اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

مردے کے صدمے([1])

شاید نَفس رُکاوٹ ڈالے مگر آپ یہ رسالہ(37 صَفحات) پورا پڑھ کر اپنی آخِر ت کا بَھلا کیجئے۔

پھوڑے کا آپریشن

        آفتاب ِ شریعت و طریقت ،شہزادۂ اعلیٰ حضرت ،حُجَّۃُ الْاسلام حضرت مولانا حامد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّانبَہُت بڑے عالمِ عُلومِ اسلام، عاشقشاہِ اَنام،جاں نثارِ   صَحابۂ کرام ،مُحبِّ اولیائے کرام اور عاشقِ دُرو د و سلام تھے۔ جب بھی علمی و تدریسی اوقات سے فرصت پاتے ذِکرو دُرود میں مشغول ہو جاتے۔ آپ کے جسمِ اقدس پر پھوڑا ہو گیا تھا جس کا آپریشن ناگُزِیر تھا۔ ڈاکٹر نے بے ہوشی کا اِنجکشن لگانا چاہا تو مَنْع فرما دیا،آپ دُرودوسلام کے وِرد میں مشغول ہو گئے، عالَمِ ہوش وحَواس میں دو تین گھنٹے تک آپریشن ہوتا رہا، دُرود شریف کی بَرَکت سے کسی قسم کی تکلیف کا آپ نے


 

 اظہار نہ ہونے دیا !           (تذکِرۂ مشائخِ قادِریہ رضویہ ص۴۸۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قبر پر مٹّی ڈالنے والے کی مغفرت ہوگئی

        ایک شخص کو انتقال کے بعد کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا:ما فَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ جواب دیا : میرے اعمال تولے گئے ، گناہوں کا وَزْن بڑھ گیا ، پھر ایک تھیلی میری نیکیوں کے پلڑے میں ڈالی گئی جس سے اَلْحَمْدُ للہ عَزَّوَجَلَّ میری نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا اور میری بخشِش ہو گئی ۔ جب اُس تھیلی کو کھولا گیا تو اُس میں وہ مِٹّی تھی جو میں نے ایک مسلمان کی تَدفین کے وَقْت اُس کی قَبْر پر ڈالی تھی۔ (مِرقاۃُ الْمَفاتِیح ج۴ ص ۱۸۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 کسی نے سچ کہا ہے:  

رحمتِ حق ’’ بہا‘‘ نہ مے جُوید

رحمتِ حق’’ بہانہ ‘‘  مے جُوید

(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت قیمت نہیں ، بہانہ تلاش کرتی ہے)

قَبْر پر مِٹّی ڈالنے کا طریقہ

 مسلمان کی قَبْر پر مِٹّی ڈالنا مُستحَب ہے ،اُس کا طریقہ بھی سماعت فرما لیجئے، قَبْر کے سِرہانے کی طرف


 

 سے دونوں ہاتھ سے مِٹّی اُٹھا اُٹھا کرتین مرتبہ ڈالئے، پہلی بار ڈالتے وقت کہئے مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ([2])دوسری بار وَ فِیْهَا نُعِیْدُكُمْ([3]) تیسری بار کہئے وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى([4])اب باقی مِٹّی پھاؤُڑے وغیرہ سے ڈال دی جائے ۔

قبْر کی حاضِری پر گِریہ وزاری

          امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب کسی کی قَبْر پر تشریف لاتے تو اس قَدَرآنسو بہاتے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی داڑھی مبارَک تَر ہو جاتی ۔ عرض کی گئی: ’’ جنّت و دوزخ کا تذکِرہ کرتے وَقْت آپ نہیں روتے مگر قَبْر پر بہت روتے ہیں اِس کی وجہ کیا ہے؟‘‘فرمایا :میں نے نبیِّ اکرم ، نورِ مجسَّم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے سنا ہے : آخِرت کی سب سے پہلی منزِل قَبْرہے، اگر  قَبْروالے نے اِس سے نَجات پائی تو بعد کا مُعاملہ اس سے آسان ہے اور اگر اس سے نَجات نہ پائی تو بعد کا مُعاملہ زِیادہ سخت ہے۔ ( اِبن ماجہ ج۴ ص۵۰۰ حدیث ۴۲۶۷)

خوفِ عثمانی

       اللہ! اللہ!ذوالنُّورین ،جامِعُ القراٰن حضرتِ سیِّدُنا عثمان ابنِ عفّان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا خوفِ خدا ئے رحمن عَزَّ وَجَلَّ!ان کا لقب اِس لئے ذُوالنُّورَین تھا کہ ان کے نِکاح میں


 

 رَحمتِ کونَین،صاحِبِ قابَ قَوسین، نانائے حَسَنَین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یکے بعد دیگرے دو شہزادیاں تھیں ، انہیں دُنیا ہی میں قَطعی جنّتی ہونے کی بِشارت مل چکی تھی اوران سے معصوم فِرشتے حیا کرتے تھے۔ اس کے باوُجود قَبْر کی ہولناکیوں اور اندھیریوں کے بارے میں بے انتہا خوفزدہ رہا کرتے تھے ، خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ کے غَلَبہ کے موقع پر ایک بار ارشاد فرمایا: ’’ اگر مجھے جنّت و جہنَّم کے درمیان لایا جائے اور یہ معلوم نہ ہو کہ ان دونوں میں سے کس میں جائوں گا تو میں وَہیں راکھ ہوجانا پسند کروں ۔‘‘(حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَاء ج ۱ ص ۹۹ حدیث ۱۸۳ مُلَخّصاً)

کاش میری ماں ہی مجھے نہ جنتی

        افسوس!صد کروڑ افسوس! ہمارے دلوں پر گناہوں کی تَہیں جَم چکی ہیں ، حالانکہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ موت آکر رہے گی، عین ممکِن ہے آج ہی آجائے اور ہم  قَبْرمیں اُتار دیئے جائیں ، یہ بھی جانتے ہیں کہ رات کو بجلی فیل ہو جائے تو دل گھبرا تا اور اندھیرا کاٹ کھاتا ہے، اس کے باوُجود قَبْر کے ہولناک اندھیرے کا کوئی اِحساس نہیں ۔ امیرُالمؤ منین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قَطعی جنّتی ہونے کے باوُجود خوفِ خدا وندی عَزَّ وَجَلَّسے لَرز ا ں وتَرساں رہا کرتے تھے ۔ ایک بار غلَبۂ خوف کے وقْت آپ نے تنکا ہاتھ میں لے کر فرمایا: کاش! میں یہ تِنکا ہوتا،کبھی کہا: کاش! مجھے پیدا ہی نہ کیا جاتا،کبھی کہتے : کاش! میری ماں ہی مجھے نہ جنتی ۔  (اِحْیَاءُ العُلُوم  ج۴ص۲۲۶ مُلَخّصاً )


 

کاشکے نہ دنیا میں پیدا مَیں ہوا ہوتا                       قبْر و حشْر کا سب غم ختْم ہوگیا ہوتا

گلشنِ مدینہ کا کاش! ہوتا میں سبزہ                       یا میں بن کے اِک تنکا ہی وہاں پڑا ہوتا

آہ! سَلْبِ ایماں کا خوف کھائے جاتا ہے

کاشکے مِری ماں نے ہی نہیں جنا  ہوتا

دُنیوی چیزوں کا صدمہ

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!افسوس! ہم صدموں سے بھر پور موت کی تیّاری سے یکسر غافِل ہیں ۔یاد رکھئے! ہر وہ چیز جس سے زندگی میں آدمی کومحض دُنیوی مَحَبّت ہوتی ہے مرنے کے بعد اُس کی یاد تڑپاتی ہے اور یہ صدمہ مُردے کیلئے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے، اِس بات کو یوں سمجھنے کی کوشِش کیجئے کہ جب کسی کا پھول جیسا اِکلوتا بچّہ گُم ہو جائے تو وہ کس قَدَر پریشان ہو تاہے اور اگر ساتھ ہی اُس کا کاروبار وغیرہ بھی تباہ ہو جائے تو اُس کے صدمے کا کیا عالَم ہو گا! نیز اگر وہ افسر بھی ہو اور مصیبت بالائے مصیبت اُس کا وہ عہدہ بھی جاتا رہے تو اُس پر جو کچھ صدمے کے پہاڑ ٹوٹیں گے اس کو وُہی سمجھے گا ، لہٰذا اُس کو والِدَین ، بیوی بچّوں ،بھائی بہنوں ، اور دوستوں کا فِراق نیز گاڑی، لباس، مکان، دکان، فیکٹر ی، عمدہ پلنگ، فرنیچر، کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ، خون پسینے کی کمائی،عُہدہ وغیرہ ہرہروہ چیز جس سے اُسے مَحض دنیاکیلئے مَحَبّتتھی اُس کی جدائی کا صدمہ ہوتا ہے اور جو جتنا زِیادہ لذّتِ نفس کی خاطر راحَتوں میں زندگی گزارتاہے مرنے کے بعد اُن آسائشوں کے چھوٹنے کاصدمہ بھی اُتنا ہی زیادہ ہوگا، جس کے پاس مال و دولت کم ہو اُس کو اُس کے چُھوٹنے کا غم


 

 بھی کم اور جس کے پاس زِیادہ ہو اُس کو چھوٹنے کا غم بھی زیادہ ۔یاد رہے!یہ کم یا زیادہ غم اِسی صورت میں ہو گا جبکہ اُس نے اس مال و دولت سے دُنیویمَحَبّت کی ہو گی۔حُجَّۃُ الْا سلا م حضرتِ سیِّدُناامام محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی فرماتے ہیں : ’’یہ انکِشاف جان نکلتے ہی تَدفین سے پہلے ہو جاتا ہے اور وہ فانی دنیا کی جن جن نعمتوں پر مطمئن تھا اُن کی جُدائی کی آگ اُس کے اندر شُعلہ زن ہوتی ہے۔ ‘‘(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۴۸)

مومِن کی قَبْر70ہاتھ کشادہ کی جاتی ہے

        جس مسلمان نے صِرْف حسبِ ضَرورت دنیا کی چیزوں پر اِکتِفا کیا وہ ہلکا پُھلکا ہوتا ہے، موت اُس کے لئے وِصالِ محبوب کا پیام لاتی ہے، جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے ہوتے ہیں ،جِنہوں نے دنیا کے مال واَسباب سے دل نہیں لگایا ہوتا انہیں مال چُھوٹنے کا صدمہ بھی نہیں ہوتا اور قَبْرمیں اُن کے خوب مزے ہوتے ہیں جیسا کہ سرکارِ نامدار ،    مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ نور بار ہے: ’’مومِن اپنی قَبْر میں ایک سرسبز باغ میں ہوتا ہے اور اس کی قبر 70 ہاتھ کشادہ کی جاتی ہے اور اُس کی قَبْر چودھویں کے چاند کی طرح روشن کر دی جاتی ہے ۔‘‘(مسند ابی یعلیٰ ج ۵ ص ۵۰۸حدیث ۶۶۱۳)

قابلِ رَشک کون؟

        حضرتِ سیِّدُنامَسرُوق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : مجھے کسی پر اِس قَدَر رشک نہیں آتا جس قَدَر قَبْر میں جانے والے اُس مومِن پر رشک آتا ہے جو دنیا کی مشقَّت سے


 

 راحت پا گیا اور عذاب سے محفوظ رہا ۔ (اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۴۹)

کیا حال ہو گا !

    حضرتِ سیِّدُنا عَطاء بن یَسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : نبیِّ اکرم، نورِ مجسَّم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے امیرُالمؤ منین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا: اے عمر! جب آپ کا انتِقال ہو گا تو کیا حال ہو گا! آپ کی قوم آپ کو لے جائے گی اور آپ کے لئے تین گز لمبی اور ڈیڑھ گز چوڑی قَبْر تیار کریں گے، پھر واپَس آکر آپ کو غسل دیں گے اور کفن پہنائیں گے اور پھر خوشبو لگا کر آپ کو اُٹھا ئیں گے حتّٰی کہ آپ کو قَبْر میں رکھ دیں گے پھر آپ (کی قبر) پرمِٹّی برابر کر دیں گے اور آپ کو دفْن کر دیں گے اور جب وہ واپَس لوٹیں گے تو آپ کے پاس امتحان لینے والے دو فرِشتے مُنکَر و نکیر آئیں گے ،ان کی آواز بجلی کی کڑک جیسی اور ان کی آنکھیں اُچکنے والی بجلی کی طرح ہوں گی وہ اپنے بالوں کو گھسیٹتے ہوئے آئیں گے اور اپنے دانتوں سے  قَبْر کو کھود کر آپکو جھنجھوڑ دیں گے۔ اے عُمر! اُس وقْت کیا کیفیَّت ہو گی؟ حضرتِ عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کی: کیا اُس وقْت میری عَقْل آج کی طرح میرے ساتھ ہو گی؟ فرمایا: ’’ ہاں ۔‘ ‘ عرض کی: پھر اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ  میں ان کو کافی ہوں گا۔(اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج۱۴ص۳۶۲ )

میّت کی      عَقْل سلامت رہتی ہے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حُجّۃُ الْاسلام حضرتِ سیِّدُناامام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ


 

 اللہِ الْوَلِییہ حدیثِ پاک نَقْل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : موت کی وجہ سے عَقْل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی صِرف بدن اور اَعضاء میں تبدیلی آتی ہے لہٰذا مُردہ اُسی طرح عَقْلمند ،  سمجھدار اور تکالیف و لذّات کو جا ننے والا ہوتا ہے، عقْل باطِنی شے ہے اور نَظَر نہیں آتی۔ انسان کا جسم اگر چہِ گل سڑ کر بِکھر جائے پھر بھی عقْل سلامت رہتی ہے۔( اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۵۸ ملخّصاً)

تشویش۔۔۔۔تشویش۔۔۔۔۔تشویش

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! خداعَزَّ وَجَلَّکی قسم ! تشویش ، تشویش اور سخت تشویش خوف ، خوف اور سخت ترین خوف کامُعامَلہ ہے، جانور کی تو مرتے ہی قوّتِ مَحسُوسہ خَتم ہو جاتی ہے مگر انسان کی عقْل اور محسوس کرنے کی طاقت جُوں کی تُوں باقی رَہتی بلکہ دیکھنے اور سُننے کی قوّت کئی گُنا بڑھ جاتی ہے۔ ہائے ! ہائے! اگر ہماری بد اعمالیوں کے سبب اللہ تبارک وَ تَعَالٰی ہم سے ناراض ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا ! ذرا سوچو تو سَہی ! اگر ہمیں خوبصورت اور آسائشوں سے بھر پور کوٹھی میں تنہا قید کر دیا جائے تب بھی گھبرا جا ئیں ! اور ہم میں سے شایدکوئی بھی قبرِستان میں تو  اکیلا ایک رات گزارنے کی جِسا ر ت نہ کر سکے ! آہ ! اُس وقت کیا ہو گا جب منوں مِٹّی تَلے ہمیں اکیلا چھوڑ کر ہمارے اَحباب پلٹ جائیں گے ، جسم اگر چِہ ساکِن ہو گا مگر عقل سلامت ہو گی ، لوگوں کو جاتا دیکھ رہے ہوں گے، ان کے قدموں کی چاپ سن رہے ہوں گے ، منوں مِٹّی تلے دبے پڑے ہوں گے ، آہ !آہ! آہ! بے نَمازیوں ،


 

ماہِ رَمَضان کے روزے بِلا عذرِ شرعی نہ رکھنے والوں ، زکوٰۃ دینے سے کترانے والو ں ، فلمیں ڈِرامے دیکھنے والوں ، گانے باجے سننے والوں ، ماں باپ کوستانے والوں ، مسلمانوں کی بلااجازتِ شَرعی دل آزاریاں کرنے والوں ، چوریاں ڈکیتیاں کرنے و الوں ، لوگوں کو دھمکی آمیزچِٹھّیاں بھیج کر رقموں کا مطالبہ کرنے والوں ، جیب کترو ں ، لوگوں کی زمینیں دبا لینے والوں ، بے بس ہاریوں کا خون چوسنے والوں ،اِقتِدار کے نشے میں بد مست ہو کر ظلم و ستم کی آندھیاں چلانے والوں ، اپنی صحّت و دولت کے نشے میں بد مست ہو کر گناہوں کا بازار گرم کرنے والوں کو ہو سکتا ہے اِس ظاہِری زندگی میں کوئی قبر میں بند نہ کر سکے تاہَم عنقریب یعنی چند سال،چند ماہ ، چند دن بلکہ عین ممکن ہے چند گھنٹوں کے بعد موت آ سنبھا لے اور ان کو قبر میں اکیلا بند کر دیا جائے ! حضرت ِ سیِّدُنابکر عابِد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی ماں سے کہتے ہیں : ’’ پیاری  ماں ! کیا ہی اچھّا ہوتا کہ آپ میرے حق میں بانجھ ( یعنی بے اولاد)ہوتیں ۔ آہ ! اب تو میں پیدا ہو ہی گیا ہوں تو سن لیجئے کہ آپ کے بیٹے کوطویل عرصہ قبر میں بند رَہنا پڑے گا اور پھر وہاں سے نکلنے کے بعد میدانِ مَحشر کی طرف کُوچ کرنا ہوگا۔‘‘(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۸)

گناہ سے بچنے کا ایک نسخہ

        ہائے! ہائے! مرنے کے بعدکیسی بے کسی ہو گی!کس قَدَر بے بَسی ہو گی! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگر آپ اپنی اِصلاح چاہتے ہیں تو گناہ کرنے کو جب جی چاہے اُس وقت یہ نسخہ استعمال کیجئے یعنی یہ سوچنے کی عادت ڈالئے کہ یقینی موت جو کہ آج بھی


 

 آسکتی ہے اورمرنے کے بعدمجھے گُھپ اندھیری اور مختصر سی قبر میں اُتار کر بند کر دیا جائے گا، میں اگر چِہ بظاہِر ہل بھی نہیں سکوں گا مگر سب کچھ سمجھ میں آرہا ہو گا! ہائے ! اُس وقت مجھ پر کیا گزر رہی ہو گی! میرے بچّوں اورجِگری دوستوں کو یہ معلوم ہونے کے با وُجود کہ مجھے سب کچھ نظر آ رہا ہے پھر بھی اکیلا چھوڑ کر سارے ہی مجھے پیٹھ دیکر چل پڑیں گے، ہائے !ہائے! میری نافرمانیاں ! اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوگیا تو میرا کیا بنے گا ! حضرتِ علّامہ جلا لُ الدّین سُیُوطِی شافِعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ   شَرحُ الصُّدورمیں نَقْل کرتے ہیں :

قَبْر کی ڈانٹ

    حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ بن عُبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہنبی اکرم، نورِ مُجَسَّم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:  جب مُردے کے ساتھ آنے والے لَوٹ کر چلتے ہیں تو مُردہ بیٹھ کر ان کے قدموں کی آواز سنتا ہے اور قبر سے پہلے کوئی اُس کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتا ، قبر کہتی ہے: کہ اے آدَمی! کیا تُو نے میرے حالات نہ سُنے تھے ؟ کیا میری تنگی ، بد بو، ہولناکی اور کیڑوں سے تجھے نہیں ڈرایا گیا تھا؟ اگر ایسا تھاتو پھر تُو نے کیا تیّاری کی؟ (شَرْحُ الصُّدُوْرص ۱۱۴)

بھاگ نہیں سکتے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سوچئے تو سہی اُس وَقت جبکہ قَبْر میں تنہا رہ گئے ہوں گے، گھبراہٹ طاری ہو گی، نہ کہیں جا سکتے ہوں گے نہ کسی کو بُلا سکتے ہوں گے اوربھاگ نکلنے کی بھی کوئی صورت نہ ہوگی۔ اُس وَقت قَبْر کی کلیجہ پھاڑ پکار سُن کر کیا گزرے گی! قَبْر


 

میں نَمازوں اور سنّتوں پر عمل کرنے والوں کیلئے راحتیں جبکہ بے نَمازیوں ، اور غیرشَرعی فیشن کرنے والوں کیلئے آفتیں ہی آفتیں ہوں گی، چُنانچِہ حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطِی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں:

فرماں بردار پر رَحمت

        حضرتِ سیِّدُنا عُبید بن عُمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے،  قَبْر مُردے سے کہتی ہے کہ :اگرتُو اپنی زندگی میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کافرمانبردار تھا تو آج میں تجھ پر رَحمت کروں گی اور اگر تُو اپنی زندگی میں اللہ عَزَّ وَجَلَّکانافرمان تھا تو میں تیرے لئے عذاب ہوں ، میں وہ گھر ہوں کہ جو مجھ میں نیک اور اطاعت گزار ہو کر داخِل ہوا وہ مجھ سے خوش ہو کر نکلے گا اور جو نافرمان وگنہگار تھا ، وہ مجھ سے تباہ حال ہو کر نکلے گا۔   (شَرْحُ الصُّدُور ص ۱۱۴، اہوال القبور لابن رجب ص۲۷)

سب سے ہولناک منظر

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !قَبْر کا اندرونی مُعاملہ انتہائی تشویش ناک ہے، کوئی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا ؟ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب ،دانائے غُیُوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

 کا فرمانِ عبرت نشان ہے: قَبْرکا منظرسب منا ظر سے زِیادہ ہولناک ہے۔( تِرمذی ج ۴ ص ۱۳۸حدیث ۲۳۱۵ )

   محبوبِ باری کی اشکباری

       ہمارے بخشے بخشائے آقا ، ہمیں بخشوانے والے میٹھے میٹھے مکی مدنی مصطَفٰے، شافِعِ یومِ جزا 


 

 صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قَبْر  کے تعلُّق سے خوفِ خدا مُلا حَظہ ہو ۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا بَراء بن عازِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں ، ہم سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہَمراہ ایک جنازے میں شریک تھے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَبْر کے کَنارے پر بیٹھے اوراتنا روئے کہ مِٹّی بھیگ گئی۔ پھر فرمایا: ’’اِس کے لئے تیّاری کرو۔‘‘( اِبن ماجہ ج ۴ ص ۴۶۶حدیث  ۴۱۹۵ )

قَبْر کا پیٹ

        حضرتِ سیِّدُنا حسن بن صالِح رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب قبرِستان سے گزر تے تو فرماتے: اے قبرو! تمہارا ظاہِر توبَہُت اچّھا ہے لیکن مصیبت تمہارے پیٹ میں ہے۔ (اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۸)

ہائے موت

        حضرتِ سیِّدُنا عطاء سُلَمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی عادتِ کریمہ تھی کہ جب رات ہوتی تو قبرِستان کی طرف نکل جاتے اور فرماتے: اے اہلِ قُبور ! تم مرگئے ہائے موت! تم نے اپنے عمل دیکھے ہائے رے عمل! پھر فرماتے :ہائے! ہائے ! کل ’’عطا‘‘ بھیقَبْر  میں ہوگا، ہائے ! کل عطا بھی قَبْر میں ہوگا۔اسی طرح روتے دھوتے ساری رات گزار دیتے ۔      (ایضاً)

اندھیری قبر کا دل سے نہیں نکلتا ڈر

کروں گا کیا جو تو ناراض ہو گیا یارب!

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

دفنانے والوں کومُردہ دیکھتا ہے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غور فرمائیے! گناہوں بھری زندَگی گزار کر مرنے والے کیلئے کس قَدَر درد ناک معاملہ ہو گا اور جب  قَبْر میں وہ سب کچھ دیکھ، سُن اور سمجھ رہا ہو گااس وَقت اُس پر کیا گزر رہی ہوگی! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ،دانائے غُیُوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمان عبرت نشان ہے: مُردے کو اِس بات کی پہچان ہوتی ہے کہ اُسے کون غسل دے رہا ہے اور کون اس کو اُٹھا رہا ہے نیز اسے قبر میں کون اُتارتا ہے ۔  (مُسْنَد اِمام اَحمَد بن حنبل ج۴ ص۸ حدیث ۱۰۹۹۷ )

 بے کسی کا دن

        آہ !آہ! آہ! جب قَبْر میں اُتار ا جارہا ہوگا اُس وقت کیا بِیت رہی ہوگی! حضرتِ سیِّدُنا ابوذَرغِفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایا: کیا میں تمہیں اپنی بے کسی کا دن نہ بتائوں ؟یہ وہ دن ہے جب مجھے  قَبْر میں تنہا اُتار دیا جائے گا ۔(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۷)

گو پیشِ نظر قبر کا پُر ہَول گڑھا ہے                افسوس مگر پھر بھی یہ غفلت نہیں جاتی

پڑوسی مُردوں کی پُکار

        حُجَّۃ الاسلام حضرتِ سیِّدُناامام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی نَقْل فرماتے ہیں : جب (گناہ گار)مُردے کوقَبْر میں رکھ دیتے ہیں اور اُس پر عذاب کا سلسلہ شُروع ہوجاتا ہے تو اسکے پڑوسی مُردے اُس سے کہتے ہیں : ’’اے اپنے پڑوسیوں اور


 

 بھائیوں کے بعد دنیا میں رَہنے والے !کیا تیرے لئے ہمارے مُعامَلے میں کوئی عبرت نہ تھی؟کیا ہمارے تجھ سے پہلے(دنیا سے) چلے جانے میں تیرے لئے غور وفکر کا کوئی مقام نہ تھا؟کیا تو نے ہمارے سلسلۂ اعمال کا ختم ہونا نہ دیکھا؟ تجھے تو  مُہْلَت تھی تو نے وہ نیکیاں کیوں نہ کرلیں جو تیرے بھائی نہ کرسکے۔‘‘ زمین کا گوشہ اسے پکار کر کہتا ہے:’’ اے دنیائے ظاہر سے دھوکا کھانے والے !تجھے ان سے عبرت کیوں نہ ہوئی جو تجھ سے پہلے یہاں آچکے تھے اور انہیں بھی دنیا نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا۔‘‘ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۵ ص۲۵۳)

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حقیقت یہ ہے کہ ہر مرنے والا مرتے ہی گویایہ پیغام دیتا چلا جاتا ہے کہ جس طرح میں مَر گیا ہوں آپ کو بھی مرنا پڑ جائیگا،جس طرح مجھے منوں مِٹّی تلے دفن کیاجانے والا ہے اسی طرح تمہیں بھی دفن کیا جا ئے گا۔     ؎

جنازہ آگے بڑھ کے کہہ رہا ہے اے جہاں والو!

مِرے پیچھے چلے آئو تمہارا رہنُما میں ہوں

        میرے بال بچّے کہاں ہیں !

        حضرتِسیِّدُنا عَطاء بن یَسار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے روایت ہے:جب میِّت کوقَبْر  میں رکھا جاتا ہے توسب سے پہلے اس کا عمل آ کر اس کی بائیں ران کو حَرَکت دیتا اور کہتا ہے: میں تیرا عمل ہوں ۔ وہ مُردہ پوچھتا ہے : میرے بال بچّے کہاں ہیں ؟ میری نعمتیں ،میری دَولتیں کہاں ہیں ؟ تو عمل کہتا ہے:یہ سب تیرے پیچھے رَہ گئے اور میرے سوا تیری قَبْر میں کوئی


 

 نہیں آیا۔ (شَرْحُ الصُّدُور ص ۱۱۱)

ساتھ جگری یار بھی نہ آئیگا                  تو اکیلا قبر میں رہ جائیگا

مال، دنیا کا یہیں رَہ جائیگا                   ہر عمل اچّھا بُرا ساتھ آئیگا

مالِ دنیا دو جہاں میں ہے وبال

کام آئیگا نہ پیشِ ذُوالجلال

جنّت کا باغ یا جہنَّم کا گڑھا!

        اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب،دانائے غُیُوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:’’ قَبْر  یا تو جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنَّم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ۔ ‘‘( تِرمِذی ج۴ ص۲۰۸ حدیث۲۴۶۸)

        حضرتِ سیِّدُنا سُفیان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان فرماتے ہیں : جو شخصقَبْر  کا ذِکرزیادہ کرے وہ اسے جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ پاتا ہے اور جو اس کی یادسے غافل ہوتا ہے، وہ اسے جہنَّم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا پاتا ہے۔(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۸)

بے شُمارلوگ مغموم ہیں

        حضرتِ سیِّدُناثابِت بُنانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِیفرماتے ہیں : میں قبرِستان میں داخِل ہوا جب وہاں سے نکلنے لگا تو بلند آواز سے کسی نے کہا: اے ثابِت! ان قبر والوں کی خاموشی سے دھوکہ نہ کھانا ان میں بے شمار لوگ مغموم ہیں ۔ (اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۸)


 

عارِضی قَبْر

        حضرتِ سیِّدُنا رَبِیع بن خُثَیْم  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمنے اپنے گھر میں ایک قَبْر کھود رکھی تھی۔ جب کبھی اپنے دل میں کچھ سختی پاتے تو اُس کے اندر لیٹ جاتے اور جتنی دیر اللہ تَعَالٰیچاہتا اُس میں ٹھہرے رہتے ۔ پھر پارہ18سُوْرَۃُ الْمُوْمِنُوْنَ کی آیت99 اور 100 کا یہ حصّہ بار بار تلاوت کرتے: 

رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ(۹۹) لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ

ترجمۂ کنز الایمان :اے میرے رب!مجھے واپس پھیر دیجئے شایداب میں بھلائی کماؤں اُس میں جو چھوڑ آیا ہوں ۔

پھر اپنے نفس کی طرف مُتَوَجِّہ ہو کر فرماتے: اے ربیع! اب تجھے واپس لوٹا دیا گیا ہے۔ (ایضاً )

اہلِ قبور کی صُحبت

        حضرتِ سیِّدُنا ابو دَردا ء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قبروں کے پاس بیٹھے تھے، اس سلسلہ میں ان سے پوچھا گیا توفرمایا: میں ایسے لوگوں کے پاس بیٹھا ہوں جو آخِرت کی یاد دلاتے ہیں اور جب اٹھتا ہوں تو میری غیبت نہیں کرتے۔(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۷)

 میں بھی اِنہیں میں سے ہوں

        حضرتِ سیِّدُنا جعفر بن محمد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الصَّمَدرات قبرِستان تشریف لے جاتے اور فرماتے: اے اہلِ قُبور! کیا بات ہے کہ میں پکارتا ہوں لیکن تم جواب نہیں دیتے ؟ پھر


 

 فرماتے: اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! ان کو جواب دینے میں کوئی رُکاوٹ ہے، آہ !گویا میں بھی انہیں میں سے ہوں۔ پھر طُلوعِ فَجر تک نوافِل پڑھتے رہتے۔(ایضاً)

کیڑے رِینگ رہے ہیں

        امیرُ المؤ منین حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک بار اپنے کسی رفیق سے فرمایا:بھائی! موت کی یاد نے میری نیند اُڑا دی ، میں رات بھر جاگتارہا اور قبر والے کے بارے میں سوچتا رہا ،اے بھائی!اگر تم تین دن بعد مُردے کو اس کی قبر میں دیکھو توایک طویل عرصہ تک زندگی میں اس کے ساتھ رہے ہونے کے باوُجُودتمہیں اُس سے وَحشت ہونے لگے اور اگر تم اس کا گھر یعنی اُس کی قبر کا اندرونی حصّہ دیکھو جس میں کیڑے رینگ رہے اور بدن کو کھا رہے ہیں ، پِیپ جاری ،سخت بدبو آ رہی ہے اور کفن بھی بوسیدہ ہو چکا ہے۔ ہائے!ہائے!غور تو کرو! یہی مردہجس وقت زندہ تھا تو خوبصورت تھا ، خوشبو بھی اچھّی استِعمال کیا کرتا تھا، لباس بھی عمدہ پہناکرتا تھا۔۔۔۔ راوی کہتے ہیں : اتنا کہنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر رقّت طاری ہو گئی، ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہو گئے۔(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۷ مُلَخّصاً)

نَرم نَرم بستر اور قَبْر

     حضرتِسیِّدُنا احمدبن حرب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : زمین کو اس شخص پر تَعَجُّب ہوتا ہے جو اپنی خواب گاہ کو دُرُست کرتا اور سونے کے لیے نرم نرم بستر بچھاتاہے۔ زمین اُس


 

سے کہتی ہے: اے ابنِ آدم !تُو میرے اندر طویل عرصہ تک اپنے گلنے سڑنے کو کیوں یاد نہیں کرتا؟ یاد رکھ! میرے اورتیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوگی!(یعنی تجھے زمین پر بِغیر گدیلے ہی کے رکھ دیا جائے گا!)(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۳۸)

بَیل کی طرح چیختے

       حضرتِ سیِّدُنا یزید رَقا شی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ موت کو کثرت سے یاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ جب قبروں کو دیکھتے تو قَبْر کے اندھیرے اور تنہائی کی وَحشت وغیرہ کے خوف سے اِس قَدَر بے قرار ہو جاتے کہ آپ کے مُنہ سے بیل کی طرح چیخوں کی آواز نکلتی۔(ایضاً ص ۲۳۷ )

قَبْر میں ڈرانے والی چیزیں

         میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!واقِعیقَبْر کامُعامَلہ بے خوف ہونے والا نہیں ، آج ہم پرچھپکلی چڑھ جائے ، بلکہکَنکَھجورا قریب ہی سے گزر جائے توشاید بدن پر کپکپی طاری ہو جائے اور منہ سے چیخ نکل جائے ،ہائے! ہائے! گناہوں کی وجہ سے اگر خداو مصطَفٰےعَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ناراض ہو گئے تو قَبْر کے تنگ گڑھے میں آ کر کون بچائے گا ، کون تسلّی دیگا۔ آہ ! آہ! آہ !اے بِلّی کی میائوں سن کر گھبرا جانے والو سنو! حضرتِ سیِّد ُنا علّامہ جلالُ الدّین سُیوطی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکا فی’’ شَرحُ الصُّدور‘‘ میں نَقْل فرماتے ہیں : ’’جب انسان قَبْر میں داخِل ہوتا ہے تو وہ تمام چیزیں اُس کو ڈرانے کیلئے آجاتی ہیں جن سے وہ دنیا میں ڈرتا تھا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے نہ ڈرتا تھا۔‘‘(شَرْحُ الصُّدُور ص۱۱۲)


کر لے توبہ ربّ کی رَحمت ہے بڑی          قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی

گناھوں کی خوفناک شکلیں

   حُجَّۃُ الْاسلام حضرتِ سیِّدُناامام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی فرماتے ہیں :اگر تم نو رِ بصیرت سے اپنے باطِن کو دیکھو تو وہ طرح طرح کے دَرِندوں کے گھیرے میں ہے،مَثَلاً غصَّہ ، شَہوت ، کینہ، حسد، تکبُّر، خود پسندی اور ریا کاری وغیرہ۔ اگرتم گناہوں کے نظر نہ آنے والے ان دَرِندوں سے لمحہ بھر کیلئے بھی غافل ہو کر گناہ کرتے ہو تو یہ دَرِندے تمہیں کاٹتے اور نوچتے ہیں ۔ اگر چِہ فی الحال تمہیں اِس کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی اوروہ تمہیں نظر بھی نہیں آرہے مگر مرنے کے بعد قبر میں پَردہ اٹھ جائیگا اور تم ان دَرِندوں کو دیکھ لو گے۔ہاں ہاں تم اپنی آنکھوں سے دیکھو گے کہ گناہوں نے بچھوؤں اور سانپوں وغیرہ کی شَکلوں میں قبر میں تمہیں گھیر رکھا ہے۔ یقین مانویہ بُری خصلتیں درحقیقت خوفناک درند ے ہی ہیں جو اِس وَقت بھی تمہارے پاس موجود ہیں لیکن ان کی بھیانک شَکلیں تمہیں قبر میں نظر آئیں گی۔ان درندوں کو اپنی موت سے پہلے ہی مار ڈالو یعنی گُناہ چھوڑ دو، اگر نہیں چھوڑتے تو اچھّی طرح جان لوکہ وہ گناہوں کے دَرِندے اس وقت بھی تمہارے دل کو کاٹ اور نو چ رہے ہیں ۔ اگرچہ تمہیں فی الحال تکلیف محسوس نہیں ہوتی ۔ ( اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۴ص۲۳۳مُلَخَّصاً)

اگر ایمان برباد ہو گیا!

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سخْت غفلت کا دَور ، صِرف دُنیوی عُلُوم و فُنون ہی سیکھنے


 

 پر زور اور خوب دولت کمائو کا ہر طرف شور ہے۔ علمِ دین حاصِل کرنے ، نَمازیں پڑھنے اور سنّتوں پر عمل کرنے کیلئے مسلمان تیّار نہیں ، چہرہ ، لباس ، بلکہ تہذیب و تمدُّن سب میں کفّار کی نقّالی کا ذِہن ہے۔ خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! ہر وقت فُضول بَک بَک اور گناہوں کی کثرت انتہائی تباہ کُن ہے ، زِیادہ بولتے چلے جانے سے بَسا اوقات زَبان سے کُفریّات بھی نکل جاتے ہیں مگر بولنے والے کو اس کا شُعُور نہیں ہوتا، ایمان کی حفاظت کا ذِہن بھی اب کم ہی لوگوں کا رہ گیا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نہ کرے نافرمانیوں کے باعِث اگر ایمان برباد ہو گیا اور کُفرپر خاتمہ ہوا تو وَاللّٰہ بِاللّٰہ تَاللّٰہ سخت بربادی ہو گی۔ جو کُفر پر مرے گا اُس کے عذابِ قبر کی ایک جھلک  مُلا حَظہ فرمائیے۔ چُنانچِہ حُجّۃُ الاسلام حضرت امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِینَقْل کرتے ہیں :

اندھا بہرا چوپایہ

     حضرتِ محمد بن مُنْکَدِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فر ماتے ہیں : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ قبر میں کافِرپر اندھا اور بہرا چوپایہ مُسَلَّط کیا جاتا ہے ۔ اُس کے ہاتھ میں لوہے کا ایککوڑا ہوتا ہے۔ وہ اس کوڑے سے کافِر کو قیامت تک مارتا رہے گا۔    (اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج ۵ ص ۲۵۹ مُلَخَّصاً )

کاش! وہ شخص میں ہوتا

        ہر مسلمان کو ایمان کی حفاظت کی فِکر کرنی چاہئے اِس کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں سفر کو اپنا معمول بنایئے تا کہ عاشِقانِ رسول کی اچھی صُحبت مُیَسَّر آئے، علم حاصِل ہو،زَبان کی اِحتیاط کا جذبہ ملے اور ایمان کی قَدر و منزِلت دل میں بڑھے اوردُنیوی


 

مقاصِد جیسے کہ روزی اور نوکری کے بارے میں دعائوں کے ساتھ ساتھ خاتمہ بِالخیر اور مغفرت کی دُعائیں کرنے اور کروانے کا بھی ذِہن بنے ۔ ہمارے اَسلاف کوبُرے خاتِمے کا بے حد خوف ہوا کرتا تھا چُنانچِہحضر تِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ایک شخص جہنَّم سے ایک ہزار سال بعد نکا لا جائے گا ۔(پھر فرمایا)’’ کاش! وہ شخص میں ہوتا۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ بات جہنَّم میں ہمیشہ رہنے اوربُرے خاتمے کے خوف سے فرمائی۔(اَیضاً ج ۴ ص ۲۳۱)

سہمے سہمے رہنے والے بُزُرگ

        ایک رِوایت میں ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ چا لیس سال تک نہیں ہنسے ۔ راوی کہتے ہیں : میں جب ان کو بیٹھا ہوا دیکھتا تو یوں معلوم ہوتا گویا ایک قَیدی ہیں جسے گردن اُ ڑانے کے لیے لایا گیا ہو! اور جب گفتگو فرماتے تو انداز یہ ہوتاگویا آخِرت کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بتا رہے ہیں ا و ر جب وہ خاموش ہوتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا ان کی آنکھوں کے سامنے  آگ بھڑک رہی ہے! اِس قدر غمگین وخوفزدہ رَہنے کا جب سبب پوچھا گیا تو فرمایا: مجھے اِس بات کاخوف ہے کہ اگر اللہ تَعَالٰی نے میرے بعض ناپسند یدہ اعمال کو دیکھ کر مجھ پر غَضَب کیا اور فرمادیا کہ جائو میں تمہیں نہیں بخشتا تو میرا کیا بنے گا؟ (ایضاً)

آہ کثرتِ عصیاں ، ہائے! خوف دوزخ کا

کاش ! اِس جَہاں کا میں نہ بَشَر بنا ہوتا


 

رب عَزَّ وَجَلَّ راضی ہو گیا!

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقینا خوفِ خدا رکھنے والوں کا دَرَجہ بَہُت اونچا ہوتا ہے چُنانچِہ جس رات حضرت سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی وفات ہوئی، اُس رات دیکھا گیا کہ گویا آسمان کے دروازے کُھلے ہیں اور ایک مُنادی اعلان کر رہا ہے: سُنو! حسن بصری بارگاہِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ میں اِس حال میں حاضِر ہوئے ہیں کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ ان سے راضی ہے ۔(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۶۶)

عرش پردھومیں مچیں وہ مومنِ صالح ملا

فرش سے ماتم اٹھے وہ طیِّب و طاہر گیا

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 (حدائقِ بخشش شریف)

خوش فَہمی میں مت  رہئے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جو اس خوش فہمی میں ہوتے ہیں کہ میرا عقیدہ بَہُت مضبوط ہے، میں خواہ کُفّار اور بد مذہبوں سے دوستی رکھوں ، چاہے بدعقیدہ لوگوں کا بیان سُنوں ، ان کی کتابیں اور اخبار میں ان کے مضامین پڑھوں خواہ ان کی صُحبَت میں رہوں ، میرا ایمان کہیں نہیں جاتا! خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! ایسے لوگ سَخْت غَلَطی پر ہیں ۔’’ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘میں ہے کہ: جس نے اپنے نَفْس پر اعتماد کیا اُس نے بَہُت بڑے کذَّاب پر اعتماد کیا اوراگرنَفْس کوئی بات قسم کھا کر کہے تو سب سے بڑا جُھوٹا یِہی ہے۔ ( ماخوذ ازملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ص۲۷۷)دل کے کانوں سے سنئے ! کُفّار اور بد مذہبوں کی


 

 نیز میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صَحابہ و اَولیاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنَکے گستاخوں کی دوستی اور ان کی صُحبت میں رَہنا ، اُن کو اُستاد بنانا ، ان کا بیان سننا وغیرہ سب حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام ہیں اور اگر ان کی نُحُوست سے ایمان برباد ہو گیا تو قَبْر میں گُونا گُوں عذابات کاسامنا ہو گا مَثَلاً قِیامت تک ننانوے خوفناک اَژ دَہے ڈَسیں گے اور جہنَّم میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رَہنا ہو گا۔کافِر کی صُحبت کے باعِث ایمان برباد کربیٹھنے والا بد نصیب مُرتدبروزِ قِیامت حسرت سے خوب واویلا مچا ئیگا ۔ چُنانچِہ پارہ 19 ،سُوْرَۃُ الْفُرْ قَان کی آیت نمبر28 اور29 میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸)لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-

ترجَمۂ کنزالایمان: وائے خرابی میری! ہائے!! کسی طرح میں نے فُلانے کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بے شک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے ۔

 ایمان پر خاتِمہ کا وِرد

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!گناہوں کے سبب بھی ایمان برباد ہو سکتا ہے۔ لہٰذا گناہوں سے بچتے رَہنا چاہئے ، ایمان کی حفاظت کی دعا سے غفلت نہیں کرنی چاہئے ، جامِعِ شرائط پیر سے بیعت کر کے اُس کی مُستقل دعائوں کی پناہ میں آجانا چاہئے۔ نیز ایمان کی حفاظت کے اَوراد بھی کرتے رَہنا چاہئے ۔ ’’شَجَرۂ قادِریہ رضویہ عطّاریہ‘‘صَفْحَہ22  پر ایک وِرد لکھا ہے:جو روزانہ صبح ( یعنی آدھی رات ڈھلے سے سورج کی پہلی کرن چمکنے تک کے درمیان کسی بھی


 

 وقت) 41 باریَا حَیُّ  یَا قَیُّوْمُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ   اَنْتَ۔ ( اوّل آخِر تین بار دُرود شریف) پڑھ لیا کر ے گا، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّاس کا دل زندہ رہے گا اورایمان پر خاتمہ ہو گا۔

مسلماں ہے عطّاؔر تیرے کرم سے

ہو ایمان پر خاتِمہ یاالٰہی

 نیند اُڑادی

        حضرتِ سیِّدُناطاؤس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجب رات کو لیٹتے تو اس طرح لوٹ پوٹ ہوتے جس طرح گَرم کڑاہی میں دانے اِدھر اُدھر اُچھلتے ہیں ! پھر بِستر کو لپیٹ دیتے اور قبلہ رُخ ہو جاتے(یعنی نوافل پڑھتے) اور فرماتے جہنَّم کے ذِکر نے خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّوالوں کی نیند اُڑا دی۔صبح تک اِسی طرح عبادت میں مشغول رہتے۔(اِحْیَاءُ الْعُلُوْم  ج۴ ص۲۳۱)

دیوانہ

         حضرتِ سیِّدُنا اُویس قَرنی علیہ رحمۃُاللّٰہ الغنی واعظ کے پاس تشریف لاتے اوراُس کے وعظ سے روتے، جب جہنَّم کاتذکرہ ہوتاتو چیخیں مارتے ہوئے اُٹھ کر چل پڑتے،لوگ پاگل پاگل کہتے ہوئے آپ کے پیچھے لگ جاتے۔(ایضاً )

پُلْ صِراط

         حضرتِ سیِّدُنامُعاذ بن جَبَل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: مومن کا خوف اُس وَقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ جہنَّم کے اوپر بنے ہوئے پُلْ صراط کوعُبُور نہ کر لے۔   (ایضاً )


 

خواب میں کرمِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

      مکتبۃُ المدینہکا مطبوعہ رسالہ ’’بُرے خاتِمے کے اسباب‘‘ ہدیۃًحاصِل کر کے پڑھئے، اگر آپ کا دل زِندہ ہوا تو پڑھتے ہوئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ رو پڑیں گے۔ ایک اسلامی بھائی نے غالباً۱۴۱۹؁ ھ کا اپنا واقِعہ تحریرکیا: میں نے رات کے وقت رِسالہ    ’’ بُرے خاتِمے کے اسباب ‘‘ پڑھا توبربادیِ ایمان کے خوف سے ایک دم گھبرا گیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، روتے روتے سو گیا،سویا تو کیا، سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لیکر جاگ اُٹھی، بے کسوں کے یاوَر، مدینے کے تاجور ، محبوبِ ربِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے خواب میں تشریف لائے،میں نے رو رو کر عرض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  میرے ایمان کو بچا لیجئے! حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نورانی ہاتھوں میں ایک رجسٹر تھا جو مجھ گناہ گار کو عطا کیا اور مُسکرا کر فرمایا:ایمان پر خاتمہ بھی ملے گا اور سب کچھ ملے گا۔

سرِ بالیں انہیں رحمت کی ادا لائی ہے

حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عذابِ قبر سے نَجات کے لئے

جو ہر رات سُوْرَۃُ الْمُلْک پڑھے گا، وہ عذابِ قَبْر سے بچارہے گا ۔(مُلَخَّصاً مِنْ شَرحِ الصُّدُورص۱۴۹)


 

قَبْر کی روشنی کیلئے

        ’’رَوضُ الرِّیاحِین‘‘ میں ہے: حضرتِ سیِّدُناشَقیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں ، ہم نے پانچ چیزوں کو پانچ میں پایا{۱} گناہوں کے علاج کو نَمازِ چاشْتْ میں {۲} قبروں کی روشنی کو تہجُّد میں {۳}مُنَکر نکیر کے جوابات کو تلاوتِ قُراٰن میں {۴} پُلْ صِراط پر سے سلامت گزرنے کو روزہ اور صَدَقہ و خیرات میں {۵}حَشر میں سایۂ عَرش پانے کو گوشہ نشینی میں ۔(مُلَخَّصاً مِنْ شَرْحِ الصُّدُور ص۱۴۶)

قَبْر کے مد دگار

        حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : جب مُردے کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اُس کے نیک اعمال آکر اُسے گھیر لیتے ہیں ۔ اگر عذاب اُس کے سر کی طرف سے آئے تو تِلاوتِ قراٰن اسے روک لیتی ہے اور اگر پاؤں کی طرف سے آئے تو نَماز میں قِیام کرنا آڑے آجاتا ہے ،اگر ہاتھوں کی طرف سے آئے تو ہاتھ کہتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !یہ ہمیں صَدَقہ دینے اور دعا کیلئے پھیلاتا تھا تم اس تک نہیں پہنچ سکتے، اگر منہ کی طرف سے آئے تو ذکر اور روزہ سامنے آجاتے ہیں اِسی طرح ایک طرفنَماز اور صبر کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ، اگر کچھ کسر باقی رہے تو ہم موجود ہیں ۔ (اِحیاءُ الْعُلُوْم ج۵ص۲۵۹)

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان و اولیائے عُظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی مَحَبَّت و نسبت بھی عذابِ قبر سے بچا لیتی ہے چُنانچِہشرحُ الصُّدور کی دو حِکایات مُلا حظہ ہوں ۔


 

{۱}شیخین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے دیوانے کی نجات

         ایک شخص کوانتِقال کے بعد خواب میں دیکھ کر پوچھا گیا: ما فَعَلَ اللّٰہُ بِکَ ؟ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ جواب دیا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میری مغفرت فرما دی۔ پوچھا: مُنکَر نکیر کے ساتھ کیسی گزری ؟ جواب دیا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کرم سے میں نے اُن سے عرض کی: حضرات ابوبکر صِدّیق و عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے وسیلے سے مجھے چھوڑ دیجئے۔ تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اِس نے بَہُت ہی بُزُرگ ہستیوں کا وسیلہ پیش کیا ہے لہٰذا اس کو چھوڑ دو ۔ چُنانچِہ وہ مجھے چھوڑ کر تشریف لے گئے۔(مُلَخَّصاً مِنْ شَرْحِ الصُّدُورص۱۴۱)

{۲} اولیاء رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعالٰی کے دیوانے کی نجات

        ایک نیک شخص جو حضرتِ سیِّدُنا با یزید بِسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے خادِم تھے۔اُن کی وفات ہو گئی ، تدفین کے بعد قبر شریف کے پاس موجودبعض افراد نے سُنا وہ مُنکَر نکیر سے کہہ رہے تھے: ’’ مجھ سے کیوں سُوالات کرتے ہو میں تو بایزید بِسطامی کے خادموں میں سے ہوں ۔‘‘ چُنانچِہ مُنکر نکیر انہیں چھوڑ کر تشریف لے گئے ۔        ( ایضاً ص۱۴۲)

   دعوت اسلامی کے سنتوں کی تربیت کیلئے مَدَنی قافِلوں میں سفر اور روزا نہ  فکرِ مدینہ کے ذریعے مَدَنی انعامات کا رسالہ پُر کر کے ہر ماہ اپنے یہاں کے ذَیلی نگران کو جمع کروانے کا معمول بنا لیجئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ                                         

اِس کی برکت سے ایمان کی حفاظت


 

 اورسنّتوں پر عمل کا ذہن بنے گا نیز عذابِ قبر سے نَجات کا سامان ہو گا۔

دو عبرت ناک حِکایات

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج کل بات بات پرلوگ رِشتے داریاں کا ٹ کر رکھ دیتے ہیں ، لہٰذا آپَس میں مَحَبَّت کی فَضا قائم ہونے کی خواہش کی اچّھی نیّت کے ساتھ مزید ثواب کمانے کیلئے رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سُلوک کے ضِمن میں 2 حِکایات مُلا حظہ ہوں ۔

{۱}حکایت:حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہایک مرتبہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی احادیثِ مبارَکہ بیان فرما رہے تھے،اِس دَوران فرمایا: ہر قاطِع رِحم (یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہماری محفِل سے اُٹھ جائے۔ ایک نوجوان اُٹھ کر اپنی پُھوپھی کے ہاں گیا جس سے اُس کا کئی سال پُرانا جھگڑا تھا،جب دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے تو اُس نوجوان سے  پُھوپھی نے کہا :تم جا کر اس کا سبب پوچھو، آخِر ایسا کیوں ہوا؟(یعنی سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے اعلان کی کیا حکمت ہے؟) نوجوان نے حاضِر ہو کر جب پوچھا تو حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے فرمایاکہ میں نے حضورِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے یہ سنا ہے:’’ جس قوم میں قاطِعِ رِحم(یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو، اُس(قوم) پراللہ کی  رَحمت کا نُزُول نہیں ہوتا۔‘‘(اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص۱۵۳)

 {۲} حِکایت: ایک حاجی نے کسی دِیانتدار شخص کے پاس مکَّۂ مکرَّمہ میں ایک ہزار دیناربطورِ امانت رکھوائے۔مَناسکِ حج کی ادائیگی کے بعد  مکَّۂ مکرَّمہ  واپَسی پر معلوم


 

 ہوا کہ وہ شخص فو ت ہو چکا ہے۔ مرحوم کے گھر والوں سے امانت کی معلومات کی تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، ایک ولیُّ اللّٰہ رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰینے حاجی سے فرمایا: آدھی رات کے وقت بیرِزم زم کے قریب اُس شخص کا نام لے کر پکارو، اگر جنّتی ہوا تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ جواب دے گا۔ چُنانچِہ وہ گیا اور زمزم شریف کے کنویں میں آواز دی مگر جواب نہ ملا ، اُس نے جب اُس بُزُرگ کو بتایاتو اُنہو ں نے ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ ‘‘ پڑھ کر فرمایا: ڈر ہے کہ وہ شخص جہنَّمی ہو، مُلکِ یَمَن جائو ، وہاں بَرہوت نام کا ایک کُنواں ہے، آدھی رات کے وقْت اُس میں جھانک کر ،اُس آدمی کا نام لے کر پکارو، اگر جہنَّمی ہوا تو جواب دیگا۔ چُنانچِہ اُس نے ایسا ہی کیا، اُس نے جواب دیا۔ تو پوچھا: میری امانت کہاں ہے؟ اُس نے کہا : میں نے اپنے گھر کے اندر فُلاں جگہ دَفن کی ہے جا کر کھود کر حاصِل کر لو۔پوچھا: تم تو نیکی میں مشہور تھے پھر یہ سزاکیسی؟ اُس نے کہا: میری ایک غریب بہن تھی میں نے اُس کو چھوڑ دیا تھا، اس پرشَفْقت نہیں کرتا تھا۔ اللہ تَعَالٰی  نے بہن سے قطع تعلّقی کرنے کی مجھے یہ سزا دی ہے۔ (کتاب الکبائر ص۵۳ ، ۵۴)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیٹا بیٹی، والِدَین ، نانا نانی ، دادا دادی،بھائی بہن،خالہ ماموں ، چچا پھوپھی،وغیرہ رشتے دار ذُو الْاَر حام  کہلاتے ہیں ،ان کے ساتھ بِلااجازتِ شَرعی تَعَلُّقات توڑ ڈالنا قَطْعِ رِحمی کہلاتا ہے ۔ قَطْعِ رِحمی حرام اور جہنَّم میں لیجانے والا کام ہے۔  چُنانچِہ اللہ تَعَالٰی  کے مَحبوب، دانائے غُیُوب ، مُنَزَّہ ٌعنِ الْعُیُو ب صَلَّی اللہُ


 

  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: (رشتے داروں سے) قَطع تعلُّق کرنے والا جنَّت میں نہیں جائے گا۔ (بُخا ری شریف ج۴ص۹۷حدیث۵۹۸۴) ( ہاں بدعقیدہ رشتے داروں سے تعلّقات نہ رکھے جائیں )

دس فِکر انگیز  فَرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

{۱}تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کے ماتَحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (اَلْمُعْجَم الصَّغِیر لِلطّبَرانی ج۱ص۱۶۱)

{۲}جو نگران اپنے ماتَحتوں سے خِیانت کرے وہ جہنَّم میں جائے گا۔(مسند امام احمد بن حنبل ج۷ص۲۸۴حدیث۲۰۳۱۱)

{۳}جس شخص کو اللہ تَعَالٰی نے کسی رعایا کا نگران بنایا پھر اُس نے ان کی خیر خواہی کا خیال نہ رکھا تووہ جنَّت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔      ( بُخاری ج۴ص۴۵۶حدیث۷۱۵۱)

{۴}اِنصاف کرنے والے قاضی پر قِیامت کے دن ایک ساعَت ایسی آئے گی وہ تمنّا کرے گا کہ کاش ! وہ دو آدمیوں کے درمیان ایک کھجور کے بارے میں بھی فیصلہ نہ کرتا۔           (مَجمعُ الزَّوائد ج۴ص۳۴۸حدیث۶۹۸۶)

{۵} جو شخص دس آدمیوں پر بھی نگران ہو قیامت کے دن اسے اس طرح لایا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی گردن سے بندھا ہوا ہو گا۔اب یا تو اس کا عدل اسے چھُڑائے گا یا اس کا ظُلم اسے عذاب میں مبتَلاکرے گا۔  (اَلسّنَنُ الکُبرٰی لِلْبَیہَقِی  ج ۳ ص ۱۸۴ حدیث ۵۳۴۵)


 

{۶}(دعائے مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اے اللہ! جو شخص میری اُمّت کے کسی مُعامَلے کا نگران ہے پس وہ ان پر سختی کرے تو تُو بھی اس پر سختی فرما۔ اور ان سے نرمی برتے تو تُو بھی اس سے نرمی فرما ۔ (مُسلم ص۱۰۱۶حدیث۱۸۲۸)

{۷} اللہ تَعَالٰی جس کو مسلمانوں کے اُمُور میں سے کسی مُعامَلے کا نگران بنائے پس اگر وہ ان کی حاجتوں ، مفلِسی اور فَقْرکے درمیان رُکاوٹ کھڑی کر دے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی اس کی حاجت ، مفلِسی اور فَقْر کے سامنے رُکاوٹ کھڑی کرے گا۔(ابو داود ج ۳ ص۱۸۹حدیث۲۹۴۸)( آہ! آہ!آہ! جو ماتحتوں کی حاجتوں کو ارادۃً پورانہیں کرتا اللہ تَعَالٰی بھی اس کی حاجتیں پوری نہیں کرے گا)

{۸} اللہ تَعَالٰی اُس پر رَحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رَحم نہیں کرتا۔  (بُخاری ج ۴ ص ۵۳۲ حدیث ۷۳۷۶)

{۹}’’بے شک تم عَنْقریب حُکمرانی کی خواہِش کرو گے لیکن قِیامت کے دن وہ پَشَیمانی کا باعِث ہو گی۔‘‘دوسری روایت میں ہے :’’ میں اس اَمْر(یعنی حُکمرانی ) پر کسی ایسے شخص کو مقرَّر نہیں کرتا جو اس کا سُوال کر ے یا اس کی حِرص رکھتا ہو ۔ ‘‘(بُخاری ج ۴ ص۴۵۶حدیث۷۱۴۸ ، ۷۱۴۹) (جو وزارت ، عہدہ اور نگرانی وغیرہ کیلئے بھاگ دوڑ کرتا اور عُہدے سے مَعْزُولی کی صورت میں فَساد کرتا ہے اس کیلئے عبرت ہی عبرت ہے)

{۱۰}انصاف کرنے والے نور کے مِنبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے


 

 فیصلوں ، گھروالوں اورجن کے نگران بنتے ہیں ان کے بارے میں عَدل سے کام لیتے ہیں ۔(سُنَنِ نَسائی ص۸۵۱حدیث۵۳۸۹)

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت، شَہَنشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے  مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر  جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ  جنت  میں میرے ساتھ ہو گا ۔                (اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

٭4فرامِینِمصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  :(۱)جسے کسی جنازہ کی خبرملے و ہ اہلِ میّت کے پاس جاکر ان کی تعزیت کرے اللہ تَعَالٰی اس کے لئے ایک قیراط ثواب لکھے، پھر اگر جنازے کے ساتھ جائے تو اللہ تَعَالٰی دو قِیراط اَجْر لکھے، پھر اُس پر نَماز پڑھے تو تین قِیراط، پھر دَفْن میں حاضِر ہو تو چار اور ہر قِیراط کوہ ِاُحُد (یعنی اُحُد پہاڑ)کے برابر ہے (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہج۹ص۴۰۱،عمدۃُ القاری ج۱ص۴۰۰ تحتَ الحدیث۴۷)(۲)مسلمان کے مسلمان پر چھ حُقُوق ہیں ،(ان میں سے ایک یہ ہے کہ) جب فوت ہو


 

 جائے تو اُس کے جنازے میں شریک ہو ( مُسلم حدیث ۵(۲۱۶۲) ص ۱۱۹۲ مُلَخَّصاً ) (۳)جب کوئی جنّتی شخص فوت ہو جاتا ہے، تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ حَیا فرماتا ہے کہ اُن لوگوں کو عذاب دے جو اِس کاجنازہ لے کر چلے اور جو اِس کے پیچھے چلے اور جنہوں نے اِس کی نمازِ جنازہ ادا کی(اَلْفِردَوس   بمأثور الْخطّاب ج۱ص۲۸۲ حدیث ۱۱۰۸) (۴)بندۂ مؤمِن کو مرنے کے بعدسب سے پہلی جزا یہ دی جائے گی کہ اس کے تمام شرکائے جنازہ کی بخشِش کر دی جا ئے گی(مُسندُ البزار ج ۱۱ ص ۸۶ حدیث۴۷۹۶)٭حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بارگاہِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ میں عَرْض کی  : یااللہ عَزَّ وَجَلَّ! جس نے مَحْض تیری رِضا کے لئے جنازے کا ساتھ دیا، اُس کی جزا کیا ہے؟ اللہ تَعَالٰی نے فرمایا: جس دن وہ مرے گا ،فِرِشتے اُس کے جنازے کے ہمراہ چلیں گے اور میں اس کی مغفِرت کروں گا  (شَرْحُ الصُّدُور ص ۹۷) ٭حضرتِ سیِّدُنا مالِک بن اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو بعدِوفات کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا:مَا فَعَلَ اللّٰہُ  بِکَ؟ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ  نے آپ کے ساتھ کیا سُلوک فرمایا؟ کہا:ایک کلمے کی وجہ سے بخش دیاجو حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہجنازہ دیکھ کر کہا کرتے تھے۔ (وہ کلمہ یہ ہے:)

سُبْحٰنَ الْحَیِّ الَّذِیْ لا یَمُوْت(یعنی وہ ذات پاک ہے جو زندہ ہے اُسے کبھی موت نہیں   آئے گی) لہٰذا میں بھی جنازہ دیکھ کر یِہی کہا کرتا تھا، یہ کلِمہ(کہنے ) کے سبب اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مجھے بَخْش دیا (اِحیاءُ الْعُلوم ج۵ص۲۶۶مُلَخَّصاً) ٭جنازے میں رضائے الٰہی ، فرض کی ادائیگی ، میّت اور اس کے عزیزوں کی دلجوئی وغیرہ اچّھی اچّھی نیّتوں سے شرکت کرنی


 

چاہیی٭جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے اپنے انجام کے بارے میں سوچتے رہیے کہ جس طرح آج اِسے لے چلے ہیں ،اسی طرح ایک دن مجھے بھی لے جایا جائے گا،جس طرح اِسے منوں مِٹّی تلے دفن کیاجانے والا ہے ،اسی طرح میری بھی تدفین عمل میں لائی جائی گی ۔ اِس طرح غوروفکر کرنا عبادت اور کارِ ثواب ہے ٭جنازے کو کندھا دینا کارِ ثوا ب ہے، سیّدُ المُرسَلِین، جنابِ رَحمۃٌ  لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے حضرتِ سیِّدُنا سعد بن مُعاذ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکا جنازہ اٹھایاتھا(الطبقاتُ الکُبرٰی لابن سعد ج۳ص۳۲۹ ، اَلبِنایہ  ج۳ ص۵۱۷مُلَخَّصاً) ٭حدیثِ پاک میں ہے: ’’جو  جنازہ لے کر چالیس قدم چلے اُسکے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔ ‘‘نیز حدیث شریف میں ہے :’’جو جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دے اللہ عَزَّ وَجَلَّ  اُس کی حتمی(یعنی مُستَقِل )  مغفِرت فر ما دے گا  ‘‘ ( جوہرہص۱۳۹ ، دُرِّمُختار ج۳ص۱۵۸۔۱۵۹، بہارِ شریعت ج۱ص۸۲۳) ٭ سنّت یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے ۔ پوری سنّت یہ ہے کہ پہلے سیدھے سِرہانے کندھا دے پھر سیدھی پائنتی (یعنی سیدھے پاؤں کی طرف ) پھر اُلٹے سِرہا نے پھر اُلٹی پائِنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے۔ (عالمگیری ج۱ص۱۶۲،بہارِ شریعت ج ۱ ص۸۲۲) بعض لوگ جنازے کے جُلوس میں اِعلان کرتے رہتے ہیں ، دو دو قدم چلو! ان کو چاہئے کہ اس طرح اعلان کیا کریں : ’’ دس دس قدم چلو‘‘٭ جنازے کو کندھا دیتے وَقْت جان بوجھ کر ایذا دینے والے انداز میں لوگوں کو دھکے دینا


 

جیساکہ بعض لوگ کسی شخصیّت کے جنازے میں کرتے ہیں یہ ناجائز وحرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہی٭چھوٹے بچّے کا جَنازہ اگر ایک شَخص ہاتھ پر اُٹھا کر لے چلے تو حَرَج نہیں اور یکے بعد دیگرے لوگ ہاتھوں میں لیتے رہیں(عالمگیری ج۱ص۱۶۲) عورَتوں کو   ( بچّہ ہو یا بڑا کسی کے بھی) جنازے کے ساتھ جانا نا جائز و ممنوع ہے(بہارِ شریعت ج۱ ص۸۲۳، دُرِّمُختار ج۳ص۱۶۲)  ٭شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے، قَبْر میں بھی اُتار سکتا ہے اورمُنہ بھی دیکھ سکتا ہے۔ صِرف غسل دینے اوربِلا حائل بدن کو چھُونے کی مُمانَعَت ہے  (بہارِ شریعت ج۱ص۸۱۲،۸۱۳) ٭ جنازے کے ساتھ بُلند آواز سے کلمۂ طیّبہ یا کلمۂ شہادت یا حمد ونعت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔(دیکھئے: فتاویٰ رضویہ جلد9 صَفْحَہ 139 تا158 )

جنازہ آگے آگے کہہ رہا ہے اے جہاں والو!

مِرے پیچھے چلے آؤ تمہارا رہنما میں ہوں

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

        ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صفحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘‘ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔


 

لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو               سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو

ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو         ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔

                                                                                                            غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

                                                                                                                                بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

                                                                                                                   

                                                                                                            ۱۴ رجب المراجب ۱۴۳۵ھ

                                                                                                                  2014-05-14

مآخذ و مراجع

کتاب

مطبوعہ

کتاب

مطبوعہ

قراٰن مجید

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

ابن عساکر

دار الفکر بیروت

بخا ری

دار الکتب العلمیۃ بیروت

عمدۃ القاری

دار الفکر بیروت

مسلم

دار ابن حزم بیروت

مرقاۃ المفاتیح

دار الفکر بیروت

ابو داود

دار احیاء التراث العربی بیروت

الزّواجر عن اقتراف الکبائر

دار المعرفۃ بیروت

ترمذی

دار الفکر بیروت

احیاء العلوم

دار صادر بیروت

نسائی

دار الکتب العلمیۃ بیروت

شرح الصدور

مرکز اہلسنت برکات رضا الہند

ابن ماجہ

دار المعرفۃ بیروت

اھوال القبور

دار الغد الجدید مصر

مسند امام احمد

دار الفکر بیروت

اتحاف السّادۃ

دار الکتب العلمیۃ بیروت

معجم صغیر

دار الکتب العلمیۃ بیروت

کتاب الکبائر

پشاور

مسند ابو یعلی

دار الکتب العلمیۃ بیروت

درّمختار

دار المعرفۃ بیروت

مسند بزار

مکتبۃ العلوم و الحکم مدینہ منورہ

جوہرہ

باب المدینہ کراچی

سننِ کبرٰی

دار الکتب العلمیۃ بیروت

عالمگیری

دار الفکر بیروت

الفردوس بمأثور الخطّاب

دار الکتب العلمیۃ بیروت

فتاوٰی رضویہ

 رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور

مجمع الزوائد

دار الفکر بیروت

بہار شریعت

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

طبقات کبرٰی

دار الکتب العلمیۃ بیروت

تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ

کشمیر انٹر نیشنل پبلشرز مرکز الاولیاء لاہور

حلیۃ الاولیاء

دار الکتب العلمیۃ بیروت

شجرۂ قادریہ رضویہ عطّاریہ

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

 



[1] ۔۔۔ یہ بیان امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کےتین روزہ سنّتوں بھرے اِجتِماع (سندھ) یکم محرم الحرم۱۴۲۵ ؁ ھ بروز اتوار (20،21،22فروری4 200ء صحرائے مدینہ باب المدینہ کراچی)  میں فرمایا تھا۔ ترمیم کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔    مجلسِ مکتبۃُ المدینہ

[2] ۔۔۔      ترجَمہ ٔ  کنزالایمان : ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا۔

[3] ۔۔۔ اور اسی میں تمہیں پِھرلے جائیں گے۔

[4] ۔۔۔ اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔ (پ۱۶،طٰہٰ:۵۵)