اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

قیامت کا امتحان)[1](

شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ بیان(34صفحات) مکمَّل پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّآپ اپنے دل میں مَدَنی انقلاب برپاہوتاہوا محسوس فرمائیں گے۔

دُرُود شریف کی فضیلت

       شفیعُ الْمُذْ نِبِین رَحمَۃٌ لِّلْعٰلَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ دلنشین ہے : ’’ جس نے صبح و شام مجھ پر دس دس باردُرُودِپاک پڑھابروزِقِیامت اُس کومیری شَفا عت نصیب ہوگی۔ ‘‘ ( مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۱۰ ص۱۶۳ حدیث۱۷۰۲۲)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مَد َنی مُنّے کا خوف

      آدھی رات کو ایک چھوٹا بچّہ اچانک اُٹھ بیٹھا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔ والد صاحب گھبرا کر بیدار ہوگئے اور بولے: اے میرے لال ! کیا ہو گیا؟ بچہّ روتے ہوئے بولا :

 


 

 ’’ابّا جان ! کل جُمعرات ہے لہٰذا استاد صاحِب پورے ہفتے کے اَسباق کا امتِحان لیں گے میں نے پڑھائی پر توجُّہ نہیں دی، کل مجھے مار پڑے گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بچّہ ’’ہائے ہُوں ،ہائے ہُوں ‘‘ کرنے لگا۔اِس پر والِد صاحِب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اپنے نفس کو مخاطَب کرکے کہنے لگے:اِس بچّے کو صرف ایک ہفتے کا حِساب دینا ہے اور استا د کو  چَکما(یعنی دھوکا) بھی دیا جا سکتا ہے اس کے باوُجُودیہ رورہا ہے اور مارے خوف کے اسے نیند نہیں آرہی اور آہ!آہ!آہ! مجھے تو پُوری زندَگی کا حسا ب اُس واحدِ قھّارجَلَّ جلالُہٗ کو دینا ہے جسے کوئی چَکما (یعنی دھوکا) نہیں دے سکتا ، مجھے قِیامت کا امتِحان درپیش ہے مگر میں غافِل ہوکر سورہا ہوں ،آخِرمجھے کوئی خوف کیوں نہیں آرہا!۔( دُرَّۃ النّاصِحین ص۲۹۵بِتَغیُّر)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حکایت میں ہمارے لئے عبرت کے مُتَعَدَّد  مَدَنی پھول ہیں ،آپ بھی غور فرمائیے میں بھی سوچتا ہوں ۔ایک بچّہ ،اُس کی سوچ اور اس کے والِد کی مَدَنی سوچ دیکھئے!بچّہ مدرَسے کے ’’حساب ‘‘ کے خوف سے رورہا ہے اورباپ قِیامت کے حساب کی سختی کو یاد کرکے آبدیدہ ہے۔

کریم! اپنے کرم کا صدقہ لئیمِ بے قَدر)[2](  کو نہ شرما

تُو اور گدا سے حساب لینا گدا بھی کوئی حِساب میں ہے

(یہ اعلیٰ حضرتکا مَقطع ہے، دونوں جگہ رضاؔ کی جگہ سگِ مدینہ عفی عنہ نے اپنی نیَّت سے’’ گدا‘‘ کر دیا ہے)


 

ولیُّ اللّٰہ کی دعوت کی حِکایت

       حضرتِ سَیِّدُنا حاتِمِ اَصَمّ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کو ایک مالدار شخص نے بَاِصرار دعوتِ طَعام دی ، فرمایا: میری یہ تین شَرطیں مانو توآ ؤنگا،(۱) میں جہاں چاہوں گا بیٹھوں گا(۲)جو چاہوں گا کھاؤں گا (۳)جو کہوں گا وہ تمہیں کرنا پڑے گا۔اُس مالدار نے وہ تینوں شرطیں منظور کرلیں ۔ ولیُّ اللّٰہکی زیارت کیلئے بَہُت سارے لوگ جَمْع ہوگئے۔وَقتِ مقرّرہ پر حضرتِ سَیِّدُنا حاتِمِ اَصَمّبھی تشریف لے آئے اور جہاں لوگوں کے جُوتے پڑے تھے وہاں بیٹھ گئے ۔ جب کھانا شُروع ہوا ،سَیِّدُنا حاتِمِ اَصَمّنے اپنی جھولی میں ہاتھ ڈال کرسُوکھی روٹینکال کر تناوُل فرمائی ۔جب سلسلۂ طَعام کا اختِتام ہوا ، مَیزبان سے فرمایا: ’’ چُولہا لائو اور اُس پر تَوَا رکھو،‘‘ حکم کی تعمیل ہوئی،جب آگ کی تَپِش سے تَوا سُرخ انگارہ بن گیا تو آپاُس پرننگے پاؤں کھڑے ہوگئے اور فرمایا:’’ میں نے آج کے کھانے میں سُوکھی روٹی کھائی ہے۔‘‘یہ فرما کر تَوَے سے نیچے اُتر آئے اور حاضِرین سے فرمایا: اب آپ حضرات بھی باری باری اِس تَوے پر کھڑے ہوکر جو کچھ ابھی کھایا ہے اُس کا حساب دیجئے ۔ یہ سُن کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں ، بَیَک زَبان بول اُٹھے:یاسیِّدی!ہم میں اس کی طاقت نہیں ،(کہاں یہ گرْم گرْم تَوَا اور کہاں ہمارے نَرم نَرم قدم! ہم تو گنہگار دنیا دار لوگ ہیں )آپ نے فرمایا: جب اِس دُنیوی گَرْم تَوے پر کھڑے ہوکرآج صِرْف ایک وَقْت کے کھانے کی نعمت کا حساب نہیں دے


 

 سکتے تو کل بَروزِ قِیامت آپ حَضرات زِندَگی بھر کی نعمتوں کا حساب کس طرح دیں گے! پھرآپ نے پارہ 30  کی آخِری آیت کی تلاوت فرمائی :

ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠(۸)

ترجَمۂ کنز الایمان:پھر بے شک ضَرور اُس دن تم سے نعمتوں سے پُرسِش ہوگی۔

  یہ رِقّت انگیز ارشاد سن کر لوگ دھاڑیں مار کر رونے او ر گناہوں سے توبہ توبہ پکارنے لگے۔ (مُلَخَّص ازتذکرۃ الاولیائ،  الجزء الاوّل ص اللہکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔

صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب

بخش بے پوچھے لجائے)[3](کو لجانا)[4](کیا ہے(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب !        صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قِیامت کے 5 سُوالات

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم خواہ روئیں یا ہنسیں ،جاگیں یا غفلت کی نیند سوتے رہیں قِیامت کا امتِحان بر حق ہے۔’’تِرمِذی شریف ‘‘میں اِس امتِحان کے بارے میں فرمایا جارہا ہے: انسان اُس وَقْت تک قِیامت کے روز قدم نہ ہٹا سکے گا جب تک کہ ان پانچ سُوالات کے جوابات نہ دے لے{۱}تم نے زندَگی کیسے بسر کی؟{۲}جوانی


 

کیسے گزاری ؟{۳}مال کہاں سے کمایا ؟اور{۴} کہاں کہاں خرچ کیا؟{۵}اپنے عِلم کے مطابِق کہاں تک عمل کیا؟(تِرمِذی ج۴ ص۱۸۸ حدیث۲۴۲۴)

امتِحان سر پر ہے

       آج دنیا میں جس طالبِ علم کا امتِحان قریب آجا ئے وہ کئی روزپہلے ہی سے پریشان ہوجاتا ہے،اُس پر ہر وقت بس ایک ہی دُھن سُوار ہوتی ہے: ’’ امتِحان سر پر ہے‘‘وہ راتوں کو جاگ کر اس کی تیّاری اور اَ  ہَم سُوالات پر خوب کوشِش کرتا ہے کہ شاید یہ سُوال آجائے شاید وہ سُوال آجائے،ہراِمکانی سُوال کو حل کرتا ہے حالانکہ دنیا کا امتِحان بہت آسان ہے ،اِس میں دھاندلی ہوسکتی ہے ،رِشوت بھی چل سکتی ہے، جبکہ اس کا حاصِل فَقَط اتناکہ کامیاب ہونے والے کو ایک سال کی ترقّی مل جاتی ہے جبکہ فیل ہونے والے کوجیل میں نہیں ڈالا جاتا، صِرف اتنا نقصان ہوتا ہے کہ ایک سال کی ملنے والی ترقّی سے اُس کو مَحروم کردیاجاتا ہے۔دیکھئے تو سہی! اِس دُنْیوی امتِحان کی تیّاری کیلئے انسان کتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے،حتّٰی کہ نیند کُشا گولیاں کھا کھاکر ساری رات جاگ کر اس امتِحان کی تیّاری کرتا ہے مگر افسوس! اُس قِیامت کے امتِحان کیلئے آج مسلمان کی کوشِش نہ ہونے کے برابر ہے جس کا نتیجہ کامیاب ہونے کی صورت میں جنّت کی نہ ختم ہونے والی ابدی راحتیں اور فیل ہونے کی صورت میں دوزخ کی ہولناک سزائیں !

پیشتر مرنے سے کرنا چاہئے

موت کا سامان آخِر موت ہے


 

مُسلمانوں کے سا تھ سازِشیں

       آہ !آج مسلمانوں کیساتھ زبردست سازِشیں ہورہی ہیں ، آہِستہ آہِستہ اسلام کی مَحبَّت دلوں سے دُور کی جارہی ہے،عظمتِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سینوں سے نکالا جارہا ہے،سُنّتِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مٹا یا جارہا ہے، جو کچھ ہمارے مُعاشَرے میں ہورہا ہے اُس پر غور تو فرمائیے! افسوس ! شادِیوں اور خوشی کے مَواقِع پر مسلمان سڑکوں پر ناچتے نظر آرہے ہیں ،شرم وحیا کا پردہ چاک کردیا گیا ہے۔

ولولہ سنّتِ محبوب کا دیدے مالِک

آہ! فیشن پہ مسلمان مرا جاتا ہے

ایک  لاکھ روپیہ اِنعام

      بہَر حال اسلام دشمن طاقتوں کی یہ سازِشیں ابھی سے نہیں عرصے سے چل رہی ہیں کہ پہلے مسلمانوں کو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنّتوں سے دور کردو،انہیں عیش وعشرت کا عادی بناڈالو پھر جتنا چاہواِن کو بیوُقُوف بناؤ اور ان پر راج کرو۔میں سمجھتا ہوں کہ آج کل بمشکِل چاریا پانچ فیصد مسلمان نَماز پڑھتے ہو ں گے یعنی 95فیصد مسلمان شاید نَماز ہی نہیں پڑھتے اور جتنے نَماز پڑھتے ہیں ان میں بھی شاید ہزاروں میں اِ کّا  دُکّا مسلمان ایساہوگا جس کو ظاہِری وباطِنی آداب کے ساتھ نَماز پڑھنا آتی ہوگی!اس وقت کثیر اجتِماع ہے،ان میں ایک سے ایک تعلیم یافتہ ہوگا کوئی ماسڑہوگا توکوئی ڈاکٹر ،کوئی


 

انجینئر ہوگا توکوئی افسر ۔ عُلمائے کرام کے علاوہ لاکھوں عام مسلمانوں کے اجتماع میں اگر ایک لاکھ روپے دکھا کر یہ سوال کیا جائے کہ بتائیے نَماز کے کتنے ارکان ہیں ؟دُرُست جواب دینے والے کو ایک لاکھ روپے اِنعام دیا جائے گا!شایدلاکھ روپے محفوظ ہی رہیں ۔ کیوں ؟اس لئے کہ دنیا کا ایک سے ایک فن سیکھا مگرنَماز کے ارکان سیکھنے کی طرف توجُّہ ہی نہ رہی!آج کل نَماز پڑھنے والے کو بھی شاید ہی یہ معلوم ہوکہ نَماز کے کتنے ارکان ہیں ، سَجدہ کتنی ہڈّیوں پر کیا جاتا ہے یا  وُضومیں کتنے فرض ہیں ۔

کام دیں سے رکھ نہ رکھ دنیا سے کام                              دولتِ دنیا کو نفع سمجھا ہے

پھر نہ سَر گَردان آخِر موت ہے                                  دیں کاہے نقصان آخِر موت ہے

باپ کا جنازہ

       باپ کا جنازہ رکھا ہوا ہے مگر ماڈَرن بیٹامنہ ٹکائے دور کھڑا ہے ،بے چارہ نَمازِ جنازہ پڑھنا نہیں جانتا! کیوں ؟ اس لئے کہ مرنے والے بدنصیب باپ نے بیٹے کوصِرف دُنیوی تعلیم ہی دِلوائی تھی، فَقَط دولت کمانے کے گُر سکھائے تھے، صدکروڑ افسوس! نَمازِ جنازہ کا طریقہ نہیں بتایا تھا،اگر باپ نے نَمازِ جنازہ سکھائی ہوتی، قراٰنِ پاک کی تعلیم دِلوائی ہوتی، سنّتوں پر عمل کرنے کی عادت ڈلوائی ہوتی تومرنے کے بعد بیٹادور کیوں کھڑا ہوتا، آگے بڑھ کرخودنَمازِ جنازہ پڑھاتا اور خوب خوب ایصالِ ثواب کرتا ۔آہ!اسے تو ایصالِ ثواب کرنا بھی نہیں آتا!ہائے ہائے! مرنے والے باپ کی بدنصیبی!


 

گھر کے باہر ایصالِ ثواب مگر اندر۔۔۔۔؟

          ایک اسلامی بھائی نے مجھے مرکزُ الاولیاء لاہور کا یہ واقِعہ سنایا کہ ہمارا ایک رشتے دار مال کمانے پاکستان سے باہَر گیااور کما کما کر اُس نے رنگین T.V. اور V.C.R.گھربھیجا ،پھر خودجب وطن آیا،تواسکا انتقال ہوگیا۔ اسلامی بھائی کا کہنا ہے کہ میرا بڑا بھائی رشتے داری کے لحاظ سے مرحوم کے دسوَیں میں مرکزُ الاولیاء لاہور گیا۔جب گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ باہَر قراٰن خوانی ہورہی ہے اورفاتحہ کیلئے دیگیں پک رہی ہیں ۔جب گھر کے اندر گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مرحوم کے بیوی اوربچے V.C.R. پر فلم دیکھنے میں مشغو ل ہیں !گھر کے باہَر ایصالِ ثواب اور مُردے کے گھر کے اندر اُسی کے لائے ہوئےV.C.R.پر اِرتکابِ گناہ ہورہا تھا!

ایماں پہ موت بہتر او نفس!

تیری ناپاک زندگی سے(حدائقِ بخشش شریف)

د ین سے دُور کیا جارہا ہے

      اپنی اولاد سے مَحَبّت کرنے والو!اگر اپنے بچّوں کوفلمیں ڈرامے دیکھنے کیلئے T.V. اور V.C.R. لے کر دو گے تو شاید وہ تمہاری نَمازِ جنازہ بھی نہ پڑھ پائیں گے بلکہ قبر پر صحیح معنوں میں فاتِحہ بھی نہیں پڑھ سکیں گے۔جن کے پیشِ نظر قیامت کا امتحان ہوتا ہے اُن کا دل جلتا ہے کہ ہمارے دلوں میں اسلام کی جو تھوڑی بہت مَحبَّت ہے وہ بھی نکالی جا رہی ہے۔ دیکھئے ! ہسپانیہ (اسپین)جوکبھی اسلام کا مرکز تھا وہاں مسجِدوں پر تالے ڈالدئیے


 

گئے! بعض ایسے ممالِک بھی ہیں جہاں قراٰن شریف پڑھنا تو دُور کی بات، رکھنے ہی پر پابندی ہے۔ دشمنانِ اسلام کی طرف سے یہ سازِش کی جارہی ہے کہ ان مسلمانوں کے دلوں سے دین کی مَحبَّت نکال لو۔ بیشک یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہیں لیکن انکو اندر سے بالکل خالی کردو۔

کثرتِ اولاد ثروت پر غُرور

کیوں ہے اے ذیشان آخِر موت ہے

مُسلمان کو مُسلمان کب چھوڑا ہے؟

      ایک پاکستانی عالم کا کسی غیر مسلم مذہبی رہنُماسے جو مُکالمہ ہوا،اُسے اپنے انداز میں عرض کرتا ہوں :دورانِ گفتگو غیر مسلم رہنمانے بتایا کہ پاکستان میں ہمارے مذہب کی تبلیغ پر زرِ کثیرخرچ ہوتا ہے۔اُس عالم صاحِب نے پوچھا: تم لوگوں نے اب تک کتنے فیصد مسلمانوں کا مذہب تبدیل کیا ہے ؟اُس نے کہا: بہت تھوڑوں کا۔ تو اُس عالم نے فاتِحانہ انداز میں کہا:اس کا مطلب یہ کہ تمہاری تحریکیں ہمارے ملک میں ناکام ہیں ۔ اِس پر وہ ہنس کرکہنے لگا:مولوی صاحِب! یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ تعدادکو ہم مذہب بنانے پر ہمیں کامیابی حاصِل نہیں ہوئی لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ ہم نے مسلمان کو عملی طورپر مسلمان کب چھوڑا ہے؟کیا آپ کلین شَیو اور پینٹ شرٹ میں کَسے کسائے مسلم اورغیر مسلم میں امتیاز کرسکتے ہیں ؟ آپ کے ایک مَاڈَرن مسلما ن اور ایک غیر مسلم کو برابر برابر کھڑا کردیا جائے تو کیا آپ شناخت کرلیں گے کہ اِن میں مسلمان کون سا ہے؟اس پر عالم صاحِب لا جواب ہوگئے!میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ حقیقت ہے کہ ہماری وَضع


 

 قَطع اور لباس میں سے اب مسلمانوں کی ظاہری علامتیں تقریباً رخصت ہوچکیں ، سنّتوں سے بے انتہا دُوری ہوگئی،جن کا چہرہ نبیِّ پاک ، صاحِبِ لَولاک ،سَیَّاحِ ا فلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سُنّت کے مطابِق ہوشایدایسے مسلمان اب دنیا میں ایک فیصد بھی نہ رہے !

شیطان کی سازِش

      افسوس! تقریبا ً99فیصد مسلمان آج غیر مسلِموں جیسے چِہرے او ر لباس میں ملبوس رہتے ہیں ۔ہوسکتا ہے کسی کو میری بات ناگوار گزرے اور اس وجہ سے اُسے مجھ پر غصّہ بھی آرہا ہو ،یاد رکھئے! یہ بھی شیطان ہی کی ایک سازِش ہے کہ جب ان مسلمانوں کو دین کی کوئی بات بتائی جائے توغُصّہ آجائے اور سننے کے بجائے چلتے بنیں تاکہ ذِہن میں کوئی بھلائی کی بات گھرہی نہ کرسکے۔شیطان شاید میری باتوں پر خوب ہنس رہا ہوگا کہ خواہ لاکھوں مسلمان دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں آگئے ہوں تب بھی اس سے کیا ہو گا ! دنیا میں کروڑ ہا کروڑ ایسے ہیں جو داڑھی منڈواکر یاایک مُٹھی سے گھٹاکر دشمنانِ اسلام جیسا چِہرہ بنائے اور لباس اپنائے ہوئے ہیں ۔آج کل کے بے شمار مسلمانوں کی بے عملی کے باعِث غالباً مبلغین دعوتِ اسلامی سے کہتا ہوگا تم چاہے کتنا ہی زور لگالو مگر لوگ اب تمہاری باتوں میں آنے والے نہیں ، میں نے ان کا تہذیب وتمَدُّن یکسر بدل کر رکھ دیا ہے، ان کے چہرے اور لباس تمہارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّتوں کے مطابِق نہیں بلکہ میرے متوالوں اور جہنَّم میں میرے ساتھ رہنے والوں جیسے ہی رہیں گے۔ میں ان کو


 

 لذّاتِ نفسانی میں پھنسائے ہی رکھوں گا۔

سرورِ دیں لیجے اپنے ناتُوانوں کی خبر

نفس و شیطاں سیِّدا کب تک دباتے جائیں گے(حدائقِ بخشش شریف)

گناہوں کے آلات

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! پہلے پَہَل ریڈیوپاکستان پر’’ آپ کی فرمائش ‘‘ کے عُنوان سے ریڈیو پر گانے سنائے جاتے تھے مگر ہر کسی کو اُ س کی اپنی مرضی کے مطابق پھر بھی گانا سننا نہیں ملتا تھا،پھر  ٹیپ ریکارڈر کا سلسلہ چلا اور ہر کوئی اپنی مَرضی کے گانے سننے لگا۔ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے میں تو ٹیپ ریکارڈرمیں بیان اورنعتیں وغیرہ سنتا ہوں ، آپ دُرُست فرماتے ہیں مگر میں اکثریَّت کی بات کررہا ہوں ، یقینا اب ہزاروں بلکہ لاکھوں میں شاید کوئی مسلمان ایسا ہو جو فَقَط تلاوت ،نعتیں اور بیان سننے کیلئے ٹیپ ریکارڈ خریدتا ہو، اکثریت گانے ہی سننے کیلئے لیتے ہیں ۔ بلکہ کئی بار سنّتوں کا درد رکھنے والے اسلامی بھائی مجھ سے اپنا دکھ بیان کرتے ہیں کہ ہم جب کبھی آپ کے سنّتوں بھرے بیان کی کیسٹ چلاتے ہیں ، گھر والے لڑائی کر تے اور زبردستی فلمی گانوں کے کیسٹ چلاتے ہیں ہماری تذلیل کرتے اور سگِ مدینہ عفی عنہ کو بھی برا بھلا کہتے ہیں ۔آہ!!

ٹھکرائے کوئی دُرکارے کوئی ، دیوانہ سمجھ کر مارے کوئی

سلطانِ مدینہ لیجے خبر ہوں آپ کے خدمتگاروں میں


 

T.V.کب ایجاد ہوا؟

       لوگوں کو مزیدعیّاشیوں میں دھکیلنے کیلئے شیطان نے 1925؁ء میں T.V. چلوا دیا۔ شُروع شُروع میں یہ غیر مسلموں کے پاس ہی تھا، اس کے بعد مسلمانوں کے پاس اور پاکستان میں بھی آ پہنچا۔ شُروع شُروع میں بڑے شہروں کے خاص خاص پارکو ں وغیرہ میں لگایا جاتا تھا اور اس پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوتی تھی، پھر آہستہ آہستہ اس نے گھروں میں گُھسنا شروع کردیا،لیکن ابھی وہ بلیک اینڈ و ائٹ تھا، اس کے بعد مزیدتفریح کیلئے رنگین T.V. بھی ایجاد ہو گیا۔ پھر کچھ عرصے بعد پاکستان میں V.C.R. کی آمد ہوئی اور  گھروں میں غیر قانونی سینما گھر کھل گئے اور لوگ چُھپ کر دس دس روپے میں فلمیں دیکھنے لگے۔انہیں دنوں اخبار وں میں یہ خبر آئی کہ کراچی کیلئے V.C.R .کے اتنے اتنے لائسنس جاری کردئیے گئے!اب فلمیں دیکھنے کاجو’’ جرم‘‘ لوگ رشوتیں دیکر اور چُھپ چُھپ کرکرتے تھے اُسی گناہ کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ’’قانونی تحفُّظ‘‘ حاصِل ہوگیا !  اور طرح طرح کی گناہوں بھری گندی فلموں کی نحوستیں لئے  V.C.R.گھر گھر آگیا۔یاد رکھئے !ا گر مُلکی قانون کسی گناہ کو جائز کردے تو وہ جائز نہیں ہوجاتا۔

کب گُناہوں سے کنا را میں کروں گا یارب!

نیک کب اے مِرے بنوں گا یا رب!


 

جہنَّم میں کُودنے کی دھمکی

      ایک بارکسی نوجوان نے سگِ مدینہ عفی عنہ سے کہا:میں نے بابُ المدینہ کراچی کے عَلاقے رنچھوڑ لائن میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ایک اجتماع میں سنّتوں بھرا بیان سن کر داڑھی مبارَک کی سُنّت اپنے چہرے پر سجالی ہے ۔میری ماں مجھے داڑھی رکھنے سے مَنْع کرتی اوردھمکی دیتی ہے کہ اگر تم نے داڑھی نہیں کاٹی تو میں زَہر کھا کر مر جائونگی۔یہ نوجوان کوئی کافِر زادہ نہیں مسلمان کا لڑکا تھا،اس کی مسلمان کہلوانے والی ماں اسے سُنّت سے روکتے ہوئے خودکُشی کی دھمکی دیتی تھی، گویا کہتی تھی: بیٹا!داڑھی مُنڈوا دے ورنہ جہنّم میں چھلانگ لگادونگی! آہ! مسلمان کہلانے والوں کی سنّتوں سے اِس قدَر دُوری ! اَلْاَمان وَالْحفیظ ۔

وہ دور آیا کہ دیوانۂ نبی کیلئے

ہر ایک ہاتھ میں پتّھر دکھائی دیتا ہے

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یاد رہے! داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے گھٹانا دونوں گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام ہیں اور ماں باپ اگر کسی گناہ کا حکم دیں تو اُن کی وہ بات نہیں مانی جائے گی کہ حدیثِ پاک میں ہے:’’ لَاطَاعَۃَ فِیْ مَعصِیَۃِ اللّٰہِ اِنَّمَاالطَّاعَۃُ فِی الْمَعرُوْفِ۔‘‘ یعنی کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں اِطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔  ( مُسلِم ص ۱۰۲۳ حدیث ۱۸۴۰ ) نیز جو ماں باپ اپنی اولاد کو داڑھی رکھنے سے روکتے ہیں اُن کو اس سے باز رہنا ضَروری ہے کہ داڑھی بڑھانا سنتِ رسول اور ایک عظیم الشّان نیکی ہے، نیکی اور بھلائی سے روکنا مسلمانوں کا نہیں


 

غیر مسلموں کا شیوہ ہے۔ چُنانچِہ بہت بڑے گستاخِ رسول ولید بن مُغیرہ کے جو دس عیوب قراٰنِ کریم میں ذِکر کئے گئے ہیں اُن میں سے ایک عیب یہ بھی ہے:( پ ۲۹،القلم آیت: ۱۲)

مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ ترجَمۂَ کنز الایمان :بھلائی سے بڑا روکنے والا ۔

    جاہل پروفیسر

      بعض لوگ کہتے ہیں T.V. کے چینلوں پراچھی اچھی باتیں بھی آتی ہیں ، آتی ہونگی،مگر مجھے کہنے دیجئے کہ اس T.V. کے گناہوں بھرے اور غیر ذمے دار چینلزنے درحقیقت خوفناک طوفانِ بدتمیزی کھڑا کردیا ہے اور اسلامی مُعاشَرے کو تباہی کے گہرے گڑھے میں جھونک دیا ہے۔ کہتے ہیں :T.V. کے کسی چینل پر ایک بارکوئی پروفیسر آیا تھا، سُوال جواب ہورہے تھے ،اس میں ایک داڑھی کا سُوال آیا۔ جواباً اُس نے کہا:’’داڑھی رکھو تو بھی ٹھیک نہ رکھو تو بھی ٹھیک،داڑھی نہ رکھنا کوئی گناہ نہیں ۔‘‘ اب توبعض والِدین نے اپنے نوجوان بیٹوں پر اور بھی بگڑنا اوراُول فُول بکنا شروع کردیا کہ تم دعوتِ اسلامی والوں نے اپنے اوپر کیا کیا سختیاں مُسلَّط کرلی ہیں ۔اتنا بڑا پروفیسر T.V.پر آیا اوراس نے کہا کہ داڑھی نہ رکھنا گناہ نہیں اورتم لوگ کہتے ہو گناہ ہے۔دین کے مُعامَلے میں معلومات سے کورے اُس جاہل پروفیسر کے اِس غیرشَرعی مگر بے عمل لوگوں کے نَفس کو بھانے والے جواب نے نہ جانے کتنے مسلمانوں کے ذِہن خراب کردئیے !۔خیرعشقِ رسول  سے لبریز دل سے یہی صدا آتی ہے :   ؎


 

مجھے پیارا وہ لگتا ہے، مجھے میٹھا وہ لگتا ہے

عِمامہ سر پہ اور چِہرے پہ جو داڑھی سجاتا ہے

نفس وشیطان کے خِلاف جہاد

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کیسی چالاکی کے ساتھ اسلام کی جَڑوں کو کَھوکھلا کیا جارہا ہے۔ کیا ہم کچھ نہیں کرسکتے؟کیوں نہیں کرسکتے !دل تو جلا سکتے ہیں ،اور اس طرح ثواب تو کما سکتے ہیں ، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نفس و شیطا ن کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی ۔

سنّتیں عام کریں دین کا ہم کام کریں

نیک ہوجائیں مسلمان مدینے والے

داڑھی منڈانا حرام ہے

       میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مو لاناشاہ امام اَحمد رضا خان نے اپنے رسالے’’ لَمْعَۃُ الضُّحٰی فی اِعْفائِ اللُّحٰی‘‘ میں آیاتِ مقدّسہ، احادیثِ مبارکہ اور بزرگانِ دینکے اقوالِ شریفہ کی روشنی میں داڑھی بڑھانا واجِب اور مُونڈنا یا کتروا کر ایک مٹھی سے کم کردینا حرام ثابت کیا ہے۔ داڑھی رکھنے کی اَہمِّیّت پر مکتبۃُ المدینہ کے رسالے کالے بچھو (24صفحات)کا ضرور مُطالَعہ کیجئے۔ اگر خدانخواستہ  آپ نے داڑھی نہیں رکھی تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّتوبہ کرکے مَدَنی چہرے والے بن جائیں گے۔


 

سکرات کادل ہلا دینے والا تصوُّر!

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچئے کہ ایک وقت سکرات کا بھی آنا ہے، روح جسم سے جدا ہو رہی ہو گی ، موت کے جھٹکوں پر جھٹکے آ رہے ہوں گے اور آہ!جھٹکے بھی ایسے کہ حدیثِ پاک میں ہے:’’ موت کا جھٹکا تلوار کے ہزار وار سے سخت تر ہے )[5](۔ ‘‘   ہائے ! ہائے!میرا کیا بنے گا ، میں تو دنیا کی رنگینیوں میں کھویا رہاہوں ،بہتر سے بہترین لذتوں والی غذائوں اوردُنیوی نعمتوں کا شوقین رہا ہوں جبکہ روایت میں آیاہے: بے شک سکراتِ موت کی شدّت دنیا کی لذت کے مطابِق ہے، تو جس نے زیادہ لذّتیں اٹھائیں اُسے نَزع کی تکلیف بھی زیادہ ہو گی۔)[6](پھر وہ وقت بھی آہی جائے گا کہ میرے نام کا شور پڑا ہو گا کہ اُس کا انتِقال ہوگیا، جلدی جلدی غَسّال کو لے آؤ! اب غَسّال تختہ اُٹھا کر چلاآرہا ہوگا ،مُردہ جسم پر چادر اُڑھی ہوگی، سر سے ٹَھوڑی تک منہ بندھا ہوگا، پائوں کے دونوں انگوٹھے باندھ دئیے گئے ہوں گے، غَسّال ہی غسل دے گا،کفن پہنائے گا،بیٹا نہ غسل دے گا، نہ ہی کفن پہنائے گا کیوں کہ جوں ہی اس نے ہوش سنبھالامیں نے اس کو اسکول کا دروازہ دکھایا، بڑا ہوا تو کالج میں داخِلہ دلایا ،پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ بھجوایا ، دنیاوی امتِحانات کی تیّار ی کاخوب شوق بڑھایااگرنہیں پڑھایا تو دین نہیں پڑھایا! غسلِ میِّت یہ خاک دے گا! اسے تو خود اپنے زندہ وُجُود کے غسل کی سنّتیں بھی نہیں معلوم ،ہاں ہاں ! باپ


 

 کی آخِری خدمت یہ بھی ہے کہ اس کا بیٹاہی نہلائے ، کفن پہنائے، نَمازِجنازہ بھی پڑھائے اوراپنے ہاتھوں سے ہی دفنائے ۔ظاہِر ہے اگر بیٹا غسل دیگا تو رِقّت کے ساتھ رو رو کر اور سنّتوں کو ملحوظ رکھ کر دے گا جبکہ کرائے کا غَسّال ہوسکتا ہے جُوں تُوں پانی بہا کر ،کفن پہنا کر ، پیسے جیب میں سَرکا کر چلتا بنے ۔

میّت پر نوحہ کرنے کا عذاب

      اب جنازہ اُٹھایا جائیگا ،گھر کی عورَتیں چیخیں گی ، واویلا کریں گی،میں نے ان کو اس سے کبھی منع نہیں کیا تھا کہ میِّت پر نَوحہ حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے حدیثِ پاک میں ہے:’’نوحہ کرنے والی نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کی،تو قِیامت کے دن اِس طرح کھڑی کی جائے گی کہ اُس پرایک کُرتا قَطر ان( یعنی رال) کا ہوگا اور ایک کُرتا جَرَب (یعنی کُھجلی) کا۔(مُسلِم ص۴۶۵ حدیث۹۳۴)

جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ

       بَہرحال جنازہ اٹھا کر لوگ چل پڑینگے ،بیٹا شاید صحیح طرح سے کندھا بھی نہیں دے سکے گا کیونکہ میں نے اس کو سِکھایا ہی کب تھا!اس غریب کو کیا پتا کہ سنّت کے مطابِق کندھا کس طرح دیتے ہیں ؟جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ بھی سُن لیجئے، دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ، بہارِ شریعت جلد اوّل صَفْحَہ 822پر ہے:سنَّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر


 

بار دس دس قدم چلے اور پوری سنّت یہ کہ پہلے دہنے سرہانے کندھا دے پھر دہنی پائنتی پھر بائیں سرہانے پھر بائیں پائنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے۔

جنازے کو کندھا دینے کے فضائل

        حدیثِ پاک میں ہے:’’جو جنازے کو چالیس قدم لے کر چلے اُس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹادئیے جائیں گے‘‘ (المبسوط ج۱جز۲ص۸۸) ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ہے:’’جو جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کی حتمی( یعنی مستقل)  مغفرت فر ما دے گا ۔‘‘(الجوھرۃ النیرۃج ۱ ص۱۳۹)

بالآخِرمیرے ناز اٹھانے والے اپنے ہاتھوں سے مجھے تنگ و تاریک قبر میں اتار کر اوپر منوں مٹّی ڈال کر تنہا چھوڑ کر چلدیں گے۔ آہ!

قبر میں مجھ کو لِٹا کر اور مِٹّی ڈال کر      چل دیے سا تھی نہ پاس اب کو ئی رِشتے دار ہے

خواب میں بھی ایسا اندھیرا کبھی دیکھا نہ تھا        جیسا اندھیرا ہماری قبر میں سرکار ہے

یا رسولَ  اللّٰہ !   آکر  قبر  روشن  کیجئے

                    ذات بے شک آپ کی تو مَنبعِ انوار ہے(وسائلِ بخشش شریف)

قبر کی روشنی کا احساس نہ رہا

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دنیا میں رہنے کیلئے مکانات بَہُت وسیع و عریض


 

بنائے جاتے ہیں لیکن افسوس! قبر سنّت کے مطابِق نہیں بن پاتی۔  ۱ ؎    گھروں کی فراخی کا توخیال ہے لیکن قبر کی وُسعت کا ہمیں کوئی احساس نہیں ،دُنیا کے روشن مستقبل کی تو ہرایک کوفکر ہے مگر قبر کی روشنی کی طرف کسی کا دھیان نہیں ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو قبر بھی مُستَقبِل میں شامل ہے۔گھر میں روشنی کا سب اہتِمام رکھیں گے مگر قبر کی روشنی کی کسے فکر ہے ؟مال بڑھانے کی ہر ایک کو جُستجو ہے مگر نیک اعمال بڑھانے کی کسی کو نہیں پڑی ہے!جان کی سلامتی کیلئے انتہائی فکر مند ہیں مگر ایمان کی سلامتی کاشُعوربہت کم ہوگیا۔

ع     مال سلامت ہر کوئی منگے دین سلامت کوئی ہو

شِفاخریدی نہیں جاسکتی

      یاد رکھئے !دولت سے دوا تو مل سکتی ہے لیکن شِفا خریدی نہیں جا سکتی، اگر دولت سے شِفا مل سکتی ہوتی تو بڑے بڑے امیر زادے ہَسپتالوں میں اَیڑیاں رگڑ رگڑ کرہر گز نہ مرتے !دولت مصیبتوں اور پریشانیوں کا علاج نہیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ حلا ل طریقے سے مال و دولت کمانا اور اُس کو جمع کر کے رکھنا شرعاً جائز ہے جب کہ اس کے حقوقِ واجبہ ادا کرتا رہے۔ مگر دولت کی کثرت کی حِرص اچھّی بات نہیں ، اِس کے مَنفی اثرات(Side Efects)کثیر ہیں ۔ دولت کی زِیادت عموماً مَعصیت کی طرف بَہُت تیزی سے لے جاتی ہے، نیزآج کل دولت کی کثرت اکثر مصیبت کاپیش خیمہ بنتی ہے ،


 

ڈاکے زیادہ تر مالداروں ہی کی کوٹھیوں پر پڑتے ہیں ، عُموماً مالداروں ہی کے بچّے اِغوا کئے جاتے ہیں ، دھاڑِیَل (ڈاکو)چِٹھیاں بھیج کر سرمایہ داروں ہی سے بھاری رقمیں طلب کرتے ہیں ،فی زمانہ دولت کی کثرت سے سُکونِ قلب ملنا توکُجا اُلٹا بہت سو ں کاچَین بربادہوا جاتا  ہے، پھر بھی حیرت ہے کہ لوگ دولت کی جستجو میں مارے مارے پھرتے اورحلال حرام کی تمیز اٹھا دیتے ہیں ۔

جُستُجو میں کیوں پھریں مال کی مارے مارے

ہم تو سرکار کے ٹکڑوں پہ پلا کرتے ہیں

مالداریاں اور بیماریاں

       بڑے بڑے دولت مند دیکھے ہیں ، جو طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتَلا ہیں ، کوئی اولاد کے لئے تڑپتا ہے،کسی کی ماں بیمار ہے،کسی کا باپ مر یض تو کوئی خود مُوذی بیماری میں گرِ فتار ہے،کتنے مالدار آپ کو ملیں گے جو ’’ ہارٹ اٹیک‘‘ سے دوچار ہیں ،کئی شُوگر کی زیادتی کا شکارہیں اور بیچارے میٹھی چیز نہیں کھا سکتے۔طرح طرح کی کھانے کی اَشیاء سامنے موجود مگراَرَب پتی سیٹھ صاحِب چکھ تک نہیں سکتے۔ بے چارے دولت و جائیداد کے تصوُّر سے دل بہلاسکتے ہیں ،پھر بھی دولت کا نشہ عجیب ہے کہ اُترنے کا نام ہی نہیں لیتا! یقین جا نئے! حلال و حرام کی پرواہ کئے بِغیردَھن کماتے چلے جانا صِرف اورصرف نادان انسان کی دُھن ہے، اتنا نہیں سوچتا کہ آخِر اتنی دولت کہاں ڈالوں گا؟ فُلاں


 

فُلاں سرمایہ دار بھی تو آخِرموت کے گھاٹ اُترگیا! اس کی دولت اسے کیا کام آئی؟۱ُلٹاہوا یہ کہ وارِثوں میں وِرثے کی تقسیم میں لڑائیاں ٹھن گئیں ، دشمنیاں ہوگئیں ،کورٹ میں پہنچ گئے اوراخباروں میں چَھپ گئے اورخاندانی شرافتوں کی دھجیاں بکھر گئیں ۔   ؎

دولتِ دنیا کے پیچھے تُو نہ جا     آخِرت میں مال کا ہے کام کیا!

مالِ دنیا دو جہاں میں ہے وَبال   کام آئے گا نہ پیشِ ذوالجلال

قبر کے سُوال و جواب

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کبھی کبھی اس طرح سوچئے! کہ میرا لاشہ منوں مٹّی تلے قبرمیں دفْن کرکے اَحباب چلے جائیں گے۔یہ خوشنُما گلستاں ، لہلہاتی کھیتیاں ،نئے ماڈل کی چمکیلی گاڑیاں ،عالیشان کوٹھیاں وغیرہ کچھ بھی کام نہیں آئے گا۔ دو خوفناک شکلوں والے  فِرِشتے  مُنکَر نَکِیْر قبر کی دیواریں چیرتے ہوئے تشریف لائیں گے، لمبے لمبے سیاہ بال سر سے پائوں تک لٹک رہے ہونگے، آنکھیں آگ برسارہی ہونگی، اب امتِحان شروع ہوگا،پیار سے نہیں بلکہ وہ جِھڑک کر اُٹھائیں گے اور انتہائی سخت لہجے میں سُوالات فرمائیں گے: (۱)مَنْ رَّبُّکَ؟ یعنی تیرا ربّ کو ن ہے؟(۲)مَادِیْنُکَ ؟یعنی تیرا دین کیاہے؟ (۳) پھر ایک سو ہنی مو ہنی صورت دکھائی جائیگی جس پر فِدا ہونے کیلئے ہر عاشق تڑپتا ہے وہ دلرُباصورت دکھا کر پوچھا جائیگا:  مَا کُنْتَ تَقُولُ فِیْ  ہٰذَا الرَّجُل؟یعنی ان کے بارے میں تو کیا کہتاتھا؟اے نَمازیو !اے ماں باپ کے فرماں بردارو!اے رشتے داروں سے حسنِ


 

سلوک کرنے والو!اے صرف حلال روزی کمانے والو!اے ایک مٹّھی داڑھی سجانے والو! اے سر پر سُنّت کے مطابِق زلفیں بڑھانے والو!اے اپنے سروں پر عمامہ شریف کے تاج سجانے والو!اے سنّتوں کی تَربِیَّت کیلئے مَدَنی قافِلوں میں سنتوں بھرا سفر فرمانے والو! اے روزانہ فکرِ مدینہ کے ذریعے مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُر کر کے ہر ماہ جمع کروانے والو!اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ ضَرور کامیاب ہوجائیں گے،خدا و مصطَفٰےکے کرم سے آپ کے جوابات یہ ہوں گے: رَبِّیَ اللّٰہ یعنی میرا ربّ ہے ۔ دِیْنِیَ الْاِسْلَامُ یعنی میرا دین اسلام ہے۔دِلرُبا صورت والے کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے: ھُوَ رسولُ اللّٰہ یہ تو میرے میٹھے میٹھے آقا محمدٌ رسولُ اللّٰہ    ہیں ،اور جھوم جھوم کر کہہ رہے ہوگے:

سرکار کی آمد مرحبا   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

دِلدار کی آمد مرحبا   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں میں گروں

گر فِرِشتے بھی اٹھائیں تو میں ان سے یوں کہوں

اِنکے پائے ناز سے میں اے فِرِشتو! کیوں اُٹھوں

مر کے پہنچا ہوں یہاں اِس دلرُبا کے واسِطے

اے صلوٰۃ وسلام پر جھومنے والو!نامِ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُن کر انگوٹھے


 

چومنے والو!جب سرکارِ مدینہ جلوہ دکھا کر واپَس تشریف لے جانے لگیں گے تو بے قرار ہوکر بے ساختہ زَبان پر جاری ہوجائیگا:

دل بھی پیاسا نظر بھی ہے پیاسی کیا ہے ایسی بھی جانے کی جلدی

ٹھہرو ٹھہرو ذرا جانِ عالم!       ہم نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آخِری سُوال کاجواب دینے کے بعد جہنَّم کی کِھڑکی کھلے گی اور معاً ( یعنی فوراً ) بند ہوجائے گی اور جنّت کی کِھڑکی کُھلے گی اور کہا جائیگا: اگرتُو نے دُرُ ست جوا بات نہ د ئیے ہوتے تو تیرے لئے وہ دوز خ کی کِھڑکی تھی ۔یہ سن کراُسے خوشی بالائے خوشی ہوگی،اب جنّتی کفن ہوگا، جنّتی بچھونا ہوگا،قبر تاحدِّنظر وَسیع ہوگی اور مزے ہی مزے ہونگے ۔

قبر میں لہرائیں گے تاحشر چشمے نور کے

جلوہ فرما ہوگی جب طَلعت کی(حدائق بخشش)

جواباتِ قبر میں ناکامی کے اساب

      خدانخواستہنَمازیں ضائِع کرتے رہے، جھوٹ بولتے رہے،غیبت کرتے رہے، حرام روزی کماتے رہے،فلمیں ڈِرامے دیکھتے دِکھاتے اورگانے باجے سنتے سناتے رہے، مسلمانو ں کا دل دُکھاتے رہے، اگر ربّ عَزَّوَجَلَّ ناراض ہوگیااور اس کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ روٹھ گئے ،اگر گناہوں کی نحوست کے باعث مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ ایمان


 

برباد ہوگیا ،تو پھر ہر سُوال پر منہ سے یِہی نکلے گا: ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ لَا اَدْرِی(ہائے افسوس ! ہائے افسوس! مجھے تو کچھ نہیں معلوم )ہائے! ہائے! جب سے آنکھ کھلی T.V.پر نظر تھی،جب سے کانوں نے سنا تو فلمی گانے ہی سنے، مجھے کیا معلوم خدا  کیا ہے؟مجھے کیا پتا دین کیا ہے؟میں نے تو دنیا میں اپنی آمد کا مقصد صِرف اِسی کو سمجھا تھا کہ بس جیسے بن پڑے مال کمائو اور بیوی بچّوں کو نبھاؤ۔ اگر کبھی کسی نے میری آخِرت کی بہتری کی خاطِر مجھے سنّتوں بھرے اجتماع میں  شرکت یا مَدَنی قافِلے میں سفر کی دعوت دی بھی تو یہ کہکرٹال دیا تھاکہ سارا دن کام کرکرکے تھک جاتا ہوں ، وَقت ہی نہیں ملتا ۔ اسلامی بھائیو! جیتے جی تو یہ جواب چلتا رہے گا،کاروبار چمکتا رہے گا،اور بینک بیلنس بڑھتا رہیگا لیکن یاد رکھئے!

سیٹھ جی کو فِکر تھی اِک اِک کے دس دس کیجئے

موت آپہنچی کہ مسٹر! جان واپَس کیجئے

       بہرحال جس کا ایمان برباد ہوچُکا تھا اُس سے آخِری سُوال کرلینے کے بعدجنّت کی کِھڑکی کُھلے گی اور فوراً بند ہوجائیگی پھرجہنَّم کی کھِڑکی کُھلے گی اور کہا جا ئیگا: اگرتُونے دُرُست جواب دیے ہوتے تو تیرے لئے وہ جنّت کی کھِڑکی تھی۔ یہ سن کراُسے حسرت بالائے حسرت ہوگی،جہنَّم کی طرف دروازے سے اُس کو گرمی اور لَپَٹ پہنچے گی، اُسے آگ کالباس پہنایا جائے گا، اُس کے لئے آگ کا بستر بچھایا جائے گا، اس پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے، جو اندھے اور بہرے ہوں گے، ان کے ساتھ لوہے کاگُرز ہو گا کہ


 

پہاڑ پر اگر مارا جائے تو خاک ہو جائے، اُس ہتوڑے سے اُس کو مارتے رہیں گے۔ نیز سانپ اور بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے، نیز اعمال اپنے مناسب شکل پر متشکل ہو کر کتّا یا بھیڑیا یا اور شکل کے بن کر اُس کو ایذا پہنچائیں گے۔(بہارِشریعت ج۱ ص ۱۰ ا۔ ۱۱۱)

آج مچھّر کا بھی ڈنک آہ! سہا جاتا نہیں

قبر میں بچھّو کے ڈنک کیسے سہے گا بھائی؟

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دولتِ دُنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھنا دانشمندی نہیں ، یہ یادِ الٰہی سے غفلت کا باعِث نہیں بننی چاہئے، ایمان والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے پارہ28 کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-

ترجَمۂ کنزالایمان:  اے ایمان والو!  تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں  کے ذِکر سے غافِل نہ کرے ۔

یہ نہ کہنا کہ کوئی سمجھانے والانہیں ملا

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رزقِ حلال کی طلب میں ہرگز ایسی مصروفیّت مت رکھئے جو نَمازوں سے غافِل کردے اگر خدانخواستہ حرام روزی اورسودی کارو بار کا سلسلہ ہو  تو اسے چھوڑ دیجئے، رشوت کا لین دَین ترک کر دیجئے، دیکھئے! مرنے کے بعد یہ نہ کہنا کہ ہمیں کوئی سمجھانے والا نہیں ملا تھا۔ طرح طرح کے گناہوں میں رچے بسے رہنے والوں کو


 

ڈرجانا چاہئے کہ!اگر گناہوں کے سبب ایمان برباد ہوگیا تو کیا بنے گا! پارہ24 آیت نمبر 54 میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اَنِیْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(۵۴)

ترجَمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کی طرف رُجوع لائو اور اُس کے حضُور گردن رکھو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ ہو۔

یاالٰہی مِرا ایمان سلامت رکھنا

دونوں عالم میں خدا سایۂ رحمت رکھنا

ہم چھو ٹے ہوتے جارہے ہیں !

 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!زندگی کاکیا بھروسا ! آپ کی صحّت لاکھ اچھّی ہومگرکیا آپ نہیں جانتے کہ یکایک زلزلہ آجاتا ہے یا بسیں ،کاریں اور ریل گاڑیاں اُلٹ جاتی ہیں یا اچانک بم دھماکا ہوتا اور لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں اور اگر فَضا میں طیّارہ پھٹ جائے پھر تو لاشوں کی شناخت بھی دشوار ہو جاتی ہے ،عُہدہ او ر مَنصب کچھ بھی کام نہیں آتا،آدمی ایک جھٹکے میں مرجاتا ہے، یہ انمول سانس جلدی جلدی نکل رہے ہیں ، جوایک بار نکل جاتا ہے پلٹ کر نہیں آتا یقینا ہر سانس موت کی جانب ایک قدم ہے،آپ کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کی 12ویں سالگِرہ ہے،سمجھتے ہیں کہ بڑا ہوگیا ہے،اگر گہرائی میں دیکھیں تو آپ کا بیٹا بڑا نہیں چھوٹا ہوتا جارہا ہے،مَثَلاً اُس نے دنیا میں 25برس زندہ رہنا تھا تو اُس


 

میں سے 12سال کم ہو چکے ، اورگویا وہ آدھی زندگی گزار چکا،یقینا ہم سبھی رفتہ رفتہ موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں ، ہم سب کی عمر یں گھٹتی جارہی ہیں یوں ہم سب بڑے نہیں ’’ چھوٹے‘‘ ہوتے جارہے ہیں ،گھڑی کا گزرنے والا ہر گھنٹاہماری عمر کے ایک گھنٹے کے کم ہوجانے کی اطِّلاع دیتا ہے۔

غافِل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے مُنادی

گردُوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹادی

دُنیوی امتحان کی اَہَمّیَّت

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! قبر کے امتحان سے گزرکر قیامت کے امتحان سے سابقہ پڑناہے ۔ صدکروڑافسوس! ہمارے پاس اس کی کوئی تیّاری نہیں ،البتّہ ملازمت کی خاطر انٹرویو میں کامیابی حاصِل کرنے کیلئے نیز اسکول یا کالج کے امتحان میں پاس ہونے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگا دیا جاتا ہے۔اس مَقولے:’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ‘‘ یعنی’’ جس  نے کوشِش کی اُس نے پالیا‘‘کے مِصداق ا گر صِرف دُنیاوی امتِحانات کیلئے کوشِش کی بھی تو ہو سکتا ہے دنیا میں عارِضی خوشیاں نصیب ہوجائیں لیکن قِیامت کے امتِحان  کا کیا ہو گا!یقینا ایک دن مرنا اور قبر وآخِرت کے امتِحانات سے گزرنا ہے، اُن امتِحانات   میں نہ دھوکا چلے گااور نہ ہی رِشوت،دوبارہ موقع بھی نہیں ملے گا، یہ سب کچھ جاننے کے باوُجُود لوگوں کی دُنیوی امتِحان کی طرف تو توجُّہ ہے مگر قِیامت کے امتِحان سے سراسر


 

 غفلت ہے ۔دنیا کے امتِحان کیلئے تو آج کل طلبہ رات بھر پڑھتے نیند آئے تو نیند کُشا (ANTI SLEEPING) گولیاں کھا کر بھی جاگتے اور اس کی تیّاری کرتے ہیں ، مگر کیا قِیامت کے امتِحان کیلئے بھی ہم میں سے کسی نے کبھی کوئی رات جاگ کر عبادت میں بسر کی؟دنیا کے امتِحان میں کامیابی کیلئے پابندی سے روزانہ اسکو ل اور کالج کا رُخ کرتے ہیں ، کیا قِیامت کے امتِحان میں کامیابی کے لئے صِرف ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتِماع میں لگا تار شرکت کرتے ہیں ؟ دنیا کے امتِحان کی تیّاری کیلئے بعض طلبہ ٹیوٹر کی خدمات حاصِل کرتے ہیں ،تو بعض اکیڈمی یا ٹیوشن سینٹر جائن (Join) کرتے ہیں ،کیا قِیامت کے اِمتِحان کی تیّاری کیلئے سنتوں بھرے مَدَنی ماحو ل اور عاشِقانِ رسول کی صحبت اختیار کی؟دُنیوی ترقّی کیلئے اعلیٰ تعلیم(Higher Education) حاصِل کرنے کیلئے دوسرے شہروں بلکہ دوسرے ملکوں تک کا سفر اختیار کرتے ہیں کیا آخِرت کی ترقّی اور قِیامت کے امتِحان کی تیّاری کے لئے بھی کبھی دعوتِ اسلامی کے سنتوں کی تربِیَّت کے مَدَنی قافِلے میں سفر کیا؟ تو اے صرف دنیا کے امتِحان کے لئے ہی کوشِش کرنے والے اسلامی بھائیو!قِیامت کے امتِحان کی بھی تیّاری شروع کردیجئے کہ جس کا کامیاب جنّت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں پائے گا جبکہ اس کا ناکام جہنّم کی آگ میں جلایاجائے گا۔قِیامت کے امتِحان کی تیّاری میں آسانی کیلئے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں لازِمی شرکت کیجئے ، اپنے عَلاقے میں را ت کو مدرَسۃُ المدینہ


 

(برائے بالِغان) میں قراٰنِ پاک مفت سیکھئے اور ہر مہینے عاشقانِ رسول کے ساتھ کم ازکم تین دِن کے مَدَنی قافِلے میں سنّتوں بھراسفر کیجئے نیز روزانہ فکرِ مدینہ کر کے مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُرکرکے ہر مدنی ماہ کی 10 تاریخ کے اندر اندر اپنے یہاں کے ذمّے دار کو جَمْع کروائیے۔دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں سفر اور مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُر کرکے ہر ماہ جمع کروانا اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کے لئے قِیامت کے امتِحان میں کامیابی کا ذَرِیعہ بنے گا۔

لوٹنے رحمتیں قافِلے میں چلو                 پاؤ گے برکتیں قافِلے میں چلو

ہوں گی حل مشکلیں قافِلے میں چلو            دور ہوں آفتیں قافِلے میں چلو

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت،  شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے  مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر  جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ  جنت  میں میرے ساتھ ہو گا ۔(اِبنِ عَساکِرج۹ص۳۴۳)

جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا

سینہ تری سنت کا مدینہ بنے آقا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

’’راہِ مدینہ کا مسافر‘‘ کے پَندرَہ حُرُوف کی نسبت سے  پڑوسی کے15مَدَنی پھول

٭8فرامِینِ مصطَفٰے: )۱( نیک مسلمان کی وجہ سے اس کے پڑوس کے 100گھروں سے بَلا دور فرما دیتا ہےپھر آپنے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:۲،البقرۃ:۲۵۱) ترجَمۂ کنز الایمان: وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍۙ-لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ’’اور اگرلوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہو جا ئے ‘‘ (مجمع الزوائد ج۸ ص۲۹۹حدیث۱۳۵۳۳))۲(  کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو ( تِرمِذی ج ۳ ص ۳۷۹ حدیث ۱۹۵۱))۳(وہ جنّت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اُس کی آفتوں سے اَمن میں نہیں ہے(مُسلِم ص۴۳ حدیث ۴۶ ))۴(وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کھائے اور اُس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص ۲۲۵ حدیث۳۳۸۹) یعنی کامِل مومن نہیں )۵(جس نے اپنے پڑوسی کو اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے مجھے اِیذا دی اُس نے کو اِیذا دی (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۳ ص۲۴۱ حدیث ۱۳ )  (جبرئیل (عَلَیْہِ السَّلَام) مجھے پڑوسی کیمُتَعَلِّق برابر وصیّت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارِث بنا دیں گے( بُخاری  ج۴ ص۱۰۴ حدیث۶۰۱۴) )۷(جو شخص اور یوم ِآخِرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش آئے  (مُسلِم ص۴۴حدیث۴۸) )۸(چالیس گھر پڑوسی ہیں ۔ (مراسیل ابی داود ص ۱۶) حضرتِ سیِّدُنا امام زہری فرماتے ہیں : اِس سے چاروں طرف چالیس چالیس


 

 گھر مُراد ہیں ۔( اَیضاً)  ’’ نُزہۃُ القاری‘‘ میں ہے: پڑوسی کون ہے اس کو ہر شخص اپنے عُرف اور معاملے سے سمجھتا ہے(نزہۃ القاری ج ۵ ص ۵۶۸) ٭حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی فرماتے ہیں : پڑوسی کے حُقُوق میں سے یہ بھی ہے کہ اُسے سلام کرنے میں پَہَل کرے، اُس سے طویل گفتگو نہ کرے ،اُس کے حالات کے بارے میں زیادہ پُوچھ گچھ نہ کرے ، وہ بیمار ہو تو اُس کی مزاج پُرسی کرے،مصیبت کے وَقت اُس کی غم خواری کرے اور اُس کا ساتھ دے ، خوشی کے موقع پر اُسے مبارَک باد دے اور اُس کے ساتھ خوشی میں شرکت ظاہِر کرے ، اُس کی لغزِشوں سے در گزر کرے ، چھت سے اس کے گھر میں نہ جھانکے ، اُس کے گھر کا راستہ تنگ نہ کرے ، وہ اپنے گھر میں جو کچھ لے جارہا ہے اُسے دیکھنے کی کوشش نہ کرے،اُس کے عیبوں پر پردہ ڈالے، اگر وہ کسی حادِثے یا تکلیف کا شکار ہو تو فوری طور پر اُس کی مدد کرے،جب و ہ گھر میں موجود نہ ہو تو اُس کے گھر کی حفاظت سے غفلت نہ بَرتے ، اُس کے خلاف کوئی بات نہ سنے اور اُس کے اَہلِ خانہ سے نگاہوں کو پست(یعنی نیچی )  رکھے ، اُس کے بچّوں سے نَرم گُفتگو کرے ، اُسے جن دینی یا دُنیوی اُمور کا علم نہ ہو اِن کے بارے میں اُس کی رَہنمائی کرے (اِحیائُ الْعُلوم ج ۲ص۲۶۷مُلَخّصاً)٭حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کی: میرا پڑوسی مجھے اذیّت پہنچاتا ہے، مجھے گالیاں دیتا ہے اور مجھ پر سختی کرتا ہے۔ فرمایا: اگر اس نے تمہارے بارے میں  کی نافرنی کی ہے، تو تم اُس کے بارے میں  کی اطاعت کرو (ایضاًص۲۶۶) ٭ایک بُزُرگ کے گھر میں چُوہوں کی کثرت تھی کسی نے عَرض کی: حضرت! اگر آپ بلّی رکھ لیں تو اچّھا ہے ۔ فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ


 

 چُوہا بلّی کی آواز سن کر پڑوسی کے گھر میں چلا جائے اِس طرح میں اُس کے لیے وہ بات پسند کرنے والا ہوں گا جسے میں خود اپنے لیے پسند نہیں کرتا(ایضاً۲۶۷)٭ منقول ہے:فقیر پڑوسی قِیامت کے دن مال دار پڑوسی کا دامن پکڑ کر کہے گا: اے میرے رب! اِس سے پوچھ، اس نے مجھے اپنے حُسنِ سلوک سے کیوں محروم کیا اورمجھ پر اپنا دروازہ کیوں بند کیا؟ (ایضاً)   ٭ ایک شخص نے عرض کی، یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !فُلانی عورت کیمُتَعَلِّق ذِکر کیا جاتا ہے کہ نَمازو روزہ و صدقہ کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو زَبان سے تکلیف پہنچاتی ہے، فرمایا: وہ جہنَّم میں ہے۔ انھوں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!فُلانی عورت کی نسبت زیادہ ذِکر کیا جاتا ہے کہ اس کے (نفلی) روزہ و صَدَقہ ونَماز میں کمی ہے،  وہ پنیر کے ٹکڑے صَدَقہ کرتی ہے اور اپنی زَبان سے پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی ، فرمایا: وہ جنّت میں ہے(مُسندِ اِمام احمد ج۳ص۴۴۱حدیث۹۶۸۱)٭ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  : پڑوسی تین قسم کے ہیں : بعض کے تین حق ہیں بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے، جو پڑوسی مسلم اور رشتے دار ہو، اس کے تین حق ہیں : حق جوار اور حق اسلام اور حق قرابت، پڑوسی مسلم کے دو حق ہیں : حق جوار اور حق اسلام اور پڑوسی کافر کا صرف ایک حق جوار ہیں(شُعَبُ الْاِیمان ج۷ ص۸۳ حدیث۹۵۶۰)٭ حضرتِ سیِّدُنا بایزید بِسطامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی کا یہودی پڑوسی سفر میں گیا ، اُس کے بال بچّے گھر رہ گئے، رات کو یہودی کا بچہ روتا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پوچھا: بچّہ کیوں روتا ہے؟ یہودن بولی :گھر میں چَراغ نہیں ہے،بچّہ اندھیرے میں گھبراتا ہے۔ اُس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر


 

 روشن کرکے یہودی کے گھر بھیج دیا کرتے تھے۔ جب یہودی لوٹا تو اُس کی بیوی نے یہ واقِعہ سنایا۔ یہودی بولا: جس گھر میں بایز ید کا چَراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے !وہ سب مسلمان ہوگئے۔   ( مراٰۃ ج۶ ص۵۷۳ )

  ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صفحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘ ‘  ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیّت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔

لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو          ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو

سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو            ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔

                                                                                      غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

                                                                                                                                بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

                                                                                                                                                               

                                                                                                                                                                                یکم صفرالمظفر ۱۴۳۴ھ

                                                                                                                                                              2012-12-15

 

مآخذ و مراجع

کتاب

مطبوعہ

کتاب

مطبوعہ

قراٰن مجید

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

الترغیب والترہیب

دار الکتب العلمیۃ بیروت

بخاری

دار الکتب العلمیۃ بیروت

ابن عساکر

دار الفکر بیروت

مسلم

دار ابن حزم بیروت

نزہۃ القاری

فریدبک اسٹال مرکز الاولیاء لاہور

ترمذی

دار الفکر بیروت

تذکرۃ الاولیاء

انتشاراتِ گنجینہ تہران

مسند امام احمد

دار الفکر بیروت

منہاج العابدین

دار الکتب العلمیۃ بیروت

مراسیل ابی داود

افغانستان

احیاء العلوم

دار صادر بیروت

معجم ا وسط

دار الکتب العلمیۃ بیروت

درۃ الناصحین

دار الفکر بیروت

شعب الایمان

دار الکتب العلمیۃ بیروت

الجوہر ۃ النیرۃ

باب المدینہ کراچی

حلیۃ الاولیاء

دار الکتب العلمیۃ بیروت

بہار شریعت

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

مجمع الزوائد

دار الفکر بیروت

ملفوظات اعلیٰ حضرت

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

 

 

 



[1]یہ بیان امیرِ اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے باب المدینہ کراچی کے علاقے پیر کالو نی میں ہونے والے سنّتوں بھرے اِجتِماع (اندازاً جمادی الاولی ۱۴۲۲ھ/ 26-07-2001) میں فرمایا تھا۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔                  ۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ

[2] لئیمِ بے قدر یعنی نِکمّا کمینہ

[3] لجائے یعنی شرمِندے۔  

[4] شرمندہ کرنا

۵؎  ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۴۹۶،حلیۃ الاولیاء ج۸ ص۲۱۸حدیث۱۱۹۳۴

۶؎  منہاج العابدین ص۸۵