اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سستی دلائے یہ بَیان(24 صَفحات)مکمَّل پڑھ لیجئے
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ اپنے دل میں مَدَنی انقلاب برپا ہوتا محسوس فرمائیں گے۔
اَلْقَولُ الْبَدِیع میں ہے:انتِقال کے بعد حضرتِ سَیِّدُناابوالعباس احمد بن منصور عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُورکو اہلِ شیراز میں سے کسی نے خواب میں دیکھا کہ وہ سر پر موتیوں کا تاج سجائے جنَّتی لباس میں ملبوس شِیراز کی جامِع مسجِد کی مِحراب میں کھڑے ہیں ،خواب دیکھنے والے نے عرض کی:مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا ؟ فرمایا اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیں کثرت سے دُرُود شریف پڑھا کرتا تھا یِہی عمل کام آگیا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میری مغفِرت فرمادی اور مجھے تاج پہنا کر داخِلِ جنّت فرمایا۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص۲۵۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرتِ سَیِّدُنا کعبُ الاحبار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہایک عظیم تابِعی بُزُرگ تھے،اسلام آوَری سے قبل آپ یہودیوں کے بَہُت بڑے عالِم تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ بنی اسرا ئیل کا ایک شخص (توبہ کرنے کے بعد پھر) ایک فاحشہ کے ساتھ کالامنہ کرکے جب غسل کیلئے ایک نہر میں داخِل ہوا تونہر کی صدائیں آنے لگیں :’’تجھے شرم نہیں آتی ؟کیا تُونے توبہ کرکے یہ عہد نہیں کیا تھا کہ اب کبھی ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ یہ سن کر اُس پر رقّت طاری ہوگئی اور وہ روتا چیختا یہ کہتا ہوا بھاگا:’’اب کبھی بھی اپنے پیار ے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی نافرمانی نہیں کروں گا۔‘‘ وہ روتا ہوا ایک پہاڑ پر پہنچا جہاں بارہ اَفراد اللہ عَزَّ وَجَلَّکی کی عبادت میں مشغول تھے۔ یہ بھی ان میں شامِل ہوگیا۔کچھ عرصے کے بعد وہاں قَحط پڑا تو نیک بندوں کا وہ قافِلہ غِذا کی تلاش میں شہر کی طرف چل دیا۔اِتِّفاق سے اُن کا گزر اُسی نہر کی طرف ہوا۔وہ شخص خوف سے تھرّا اُٹھا اور کہنے لگا:میں اِس نہر کی طرف نہیں جاؤں گاکیونکہ وہاں میرے گناہوں کا جاننے والا موجود ہے،مجھے اُس سے شرم آتی ہے۔یہ رُک گیا اور بارہ اَفراد نہر پر پہنچے ۔تو نہر کی صدائیں آنی شروع ہوگئیں : اے نیک بندو !تمہارا رفیق کہاں ہے؟اُنہوں نے جواب دیا: وہ کہتاہے:اِس نہر پر میرے گناہوں کا جاننے والا موجود ہے اور مجھے اُس سے شرم آتی ہے۔نہر سے آواز آئی: ’’ سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ!اگر تمہارا کوئی عزیز تمہیں ایذادے بیٹھے مگر پھر نادِم ہو کر تم سے مُعافی مانگ لے اور اپنی غَلَط عادت ترک کردے تو کیا تمہاری اس سے صُلح نہیں ہو جاتی ؟ تمہارے
رفیق نے بھی توبہ کرلی ہے اور نیکیوں میں مشغول ہوگیا ہے لہٰذا اب اُس کی اپنے رب عَزَّ وَجَلَّ سے صُلح ہوچکی ہے۔اسے یہاں لے آؤ اور تم سب یہیں نہر کے کَنارے عبادت کرو۔‘‘ اُنہوں نے اپنے رفیق کو خوش خبری دی اور پھر یہ سب مل کر وہاں مَشغولِ عبادت ہوگئے حتّٰی کہ اُس شخص کا وہیں انتِقال ہوگیا۔اِس پر نہر کی صدائیں گونج اُٹھیں : ’’ اے نیک بندو! اسے میرے پانی سے نَہلاؤ اور میرے ہی کَنارے دفناؤ تاکہ بروزِ قِیامت بھی وہ یہیں سے اُٹھایا جائے۔‘‘چُنانچِہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔رات کو اُس کے مزار کے قریب اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت کرتے کرتے سوگئے ۔ صُبح ان سب کا وہاں سے کُوچ کرنے کا ارادہ تھا ۔جب جاگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے مَزار کے اَطراف میں 12سَرْوْ( یعنی ایک درخت جو سیدھا اور مخروطی(یعنی گاجر کی) شکل کا ہوتا ہے)کے خوبصورت قد آور درخت کھڑے ہیں ۔ یہ لوگ سمجھ گئے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے یہ ہمارے لئے ہی پیدا فرمائے ہیں ،تاکہ ہم کہیں اور جانے کے بجائے ان کے سائے میں ہی پڑے رہیں ۔چُنانچِہ وہ لوگ وَہیں عبادت میں مشغول ہوگئے ۔جب ان میں سے کسی کا انتِقال ہوتا تو اُسی شخص کے پہلو میں دَفْن کیا جاتا۔حتّٰی کہ سب وفات پاگئے ۔بنی اسرائیل اُن کے مزرات کی زیارت کیلئے آیاکرتے تھے رَحمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن (کتابُ التَّوّابِین ص۹۰) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے مُلاحَظہ فرمایا! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کتنا رحیم وکریم ہے۔جب کوئی بندہ سچّے دِل سے توبہ کرلیتا ہے تو اُس سے راضی ہوجاتا ہے ۔ اِس حِکایت سے یہ بھی درس ملا کہ گناہ کرنے والا اگر چِہ لاکھ پردوں میں چُھپ کرگناہ کرے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ دیکھ رہا ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بُزُرگانِ دین کے مزارات پر حاضِری کا سلسلہ پچھلی اُمّت کے مومنوں میں بھی تھا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جب گناہ سرزد ہوجائے تو انسان کو چاہئے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ َ کی بارگاہ میں توبہ کرلے ،اگر بتَقاضائے بَشَرِیَّت پھر گناہ کر بیٹھے تو پھر توبہ کرلے، پھر خطا ہوجائے تو پھر توبہ کرے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ َّ کی رَحمت سے ہر گز ہرگز مایوس نہ ہو،اُس کی رَحمت بَہُت بڑی ہے،یقینا گناہوں کو مُعاف کرنے میں اُس کی رَحمت کا کوئی نقصان نہیں ہوتا ، بس ہمیں توبہ واِستغفار کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ۔’’یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں ۔‘‘( اِبن ماجہ ج۴ص۴۹۱ حدیث۴۲۵۰)معلوم ہوا توبہ کرنے والے کے گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں ۔بَہَر حال ہمیں بارگاہِ ربِّ ذُو الجلال میں ہردم جُھکا رہنا چاہئے اوراس کی رَحمت سے نااُمّید نہیں ہونا چاہئے۔
رَحمت کی بات آئی ہے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نادانی میں کہہ دیتے ہیں :’’جنَّت میں صِرف نیکیوں کے ذَرِیعے ہی داخِلہ ملے گااور جو گناہ کریگا وہ لازِمی طورپر جہنَّم میں جائے گا، رَحمت سے بخشے جانے کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ یقینایہ شیطان کے وَسوَسے ہیں ۔ورنہ میں اپنی طرف سے رب عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت کی بات کہاں کررہاہوں ، سنو …! سنو…! اللہ عَزَّ وَجَلَّپارہ24سُوْرَۃُالْزُّمَر آیت53 میں ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳)
ترجَمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے (نافرمانیوں کے ذریعے) اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ (عَزَّ وَجَلََّ)کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بیشک اللہ (عَزَّ وَجَلََّ)سب گناہ بخش دیتا ہے بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
حدیثِ قُدسی ہے ،خدائے رحمنعَزَّ وَجَلَّکا فرمانِ رَحمت نشان ہے: سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِی۔یعنی میری رَحمت میرے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ (مُسلِم ص۱۴۷۱حدیث۲۷۵۱)
امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنکے بھائی جان استاذِ زمن، شَہنشاہ سخن حضرتِ مولانا حسن رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰناپنے نعتیہ دیوان’’ذوقِ نعت‘‘کے اندر بارگاہِ خدائے رحمن عَزَّ وَجَلَّمیں عرض کرتے ہیں :
سَبَقَت رَحمَتِیْ عَلٰی غَضَبِی تُونے جب سے سُنا دیا یارب
آسرا ہم گناہ گاروں کا اور مضبوط ہوگیا یارب
(ذوقِ نعت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقینا اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رَحمت بَہُت بَہُت بَہُت ہی بڑی ہے۔وہ بظاہِر کسی چھوٹی سی ادا پرراضی ہوجائے تو ایسا نواز تا ہے کہ بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔چُنانچِہ ’’کِتابُ التَّوَّابِین‘‘میں ہے، حضرتِ سَیِّدُنا کَعبُ ا لْاحبار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :بنی اسرائیل کے دو آدمی مسجِد کی طرف چلے ، ایک تومسجِد میں داخِل ہوگیا مگر دوسرے پر خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّطاری ہوگیااور وہ باہَر ہی بیٹھ گیا اور کہنے لگا:’’میں گنہگار اس قابِل کہاں جو اپنا گندا وُجُود لے کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاک گھر میں داخِل ہوسکوں ۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو اس کی یہ عاجِزی پسند آگئی اور اُس کا نام صِدِّیقین میں دَرج فرمادیا۔ (کتابُ التَّوّابِین ص۸۳)یاد رہے ! ’’صِدِّیق کا دَرجہ ’’ولی‘‘اور ’’شہید‘‘ سے بھی بڑا ہوتا ہے۔
اِسی طرح کی ایک حکایت کِتَابُ التَّوَّابِین صَفْحَہ83 پر لکھی ہے:ایک اسرائیلی سے گناہ سرزد ہوگیا،وہ بے حد نادِم ہوا اور بے قرار ہوکر اِدھر سے اُدھر بھاگنے لگا کہ کسی طرح اُس کا گناہ مُعاف ہوجائے اور پَروَردگار عَزَّ وَجَلَّ راضی ہوجائے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہِ رحمت میں اُس کی بیقراری بھری نَدامت کو شرفِ قبولیّت حاصِل ہوئی اور
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اُس کو ولایت کے اعلیٰ ترین رُتبے صِدِّیْقِیّت سے نواز دیا۔
سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ خوشگوار ہے:اَلنَّدَمُ تَوْبَۃٌ یعنی شرمندَگی توبہ ہے۔(اَلْمُستَدرَک ج۵ ص۳۴۶ حدیث۷۶۸۷) حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات گناہوں پر نَدامت وہ کام کرجاتی ہے جو بڑی سے بڑی عبادت بھی نہیں کرسکتی ،اِس کا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں کہ عبادت نہ کی جائے،یہ سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مَشِیَّت پر ہے،کبھی نَدامت کام کرجاتی ہے تو کبھی عبادت۔ چُنانچِہ
رَوْضُ الرَّیاحِینمیں ہے،حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابوبکر شِبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں : میں ایک قافِلے کے ہمراہ ملکِ شام جارہا تھا،راستے میں ڈاکوؤں کی جَماعت نے ہمیں لُوٹ لیا اور سارا مال واَسباب اپنے سردار کے سامنے ڈَھیر کردیا،سامان میں سے ایک شکر اور بادام کی تَھیلی نکلی،سارے ڈاکوؤں نے نکال کر کھانا شُروع کردیا مگر اُن کے سردار نے اس میں سے کچھ نہ کھایا،میں نے پوچھا:سب کھارہے ہیں مگر آپ کیوں نہیں کھارہے؟ اُس نے کہا:میں روزے سے ہوں ۔میں نے حیرت سے کہا:تم لوٹ مار بھی کرتے ہو اور روزہ بھی رکھتے ہو!سردار بولا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے صُلح کیلئے بھی تو کوئی راہ باقی رکھنی چاہئے۔ حضرتِ سَیِّدُنا شیخ شِبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں : کچھ عرصے بعد میں
نے اُسی ڈاکوؤں کے سردار کو اِحرام کی حالت میں طوافِ خانۂ کعبہ میں مشغول دیکھا، اُس کے چہرے پر عِبادت کا نور تھا اور مُجاہَدَات نے اُسے کمزور کردیا تھا،میں نے تَعجّبکے ساتھ پوچھا:کیا تم وُہی شخص نہیں ہو؟وہ بولا: ’’جی ہاں میں وُہی ہوں اور سنئے! اُسی رَوزے نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ میری صُلح کروادی ہے۔‘‘ (رَوْضُ الرَّیاحِین ص۲۹۳)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ کسی نیکی کو چَھوٹی سمجھ کر ترک نہیں کردینا چاہئے ، کیا پتا وُہی چھوٹی نظر آنے والی نیکی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے اور ہمارے دونوں جہاں سَنور جائیں ۔ اس حِکایت سے نفلی روزے کی اَہَمِّیَّت بھی معلوم ہوئی۔بے شک ہر ایک کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کی طاقت نہیں پاتا،تاہم کم ازکم ہر پیر شریف کا روزہ تو رکھ ہی لینا چاہئے کہ سنّت ہے نیز نیک بنانے کے عظیم نسخے مَدَنی اِنعامات میں سے58 واں مَدَنی اِنعام بھی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی سے وابَستہ کثیر اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس ’’ مَدَنی اِنعام‘‘ کے مطابِق پیر شریف کا روزہ رکھنے کی سنَّت ادا کرتے ہیں اور عاشِقانِ رسول کے ہر دلعزیز 100 فیصدی اسلامی چینل مدنی چینل پر ہر پیر شریف کو براہِ راست(یعنی LIVE) ’’ مناجا تِ افطار‘‘ کا سلسلہ ہوتا اور عاشقانِ رسول کے اِفطار کرنے کا روح پرور منظر دکھایا جاتا ہے ۔ آپ بھی بہ نیّتِ ثواب ’’ مَدَنی چینل ‘‘دیکھتے رہئے اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی دعوت دیکر خوب ثواب کا عظیم خزانہ لوٹئے۔
آیئے ! لگے ہاتھوں ’’ مَدَنی چینل ‘‘ کی ایک مَدَنی بہار سنتے ہیں :بمبئی(ہند) کے جہانگیر نامی ایک خوبرو نوجوان فلمی اداکار کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے: ہمارا سارا گھر آگ کی پوجا کیاکرتا تھا، ایسے میں مَدَنی چینل ہمارے لئے گویا پیغامِ نَجات بن کر آیا! قصّہ یوں ہے کہ میری امّی بڑے شوق سے مَدَنی چینل دیکھا کرتی تھی ، ایکبار میں نے سوچا کہ آخِر امّی جان اتنی دلچسپی کے ساتھ ’’ سبز عمامے والے مولانائوں ‘‘ کی باتوں کوکیوں سنا کرتی ہے، لائو میں بھی تو دیکھوں کہ یہ ’’ مولیٰنا لوگ‘‘ کیا بولتے ہیں ! چُنانچِہ میں نے بھی T.V. پر ’’ مَدَنی چینل‘‘ لگایا: مدنی مُذاکرے کا سلسلہ تھا ، مجھے بَہُت اچّھا لگا ، میں غور سے سنتا رہا، مَدَنی مذاکرے کی باتیں تاثیر کا تیر بن کر میرے جگرمیں پیوست ہوتی رہیں ، میرے دل کی دنیا زیرو زبر ہونے لگی اور میرا ضمیر پکار پکار کر کہنے لگا: جہانگیر!تو غلط راہ پر بھٹک رہا ہے، اگرنَجات چاہتا ہے تو سبز عمامے والوں کا سچا دین یعنی مذہبِ اسلام قبول کر لے، اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیں نے دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net پر رابِطہ کیا اور مسلمان ہو گیا۔ میں نے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ سے بھی رابطہ کیا ، انہوں نے میری خوب رہنمائی فرمائی، ان کے حُسنِ اَخلاق نے مجھے بے حد مُتأَثِّر کیا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت سے اب ہمارا سارا گھر اسلام کے دامن میں آ چکا ہے۔ میں رات کے تین تین بجے تک مَدَنی چینل پر آنے والا’’ مَدَنی مذاکرہ‘‘ دیکھتا
رہا ہوں ،اس میں ایکبار داڑھی رکھنے کی ترغیب سُن کر میں نے داڑھی بھی بڑھانی شروع کرد ی ہے اور بمبئی کے دعوتِ اسلامی والے عاشِقانِ رسول کی صحبت میں رہ کر اسلامی نظریات و نماز وغیرہ عبادات کی بھی تعلیم حاصِل کر رہا ہوں ۔
مدنی چینل لائے گا سنّت کی گھر گھر میں بہار
کر دے مولیٰ دو جہاں میں ناظِریں کا بیڑا پار
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بات بَہُت دور نکل گئی، اُس روزے کی بَرَکت اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت کا تذکرہ ہو رہا تھا، سُبْحٰنَ اللہِ! ڈاکوؤں کے سردار کو روزے نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا! روزے کی بَرَکت سے اُسے ہِدایت بھی ملی اور عبادت وریاضت کی سعادت بھی ملی۔
کیمیائے سعادت میں حضرتِ شیخ کِتانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :میں نے حضرتِ سَیِّدُنا جُنید بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیکو بعدِ وفات خواب میں دیکھ کر پوچھا: مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معامَلہ فرمایا؟فرمانے لگے: میری عبادَتیں اورر ِیاضتیں تو کام نہ آئیں ،البتّہ رات کو اُٹھ کر جودورَکْعَت تَہَجُّد پڑ ھ لیا کرتا تھا اُسی کے سبب مغفِرت ہوگئی۔ (کیمیائے سعادت ج۲ص۱۰۰۷)
رَحمتِ حَق ’’بَہا‘‘ نہ مِی جَویَد
رَحمتِ حق ’’بہانہ‘‘ مِی جَویَد
(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت ’’بہا‘‘یعنی قیمت نہیں مانگتی بلکہ اُس کی رَحمت تو ’’بہانہ ‘‘ ڈھونڈتی ہے)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فرائِض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافِل کی بھی عادت ڈالنی اور خُصوصاً تَہَجُّد تو ہر گز نہیں چھوڑنی چاہئے،کیا معلوم تَہَجُّدمیں اُٹھنے کی مَشَقَّت بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں قَبولیَّت پا جائے اور ہماری مغفِرت کا بہانہ بن جائے۔
خبردار! اس رَحمت بھرے بیان کا مطلب کہیں کوئی یہ نہ سمجھے کہ چُونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت بہُت بڑی ہے لہٰذا اب نَمازیں چھوڑدو… رَمَضان کے روزے بھی مت رکھو…T.V. اور انٹر نیٹ کے رُوبرُو بیٹھواور خوب فِلمیں ڈِرامے دیکھو…خوب بدنِگاہی کرو … اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت بہُت بڑی ہے اب ماں باپ کو ستانا شُروع کردو … خوب گالیاں بکو …کثرت سے جھوٹ بولو… مسلمانوں کی خوب غِیبتیں کرو … مسلمانوں کے دل دُکھاؤ…بد اَخلاقی کے سابِقہ سارے ریکارڈ توڑ دو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت بہُت بڑی ہے۔داڑھی مُنڈوادویا خَشْخشی داڑھی رکھو…چوری کرو… ڈاکہ ڈالو …ظلم وستم کی آندھیاں چلادو…خوب شراب پیو…جُوا کھیلو بلکہ جُوا اور مُنشِّیات کا اڈّہ ہی کھول ڈالو!جو جو گناہ ابھی تک نہیں کرپائے مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّوہ بھی کر ڈالو کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
رَحمت بَہُت بڑی ہے۔میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ پر اپنا خوب فضل و کرم فرمائے اور آپ کو بے حساب بخشے، اٰمین۔اِس طرح شیطٰن کان پکڑ کر آپکو اپنی اطاعت میں نہ لگادے۔یاد رکھئے!جہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ رحیم وکریم ہے وہاں جبّارو قہّار بھی ہے،جہاں وہ نکتہ نواز ہے وہاں بے نِیاز بھی ہے ۔ اگر اُس نے کسی چھوٹے سے گناہ پر گرِفت فرمالی توکہیں کے نہ رہیں گے۔خبردار!خبردار!خبردار!یہ طے ہے کہ کچھ نہ کچھ مسلمان اپنے گناہوں کے سبب داخِلِ جہنَّم بھی ہونگے ۔ ہمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ہر وقت لرزاں وتَرساں رہنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان جہنَّم میں جانے والوں کی فِہرِس میں ہمارا نام بھی شامِل ہو۔
اِمامُ العادِلِین،امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی مَدَنی سوچ پر قربان جائیے کہ اُمّید ہوتو ایسی اور خوف بھی ہوتو ایسا ! چُنانچِہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں : اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب بندوں میں سے صِرف ایک کو داخِلِ جہنَّم فرمانے والا ہو تو میں خوف کروں گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہنَّم میں داخِل ہونے والا وہ ایک بندہ میں ہی ہوں اوراگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سِوائے ایک کے سب کو جہنَّم میں داخِل فرمانے والا ہو تو میں امّید کروں گا کہ جہنَّم سے محفوظ رہنے والا وہ ایک بندہ میں ہی ہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء ج ۱ ص ۸۹ ) بَہَرحال اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت سے مایوس بھی نہیں ہونا چاہئے اوراس کے قَہرو غضب سے
بے خوف بھی نہیں رَہنا چاہئے۔
میں آپ کو اپنی بات عقلی دلیل سے سمجھانے کی کوشِش کرتا ہوں ، مَثَلاً اِس وَقْت اس اجتِماع میں دس ہزار اسلامی بھائی موجود ہوں اور کوئی دَہشت گرد قریبی مکان کی چھت پر پستول لیکر کھڑا ہوجائے اور اعلان کرے میں صِرف ایک گولی چلاتا ہوں اگر لگے گی تو صِرف ایک ہی کو لگے گی باقیوں کو کچھ نہیں کہوں گا۔ کیاخیال ہے؟صِرف ایک ہی کو تو گولی لگنی ہے!کیا بقیّہ نو ہزار نو سو ننانوے اسلامی بھائی بے خوف ہوجائیں گے؟ہرگز نہیں بلکہ ہر ایک اس خوف سے بھاگ کھڑا ہوگا کہ کہیں کسی ایک کو لگنے والی ’’وہ گولی‘‘ مجھے ہی نہ آلگے!امّید ہے میری بات سمجھ میں آگئی ہوگی۔
جب یہ طے شدہ اَمْر ہے کہ کچھ نہ کچھ مسلمان گناہوں کے سبب جہنَّم میں داخِل کئے جائیں گے تو آخِر ہر مسلمان اِس بات سے کیوں نہیں ڈرتا کہ کہیں مجھے بھی جہنَّم میں نہ ڈال دیا جائے۔ خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !بندوق کی گولی کی تکلیف جہنَّم کے عذاب کے سامنے کچھ بھی نہیں ۔ مسلم شریف میں ہے:’’جہنَّم کا سب سے ہلکا عذاب یہ ہے کہ مُعَذَّب (یعنی عذاب پانے والے) کو آگ کی جُوتیاں پہنائی جائیں گی جس کی گرمی اور تَپش سے اُسکا دِماغ پتیلی کی طرح کَھولتا ہوگا، وہ یہ سمجھے گا کہ سب سے زیادہ عذاب مجھی پر ہے۔‘‘ ( مُسلِم ص ۱۳۴ حدیث ۲۱۲ )
بخاری شریف میں ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بروزِ قِیامت سب سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائے گا: ’’جو کچھ (مال و دولت وغیرہ ) زمین میں ہے اگر وہ تیری ملک ہوتا تو کیا تُو عذاب سے چُھٹکارا پانے کیلئے یہ فِدیہ میں دے دیتا‘‘؟ تو وہ کہے گا:’’ضَرور۔‘‘( بُخاری ج ۴ ص ۲۶۱ حدیث ۶۵۵۷)یعنی سبھی کچھ دے ڈالوں گا کہ کہیں یہ آگ کی جُوتیاں میرے پائوں سے نکلتی ہوں ! بس کسی طرح بھی اِس عذاب سے مجھے چھٹکارا مل جائے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سوچو!باربار سوچو!اگر کسی چھوٹے سے گناہ کے سبب یہی سب سے چھوٹا اور ہلکا عذاب کسی پر مُسَلَّط کردیا گیا تو اُس کا کیا بنے گا؟ مَثَلاً کسی کو گالی دی حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہے پھر بھی اگر اِ س جُرم کی پاداش میں سب سے ہلکا عذاب ہی ہوگیا تو کیا ہوگا؟ماں باپ کو ستانے کے جُرم میں کہ یہ بھی کبیرہ گناہ ہے مگر اِس جُرم پر بھی اگر سب سے ہلکا عذاب ہی ہوجائے تو اس کی برداشت کس میں ہے؟اِسی طرح روزمَرّہ کئے جانے والے گناہوں پر غور کرتے چلے جائیے۔جُھوٹ بولنے کے سبب ،کسی کی غِیبت کرنے کے سبب، چُغُلخَوری کے سبب،حرام روزی کمانے کے سبب،نَشہ کرنے کے سبب،فلمیں اور ڈِرامے دیکھنے کے سبب،گانے باجے سُننے کے سبب،بلکہT.V.پر صِرف عورت سے خبریں سننے کے سبب اگر سب سے ہلکا عذاب ہوگیا تو کیا ہوگا؟وہ عورت بھی کتنی بد نصیب ہے جو چند سِکّوں کی خاطِر T.V.پر آکر خبریں سناتی ہے۔کاش ! اُس کو یہ اِحساس ہوجاتا
کہ میرے ذَرِیعے لاکھوں مَرد بدنِگاہی کا گناہ کرکے، اپنی آنکھوں کو حرام سے پُر کرکے اپنی آنکھوں میں جہنَّم کی آگ بھرنے کا سامان کررہے ہیں اور اس سبب سے میں خود بھی بہت زِیادہ گنہگار ہوئی جا رہی ہوں ! بَہَرحال جو اس طرح اپنے دل کوبہلاتا ہے کہ میں نے تو صِرف خبروں کیلئے T.V.رکھا ہے،وہ کان کھول کر سن لے کہ مرد کا اَجنَبِیہ عورت کو دیکھنا یا عورت کا اجنبی مرد کوبشہوت دیکھنا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے،تو اگر T.V. پر صِرف خبریں دیکھنے ،سننے کے سبب ہی جہنَّم کا ہلکا عذاب مُسَلَّط کردیا گیا اورآگ کی جُوتیاں پہنادی گئیں تو کیا بنے گا؟اپنے اندر اصلاح کاجذبہ بیدار کرنے کیلئے اپنا ذہن بنایئے کہ اگر بِغیر شرعی عُذْر کے میں نے نَماز کی جماعت ترک کردی ۔ اور سب سے ہلکا عذاب دیدیا گیا تو میراکیا ہوگا! اگر بے پردگی کرلی ، ا پنی بھابھی سے بے تکلُّفی کی یا اس کو قَصداً دیکھا،اسی طرح چچی، تائی، مُمانی، سالی، خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد، چچازادیا تایازاد، سے پردہ نہ کیا ان کے سامنے بِلاتکلُّف آتے جاتے رہے ،ان کو دیکھتے رہے، ان سے ہنس ہنس کر باتیں کر تے رہے اور ان جَرائم میں سے کسی ایک گناہ کی حدتک پہنچنے والے جُرم کی پاداش میں اگر پائوں میں آگ کی جوتیاں ڈالدی گئیں تو کیا بنے گا؟جی ہاں ! بھابھی، چچی، تائی، مُمانی ، وغیرہ وغیرہ جن کا تذکِرہ ہوا یہ سب اَجْنَبِیہ اور غیر محرمہ عورَتیں ہیں ان سے اور ہر اُس عورت سے شریعت نے پردے کا حُکم دیا ہے جن سے شادی ہوسکتی ہے۔ اِسی طرح عورَ ت بھی تمام غیر محارم رشتہ داروں سے پردہ کرے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اپنے آپ کو کم از کم چھوٹے اور ہلکے عذاب سے ہی ڈرا دیجئے حالانکہ جہنَّم میں ایک سے ایک خوفناک عذاب ہیں ۔چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بیانات عطاریہ جلد2صَفحَہ 293 تا 297 پر ہے: وہ بندہ بھی کتنا عجیب ہے جو یہ جانتا ہے کہ دوزخ سخت ترین عذاب کا مقام ہے پھر بھی گناہوں کا اِرتِکاب کرتا ہے ۔میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اگرجہنَّم کو سُوئی کے ناکے کے برابر کھو ل دیا جائے توتمام زمین والے اس کی گرمی سے ہلاک ہو جائیں ۔ اہلِ جہنَّم کو جو مَشْرُوب پینے کیلئے دیا جائے گا وہ اس قَدَر خطرناک ہے کہ اگر اس کا ایک ڈَول دنیا میں بہا دیا جائے تو دنیا کی تمام کھیتیاں برباد ہوجائیں نہ اناج اُگے نہ پھل ۔ جہنَّم کے سانپ اور بچھّو بے حد خوفناک ہیں ۔حدیث شریف میں ہے:’’جہنَّم میں عجمی اونٹوں کی گردن کی مِثل بڑے بڑے سانپ ہونگے جو دوزخیوں کو ڈستے ہوں گے وہ ایسے زَہریلے ہونگے کہ اگر ایک مرتبہ کاٹ لیں گے تو چالیس سال تک ان کے زہر کی تکلیف نہیں جائے گی اور لگام لگائے ہوئے خچَّروں کے برابر بڑے بڑے بچھّو جہنَّمیوں کو ڈنک مارتے رہیں گے کہ ایک بارڈنک مارنے کی تکلیف چالیس سال تک باقی ر ہے گی۔‘‘(مسند امام احمدج ۶ ص ۲۱۶ حدیث ۱۷۷۲۹)ترمذی کی روایت میں ہے : ’’ جہنَّم میں ’’صَعُود‘‘نامی آ گ کا ایک پہاڑ ہے جس کی بُلندی ستّربرس کی راہ ہے ۔کافرجہنَّمیوں کو اس پر چڑھایا جائے
گا۔ستّربرس میں وہ اس کی بُلندی پر پہنچیں گے پھر اُوپر سے انہیں گرایا جائے گا تو ستّربرس میں وہ نیچے پہنچیں گے اسی طرح ان کو عذاب دیاجاتا رہے گا۔‘‘ ( تِرمذی ج۴ ص۲۶۰حدیث ۲۵۸۵ ) جہنَّم کے ایسے ایسے خوفناک عذاب کا تذکرہ سننے کے باوُجُود بھی جو گناہوں سے باز نہ آئے اس پر واقِعی تعجُّب ہے ۔آخر انسان کو اس دنیا نے کیا دے دینا ہے جو اس کی رنگینیوں میں گُم اور اس کی لوٹ مار میں مصروف ہے ۔
لذیذ غذائیں مز ے لے لے کر کھانے والوں کوجہنَّم کی بھیانک غذاؤں کو نہیں بھولنا چاہئے!ترمذی کی روایت میں ہے : دوزخیوں پر بھوک مُسلَّط کی جائیگی تو یہ بھوک ان سارے عذابوں کے برابر ہوجائیگی جن میں وہ مبتَلا ہیں وہ فریاد کریں گے تو انہیں ضَرِیْع(زہریلی کانٹے دار گھاس) میں سے دیا جائیگا ،جو نہ موٹا کرے نہ بھوک سے نَجات دے ۔ پھر وہ کھانا مانگیں گے تو انہیں پھندا لگنے والاکھانادیا جائیگا تو انہیں یاد آئیگا کہ وہ دنیا میں پھندا (لگے نوالے)کو پانی سے نگلتے تھے چُنانچہِ وہ پانی مانگیں گے تو ان کو لوہے کے زَنبور (سَنسی) سے کھولتا ہوا پانی دیا جائیگا جب وہ انکے منہ کے قریب ہوگا تواُنکے منہ بھون دے گا پھر جب انکے پیٹ میں داخل ہوگا تو انکے پیٹوں کی ہر چیز کا ٹ ڈالے گا۔ ( تِرمذی ج۴ ص۲۶۳حدیث ۲۵۹۵) ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:’’زَقُّوم (یعنی تھوہڑجو کہ دوزخیوں کوکھلایا جائے گا )کا ایک قطرہ اگر دنیا پر ٹپک پڑے تو دنیا والوں کے کھانے پینے کی تمام
چیزوں کو (تلخ وبدبوداربنا کر)خراب کردے۔‘‘(ابن ماجہ حدیث ۴۳۲۵ج۴ص۵۳۱)آہ!جہنَّم میں ایسا ہولناک عذاب ہونے کے باوُجُود آخر انسان گناہوں پر اتنا دلیر کیوں ہے ؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خوفِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ سے لرز اٹھئے! اورا پنے گناہوں سے توبہ کر لیجئے !ہمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت سے مایوس بھی نہیں ہونا چاہئے اوراس کے قَہر و غضب سے بے خوف بھی نہیں رہنا چاہئے، دونوں ہی صورَتوں میں تباہی ہے،جو کوئی رَحمت ِخُداوندی عَزَّ وَجَلَّ سے مایوس ہوگیا وہ بھی ہلاک ہوا اور جو گناہوں پر دِلیر ہوگیا اور پکڑ میں آگیا تو وہ بھی برباد ہوا۔ بَہَر حا ل غیر ت و مُرَوَّت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس پروَردگار عَزَّ وَجَلَّ نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں اُس کی اِطاعت وفرماں برداری کی جائے اور اس کے محبوب،دانائے غُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دامنِ کرم سے ہر دم وابَستہ رہتے ہوئے اُن کی سُنّتوں کو اپنایا جائے کہ اِسی میں ہمارے لئے دنیا وآخِرت کی بھلائی ہے۔
کب گناہوں سے کَنارا میں کروں گا یارب!
نیک کب اے مِرے اللہ! بنوں گا یارب!
کب گناہوں کے مَرَض سے میں شِفا پاؤں گا!
کب میں بیمار مدینے کا بنوں گا یارب!
عَفْو کر اور سدا کیلئے راضی ہو جا
گر کرم کردے تو جنّت میں رہوں گا یارب!
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت
اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت، شَہَنشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ (اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)
سینہ تری سنّت کا مدینہ بنے آقا
جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭8فرامِینِمصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:{۱} عُوْدُوا الْمَرِیضَیعنی مریض کی عِیادت کرو (الادب المفرد ص۱۳۷حدیث۵۱۸){۲}جو شخص کسی مریض کی عِیادت کے لیے جاتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّاُس پر پَچَھتَّرہزار(75,000) فِرِشتوں کا سایہ کرتا ہے اور اُسکے ہرقدم اُٹھانے پر اُس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اور ہر قدم رکھنے پر اُس کا ایک گناہ مٹاتا ہے اورایک دَرَجہ بُلند فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جگہ پربیٹھ جائے ،جب وہ بیٹھ جاتا ہے تورَحْمت اُسے ڈھانپ لیتی ہے اور اپنے گھر واپَس آنے تک رَحْمت اُسے ڈھانپے رہے گی (مُعْجَمُ اَ وْسَط ج ۳ ص ۲۲۲ حدیث ۴۳۹۶) {۳} جو شخص کسی مریض کی عِیادت کو جاتا ہے توآسمان سے ایک مُنادی ندا کرتاہے: تجھے بِشارت (یعنی خوشخبری )ہو تیرا چلنا اچّھا ہے اورتُونے جنّت کی ایک منزِل کواپنا ٹِھکانہ بنا لیا( ابن ماجہ ج۲ ص ۱۹۲ حدیث ۱۴۴۳ )
{۴} جو مسلمان کسی مسلمان کی عِیادت کے لیے صُبْح کو جائے تو شام تک اُس کے لیے ستّر ہزار فِرِشتے استغفار(یعنی بخشِش کی دعا) کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صُبْح تک ستّر ہزار فِرِشتے استِغفار کرتے ہیں اور اُس کے لیے جنّت میں ایک باغ ہوگا(تِرمِذی ج۲ص۲۹۰ حدیث ۹۷۱) {۵} جس نے اچّھے طریقے سے وُضو کیا پھر اپنے مسلمان بھائی کی ثواب کی نیّت سے عِیادت کی تواسے جہنَّم سے70سال کے فاصلے تک دور کردیا جائیگا( ابوداوٗدج۳ص۲۴۸حدیث ۳۰۹۷){۶}جب تُو مریض کے پاس جائے تو اس سے کہہ کہ تیرے لیے دُعاکرے کہ اس کی دُعافرشتوں کی دُعا کی مانِند ہے ( ابن ماجہ ج۲ ص ۱۹۱ حدیث ۱۴۴۱) {۷}مریض جب تک تندُرُست نہ ہوجائے اس کی کوئی دُعا رَد نہیں ہوتی (الترغیب والتر ھیب ج ۴ ص ۱۶۶ حدیث ۱۹){۸}جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کی عِیادت کو جائے تو 7 بار یہ دُعا پڑھے : اَسْأَلُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ اَنْ یَّشْفِیْکَ([2])اگر موت نہیں آئی ہے تو اُسے شِفا ہو جائے گی (ابوداوٗد ج ۳ ص ۲۵۱ حدیث ۳۱۰۶) ٭مریض کی عِیادت کرنا سنّت ہے ا گر معلوم ہے کہ عِیادت کیلئے جانے سے اُس بیمار پر گِراں (یعنی ناگوار) گزرے گا، ایسی حالت میں عِیادت کیلئے مت جایئے(بہار شریعت ج۳ص۵۰۵) ٭ اگر مریض سے آپ کے دل میں رَنجش یا طبیعت کو اس سے مُناسَبَت نہیں پھر بھی عِیادت کیجئے ٭ اتّباعِ سنّت کی نیّت سے عِیادت کیجئے اگرمَحض اس لیے بیمار پُرسی کی کہ جب میں بیمار پڑوں تو وہ بھی میری تِیمارداری کیلئے آئے تو ثواب نہیں ملے گا ٭کسی کی عِیادت کیلئے جائیں اور مَرَض کی سختی دیکھیں تو اُس کو ڈرانے والی باتیں نہ کریں مَثَلاً تمہاری حالت خراب ہے اور نہ ہی اِس
انداز پر سَر ہلائیں جس سے حالت کا خراب ہونا سمجھا جاتا ہی٭عیادت کے موقع پر مریض یادُکھی شخص کے سامنے اپنے چِہرے پر رنج و غم کی کیفیت نُمایاں کیجئے ٭بات چیت کا انداز ہرگز ایسا نہ ہو کہ مریض یا اُس کے عزیزکو وَسوَسہ آئے کہ یہ ہماری پریشانی پر خوش ہو رہا ہے! ٭مریض کے گھروالوں سے بھی اظہار ِہمدردی کیجئے اور جو خدمت یا تعاوُن کر سکتے ہوں کیجئیے٭مریض کے پاس جاکر اُس کی طبیعت پوچھئے اور اُس کے لیے صحّت وعافیت کی دُعا کیجئیے٭ نبیِّ رَحمت،شفیعِ اُمّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عادت کریمہ یہ تھی کہ جب کسی مریض کی عِیادت کو تشریف لے جاتے تو یہ فرماتے: لَا بَأسَ طَہُوْرٌ اِنْ شَائَ اللّٰہُ ([3]) (بخاري ج۲ ص ۵۰۵ حدیث ۳۶۱۶)٭مریض سے اپنے لیے دُعا کروائیے کہ مریض کی دُعا رَد نہیں ہوتی ٭ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: مریض کی پوری عِیادت یہ ہے کہ اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پوچھے کہ مزاج کیسا ہے ؟ (ترمذی ج۴ص۳۳۴حدیث۲۷۴۰)٭مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :یعنی جب کوئی شخص کسی بیمار کی مزاج پرسی کرنے جاوے تو اپنا ہاتھ اُس کی پیشانی پر رکھے پھر زَبان سے یہ(یعنی آپ کی طبیعت کیسی ہے) کہے، اِس سے بیمار کو تَسلّی ہوتی ہے، مگر بَہُت دیر تک ہاتھ نہ رکھے رہے، یہ ہاتھ رکھنا اظہار ِمَحَبَّت کے لیے ہے (مراٰۃ ج۶ص ۳۵۸ بِتَصَرُّفٍ) ٭ مریض کے سامنے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جو اس کے دل کو بھلی معلوم ہوں ، بیماری کے فضائل اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رَحمت کے تذکرے کیجئے تاکہ اس کا ذِہن ثوابِ آخِرت کی طرف مائل ہو
اور وہ شکوہ و شکایت کے الفاظ زَبان پر نہ لائے ٭عیادت کرتے ہوئے موقع کی مناسَبَت سے مریض کو نیکی کی دعوت بھی پیش کیجئے، خُصوصاً نَماز کی پابندی کا ذِہن دیجئے کہ بیماریوں میں کئی نَمازی بھی نَمازوں سے غافِل ہو جاتے ہیں ٭ مریض کو مَدَنی چینل دیکھنے کی رغبت دلایئے اور اُس کی برکتوں سے آگاہ کیجئے ٭ مریض کو مَدَنی قافِلوں میں سفر کی اور خود سفر کے قابِل نہ ہو تو اپنی طرف سے گھر کے کسی فرد کو سفر کروانے کی ترغیب فرمایئے۔ اور مَدَنی قافِلوں کی وہ مَدَنی بہاریں سنایئے جن میں دعائوں کی برکتوں سے مریض کوشفائیں مِلی ہیں ٭مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھیے اور نہ شوروغل کیجئے ہاں اگربیمار خود ہی دیر تک بٹھائے رکھنے کا خواہش مند ہو تو ممکنہ صورت میں آپ اُس کے جذبات کا احتِرام کیجئے ٭بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ مریض یا اُس کے نمایَندے سے ملتے ہیں تو کچھ نہ کچھ علاج بتاتے ہیں اور بعض تو مریض سے اِصرار کرتے ہیں کہ میں جو علاج بتا رہا ہوں وہ کر لو، فُلاں دوا لے لو، ٹھیک ہو جائو گے ! مریض کو چاہئے کہ ’’ جس تِس‘‘(یعنی ہرکسی) کا بتایا ہوا علاج نہ کرے،کہ ’’نیم حکیم خطرۂ جان،‘‘ کسی کا بتایا ہوا علاج کرنے سے پہلے اپنے طبیب سے مشورہ کر لے ۔خبردار! جو طبیب نہ ہونے کے باوجُود علاج بتاتے رہتے ہیں وہ اِس سے باز رہیں ٭مریض کی عیادت کے موقع پر تحفے لانا عُمدہ کام ہے مگرنہ لانے کی صورت میں عِیادت ہی نہ کرنا اور دل میں یہ خَیال کرنا کہ اگر کچھ نہ لے کر جائے گا تو وہ کیا سوچیں گے کہ خالی ہاتھ عیادت کے لیے آگئے۔ خالی ہاتھ بھی عِیادت کر ہی لینی چاہئے نہ کرنا ثواب سے محرومی کا باعث ہے ٭آپ عِیادت کے لئے جاتے ہوئے اگر پھل اور بِسکٹ وغیرہ و تحائف لے جانے لگیں تو مشورہ ہے
کہ مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ کچھ مَدَنی رسائل بھی لے جا کر مریض کو پیش کیجئے تا کہ وہ ملاقاتیوں ، ( اور اگر اسپتال میں ہو تو)پڑوسی مریضوں اور ان کے عزیزوں کو تحفۃً دے سکیں بلکہ زہے نصیب ! مریض خود بھی کچھ مَدَنی رسائل ہَدِیَّۃً منگوا کر اِس غَرَض سے اپنے پاس رکھ کر ثواب کمائے ٭فاسِق کی عِیادت بھی جائز ہے، کیونکہعِیادت حُقُوقِ اسلام سے ہے اور فاسِق بھی مسلم ہے (بہار شریعت ج۳ص۵۰۵)٭مُرتد اور کافِرِ حَربی کی عِیاد ت جائز نہیں ۔ ( فی زمانہ دُنیا میں سارے کافِر حَربی ہیں ) ٭بد مذہب (غیرمُرتد ) کی عیادت کرنامنع ہے۔
ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صَفْحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘ ‘ ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیّت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔
لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو
ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے
، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک
عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب
۱۴ شوال المکرم ۱۴۳۶ھ
2012-9-2
کتاب |
مطبوعہ |
کتاب |
مطبوعہ |
قراٰنِ پاک |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
حلیۃ الاولیاء |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
بخاری |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
الترغیب والتر ھیب |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
مسلم |
دارابن حزم بیروت |
ابن عساکر |
دار الفکر بیروت |
ابوداود |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
کیمیائے سعادت |
انتشارات گنجینہ تہران |
ترمذی |
دار الفکر بیروت |
القول البد یع |
موئسسۃالریان بیروت |
ابن ماجہ |
دارالمعرفہ بیروت |
کتاب التوابین |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
الادب المفرد |
طشقندازبکستان |
روض الریاحین |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
مسند امام احمد |
دار الفکر بیروت |
مراٰۃ |
ضیاء القرآن مرکز الاولیاء لاہور |
معجما وسط |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
فتاویٰ رضویہ |
رضافاونڈیشن مرکز الاولیاء لاہور |
مستدرک |
دارالمعرفہ بیروت |
بہار شریعت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |