اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
غالباً شیطٰن بیان کا یہ رسالہ (24صَفْحات) نہیں پڑھنے دے گا مگر آپ پورا پڑھ کر شیطٰن کے وار کو ناکام بنادیجئے ۔
ایک شخص نے خواب میں ’’ خوفناک بلا‘‘ دیکھی ،گھبرا کر پوچھا : تُوکون ہے؟بلا نے جواب دیا:’’ میں تیرے بُرے اعمال ہوں ۔‘‘پوچھا: تجھ سے نَجات کی کیا صورت ہے؟جواب ملا: دُرُود شریف کی کثرت ۔ ( اَلْقَولُ الْبَدِیع ص۲۵۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حِکایت سے معلوم ہوا کہ دُرُود شریف کی کثرت بھی نیک بننے کا نُسخہ ہے۔اے کاش !ہم اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت دُرُود وسلام پڑھتے رہیں ۔
تُر بَت میں ہوگی دید رسولِ اَنام کی
عادت بنا رہا ہوں دُرُود و سلام کی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے کسی نے ان کی توبہ کا سبب پوچھا تو فرمایا : میں مَحکمۂ پولیس میں سِپاہی تھا ،گناہوں کا عادی اور پکّا شرابی تھا ۔ میری ایک ہی بچّی تھی اس سے مجھے بے حد پیار تھا۔ وہ دو سا ل کی عمر میں فوت ہوگئی ،میں غم سے نِڈھال ہوگیا ۔ اِسی سال جب شبِ برَائَ تْ آئی میں نے نَمازِ عشا تک نہ پڑھی، خوب شراب پی اور نشے ہی میں مجھے نیند نے گھیر لیا۔ میں خواب کی دنیا میں پَہُنچ گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ مَحشر برپا ہے ، مُردے اپنی اپنی قبروں سے اُٹھ کرجَمْعْ ہو رہے ہیں ،اِتنے میں مجھے اپنے پیچھے سَر سَر ا ہٹ محسوس ہوئی ، مُڑکر جو دیکھا تو ایک قد آور سانپ منہ کھولے مجھ پر حملہ آور ہونے والا تھا! میں گھبرا کر بھاگ کھڑا ہوا، سانپ بھی میرے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا، اِتنے میں ایک نورانی چِہرے والے کمزوربُزُرْگ پر میری نظر پڑی، میں نے ان سے فریاد کی، ’’اُنہوں نے فرمایا: میں بے حد کمزور ہوں آپ کی مدد نہیں کرسکتا ۔ ‘‘ میں پھر تیزی کے ساتھ بھاگنے لگا،سانپ بھی برابر تَعاقُب میں تھا، دوڑتے دوڑتے میں ایک ٹیلے پر چڑھ گیا، ٹِیلے کے اُس طرف خو فناک آگ شُعلہ زَن تھی اور کافی لوگ اُس میں جل رہے تھے ،میں اُس میں گرنے ہی والا تھا کہ آوازآئی:’’پیچھے ہٹ جاتُواس آگ کیلئے نہیں ہے۔‘‘میں نے اپنے آپ کو سنبھالا دیا اور پلٹ کر دوڑنے لگا اور سانپ بھی پیچھے پیچھے تھا، وُہی کمزور بُزُرْگ مجھے پھر مل گئے اور رَو کر فرمانے لگے: ’’ افسوس ! میں بَہُت ہی کمزور ہوں آپ کی مدد نہیں کرسکتا، وہ دیکھئے سامنے جو
گول پہاڑ ہے وہاں مسلمانوں کی ’’امانَتیں ‘‘ ہیں ،وہاں تشریف لے جائیے،اگرآپ کی بھی وہاں کوئی امانت ہو ئی توَّ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ رِہائی کی کوئی صورت نکل آئے گی ۔‘‘ میں گول پہاڑ پر پہنچا، وہاں دَریچے بنے ہوئے تھے ، ان دَریچوں پر ریشمی پر دے لٹک رہے تھے، دروازے سونے کے تھے اور ان میں موتی جَڑے ہوئے تھے۔ فرِشتے اعلان فرمانے لگے :’’پردے ہٹادو‘‘ درواز ے کھول دو ، شاید اِس پریشان حال کی کوئی’’ امانت‘‘ یہاں موجود ہو، جو اِسے سانپ سے بچالے ۔ ‘‘دریچے کُھل گئے اور بَہُت سارے بچّے چاند سے چِہرے چمکاتے جھانکنے لگے، ان ہی میں میری فوت شدہ دو سالہ بچّی بھی تھی،مجھے دیکھ کروہ رو رو کر چِلّانے لگی:’’خدا کی قسم !یہ تو میرے ابّوجان ہیں ،‘‘ پھر زوردار چھلانگ لگا کر وہ میرے پاس آپہنچی اور اپنے بائیں ہاتھ سے میرادایاں ہاتھ تھا م لیا۔ یہ دیکھ کر وہ قد آور سانپ پلٹ کر بھاگ کھڑا ہوا، اب میری جان میں جان آئی،بچّی میری گود میں بیٹھ گئی اور سیدھے ہاتھ سے میری داڑھی سَہلاتے ہوئے اُس نے پارہ 27 سُوْرَۃُ الْحَدِیْدکی16ویں آیت کا یہ جُز تلاوت کیا:
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-
ترجَمۂ کنزُالایمان : کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ انکے دل جھک جائیں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی یاد اور اس حق (یعنی قرآن پاک)کیلئے جو اترا ۔
اپنی بچّی سے یہ آیتِ کریمہ سن کر میں رو پڑا ۔ میں نے پوچھا: بیٹی وہ قد آور سانپ کیا بلا تھی؟ کہا: وہ آپ کے بُرے اعمال تھے جن کو آپ بڑھاتے ہی چلے جارہے ہیں ۔قد آور سانپ نُما
بداعمالیاں آپ کو جہنَّم میں پہنچانے کے در پے ہیں ۔ پوچھا : وہ کمزور بُزُرگ کون تھے؟ کہا: وہ آپ کی نیکیاں تھیں چُونکہ آپ نیک عمل بَہُت کم کرتے ہیں لہٰذا وہ بے حد کمزور ہیں اور آپ کی بُرائیوں کا مقابلہ کرنے سے قاصِر ۔ میں نے پوچھا: تم یہاں پہاڑ پر کیا کرتی ہو؟ کہا: ’’ مسلمانوں کے فَوت شُدہ بچّے یہیں مُقیم ہو کرقِیامت کا انتظار کرتے ہیں ، ہمیں اپنے والِدَین کا انتظار ہے کہ وہ آئیں تو ہم ان کی شَفاعت کریں ۔‘‘ پھر میری آنکھ کُھل گئی،میں اس خواب سے سہم گیاتھامیں نے اپنے تمام گنا ہوں سے رو رو کر توبہ کی۔ (روضُ الرّیاحین ص۱۷۳ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اس حِکایت میں ہمارے لئے عبرت کے بے شمار مَدَنی پھول ہیں ،جن میں ایک مَدَنی پھول یہ بھی ہے کہ جس کا نابالِغ بچّہ فوت ہوجاتا ہے وہ نقصان میں نہیں بلکہ فائدے میں رَہتا ہے، جیسا کہ سیِّدُ نا مالِک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکی فوت شدہ مَدَنی مُنّی خواب میں ان کی ہِدایت کا باعِث بنی اور شراب نوشی اور گناہوں کی کثرت کرنے والے کو اُٹھا کر آسمانِ ولایت کا دَرَخشَندہ ستارہ بنا دیا! فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین بچّے فوت ہوجائیںاللہعَزَّوَجَلَّاپنے فضل ورَحْمت سے ان دونوں کو جنَّت میں داخل فرمائے گا۔صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اگر صِرْف دو بچّے فوت ہوئے ہوں تو؟ فرمایا: دو بھی ۔ پھر عرض کی:
اگر ایک بچّہ فوت ہوا ہو تو؟ فرمایا: ہاں ایک بھی، اس کے بعد فرمایا: اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس عورت کا کچّا بچّہ (یعنی ماں کے پیٹ سے نامکمَّل گِر جانے والا) فوت ہوجائے اور وہ اس پر صَبْر کرے تو وہ بچّہ اپنی ماں کو اپنی نال)[2](کے ذَرِیعے کھنچتا ہوا جنّت میں لے جائے گا ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۸ ص ۲۵۴حدیث ۲۲۱۵۱)
بیان کردہ حضرتِ سیِّدُ نا مالِک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکی ایمان افروزحِکایت میں دل پر چوٹ لگانے والی جس آیتِ قراٰنی کا تذکِرہ ہے تفسیر خزائنُ الْعِرفان میں اس کا شانِ نُزُول یہ ہے: اُمُّ المومنین عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے مروی ہے: نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدولت سرائے اقد س سے باہَر تشریف لائے تو مسلمانوں کو دیکھا کہ آپَس میں ہنس رہے ہیں ۔ فرمایا: تم ہنستے ہو! ابھی تک تمہارے رب عَزَّوَجَلَّکی طرف سے امان نہیں آئی اور تمہارے ہنسنے پر یہ آیت نازِل ہوئی ۔اُنہوں نے عرض کیا: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اِس ہنسی کاکَفّارہ کیا ہے؟ فرمایا: اتنا ہی رونا۔ (تفسیر خزائن العرفان پ۲۷، الحدید زیر آیت ۱۶)
نَدامت سے گناہوں کااِزالہ کچھ تو ہوجاتا
ہمیں رونا بھی تو آتا نہیں ہائے نَدامت سے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!واقعی! یہ آیتِ کریمہ نیک بننے کا بہترین مَدَنی نسخہ ہے، اس ضِمْن میں ایک اور ایمان افروز حِکایت سماعت فرمایئے ، چُنانچِہ اس آیتِ مبارَکہ کو سن کر نہ جانے کتنوں کی زندگیوں میں مَدَنی انقلاب آگیا۔ حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ بن مبارَک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں : میرا عُنْفُوانِ شباب تھا ، اپنے دوستوں کے ہمراہ سیر وتفریح کرتے ہوئے ایک باغ میں پہنچا ،مجھے بانسری بجانے کا بَہُت شوق تھا، رات جوں ہی بانسری بجانے کیلئے اٹھائی، بانسری میں سے یہ آیتِ کریمہ گونج اُٹھی:
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ (پ۲۷،الحدید:۱۶)
ترجَمۂ کنزُالایمان : کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ انکے دل جھک جائیں اللہ عَزَّ وَجَلَّکی یاد (کیلئے)۔
آیت سُن کر میرا دل چوٹ کھا گیا، میں نے بانسری توڑ ڈالی اور گناہوں سے سچّے دل سے توبہ کی اور عہدکیا کہ کوئی ایسا کام ہرگز نہیں کروں گا جو مجھے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے دُور کردے۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۵ ص۴۶۸حدیث ۷۳۱۷)
دیکھا آپ نے ! یہ آیتِ کریمہ حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ بن مبارَکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی ہِدایت کا ذَرِیعہ بن گئی اور آپ وِلایت کے بَہُت بڑے منصب پر فائِض ہوگئے۔ ایک بار آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکہیں تشریف لئے جارہے تھے کہ ایک نا بینا ملا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا :
کہو کیا حاجت ہے ؟ عرض کی: آنکھیں درکار ہیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اُسی وَقْت دُعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اُس نابینا کی آنکھیں روشن کردیں ۔(تذکِرۃُ الاولیاء ج ۱ ص ۱۶۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا اسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : ’’سیِّدُنا فُضیل بن عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے نیک بننے کا سبب بھی یِہی آیت بنی۔‘‘آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے دور کے مشہور ڈاکو تھے۔ کسی عورت کے عشق میں گَرِفتار ہوگئے، وہ بھی بد کاری کیلئے آمادہ ہوگئی ، جب مقرَّرہ وَقت پر گئے تو کہیں سے اِسی آیت اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ترجَمۂ کنزُالایمان : کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وَقْت نہ آیا کہ انکے دل جھک جائیں)اللہ عَزَّ وَجَلَّ)کی یاد (کیلئے)۔(پ۲۷،الحدید:۱۶)کی تلاوت کی آواز آرہی تھی ،دل کی دنیا زَیر وزَبَر ہوگئی ، روتے ہوئے پلٹے اللہ عَزَّ وَجَلََّّ سے گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی مُعافی مانگی، نیکیوں میں دل لگایا، مکّۂ مکرّمہ میں عرصۂ دراز تک عبادت کی اوراللہ عَزَّ وَجَلَّکے مقبول اولیاء میں شامل ہوئے۔ (روحُ البیان ج۹ ص ۳۶۵ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مَشائخ کے عظیم پیشواحضرتِ سیِّدُنا فضیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو کسی نے کبھی مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ جس دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے
شہزادے حضرتِ سیِّدُنا علی بن فضیل رَحمھُمَا اللّٰہُ تعالٰی نے وفات پائی تو آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمسکرانے لگے! لوگوں نے عرض کی: یہ کون سا خوشی کا موقع ہے جو آپ مسکرارہے ہیں ! فرمایا: میں اللہ عَزَّ وَجَلََّّ کی رِضا پر راضی ہو کر مسکرا رہا ہوں ، کیو نکہ اللہ عَزَّ وَجَلََّّ کی رِضا ہی کے سبب میرے بیٹے کو قضا آئی ہے۔ رب عَزَّ وَجَلََّّ کی پسند اپنی پسند۔ (تذکرۃُ الاولیاء ج۱ ص ۸۶ مُلخصاً )
جے سوہنا مرے دُکھ وِچ راضی
میں سُکھ نوں چُلّھے پاواں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کیا آپ واقِعی نیک بننا چاہتے ہیں ؟ اگر ہاں تو پھر اس کیلئے آپ کو تھوڑی بَہُت کوشِش کرنی پڑے گی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلََّّ اسلامی بھائیوں کیلئے 72 ، اسلامی بہنوں کیلئے 63، طَلَبۂ علمِ دین کیلئے 92 ، دینی طالِبات کیلئے 83، مَدَنی مُنّوں اورمَدَنی مُنّیوں کیلئے40جبکہ خصُوصی اسلامی بھائیوں (یعنی گونگے بہروں ) کے لئے 27 مَدَنی اِنعامات ہیں ۔بے شمار اسلامی بھائی ، اسلامی بہنیں اورطَلَبہ مَدَنی اِنعامات کے مطابِق عمل کرکے روزانہ سونے سے قبل ’’فکرِمدینہ کرتے ہوئے‘‘یعنی اپنے اعمال کا جائزہ لے کر مَدَنی اِنْعامات کے جیبی سائز رسالے میں دیئے گئے خانے پُر کرتے ہیں ۔ان مَدَنی اِنْعامات کو اِخلاص کے ساتھ اپنا لینے کے بعد نیک بننے اورگناہوں سے بچنے کی راہ میں حائل رُکاوٹیں اللہ عَزَّ وَجَلََّّ کے فضل و کرم سے اکثر دُور ہوجاتی ہیں اوراس کی بَرَکت سے اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلََّّ پابند ِ سنّت بننے ، گناہوں سے نفرت کرنے اور ایمان کی حفاظت کے لئے کُڑھنے کا ذِہن بھی بنتا ہے ۔ سبھی کو
چاہئے کہ باکردار مسلمان بننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے مَدَنی اِنعامات کا رسالہ حاصل کریں اورروزانہ فکرِمدینہ (یعنی اپنا مُحاسبہ) کرتے ہوئے اس میں دئیے گئے خانے پُر کریں اورہجری سِن کے مطابق ہر مَدَنی یعنی قمری ماہ کے ابتِدائی دس دن کے اندر اندر اپنے یہاں کے مَدَنی اِنعامات کے ذمّے دار کو جمع کروانے کا معمول بنائیں ۔
تُو ولی اپنا بنا لے اس کو ربِّ لم یَزَل
مَدَنی اِنعامات پر کرتا رہے جو بھی عمل
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
فُضُول بات کرنے میں گناہ نہیں مگر فُضُول بولتے بولتے گناہوں بھری باتوں میں جا پڑنے کا سخت اندیشہ رہتا ہے اس لئے فُضُول گوئی سے بچنے کی عادت بنانے کیلئیدعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں ہر مہینے کی پہلی پیر شریف (یعنی اتوار مغرِب تا پیر مغرب ) ’’یومِ قفلِ مدینہ ‘‘ منانے کی اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کیلئے ترغیب ہے، اِس کا لُطف تو وُہی سمجھ سکتا ہے جو یہ دن مناتا ہے۔ اِس میں مکتبۃُ المدینہ کا رسالہ’’ خاموش شہزادہ‘‘(48صَفْحات)ایک بار پڑھنا یا سننا ہے،اکیلے پڑھئے یا آپس میں تھوڑا تھوڑا پڑھ کر سنا دیجئے،اِس طرح خاموشی کا جذبہ ملے گا۔ یومِ قفلِ مدینہ میں حتَّی الامکان ضَرورت کی بات بھی اشارے سے یا لکھ کر کیجئے۔ ہاں جو اشارے وغیرہ نہ سمجھتا ہو یا جہاں بولنا ضَروری ہو وہاں زَبان سے بولئے مَثَلاً سلام و جوابِ سلام، چھینک پر حمد یا حمدکرنے والے کا جواب، اِسی طرح نیکی کی دعوت دینا وغیرہ وغیرہ۔جو لوگ اِشارے نہیں سمجھتے اُن کے ساتھ ضَرورتاً زَبان سے بات چیت کیجئے اور یہ مَدَنی پھول تو عمر
بھر کیلئے قَبول فرمالیجئے کہ جب بھی کام کی بات کرنی ہو کم سے کم الفاظ میں نِمٹا لی جائے، اتنا زیادہ مت بولئے کہ مُخاطَب یعنی جس سے بات کر رہے ہیں وہ بیزار ہو جائے ۔ بَہرحال ہر اُس انداز سے بچئے جو تَنْفِیرِعوام (یعنی لوگوں میں نفرت پھیلنے)کا باعِث ہو اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّبعض ایسے بھی ہیں جو ہر ماہ لگا تار تین دن ’’یومِ قُفلِ مدینہ ‘‘ مناتے ہیں ۔ کاش !ہم زندَگی بھر روزانہ ہی’’یومِ قفلِ مدینہ ‘‘ منانے والے بن جائیں ۔ کاش! دل کے مَدَنی گلدستے میں عمر بھر کیلئے یہ مَدَنی پھول سج جائے:’’ فُضُول گوئی سے بچو تاکہ گناہوں بھری باتوں میں پڑ کر جہنَّم میں نہ جا پڑو ! ‘ ‘
مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُر کرنے والے کس قَدَر خوش قسمت ہوتے ہیں اِس کا اندازہ اس مَدَنی بہار سے لگایئے چُنانچِہ حیدَرآباد (بابُ الاسلام سندھ) کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح حلفیہ (یعنی قسمیہ) بیان ہے کہ ماہِ رجبُ المرجَّب ۱۲۲۶ ہجری کی ایک شب مجھے خواب میں مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زیارت کی عظیم سعادت ملی۔ لبہائے مبارَکہ کو جُنبِش ہوئی اور رَحْمت کے پھول جھڑنے لگے ،اور میٹھے بول کے الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے: جو اِس ماہ روزانہ پابندی سے مَدَنی اِنعامات سے مُتَعَلِّق فکرِ مدینہ کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّاُس کی مغفِرت فرما دیگا ۔
’’مَدَنی اِنعامات‘‘ کی بھی مرحبا کیا بات ہے
قُربِ حق کے طالبوں کے واسطے سوغات ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
72 مَدَنی اِنْعامات میں اسلامی بھائیو ں کیلئے دوسرا مَدَنی اِنْعام یہ ہے:’’ کیا آپ روزانہ پانچوں نَمازیں مسجِد کی پہلی صَف میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ باجماعت ادا کرتے ہیں ؟‘‘ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! صِرْف اس ایک مَدَنی اِنعام پر اگر کوئی صحیح معنوں میں کار بند ہوجائے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ َّ اس کا بیڑا پار ہوجا ئے ۔ نَماز کے فضائل سے کون واقِف نہیں ؟
اللہعَزَّ وَجَلََّّکے مَحبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:جو دورَکعت نَماز پڑھے اور ان میں سَہْو( یعنی غَلَطی) نہ کرے تو جو پیشتر اس کے گناہ ہوئے ہیں اللہعَزَّ وَجَلَّمُعاف فرمادیتا ہے۔(یہاں گناہ ِصغیرہ مُعاف ہونامراد ہیں ) (مُسندِ اِمام احمد بن حنبلج۸ص۶۲حدیث ۲۱۷۴۹ )
دیکھا آپ نے ! دورَکْعَت کی جب یہ فضیلت ہے تو پانچ فرض نَمازوں کی کیسی کیسی بَرَکتیں ہونگی ! اس ’’مَدَنی انعام‘‘ میں نماز یں باجماعت ادا کرنی ہیں ، اور جماعت کی فضیلت کے تو کیا کہنے! مسلم شریف میں سیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے: تاجدارِ مدینہ راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے27 دَرَجے بڑھ کر ہے۔‘‘ (مسلم ص ۳۲۶حدیث ۶۵۰)
مزید اس ’’مَدَنی اِنعام‘‘ میں تکبیر ِاُولیٰ کا بھی ذِکر ہے۔ اس کی بھی فضیلت سنئے اور جھومئے ابنِ ماجہ کی روایت میں ہے: سرکار ِمدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو مسجِد میں باجماعت 40 راتیں نمازِ عشا اس طرح پڑھے کہ پہلی رَکعت فوت نہ ہو اللہ عَزَّ وَجَلَّاُس کیلئے جہنّم سے آزادی لکھ دیتاہے ۔‘‘(ابنِ ماجہ ج۱ص ۴۳۷ حدیث ۷۹۸ ) سُبحٰنَ اللہ!چالیس راتیں جب عشا کی چاروں رکعتیں باجماعت ادا کرنے کی یہ فضیلت ہے تو زندہ رہ جانے کی صورت میں بَرَسْہا برس تک پانچوں نمازیں تکبیرِ اُولیٰ کے ساتھ باجماعت ادا کرنے کا کیا مقام ہوگا!
سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ خوشبودار ہے: ’’جو طہارت کر کے اپنے گھر سے فرض نَماز کے لیے نکلا اس کا ثواب ایسا ہے جیسا حج کرنے والے مُحرِم (اِحرام باندھنے والے )کا۔‘‘ (ابوداوٗد ج۱ص۲۳۱حدیث ۵۵۸ )
حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے ،سرکارِمدینہ راحت وقلب وسینہ، فیض گنجینہ ،صاحب مُعطّر پسینہ ، باعثِ نُزُولِ سکینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ باقرینہ ہے: بتائو اگر کسی کے دروازے پر ایک نَہْر ہو جس میں وہ ہر روزپانچ بارغُسل
کرے تو کیا اُس پر کچھ مَیل رَہ جائے گا؟لوگوں نے عرض کی: اس کے مَیل میں سے کچھ باقی نہ رہے گا۔آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: پانچوں نَماز وں کی ایسی ہی مثال ہے اللہ تَعَالٰی ان کے سبب خطائیں مٹا دیتاہے ۔(مسلم ص۳۳۶حدیث۶۶۷)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس ’’مَدَنی اِنْعام‘‘کی رُو سے نَمازیں بھی مسجِد ہی میں ادا کرنی ہیں اورمسجِد کو سُبْحٰنَ اللہِ! حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو صبح یا شام مسجِد میں آئے ، اللہ تَعَالٰی اُس کے لیے جنّت میں ایک ضِیافت تیّار فرمائے گا۔‘‘ (ایضاً حدیث۶۶۹)
پہلی صف کاذکربھی اِس ’’مَدَنی اِنعام‘‘میں موجود ہے۔سرکارِ مکَّۃُ المکرمہ، سردارِ مدینۃُ المنوَّرہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَفرماتے ہیں : ’’لوگ اگر جانتے کہ اذان اور پہلی صَف میں کیا ہے تو بِغیر قُرعہ ڈالے نہ پاتے لہٰذا اِس کیلئے قُرعہ اندازی کرتے۔‘‘( مسلم ص۲۳۱حدیث ۴۳۷ ) ایک اورروایت میں ہے: رَحْمتِ عالَم ،نُورِ مُجَسَّم،شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ رَحْمت نشان ہے: اللہعَزَّ وَجَلَّاور اس کے فِرِشتے پہلی صف پر دُرُود (یعنی رَحْمت ) بھیجتے ہیں ، صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی:اور دوسری صَف پر؟فرمایا : اللہعَزَّ وَجَلََّّ اور اس کے فِرِشتے دُرُود بھیجتے ہیں پہلی صَف پر،صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے پھر عرض کی :
یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاوردوسری پربھی؟فرمایا: دو سر ی پر بھی۔مزید ارشاد فرمایا: صَفیں برابر کرو اور کندھے کو مُقابِل (یعنی ایک سیدھ میں ) کرو ،اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نَرْم ہوجائو اور کُشادَگیوں (یعنی صف کی خالی جگہوں ) کو بند کرو کہ شیطٰن بَھیڑ کے بچّے کی طرح تمہارے بیچ میں داخل ہوجاتا ہے ۔ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۸ ص۲۹۶حدیث ۲۲۳۲۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہوسکتا ہے آپ میں سے کسی کو ’’مَدَنی اِنْعامات‘ ‘ مشکِل معلوم ہوں مگرہمّت نہ ہاریں۔منقول ہے : اَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ اَحْمَزُھا یعنی’’ افضل ترین عبادت وہ ہے جس میں مَشَقَّت زیادہ ہو۔ ‘‘(مقاصد حسنہ ص۷۹) حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَدھَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمفرماتے ہیں : ’’دنیا میں جو عمل جتنا دشوار ہوگابَروزِقِیامت میزانِ عمل میں وہ اُتنا ہی زِیادہ ـ وَزْن دار ہوگا‘‘(تذکرۃ الاو لیاء ج۱ص۹۵ ) جب عمل شُروع کردیں گے تو وہ آپ کیلئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آسان ہوجائے گا۔ غالباً آپ کو تجرِبہ ہوگا کہ سخت سردی کے وَقْت وُضُو کیلئے بیٹھتے ہیں تو شُروع میں سردی سے دانت بجتے ہیں پھر ہمّت کرکے جب وُضو شُروع کردیتے ہیں تواگر چِہابتِدائً ٹھنڈک زِیادہ محسوس ہوتی ہے مگر پھر بَتَد رِیج کم ہوجاتی ہے۔ ہر مشکِل کام کایِہی اُصول ہے ۔مَثَلاً کسی کوکوئی مُہْلِک بیماری لگ جائے تو وہ بے چَین ہوجاتا ہے پھر رَفتہ رَفتہ جب عادی ہوجاتا ہے تو قوّتِ برداشت
بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک اسلامی بھائی عِرقُ النّساء کے مَرَض میں مبتَلا ہوگئے یہ مرض عُموماً پائوں کے ٹخنے سے لیکر ران کے اوپر کے جوڑ تک ہوتا ہے اور مہینوں اوربعضوں کو برسوں تک نہیں جاتا ۔ وہ تشویش میں پڑگئے تھے۔ میں نے عرض کی: اللہ عَزَّ وَجَلَّبہتر کر ے گا۔ گھبرائیں نہیں جب آپ عادی ہوجائیں گے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّبرداشت کرنا آسان ہوجائے گا۔کچھ عرصے بعد ملے تو میرے اِسْتِفْسار پر بتایا کہ درد تو وُہی ہے مگر آپ کے کہنے کے مطابِق میں عادی ہوچکا ہوں اس لئے کام چل جاتا ہے۔مَدَنی اِنعامات چونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکا فرمانبرداربنانے اور دنیا وآخرت کی بہتریاں دلانے کیلئے ہیں ۔ لہٰذا شیطان اس میں کافی رکاوٹیں کھڑی کر ے گا مگرآپ ہمّت مت ہاریئے،بس یہ ذِہن بنا لیجئے کہ مجھے ان ’’مَدَنی اِنعامات ‘‘پر عمل کرنا ہی چاہیے۔
سروَرِ دیں ! لیجے اپنے ناتُوانوں کی خبر
نفس و شیطاں سیِّدا کب تک دباتے جائینگے
(حدائقِ بخشش شریف)
اگردعوتِ اسلامی کے ذمّے داران خصُوصی توجُّہ فرماکر اس مَدَنی کام کا بِیڑا اُٹھا لیں تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ َّ ہر طرف سنّتوں کی بہار آجائے۔ اگر آپ سب نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کی خاطر بَصَمِیمِ قلب مَدَنی اِنعامات پر عمل شُروع کردیا تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّجیتے جی اور وہ بھی جلد ہی اس کی بَرَکتیں دیکھ لیں گے، آپ کواِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّسُکونِ قَلْب
نصیب ہوگا،باطِن کی صفائی ہوگی، خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ وعشقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سَوتے ( یعنی چشمے )آپکے دل سے پھوٹیں گے ،اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کے عَلاقے میں دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام حیرت انگیز حد تک بڑھ جائے گا۔ چُونکہ ’’مَدَنی اِنْعامات ‘‘ پر عمل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے حُصول کا ذَرِیعہ ہے ، لہٰذا شیطان آپ کو بَہُت سُستی دلائے گا، طرح طرح کے حیلے بہانے سُجھا ئے گا، آپ کا دل نہیں لگ پائے گا، مگر آپ ہمّت مت ہاریئے ۔اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّدل بھی لگ ہی جائیگا۔
اے رضاؔ ہر کام کا اک وَقْت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا
(حدائقِ بخشش شریف)
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام ابوحامد محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں : حضـرت سیِّدُنا ابو عثمان مغربی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی سے اُن کے ایک مُرید نے عرض کی: یا سیِّدی! کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دل کی رَغبت کے بِغیر بھی میری زَبان سے ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّجاری رَہتا ہے ۔ اُنہوں نے فرمایا: ’’یہ بھی تو مقامِ شکر ہے کہ تمہارے ایک عُضْو (یعنی زَبان )کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے ذِکْر کی توفیق بخشی ہے۔‘‘ جس کا دل ذِکرُاللّٰہعَزَّ وَجَلَّمیں نہیں لگتا اُس کو بعض اَوقات شَیطان وَسوَسہ ڈالتا ہے کہ جب تیرا دل ذِکرُاللّٰہعَزَّ وَجَلَّمیں نہیں لگتا تو خاموش ہوجاکہ ایسا ذِکْر کرنا بے ادَبی ہے ۔ امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے
ہیں : اِس وَسوَسے کا جواب دینے والے تین قسم کے لوگ ہیں ۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جوایسے موقع پر شیطان سے کہتے ہیں : ’’خوب توجُّہ دِلائی اب میں تجھے زِچ (یعنی بیزار) کرنے کیلئے دل کو بھی حاضِر کرتا ہوں ۔ ‘‘اس طرح شیطان کے زخموں پر نمک پاشی ہوجاتی ہے۔ دوسرے وہ احمق ہیں جو شیطان سے کہتے ہیں : ’’تونے ٹھیک کہا جب دل ہی حاضِر نہیں تو زَبان ہِلائے جانے سے کیا فائدہ!‘‘ اور وہ ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سے خامو ش ہوجاتے ہیں ۔ یہ نادان سمجھتے ہیں کہ ہم نے عَقْلمندی کا کام کیا حالانکہ اُنہوں نے شیطان کو اپناہمدرد سمجھ کر دھوکاکھالیا ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں : اگر چِہ ہم دل کو حاضـر نہیں کرسکے مگر پھر بھی زَبان کو ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں مصروف رکھنا خاموش رہنے سے بہتر ہے، اگر چہِ دل لگا کر ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کرنااس طرح کے ذِکرُاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سے کہیں بہتر ہے۔ (کیمیائے سعادت ج۲ ص۷۷۱)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے ! دل نہ لگے تب بھی عمل جاری رکھنا ہی ہمارے لئے بہتر ہے ۔ بَہَر حال نیک بننے کا نسخہ حاضِر کیا ہے ، اِس کے مطابِق عمل کرتے جایئے۔ کھبی نہ کبھی تواِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّمنزِل پاہی لیں گے۔ مَدَنی انعام نمبر16 میں روزانہ دورَکْعَت نمازِ توبہ ادا کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی ترغیب
دی گئی ہے۔ توبہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو راضی کرنے اور نیک بننے کا بہترین مَدَنی نسخہ ہے۔ مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّاگر کبھی گناہ سَرزَد ہوجائے تواُسی وقت توبہ کر لینا واجب ہے توبہ میں تاخیر خود ایک نیا گناہ ہے۔ توبہ کی ایک فضیلت سنئے اورجُھومئے ! رسولِ اکرم ،نُورِ مجَسَّم ،شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ معظّم ہے:اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَاذَنْبَ لَہٗ۔یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں ہے ۔ (ابنِ ماجہ ج۴ص ۴۹۱حدیث۴۲۵۰ )
نیک بننے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہیے، دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماع میں اوّل تا آخر شرکت فرمائیے، ہر اسلامی بھائی کو چاہیے کہ زندگی میں یکمشت 12 ماہ اور ہر12ماہ میں 30 دن نیز ہر30 دن میں کم از کم3 دن سُنّتوں کی تربیّت کیلئے عاشِقانِ رسول کے ساتھ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلے میں ضَرور سفر کرے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ (اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)
سینہ تری سنت کا مدینہ بنے آقا
جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭3فرامین مصطفیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کریگا اُس کے لئے اُس مصیبت زدہ جیسا ثواب ہے (ترمذی ج۲ص ۳۳۸ حدیث ۱۰۷۵))۲(جو بندۂ مومِن اپنے کسی مصیبت زدہ بھائی کی تعزیت کر ے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّقیامت کے دن اُسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا (ابن ماجہ ج۲ ص ۲۶۸ حدیث۱۶۰۱))۳(جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت کر ے گااللہ عَزَّ وَجَلَّاُسے تقوٰی کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں کے درمِیان اس کی رُوح پر رَحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گااللہ عَزَّ وَجَلَّاُسے جنّت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت (ساری )دنیا بھی نہیں ہوسکتی( اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَطج۶ ص ۴۲۹حدیث ۹۲۹۲)٭ حضرتِ سیِّدُناموسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بارگاہِ ربُّ العزَّت میں عرض کی:اے میرے ربعَزَّ وَجَلَّ! وہ کون ہے جو تیرے عرش کے سائے میں ہوگاجس دن اُس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگااللہ عَزَّ وَجَلَّنے فرمایا: ’’اے موسی عَلَیْہِ السَّلام! وہ لوگ جو مریضوں کی عِیادت کرتے ہیں ،جنازے کے ساتھ جاتے ہیں اور کسی فوت شدہ بچّے کی ماں سے تعزیت کرتے ہیں ‘‘( تمہیدالفرش للسیوطی ص۶۲)٭ تعزیت کا معنیٰ ہے :مصیبت زدہ آدمی کو صبر کی تلقین کرنا ۔ ’’تعزیت مسنون (یعنی سنّت )ہے‘‘(بہار ِشریعت ج۱ص۸۵۲)٭ دَفْن سے پہلے بھی تعزیت جائز ہے ، مگر اَفضل یہ ہے کہ دَفْن کے بعد ہو یہ اُس وَقت ہے کہ اولیائے میِّت (میّت کے اہلِ خانہ ) جَزع وفَزع (یعنی رونا پیٹنا)نہ کرتے ہوں ، ورنہ اُن کی تسلّی کے لیے
دَفْن سے پہلے ہی کرے (جوہرہ ص۱۴۱)٭ تعزیت کا وَقْت موت سے تین دن تک ہے، اِس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں موجود نہ ہو یا موجود ہے مگر اُسے عِلْم نہیں تو بعد میں حَرَج نہیں (ایضاً ، رَدُّالْمُحتار ج ۳ ص۱۷۷)٭ (تعزیت کرنے والا) عاجِزی وانکساری اور رنج وغم کا اظہار کرے، گفتگو کم کرے اور مسکرانے سے بچے کہ (ایسے موقع پر) مسکرانا (دلوں میں ) بغض و کینہ پیدا کرتا ہے (آدابِ دین ص۳۵)٭ مستحب یہ ہے کہ میِّت کے تمام اَقارِب کو تعزیت کریں ، چھوٹے بڑے مرد و عورت سب کو مگر عورت کو اُس کے مَحارِم ہی تعزیت کریں ۔ (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۲ ) تعزیت میں یہ کہےاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور اس مصیبت پر اجرِ عظیم عطا فرمائے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّمرحوم کی مغفِرت فرمائے۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان لفظوں سے تعزیت فرمائی: اِنَّ لِلّٰہِ مَااَخذَ وَلَہُ مَااَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ (ترجمہ:)خدا ہی کا ہے جو اُس نے لیا اور جو دیا اور اُس کے نزدیک ہر چیز ایک مقّررہ وقت تک ہے،لہٰذا صبر کرو اور ثواب کی اُمّید رکھو (بُخاری ج۱ص۴۳۴حدیث۱۲۸۴) ٭ میِّت کے اَعِزّہ (یعنی عزیزوں ) کا گھر میں بیٹھنا کہ لوگ اُن کی تعزیت کیلئے آئیں اس میں حَرَج نہیں اور مکان کے درواز ے پر یا شارِع عام (یعنی عام راستے )پر بچھونے(یا دری وغیرہ) بچھا کر بیٹھنا بُری بات ہے (عالمگیری ج۱ ص ۱۶۷ ،رَدُّالْمُختار ج۳ ص۱۷۷)٭ قَبْر کے قریب تعزیت کرنا مکروہِ (تنزیہی ) ہے ( دُرِّمختار ج۳ ص۱۷۷)بعض قوموں میں وفات کے بعد آنے والی پہلی شبِ براء ت یا پہلی عید کے موقع پر عزیز واَقرِبا ء اہلِ میّت کے گھرتعزیت
کیلئے اکٹّھے ہوتے ہیں یہ رسم غَلَط ہے ،ہاں جو کسی وجہ سے تعزیت نہ کر سکا تھا وہ عید کے دن تعزیت کرے تو حرج نہیں اِسی طرح پہلی بقر عید پر جن اہلِ میّت پر قربانی واجب ہو انہیں قربانی کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سوگ کے ایّام گزر جانے کے باوُجُود عید آنے پر میِّت کا سوگ (غم) کرنا یا سوگ کے سبب عمدہ لباس وغیرہ نہ پہنناناجائز و گناہ ہے۔البتّہ ویسے ہی کوئی عمدہ لباس نہ پہنے تو گناہ نہیں ٭ جو ایک بار تعزیت کر آیا اُسے دوبارہ تعزیت کے لیے جانا مکروہ ہے ( دُرِّمُختار ج۳ ص۱۷۷)٭ اگر تعزیت کے لئے عورَتیں جَمْعْ ہوں کہ نوحہ کریں تو انہیں کھانا نہ دیا جائے کہ گناہ پر مدد دینا ہے (بہار ِشریعت ج ۱ ص ۸۵۳ ) ٭ نوحہ یعنی میّت کے اَوصاف مبالَغہ کے ساتھ(یعنی بڑھا چڑھا کرخوبیاں ) بیان کر کے آواز سے رونا جس کو ’’ بَین‘‘ کہتے ہیں بِالاِْجماع حرام ہے۔ یوہیں واوَیلا وامُصیبتا (یعنی ہائے مصیبت ) کہہ کے چلّانا (ایضاً ص ۸۵۴) ٭ اَطِبّاء (یعنی طبیب) کہتے ہیں کہ(جو اپنے عزیز کی موت پر سخت صدمے سے دو چار ہواُس کے) میِّت پر بالکل نہ رونے سے سخت بیماری پیدا ہوجاتی ہے ، آنسو بہنے سے دل کی گرمی نکل جاتی ہے ،اِس لیے اِس(بغیر نوحہ ) رونے سے ہر گز مَنْعْ نہ کیا جائے (مراٰۃ المناجیح ج۲ ص۵۰۱)٭ مُفَسّرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّانفرماتے ہیں : تعزیَت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں جس سے اُس غمزدہ کی تسلّی ہوجائے، فقیر کا تجرِبہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقِعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں توبَہُت تسلّی ہوتی ہے۔ تمام تعزیتیں ہی بہتر ہیں مگر بچّے کی وفات پر(مَحارِم کا اُس کی) ماں کو تسلی دینا بَہُت ثواب ہے۔ (مُلَخص ازمراٰۃ المناجیح ج۲ ص ۵۰۷)
دعوت اسلامی کے تمام ذِمّے داروں کی خدمتوں میں مَدَنی التِجا ہے کہ آپ کے یہاں کسی اسلامی بھائی کو مَرَض یامصیبت (مَثَلاً بچّہ بیمار ہونا،نوکری چھوٹنا، چوری یا ڈکیتی ہونا، اسکوٹر یا موبائل فون چھن جانا، حادِثہ پیش آنا،کاروبار میں نقصان ہو جانا،عمارَت گر جانا،آگ لگ جانا، کسی کی وفات ہو جانا وغیرہ کوئی سا بھی صدمہ) پہنچے ، ثواب کی نیّت سے اُس دُکھیارے کی دِلجوئی کر کے ثوابِ عظیم کے حقدار بنئے کہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے: بیشک اللہ تَعَالٰیکی بارگاہ میں فرائض کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ مسلمان کو خوش کرے۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۱۱ص۵۹ حدیث ۱۱۰۷۹) اِنتقال ہو جانے پر ہوسکے تو فوراً میِّت کے گھر وغیرہ پر حاضِری دیجئے، ممکنہ صورت میں غسلِ میّت ، نَمازِ جنازہ بلکہ تدفین میں بھی حصّہ لیجئے۔ مالداروں اور دُنیوی نامداروں کی دلجوئی کرنے والوں کی عُمُوماً اچّھی خاصی تعداد ہوتی ہے،مگر بے چارے غریبوں کا پُرسانِ حال کون؟ بے شک اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ آپ اہلِ ثَروت کی تعزیَت فرمایئے مگر غریبوں کوبھی نظر انداز مت کیجئے، ان’’ شخصیّات ‘‘ کے ساتھ ساتھ بِالخصوص آپ کے جس ماتَحت غریب اسلامی بھائی کے یہاں میِّت ہوجائے ،اُسے رِشتے داروں وغیرہ کوجَمع کرنے کی ترغیب دلا کر اُس کے مکان پرزیادہ سے زیادہ 92 مِنَٹ کا’’ اجتماعِ ذکرو نعت‘‘ رکھئے، اگر سب تک آواز پہنچتی ہو تو پھر بِلاحاجت ’’ سائونڈ سسٹم‘‘ لگانے کے مُعاملے میں خدا سے ڈریئے،حسبِ حیثیّت لنگرِ رسائل کا ضَرور ذِہن دیجئے، مگر طعام کا اہتِمام ہرگز نہ ہونے دیجئے، (مسئلہ: تیجے کا کھانا چونکہ عموماً دعوت کی صورت میں ہوتا ہے اس لئے اَغنِیا کے لئے جائز نہیں صِرف غُرَبا ء و مساکین کھائیں ، تین دن کے بعد بھی میِّت
کے کھانے سے اَغْنِیا(یعنی جو فقیر نہ ہوں اُن) کوبچنا چاہئے ۔ )جو وَقْت طے ہوجائے اُس کی پابندی کیجئے، ’’بعد نَمازِ عشا ہو گا‘‘کہنے کے بجائے گھڑی کے مطابِق وَقْت طے کیجئے مَثَلاً رات9بجے کا طے ہواہے تولوگوں کا انتِظار کئے بِغیرٹھیک وَقْت پرتِلاوت سے آغاز کر دیجئے، پھر نعت شریف(دَورانیہ 25 مِنَٹ ) ، سنتوں بھرا بیان (دَورانیہ 40مِنَٹ) اور آخر میں ذِکرُ اللّٰہ(دورانیہ 5مِنَٹ)، رقّت انگیز دُعا(دورانیہ 12 مِنَٹ ) اور صلوٰۃ و سلام (تین اَشعار) مع اختِتامی دعا(دَورانیہ 3مِنَٹ) ۔ عَلاقے کے تمام ذِمّے داران ، مبلِّغین ، ممکنہ صورت میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے اَراکین اور دیگر اسلامی بھائیوں کی شرکت یقینی بنایئے اور کوشِش کرکے ایصالِ ثواب کیلئے وہاں سے ہاتھوں ہاتھ مَدَنی قافِلے سفر کروایئے۔
ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صفحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘ ‘ ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیّت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔
لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو
ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک
عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب
۶ صفر المفظر۱۴۳۴ھ
2012-12-20
کتاب |
مطبوعہ |
کتاب |
مطبوعہ |
قراٰن مجید |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
ابن عساکر |
دار الفکر بیروت |
روح البیان |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
تمہید الفرش |
المکتب الاسلامی بیروت |
تفسیر خزائن العرفان |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
مقاصد حسنہ |
دار الکتاب العربی بیروت |
بخاری |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
القول البدیع |
مؤسسۃ الریان بیروت |
مسلم |
دار ابن حزم بیروت |
روض الریاحین |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
ابوداوٗد |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
تذکرۃ الاولیاء |
انتشاراتِ گنجینہ تہران |
ترمذی |
دار الفکر بیروت |
کیمیائے سعادت |
انتشاراتِ گنجینہ تہران |
ابن ماجہ |
دار المعرفۃ بیروت |
ردالمحتار |
دار المعرفۃ بیروت |
مسند امام احمد |
دار الفکر بیروت |
عالمگیری |
دار الفکر بیروت |
معجم کبیر |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
جوہرہ |
باب المدینہ کراچی |
معجم ا وسط |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
مراٰۃ المناجیح |
ضیاء القراٰن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور |
شعب الایمان |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
آداب دین |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |