دورانِ مطالعہ ضرورتاً انڈر لائن کیجئے، اشارات لکھ کر صفحہ نمبر نوٹ فرما لیجئے،ان شاء اللہ عَزَّوَجَل علم میں ترقّی ہوگی۔
عنوان |
صفحہ |
عنوان |
صفحہ |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
عنوان |
صفحہ |
عنوان |
صفحہ |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
عقائد و اعمال کے بنیادی مسائل پر300سے زائدسوالات وجوابات کامدنی گلدستہ
ُگلد ستۂ عقا ئد و اعمال
پیش کش
مجلس المد ینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبۂ تخریج )
ناشر
مکتبۃ المدینہ باب المد ینہ کراچی
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ
نام کتاب : گلدستہء عقائد و اعمال
پیش کش : مجلس المدینۃالعلمیہ( شعبہء تخریج)
طباعتِ اوّل : جمادَی الاخریٰ1433ھ ، اپریل 2012ء
تعداد : 18000
ناشر : مکتبۃ المدینہ فیضانِ مدینہ محلہ سوداگران
پرانی سبزی منڈی باب المدینہ کراچی
٭…کراچی : شہید مسجد، کھارا در، باب المدینہ کراچی فون: ـ021-32203311
٭…لا ہو ر : داتا دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ فون: 042-37311679
٭…سردار آباد : (فیصل آباد)امین پور بازار فون: 041-2632625
٭…کشمیر : چوک شہیداں ، میر پور فون: 058274-37212
٭…حیدر آباد : فیضانِ مدینہ،آفندی ٹاؤن فون: 022-2620122
٭…ملتان : نزد پیپل والی مسجد، اندرون بوہڑ گیٹ فون: 061-4511192
٭…اوکا ڑہ : کالج روڈبالمقابل غوثیہ مسجد، نزد تحصیل کونسل ہال فون: 044-2550767
٭…راولپنڈی : فضل داد پلازہ، کمیٹی چوک، اقبال روڈ فون: 051-5553765
٭…خان پور : دُرانی چوک، نہر کنارہ فون: 068-5571686
٭…نواب شاہ : چکرا بازار، نزد MCB فون: 0244-4362145
٭…سکھر : فیضانِ مدینہ،بیراج روڈ فون: 071-5619195
٭…گوجرانوالہ : فیضانِ مدینہ،شیخوپورہ موڑ،گو جرانوالہ فون: 055-4225653
٭…پشاور : فیضانِ مدینہ،گلبرگ نمبر1،النور سٹریٹ، صدر
E.mail: ilmia@dawateislami.net
www.dawateislami.net
مَدَنی التجاء: کسی اور کو یہ کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں ۔
فہرست
عنوان |
صفحہ |
عنوان |
صفحہ |
اس کتاب کو پڑھنے کی نیتیں |
4 |
غسل کے مسائل |
117 |
پیش لفظ |
8 |
ناپاکی دورکرنے کا طریقہ |
119 |
توحید ِباری تعالیٰ |
13 |
اِستنجاء کا بیان |
121 |
ُسید الانبیاء صلی اللہ تَعَالیٰ علیہ وآلہ وسلم |
16 |
پانی کا بیان |
123 |
ایمان وکفر کا بیان |
27 |
ُکنویں کا بیان |
126 |
خدا عَزَّوَجَلَّ کے رسول ونبی علیہم الصلوٰۃ و السلام |
34 |
اوقاتِ نماز کا بیان |
129 |
قرآنِ کریم |
40 |
جماعت کابیان |
133 |
صحابہء کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم |
44 |
اِمامت کا بیان |
139 |
ُخلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم |
47 |
مُفسداتِ نماز |
146 |
اہل ِبیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم |
49 |
نمازِ مریض کا بیان |
150 |
معجزے اورکرامتیں |
54 |
نمازِ مسافر کابیان |
153 |
اَولیاء اللہ رحمہم اللہ تَعَالیٰ |
55 |
نمازِ جمعہ کا بیان |
157 |
تقدیر الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا بیان |
58 |
سجدۂ تلاوت کا بیان |
159 |
عا َلم ِبَرزخ |
62 |
میّت کا بیان |
164 |
علامات ِقیامت کا بیان |
67 |
زیارتِ قبور اور ایصال ثواب |
181 |
حشر ونشر کا بیان |
79 |
ایصالِ ثواب کے 18 مدنی پھول |
185 |
آخرت کے واقعات |
85 |
ایصالِ ثواب کا طریقہ |
189 |
شفاعت کا بیان |
94 |
ایصالِ ثواب کا ُمرو جہ طریقہ |
189 |
تقلید کا بیان |
101 |
ایصالِ ثواب کے لئے دعا کا طریقہ |
193 |
بدعت وگناہِ کبیرہ وصغیرہ |
104 |
امام کے لیے 30مدنی پھول |
194 |
طہارت کے مسائل |
111 |
جماعت سے قبل اعلان |
198 |
ُوضو کے مسائل |
113 |
دعائیں |
199 |
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
’’علم ِدین کا سیکھنا عبادت ہے ‘‘ کے بیس حُروف کی نسبت سے اس
کتاب کو پڑھنے کی ’’20 نیّتیں ‘‘
فرمانِ مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :’’ اچھی نیّت بندے کو جنَّت میں داخِل کر دیتی ہے۔‘‘
(الجامع الصغیر،الحدیث۹۳۲۶،ص۵۵۷، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
دو مَدَنی پھول: {1} بِغیر اچھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔
{2}جتنی اچھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔
{1}ہربارحَمدو{2}صلوٰۃ اور{3}تعوُّذو{4}تَسمِیہ سے آغاز کروں گا (اسی صَفْحہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا) {5} اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا {6} حتَّی الامکان اِس کا باوُضُو اور {7}قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا{8} قرآنی آیات اور {9}اَحادیثِ مبارَکہ کی زِیارت کروں گا{10}جہاں جہاں ’’ اللہ ‘‘ کا نام ِپاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلَّ اور{11} جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پڑھوں گا {12}جو مسئلہ سمجھ میں نہیں آئے گا اس کے لیے آیت کریمہ’’ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ(۴۳)(پ۱۴،النحل:۴۳) ترجمہ کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ۔‘‘ پر عمل کرتے ہوئے علماء سے رجوع کروں گا{13})اپنے ذاتی نسخے پر( ’’یاد داشت‘‘ والے صَفْحَہ پر ضَروری نِکات لکھوں گا){14}(اپنے ذاتی نسخے پر)عِندَا لضَّرورت(یعنی ضرورتاً)
خاص خاص مقامات پر انڈر لائن کروں گا {15}دوسروں کویہ کتابپڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا {16} اس حدیثِ پاک ’’ تَھَادَوْا تَحَابُّوْا ‘‘ ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی )المؤطا للامام مالک، الحدیث: ۱۷۳۱،ج۲، ص۴۰۷، دارالمعرفۃ بیروت( پرعمل کی نیت سے )ایک یا حسبِ توفیق تعداد میں ( یہ کتابیں خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا {17}جن کو دوں گا حتَّی الامکان انہیں یہ ہَدَف بھی دوں گا کہ آپ اِتنے (مَثَلاً 41) دن کے اندر اندر مکمَّل پڑھ لیجیے {18}اس کتاب کے مطالَعے کا ساری اُمّت کو ایصالِ ثواب کروں گا {19}ہر سال ایک بار یہ کتاب پوری پڑھا کروں گا {20} کتابت وغیرہ میں شَرعی غلَطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا۔ (ناشِرین ومصنّف وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتانا خاص مفید نہیں ہوتا)
اچھی اچھی نیّتوں سے متعلق رَہنمائی کیلئے ، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا سنّتوں بھرا بیان ’’نیّت کا پھل‘‘ اور نیتوں سے متعلق آپ کے مُرتّب کردہ کارڈ اور پمفلٹ مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ھدِیّۃً
طلب فرمائیں ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
از:شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ
مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَبِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’ المد ینۃ العلمیۃ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تعالٰی پر مشتمل ہے ،جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں :
{۱}شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ {۲}شعبۂ درسی کُتُب
{۳}شعبۂ اصلاحی کُتُب {۴}شعبۂ تراجمِ کتب
{۵}شعبۂ تفتیشِ کُتُب {۶}شعبۂ تخریج
’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلٰیحضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البَرَکت،عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت، ماحیٔ
بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الَّرحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْع سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ،تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیر ِگنبد ِخضرا شہادت،جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الامینصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
عِلْم کی فضیلتاوراس کی برتری کسی پر بھی مخفی نہیں ،اللہ عَزَّوَجَل نے اپنے پیارے حبیب، حبیب لبیبصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا: وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴) (پ۱۶،طہ:۱۱۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْبَارِی فرماتے ہیں :آیت کریمہ سے علم کی فضیلت واضح طور پر ثابت ہو رہی ہے اس لیے کہ اللہ تَعَالیٰ نے اپنے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو علم کے سوا کسی اور شے کے زیادہ طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا، اور علم سے مراد شریعت کا علم ہے۔(فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب العلم،ج۲،ص۱۲۹)
نبی اکرم،رسول محتشم، شاہ بنی آدم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے کہ ’’اَفْضَلُ الْعِبَادَۃِطَلَبُ الْعِلْمِ ۔ بہترین عبادت علم کا حاصل کرنا ہے۔ ‘‘
(فردوس الاخبار للدیلمی، الحدیث:۱۴۲۹،ج۱،ص۲۰۷)
حجۃ الاسلام سیدنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْوَالِی احیاء العلوم، جلد اوّل، صفحہ 21 پر فرماتے ہیں کہ ’’ اللہ تَعَالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وحی بھیجی کہ اے ابراہیم! عَلَیْہِ السَّلَام بلاشبہ میں علم والا ہوں اور علم والے کو پسند کرتا ہوں ۔ ‘ ‘ اور صفحہ 23 پر روایت نقل فرماتے ہیں کہ : ’’ حضرت سلیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مال، سلطنت
اور علم کے درمیان اختیار دئیے گئے تو انہوں نے علم کو پسند فرمایا،لہٰذا علم اختیار کرنے کے سبب سے سلطنت اور مال بھی عطا کر دیا گیا۔
(تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر، ذکر من اسمہ سلیمان،ج۲۲،ص۲۷۵)
علم کا حصول باعث عزت و عظمت ہے اور اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اس سلسلے میں کثیر احادیث مبارکہ وارد ہیں چنانچہ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعث ِنزول سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے کہ ’’_‘‘ (سنن ابن ماجہ، باب فضل العلمائ، الحدیث: ۲۲۴،ج۱،ص۱۴۶) علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ حکیم الامت حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : ’’ علم سے بقدرِ ضرورت شرعی مسائل مراد ہیں لہٰذا روزے نماز کے مسائل ِضروریہ سیکھنا ہر مسلمان پر فرض۔‘‘ (مرآۃ المناجیح، ج۱، ص۲۰۲)
اعلیٰ حضرت ، امام اہل سنت، مجدد دین وملت، پروانۂ شمع رسالت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں : علم ِدین سیکھنا اس قدر کہ مذہب حق سے آگاہ ہو ، وضو، غسل، نماز، روزے وغیرہا ضروریات کے احکام سے مطلع ہو، تاجر تجارت، مزارع زراعت، اجیر اجارے، غرض ہر شخص جس حالت میں ہے اس کے متعلق احکامِ شریعت سے واقف ہو، فرض عین ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج۲۳، ص۶۴۷)
شیخِ طریقت، امیرِ اہل ِسنّت بانیء دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں : ’’ افسوس! آج کل صِر ف و صِرف دنیاوی عُلوم ہی کی طرف ہماری اکثریت کا رُجحان ہے ۔ علمِ دین
کی طرف بَہُت ہی کم مَیلان ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے :__۔یعنی عِلم کا طَلَب کرنا ہرمسلمان (مرد و عورت) پرفرض ہے۔ ( سنن ابن ماجہ،ج۱، ص ۱۴۶،حدیث ۲۲۴) اِس حدیثِ پاک کے تحت میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُ الرحمن نے جو کچھ فرمایا،اس کا آسان لفظوں میں مختصراً خُلاصہ عرض کرنے کی کوشِش کرتا ہوں ۔ سب میں اوّلین و اہم ترین فرض یہ ہے کہ بُنیادی عقائد کا علم حاصِل کرے ۔ جس سے آدمی صحیح العقیدہ سُنّی بنتا ہے اور جن کے انکار و مخالَفَت سے کافِر یا گُمراہ ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد مسائلِ نَماز یعنی اِس کے فرائض و شرائط و مُفسِدات ( یعنی نماز توڑنے والی چیزیں ) سیکھے تاکہ نَماز صحیح طور پر ادا کر سکے۔ پھر جب رَمَضانُ الْمبارَک کی تشریف آوری ہو تو روزوں کے مسائل ، مالِکِ نصابِ نامی ( یعنی حقیقۃً یا حکماً بڑھنے والے مال کے نِصاب کا مالک) ہو جائے تو زکوٰۃ کے مسائل، صاحِبِ اِستِطاعت ہو تو مسائلِ حج،نِکاح کرنا چاہے تو اِس کے ضَروری مسائل، تاجر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل، مُزارِع یعنی کاشتکار کھیتی باڑی کے مسائل، ملازِم بننے اور ملازِم رکھنے والے پر اجارہ کے مسائل۔ وَ عَلٰی ھٰذَا الْقِیاس ( یعنی اور اِسی پر قِیاس کرتے ہوئے ) ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مرد و عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے۔ اِسی طرح ہر ایک کے لیے مسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے۔ نیز مسائلِ علم ِقلب یعنی فرائضِ قَلْبِیہ (باطنی فرائض) مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اور ان کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر ، رِیاکاری، حَسَد وغیرہااور ان کا عِلاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ ‘‘ (ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ، ج۲۳، ص ۶۲۳،۶۲۴)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ بالا عبارات سے علم دین کی فضیلت،اہمیت اور ضرورت واضح ہے بالخصوص بقدرِ ضرورت علم ِدین سیکھنے کی فرضیت سے متعلق ا علیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور امیر ِاہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کی وضاحت نہایت قابل ِتوجہ ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ علم دین سیکھنے کے لیے کوشاں رہے بالخصوص اپنی ضرورت کے مسائل کے سیکھنے میں تاخیر نہ کرے۔ علم ِدین سیکھنے کے مختلف ذرائع ہیں مثلاً درس نظامی ،دینی کتب کا مطالعہ ،کسی سنی صحیح العقیدہ عالم دین کی صحبت میں رہ کر دینی مسائل سیکھنا اورتبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستگی کہ دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماعات، مختلف کورسز (مثلاً مدنی تربیتی کورس، مدنی قافلہ کورس،امامت کورس، عالم کورس (درس نظامی)وغیرہ)اور بالخصوص مدنی قافلوں میں خوب خوب علم ِدین اور سنتیں سیکھنے کا نہ صرف موقع ملتا ہے بلکہ عمل کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔ آئیے آپ بھی دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مدنی ماحول سے وابستہ ہوکرسنتیں سیکھنے سکھانے والے عاشقانِ رسول میں شامل ہو جائیے اور ہر درس اور ہر سنتوں بھرے اجتماع میں اوّل تا آخر حاضری کی سعادت حاصل کر کے خوب علم ِدین وسنتیں سیکھئے اور سکھائیے، نیز نیکیوں پر استقامت پانے اور باکردار مسلمان بننے کے لئے امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کے عطا کردہ مدنی انعامات پر عمل کرتے ہوئے روزانہ فکر ِمدینہ کا معمول بنا لیجیے۔
عقائد اہل ِسنت اور وضو، غسل اور نمازوغیرہ سے متعلق مسائل کی ابتدائی معلومات کے لیے زیر ِنظر کتاب ’’ گلدستۂ عقائد و اعمال ‘‘ نہایت معاون اور مددگار ہے، سوال جواب کی صورت میں یہ مدنی گلدستہ فتاویٰ رضویہ، بہار شریعت،ہمارا اسلام،نماز کے
احکام اور مدنی پنج سورہ کی روشنی میں مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ضروری اور اہم مسائل کو اختصار کے ساتھ اور آسان انداز میں ذکر کیا گیا ہے تاکہ کم پڑھے لکھے بھی استفادہ کرسکیں اور جو تفصیل جاننا چاہیں وہ ان کتب کی طرف رجوع فرمائیں ۔ہر اسلامی بھائی کو چاہیے کہ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کرے اور دوسروں کو بھی ترغیب دلاکر ثوابِ آخرت کا حق دار بنے ،اللہ عَزَّوَجَل ہمیں اِخلاص عطا فرمائے، آمین۔ اس کتاب کی کچھ خصوصیات درج ذیل ہے:
{1}ہر عنوان سے متعلق سوالات قائم کرکے ان کے جوابات تحریر کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ان کے حوالہ جات بھی لکھ دیئے گئے ہیں
{2} اَحادیث ِمبارکہ کی اصل مآخذسے حتی المقدور تخریج کر دی گئی ہے
{3} آیاتِ قرآنیہ کا ترجمہ امام ِاہل ِسنت،مجدد دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ اللہ المنان کے شہرۂ آفاق ترجمہ قرآن ’’کنزالایمان ‘‘ سے دیا گیا ہے اور
{4}آخر میں مآخذ ومراجع کی فہرست مصنفین ومؤلفین کے ناموں ، ان کے سن وفات اورمطابع کے ساتھ ذکر کردی گئی ہے۔
اللہ عَزَّوَجَل کی بارگاہ میں اِ سْتِدْعا ہے کہ اس کتاب کو پیش کرنے میں علمائے کرام دامت فیوضہم نے جو محنت وکوشش کی اسے قبول فرماکر انہیں بہترین جزا دے اورانکے علم وعمل میں برکتیں عطافرمائے اور دعوت ِاسلامی کی مجلس ’’ المد ینۃ العلمیۃ ‘‘ اور دیگر مجالس کو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطافرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
شعبۂ تخریج مجلس المدینۃ العلمیۃ
سوال:اسلام کے بنیادی عقائد کتنے ہیں ؟
جواب:اسلام کے بنیادی عقیدے تین ہیں : {۱} توحید {۲} رِسالت اور{۳}مَعاد یعنی قِیامت ، باقی تمام اعتقادی باتیں اِنہیں کے اندر آجاتی ہیں ۔ (ہمارا اسلام، توحید، حصہ۳، ص۹۳)
سوال:توحید کے کیا معنی ہیں ؟
جواب:توحیدکا معنی دل سے تصدیق کرنا(ماننا) اور زبان سے اس اَمر کا اقرار کرنا کہ ہمیں اور تمام عالم کوپیدا کرنے والی ذات ایک ہے اور وہ اللہ رَبُّ الْعِزَّتْ عَزَّوَجَلَّ ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، نہ ذات میں نہ صفات میں ،نہ حکومت میں نہ عبادت میں ۔ (ہمارا اسلام، توحید، حصہ۳، ص۹۳)
سوال : خدائے بزرگ وبرتر عَزَّوَجَلَّ کے موجود ہونے پر کیا دلیل ہے ؟
جواب: اللہ عَزَّوَجَل کا موجود ہونا آفتاب سے زیادہ روشن ہے ،اس کی ذات کا یقین ہر شخص کی فطرت میں داخل ہے ، خصو صاً مصیبتوں میں ، بیماریوں میں ، موت کے قریب اکثر یہ فطرتِ اصلیہ ظاہر ہو جاتی ہے اوربڑے بڑے منکرین بھی خدا عَزَّوَجَلَّ ہی کی طرف رُجوع کرنے لگتے ہیں اور ان کی زبانوں پر بھی بے ساختہ خدا عَزَّوَجَلَّ کا نام ا ٓ ہی جاتا ہے۔ تھوڑی سی عقل والا انسان بھی دنیا کی تمام چیزوں پر نظر کرکے یہ یقین کر لیتا ہے کہ بے شک یہ آسمان و زمین ، ستارے اور سَیَّارے ، انسان و حیوان اور تمام مخلوق کسی نہ کسی کے پیدا کرنے سے پیدا ہوئے ہیں ۔آخر کوئی تو ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرُّف کرتا ہے کیونکہ جب ہم کسی تخت یا کرسی وغیرہ بنی ہوئی چیزوں
کو دیکھتے ہیں تو فوراً سمجھ لیتے ہیں کہ اِنہیں کسی نہ کسی کاریگر نے بنایا ہے اگر چہ ہم نے اپنی آنکھ سے بناتے نہ دیکھا ۔عرب کے ایک بَدّو نے خوب کہاکہ اونٹ کی مینگنی دیکھ کر اونٹ کے گزرنے کا یقین ہو جاتا ہے ا ور نقشِ قدم دیکھ کر چلنے والے کا ثبوت ملتا ہے تو پھر ان بُرجوں والے آسمان اور کشادہ راستہ والی زمین کو دیکھ کر اللہ عَزَّوَجَل کے صانعِ عالَم ہونے کا یقین کیونکر نہ ہوگا ؟ فی الواقع زمین وآسمان کی پیدائش ، رات دن کا اختلاف، ستاروں کا خاص نظام ، اِن کی مخصوص گردش، اس بات کی کُھلی ہوئی دلیلیں ہیں کہ ان کا کوئی پیدا کرنے والا ضرور ہے جو بڑی زبردست قوَّت و قدرت والا اور بڑا حکیم اور بااختیار ہے جس کے قبضۂ قدرت سے یہ چیزیں نکل نہیں سکتیں ۔ (ہمارا اسلام، توحید، حصہ۳، ص۹۳۔۹۴)
سوال:توحیدِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے ثبوت میں قرآنی و عقلی کون کو ن سی دلیلیں ہیں ؟
جواب:خداوندتعالیٰ کی وَحدانیت کے ثبوت ،ایک تو عقلی ہیں یعنی انسانی عقل (بشرطیکہ عقل صحیح ہو) خدا ئے تعالیٰ کے ایک ہونے کا یقین رکھتی ہے ،اسی لئے دنیا کے بڑے بڑے حکماء اور فلسفی ایک خدا عَزَّوَجَلَّ کے قائل ہیں ، دوسرے ثبوت وہ ہیں جن کو قرآنِ کریم نے بتایا ہے اور وہ یہ ہیں :
{۱} وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠(۱۶۳) (پ۲،البقرۃ:۱۶۳)
ترجمۂ کنزالایمان : اور تمھارا معبود ایک معبود ہے اسکے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان
{۲} شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ- (پ۳، ال عمران: ۱۸)
ترجمۂ کنز الایمان : اللہ نے گواہی دی کہ اسکے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر
{۳} لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَاۚ-(پ۱۷، الانبیاء : ۲۲)
ترجمۂ کنزالایمان:اگرآسمان وزمین میں اللہ کے سوااورخداہوتے توضروروہ تباہ ہوتے
{۴} اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ وَ لَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَۙ(۹۱) (پ۱۸،المؤمنون:۹۱)
ترجمۂ کنز الایمان :یوں ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق لیجاتا اورضرور ایک دوسرے پر اپنی تعلّی(برتری) چاہتا پاکی ہے اللہ کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں (ہمارااسلام، توحید، حصہ۳، ص۹۴۔۹۵)
سوال:توحید کے کتنے مرتبے ہیں ؟
جواب:توحید کے چار مرتبے ہیں : {۱} اللہ عَزَّوَجَل ہی کو واجب الوجود سمجھنا{۲} تمام روحانی اور مادِّی عالَم کا خالق اللہ عَزَّوَجَل ہی کو جاننا {۳}آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں میں تمام تدبیر اور تصرف کو اللہ عَزَّوَجَل ہی کی ذات کے ساتھ مخصوص سمجھنا {۴}اللہ عَزَّوَجَل ہی کو مستحقِ عبادت سمجھنا۔(ہمارا اسلام،توحید،حصہ۳،ص۹۵)
سوال: قدیم کسے کہتے ہیں اور اللہ عَزَّوَجَل کی ذ ات کے سوا کون کون سی چیزیں قدیم ہیں ؟
جواب:’’قدیم ‘‘وہ جو ہمیشہ سے ہو اور اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں اور جس طرح اس کی ذات قدیم ،ازلی و اَبَدی ہے،اسی طرح اس کی صفات بھی قدیم، اَزَلی واَبَدی ہیں اور ذات و صفات کے سوا سب چیزیں حادِث ہیں ۔جو عالَم میں سے کسی چیز کو قدیم مانے یا اس کے حادِث ہونے میں شک کرے وہ کافر و مشرک ہے جیسے آرِیہ ، کہ رُوح اور مادَّہ کوقدیم مانتے ہیں یقیناً وہ مشرک ہیں ۔ (حادِث وہ شے ہوتی ہے جو پہلے نہ ہو اور پھر کسی کے پیدا کرنے سے ہو ، اسی کو ممکن بھی کہتے ہیں )۔(ہمارااسلام، توحید، حصہ۳، ص۹۵۔۹۶)
سوال:اللہ عَزَّوَجَل کے ذاتی اور صفاتی نام کتنے ہیں ؟
جواب:رب تعالیٰ کا ذاتی نام’’اللہ ‘‘ہے ،اس کو اسمِ ذات بھی کہتے ہیں اور لفظ ِ ’’اللہ ‘‘ کے سوا دوسرے نام جو اس کی صفات کو ظاہر کریں انہیں صفاتی نام یا اَسمائے صفات کہتے ہیں اور وہ بے شمار ہیں ۔حدیث شریف میں ہے کہ اللہ عَزَّوَجَل کے ننانوے نام جس کسی نے یاد کرلیے وہ جنتی ہوا۔(صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعائ۔۔۔ا لخ، باب فی اسماء اللّٰہ تعالٰی، الحدیث:۲۶۷۷، ص۱۴۳۹)ہاں ! ان ناموں کے علاوہ ایسے نام جو قرآن و حدیث میں نہ آئے ہوں جائز نہیں مثلا خدا عَزَّوَجَلَّ کو سخی یا رفیق کہنا ، اسی طرح دوسری قوموں میں اس کے جونام مقرر ہیں اور خراب معنی رکھتے ہیں یہ بھی اسکے لئے مقرر کرنا ناجائز ہے جیسے خدا عَزَّوَجَلَّ کو رَام یا پَرماتما کہنا۔ (ہمارا اسلام،توحید،حصہ۳،ص۹۶)
سوال:کیاخد ائے ذوالجلا ل کے نام کے ساتھ کسی اور کا نام رکھ سکتے ہیں ؟
جواب:اللہ عَزَّوَجَل کے بعض نام جو مخلوق پر بولے جاتے ہیں ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے جیسے لطیف، رشید، کبیر، کیونکہ بندوں کے ناموں میں وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو اللہ عَزَّوَجَل کے لئے ثابت ہیں ، (مگر ان ناموں کے ساتھ ’’عَبد‘‘کا اضافہ بہترہے جیسے عبداللطیف، عبد الرشید وغیرہ) ایسے ناموں کو بگاڑنا سخت منع ہے۔( جیسے لطیف سے طِیفا، رشید سے شِیدا، کریم سے کرمو وغیرہ۔)(ہمارا اسلام، توحید، حصہ۳، ص۹۶)
سوال :نبی ٔ رحمت، آقائے امَّت، محبوبِ رب العزت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات ، اَوصاف اور معجزات کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں ؟
جواب:پیارے آقاء ومولیٰ ،حضور سیِّدُالانبیاء صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خصوصیات، اَوصاف
اور معجزات بے شمار ہیں چندکا یہاں بیان کیا جاتاہے :
{۱} اللہ عَزَّوَجَل نے سب سے پہلے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا نور پیدا فرمایا پھر اُسی نور سے تمام کائنات پیدا فرمائی، اگر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ ہوں توکچھ نہ ہو،حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام جہان کی جان ہیں ۔
(ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵۷)
وہ جو نہ تھے توکچھ نہ تھا ، وہ جو نہ ہوں توکچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی ،جان ہے تو جہان ہے
(حدائق بخشش،حصہ۱،ص۱۲۶)
{۲} اللہ عَزَّوَجَل نے تمام انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْھِم ُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی رُوحوں سے عہد لیا کہ اگر وہ حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے کو پائیں تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مددبھی کریں ۔
(ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵۷)
میثاق کے دن سب نبیوں سے اقرار لیا تھا اُن کے لئے
اب آتے ہیں وہ سردارِ رُسُل اب ان کی ولادت ہو تی ہے
{۳}حضور آقائے دوجہان،رحمتِ عالمیان ، سرورِکون ومکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوقات میں خود بھی سب سے بہتر ہیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک خاندان بھی سب خاندانوں سے افضل ہے۔
(ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵۷)
تیری نسلِ پاک میں ہے بچَّہ بچَّہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نورکا
(حدائق بخشش،حصہ ۲ ،ص۱۸۱)
ان جیسا دوسرا نہ کوئی ہوا نہ ہوگا
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ
(حدائق بخشش،حصہ۱،ص۱۷۲)
{۴}حضور ِانور،شافعِ محشر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وِلادت شریف کے وقت بت اَوندھے گر پڑے اورایسا نور پھیلا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والدہ ٔ ماجدہ حضرتِ سیِّدَتُنا بی بی آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ملکِ شام کے محلات دیکھ لئے ۔
(ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵۷)
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مُجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرتھرا کر گر گیا
(حدائق بخشش،حصہ ۱،ص۴۱)
{۵}آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا سایہ نہ تھا کیوں کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نور ہی نور ہیں اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ (ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵۷)
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑانور کا سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
(حدائق بخشش،حصہ ۲،ص۱۷۹)
{۶}گرمی کے وقت اکثربادل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرسایہ کرتا تھا اور درخت کا
سایہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف آجاتا تھا حالانکہ ابھی لوگوں کو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نبی ہونا معلوم نہ ہواتھا۔
{۷}آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم ِ انور اور پسینَۂ مبارکہ میں مشک وزَعفران سے بڑھ کر خوشبو آتی تھی ۔جس راستے سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گزرتے وہ راستہ مہک جاتا۔(ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵۸)
گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِوالا ہو کر رہ گئی ساری زمیں عنبرِسارا ہو کر
(حدائق بخشش،حصہ ۱،ص۵۳)
{۸}اللہ عَزَّوَجَل نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو زمین و آسمان کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمادیں اور اختیار دیا کہ جسے جو چاہیں دیں اور جس سے جو چاہیں واپس لے لیں ، اُن کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں ۔
(ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵۸)
حکم نا فذ ہے تِرا،خامہ تِرا،سیف تِری دَم میں جوچاہے کرے دَور ہے شاہاتیرا
کنجیاں دل کی خدانے تجھے دیں ایسی کر کہ یہ سینہ ہو محبت کاخزینہ تیرا
(حدائق بخشش، حصہ۱، ص۲۹)
{۹}دنیا وآخرت کی ہر چھوٹی بڑی نعمت آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے طفیل میں ملتی ہے اورملتی رہے گی ۔
(ہمارا اسلام،سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حصہ۲،ص۵۸)
{۱۰}ا للہ عَزَّوَجَلَّ کے نام کے ساتھ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نام بھی بلند کیا جاتا ہے، حضور ِ اقدس، نورِمقدَّس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَل کے محبوب ہیں ۔
(ہمارا اسلام، سید الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۲، ص۵)
_
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ کا ہے سایہ تجھ پر بول بالاہے تِرا ذکر ہے اونچا تیرا
تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے جب بڑھائے تجھے اللہ تَعَالیٰ تیرا
(حدائق بخشش، حصہ ۱، ص۲۷)
غرض حضور سرورِعالَم، نورِمجَسَّم، شہنشاہِ معظَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل بیشمار ہیں ۔وہ اللہ عَزَّوَجَل کے حبیب ہیں اور مخلوق میں ساری خوبیاں آپ ہی کی ذاتِ ِبابَرَکات پر ختم ہیں ۔ (ہمارا اسلام،سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حصہ۲،ص۵۸۔۵۷)
بعد اَزْ خدا بزرگ توئی قِصَّہ مختصر
{۱}سب سے پہلے جس کو نُبُوَّت ملی وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔
(ہمارا اسلام، خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۳، ص۱۰۴)
ذات ہوئی انتخاب وَصف ہوئے لاجواب نام ہوا مصطفی تم پہ کروڑوں دُرُود
(حدائق بخشش، حصہ۲، ص۱۹۲)
{۲}قیامت کے روز جو سب سے پہلے قبر سے اُٹھے گا وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی ہوں گے ۔
{۳}شفاعت کا دَروازہ جو سب سے پہلے کھولیں گے وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی ہوں گے۔
(ہمارا اسلام،خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم،حصہ۳،ص۱۰۴)
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
(حدائق بخشش، حصہ۱، ص۱۱۲)
{۴}شفاعت کی اجازت سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کو دی جائے گی۔ (ہمارا اسلام، خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۳، ص۱۰۴)
لو وہ آئے مسکراتے ہم اَسیروں کی طرف خِرمنِ عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے
(حدائق بخشش، حصہ۱، ص۱۱۳)
اب آئی شفاعت کی ساعت اب آئی ذرا چین لے میرے گھبرانے والے
(حدائق بخشش، حصہ۱، ص۱۱۵)
{۵}حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایک جھنڈا مَرحمت ہوگا جس کو ’’لِوَ اءُ الْحَمْدْ‘‘ کہتے ہیں تمام مؤمنین حضرت سیِّدُنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے لیکر آخر تک سب اِسی کے نیچے ہونگے۔
{۶}حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کیلئے ساری زمین پاک کرنے والی اور مسجد ٹھہری ۔
{۷}حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے لئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا ۔
{۸}حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی پیشوائے مرسلین اور خاتم ُالنَّبییِّن ہیں ۔ علیہم الصلوٰۃ و التسلیم
(ہمارا اسلام، خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۳، ص۱۰۴)
سب سے اول سب سے آخر ابتدا ہو انتہاہو
سب تمہاری ہی خبر تھے تم مؤخر مبتدا ہو
(حدائق بخشش، حصہ۲، ص۲۴۸)
{۹}روزِ محشرحضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آگے ہوں گے اور ساری مخلوق پیچھے پیچھے۔
(ہمارا اسلام، خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۳، ص۱۰۴)
باغِ جنَّت میں محمد مسکراتے جائیں گے پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے
{۱۰}پل صراط سے سب سے پہلے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی امَّت کو لے کر گزر فرمائیں گے ۔(ہمارا اسلام،خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حصہ۳،ص۱۰۴)
پل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو جبریل پر بچھائیں توپَر کو خبر نہ ہو
(حدائق بخشش، حصہ۱، ص۹۶)
{۱۱}دیگر انبیائے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کسی ایک قوم کی طرف بھیجے گئے جبکہ حضور تاجدارِ عرب وعجم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ (ہمارا اسلام، خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۳، ص۱۰۴)
ملکِ کونین میں انبیاء تاجدار تاجداروں کا آقا ہمارا نبی
(حدائق بخشش، حصہ۱، ص۱۰۲)
{۱۲}حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ عَزَّوَجَل مقامِ محمود عطا فرمائے گا کہ تمام اولین و آخرین ان کی حمد کریں گے۔ (ہمارا اسلام،خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم،حصہ۳،ص۱۰۴)
صبا وہ چلے کہ باغ پھَلے وہ پھول کھِلے کہ دن ہوں بھَلے
لِوا کے تلے ثناء میں کھلے رِضاکی زباں تمہارے لئے
(حدائق بخشش، حصہ ۲، ص۲۵۶)
{۱۳}آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جسم کے ساتھ معراج ہوئی ۔ (ہمارا اسلام،خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم،حصہ۳،ص۱۰۴)
وہ سرورِ کشورِ رِسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
(حدائق بخشش، حصہ ا، ص۱۶۲)
{۱۴}اللہ عَزَّوَجَل نے تمام نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ التَّسْلِیْم سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد کرنے کا وعدہ لیا ۔
{۱۵}آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو’’حبیب اللہ ‘‘کا خطاب ملا، تمام جہان اللہ عَزَّوَجَل کی رِضا چاہتا ہے اور اللہ عَزَّوَجَل آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِضا کا طالب ہے۔ (ہمارا اسلام،خاتم النبیین صلی اللہ تَعَالیٰ علیہ وآلہ وسلم،حصہ۳،ص۱۰۵)
خدا کی رِضاچاہتے ہیں دو عالَم خدا چاہتا ہے رِضائے محمد
(حدائق بخشش، حصہ۱، ص۴۹)
ڈوبے ہوئے سورج کو پلٹانا ، اِشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دینا، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کرنا،تھوڑے سے طعام کا کثیر جماعت کے لئے کافی ہوجانا ، دودھ کی معمولی مقدار سے کثیر افراد کا سیراب ہونا ، کنکریوں کا تسبیح پڑھنا ، لکڑی کے ستون میں ایسی صفت پیدا ہوجانا جو خاص انسانی صفت ہے یعنی نہ صرف تھرتھرا نابلکہ فراقِ محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا احساس پیدا ہونا اور اس پر رونا ، درختوں اور پتھروں کا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوسلام کرنا ، درختوں کو بلانا اور ان کا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم پر چل کر آنا ، درندوں اور موذی جانوروں کا آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نامِ نامی اسمِ گرامی سن کر رَام ہو جانا اور ہزاروں پیش گوئیوں کا آفتاب کی طرح صادق ہونا وغیرہ وغیرہ، ہزاروں معجزات ہیں جو نہ صرف آیات و صحیح احادیث سے ثابت ہیں بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی اس کا اقرار کرتے ہیں اور ان کی کتابوں میں بھی ان کا ذکر پایا جاتا ہے۔ (ہمارا اسلام، سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۴، ص۱۸۱)
سوال: خاتَم النبیِیّن کے کیا معنی ہیں ؟
جواب:خاتم النبیِّین یا خَتم المرسلین کے معنی یہ ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَل نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرسلسلۂ نُبُوَّت ختم فرمادیا ،حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِ پاک پر نُبُوَّت کا خاتمہ ہوگیا۔ (ہمارا اسلام، خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۳، ص۱۰۴)
سوال:ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نُبُوَّت عام ہے یا خاص ؟ اور کیا انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوٰۃُ وَ التَّسْلِیْم بھی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امّت ہیں ؟
جواب:نبی ٔ رحمت، آقائے امَّت،محبوبِ رب العزت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نُبُوَّت و رِسالت سیدنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے زمانے سے روزِ قیامت تک کی تمام مخلوقات کو عام ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ حضور سرورِعالَم ، نورِ مجسَّم، شہنشاہِ معظَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِسالت تمام جن وانس اور فرشتوں کو شامل ہے بلکہ تمام حیوانات ، جمادات، نباتات آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِسالت کے دائرہ میں داخل ہیں ،تو جس طرح انسان کے ذمَّہ حضو ر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت فرض ہے یونہی ہر مخلوق پر حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری کرنا ضروری ہے اور یہ سب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امّت ہیں توجب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بادشاہِ زمین و آسمان ہیں اور خدا عَزَّوَجَلَّ کی ساری مخلوق کے لئے نبی و رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں تو تمام نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوٰۃُ وَ التَّسْلِیْم کے بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسول ہوئے اور جب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے رسول ہوئے تو یہ نفوسِ قدسِیَّہ بھی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے امّتی ٹھہرے۔ (ہمارا اسلام، خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۳، ص۱۰۴)
سوال: حضور مکّی مدَنی سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کس خاندان اور کس قبیلے سے ہیں ؟
جواب:حضور ِانور،شافعِ محشر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاندانِ قریش سے ہیں ،یہ خاندان عرب میں ہمیشہ سے ممتاز و معزَّز چلا آتا تھا ، عرب کے تمام قبیلے اور خاندان اس خاندان کو اپنا سردار مانتے تھے۔ اسی خاندانِ قریش کی ایک شاخ بنی ہاشم تھی،جو قریش کی دوسری تمام شاخوں سے زیادہ عزت رکھتی تھی، حضور سلطانِ مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطَّر پسینہ،باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود اِرشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَل نے حضرت سیِّدنا اسماعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی اَولاد میں سے کِنانہ کو بَرگزیدہ بنایا اور کِنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے بَرگزیدہ بنایا۔(سنن الترمذی، کتاب المناقب،باب ماجاء فی فضل النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الحدیث:۳۶۲۶، ج۵،ص۳۵۰)
حضرت سیّدِنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَام فرماتے ہیں کہ میں دنیا کے مشرق و مغرب میں پھرا مگر بنی ہاشم سے افضل کوئی خاندان نہیں دیکھا۔ (المعجم الاوسط، باب من اسمہ محمد، الحدیث:۶۲۸۵،ج۴، ص۳۷۲)
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہاشمی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بنی ہاشم سے ہیں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پردادا کا نام ہاشم ہے اور یہ عبدِمناف کے بیٹے ہیں ہاشم کا اصلی نام عَمْرو تھا یہ نہایت ہی مہمان نواز تھے ان کا دستر خوان ہر وقت بچھا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ قحط کے زمانے میں یہ ملکِ شام سے خشک روٹیاں خرید کر مکہ میں لائے اور روٹیوں کا چُورہ کر کے اونٹ کے شوربے میں ڈال کر لوگوں کو پیٹ بھر کر کھلایا اس دن سے ان کو ہاشم (روٹیوں کا چورہ کرنے والا ) کہاجانے لگا، ہاشم کی پیشانی میں نورِ محمدی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چمکتا تھا ۔ اسی لئے لوگ ان کی بڑی عزت کر تے تھے۔ (ہمارا اسلام،خاتم النبیین صلی اللہ تَعَالیٰ علیہ وآلہ وسلم،حصہ۳،ص۱۰۶)
سوال:حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم شریف کے متعلق اہلِ سُنَّت کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب:تمام ا ہلِ سُنَّت و جماعت کا اس بات پر اِجماع ہے کہ جس طرح حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے تمام کما لات میں جملہ انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوٰۃُ وَ التَّسْلِیْم سے افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کمالاتِ علمی میں بھی سب سے فائق ہیں ۔ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات اور احادیثِ کثیرہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ عَزَّوَجَل نے اپنے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور علمِ غیب کے دروازے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کھو ل دیئے ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہر چیز روشن فرمادی اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سب کچھ پہچان لیا ، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم میں آگیا، حضرت سیِّدناآدم عَلَیْہِ السَّلَام سے لے کر قیامِ قِیامت تک تمام مخلوق سیدِ عالم ، شہنشاہِ عرب و عجَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر پیش کی گئی اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے گزشتہ و آئندہ کی ساری مخلوق کو پہچان لیا۔ نبی ٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر شخص کو اس سے بھی زیادہ پہچانتے ہیں جتنا ہم میں سے کوئی اپنے عزیز کو پہچانے اور امّت کا ہر حال ، ان کی ہر نیَّت ، ان کے ہر ارادے اور ان کے دِلوں کے خیالات سب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر روشن ہیں ۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود اِرشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَل نے میرے سامنے دنیا اُٹھالی ہے ، تو میں اُسے اور اس میں جو کچھ قِیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھتا ہوں ۔(حلیۃ الاولیائ،۳۳۸۔حد یر بن کریب، الحدیث:۷۹۷۹، ج۶، ص۱۰۷) اور یہ جو کچھ ہے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پورا علم نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم ِمبارک سے ایک چھوٹا سا حصّہ ہے۔ حضور سرورِعالَم، نورِمجَسَّم،شہنشاہِ معظّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علوم کی حقیقت خود وہ جانیں یا ان کا عطا کرنے والا ان کا مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ۔ (ہمارا اسلام، سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حصہ۴،ص۱۸۴)
وَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَاوَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ
(قصیدہ بردہ (مترجم)، ص ۸۲ )
یہاں یہ بات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ’’ علم ِغیب ِذاتی‘‘ اللہ عَزَّوَجَل کے سا تھ خاص ہے اور انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ و اَولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کو غیب کا علم اللہ عَزَّوَجَل کی تعلیم سے عطا ہوتا ہے ، اللہ عَزَّوَجَل کے بتائے بغیر کسی کو کسی چیز کا علم نہیں اور یہ کہنا کہ اللہ عَزَّوَجَل کے بتائے سے بھی کوئی نہیں جانتا محض باطل اورسینکڑوں آیات واحادیث کے خلاف ہے۔ اپنے پسندیدہ رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ کو علمِ غیب دیئے جانے کی خبر خود ربّ ِاکبر عَزَّوَجَلَّ نے سورۂ جن میں دی ہے اور بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے؟ اور کل کون کیا کریگا؟ اور کہاں مرے گا ؟ان تمام اُمور کی خبریں بھی بکثرت انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ و اَولیاء عظام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِمنے دی ہیں اور کثیر آیتیں اور حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں ۔ (ہمارااسلام، سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حصہ۴، ص۱۸۳)
سوال:ایمان کسے کہتے ہیں ،اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟
جواب:سچّے دل سے اُن تمام باتوں کی تصدیق کرنا جو ضروریاتِ دین سے ہیں اُسے ایمان کہتے ہیں ، یا یوں سمجھیں کہ جو کچھ حضور سرورِعالَم، نورِ مجَسَّم،شہنشاہِ معظَّم ہمارے پیارے آقاحضرت محمدمصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے رب خدائے بزرگ وبرتر عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے لائے ، خواہ وہ حکم ہو یا خبر، اُن سب کو حق جاننا اور سچّے دل سے ماننا ایمان
کہلاتا ہے اور جو شخص ایمان لائے اسے مؤمن و مسلمان کہتے ہیں ۔ اسلام کے لغوی معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں اور شرعی معنی میں اسلام اور ایمان ایک ہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں ۔جو مؤمن ہے وہ مسلمان ہے اور جو مسلمان ہے وہ مؤمن ہے، البتہ صرف زبانی اقرار کرناکہ جس کے ساتھ قلبی تصدیق نہ ہو معتبر نہیں ، اس سے آدمی مؤمن نہیں ہوتا۔(ہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴، ص۱۹۳)
سوال:مؤمن کتنی قسم کے ہیں نیز ’’فاسق فی العقیدہ‘‘ کسے کہتے ہیں ؟
جواب:مؤمن دو قسم کے ہیں : {۱}مؤمنِ صالح {۲}مؤمنِ فاسق۔
مؤمنِ صالح یا مؤمنِ مطیع وہ مسلمان ہے جو دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کے ساتھ ساتھ شریعت کے اَحکام کاپابند بھی ہو ، خدا عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتا ہو ،شریعت کے خلاف نہ کرتا ہو اور مؤمنِ فاسق وہ ہے جو اَحکامِ شریعت کی تصدیق اور اقرار تو کرتا ہومگر اس کا عمل ان اَحکام کے بر خلاف ہو جیسے وہ مسلمان جو نمازی روزہ کو فرض تو جانتے ہیں مگر اَدا نہیں کرتے ۔اسی طرح ’’فَاسِق فِی الْعَقِیدَہ‘‘ وہ شخص ہے جو دعوی ٔ اِسلام کے ساتھ ساتھ مذہبِ ا ہلِ سُنَّت و جماعت کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے اسی کو بد دین ، گمراہ، بد مذہب اور ضَال (بھٹکا ہوا) بھی کہتے ہیں ۔(ہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴،ص۱۹۲)
سوال:اعمالِ بدن، ایمان میں داخل ہیں یا نہیں ؟
جواب:اصل ایمان صرف تصدیقِ قلبی کا نام ہے اعمالِ بدن اصلاً ایمان کا جزو نہیں ، ہاں ! بعض اَعمال جو قطعاً ایمان کے خلاف ہوں ان کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا ، جیسے بُت یا چاند، سورج وغیرہ کو سجدہ کرنا یا کسی نبی یا قرآنِ کریم کی یا کعبۂ معظمہ کی توہین کرنا یا کسی
سُنَّت کو ہلکا بتانا ، یہ باتیں یقینا کفر ہیں ،یونہی بعض اَعمال کفر کی علامت ہیں جیسے زُنَّار (وہ دھاگہ یا ڈوری جو ہندو گلے سے بغل کے نیچے تک ڈالتے ہیں اور عیسائی، مجوسی اور یہودی کمر میں باندھتے ہیں ۔(اردولغت تاریخی اصول پر،ج۱۱،ص۱۶۲)) باندھنا، سر پر چوٹیا (وہ چند بال جو بچے کے سر پر منت مان کرہندو رکھتے ہیں ۔(فرھنگ آصفیہ،ج۱،ص۱۰۴)) رکھنا ، قشقہ (پیشانی پر صندل یا زعفران کے دو نشانات، ٹیکا، تلک جو ہندو ماتھے پر لگاتے ہیں ۔ (اردو لغت تاریخی اصول پر،ج۱۴،ص۲۵۴)) لگانا۔ (یہ ہندؤوں کے شعائریعنی مذہبی طریقے ہیں ) جس شخص سے یہ اَفعال صادِر ہوں اُسے از سرِ نو اِسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے دوبارہ نکاح کرنے کا حکم دیا جائے گا۔(ہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴، ص۱۹۳)
سوال:ایمان گھٹتا اور بڑھتا بھی ہے یا نہیں ؟
جواب:ایمان کوئی ایسی شے نہیں جو بڑھے یا گھٹے ، اس لئے کہ کمی بیشی اس میں ہوتی ہے جومقدار یعنی لمبائی چوڑائی ، موٹائی یا گنتی وغیرہ رکھتا ہو ،جبکہ ایمان تصدیق ہے اور تصدیق نام ہے دل کی ایک کیفیت کا ،جسے یقین کہاجاتا ہے ، البتہ ایمان میں شدّت و ضُعف کی گنجائش ہے ،یعنی کمالِ ایمان میں کمی بیشی ہوسکتی ہے ،چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضرتِ سیِّدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تنہا ایمان اِس امّت کے تمام افراد کے مجموعی ایمانوں پر غالب ہے ۔(شعب الایمان للبیہقی،باب القول فی زیادۃ الایمان ونقصانہ۔۔۔الخ،الحدیث:۳۶،ج۱،ص۶۹ وہمارا اسلام،ایمان وکفر،حصہ۴،ص۱۹۳)
سوال:مسلمان ہونے کے لئے کیا شرط ہے؟
جواب:اِقرارِ لسانی یعنی زبان سے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرنا تاکہ دوسرے لوگ اسے مسلمان سمجھیں اور مسلمان اس کے ساتھ ا ہلِ اسلام کا سا سلوک کریں نیز یہ بھی
شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیز کاانکار نہ کرے جو ضروریاتِ دین سے ہو اگرچہ باقی باتوں کا اقرار کرتا ہو، اگرچہ وہ یہ کہے کہ صرف زبان سے انکار ہے دل میں انکار نہیں کہ بغیر شرعی مجبوری کے کلمۂ کفر وہی شخص اپنی زبان پر لائے گا جس کے دل میں ایمان کی اتنی ہی وقعت ہے کہ جب چاہا اقرار کرلیا اور جب چاہا انکار کردیا اور ایمان تو ایسی تصدیق ہے جس کے خلاف کی اصلاً گنجائش نہیں ۔ (ہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴، ص۱۹۳۔۱۹۴)
سوال:کفر و شرک کسے کہتے ہیں ؟
جواب:حضور آقائے دوجہان ،رحمتِ عالمیان ، سرورِ کون ومکان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کچھ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے لائے ان میں سے کسی ایک بات کو بھی نہ ماننا کفر ہے اور شرک کے معنی ہیں خدا عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو واجب الوجود یا مستحقِ عبادت جاننا یعنی خدا عَزَّوَجَلَّ کی خدائی میں دوسرے کوشریک کرنا اور یہ کفر کی سب سے بدتر ین قسم ہے اس کے سوا کوئی بات اگر چہ کیسی ہی شدید کفر ہو حقیقۃً شرک نہیں اور کبھی شرک بول کر مطلق کفر مراد لیا جاتا ہے اوریہ جو قرآنِ عظیم نے فرمایا کہ شرک نہ بخشا جائے گا(پ۵، النسآء :۴۸)وہ اس معنی پر ہے یعنی اصلاً کسی کفر کی مغفرت نہ ہوگی ، کفر کرنے والے کو کافر اور شرک کرنے والے کو مشرک کہا جاتا ہے۔ (ہمارا اسلام، ایمان وکفر،حصہ۴،ص۱۹۴)
سوال:کافر کتنی قسم کے ہوتے ہیں ؟
جواب :کافر دو قسم کے ہوتے ہیں : {۱}اَصلی {۲} مُرْتَد۔
کافرا ِصلی وہ کہ جو شروع سے کافرہے اور کلمۂ اسلام کا انکارکرتا ہے، خواہ علی
الاعلان کلمہ کا منکر ہو یا بظاہر کلمہ پڑھتا ہو لیکن دل میں انکار کرتا ہو اور مرتد وہ کہ جو اسلام کا کلمہ پڑھ لینے کے بعد (یعنی مسلمان ہو جانے کے بعد) کفر کرے، خواہ یوں کہ پہلے مسلمان تھا پھر اعلانیہ اسلام سے پِھر گیا ، کلمۂ اسلام کا منکر ہو گیا ،یا یوں کہ کلمۂ اِسلام اب بھی پڑھتا ہے ، اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا ہے اور پھر خدا عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین کرتا ہے یا ضروریات دین میں سے کسی بات سے انکار کرتا ہے۔
(ہمارا اسلام،ایمان وکفر،حصہ۴،ص۱۹۴۔۱۹۵)
سوال:جو کافرا علانیہ کفر کرتے ہیں ان کی کتنی قسمیں ہیں ؟
جواب:علی الاعلان کلمہء اسلام کے منکر چار قسم کے ہیں :
اول: ’’دہریہ‘‘ کہ خدا عَزَّوَجَلَّ کے وجودہی کا منکر ہے ۔زمانہ کو قدیم خیال کرتا ہے، مخلوق کو خود بخود پیدا ہونے والا کہتا ہے اور قیامت کا قائل نہیں ان ہی میں زِندیق اور مُلحِد ہیں کہ دین کا مذاق اڑاتے اور ضروریات دین بلکہ تعلیماتِ اسلام کو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں ، اگر چہ وجود باری تعالیٰ عَزَّوَجَلَّ کے منکر نہ بھی ہوں ۔
دوم: ’’ مشرک‘‘ کہ اللہ عَزَّوَجَل کے سوا کسی اور کو بھی معبود یا وَاجب الوجود مانتا ہے جیسے ہندو بُت پرست کہ بتوں کو اپنا معبود جانتے ہیں اور آریہ کہ یہ روح اور مادہ کو واجب الوجود یعنی قدیم وغیرمخلوق جانتے ہیں یہ دونوں مشرک ہیں اور آرِیوں کو موحّد سمجھنا سخت باطل ہے۔
سوم: ’’ مجوسی ‘‘ آتش پرست کہ آگ کی پوجا کرتے ہیں ۔
چہارم: ’’کتابی ‘‘ (اہل کتاب)، یہودی اور نصرانی جو دوسری آسمانی کتابوں کے نزول کا اقرار اور قرآنِ کریم کا انکار کرتے ہیں اور اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ (ہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴، ص۱۹۵)
سوال: منافق کون ہوتا ہے؟
جواب: منافق وہ کافر ہے کہ زبان سے تودعویٔ اسلام کرتا ہے مگر دل میں اسلام کا منکر ہے ، ایسے لوگوں کے لئے جَہنَّم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے ۔ حضور سلطانِ مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطَّر پسینہ ،باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ اقدس میں کچھ لوگ اس نام کے ساتھ مشہور ہوئے اس لئے کہ ان کے کفرِ باطنی کو خدا عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے واضح فرمایا اور فرمادیاکہ یہ منافق ہیں ۔اب اس زمانے میں کسی خاص شخص کی نسبت یقین کے ساتھ منافق نہیں کہا جاسکتا ، البتہ نفاق کی ایک شاخ اس زمانے میں بھی پائی جاتی ہے کہ بہت سے بدمذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے کہ دعویٔ اسلام کے ساتھ ضروریاتِ دین کاانکار بھی ہے ۔ کافروں میں سب سے بد تر منافق یہی ہیں اور ان کی صحبت ہزاروں کافروں کی صحبت سے زیادہ مُضِر ہے کہ یہ مسلمان بن کر کفر سکھاتے ہیں ۔
(ہمارا اسلام،ایمان وکفر،حصہ۴،ص۱۹۵۔۱۹۶)
سوال: کافر کی بخشش اور نجات کے لئے دعا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:جو کسی کافر کیلئے اس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے یا کسی مردہ مُرتد کو مرحوم یا مغفور یا کسی مردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی (جنتی) کہے وہ خود کافر ہے۔ (ہمارااسلام،ایمان وکفر،حصہ۴،ص۱۹۶)
سوال: کافر کو کافر کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب:مسلمان کو مسلمان اور کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے اگر چہ کسی خاص شخص کی نسبت اُس وقت تک یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان پر یا معاذ
اللہ عَزَّوَجَل کفر پر ہوا، جب تک کہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو۔ مگر اس کے ہر گزیہ معنٰی نہیں کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کفر میں بھی شک کیا جائے کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنادیتا ہے ، تو جب کوئی کافر اپنے کفر سے توبہ کئے بغیر مر گیا تو ہمیں خدا عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم یہی ہے کہ اسے کافر ہی جانیں ، اس کی زندگی اور موت کے بعد اس کے ساتھ وہی تمام معاملات کریں جو کافروں کیلئے ہیں اور خاتمہ کا حال علم الٰہی عَزَّوَجَلَّ پر چھوڑ دیں اسی طرح جو ظاہراً مسلمان ہو اور اس سے کوئی قول و فعل ایمان کے خلاف ثابت نہ ہو تو فرض ہے کہ ہم اسے مسلمان ہی مانیں اگرچہ ہمیں اس کے بھی خاتمہ کا حال معلوم نہیں تو پتہ چلاکہ شریعت کا مدار ظاہر پر ہے جب کہ روزِ قیامت ثواب یا عذاب کی بنیاد خاتمہ پر ہے۔ (ہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴، ص۱۹۶)
سوال:اس ا مَّت میں گمراہ فرقے کتنے ہیں ؟
جواب: حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ یہ ا مّت تہتَّر فرقے ہو جائے گی، ایک فرقہ جنَّتی ہوگا باقی سب جہنمی۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی وہ جنتی فرقہ کونسا ہے؟ فرمایا: ’’وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔‘‘ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب العلم ، باب منع معاویۃ قاصاً کان یقص۔۔۔الخ، الحدیث: ۴۵۵، ج۱، ص ۳۳۷)یعنی سُنَّت کے پَیرو۔اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور آقائے دوجہان، رحمتِ عالمیان، سرورِ کون و مکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے کہ وہ جماعت ہے یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے ’’ سوادِ اعظم‘‘فرمایااور فرمایا: جو اس سے الگ ہوا جَہنَّم میں الگ ہوا ۔اسی وجہ سے اس جَنَّتی فرقے کا نام اہلِ سُنَّت و جماعت ہوا۔(مشکاۃ المصابیح،
کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الحدیث:۱۷۲، ۱۷۴، ج۱، ص۵۴،۵۵ ومرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، تحت الحدیث:۱۷۴، ج۱،ص۴۲۱ملتقطاً وہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴، ص۱۹۶،۱۹۷)
سوال:ضروریاتِ دین کا کیا مطلب ہے؟
جواب: ضروریاتِ دین وہ دینی مسائلِ ہیں جن کے بارے میں ہر خاص وعام جانتا ہو کہ انہیں حضور سلطانِ مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطَّر پسینہ، باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس سے لائے جیسے اللہ عَزَّوَجَل کی وَحدانیت، انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ کی نُبُوَّت ، جنت ونار ، حشرونشر وغیرہ، مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاتم النبیِّین ہیں ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا یایہ عقیدہ رکھنا کہ سب آسمانی کتابیں اور صحیفے حق ہیں اور سب کلام اللہ عَزَّوَجَل ہیں ، یایہ کہ قرآنِ کریم میں کسی حَرْف یا نقطہ کی کمی یا بیشی محال ہے اگرچہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہوجائے۔(ہمارااسلام، ایمان وکفر، حصہ۴، ص۱۹۷)
سوال: رسول کون ہوتے ہیں اور نبی ورسول میں کیا فرق ہے ؟
جواب:اللہ عَزَّوَجَل نے جن برگزیدہ بندوں کواپنی مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اپنا پیغام دے کر بھیجا انھیں رسول کہتے ہیں ، یہ اللہ عَزَّوَجَل اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلاتے ہیں ۔ نبی و رسول کے معنی میں بھی کوئی فرق نہیں یہ دونوں لفظ ایک ہی معنی کیلئے بولے اور سمجھے جاتے ہیں ،البتہ نبی صرف اُس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ عَزَّوَجَل نے ہدایت کے لئے وَحی بھیجی ہو ، جبکہ رسول
فرشتوں میں بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں بھی ۔اور بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ جو نبی نئی شریعت لائے اسے رسول کہتے ہیں ۔ ہاں ! نبیوں کی کوئی تعداد مقرر کرلینا جائز نہیں ہمیں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ خدا عَزَّوَجَلَّ کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔
(ہمارااسلام،خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۳۔۵۵ملتقطا)
سوال: پیغمبروں اور دوسرے انسانوں میں کیا فرق ہے؟
جواب:پیغمبروں اور دوسرے انسانوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، نبی اور رسول، خدا عَزَّوَجَلَّ کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں ،ان کی نگرانی اور تربیت خود اللہ عَزَّوَجَل فرماتا ہے ، صغیرہ کبیرہ گناہوں سے بالکل پاک ہوتے ہیں ۔ عالی نسب ، عالی حسب اور انسانیت کے اعلیٰ مرتبے پر پہنچے ہوئے ، خوبصورت، نیک سیرت، عبادت گزار ، پرہیزگار، تمام اَخلاقِ حَسَنہ (نیک عادات)سے آراستہ اور ہر قسم کی برائی سے دُور رہنے والے ، انھیں عقل کامل عطا کی جاتی ہے جو اَوروں کی عقل سے بدَرجہا زائد ہے ،کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل، کسی سائنسدان کی فہم و فراست اس کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی اور کیوں نہ ہوکہ یہ اللہ عَزَّوَجَل کے پیارے بندے اور اس کے محبوب ہوتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَل اِنھیں ہر ایسی بات سے دُور رکھتا ہے جو باعثِ نفرت ہو۔ اِسی لئے انبیاء ِکرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے جسموں کا بَرْص (سفید داغ) ، جذَا م (کوڑھ) وغیرہ ہرایسی بیماری سے پاک ہونا ضروری ہے جس سے لوگ گھِن کریں ۔
(ہمارااسلام، خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۳)
سوال: کیا انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو بھی علمِ غیب ہوتا ہے؟
جواب: انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام غیب کی خبر یں دینے کے لئے ہی آتے ہیں ، حساب
کتاب، جنت و دَوزخ ، ثواب عذاب ، حشرو نشر ،فرشتے وغیرہ غیب نہیں تو اور کیا ہیں ؟ یہ وہی باتیں بتاتے ہیں جن تک عقل نہیں پہنچتی مگر یہ علمِ غیب جوکہ ان کو حاصِل ہے، اللہ عَزَّوَجَل کے دیئے سے ہے لہٰذا ان کا علم عطائی ( خدا عَزَّوَجَلَّ کا عطا کردہ) ہوا۔ (ہمارا اسلام،خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۴)
سوال: خدا عَزَّوَجَلَّ کے دربار میں نبی کا کیا مرتبہ ہے ؟اور جو کسی نبی کی عزت نہ کرے وہ کون ہے؟
جواب: تمام ا نبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ کو خدا عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بڑی عزت و وَجاہت حاصل ہے۔ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ تمام مخلوق سے افضل واعلیٰ ، بلند و بالا ہوتے ہیں ،فِرشتوں میں بھی اِن کے مرتبہ کا کوئی نہیں اور بڑے سے بڑا ولی بھی اِن کے برابر نہیں ہوسکتا۔ تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ کی تعظیم کر نا ہر مسلمان پرفرض ہے بلکہ دوسرے تمام فرائض سے بڑھ کر ہے ، جو شخص کسی نبی کی شان میں کوئی ایسی ویسی بات نکالے جس سے ان کی توہین ہوتی ہو (خواہ کسی بھی پہلو سے ہو) توایساکرنے والا کافر ہے ۔ (ہمارا اسلام، خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۴)
سوال:کیا عبادت کے ذریعے کوئی شخص نبوت کا دَرَجہ پا سکتا ہے؟ نیز کیا جن و فرشتہ میں نبی ہوتے ہیں ؟
جواب: ہر گزنہیں ، نُبُوَّت بہت بڑا مرتبہ ہے کوئی بھی شخص عبادت کے ذریعے اسے حاصل کرہی نہیں سکتا ،چاہے عمر بھرروزہ دَار رہے ساری زندگی نماز میں گزار دے سارا مال و دولت اللہ عَزَّوَجَل کی راہ میں قربان کر دے مگر نُبُوَّت نہیں پاسکتا کیونکہ نُبُوَّت خدا عَزَّوَجَلَّ کا عطیہ ہے،وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے دیتا ہے ۔ ہاں ! دیتا اسی کو ہے جسے اس کے
قابل بنا تا ہے ۔نہ کوئی جِنّ و فرشتہ نبی ہوا نہ کوئی عورت نبی ہوئی۔
(ہمارا اسلام، خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۴،۵۵)
سوال:کیا نبیوں اور فرشتوں عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے سوا کوئی اور بھی معصوم ہوتا ہے مثلاً صحابہ کرام و اَولیاء کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرہ؟
جواب: نبیوں اور فرشتوں عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے سوا کوئی بھی معصوم نہیں ، اِن کی طرح کسی اور کو معصوم سمجھنا گمراہی ہے۔اَولیاء اللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم اور نبی ٔپاک، صاحِبِ لولاک،سیَّاحِ افلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَولاد اور اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرہ میں جو امام ہیں وہ بھی معصوم نہیں ، ہاں ! یہ اور بات ہے کہ انھیں اللہ عَزَّوَجَل اپنے کرم سے گناہوں سے بچاتا ہے ، ان سے گناہ نہیں ہوتے، مگر ہو تو ناممکن بھی نہیں ۔
(ہمارا اسلام، خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۵)
سوال:کیا نبی کسی حکمِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ کو چھپا بھی لیتے ہیں ؟
جواب: نہیں ! اللہ عَزَّوَجَل نے ا نبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر بندوں کے لئے جتنے بھی اَحکام نازل فرمائے انھوں نے وہ سب پہنچادیئے ۔اب جو کہے کہ کسی حکم کو کسی نبی نے چھپائے رکھا یعنی خوف کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے نہ پہنچایا توایسا کہنے والا کافر ہے۔ (ہمارااسلام،خدا کے رسول ونبی علیہم السلام،حصہ۲،ص۵۵)
سوال: جو نبی وِصال فرماچکے ہیں انھیں مردہ کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب:تمام انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اپنے اپنے مزارات میں ویسے ہی زندہ ہیں جیسے اس دنیا میں تھے ، کھاتے پیتے ہیں اور جہاں چاہیں آتے جاتے ہیں ۔ ایک آن کے لئے ان پر (ان سے فیض لینے کیلئے )موت آئی پھر بدستور زندہ ہو گئے۔
(ہمارااسلام،خدا کے رسول ونبی علیہم السلام،حصہ۲،ص۵۵)
انبیاء کو بھی اجل آنی ہے مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اسی آن کے بعد ان کی حیات مثل سابق وہی جسمانی ہے
(حدائق بخشش، حصہ۲، ص۲۶۷)
سوال: دنیا میں آنے والے سب سے پہلے اورسب سے آخری نبی کون ہیں ؟
جواب: دنیا میں آنے والے سب سے پہلے نبی حضرت سیِّدُنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ، ان سے پہلے انسان موجود نہ تھا، سب انسان اِنہیں کی اَولاد ہیں اِسی لئے’’ آدمی‘‘ کہلاتے ہیں یعنی اولادِ آدم اور حضرت سیِّدُنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام کو’’ابو البشر‘‘ کہتے ہیں ،یعنی سب انسانوں کے باپ اورسب سے آخری نبی جو تمام جہان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے تشریف لائے،وہ حضور سرورِعالَم، نورِ مُجسَّم، شہنشاہِ معظَّم ہمارے پیارے نبی حضرت محمدمصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اللہ عَزَّوَجَل نے نُبُوَّت کا سلسلہ حضور آقائے دوجہان، رحمتِ عالمیان، سرورِکون ومکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ختم فرمادیا یعنی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔ (ہمارا اسلام، خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۶)
سوال: سب سے پہلے رسول کون ہیں ؟
جواب: سب سے پہلے رسول جو کافروں کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے ،حضرت سیِّدُنا نوح عَلَیْہِ السَّلَام ہیں ۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ساڑھے نو سو برس تک تبلیغ فرمائی، مگر چونکہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے زمانے کے کافر بہت سخت دل اور گستاخ تھے ، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے آخرکار آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے دعا فرمائی ، طوفان آیا اور ساری زمین ڈوب گئی ۔ صرف گنتی کے وہ مسلمان اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا ،جو آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ کشتی میں تھا بچ گئے باقی سب ہلاک ہو گئے۔
(ہمارااسلام،خدا کے رسول ونبی علیہم السلام،حصہ۲،ص۵۶)
سوال: انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مرتبے میں برابر ہیں یا کم و بیش؟
جواب:انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے مختلف دَرَجے ہیں بعضوں کے رُتبے بعضوں سے اعلیٰ ہیں اور سب میں افضل و اعلیٰ، رُتبے میں سب سے بلند و بالا ہمارے آقا و مولیٰ حضرت سیدنامحمدمصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ،اسی لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سید الانبیاء کہا جاتا ہے یعنی سارے نبیوں کے سردار، سب کے سر کے تاج ، صاحبِ معراج صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔ حضور والی ٔہردو عالَم،شہنشاہِ عرب وعجم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت سیِّدُناابراہیم خلیل اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کا ہے، پھر سیِّدُناحضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پھر حضرت سیِّدُناعیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور پھر حضرت سیِّدُنانوح عَلَیْہِ السَّلَام کا ۔ یہ حضراتِ والا شان عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ، خدا عَزَّوَجَلَّ کی ساری مخلوق سے افضل ہیں یہاں تک کہ فرشتوں سے بھی۔ (ہمارااسلام، خدا کے رسول ونبی علیہم السلام، حصہ۲، ص۵۶،۵۷)
حضرت
سیدنا ثوبان رَضِیَ
اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم، نور مجسم، شاہ
بنی آدم،رسول محتشم، شافع امم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا: ’’جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ لوگوں سے کوئی چیز نہ مانگے، تو میں اسے
جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔‘‘ حضرت سیدنا ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ عرض
گزار ہوئے کہ میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں ۔ چنانچہ وہ کسی سے کچھ نہیں مانگا
کرتے تھے۔ (سنن
ابی داوٗد،ج۲،ص۱۷۰حدیث:۱۶۴۳)
قرآنِ
کریم
سوال:قرآن مجید کیا ہے اور یہ کس لئے آیا اور کس زبان میں نازل ہوا؟
جواب: قرآن مجید اللہ عَزَّوَجَل کا کلام ہے جو اس نے اپنے سب سے افضل رسول ، رسولِ مقبول ،بی بی آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گلشن کے مہکتے پھول حضرت محمد مصطفیصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمایا،اس میں جو کچھ بھی لکھا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔اللہ عَزَّوَجَل نے اپنے بندوں کی صحیح رہنمائی کیلئے اسے نازِل فرمایا تاکہ بندے اللہ عَزَّوَجَل اور اسکے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جانیں ، خدا و رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَحکام کو پہچانیں اوراِن کی مرضی کے موافق کام کریں اور اُن تمام کاموں سے بچیں جو خدا اور رسو ل عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پسند نہیں ۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازِل ہوا۔
(ہمارا اسلام، قرآن مجید،حصہ۱،ص۲۰،۲۲ وہمارا اسلام،کتب سماوی،حصہ۳،ص۹۹)
سوال:یہ کیسے معلوم ہو کہ قرآن مجید اللہ عَزَّوَجَل کا کلام ہے ؟اور کیا صحیح قرآن شریف آج کل ملتا ہے ؟
جواب :قرآن مجید، کتاب اللہ عَزَّوَجَل ہونے پر اپنے آپ دلیل ہے چنانچہ خود اعلان فرمارہا ہے کہ’’ اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ ۔ ‘‘(ترجمہء کنزالایمان ، پ۱، البقرۃ:۲۳) کافروں نے اس کے مقابلے میں جی توڑ کوششیں کیں مگر اس کی مثل سورت تو کیا ایک آیت تک نہ بنا سکے اور نہ بنا سکیں گے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَل قرآن شریف ہر جگہ صحیح حالت میں ملتا ہے، اس میں ایک حَرْف کا بھی فرق نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس کا نگہبان خود اللہ عَزَّوَجَل ہے۔ (ہمارا اسلام، قرآن مجید، حصہ۱، ص۲۰۔۲۲)
سوال :قرآنِ عظیم میں اللہ عَزَّوَجَل نے کیا خاص بات رکھی ہے اور اس کو پڑھنے میں کتنا ثواب ہے ؟
جواب : وہ خاص بات یہ ہے کہ اگلی کتابیں صرف ا نبیاء ِکرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ہی کو یاد ہوتیں لیکن یہ قرآن عظیم کا معجزہ ہے کہ مسلمانوں کا بچہ بچہ اسے یاد کر لیتا ہے نیز ہمارے حضور نبی ٔ رَحمت، آقائے امَّت، محبوبِ رب العزت عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جو شخص کتاب اللہ عَزَّوَجَل کا ایک حَرْف پڑھے گا اسے ایک نیکی ملے گی جو دس نیکیوں کے برابر ہوگی اور فرمایا:میں یہ نہیں کہتا کہ الٓم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام دوسرا حر ف ا ور میم تیسرا حرف ہے۔
(سنن الترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ما جاء فی من قرء حرفا من القران۔۔۔الخ، الحدیث:۲۹۱۹،ج۴،ص۴۱۷ وہمارا اسلام ، قرآن مجید،حصہ۱، ص۲۱ملتقطاً)
سوال:جس ترتیب پر آج قرآن موجود ہے کیاایسا ہی نازل ہوا تھا ؟ اگر نہیں تو پھر اس کی موجودہ ترتیب کس طرح عمل میں آئی ؟
جواب: نزول وحی کے وقت یہ ترتیب نہ تھی جو آج ہے ۔ قرآن مجید تئیس برس کی مدت میں تھوڑا تھوڑا حسبِ حاجت نازل ہوا ۔ جس حکم کی حاجت ہوتی اسی کے مطابق سورت یا کوئی آیت نازل ہو جاتی ،اس طرح قرآنِ عظیم متفرق آیتیں ہوکر اُترا ۔ کسی سورت کی کچھ آیتیں اُترتیں پھر دوسری سورت کی آیتیں آتیں پھر پہلی سورت کی کچھ آیتیں نازل ہوتیں ، حضرت سیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس کا مقام بھی بتادیتے اور حضور سرورِ عالَم، نورِ مجسم، شہنشاہِ معظم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر بار اِرشاد فرمادیتے کہ یہ آیات فلاں سورت کی ہیں ، فلاں آیت کے بعد یا فلاں آیت سے پہلے رکھی جائیں ۔ اس طرح قرآنِ
عظیم کی سورتیں اپنی اپنی آیتوں کے ساتھ جمع ہوجاتیں اور خود حضور ِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی ترتیب سے اسے نمازوں وغیرہ میں تلاوت فرماتے، پھرآنحضرت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سُن کر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یاد کر لیتے۔ غرض قرآنِ عظیم کی ترتیب اللہ عَزَّوَجَل کے حکم سے جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے بیان کے مطابق اور لوحِ محفوظ کی ترتیب کے موافق خود آقائے دو جہان، رحمتِ عالمیان، مکی مَدَنی سلطان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ اقدس میں واقع ہوئی تھی۔(ہمارا اسلام، کتب سماوی، حصہ۳، ص۱۰۰۔۱۰۱)
سوال:مکی اور مَدَنی سورتوں کا کیامطلب ہے اور ان کے مضمون میں کیا فرق ہے ؟
جواب:جو سورتیں مکہ معظمہ میں اور اس کے اَطراف میں نازل ہوئیں ان کو مکی کہتے ہیں اور جو مدینہ منورہ اور اسکے قُرب و جوارمیں نازل ہوئیں ان کو مَدَنی کہتے ہیں ، مضامین کے اعتبار سے مکی اور مَدَنی سورتوں میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ مکی سورتوں میں عموماً اُصولی عقائد یعنی توحید و رِسالت اورحشر و نشر وغیرہ کا بیان ہے جب کہ مَدَنی سورتوں میں اَعمال کا ذِکر ہے مثلاً وہ اَحکام جن سے اَخلاق دُرست ہوں اور مخلوق کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا طریقہ معلوم ہو وغیرہ ۔(ہمارا اسلام، کتب سماوی، حصہ۳، ص۱۰۱)
سوال:قرآن پڑھنے کے آداب کیا ہیں اور جب قرآن پڑھنے کے قابل نہ رہے تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب: قرآن پاک کی تلاوت پاک جگہ کی جائے اور اگرمسجد میں ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ تلاوت کرنے والے کو چاہیے کہ قبلہ رُو بیٹھے اور نہایت عاجزی اور انکساری سے سر جھکا کر اطمینان سے ٹھہرٹھہرکر پڑھے ، پڑھنے سے پہلے منہ کو خوب اچھی طرح صاف کر لے کہ بدبو باقی نہ رہے۔ قرآن شریف کو اونچے تکیہ یا رِحل پر رکھے اورتلاوت سے پہلے
اَعُوْذُبِاللّٰہِاور بِسْمِ اللہِ پڑھ لے بلا وُضو قرآن کو ہاتھ نہ لگاناچاہیے کیونکہ ایسا کرنا گناہ ہے ،سننے والا خاموشی سے دل لگا کر سُنے۔ پھر جب قرآن پاک پرانا بوسیدہ ہوجائے اور اس کے وَرْق اِدھر اُدھر ہو جانے کا خوف ہو اور تلاوت کے قابل نہ رہے تو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کرایسی جگہ احتیاط سے دفن کر دیا جائے جہاں کسی کا پَیر نہ پڑے۔ دفن کرنے میں لَحَد بنائی جائے تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے۔ (ہمارا اسلام، قرآن مجید، حصہ۱، ص۲۱۔۲۲)
سوال: قرآن کے علاوہ اور کون کون سی آسمانی کتابیں ہیں ؟وہ کن زَبانوں میں نازل ہوئیں نیز کیا ان کے اَحکامات پر اب عمل کر سکتے ہیں یانہیں ؟
جواب:آسمانی کتابوں کو کُتُبِ سماوِی کہتے ہیں یعنی وہ صحیفے اور کتابیں جو اللہ عَزَّوَجَل نے مخلوق کی رہنمائی کیلئے اپنے نبیوں عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پرنازل فرمائیں ۔یہ سب کلامُ اللہ عَزَّوَجَل ہیں اور حق ہیں ان میں جو کچھ اِرشاد ہوا سب پر ایمان رکھنا ضروری ہے ،تَوراۃ اور زَبور عبرانی زبان میں جب کہ اِنجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی۔ چونکہ یہود و نصاریٰ نے ان میں اپنی خواہش سے گھٹا بڑھادیاہے اس لئے یہ کتابیں جیسی نازل ہوئیں تھیں ویسی ملتی ہی نہیں لہٰذا اب ان کتابوں کے اَحکامات پر عمل نہیں کیاجائے گا پھر دوسری بات یہ کہ قرآنِ کریم نے اِن کتابوں کے بہت سے اَحکامات منسوخ کردئیے ہیں لہٰذا اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ صحیح توراۃ و اِنجیل اس وقت بھی موجود ہیں تب بھی اِن کتابوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ قرآن میں وہ سب کچھ ہے جس کی حاجت بنی آدم کو ہوتی ہے۔(ہمارا اسلام، کتب سماوی، حصہ۳، ص۹۹، ۱۰۰ ملتقطاً)
سوال:توکیا قرآنِ مجید میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی اورجس کایہ عقیدہ ہو کہ قرآن پاک میں
کمی بیشی جائز ہے وہ کون ہے؟
جواب:قرآن مجید میں کمی بیشی ناممکن ہے، چونکہ یہ دِین ہمیشہ باقی رہنے والا ہے لہٰذا قرآن شریف کی حفاظت اللہ عَزَّوَجَل نے اپنے ذمہ رکھی ہے اِسی لئے اس میں کسی حَرْف یانقطہ کی بھی کمی بیشی نہیں ہو سکتی اورنہ کو ئی اپنی خواہش سے اس میں گھٹا بڑھاسکتا ہے اگرچہ تما م دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے اور جو یہ کہے کہ قرآن شریف کا ایک بھی حَرْف کسی نے کم کردیایا بڑھا دیا، یا بدل دیا وہ قطعاً کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ (ہمارا اسلام،آسمانی کتابیں ،حصہ۲،ص۵۱)
سوال:صحابی کسے کہتے ہیں نیز مہاجر اور اَنصار سے کون لوگ مراد ہیں ؟
جواب: جس نے ایمان کی حالت میں نبی ٔکریم ،رء وف رحیم،صاحبِ وجہ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا ہو اور ایما ن پر اس کی وفات ہوئی ہو ،اسے صحابی کہتے ہیں ۔ ان ہی میں مہاجر و اَنصار ہیں یعنی جو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم مکہ معظمہ سے اللہ عَزَّوَجَل اور رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت میں اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ طیبہ ہجرت کر گئے تھے انہیں مہاجرین صحابہ کہا جاتا ہے جبکہ مدینہ منورہ کے وہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جنھوں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مہاجرین کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مدَد و نصرت کی وہ اَنصار کہلاتے ہیں ۔(ہمارا اسلام،صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۰۹)
سوال: صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے متعلق ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہیے؟
جواب : تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ، آقائے دو عالم، نورِ مجسم، شاہِ بنی آدم، تاجدارِ عرب و عجم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جاں نثار اور سچّے غلام ہیں ان کا جب بھی ذکر کیا جائے
تو خیر ہی کے ساتھ کرنا فرض ہے۔ تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جنتی ہیں وہ جہنم کی بھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے قِیامت کی سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی فرشتے ان کا اِستقبال کریں گے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہر صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ شان قرآنِ عظیم اِرشاد فرماتا ہے لہٰذا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کی کسی بات پر گرفت کرنا اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف ہے اور کوئی وَلی کتنے ہی بڑے مرتبے کا ہو کسی صحابی کے رُتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی کے ساتھ بد عقیدگی رکھنا گمراہی ہے اور ایسا شخص جَہنَّم کا مستحق ہے۔
(ہمارا اسلام، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم، حصہ۳، ص۱۰۹)
سوال: تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں افضل کون سے صحابہ ہیں ؟
جواب : اَنبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والتسلیم کے بعد خدا عَزَّوَجَلَّ کی ساری مخلوق سے اَفضل حضرتِ سیِّدناصدیقِ اکبر ہیں پھر حضرتِ سیدنا فاروقِ اعظم پھرحضرتِ سیِّدنا عثمانِ غنی پھرحضرتِ سیِّدنامو لیٰ علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔یہ حضرات ،رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وِصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلیفہ ہوئے ۔ اِن خلفائے اَربعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد حضرتِ سیِّدنا طلحہ، حضرتِ سیِّدنازبیر ،حضرتِ سیِّدناعبد الرحمن بن عوف، حضرتِ سیِّدناسعد بن ابی وقاص ،حضرتِ سیِّدنا سعید بن زید اور حضرتِ سیِّدنا ابو عبیدہ بن الجراح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو فضیلت حاصل ہے چنانچہ چار خلفاء اور چھ یہ معزز ہستیاں مل کر دس ہوئے ان ہی کو ’’عشرۂ مبشرہ‘‘ کہاجاتا ہے یعنی وہ دس افراد جن کے جنتی ہونے کی بشارت رَحمتِ عالمیان ،نبی غیب دان، سرورِکون و مکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
دنیا ہی میں دے دی تھی لہٰذا یہ تمام نفوسِ قدسِیَّہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم قطعی جنتی ہیں ۔
(ہمارا اسلام، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۱۰۔۱۱۱ ملتقطاً)
سوال: خلیفہ ہونے کا کیا مطلب ہے ؟
جواب:نبی ٔ رَحمت، آقائے امَّت،محبوبِ رب العزت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ایسا قائم مقام جو مسلمانوں کے تمام دِینی اور دنیاوی کاموں کو شریعتِ مطہَّرہ کے موافق انجام دے اور جائز کاموں میں اس کی فرمانبرداری کرنا مسلمانوں پر فرض ہو، اسے خلیفہ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہتے ہیں ۔حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد تمام مسلمانوں کے اتفاق سے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خلیفہ برحق ہوئے ۔
(ہمارا اسلام، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۱۰)
سوال:حضرت سیِّدنااَمیر معاوِیہ کون ہیں ؟
جواب : حضرت سیِّدنااَمیر معاوِیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی صحابی ہیں اور شاہانِ اسلام میں سب سے پہلے بادشاہ، اسی کی طرف توراۃ مقدس میں اشارہ ہے کہ وہ نبی آخر الزمان (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہوگی، تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بادشاہی اگرچہ سلطنت ہے مگر کس کی ! محمد رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی۔ خود سیدِنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خلافت سیِّدنا امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سپرد فرمادی تھی اور ان کے دستِ مبارک پر بیعت فرمالی تھی لہٰذا ان کی یا ان کے والد ماجد حضرت سیِّدناابو سفیان یا والدۂ ماجدہ حضرت ِ سیِّدتنا ہندہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان میں گستاخی کرنا سخت بے اَدَبی اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اِیذا دینا ہے اسلئے کہ یہ سب صحابہ ہیں ۔
(بہا رشریعت،امامت کا بیان، حصہ اول،ص۲۵۸وہما را ا سلام،صحابہ کرام،حصہ۳،ص۱۱۱)
سوال: تابعین کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟
جواب: حضور سرورِعالَم، نورِ مُجسم،شہنشاہِ معظم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امّتِ مرحومہ کے وہ مسلمان جو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت میں رہے ،انہیں تابعین کہا جاتا ہے اور وہ مسلمان جو ان تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت میں رہے وہ تبع تابعین کہلاتے ہیں ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد تمام امّت سے، تابعین افضل و بہترہیں اور انکے بعد تبع تابعین کا مرتبہ ہے۔ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین(ہمارا اسلام،صحابہ کرام،حصہ۳،ص۱۱۲)
سوال: خلفائے راشدین کن حضرات کو کہا جاتا ہے؟
جواب: سلطانِ مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطَّر پسینہ ، باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد تمام مسلمانوں کے اتفاق سے حضرتِ سیِّدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خلیفہ ٔ برحق ہوئے اسی لئے آپ خلیفہ اوّل کہلاتے ہیں آپکے بعد حضرتِ سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوسرے خلیفہ ہوئے اور آپکی شہادت کے بعد حضرتِ سیِّدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تیسرے خلیفہ ہوئے پھرآپکے بعد حضرت ِ سیِّدنا مولائے کائنات مولیٰ علی مشکل کشا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چوتھے خلیفہ ہوئے پھر چھ مہینے کیلئے حضرت ِ سیِّدنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خلیفہ ہوئے ۔ ان تمام حضرات کو خلفائے راشدین اور ان کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں کیونکہ انھوں نے حضورآقائے دو عالم ،نورِ مجسَّم، شاہِ بنی آدم، تاجدارِ عرب و عجم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سچی نِیابت (نائب ہونے ) کا پورا حق ادا فرما دیا۔ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین ۔(ہمارا اسلام، صحا بہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۱۰)
سوال: خلافت راشدہ کب تک رہی ؟
جواب: خلافتِ راشدہ تیس برس تک رہی جیسا کہ خود حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مبارک ہے۔ یہ خلافتِ راشدہ حضرت ِ سیِّدنا امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چھ مہینے پر ختم ہوگئی پھر حضرت ِ سیِّدناعمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت، خلافتِ راشدہ ہوئی اورآخر زمانہ میں حضرت سیِّدنا امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خلیفہ ہوں گے، آپ کی خلافت بھی خلافت راشدہ کہلائے گی۔(ہمارا اسلام، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۱۲)
سوال: جو شخص حضرت ِ سیِّدنامولیٰ علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پہلے تین خلفاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے افضل کہے وہ کون ہے؟
جواب: جو شخص حضرت ِ سیِّدنامولیٰ علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یا حضرت سیدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے افضل بتائے وہ گمراہ ،بد مذہب اور جماعت اہلِ سُنَّت سے خارج ہے خود حضرت ِ سیِّدنامولیٰ علی فرماتے ہیں کہ جو مجھے اَبو بکر و عمر رضی تعالیٰ اللہ عنہماسے افضل بتائے، وہ میرے اور تمام اصحابِ رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا منکر ہوگااور جو مجھے ابو بکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اسے افضل کہے گا میں اسے دَرْد ناک کوڑے لگاؤں گا۔بیشک رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب آدمیوں سے افضل ابو بکر ہیں پھر عمر پھر عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ (جمع الجوامع للسیوطی، مسند علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ،الحدیث:۷۸۰۰،ج۱۳،ص۳۸۶ والصواعق المحرقۃ،الباب الثالث فی بیان افضلیۃ ابی بکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی ذکر فضائل ابی بکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔۔۔الخ،ص۶۸ وہمارا اسلام، خلفائے راشدین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم،حصہ۴،ص۱۸۶)
سوال: جو شخص حضرت سیدناصدیق اکبر ، حضرت سیدنا فاروقِ اعظم ، حضرت سیدنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو خلیفہ نہ مانے وہ کون ہے؟
جواب: اِن خلفاء ثلاثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی خلافتوں پر تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اتفاق
و اِجماع ہے۔ نبی ٔ رَحمت، آقائے امَّت، محبوبِ رب العزت عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ساری اُمَّت مسلمہ اِن حضرات کو پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خلیفہ تسلیم کرتی چلی آرہی ہے ، خود حضرت ِ سیِّدنامولیٰ علی اور حضرت سیدنا امام حسن و امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ان کی خلافتیں تسلیم کیں اور ان کے ہاتھ پر بیعت بھی فرمائی اور ان کے فضائل بھی بیان فرمائے لہٰذا جو شخص ان کی خلافتوں کوتسلیم نہ کرے یا اِن کی خلافت کو خلافتِ غاصِبہ (زبردستی کی چھینی ہوئی خلافت )کہے وہ گمراہ، بددِین ہے ،بلکہ حضرت ِ سیِّدنا صدیقِ اکبر اور حضرت ِ سیِّدنافاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا کی خلافت تو دلائلِ قطعِیَّہ سے ثابت ہے لہٰذا ان کی خلافت کا انکار اور انہیں خلیفۂ رسول تسلیم نہ کرنا کفرہے ۔
(ہمارا اسلام، خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۴،ص۱۸۷)
سوال:اہلِ بیت کن افرادکو کہا جاتا ہے اور ان کے کیاکیا فضائل ہیں ؟
جواب: حضور تاجدارِمدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نَسَبْ اور قرابت کے لوگوں کو اَہل بیت کہا جاتا ہے ۔ اہلِ بیت میں پیارے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَزوا جِ مُطَہَّرات اور حضرتِ سیِّدتُنا خاتونِ جنَّت بی بی فاطمہ زَہراء ، حضرت ِ سیِّدنا مولیٰ علی اورحضر تِ سیِّدنا امام حسن و حضرت ِسیِّدناامام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سب داخل ہیں ۔ اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے اللہ عَزَّوَجَل نے رِجس و ناپاکی کو دور فرمایا، انہیں خوب پاک کیا اور جو چیز اُن کے مرتبہ کے لائق نہیں ، اس سے ان کے پروَردْگار عَزَّوَجَلَّ نے اُنہیں محفوظ رکھا،اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر دَوْزخ کی آگ حرام کی ،صَدَقہ ان پر حرام کیا گیا کیونکہ صَدَقہ ، دینے والوں کا مَیل ہوتا ہے۔ اول گروہ جس کی حضور شفیعِ محشر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
شفاعت فرمائیں گے وہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اہل بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی محبت فرائضِ دین سے ہے اور جو شخص ان سے بُغض رکھے وہ منافق ہے۔ اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مثال حضرتِ سیِّدنا نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی کشتی کی طرح ہے کہ جو اس میں سوار ہو ا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ،ہلاک و برباد ہوا۔ اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ، اللہ عَزَّوَجَل کی وہ مضبوط رَسی ہیں جسے مضبوطی سے تھامنے کا ہمیں حکم ملا ہے چنانچہ ایک حدیث شریف ہے کہ آقائے معظَّم ،تاجدارِ عرب و عجم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مکرَّم ہے کہ ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں جب تک تم انہیں نہ چھوڑو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ،ایک کتابُ اللہ عَزَّوَجَل اور ایک میری آل ۔(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب اہل بیت النبی،الحدیث:۳۸۱۱،ج۵،ص۴۳۳)
اسی طرح ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایاکہ اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ: {۱} اپنے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت {۲} اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی محبت اور {۳}قرآنِ پاک کی قِرأت ۔
(الجامع الصغیر، حرف الہمزہ ، الحدیث ۳۱۱، ج۱، ص۲۵)
غرض یہ کہ اہل بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے فضائل بے شمار ہیں ۔امیر المؤمنین حضرت سیِّدنا مولاعلی مشکل کشا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ عَزَّوَجَل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو میری عترت (اہل بیت) و انصار اور عرب کا حق نہ پہچانے وہ تین حال سے خالی نہیں یا تو منافق ہے یا حرامی یا حیضی بچہ۔
(شعب الایمان،باب فی تعظیم النبی۔۔۔الخ،فصل فی الصلاۃ علی النبی،الحدیث:۱۶۱۴، ج۲،ص۲۳۲ وہمارا اسلام،اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۱۳)
سوال:اَزوَاجِ مُطَہَّرات رضی اللہ تَعَالیٰ عنہن کا کیا مرتبہ ہے؟
جواب:قرآنِ مجید سے یہ ثابت ہے کہ نبی ٔکریم،صاحبِ کوثر و تسنیم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کی مقدس بیبیاں رضی اللہ تَعَالیٰ عنہن مرتبہ میں سب سے زیادہ ہیں اور ان کا اَجْر سب سے بڑھ کر ہے ۔ دنیا جہان کی عورتوں میں کوئی اِن کی ہمسر اور ہم مرتبہ نہیں ۔ اگرکسی کو ایک نیکی پردس گنا ثواب ملے تو اِنہیں بیس گنا ، کیونکہ ان کے عمل میں دو جِہَتیں ہیں ، ایک اللہ عَزَّوَجَل کی بندگی اورا طاعت اور دوسرے نبی ٔ پاک،صاحبِ لَو لاک، صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِضا جوئی واطاعت، لہٰذا انہیں اَوروں سے دُگنا ثواب ملے گا۔
(ہمارا اسلام، اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۱۳)
ام المؤمنین حضرتِ سیِّدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا پر ایک بار خوف و خشیت کا غلبہ تھا،آپ گریہ وزاری فرمارہی تھیں ،حضرتِ سیِّدنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے عرض کی : یا اُم المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ! کیا آپ یہ گمان رکھتی ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَل نے جہنم کی ایک چنگاری کو مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جوڑا بنایا، ام المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا :فرجت عنی فرج اللہ عنک۔ تم نے میرا غم دور کیا اللہ عَزَّوَجَل تمہارا غم دور کرے۔(الآثار لابی یوسف، باب الغزو والجیش،فواللہ لرسول اللہ اکرم علی اللہ من ان یزوجہ جمرۃ، الحدیث:۹۲۵،ج۲،ص۴۵۹،المکتبۃ الشاملۃ )
سوال:پنجتن پاک کن حضرات کو کہا جاتا ہے؟
جواب:پنجتن پاک سے مراد حضورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، حضرتِ سیِّدنا مولائے کائنات مولیٰ علی، حضرت ِ سیِّدتُنا بی بی فاطمہ زہرائ، حضرت سیِّدنا امام حسن اور حضرت سیِّدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔
(ہمارا اسلام، اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم،حصہ۳،ص۱۱۳)
سوال: حضرت ِ سیِّدتُنابی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے فضائل کیا ہیں ؟
جواب: حضور سلطانِ مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطَّر پسینہ ،باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشادِ باقرینہ ہے کہ : میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا کہ اللہ تَعَالیٰ نے اس کو اور اس کے ساتھ محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے خلاصی عطا فرمائی۔ (فردوس الاخبار للدیلمی،باب الالف،الحدیث:۱۳۹۵،ج۱،ص۲۰۳)
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا پاک دامن ہیں اللہ عَزَّوَجَل نے ان پر اور ان کی اولاد پر دوزخ کو حرام فرمایا ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، ومن مناقب فاطمۃ رضی اللہ عنہا الحدیث: ۱۰۱۸، ج۲۲، ص۴۰۷)
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ :فاطمہ میرا جُزو ہے ،جو انہیں ناگوار، وہ مجھے ناگوار ، اور جو انہیں پسند وہ مجھے پسند ۔(المستد رک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابۃ، باب دعاء دفع الفقراء واداء الدین،الحدیث:۴۸۰۱،ج۴،ص۱۴۴)
اِسی طرح ایک اور حدیث ِ پاک میں ہے کہ َرحمت والے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اَے فاطمہ! تمھارے غضب سے غضبِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہوتا ہے اور تمھاری رِضا سے اللہ عَزَّوَجَل راضی۔(المستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابۃ،نداء یوم المحشر غضوا ابصارکم۔۔۔الخ،الحدیث:۴۷۸۳،ج۴،ص۱۳۷ )
اور فرمایا : مجھے اپنے اہل بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سب سے زیادہ پیاری فاطمہ ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین،کتاب التفسیر،تفسیر سورۃ احزاب،باب احب اھلی الی فاطمۃ،الحدیث:۳۶۱۵،ج۳،ص۱۹۲)
ایک مقام پر فرمایا: اے فاطمہ !کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم ایمان والی عورتوں
کی سردار ہو ۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ،کتاب الفضائل،باب ما ذکر فی فضل فاطمۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۲،ج۷،ص۵۲۶ وہمارا اسلام،اہل بیت کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ،حصہ۳،ص۱۱۴)
سوال:حضرت سیِّدناامام حسن و حضرت سیِّدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا کے کیا فضائل ہیں ؟
جواب:حضور آقائے دوجہان ،رَحمتِ عالمیان ، سرورِکون ومکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرامینِ عظمت نشان ہیں کہ
{۱} حسن وحسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی۔۔۔الخ،الحدیث:۳۷۹۵،ج۵،ص۴۲۷)
{۲}جس نے ان دو نوں (حسن و حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا ) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اِن سے عداوَت کی اُس نے مجھ سے عداوَت کی۔
(المستدرک علی الصحیحین ،کتاب معرفۃ الصحابۃ ، باب ذکر شان الاذان ، الحدیث: ۴۸۵۲، ج۴، ص۱۶۳)
{۳} حسن و حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا جنَّتی جوانوں کے سردار ہیں ۔(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی۔۔۔الخ،الحدیث:۳۷۹۳،ج۵،ص۴۲۶)
{۴} جس شخص نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں کے والد اور والِدہ حضرتِ سیِّدنا مولائے کائنات مولیٰ علی، حضرت ِ سیِّدتُنا بی بی فاطمہ زہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا سے مَحبت رکھی وہ میرے ساتھ جنَّت میں ہو گا۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب علی بن ابی طالب،الحدیث:۳۷۵۴،ج۵، ص۴۱۰ وہمارا اسلام،اہل بیت کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ،حصہ۳،ص۱۱۵)
بے ادب گستاخ فرقے کو سنادے اے حسن
یوں کہا کرتے ہیں سُنِّی داستان اہل بیت
(ذوق نعت ،ص۷۴)
الغرض ! اہلِ بیتِ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہم اہلِ سُنَّت وجماعت کے پیشوا ہیں جو اِن سے مَحَبَّت نہ رکھے گاوہ بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے مردُود و ملعون ہے۔ حضراتِ حسَنَین کریمَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا یقینًااعلیٰ درجہ کے شہیدوں میں سے ہیں ،ان میں سے کسی کی شہادت کا انکار کرنے والاگمراہ بددین ہے۔
(ہمارا اسلام،اہل بیت کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ،حصہ۳،ص۱۱۵)
سوال: معجزہ کسے کہتے ہیں ؟
جواب: وہ عجیب و غریب کام جو عادتاً ناممکن ہیں ، اگر نُبُوَّت کا دعویٰ کرنے والے سے اس کی تائید میں ظاہر ہوں تو اُن کو معجزہ کہتے ہیں جیسے حضرت سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے عصا کا سانپ ہو جانا، حضرت سیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا مُردوں کو جِلا دینا (زندہ کرنا)وغیرہ اور شہنشاہِ اَبرار،شفیعِ رَوزِشمار،دوعالَم کے مالک و مختار بِاِذنِ پروَردْگار، غیبوں پر خبردار جنابِ احمدِمختار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزے توبے شمار ہیں اِن میں سے معراج شریف بہت مشہور معجزہ ہے۔ (ہمارا اسلام، معجزے اور کرامتیں ،حصہ۳،ص۱۱۹)
سوال:کوئی نُبُوَّت کا جھوٹا دعویٰ کر کے معجزہ دکھا سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: معجزہ دراصل نبی کے دعویٔ نبوَّت میں سچے ہونے کی ایک دلیل ہے جس کے ذریعے منکروں کی گردنیں جُھک جاتی ہیں اور وہ سب عاجز رہتے ہیں ۔ معجزات دیکھ کر
آدمی کا دل نبی کی سچائی کا یقین کرلیتا ہے اور عقل والے ایمان لے آتے ہیں ۔
(ہمارا اسلام، معجزے اور کرامتیں ، حصہ۳،ص۱۲۰)
سوال :کرامت کسے کہتے ہیں اور اَولیا ء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے کس قسم کی کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں ؟
جواب:اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے جو بات خلافِ عادت صادر ہو اُسے کرامت کہتے ہیں مثلاً آن کی آن میں مشرق سے مغرب میں پہنچ جانا ، پانی پر چلنا ، ہوا میں اُڑنا ، مُردہ زندہ کرنا ، مادَرْ زَاد اَندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دینا وغیرہ ، لیکن قرآنِ مجید کی مثل کوئی سورت لے آنا کسی وَلی سے ہرگز ممکن نہیں ۔ اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی کرامتیں دَر حقیقت اُن انبیاء ِکرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے معجزے ہیں جن کے وہ امّتی ہیں ۔
(ہمارا اسلام، معجزے اور کرامتیں ، حصہ۳،ص۱۲۰)
سوال: جس وَلی سے کرامت ظاہر نہ ہو وہ وَلی ہے یا نہیں ؟
جواب: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے کرامات اکثر ظاہر ہوتی ہیں یہ نفوسِ قدسِیِّہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم تو اپنی وِلایت اور کرامت کو چھپاتے ہیں ،ہاں ! جب حکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پاتے ہیں تو کرامت ظاہر کرتے ہیں اور اگرکرامت ظاہر نہ ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شخص وَلی یا بزرگ نہیں ۔ اَولیاءاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی یہ کرامتیں انکی وفات کے بعد بھی ظاہر ہوتی ہیں جسے ہر آنکھ والا دیکھتا اور مانتا ہے ۔ (ہمارا اسلام، معجزے اورکرامتیں ،حصہ۳،ص۱۲۰)
سوال: وَلی کسے کہتے ہیں اور وِلایت کسِے حاصل ہوتی ہے ؟
جواب:اللہ تَعَالیٰ کے وہ خاص ایمان والے مسلمان بندے جو اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت میں اپنی خواہشات کو فنا کر دیتے ہیں اور ہمیشہ خدا اور رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہتے ہیں اَولیاء ُاللہ کہلاتے ہیں ۔وِلایت یعنی اللہ عَزَّوَجَل کا مقرَب اور مقبول بندہ ہونا محض اللہ عَزَّوَجَل کا عطیہ ہے جو کہ مولیٰ کریم اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔ ہاں ! عبادت و رِیاضت بھی کبھی کبھی اس کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ بعضوں کو ابتداء ً بھی وِلایت مل جاتی ہے۔(ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہم ،حصہ۳،ص۱۱۷)
سوال:کیا بے علم آدمی بھی وَلی بن سکتا ہے ؟
جواب: نہیں ، وِلایت بے علم کو نہیں ملتی وَلی کے لئے علم ضروری ہے، خواہ ظاہراً حاصل کرے یا اِس مرتبہ پرپہنچنے سے پہلے ہی اللہ عَزَّوَجَل اُس کا سینہ کھول دے اور وہ عالِم ہوجائے۔ علم کے بغیر آدمی وَلی نہیں ہوسکتا ۔
(ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم ،حصہ۳،ص۱۱۷)
سوال: اگر کوئی شخص شریعت پر عمل نہ کرے تو کیا وہ وَلی بن سکتا ہے ؟
جواب: جب تک عقل سلامت ہے کوئی وَلی کیسے ہی بڑے مرتبے کا ہو اَحکامِ شریعت کی پابندی سے ہر گزآزاد نہیں ہو سکتا اور جو اپنے آپ کو شریعت سے آزاد سمجھے وہ ہر گز وَلی نہیں ہوسکتا ۔جو ا س کے خلاف عقیدہ رکھے (شریعت سے آزاد شخص کو وَلی سمجھے) وہ گمراہ ہے ۔ہاں !اگرآدمی مجذوب ہو جائے اور اس کی عقل زائل ہو جائے تو اس سے شریعت کا قلم اٹھ جاتا ہے، مگر یہ بھی خوب سمجھ لیجئے کہ جو ایسا ہو گا وہ شریعت کا مقابلہ کبھی نہ کرے گا ۔(ہمارااسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی خصوصیات کیاہیں ؟
جواب:اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم حضور آقائے دوجہان ،رحمتِ عالمیان ، سرورِکون و مکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے ّجانشین ہوتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَل نے انہیں بڑی طاقتیں عطا فرمائی ہیں ۔ اِن سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں ، اِن کی بَرَکت سے اللہ عَزَّوَجَل مخلوق کی حاجتیں پوری فرماتا ہے، اِن کی دعاؤں سے خلقِ خدا فائدہ اٹھاتی ہے،اِن کی محبت دِین و دنیا کی سعادت اور خدائے اَحکم ُالحاکمین کی رِضا کا سبب ہے ، اِن کے مزارات پر حاضری ،مسلمان کے لئے سعادت اور باعثِ بَرَکت ہے ،اِن کے عرس میں شرکت کرنے سے بَرَکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔
(ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے مدد مانگنا جائز ہے یا نا جائز ؟
جواب: اَولیا ء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے مدد مانگنا بلا شبہ جائز ہے، اسے اِسْتِمْدَاد اور اِسْتِعَانَت کہتے ہیں ،یہ مدد مانگنے والے کی مدد فرماتے ہیں ،چاہے وہ کسی بھی جائز لفظ کے ساتھ مدد مانگے اِن کو دور و نزدیک سے پکارنا سلف صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کا طریقہ ہے۔
(ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال:اَولیا ء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی نذر و نیاز جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کو جو اِیصالِ ثواب کیا جاتا ہے اُسے براہِ اَدَب نذر و نیاز کہتے ہیں جیسے کہ بادشاہوں کو نذریں دی جاتی ہیں اور اِیصالِ ثواب کرنا یعنی خیرات، تلاوتِ قرآنِ شریف ،یا ذکرِ الٰہی ، یادُرود شریف وغیرہ کا ثواب دوسروں کو بخش دینا یقینا جائز بلکہ مستحب ہے ۔صحیح احادیث سے یہ اُمور ثابت ہیں اسی لئے گزشتہ زمانے سے یہ فاتحہ خوانی اور اِیصا لِ ثواب کرنامسلمانوں میں رائج ہیں اور اِن میں خصوصاً گیارہویں
شریف کی فاتحہ تونہایت عظیم اوربا برکت ہے۔ گیارہویں شریف شہنشاہِ بغداد، غوثِ صمدانی ،محبوبِ سبحانی،شہباز لامکانی‘ قطبِ رَبَّانی،قندیلِ نورانی، پیر ِلاثانی، پیر ِپیراں ، میرِمیراں ،حضور سیِّدنا غوثِ پاک شیخ ابو محمد عبدا لقاد ر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نیاز کو کہتے ہیں ۔(ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال: جو لوگ اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی نذر و نیا ز سے روکتے ہیں وہ کیسے ہیں ؟
جواب : نذر و نیاز کا طریقہ اَحادیث سے ثابت ہے ،تو جو اِس سے منع کر ے وہ اَحادیث مبارکہ کا مقابلہ کر تا ہے اور ایسا شخص ضرور گمراہ ہے ۔ (ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۹)
سوال: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کے مزارات پر چادر چڑھانا کیسا ہے ؟
جواب: بزرگانِ دِین ،اَولیاء وصالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کے مزاراتِ طیّبہ پر غلاف یعنی چادر ڈالنا جائز ہے اوراس سے مقصود یہ ہوکہ صاحبِ مزار کی وَقعت عوام کی نظروں میں پیدا ہو اور وہ بھی اُن کا اَدَب کریں اور اُن سے بَرَکتیں حاصل کریں ۔ (ہمارااسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۹)
سوال: تقدیر سے کیامراد ہے ؟
جواب :عالَم میں جو کچھ بُرا یا بھلا ہوتا ہے اور بندے جو کچھ نیکی یا بدی کے کام کرتے ہیں وہ سب اللہ عَزَّوَجَل کے علمِ اَزَلی کے مطابق ہوتا ہے ہر بھلائی بُرائی اس نے اپنے علمِ اَزَلی کے موافق مقدر فرمادی ہے سب کچھ اس کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا محفوظ ہے اِسی کا نام تقدیر ہے ۔(ہمارا اسلام،تقدیر الٰہی کا بیان،حصہ۵،ص۲۶۵)
سوال: کیا تقدیر کے موافق کام کرنے پر آدمی مجبور ہے ؟
جواب:اللہ تَعَالیٰ عالم الغیب و الشہادۃ ہے یعنی ہر ظاہر اور پوشیدہ کو جاننے والا ہے اس کا علم ہر شے کو محیط ہے ، جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا اس نے اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اس کے لیے بھلائی لکھتا تو اس کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔اتنا سمجھ لو کہ اللہ تَعَالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس وحرکت نہیں پیدا کیا بلکہ اس کو ایک نوع اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے نفع نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہوجاتے ہیں اور اسی بنا پر اس سے مواخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور سمجھنایا بالکل مختار سمجھنا دونوں ہی گمراہی ہیں ۔ (بہار شریعت،حصہ ۱،ج۱،ص۱۱۔۱۹)
سوال:کسی اَمْر کی تدبیر کرنا تقدیر کے خلاف تو نہیں ؟
جواب:جی نہیں ، کسی اَمْر کی تدبیر کرنا تقدیر کے خلاف نہیں ہے کیوں کہ دنیا عالَمِ اسباب ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَل نے اپنی حکمت سے ایک چیز کو دوسری چیز کے لئے سبب بنا دیا ہے، پھر ان ہی اَسباب کو کام میں لانا اور انہیں کسبِ فعل کا ذریعہ بنا نا تدبیر ہے اوریہ تدبیر کرنا تقدیر کے خلاف نہیں بلکہ موافق ہے۔ ذرا سوچئے! کہ َانبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے زیادہ تقدیرِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پر کس کا ایمان ہوگا پھر بھی وہ ہمیشہ تدبیر فرماتے رہے جس پر
قرآن بھی گواہ ہے، مثلاً حضرتِ سیِّدناداود عَلَیْہِ السَّلَام کا زِرہیں بنانا، حضرتِ سیِّدناموسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا دس برس تک اُجرت پر حضرت ِسیِّدناشعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی بکریاں چرانا وغیرہ واقعات قرآنِ کریم میں مذکور ہیں لہٰذا تدبیر کرنے کو فضول سمجھنا گمراہی ہے اور تقدیر کو بھول کر تدبیر پر پھولنا اور اسی پر اعتماد کر بیٹھنا کفار کی خصلت ہے ۔
(ہمارا اسلام، تقدیر الٰہی کا بیان،حصہ۵،ص۲۶۶)
سوال: تقدیر کا لکھا بدل سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: قضا (تقدیر ) کی تین قسمیں ہیں : {۱}مبرم حقیقی : جو علم الٰہی میں کسی شے پر معلق نہیں ۔ اسکی تبدیلی ناممکن ہے اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتاہے ۔ ملائکہ قوم لوط پر عذاب لے کر آئے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا الْکَرِیْم وَعَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیْم اس میں جھگڑے تو اُنھیں ارشاد ہوا ’’اے ابراہیم اس خیال میں نہ پڑو۔۔۔ بیشک ان پر وہ عذاب آنے والا ہے جو پھرنے کا نہیں ۔ ‘‘(پ۱۲، ھود:۷۶) {۲}معلق محض: وہ ہے کہ صحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کامعلق ہونا ظاہر فرمادیا گیا ہے ۔ اس تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے کہ ان کی دعا سے ٹل جاتی ہے اور {۳}معلق شبیہ بہ مبرم : وہ ہے کہ صحف ملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اورعلم الٰہی میں تعلیق ہے ۔ اس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے حضور سیدنا غوثِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسی کو فرماتے ہیں کہ میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں اور اسی کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا کہ بیشک دعا قضائے مبرم کو ٹال دیتی ہے۔(الجامع الصغیر،الحدیث۱۳۹۰،ص۸۶ وبہارشریعت ،عقائد متعلقہ ذات و صفات الٰہی،عقیدہ۲۴،حصہ۱،ج۱،ص۱۲۔۱۶ملتقطاً)
سوال:کوئی گناہ کرنے کے بعد یہ کہنا کہ یہ میری تقدیر میں لکھا تھا ،کیسا ہے ؟
جواب: بُرا کام کرکے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مَشِیَّت ِالٰہی عَزَّوَجَلَّ کا حوالہ دینا بہت بُری بات ہے ،بلکہ حکم تو یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے اللہ عَزَّوَجَل کی جانب سے کہے اور جو بُرائی سرزد ہو، اُسے اپنی شامتِ نفس تصور کرے۔
(ہمارااسلام،تقدیر الٰہی کا بیان،حصہ۵،ص۲۶۸)
سوال: تقدیری اُمور میں بحث کرنا کیسا ہے ؟
جواب : تقدیر ایک گہرے سمُندَر کی مانند ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رَسائی نہیں یہ ایک تاریک راستہ ہے جس سے گزرنے کی کوئی راہ نہیں ۔ یہ اللہ عَزَّوَجَل کا ایک راز ہے جس پر انسانی عقل کو دسترس نہیں لہٰذا تقدیری اُمور میں ہرگز بحث نہیں کرنی چاہئے۔ (ہمارا اسلام، تقدیرِالہی،حصہ۵،ص۲۶۸)
مدینے کے سلطان، رحمت عالمیان، سرور ذیشان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ پُر نور ہے: جنتی جنت میں علماء کرام کے محتاج ہوں گے، اسلئے کہ وہ ہر جمعہ کو اللہ تَعَالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اللہ تَعَالیٰ فرمائے گا: تَمَنَّوْا عَلَیَّ مَا شِئْتُمْ یعنی’’ مجھ سے مانگو، جو چاہو۔‘‘ وہ جنتی علماء کرام کی طرف متوجہ ہوں گے کہ اپنے ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ سے کیا مانگیں ؟ وہ فرمائیں گے: یہ مانگو، وہ مانگو، جیسے وہ لوگ دنیا میں علماء کرام کے محتاج تھے، جنت میں بھی انکے محتاج ہوں گے۔
(الفردوس بماثور الخطاب، ج۱،ص۲۳۰، حدیث:۸۸۰ والجامع الصغیر للسیوطی، ص۱۳۵، حدیث۲۲۳۵)
سوال: عالَمِ برزخ کسے کہتے ہیں ؟
جواب:
وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۰۰) (پ۱۸،المؤمنون:۱۰۰)
ترجمہء کنزالایمان:اور انکے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے
دنیا و آخِرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے جسے بَرزَخ کہتے ہیں ، مرنے کے بعد اور قِیامت سے پہلے تمام انسان و جنَّات کو اپنے اپنے مرتبے کے مطابق اس میں رہنا ہے، یہ عالَم اس دنیا سے بہت بڑا ہے، دنیا کے ساتھ بَرزَخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ کے ساتھ دنیا کو ہے، بَرزَخ میں کسی کو آرام ہے تو کسی کو تکلیف ۔
(ہمارااسلام،عالم برزخ،حصہ۵،ص۲۷۵)
سوال: مرنے کے بعد جسم و روح میں تعلُّق رہتا ہے یا نہیں ؟
جواب: مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسانی کے ساتھ باقی رہتا ہے اگرچہ ُروح بدن سے جدا ہو گئی مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اس سے آگاہ و متأثر ہوگی جس طرح اس دنیا کی زندگی میں ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زائد، دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہوا، نرم فرش ، لذیذ کھانا یہ سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں مگر راحت و لذَّت روح کو پہنچتی ہے ، ایسے ہی رنج و مصیبت بھی جسم ہی پر وَارِد ہوتے ہیں مگر اسکی کلفت و اَذِیَّت روح پاتی ہے، روح کے لئے اپنی راحت و اَلَم کے الگ خاص اسباب ہیں جن سے سُرُو ر یا غم پیدا ہوتا ہے، یوں ہی یہ سب حالتیں بَرزَخ میں ہیں ۔
(ہمارااسلام،عالم برزخ،حصہ۵،ص۲۷۵)
سوال:بَرزَخ میں میِّت پر کیا گزرتی ہے ؟
جواب: بَرزَخ میں میِّت کے ساتھ چند معاملات پیش آتے ہیں جو یہ ہیں :
{۱}جب مُردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں تو اس وقت قبر اس کو دباتی ہے، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کودباتی ہے اور اگر کافر ہے تو اس کو اس زور سے دباتی ہے کہ دونوں جانب کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں ۔
{۲}جب دفن کرنے والے دفن کرکے واپس جاتے ہیں تو مُردہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ، اس وقت اس کے پاس ہیبت ناک صورتوں والے دو فرشتے مُنْکَر و نَکِیْر اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رَب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟اور ان کے یعنی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا؟
{۳}مُردہ اگر منافق ہے تو سب سوالوں کے جواب میں کہے گا، (ہائے) افسوس! مجھے تو کچھ معلوم نہیں میں لوگوں کوجو کہتے سنتا تھا وہی خود بھی کہتا تھا۔
{۴}مُردہ مسلمان ہے تو جواب دے گا کہ میرا رب اللہ عَزَّوَجَل ہے ، میرا دِین اسلام ہے اور وہ تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔
{۵} مسلمان میِّت کی قبر کشادہ کر دی جائے گی اور اس کے لئے جَنَّت کی طرف ایک دروازہ کھول دیاجائے گاجس سے جنَّت کی خوشبو آتی رہے گی، جب کہ کافر و منافق کے لئے آگ کا بچھونا بچھا کر آگ کا لباس پہنا دیا جائے گا اور اس کی قبر میں جَہنَّم کی کھڑکی کھول دی جائے گی اوراس پر عذاب دینے کے لئے فرشتے مقرر کردئیے جائیں گے
نیز سانپ اور بچھّو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے جبکہ بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کے مطابق عذاب بھی ہو گا ۔ بعض کے نزدیک ایسے گناہگار مسلمانوں سے جُمُعہ کی رات آتے ہی عذابِ قبر اٹھا دیا جاتا ہے ۔
{۶} مسلمان کے اعمالِ حَسَنہ اچھی صورتوں میں آکر قبر میں ان کا دل لگائیں گے اور کافر و منافق کے بُرے اعمال کتّے ، بھیڑیئے یا کسی اور بُری شکل میں آکر اسے عذاب پہنچائیں گے ۔
{۷} مسلمانوں کی روحیں خواہ قبر پر ہوں یا چاہِ زَم زَم شریف میں ہوں یا زمین و آسمان کے درمیان یاآسمانوں پریا آسمان سے بلند یازیرِ عرش قندیلوں میں یااعلیٰ عِلِّیِیْن میں ہوں ، ان کے لئے راہیں کشادہ کر دی جاتی ہیں یعنی جہاں چاہتی ہیں آتی جاتی ہیں آپس میں ملتی ہیں اورایک دوسرے سے اپنے عزیزوں کا حال پوچھتی ہیں جو کوئی قبر پر آئے اسے دیکھتی ہیں پہچانتی ہیں اور اسکی بات سنتی ہیں ۔
{۸} کافروں کی خبیث روحیں مَرگھٹ وغیرہ میں قید رہتی ہیں ، انہیں کہیں آنے جانے کا اختیار نہیں ہوتامگر وہ بھی خواہ کہیں ہوں قبر یا مرگھٹ پر گزرنے والوں کو دیکھتی پہچانتی اور ان کی باتیں سنتی ہیں ۔
{۹} مردہ سلام کا جواب دیتا اورکلام بھی کرتا ہے ،اس کے کلام کو عام انسان و جنّات کے سوا تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔ (ہمارا اسلام، عالم برزخ، حصہ۵،ص۲۷۶)
سوال:عذاب و ثواب صرف جسم پر ہوتا ہے یا روح پر بھی؟
جواب: (عذاب و ثواب رُوح اور جسم دونوں پر ہوتا ہے) حدیث میں روح وجسم دونوں کے
معذّب ہونے کی یہ مثال ارشاد فرمائی کہ ایک باغ ہے اس کے پھل کھانے کی ممانعت ہے، ایک لُنجھاہے کہ پاؤں نہیں رکھتا اور آنکھیں ہیں ، وہ اس باغ کے باہر پڑا ہواہے پھلوں کو دیکھتاہے مگر ان تک جا نہیں سکتا۔اتنے میں ایک اندھاآیا اس لُنجھے نے اس سے کہا :تو مجھے اپنی گردن پر بٹھا کر لے چل، میں تجھے رستہ بتاؤں گا، اس باغ کا میوہ ہم تم دونوں کھائیں گے۔یوں وہ اندھا اس لنجھے کو لے گیا اور میوے کھائے ،دونوں میں کون سزا کا مستحق ہے؟ دونوں ہی مستحق ہیں ، اندھا اسے نہ لے جاتا تو وہ نہ جاسکتا اور لنجھا اسے نہ بتاتا تو وہ نہ دیکھ سکتا ۔وہ لنجھا روح ہے کہ ادراک رکھتی ہے اور افعالِ جوارح نہیں کرسکتی اور وہ اندھا بدن ہے کہ افعال کرسکتا ہے ادراک نہیں رکھتا، دونوں کے اجتماع سے معصیت ہوئی دونوں ہی مستحقِ سزاہیں ۔واللہ تَعَالیٰ اعلم۔(فتاوی رضویہ، فاتحہ وایصالِ ثواب، اتیان الارواح لدیارہم بعد الرواح،ج۹،ص۶۵۸)
سوال:جو جسم قبر میں گل سڑ جاتا ہے اسے کیسے عذاب ہو گا ؟
جواب:ریڑھ کی ہڈی میں کچھ ایسے اَجزاء ہوتے ہیں کہ نہ کسی خُوردْبین سے نظر آسکتے ہیں نہ اُنہیں آگ جلاسکتی ہے اور نہ ہی وہ گلتے ہیں ، وہی تُخْمِ جسم اور موردِ عذاب و ثواب ہیں ۔ان اجزاء کو ’’عَجْبُ الذنب‘‘ کہتے ہیں ۔ جسم اگرچہ سڑ گل جائے عذابِ قبر کا انکار کرنے والا گمراہ ہے۔(ہمارااسلام،عالم برزخ،حصہ۵،ص۲۷۸)
سوال:اگر مُردے کو دفن نہ کیا جائے تو پھر اس سے سوالات کہاں ہونگے ؟
جواب : اگر مردے کو دفن نہ کیا جائے تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا اس سے وہیں سوالات ہونگے اور وہیں عذاب یا ثواب ہو گا حتی کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں سوال جواب ، عذاب و ثواب سب وہیں ہوگا۔(ہمارا اسلام، عالم برزخ، حصہ۵، ص۲۷۸)
سوال:وہ کون لوگ ہیں جن کے جسم قبر میں سلامت رہیں گے ؟
جواب: انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ، اَولیاء کرام رحمۃاللہ تَعَالیٰ علیہم ،علمائے دِین و شہداء، باعمل حفاظِ قرآن اور وہ جومنصبِ مَحَبَّت پر فائز ہیں اور وہ جس نے کبھی اللہ عَزَّوَجَل کی نافرمانی نہ کی اور وہ جو کثرت سے دُرُودْ شریف پڑھتا رہے ، ان کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی ۔
(ہمارا اسلام، عالم برزخ، حصہ۵، ص۲۷۹)
سوال:زندوں کا خیرات کرنا مُردوں کو فائدہ پہنچاتاہے یا نہیں ؟
جواب: نماز ،روزہ،حج ،زکوٰۃ ،تلاوتِ قرآن،صدقہ ،ذِکر،زِیارتِ قبور، خیرات غرض ہر قسم کی عبادت اور ہر نیک عمل خواہ فرض ہو یا نفل سب کا ثواب مُردوں کو پہنچایا جاسکتا ہے، اُن سب کو ثواب پہنچتا ہے اور پہنچانے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی بلکہ اللہ عَزَّوَجَل کی رَحمت سے اُمید ہے کہ سب کوپورا پورا ملے گا، یہ نہیں کہ یہ ثواب تھوڑا تھوڑا کرکے سب میں تقسیم کیا جائے گا بلکہ یہ امید ہے کہ اس پہنچانے والے کیلئے ان سب کے مجموعے کے برابر ملے، مثلاً کوئی نیک کام کیا جس کے ثواب میں کم از کم دس نیکیاں ملیں ، اب اس نے دس مُردوں کو اِیصال کردیا تو ہر ایک کو دس دس ملیں گی اور اِیصال کرنے والے کو ایک سو دس۔وعلیٰ ہٰذا القیاس۔
حدیث شریف میں ہے کہ’’جو شخص گیارہ بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ شریف (سورۂ اِخلاص) پڑھ کر اس کا ثواب مُردوں کو پہنچائے گا تو مُردوں کی گنتی کے برابر اسے ثواب ملے گا۔‘‘ (کشف الخفاء ،حرف المیم ، الحدیث:۲۶۲۹،ج۲، ص۲۵۲)اگر نابالغ
نے اپنی کسی نیکی کا ثواب مُردے کو پہنچایا تو ضرور پہنچے گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
(ہمارااسلام،عالم برزخ،حصہ۵،ص۲۷۹)
سوال: اِیصالِ ثواب کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب: اِیصالِ ثواب کو تعظیماً نذر و نیاز یا فاتحہ بھی کہتے ہیں اسمیں سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ اور آیۃُ الکرسی ایک ایک بار پھر تین یا سات یا گیارہ بار سورۂ اخلاص اور اول آخرتین تین یا زائدبار دُرُود شریف پڑھے ،اس کے بعد ہاتھ اٹھاکر عرض کرے کہ یا الٰہی!(عَزَّوَجَلَّ ) میرے اس پڑھنے پر (اگر کھانا ، کپڑا وغیرہ بھی ہو تو ان کا نام بھی شامل کرے اور کہے کہ میرے اس پڑھنے اور ان چیزوں کے دینے پر ) جو ثواب مجھے عطا ہو اُسے میری طرف سے فلاں ولی ُاللہ مثلاً سرکارِ بغداد حضور غوثِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں نذر پہنچا اور اُن کے آباؤ اَجداد اور مشائخِ عظام و اَولاد و مریدین اور مُحِبِّین اورمیرے ماں باپ اور فلاں فلاں اور سیِّدنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے روزِ قیامت تک جتنے مسلمان گزرے یا موجود ہیں یا قیامت تک ہوں گے سب کو اس کا ثواب پہنچا۔ (ہمارااسلام،عالم برزخ،حصہ۵،ص۲۸۰)
سوال:علاماتِ قِیامت سے کیا مراد ہے اور وہ کیا ہیں ؟
جواب: قِیامت سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوں گی انہیں علاماتِ قِیامت یا آثارِ قیامت کہتے ہیں علاما تِ قیامت کی دوقسمیں ہیں :{۱} وہ نشا نیا ں جو حضور ِاَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وِلا دت مبا رکہ سے لے کراب تک واقع ہو چکی ہیں اور حضرتِ سیِّدنا اما م مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ظہور تک وقوع میں آ تی رہیں گی، انہیں علا ما ت صغریٰ کہتے ہیں ۔
{۲} وہ نشا نیا ں جو حضر ت سیِّدنا اما م مہد ی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ظہو ر کے بعد صُور پھونکنے تک واقع ہو ں گی ،یہ علا ما ت یکے بعد دیگر ے، پَے دَ ر پَے اس طرح ظاہر ہو ں گی جیسے سلکِ مَروَارِیدسے موتی گر تے ہیں ۔ان کے ختم ہوتے ہی قِیامت برپا ہوگی، انہیں علاما تِ کُبر یٰکہتے ہیں ۔(ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۸۲)
سوال:علا ما تِ صغریٰ کیا کیا ہیں ؟
جواب: علا ما تِ صغر یٰ بہت سی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :{۱} سرکا ر ِدو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دنیا سے پردہ فرما نا {۲} تما م صحا بہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا دنیا سے پردہ فرمانا{۳}تین خَسف کا واقع ہونایعنی آدمی زمین میں د ھنس جائیں گے، ایک مشرق میں ، دوسرامغرب میں اور تیسرا جزیرہ عرب میں {۴} علم اٹھ جا ئے گا یعنی علماء اٹھا لیے جا ئیں گے اور لو گ جاہلو ں کو اپنا امام وپیشوا بنا ئیں گے ، وہ خو دبھی گمرا ہ ہو ں گے اور دوسرو ں کو بھی گمرا ہ کریں گے {۵} زِنا ،شرا ب نوشی وبد کا ری اور بے حیا ئی کی زیا دتی ہوگی {۶} مرد کم ہو ں گے اور عورتیں زیا دہ ہو ں گی یہا ں تک کہ ایک مرد کی سرپرستی میں پچاس عورتیں ہو ں گی{۷} بڑے دجال کے علاوہ تیس دجال اور ہوں گے ،وہ سب نُبُوَّ ت کا جھوٹادعویٰ کر یں گے {۸} ما ل کی کثر ت ہو گی ،زمین اپنے خزا نے اُگل دے گی {۹} دِین پر قا ئم رہنا ایسا دشوار ہو گا جیسے مُٹھی میں انگا رہ لینا {۱۰} وقت میں بَرَکت نہ ہو گی یعنی جلد ی جلد ی گزرے گا {۱۱} زکوٰ ۃ دینے کو لوگ تا وان سمجھیں گے {۱۲} علمِ دِین پڑھیں گے مگر دِین کی خا طر نہیں بلکہ دنیا کمانے کیلئے {۱۳} عورتیں مردا نی وَضع اِختیار کریں گی اور مرد زَنا نی وَضع {۱۴} گانے باجے کی کثرت ہو گی {۱۵} ملا قا ت کے وقت سلام کے بجا ئے لو گ گا لی گلو چ سے پیش آئیں گے {۱۶}مسجد
کے ا ند رشور و غُل اور دنیا کی با تیں ہو ں گی{۱۷} لوگ نما ز کی شرائط و اَرکان کالحا ظ کئے بغیر نما زیں پڑھیں گے یہا ں تک کہ پچاس میں سے ایک نماز بھی قبول نہ ہو گی۔ (ہمارا اسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۸۲)
سوال:قِیامت کی علاماتِ کبریٰ کیا کیا ہیں ؟
جواب:علاماتِ کبریٰ یہ ہیں :{۱} دَجَّال کا ظاہر ہونا {۲} حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا آسمان سے نُزُول فرمانا {۳} حضرتِ سیِّدنا امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ظاہر ہونا {۴} یاجوج و ماجوج کا نکلنا {۵} دُھویں کا پیدا ہونا{۶} دَا بَّۃُ الْاَرْض کانکلنا {۷} سورج کا مغرب سے نکلنا {۸} حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلا م کادنیا سے پردہ فرماناوغیرہ۔(ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۸۳)
سوال:دجال کون ہے اور یہ کب اور کیسے ظاہر ہوگا ؟
جواب: دَجَّال قومِ یہود کا ایک مرد ہے جو اس وقت بحکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ دریائے طبرستان کے جزائر میں قید ہے یہ آزاد ہوکر ایک پہاڑ پر آئے گا وہاں بیٹھ کر آواز لگائے گا ، دوسری آواز پر وہ لوگ جمع ہوجائیں گے جنہیں بد بخت ہونا ہے ،پھر یہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ ملکِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں ُفتور پیدا کرنے کیلئے شام و عراق کے درمیان سے نکلے گا اس کی ایک آنکھ اور ایک اَبرو بالکل نہ ہو گی اسی وجہ سے اِسے مسیح (کانا)کہتے ہیں ۔ اس کے ساتھ یہود کی فوجیں ہوں گی ، وہ ایک بڑے گدھے پر سوار ہو گااور اس کی پیشانی پر ’’ک اف ر‘‘ یعنی کافرلکھا ہوگا جسے ہر مسلمان پڑھے گا البتہ کافِرکو نظر نہ آئے گا، اس کا فتنہ بہت شدید ہو گا، چالیس دن رہے گا جن میں سے پہلا دن سال بھر کے برابر ہوگا، دوسرا ایک مہینہ بھر کے برابر ہوگا ،تیسرا ایک ہفتے کے برابر اور بقیہ عام دنوں جیسے ہوں
گے ۔ وہ بہت تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے گا جیسے بادل، جسے ہوا اڑاتی ہو ، وہ خدائی کا دعویٰ کر ے گا ۔ اس کے ساتھ ایک باغ اور ایک آگ ہوگی جن کا نام جنَّت و دوزخ رکھے گا، مگر وہ جو دیکھنے میں جنَّت معلوم ہوگی حقیقۃً وہ آگ ہوگی اور جو جہنَّم دکھائی دے گی وہ مقامِ راحت ہو گا۔ جو اُس پر ایمان لے آئیں گے اُن کیلئے بادل کو حکم دے گا تووہ برسنے لگے گا اور زمین کو حکم دے گا تو کھیتی اُگ آئے گی، جو اُسے نہ مانیں گے انکے پاس سے چلا جائے گا تووہ قَحَط میں مبتلا ہو جائیں گے اور تہی دَست رہ جائیں گے، ویرانے میں جائے گا تو وہاں کے دفینے شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے ہمراہ ہولیں گے۔
الغرض ! اِس قسم کے بہت سے شعبدے دکھائے گا، حقیقت میں یہ سب جادُو ہوگا، اس لئے اس کے وہاں سے جاتے ہی لوگوں کے پاس کچھ نہ رہے گا، ایسے وقت میں مسلمان ذکرِ خدا عَزَّوَجَلَّ کریں گے جس سے ان کی بھوک وپیاس ختم ہو جائے گی ، چالیس دن میں تمام زمین کا گشت کرے گا مگر مکہ معظمہ و مدینہ منورہ میں جب بھی داخل ہوناچاہے گا فرشتے اس کا منہ پھیر دیں گے، پھرجب وہ ساری دنیا میں گھوم پِھر کر ملکِ شام پہنچے گا تو اس وقت حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نزو ل فرمائیں گے۔ (ہمارا اسلام، علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۸۴)
سوال:حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کب اور کہاں نُزُول فرمائیں گے ؟
جواب:جب دَجَّال کا فتنہ اپنی اِنتہا کو پہنچ چکے گا اور یہ ملعون تمام دنیا میں پھِرکر ملکِ شام میں پہنچے گا جہاں تمام اَہل عرب سِمٹ کر جمع ہو چکے ہوں گے ، یہ خبیث ان سب کا محاصرہ کر لے گا، ان میں بائیس ہزار جنگجو مرد اور ایک لاکھ عورتیں ہونگی، اسی حالت میں قلعہ بند مسلمانوں کو اچانک غیب سے آواز آئے گی کہ گھبراؤ نہیں فریاد رَس آ پہنچا۔اس وقت
حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام آسمان سے دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے زَردْ رنگ کا جوڑا زَیبِ تن کئے ہوئے نہایت نورانی صورت میں دِمَشق کی جامع مسجد کے شرقی منارے پر دین محمدی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حاکم اور امامِ عادل ومجددِ ملّت ہو کر نُزُول فرمائیں گے ۔وہ صبح کا وقت ہوگا ، نمازِ فجر کیلئے اقامت ہو چکی ہو گی، حضرت ِسیِّدنا امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے اِمامت کی درخواست کریں گے، حضرت ِسیدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت ِسیِّدنا امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پشت پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے : آگے بڑھو نماز پڑھاؤ کہ تکبیرتمھارے ہی لئے ہوئی ہے۔ حضور تاجدارِعرب و عجم ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مُکرَّم ہے : ’’تمھارا حال کیسا ہوگا جب تم میں ابن مریم عَلَیْہِ السَّلَام نزول فرمائیں گے اور تمھا را امام تم ہی میں سے ہو گا۔ ‘‘
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان،باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکماً شریعۃ نبینا محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم،الحدیث:۲۴۵،۲۴۶،ص۹۲)
یعنی تمھاری اس وقت کی خوشی اور فخر بیان سے باہر ہے کہ رُ وح اللہ عَلَیْہِ السَّلَام نبی و رسول ہونے کے باوجود تم پر اُتریں ،تم میں رہیں ، تمھارے معین و یاوَر بنیں اور تمھارے امام کے پیچھے نمازپڑھیں ۔
(ہمارااسلام،علامات قیامت،حصہ۵،ص۲۸۵)
سوال:حضرت ِسیِّدنا امام مہدی کون ہیں ؟
جواب: حضرت ِسیِّدنا امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارہ اِماموں رَضْوَانُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن میں سب سے آخری امام اور خلیفۃ اللہ ہیں ، آپکا اسمِ گرامی ’’محمد‘‘ والِد صاحب کا نام ’’ عبد اللہ ‘‘ اور والدہ صا حبہ کا نام ’’ آمنہ‘‘ہوگا ،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نسبتاً سَیِّد، حَسَنی، حضرتِ سیِّدَتنابی بی فاطمہ زہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی اَولاد سے ہوں گے اور مادری رشتوں میں حضرت ِ سیِّدنا عباس
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کاکچھ تعلُّق ہوگا۔ چالیس سال کی عمر میں آپ کا ظہور ہوگا ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت سات یا آٹھ یا نو سال ہوگی ۔ اس کے بعد آپ کا وِصال ہوجائیگا ۔ حضرت ِسیِّدناعیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے ۔ چنانچہ رِوایات میں ہے کہ جب تمام علاماتِ صغر یٰ واقع ہو چکیں گی،تو اس وقت نصاریٰ (عیسائیوں )کا غلبہ ہوگا، رُوم و شام اور تمام ممالک ِاسلام،حَرَمین شریفین کے علاوہ سب مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ تمام زمین فتنہ و فساد سے بھر جائے گی ، اس وقت اَبدال بلکہ تمام اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِمسب جگہ سے سمٹ کر حَرَمین شریفین کو ہجرت کر جائیں گے اور ساری زمین کفر ستان ہو جائے گی رمضان شریف کا مہینہ ہوگا، اَبدال طوافِ کعبہ میں مصروف ہونگے اور حضرت ِسیِّدناامام مہدی بھی جن کی عمر مبارک اس وقت چالیس سال ہوگی وہاں ہونگے ۔ اَولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم انہیں پہچان کر درخواستِ بیعت کریں گے ، آپ انکار فرمائیں گے، دفعۃً غیب سے ایک آواز آئے گی ’’ھٰذَاخَلِیْفَۃُاللہِ الْمَھْدِیُّ فَاسْمَعُوْالَہٗ وَاَطِیْعُوْہٗ‘‘یہ اللہ عَزَّوَجَل کا خلیفہ مہدی ہے، اس کی بات سنو اور اس کا حکم مانو ۔ اب تمام اَولیاء کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم اور اہلِ اسلام آپ کے دَستِ مبارک پر بیعت کریں گے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وہاں سے سب کو اپنے ہمراہ لے کر ملکِ شام تشریف لے جائیں گے۔
(ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۸۷)
سوال:یاجوج و ماجوج کون ہیں ؟
جواب: یاجوج ماجوج یافِث بن نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی اَولاد میں سے فسادی گروہ ہیں ، انکی تعداد بہت زیادہ ہے ، وہ زمین میں فساد کرتے تھے یہ ایّامِ ربیع میں نکلتے تھے کھیتیاں
اور سبزیاں سب کچھ کھا جاتے تھے، آدمیوں بلکہ درندوں ،وحشی جانوروں بلکہ سانپوں ، بچھؤوں تک کو کھا جاتے تھے ، حضرتِ سیِّدناسکندر ذوالقرنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جومؤمن ِصالح اور اللہ عَزَّوَجَل کے مقبول بندے اور تمام دنیا پر حکمران تھے ، لوگوں نے ان سے یاجوج و ماجوج کی شکایت کی چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے انکی درخواست پر بنیاد کھدوائی، جب پانی تک پہنچ گئی تو اس میں پگھلائے ہوئے تانبے سے پتھرجمائے گئے اور لوہے کے تختے اوپر نیچے چن کر ان کے درمیان لکڑی اور کوئلہ بھروادیا اور آگ دے دی ، اسی طرح یہ دیوار پہاڑ کی بلندی تک اونچی کردی گئی اور اوپر سے پگھلا ہوا تانبہ دیوار میں پلا دیا گیا یہ سب مل کرایک انتہائی سخت جسم ہوگیا، اس کی چوڑائی ساٹھ گز ہے اور لمبائی ڈیڑھ سو فرسنگ ۔ شہنشاہِ اَبرار ، شفیعِ روزِشمار،دوعالَم کے مالک و مختار بِاِذنِ پروَردْگار، غیبوں پر خبردار، جنابِ احمد مختار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ والاتبارہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اس دیوار کو توڑتے ہیں اور دن بھر محنت کرتے ہیں ، جب اس کے توڑنے کے قریب ہوتے ہیں تو ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ اب چلو ! باقی کل توڑیں گے، دوسرے روز جب آتے ہیں تووہ دیوار بحکمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہوتی ہے ۔ پھرجب ان کے خُروج کا وقت آئے گا تو ان میں سے ایک کہنے والا کہے گااب چلو! باقی دیوار کل توڑیں گے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ۔ چنانچہ ’’ اِنْ شَآءَاللہ ‘‘عَزَّ وَجَلَّ کہنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس دن کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی اور اگلے روز انہیں دیوار اتنی ہی ٹوٹی ہوئی ملے گی جتنی گزشتہ روز توڑ گئے تھے، اب وہ باہر نکل آئیں گے۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب فتنۃ الدجال،الحدیث:۴۰۸۰، ج۴،ص۴۰۹ وہمارا اسلام،علامات قیامت، حصہ۵، ص۲۸۹)
سوال: یاجوج ماجوج کا خروج کب ہو گا ؟
جواب: قتلِ دَجَّال کے بعد جب لوگ امن و امان کی زندگی بسر کر رہے ہونگے تو اس وقت حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو حکمِ الٰہی ہو گا کہ مسلمانوں کو کوہِ طُور پر لے جائیں اس لئے کہ اب کچھ ایسے لوگ ظاہر کئے جائیں گے جن سے لڑنے کی کسی کو طاقت نہیں چنانچہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام لوگوں کو لے کر قلعۂ طور پر تشریف لے جائیں گے، اس کے بعد یاجوج ماجوج ظاہر ہونگے ،ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گی کہ ان کی پہلی جماعت جب بحیرۂ طبریہ پر سے( جس کا طول دس میل ہوگا ) گزرے گی تو اس کا ساراپانی پی کر اس طرح سکھا دے گی کہ جب دوسری جماعت وہاں آئے گی تو کہے گی کہ یہاں کبھی پانی تھاہی نہیں ۔ غرض یہ لوگ ہر طرف پھیل کر فتنہ و فساداور قتل وغارت برپا کریں گے پھر جب دنیا میں قتل و غارت کر چکیں گے تو کہیں گے کہ زمین والوں کو تو قتل کرلیا، آؤ !اب آسمان والوں کو بھی قتل کردیں ، یہ کہہ کر اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قدرت سے اُن کے تیر اوپر سے خون آلود گریں گے، یہ سمجھیں گے کہ آسمان والے بھی ہلاک ہوگئے۔
اِدھریہ اپنی حرکتوں میں مشغول ہونگے اور وہاں پہاڑ پر حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اپنے ساتھیوں کے ساتھ محصور ہونگے ۔ محصورین میں قحط کا عالَم یہ ہو گا کہ ان کے نزدیک گائے کے سَر کی وہ وقعت ہوگی جو آج سو اشرفیوں کی نہیں ، اس وقت حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اپنے حواریوں کے ساتھ اس مصیبت سے چھٹکارے کی دُعا فرمائیں گے ، اس پر اللہ عَزَّوَجَل یاجوج ماجوج کی گردنوں میں ایک قسم کے کیڑے پیدا کر دے گا جس کے سبب ایک ہی رات میں وہ سب ہلاک ہو جائیں گے۔(ہمارااسلام، علامات قیامت،حصہ۵،ص۲۹۰)
سوال:یاجوج ماجوج کے ہلاک ہونے کے بعد کیا ہوگا ؟
جواب: ان کے مرنے کے بعد جب حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اوران کے اصحاب پہاڑ سے اتریں گے تو دیکھیں گے کہ تمام زمین انکی لاشوں اور بَدْبو سے بھری پڑی ہے حتی کہ ایک بالشت زمین بھی خالی نہ ہو گی ، آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنے ہمراہیوں کے ساتھ پھر دعا فرمائیں گے، اللہ عَزَّوَجَل ایک سخت آندھی اور ایک خاص قسم کے پرندے بھیجے گا، وہ ان کی لاشوں کوجہاں اللہ عَزَّوَجَل چاہے گا پھینک آئیں گے اوران کے تیرو تر کش کو مسلمان سات برس تک جلائیں گے، پھر اس کے بعدبارش ہوگی جس سے زمین بالکل ہموار ہو جائے گی۔اور زمین کو حکم ہوگا کہ اپنی بَرَکتیں اگل دے تو یہ حالت ہوگی کہ انار اتنے بڑے بڑے پیدا ہونگے کہ ایک اَنار سے ایک جماعت کا پیٹ بھرے گا اور اس کے چھلکے کے سائے میں دس آدمی بیٹھیں گے اور دُودھ میں یہ بَرَکت ہوگی کہ ایک اونٹنی کا دودھ جماعت کو کافی ہوگا اور ایک گائے کا دودھ قبیلے بھر کو اور ایک بکری کا خاندان بھر کو کفایت کر ے گا ۔(ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۹۰)
سوال:حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کب تک دنیا میں قیام فرمائیں گے ؟
جواب: حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام چالیس سال تک زمین میں امامتِ دِین و حکومت ِ عدل فرمائیں گے، اس میں سات سال دَجَّال کی ہلاکت کے بعد کے ہیں ، ان ہی میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام نکاح فرمائیں گے، آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی اَولاد بھی ہوگی۔ حضور تاجدارِ مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطَّرپسینہ ،باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِ اَقدس پر حاضر ہوکر سلام عرض کریں گے، قبرِ انور سے سلام کا جواب آئے گا، پھر رَوحا کے راستہ سے حج یا عمرہ ادا فرمائیں گے ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ السَّلَام وِصال فرما جائیں
گے ،مسلمان ان کی تجہیز کریں گے نہلائیں گے ، خوشبو لگائیں گے کفن دیں گے ، نماز پڑھیں گے اور ہمارے پیارے آقا و مولیٰ، حضورسیِّدالانبیاء صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلوئے مبارک میں ،گنبدِ خَضَراکے سائے میں آپ عَلَیْہِ السَّلَام دفن کئے جائیں گے۔ (ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۹۱)
سوال:دُھواں کب ظاہر ہو گا اور اس کا اثر کیا ہوگا ؟
جواب: حضرتِ سیِّدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی وفات کے بعد قبیلۂ قحطان میں سے ایک شخص جہَجَاہ نام کے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے خلیفہ ہونگے جو کہ یمن کے رہنے والے ہونگے، ان کے بعد چند بادشاہ اور ہونگے جن کے عہد میں پھر سے کفر و جہالت کا دَو ر دَورہ ہوجائے گا۔ اسی اَثناء میں ایک مکان مغرب میں اور ایک مشرق میں جہاں منکرین تقدیر رہتے ہونگے زمین میں دھنس جائیگا، اس کے بعد آسمان سے دُھواں نمو دار ہوگا جس سے آسمان سے زمین تک اندھیرا ہوجائے گا ،یہ اندھیراچالیس روز تک رہے گا ، اس سے مسلمان زُکام میں مبتلا ہوجائیں گے جب کہ کافروں اور منافقوں پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی ، بعض ایک دن کے بعد،بعض دو دن اور بعض تین دن کے بعد ہوش میں آئیں گے، پھر مغرب سے آفتاب طلوع ہو گا ۔(ہمارا اسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۹۲)
سوال:سورج مغرب سے کیسے طلوع ہوگا ؟
جواب : روزانہ آفتاب بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں سجد ہ کر کے اِذنِ طلوع چاہتا ہے، جب اِجازت ملتی ہے تب طلوع ہوتا ہے، قربِ قِیامت میں جب آفتاب حسبِ معمول طلوع کی اجازت چاہے گا تو اجازت نہ ملے گی اور حکم ہو گا کہ واپس جا ، وہ واپس ہو جائے گا اور اس کے بعد ماہِ ذِی الْحِجَّہ میں یومِ نَحر کے بعد رات اس قدر لمبی ہو جائے گی کہ
بچّے چلّا اٹھیں گے، مسافر تنگدل اور مویشی چراگاہ کے لئے بے قرار ہوجائینگے یہاں تک کہ لوگ بے چینی کی وجہ سے نالہ و زَاری کریں گے اور توبہ توبہ پکاریں گے،آخر تین چار رات کی مقدار دَراز ہونے کے بعد آفتاب مغرب سے اضطراب کی حالت میں چاند گرہن کی مانند تھوڑی روشنی کے ساتھ نکلے گا اور نصف آسمان تک آکر لَوٹ جائے گا اور جانبِ مغرب غروب ہوگا اس کے بعد پھر مشرق سے طلوع ہوا کرے گا۔ اس نشانی کے ظاہر ہوتے ہی توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا ۔ کافر اپنے کفر سے یا گناہ گار اپنے گناہوں سے توبہ کرنا بھی چاہے گا تو توبہ قبول نہ ہوگی اور اس وقت کسی کا اِسلام لانا قابلِ قبول نہ ہوگا۔(ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۹۲)
سوال: دَابَّۃُ الْاَرْضکیا ہے اور یہ کب نکلے گا ؟
جواب: دَابَّۃُ الْاَرْض عجیب شکل کا ایک جانور ہوگا جو کوہِ صَفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا اور ایسی تیزی سے دَورہ کرے گا کہ کوئی بھاگنے والا اس سے نہ بچ سکے گا، فصاحت کے ساتھ کلام کر ے گا اور بزبانِ فصیح کہے گا: ’’ھٰذَا مُومِنٌ وَّھٰذَاکَافِرٌ ‘‘یہ مؤمن ہے اور یہ کافر ہے ۔اسکے ایک ہاتھ میں حضرتِ سیِّدنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا عصا اور دوسرے میں حضرتِ سیِّدنا سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کی انگوٹھی ہوگی ۔ عصا ء سے ہر مسلمان کی پیشانی پر ایک نورانی خط بنائے گا جس سے سیاہ چہرہ نورانی ہوجائے گا اور انگوٹھی سے ہر کافر کی پیشانی پر سیاہ مہر لگائے گا جس سے اس کا چہرہ بے رونق ہوجائے گا ۔اس وقت تمام مسلمان و کافر علانیہ ظاہر ہونگے، یہ علامت کبھی بھی نہ بدلے گی، جو کافر ہے ہرگز ایمان نہ لائے گا اور جو مسلمان ہے ہمیشہ ایمان پر قائم رہے گا۔ آفتاب کے مغرب سے طلوع ہونے کے دوسرے روز لوگ اسی واقعہ کاچرچاکرنے میں مشغول ہونگے کہ اچانک
کوہِ صفا زلزلے سے پھٹ جائے گا اور یہ جانور نکلے گا ۔ پہلے یمن میں پھر نجد میں ظاہر ہو کر غائب ہوجائے گا اور تیسری بار مکّۂ معظمہ میں ظاہرہوگا ۔ (ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۹۳)
سوال:ا س کے بعد پھر کیا ہوگا ؟
جواب:جب قیامت قائم ہونے میں صرف چالیس سال رہ جائیں گے ایک خوشبو دار ٹھنڈی ہوا چلے گی جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے سے نکلے گی، جس کا اثر یہ ہو گا کہ مسلمان کی روح قبض ہوجائے گی یہاں تک کہ کوئی اہلِ ایمان اہلِ خیر نہ ہوگااور کافر ہی کافر رہ جائیں گے، کفّارِ حبشہ کا غلبہ ہوگا اور ان کی سلطنت ہوگی حکام کا ظلم اور رِعایا کی ایک دوسرے پر دَست دَرازِی رفتہ رفتہ بڑھ جائے گی ، بت پرستی عام ہو گی اور قحط اور وَبا کا ظہور ہوگا۔ اس وقت ملک شام میں کچھ اَ مْن ہوگا ، دیگر ممالک کے لوگ اہل و عیال سمیت ملکِ شام کو روانہ ہونگے، اسی اثناء میں ایک بڑی آگ جنوب سے نمودار ہوگی، وہ ان کا تعاقب کرے گی ، یہاں تک کہ وہ شام میں پہنچ جائیں گے، پھر وہ آگ غائب ہوجائے گی، یہ چالیس سال کا زمانہ ایسا گزرے گا کہ اس میں کسی کے اَولاد نہ ہوگی۔ یعنی چالیس سال سے کم عمر کا کوئی نہ ہوگا اور دنیا میں کافر ہی کافر ہونگے، اللہ عَزَّوَجَل کہنے والا کوئی نہ ہوگا کہ اچانک جُمُعہ کے روز جو کہ یومِ عاشورہ بھی ہوگا (یعنی دس محرم الحرام) اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہونگے کہ صبح کے وقت اللہ تَعَالیٰ حضرتِ سیِّدنا اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کو صور پھونکنے کا حکم د ے گا اور کافروں پر قیامت قائم ہوگی۔ (ہمارااسلام،علامات قیامت ،حصہ۵،ص۲۹۳)
سوال: حشر و نشر و مَعَا دْ کسے کہتے ہیں ؟
جواب: حشر، نشر ، معاد ، یومِ بعث، یومِ نشور،ساعت، سب قِیامت کے نام ہیں ، جس طرح دنیا میں ہر چیز انفرادی طریقہ سے فنا ہوتی اور ِمٹتی رہتی ہے ایسے ہی دنیا کی بھی ایک عمرہے جو اللہ عَزَّوَجَل کے علم میں مقرر ہے ،اس کے پورا ہونے کے بعد ایک دن ایسا آئے گا کہ تمام کائنات فنا ہو جائے گی اسی کو قِیامت کہتے ہیں ۔ اس وقت اُس ایک اللہ عَزَّوَجَل کے سوا دوسرا کوئی نہ ہوگا اور و ہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ (ہمارا اسلام،حشرونشر،حصہ۵،ص۲۹۴)
سوال:اس عقیدے پر ایمان لانا کس حد تک ضروری ہے ؟
جواب: حشر و نشر پر ایمان لانا اِسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اَہم عقیدہ ہے اس پر ایمان لائے بغیر آدمی ہر گز مسلمان نہیں ہو سکتا، یہ عقیدہ اس قدر ضروری ہے کہ اس عقیدے کے بغیر انسان گناہوں سے پوری طرح نہ بچ سکتا ہے، نہ عبادت میں مَشَقَّت اٹھا سکتا ہے نہ جان و مال قربان کرسکتا ہے ۔ دنیاوی سزا کا خوف یا بدنامی کا ڈر اسی وقت تک آدمی کو جرم سے باز رکھ سکتا ہے جب تک کہ اس کے ظاہر ہوجانے کا خوف ہو اور جب کسی کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ میرا یہ جرم کوئی نہیں جان سکتا تو بلاتکلّف بڑے سے بڑے جرم کا مرتکب ہوجاتا ہے ۔ صرف یہ عقیدہ آدمی کو اِرتکابِ جرم سے روکتا ہے کہ ہمارے تمام نیک و بد اَعمال کی سزاو جزا کا ایک دن مقرر ہے ، اسی دن کا نام قِیامت ہے اور اس دن کا مالک اللہ تَعَالیٰ ہے، دنیا کے اکثر بڑے بڑے عقل مند اختلافِ مذہب کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی بھی آنے والی
ہے اِسی موت تک معاملہ ختم نہیں ہوجاتا، اُس دوسری زندگی میں ہماری سعادت و شَقاوَت کا مَدار ہماری اِس زندگی کے اَعمال و اَفعال پر ہے۔یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ (ہمارا اسلام،حشرونشر،حصہ۵،ص۲۹۵)
سوال:حشر صرف روح کا ہوگا یا روح و جسم دونوں کا ؟
جواب: حشر صرف روح کا نہیں بلکہ ُروح و جسم دونوں کا ہے ،جو یہ کہے کہ صرف روحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہ ہوں گے وہ قِیامت کا منکر ہے اورایسا کہنے والا کافر ہے۔ جسم کے اَجزاء اگرچہ مرنے کے بعد بکھرگئے ہوں یا مختلف جانورکھا گئے ہوں اللہ تَعَالیٰ ان سب اَجزاء کو جمع فرماکر پہلی صورت پر لاکر انہیں ان اجزائے اصلیہ پر ترکیب دے گا جو کہ تخم جسم ہیں جنہیں ’’عجب الذنب‘‘ کہتے ہیں وہ ریڑھ کی ہڈی میں کچھ ایسے باریک اجزا ہیں جو نہ کسی خورد بین سے نظر آسکتے ہیں نہ انہیں آگ جلا سکتی ہے اور نہ زمین گلا سکتی ہے وہ محفوظ ہیں اور ہر روح کو اسی جسمِ سابق میں بھیجے گا جس کے ساتھ وہ متعلق تھی۔
(ہمارا اسلام،حشرونشر،حصہ۵،ص۲۹۵)
سوال:کائنات کس طرح فنا کی جائے گی ؟
جواب: جب قِیامت کی نشانیاں پوری ہولیں گی اور مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے وہ خوشبو دار ہوا گزرجائے گی جس سے تمام مسلمانوں کی وفات ہو جائے گی تب دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے اور اللہ کہنے والا کوئی نہ ہوگا اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے کہ اچانک حضرت ِسیِّدنا اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوٰۃ ُوَالسَّلَامُ صور پھونکنا شروع کریں گے، شروع شروع میں اس کی آواز بہت باریک ہوگی پھر رفتہ رفتہ بلند ہوتی چلی جائے گی ، لوگ کان لگاکر اُسے سنیں گے اور بیہوش ہو جائیں گے ۔ اس بیہوشی کا اثر یہ ہوگا کہ ملائکہ اور زمین والوں میں سے اس وقت جو لوگ
زندہ ہوں گے یعنی جن پر موت نہ آئی ہوگی وہ بھی اس سے مر جائیں گے اور جن پر موت وَارد ہوچکی پھر اللہ تَعَالیٰ نے اُنہیں حیات عطا فرمائی اور وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، جیسا کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ و شہداء ،اُن حضرات پر اس نفخہسے بے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہوگی زمین و آسمان میں ہلچل پڑ جائے گی، زمین اپنے تمام بوجھ اور خزانے باہر نکال دے گی، پہاڑ ہل ہل کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اوردُھنی ہوئی روئی یا اُون کے گالے کی طرح اُڑنے لگیں گے ۔ آسمان کے تمام ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور ایک دوسرے سے ٹکراکر ریزہ ریزہ ہوکر فنا ہو جائیں گے، اسی طرح ہر چیز فنا ہو جائے گی یہاں تک کہ صور اور حضرت ِ سیِّدنااسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام اور تمام ملائکہ بھی فنا ہو جائیں گے ، اُس وقت اس واحدِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی نہ ہوگا ۔ وہ فرمائے گا، آج کس کی بادشاہت ہے، کہاں ہیں جبّارین، کہاں ہیں متکبّرین ! مگر ہے کون جو جواب دے۔ پھر خود ہی فرمائے گا: ’’لِلّٰہِ وَاحِدِ الْقَہَّارِ‘‘ صرف اللہ واحدقہار کی سلطنت ہے۔ (ہمارا اسلام،حشرونشر،حصہ۵،ص۲۹۴)
سوال:سب سے پہلے کسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا ؟
جواب: اللہ عَزَّوَجَل جب چاہے گا سب سے پہلے حضرت سیِّدنا اسرافیل عَلَیْہِ السَّلَام کو زندہ فرمائے گا اور صُور کو پیدا کر کے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا۔ صور پھونکتے ہی تمام اوّلین و آخرین ، ملائکہ ،اِنس و جن و حیوانات موجود ہو جائیں گے، اوّل حاملانِ عرش پھر حضرت سیِّدنا جبرائیل پھر حضرت سیِّدنا میکائیل اور پھر حضرت سیِّدنا عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ اٹھیں گے۔ پھر از سرِ نَو زمین ، آسمان ، چاند ، سورج موجود ہوں گے ، پھر ایک بارش برسے گی جس سے سبزہ کے مثل زمین کا ہر ذِی روح جسم کے ساتھ زندہ ہوگا۔ سب سے پہلے
حضور سرورِ عالَم، نورِمجَسَّم، شہنشاہِ معظَّم ، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی قبرِ اَنور سے یوں تشریف لائیں گے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دائیں دستِ اَنور میں حضرت سیِّدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہاتھ ہوگا اور بائیں دستِ اَنور میں حضرت سیِّدنا فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہاتھ، پھر مکّۂ معظمہ و مدینۂ طیبہ کے مقابر میں جتنے مسلمان دفن ہیں سب کو اپنے ہمراہ لے کر میدانِ حشر میں تشریف لے جائیں گے۔ (ہمارا اسلام،حشرونشر،حصہ۵،ص۲۹۷)
سوال:محشر میں لوگوں کی حالت کیا ہوگی ؟
جواب: قِیامت کے روز جب لوگ اپنی اپنی قبروں سے ننگے بدن ، ننگے پاؤں ناختنہ شدہ اُٹھیں گے تو محشر کے اُس عجیب منظر کو حیرت زَدہ ہو کر ہر طرف نگاہیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھیں گے ، مؤمنوں کی قبروں پر اللہ عَزَّوَجَل کی رَحمت سے (کچھ )سواریاں حاضر کی جائیں گی۔ان میں بعض تنہا سوار ہوں گے اور کسی سواری پر دو ،کسی پر تین ، کسی پر چار ، کسی پر دس ہونگے جبکہ کافر منہ کے بل چلتا ہو ا میدان ِ حشر کو جائے گا۔یہ میدانِ حشر ملکِ شام کی زمین پر قائم ہوگا زمین ایسی ہموار ہوگی کہ اِس کنارہ پر رائی کا دانہ گر جائے تو دوسرے کنارے سے دکھائی دے، یہ زمین دنیا کی مٹّی والی زمین نہ ہوگی بلکہ تانبے کی ہوگی، اسے اللہ عَزَّوَجَل قیامت کے دن کیلئے پیدا فرمائے گا اس دن آفتاب ایک میل کے فاصلے پر ہوگا اور اس کا منہ اس زمین کی طرف ہوگا، تپش اور گرمی کا کیا پوچھنا اللہ عَزَّوَجَل پناہ میں رکھے (آمین) بھیجے کھولتے ہوں گے اور اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستّر گز زمین میں جذْب ہوجائے گا پھر جو پسینہ زمین نہ پی سکے گی وہ اوپر چڑھے گا ، کسی کے ٹخنوں تک ہوگا کسی کے گھٹنوں تک ، کسی کے کمر کمر ، کسی کے سینہ ، کسی کے گلے تک اور
کافر کے تو منہ تک چڑھ کر لگام کی طرح جکڑ لے گا جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا ، اس گرمی کی حالت میں پیاس کے باعث زبانیں سوکھ کر کانٹا ہوجائیں گی دل اُبل کر گلے تک آجائیں گے اور ہر مُبتلا اپنے گناہوں کی مقدار کے برابر تکلیف میں مبتلا کیا جائے گا اور ان مصیبتوں کے باوجود کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہ ہوگا ، پھر حساب و کتاب شروع ہو گا، سب کے اَعمال نامے سامنے رکھ دئیے جائیں گے ، اَنبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور دوسرے گواہ دربار میں حاضر ہوں گے اور ہر شخص کے اعمال کا نہایت انصاف سے ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنایا جائے گا ۔ کسی پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہو گی ، ان تمام مرحلوں کے بعد اب اسے ہمیشگی کے گھر میں جانا ہے کسی کو آرام کا گھر ملے گا جس کی آسائش کی کوئی انتہا نہیں ، اس کو جنَّت کہتے ہیں ، یا تکلیف کے گھر جانا پڑے گا جس کی تکلیف کی کوئی حد نہیں اسے جَہَنَّم کہتے ہیں ۔ (ہمارا اسلام،حشرونشر،حصہ۵،ص۲۹۷)
سوال:حشرونشر ،ثواب و عذاب وغیرہ کے کچھ اوربھی معنی لئے جاسکتے ہیں ؟
جواب:قِیامت و بَعَث و حساب و حشر و ثواب و عذاب و جنّت و دوزخ سب کے وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں ۔ جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے مگر ان کے نئے معنی گھڑے مثلاً کہے کہ جنَّت صرف ایک اعلیٰ دَرَجہ کی رَاحت کا نام ہے یا یہ کہے کہ روحانی اَذِیَّت کے اعلیٰ دَرَجہ پر محسوس ہونے کا نام دَوزخ ہے، یا ثواب کے معنی اپنی نیکیوں کو دیکھ کر خوش ہونا اور عذاب کے معنی اپنے بُرے اَعمال کو دیکھ کر غمگین ہونا بتائے یا کہے کہ حشر فقط روحوں کا ہوگا وہ حقیقتاًان چیزوں کا منکر ہے اور ایسا شخص قطعاً دائرئہ اِسلام سے خارج ہے ،یونہی فِرشتوں کے وُجود کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ فرشتہ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں یا جنّوں کے وجود کا انکار کرنا یا بدی کی قوت کا نام جن یا شیطان رکھنا کفر ہے ۔ غرض حشر
ونشر ، ثوا ب و عذاب ، جنت و دَوزخ وغیرہا کے متعلق جو عقیدے مسلمانوں میں مشہور ہیں اور ان کے جو معنی اہلِ اسلام میں مراد لئے جاتے ہیں یہی معنی قرآنِ پاک و احادیث ِ شریفہ میں صاف روشن الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں اور یہ اُمور اِسی طور پر تواُتر کے ساتھ منقول ہو تے ہوئے ہم کو پہنچے ہیں ،تو جو شخص ان لفظوں کا تو اقرار کرے لیکن یوں کہے کہ ان کے ایسے معنی مراد ہیں جو اِن کے ظاہر الفاظ سے سمجھ میں نہیں آتے ایسا شخص یقینا دائرۂ اسلام سے خارج ، ضروریاتِ دین کا منکر اور کافرومرتَدہے۔ (ہمارا اسلام،حشرونشر،حصہ۵،ص۲۹۹)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔ (آقاصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) مجھے ہر چیز کی معلومات عطا فرما دیجئے! ارشاد ہوا: ’’ہر شے پانی سے بنی ہے۔‘‘ میں نے عرض کی: اس چیز پر مطلع فرمادیجئے، جسے اپنا کر میں جنت کو پاسکوں ۔ فرمایا: ’’کھانا کھلاؤ اور سلام کو پھیلاؤ اور صلۂ رحمی کرو اور رات میں (نفلی) نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوں ، تم سلامتی سے داخل جنت ہوجاؤ گے۔‘‘ (مسند امام احمد، ج۳، ص۱۷۴، حدیث۷۹۱۹)
سوال:اَعمال نامہ سے کیا مراد ہے؟
جواب: اللہ عَزَّوَجَل نے انسان کے اَعمال کی نگہداشت کیلئے کچھ فِرشتے مقرر فرمائے ہیں جن کو کِراماً کاتبین کہتے ہیں ، وہ ہر انسان کی نیکیاں اور بَدیاں لکھتے رہتے ہیں ،ہر آدمی کے ساتھ دو فرشتے ہوتے ہیں ،ایک دائیں _ ایک بائیں ۔ دا ہنی طرف کا فرشتہ نیکیاں لکھتا ہے اور بائیں طرف کا بَدیاں ، اِسی صحیفے یا نَوِشتے کو اَعمال نامہ کہا جاتا ہے۔ اِسے یوں سمجھ لیں کہ ہمارے اچھے بُرے تمام کاموں کے مکمل ریکارڈ کا نام اَعمال نامہ ہے قیامت کے دن ہر شخص کا نامۂ اَعمال اسے دیا جائے گا، نیک لوگوں کے داہنے ہاتھ میں اور بَدوں کے بائیں ہاتھ میں اور کافر کا سینہ توڑ کر اس کا بایاں ہاتھ اس کی پشت سے نکال کر پیٹھ کے پیچھے دیا جا ئے گا، اس میں ساری زندگی کے اَعمال درج ہوں گے۔ ہر آدمی اس وقت یقین کرے گا کہ اس کا ہر ا چھااور برا عمل اس میں موجود ہے۔ اس میں اپنے گناہوں کی فہرست پڑھ کر مجرم خوف کھائیں گے کہ دیکھئے آج کیسی سزا ملتی ہے اور کافر کا تو خوف کے مارے بُرا حال ہوگا ۔ پھر میزان پر لوگوں کے اچھے اور بُرے اَعمال تولے جائیں گے۔(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ۵،ص۳۰۰)
سوال: میزان کیا ہے اور اس پر اَعمال کیسے تولے جائیں گے ؟
جواب: میزان ترازو کو کہتے ہیں اور اَعمال کاوَزْن کرنے کیلئے قِیامت میں جو میزان نصب کی جائے گی اس کا کچھ اِجمالی مفہوم جو شریعت نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ وَزْن ایسی میزان سے کیا جائے گا جس میں کِفَّتَین (یعنی دوپلے) اور لِسان (یعنی کانٹا) وغیرہ موجود ہیں اور اس کا ہر پلّہ اتنی وُسعت رکھے گا جیسی مشرق و مغرب کے درمیان
وسعت ہے اور رہ گئی یہ بات کہ وہ میزان کس نوعیت کی ہوگی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا کیا طریقہ ہوگا یہ ہماری عقل و اِدراک سے باہر ہے اِسی لئے ان کے جاننے کی ہمیں تکلیف نہیں دی گئی بلکہ یہ عقیدہ تعلیم فرمایا گیا کہ میزان حق ہے اور قِیامت کے دن سب لوگوں کے اَعمال کا وزن دیکھا جائے گا۔ جن کے نیک اَعمال وزنی ہونگے وہ کامیاب ہیں اور جن کے اَعمال کاوزن ہلکا ہوگا وہ خسارے میں رہیں گے۔
بعض علمائِ کرام رحمۃ اللہ تَعَالیٰ علیہمیہ بھی فرماتے ہیں ہر شخص کے عمل ،وزن کے موافق لکھے جاتے ہیں ایک ہی کام ہے ،اگر اِخلاص و محبت سے اور حکمِ شرعی کے موافق کیا اور بَر مَحل کیا تو اس کا وزن بڑھ گیا اور اگر صرف دِکھاوے کی وجہ سے کیا ،یا موافقِ حکم اور برمحل نہ کیا تو وزن گھٹ گیا اگرچہ دیکھنے میں کتنا ہی بڑا عمل ہو مگر اس میں ایمان و اِخلاص کی روح نہ ہوتو وہ اللہ عَزَّوَجَل کے یہاں کچھ وزن نہیں رکھتا ۔ آخِرت میں وہی صحیفے یا نَوِشتے تولے جائیں گے جن میں اَعمال کا اِندراج کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں اَعمالِ حَسَنہ کسی نورانی شکل و جسم میں تبدیل کردیئے جائیں اور بُرے اَعمال کسی بُری شکل و جسم میں اور پھر ان اَجسام کا وزن کیا جا ئے گا۔واللہ تَعَالیٰ اعلم۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۰)
سوال:حساب کتاب کی نوعیت کیا ہوگی ؟
جواب: اَعمال کے حساب کی نوعیتیں مختلف ہو ں گی ، کسی سے تو اس طرح حساب لیا جائے گا کہ خُفیۃً اس سے پوچھا جائے گا کہ تُو نے یہ کیا اوریہ کیا ؟ وہ عرض کرے گا ہاں اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ یہاں تک کہ تمام گناہوں کا اِقرار کرلے گا اور اپنے دل میں سمجھے گا کہ اب کمبختی آئی مگر وہ کریم پروَردْگار کرم فرمائے گا کہ ہم نے دنیا میں بھی تیرے عیب
چھپائے اور اب ہم تجھے بخشتے ہیں اور کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک بات کی باز پُرس ہوگی جس سے یوں سوال ہوا وہ ہلاک ہوا اور کسی کو نعمتیں یاد دِلا دِلا کر پوچھا جائے گا کہ تیراکیا خیال تھا کہ ہم سے ملنا ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ نہیں ، فرمائے گا توجیسے تُو نے ہمیں یاد نہ کیا ہم بھی تجھے عذاب میں چھوڑتے ہیں ۔ بعض کافر ایسے بھی ہوں گے کہ جب نعمتیں یاد دِلا کر فرمائے گا کہ تُو نے کیا کیا ؟ تووہ بولیں گے کہ ہم مسلمان تھے اور نماز، رَوزہ، صدقہ و خیرات اور دوسرے نیک کام کرتے تھے ، اِرشاد ہوگا! تُو ٹھہر جا ! تجھ پر گواہ پیش کئے جائیں گے پھراس کے منہ پر مُہَر کردی جائے گی اور اَعضاء کو حکم ہوگا کہ بولو ! اس وقت اس کے ہاتھ ، پاؤں ،گوشت پوست ہڈیاں سب اس کے خلاف گواہی دیں گی کہ یہ تو ایسا تھا ویسا تھا وغیرہ، چنانچہ وہ جَہنَّم میں ڈال دیا جائے گا ۔کسی مسلمان پر اس کے اَعمال پیش کئے جائیں گے تاکہ وہ اپنے اچھے اور برے اَعمال کو پہچان لے، پھر اچھے کاموں پر ثواب دیا جائے گا اور برے کاموں سے دَر گزر فرمایا جائے گا، یعنی نہ بات بات پر گرفت ہوگی نہ یہ کہا جائے گا کہ ایسا کیوں کیا ؟ نہ عُذْ ر پوچھا جائے گا اور نہ اس پر حُجَّت قائم کی جائیگی۔
اس امّت میں وہ شخص بھی ہوگا جس کے ننانوے دفتر گناہوں کے ہو نگے ۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ تیرے پاس کوئی عُذْر(انکار) ہے ۔ وہ عرض کرے گا کہ نہیں پھر ایک پرچہ جس میں _لکھا ہو گا نکالاجائے گا اور حکم ہو گا کہ جا اسے تُلوا ، پھر ایک پلڑے پرگناہوں کے سارے دفتر رکھے جائیں گے اور ایک میں وہ پرچہ، چنانچہ وہ پرچہ اُن تمام دفتروں سے بھاری ہوجائے گا ۔
ہمارے حضور نبی ٔ رَحمت، آقائے امَّت،محبوبِ رب العزت عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت سے بہت سے تو بِلا حساب جنَّت میں داخل فرمائے جائیں گے، تہجد گزار بھی بِلا حساب جنَّت میں جائیں گے ۔ بالجملہ اس کریم پروَردْگار کی رَحمت کی کوئی اِنتہا نہیں جس پر رَحم فرمائے تو تھوڑی چیز بھی بہت کثیر ہے ۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۱)
رَحمتِ حق بَہَا، نہ می جوید رَحمتِ حق بَہَا نہ، می جوید
یعنی اللہ عَزَّوَجَل کی رَحمت قیمت طلب نہیں کرتی بلکہ اللہ عَزَّوَجَل کی رَحمت تو بہانہ تلاش کرتی ہے۔
سوال: اہلِ محشر کی کتنی قسمیں ہونگی ؟
جواب: قِیامت کے وقوع کے بعد کل آدمیوں کی تین قسمیں کر دی جائیں گی :
{۱}دَوزخی{۲} عام جَنَّتی اور{۳} خوَّاص مقرَّبین جوکہ جنَّت کے نہایت اعلیٰ دَرَجات پر فائز ہوں گے۔ دَوزخی جنہیں قرآنِ کریم نے ’’اَصحابُ الشِّمال‘‘فرمایا ہے، جو میثاق کے وقت حضرتِ سیِّدناآدم عَلَیْہِ السَّلَام کے بائیں پہلو سے نکالے گئے تھے وہ عرش کی بائیں جانب کھڑے کئے جائیں گے ، اَعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، فرشتے بائیں طرف سے ان کو پکڑیں گے، ان کی نحوست اور بدبختی کا کیاٹھکانا اور عام جَنَّتی جنہیں قرآنِ مجید میں ’’اَصحابُ الیَمِین‘‘ فرمایا گیاہے اور جن کو میثاق کے وقت حضرتِ سیِّدنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام کے دائیں پہلو سے نکالا گیا تھا وہ عرشِ عظیم کے دائیں طرف ہوں گے ان کا اَعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور فرشتے بھی ان کو داہنی طرف سے لیں گے، اس روز اُن کی خوبی و بَرَکت کا کیا کہنا ، نہایت شان وشوکت کے
ساتھ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسرور و دِلشاد ہوں گے۔
شبِ معراج حضور نبی ٔ پاک،صاحِبِ لَولاک،سیَّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان ہی دونوں گروہوں کی نسبت ملاحَظَہ فرمایاتھا کہ حضرتِ سیِّدنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام اپنی دا ہنی طرف دیکھ کرہنستے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر روتے ہیں اور خوَّاص مقربین جنہیں قرآنِ کریم میں ’’سابقون ‘‘ فرمایا گیا وہ حق تعالیٰ کی رَحمتوں اور مراتب قُرب و وَجاہت میں سب سے آگے ہیں ۔
حدیث شریف میں وَارِد ہے کہ اہلِ محشرکی ایک سو بیس صفیں ہونگی جن میں چالیس پہلی امتوں کی اور اَسّی اِس اُمّتِ مرحومہ کی۔(سنن الترمذی ، کتاب صفۃ الجنۃ ، باب ماجاء فی کم صف اھل الجنۃ، الحدیث۲۵۵۵،ج۴، ص ۲۴۴)حساب کتاب سے فراغت کے بعد سب کو پل صراط سے گزرنے کا حکم ہوگا۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۳)
سوال: صِراط کیا ہے ؟
جواب: یہ ایک پُل ہے جو جہنم کی پشت پر نصب کیا جائے گا ، بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا، ہر نیک و بَد ، مؤمن و کافر کا اس پر سے گزر ہوگا کیونکہ جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے ، نیک لوگ سلامت رہیں گے اور اپنے اپنے اعمال کے موافق وہاں سے صحیح سلامت گزرجائیں گے۔جب ان کاگزر دَوزخ پر ہوگا تو دَوزخ سے صدا اُٹھے گی کہ اے مؤمن !جلدی گزر جا کہ تیرے نور نے میری لَپٹ سَرد کر دی۔ پل صراط کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے لٹکتے ہونگے ،جس شخص کے بارے میں حکم ہوگا اُسے پکڑ لیں گے مگربعض تو زخمی ہو کر نجات پاجائیں گے اور بعض کو یہ آنکڑے
جہنم میں گِرادیں گے سب سے پہلے ہمارے نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس پر سے گزر فرمائیں گے پھردیگر اَنبیاء و مرسلین عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پھر یہ امّت پھر اور امّتیں گزریں گی۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۴)
سوال:پُل صراط سے مخلوق کا گزر کس طرح ہوگا ؟
جواب: مختلف اَعمال کے مطابق پُل صراط پر لوگ بھی مختلف طرح سے گزریں گے۔ بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں گے جیسے بجلی کا کَوندا کہ ابھی چمکااور ابھی غائب ہوگیا اور بعض تیز ہوا کی طرح ، کوئی ایسے جیسے پرند اُڑتا ہے اوربعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض ایسے جیسے آدمی دوڑتا ہے ۔ یہاں تک کہ بعض سرین پر گھِسٹتے ہوئے اورکوئی چیونٹی کی چال چلتے ہوئے، پارگزر جائیں گے۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۴)
سوال:حوضِ کوثر کیا ہے ؟
جواب: حشر کے دن اُس پریشانی کے عالَم میں اللہ عَزَّوَجَل کی ایک بڑی رَحمت، حوضِ کوثر ہے جو ہمارے پیارے نبی حضور سرورِ عالَم ، نورِمجسَّم، شہنشاہِ معظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مَرحمت ہو ا ہے، اس حوض کی مسافت ایک مہینہ کی راہ ہے، اس میں جنَّت سے دو پَر نالے ہر وقت گرتے ہیں ایک سونے کا دوسرا چاندی کا، اس کے کناروں پر موتی کے قُبَّے ہیں اس کی مٹی نہایت خوشبو دار مُشک کی ہے ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا اور مُشک سے زیادہ پاکیزہ ہے ۔اس پر برتن ستاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہیں ، جو اس کا پانی پیئے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ حضور سلطانِ مکَّہ و مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، صاحبِ معطَّر پسینہ ،فیض گنجینہ، باعثِ نزولِ سکینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے اپنی امَّت کو
سیراب فرمائیں گے ۔اللہ عَزَّوَجَل ہمیں بھی نصیب فرمائے، آمین بجاہ سیِّدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۵ وبہار شریعت،معاد وحشر کا بیان،حوض کوثر،حصہ اول،ج۱،ص۱۴۵)
سوال:ان تمام مرحلوں کے بعد آدمی کہاں جائیں گے؟
جواب:مسلمان جنت میں اور کافر دوزخ میں جائیں گے ۔ اہلِ ایمان کے ثواب اور اِنعامات کے لئے اللہ تَعَالیٰ نے ایک جگہ بنائی ہے جس میں تمام قسم کی جسمانی و رُوحانی لذتوں کے وہ سامان مہیّا فرمائے ہیں جو بڑے بڑے بادشاہوں کے خیال میں بھی نہیں آسکتے ، اِسی کا نام جنَّت ہے اور گناہگاروں کے عذاب و سزا کیلئے بھی ایک دَرْد ناک جگہ بنائی ہے جس کا نام جَہنَّم یا دَوزخ ہے ۔اس میں تمام قسم کے تکلیف دینے والے عذابات مُہَیَّا کئے گئے ہیں جن کے تصور ہی سے رَونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور حواس گم ہوجاتے ہیں البتہ وہ سب گناہ گار جن کا خاتمہ ایمان پر ہو ا تھا اپنے اپنے عمل کے مطابق نیز اَنبیاء و ملائکہ عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی شفاعت سے جَہنَّم سے نکالے جائیں گے صرف کافر باقی ر ہ جائیں گے، اُس وقت جَہنَّم کا منہ بند کردیاجائے گا جنَّتیوں کے چہرے سفید و تَر و تازہ ہونگے جب کہ دَوزخیوں کے سیاہ و بے رونق جنَّت و دَوزخ کو بنے ہوئے ہزارہا سال ہوئے اور وہ اب بھی موجود ہیں ۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۵)
سوال:اَعْرَاف کسے کہتے ہیں ؟
جواب: جنت اور دوزخ کے درمیان میں ایک پردہ کی دیوار ہے یہ دیوار جنَّت کی نعمتوں کو دَوزخ تک اور دَوزخ کی تکلیفوں کو جنَّت تک پہنچنے سے روکنے والی ہوگی۔ اسی درمیانی
دیوار کی بلندی پر جو مقام ہے اس کو اعراف کہتے ہیں ۔
اوراکثر پہلے اورپیچھے آنے والوں رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے یہ بات منقول ہے کہ اہلِ اعراف وہ لوگ ہونگے جن کی نیکیاں اور بَدیاں برابر ہوں گی ۔ جب یہ لوگ اَہلِ جنَّت کی طرف دیکھیں گے تو انہیں سلام کریں گے ، یہ سلام کرنا اصل میں بطورمبارک باد ہوگا اور چونکہ ابھی خود جنَّت میں داخل نہ ہوسکے لہٰذا اس کی طمع و آرزُو کریں گے اور آخر کار یہ لوگ بھی جنَّت میں چلے جائیں گے۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۶)
سوال:قِیامت کے روز سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمّت کی شناخت کیسے ہوگی ؟
جواب: جس وقت میدانِ محشر سے پل صراط پر جائیں گے وہاں اندھیرا ہوگا تب ان کے ایمان اور اَعمالِ صالحہ کی روشنی ان کا ساتھ دے گی اور ایمان و طاعت کا نور اُسی قدر زیادہ ہوگا جتنا عمل زیادہ ہوگا اور ایمان مضبوط ہوگا۔یہی نور جنَّت کی طرف اُن کی رہنمائی کرے گا اور اس امَّت کی روشنی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے سے دوسری امتوں کی روشنیوں سے زیادہ صاف اور تیز ہوگی ۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود اِرشاد فرماتے ہیں کہ قِیامت کے دن میری امَّت اس حال میں بُلائی جائے گی کہ اُنکے منہ اور ہاتھ پاؤں آثارِ وُضو سے چمکتے ہونگے تو جس سے ہوسکے چمک زیادہ کرے۔
(صحیح البخاری،کتاب الوضو،باب فضل الوضوئ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۳۶،ج۱،ص۷۱ وہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۶ )
سوال:دخولِ جنت و دوزخ کے بعد کیا ہوگا ؟
جواب : جب سب جنتی جنت میں داخل ہولیں گے اور جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے
جن کو ہمیشہ کیلئے اس میں رہنا ہے تو اس وقت جنَّت و دَوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے کی طرح لاکر کھڑا کریں گے۔پھر ایک منادی (اعلان کرنے والا) جنَّت والوں کو پکارے گا ،وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہاں سے نکلنے کا حکم ہو۔ پھر جہنَّمیوں کو پکارا جائے گا وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رِہائی ہوجائے پھر اُن سب سے پوچھے گا کہ اسے پہچانتے ہو ؟ سب کہیں گے کہ ہاں ! یہ موت ہے، پھر وہ ذَبح کردی جائے گی اور فرمائے گااے اَہلِ جنت ! ہمیشگی ہے اب مرنا نہیں اوراے اَہلِ نار !ہمیشگی ہے اب موت نہیں ۔ اس وقت اَہلِ جنَّت کیلئے خوشی پر خوشی ہے، اوراسی طرح دَوزخیوں کے لئے غم بالائے غم۔نَسْأَلُ اللہَ الْعَفْوَوَالْعَافِیَۃَفیِ الدُّنْیَاوَلْاٰخِرَۃِ(ترجمہ: ہم اللہ عَزَّوَجَل سے دِین و دنیا اور آخرت میں عَفْو و عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔ آمین) (ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۶)
سوال:آخِرت میں اللہ عَزَّوَجَل کا دیدار کیسے ہوگا ؟
جواب: اللہ عَزَّوَجَل کا دِیدار جو آخِرت میں ہر سُنِّی مسلمان کو ہو گا وہ بلا کیف ہو گا یعنی اللہ عَزَّوَجَل کو دیکھیں گے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے کیونکہ جس چیز کو دیکھتے ہیں اس سے کچھ فاصلہ مسافت کاضرور ہوتا ہے ،نزدیک یا دُور ، نیزوہ شے دیکھنے والے سے کسی سَمت میں ہوتی ہے یعنی اوپر یا نیچے ، دائیں یا بائیں ، آگے یا پیچھے اور اللہ عَزَّوَجَل کا دیدار اِن سب باتوں سے پاک ہوگا پھررہا یہ کہ کیونکر ہوگا! یہی توکہا جاتا ہے کہ ’’کیونکر‘‘ کو یہاں دخل نہیں اِنْ شَآءَاللہ تَعَالیٰ جب دیکھیں گے اس وقت بتادیں گے اور وقت دیدار نگاہ اس کا احاطہ کر لے جسے ادراک بھی کہتے ہیں ، یہ محال ہے اور ناممکن
الوقوع، اس لئے کہ احاطہ اُسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کے حدود اور جہات ہوں اور اللہ تَعَالیٰ کے لیے حد و جہت محال ہے تو اس کا ادراک و احاطہ بھی ناممکن ہے اور اہل ِسنت کا یہی مذہب ہے۔
غرض آخرت میں اللہ عَزَّوَجَل کا دیدار ہونا قرآن و حدیث و اِجماعِ صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دلائلِ کثیرہ سے ثابت ہے کیونکہ اگر دیدارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ناممکن ہوتا تو حضرت سیِّدنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام دیدار کا سوال نہ کرتے ۔ اس کے علاوہ اَحادیث کریمہ سے ثابت ہے کہ رَبِّ ذیشان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجلّی فرمائے گا ۔اُن جنتیوں کیلئے نور کے ، موتی کے ، یاقوت کے، زَبَرجَداور سونے چاندی کے منبر بچھائے جائیں گے ، خدا عَزَّوَجَلَّ کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے سورج اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے دیکھنے کیلئے رکاوٹ نہیں ہوتا۔ اللہ عَزَّوَجَل کے نزدیک سب سے زیادہ معزَز وہ ہے جو اللہ تَعَالیٰ کے وجہِ کریم کا ہر صبح و شام دیدار پائے گا۔ سب سے پہلے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیدارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ہوگا ۔دیدارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس کے برابر کوئی نعمت نہیں جسے ایک بار دیدار میسَّر ہوگا وہ ہمیشہ ہمیشہ اس کی لذَّت میں مستغرق رہے گا کبھی نہ بھولے گا۔
(ہمارا اسلام،آخرت کے کچھ تفصیلی واقعات،حصہ ۵،ص۳۰۷۔۳۰۹)
سوال:شفاعت کسے کہتے ہیں اور اَہلِ سُنَّت کا شفاعت کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟
جواب: شفاعت کے معنی ہیں کوئی شخص اپنے بڑے کی بارگاہ میں اپنے چھوٹے کے لئے سفارش کرے۔ دھمکی یا دَباؤ سے بات منوانے کو شفاعت نہیں کہتے اور نہ ہی شفاعت
ڈر کر یا دَب کر مانی جاتی ہے۔ اتنی بات تو عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ دَب کر بات ماننا قبولِ سفارش نہیں بلکہ بزدلی و مجبوری اور ناچاری ہے۔
خاصَّانِ خدا عَزَّوَجَلَّ کی شفاعت حق ہے اور اس پر اِجماع ہے۔ بکثرت آیاتِ قرآن اس کی گواہ ہیں اوراس بارے میں بہت زیادہ اَحادیثِ کریمہ بھی وَارِد ہیں ، کتبِ دِینیہ اس سے مالامال ہیں ۔اس عقیدے کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جل جلالہٗ خالق و مالک و شہنشاہِ حقیقی ہے ، اس کو کسی سے کسی قسم کا نہ تو لالچ ہے اور نہ ہی ڈر، وہ تمام عالَم سے غنی ہے اور سب اُس کے محتاج ہیں ۔اسی نے اپنی قدرتِ کاملہ و حکمتِ بالغہ سے اپنے بندوں میں سے اپنے محبوبوں کو چن لیا اور اپنے تمام محبوبوں کا سردار ، مَدَنی تاجدار، شفیعِ رَوزِ شمار، جنابِ احمدِ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کیا ۔وہ بکمالِ بے نیازی اپنے کرم سے اپنے محبوبانِ کرام کی ناز برداری فرماتا ہے ۔اس نے اپنے محبوبوں کی عظمت و جلالت اور شانِ محبوبیت دیگر بندوں پر ظاہر فرمانے، ان کی شان و شوکت و وَجاہت دکھانے کیلئے اُن کواپنے بندوں کا شفیع بنایا۔ اُسی نے اپنے محبوب ،دانائے غیوب ، مُنَزَّہٌ عن العیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امّت کے اَولیاء ِکرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کو یہ مرتبہ بخشا کہ اگر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ پر کسی بات کی قسم کھا لیں تو رَبِّ کریم جَلَّ جَلَالُہٗ ان کی قسم کو سچا کردے۔اُسی نے ہمارے مالک وآقا، حضرت ِسیِّدنامحمد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا خلیفۂ اعظم اور حبیبِ مکرَّم بنایا اور اِرشاد فرمایا کہ
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) (پ۳۰،الضحیٰ:۵)
ترجمۂ کنزالایمان:اوربیشک قریب ہے کہ تمھارا رب تمھیں اتنا دے گاکہ تم راضی ہو جاؤگے۔
اوراس اِرشادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پرمحبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے ناز اٹھانے والے رَبِّ بے نیاز عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہِ کریم میں عرض کی کہ جب تو میں ہر گز راضی نہ ہونگا اگر میرا ایک امّتی بھی دَوزخ میں رہ گیا ۔
(التفسیر الکبیر،پ۳۰،سورۃ الضحی، تحت الایۃ:۵،ج۱۱،ص۱۹۴)
اللہ اکبر ! کیا شانِ محبوبیت ہے اورقرآنِ پاک نے کس اِہتمام کے ساتھ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کا اِثبات فرمایا۔ رَبِّ کریم نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کیسے عظیم وَعدے فرمائے ہیں اور اپنی شانِ کرم سے انہیں راضی رکھنے کا ذِمَّہ بھی لیا ہے اور حبیبِ دَاوَر، شافعِ محشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کس شانِ ناز سے فرمایا کہ جب یہ کرم ہے تو ہم اپناایک امّتی بھی دَوزخ میں نہ چھوڑیں گے۔
(فَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی وَسَلَّمَ وَبَارَکَ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ اَصْحَابِہٖ اَبَدًا اَبَدًا)
(ہمارا اسلام،شفاعت کا بیان،حصہ ۵،ص۲۶۹)
سوال: وہ کون لوگ ہیں جن کی شفاعت قبول ہو گی ؟
جواب: قرآن کریم نے شفاعت کے ثبوت کو دو اُصولوں میں منحصررکھا ہے۔ا ول قبل اَز شفاعت اِذنِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ، یعنی کسی کی شفاعت کرنے سے پہلے اجازتِ الٰہی حاصل ہونا ۔ دوئم شفیع کا نہایت صادِق و رَاست باز اور پوری، معقول اور ٹھیک بات کہنے والا ہونا ۔ احادیثِ کریمہ اور کتبِ عقائد میں منقول ہے کہ َانبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام و اَولیاء و علماء و شہداء و فقراء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی شفاعت مولیٰ کریم اپنے کرم سے قبول فرمائے گا، بلکہ حفاظ،حجاج اور ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دِینی عنایت ہوا ،اپنے اپنے متعلِّقین کی شفاعت کریں گے بلکہ نا بالغ بچّے جو مر گئے ہیں اپنے ماں باپ کی شفاعت کریں
گے۔ یہاں تک کہ علماء کے پاس آکر کچھ لوگ عرض کریں گے کہ ہم نے آپ کو فلاں وقت وُضو کے لئے پانی بھر دیا تھا ،کوئی کہے گا کہ میں نے آپ کواِستنجا کیلئے ڈَھیلا د یاتھا، اس پر وہ لوگ ان کی شفاعت کریں گے، بلکہ حدیث شریف میں تو یہاں تک ہے کہ مؤمن جب آتشِ دوزخ سے خلاصی پائیں گے تو اپنے اُن بھائیوں کی رِہائی کے لئے جو نارِ دوزخ میں ہوں گے ، اللہ عَزَّوَجَل کی بارگاہ میں شفاعت وسوال میں مبالغہ کریں گے اور اللہ عَزَّوَجَل سے اجازت پاکر مسلمانوں کی کثیر تعداد کو پہچان پہچان کر دَوزخ سے نکالیں گے۔
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ، ذکر الا خبا رعن وصف من یشفع فی القیامۃ۔۔۔۔الخ، الحدیث:۷۳۳۳، ج۹، ص۲۳۴ و ہما را اسلام، شفاعت کا بیان، حصہ ۵،ص۲۷۰ و بہا ر شریعت،معاد وحشر کا بیان، حصہ۱،ج۱، ص۱۳۹)
سوال: شفاعت کا طالب کون کون ہوگا ؟
جواب : اَحادیثِ کریمہ سے ثابت ہے کہ ہر مؤمن طلب گارِ شفاعت ہوگا اور تمام مؤمنینِ اوّلین و آخرین کے دل میں یہ بات اِلہام کی جائے گی کہ وہ شفاعت طلب کریں ۔شارحینِ حدیث نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ طالبِ شفاعت وہی لوگ ہونگے جو دُنیا میں اپنی حاجات کیلئے اَنبیاء ِ کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے توَسُّل کیا کرتے ہیں ان ہی کے دل میں یہ بات قدرتاًپیدا ہوگی کہ جب دنیا میں انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام حاجت بَر آری کا وَسیلہ تھے تو یہاں بھی ان ہی کے ذریعہ سے حاجت روائی ہو گی ۔(ہمارا اسلام، شفاعت کا بیان،حصہ ۵،ص۲۷۱)
سوال: بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں سب سے پہلے کون شفاعت کرے گا ؟
جواب: حضورپُر نور ،شافعِ یوم ُالنُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود اِرشاد فرماتے ہیں :اَنَااَوَّلُ
شَافِعٍ وَّاَوَّلُ مُشَفَّعٍ۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الزہد،باب ذکر الشفاعۃ، الحدیث:۴۳۰۸، ج۴،ص۵۲۲) میں ہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور میری شفاعت سب سے پہلے قبول ہوگی ۔حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب تک بابِ شفاعت نہ کھولیں گے کسی کو مجالِ شفاعت نہ ہوگی، بلکہ حقیقۃً جتنے شفاعت کرنے والے ہیں سب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دَربارِ گہر بار میں شفاعت لائیں گے اور اللہ عَزَّوَجَل کی بارگاہ میں مخلوقات میں صرف حضور ِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شفیع ہیں ۔ (ہمارا اسلام،شفاعت کا بیان،حصہ ۵،ص۲۷۲)
سوال:حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کا آغاز کیسے ہوگا ؟
جواب : قِیامت والے دن لوگ قِیامت کی سختیوں میں مبتلا ہوں گے چنانچہ تمام اہل محشر کے مشورہ سے یہ بات طے پائے گی کہ ہم سب کو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے چنانچہ گرتے پڑتے انکی بارگاہ میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے وہ انہیں حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَام کی خدمت میں بھیجیں گے، نوح عَلَیْہِ السَّلَام فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس جاؤ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس بھیجیں گے، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے پاس بھیجیں گے وہ فرمائیں گے تم اُن کے پاس جاؤ جن کے ہاتھ پر فتح (کھولنا ) رکھی گئی ہے، جو آج بے خوف اوروہ تمام اَولادِ آدم کے سردار ہیں ،وہ خاتم النَبِیِّیْن ہیں ، وہ آج تمہاری شفاعت فرمائیں گے،تم مُحَمَّدٌ رَّسُول ُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جاؤ ۔ یہ لوگ پھرتے پھراتے ، ٹھوکریں کھاتے، دُہائی دیتے بارگاہِ بے کس پناہ ،شافعِ روزِ جزا،محبوب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بہت سے فضائل بیان کریں گے ،پھر جب
شفاعت کیلئے عرض کریں گے تو رَحمت والے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جواب میں اِرشاد فرمائیں گے: ’’اَنَا لَھَا اَنَا لَھَا اَنَا صَاحِبُکُمْ‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب التوحید، باب کلام الرب۔۔۔الخ،الحدیث:۷۵۱۰،ج۴،ص۵۷۶والمعجم الکبیر للطبرانی، ابو عثمان النہدی عن سلمان۔۔۔الخ،الحدیث: ۶۱۱۷،ج۶،ص۲۴۷) میں اس کام کیلئے ہوں ، میں اس کام کیلئے ہوں ، میں ہی وہ ہوں جسے تم تمام جگہ ڈھونڈ آئے، یہ فرما کر بارگاہِ ربُ العزت عَزَّوَجَلَّ میں سجدہ کریں گے ،اِرشاد ہوگا :
’’اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا سر اٹھاؤ اور کہو، تمھاری بات سنی جائے گی اور مانگو، جو کچھ مانگو گے ملے گا اور شفاعت کرو تمھاری شفاعت مقبول ہے۔ ‘‘
اللہ اللہ ! یہ ہے کرمِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی ناز بردَاری اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ محبوبی کہ حبیب کا سر سجدۂ نیاز میں ہے اور ابھی حَرْفِ شفاعت زبانِ اَقدس پر نہیں آیا کہ رَحمتِ حق نے سبقت کی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دِلدَاری و رِضا جوئی فرمائی ، ’’اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا سر اٹھاؤ اورکہو، تمھاری بات سنی جائے گی اور مانگو،جو کچھ مانگو گے دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمھاری شفاعت مقبول ہے ۔‘‘ پھر اس کے بعد شفاعت کا سلسلہ شروع ہوگا حتی کہ جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہوگا اس کیلئے بھی شفاعت فرماکر اُسے جہنم سے نکال لیں گے۔ پھرتمام انبیاء ِ کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اپنی اپنی اُمّت کی شفاعت فرمائیں گے۔
(ہمارا اسلام، شفاعت کا بیان،حصہ ۵،ص۲۷۲)
سوال:حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کتنی طرح کی ہوگی ؟
جواب: حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت کئی طرح کی ہوگی مثلاً :{۱}شفاعتِ
کبریٰ۔{۲}بہتوں کو بلا حساب جنّت میں داخل فرمائیں گے جن میں سے چار اَرب نوَّے کروڑ کی تعداد معلوم ہے اس سے بہت زائد اور بھی ہیں جو اللہ عَزَّوَجَل و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم میں ہیں ۔{۳}بہت سے وہ ہونگے جو مستحق جہنم ہوچکے ہونگے اُن کو جہنَّم سے بچائیں گے۔{۴}بعضوں کی شفاعت فرما کر جَہنَّم سے نکالیں گے۔ {۵}بعضوں کے دَرَجات بلند فرمائیں گے۔{۶}بعض کا عذاب کم کروائیں گے ۔ {۷}جن کی نیکیاں اور گناہ برابر ہونگے اُنہیں بھی داخلِ جنت فرمائیں گے ۔
(بہار شریعت، عقائد متعلقہ نبوّت،حصہ۱،ج۱، ص۷۰ و ہمارا اسلام، شفاعت کا بیان،حصہ ۵، ص۲۷۳)
سوال:شفاعتِ کبریٰ کیا ہے ؟
جواب:حضورِ اقدس، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وہ شفاعت جو تمام مخلوق مؤمن، کافر، فرمانبردار، نافرمان، موافق، مخالف ، دوست اور دشمن سب کیلئے ہوگی وہ حساب کا انتظار جو انتہائی جاں گُزا ہوگا جس کے لیے لوگ تمنَّائیں کریں گے کہ کاش ہم جَہنَّم میں پھینک دیے جاتے اور اس انتظار سے نجات پاتے ،اس بلا سے کفّار کوبھی چھٹکارا حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدولت ملے گا، جس پر تمام اوّلین وآخرین، موافقین ومخالفین، مؤمنین و کافرین سب حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حمد کریں گے، اسی کا نام ’’ مَقَامِ محمود ‘‘ ہے اور یہ مرتبۂ شفاعتِ کبریٰ صرف حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا خاصہ ہے۔ (ہمارا اسلام،شفاعت کا بیان،حصہ ۵،ص۲۷۴)
سوال:وہ شخص کیسا ہے جو شفاعت کا انکار کرے ؟
جواب: چونکہ بے شمار آیات و احادیث اور اِجماعِ امّت سے شفاعت ثابت ہے، لہٰذا
اس کا انکار وہی کرے گا جو گمراہ ہے یا یہ کہہ دینا کہ کوئی کسی کا وکیل و سفارشی نہیں قرآن و حدیث کی صریح مخالفت ہے بلکہ خدا و رسول عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بہتان باندھنا اور نئی شریعت گھڑنا ہے ۔ (ہمارا اسلام،شفاعت کا بیان،حصہ ۵،ص۲۷۴ملتقطا)
سوال:تقلید کسے کہتے ہیں ؟
جواب: تقلید کے شرعی معنی ہیں کسی کے قول و فعل کو اپنے لئے حُجَّت بناکر دلیل شرعی پر نظر کئے بغیر مان لینا ،یہ سمجھ کر کہ وہ اَہلِ تحقیق سے ہے اور اس کی بات شرعاً متحقق اور قابلِ اعتماد ہے جیسا کہ ہم مسائلِ شرعیہ میں امامِ اعظم ابو حنیفہ حضرتِ سیِّدنانعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول و فعل اپنے لئے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائلِ شرعِیَّہ میں خود نظر نہیں کرتے، خواہ وہ قرآن و حدیث یا اِجماعِ امّت کو دیکھ کر مسئلہ بیان فرمائیں یا اپنے قیاس سے حکم دیں ۔ تقلید کرنا واجب ہے اور تقلید کرنے والے کو مقلِّد کہتے ہیں جیسے ہم حضرت سیِّدنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقَلِّد ہیں ۔
(ہمارا اسلام،تقلید کا بیان،حصہ۴،ص۲۰۳)/
سوال:تقلید کن مسائل میں کی جاتی ہے ؟
جواب: شرعی مسائل تین طرح کے ہوتے ہیں :
{۱}عقائد، جن کا سمجھ لینا اور قلب میں راسخ و محفوظ کر لینا ضروری ہے اور چونکہ یہ اُصولِ دِین ہیں اس لئے ان میں کوئی ترمیم و تنسیخ ، کمی و بیشی بھی نہیں ۔
{۲} وہ اَحکام جو قرآن و حدیث سے صراحۃً ثابت ہیں کسی مجتہد کے اِجتہاد یا قیاس کو ان کے ثبوت میں کوئی دخل نہیں مثلاً پنج وقتہ نماز اور روزۂ ماہِ رَمضان ،حج ،زکوٰۃ وغیرہ فرائض اور ایسے ہی دیگر اَحکام ۔
{۳} وہ اَحکام جو قرآن وحدیث میں اِجتہاد سے حاصل کئے جائیں ۔
ان میں سے پہلی قسم یعنی اُصولِ عقائد میں کسی کی تقلید جائز نہیں ، یونہی دوسری قسم یعنی جو اَحکام قرآن و حدیث سے صراحۃً (وضاحت سے) ثابت ہیں ان میں بھی کسی کی تقلید جائز نہیں یعنی ہم جو اِن مسائل کو مانتے ہیں اور عمل کرتے ہیں تووہ اس لئے نہیں کہ امام اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے بلکہ اس لیے مانتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں ان کا صراحۃً ذکر آیا ہے اور تیسری قسم کے مسائل جو قرآن و حدیث و اِجماعِ امّت سے اجتہاد کرکے نکالے جائیں ان میں غیر مجتہد پر تقلید واجب ہے اور مجتہد کے لئے تقلید منع ۔ (ہمارا اسلام،تقلید کا بیان،حصہ ۴،ص۲۰۳)
سوال:مجتہد کون ہوتا ہے ؟