکمَّل کرلیجئے ۔ ہر دو تکبیروں کے درمیان تین بار ’’ سُبْحٰنَ اللہِ ‘‘ کہنے کی مقدار چپ کھڑا رَہنا ہے۔ ( ماخوذ اًبہارِ شریعت ج۱ص۷۸۱ دُرِّمُختار ج۳ص۶۱ وغیرہ)
پہلی رَکعَت میں امام کے تکبیریں کہنے کے بعد مقتدی شامِل ہوا تو اُسی وَقت (تکبیر تحریمہ کے علاوہ مزید) تین تکبیریں کہہ لے اگر چہ امام نے قرائَ ت شروع کر دی ہو اور تین ہی کہے اگرچہ امام نے تین سے زِیادہ کہی ہوں اور اگر اس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رُکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیر یں کہہ لے اور اگر امام کو رُکوع میں پایا اور غالِب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رُکوع میں پالے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رُکوع میں جائے ورنہاَللہُ اَکْبَرکہہ کر رُکوع میں جائے اور رُکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رُکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اُٹھالیا تو باقی ساقط ہو گئیں ( یعنی بَقِیَّہ تکبیریں اب نہ کہے) اور اگر امام کے رُکوع سے اُٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) جب اپنی( بَقِیَّہ ) پڑھے اُس وَقت کہے۔ اور رُکوع میں جہاں تکبیرکہنا بتایا گیا اُس میں ہاتھ نہ اُٹھائے اور اگر دوسری رَکعَت میں شامل ہوا تو پہلی رَکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اُس وَقت کہے۔ دوسری رَکعَت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پاجائے فبھا ( یعنی تو بہتر)۔ ورنہ اس میں بھی وُہی تفصیل ہے جو پہلی رَکعَت کے بارے میں مذکور ہوئی۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۲، دُرِّمُختار ج۳ص۶۴، عالمگیری ج۱ص۱۵۱)
امام نے نَمازِ عید پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامِل ہی نہ ہوا تھایا شامل تو ہوا مگر اُس کی نَماز فاسد ہو گئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ (بغیر جماعت کے) نہیں پڑھ سکتا ۔ہاں بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رَکعَت
چاشت کی نماز پڑھے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۶۷)
نَماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے اور خُطبۂ جُمُعہ میں جو چیزیں سنَّت ہیں اس میں بھی سنَّت ہیں اور جو وہاں مکروہ یہاں بھی مکروہ ۔صِرف دو باتوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جُمُعہ کے پہلے خطبے سے پیشتر خطیب کا بیٹھنا سنَّت تھا اور اِس میں نہ بیٹھنا سنَّت ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں پہلے خطبہ سے پیشتر 9 بار اور دوسرے کے پہلے7 بار اور منبر سے اُترنے کے پہلے 14 باراَللہُ اَکْبَرکہنا سنَّت ہے اور جمعہ میں نہیں ۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۸۳، دُرِّمُختار ج۳ص۶۷، عالمگیری ج۱ص۱۵۰)
عید کے دِن یہ اُمُور مُسْتَحَب ہیں :
٭ حجامت بنوانا(مگر زُلفیں بنوایئے نہ کہ اَنگریزی بال)٭ناخن ترشوانا٭ غسل کرنا٭ مسواک کرنا(یہ اُس کے علاوہ ہے جو وُضو میں کی جاتی ہے ) ٭ اچھے کپڑے پہننا ، نئے ہوں تو نئے ورنہ دُھلے ہوئی٭ خوشبو لگانا ٭انگوٹھی پہننا (جب کبھی انگوٹھی پہنئے تو اِس بات کا خاص خیال رکھئے کہ صِرف ساڑھے چار ماشے( یعنی چار گرام 374ملی گرام)سے کم وَزن چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنئے ، ایک سے زیادہ نہ پہنئے اور اُس ایک انگوٹھی میں بھی نگینہ ایک ہی ہو، ایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں ، بغیر نگینے کی بھی مت پہنئے، نگینے کے وَزن کی کوئی قید نہیں ، چاند ی کا چھلا یا چاندی کے بیان کردہ وَزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا چھلا مرد نہیں پہن سکتا) ٭ نَمازِ فَجْر مسجِد محلہ میں پڑھنا٭ عیدُ الْفِطْر کی نَماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا، تین ، پانچ ، سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں ۔کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھا لے۔ اگر نَماز سے پہلے کچھ بھی نہ کھایا تو گناہ نہ ہوا
مگر عشا تک نہ کھایا تو عتاب (یعنی ملامت) کیا جائے گا ٭ نَمازِ عید ، عیدگاہ میں ادا کرنا ٭عید گاہ پیدل چلنا٭ سواری پر بھی جانے میں حرج نہیں مگر جس کو پیدل جانے پرقدرت ہو اُس کیلئے پیدل جانا اَفضل ہے اور واپسی پر سُواری پر آنے میں حرج نہیں ٭ نَمازِ عید کیلئے عید گاہ جلد چلے جانا اور ایک راستے سے جانا اوردوسرے راستے سے واپس آنا٭عید کی نماز سے پہلے صَدَقَۂ فِطر ادا کرنا ٭ خوشی ظاہرکرنا٭کثرت سے صَدَقہ دینا٭ عید گاہ کو اِطمینان و وَقار اور نیچی نگاہ کئے جانا٭ آپس میں مبارک باد دینا٭ بعدنماز عید مصافحہ ( یعنی ہاتھ ملانا) اور معانقہ (یعنی گلے ملنا) جیسا کہ عموماً مسلمانوں میں رائج ہے بہتر ہے کہ اِس میں اِظہارِمسرت ہے، مگر اَمْرَد (یعنی خوبصورت لڑکے) سے گلے ملنا مَحَلِّ فِتنہ ہی٭ عِیدُ الْفِطْر کی نماز کیلئے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ سے تکبیر کہئے اورنمازِ عید اَضحٰی کیلئے جاتے ہوئے راستے میں بلند آواز سے تکبیر کہئے۔ تکبیریہ ہے:
اَللہُ اَکْبَرُ ؕ اَللہُ اَکْبَرُ ؕ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ ؕ اَللہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ؕ۔
ترجمہ :اللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اوراللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے ،اللہ عَزَّوَجَلَّسب سے بڑا ہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّہی کے لئے تمام خوبیاں ہیں ۔
(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۱، عالمگیری ج۱ص۱۴۹،۱۵۰ وغیرہ)
عیدِ اَضْحٰی ( یعنی بقر عید) تمام اَحکام میں عیدُ الْفِطْر ( یعنی میٹھی عید) کی طرح ہے۔ صِرف بعض باتوں میں فَرق ہے، مَثَلاً اِس میں ( یعنی بَقَر عید میں ) مُسْتَحَب یہ ہے کہ نَماز سے پہلے کچھ نہ کھائے چاہے قُربانی کرے یا نہ کرے اور اگر کھا لیا تو کراہت بھی نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ ص۱۵۲)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! ہر سال رَمَضانُ المُبارَک میں اعتکاف کی سعادت اور ماہِ رَمَضانُ المُبارَک کی خوب بَرَکتیں لوٹئے پھرعید میں عاشقانِ رسول کے ساتھ مَدنی قافلوں میں سنتوں بھرا سفر اختیار کیجئے ۔ ترغیب وتحریص کی خاطر ایک مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔ چنانچِہ بابُ المدینہ کراچی کے مین کورنگی روڈ کے قریب مقیم ایک اسلامی بھائی (عمر تقریباً25 برس) ایک گیراج (Garage) پر کام کرتے تھے۔ (اگر چہ فی نفسہٖ گیراج یعنی گاڑیوں کی مرمت کاکام غلط نہیں ، مگر آج کل گناہوں بھرے حالات ہیں ۔جن کو واسطہ پڑا ہوگا وہ جانتے ہوں گے کہ اکثر گیراج کا ماحول کس قدر گندا ہوتا ہے ، فی زمانہ گیراج میں کام کرنے والوں کیلئے حلال روزی کا حصول جُوئے شیر لانے کے مترادِف (مُ۔تَ۔را۔دِف) ہے۔) گیراج کے گندے ماحول کی نحوست کے سبب ان کو پنج وقتہ نماز کجا جمعہ بلکہ عیدین کی نمازوں کی بھی توفیق نہیں تھی، رات گئے تک T.V. پر مختلف فلمیں ڈرامے دیکھنے میں مشغول رہتے بلکہ ہر قسم کی چھوٹی بڑی برائیاں ان کے اندر موجود تھیں ۔ ان کی اصلاح کے اسباب یوں ہوئے کہ مکتبۃُ المدینہ سے جاری ہونے والے سنتوں بھرے بیان’’اللہ عَزَّوَجَلَّکی خفیہ تدبیر‘‘ کی کیسٹ سنی جس نے انہیں سرتا پا ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد رَمَضانُ المُبارَک میں اِعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی اور عاشقانِ رسول کے ساتھ تین دن کے مَدَنی قافلے میں سفر کا شرف ملا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو گئے، پانچوں وقت نمازوں کی پابندی ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّکاکروڑہا کروڑ احسان کہ وہ انسان جو عید کے بہانے بھی مسجِدکا رُخ نہیں کرتا تھا یہ بیان دیتے وقت تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی تنظیمی ترکیب کے مطابِق ایک مسجِد کی ذَیلی مُشاوَرَت کے نگران کی حیثیت سے بے نمازیوں کو نَمازی بنانے کی جستجو میں رہتے ہیں ۔
بھائی گر چاہتے ہو نمازیں پڑھوں ،مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
نیکیوں میں تمنا ہے آگے بڑھوں ،مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ!ہمیں عِیْدِ سَعید کی خوشیاں سُنَّت کے مطابق منانے کی توفیق عطا فرما۔ اور ہمیں حج شریف اور دِیا رِ مدینہ و تاجدارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّمکی دید کی مَدَنی عید بار بارنصیب فرما۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
تری جب کہ دید ہوگی جبھی میری عید ہوگی
مرے خواب میں تو آنا مَدَنی مدینے والے (وسائل بخشش ص۴۲۴)
کورنگی بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی ( عمر22 سال) بے نمازی، فلموں ڈراموں کے شوقین اور بگڑے ہوئے نوجوان تھے، برے ہم نشینوں کے ساتھ فیشن کی اندھیریوں میں بھٹک رہے تھے ، بری صحبت کی وجہ سے زندگی کے شب و روز گناہوں میں بسر ہو رہے تھے۔ ہلالِ ماہِ رَمَضانُ المُبارَک (۱۴۲۶ ھ ) آسمانِ دنیا پر ظاہر ہوا، رحمتِ خدواندی عَزَّوَجَلَّ کی بارِشیں برسنے لگیں ، ان پر بھی کرم کے چھینٹے پڑے اور وہ کریمیہ قادِریہ مسجِد کورنگی نمبر ڈھائی، بابُ المدینہ کراچی میں ہونے والے اجتماعی اِعتکاف میں رَمَضانُ المُبارَک کے آخری عشرہ میں مُعتَکِف ہو گئے۔ ان کی خزاں رَسیدہ زِندگی کی شام میں صبح بہاراں کے مَدَنی پھول کھلنے لگے ، ان کو توبہ کی توفیق نصیب ہوئی، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وہ نمازی بن گئے ، داڑھی اور عمامہ شریف سجانے کی سعادت مل گئی ، تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے ایک ماہ کے مَدَنی قافِلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ
سنتوں بھرا سفر نصیب ہوا، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ تا دم تحریر ایک مسجِد کے ذَیلی قافِلہ ذمے دار کی حیثیت سے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں میں حصہ لینے کی سعادت حاصِل کر رہے ہیں ۔
مرضِ عصیاں سے چھٹکارا چاہوا گر، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
آؤ آؤ اِدھر آ بھی جاؤ اِدھر، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۳۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم: قِیامت کے روزاللہ عَزَّوَجَلَّکے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ،تین شخص عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے ۔ عرض کی گئی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
!وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا: (1)وہ شخص جو میرے امتی کی پریشانی دُور کرے (2)میری سنت زندہ کرنے والا(3)مجھ پر کثرت سے دُرُود شریف پڑھنے والا۔ (اَلْبُدُوْرُ السّافِرَۃ ص۱۳۱حدیث ۳۶۶)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی بھی عادت بنانی چاہئے کہ اس میں بے شمار دینی و دُنیوی فوائد ہیں اور ثواب تو اِتنا ہے کہ مت پوچھو بات! آدمی کا جی چاہے کہ بس روزے رکھتے ہی چلے جائیں ۔ دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت ،جہنَّم سے نَجات اور جنت کا حصول شامل ہیں اور جہاں تک دُنیوی فوائد کاتعلق ہے تودن کے اندر کھانے پینے میں صرف ہونے والے وَقت اور اَخراجات کی بچت، پیٹ کی اِصلاح اور بہت سارے اَمراض سے حفاظت کا سامان ہے ۔ اور تمام فوائد کی اَصل یہ ہے کہ روزے دارسےاللہ عَزَّوَجَلَّراضی ہو تاہے۔
اللہ تبارَکَ وَ تَعَالٰی پارہ 22 سُوْرَۃُ الْاَحْزَابکی آیت نمبر 35میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵) (پ۲۲، الاحزاب:۳۵)
ترجَمۂ کنزالایمان:اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اوراللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کیلئےاللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیّار کر رکھا ہے۔
وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ (ترجمہ: اور روزے والے اور روزے والیاں ) کی تفسیرمیں حضرتِ علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن احمدنسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں ۔منقول ہے : جس نے ہر مہینے ایامِ بیض (یعنی چاندکی13، 14،15 تاریخ)کے تین روزے رکھے وہ روزے رکھنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ (تفسیرِ مَدارک ج۲ص۳۴۵)
اللہ تبارَکَ وَ تَعَالٰی پارہ 29 سُوْرَۃُ الْحَآقَّہکی آیت نمبر24میں ارشاد فرماتا ہے:
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا هَنِیْٓــٴًـۢا بِمَاۤ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ(۲۴)
ترجَمۂ کنزالایمان:کھاؤ اور پیو رچتا ہوا صلہ اس کا جو تم نے گزرے دنوں میں آگے بھیجا۔
حضرت شاہ عبد العزیز محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی آیتِ کریمہ کے اِس حصے: (گزرے ہوئے دنوں میں ) کے تحت لکھتے ہیں : یعنی دنیا کے دنوں میں سے گزشتہ دنوں میں یا ان دنوں میں جو کہ کھانے اور پینے سے خالی تھے اور وہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزوں کے دن ہیں اور دوسرے مسنون روزوں کے ایا م جیسے ایامِ بیض (یعنی چاندکی13، 14، 15 تاریخ)، عرفہ (یعنی 9 ذُو الحِجَّۃِ الْحرام) کا دن ، روزِ عاشورا ، پیر کا دن، جمعرات کا دن اور شبِ براءَ ت کا دن وغیرہ۔
(تفسیرِ عزیزی ج۲ص۱۰۳) حضرتِ سیِّدُنا امام مجاہد علیہ ر حمۃ اللہ الواحد فرماتے ہیں : فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِ (گزرے ہوئے دنوں میں ) سے مُراد روزوں کے دن ہیں اب مطلب یہ ہوا کہ تم کھاؤ اور پیو اس کے بدلے میں جو تم نے روزے کے دنوں میں اللہ تَعَالٰی کی رضا میں خود کو کھانے پینے سے روکا۔( لہٰذا جنت میں کھاناپینا دنیا میں کھانے پینے سے رکنے کا بدل ہوجائے گا) (تفسیر رُوحُ البَیان ج۷ص۱۴۳)
جس نے ایک نفل روزہ رکھا اُس کیلئے جنت میں ایک دَرَخت لگا دیا جائے گا جس کا پھل اَنار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائِقہ ہوگا، اللہ عَزَّوَجَلَّبروزِ قیامت روزہ دار کو اُس دَرَخت کا پھل کھلا ئے گا۔ (مُعْجَم کَبِیْر ج۱۸ص۳۶۶حدیث۹۳۵)
جس نے ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے ایک نفْل روزہ رکھااللہ عَزَّوَجَلَّاُسے دوزخ سے چالیس سال (کی مسافت کے برابر) دُور فرمادے گا۔ (جَمعُ الجَوامع ج۷ص۱۹۰حدیث۲۲۲۵۱)
جس نے رِضائے الٰہیعَزَّوَجَلَّکیلئے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تواللہ عَزَّوَجَلَّاُسکے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوارکی پچاس سالہ مسافت(یعنی فاصلے) تک دور فرمادے گا۔(کَنز العُمّال ج۸ ص۲۵۵ حدیث ۲۴۱۴۹)
اگر کسی نے ایک دِن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اُسے دیا جائے جب بھی اِس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دِن ملے گا۔ ( اَبو یَعْلٰی ج۵ص۳۵۳حدیث۶۱۰۴)
جس نےاللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں ایک دن کا فرض روزہ رکھا، اللہ عَزَّوَجَلَّاُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا ساتوں زمینوں اور آسمانوں کے مابین (یعنی درمیان) فاصلہ ہے۔اور جس نے ایک دن کا نفل روزہ رکھااللہ عَزَّوَجَلَّاُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا زمین و آسمان کا درمیانی فاصِلہ ہے۔ (مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۳ص۴۴۵حدیث۵۱۷۷)
جس نے ایک دن کا روزہاللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا حاصل کرنے کیلئے رکھااللہ عَزَّوَجَلَّاُسے جہنَّم سے اتنا دُور کردے گا جتنا کہ ایک کوا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے یہاں تک کہ بوڑھا ہوکرمرجائے۔( اَبو یَعْلٰی ج۱ ص۳۸۳ حدیث ۹۱۷)
حضرتسیِّدُناابواُمامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمجھے ایسا عمل بتایئے جس کے سبب جنت میں داخل ہو جاؤں ۔‘‘ فرمایا : ’’ روزے کو خود پر لازم کر لوکیونکہ اس کی مثل کوئی عمل نہیں ۔‘‘ راوی کہتے ہیں :’’ حضرتِ سیِّدُناابو اُمامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر دن کے وَقت مہمان کی آمد کے علاوہ کبھی دُھواں نہ دیکھا گیا( یعنی آپ دن کو کھانا کھاتے ہی نہ تھے روزہ رکھتے تھے)۔‘‘ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج ۵ص ۱۷۹حدیث ۳۴۱۶)
صُوْمُوْا تَصِحُّوا۔یعنی روزہ رکھوتَندُرُست ہو جاؤ گے۔ (مُعْجَم اَوْسَط ج۶ص۱۴۶حدیث۸۳۱۲)
قیامت کے دن جب روزے دار قبروں سے نکلیں گے تو وہ روزے کی بو سے پہچانے جائیں گے،ان کے لئے دسترخوان لگایا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا:’’ کھاؤ !کل تم بھوکے تھے، پیو ! کل تم پیاسے تھے، آرام کرو!کل تم تھکے ہوئے تھے۔‘‘ پس وہ کھائیں گے پئیں گے اور آرام کریں گے حالانکہ لوگ حساب کی مَشَقَّت اور پیاس میں مُبتَلاہوں گے۔
(جَمْعُ الْجَوامِع ج۱ص۳۳۴حدیث۲۴۶۲)
جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہتے ہوئے انتقال کر گیاتو وہ جنت میں داخل ہوگا۔اور جس نے کسی دِ ناللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے روزہ رکھا ، اسی پر اس کا خاتمہ ہوا تو وہ داخِلِ جنت ہوگا۔اورجس نےاللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے صَدَقہ کیا ، اسی پر اس کا خاتمہ ہوا تو وہ داخلِ جنت ہوگا۔ (مُسند امام احمد ج۹ ص۹۰حدیث۲۳۳۸۴)
حضرت سَیِّدَتنا اُمِّ عمارَہ بنت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : سلطانِ دو جہان، شہنشاہِ کون و مکان، رحمتِ عالمیانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیرے یہاں تشریف لائے، میں نے کھاناپیش کیا تو ارشاد فرمایا: ’’تم بھی کھاؤ!‘‘ میں نے عرض کی: ’’ میں روزے سے ہوں ۔‘‘ تو فرمایا: ’’ جب تک روزے دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے فرشتے اُس روزہ دار کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں ۔‘‘ (تِرمذی ج۲ص۲۰۵حدیث۷۸۵ )
سرکارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرتِ بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے بلال!( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) آؤناشتہ کریں ۔ ‘‘ تو(حضرتِ سیِّدُنا) بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:’’ میں روزے سے ہوں ۔‘‘تو رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’ ہم اپنا رِزق کھا رہے ہیں اور بلال (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کا رِزق جنت میں بڑھ رہا ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے بلال ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جتنی دیر تک روزہ دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اُس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں ، اسے فرشتے دُعائیں دیتے ہیں ۔‘‘ ( ابنِ ماجہ ج۲ ص ۳۴۸ حدیث ۱۷۴۹)
’’جو روزے کی حالت میں مَرا ، اللہ تَعَالٰی قِیامت تک کیلئے اُس کے حساب میں روزے لِکھ دے گا۔ ‘‘
(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۳ ص۵۰۴حدیث ۵۵۵۷)
خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے روزے کی حالت میں موت آئے بلکہ کسی بھی نیک کام کے دَوران موت آنا اچھی بات ہے ۔ مَثَلًا با وُضو یا دورانِ نَماز مرنا، سفرمدینہ کے دَوران رُوح قبض ہونا، دَورانِ حج مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً،مِنٰی، مُزدَلفہ یا عرفات شریف میں انتقال، دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ہمراہ سنتوں بھرے سفر کے دَوران دنیا سے رخصت ہونا، یہ سب عظیم سعادتیں ہیں جو کہ صرف خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی ہیں ۔ اس سلسلے میں صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی نیک تمنا ئیں بیان کرتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا خَیْثَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناِس بات کو پسند کرتے تھے کہ کسی اچھے کام مَثَلاً حج ، عمرہ ، غزوہ (جِہاد) ، رَمضان کے روزے وغیرہ کے دوران موت آئے۔‘‘ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۴ص۱۲۳)
نیک کام کے دَوران موت سے ہم آغوش ہونے کی سعادت صرف مقدر والوں کا حصّہ ہے۔ اِس ضمن میں تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے اجتماعی سنتِ اعتکاف کی ایک مَدَنی بہار ملا حظہ فرمایئے اور زندگی بھر کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہنے کا عزمِ مُصَمَّم کر لیجئے۔ مدینۃُ الاولیا احمد آباد شریف ( گجرات، الھند) کے کالو چاچا(عمر تقریباً 60 برس ) رَمَضانُ المُبارَک (۱۴۲۵ ھ ،2004)کے آخری عشرے میں شاہی مسجِد( شاہِ عالم، احمد آباد شریف) میں مُعتکِف ہو گئے۔ یو ں تو یہ پہلے ہی سے مَدَنی ماحول سے وابستہ تھے مگر عاشِقانِ رسول کے ساتھ اعتکاف پہلی ہی بارکیا تھا۔ اعتکاف میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور ساتھ ہی ساتھ دعوت اسلامی کے 72 مَدَنی اِنعامات میں سے پہلی صف میں نماز پڑھنے کی ترغیب والے دوسرے مَدَنی اِنعام پر عمل کاخوب جذبہ ملا ۔ 2 شوال المکرم یعنی عیدُ الفِطْر کے دوسرے روز ،سنتوں کی تربیت کے تین دن کے مَدَنی قافلے میں عاشِقانِ رسول کے ہمراہ سنتوں بھرا سفر کیا۔ مَدَنی قافلے سے واپسی کے پانچ یا چھ دن بعد یعنی 11شوال المکرم ۱۴۲۵ ھ 24 نومبر2004ء کوکسی کام سے بازار جانا ہوا،گو مصروفیت تھی مگر تاخیر کی صورت میں پہلی صف فوت ہونے کاخدشہ تھا، لہٰذا سارا کام چھوڑ کر مسجد کا رُخ کیا اور اذان سے قبل ہی مسجد میں پہنچ گئے، وُضو کر کے جوں ہی کھڑے ہوئے فوراً گر پڑے ، کَلِمہ شریف اور دُرُودِ پاک پڑھتے ہوئے اُن کی رُوح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی، اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ سُبْحٰنَ اللہِ! جس کو مرتے وَقت کَلِمَہ شریف پڑھنے کی سعادت نصیب ہوجائے اِن شَآءَاللہ عَزوَجَلَّاُس کا قَبْروحَشْرمیں بیڑا پار ہے ۔ چُنانچِہ نبیِّ رَحمت، شفیعِ اُمّت،مالِکِ جنّتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ جنّت نِشان ہے: ’’جس کا آخِری کلام لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہو،وہ داخِلِ جنّت ہو گا۔‘‘( ابو دَاوٗد ج ۳ ص ۲۵۵ حدیث۳۱۱۶) مزید دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کی بَرَکت سنئے : انتِقال کے چند روز بعد ان کے فرزند نے خواب میں دیکھا
کہ والد مرحوم سفید لباس میں ملبوس سر پر سبز سبز عمامہ شریف کا تاج سجائے مسکراتے ہوئے فرما رہے ہیں : بیٹا! دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں میں لگے رہو کہ اِسی مَدَنی ماحول کی برکت سے مجھ پر کرم ہوا ہے۔
موت فضلِ خدا سے ہو ایمان پر، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
ربّ کی رَحمت سے جنت میں پاؤ گے گھر، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سَیِّدُناابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں کہ سرکارِمدینۂ منوّرہ ، سردارِمکّۂ مُکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک سمندری جہاد میں بھیجا۔ ایک اندھیری رات میں جب کشتی کے باد بان اُٹھا دیئے گئے تو ہاتف غیب نے پکارا: ’’ اے سفینے والو!ٹھہرو! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہاللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے ذمّۂ کرم پر کیا لیا ہے؟‘‘ حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’ اگر تم بتا سکتے ہو تو ضرور بتاؤ۔‘‘ اُس نے کہا:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے ذِمّۂ کرم پر لے لیا ہے کہ جو شدید گرمی کے دن اپنے آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے پیاسا رکھےاللہ عَزَّوَجَلَّاسے سخت پیاس والے دن( یعنی قیامت میں ) سیراب کرے گا۔‘‘راوی فرماتے ہیں :حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عادت تھی کہ سخت گرمی کے دن روزہ رکھتے تھے۔ (اَلتَّرْغِیْب وَالتَّرْھِیْب ج۲ص۵۱حدیث۱۸)
تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن رَباح اَنصاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں ،میں نے ایک راہِب سے سنا :’’ قِیامت کے دن دستر خوان بچھائے جائیں گے، سب سے پہلے روز ے دار اُن پر سے کھائیں گے۔‘‘
(ابنِ عَساکِر ج۵ص۵۳۴)
{۱}عاشورا (یعنی 10 محرَّمُ الْحرام) کے دن حضرتِ سیِّدُنا نوحعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری{۲} اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی لغزش کی توبہ قبول ہوئی {۳}اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونسعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی قوم کی توبہ قبول ہوئی{۴} اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پیدا ہوئے {۵}اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پیدا کئے گئے ([1]){۶} اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور اُن کی قوم کو نجات ملی اور فرعون اپنی قوم سمیت غرق ہوا ([2]){۷} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یوسفعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکو قید خانے سے رہائی ملی {۸} اسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے ([3]){۹}سیِّدُنا امامِ حسین عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو مع شہزادگان و رُفقا تین دن بھوکا پیا سارکھنے کے بعد اِسی عاشورا کے روز دشتِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱} حضور اکرم، نُورِ مُجَسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :’’رَمضان کے بعدمُحرَّم کا روزہ افضل ہے اورفر ض کے بعد افضل نماز صَلٰوۃُ اللَّیل (یعنی رات کے نوافِل) ہے۔‘‘ ( مسلم ص۵۹۱حدیث۱۱۶۳)
{۲}طبیبوں کے طبیب ، اللہ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ رَحمت نشان ہے: مُحرَّم کے ہر دن کا روزہ ایک مہینے کے روزوں کے برابر ہے۔ (مُعجَم صغیر ج ۲ ص ۷۱)
{۳}حضرت سَیِّدُنا عبد اللہ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا ارشاد ِگرامی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب مدینۃُ الْمُنَوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں تشریف لائے، یہو د کو عاشورے کے دن روزہ دار پایا تو ارشاد فرمایا: یہ کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟عر ض کی:یہ عظمت والا دن ہے کہ اِس میں موسیٰ عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اوراُن کی قوم کو اللہ تَعَالٰی نے نجات دی اور فرعون اور اُس کی قوم کو ڈُبو دیا، لہٰذا موسٰیعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بطورِشکرانہ اِس دن کا روزہ رکھا، تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ۔ارشاد فرمایا : موسیٰعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حق دار اور زیادہ قریب ہیں ۔ تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خود بھی روزہ رکھا اور اِس کا حکم بھی فرمایا۔ (مسلم ص۵۷۲حدیث۱۱۳۰) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ جس روزاللہ عَزَّوَجَلَّکوئی خاص نعمت عطا فرمائے اُس کی یادگار قائم کرنا دُرُست و محبوب ہے کہ اس طرح اُس نعمتِ عُظمٰی کی یاد تازہ ہوگی اوراُس کا شکر ادا کرنے کا سبب بھی ہوگا خود قراٰنِ عظیم میں ارشاد فرمایا :
وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ- (پ۱۳،ابرٰھیم:۵)
ترجَمۂ کنزالایمان:اور انھیں اللہ کے دن یاددلا۔
صدرُ الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ’’ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ‘‘ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللہ عَزَّوَجَلَّنے ا پنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَنّ و سَلْویٰ اُتارنے کا دن، حضر ت سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن۔ ان اَیّام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سیِّدِ عا لمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی وِلادت ومعراج کے دن ہیں ان کی یاد قائم کرنا بھی اِس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ (خزائنُ العِرفان ص۴۷۹مُلَخّصاً )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُلطانِ مدینۂ منوَّرہ ، شَہَنْشاہِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یوم ولادت سے بڑھ کرکون سا دن’’ یومِ اِنعام‘‘ ہوگا؟ بے شک تمام نعمتیں آپ ہی کے طفیل ہیں اورآپ کا یومِ ولادت تو عیدوں کی بھی عید ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کی طرف سے دنیا میں لاتعداد مقامات پر ہر سال عیدِ مِیلادُ النَّبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شاندار طریقے پر منائی جاتی ہے ۔ ربیع الاوّل شریف کی 12ویں شب کو عظیم ُ الشان اِجتماع میلاد کا اِنعقاد ہوتا ہے اور بِالخُصُوص میرے حسنِ ظن کے مطابق اُس رات دنیا کا سب سے بڑا’’ اجتماعِ میلاد ‘‘بابُ المدینہ کراچی میں منعقد ہوتا اور مدنی چینل پربراہِ راست(Live) ٹیلے کاسٹ کیا جاتا ہے۔ عید کے روز مرحبا یا مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دُھومیں مچاتے ہوئے بے شمار جلوسِ میلاد نکالے جاتے ہیں جن میں لاکھوں عاشقانِ رسول شریک ہوتے ہیں ۔
عید میلادُ النَّبی تو عید کی بھی عید ہے
با لیقیں ہے عید عیداں عیدِ میلاد النَّبی (وسائلِ بخشش ص۳۸۰)
{۴}سَیِّدُنا عبداللہ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں :’’میں نے سلطانِ دوجہان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کسی دن کے روز ے کو اور دن پر فضیلت د ے کرجستجو (رغبت)فرماتے نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشورے کا دن اور یہ کہ رَمضان کا مہینا۔‘‘( بُخارِی ج۱ص۶۵۷حدیث۲۰۰۶)
{۵}نبیِّ رَحمت ،شفیع امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: یومِ عاشورا کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی مخالفت کرو، اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔ (مُسْنَد اِمَام اَحْمَد ج۱ص۵۱۸ حدیث۲۱۵۴) عاشورے کا روزہ جب بھی رکھیں تو ساتھ ہی نویں ۹ یا گیارہویں ۱۱مُحرَّمُ الحرامکا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے۔
{۶}حضرتِ سیِّدُنا ابوقتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ بخشش نشان ہے: مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشورے کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹادیتاہے۔ (مُسلِم ص۵۹۰حدیث۱۱۶۲)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 166 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ اسلامی زندگی‘‘ صَفْحَہ 131 پر مُفَسّرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں : مُحرَّم کی نو۹یں اور دسو۱۰یں کو روزہ رکھے تو بہت ثواب پائے گا ، بال بچوں کیلئے دسو۱۰یں مُحرَّمکو خوب اچھے اچھے کھانے پکائے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ سال بھر تک گھر میں بَرکت رہے گی۔بہتر ہے کہکھچڑا پکا کر حضرتِ شہید کربلا سیِّدُناامامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فاتحہ کرے بہت مجرب (یعنی فائدہ مند، مؤثِّر وآزمودہ) ہے۔ (اسلامی زندگی ص ۱۳۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پارہ10 سُوْرَۃُ التَّوبَہآیت 36میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۳۶)
ترجَمَۂ کنزُا لایمان:بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں ، جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں ، یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہروقت لڑتے ہیں اورجان لو کہاللہ پرہیزگارں کے ساتھ ہے۔
بیان کردہ آیتِ مبارَکہ کے تحت صدرُالْاَ فاضِل حضرت علامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی’’خَزائِنُ العِرفان‘‘میں فرماتے ہیں :(چار حرمت والے مہینوں سے مراد ) تین متصل (یعنی یکے بعد دیگرے) ذُوالْقَعدہ ،ذُوالْحِجّہ،مُحرَّماور ایک جدا رجب ۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان میں قتال (یعنی جنگ ) حرام جانتے تھے۔ اسلام میں ان مہینوں کی حرمت وعظمت اور زیادہ کی گئی۔ (خزائنُ العرفان ص۳۰۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آیتِ مبارَکہ میں قمری(یعنی ہجری سن کے12) مہینوں کا ذِکر ہے جن کا حساب چاند سے ہوتا ہے ، بہت سے اَحکامِ شرع کی بنا(یعنی بنیاد) بھی قمری مہینوں پر ہے،مَثَلاً رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے، زَکوٰۃ، مَناسک حج شریف وغیرہ۔ نیز اسلامی تہوار مَثَلاً عید میلادُ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، عید الفطر ، عیدُ الْاَضْحٰی، شبِ معراج،شبِ بر ا ئَ ت ،گیارہویں شریف،اَعراسِ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن وغیرہ بھی قمری مہینوں کے حساب سے منائے جاتے ہیں ۔ افسوس! آجکل مسلمان جہاں بے شمار سنتوں سے دُور جاپڑا ہے وَہاں اسلامی تاریخوں سے بھی ناآشنا
ہوتا جارہا ہے ۔غالِباً ایک لاکھ مسلمانوں کے اجتماع میں اگر یہ سُوال کیا جائے کہ ’’بتاؤ آج کس ہجری سن کے کون سے مہینے کی کتنی تاریخ ہے ؟‘‘تو شاید بمشکل سو مسلمان ایسے ہوں گے جو صحیح جواب دے سکیں ! یادرہے کہ بہت سے معاملات جیسے زکوٰۃکی فرضیت وغیرہ میں قمری مہینوں کا لحاظ رکھنا فرض ہے۔
حضرتِ سَیِّدُنا عیسٰی رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے دَور کا واقعہ ہے کہ ایک شخص کسی عورت پر عاشق تھا۔ایک بار اُس نے اپنی معشوقہ پر قابو پالیا،لوگوں کا مجمع دیکھ کر اُس نے اندازہ لگایا کہ وہ چاند دیکھ رہے ہیں ،اُس نے اُس عورت سے پوچھا:لوگ کس ماہ کا چاند دیکھ رہے ہیں ؟ جواب دیا:’’ رجب کا۔‘‘یہ شخص حالانکہ غیر مسلم تھا مگر رجب شریف کا نام سنتے ہی تعظیماً فوراً الگ ہوگیا اور’’ گندے کام‘‘ سے بازرہا۔حضرتِ سَیِّدُنا عیسٰی رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کوحکم ہوا : ’’ہما ر ے فلاں بندے سے ملاقات کرو۔‘‘آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تشریف لے گئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّکا حکم اور اپنی تشریف آوَری کا سبب ارشاد فرمایا۔یہ سنتے ہی اُس کا دل نورِ ایمان سے جگمگا اٹھا اور اُس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ (انیسُ الواعِظین ص۱۷۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھی آپ نے رجب کی بہاریں ! رجَبُ المُرَجَّب کی تعظیم کرنے سے جب ایک غیر مسلم کو ایمان کی دولت نصیب ہوسکتی ہے تو جو مسلمان رجَبُ الْمُرَجَّب کا احترام کرے اُس کو نہ جانے کیا کیا اِنعامات ملیں گے!قراٰنِ پاک میں حرمت(یعنی عزت ) والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے روکا گیا ہے چنانچہ’’نور العرفان‘‘ میں فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ (ترجَمَۂ کنزُا لایمان: تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو) کے تحت ہے:’’یعنی خصوصیَّت سے ان چار مہینوں میں گناہ نہ کرو۔‘‘ (نورُالعرفان ص۳۰۶)
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:رَجَبٌ شَہْرُ اللہ تَعَالٰی وَشَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ اُمَّتِیْ ۔ یعنی رَجب اللہ تَعَالٰی کا مہینا اور شعبان میرا مہینا اوررَمضان میری اُمت کا مہینا ہے۔
(اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۲۷۵ حدیث ۳۲۷۶)
حضرتسیِّدُنا عبد اللہ ابنِ زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے :جو ماہِ رجب میں کسی مسلمان کی پریشانی دورکرے تواللہ عَزَّوَجَلَّاُس کو جنت میں ایک ایسا محل عطا فرمائے گا جو حد نظر تک وسیع ہوگا۔تم رجبکا اکرام (واحترام) کرو اللہ تَعَالٰی تمہار ا ہزار کر امتوں کے ساتھ اِکرام فرمائے گا۔
(غُنیۃُ الطّالِبین ج۱ ص۳۲۴،معجمُ السّفر لِلسّلفی ص۴۱۹رقم۱۴۲۱)
حضرت سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، سرکارِ نامدار، دوعالم کے مالک ومختار بِاِذنِ پروَردَگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مشکبار ہے: ’’جس نے ماہِ حرام میں تین دن جُمعرات، جُمُعہ اور ہفتہ (یعنی سنیچر)کے روزے رکھے ، اس کے لئے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔‘‘
(مُعْجَم اَ وْسَط ج۱ص۴۸۵حدیث۱۷۸۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں ’’ماہِ حرام‘‘ سے یہی چار ماہ یعنی ذُوالْقَعدہ ، ذُوالْحِجّہ ، مُحرّمُ الْحرام اور رَجَبُ الْمُرَجَّب مُرادہیں ،ا ن چاروں مہینوں میں سے جس ماہ میں بھی بیان کردہ تین دنوں کا روزہ رکھیں گے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ دوسال کی عبادت کاثواب پائیں گے ۔
تیرے کرم سے اے کریم !مجھے کون سی شے ملی نہیں
جھولی ہی میری تنگ ہے،تیرے یہاں کمی نہیں
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’رجب ‘‘دراصل ’’تَرجِیْب‘‘ سے مُشْتَق (یعنی نکلا ) ہے اِس کے معنٰی ہیں : ’’تعظیم کرنا۔‘‘ اِس کو اَلْاَصَبْ (یعنی تیز بہاؤ) بھی کہتے ہیں اِس لئے کہ اس ماہِ مبارَک میں توبہ کرنے والوں پر رَحمت کا بہاؤ تیز ہوجاتا اور عبادت کرنے والوں پر قبولیت کے انوار کا فیضان ہوتا ہے ۔ اسے اَلْاَصَمّ (یعنی بہرا) بھی کہتے ہیں کیونکہ اِس میں جنگ و جَدَل کی آواز بالکل سنائی نہیں دیتی ۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۳۰۱)
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّا! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ماہِ رَجبُ المُرَجَّب کی بہاروں کی توکیا ہی بات ہے! ’’مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب‘‘میں ہے، بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن فرماتے ہیں : ’’رجب‘‘ میں تین حروف ہیں : ر،ج،ب، ’’ر‘‘سے مراد رَحمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ، ’’ج‘‘ سے مُراد بندے کا جرم،’’ب‘‘ سے مُراد بِرّ یعنی اِحسان۔ گویااللہ عَزَّوَجَلَّفرماتا ہے: میرے بندے کے جرم کو میری رَحمت اوراحسان کے درمیان کردو۔
(مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۳۰۱)
عصیاں سے کبھی ہم نے کَنَارا نہ کیا پر تو نے دل آزُردَہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنَّم کی بہت کی تجویز لیکن تری رَحمت نے گوارا نہ کیا
حضرت سَیِّدُنا علامہ صفوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : رَجَبُ الْمُرَجَّب بیج بونے کا، شَعْبانُ الْمُعَظَّم آبپاشی(یعنی پانی دینے ) کا اور رَمَضانُ الْمُبارَک فصل کاٹنے کا مہینا ہے،لہٰذا جو رَجَبُ الْمُرَجَّب میں عبادت کا بیج نہ بوئے اور شَعْبانُ الْمُعَظَّم میں اُسے آنسوؤں سے سیراب نہ کرے وہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں فصلِ رَحمت کیوں کر کاٹ سکے گا؟مزید فرماتے ہیں :
رَجَبُ الْمُرَجَّب جسم کو ، شَعْبانُ الْمُعَظَّم دل کو اور رَمَضانُ الْمُبارَک رُوح کو پاک کرتا ہے۔
(نُزْہَۃُ الْمَجالِس ج۱ص۲۰۹)
میٹھے میٹھے ا سلامی بھائیو!رَجَبُ الْمُرَجَّب میں عبادت اور روزوں کا ذہن بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ رہئے۔ سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں کے مسافر بنئے اور اجتماعی اعتکاف میں حصّہ لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کے دونوں جہاں سنور جائیں گے۔ ترغیباً ایک خوشگوار مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں : سعید آباد ،بلدیہ ٹاؤن، بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی اُن دنوں میڑک کے طالبِ علم تھے، وہ اپنے مکان مالِک جوکہ دعوتِ اسلامی والے تھے اُن کی انفرادی کوشِش سے اُن کے ساتھ تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے تحت غوثیہ مسجِد، نیو سعید آباد، میمن کالونی میں ہونے والے رَمَضانُ المبارَک کے آخِری عشرے کے ’’اعتکاف‘‘ میں بیٹھ گئے ۔ المختصر انہوں نے اُن دس دنوں میں وہ کچھ سیکھا جو پچھلی تمام زندگی میں نہ سیکھ پائے تھے۔ اعتکاف ہی میں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کو مضبوطی سے اپنا لیا، وہیں سے مستقل عمامہ شریف سجا لیا، عید کے دوسرے دن عاشقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافِلے میں سنتوں بھرا سفر کیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ان پر مَدَنی رنگ چڑھتا چلاگیا اور انہیں تنظیمی طور پر’’ مَدَنی انعامات‘‘ کی ذمّہ داری بھی دی گئی۔
رحمتیں لوٹنے کے لئے آؤ تم،مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
سنتیں سیکھنے کیلئے آؤ تم،مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سیِّدُنا ابو اُمامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم، رء ُو ْفٌ رّ حیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظیم ہے:’’پانچ راتیں
ایسی ہیں جس میں دُعا رَد نہیں کی جاتی{۱}رجب کی پہلی (یعنی چاند )رات{۲}شعبان کی پندَرَھویں رات(یعنی شبِ برائَ ت ) {۳} شبِ جمعہ(یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات){۴} عیدالفطرکی (چاند )رات{۵} عیدُالْاَضْحٰی کی (یعنی ذُوالْحِجّہ کی دسویں ) رات ۔ ‘‘ ( ابنِ عَساکِر ج ۱۰ ص ۴۰۸)
حضرتسیِّدُناخالد بن معدان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں : سال میں پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیت ثواب ان کو عبادت میں گزارے گا، اللہ تَعَالٰی اُسے داخلِ جنت فرمائے گا {۱} رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں عبادت کرے اور اس کے دن میں روزہ رکھے {۲} شعبان کی پندرَھویں رات (یعنی شبِ برائَ ت) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے {۳،۴} عیدین کی راتیں (یعنی عید الفطر کی (چاند) رات اورشبِ عیدُ الْاَضْحٰی یعنی 9 اور 10 ذُو الْحِجّہ کی درمیانی رات ) کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے (عیدین میں روزہ رکھنا، ناجائز ہے) اور {۵} شب ِعاشورا (یعنی محرمُ الحرام کی دَسویں شب ) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے۔ ( فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب لِلخَلّال ص۱۰، غُنْیَۃُ الطّا لِبِیْن ج۱ ص۳۲۷)
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ’’رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے ، اور دوسرے دن کا روزہ دو سال کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے ،پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔‘‘ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر ص ۳۱۱ حدیث۵۰۵۱، فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب لِلخَلّال ص۷) یہاں ’’گناہ کا کفارہ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہ روزے ، گناہِ صغیرہ کی معافی کا ذَرِیعہ بن جاتے ہیں ۔
تابعی بزرگ حضرتِ سَیِّدُنا ابوقلابہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’رجب کے روزہ داروں کیلئے جنت میں ایک مَحَل ہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۸حدیث۳۸۰۲)
حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایک نہر ہے جسے ’’رجب‘‘ کہا جا تا ہے، وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے ،تو جو کوئی رجب کا ایک روزہ رکھے اللہ عَزَّوَجَلَّاسے اس نہر سے پلائے گا۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۷حدیث۳۸۰۰)
حضرت علّامہ شیخ عبدالحق محدث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نقل کرتے ہیں کہ سلطانِ مدینہ، قرارِ قلبِ و سینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے:ماہِ رجب حرمت والے مہینوں میں سے ہے، اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اِس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں ۔اگر کوئی شخص رجب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ(روزے والا)دن اس بندے کیلئےاللہ عَزَّوَجَلَّسے مغفِرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے:’’یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اِ س بندے کو بخش دے۔‘‘ اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگا ر ی کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اُس کی بخشِش کی درخواست نہیں کرتے اور اُس شخص سے کہتے ہیں : ’’اے بندے !تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا۔‘‘ (مَاثَبَتَ بِالسُّنۃ ص۲۳۴،فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب لِلخَلّال ص ۵۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ روزے کا مقصودِ اصلی تقویٰ اور پرہیز گاری اور اپنے اعضائِ بدن کو گناہوں سے بچانا ہے، اگر روزہ رکھنے کے باوجود بھی نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر بڑی محرومی کی بات ہے۔
حضرت سَیِّدُنااَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہرَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: جس نے رجب کاایک روزہ رکھا تو وہ ایک سال کے روزے رکھنے والوں کی طرح ہوگا،جس نے سات روزے رکھے اُس پر جہنَّم کے ساتوں دروازے بند کرد ئیے جا ئیں گے ، جس نے آٹھ روزے رکھے اُس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے،
جس نے دس روزے رکھے وہاللہ عَزَّوَجَلَّسے جو کچھ مانگے گا اللہ عَزَّوَجَلَّاُسے عطا فرما ئے گااور جو کوئی پندرہ روزے رکھتا ہے تو آسمان سے ایک منادی ندا(یعنی اعلان کرنے والااعلان) کرتا ہے کہ تیرے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے پس تو ازسر نوعمل شروع کر کہ تیری برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئیں ۔اور جو زائد کرے تواللہ عَزَّوَجَلَّاُسے زیادہ دے ۔اور’’ رَجب‘‘میں نوح (عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کشتی میں سوار ہوئے توخود بھی روزہ رکھا اور ہمراہیوں کو بھی روزے کا حکم دیا۔ان کی کشتی دس محرم تک چھ ماہ برسر سفر رہی۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۸حدیث۳۸۰۱)
ستّائیسویں رَجَبُ الْمُرَجَّب کی عظمتوں کے کیا کہنے !اِسی تاریخ میں ہمارے پیارے پیارے، میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو معراج شریف کاعظیم الشان معجز ہ عطا ہوا۔(شَرحُ الزَّرقانی عَلَی المَواہِبِ اللَّدُنِّیۃ ج۸ص۱۸) 27ویں رَجب شریف کے روزے کی بڑی فضیلت ہے جیسا کہحضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،اللہ عَزَّوَجَلَّکے محبوب ، دانائے غُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ ذِیشان ہے: ’’رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات قیام (عبادت)کرے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے ، سو برس کی شب بیداری کی اور یہ رَجب کی ستائیس(ست۔تا۔ئیس) تاریخ ہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمَان ج۳ص۳۷۴حدیث ۳۸۱۱ )
27 ویں شب کے12 نوافل کی فضیلت:
حضرت سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہرَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے۔ جو اس میں بارہ رَکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رَکعت میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃ اورکوئی سی ایک سورت اور ہر دو رَکعت پر اَلتَّحِیّاتُ (درود ِ ابراھیم اور دعا) پڑھے اور بارہ پوری ہونے پر سلام پھیرے ، اس کے بعد100بار یہ پڑھے: سُبْحٰنَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاللہُ اَکْبَر ، اِستغفار 100 بار ،دُرُود شریف 100بارپڑھے اوراپنی دنیاوآخرت
سے جس چیز کی چاہے دُعامانگے اور صبح کو روزہ رکھے تواللہ عَزَّوَجَلَّاس کی سب دُعائیں قَبو ل فرمائے سوائے اُس دُعا کے جوگناہ کے لئے ہو۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۷۴حدیث۳۸۱۲،فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص۶۴۸)
60 مہینوں کے روزوں کا ثواب
حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’جو کوئی ستّائیسویں رجب کا ر وزہ رکھے ، اللہ تَعَالٰی اُس کیلئے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھے۔‘‘ (فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ص۱۰)
حضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے : اللہ عَزَّوَجَلَّکے محبوب ، دانائے غُیُوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ ذِیشان ہے:’’رَجَب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قِیام (عبادت )کرے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رَجَب کی ستائیس تاریخ ہے۔ (شُعَبُ الایمان ج۳ ص۳۷۴ حدیث۳۸۱۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! رَجَبُ الْمُرجَّب کو ایک خصوصیَّت یہ بھی حاصل ہے کہ اِس کی ستائیسویں شب کو ہمارے میٹھے میٹھے مکی مَدَنی آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو ربُّ الْعُلٰی کی طرف سے معراج کامعجزہ عطا ہوا، آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ستائیسویں رات مسجِد الحرام سے مسجِد اقصیٰ ( بیت المقدس) اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر فرمائی ۔ جنت و دوزخ کے عجائبات ملا حظہ فرمائے۔ عرش کو اپنی قد م بوسی کاشرف بخشا اور عین بیداری کے عالم میں کھلی آنکھوں سے اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّکا دیدار کیا۔ یہ سارا سفر آن کی آن میں طے فرما کر واپس تشریف لے آئے۔ رَجَبُ الْمُرجَّب کی ستائیسویں شب بے حد عظمت والی ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قراٰن و
سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کی طرف سے ہر سال ستائیسویں شب کو جشنِ معراجُ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سلسلے میں دنیا میں بے شمار مقامات پر اجتماعِ ذکرونعت کا اِنعقاد کیا جاتاہے ۔میرے حسنِ ظن کے مطابق جشنِ معراج کا دنیا کا سب سے بڑا اجتماع سالہا سال سے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ باب المدینہ کراچی میں ہوتا ہے جو کہ تقریباًساری رات جاری رہتااور براہِ راست مدنی چینل پر ٹیلے کاسٹ کیا جاتا ہے۔
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزِل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آ لئے تھے (حدائقِ بخشش ص۲۳۷)
بصرہ کی ایک نیک خاتون نے بو قت وفات اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مجھے اُس کپڑے کا کفن دینا جسے پہن کر میں رَجَبُ الْمُرجَّب میں عبادت کیا کرتی تھی۔ بعد از وفات بیٹے نے کسی اور کپڑے میں کفنا کر دفنا دیا۔ جب وہ قبرستان سے گھر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ جو کفن اُس نے پہنایا تھا وہ گھرمیں موجود ہے! جب اُس نے ماں کی وصیت والے کپڑے تلاش کئے تو وہ اپنی جگہ سے غائب تھے۔اِتنے میں ایک غیبی آواز گونج اٹھی: ’’اپنا کفن واپَس لے لو ہم نے اُس کو اُسی کپڑے میں کفنایا ہے (جس کی اُس نے وصیت کی تھی) جو رَجب کے روزے رکھتاہے ہم اُس کو قبر میں رنجیدہ نہیں رہنے دیتے۔‘‘(نُزہَۃُ المجالِس ج۱ ص۲۰۸ )اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رجبُ
المرجَّب کے روزوں کی مَدَنی سوچ بنانے ، گناہوں کی عادت چھڑانے اور عبادت کی لذت
پانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ
اسلامی
کے مَدَنی
قافلے
میں
عاشقانِ
رسول
کے ہمراہ سنتوں بھرے سفر کا معمول بنا لیجئے۔ ترغیب کیلئے مَدَنی قافلے کی ایک مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے، شاہدرہ (مرکز الاولیا،لاہور) کے ایک اسلامی بھائی اپنے والدین کے اِکلوتے بیٹے تھے، زیادہ لاڈ پیار نے ان کو حد دَرَجے ڈھیٹ اورماں باپ کا سخت نافرمان بنا دیا تھا ، رات گئے تک آوارہ گردی کرتے اور صبح دیر تک سوئے رہتے ۔ ماں باپ سمجھاتے تو اُن کو جھاڑ دیتے، جس پروہ بے چارے بعض اوقات رو پڑتے۔ خوش قسمتی سے انہیں دعوتِ اسلامی والے ایک عاشقِ رسول سے ملاقات کی سعادت ملی انہوں نے مَحبَّت اور پیار سے اِنفرادی کوشِش کرتے ہوئے مَدَنی قافلے میں سفر کیلئے تیار کیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہوہ اسلامی بھائی عاشِقانِ رسول کے ہمراہ تین۳ دن کے مَدَنی قافلے کے مسافر بن گئے۔ نہ جانے ان عاشقانِ رسول نے تین۳ دن کے اندر کیا گھول کر پلا دیا کہ ان کا پتھر نما دل بھی موم بن گیا ، مَدَنی قافلے سے نَمازی بن کر لوٹے۔ گھر آ کر انہوں نے سلام کیا ، والد صاحِب کی دَست بوسی کی اور امی جان کے قدم چومے ۔ گھر والے حیران تھے! اس کو کیا ہو گیا ہے کہ کل تک جو کسی کی بات سننے کیلئے تیار نہیں تھا وہ آج اتنا باادب بن گیا ہے! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مَدَنی قافِلے میں عاشقانِ رسول کی صحبت نے انہیں یکسر بدل کر رکھ دیااور انہیں مسلمانوں کو نَمازِ فجرکیلئے جگانے یعنی صدائے مدینہلگانے کی تنظیمی طور پر ذِمّے داری کی سعادت ملی۔ (دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں مسلمانوں کو نَمازِ فَجر کیلئے اُٹھانے کو صدائے مدینہ لگانا کہتے ہیں )
بے شک اعمالِ بد، اور اَفعالِ بد کی چھٹیں عادتیں ، قافِلے میں چلو
کر سفر آئیں گے، تو سُدھر جائیں گے اب نہ سستی کریں ، قافِلے میں چلو (وسائلِ بخشش ص۶۷۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! عاشِقانِ رسول کی صحبت نے کس طرح ایک بے نمازی نوجوا ن کو دوسروں کو نماز کی دعوت دینے والا بنادیا! اس میں کوئی شک نہیں کہ صحبت ضرور رنگ لاتی ہے، اچھی صحبت اچھا اور بری صحبت برا بناتی
ہے۔ لہٰذا صحبت کے متعلق تین احادیثِ مبارَکہ ملاحظہ فرمایئے : {۱} اچھا ساتھی وہ ہے کہ جب تو خدا عَزَّوَجَلَّ کو یا د کرے تو تیری مدد کرے اور جب تو بھولے تو یاد دلائے (موسوعہ ابن ابی الدنیا ج۸ص۱۶۱حدیث۴۲ مُلَخّصاً) {۲}اچھا ہمنشین(یعنی اچھا ساتھی ) وہ ہے کہ اُس کو دیکھنے سے تمہیں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَزَّوَجَلَّ یاد آجائے اور اُس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر ص ۲۴۷ حدیث ۴۰۶۳ ) {۳}امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ایسی چیز میں نہ پڑو جوتمہارے لیے مفید نہ ہو اور دشمن سے الگ رہو اور دوست سے محتاط رہو مگر جبکہ وہ امین( یعنی امانت دار) ہو کہ امین کی برابری کا کوئی نہیں اور امین وُہی ہے جورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ڈرے ۔اور فاجر(یعنی اللہ و رسول کے نا فرمان) کے ساتھ نہ رہو کہ وہ تمہیں فُجُور (یعنی نافرمانی ) سکھائے گااور اُس کے سامنے بھید کی بات نہ کہو اور اپنے کام میں اُن سے مشورہ لو جورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ڈرتے ہیں ۔
(شُعَبُ الْاِیمان ج ۴ ص ۲۵۷ حدیث ۴۹۹۵)
بے نَمازیوں ، گالیاں بکنے والوں ، فلمیں ڈرامے دیکھنے اور گانے باجے سننے والوں ، جھوٹ، غیبت، چغلی، وعدہ خلافی کرنے والوں ، چوروں ، رشوت خوروں ، شرابیوں ، فاسقوں او ر فاجِروں نیز بدمذہبوں اور کافروں کی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا چاہئے۔ فتاوٰی رضویہ جلد 22 صفحہ237 پر ہے: میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں اِستفسار کیا (یعنی پوچھا) گیا: زانی اور دَیوث ( یعنی جو باوجودِ قدرت اپنی بیوی یا کسی بھی محرمہ کی بے حیائی کے کاموں کو برقرار دہنے دے ) سے کہاں تک اِحتراز(یعنی پرہیز) کرنا چاہئے؟ جواباً ارشاد فرمایا: ’’زانی و دیوث فاسق ہیں ، اُن کے پاس اُٹھنے بیٹھنے میل جول سے اِحتراز (بچنا)چاہئے ۔‘‘ یہ جواب دینے کے بعد آپ نے پارہ7 سُوْرَۃُ الْاَنْعَامکی آیت نمبر 68 تحریر فرمائی جس میں ارشادِخداوندی ہوتا ہے:
وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۶۸)
ترجَمۂ کنزالایمان:اور جو کہیں تجھے شیطان بھلا وے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔
مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّاناس آیت ِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں ،اس
سے معلوم ہوا کہ بری صحبت سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ برا یار برے سانپ سے بد تر ہے کہ برا سانپ جان لیتا ہے اور بر ا یار ایمان برباد کرتا ہے۔ ( نُورُالعِرفان ص ۲۱۵ )
عبادت میں ، ریاضت میں ، تلاوت میں لگا دے دل
رجب کا واسطہ دیتا ہوں فرما دے کرم مولیٰ (وسائلِ بخشش ص۹۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
رسول اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کا شعبانُ الْمُعظَّم کے بارے میں فرمانِ مکرم ہے: شَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ اللہ ۔ یعنی شعبان میرا مہینا ہے اور رَمضان اللہ کا مہینا ہے۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیرص۳۰۱حدیث۴۸۸۹)
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! ماہِ شعبانُ الْمعظَّم کی عظمتوں پر قربان ! اِ س کی فضیلت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا ،مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اسے ’’ میرا مہینا‘‘ فرمایا۔ سرکارِ غوثِ اعظم ،شیخ عبد القادِر جیلانی حنبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوَلیلفظ ’’شعبان‘‘ کے پانچ حروف :’’ش،ع،ب ، ا ،ن‘‘ کے مُتعلِّق نقل فرماتے ہیں : ش سے مراد’’شرف‘‘ یعنی بزرگی ،ع سے مراد’’ عُلُوّ‘‘ یعنی بلندی،ب سے مراد’’بِر‘‘ یعنی اِحسان، ’’ا‘‘ سے مُراد’’ اُلفت‘‘ اور ن سے مراد ’’نور‘‘ ہے ،تو یہ تمام چیزیں اللہ تَعَالٰی اپنے بندوں کو اِس مہینے میں عطا فرماتا ہے۔مزید فرماتے ہیں : ’’یہ وہ مہینا
ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، برکتوں کانزول ہوتا ہے، خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور گناہوں کا کفارہ ادا کیا جاتا ہے،اور خیرُالْبَرِیّہ، سَیِّدُ الْوریٰ جنابِ محمدمصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم پر دُرُود پاک کی کثرت کی جاتی ہے اور یہ نبیِّ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم پر دُرُود بھیجنے کا مہینا ہے۔‘‘(غُنْیَۃُ الطّالِبین ج ۱ ص ۳۴۱ ، ۳۴۲)
حضرتسَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان تِلاوتِ قراٰنِ پاک کی طرف خوب مُتَوَجِّہ ہوجاتے، اپنے اَموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غربا ومساکین مسلمان ماہِ رَمضان کے روزوں کے لئے تیاری کرسکیں ، حکام قیدیوں کوطلب کرکے جس پر ’’حد‘‘ ( یعنی شرعی سزا) جاری کرنا ہوتی اُس پر حَد قائم کرتے، بقیہ میں سے جن کو مناسب ہوتا اُنہیں آزاد کردیتے، تاجر اپنے قرضے ادا کردیتے، دوسروں سے اپنے قرضے وُصُول کرلیتے۔ (یوں ماہ ِ رَمَضانُ الْمبارَک سے قبل ہی اپنے آپ کو فارِغ کرلیتے) اور رَمَضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کرکے(بعض حضرات)اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔‘‘ (اَیضاًص۳۴۱ )
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! پہلے
کے مسلمانوں کو عبادت کاکِس قدرذَوق ہوتا تھا! مگر افسوس! آج کل کے مسلمانوں کو
زیادہ تر حُصولِ مال ہی کا شوق ہے۔ پہلے کے مَدَنی سوچ رکھنے والے مسلمان متبرک
ایّام (یعنی
برکت والے دِنوں ) میں ربُّ الانام عَزَّوَجَلَّ کی
زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اُس کا قرب حاصِل کرنے کی کوششیں کرتے تھے اور آج کل کے
بعض مسلمان مُبارَک دنوں ، خصوصاً ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں دنیا کی ذلیل
دولت کمانے کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّاپنے
بندوں پر مہربان ہوکر نیکیوں کا اَجر و ثواب خوب بڑھادیتا ہے، لیکن دنیا کی دولت
سے مَحَبَّت کرنے
والے لوگ رَمَضانُ
المبارَک
میں اپنی چیزوں کا بھاؤ بڑھا کرغریب مسلمانوں کی پریشانیوں میں
اضافہ کردیتے ہیں ۔ صد کروڑ افسوس! خیرخواہیِ مسلمین کا جذبہ اب دم توڑتا نظرآ رہا ہے! ؎
ا ے خاصۂِ خاصانِ رُسُل وقتِ دُعا ہے اُمّت پہ تِری آکے عَجَب وَقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریبُ الغربا ہے
فَریاد ہے اے کشتیِ اُمت کے نگہبان بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سرکار مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ،صاحِبِ مُعطّر پسینہ،باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: ’’رَمضان کے بعد سب سے افضل شعبان کے روزے ہیں ، تعظیمِ رَمضان کیلئے۔ ‘‘ ( شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۷۷حدیث۳۸۱۹)
بخاری شریف میں ہے:حضرتِ سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَشعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیتے اور فرمایا کرتے: اپنی اِستطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّاُس وَقت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جاؤ ۔ (بُخاری ج۱ ص۶۴۸ حدیث۱۹۷۰)
شارِحِ بخاری حضرتِ علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے تَغْلِیباً (تَغ۔لی۔باً یعنی غلبے اور زِیادت کے لحاظ سے) کل (یعنی سارے
مہینے کے روزے رکھنے) سے تعبیر کردیا ۔جیسے کہتے ہیں : ’’فلاں نے پوری رات عبادت کی‘‘ جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اورضروریات سے فراغت بھی کی ہو، یہاں تَغْلِیباًاکثر کو ’’کل‘‘ کہہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں : اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھے ۔البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رَمضان کے روزوں پر اثر پڑے گا،یہیمَحْمَل (مَح۔مَل یعنی مرادو مقصد) ہے ان احادیث(مَثَلاً ترمذی، حدیث 738 وغیرہ ) کا جن میں فرمایا گیا :’’ نصف(یعنی آدھے) شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو ۔‘‘ [ ترمذی حدیث۷۳۸] (نزہۃ القاری ج۳ص۳۷۷،۳۸۰ )
حضرت سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں :تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے ۔ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی : یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیا سب مہینوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان کے روزے رکھنا ہے ؟ تو محبوبِ ربُّ العبادصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّاس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرا وَقتِ رُخصت آئے اور میں روزہ دار ہوں ۔
(اَبو یَعْلٰی ج۴ص۲۷۷حدیث۴۸۹۰ )
حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن ابی قیسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہے کہ اُنہوں نے امُّ المؤمنین سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو فرماتے سنا: انبیا کے سرتاج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پسندیدہ مہینا شعبانُ المُعَظَّم تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رَمَضانُ الْمبارَک سے ملادیتے۔ ( ابوداوٗد ج۲ص۴۷۶حدیث ۲۴۳۱)
حضرت سَیِّدُنا اُسامہ بن زَید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’میں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں دیکھتا ہوں
کہ جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان میں (نفل) روزے رکھتے ہیں اِس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے!‘‘ فرمایا:رَجب اور رَمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے ،لوگ اِس سے غافل ہیں ،اِس میں لوگوں کے اَعمال اللہ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّکی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں ۔ (نَسائی ص ۳۸۷ حدیث ۲۳۵۴)
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہارِوایت فرماتی ہیں : رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَشعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے تھے کہ پورے شعبان کے ہی روزے رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے :’’ اپنی اِستطاعت کے مطابق عمل کروکہاللہ عَزَّوَجَلَّاُس وَقت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اُکتا نہ جاؤ،بے شک اُس کے نزدیک پسندیدہ (نفل) نماز وہ ہے کہ جس پر ہمیشگی اِختیار کی جائے اگرچہ کم ہو۔‘‘ تو جب آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوئی نَماز (نفل) پڑھتے تو اُس پر ہمیشگی اختیار فرماتے۔
(بُخاری ج۱ص۶۴۸حدیث۱۹۷۰)
مکاشفۃ القلوب میں ہے: مذکورہ حدیث ِپاک میں پورے ماہِ شَعبانُ الْمُعَظَّم کے روزوں سے مراد اکثر شَعبانُ الْمُعَظَّمکے روزے ہیں ۔(مُکاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۳)
اگر کوئی پورے شَعبانُ الْمُعَظَّم کے روزے رکھنا چاہے تو اُس کو ممانعت بھی نہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے کئی اسلامی بھائی اور اسلامی بہنوں میں رجبُ الْمُرَجَّب اور شَعبانُ الْمُعَظَّم دونوں مہینوں میں روزے رکھنے کی ترکیب ہوتی ہے اور مسلسل روزے رکھتے ہوئے یہ حضرات رَمَضانُ المبارَک سے مل جاتے ہیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ بھی روزوں اور سنتوں پر اِستقامت پانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہیے۔ ترغیب کے لئے ایک مشکبار مَدَنی بہار آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔بابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی کی پچھلی زندگی گناہوں میں گزری ، وہ پتنگ بازی کے شوقین تھے نیز وڈیو گیمز اور گولیاں کھیلنا وغیرہ ان کے مشاغل میں شامل تھا۔ ہر ایک کے معاملے میں ٹانگ اَڑانا، خوامخواہ لوگوں سے لڑائی مول لینا، بات بات پرمار دھاڑ پر اُتر آنا وغیرہ معمولات میں شامل تھا۔ خوش قسمتی سے ایک اسلامی بھائی کی انفرادی کوشش پر رَمَضانُ المبارَک کے آخری عشرے میں علاقے کی مسجد میں مُعتکِف ہوگئے۔ انہیں بہت اچھے اچھے خواب نظر آئے اور خوب سکون ملا۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے مزید دو سال اِعتکاف کی سعادت حاصل کی۔ ایک بار مسجِد کے مُؤَذِّنصاحب انفرادی کوشِش کر کے انہیں تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں لے آئے۔ ایک مبلِّغ بیان کر رہے تھے، سفید لباس اور کتھئی چادر میں ملبوس، چہرے پر ایک مشت داڑھی اور سر پر عمامہ شریف کے تاج والا ایسا بارونق چہرہ انہوں نے زندَگی میں پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ مبلِّغ کے چہرے کی کشش اورنورانیت نے ان کا دل موہ لیا اور وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں آگئے اور اب دو سال سے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ (باب المدینہ)ہی میں اِعتکاف کر تے ہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ انہوں نے ایک مٹھی داڑھی بھی سجا لی ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : دو عالم کے مالِک و مختار، مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربارِ گہر بار میں عرض کی گئی کہ رَمضان کے بعد کونسا روزہ افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا: ’’تعظیمِ رَمضان کیلئے
شعبان کا۔‘‘ پھر عرض کی گئی:کون سا صَدقہ افضل ہے ؟فرمایا: رَمضان کے ماہ میں صَدَقہ کرنا۔
(تِرمذی ج۲ص۱۴۵ حدیث ۶۶۳)
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے، تاجدارِ رِسالت ،سراپا رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّشعبان کی پندَرَہو۱۵یں شب میں تجلی فرماتا ہے ۔ اِستغفار (یعنی توبہ) کرنے والوں کو بخش دیتا اور طالب رَحمت پر رَحم فرماتا اور عداوت والوں کو جس حال پر ہیں اُسی پر چھوڑ د یتا ہے۔ ‘‘ (شُعَبُ الایمان ج۳ص۳۸۲حدیث۳۸۳۵)
حضرتِ سَیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے، سلطانِ مدینۂ منوَّرہ، شہنشاہِ مَکّۂ مُکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’ شعبان کی پندرَھو۱۵یں شب میں اللہ عَزَّوَجَلَّ تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور سب کوبخش دیتا ہے مگر کافر اور عداوت والے کو(نہیں بخشتا)۔‘‘
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حِبّان ج ۷ ص ۴۷۰ حدیث ۵۶۳۶)
حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے، حضور سراپا نور، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) آئے اور کہا: یہ شَعبان کی پندرَہویں رات ہے، اس میں اللہ تَعَالٰی جہنَّم سے اِتنوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر کافراور عداوت والے اور رِشتہ کاٹنے والے اورکپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر رَحمت نہیں فرماتا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۸۴ حدیث ۳۸۳۷)(حدیثِ پاک میں ’’ کپڑا لٹکانے والے‘‘ کا جو بیان ہے، اِس سے مراد وہ لو گ ہیں جو تکبُّر کے ساتھٹَخنوں کے نیچے تہبند یا پاجامہ یا پتلون یا ثوب یعنی لمبا عربی کرتاوغیرہ لٹکاتے ہیں ) کروڑوں حنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ اِبنِ عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے جورِوایت نقل
کی اُس میں قاتل کا بھی ذِکر ہے ۔ (مُسندِ اِمام احمد ج۲ص۵۸۹حدیث ۶۶۵۳)
حضرت سَیِّدُنا کثیربن مرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت ، سراپا رَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ شعبان کی پندرَہویں شب میں تمام زمین والوں کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور عداوت والے کے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۳۸۱ حدیث۳۸۳۰)
حضرت سَیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمشَعْبانُ الْمُعَظّم کی پندرھویں رات یعنی شبِ برائَ ت میں اکثر باہر تشریف لاتے۔ ایک بار اِسی طرح شبِ برائَ ت میں باہر تشریف لائے اور آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر فرمایا: ایک مرتبہ اللہ تَعَالٰی کے نبی حضرت سیِّدُنا داوٗد(عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) نے شعبان کی پندرھویں رات آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور فرمایا:یہ وہ وقت ہے کہ اس وَقت میں جس شخص نے جو بھی دُعا اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مانگی اُس کی دعا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قبول فرمائی اور جس نے مغفرت طلب کی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسکی مغفرت فرمادی بشرطیکہ دُعا کرنے والا عشار (یعنی ظلماً ٹیکس لینے والا) ، جادوگر،کاہن اورباجا بجانے والا نہ ہو۔پھر حضرت سیِّدُنا داوٗد(عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)نے یہ دعا کی: اَللّٰھُمَّ ربَّ دَاو ٗدَ اغْفِرْ لِمَنْ دَعَاکَ فِیْ ہٰذِہٖ اللَّیْلَۃِ اَوِاسْتَغْفَرَکَ فِیْھَا ۔یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اے داوٗد کے پروردگار! جو اِس رات میں تجھ سے دُعا کرے یا مغفرت طَلَب کرے تو اُس کوبخش دے۔ (لَطائِفُ الْمَعارِف ج۱ص۱۳۷مختصراً)
ہر خطا تو درگزر کر بیکس و مجبور کی
ہوالٰہی! مغفرت ہر بیکس و مجبور کی (وسائل بخشش ص۹۶)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!شبِ بَرَاء ت بے حد اَہم رات ہے، کسی صورت سے بھی اسے غفلت میں نہ گزارا جائے، اِس رات رَحمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے۔ اِس مبارَک شب میں اللہ تبارَک وَتعالیٰ ’’بنی کلب ‘ ‘ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو جہنَّم سے آزاد فرماتا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے: ’’قبیلۂِ بنی کلب ‘‘قبائلِ عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا([4])۔‘‘آہ ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پر شبِ بَرَاء ت یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وَعید ہے۔حضرتِ سیِّدُنا امام بَیْہَقِی شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی’’فَضائِلُ الْاَوقات‘‘ میں نقل کرتے ہیں : رسولِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:چھ آدمیوں کی اس رات(یعنی شبِ براء ت میں ) بھی بخشش نہیں ہوگی: {۱}شراب کا عادی {۲}ماں باپ کا نافرمان {۳} زِناکا عادی {۴}قطع تعلق کرنے والا {۵}تصویر بنانے والا اور{۶}چغل خور۔ (فضائل الاوقات ج۱ص۱۳۰حدیث۲۷) اِسی طرح کاہن، جادوگر،تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اور کسی مسلمان سے بلااجازتِ شرعی بغض و کینہ رکھنے والے پر بھی اِس رات مغفرت کی سعادت سے محرومی کی وعید ہے،چنانچہ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ مُتَذَکَّرہ (یعنی بیان کردہ)گناہوں میں سے اگر مَعَاذَ اللہ کسی گناہ میں ملوث ہوں تو وہ بالخصوص اُس گناہ سے اور بالعموم ہر گناہ سے شبِ بَرَاء ت کے آنے سے پہلے بلکہ آج اور ابھی سچی توبہ کرلیں ، اور اگربندوں کی حق تلفیاں کی ہیں توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی معافی تلافی کی ترکیب بھی فرما لیں ۔
میر ے آقا اعلی حضرت ، اِمامِ اَہْلِسُنّت، ولیِ نِعمت،عظیمُ الْبَرَکَت، عظیمُ الْمَرْتَبت،پروانۂِ شَمْعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت ، ماحِیِ بِدعت، پیرِ طریقت، باعِثِ خَیْر وبَرَکت، حنفی
مذہب کے عظیم عالِم و مفتی حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰننے اپنے ایک اِرادتمند (یعنی معتقد)کو شبِ برائَ ت سے قبل توبہ اور معافی تَلافی کے تعلق سے ایک مکتوب شریف ارسال فرمایا جو کہ اُس کی اِفادِیت کے پیش نظر حاضر خدمت ہے چنانچہ ’’ کُلِّیات مکاتیب رضا ‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 356 تا 357 پر ہے : شبِ برائَ ت قریب ہے، اِس رات تمام بندوں کے اَعمال حضرتِ عزت میں پیش ہوتے ہیں ۔ مولا عَزَّوَجَلَّ بطفیل حضورِ پر نور ،شافع یومُ النشور عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم مسلمانوں کے ذُنوب (یعنی گناہ) معاف فرماتا ہے مگر چند ، ان میں وہ دو مسلمان جو باہم دُنیوی وجہ سے رَنْجِش رکھتے ہیں ، فرماتا ہے : ’’اِن کورہنے دو، جب تک آپس میں صلح نہ کرلیں ۔‘‘لہٰذا اہلِ سنت کو چاہئے کہحتَّی الْوَسْع قبلِ غروبِ آفتاب 14 شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کر لیں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کردیں یا معاف کرالیں کہ بِاِذْنِہٖ تَعَالٰی حُقُوقُ الْعِباد سے صحائف اَعمال (یعنی اعمال نامے) خالی ہو کر بارگاہِ عزت میں پیش ہوں ۔حقوقِ مولیٰ تعالیٰ کے لئے توبۂ صادِقہ(یعنی سچی توبہ) کافی ہے۔ (حدیثِ پاک میں ہے:)اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ (یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں (ابن ماجہ حدیث۴۲۵۰)) ایسی حالت میں بِاِذْنِہٖ تَعَالٰیضرور اِس شب میں اُمید مغفرتِ تامہ(تامْ۔مَہْ یعنی مکمَّل مغفرت کی اُمید) ہے بشرطِ صحت عقیدہ۔(یعنی عقیدہ دُرُست ہونا شرط ہے)وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم۔(اور وہ گناہ مٹانے والارحمت فرمانے والا ہے) یہ سب مصالحت اِخوان (یعنی بھائیوں میں صلح کروانا)و معافیِ حقوق بِحَمْدِہٖ تعالٰی یہاں سالہائے دراز (یعنی کافی برسوں ) سے جاری ہے، اُمیدہے کہ آپ بھی وہاں کے مسلمانوں میں اس کا اِجرا کرکے مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا یَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِ ہِمْ شَیٌٔ ([5]) (یعنی جو اسلام میں اچھی راہ نکالے اُس کیلئے اِس کا ثواب ہے اور قیامت تک جو اس پر عمل کریں ان سب کا ثواب ہمیشہ اسکے نامۂ اعمال میں لکھا جائے بغیر اس کے کہ
اُن کے ثوابوں میں کچھ کمی آئے ) کے مِصداق ہوں اور اِس فقیر کیلئے عفو وعافیتِ دارَین کی دُعا فرمائیں ۔فقیر آپ کے لئے دُعا کرتا ہے اور کرے گا۔ سب مسلمانوں کو سمجھادیا جائے کہ وَہاں (یعنی بارگاہِ الٰہی میں )نہ خالی زَبان دیکھی جاتی ہے نہ نفاق پسند ہے،صلح ومعافی سب سچّے دل سے ہو۔ وَالسَّلام۔ فقیراحمد رضا قادِری عُفِیَ عَنْہُ، از:بریلی
شامی تابعین رَحمَہُمُ اللہُ الْمُبِینشبِ بَرائَ ت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس میں خوب عبادت بجا لاتے، انہی سے دیگر مسلمانوں نے اس رات کی تعظیم سیکھی ۔ بعض علماء ِ شام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا: شبِ براء َت میں مسجِد کے اندر اجتماعی عبادت کرنا مستحب ہے، حضرت سیِّدانا خالد ولقمان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما اور دیگر تابعین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام اس رات ( کی تعظیم کیلئے) بہترین کپڑے زَیب تن فرماتے ، سرمہ اور خوشبو لگاتے ، مسجد میں (نفل) نماز یں ادا فرماتے۔ ( لطائف المعارف ص ۲۶۳)
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : میں نے نبی کریم، رء وفٌ رَّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم کو فرماتے سنا : اللہ عَزَّوَجَلَّ (خاص طور پر)چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے: {۱}بقر عید کی رات{۲}عیدالفطر کی (چاند)رات {۳} شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رِزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں {۴} عرفے کی (یعنی 8اور9 ذُوالحجّہ کی درمیانی) رات اذانِ (فجر) تک۔ (تفسیردُرِّمَنثورج۷ص۴۰۲)
سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے :’’(لوگوں کی) زندگیاں ایک شعبان سے دوسرے شعبان میں مُنْقَطِع ہوتی ہیں حتی کہ ایک آدمی نکاح کرتا ہے اور اس کی اولاد ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مردوں میں لکھا ہوتا ہے۔‘‘ (کَنْزُ الْعُمّال ج۱۵ص۲۹۲حدیث۴۲۷۷۳)
تو خوشی کے پھول لے گا کب تلک!
تو یہاں زندہ رہے گا کب تلک! (وسائلِ بخشش ص ۷۰۹)
حضرت سیِّدُناامام ابنِ ابی الدنیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرتِ سیّدُنا عطا بن یسار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے روایت کرتے ہیں کہ جب نصف شعبان کی رات (یعنی شبِ بَرَائَ ت) آتی ہے تو ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو ایک صَحِیفَہ (صَ۔ حِیْ۔ فَہ یعنی رِسالہ) دیا جاتا اور کہا جاتا ہے : یہ صَحِیفَہ پکڑ لو ، ایک بندہ بستر پر لیٹا ہوگا اور عورَتوں سے نکاح کرے گا اور گھر بنائے گا جبکہ اس کا نام مردوں میں لکھا جاچکا ہوگا ۔
(تفسیرِ دُرِّمنثورج۷ص۴۰۲)
حضرتسیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :’’ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ مردوں میں اُٹھایا ہوا ہوتا ہے ۔ ‘‘ پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پارہ 25 سُوْرَۃُ الدُّخَان کی آیت نمبر 3 اور 4 تلاوت کی :
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۳)فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)
ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک ہم نے اسے بَرَکت والی رات میں اُتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔ اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔
پھر فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے مُعامَلات کی تقسیم کی جاتی ہے ۔
(تفسیرِطَبَری ج۱۱ص۲۲۳)
مُفَسِّرِشہیر ،حکیمُ الْاُمَّت، حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانمذکورہ آیاتِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’اِس رات
سے مراد یا شبِ قَدر ہے ستائیسو۲۷یں رات یا شبِ بَراءَت پندرھو۱۵یں شعبان، اس رات میں پورا قراٰن لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیاکی طرف اُتارا گیا پھر وہاں سے تیئس۲۳ سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اُترا۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس رات میں قراٰن اُترا وہ مبارَک ہے، تو جس رات میں صاحبِ قراٰنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا میں تشریف لائے وہ بھی مبارَک ہے۔ اس رات میں سال بھر کے رِزق، موت، زندگی، عزت و ذلت، غرض تمام انتِظامی اُمور لوحِ محفوظ سے فرشتوں کے صَحِیفوں میں نقل کر کے ہر صَحِیفَہ (یعنی رسالہ ) اس محکمے کے فرشتوں کو دے دیا جاتا ہے جیسے ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کو تمام مرنے والوں کی فہرست وغیرہ۔‘‘ (نورُالعِرفان ص۷۹۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!پندرہ شَعْبانُ الْمُعَظّم کی رات کتنی نازُک ہے! نہ جانے کس کی قِسْمت میں کیا لکھ دیا جائے! بعض اوقات بندہ غفلت میں پڑا رَہ جاتا ہے اور اُس کے بارے میں کچھ کا کچھ طے ہوچکا ہوتا ہے ۔’’ غُنْیَۃُ الطّالِبِین‘‘ میں ہے: ’’بہت سے کفن دُھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں مگرکفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں ، کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی قبریں کھودی جاچکی ہوتی ہیں مگر اُن میں دَفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں ، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ اُن کی موت کا وَقت قریب آچکا ہوتا ہے۔کئی مکانات کی تعمیر ات کا کام پورا ہو گیا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ان کے مالکان کی زندگی کا وَقت بھی پورا ہوچکا ہوتا ہے۔‘‘ (غُنْیَۃُ الطّا لِبین ج۱ص۳۴۸ )
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شبِ بَرَاءَ ت میں نامۂ
اعمال تبدیل ہوتے ہیں لہٰذا ممکن ہو تو 14 شَعبانُ الْمُعَظَّم کوبھی
روزہ رکھ لیا جائے تاکہ اَعمال نامے
کے آخری دن میں بھی روزہ ہو۔14 شعبان کوعصر کی نمازباجماعت پڑھ کر وَہیں نفل اعتکاف کر لیا جائے اور نمازِ مغرب کے انتظار کی نیّت سے مسجِد ہی میں ٹھہرا جائے تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہو نے کے آخر ی لمحات میں مسجِد کی حاضری، اعتکاف اور انتظارِ نماز وغیرہ کا ثواب لکھا جائے ۔ بلکہ زہے نصیب! ساری ہی رات عبادت میں گزاری جائے۔
معمولات اولیا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ
السَّلَام سے
ہے کہ مغرب کے فرض وسنَّت وغیرہ کے بعد چھ رَکعت نفل(نَفْ۔لْ) دو دو
رَکعت کر کے ادا کئے جائیں ۔ پہلی دو رَکعتوں سے
پہلے یہ نیت کیجئے: ’’یااللہ عَزَّوَجَلَّ!ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے
درازیِ عمر بالخیر عطا فرما۔‘‘دوسری دو رَکعتوں میں یہ
نیت فرمایئے: ’’ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ!ان دو رَکعتوں کی برکت سے بلاؤں سے
میری حفاظت فرما۔‘‘ تیسری دو رَکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے: ’’ یااللہ عَزَّوَجَلَّ!ان دو
رَکعتوں کی بر کت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔‘‘ ان 6رَکعتوں
میں سُوْرَۃُ
الْفَاتِحَہکے
بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں ، چاہیں توہر رَکعت (رَکْ ۔عَت) میں سُوْرَۃُ الْفَاتِحَہکے بعد
تین تین بار سُوْرَۃُ الْاِخْلَاص پڑھ
لیجئے۔ ہر دو رَکعت کے بعداِکیس بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ (پوری
سورت)
یا ایک بار سورۂ یٰسٓشریف
پڑھئے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی
بھائی بلند آواز سے یٰسٓشریف
پڑھیں اور دوسرے خاموشی سے خوب کان لگا کر سنیں ۔ اس میں یہ خیال رہے کہ سننے والا
اِس دَوران زَبان سے یٰسٓشریف
بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے اور یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے کہ جب قراٰنِ کریم بلند آواز سے
پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کیلئے حاضر ہیں اُن پر فرضِ عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان
لگا کر سنیں ۔
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ رات شروع ہوتے ہی
ثواب کا اَنبار(اَمْ۔بار)لگ
جائے گا۔ ہر بار
یٰسٓشریف
کے بعد’’ دُعائے
نصف شعبان
‘‘بھی پڑھئے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
اَلّٰلھُمَّ یَا ذَا الْمَنِّ وّلَایُمَنُّ عَلَیْہِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ ؕ یَا ذَا الطَّوْلِ وَالاَنْعَامِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ ظَھْرُاللَّاجِیْنَ ؕ وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ وَاَمَانُ الْخَائِفِیْنَ ؕ اَللّٰھُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِیْ عِنْدَكَ فِیْ اُمِّ الْكِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْمًااَوْمَطْرُوْدًااَوْ مُقْتَرًّاعَلَیَّ فِی الّرِزْقِ فَامْحُ اَللّٰھُمَّ بِفَضْلِكَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِی وَطَرْدِیْ وَقْتِتَارِ رِزْقِیْ ؕ وَاَثْبِتْنِیْ عِنْدَكَ فِی اُمِّ الْكِتٰبِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا مُوَفَّقًالِلْخَیْرَاتِ ؕ فَاِنَّكَ قُلْتَ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ فِیْ كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِ ؕ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّكَ الْمُرْسَلِ(یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ ([6])) اِلٰھِی بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِی لَیْلَۃِالنِّصْفِ مِنْ شَھْرِ شَعْبَانَ الْمُكَرَّمِ الَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْھَا كُلُّ اَمْرٍحَكِیْمٍ وَیُبْرَمُطاَنْ تُكْشَفُ عَنَّامِنَ الْبَلَآءِ وَالْبَلَوَ آءِ مَا نَعْلَمْ طوَاَنْتَ بِہ اَعْلَمُ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَكْرَامُ ؕ وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہ وَ اَصْحَابِہ وَسَلَّمْ ؕوَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o
اےاللہ عَزَّوَجَلَّ! اے احسان کر نے والے کہ جس پر اِحسان نہیں کیا جاتا ! اے بڑی شان و شوکت والے! اے فضل واِنعام والے ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ تو پریشان حالوں کا مدد گار،پناہ مانگنے والوں کوپناہ اور خوفزدوں کو امان دینے والا ہے ۔ اےاللہ عَزَّوَجَلَّ! اگرتو اپنے یہاں اُمُّ الْکِتاب (یعنی لوحِ محفوظ ) میں مجھے شقی (یعنی بد بخت) ، محروم ، دُھتکارا ہوا اور رِزق میں تنگی دیاہوا لکھ چکا ہوتو اےاللہ عَزَّوَجَلَّ! اپنے فضل سے میری بدبختی ، محرومی ، ذلَّت اور رِزق کی تنگی کو مٹادے اور اپنے پاس اُمُّ الْکِتابمیں مجھے خوش بخت ،(کشادہ) رِزق دیاہوا اور بھلا ئیوں کی توفیق دیاہوا ثبت (تحریر) فرمادے ، کہ تو نے ہی تیری نازِل کی ہوئی کتاب میں تیرے ہی بھیجے ہوئے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ فیض ترجمان پر فرمایا اور تیرا (یہ)فرمانا حق ہے: ’’ ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ جو چاہے مٹاتا ہے اور ثابِت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اُسی کے پاس ہے ۔‘‘ (پ۱۳،الرعد ۳۹) خدایا عَزَّوَجَلَّ! تَجلّیِ اعظم کے وسیلے سے جو نصفِ شَعبانُ الْمُکرم کی رات (یعنی شبِ براء َت) میں ہے کہ جس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام اور اٹل کر دیا جاتا ہے ۔(’’یااللّٰہ!) آفتوں کو ہم سے دور فرما کہ جنہیں ہم جانتے اور نہیں بھی جانتے جبکہ تو انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہے ۔بے شک تو سب سے بڑھ کر عزیز اور عزت والا ہے۔ اللہ تَعَالٰی ہمارے سردار محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آل واصحا ب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمپر دُرُودو سلام بھیجے ۔ سب خوبیاں سب جہانوں کے پالنے والےاللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے ہیں ۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ!سگِ مدینہعُفِیَ عَنْہُ کا سا لہا سال سے شبِ براءَ ت میں بیان کردہ طریقے کے مطابق چھ نوافل وغیرہ کا معمول ہے۔ مغرب کے بعد کی جانے والی یہ عبادت نفل ہے، فرض و واجب نہیں اورنمازِمغر ب کے بعد نوافل وتلاوت کی شریعت میں کہیں مما نعت بھی نہیں ۔ حضرتِ علامہ اِبنِ رَجب حنبلی (حَم۔بَ۔لی) عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی کہتے ہیں :ا ہلِ شام میں سے جلیل القدر تابعین مَثَلاً حضرت سیِّدُنا خالدبن مَعْدان ، حضرتِ سیِّدُنا مَکْحُول، حضرت سیِّدُنا لقمان بن عامر
رَحمَہُمُ اللہُ القَادِروغیرہ شبِ براءَت کی بہت تعظیم کرتے اور اس میں خوب عبادت بجا لاتے تھے، انہی سے دیگر مسلمانوں نے اِس مبارک رات کی تعظیم سیکھی۔ (لَطائِفُ الْمَعارِف ج۱ص۱۴۵) فقہ حنفی کی معتبر کتاب، ’’دُرِّمُخْتار‘‘ میں ہے: ’’شبِ براءَ ت میں شب بیداری (کر کے عبادت) کرنا مستحب ہے، (پوری رات جاگنا ہی شب بیداری نہیں ) اکثر حصے میں جاگنا بھی شب بیداری ہے۔‘‘ (دُرِّ مُختار ج۲ ص ۵۶۸، بہارِ شریعت ج۱ص۶۷۹) مَدَنی التجا :ممکن ہو تو تمام اسلامی بھائی اپنی اپنی مساجِد میں بعد مغرب چھ نوافل وغیرہ کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں۔اسلامی بہنیں اپنے اپنے گھر میں یہ اعمال بجا لائیں ۔
دعوت اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ170 صَفحات پر مشتمل کتاب، ’’اسلامی زندَگی‘‘ صَفْحَہ134 پرہے:اگر اس رات(یعنی شبِ براء َت ) سات پتے بیری (یعنی بیر کے دَرخت ) کے پانی میں جوش دیکر(جب پانی نہانے کے قابل ہو جا ئے تو) غسل کرے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ تمام سا ل جادو کے اثر سے محفوظ رہے گا۔
اُمُّ المؤمِنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں : میں نے ایک رات سرور کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نہ دیکھا تو بقیعِ پاک میں مجھے مل گئے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا : کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہاللہ عَزَّوَجَلَّاور اس کا رسول(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تمہاری حق تلفی کریں گے؟ میں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ اَزواجِ مطہرات(مُ۔طَہْ۔ہَرات ) میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو فرمایا: ’’بیشک اللہ تَعَالٰی شعبان کی پندرَہویں رات آسمانِ دُنیا پر تجلی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخش دیتا ہے۔‘‘ (تِرمِذی ج۲ ص۱۸۳ حدیث۷۳۹)
شبِ بَرَاءَ ت میں اسلامی بھائیوں کا قبرستان جانا سُنَّت ہے ( اسلامی بہنو ں کوشرعاًممنوع ہے) قبروں پر موم بتَّیّاں نہیں جلا سکتے ہاں اگر تِلاوت وغیرہ کر نا ہو تو ضرور تاً اُجالا حاصل کرنے کے لئے قَبْر سے ہٹ کر موم بتی جلا سکتے ہیں ، اِسی طرح حاضِرین کو خوشبو پہنچانے کی نیت سے قَبْر سے ہٹ کر اگر بتَّیّا ں جَلانے میں حر ج نہیں ۔ مزاراتِ اولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیپر چادر چڑھا نا اور اس کے پاس چراغ جلانا جائز ہے کہ اس طرح لوگمُتَوَجِّہ ہوتے اور ان کے دلوں میں عظمت پیدا ہوتی اور وہ حاضر ہو کراِکتسابِ فیض کرتے ہیں ۔ اگر اولیا اور عوام کی قَبْریں یکساں رکھی جائیں تو بہت سارے دینی فوائدختم ہو کر رَہ جائیں ۔
اَمیرُ المُؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ شعبانُ الْمُعَظَّم کی پندرہویں رات یعنی شبِ برائَ ت عبادت میں مصروف تھے۔ سراُٹھایا تو ایک ’’سبز پرچہ‘‘ ملا جس کا نور آسمان تک پھیلا ہواتھا،اُس پر لکھا تھا: ’’ہٰذِہٖ بَرَائَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ مِنَ الْمَلِکِ الْعَزِیْزِ لِعَبْدِہٖ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ۔‘‘ یعنی خدائے مالک وغالب کی طرف سے یہ ’’جہنَّم کی آگ سے آزادی کا پروانہ‘‘ہے جو اُس کے بندے عمر بن عبد العزیز کو عطا ہوا ہے۔ (تفسیر روح البیان ج۸ ص۴۰۲)
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت میں جہاں اَمیرُ المُؤمنین سَیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و فضیلت کا اظہار ہے وَہیں شبِ برائَ ت کی رِفعت و شرافت کا بھی ظہور ہے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یہ مبارَک شب جہنم کی بھڑکتی آگ سے برائَ ت ( بَر۔ا۔ئَ۔ت یعنی آزادی) پانے کی رات ہے اِسی لئے اِس رات کو ’’شبِ بَرَاءَ ت ‘‘کہا جاتا ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ شبِ برائَ ت جہنَّم کی آگ سے’’ برائَ ت‘‘ یعنی چھٹکارا پانے کی رات ہے ،مگرصد کروڑ افسوس! مسلمانوں کی ایک تعداد آگ سے چھٹکارا حاصِل کرنے کی کوشش کے بجائے خودپیسے خرچ کرکے اپنے لئے آگ یعنی آتشبازِی کاسامان خریدتی اور خوب پٹاخے وغیرہ چھوڑ کر اِس مقدس رات کا تقدس پامال کرتی ہے ۔ مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّاناپنی مختصر کتاب ’’اسلامی زندگی‘‘ میں فرماتے ہیں :’’اس رات کو گناہ میں گزارنا بڑی محرومی کی بات ہے، آتشبازی کے متعلق مشہور یہ ہے کہ یہ نمرود بادشاہ نے ایجاد کی جبکہ اس نے حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو آگ میں ڈالا اور آگ گلزار ہوگئی تو اُس کے آدمیوں نے آگ کے اَنار بھر کر ان میں آگ لگا کر حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی طرف پھینکے۔‘‘ (اسلامی زندگی ص۷۷)
افسوس! شبِ براءَ ت میں ’’آتشبازی‘‘ کی ناپاک رسم اب مسلمانوں کے اندر زور پکڑتی جارہی ہے۔ ’’اسلامی زندگی ‘‘ میں ہے: مسلمانوں کا لاکھوں روپیہ سالانہ اس رسم میں برباد ہو جاتا ہے اور ہر سال خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ سے اِتنے گھر آتشبازی سے جل گئے اور اتنے آدمی جل کرمر گئے۔ اس میں جان کا خطرہ، مال کی بربادی اور مکانوں میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے،(نیز)اپنے مال میں اپنے ہاتھ سے آگ لگانا اور پھر خدا تعالیٰ کی نافرمانی کا وبال سر پر ڈالنا ہے، خد ا عَزَّ وَجَلَّ کیلئے اس بیہودہ اور حرام کام سے بچو، اپنے بچوں اورقرابت داروں کو روکو، جہاں آوارہ بچے یہ کھیل کھیل رہے ہوں وہاں تماشا دیکھنے کیلئے بھی نہ جاؤ۔(اَیضاًص۷۸) (شبِ براءَ ت کی مروجہ) آتش بازی کا چھوڑنا بلاشک اِسراف اورفضول خرچی ہے لہٰذا اِس کا ناجائز وحرام ہونا اور اسی طرح آتش بازی کابنانا اور بیچنا خریدنا سب شرعاًممنوع ہیں ۔(فتاوی اجملیہ ج۴ص۵۲) میرے آقا اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلِ سنّت، مولانا شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے
ہیں : آتشبازی جس طرح شادیوں اور شبِ براء َت میں رائج ہے بیشک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضییعِ مال (تَضْ۔یِیعِ۔ مال یعنی مال کا ضائع کرنا) ہے۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۲۷۹)
شبِ براءَ ت میں جو آتش بازی چھوڑی جاتی ہے اُس کا مقصد کھیل کود اور تفریح ہوتا ہے لہٰذا یہ گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔ البتہ اِس کی بعض جائز صورَتیں بھی ہیں جیسا کہ بارگاہ ِ اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمیں سوال ہوا:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ آتشبازی بنانا اور چھوڑنا حرام ہے یا نہیں ؟ الجواب:ممنوع وگناہ ہے مگر جو صورتِ خاصہ لَہْو ولَعِب وتَبْذِیر و اِسراف سے خالی ہو(یعنی اُن مخصوص صورتوں میں جائز ہے جو کھیل کود اور فضول خرچی سے خالی ہو)، جیسے اعلانِ ہلال(یعنی چاند نظر آنے کا اعلان) یا جنگل میں یا وقتِ حاجت شہر میں بھی د فعِ جانور انِ موذی(یعنی ایذا دینے والے جانوروں کو بھگانے کیلئے) یاکھیت یا میوے کے درختوں سے جانوروں (اور پرندوں ) کے بھگانے اُڑانے کو ناڑِیاں ، پٹاخے، تو مڑیاں چھوڑنا۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۲۹۰)
تجھ کو شعبانِ معظَّم کا خدایا واسِطہ
بخش دے ربِّ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو مری ہر اک خطا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سبز عمامہ شریف کا تاج سجا رکھا تھا:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شعبانُ المُعظّم میں عبادت کرنے، روزے رکھنے اور مُرَوَّجہ آتش بازی وغیرہ کے گناہوں سے باز رہنے کا ذِہن بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلو ں میں عاشِقانِ رسول کے ہمراہ خوب سنتوں بھرے سفرکیجئے اور
رَمَضانُ المبارَک میں دعوتِ اسلامی کے اِجتماعی اعتکاف کی برکتیں لوٹئے ۔ آپ کی ذَوق اَفزائی کیلئے ایک مشکبار مَدَنی بہار پیش کرتا ہوں ، واہ کینٹ ( پنجاب ، پاکستان) کے کالج کے ایک اسلامی بھائی جو کہ عام ا سٹوڈنٹس کی طرح فیشن کے متوالے تھے، کرکٹ کا میچ دیکھنے اور کھیلنے کاجنون کی حد تک شوق اور رات گئے تک آوارہ گردی معمول تھا۔ نماز اور مسجِد کی حاضری کا جہاں تک تعلُّق ہے تو وہ فقط عیدین تک محدود تھی۔ رَمَضَانُ المُبارَک (۱۴۲۲ھ، 2001ء) میں والدین کے اِصرار پر نماز ادا کرنے مسجِد میں گئے ، عصر کی نَماز کے بعد سفید لباس میں ملبوس سر پر سبز عمامہ شریف کا تاج سجائے ایک بارِیش اسلامی بھائی نے نَمازیوں کو قریب کرنے کے بعد فیضانِ سنت کا درس دیا، وہ دُور بیٹھ کر سُنتے رہے، درس کے بعدفوراً مسجِد سے باہَر نکل گئے۔ دو تین دن تک یِہی ترکیب رہی۔ ایک دن وہ ملنے کے لئے رُک گئے ، ایک اسلامی بھائی نے پر تپاک انداز سے ملاقات کر کے نام و پتا پوچھنے کے بعد تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں بیٹھنے کی ترغیب دلاتے ہوئے اعتکاف کے فضائل بیان کئے۔ اوّلاً ان کا ذہن نہ بنا، لیکن وہ اسلامی بھائی مَاشَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّبَہُت جذبے والے تھے ، مایوس نہ ہوئے بلکہ ان کے گھر جا پہنچے اور بار بار اِصرار کرنے لگے ۔ اُن کی مسلسل اِنفرادی کوشِش کے نتیجے میں اعتکاف شروع ہونے سے ایک دن قبل انہوں نے نام لکھوادیا، اور آخری عشرۂ رَمَضَانُ المُبارَک ۱۴۲۲ ھ جامع مسجد نعیمیہ (لالہ رُخ،واہ کینٹ) کے اندر عاشقانِ رسول کے ساتھ مُعتَکِف ہو گئے۔ اجتماعی اعتکا ف کے پرسوز ماحول او ر عاشقانِ رسول کی صحبت نے ان کی دِلی کیفیت بدل ڈالی! وہاں ادا کی جانے والی تہجُّد ، اِشراق، چاشت اور اَوّابین کے نوافل کی پابندی نے گزشتہ زندگی میں فرض نمازیں نہ پڑھنے پر انہیں سخت شرمندہ کیا، آنکھوں سے ندامت کے آنسو جاری ہو گئے اور انہوں نے دل ہی دل میں نمازوں کی پابندی کی نیت کر لی۔ پچیسو۲۵یں شب دُعا میں ان پر اِس قَدَر رِقت طاری تھی کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ اسی عالم میں ان پر غنودگی طاری ہو گئی اور وہ خواب کی دنیا میں پہنچ گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پر وقار و نوربار چہرے
والی شخصیت موجود ہے اور ان کے ارد گرد کافی ہجوم ہے۔ انہوں نے کسی سے پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ آقا ئے مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔ انہوں نے دیکھا تو سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سبزسبز عمامہ شریف کا تاج سجا رکھا تھا۔ کچھ دیر تک وہ دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کر تے رہے ، جب بیدا ر ہوئے تو صلوٰۃ وسلام پڑھا جا رہا تھا ان کی کیفیت بہت عجیب و غریب تھی،جسم پر لرزہ طاری تھا، ہچکیاں باندھ کر روئے جا رہے تھے اور آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ صلوٰۃ و سلام کے بعد مجلس برائے اعتکاف کے نگران کے سامنے عمامے کا تاج سجانے والوں کی قِطار بندھی ہوئی تھی اورسرکارِ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے لکھے ہوئے اس نعتیہ شعر کی تکرار جاری تھی: ؎
تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا (حدائقِ بخشش ص۲۴۳)
وہ اپنے قریبی اِسلامی بھائیوں کوبمشکل تمام صرف اِتنا کہہ پائے: ’’میں نے بھی عمامہ باندھنا ہے۔‘‘تھوڑی ہی دیر میں روتے روتے وہ بھی عمامے کا تاج سجا چکے تھے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّانہوں نے اِعتکاف ہی میں ایک ماہ کے مَدَنی قافلے میں سفر کی نیّت بھی کی اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمَدَنی قافلے میں سفر بھی کیا،سفر کے دَوران بہت کچھ سیکھنے کے ساتھ ساتھ درس و بیان بھی سیکھ کر کر نے لگے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ نَمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ دَعوتِ اِسلامی کے مَدَنی کاموں میں حصہ لینے لگے۔ انہیں ذیلی مُشاوَرت کے نگران کے طور پر مَدَنی کاموں کی دھومیں مچانے کی سعادت بھی ملی۔
گر تمنَّا ہے آقا کے دیدار کی، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
ہوگی میٹھی نظر تم پہ سرکار کی، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱}’’جس نے رَمَضان کے روزے رکھے پھر چھ دن شَوّال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔‘‘ (مَجْمَعُ الزَّوَائِد ج۳ص۴۲۵حدیث۵۱۰۲)
{۲}’’جس نے رَمَضان کے روزے رکھے پھران کے بعد چھ دن شوال میں رکھے، توایسا ہے جیسے دَہْر کا (یعنی عمر بھرکیلئے)روزہ رکھا۔‘‘ (مُسلِم ص۵۹۲حدیث۱۱۶۴)
{۳} ’’جس نے عیدُالْفِطْر کے بعد(شوال میں ) چھ روزے رکھ لئے تو اُس نے پورے سال کے روزے رکھے کہ جو ایک نیکی لائے گا اُسے دس ملیں گی۔ تو ماہِ رمضان کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور ان چھ دنوں کے بدلے میں دومہینے تو پورے سال کے روزے ہوگئے۔‘‘ (اَلسّنَنُ الکُبریلِلنَسائی ج۲ ص۱۶۲،۱۶۳حدیث۲۸۶۰،۲۸۶۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ،حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی’’ بہار شریعت‘‘ کے حاشیے میں فرماتے ہیں : ’’بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق (مُ۔تَ۔فَر۔رِق یعنی جدا جدا)رکھے جائیں اور عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لیے، جب بھی حرج نہیں ۔‘‘ (دُرِّمُختارج۳ ص۴۸۵،بہارِ شریعت ج۱ص۱۰۱۰)
خلیلِ ملّت حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد خلیل خان قادِری برکاتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیفرماتے ہیں : یہ روزے عید کے
بعد لگاتار رکھے جائیں تب بھی مضایقہ نہیں اور بہتر یہ ہے کہ مُتَفَرِّق (یعنی جدا جدا ) رکھے جائیں یعنی(جیسے) ہر ہفتے میں دو روزے اور عید الفطر کے دوسرے روز ایک روزہ رکھ لے اور پورے ماہ میں رکھے تو اوربھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (سنی بہشتی زیور ص۳۴۷) اَلْغَرَض عیدُ الْفِطْرکا دن چھوڑ کر سارے مہینے میں جب چاہیں شش عید کے روزے رکھ سکتے ہیں ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
فتاوٰی رضویہ جلد10صفحہ649پر ہے: صوم ( یعنی روزہ ) وغیرہ اعمالِ صالحہ ( یعنی نیک اعمال ) کے لئے بعدرَمَضانُ المبارَک سب دنوں سے افضل عشرۂ ذی الحجہ ہے۔
{۱}’’ان دس دنوں سے زیادہ کسی دن کا نیک عملاللہ عَزَّوَجَلَّکو محبوب نہیں ۔‘‘ صحا بۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور نہ راہِ خداعَزَّوَجَلَّمیں جہاد ؟ ‘‘فرمایا : ’’اور نہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں جہاد ،مگر وہ کہ اپنے جا ن ومال لے کر نکلے پھر ان میں سے کچھ واپس نہ لائے۔‘‘ (یعنی صرف وہ مجاہد افضل ہوگاجو جان ومال قربان کرنے میں کامیاب ہوگیا) (بُخارِی ج۱ص۳۳۳حدیث۹۶۹)
{۲}’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکو عَشَرَۂ ذُوالْحجَّہسے زیادہ کسی دن میں اپنی عبادت کیا جانا پسندیدہ نہیں اِس کے ہردن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہرشب کاقیام شبِ قدر کے برابر ہے۔‘‘ ( تِرْمِذِی ج۲ص۱۹۲حدیث۷۵۸)
{۳}’’مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّپر گمان ہے کہ عرفہ (یعنی9 ذُو الحِجَّۃِ الْحرام) کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعدکے گناہ مٹادیتا
ہے۔‘‘ ( مُسلِم ص۵۹۰حدیث۱۱۶۲)
{۴} عرفہ ( یعنی ۹ ذوالحِجَّۃِ الحرام) کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔(شُعَبُ الْاِیْمَان ج۳ ص۳۵۷حدیث۳۷۶۴) (مگر عرفات میں حاجی کو عرفے کا روزہ مکروہ ہے،) حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرماتے ہیں : سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عر فے کے دِن ( یعنی ۹ ذُوالحِجَّۃِ الحرامکے روزحاجی کو ) عرفات میں روزہ ر کھنے سے منع فرمایا۔ ( ابْنُ خُزَیْمَۃ ج۳ص۲۹۲حدیث۲۱۰۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ہر مَدَنی ماہ (یعنی سن ہجری کے مہینے)میں کم ازکم تین۳ روزے ہر اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کو رکھ ہی لینے چاہئیں ۔ اس کے بے شمار دُنیوی اور اُخروِی فوائدہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے ’’ایامِ بِیْض‘‘ یعنی چاند کی 13،14 اور 15 تاریخ کو رکھے جائیں ۔
{۱}اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا حفصہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے رِوایت ہے،اللہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے، عاشور۱ کا روزہ اور عشرئہ ذُوالْحِجَّہ کے روزے اور ہر مہینے میں تین۳ دن کے روزے اورفجر(کے فرض ) سے پہلے دو۲ رَکْعَتَیں (یعنی دوسُنَّتیں ) ۔ (نَسَائی ص۳۹۵ حدیث۲۴۱۳) حدیثِ پاک کے اس حصے’’ عشرئہ ذُوالْحِجَّہ کے روزے‘‘ سے مراد ذُوالْحِجَّہکے ابتدائی نو۹ دنوں کے روزے ہیں ،ورنہ دسذُوالْحِجَّہ کو روزہ رکھنا حرام ہے۔ (ماخوذ ازمراٰۃ المناجیح ج۳ ص۱۹۵)
{۲} حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے رِوایت ہے کہ طبیبوں کے طبیب ، اللہ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَیّامِ بِیْض میں بغیر روزہ کے نہ ہوتے نہ سفر میں نہ حضر(یعنی قیام) میں ۔
(نَسَائی ص۳۸۶ حدیث۲۳۴۲)
{۳}اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رِوایت فرماتی ہیں : ’’انبیا کے سرتاج ، صاحبِ معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک مہینے میں ہفتہ ، اتوار اور پیر کا جبکہ دوسرے ماہ منگل ، بدھ اور جُمعرات کا روزہ رکھا کرتے۔‘‘ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۶)
{۱}’’ جس طرح تم میں سے کسی کے پاس لڑائی میں بچاؤ کے لئے ڈھال ہوتی ہے اسی طرح روزہ جہنَّم سے تمہاری ڈھال ہے اور ہر ماہ تین دن روزے رکھنا بہترین روزے ہیں ۔‘‘ (ابنِ خُزَیْمہ ج۳ص۳۰۱حدیث۲۱۲۵) {۲} ہر مہینے میں تین د ن کے روزے ایسے ہیں جیسے دَہر ( یعنی ہمیشہ) کے روزے۔ ( بخارِی ج۱ص۶۴۹حدیث۱۹۷۵){۳}رَمضان کے روزے اور ہر مہینے میں تین دن کے روزے سینے کی خرابی(یعنی جیسے نفاق)دُور کرتے ہیں ۔ (مُسنَد اِمَام اَحْمَد ج۹ص۳۶حدیث۲۳۱۳۲){۴}جس سے ہوسکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے کہ ہر روزہ دس گناہ مٹاتا اور گناہ سے ایسا پاک کردیتا ہے جیسا پانی کپڑے کو۔(مُعْجَم کَبِیْر ج۲۵ص۳۵حدیث۶۰) {۵} جب مہینے میں تین روزے رکھنے ہوں تو 13،14اور15 کو رکھو۔
(نَسَائی ص۳۹۶حدیث۲۴۱۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ایّامِ بیض کے روزوں ، نیکیوں اور سنتوں کا ذِہن بنانے کیلئے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کا مَدَنی ماحول اپنا لیجئے ،صرف دُور دُور سے دیکھنے سے بات نہیں بنے گی، سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر کیجئے ، رَمَضانُ الْمُبارَک کا اِجتماعی اعتکاف بھی فرمائیے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّوہ قلبی سکون میسر آئے گا کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔
دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں آکر کیسے کیسے بگڑے ہوئے لوگ راہ ِ راست پر آجاتے ہیں اِس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے، چنانچِہ تحصیل ٹھل ( بابُ الاسلام سندھ پاکستان) کے ایک نوجوان انتہائی فسادی اور شریر تھے، لڑائی جھگڑا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا، ان کی شر انگیزیوں سے سارامحلہ تنگ تھا اور گھر والے تو اس قدر بیزار تھے کہ ان کے مرنے کی دعائیں مانگتے تھے۔ خوش قسمتی سے کچھ اسلامی بھائیوں نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے انہیں رَمَضانُ المبارَک کے اِجتماعی اعتکاف کی دعوت پیش کی انہوں نے مروت میں ہاں کردی اور رَمَضانُ المبارَک (۱۴۲۰ ھ 1999ء) میں میمن مسجِد عطاّر آباد کے اندر عاشِقانِ رسول کے ساتھ مُعتَکِف ہو گئے۔ دَورانِ اِعتکاف انہیں وُضو ، غسل، نماز کا طریقہ نیز حقوق اللہ و حقوق العباد اور احترامِ مسلم کے اَحکام سیکھنے کو ملے ، سنتوں بھرے پر سوز بیانوں اور رقت انگیز دعاؤں نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ! بصدندامت انہوں نے سابقہ گناہوں سے توبہ کی ، نیکیاں کرنے کی دل میں اُمنگ پیدا ہوئی۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّانہوں نے عشقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نشانی داڑھی شریف سجا لی، سر کو سبز عمامہ شریف کے تاج سے سر سبز کیا اور لڑائی جھگڑوں کی جگہ نیکی کی دعوت کے شیدائی بن گئے۔
آؤ آ کر گناہوں سے توبہ کرو، مَدَنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
رَحمتِ حق سے دامن تم آ کر بھرو، مدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱}حضرتِ سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : پیر اور
جُمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اُس وَقت پیش ہوکہ میں روزہ دار ہوں ۔ (تِرْمِذِی ج ۲ ص ۱۸۷ حدیث۷۴۷)تاکہ روزے کی برکت سے رحمتِ الٰہی کا دریا جوش مارے۔ ( مراٰۃ ج۳ ص ۱۸۸)
{۲}اللہ عَزَّوَجَلَّکے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پِیر شریف اور جُمعرات کو روزے رکھا کرتے تھے، اِس کے بارے میں عرض کی گئی تو فرمایا : ان دونوں دنوں میں اللہ تَعَالٰی ہر مسلمان کی مغفرت فرماتا ہے مگر وہ دو شخص جنہوں نے باہم(یعنی آپس میں ) جدائی کرلی ہے ان کی نسبت ملائکہ سے فرماتا ہے انہیں چھوڑدو یہاں تک کہ صلح کرلیں ۔
(ابنِ ماجہ ج۲ص۳۴۴حدیث۱۷۴۰)
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت مراٰۃ جلد3 صفحہ196 پر فرماتے ہیں : سُبْحٰنَ اللہِ! یہ دونوں دن بڑی عظمت اور برکت والے ہیں کیوں نہ ہوں کہ انہیں عظمت والوں سے نسبت ہے، ’’جمعرا ت ‘‘تو جمعہ کا پڑوسی ہے اور حضرتِ آمنہ خاتون کے حاملہ ہونے کا دن ہے، اور’’ پیر‘‘ حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت کا دن بھی ہے اور نزولِ قراٰن کریم کا بھی۔
{۳}اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا رِوایَت فرماتی ہیں :نبیوں کے سرتاج، صاحبِ معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیر اور جمعرات کے روزے کا خاص خیال رکھتے تھے۔ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۵)
{۴}حضرت سَیِّدُنا ابوقتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار ،رسولوں کے سالار، نبیوں کے سردار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پیر شریف کے روزے کا سبب دریافت کیاگیا تو فرمایا: اِسی میں میری وِلادت ہوئی، اِسی میں مجھ پر وَحی نازِل ہوئی ۔ (مُسلِم ص۵۹۱ حدیث۱۹۸۔۱۱۶۲)
{۵}حضرت سیِّدُنا
اُسامہ بن زَید
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ
سے مروی ہے: فرماتے ہیں کہ سَیِّدُنا اُسامہ بن زَیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سفر
میں بھی پیر اور جمعرات کا
روزہ ترک نہیں فرماتے تھے۔میں نے ان کی بارگاہ میں عرض کی: کیا وجہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ
اِس بڑی عمر میں بھی پیر اور جمعرات کا
روزہ رکھتے ہیں ؟ فرمایا:
رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔میں نے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیا وجہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں ؟ تو ارشاد فرمایا: لوگوں کے اَعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں ۔
(شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۹۲حدیث۳۸۵۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱}حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے رِوایت ہے اللہ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمنہ کے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ بشارت نشان ہے: جو بدھ اور جمعرات کے روزے رکھے اُس کے لئے جہنَّم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔ (اَبو یَعْلٰی ج۵ص۱۱۵حدیث۵۶۱۰)
{۲}حضرتِ سَیِّدُنا مسلم بن عُبَیْدُ اللہ قرشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والدمکرَّم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں یا تو خود عرض کی یا کسی اور نے دریافت کیا : یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہمیشہ روزہ رکھوں ؟ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے، پھر دوسری مرتبہ عرض کی ،پھر خاموشی اختیار فرمائی ۔ تیسری بار پوچھنے پر اِستفسار فرمایاکہ روزے کے مُتَعَلِّقکس نے سوال کیا ؟ عرض کی، میں نے یا نبیَّ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! تو جواباً ارشاد فرمایا :بے شک تجھ پر تیرے گھر والوں کا حق ہے تو رَمضان اور اس سے متَّصل مہینے (شوال) اور ہر بدھ اور جمعرات کے روزے رکھ کہ اگر توایسا کرے گاتو گویا تو نے ہمیشہ کے روزے رکھے۔
(شُعَبُ الایمان ج۳ص۳۹۵حدیث۳۸۶۸)
{۳}فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ’’جس نے رَمضان ،شوال ،بدھ اور جُمعرات کا روزہ رکھا تو وہ داخلِ جنت ہوگا۔‘‘ (اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلنَّسَائی ج۲ص۱۴۷حدیث۲۷۷۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱}جس نے بدھ ،جمعرات و جُمُعہ کا روزہ رکھا اللہ تَعَالٰی اُس کیلئے جنت میں ایک مکان بنائے گا جس کا باہر کا حصّہ اندر سے دکھائی د ے گا اور اندر کا باہر سے۔ (مُعْجَمُ اَ وْسَط ج۱ص۸۷حدیث ۲۵۳)
{۲}جس نے بدھ، جمعرات و جُمُعہ کا روزہ رکھا اللہ تَعَالٰی اُس کیلئے جنت میں موتی اور یاقوت و زَبرجد کا مَحَلبنائے گا اور اُس کیلئے دوزخ سے برائَ ت (یعنی آزادی) لکھ دی جائے گی۔ (شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۹۷حدیث۳۸۷۳)
{۳} جس نے بدھ، جمعرات و جُمُعہ کا روزہ رکھا پھر جُمُعہ کو تھوڑا یا زیادہ تصدق (یعنی خیرات) کرے تو جو گناہ کئے ہیں بخش دیئے جائیں گے اور ایسا ہوجا ئے گا جیسے اُس دِن کہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ (ایضاًحدیث۳۸۷۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱} ’’جس نے جُمُعہ کا روزہ رکھا تواللہ عَزَّوَجَلَّاسے آخرت کے دس دِنوں کے برابر اَجرعطا فرمائے گااور وہ ایام(اپنی مقدار میں )
اَیامِ دنیا کی طرح نہیں ہیں ۔‘‘ (شُعَبُ ا لْایمان ج ۳ ص ۳۹۳ حدیث ۳۸۶۲)
فتاوٰی رضویہ جلد10صفحہ653پر ہے: روزۂ جمعہ یعنی جب اِس کے ساتھ پنج شنبہ یا شنبہ (یعنی جمعرات یا ہفتے کا روزہ) بھی شامل ہو مروی ہوا کہ دس ہزار برس کے روزوں کے برابر ہے۔
{۲} ’’جس نے جُمُعہ ادا کیا اوراِس دِن کا روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور جنازے کے ساتھ گیا اور نکاح میں حاضر ہوا تو اُس کیلئے جنت واجب ہوگئی ۔‘‘ (مُعْجَم کَبِیْر ج۸ص۹۷حدیث۷۴۸۴)
{۳}’’ جس نے روزے کی حالت میں یومِ جُمُعہکی صبح کی اور مریض کی عیادت کی اور جنازے کے ساتھ گیا اور صَدَقہ کیا تو اُس نے اپنے لئے جنت واجب کرلی۔ ‘‘ (شُعَبُ الْایمان ج۳ص۳۹۳حدیث۳۸۶۴)
{۴} جس نے بروزِجُمُعہ روزہ رکھا اور مریض کی عیادت کی اور مِسکین کو کھانا کھلایا اور جنازے کے ہمراہ چلا تو اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے۔ (ایضاًص۳۹۴حدیث۳۸۶۵) حدیثِ پاک کے اس حصّے’’ اُسے چالیس سال کے گناہ لاحق نہ ہوں گے‘‘ سے مراد یا تو اُسے نیکی ہی کی توفیق ملے گی یا گناہ صادر ہوئے تو ایسی توبہ کی توفیق مل جائے گی جو اس کے گناہوں کو مٹا دے گی۔
حضرت سَیِّدُنا عبد اللّٰہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بَہُت کم جُمُعہ کا روزہ ترک فرماتے تھے۔ (اَیضاً)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس طرح عاشوراکے روزے کے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنا ہے اِسی طرح جُمُعہ میں بھی کرنا ہے ، کیوں کہ خصو صیت کے ساتھ تنہا جُمُعہ (اس مسئلے کا خلاصہ آگے آرہا ہے)یا صِرفہفتے کا روزہ رکھنا مکروہِ تَنزِیہی (یعنی ناپسندید ہ )ہے۔ہاں اگر کسی مخصوص تاریخ کو جُمُعہ یا ہفتہ آگیا توتنہا جُمُعہ یا ہفتے کا روزہ رکھنے میں کراہت نہیں ۔مَثَلاً 15شَعبا نُ الْمُعظَّم،27 رَجَبُ الْمُرجَّب وغیرہ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{۱} شبِ جُمُعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو اور نہ ہی یومِ جُمُعہ کو دیگر دنوں میں روزے کے ساتھ خاص کرو مگر یہ کہ تم ایسے روزے میں ہو جو تمہیں رکھنا ہو۔ (مُسلِم ص۵۷۶حدیث۱۱۴۴)
مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر ’’شبِ جمعہ کو دیگر راتوں میں شب بیداری کیلئے خاص نہ کرو۔ ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جمعہ کی رات میں عبادت کرنا منع نہیں ، بلکہ اور راتوں میں بالکل عبادت نہ کرنا مناسب نہیں کہ یہ غفلت کی دلیل ہے چونکہ جمعہ کی رات ہی زیادہ عظمت والی ہے ، اندیشہ تھا کہ لوگ اس کو نفلی عبادتوں سے خاص کرلیں گے اس لیے اسی رات کا نام لیا گیا۔
{۲}تم میں سے کوئی ہرگز جُمُعہ کاروزہ نہ رکھے مگر یہ کہ اس کے پہلے یا بعد میں ایک دن ملا لے۔
(بُخارِی ج۱ص۶۵۳حدیث۱۹۸۵)
{۳}جُمُعہ کا دِن تمہارے لئے عید ہے اِس دن روزہ مت رکھو مگر یہ کہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی روزہ رکھو۔
(التَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۲ص۸۱حدیث۱۱)
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تنہا جُمُعہ کا روزہ نہ رکھنا چاہئے مگر یہ ممانعت صرف اُسی صورت میں ہے جبکہ خصوصیت کے ساتھ جمعہ ہی کا روزہ رکھا جائے اگر خصوصیَّت نہ ہو مَثَلاً جمعہ کے روز چھٹی تھی اِس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزہ رکھ لیا تو کراہت نہیں ۔
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان مراٰۃ جلد 3 صفحہ 187 پر فرماتے ہیں : مَثَلاً کوئی شخص ہر گیارہویں یا بارہویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے اس دن جمعہ آجائے تو رکھ لے، اب خلافِ اولیٰ بھی نہیں ۔
اِس ضمن میں فتاوٰی رضویہ (مُخَرَّجَہ) جلد 10 صَفحَہ 559 سے معلوماتی سُوال جواب ملاحظہ ہوں : سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اِس مسئلے میں کہ جمعہ کا روزۂ نفل رکھنا کیسا ہے؟ ایک شخص نے جمعہ کا روزہ رکھا دوسرے نے اُس سے کہا جمعہ عیدُ الْمؤمنین ہے ،روزہ رکھنا اس دن میں مکروہ ہے اور باصرار بعد دوپہر کے روزہ تڑوادیا اور کتاب ’’سِرُّالْقُلُوب‘‘ میں مکروہ ہونا لکھا ہے دکھلادیا۔ ایسی صورت میں روزہ توڑنے والے کے ذمے کفارہ ہے یا نہیں ؟ اورتڑوانے والے کوکوئی الزام ہے یانہیں ؟۔ الجواب:جمعہ کا روزہ خاص اس نیت سے (رکھنا) کہ آج جمعہ ہے اس کا روزہ بِالتَّخصیص(یعنی خصوصیت سے رکھنا) چاہئے ،مکروہ ہے، مگر نہ وہ کراہت کہ توڑنا لازم ہوا، اور اگر خاص بہ نیت تخصیص نہ تھی تو اصلاً کراہت بھی نہیں ، اُس دوسرے شخص کو اگر نیتِ مکروہہ پر اطلاع نہ تھی جب تواعتراض ہی سرے سے حماقت ہوا اور روزہ توڑوا دینا شرع پر سخت جرأت ،اور اگر اطلاع بھی ہوئی جب بھی مسئلہ بتا دینا کافی تھا نہ کہ روزہ تڑوانا اور وُہ بھی بعد دوپہر کے، جس کا اختیار نفل روزے میں والدین کے سوا کسی کو نہیں ، توڑنے والا اور تڑوانے والا دونوں گنہ گار ہوئے، توڑنے والے پر قضا لازم ہے کفارہ اصلاً (یعنی بالکل ) نہیں ۔ وَاللہ تعالٰی اَعلَم۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ہے کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہفتے اور اتوار کا روزہ رکھا کرتے اور فرماتے: ’’یہ دونوں (یعنی ہفتہ اور اتوار)مشرکین کی عید کے دِن ہیں اور میں چاہتاہوں کہ ان کی مخالفت کروں ۔‘‘ (ابنِ خُزَیْمہ ج۳ص۳۱۸حدیث۲۱۶۷)
تنہا ہفتے کا روزہ رکھنا منع ہے۔ چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن بسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی بہن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا
سے رِوایت کرتے ہیں کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہفتے کے دن کا روزہ فرض روزوں کے علاوہ مت رکھو۔‘‘ حضرتِ سَیِّدُنا امام ابو عیسٰی ترمذی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور یہاں ممانعت سے مراد کسی شخص کا ہفتے کے روزے کو خاص کرلینا ہے کہ یہودی اِس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔ (تِرْمِذِی ج۲ص۱۸۶حدیث۷۴۴)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭ماں باپ اگر بیٹے کو نفل روزے سے اِس لئے منع کریں کہ بیماری کا اندیشہ ہے تو والدین کی اطاعت کرے۔
(رَدُّالْمُحتارج۳ص۴۷۸)
٭شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۷۷)
٭نفل روزہ قصد اً شروع کرنے سے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اگر توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔
(ایضاًص۴۷۳)
٭ نفل روزہ جان بوجھ کر نہیں توڑا بلکہ بلا اختیار ٹوٹ گیا مَثَلاً عورت کوروزے کے دَوران حیض آگیا تو روزہ ٹوٹ گیا مگر قضا واجب ہے۔ (ایضاًص۴۷۴)
٭نفل روزہ بلاعذر توڑنا ،ناجائز ہے ۔مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اُسے یعنی مہمان کونا گوار گزرے گا ۔ یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کواَذِیت ہوگی تو نفل روزہ توڑنے کیلئے یہ عذر ہے بشرطیکہ یہ بھروساہو کہ اس کی قضا رکھ لیگااور یہ بھی شرط ہے کہ ضَحْوۂِ کُبْر یٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔
(دُرِّمُخْتار، رَدُّالْمُحْتار ج ۳ ص۴۷۵-۴۷۶)
٭والدین کی ناراضی کے سبب عصر سے پہلے تک نفل روزہ توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔ (ایضاًص۴۷۷)
٭اگر کسی اسلامی بھائی نے دعوت کی تو ضَحْوۂِ کُبریٰسے قبل نفل روزہ توڑسکتا ہے مگر قضا واجب ہے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۴۷۷،۴۷۳)
٭اِس طرح نیت کی کہ ’’ کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں اور نہ ہوئی تو ہے ۔ ‘‘ یہ نیت صحیح نہیں ،بہرحال روزہ دار نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۱۹۵)
٭ملازِم یا مزدور اگرنفل روزہ رکھیں توکام پورا نہیں کرسکتے تو ’’مسْتاجر ‘‘(یعنی جس نے ملازَمت یا مزدوری پر رکھا ہے)کی اجازت ضروری ہے۔اور اگر کام پورا کرسکتے ہیں تواجازت کی ضرورت نہیں ۔([7]) (دُرِّمُخْتار ج۳ص ۴۷۸)
٭طالبِ علمِ دین اگر نفل روزہ رکھتا ہے تو کمزوری ہوتی، نیند چڑھتی اور سستی کے سبب طلبِ علمِ دین میں رکاوٹ کھڑی ہوتی ہے تو افضل یہ ہے نفل روزہ نہ رکھے۔
٭حضرت سَیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھتے تھے۔اس طرح روزے رکھنا’’صَومِ داو‘دی ‘‘کہلاتا ہے اور ہمارے لئے یہ افضل ہے۔ جیسا کہ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل روزہ میرے بھائی داوٗد(عَلَیْہِ السَّلام) کا روزہ ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دِ ن نہ رکھتے اور دشمن کے مقابلے سے فِرار نہ ہوتے تھے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۹۷حدیث۷۷۰)
٭ حضرت سَیِّدُناسلیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تین۳ دن مہینے کے شروع میں ، تین۳ دن وَسط(یعنی بیچ )میں اور تین۳ دن آخر میں روزہ رکھا کرتے تھے اور اس طرح مہینے کے اَوائل، اَوَاسط اوراَواخر میں روزہ دار رہتے تھے۔(ابن عساکر ج۲۴ص۴۸)
٭ صومِ دہر(یعنی ہمیشہ روزے رکھناسوا ان پانچ دنوں یعنی شوال کی یکم اور ذِی الحجہ کی دسویں تا تیرھویں کے جن میں روزہ رکھنا حرام ہے) مکروہِ تنزیہی ہے۔ (دُرِّمُخْتار ج۳ص۳۹۱)
ہمیشہ کے
روزوں سے ممانعت پر ’’بخاری شریف‘‘ کی یہ حدیث بھی ہے اور اس کا مفہوم بھی علما نے
تاویل کے ساتھ بیان فرمایا ہے
چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الدَّہْرَ۔یعنی جو ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے رکھے ہی نہیں ۔ (بُخاری ج۱ص۶۵۱حدیث۹۱۷۹)
شارِحِ بخاری حضرتِ علَّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیاِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : اگر اس خبر کو’’ نَہْی‘‘ کے معنی میں مانیں (یعنی اگر اس حدیث کا یہ معنیٰ لیں کہ ہمیشہ روزے رکھنا منع ہے اور جو رکھے گا تو اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا) تو (اس صورت میں حدیث کا)یہ ارشاد ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کا ظنِّ غالب ہو کہ اتنے کمزور ہوجائیں گے کہ جو حقوق ان پر واجب ہیں اُن کو ادا نہیں کر پائیں گے خواہ وہ حقوق دینی ہوں یا دُنْیوی، مَثَلاً نماز، جہاد، بچّوں کی پرورش کے لیے کمائی، اور (پہلی صورت سے ہٹ کر دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ)اگر مسلسل روزہ رکھنے کی وجہ سے (اگر)ان (روزہ داروں )کا ظنِّ غالب ہو کہ حقوقِ واجبہ تو کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر) ادا کرلیں گے مگر حقو قِ غیر واجبہ اد اکرنے کی قوت نہیں رہے گی، ان کے لیے روزہ مکروہ یا خلافِ اَولیٰ ہے اور جنہیں اس کا ظنِّ غالب ہو کہ صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ )رکھنے کے باوجود تمام حقوقِ واجبہ، مسنونہ، مُسْتَحبّہ کما حَقُّہٗ (یعنی مکمَّل طور پر) ادا کرلیں گے ان کے لیے کراہت بھی نہیں ۔ بعض صحابۂ کرام جیسے ابوطلحہ انصاری اور حمزہ بن عمرو اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ ) رکھتے تھے اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں منع نہیں فرمایا، اسی طرح بہت سے تابعین اور اولیائِ کرام سے بھی صومِ دَہر(یعنی ہمیشہ روزہ ) رکھنا منقول ہے۔ [ اشعۃ اللمعات جلد ثانی ص ۱۰۰] (نزہۃ القاری ج۳ص۳۸۶ مُلَخّصاً)
یا ربِّ مصطَفٰےعَزَّوَجَلَّ! ہمیں زندَگی ،صحت اور فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے خوب خوب نفل روزے رکھنے کی سعادت عنایت فرما، انہیں قبول بھی کر،ہمیں بے حساب بخش دے اور ہمارے میٹھے میٹھے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ساری اُمّت کی مغفرت فرما۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: جو میری مَحبَّت اورمیری طرف شوق کی وجہ سے مجھ پر ہر دن اور ہر رات کو تین تین بار دُرُود شریف پڑھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّپر حق ہے کہ وہ اِس کے اُس دن اور اُس رات کے گناہ بخش دے۔ (مُعجَم کبیر ج۱۸ص۳۶۲حدیث۹۲۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حجاج
بن یوسُف ایک مرتبہ سخت گرمیوں میں دَورانِ سفر حج مکۂ معظمہ و مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ
شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے درمیان ایک منزل
میں اُترا اور دوپہر کا کھانا تیَّار کروایا اور اپنے حاجب(یعنی چوکیدار) سے کہاکہ
کسی مہمان کولے آؤ۔ حاجب خیمے سے باہر نکلاتواُسے ایک اَعرابی لیٹا ہوا
نظرآیا،اِس نے اُسے جگایا اور کہا: چلو تمہیں امیر حَجَّاج بلا رہے ہیں ۔ اَعرابی
آیا تو حَجَّاج نے کہا:میری دعوت قبول کرو اور ہاتھ دھو کر میرے ساتھ کھاناکھانے
بیٹھ جاؤ۔ اَعرابی بولا: مُعاف فرمائیے! آپ کی دعوت سے پہلے میں آپ سے بہتر ایک
کریم کی دعوت قبول کرچکا ہوں ۔ حَجَّاج نے کہا: وہ کس کی ؟ وہ بولا: اللہ تَعَالٰی کی جس
نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی اور میں روزہ رکھ چکا ہوں ۔ حَجَّاج نے کہا: اتنی
سخت گرمی میں روزہ؟
اَعرابی نے کہا: ہاں ! قِیامت کی سخت ترین گرمی سے بچنے کیلئے ۔حَجَّاجنے کہا: آج کھانا کھالو اور یہ روزہ کل رکھ لینا۔ اَعرابی بولا: کیا آپ اِس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ میں کل تک زندہ رہوں گا! حَجَّاج نے کہا یہ بات تو نہیں ۔ اَعرابی بولا: توپھر وہ بات بھی نہیں ۔یہ کہا اور چل دیا۔ (رََوضُ الرِّیاحِین ص۲۱۲) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے کسی دُنیوی حاکم کے رُعب میں نہیں آتے اوریہ بھی معلوم ہواکہ جو عاشقانِ رسول یہاں کی گرمی برداشت کرکے روزہ رکھتے ہیں وہ کل قیامت کی ہولناک گرمی سے محفوظ رہیں گے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ
حضرت
سیِّدُنا نافِعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُفرماتے
ہیں : حضرت
سیِّدُنا عبدُاللّٰہبن عمر رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے راستے میں ایک
جگہ ٹھہرے اور کھانے کے لیے دسترخوان بچھایا، اتنے میں ایک چرواہا(یعنی
بکریاں چرانے والا) وہاں آگیا ،آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے
فرمایا: آئیے! دسترخوان سے کچھ لے لیجئے!عرض کی: میرا روزہ ہے ، حضرت
سیِّدُنا عبدُاللہ
بن
عمر
رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: کیا تم اس سخت گرمی کے دن میں (نفل) روزہ رکھے
ہوئے ہو جبکہ تم ان پہاڑوں میں بکریاں چرا رہے ہو! اُس نے کہا: اللہ کی
قسم! میں یہ اس لیے کر رہا ہوں کہ زندگی کے گزرے ہوئے دِنوں کی تلافی(یعنی
بدلہ ادا)
کر لوں ۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُنے
اُس کی پرہیزگاری کا امتحان لینے کے ارادے سے فرمایا : کیا تم اپنی بکریوں میں سے
ایک بکری ہمیں بیچو گے؟ اس کی قیمت اور گوشت بھی تمہیں دیں گے تاکہ تم اس سے روزہ
افطار کرسکو، اُس نے جواب دیا:یہ بکریاں میری نہیں ہیں ، میرے مالک کی ہیں ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُنے
آزمانے کے لیے فرمایا: مالک سے کہہ دینا کہ بھیڑیا (Wolf) ان میں سے ایک کو لے گیا
ہے،غلام نے کہا:تو پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ کہاں ہے؟(یعنی اللہ تو دیکھ رہا ہے، وہ تو حقیقت کو جانتا ہے اور اس پر میری پکڑ فرمائے گا ) جب آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمدینے واپَس تشریف لائے تو اُس کے مالِک سے غلام اورساری بکریاں خرید لیں پھر چرواہے کو آزاد کردیا اور بکریاں بھی اُسے تحفے میں دے دیں ۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۴ص۳۲۹حدیث۵۲۹۱ مُلَخَّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بخاری شریف میں ہے،ایک صحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضِر ہوئے اور عرض کی : رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں نے رَمَضان کے روزے کی حالت میں اپنی عورت سے ’’قرْبت‘‘ کی، میں ہَلاک ہوگیا،( فرمائیے !اب میں کیا کروں ؟) سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: غلام آزاد کرسکتے ہو؟عرض کی: نہیں ۔ فرمایا: کیا مُتَوَاتِر دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟عرض کی: نہیں ۔ فرمایا: سا۶۰ٹھ مِسکینوں کو کھانا کھلاسکتے ہو؟ عرض کی: یہ بھی نہیں کرسکتا۔ اتنے میں بارگاہِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں کسی نے کچھ کَھجوریں ہَدِیَّۃً حاضر کیں ۔ سرکارِ نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ ساری کَھجوریں اُس صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عطا فرما دیں اور فرمایا: انہیں خیرات کردو(تمہارا کفارہ اداہوجائے گا)۔ وہ بولے: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! مدینے میں میرے گھرو الوں سے بڑھ کر کوئی خاندان محتاج نہیں ۔ سرکار نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سن کرہنسے یہاں تک کہ دندانِ مبارَک چمکنے لگے اور فرمایا: اَطْعِمْہُ اَھْلَکَ یعنی ’’اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دے‘‘ (تیرا کفارہ ادا ہوجائے گا) ۔
(بُخاری ج۱ص۶۳۸حدیث۱۹۳۶ مُلَخَّصاً)
مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نے اس حدیث کی جو شرح فرمائی ہے اس
سے حاصل ہونے والے چند مَدَنی پھول پیش کرتا ہوں : ٭ کَفارے میں ترتیب معتبر ہے کہ اگرغلام آزاد کرسکتا ہے تو یہ کرے اگرغُلام نہ پائے تو دو ماہ کے مسلسل روزے اگر یہ ناممکن ہو تو ساٹھ مِسکینوں کا کھانا۔(کَفّا رے کی تفصیلی معلومات ’’احکامِ روزہ‘‘ کے صفحہ 152تا156پر ملاحظہ فرمائیے) ٭یعنی اپنا یہ کَفّارہ تُو خود بھی کھالے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلا دے تیرا کَفّارہ ادا ہوجائے گا۔یہ ہے حُضور اَنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اختیار کہ اس کا کَفّارہ اس کے لیے انعام بنادیا، ورنہ کوئی شخص اپنا کَفّارہ اپنی زکوٰۃ نہ تو خود کھاسکتا ہے نہ اس کے بیوی بچّے مگر یہاں اس کا اپنا ہی کَفّارہ ہے اور اپنے آپ ہی کھا رہا ہے۔ (مراٰۃ ج۳ص۱۶۱،۱۶۲ ملخّصاً )’’نُزْہَۃُ الْقاری‘‘میں اس حدیث ِ پاک کے تحت ہے: حضور اَقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں جس حکم سے چاہیں مستثنٰی(یعنی جدا) فرما دیں ، مسکینوں کو کھلانے کے بجائے خود کھانے اور اپنے اہل وعیال کو کھلانے کا حکم دیا۔ (نزہۃ القاری ج۳ص۳۳۵ مُلَخّصاً)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک بار حضرتِ سَیِّدُنا امیرِ مُعاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی خدمت میں ایک لاکھ دَراہم بھیجے، تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے وہ سب دِرہم ایک ہی روز میں راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں تقسیم کردئیے اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا اور اُس روز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا خود روزے سے تھیں ۔حضرتِ سَیِّدَتُنا بریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے عرض کی: آپ کا روزہ ہے اگر اس میں سے ایک دِرْہم کا گوشت خرید لیتیں تو ہم اس سے روزہ اِفطار کرتے۔ فرمایا: اگر تم یاد دلاتیں تو بچالیتی۔(اَلْمُستَدرَک ج۴ص۱۷ حدیث۶۸۰۵ ) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اُمُّ الْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے وسعت کے باوجود اپنی زندگی نہایت سادہ اور زاہدانہ گزاردی اور جو دولت بھی حاضر ہوئی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں تقسیم فرمادی یہاں تک کہ لاکھ دَراہم آئے وہ بھی لٹادئیے اور روزہ اِفطار کرنے کیلئے بھی کوئی اہتمام نہ فرمایا اور ایک ہم ہیں کہ اگرکبھی نَفْل روزہ رکھ بھی لیں تو ہمیں اِفطار کے وَقت ہمہ اَقسام کے پھل، کباب، سموسے،ٹھنڈا ٹھنڈا شربت اور نہ جانے کیا کیا چاہئے۔ کاش! ہمیں بھی اُمّ الْمُؤمِنِینسَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے نقشِ قدم پر چلنا نصیب ہو جائے۔ حبِّ دنیا سے پیچھا چھڑانے اور آخرت بہتر بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رَہنا بے حد مفید ہے۔ جب بھی آپ کے علاقے میں دعوتِ اسلامی کے عاشِقانِ رسول کا مَدَنی قافلہ تشریف لائے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ضرور فیضیاب ہوں ۔ آیئے! آپ کو ایک بگڑے ہوئے نوجوان کی ’’مدنی بہار‘‘ سناتا ہوں جو مَدَنی قافلے کے عاشقانِ رسول کی ملاقات کیلئے آیاتو اس کی زندگی میں مَدَنی انقلاب برپا ہو گیا! چنانچِہشہر قصور (پنجاب، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی میٹرک کے طالبِ علم تھے، بری صحبت کے باعث گناہوں بھری زندگی گزار رہے تھے ، مزاج بے حد غصیلا تھا اور بد تمیزی کی نوبت اِس حد تک پہنچ چکی تھی کہ والد کجا دادا اور دادی کے سامنے بھی قینچی کی طرح زَبان چلاتے تھے۔ ایک روزتبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کا ایک مَدَنی قافلہ ان کے مَحَلّے کی مسجِد میں حاضِر ہوا، خدا عَزَّوَجَلَّ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ عاشِقانِ رسول سے ملاقات کیلئے پہنچ گئے۔ ایک باعمامہ اسلامی بھائی نے اِنفرادی کوشِش کرتے ہوئے انہیں درس میں شرکت کی دعوت پیش کی، وہ ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ مدنی قافلے کے عاشقانِ رسول نے درس کے بعد بتایا کہ چند ہی روز بعدمدینۃ الاولیا ملتان شریف میں دعوتِ اسلامی کا بینَ الاقوامی
تین روزہ سنتوں بھرا اجتماع ہو رہا ہے آپ بھی شرکت کر لیجئے۔ درس نے ان پر بہت اچھا اثر کیا تھا لہٰذا وہ انکارنہ کر سکے۔ یہاں تک کہ وہ اجتماع ( ملتان) میں حاضر ہو گئے۔ وہاں کی رونقیں اور بَرَکتیں دیکھ کر وہ حیران رَہ گئے، وہاں ہونے والے آخری بیان’’گانے باجے کی ہولناکیاں ‘‘ سن کر تھرا اُٹھے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ وہ گناہوں سے توبہ کر کے اُٹھے اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوگئے۔ان کی مَدَنی ماحول سے وابستگی سے ان کے گھر والوں نے اطمینان کا سانس لیا۔دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کی بَرَکت سے ان جیسے بگڑے ہوئے بد اخلاق نوجوان میں مَدَنی انقلاب برپا ہو جانے کی وجہ سیمُتأَثِّر ہو کر ان کے بڑے بھائی نے داڑھی رکھنے کے ساتھ ساتھ عمامہ شریف کا تاج بھی سجا لیا۔ ان کی ایک ہی بہن ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاُس نے بھی مَدَنی بُرقع پہن لیا ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّگھر کا ہر فرد سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخِل ہو کر سرکارِ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا مرید ہو گیا اور ان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ایسا کرم فرمایا کہ انہوں نے قراٰنِ پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرلی اور درسِ نظامی(عالم کورس) میں داخلہ لے لیا اور یہ بیان دیتے وقت دَرَجۂ ثالثہ یعنی تیسری کلاس میں پہنچ چکے ہیں ۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّدعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کے تعلق سے علاقائی قافلہ ذِمہ داری کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
دل پہ گر زَنگ ہو،ساراگھر تنگ ہو داغ سارے دُھلیں ، قافِلے میں چلو
ایسا فیضان ہو، حفظ، قراٰن ہو خوب خوشیاں ملیں ، قافِلے میں چلو (وسائلِ بخشش ص۶۷۲)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُنا سری سقطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا روزہ تھا، طاق میں پانی ٹھنڈا ہونے کیلئے آبخورا(یعنی کوزہ) رکھ دیا تھا، نمازِ عصر کے
بعد مراقبے میں تھے، حور انِ بہشت (یعنی جنتی حوروں ) نے یکے بعد دیگرے سامنے سے گزرنا شروع کیا۔ جوسامنے آتی اُس سے دریافت فرماتے:تو کس کے لئے ہے؟ وہ کسی ایک بندئہ خدا کا نام لیتی ۔ ایک آئی، اُس سے بھی یہی پوچھاتو اُس نے کہا: ’’اُس کیلئے ہوں جو روزے میں پانی ٹھنڈا ہونے کو نہ رکھے۔‘‘ فرمایا: ’’اگر تو سچ کہتی ہے تو اِس کوزے کو گرادے،‘‘ اُس نے گرادیا ۔اِس کی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تو وہ آبخورا(کوزہ ) ٹوٹا پڑا تھا۔(ملفوظاتِ اعلٰی حضرت ص ۱۵۸و تفسیرُ الاْحلام لابن سیرین ص۶۵مُلَخّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے آخرت کی اَبدی راحتیں اور نہ ختم ہونے والی نعمتیں پانے کے شوق میں اپنے نفس کو قابو کر کے دنیا کی لذتوں کو ٹھوکر ماردیا کرتے ہیں ۔چنانچِہ ایک بزرگرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے سخت گرمی کے دِنوں میں دوپہر کے وَقت ایک شخص کو دیکھا کہ برف لئے جارہا ہے ،دل میں حسرت ہوئی، کاش! میرے پاس بھی پیسے ہوتے اورمیں بھی برف خرید کر ٹھنڈا پانی پیتا۔ پھر فوراً ندامت ہوئی کہ میں نفس کی چال میں کیوں آگیا! اُنہوں نے عہد کیا کہ کبھی ٹھنڈا پانی نہ پیوں گا ۔لہٰذا سخت گرمی کے موسم میں بھی پانی کو گرم کرکے پیا کرتے تھے۔ ؎
نہَنگ([8])و اَژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفسِ اَمارہ کو گر مارا
رَمَضانُ الْمُبارَک کی آمد آمدتھی اور مشہور مؤَرخ حضرتِ وَاقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے پاس کچھ نہ تھا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے ایک علوی دوست کی طرف یہ رُقعہ بھیجا: ’’رَمضان شریف کا مہینا آنے والا ہے اور میرے پاس خرچ کیلئے کچھ نہیں ، مجھے قرضِ حسنہ کے طور پر ایک۱۰۰۰ ہزار دِرہم بھیجئے۔‘‘ چنانچہ اُس عَلَوی نے ایک ہزار دِرہم کی تھیلی بھیج دی۔تھوڑی دیر کے بعد حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے ایک دوست کا رُقعہ حضرتِ وَاقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکی طرف آگیا: ’’رَمضان شریف کے مہینے میں خرچ کیلئے مجھے ایک ہزاردِرْہم کی ضرورت ہے۔‘‘ حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے وُہی تھیلی وہاں بھیج دی۔ دوسرے روز وہی علوی دوست جن سے حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے قرض لیا تھااور وہ دوسرے دوست جنہوں نے حضرت واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیسے قرض لیا تھا۔ دونوں حضرتِ وَاقدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکے گھر آئے ۔ علوی کہنے لگے: رَمَضانُ الْمُبارَک کا مہینا آرہا ہے اور میرے پاس ان ہزار درہموں کے سِوا ا ور کچھ نہ تھا۔ مگر جب آپ کا رُقْعہ آیا تو میں نے یہ ہزار دِرْہم آپ کو بھیج دیئے اور اپنی ضرورت کیلئے اپنے اِن دوست کو رُقعہ لکھا کہ مجھے ایک ہزار دِرْہم بطورِ قرض بھیج دیجئے۔ انہوں نے وُہی تھیلی جو میں نے آپ کو بھیجی تھی، مجھے بھیج دی۔تو پتا چلا کہ آپ نے مجھ سے قرض مانگا ،میں نے اپنے اِن دوست سے قرض مانگا اور اِنہوں نے آپ سے مانگا۔ اور جوتھیلی میں نے آپ کو بھیجی تھی وہ آپ نے اسے بھیج دی اور اس نے وُہی تھیلی مجھے بھیج دی۔ پھر ان تینوں حضرات نے اتفاقِ رائے سے اس رقم کے تین حصے کرکے آپس میں تقسیم کر لئے۔ اُسی رات حضر تِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو خواب میں جنابِ رِسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی اور فرمایا:کل تمہیں بہت کچھ مل جائے گا ۔ چنانچہ دوسرے روز امیریَحیٰی بَرْمَکِی نے حضر تِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو بلا کر پوچھا: ’’میں نے رات خواب میں آپ کو پریشان دیکھا ہے ،کیا بات ہے؟‘‘ حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے سار ا قصہ سنایا۔ تو یَحیٰی بَرْمَکِی نے کہا: ’’ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ تینوں
میں سے کون زیادہ سخی ہے،بے شک آپ تینوں ہی سخی اور واجب ا لاحترام ہیں ۔ پھراس نے تیس ہزار دِرْہم حضرتِ واقدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو اور بیس بیس ہزار ان دونوں کو دئیے۔ اور حضرتِ واقدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو قاضی بھی مقرر کردیا۔ ( حُجَّۃ اللہ عَلَی الْعٰلَمِین ص ۵۷۷ مُلَخَّصاً) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے سخی اور پیکر ایثار ہوتے ہیں اور وہ اپنے اسلامی بھائی کی تکلیف دور کرنے کی خاطر اپنی مشکلات کی ذرّہ برابر پروا نہیں کرتے۔ اِس حکایت سے معلوم ہواکہ جودو سخاوت سے ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہاللہ عَزَّوَجَلَّکے مَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تَعَالٰی کی رحمت سے امّت کے حالات سے باخبر ہیں اپنے غلاموں کی بگڑی بناتے ہیں ۔اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں ایثار کی بہت فضیلت ہے ۔ چنانچِہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مغفرت نشان ہے: ’’جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو، پھر اُ س خواہش کو روک کر اپنے اوپرکسی اور کو ترجیح دے، تو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُسے بخش دیتا ہے۔‘‘ (ابنِ عَساکِر ج۳۱ ص۱۴۲)
حضرت سَیِّدُناامام قتادہ رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کے اُستاذِحدیث حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن
غالب حدانی
قُدِّسَ
سِرُّہُ الرَّ بَّانِیشہید کر دیئے گئے ۔ تدفین کے بعد ان کی قَبْرشریف
کی مٹی سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: آپ کے ساتھ کیا
معاملہ فرمایا گیا؟ کہا: ’’اچھا معاملہ فرمایا گیا۔‘‘پوچھا: آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو کہاں
لے جایا گیا؟ کہا: ’’جنت میں ۔‘‘ پوچھا: ’’کون سے عمل کے باعث ؟‘‘ فرمایا: ’’ایمانِ
کامل، تہجُّد اور گرمیوں کے روزوں کے سبب، ‘‘
پھر پوچھا: ’’آپ کی قَبْرسے مشک کی خوشبو کیوں آرہی ہے؟‘‘تو جواب دیا: ’’یہ میری تلاوت اور رَوزوں میں پیاس کی خوشبو ہے۔‘‘ (حِلیَۃُ الاَوْلِیاء ج۶ص۲۶۶رقم۸۵۵۳) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اسی طرح حضرتِ سَیِّدُنا امام بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیکی قبر انور کی مٹی سے بھی مشک کی خوشبو آتی تھی۔ بار بار قَبْر پر مٹی ڈالی جاتی تھی مگر لوگ خوشبو کی وجہ سے تَبَرُّکاً اُٹھالے جاتے تھے۔ (طبقاتُ الشّافعیۃ للسبکی ج۲ص۲۳۳)
صاحب دلائل الخیرات حضرت شیخ سیِّد محمد بن سلیمان جزولیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی قبرمنور بھی معطر تھی اور اُس سے کستوری کی خوشبو کی لپٹیں آتی تھیں کیونکہ آپ زندگی میں کثرت سے دُرُود شریف پڑھا کرتے تھے۔ انتقال کے 77برس کے بعدکسی سبب سے ـ’’سوس‘‘ سے ’’مراکش‘‘ میں مُنْتَقِل کرنے کے لیے جب قبرکشائی کی گئی تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا جسم مبارَک بالکل صحیح و سالم تھا حتّٰی کہ کفن تک بوسیدہ نہیں ہوا تھا۔ وفات سے قبل آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے داڑھی مبارَک کا خط بنوایا تھا وہ ایسے ہی تھا جیسے آج ہی بنوایا ہے، یہاں تک کہ کسی نے امتحاناً آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے رخسارِ مبارَک پر انگلی رکھ کر دبایا تو اُس جگہ سے خون ہٹ گیا اور جہاں دبایا تھا وہ جگہ سفید سی ہو گئی یعنی ز ندہ انسانوں کی طرح خون بھی جسم میں رَواں دَواں تھا! (مَطالِعُ الْمَسَرَّات ص۴)
جبیں میلی نہیں ہوتی بدن میلا نہیں ہوتا
غلامانِ محمد کا کفن میلا نہیں ہوتا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُنا سُفیان ثوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : ایک بار میں تین سال تک مکّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں مقیم رہا۔ ایک مکی شخص روزانہ دوپہر کے وقت طوافِ کعبہ کرتا، دو رکعت واجب الطواف ادا کرتا پھر مجھے سلام کرتا اور اپنے گھر چلا جاتا۔ مجھے اُس نیک بندے سے مَحَبَّت ہو گئی۔ وہ سخت بیمار ہو گیا میں عیادت کے لئے حاضر ہوا تو اُس نے مجھے وصیت کی: ’’جب میں فوت ہو جاؤں تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاپنے ہاتھوں سے غسل دے کر میری نمازِ جنازہ ادا فرمائیے، مجھے تنہا نہ چھوڑئیے بلکہ ساری رات میری قَبْر کے پاس تشریف فرما رہئے نیز مُنکَر نکیر کی آمد کے وقت مجھے تلقین فرمائیے گا۔‘‘ میں نے ہامی بھر لی۔ چنانچہ اس کے انتقال کے بعد میں نے حسبِ وصیَّت عمل کیا، قَبْر کے پاس حاضر تھا کہ مجھے اُونگھ آ گئی ، میں نے ہاتف غیبی کی آواز سنی: ’’اے سفیان (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)! اِس کو تیری تلقین و قربت کی کوئی حاجت نہیں ، اِس لئے کہ ہم نے خود ہی اِس کواُنس دیا اور تلقین کی۔‘‘ میں نے کہا: اِس کو کس عمل کے سبب یہ رُتبہ ملا؟ آواز آئی: ’’رَمَضان ُ الْمبارَک اور اس کے بعد شوّالُ المُکرَّم کے چھ روزے رکھنے کی برکت سے۔‘‘ حضرتِ سَیِّدُنا سفیان ثوریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : اُس ایک رات میں یہی خواب میں نے تین۳ بار دیکھا۔ میں نے بارگاہِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: یااللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے بھی اپنے فضل و کرم سے ان روزوں کی توفیق عطا فرما۔ (قَلیوبی ص۱۴) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک مرتبہ رَمضان شریف کے چاند کے بارے میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا، بعض لوگ کہتے تھے کہ رات کو چاند ہوگیا اور بعض کہتے تھے کہ نہیں ہوا۔ حضور غوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی والدۂ ماجدہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہانے ارشاد فرمایا: ’’میرا یہ بچہ( یعنی غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم ) جب سے پیدا ہوا ہے۔ رَمضان شریف کے دنوں میں سارا دن دُودھ نہیں پیتا اور آج بھی چونکہ عبدالقادِر عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الظّاہِرنے دن کے وقت دودھ نہیں پیا اس لیے غالِباً رات کو چاند ہو گیا ہے۔‘‘ چنانچہ پھر تحقیق کرنے پر ثابت ہوا کہ چاند ہو گیا ہے۔ (بَہْجَۃُ الْاَسْرار ص۱۷۲) اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
چھوڑا ہے ماں کا دودھ بھی ماہِ صیام میں
سرتاجِ اتقیا کو ہمارا سلام ہو (وسائلِ بخشش ص۶۲۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو!
غوثِ اعظم عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی مَحَبَّتاور اولیائے کرام کی
چاہت دل میں بڑھانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ
اسلامی
کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے اور خوب خوب رحمتیں اور بَرَکتیں لوٹئے۔
آیئے! آپ کی ترغیب وتَحریص کیلئے ایک ایمان افروز خوشگو ار مَدَنی
بہار
آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔ چُنانچِہ گلستانِ مصطفٰے ( بابُ
المدینہ کراچی )کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے: میں نے ایک
ایسے اسلامی بھائی کو تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ
اسلامی
کے مدینۃ الاولیا ملتان شریف میں ہونے والے بین الاقوامی تین
روزہ سنتوں بھرے اجتماع کی دعوت پیش کی جن کی بیٹی کو جگر کا
کینسر
تھا۔ وہ دُعائے شفا کا جذبہ لئے
سنتوں بھرے اجتماع میں شریک ہو گئے۔ان کا کہنا ہے کہ میں نے اجتماعِ پاک میں خوب دُعا کی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّواپسی کے بعد جب اپنی بیٹی کا چیک اَپ کروایا تو ڈاکٹر حیران رَہ گئے کیوں کہ اُس کے جگر کا کینسر ختم ہوچکا تھا! ڈاکٹروں کی پوری ٹیم حیرت زدہ تھی کہ آخرکینسر گیا کہاں ! جبکہ حالت اس قدر خراب تھی کہ اجتماعِ پاک میں جانے سے پہلے اُس لڑکی کے جگر سے روزانہ کم ازکم ایک سرنج بھر کرمواد نکالا جاتا تھا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاجتماعِ پاک ( ملتان) میں شرکت کی برکت سے اب اُس لڑکی کے جگر میں کینسر کانام ونشان تک نہ رہاتھا، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّتادمِ بیان وہ لڑکی اب نہ صرف رُوبہ صحت ہے بلکہ اُس کی شادی بھی ہوچکی ہے۔
اگر دردِ سر ہو، کہیں کینسر ہو دلائے گا تم کو شفا مَدنی ماحول
شفائیں ملیں گی، بلائیں ٹلیں گی یقینا ہے بَرَکت بھرا مَدنی ماحول (وسائلِ بخشش ص۶۴۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے، سلطانِ دوجہان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَانکو ایک
دِن روزہ رکھنے
کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا: جب تک میں اِجازت نہ دوں ، تم میں سے کوئی
بھی اِفطار نہ کرے۔ لوگوں نے روزہ رکھا۔ جب شام
ہوئی تو تمام صحابۂ کرامعَلَيهِمُ الّرِضْوَانایک ایک کرکے حاضر
خدمتِ بابرکت ہوکر عرض کرتے رہے: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں روزے
سے رہا، اب مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں روزہ کھول دُوں ۔ آپ رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُسے اِجازت مرحمت فرما دیتے۔ ایک صحابی رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ نے حاضر ہوکر عرض کی: آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ
! دوعورتوں نے
روزہ رکھا
اور وہ آپصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ با برکت
میں آنے سے حیا محسوس کرتی ہیں ، اُنہیں اجازت دیجئے تاکہ وہ بھی روزہ کھول
لیں ۔
اللہ کے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن سے رُخِ انور پھیرلیا، اُنہوں نے پھرعرض کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر چہرئہ انور پھیرلیا۔ اُنہوں نے پھریہی بات دُہرائی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر چہرئہ انور پھیرلیا وہ پھر یہی با ت دُہرانے لگے آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر رُخِ انور پھیر لیا، پھر غیب دان رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے(غیب کی خبر دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا: ’’اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا وہ کیسی روزہ دار ہیں وہ تو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتی رہیں !جاؤ ،ان دونوں کو حکم دو کہ وہ اگر روزہ دار ہیں تو قے کردیں ۔ ‘‘ وہ صحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُن کے پاس تشریف لائے اور انہیں فرمانِ شاہی سنایا۔اُن دونوں نے قے کی، تو قے سے جما ہوا خون نکلا۔ اُن صحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ بابرکت میں واپس حاضر ہو کر صور تحال عرض کی۔ مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اُس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،اگر یہ اُن کے پیٹوں میں باقی رہتا ، تو اُن دونوں کو آگ کھاتی (کیوں کہ انہوں نے غیبت کی تھی)۔ (ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۷۲ رقم۳۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علم غیب حاصل ہے اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنے غلاموں کے تمام معاملات معلوم ہوجاتے ہیں ۔جبھی تو اُن لڑکیوں کے بارے میں مسجِد شریف میں بیٹھے بیٹھے غیب کی خبر ارشاد فرما دی۔ بہرحال روزہ ہویا نہ ہو، زَبان کا قفلِ مدینہ ہی بھلا ورنہ یہ ایسے گل کھلاتی ہے کہ توبہ!
سرورِ دیں لیجے اپنے ناتوانوں کی خبر
نفس و شیطاں سیِّدا! کب تک دباتے جائیں گے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت سَیِّدُنا داوٗد طائیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمسلسل چالیس سال تک روزے رکھتے رہے مگر آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے اِخلاص کا یہ عالَم تھاکہ اپنے گھر والوں تک کو خبر نہ ہونے دی۔ کام پر جاتے ہوئے دوپہر کا کھانا ساتھ لے لیتے اور راستے میں کسی کو دے دیتے،مغرِب کے بعد گھر آکر کھانا کھا لیا کرتے۔
(تاریخ بغداد ج۸ص۳۴۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ! اِخلاص ہو توایسا ! حضرت سَیِّدُنا داوٗد طائیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکو اپنے نفس پر زبردست قابو تھا۔ ’’تذکِرۃُ الْاَولیائ‘‘ میں ہے: ایک بار گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھے مشغولِ عبادت تھے کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی والدۂ محترمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِانے فرمایا: بیٹا!سائے میں آجاتے تو بہتر تھا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے جواب دیا: ’’امی جان! مجھے شرم آتی ہے کہ اپنے نفس کی خواہش کے لئے کوئی قدم اٹھاؤں ۔‘‘
ایک بارآپ کا پانی کا گھڑا دھوپ میں دیکھ کر کسی نے عرض کی: یاسَیِّدی ! اِس کو چھاؤں میں رکھا ہوتا تو اچھا تھا۔ فرمایا: جب میں نے رکھا تو اُس وقت یہاں چھاؤں تھی لیکن اب دھوپ میں سے اٹھاتے ہوئے ندامت محسوس ہو رہی ہے کہ میں صرف اپنے نفس کی راحت کی خاطر گھڑا ہٹانے میں وَقت صَرف کروں ۔
ایک مرتبہ
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِدھوپ میں قراٰنِ
پاک کی تلاوت کر رہے تھے ۔ کسی نے سائے میں آنے کی درخواست کی۔ تو فرمایا: ’’مجھے
اِتباعِ نفس ناپسند ہے۔‘‘ یعنی نفس بھی یہی مشورہ دے رہا ہے کہ چھاؤں میں آجاؤ
مگر میں اِس کی پیروی نہیں کر سکتا۔ اسی رات آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا وصال ہو گیا۔
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِکے
انتقال کے بعد غیب سے آواز سنی گئی: ’’داوٗد طائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنی مراد کو
پہنچا کیوں کہ اس کا پروَرْدگار عَزَّوَجَلَّ اس سے خوش ہے۔‘‘ (تذکرۃ
الاولیا ء ج۱ص۲۰۱۔۲۰۲مُلَخّصاً)
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حکایت نمبر 11 سے ان لوگوں کو ضرور عبرت حاصل کرنی چاہئے جو بلا ضرورت اپنی نیکیوں کا اِعلان کر کے ریاکاری کا خطر ہ مول لیتے ہیں ، مَثَلاً کوئی کہتا ہے: میں ہر سال رجب، شعبان اور رَمضان کے روزے رکھتا ہوں ، کوئی بولتا ہے: میں اتنے سال سے ہر ماہ ایامِ بیض کے روزے رکھ رہا ہوں ، کوئی اپنے حج کی تعداد کاتو کوئی عمرے کی گنتی کا اعلان کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے: میں روزانہ اتنے دُرُود شریف پڑھتا ہوں ، اتنے عرصے سے دلائل الخیرات شریف کا وِرد کررہا ہوں ۔ اتنی تلاوت کرتا ہوں ، ہر ماہ فلاں مدرَسے کو اتنا چندہ پیش کرتا ہوں ۔ اَلْغَرَض خواہ مخواہ اپنے نوافل، تہجُّد، نفلی روزوں اور عبادتوں کا خوب چرچاکیا جاتا ہے۔خدانخواستہ ریاکاری میں جاپڑے تو اس کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ جُبُّ الْحُزْن‘‘ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کرو! صحابۂِ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَاننے عرض کی: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ’’ جُبُّ الْحُزْن‘‘ کیا ہے ؟ فرمایا: ’’یہ جہنَّم میں ایک وادی ہے جس (کی سختی )سے جہنَّم بھی روزانہ چار سو بار پناہ مانگتا ہے، اس میں وہ قاری داخل ہوں گے جو اپنے اعمال میں ریا کرتے ہیں ۔‘‘ ( ابنِ ماجہ ج۱ص۱۶۷حدیث۲۵۶)
رِیا کی تعریف یہ ہے:’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کے علاوہ کسی اور اِرادے سے عبادت کرنا۔ ‘‘ گویا عبادت سے یہ غرض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک آدَمی سمجھیں یا اسے عزّت وغیرہ دیں ۔ (اَلزّواجر ج۱ص۷۶)
آج کل مدنی مُنّا یا مدنی منی ا گر حفظِ قراٰن مکمَّلکر لے تو اسکے لئے شاندار تقریب کی جاتی ہے،اگر اس سے مقصود ریاکاری اور دکھاوا نہ ہو، اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ محض رضائے الٰہی کیلئے اِنعقا د کیا جائے تو یہ ایک نہایت عمدہ عمل ہے۔ ہو سکے تو اپنے حافظ مَدَنی منے کی دینی ترقی کے لئے اُسے بُزُرگوں کی بارگاہوں میں پیش کر کے عمر بھر قراٰنِ کریم یاد رہنے اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کی دُعائیں بھی لینی چاہئیں ۔ اِن شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ اس طرح خوب بَرَکتیں ملیں گی۔
مدنی منوں اور مدَنی منیوں کو قراٰنِ کریم حفظ کروانابے شک بہت بڑا نیک کام ہے، مگر یہ یاد رکھئے کہ حفظ کرنا آسان ہے مگر عمر بھر حافظ رہنا مشکل ہے۔ لہٰذا جو بھی اپنی اولاد کو حفظ کروائے اُس کی خدمت میں درد بھری مَدَنی التجا ہے کہ عمر بھر اپنی حافظ اولاد پر کڑی نگرانی بھی رکھے اور تاکید کرے کہ ہر روز ایک منزل تلاوت کرے اگر یہ نہ ہو سکے تو روزانہ کم از کم ایک پارہ تو لازماًپڑھے تاکہ حفظ باقی رہے۔’’بخاری شریف‘‘ میں ہے ، نبیوں کے سلطان ، رَحمت عالمیان ، سردارِ دو جہان، محبوبِ رحمن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان بَرَکت نشان ہے: ’’نگاہ رکھو قراٰن کو اور اسے یاد کرتے رہو، سوقسم ہے اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے البتّہ قراٰن زیادہ چھوٹنے پر آمادہ ہے اُن اونٹوں سے جو اپنی رسیوں سے بندھے ہوں ۔‘‘ (بُخاری ج ۳ ص۴۱۲حدیث۵۰۳۳)یعنی جس طرح بندھے ہوئے اونٹ چھوٹنا چاہتے ہیں اور اگر ان کی محافظت و احتیاط نہ کی جائے تو رِہا ہو جائیں اس سے زیادہ قراٰن کی کیفیَّت ہے اگر اِسے یاد نہ کرتے رہو گے تو وہ تمہارے سینوں سے نکل جائے گا، پس تمہیں چاہئے کہ ہروقت اس کا خیال رکھو اور یاد کرتے رہو اس دولتِ بے نہایت کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ (فتاویٰ رضویہ ج ۲۳ ص ۶۴۴ )
یقینا حفظ قراٰنِ کریم کا رِ ثواب عظیم ہے مگر یاد رہے !حفظ کرنا آسان مگر عمر بھر اِس کو یاد رکھنا
دشوار ہے۔ حفاظ و حافظات کو چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک پارہ لازِماً تلاوت کر لیا کریں ۔ جو حفاظ رَمَضانُ المبارَک کی آمد سے تھوڑا عرصہ قبل فَقط مُصَلّٰی سنانے کیلئے منزل پکی کرتے ہیں اور اِس کے علاوہ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّسارا سال غفلت کے سبب کئی آیات بھلا ئے رہتے ہیں ، وہ بار بار پڑھیں اور خوف خدا عَزَّوَجَلَّ سے لرزیں ۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد اوّل صَفْحَہ 552پر صدرُالشَّریعہ،بدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :قراٰن پڑھ کر بھلا دینا گناہ ہے۔ جو قراٰنی آیات یاد کرنے کے بعد بھلادے گا بروزِ قیامت اندھا اُٹھایا جائے گا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۵۵۳)
{۱}میری اُمّت کے ثواب میرے حضور پیش کیے گئے یہاں تک کہ میں نے ان میں وہ تنکا بھی پایا جسے آدَمی مسجِد سے نکالتا ہے اور میری اُمت کے گناہ میرے حضور پیش کیے گئے میں نے اِس سے بڑا گناہ نہ دیکھا کہ کسی آدَمی کو قراٰن کی ایک سُورت یا ایک آیت یاد ہو پھر وہ اُسے بھلا دے۔ (تِرمِذی ج۴ص۴۲۰حدیث۲۹۲۵) {۲}جوشخص قراٰن پڑھے پھر اسے بھلا دے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کوڑھی ہو کر ملے۔ (ابوداوٗد ج۲ص۱۰۷حدیث۱۴۷۴) {۳} قیامت کے دن میری اُمت کو جس گناہ کا پورا بدلہ دیا جائے گا وہ یہ ہے کہ اُن میں سے کسی کو قراٰن پاک کی کوئی سورت یا د تھی پھر اُس نے اِسے بھلادیا۔(جَمْعُ الْجَوامِع ج۳ ص۱۴۵ حدیث ۷۸۹۴)
اعلٰی حضرت امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :اس سے زیادہ نادان کون ہے جسے خدا ایسی ہمّت بخشے اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے کھودے اگر قدر اس( حفظِ قراٰنِ پاک) کی جانتا اور جو ثواب اور دَرَجات اِس پر موعود ہیں (یعنی جن کا وعدہ کیا گیا ہے) ان سے واقف ہوتا تو اسے جان ودل سے زِیادہ عزیز (پیارا) رکھتا۔ مزید فرماتے ہیں : جہاں تک ہو سکے اِس کے پڑھانے اورحفظ کرانے اور خود یاد رکھنے میں کوشش کرے تا کہ وہ ثواب جو اس پر موعود (یعنی وعدہ کئے گئے) ہیں حاصل ہوں اور بروزِ قیامت اندھا
کوڑھی اُٹھنے سے نجات پائے۔ ( فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص۶۴۵،۶۴۷)
تحدیث نعمت (یعنی نعمت کا چرچا کرنے )کی نیّت سے نیک عمل کا اظہار کیا جا سکتا ہے،اِسی طرح کوئی پیشوا ہے اور وہ اپنا عمل اِس نیت سے ظاہر کر تا ہے کہ ماتحت اَفراد کو اس سے نیک عمل کی رغبت ملے گی تو اب رِیاکاری نہیں ،مگر ہر ایک کو اپنا عمل ظاہِر کرتے وَقت ایک سو۱۰۱ ایک بار اپنے دل کی کیفیت پر غور کر لینا چاہئے، کیونکہ شیطٰن بڑامکار ہے ،ہوسکتا ہے کہ اس طرح سے اُبھار کر بھی وہ ریا کاری میں مبتلاکردے ، مثلاً دل میں وَسوَسہ ڈالے کہ لوگوں سے کہہ دے، ’’میں تو صِرْف تَحدِیثِ نعمت کیلئے اپنا عمل بتا رہا ہوں ۔‘‘حالانکہ دل میں لڈّو پھوٹ رہے ہوں کہ اس طرح بتانے سے لوگوں کے دلوں میں میری عزت بڑھ جائے گی ۔یہ یقینا ریا کاری ہے اور ساتھ میں تحدیث نعمت کا کہنا ریا کاری در ریاکاری اور ساتھ ہی جھوٹ کے گناہ کی تباہ کاری بھی ہے۔ تفصیلی معلومات کیلئے مکتبۃُ الْمدینہ کی مطبوعہ کتاب’’ ریاکاری‘‘ (166صفحات) کا مطالعہ فرمایئے۔
یاربِّ مصطَفٰےعَزَّوَجَلَّ! ہمیں اِخلاص کے ساتھ عبادت اور نَفْل روزوں کی کثرت کی سعادت نصیب فرما اورہمیں شیطٰن کے اُن حیلے بہانوں کی پہچان عطا فرما جن کے ذَرِیعے وہ ہمارے اعمال برباد کر دیا کرتا ہے۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
عطا کردے اخلاص کی مجھ کو نعمت
نہ نزدیک آئے رِیا یاالٰہی (وسائلِ بخشش ص۱۰۶)
حضرتِ سیِّدُنا مالِک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارنے چالیس سال کے دَوران کبھی کھجور نہیں کھائی ۔ چالیس برس بعد آپ کو جب کھجور کھانے کی خوب خواہش ہوئی تو نفس کشی کے لئے مسلسل آٹھ دن
روزے رکھے۔ پھر کھجوریں خرید کر دن کے وقت بصرہ شریف کے ایک مَحَلّے کی مسجِد میں داخل ہوئے، ابھی کھانے کیلئے کھجوریں نکالی ہی تھیں کہ ایک بچّہ چلّا اُٹھا ، اباّ جان ! مسجِد میں یہودی آگیا ہے ! اُس کے والِد صاحِب یہودی کا نام سُن کر ہاتھ میں ڈنڈا لئے چڑھ دوڑے مگر آتے ہی آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو پہچان لیا اور معذِرت کرتے ہوئے عَرض کی: حضور! بات دراصل یہ ہے کہ ہمارے مَحَلَّے میں سارے مسلمان روزہ رکھتے ہیں یہودیوں کے عِلاوہ دن کے وقت یہاں کوئی نہیں کھاتا ، اِسی لئے بچے کو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے یہودی ہونے کا شبہ گزرا۔ براہِ کرم ! آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی خطا مُعاف فرمادیجئے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عالَمِ جوش میں فرمایا: بچوں کی زَبان ’’غیبی زَبان‘‘ ہوتی ہے ۔ پھرقسم کھائی کہ اب کبھی کھجور کھانے کا نام نہ لوں گا۔ (تذکرۃُالاولیاء ج ۱ ص ۵۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْناپنے نفس کو کس طرح مارتے تھے۔ سیِّدُ نا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکی نفس کشی کے کیا کہنے ! آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِبرسوں تک کوئی لذیذ چیز نہیں کھاتے تھے ۔عموماً دن کو روزہ داررہ کر روکھی روٹی سے افطار کا معمول تھا۔ ایک بارنفس کی خواہش پر گوشت خریدا اور لے کر چلے، راستے میں سونگھا اور فرمایا:’’ اے نفس! گوشت کی خوشبو سونگھنے میں بھی تو لطف ہے! بس اِس سے زیادہ اِس میں تیرا حصہ نہیں ۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ گوشت ایک فقیر کو دیدیا۔ پھر فرمایا: اے نفس! میں کسی عداوت کے باعث تجھے اذیت نہیں دیتا میں توصِرْف اِس لئے تجھے صَبْر کا عادی بنا رہا ہوں کہ رِضائے الٰہیعَزَّوَجَلَّکی لازَوال دولت نصیب ہوجائے۔ (تذکرۃُ الاولیاء ج۱ص۵۱) یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے کے مسلمان نفل روزوں سے بہت مَحَبَّت کیا کرتے تھے کہ بصرہ شریف کے ایک پورے مَحَلّے کاہر مسلمان روز ہی روزہ رکھا کرتا !
حضرت سیِّدُنا مالِک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکا یہ فرمانا کہ بچوں کی زَبان ’’ غیبی زَبان ‘‘ ہوتی ہے ۔ نہایت ہی پُر مغز ارشاد ہے ۔ واقعی نادان بچوں کی باتوں اور حرکتوں میں بارہا عبرت کے مدنی پھول پائے جاتے ہیں ۔ اِتفاق سے بیان کردہ حکایت نمبر12 سگِ مدینہ عُفِیَ عَنہُ ( یعنی راقِمُ الحُرُوف) نے بابُ المدینہ کراچی میں ایک اسلامی بھائی کے گھر پر 9 شَوّالُ المُکرَّم ۱۴۲۲ھ کو تحریرکرنے کی سعادت حاصل کی ۔ طعام کے وَقت صاحب خانہ کا مَدَنی منا اور مَدَنی منی بھی کھانے میں شریک ہوگئے۔ ان دونوں نے کھانے کے دوران حرص و طمع، بے جالڑائی، آبروریزی، بے صبری، چغلی، حسد، حُبِّ جاہ، ریاکاری، مصیبت کا بے ضرورت تذکرہ اور فضول گوئی وغیرہ سے مُتَعَلِّق مجھے خوب درس دیا !! آپ شاید سوچ میں پڑگئے ہوں گے کہ ناسمجھ بچے اتنے سارے عنوانات پر کس طرح درس دے سکتے ہیں ! ان دُرُوس کا راز یہ ہے کہ وہ اس طرح کی حرکتیں کرنے لگے جس سے مَدَنی ذِہن رکھنے والا انسان چاہے تو بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ۔مَثَلاً اُنہوں نے ضرورت سے کہیں زِیادہ کھانا اپنی اپنی رِکابی میں نکالا، کچھ کھایا، کچھ گرایا اورکچھ رکابی ہی میں چھوڑ دیا ۔ ان کی اس حرکت سے یہ سیکھنے کو ملا کہ اپنی رکابی میں ضَرورت سے زیادہ کھانا ڈال لینا یہ حرص و طمع کی علامت اور نادان بچوں کا کام ہے، بڑوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے، گرا ہوا کھانا یوں ہی چھوڑدینے کے بجائے اٹھا کر کھا لینا چاہئے، کھا کربرتن چاٹ لینا سنت ہے، بچے اگر چِہ سنت کا ترک کر دیں بڑوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔مَدَنی مُنَّے نے ٹھنڈے مشروب کی ڈیڑھ لیٹر کی بوتل میں سے اپنے لئے پورا گلاس بھر لیا تو اس پر مَدَنی مُنّی احتجاج کرنے لگی یہاں تک کہ پہلے بوتل اٹھا کر میرے قریب رکھی مگر اطمینان نہ ہوا تو وہاں سے اٹھا کر کمرے کے باہر کسی اور کی تحویل میں دے آئی۔ اس ’’ جنگ ‘‘ کے ذَرِیعے گویا دونوں نے حرص پردرس دیا ۔ چونکہ دونوں میں ٹھن گئی تھی لہٰذا اب ایک دوسرے کے ’’ عیوب ‘‘ اُچھالنے لگے ، گویا یوں سمجھا رہے تھے کہ دیکھو!ہم نادان ہیں اِس لئے فضول گوئی ، آبروریزی ، بے جالڑائی
اور بے صبری کا مظاہرہ کرتے اورایک دوسرے کے پول کھولتے ہیں ، اگر دانا کہلانے والا شخص بھی ایسی حَرَکات کا ارتِکاب کرے تو وہ بے وُقُوف ہوا یا نہیں ؟ ٹھیک ہے ہم اپنے منہ میاں مٹّھو بھی بن رہے ہیں ، اپنی ہی زَبان سے اپنے فضائل بھی بیان کررہے ہیں ، ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں کوبھی اُچھال رہے ہیں مگر ہم تو چھوٹے ہو کرچھوٹ جائیں گے ، کیونکہ ہم ابھی نابالغ ہیں ۔ اگر آپ بھی ہماری طرح کی غلطیاں کرتے ہوئے گناہوں میں پڑیں گے تو ہوسکتا ہے کہ بروزِ قیامت فردِ جُرم عائد کرکے جہنَّم کاحکم سنادیا جائے، اگر ایسا ہوا تو آپ کو وہ صدمہ ہوگا کہ دنیا میں خود صدمے نے بھی کبھی ایسا صدمہ نہ دیکھا ہوگا!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سچی بات یہ ہے کہ اگر مَدَنی سوچ رکھنے والا شخص بچوں کی دن بھر کی حرکتوں کا جائزہ لے تو ان کی ہرحرکت و ہر سکنت میں سے اپنے لئے عبرت کے کئی مَدَنی پھول حاصل کر سکتا ہے ۔ ایک بار شبِ عید میلادُ النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم ایک اسلامی بھائی اپنی ننھی سی مَدَنی مُنی کو اٹھا کر میرے پاس لائے ، وہ اپنے مہندی سے رنگے ہوئے ہاتھ دکھا کر میری توجّہ چاہ رہی تھی، اِس سے میں نے یہی ’’ مَدَنی پھول ‘‘ حاصِل کیا گویا وہ کہنا چاہتی ہے، حاجتِ شرعی کے بِغیر بِلا واسِطہ یا بالواسطہ (Indirect) اپنی خوبیوں کا اظہار بھی حُبِّ جاہ یعنی اپنی عزّت اور واہ واہ کی چاہت کی علامت ہے جو کہ ہم جیسے نادانوں ہی کا حصہ ہے ۔ ظاہر ہے بچیاں اپنے مہندی سے رنگے ہوئے ہاتھ دِکھلا کر یا بچّے اپنے نئے کپڑوں وغیرہ کی طرف مُتَوَجِّہ کرکے واہ واہ اور داد وتحسین کے طلب گار ہوتے ہیں ، مگر اس میں ضمناً بڑوں کے لئے سامانِ عبرت ہوتا ہے۔ آج کل لوگوں کی اکثریت حبِّ جاہ میں مبتلا نظر آرہی ہے، شہرت سے محبت اور واہ واہ پسندی کا مرض آج کل عام ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مساجِد و مدارِس کی تعمیر اور دیگر نیک کاموں میں بھی اپنی نیک نامی یعنی شہرت ہی کی تلاش رہتی ہے، یہ بے حد مُہْلِک (مُہْ۔لِک)مرض ہے مگر اب اس کی طرف لوگوں کی توجُّہ ہی
نہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’ دو بھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ اِتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ حُبِّ مال و جاہ یعنی مال و مرتبے کا لالچ انسان کے دین کونقصان پہنچاتا ہے ۔‘‘ ( تِرمِذِی ج۴ص۱۶۶حدیث۲۳۸۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حُبِّ جاہ و مال دل سے مِٹانے کی کُڑھن پیدا کرنے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوت اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں سفر اپنا معمول بنا لیجئے۔ دعوت اسلامی کے مَدَنی ماحول کی بھی کیا خوب مَدَنی بہاریں ہیں ! چنانچِہ گوجرانوالہ( صوبۂ پنجاب،پاکستان) کے مقیم ایک اِسلامی بھائی فرنگی فیشن میں لتھڑی ہوئی گناہوں بھری زندَگی گزار رہے تھے اوربری صحبت کے باعِثمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّشراب پینے کے بھی عادی ہوچکے تھے۔ حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ نمازِجمعہ تک نہ پڑھتے، وہ قراٰنِ کریم کے حافظ تھے مگر کم وبیش 12 سال سے قراٰنِ پاک کھول کر تک نہیں دیکھا تھا، جس کے باعث تقریباً قراٰنِ پاک انہیں بھلا دیا گیا تھا۔ بہرحال زندَگی کے دن غفلت میں گزر رہے تھے کہ اتنے میں نصیب جاگے اور ایک باعمامہ اسلامی بھائی سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ ان کے حسنِ اَخلاق اورشفقت بھرے انداز سے وہ بڑے مُتأَثِّر ہوئے ، اُنہوں نے ان کو مدینۃُ الاولیا ملتان شریف میں ہونے والے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے بین الاقوامی تین روزہ سنتوں بھرے اجتماع کی دعوت پیش کی، انہوں نے معذِرت کرتے ہوئے بتایا کہ میں بے روزگار ہوں ، مَعاشی حالات جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ انہوں نے نہایت ہی اپنائیت کے ساتھ حوصلہ دیا اور ان کے ٹکٹ کا انتِظام کردیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاِس طرح ان کی سنتوں بھرے اجتماع میں حاضر ی ہوگئی۔ وہاں کے روح پرور منظر اورسنتوں بھرے بیانات اوررِقّت انگیز دُعا نے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّان کی زندگی کو یَکسَر بدل کر رکھ دیا۔ جب وہ اجتماعِ پاک سے
لوٹے تو ان کے قلب میں مَدَنی انقِلاب برپا ہو چکا تھا۔پھر انہوں نے عاشِقانِ رسول کے ہمراہ مَدَنی قافِلے میں سفر کی سعادت حاصِل کی جس نے ان کے ظاہِری وجود کو بھی سنّتوں کے سانچے میں ڈھال دیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّمَدَنی ماحول سے وابستگی کی بَرَکتوں سے انہوں نے بھلایا ہوا قراٰنِ کریم بھی حفظ کرلیا بلکہ سات سال تک امامت کی سعادت بھی پاتے رہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کی جانب سے انہیں ’’پنجاب مکّی‘‘ کی مجلس میں ایک ذمّے دار کی حیثیت سے خدمت کی سَعادت بھی ملی۔
گنہگارو آؤ، سیہ کارو آؤ گناہوں کو دے گا چھڑا مَدنی ماحول
پلا کر مئے عشق دے گا بنا یہ تمہیں عاشقِ مصطفٰے مَدنی ماحول (وسائلِ بخشش ص۶۴۸)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یاربِّ مصطَفٰےعَزَّ وَجَلَّ! ہمیں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں استقامت نصیب فرما۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ! ہمیں مَدَنی قافلوں میں سفر کا جذبہ عطا فرما۔یااللہ عَزَّوَجَلَّ!ہمیں اِخلاص کی لازوال دولت سے مالا مال کر ،حُبِّ جاہ ومال اور ریاکاری کے وبال سے محفوظ فرما۔ہمیں فرض کے ساتھ ساتھ خوب خوب نفل روزوں کی بـھی سعادت بخش اور ان کو قبول بھی فرما۔ یااللہ عَزَّوَجَلَّ!ہم کو اور ساری امّتِ محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کو بخش دے۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کی جانب سے دنیا کے مختلف مقامات پر ہونے والے اِجتماعی اِعتکاف میں کی جانے والی مُعْتَکِفِین کی تربیت سے ہر سال معاشرے کے نہ جانے کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد گناہوں سے تائب ہو جاتے اور ان میں بعض خوش نصیب یہ جذبہ ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے ‘‘ لے کر اٹھتے اور پھر اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کوششوں میں مشغول ہو جاتے ہیں ، ان کی جھلکیاں آیندہ صفحات پر نظر آئیں گی۔ اسلامی بھائیوں نے اپنے اپنے انداز میں لکھا تھا، ضرورتاًتصرف کرکے پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کا سامان مُہیّاکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دُرُود شریف کی فضیلت:
اللہ عَزَّوَجَلَّکے مَحبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
کا ارشادِ مشک بار ہے: جس نے مجھ پرسومرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا، اللہ تَعَالٰی اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شہدا (شُ۔ ہَ۔ دا) کے ساتھ رکھے گا۔ (مُعجَم اَوسَط ج۵ص۲۵۲حدیث۷۲۳۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عطاّر آباد( جیکب آباد،بابُ الاسلام سندھ،پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی اُس میں جہالت کا گھپ اندھیرا تھا، صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَانکو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّبُرا بھلا کہنا کارِ ثواب سمجھا جاتا تھا۔ وہ بھی اس ضلالت و گمراہی میں پوری طرح پھنسے ہوئے تھے، ان کی توبہ کے اسباب یوں ہوئے کہ تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ( عطار آباد) میں رَمَضانُ المُبارَک (۱۴۲۶ ھ۔ 2005ء) کے آخری عشرے کے اجتماعی اِعتکاف کی ترکیب تھی، ان کے مَحَلّے کے چند لڑکے بھی معتکف ہوگئے تھے،انہیں تنگ کرنے کی غرض سے وہ مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ چلے آئے، وَہاں سنتیں سکھانے کے حلقے لگے ہوئے تھے،وہ تاک میں بیٹھ گئے کہ موقع ملے تو شرارت شروع کروں کہ اِتنے میں ایک عاشِقِ رسول خیر خواہ نے بڑے ہی پیارے اور دل نشین انداز میں انہیں حلقے میں بیٹھنے کیلئے کہا، اُس کی نرمی اور عاجزی کے باعث وہ اِنکار نہ کرسکے اور حلقے میں بیٹھ گئے اور مُبلِّغِ دعوتِ اسلامی کا بَیان دھیان سے سننے لگے۔ مُبلِّغ کے بیان میں عجیب کشش تھی،وہ آہستہ آہستہ بیان کے مَدَنی پھولوں کے سحر میں گرفتا ر ہوتے چلے گئے۔ عاشقانِ رسول نے انہیں بقیہ دِنوں کے اِعتکاف کی دعوت دی، انہوں نے ہامی بھر لی اور اِعتکاف کی بہاریں سمیٹنے میں مشغول ہوگئے۔ وہ توشکار کرنے چلے تھے مگر ’’ لو آپ اپنے دام(یعنی جال) میں صیاد(شکاری) آگیا‘‘ کے مصداق خود ہی شکار ہو کر رَہ گئے۔ان کے لیے اِعتکاف میں سبھی کچھ نیا تھا۔ دَورانِ اِعتکاف انہیں اپنی گمراہی کا پتا چلا۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّانہوں نے باطل عقائد سے توبہ کی، کلِمۂ طیِّبہ پڑھا اور دعوتِ اسلامی کے سفینۂ اَہلِ سُنّت میں سوار ہو کر جانبِ مدینہ رَواں دَواں ہو گئے۔ انہوں نے اپنا چہرہ مَدَنی نشانی یعنی داڑھی مبارَک سے اور سر سبز عمامہ شریف سے سر سبز وشاداب کر لیا ہے۔ 63دن کا مَدَنی تربیتی کورس کر کے دعوتِ اسلامی کی تنظیمی ترکیب کے مطابق
حلقہ ذمے داری پر فائز ہوئے اور اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاپنی اِصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اِصلاح کی بھی کوشش کرنے والے بن گئے۔اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّانہیں اور ہمیں مَدَنی ماحول میں استقامت عنایت فرمائے اور بھٹکے ہوؤں کو حق و صداقت کی راہ دکھائے۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
ختم ہوگی شرارت کی عادت چلو، مدنی ماحول میں کر لو تم اِعتکاف
دُور ہوگی گناہوں کی شامت چلو، مدنی ماحول میں کر لو تم اِعتکاف (وسائل بخشش ص۶۴۰)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تحصیل شُجاع آباد ضلع ملتان( حال مقیم بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی والدین کےمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّاِنتہائی دَرَجہ گستاخ تھے، کرکٹ اوربلیرڈ کھیلنے میں دن برباد کرتے اور رات وِڈیوسینٹر کی زینت بنتے۔ ماہِ رَمَضانُ الْمبارَک میں ماں باپ سے انہوں نے بہت زیادہ لڑائی کی یہاں تک کہ گھر میں توڑ پھوڑ مچا دی! اپنی گناہوں بھری زندگی سے خود بھی بیزار تھے، غضب کے جذباتی تھے اسی لئے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّکئی بار خودکشی کی بھی سعی (یعنی کوشش) کی مگر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ناکامی ہوئی ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکے کرم سے ان کو رَمَضانُ الْمبارَک کے آخری عشرے میں اعتکاف کا شوق پیدا ہوا، اپنے گھر کی قریبی مسجد ہی میں اعتکاف کا ارادہ تھا کہ ایک اسلامی بھائی سے ملاقات ہو گئی ، ان کی انفرادی کوشِش کے نتیجے میں تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ہونے والے اجتماعی اعتکاف میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ مُعتَکف ہوگئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاجتماعی اِعتکاف کی برکتوں کے کیا کہنے! کلین شیو اور پینٹ شرٹ میں کسے کسائے تھے، مگرتربیتی حلقوں ، سنتوں بھرے بیانات اور
عاشقانِ رسول کی صحبتوں نے وہ مَدَنی رنگ چڑھا یا کہ ہاتھوں ہاتھ داڑھی بڑھانی شروع کردی، عمامہ شریف کا تاج سر پر سجا لیا اور چاند رات کو خوب رو رو کر گناہوں سے توبہ کرنے کے بعد گھر جانے کے بجائے ہاتھوں ہاتھ سنتوں کی تربیت کے تین دن کے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سفر پر روانہ ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے: خدا کی قسم! یہ میری زندَگی کی سب سے پہلی عید تھی جو بہت اچھی گزری ۔ واپسی پر گھر آکر امی جان کے قدموں سے لپٹ گئے اور اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں اوربے ہوش ہوگئے۔ کم و بیش آدھے گھنٹے کے بعد جب ہوش آیا تو سارے گھر والے انہیں گھیرے ہوئے تھے اور تصویر حیرت بنے ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے کہ اسے کیا ہو گیا ہے! اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ گھر میں بہت اچھی ترکیب بن گئی ۔انہیں تنظیمی طور پر علاقائی مشاوَرت کا نگران بننے اور عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں 63روزہ تربیتی کورس کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ مزید 126دن کے’’ امامت کورس‘‘ کا سلسلہ بھی شروع کیا۔اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّانہیں اور ہمیں اِستقامت عنایت فرمائے۔
بگڑے اَخلاق سارے سنور جائیں گے،مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
بس مزا کیا مز ے کو مزے آئیں گے،مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۴۰، ۶۴۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میانوالی کالونی منگھو پیر روڈبابُ المدینہ کراچی کے ایک اسلامی بھائی نے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے منسلک ہونے سے پہلے کئی ’’گرل فرینڈز‘‘ بنا رکھی تھیں ، گندی ذِہنیت کا عالم یہ تھا کہ روزانہ ہی گندی فلمیں دیکھا کرتے، حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ انہوں نے زِندَگی میں عید کے علاوہ کبھی نَماز ہی نہیں پڑھی تھی اور انہیں بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ نَماز کس طرح پڑھی جاتی ہے!!! ان کی
قسمت کا ستارہ چمکا اورانہیں تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں رَمَضانُ الْمبارَک کے آخری عشرے کااجتماعی اعتکاف نصیب ہوگیا، فیضانِ مدینہ کے مَدَنی ماحول کی بھی کیا بات ہے ! ان کی آنکھیں کھل گئیں ،غفلت کا پردہ چاک ہوا اور نیکیوں کا جذبہ ملا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ انہوں نے نَماز سیکھ لی اور پانچوں وَقت باجماعت نَماز کے پابند ہوگئے۔ انہوں نے دو مساجد میں فیضانِ سنتکا درس شروع کر دیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اسلامی بھائیوں نے انہیں ایک مسجِد کی مُشاوَرت کا ذَیلی نگران بنا دیا اوران پر کرم بالائے کر م یہ ہو ا کہ خواب میں جناب رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کا دیدار ہو گیا۔
جسے چاہا جلوہ دکھادیا،اُسے جامِ عشق پلا دیا جسے چاہا نیک بنا دیا، یہ مرے حبیب کی بات ہے
جسے چاہا در پہ بلا لیا، جسے چاہا اپنا بنا لیا یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
کلیان(مہارا سٹر، الھند) کی میمن مسجد میں تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کی جانب سے رَمَضانُ المُبارَک ۴۲۶ا ھ۔ 2005ء) میں ہونے والے اجتماعی اِعتکاف میں ایک نو مسلم نے (جو کہ کچھ عرصہ قبل ایک مبلِّغِ دعوت اسلامی کے ہاتھوں مسلمان ہوئے تھے)اِعتکاف کی سعادت حاصل کی۔سنتوں بھرے بیانات ، کیسٹ اجتماعات اور سنتوں بھرے حلقوں نے اُن پر خوب مَدَنی رنگ چڑھایا،اِعتکاف کی برکت سے دین کی تبلیغ کے عظیم جذبے کا روشن چراغ ان کے ہاتھوں میں آگیا چونکہ ان کے گھر کے دیگر اَفراد ابھی تک کفر کی اَندھیری وادِیوں میں بھٹک رہے تھے لہٰذا اِعتکاف سے فارِغ ہوتے ہی اُنہوں نے اپنے گھر والوں پر کوشش شروع کردی، دعوتِ اسلامی کے مُبَلِّغین کو
اپنے گھر بلوا کر دعوتِ اسلام پیش کروائی ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ والدین ، دو بہنوں اور ایک بھائی پرمشتمل سارا خاندان مسلمان ہو گیا اور سلسلۂ عالیّہ قادریہ رضویہ میں داخِل ہو کر حضورِ غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا مرید بن گیا ۔
ولولہ دیں کی تبلیغ کا پاؤ گے ،مَدنی ماحول میں کر لو تم اِعتکاف
فضلِ ربّ سے زمانے پہ چھا جاؤگے، مَدنی ماحول میں کر لو تم اِعتکاف (وسائل بخشش ص ۶۴۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سکھر شہر ( بابُ الاسلام سندھ پاکستان )کے ایک اسلامی بھائی پر دنیا کا دَھن کمانے ہی کی دُھن سُوار رہتی تھی، عملی دُنیا سے کوسوں دُور گناہوں کی اندھیری وادیوں میں بھٹک رہے تھے ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بعض عاشِقانِ رسول کی ان پرشفقت بھری نظر پڑ گئی، وہ رَمَضانُ المُبارَک میں بار بار ان کے پاس تشریف لے جاتے اورانہیں اجتماعی اعتکاف کی دعوت دیتے مگر وہ ٹال دیا کرتے۔ مَاشَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّوہعاشِقانِ رسول بہت بلند حوصلہ تھے، گویا مایوس ہونا جانتے ہی نہ تھے،چنانچہ اُنہوں نے مذکورہ اسلامی بھائی کو ان کے حال پر چھوڑ نا گوارا نہ کیااوروقتاً فوقتاً نیکی کی دعوت دے کر اپنا ثواب کھرا کرتے رہے! اُن کی انفرادی کوشِش بالآخر رنگ لائی اور اُس پکے دنیا دار کا دل بھی پسیج ہی گیا اوروہ آخری عشرۂ رَمَضانُ الْمُبارَک غالِباً۱۴۱۰ ھ۔1990ء) میں اُن کے ساتھ مُعتَکفہوگئے۔ اعتکاف میں ان کو محسوس ہوا کہ عاشقوں کی دنیا ہی کوئی اور ہوتی ہے! عاشِقانِ رسول کی صحبت نے ان پرمَدَنی رنگ چڑھا دیا، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وہ نَمازی بن گئے، داڑھی رکھ لی اور عمامہ شریف کا تاج سجا لیا۔ وہاں انہیں یہ مسئلہ بھی سیکھنے کو ملا کہ قبلے کی طرف رُخ یا پیٹھ کئے پیشاب وغیرہ کرنا حرام ہے۔ سُوئِ اتفاق سے اعتکاف والی مسجِد کے اِستنجاخانوں کا رُخ غلط تھا۔انہوں نے رِضائے
الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کی خاطرہاتھوں ہاتھ کاریگروں کو بلوا کر اپنی جیب سے اَخراجات پیش کر کے استنجا خانوں کے رُخ دُرُست کروا لئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّاعتکاف کے بعد سے اب تک انہیں کئی بارعاشِقانِ رسول کے ہمراہ سنتیں سیکھنے سکھانے کے مَدَنی قافلوں میں سنتوں بھرے سفر کی سعادتیں مل چکی ہیں ۔
حبِّ دنیا سے دل پاک ہو جائے گا، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
جامِ عشقِ محمد بھی ہاتھ آئے گا، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۴۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
راولپنڈی( پنجاب، پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی جب دسویں کلاس کے اسٹوڈنٹ تھے ،انہوں نے اپنے محلے کی بلال مسجد میں رَمَضانُ المبارَک (۱۴۲۱ ھ۔2000ء) کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا۔ وہاں 14، 15 افراد معتکف تھے، غالِباً 28 رَمَضانُ المبارَککو بعد نماز ظہر ان کے بچپن کے ایک کلاس فیلو ( جو بے چارے شرافت کی وجہ سے ان کیشرارت کا نشانہ بنا کرتے تھے) تشریف لائے ، اُنہوں نے اپنے سر پر سبز عمامہ شریف سجا یا ہوا تھا، سلام دُعا کے بعد اُنہوں نے معتکفین پر انفرادی کوشِش کرتے ہوئے پوچھا: آپ میں سے براہِ مہربانی کوئی نمازِ عید کا طریقہ سنا دے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے! اس پر اُنہوں نے کہا: اچھا چلئے نمازِ جنازہ کا طریقہ ہی بتا دیجئے۔ یہ بھی ان میں سے کوئی بھی نہ بتا سکا۔ پھرمُبلِّغِ دعوتِ اسلامی نے انہیں نماز کی مشق (Practical) کروائی۔ اِس سے ان کی بہت ساری غلطیاں ان کے سامنے آئیں ۔ اس کے بعد نہایت اَحسن انداز میں مُبلِّغِ دعوتِ اسلامی نے انہیں نَمازِ عید اور نَمازِ جنازہ کا طریقہ سکھایا ۔ جس سے ان کا دل بہت خوش ہوا ۔ اس اسلامی بھائی کا کہنا ہے :’’سچ پوچھو تو ہمارے لئے حاصلِ
اعتکاف یہی تھا کہ ہمیں مبلّغِ دعوتِ اسلامی کی برکت سے مختلف نمازوں کے اَہمّ احکامات سیکھنا نصیب ہوئے۔‘‘ عید کی نماز میں انہیں مسجِد کی چھت پر جگہ ملی، جب امام صاحب نے دوسری تکبیر کہی تواس اسلامی بھائی کے علاوہ تقریباً سبھی رُکوع میں چلے گئے! حالانکہ یہ رُکوع کا موقع نہیں تھابلکہ اس میں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر لٹکانے تھے۔ خیر، ورنہ وہ بھی عوام کے ساتھ رکوع ہی میں ہوتے مگر مبلّغِ دعوتِ اسلامی نے اِعتکاف میں نَمازِ عید کا طریقہ سکھا دیا تھا۔ اِس موقع پران کا دل چوٹ کھا گیا اور دعوتِ اسلامی کی اَھَمِّیَّتان پر خوب واضح ہو گئی۔انہوں نے اس مبلّغِ دعوتِ اسلامی سے عید کی ملاقات پر عرض کیا: مجھے بھی اپنے جیسا بنا لیجئے۔ اِس پرمُبلِّغِ دعوتِ اسلامی نے ان کی خوب حوصلہ افزائی فرمائی۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّمُبلِّغِ دعوتِ اسلامی کی انفِرادی کوشِش کی برکت سے وہ بالآخر تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں آگئے اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں کے لحاظ سے تنظیمی طور پر شعبۂ تعلیم کے علاقائی ذِمے دار بھی بنے۔
ہاں جنازہ و عید اس کو سیکھیں مزید،آئیں مسجِد چلیں کیجئے اعتکاف
خوب نیکی کا جذبہ ملے گا جناب! آپ ہمت کریں کیجئے اعتکاف
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جناح آباد( بابُ المدینہ کراچی) کے ایک اسلامی بھائی نے رَمَضانُ الْمبارَک (غالِباً۱۴۲۵ ھ۔ 2004ء) کے آخری عشرے میں تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوت اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں اجتماعی اِعتکاف کی بَرَکتیں لوٹنے کی سعادت حاصِل کی اوربرائیوں سے توبہ کی انہیں سنّت کے مطابق کھانا تک
نہیں آتا تھا، اعتکاف میں دیگر سنتوں کے علاوہ کھانے پینے کی سنتیں بھی سکھائی گئیں ۔ باِلخصوص ایک مبلِّغ کو سادَگی کے ساتھ سنت کے مطابق کھانا تناوُل کرتا دیکھ کر ان کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے ! اور انہوں نے بھی سنت کے مطابق کھانا کھانے کی عادت اپنا لی،یوں وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوگئے۔
سنتیں کھانا کھانے کی تم جان لو، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
مان لو بات اب تو مری مان لو، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائلِ بخشش ص۶۴۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اِندَور شہر( M.P. الھند) کے ایک فیشن ایبل نوجوان آوارہ اور ماڈَرن دوستوں کی صحبت میں رہ کر گناہوں بھری زندگی گزار رہے تھے۔رَمَضَانُ المُبارَک (۱۴۲۵ ھ۔ 2004ء) کے آخِری عشرے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ اجتماعی اعتکاف میں بیٹھ گئے۔ عاشِقانِ رسول کی شفقتوں نے لاج رکھ لی، گناہوں سے توبہ کی سعادت مل گئی،چہرے پر داڑھی جگمگانے اور سر پر عمامہ شریف کی بہاریں مسکرانے لگیں ، سنتوں کی خدمت کا خوب جذبہ ملا حتّٰی کہ مبلِّغ بن گئے ۔ یہ لکھتے وَقت علاقائی مشاوَرت کے نگران کی حیثیت سے سنّتوں کی برکتیں لوٹ اور لٹا رہے ہیں ۔
لینے خیرات تم رحمتوں کی چلو، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
لوٹنے برکتیں سنتوں کی چلو، مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف (وسائل بخشش ص۶۴۱)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1] ۔۔۔ الفردوس ج۱ص۲۲۳حدیث۸۵۶۔
[2] ۔۔۔ بخاری ج۲ص۴۳۸حدیث۳۳۹۷،۳۳۹۸۔
[3] ۔۔۔ فیض القدیر ج۵ص۲۸۸حدیث۷۰۷۵۔
[4] ۔۔۔ مرقاۃ المفاتیح ج۳ص۳۷۵۔
[5] ۔۔۔ معجم اوسطحدیث۸۹۴۶، معجم کبیر ج۲ ص ۳۲۸ حدیث۲۳۷۲۔
[6] ۔۔۔ پ ۱۳،الرعد۳۹۔
[7] ۔۔۔ ملازمت کے متعلق بہترین معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کا شائع کردہصرف 22صفحات کا رسالہ’’حلال طریقے سے کمانےکے50مدنی پھول‘‘کاضرور مطالعہ فرمائیے۔
[8] ۔۔۔ نہَنگ : یعنی مگرمچھ۔