اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ بیان(26صفحات) مکمَّل پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
آپ اپنے دل میں مَدَنی انقلاب برپاہوتاہوا محسوس فرمائیں گے۔
سرکارِنامدار،مدینے کے تاجدارحبیبِ پَرْوَرْدَگار،شفیعِ روزِ شُمار، جنابِ احمد ِمختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشادِ نور بار ہے: ’’تم اپنی مجلسوں کو مجھ پر دُرُودِ پاک پڑھ کر آراستہ کرو کیونکہ تمہارا مجھ پردُرُودِ پاک پڑھنا بروزِقِیامت تمہارے لئے نور ہوگا۔‘‘ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر ص۲۸۰ حدیث ۴۵۸۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یاد رکھ ہر آن آخِر موت ہے بن تُو مت انجان آخِر موت ہے
مرتے جاتے ہیں ہزاروں آدَمی عاقِل ونادان آخِر موت ہے
کیا خوشی ہو دل کو چندے زِیست سے غمزدہ ہے جان آخِر موت ہے
ملکِ فانی میں فنا ہر شے کو ہے سُن لگا کر کان آخِر موت ہے
بارہا علمیؔ تجھے سمجھا چکے
مان یا مت مان آخِر موت ہے
حضرتِ سیِّدُنا ابُوالْحَجّاج ثمالِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ مدینہ ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : جب میِّت کو قَبْر میں اُتاردیا جاتاہے تو قَبْراُس سے خطاب کرتی ہے: اے آدَمی تیرا ناس ہو!تونے کس لئے مجھے فراموش (یعنی بُھلا ) کررکھاتھا؟کیا تجھے اِتنا بھی پتا نہ تھا کہ میں فتنوں کا گھر ہوں ،تاریکی کا گھر ہوں ، پھرتُوکس بات پرمجھ پر اَکڑا اَکڑا پھرتاتھا؟اگر وہ مُردہ نیک بندے کا ہو تو ایک غیبی آوازقَبْرسے کہتی ہے:اے قَبْر !اگر یہ اُن میں سے ہو جو نیکی کا حُکْم کرتے رہے اور برائی سے منْع کرتے رہے تو پھر!(تیرا سُلوک کیا ہوگا؟) قَبْر کہتی ہے : اگر یہ بات ہوتو میں اس کے لئے گلزار بن جاتی ہوں ۔چُنانچِہ پھر اُس شخص کا بدن نور میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس کی روح ربُّ العٰلمین عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ کی طرف پرواز کرجاتی ہے۔ (مُسْنَدُ اَبِیْ یَعْلٰی ج۶ ص۶۷ حدیث ۶۸۳۵)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !اس
حدیثِ پاک پر ذرا غور توفرمائیے کہ جب بھی کوئی قبر میں جاتا ہے چاہے وہ نیک ہو یا
بد اسکو قبر میں ڈرایا جاتا ہے۔ دعوتِ اسلامی کے مُبَلِّغوں ! فیضانِ سنّت کا درس دینے والوں ! عَلاقائی دَورہ برائے نیکی کی دعوت میں شرکت
کرنے والوں ! اپنی اولاد کی سنّتوں کے مطابِق تربیّت کرنے والوں !اور سنّتیں
سکھانے کیلئے اِنفِرادی کوشِش کرنے والوں کو مبارَ ک ہوکہ قبر میں ایک غیبی آواز نیکی کا حُکْم کرنے والوں اور برائی سے منْع کرنے والوں کی تائید و حمایت کرے گی اور اس طرح قبر اُن کے لئے گُلزار بن جائے گی۔
تمہیں اے مُبلِّغ یہ میری دعا ہے
کئے جاؤ طے تم ترقّی کا زینہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یاد رکھئے !قَبْر میں صِرْف عمل جائیگا ، بُلند وبالا کوٹھیا ں ،عالی شان مَحلّات ، اونچے اونچے مکانات، مال و دولت ، بینک بیلنس، وسیع کا روبار ، بڑے بڑے پلاٹ ، لہلہاتے کھیت اور خوشنماباغات ،یہ سب ساتھ قَبْر میں نہیں آئیں گے۔ چُنا نچِہ حضرت سیِّدُنا عَطاء بن یَسار عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُارفرماتے ہیں :جب میِّت کو قبر میں رکھا جاتا ہے توسب سے پہلے اس کا عمل آ کر اس کی بائیں ران کو حَرَکت دیتا اور کہتا ہے: میں تیرا عمل ہوں ۔ وہ مُردہ پوچھتا ہے : میرے بال بچّے کہاں ہیں ؟ میری نعمتیں ،میری دَولتیں کہاں ہیں ؟ تو عمل کہتا ہے:یہ سب تیرے پیچھے رَہ گئے اور میرے سوا تیری قبر میں کوئی نہیں آیا۔ (شَرْحُ الصُّدُور ص ۱۱۱)
رات کے اندھیرے میں ڈرجانے والوں !، بِلّی کی میاؤں پر چونک پڑنے
والوں !کُتّے کے بھونکنے پر راستہ بدل دینے والوں !سانپ اوربچھّو کاصِرْف نام سُن کر تھر تھرانے والوں !سلگتی ہوئی آگ کو دُور سے دیکھ کر گھبرانے والوں !بلکہ فقط دھوئیں سے بے چین ہوجانے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ حضرتِ سیِّد ُنا علّامہ جلالُ الدّین سُیوطی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الۡکافی’’ شَرحُ الصُّدور‘‘ میں نَقْل فرماتے ہیں : ’’جب انسان قَبْر میں داخِل ہوتا ہے تو وہ تمام چیزیں اُس کو ڈرانے کیلئے آجاتی ہیں جن سے وہ دنیا میں ڈرتا تھا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّسے نہ ڈرتا تھا۔‘‘(شَرْحُ الصُّدُور ص۱۱۲)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کیا اللہ
عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے والا نَماز، روزہ قضا اور زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی کرسکتا
ہے ؟کیا خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ رکھنے
والا ڈنڈی مارکر سودا چلاسکتا ، حرام روزی کماسکتا سود ورشوت کا لین دین کرسکتا
ہے؟داڑھی مُنڈانا اور ایک مُٹھّی سے گھٹانا دونوں حرام ہے تو کیاخوفِ خدا رکھنے
والا داڑھی مُنڈواسکتا یا خشخشی رکھواسکتا ہے؟ کیا اللہ عَزَّ وَجَلَّسے
ڈرنے والا T.V. ، V.C.R. اور انٹرنیٹ پر فلمیں ڈِرامے دیکھ سکتا اور گانے باجے سُن سکتا ہے ؟
کیاخوفِ خدا رکھنے والاماں ،باپ،بھائی ،بہنوں ،رشتے داروں بلکہ عام مسلمانوں کا دل
دُکھا سکتا ہے؟ کیا اللہ عَزَّ وَجَلَّسے
ڈرنے والاگالی گلوچ، جھوٹ، غیبت، چُغلی، وعدہ خِلافی، بدنگاہی،بے حَیائی،بے پردَگی
وغیر ہ وغیرہ جرائم کرسکتا ہے؟ کیا اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے والاچوری،ڈاکا،دہشت گردی اور قتل و غارتگری جیسی گھناؤنی
وارِداتیں کرسکتا ہے ؟ طرح طرح کے گناہوں میں مُلوَّث رہنے والے ایک بار پھرکان کھول کرسن لیں کہ’’جب انسانقَبْر میں داخِل ہوتا ہے تو وہ تما م چیزیں اُسکو ڈرانے کیلئے آجاتی ہیں جن سے وہ دنیا میں ڈرتا تھا اوراللہ عَزَّ وَجَلَّسے نہ ڈرتا تھا۔‘‘ (ایضاً)
بے نَمازیوں ، بِلا عذرِ شرعی ماہِ رَمَضان کے روزے قضا کر ڈالنے والوں ،
فلمیں ڈِرامے دیکھنے والوں ،گانے باجے سننے والوں ،ماں باپ کا دل دُکھانے والوں ،داڑھی
مُنڈانے والوں ،یا ایک مُٹھّی سے گھٹانے والوں اور طرح طرح کی نافرمانیاں کرنے
والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کہ حُجَّۃ الاسلام حضرتِ سیِّدُناامام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالینَقْل
فرماتے ہیں : ’’جب (گناہ گار )مُردے
کوقبرمیں رکھ دیتے ہیں اور اُس پر عذاب کا سلسلہ شُروع ہوجاتا ہے تو اسکے پڑوسی
مُردے اُس سے کہتے ہیں : ’’اے اپنے پڑوسیوں اور بھائیوں کے بعد دنیا میں رَہنے
والے !کیا تیرے لئے ہمارے مُعامَلے میں کوئی عبرت نہ تھی؟کیا ہمارے تجھ سے پہلے(دنیا سے) چلے جانے میں تیرے لئے غور
وفکر کا کوئی مقام نہ تھا؟کیا تو نے ہمارے سلسلۂ اعمال کا ختم ہونا نہ دیکھا؟
تجھے تو مُہْلَت تھی تو نے وہ نیکیاں کیوں نہ کرلیں جو تیرے بھائی نہ کرسکے۔‘‘
زمین کا گوشہ اسے پکار کر کہتا ہے:’’ اے دنیائے ظاہر سے دھوکا کھانے والے !تجھے ان
سے عبرت کیوں نہ ہوئی جو تجھ سے پہلے یہاں آچکے تھے اور انہیں بھی دنیا نے دھوکے
میں ڈال رکھا تھا۔‘‘ (اِحیاء
الْعُلوم ج۵ ص۲۵۳)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!حقیقت یہ ہے کہ ہر مرنے والا مرتے ہی گویایہ پیغام دیتا چلا جاتا ہے کہ جس طرح میں مَر گیا ہوں آپ کو بھی مرنا پڑ جائیگا،جس طرح مجھے منوں مِٹّی تلے دفن کیاجانے والا ہے اسی طرح تمہیں بھی دفن کیا جائیگا۔
جنازہ آگے بڑھ کے کہہ رہا ہے اے جہاں والو!
مِرے پیچھے چلے آؤ تمہارا رہنُما میں ہوں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج کل جب اسکو ل یا کالج کا امتحان قریب آتا ہے توطلَبہ اس کی تیّاریوں
میں بَہُت زِیادہ مشغول ہوجاتے ہیں ،رات دن ان پر بس ایک یہی دُھن سُوار ہوتی ہے
کہ امتحا ن سر پر ہے ، امتحان کیلئے محنت بھی کرتے ہیں
،دعائیں بھی مانگتے ہیں پھر بعض نادان تو مُمْتَحِنْ کو رشوتیں بھی دیتے ہیں ،ہر ایک کی فَقَط ایک ہی آرزو ہوتی ہے کہ کسی
طرح میں دنیا کے امتحان میں اچھّے نمبروں سے پاس ہوجاؤں ۔اے دنیا کے امتحان کی
تیاریوں میں کھو جانے والو!کان کھول کر سن لیجئے!ایک امتحان وہ بھی ہے جوقَبْر میں ہونے والا ہے۔ اے کاش !قبر کے امتحان کی تیّاری ہمیں نصیب ہوجاتی ۔
آج اگر اِمکانی سُوالات ( IMPORTANTS ) مل جائیں توطالبِ علم اُس پر ساری ساری رات محنت کرتے ہیں ، اگر نیند
کُشا گولیاں کھانی پڑجائیں تووہ بھی کھاتے ہیں ۔اے دنیا کے امتحان کی فکرکرنے
والو!حیرت ہے کہ آپ اِمکانی سُوالات پر بَہُت زِیادہ محنت
کرتے ہیں ،کا ش! آپکو اس بات کا احساس ہوجاتاکہقَبْر کے سُوالات امکانی نہیں بلکہ یقینی ہیں جو ہمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول ،رسول مقبول ،بی بی آمِنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے مہکتے پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیشگی ہی بتادئیے ہیں اس کے جوابات بھی ارشاد فرما دیئے ہیں ہائے افسوس !قَبْر کے سُوالات وجوابات کی طرف ہماری کوئی توجُّہ ہی نہیں ۔آہ !آج ہم دنیا میں آکر دنیا کی رنگینیوں میں کچھ اس طرح گم ہوگئے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہ رہاکہ ہمیں مرنا بھی پڑیگا ۔ ؎
دِلا غافِل نہ ہویک دم یہ دنیا چھوڑجاناہے بَغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
ترانازک بدن بھائی جو لیٹے سَیج پھولوں پر یہ ہوگا ایک دن بے جاں اسے کِرموں نے کھاناہے
تُو اپنی موت کو مت بھول کرسامان چلنے کا زمیں کی خاک پر سونا ہے اینٹوں کا سِرہانا ہے
نہ بَیلی ہوسکے بھائی نہ بیٹا باپ تے مائی توکیوں پھرتا ہے سَودائی عمل نے کام آنا ہے
عزیزا یاد کر جس دن کہ عِزرائیل آویں گے نہ جاوے کوئی تیرے سنگ اکیلا تُوں نے جاناہے
جہاں کے شَغل میں شاغِل خدا کی یادسے غافِل کرے دعویٰ کہ یہ دنیا مِرا دائم ٹھکانہ ہے
غلامؔ اِک دم نہ کر غفلت حَیاتی پہ نہ ہو غَرّہ
خدا کی یاد کر ہر دم کہ جس نے کام آنا ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہُ تَعَالٰی آپ سب پر اپنا فضل وکرم فرمائے
اللہ
تَبارَکَ وَ تَعَا لٰیآپ سب کو مدینۂ منورہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں زیرِ گنبدِ خضرا جلوۂ محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں ایما ن وعافیت کے ساتھ شہادت نصیب کرے اوریہ ساری دعائیں خاکِ مدینہ کے صدقے مجھ سگِ مدینہ عفی عنہ کے حق میں بھی قَبول فرمائے ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں ایسا پاکیزہ نَمونہ عطا فرمادیا ہے کہ جو مسلمان اُس نَمُونے کی جتنی اچھّی نقل کرے گا اُتنا ہی وہ اعلیٰ کامیاب ہوگا۔چُنانچِہ اللہ تَبارَکَ وَ تَعَا لٰی اُس مقدّس نَمُونے کا اعلان پار ہ 21 سُوْرَۃُ الْاَحْزَابکی اکیسویں آیتِ کر یمہ میں اس طرح فرماتا ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
ترجَمۂ کنزالایمان: بے شک تمہیں رسو لُ اللّٰہ کی پیروی بہتر ہے۔
تو اس رَحْمت والے نَمُونے کی جونَقْل کرے گا وُہی کامیاب ہوگا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اس عطا کردہ بے مِثل نَمُونے کو چھوڑ کر جو شیطان کی پیروی کرے گا، غیر مسلموں کے طور طریقے اپنائے گاوہ ہر گز کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہُ تَعَالٰی آپ پر فضل وکرم کرے ،ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کسی کے بارے میں یہ شور
برپاہو جائے کہ رات کو تو یہ بھلا چنگا سویاتھالیکن صبح جب نوکری کیلئے جگایا گیا
تو معلوم ہوا کہ آج تو وہ ایسا سویا ہے کہ اب قِیامت تک سویا ہی
رہے گا، یعنی اِس کی روح پرواز
کرچکی ہے۔ہاں ہاں یہ بابُ المدینہ کراچی میں ہونے والاایک دل خَراش واقِعہ ہے ایک
نوجوان کی شادی ہوئی…رُخصتی کی تاریخ بھی آگئی …کل رُخصتی ہونی ہے رات کو ،شکرانے
کے نوافِل اور شکرانے میں صَدَقہ و خیرات کرنے کے بجائے شیطان کی پیروی میں ناچ
رنگ کی محفِل برپا کی گئی، خاندان کی بہو بیٹیاں طبلے کی تھاپ پر رَقص کررہی ہیں اور
مرد بھی ناچ ناچ کر اپنے بے ڈھنگے فن کا مظاہَرہ کررہے ہیں ، رات بھر اُودھم مچا
کر جب فجر کی اذانیں شُروع ہوئیں تو بجائے مسجِد کا رُخ کرنے کے لوگ سونے کیلئے
چلے گئے،دولھا بھی اپنے بستر پر لیٹا ،رات بھرکی تھکن کی وجہ سے آنکھ لگ گئی ۔
پیارے اسلامی بھائیو! ذرا کلیجہ تھام کر سنئے !جُمُعہ کا دن تھا ماں نے دوپہر کے
بارہ بجے کسی کو بھیجا کہ میرے لال کواٹھا دوآج جُمُعہ کا دن ہے جلدی جلدی غسل
کرلے اور تیّاری کرے کہ آج اس کی دُلہن گھر آنیوالی ہے ۔ جگانے کیلئے گھر کاایک
عزیز پہنچتا ہے ،آواز یں دیتا ہے، لیکن دولہے میاں جواب نہیں دے رہے،اوہو! آخِر
رات کی اتنی بھی کیاتھکن کہ آنکھ ہی نہیں کُھل رہی ! مگر جب ہِلاجُلا کر دیکھا تو
اُس کی چیخیں نکل گئیں کہ یہ تو ہمیشہ کیلئے سو گیا ہے ! کُہرام مچ گیا،شادی کا
گھر ماتم کدہ بن گیا،جہاں ابھی رات دھوم سے شادیانے بج رہے تھے وہاں اب آہ وبُکا
کا شور برپا ہوگیا،جہاں ہنسی کے فَوّارے اُبل رہے تھے ،وہاں آنسوؤں کے دھارے بہنے
لگے۔تجہیزوتکفین کی تیّاریاں ہونے لگیں ،آہ!صد
آہ! چند گھنٹوں کے بعد جسے سر پر مہکتے پھولوں کاسہر اپہنا کر سج دھج کے ساتھ سجی
ہوئی کا ر میں سُوار
کیا جانا تھا وہ بد نصیب دولھا جنازے کی ڈولی میں سوار کر دیا گیا، باراتی ’’شادی ہال ‘‘ میں پہنچانے کے بجائے اُسے کندھوں پرلاد کر سوئے قبرِستان چل پڑے ہیں ۔ہائے !ہائے! بدنصیب دولھا روشنیوں کے چکا چوند سے نکل کر گُھپ اندھیری قبرکی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے، اب اسے رنگ برنگے پھولوں سے سجے ہوئے اور جگمگاتے ’’حَجَلَۂ عَروسی‘‘ میں نہیں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے اُبھرتی ہوئی وَحْشتناک قَبْرمیں رکھا جائیگا۔اب اس کے بدن پر شادی کا خوشنما ،رنگ برنگا، مہکتا جوڑا نہیں بلکہ کافور کی غمگین خوشبومیں بساہواکفن ہے اور …اور … دیکھتے ہی دیکھتیبدنصیب دُولھا قبر میں اُتار دیا گیا ۔آہ! ؎
تُو خوشی کے پھول لے گا کب تلک؟
تو یہاں زندہ رہے گا کب تلک؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی ایک دن مرنا
اور اندھیری قبر میں اُترنا پڑیگا ، ہاں !ہاں !ہم اپنے دفْن کرنے والوں کو دیکھ
اور سُن رہے ہونگے، جب وہ مِٹّی ڈال رہے ہونگے یہ دردناک منظر بھی نظر آرہا ہوگا،
لیکن بول کچھ نہیں سکیں گے،دفْن کرنے کے بعد ہمارے ناز اٹھانے والے رخصت ہورہے ہوں
گے ،قبر میں انکے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہوگی، دل ڈوبا جا رہا ہوگا، اتنے میں اپنے
لمبے لمبے دانتوں سے قبر کی دیواروں کو چیرتے ہوئے خوفناک شکلوں والے کالے کالے
مَہِیب بالوں کو لٹکائے دوفِرِشتے
منکَر نکیرقَبر میں آموجود
ہونگے، انکی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہونگے اور وہ سختی کیساتھ بٹھائیں گے اور
کَرَخْت( یعنی سخت) لہجے میں سُوالات کریں گے ،دنیا
کی رنگینیوں میں گم صِرْف دُنیوی امتحان ہی کی فکر کرنے والوں ، فلمیں ڈِرامے
دیکھنے والوں ، گانے باجے سننے والوں ، داڑھی منڈانے والوں ،داڑھی کو ایک مٹھّی سے
گھٹانے والوں ، حرام روزی کمانے والوں سُود اور رِشوت کا لین دین کرنے والوں ،
اپنے عُہدے اور مَنصب سے ناجائز فائدہ اٹھاکر مظلوموں کی آہیں لینے والوں ، جھوٹ
بولنے والوں ، غیبت اورچُغَل خوری کرنے والوں ، ماں باپ کا دل دُکھانے والو ں ،
اپنی اولاد کو شریعت و سنّت کے مطابِق تربیّت نہ دلانے والوں ، مذہبی رنگ نہ چڑھ
جائے اِس بُری نیّت سے اپنی اَولاد کوسُنّتوں بھرے مَدَنی ماحول اور دعوتِ اسلامی کے اجتِماعات سے رَو کنے والوں
، اپنی اَولاد کو داڑھی مبارک سجانے سے روکنے والوں ، بے پردَگی کرنے والیوں اورکُھلے
بال لے کر گلیوں اور بازاروں میں گھومنے والیوں ، میک اَپ کرکے شاپنگ سینٹروں اوررشتے
داروں کے گھروں پر بے پر دہ جانے والیو ں اور دِلیری کے ساتھ طرح طرح کے گناہوں میں
رَچے بسے رہنے والوں سے اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض
ہوگیا اوراس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَروٹھ گئے اور گناہوں کے سبب مَعَاذَاللہ
عَزَّ وَجَلَّ ایمان برباد ہوگیا تو کیابنے گا؟ بڑے سخت لہجے میں سُوالات ہو رہے ہیں
:مَنْ رَّبُّکَ؟ ’’یعنی تیرا رب کون ہے ؟‘‘ آہ!
رب عَزَّ وَجَلَّ کو کب یاد کیاتھا!جواب نہیں بن
پڑ رہا جوا یمان برباد کر بیٹھا اُس کی زَبان سے نکل رہا ہے: ھَیْھَاتَ
ھَیْھَاتَ لَااَدْرِی’’یعنی
افسوس ! افسوس! مجھے کچھ نہیں معلوم ۔‘‘پھر
پوچھا جائیگا:مَادِیْنُک ’’ یعنی تیرا دین کیا ہے ؟ ‘‘ قَبْر میں مُردہ سوچ رہا ہے کہ میں نے تو آج تک دُنیا ہی بسائی تھی، قبر کے امتِحان کی تیّاری کی طرف کبھی ذِہن ہی
نہیں گیا تھا،بس صرف دنیا کی رنگینیوں ہی میں کھویا ہوا تھا،مجھے قَبْرکے امتِحان
کا کہاں پتا تھا!کچھ سمجھ نہیں آرہی اور زَبان سے نکل رہا ہے : ھَیْھَاتَ
ھَیْھَاتَ لَا اَدْرِی’’یعنی افسوس !افسوس! مجھے کچھ نہیں معلوم ۔ ‘‘پھر
ایک حسین و جمیل نور برساتاجلوہ دِکھایا جائے گا اور سُوال ہوگا : مَا
کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُل’’یعنی ان کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟‘‘
پہچان کیسے ہوگی! داڑھی سے تو اُنْسِیَّت تھی ہی نہیں ،غیرمسلموں کا طریقہ عزیز
تھا، داڑھی مُنڈانے کا معمول رہا، یہ تو داڑھی شریف والی شخصیَّت ہے، بچّے نے
زُلفیں رکھی تھیں تو اُس کو مار مار کرکٹوانے پر مجبور کیا تھا،یہ بزُرگ تو زُلفوں
والے ہیں ،کی چین(KEY CHAIN)میں فلم ایکٹریس کا فوٹو
رکھا تھا،اپنی سُوزوکی کے پیچھے بھی فلم ایکٹریس کا فوٹو لگا کر دوسروں کو بدنگاہی
کی دعوتِ عام دے رکھی تھی، گھر میں بھی ایکٹریس کی تصاویر آویزاں کر رکھی تھیں ،
مجھے تو فنکاروں اور گُلوکاروں کی پہچان تھی معلوم نہیں یہ کون صاحِب ہیں ؟ آہ!
جس کاخاتمہ ایمان پر نہیں ہُوا اُس کے منہ سے نکلے گا: ھَیْھَاتَ
ھَیْھَاتَ لَااَدْرِی ’’یعنی افسوس
!افسوس! مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘‘اتنے میں جنّت کی کِھڑکی کُھلے
گی اور فوراً بند ہوجائیگی پھرجہنّم کی کھِڑکی کُھلے گی اور کہا جائیگا: اگرتُونے
دُرُست جواب دیے ہوتے تو تیرے لئے وہ جنّت کی کھِڑکی تھی۔ یہ سن کراُسے حسرت
بالائے حسرت ہوگی،کفن کو آ گ کے کفن سے تبدیل کردیا جائیگا،آگ کا بچھونا قبر میں بچھایا جائیگا،سانپ اور بچھّو لپٹ جائیں گے۔
آج مچھّر کا بھی ڈنک آہ! سہا جاتا نہیں
قبر میں بچھّو کے ڈنک کیسے سہے گا بھائی؟
نَمازیوں ، رَمَضان کے روزے رکھنے والوں ،حج
ادا کرنے والوں ، پوری زکوٰۃ نکالنے والوں ، فلموں ڈِراموں سے دور بھاگنے والوں ،
وعدہ خِلافی، بد اَخلاقی،بدنگاہی ، جھوٹ ، غیبت،چُغلی اوربے پردگیوں سے بچنے والوں
، اللہ کی رِضا کیلئے میٹھے بول بولنے والوں ، دعوتِ اسلامی کے مُبَلِّغوں ، سنّتوں پر عمل
کرکے دوسروں کو سنّتیں سکھانے والوں ،فیضانِ سنّت کا درس دینے اور سننے والوں ،نیکی
کی دعوت کی دُھو میں مچانے والو ں ، دعوتِ
اسلامی کے سنّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں میں سفر کرنے والوں ، اپنے چہرے کو ایک مُٹھّی داڑھی سے آراستہ کرنے
والوں ، اپنے سر پرعِمامہ شریف کا تاج سجانے والوں ، سنّتوں بھرا لباس پہننے والوں
کو مُبارَک ہوکہ جب مومِن قبر میں جائیگا او ر اُس سے سُوال ہوگا:مَنْ
رَّبُّکَ؟’’یعنی تیرا رب کون ہے ؟ ‘‘وہ
کہے گا:رَبِّیَ اﷲ’’یعنیمیرا
رب اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے۔‘‘
مَادِیْنُکَ؟ ’’یعنی تیرا دین کیا ہے ؟‘‘زَبان
سے نکلے گا:دِیْنِیَ الْاِسْلَام ’’یعنی میرا دین اسلام ہے‘‘(اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہ
عَزَّ وَجَلَّ اِسی اسلام کی مَحَبَّت میں تو دعوتِ اسلامی کے
مَدَنی قافِلے میں سفر کیاکرتا تھا ۔اسی اسلام کی مَحَبَّت میں تو میں مُعاشَرے کے طعنے سہتا تھا، سنّتوں پر عمل کرتا دیکھ کر لوگ مذاق اڑاتے تھے ، مگر میں ہنسی خوشی برداشت کیا کرتا تھا، اسی دینِ اسلام کی خاطِر میری زندَگی وَقْف تھی) پھر کسی کارَحمت بھرا جلوہ دکھایا جائے گا، توخوش نصیب نَمازیوں ، روزہ داروں ،حاجیوں ، فرض ہونے کی صورت میں پوری زکوٰۃ ادا کرنے والوں ، سنّتوں پر عمل کرنے والوں ، نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے والوں اورمَدَنی قافلوں میں سنّتوں بھرا سفر کرنے والوں کا دل خوشی سے جھوم اُٹھے گا۔کیونکہ دُنیا ہی میں بقولِ مفتی احمدیار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانعُشّاق کی یہ کیفیت ہوتی ہے: ؎
روح نہ کیوں ہومُضْطَرِب موت کے انتِظار میں سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئیں گے وہ مزار میں
اور اس حسرت کو بھی زندگی بھرپروان چڑ ھایا تھاکہ : ؎
قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں پر گروں گر فِرشتے بھی اٹھائیں تومیں اُن سے یوں کہوں
اب توپائے نازسے میں اے فِرشتوکیوں اُٹھوں مر کے پہنچا ہوں یہاں اِس دلرُبا کے واسطے
تو جب سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار ،ہم غریبوں کے غمگسار ،بے کسوں کے
مدد گار ، شَہَنْشاہِ والا تَبار ،صاحِبِ پسینۂ خوشبو دار ،شفیعِ رو زِ شمار جناب
احمدِ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں پوچھا جائے گا:مَا کُنْتَ تَقُوْلُ
فِیْ ھٰذَا الرَّجُل؟ ’’اِس مَرد کے بارے میں تُو کیا کہتا
تھا‘‘؟ تو زَبان سے بے ساختہ جاری ہوگا:ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،’’یعنی یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے
رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ‘‘،(یہی تو میرے وہ آقا
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ، جن کا ذکرِ خیر سن کر میں جھومتا تھا اور نامِ نامی اسمِ گرامی سن کر عقیدت سے انگوٹھے چومتا تھا، یہ تومیرے وُہی میٹھے میٹھے آقامحَمَّدٌرَّسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں کہ جن کی یا د میرے لئے سرمایۂ حیات تھی،یہی تو میرے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں کہ جن کا ذِکر میرے دل کاسُرور اور میری آنکھوں کانور تھا) ؎
تمہاری یاد کو کیسے نہ زندَگی سمجھوں یِہی تو ایک سہارا ہے زندَگی کیلئے
مِرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رَحمتِ عالم میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کیلئے
اور جب سرکا ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جلوہ دکھا کرتشریف لے جانے لگیں گے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّقدموں سے لپٹ کر عرض ہوگی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ؎
دل بھی پیاسا نظر بھی ہے پیاسی کیا ہے ایسی بھی جانے کی جلدی
ٹھہرو! ٹھہرو! ذرا جانِ عالم! ہم نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے
اے کا ش !ہمیشہ کیلئے ہماری قبر ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے جلووں سے بسادیں ۔بقولِ مولیٰنا حسنؔ رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن پھر تو… ؎
کیوں کریں بزمِ شبستانِ جِناں کی خواہش
جلوئہ یار جو شمعِ شبِ تنہائی ہو
آخِری سُوال کاجواب دینے کے بعد جہنّم کی کِھڑکی کُھلے گی اور معاً(یعنی فوراً ) بند ہوجائے گی اور جنّت کی کِھڑکی کُھلے گی اور کہا جائیگا: اگرتُو نے دُرُست جوا بات نہ د ئیے
ہوتے تو تیرے لئے وہ دوزخ کی کِھڑکی تھی ۔یہ سن کراُسے خوشی بالائے خوشی ہوگی،اب جنّتی کفن ہوگا ،جنّتی بچھونا ہوگا،قبر تاحدِّنظر وَسیع ہوگی اور مزے ہی مزے ہونگے ۔ ؎
قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے
جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسولُ اللّٰہ کی
(حدائق بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں جھٹ پٹ اپنے
گُناہوں سے تو بہ کرلیجئے۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’جو کوئی جان بوجھ کر ایک
نَمازبھی قضا کر دیتا ہے اس کانام جہنَّم کے اس دروازے پر لکھ دیاجائے گا جس سے وہ
جہنَّم میں داخل ہوگا۔‘‘(حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۷ ص۲۹۹ حدیث۱۰۵۹۰)نمازوں کی پابندی کیجئے بہارِ شریعت جلداوّل
صفحہ434 پر ہے:’’غیّ جہنَّم میں ایک وادی ہے ،جس کی گرمی اور گہرائی سب سے
زیادہ ہے، اس میں ایک کوآں ہے، جس کا نام ’’ہبہب‘‘ ہے، جب جہنَّم کی آگ بجھنے پر
آتی ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس
کوئیں کو کھول دیتا ہے ،جس سے و ہ بدستور بھڑکنے لگتی ہے۔ یہ کوآں بے نمازیوں اور
زانیوں اور شرابیوں اور سود خواروں اور ماں باپ کو اِیذا دینے والوں کے لیے ہے۔‘‘رَمضانُ
المبارَک کے روزوں کا اہتمام کیجئے، حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا : ’’جو ماہ
رَمَضان کا ایک روزہ بِلا عُذْرِ شَرْعی ومَرَض قَضا کردیتا ہے توزمانے بھر کے
روزے اس کی قَضا نہیں ہوسکتے اگرچِہ بعد میں رکھ بھی لے۔‘‘ ( تِرمِذی ج۲ ص۱۷۵ حدیث ۷۳۳)میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! پچھلی نَمازیں یا روزے اگرباقی ہیں تو ان کاحساب کر لیجئے، قَضا عُمری کرلیجئے اور جان بوجھ کر کی ہوئی تاخیر کے گناہ کی توبہ بھی کرلیجئے ۔ فلمیں ڈِرامے دیکھنے اور بد نگاہی کرنے والوں کو ڈرجانا چاہئے کہ مکاشَفۃُ القُلُوب میں ہے : ’’ جو اپنی آنکھوں کو حرام سے پُر کرے گا اس کی آنکھوں میں قِیامت کے روز اللہ تَعَالٰی آگ بھردے گا۔‘‘ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۱۰) ماں باپ کو ستانے والوں کیلئے دردناک عذاب کی وعید ہے چُنانچِہ حدیث شریف میں آتا ہے:مِعراج کی رات،سرورِ کائنات ،شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک منظر یہ بھی دیکھا کہ کچھ لوگ آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے ۔ عرض کی گئی :’’ یہ ماں باپ کو گالیاں بکتے تھے۔‘‘(الکبائِرص۴۸)داڑھی مُنڈانے والوں یا ایک مُٹّھی سے گھٹانے والوں کیلئے مقامِ غور ہے کہ حدیثِ پاک میں آتا ہے: ’’ مونچھوں کوخوب پست کروداڑھیوں کومُعافی دو (یعنی بڑھنے دو) اور یَہودِیوں جیسی صورت مت بناؤ۔ ‘‘ (شرح معانی الآثار ج۴ ص۲۸ حدیث۶۴۲۲،۶۴۲۴)
سرکار کا عاشِق بھی کیا داڑھی مُنڈاتا ہے؟
کیوں عشق کا چہرے سے اظہار نہیں ہوتا؟
پاکستان کے مشہور شہرکوئٹہ کے کسی قریبی گاؤں میں ایک لاوارِث کلین شیو
نوجوان مرا پایا گیا ،لوگوں نے مل کر اُس کو دفنا دیا ۔اتنے میں مرحوم کے عزیز آپہنچے اورکہنے لگے کہ ہم اِس کی لاش کو نکال کر لے جائیں گے اور اپنے گاؤں میں دَفنا ئیں گے ۔لہٰذا قبر دوبارہ کھودی گئی، جب چہرے کی طرف سے سِل ہٹائی گئی تو لوگوں کی چیخیں نکل گئیں !کفن چِہرے سے ہٹا ہوا تھا اورکلین شیو نوجوان کے چِہرے پر کالے کالے بچھوؤں کی کالی کالی داڑھی بنی ہوئی تھی لوگوں نے گھبرا کر جلدی جلدی سِل رکھی مِٹّی ڈالی اور بھاگ گئے ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہم سب کو اللہ تَعَالٰی بچّھوؤں سے بچائے۔ آمین! جلدی جلدی پیار ے پیارے اور شہد سے بھی میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت چِہرے پر سجالیجئے اور جو اب تک مُنڈاتے یا خَشخَشی کرواتے رہے ہیں وہ اِس گناہ سے توبہ بھی کرلیں ۔یاد رکھیئے !داڑھی منڈانا بھی حرام ہے اور ایک مٹھی سے گھٹانا بھی حرام۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!میرے مکّی مَدَنی آقا میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارَک زُلفیں کبھی نصف (یعنی آدھے)کان مبارَک تک تو کبھی کان
مبارَک کی لَو تک اور بعض اوقات بڑھ جاتیں تو مبارَک
شانوں یعنی کندھوں کوجھوم جھوم کر چومنے لگتیں۔(الشمائل
المحمدیۃ للترمذی ص۳۴،۳۵،۱۸)( ہاں حج و عمرہ کے احرام شریف سے باہَر ہونے کیلئے حَلق فرمایا یعنی
بال مبارک مُنڈوائے ہیں ) انگلش بال رکھنا سنّت نہیں ،
گیسو (زلفیں ) سنّت ہیں ۔برائے کرم! اپنے سر پر سنّت کے مطابِق گیسو سجالیجئے ۔ نیز میٹھے میٹھے
آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی میٹھی میٹھی سنّت عمامہ شریف کا تاج بھی سرپر سجالیجئے ۔
میرے آقا امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :( امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پوتے حضرتِ سیِّدُنا) سالِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں اپنے والِدِ ماجِد(حضرتِ سیِّدُنا )عبدُ اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے حُضُور حاضِر ہوا اور وہ عمامہ باندھ رہے تھے ،جب باندھ چکے،میری طرف اِلتِفات(یعنی توجُّہ) کرکے فرمایا:تم عمامے کو دوست رکھتے ہو؟ میں نے عرض کی : کیوں نہیں ! فرمایا: اسے دوست رکھّو عزّت پاؤگے اور جب شیطان تمہیں دیکھے گاتم سے پیٹھ پھیر لے گا ،میں نے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا کہ’’ عمامے کے ساتھ ایک نفل نَماز خواہ فَرض بے عِمامے کی پچیس نَمازوں کے برابر ہے اور عمامے کے ساتھ ایک جمعہ بے عمامے کے ستّر جمعوں کے برابر ہے ۔‘‘پھر ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا:اے فرزند! عِمامہ باند ھ کہ فِرِشتے جُمُعہ کے دن عِمامہ باندھے آتے ہیں اور سورج ڈوبنے تک عمامے والوں پر سلام بھیجتے رہتے ہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۶ص ۲۱۵ )
اگرسب اپنی مَدَنی سوچ بنالیں کہ آج سے ہم
داڑھی، زُلفوں اور عمامہ شریف کی سنّتیں اپنالیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ داڑھی ،
زلفوں اور عمامہ شریف کا ایک بارپھر رَواج پڑجائیگا۔یعنی جس طرح آج لوگ بکثرت
داڑھیاں مُنڈاتے ہیں اسی طرح کثیر مسلمان
داڑھیاں سجانے لگیں گے اورہر طرف داڑھی ،زلفوں اور عمامے شریف کی بہار آجائے گی۔
ہم کو میٹھے مصطفیٰ کی سنّتوں سے پیار ہے
اِنْ شَآءَاللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:(مِعراج کی رات) میں نے کچھ مَردوں کو دیکھا جن کی کھالیں آگ کی قَینچیوں سے کاٹی جارہی تھی ، میں نے کہا:یہ کون ہیں ؟جبرئیلِ امین (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام) نے بتایا:یہ لوگ ناجائز اَشیاء سے زِینت حاصل کرتے تھے۔ اورمیں نے ایک بدبودار گڑھا دیکھا جس میں شوروغَوغا برپا تھا، میں نے کہا:یہ کون ہیں ؟تو بتایا: یہ وہ عورَتیں ہیں جو ناجائز اَشیاء سے زِینت حاصل کرتی تھیں ۔ (تاریخِ بغداد ج۱ ص۴۱۵) یاد رکھئے!نَیل پالِش کی تہ ناخُنوں پرجَم جاتی ہے لہٰذا ایسی حالت میں وضو کرنے سے نہ وُضو ہوتا ہے نہ ہی نہانے سے غسل اُترتا ہے ،جب وُضو وغسل نہ ہو تو نَماز بھی نہیں ہوتی۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج سے عَہد کر لیجئے کہ
میر ی کوئی نَماز قضا نہیں ہو گی … آج کے بعد رَمَضان کا کوئی روزہ قضا نہیں ہوگا…فلمیں
ڈِرامے نہیں دیکھیں گے …گانے باجے نہیں سنیں گے…داڑھی نہیں منڈائیں گے…ایک مٹھی سے
نہیں گھٹائیں
گے… اِنْ شَآءَ اللہ ۔([2])اور مردوں کے پاجامے کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہونے چاہئیں کہ جوکپڑاتکبُّر سے نیچے گرتا ہے وہ آگ میں ہے ۔حدیث پاک میں ہے: ’’ایک شخص تکبُّر سے تَہبند گھسیٹ رہا تھا زمین میں دھنسا دیا گیا اورقِیامت تک وہ زمین میں دھنستا رہے گا۔‘‘ (بُخاری ج۴ ص۴۷ حدیث۵۷۹۰)آج کے بعد سارے اسلامی بھائی اپنے پاجامے ٹخنوں سے اوپر رکھا کریں گے
…اِنْ شَآءَ اللہ … اِنْ شَآءَ اللہ … اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ ( اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)
سینہ تری سنت کا مدینہ بنے آقا
جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭ چھ فرامِینِمصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: {۱} جواللہاور قِیامت پر
ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ مہمان کا احترام کرے ( بُخاری ج ۴ ص۱۰۵حدیث۶۰۱۸) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تَحْت فرماتے ہیں : مِہمان
کا اِحترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملے ،اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات
کا انتِظام کرے حتَّی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے(مراٰۃ ج۶ص۵۲){۲} جب کوئی مہمان کسی
کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے (کَنْزُ الْعُمّالج۹ ص۱۰۷حدیث۲۵۸۳۱){۳}جس نے نَماز قائم کی ، زکٰوۃ ادا کی ، حج ادا کیا،رَمَضان کے روز ے
رکھے اور مہمان کی مہمان نوازی کی ،وہ جنّت میں داخِل ہوگا (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۱۲ص۱۰۶حدیث ۱۲۶۹۲) {۴}جو شخص(باوُجُودِ قدرت) مہمان نوازی
نہیں کرتا اُس میں بھلائی نہیں (مُسندِ اِمام احمد
بن حنبل ج ۶ ص ۱۴۲حدیث ۱۷۴۲۴ ) {۵}آدَمی کی کم عقلی ہے کہ وہ اپنے مہمان سے خدمت لے(اَلْجامِعُ
الصَّغِیر ص۲۸۸حدیث ۴۶۸۶){۶}سنّت یہ ہے کہ آدَمی مہمان کو
دروازے تک رخصت کرنے جائے ( اِبن ماجہ ج۴ ص۵۲حدیث۳۳۵۸) مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
الحَنّان فرماتے ہیں :ہمارا مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے
خواہ اُس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو جو ہمارے لئے اپنے ہی محلہ یا اپنے
شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دو چار منٹ کے لئے وہ ملاقاتی ہے مہمان نہیں ۔ اس کی
خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیں ہے اور جوناواقف شخص اپنے کام کے لئے ہمارے پاس
آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ
حاکم کے
مہمان نہیں (مراٰۃ ج۶ ص ۵۴) ٭مہمان کو چاہئے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذِمّے داریوں کا لحاظ
رکھے۔بہارِ شریعت جلد3صَفْحَہ391پر حدیث نمبر14 ہے:’’جو شخص اللہ (عَزَّ وَجَلَّ ) اور
قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اُس کا جائزہ
ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، اپنے مقدور بھر اس کے لیے
تکلف کا کھانا تیّار کرائے) اور ضِیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد تکلُّف نہ کرے بلکہ جو حاضِر ہو وہی پیش کردے) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے، مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں
ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے‘‘ ( بُخاری ج ۴ص۱۳۶ حدیث ۶۱۳۵)٭جب آپ کسی کے پاس بطورِ
مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچھّی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یااُس
کے بچّوں کیلئے تحفے لیتے جائیے ٭ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ اگر مہمان کچھ تحفہ نہ لائے تو میزبان
یا اُس کے گھر والے مہمان کی بُرائی کے گناہوں میں پڑتے ہیں ۔ تو جہاں یقینی طور
پر یا ظنِّ غالِب سے ایسی صورتِ حال ہو وہاں مہمان کو چاہئے کہ بِغیر مجبوری کے نہ
جائے۔ ضَرورتاً جائے اور تحفہ لے جائے تو حَرَج نہیں ، البتّہ میزبان نے اِس نیّت
سے لیا کہ اگر مہمان تحفہ نہ لاتا تو یہ یعنی میزبان اِس (مہمان)
کی بُرائیاں کرتا یابطورِ خاص نیّت تو نہیں مگر اِس کا ایسا بُرامعمول
ہے تو جہاں اِسے غالِب گمان ہو کہ لانے والا اِسی طور پر یعنی شرسے بچنے کیلئے
لایا ہے تو اب لینے والا میزبان گنہگار اور عذابِ نارِ کا حقدار ہے اور یہ تحفہ اِ
س کے حق میں رشوت ہے۔ ہاں اگر بُرائی بیان کرنے کی نیّت نہ
ہواور نہ اِس کا ایسا معمول ہو تو تحفہ قَبول کرنے میں حرج نہیں ٭ صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا
مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں : (۱) جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے(۲) جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے:اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ (۳) بِغیر اجازتِ صاحِبِ خانہ (یعنی میزبان سے اجازت لئے بِغیر)وہاں سے نہ اُٹھے اور (۴) جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دُعا کرے(عالمگیری ج۵ص۳۴۴)٭ گھر یا کھانے وغیرہ کے مُعامَلات میں کسی قسم کی تنقیدکرے نہ ہی جھوٹی تعریف ۔میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سُوالات نہ کرے مَثَلاًکہنا ہمارا کھانا کیسا تھا؟ آپ کو پسند آیا یا نہیں ؟ایسے موقع پر اگر نہ پسند ہونے کے باوُجُود مِہمان مُرَوَّت میں کھانے کی جھوٹی تعریف کریگا تو گنہگار ہو گا۔ اِس طرح کا سُوال بھی نہ کرے کہ’’ آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں ؟‘‘ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ عادتِ کم خوری یا پرہیزی یا کسی بھی مجبوری کے تحت کم کھانے کے باوُجُوداصرار وتکرارسے بچنے کیلئے مِہمان کو کہنا پڑ جائے کہ’’ میں نے خوب ڈٹ کر کھایا ہے‘‘٭میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ ’’اور کھاؤ‘‘ مگر اس پر اِصرار نہ کرے ،کہ کہیں اِصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے نقصان دہ ہو (ایضاً) ٭ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں :ساتھی کم کھاتا ہو تو اُس سے ترغیباً کہے: کھایئے!
لیکن تین بار سے زیادہ نہ کہا جائے کیوں کہ
یہ ’’ اصرار‘‘ کرنا اور حد سے بڑھنا ہوا ( اِحیا ء
العلوم ج۲ ص۹) ٭ میزبان کو بالکل خاموش
نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ
کھانا رکھ کر غائب ہوجائے بلکہ وہاں حاضر رہے(عالمگیری ج۵ص۳۴۵)٭ مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو(ایضاً) ٭ میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذ مّے اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیل اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی سنّت ہے (ایضاً،بہارِ شریعت ج۳ص۳۹۴ ) جو شخص اپنے بھائیوں ( مہمانوں ) کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا( قوت القلوب ج۲ ص ۳۰۶ ) ٭ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں :جو شخص کم خوراک ہو جب وہ لوگوں کے ساتھ کھائے تو کچھ دیر بعد کھانا شروع کرے اور چھوٹے لقمے اٹھائے اورآہِستہ آہِستہ کھائے تاکہ آخر تک دوسرے لوگوں کا ساتھ دے سکے (مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۸ ص۸۴ تحتَ الحدیث ۴۲۵۴) ٭اگرکسی نے اِس لئے جلدی سے ہاتھ روک لیا تا کہ لوگوں کے دلوں میں مقام پیدا ہو اور اِس کو پیٹ کا قفلِ مدینہ لگانے والا( یعنی بھوک سے کم کھانے والا)تصوُّر کریں تو رِیا کار اور عذابِ نار کا حقدار ہے ٭اگر بھوک سے کچھ زیادہ اس لیے کھالیا کہ مہمان کے ساتھ کھا رہا ہے اور معلوم ہے کہ یہ ہاتھ روک دے گا تو مہمان شرما جائے گا اور سیر ہو کر نہ کھائے گا تو اس صورت میں بھی کچھ زیادہ کھالینے کی اجازت ہے جبکہ اتنی ہی زیادتی ہو جس سے مِعدہ خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو (مُلَخَّص از دُرِّمُختار ج۶ص۵۶۱) ٭ ایک شخص نے عرض کی: یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں ایک شخص کے یہاں گیا، اُس نے میری مہمانی نہیں کی اب وہ میرے یہاں آئے تو کیا میں اس سے بدلا لوں ؟ ارشاد فرمایا:نہیں بلکہ تم اس کی مہمانی کرو۔( تِرمِذی ج ۳ ص ۴۰۵ حدیث۲۰۱۳)
ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صفحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘ ‘ ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے ۔ سنتوں کی تربیّت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔
لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو
سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے
شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔
ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب
۸ذوالحجۃ الحرام۱۴۳۳ھ
2012۔10۔25
[1] ۔۔۔۔۔ یہ بیان امیراہلسنت حضرت علامہ مولانہ ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ نے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیر سیا سی تحریک دعوت اسلامی ۱۴۱۶ھ کے تین روزہ سنّتوں بھرے اجتماع مدینۃ اولیاءملتان شریف میں فرمایا ۔ مجلس مکتبۃ المدینہ
[2] ۔۔۔۔۔ امیر اہلسنت دامت برکا تہم العالیہ بعض اجتماعات میں بیان کے بعد اپنے مخصوص انداز میں عہد لیتے ہیں جس کا جواب اجتماع میں موجود اسلامی بھائی ہاتھ لہرا لہرا کر اِنْ شَآءَ اللہ کے فلک شگاف نعروں سے دیتے ہیں ۔