اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

سانپ نُما جِنّ

شیطٰن لاکھ سُستی دلائیمگر آپ یہ رسالہ (28صفحات )

 مکمل پڑھ لیجئےاِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا دل سینے میں  جھوم اُٹھے گا۔

دُرُود شریف کی فضیلت

       حُضور ِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بَنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم ، شافِع اُمَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ رحمت نشان ہے:’’جس نے کتاب میں  مجھ پر دُرُودِ پاک لکھا تو جب تک میرا نام اُس میں  رہے گا فِرشتے اُس کے لیے اِستِغفار(یعنی دعائے مغفِرت) کرتے رہیں  گے۔‘‘(اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج۱ص۴۹۷ حدیث۱۸۳۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

         ولیوں  کے سردار،شَہنشاہِ بغداد، سرکارغو ثُ الاعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَماپنے مدرَسے (مَد۔رَ۔سے)کے اند ر اجتماع میں بیان فرمارہے تھے کہ چھت پر سے ایک سانپ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہپرگرا۔ سامِعین میں بھگدڑمچ گئی،ہر طر ف خوف وہِراس پھیل گیامگر سرکا رِ بغداد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاداپنی جگہ سے نہ ہلے۔سانپ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے کپڑوں  میں


 گھس گیااور تمام جسمِ مبارَک سے لپٹتاہو اگِرِیبان شریف سے باہَر نکلا اور گر دن مبارَک پرلپٹ گیا۔ مگر قربان جایئے! میرے مرشد شَہَنشاہِ بغداد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد پرکہ ذرّہ برابر نہ گھبرائے نہ ہی بیان بند کیا۔ اب سانپ زمین پر آگیا اوردُم پر کھڑا ہوگیا اور کچھ کہہ کر چلاگیا ۔ لوگ جمع ہوگئے اور عرض کرنے لگے: حضور ! سانپ نے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے کیا بات کی ؟ ارشاد فرمایا: سانپ نے کہا: ’’میں  نے بَہُت سارے اولیاءُ اللہرَحِمَہُمُ اللہِ تَعَالٰی  کو آزمایا مگر آپ جیسا کسی کو نہیں  پایا۔‘‘(مُلَخَّص ازبَہجۃُ الاسرارلِلشَّطْنُوفی ص۱۶۸)

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں  کے سروں  سے قدم اعلیٰ تیرا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا وہ کوئی عام سانپ نہیں  بلکہ سانپ نُما جِنّ تھا جس نے ہمارے غوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکا امتحان لینے کی کوشش کی تھی اوراَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِثابت قدم رہے۔

{۲} بڑی بڑی آنکھوں  والا آدمی

     اِسی سانپ نُماجِنّ کی دوسری خوفناک حکایت سنئے اور غو ثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی استقامت پر عقیدت سے سردُھنئے چُنانچِہ حُضُورشَہَنشاہِ بغداد سرکارِ غوث ِپاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ایک بار میں  جامِعِ مَنصور میں  مصرو فِ نَماز تھا کہ وُہی سانپ آگیا


اور اُس نے میرے سَجدے کی جگہ پر سر رکھ کرمُنہ کھول دیا! میں  نے اُسے ہٹاکر سَجدہ کیا، مگر وہ میری گردن سے لپٹ گیا پھر وہ میری ایک آستین میں  گھس کردو سری آستین سے نکلا ، نَماز مکمَّل کرنے کے بعد جب میں  نے سلام پھیراتو وہ غائب ہوگیا۔ دوسرے رو ز جب میں پھر اُسی مسجِد میں داخِل ہوا تو مجھے ایک بڑی بڑی آنکھوں  والا آدَمی نظر آیا میں  نے اُسے دیکھ کر اندازہ لگالیا کہ یہ شخص انسان نہیں  بلکہ کوئی جِنّ ہے ، وہ جِنّ مجھ سے کہنے لگا کہ میں  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو تنگ کرنے والا وُہی سانپ ہوں  ، میں  نے سانپ کے رُوپ میں  بَہُت سارے اولیاءُ اللہرَحِمَہُمُ اللہِ تَعَالٰی کو آزمایا ہے مگر آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجیسا کسی کو بھی ثابت قدم نہیں  پایا ، پھر وہ جِنّآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دستِ حق پَرَست پر تائب ہوگیا ۔(بَہجۃُ الاسرار ص۱۶۹دارالکتب العلمیۃ  بیروت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہوئے دیکھ کر تجھ کو کافر مسلماں

                بنے سنگدل موم ساں  غوث اعظم(قبالۂ بخشش)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے مرشِدِ کامِل، سرکارِ بغدادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادکی بھی کیا شان ہے! آہ ! ایک ہماری نَماز ہے کہ ہم پر مکّھی بھی بیٹھ جائے تو پریشان ہوجائیں ، معمولی خارِش بھی ہم سے بر داشت نہ ہوسکے۔اِس حِکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنّات بھی ہمارے غو ثُ الا عظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے غلام بن جاتے ہیں۔


{۳}شَیطان کا خطرناک وار

       سرکارِبغداد حُضُورِ غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں  : ایک بار میں  کسی جنگل کی طرف نکل گیا اور کئی رو ز تک وہاں  پڑا رہا ۔ کھانے پینے کو کچھ بھی نہ ہوتا تھا ۔مجھ پر پیاس کا سخت غَلَبہ تھا ، ایسے میں  میرے سر پر ایک بادَ ل کا ٹکڑانُمُودارہوا ، اُس میں  سے کچھ بارِش کے قَطرے گرے جنہیں  میں  نے پی لیا، اس کے بعد بادَل میں  ایک نورانی صورت ظاہِر ہوئی جس سے آسمان کے کَنارے رو شن ہوگئے اور ایک آواز گونجنے لگی :’’اے عبدُالقادِر!میں تیرا رب ہوں ،میں  نے تمام حرام چیز یں  تیرے لئے حلال کردیں  ۔‘‘میں  نےاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِپڑھا، ایک دم رو شنی ختم ہوگئی اور اس نے دھوئیں  کا رو پ دھارلیااورآواز آئی: ’’اے عبدُالقادِر!اس سے قبل میں  ستَّر اولیاء کو گمراہ کرچکا ہوں  مگر تجھے تیرے علم نے بچالیا۔‘‘آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں  : میں نے کہا: اے مردود!مجھے میرے علم نے نہیں  بلکہ میرے رب عَزَّ وَجَلَّ  کے فَضل نے بچا لیا۔       (ایضاً  ص۲۲۸ )

ہوں  ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت

              یہی عرض ہے آخری غوث اعظم(قبالۂ بخشش)

چور وہیں  آتا ہے جہاں  مال ہو                                     

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!واقعی شیطان بڑا مکّار وعیّارہے ،وہ طرح طرح کے شُعبَدے(شُع۔بَ۔دے) یعنی جادوئی کرتب بھی دکھاتاہے ،اس کے وار سے ہمیشہ خبردار


 رہنا چاہئیے، اپنی عقل وہوشیاری پر اعتماد کرنے کے بجائے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم پر نظر رکھنی چاہئیے ۔ جس کے پاس مال ہوتا ہے اُس کے پاس چور آتا ہے اور جس کے پا س دولت ایمان ہے اُس کے پاس ایمان کا لٹیرا شیطان ضرور آتاہے نیزجس کے پاس ایمان جتنا مضبوط ہوگا اس کے پاس اسی قدر نیکیوں  کے خزانے کی بھی کثرت ہوگی لہٰذا وہاں  شیطان بَہُت زیادہ زور لگائے گا۔ ہمارے پیرومرشِدحُضُور ِغوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکے پاس ایمان واعمال کے خزانے کے انبار کودیکھ کر شیطان نے ڈاکے ڈالنے کی مُتَعَدَّدبار کوشش کی مگر وہ ناکام ونامُراد ہی رہا۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۴}شیطان کے مزید حملے

       پیروں  کے پیر ، پیر دَست گیر، روشن ضمیر ،قُطبِ رَبّانی، محبوبِ سُبحانی، پیرِ لاثانی،  غوثُ الصَّمَدانی،پیرِ پیراں، میرِ میراں، الشّیخ سیِّدابو محمّد عبدُ القادِر جِیلانیقُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِی تحدِیث ِنعمت اوراہلِ مَحَبَّت کی نصیحت کے لئے فرماتے ہیں : میں  جن دنوں شب وروز جنگل میں رہا کرتا تھا، شیاطین خوفناک شکلوں  میں  فوج دَر فوج طرح طرح کے ہتھیاروں  سے لیس ہوکر مجھ پر حملہ آورہوتے ، مجھ پر آگ برساتے ، میںاللہ عَزَّ وَجَلَّکی مدد سے ان کے پیچھے دوڑتا تو وہ مُنتَشِرہوکر بھاگ جاتے، کبھی کوئی شیطان اکیلا آکر مجھے طرح طرح سے ڈراتا ، دھمکاتا اور کہتا یہاں سے چلے جاؤ۔ میں  اس کو زوردار طمانچہ ماردیتا تو وہ بھاگنے


لگتا، پھر میں لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمپڑھتا تو وہ جل جاتا۔(ایضاً ص۱۶۵)

دل پہ کَندہ ہو تِرا نام کہ وہ دُزدِ رجیم ([1])

                اُلٹے ہی پاؤں  پھرے دیکھ کے طُغرا تیرا(حدائقِ بخشش)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۵} غیبی ہاتھ

       حُضُورِغوثِ اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمفرماتے ہیں : ایک بار نہایت خوفناک صورت والا ایک شخص جس سے بدبو کے بھبکے اُٹھ رہے تھے آکر میرے سامنے کھڑا ہوگیا اورکہنے لگا: میں  ابلیس ہوں  اورآپ کی خدمت کرنے کے لئے حاضِرہوا ہوں کیونکہ آپ نے مجھے اورمیرے چَیلوں  کو تھکا دیاہے۔ میں  نے کہا: دفع ہو۔ اُس نے انکار کیا۔ اِتنے میں  غیب سے ایک ہاتھ نُمودار ہوا جس نے اُس کے سر پر ایسی زوردار ضرب لگائی کہ وہ زمین میں دھنس گیا مگر پھر اُس نے آگ کا شعلہ ہاتھ میں لے کر مجھ پر حملہ کردیا ۔ اتنے میں  ایک نقاب پوش صاحِب گھوڑے پرسُوار تشریف لائے اور اُنہوں  نے مجھے تلوار دی ۔ یہ دیکھ کر شیطان بھاگ کھڑا ہوا۔(بَہجۃُ الاسرارص۱۶۶)

بادلوں  سے کہیں  رُکتی ہے کڑکتی بجلی

                ڈھالیں  چھنٹ جاتی ہیں  اٹھتا ہے جو تیغا تیرا(حدائق بخشش)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


{۶} شیطان کے جال

       سرکارِبغداد حضور غوث پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ایک بار میں  نے دیکھا کہ شیطان دُوربیٹھا اپنے سر پرخاک اُڑا رہاہے اورروتے ہوئے کہہ رہا ہے: ’’اے عبدُالقادِر! میں  آپ سے مایوس ہوگیاہوں۔‘‘میں  نے کہا: اے ملعون!دفع ہو،میں  تجھ سے کبھی بھی بے خوف نہیں  ہوسکتا ۔ وہ بولا: آپ کی یہ بات میرے لیے سب سے زِیادہ گِراں  (یعنی سخت) ہے ۔ اِس کے بعد اس نے مجھ پر بَہُت سارے جال ، پَھندے اورحیلے ظاہِر کئے اورمیرے اِستِفسار(یعنی پوچھنے) پر بتایا کہ یہ دُنیا کے جال ہیں  جن سے میں  آپ جیسوں  کا شِکار کیا کرتاہوں  ۔ میں  ایک سال تک جِدّو جُہد کرتا رہا، یہاں  تک کہ وہ سارے جال ٹوٹ گئے ۔ پھر میرے اِرد گردبَہُت سارے اَسباب ظاہِر ہوئے۔ میں  نے پوچھا: یہ کیا ہیں  ؟تو کہا گیا کہ یہ آپ سیمُتَعَلِّق مخلوق کے اسباب (یعنی مخلوق کی مَحَبَّتیں  وغیرہ ) ہیں  ۔ چُنانچِہ اِس مُعامَلے میں  بھی میں  نے مزیدایک سال توجُّہ (جِدّوجُہد) کی حتّٰی کہ وہ جال بھی سب کے سب ٹوٹ گئے ۔(بَہجۃُ الاسرارص۱۶۶)

جس کو للکار دے آتا ہو تو الٹا پھر جائے

جس کو چُمکار لے ہِر پھر کے وہ تیرا تیرا

(حدائق بخشش)

سدھر نے کی کوشِش ترک نہیں  کرنی چاہئے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !واقِعی نفس وشیطان سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں۔


ہمارے غوثُ الاعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَمنے اس سے نَجات پانے کے لئے سالہا سال تک جِدّو جُہدفرمائی یہاں  اُن لوگوں  کیلئے بڑا درسِ عبرت ہے جو بَہُت جلد ہمّت ہار جاتے اور بول پڑتے ہیں  کہ ہم نے تو بڑے جتن کئے، کافی عرصہ مَدَنی ماحول میں  عاشِقانِ رسول کی صُحبت اختِیار کی، مَدَنی قافِلوں  میں  بھی سفر کئے مگر نفس و شیطان سے جان نہ چھوٹی۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے اصلاح کیلئے عمر بھر کوشِش جاری رکھنی چاہئے۔

تو قُّوت دے میں  تنہا کام بِسیار

                                      بدن کمزور دل کاہِل ہے یاغوث

(حدائق بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۷} سرد رات میں  چالیس بار غسل

       ’’بَہجَۃُ الاسرارشریف‘‘میں  ہے، سرکارِ بغداد حُضُور ِغوث پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : میں  ’’کَرخ‘‘ کے جنگلوں  میں  برسوں  رہا ہوں  ، دَرَخت کے پتّوں  اوربُوٹیوں  پر میرا گزارہ ہوتا۔ مجھے پہننے کے لیے ہر سال ایک شخص صُوف (یعنی اُون )کا ایک جُبّہ لاکر دیتا تھا جس کو میں  پہنا کرتاتھا۔ میں  نے دنیا کی مَحَبَّت سے نَجات حاصل کرنے کے لیے ہزار جَتَن کیے، میں  گُمنام رہا، میری خاموشی کے سبب لوگ مجھے گُونگا، نادان اوردیوانہ کہتے تھے، میں کانٹوں  پر ننگے پاؤں  چلتاتھا، خوفناک غاروں  اوربھیانک وادیوں میں بے جھجک داخِل ہوجاتا۔ دنیا بن سنور کر میرے سامنے ظاہر ہوتی مگر


اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیں  اُس کی طرف اِلتِفات (یعنی توجُّہ)نہ کرتا۔ میرا نفس کبھی میرے آگے عاجزی کرتا کہ آپ کی جو مرضی ہوگی وُہی کروں  گاا ورکبھی مجھ سے لڑتا۔ اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے اس پر فتح نصیب کرتا۔میں مُدَّتوں’’مدائن‘‘کے بِیابانوں  میں  رہا اوراپنے نفس کومُجاہَدات میں لگاتا رہا۔ ایک سال تک گری پڑی چیزیں  کھاتا اوربالکل پانی نہ پیتا پھر ایک سال صِرف پانی پر گزارا کرتااورگری پڑی چیز یا کوئی اورغذا نہ کھاتاپھر ایک سال بِغیر کچھ کھائے پئے فاقے سے گزارتا۔ مجھ پر سخت آزمائشیں  آتیں ، ایک بار سخت سردی کی رات میرا یوں  امتحان لیا گیا کہ باربار آنکھ لگ جاتی اورمجھ پر غسل فرض ہوجاتا، میں  فوراً نہر پر آتا اورغسل کرتا اس طرح  میں  نے اُس ایک رات میں  چالیس بار غسل کیا۔(مُلَخَّص ازبَہجۃُ الاسرارللشّطنوفیص۱۶۵)

کہا تُو نے جو مانگو گے ملیگا

رضاؔ تجھ سے ترا سائل ہے یا غوث

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مُصیبت دُور ہونے کا عمل

     حضرتِ علّامہ امام شعرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرانی’’طبقاتِ کبریٰ‘‘ میں  حُضُورِ غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَمکا یہ ارشادِ گرامی نقل کرتے ہیں : ابتِداء ً مجھ پر بَہُت سختیاں  رکھی گئیں ، جب سختیاں  انتہاکو پہنچ گئیں  تو میں  عاجِز آکر زمین پر لیٹ گیا اور میری زَبان پر قراٰنِ پاک کی


یہ دو آیاتِ مبارَکہ جاری ہوگئیں :

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ(۵)اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاؕ(۶) ۳۰، الم نشرح:۵۔۶)

ترجَمۂ کنزالایمان: توبے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ان آیات کی بَرَکت سے وہ تمام سختیاں  مجھ سے دُور ہوگئیں۔(الطّبقاتُ الکبری ج۱ص۱۷۸ملخّصاً دارالفکر بیروت)

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا

اونچے اونچوں  کے سروں  سے قدم اعلیٰ تیرا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ہم بھی کوشش کریں

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے! ہمارے غوثُ الاعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَم نے اپنے ربِّ مُعظّمعَزَّ وَجَلَّکا قرب پانے اوراپنے ناناجان، رَحمت عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خوش فرمانے، نفس وشیطان پر غالب آنے، دنیا کی مَحَبَّت سے پیچھا چھڑانے، گناہوں کے امراض سے خود کو بچانے، مخلوقِ خداعَزَّ وَجَلَّکو راہ راست پر لانے ، مبلِّغ کاشرف پانے، نیکی کی دعوت کی دنیا میں  دھوم مچانے اوربے شمار کفّار کو دامنِ اسلام میں  داخِل فرمانے کے لیے سالہا سال تک جِدّو جُہد فرمائی۔ خیر ہم حُضُورِ غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہکی طرح مُجَاہدات تو کرنے سے رہے مگرہمّت ہارے بِغیر تھوڑی بَہُت کوشِش تو


جاری رکھیں  ۔

سچ ہے انسان کو کچھ کَھو کے ملا کرتاہے

        آپ کو کَھو کے تجھے پائے گا  جویا تیرا   (ذوقِ نعت)

{۸} 25 برس جنگلوں  میں۔۔۔

       سرکارِ بغدادحُضُورِ غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مَحَبَّت کا دم بھرنے والے اسلامی  بھائیو! اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّکی رضا کے لئے سرکارِ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَمنے عبادتوں  اور ریاضتوں  میں عراق کے جنگلوں  میں 25 برس گزار دئیے ۔ کاش!ہمیں  بھی تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیرغیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی ‘‘کے سنّتوں  کی تربیَّت کی خاطر گاؤں  بہ گاؤں  ، شہر بہ شہر اورملک بہ ملک سفر کرنے والے مَدَنی قافِلوں  میں  عاشقانِ رسول کے ساتھ سنَّتوں  بھرا سفر کرنا نصیب ہوجائے ۔

کوئی سالِک ہے یا واصِل ہے یا غوث

                وہ کچھ بھی ہو تِرا سائِل ہے یا غوث(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۹} زمین سے چُن چُن کر ٹکڑے کھانا

       سرکارِبغدادحُضُور غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : میں  شہر میں  کھانے کے ارادے سے گرے پڑے ٹکڑے یا جنگل کی کوئی گھاس یا پتّی اٹھانا چاہتا اورجب دیکھتا
کہ دوسرے فُقَراء بھی اسی کی تلاش میں  ہیں  تو اپنے اسلامی بھائیوں  پر ایثار کرتے ہوئے نہ اٹھاتا بلکہ یونہی چھوڑدیتا تاکہ وہ اُٹھاکر لے جائیں  اورخود بھوکا رہتا۔ جب بھوک کے سبب کمزوری حد سے بڑھی اور قریبُ الْموت ہوگیا تو میں  نے پھول والے بازار سے ایک کھانے کی چیز جو زمین پر پڑی تھی اٹھائی اورایک کونے میں جاکر اسے کھانے کیلئے بیٹھ گیا۔ اِتنے میں  ایک عجمی نوجوان آیا، اُس کے پاس تازہ روٹیاں  اوربھُنا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا،اُس کو دیکھ کر میری کھانے کی خواہِش ایک دَم شدت اختیارکرگئی ، جب وہ اپنے کھانے کے لیے لُقمہ اٹھاتا تو بھوک کی بے تابی کی وجہ سے بے اختیارجی چاہتا کہ میں  مُنہ کھول دوں  تاکہ وہ میرے منہ میں  لقمہ ڈال دے ۔ آخِر میں  نے اپنے نفس کو ڈانٹا کہ ’’بے صبری مت کر اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیرے ساتھ ہے، چاہے موت آجائے مگر میں  اس نوجوان سے مانگ کر ہرگز نہیں  کھاؤں  گا۔‘‘

       یکایک وہ نوجوان میری طرف مُتَوجِّہ ہوا اورکہنے لگا: بھائی !آجائیے آپ بھی کھانے میں  شریک ہوجائیے!میں  نے انکار کیا، اُس نے اِصرا ر کیا ، میرے نفس نے مجھے کھانے کے لئے بہت اُبھارا لیکن میں  نے پھربھی انکار ہی کیا مگر اُس نوجوان کے پَیْہم اِصرار پر میں  نے تھوڑا ساکھانا کھالیا،اُس نے مجھ سے پوچھا: آپ کہاں  کے رہنے والے ہیں ؟ میں  نے کہا: جِیلان کا ۔ وہ بولا: میں  بھی جِیلان ہی کا ہوں  ۔ اچّھایہ بتایئے آپ  مشہور زاہِد حضرتِ سیِّدابو عبداللہ صومعیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے نواسے عبدُالقادِرکو جانتے
ہیں ؟میں  نے کہا: وہ تو میں ہی ہوں۔یہ سُن کر وہ بے قرار ہوگیا اورکہنے لگا کہ میں  بغداد آنے لگاتو آپ کی امّی جان نے آپ کو دینے کے لئے مجھے 8 سونے کی اشرفیاں  دی تھیں ، میں  یہاں  بغداد آکر تلاشتا رہا مگر آپ کا کسی نے پتا نہ دیا یہاں  تک کہ میری اپنی تمام رقم خرچ ہوگئی، تین دن تک مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا، میں  جب بھوک سے نِڈھال ہوگیا اور میر ی جان پربن گئی تو میں  نے آپ کی امانت میں  سے یہ روٹیاں  اوربھُنا ہوا گوشت خریدا۔ حُضُور! آپ بھی بخوشی اِسے تناوُل فرمائیے کہ یہ آپ ہی کا مال ہے پہلے آپ میرے مہمان تھے اوراب میں  آپ کا مہمان ہوں ،بَقِیّہ رقم پیش کرتے ہوئے بولا: میں  مُعافی کا طلب گارہوں ، میں  نے اِضطِراری حالت میں  آپ کی رقم ہی سے کھانا خریدا تھا۔ میں  بَہُت خوش ہوا۔ میں  نے بچا ہوا کھانا اورمزید کچھ رقم اُس کو پیش کی ،اس نے قَبول کی اور چلا گیا۔  (الذّیل علی طبقات الحنابلۃ ج۳ ص۲۵۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

طلب کا منہ تو کس قابِل ہے یاغوث

                مگر تیرا کرم کامِل ہے یاغوث(حدائقِ بخشش شریف)

ایثار کی عظیم فضیلت              

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حِکایت میں ہمارے لئے عبرت کے بے شمار مَدَنی پھول ہیں ، دیکھئے تو سہی! ایک طرف ہمار ے پیرو مُرشد غوثُ الاعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَمہیں  کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے سخت تنگدستی اور فاقہ مستی کے باوُجُود غذا اور رقم کے
 مُعامَلے میں  بے مثال
ایثار سے کام لیا جبکہ دوسری طرف غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی عقیدت کا دم بھرنے والے نالائق مُرید ہیں  کہ بھوکے رہنے کی توفیق تو دُور رہی ، باِلفرض گیارھویں  شریف کی نیاز کی بریانی ہی سامنے آ جائے تو حِرص کا ایسا غَلبہ طاری ہو جائے کہ جی چاہے بس سارے کا سارا تھال میں  ہی کھا ڈالوں ، بوٹی تو کُجا کسی کو چاول کا ایک دانہ بھی نہ جانے پائے! اے عاشقانِ غوثِ اعظم! آپ کو جب کبھی دوسروں  کے ساتھ مل کر کھانے کا اتِّفاق ہو،بڑے بڑے نوالے بِغیر چبائے جلد جلد نگلنے اور عمدہ بوٹیاں  اپنی طرف سرکا لینے کی حِرص غالِب آئے اُس وقت اپنے پیرو مُرشد غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بیان کردہ حِکایت کے ساتھ ساتھ یہ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبھی ذِہن میں دُوہرا لیجئے:  ’’جو شخص اُس چیز کو جس کی خود اِسے حاجت ہو دوسرے کو دے دے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اِسے بخش دیتا ہے۔‘‘(اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج۹ ص ۷۷۹) نیز فیضانِ سنّت جلداوّل صَفحَہ 482 پر مرقوم حضرتِ سیِّدُنا ابو سُلَیمانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْجِنَان کا عنایت فرمودہ یہ مَدَنی پھول بھی قبول فرما لیجئے:’’نَفس کی کسی خواہِش کو چھوڑ دینا 12ماہ کے روزوں  اور رات کی عبادتوں  سے بھی بڑھ کر دل کیلئے نفع بخش ہے۔‘‘ (اِحیاءُ العلوم ج۳ ص ۱۱۸دارصادربیروت)

مِری حِرص کی عادتِ بد مٹا دے

مِرے غوث کا واسِطہ یاالٰہی


صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۱۰}  نیند اُڑانے  کا عجیب نُسخہ

       سرکارِ غوثُ الاعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَمتحدیثِ نعمت اوراپنے غلاموں  کی نصیحت کے لئے فرماتے ہیں :اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیں  پچیس سال تک عراق کے ویرانوں میں  پھرتا رہا اورچالیس سال تک عشاء کی نَماز کے وُضو سے فجر کی نَماز ادا کی ۔ پندرہ سال تک روزانہ بعد نَماز عشاء نوافل میں  ایک قراٰنِ پاک ختم کرتا رہا۔ ابتِداء میں  اپنے بدن پر رسی باندھ کر اس کا دوسراسِرا دیوار میں  گڑی ہوئی کُھونٹی سے باندھ دیا کرتا تھاتاکہ اگر نیند کا غَلَبہ ہوتو  اس کے جھٹکے سے آنکھ کھل جائے۔(بَہجۃُ الاسرار ص۱۱۸)

       ایک رات جب میں  نے اپنے معمولات کا قَصدکیا تو نَفس نے سُستی کرتے ہوئے تھوڑی دیر سوجانے اوربعد میں  اُٹھ کر عبادت بجالانے کا مشورہ دیا ، جس جگہ دل میں  یہ خیال آیا تھا اُسی جگہ اور اُسی وَقت ایک قدم پر کھڑے ہوکر میں  نے ایک قراٰن کریم ختم کیا۔(بہجۃ القادریہ)

گرانے لگی ہے ہمیں  لغزشِ پا

سنبھالو! ضعیفوں  کو یاغوثِ اعظم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

غوثُ الاعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَمکی مَحَبَّت کا دم بھرنے والو!دیکھا آپ نے !


سرکارِ بغدادحُضُور غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکس قَدَر عبادت کا اہتمام فرماتے تھے اب اگر ہم سے اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّپانچ وَقت کی نَماز بھی نہ پڑھی جائے تو ہم کس قسم کے عاشِقانِ غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکرَمہیں ؟

مجھے اپنی الفت میں  ایسا گما دے

        نہ پاؤں  پھر اپنا پتا غوث اعظم(ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۱۱} صاحِبِ قَبر کی اِمداد

       پیروں  کے پیر،پیر دست گیر، روشن ضمیر، شیخ عبدُالقادِرجِیلانیقُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِیبروز بدھ27 ذُوالحجَّۃِ الحرام  ۵۲۹ ؁ھ کو’’ شُوْنِیزِیَہ‘‘ کے قبرِستان میں  اپنے استاذِ محترم حضرتِ سیِّدُنا شیخ حَمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادکے مزار شریف پرعُلَماء وفُقَراء کے قافلے کے ہمراہ تشریف لے آئے اورکافی دیر تک کھڑے کھڑے دعا فرماتے رہے یہاں تک کہ دھوپ بَہُت تیز ہوگئی۔ جب لوٹے تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے چہر ۂ انورپر بَشاشت کے آثار تھے ۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے اس قدرطویل دُعا کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا: 15 شَعبانُ المُعظَّم  ۴۹۹ ؁ ھ بروز جمعہ نَمازِ جمعہ ادا کرنے کے لیے اِس مزار شریف میں  آرام فرمانے والے میرے استاذِ گرامی سیِّدُنا شیخ حمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادکے ساتھ ایک قافِلہ جانب ’’جامعُ الرُّصافہ ‘‘ رواں  دواں  تھا۔ راستے میں  جب ایک نَہر کے پُل


پر سے گزرے تو شیخ حمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد نے اچانک مجھے دھکا دے کرنہر میں  گرادیا، سخت سردیوں  کے دن تھے، میں  نے  بِسْمِ اللہپڑھ کر غسلِ جمعہ کی نیّت کرلی، جوں  تُو ں  پانی سے نکلااوراپنا صُوف(یعنی اُون )کا جُبَّہ نچوڑا اور قافِلے سے جا ملا ۔ شیخ حمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادکے مُرید خوش طَبعی کرنے لگے،آپرَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہنے انہیں  ڈانٹا اورفرمایا: میں  نے عبدُ القادِر کا امتحا ن لیا جس میں  اُن کو پہاڑ کی طرح مُستَحکَم پایا۔ حُضُور ِغوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمنے مزید فرمایا کہ میں  نے اپنے استاذ سیِّدُنا شیخ حمّادعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد کو ان کے مزار ِپُر انوار میں ہِیرے اورجواہِرات کے لبا س میں ملبوس سرپر یاقوت کا تاج پہنے، ہاتھوں  میں  سونے کے کنگن اورپاؤں  میں  سونے کے نعلینِ شریفین میں  ملاحَظہ کیا، مگر تَعَجُّب خیز بات جو دیکھی وہ یہ تھی کہ ان کا دایاں  (یعنی سیدھا)ہاتھ کام نہیں  کررہا تھا! میر ے  اِستِفسار پر بتایا: ’’یہ وُہی ہاتھ ہے جس سے میں  نے آپ کونَہر میں  دھکیلا تھا، کیا آپ مجھے مُعاف کرتے ہیں ؟ ‘‘ جب میں  نے مُعاف کردیا تو اُنہوں  نے کہا کہ آپاللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعافرما دیجئے کہ میرا دایاں  ہاتھ دُرُست ہوجائے ۔ لہٰذا میں  اللہ عَزَّوَجَلَّسے دعا مانگتارہا اورپانچ ہزار اصحابِ مزار اولیاء ُ الغَفّاراپنے اپنے مزار میں اٰمین کہتے اورمیری سِفارش کرتے رہے یہاں  تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے ان کا دایاں  ہاتھ دُرُست فرمادیا جس سے اُنہوں  نے خوش ہوکرمجھ سے مُصافحہ کیا۔

     بغدادِ مُعلّٰی میں  یہ خبر جب مشہورہوئی تو سیِّدُنا شیخ حمّاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادکے بعض


مُریدین پر شاق گزرااوروہ تصدیق کیلئے دربارِغوثیہ میں  حاضِر ہوئے مگر آپرَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہکی ہیبت کے سبب کسی کو پوچھنے کی ہمّت نہ ہوئی۔ پیروں  کے پیر، روشن ضمیر، حُضورِ غوثُ الاعظم دَست گیرعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْقَدِیْر نے اُن لوگوں  کے دلوں  کا حال جان لیا اورخود ہی ارشاد فرمایا: آپ حضرات دوشیخ پسند کرلیں  جو آپ کا یہ مسئلہ(مَس۔ءَ۔لَہ) حل کریں  ۔ چُنانچِہ یہ مُعامَلہ حضرتِ سیِّدُنا شیخ یوسُف ہمدانی اور حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدالرحمن کُردیرَحِمَہُمَا اللہُ تَعالٰی جو کہ اصحابِ کَشف تھے انہیں  سونپ دیا گیا اورحُضُورِ غوثُ الاعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی خدمت میں  عرض کردی گئی کہ ہم آپ کو جمعہ تک مُہلَت دیتے ہیں  کہ یہ دونوں  حضرات آپ کی تصدیق کردیں۔حضرتِ سیِّدُنا غوث اعظمعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے فرمایا: اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ حضرات یہاں  سے اُٹھنے بھی نہ پائیں  گے کہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ یہ فرماکر حُضور ِغوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمنے سرِانور جھکالیا۔تمام حاضِرین نے بھی اپنا سرجھکالیا۔ اتنے میں  حضرتِ سیِّدُنا شیخ یوسُف ہمدانیقُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِیپابَرہنَہ (یعنی ننگے پاؤں )جلدی جلدی تشریف لائے اوراعلان کیا کہاللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم سے ابھی ابھی مجھ پر شیخ حمّاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمظاہِر ہوئے اورحکم دیا کہ فوراً شیخ عبدُالقادرجِیلانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّورانیکے مدرَسہ میں  جاکر سب کو بتا دو: ’’شیخ عبدُالقادِرجِیلانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّورانینے آپ حضرات کو میرے بارے میں  جو کچھ بتایا ہے وہ سچ ہے ۔‘‘ اتنے میں  حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدالرحمن کُردیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیبھی آگئے اورانہوں  نے بھی حضرت سیِّدُنا شیخ یوسف


ہمدانیقُدِّسَ سِرُّہُ النُّورانیکی طرح ہی کہا۔ اس پر تمام حضرات نے حضور ِغوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمسے مُعافی مانگی ۔(بہجۃُ الاسرار  ص۱۰۷)

جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں  گے

                        سب ادب رکھتے ہیں  دل میں  مرے آقا تیرا(حدائق بخشش شریف)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس ایمان افروزحِکایت میں ہمارے لیے حکمت کے بے شمار مَدَنی پھول ہیں  ۔ مِنجُملہ یہ کہ اسلامی اُستاذ یا پیرومُرشِدکی طرف سے کبھی کوئی ایسا مُعامَلہ پیش آجائے جو سمجھ میں  نہ آتا ہو تو اس پر صَبروتَحَمُّل کا دامن تھامے رہے نہ کہ اپنے اُستاذ یا پیر کی مخالَفت کر کے اپنی آخِرت داؤ پر لگادے جیسا کہ ہمارے غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکے اُستاذِ گرامیقُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِینے انہیں  سخت سردی میں نَہر میں  گرادیا پھر بھی آپرَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہنے صَبْرکے ساتھ ساتھ غسل جمعہ کی نیّت بھی فرمالی اورزَبان پر حرفِ شکایت نہ لائے۔

پیر پر اعتِراض باعثِ بربادی ہے

        یقینا جو دینی طالبِ علم اپنے اسلامی اُستاذ پر اورجو مُرید اپنے پیرومرشِدپر اعتِراض کرتاہے وہ فیضانِ علم ومَعرِفت سے محروم رہتابلکہ ہلاکت کے عمیق(یعنی گہرے) گڑھے میں  جاپڑتاہے۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلٰی حضرت، اِمامِ اَھلسنّت ، وَلیِ نِعمت، عَظِیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبَت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین


و مِلَّت، حامیٔ سُنَّت، ماحِیِ بِدعت، عالِمِ شَرِیعت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیرو بَرَکت، حضرتِ علّامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  نَقل فرماتے ہیں :’’پِیروں  پر اعتِراض سے بچے کہ یہ مُریدوں  کے لیے زہرِ قَاتِل ہے، کم کوئی مُرید ہوگا جو اپنے شیخ پر اعتراض کرے پھر فَلاح ( یعنی کامیابی) پائے، شیخ کے تَصَرُّفات سے جو کچھ اسے صحیح معلوم نہ ہوتے ہوں  ان میں  خِضر عَلَيْهِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے واقِعات یاد کرلے کیونکہ ان سے وہ باتیں  صادِر ہوتی تھیں ، بظاہِر جن پر سخت اِعتراض تھا (جیسے مِسکینوں  کی کِشتی میں  سُوراخ کردینا، بے گناہ بچے کو قتل کردینا) پھر جب وہ اس کی وجہ بتاتے تھے ظاہِر ہوجاتا تھا کہ حق یِہی تھا، جو اُنہوں  نے کہا، یوں  ہی مُرید کو یقین رکھنا چاہیے کہ شیخ کا جو فعل مجھے صحیح معلوم نہیں  ہوتا ، شیخ کے پاس اس کی صحت پر دلیلِ قَطعی ہے۔‘‘حضرتِ سیِّدُنا اما م ابوالقاسِم قُشَیریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ’’رسالۂ قُشَیریہ ‘‘ میں  فرماتے ہیں : میں  نے حضرتِ سیِّدُنا ابوعبدالرحمن سُلَمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکو فرماتے سُنا، ان سے ان کے شیخ حضرتِ ابوسَہل صعلوکیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: جو اپنے پِیر سے کسی بات میں  ’’کیوں !‘‘ کہے گا کبھی فَلاح نہ پائے گا۔[ رسا لہ قُشیریہ ص۲۷۶] (فتاوٰی رضویہ  ج۲۱ص۵۱۰ تا ۵۱۱)

پیرِ کامل اور پیرِ ناقص

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ سرکارِ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا  مبارَک فتویٰ صِرف جامِعِ شرائط پیریعنی پیرِ کامِل کے بارے میں  ہے۔ جو پیر نبیِّ کریم کا
 
گستاخ ہو وہ مُرتَد ہے اور جو کسی صَحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی توہین کرتا ہو وہ گمراہ و بدمذہب ہے ایسوں  کا مُرید بننا ناجائز و گناہ ہے نیز جو پیر کھلم کُھلا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو یا گناہِ صغیرہ پر اصرار کرنے والا ہو وہ فاسِقِ مُعلِن کہلاتا ہے۔ مَثَلاً علی الاعلان نَمازیں  قضا کرتا ہو، نشہ کرتا ہو، گندی گالیاں  بکتا ہو، بے پردہ خواتین کے ہُجوم میں  بیٹھتا ہو، عورَتوں  سے ہاتھ چُمواتا یا پاؤں  دَبواتا ہو، عَلانیہ فلمیں  ڈِرامے دیکھتا ہو، داڑھی منڈاتا یا ایک مٹھی سے گھٹاتا ہو وہ فاسِقِ مُعلِن ہے، ایسے پیر کی بَیعت جائز نہیں۔دیکھ بھال کر مُرید بننا چاہئے۔چُنانچِہدعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ  بہارِ شریعتجلد اوّ ل  صَفْحَہ 278پرصدرُ الشَّریعہ ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :پیری کے لیے چار شرطیں  ہیں ، قبل از بیعت اُن کا لحاظ فرض ہے:{1}  سنّی صحیحُ العقیدہ ہو {2} اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں  سے نکال سکے {3} فاسِقِ مُعلِن نہ ہو {4} اُس کا سلسلہ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتک مُتَّصِل (یعنی ملا ہوا) ہو۔ (بہارِ شریعت ، فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص۶۰۳) اگر کسی پیر کے اندر ان چاروں  میں  سے ایک بھی شَرط کم ہو تو اس کا مُرید بننا جائز نہیں۔اگر لا عِلمی میں  کسی نے ایسے پیر سے بیعت کرلی ہو جس میں  کوئی شرط کم ہو تو اُس کی بیعت توڑدینا ضَروری ہے، اِس کیلئے ’’پیرِ ناقِص‘‘ کو خبر دینے کی حاجت نہیں ، اتنا کہدینا ہی کافی ہے کہ میں  فُلاں  سے بیعت توڑتا ہوں ، بلکہ پیر سے اعتِقاد اُٹھ جانے کی صورت میں  خود ہی بیعت ٹوٹ جاتی


ہے۔ اب کسی بھی جامِعِ شرائط پیر سے بیعت کر سکتا ہے اور اِس پیر کامل کو بتانے کی حاجت نہیں  کہ میں  فُلاں  کی بیعت توڑکر آپ کا مرید ہوا ہوں۔

کامل پیر کی بیعت توڑنے کے نقصانات

       بلا وجہ شرعی پیر کامل، جامعِ شرائط کی بیعت توڑنا ازروئے طریقت سخت محرومی اورازروئے شریعت بھی سخت ممنوع ہے۔اس بارے میں  طریقت کی کتابوں  میں  اولیاءِ کرام کے بیسیوں  اقوال دیکھے جا سکتے ہیں۔شریعت میں ممنوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شرعاً اِحسان کا بدلہ کم از کم شکریہ ادا کرنا ہے ۔پیرِ کامل کا مرید ہونے سے آدمی کو اولیاء ِکرام کے سلسلے کے ساتھ نسبت حاصل ہوجاتی ہے نیز فیض کا ایک سلسلہ جاری ہوتا ہے اور راہِ طریقت کی بہت سی مشکلات حل ہوتی ہیں  اور بسااوقات تو زندگی میں  ایک مَدَنی انقلاب برپا ہوجاتا ہے ، ان سب چیزوں  کے مقابلے میں  شکریہ ادا کرنے کے بجائے بیعت ہی توڑدینا  یقینا سخت ناشکری ہے اور ناشکری شرعاً ممنوع ہے چنانچہ حدیث میں  فرمایاگیا:مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ جس نے لوگوں  کا شکر ادا نہیں  کیا اس نےاللہ عَزَّ وَجَلَّکا شکر بھی ادا نہیں  کیا۔(تِرمِذی ج۳ ص۳۸۴ حدیث ۱۹۶۲)نیز جب ایک مرتبہ آدمی کسی پیر کامل کی بیعت ہوجاتا ہے تو فیض کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اگرچہ مرید ِ ناقص کو وہ نظر نہ آئے۔ تو جب فیض کا سلسلہ شروع ہوچکا تو اسے برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ حدیثِ مبارَک میں  ہے کہمَنْ رُّزِقَ فِی شَیْء ٍ فَلْیَلْزَمْہُ  یعنی جس کو کسی شے سے رزق ملے وہ اُسے لازِم پکڑ لے ۔
(شُعَبُ الْاِیمان ج۲ ص۸۹ حدیث۱۲۴۱)لہٰذا جب ایک جگہ سے فیض مل رہا ہے تو اسے لازِم پکڑنا چاہیے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فی زمانہ جب کوئی کسی کی بیعت توڑتا ہے تو دو چیزیں  عام سی ہیں  بلکہ ایک تیسری چیز بھی۔ پہلی دوچیزیں  تو یہ ہیں  کہ بیعت توڑنے والا اپنے سابقہ پیر کو حقیر سمجھتے ہوئے بیعت توڑتا ہے اور مسلمان اور خصوصا پیرِ کامل کو حقیر سمجھنا حرام اور سخت مہلک یعنی ہلاکت میں  ڈالنے والا ہے ۔ دوسری بات کہ عموماً بیعت توڑنے والے بالقصد (یعنی جان بوجھ کر)پیر کو ایذا پہنچاتے ہیں  اور یہ دوسرا حرام ہے کہ مسلمان کو ایذا دینا حرام ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ عموماً بیعت توڑنے والے سابقہ پیر کی غیبت اور اُس کے بارے میں  بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں  اور یوں  گناہوں  کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جاتا ہے۔بہرحال عافیت و نجات اسی میں  ہے کہ جب ایک در کو مضبوطی سے تھام لے تو اسے تھامے رکھے اور بلاوجہ آوارہ گردی اور پریشان نظری کا شکار نہ ہو۔ 

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قادِریوں  کیلئے بِشارت کے بغدادی پھول

       بَہجَۃُ الاسرارمیں  ہے :پیروں  کے پیر،پیر دَست گیر ، روشن ضمیر ،قُطبِ رَبّا نی ،  محبوبِ سبحانی ، پیرِلاثانی ، قندِیل نُورانی، شہباز لامکانی ، الشَّیخ ابو محمد سیِّد عبدُالقادِر جیلانیقُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ َّبَّانِیکا فرمانِ بِشارت نشان ہے : مجھے ایک بَہُت بڑا رجسٹر دیا گیا جس میں  میرے مُصاحِبوں  اور میرے قِیامت تک ہونے والے مریدوں  کے نام دَرج تھے اورکہا


گیا کہ یہ سارے افراد تمہارے حوالے کردئیے گئے ہیں  ۔ فرماتے ہیں : میں  نے داروغۂ جہنَّم سے اِستِفسار کیا(یعنی پوچھا): کیا جہنَّم میں  میرا کوئی مرید بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا:’’نہیں۔‘‘ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے مزید فرمایا: مجھے اپنے پروَردگار عَزَّ وَجَلَّکی عزّت وجلا ل  کی قسم! میرا دستِ حمایت میرے مرید پر اس طرح ہے جس طرح آسمان زمین پر سایہ کُناں  ہے ۔ اگر میرا مرید اچّھا نہ بھی ہوتو کیا ہوا، الْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں  تو اچّھا ہوں ، مجھے اپنے پالنے والے کی عزّت وجلال کی قسم! میں  اُس وقت تک اپنے ربّعَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ سے نہ ہٹوں  گا جب تک اپنے ایک ایک مرید کو داخلِ جنَّت نہ کروالوں  ۔ (بہجۃُ الاسرار ص۱۹۳)

       سرکارِ بغداد حضورِ غوثِ پاکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں  اورمیرے دوستوں  کو جنت میں  داخِل کرے گاتو جو کوئی اپنے آپ کو میرا مرید کہے میں  اسے قَبول کر کے اپنے مُریدوں  میں  شامل کر لیتا ہوں  اور اُس کی طرف اپنی توجُّہ رکھتاہوں  ۔ میں  نے مُنکَر نکِیرسے اس بات کا عہد لیا ہے کہ وہ قَبر میں  میرے مریدوں  کو نہیں  ڈرائیں  گے ۔        (مُلَخَّص ازبہجۃُ الاسرار ص۱۹۳)

سنا لا تَخَفْ تیرا فرمان عالی!

غلاموں  کی ڈھارس بندھی غوث اعظم(قبالۂ بخشش )


’’یا غوثِ اَعظم نگاہِ کرم‘‘ کے سولہ حُروف کی نسبت سے مُرشِدکے 16حقوق

       میرے آقا اعلٰی حضرت، اِمامِ اَھلسنّت ، وَلیِ نِعمت، عَظِیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبَت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیِ سُنَّت، ماحِیِ بِدعت، عالِمِ شَرِیعت پیرِ طریقت، باعثِ خَیرو بَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :مرشد کے حقوق مرید پر شُمار سے (بھی) اَفزوں  ( یعنی بڑھ کر) ہیں ، خُلاصہ یہ ہے کہ ( مرید) {۱} اِن (یعنی مرشد) کے ہاتھ میں  ’’مردہ بدستِ زندہ‘‘ (یعنی زندہ کے ہاتھوں  میں  مردہ کی طرح) ہو کر رہے{۲} اِن کی رِضا کو اللہ عَزَّ وَجَلَّکی ر ِضا ،اِن کی ناخوشی کواللہ عَزَّ وَجَلَّکی ناخوشی جانے{۳} انہیں  اپنے حق میں  تمام اولیاءے زمانہ سے بہتر سمجھے{۴} اگر کوئی نعمت بظاہر دوسرے سے ملے تو بھی اسے (اپنے) مرشدہی کی عطا اور انہیں  کی نَظَرِ توجّہ کا صدقہ جانے {۵}مال،اولاد، جان، سب ان پر تصدُّق کرنے (یعنی لُٹانے) کو تیّار رہے {۶} ان کی جو بات اپنی نظر میں  خِلافِ شَرع بلکہمَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّکبیرہ( گناہ) معلوم ہو اس پر بھی نہ اعتراض کرے، نہ دل میں  بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میر ی سمجھ کی غلطی ہے{۷} دوسرے کو اگر آسمان پر اُڑتا دیکھے جب بھی (اپنے) مرشد کے سوا دوسرے کے ہاتھ میں  ہاتھ دینے کو سخت آگ جانے، ایک باپ سے


دوسرا باپ نہ بنائے{۸} ان کے حضور بات نہ کرے{۹} ہنسنا تو بڑی چیز ہے ان کے سامنے آنکھ، کان، دل، ہمہ تن ( یعنی مکمّل طور پر) انہیں  کی طرف مصروف رکھے{۱۰} جو وہ پوچھیں  نہایت ہی نرم آواز سے بکمالِ ادب بتا کر جلد خاموش ہوجائے{۱۱}ان کے کپڑوں ، ان کے بیٹھنے کی جگہ، اِن کی اولاد، ان کے مکان، ان کے مَحَلّے، اِن کے شہر کی تعظیم کرے {۱۲} جو وہ حکم دیں ’’ کیوں !‘‘ نہ کہے ( اور بجالانے میں ) دیر نہ کرے (بلکہ)سب کاموں  پر اسے تَقدِیم(یعنی اَوَّلیَّت)دے{۱۳}اِن کی غَیبت (’’غَے ۔ بَتْ‘‘ یعنی غیر موجودَگی) میں  بھی اِن کے بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے{۱۴} اِن کی موت کے بعد بھی ان کی زَوجہ سے نِکاح نہ کرے{۱۵} روزانہ اگر وہ زِندہ ہیں ، اِن کی سلامتی و عافیت کی دُعا بکثرت کرتا رہے اور  اگراِنتِقال ہوگیا تو روزانہ اِن کے نام پر فاتِحہ و دُرُود کا ثواب پہنچائے{۱۶} ان کے دوست کا دوست، اِن کے دشمن کا دشمن رہے۔ غَرَض اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد اِن کے عِلاقے (یعنی تعلُّق) کو تمام جہان کے عِلاقے (یعنی تعلُّق) پر دل سے ترجیح دے اور اِسی پر کار بند رہے وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ ایسا ہوگا تو ہر وَقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ و سیِّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَو حضراتِ مَشائخِ کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی مدد زندگی میں ، نَزع میں ، قَبر میں ، حَشرمیں  ، مِیزان پر، صِراط پر ، حوض پر ہر جگہ اِس کے ساتھ رہے گی۔ اِس کے مرشِد اگر خود کچھ نہیں  تو ان کے مُرشد تو کچھ ہیں  یا مُرشدکے مُرشد یہاں  تک کہ صاحِبِ سلسلہ(قادِریہ) حُضُور پُرنور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


پھر یہ(قادِری)سلسلہ مولیٰ علیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ، الْکَرِیْم اور اُن سے سیِّدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور اُن سےاللہُ ربُّ الْعٰلَمِیْنعَزَّ وَجَلَّ تک مسلسل چلا گیاہے۔ ہاں  یہ ضَرور ہے کہ مرشد چاروں  شرائطِ بیعت کا جامِع ہو پھر اِن کا حُسنِ اعتقاد سب کچھ پھل لاسکتا ہے۔  اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ۔ واللہُ تَعَالٰی اَعْلَم(فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص۳۶۹)

تو ہے وہ غوث ۱؎ کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا

تو ہے وہ غَیث کہ ہر غیث ([2])ہے پیاسا تیرا

یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے۔

طالبِ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کا پڑوس

۹ربیع الغوث ۱۴۲۷ھ


نظارہ ہو دربار کا غوثِ اعظم  

نظارہ ہو دربار کا غوثِ اعظم               دِکھا نیلا گنبد دِکھا غوثِ اعظم

مجھے جامِ الفت پِلاغوثِ اعظم              رہوں  مست و بے خود سدا غوثِ اعظم

کرم کیجئے پھر میں  بغداد آؤں                مِرے پِیر کا واسِطہ غوثِ اعظم

مجھے اپنی چَوکھٹ کا کُتّا بنا لو          ہمیشہ رہوں  باوفا غوثِ اعظم

ترے آستاں  کا ہوں  منگتا گزارہ     ہے ٹکڑوں  پہ تیرے مِرا غوثِ اعظم

گناہوں  کا بار اپنے سر پر اُٹھا کر              پھروں  کب تلک جا بجا غوثِ اعظم

علاج آخِر اے مرشِدی کب کریں  گے!             گناہوں  کے بیمار کا غوثِ اعظم

گنہگار ہوں  گر عذابوں  نے گھیرا            تو ہو گا مِرا ہائے! کیا غوثِ اعظم

نظر مُرشِدی تیری جانب لگی ہے           عذابوں  سے لینا بچا غوثِ اعظم

جہاں  میں  جیوں  سنّتوں  کے مطابِق          مدینے میں  ہو خاتِمہ غوثِ اعظم

ہو عطاؔر کی بے حساب بخشش آقا

یہ فرمائیں  حق سے دعا غوثِ اعظم



[1]۔۔ دُھتکارا ہوا چور یعنی مردود شیطان ۔ 

[2]۔۔ غوث یعنی فریاد سننے والا   ۲ ؎  غَیث یعنی کنواں

اں