اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطان لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ(64صفحات) اوّل تا آخر پڑھ لیجئے۔اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ثواب ومعلومات کے ساتھ ساتھ دولتِ عشق کا ڈھیروں ڈھیر خزانہ ہاتھ آئے گا۔
ہر قطرے سے فرشتہ پیدا ہوتا ہے
مدینے کے سلطان، رَحمتِ عالَمِیان، سَرورِ ذیشان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ بَرَکت نشان ہے : اللہ عَزَّوَجَلَّکا ایک فِرِشتہ ہے کہ اُس کا بازو مشرِق میں ہے اور دوسرا مغرِب میں۔ جب کوئی شخص مجھ پر مَحَبَّتکے ساتھ دُرُودبھیجتا ہے وہ فِرِشتہ پانی میں غوطہ کھا کر اپنے پَر جھاڑتا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کے پروں سے ٹپکنے والے ہرہر قطرے سے ایک ایک فِرِشتہ پیدا کرتا ہے وہ فرِشتے قِیامت تک اُس دُرُود پڑھنے والے کے لئے اِستغفار کر تے ہیں ۔(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص ۲۵۱،الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح،ص۲۴۲،۴۲۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 561 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت(4حصے)‘‘ صَفْحَہ60تا61پر ہے: صِدّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہنے کبھی بُت کو سجدہ نہ کیا ۔ چندبر س کی عمر میں آپ (رضی اللہ تعالٰی عنہ )کے باپ بُت خانے میں لے گئے اورکہا :یہ ہیں تمہارے بلند وبالا خدا، انہیں سجدہ کر و۔جب آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ) بُت کے سامنے تشریف لے گئے، فرمایا :’’میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے ، میں ننگاہوں مجھے کپڑادے ، میں پتَّھر مارتا ہوں اگرتُوخدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔‘‘وہ بُت بَھلا کیا جواب دیتا۔ آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے ایک پتَّھر اس کے مارا جس کے لگتے ہی وہ گر پڑا اور قُوّتِ خدا داد کی تاب نہ لاسکا ۔باپ نے یہ حالت دیکھی انہیں غصّہ آیا، اُنہوں نے ایک تَھپّڑرُخسار مبارک پر مارا ، اور وہاں سے آپ(رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی ماں کے پاس لائے ، سارا واقِعہ بیان کیا ۔ ماں نے کہا :اسے اس کے حال پر چھوڑ دو جب یہ پیدا ہوا تھا تو غیب سے آواز آئی تھی کہ
یَا اَمَۃَ اللہِ عَلَی التَّحْقِیْقِ اَبْشِرِیْ بِالْوَلَدِ الْعَتِیْقِ اِسْمُہٗ فِی السَّمَاءِ الصِّدِّیْقُ لِمُحَمَّدٍ صَاحِبٌ وَّ رَفِیْقٌ
اے اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی سچی بندی !تجھے خوشخبری ہویہ بچہ عتیق ہے ، آسمانوں میں اس کا نام صدیق ہے ، محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا صاحب اور رفیق ہے ۔
یہ روایت صدِّیقِ اَکبر (رضی اللہ تعالٰی عنہ)نے خود مجلسِ اقدس (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) میں بیان کی۔ جب یہ بیان کرچکے ، جبریلِ امین ( عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ) حاضرِ بارگاہ ہوئے اور عرض کی:
صَدَقَ اَبُوبَکْرٍ وَّھُوَ الصِّدِّیْقُ ابوبکر نے سچ کہا اور وہ صدِّیق ہیں ۔
یہ حدیث امام احمد قَسطلانی (قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی )نے شرح صحیح بخاری میں ذِکر کی ۔
( ارشاد الساری شرح صحیح بخاری ج۸ص۳۷۰، ملفوظات اعلی حضرت ص۶۰،۶۱ بِتَصَرُّف)
سیِّدُناصِدِّیقِ اَکبر کا مُخْتَصَر تعارُف
خلیفۂ اوّل، جانَشین محبوبِ ربِّ قدیر، امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نامِ نامی اسمِ گِرامی عبداللہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کُنْیَت ابوبکر اور صِدِّیق وعتیق آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اَلقاب ہیں۔سُبحٰنَ اللہ! صِدِّیق کا معنٰی ہے: ’’بَہُت زیادہ سچ بولنے والا۔‘‘ آ پ ر ضی اللہ تعالٰی عنہ زمانۂ جاہِلیت ہی میں اِس لقب سے مُلَقَّب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچ بولتے تھے اور عتیقکا معنٰی ہے: ’’آزاد‘‘۔سرکارِ عالی مَرتَبَتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آ پ ر ضی اللہ تعالٰی عنہ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنیتُو نارِ دوزخ سے آزاد ہے۔‘‘اِس لئے آ پ ر ضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ لَقَب ہوا ۔(تارِیخُ الْخُلَفاء ص۲۹) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ قریشی ہیں اورساتویں پُشت میں شجرۂ نسب رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے خاندانی شَجَرے سے مل جاتا ہے۔ آپ
رضی اللہ تعالٰی عنہ عام ُالفیل ([2])کے تقریباً اڑھائی برس بعدمکَّۃُ المُکَرَّمہزَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں پیدا ہوئے ۔ امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ وہ صَحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے تاجدارِ رِسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، مخزنِ جود و سخاوتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِسالت کی تصدیق کی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اِس قدَر جامِعُ الکَمالات اور مَجْمَعُ الفَضائِل ہیں کہ اَنبیاء ِکِرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے بعد اگلے اور پچھلے تمام انسانوں میں سب سے اَفضل واَعلیٰ ہیں۔ آزاد مردوں میں سب سے پہلے اِسلام قَبو ل کیا اورتمام جِہادوں میں مجاہدانہ کارناموں کے ساتھ شریک ہوئے اور صُلْح وجنگ کے تمام فیصلوں میں محبوبِ ربِّ قدیر، صاحبِ خَیر کثیر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے وزیر ومُشیر بن کر، زندَگی کے ہر موڑ پر آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا ساتھ دے کرجاں نثاری ووفاداری کا حق ادا کیا۔ 2 سال7 ماہ مَسنَدِخِلافت پر رونق اَفروز رہ کر 22جمادَی ا لاُخریٰ 13ھ پیرشریف کادن گزار کر وَفات پائی۔ امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عُمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے نَمازِ جنازہ پڑھائی اور روضۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا میں حضورِاَقدَسصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے پہلوئے مقدَّس میں دَفن ہوئے۔ (الاکمال فی اسماء الرجال ص۳۸۷،تارِیخُ الْخُلَفاء ص۲۷۔۶۲باب المدینہ کراچی)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 92 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ سَوانِحِ کربلا‘‘صَفْحَہ37پر ہے: اگرچِہ صَحابۂ کرام و تابعین وغیر ہم کی کثیر جماعتوں نے اس پر زوردیا ہے کہ’’ صدیقِ اکبر‘‘ سب سے پہلے مومن ہیں۔ مگر بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ سب سے پہلے مومن ’’حضرت علی ‘‘ہیں۔ بعض نے یہ کہا کہ ’’حضرت خدیجہ ‘‘رضی اللہ تعالٰی عنہاسب سے پہلے ایمان سے مُشَرَّف ہوئیں ۔ان اقوال میں حضرت امام عالی مقام ،اما مُ الْاَئِمّہ، سراجُ الْاُمَّہ، حضرت ِامامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اِس طرح تَطبِیق(یعنی مُوافَقَت) دی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر مشرَّف بایمان ہوئے اور عور توں میں حضرتِاُمُّ الْمُؤمِنِین خدیجہ اور نو عمر صاحبزادوں میں حضرت علی۔رضی اللہ تعالٰی عَنہُم اَجمَعِین۔ (تارِیخُ الْخُلَفاء لِلسُّیُوطی ص۲۶)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 92 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ سَوانِحِ کربلا‘‘صَفْحَہ38تا39پر ہے: اہل ِسنَّت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیا عَلَیْہِمُ الصَّلوۃُ وَالسَّلام کے بعد تمام عالَم سے افضل حضرتِ ابوبکر صدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ، ان کے بعدحضرتِ عمر،ان کے بعدحضرتِ عثمان ، ان کے بعد حضرتِ علی،ان کے بعد تمامعَشَرۂ مُبَشَّرہ، ان کے بعد باقی اہلِ بدر، ان کے بعد باقی اہلِ اُحُد، ان کے بعدباقی اہلِ بیعتِ رضوان، پھر تمام صحابہ۔ یہ اِجماع ابو منصور بغدادی(علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْھادی) نے
نَقل کیاہے۔ابنِ عَساکِر (علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْقادِر) نے حضرت ابنِ عمررضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی، فرمایا کہ ہم ابو بکر و عمرو عثمان و علی کو فضیلت دیتے تھے بحالیکہ سرورِعالمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہم میں تشریف فرما ہیں۔ (ابن عَساکِر ج۳۰ص۳۴۶) اما م احمد(علیہ رَحمَۃُ اللہِ الاَحَد) وغیرہ نے حضرت علی مُرتَضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رِوایت کیا کہ آپ(کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ) نے فرمایا کہ اس اُمّت میں نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے بعد سب سے بہتر ابوبکر و عمر ہیں۔رضی اللہ تعالٰی عنہما۔(اَیضاً ص۳۵۱)ذَہبی(علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْقوِی) نے کہا کہ یہ حضرت علیرضی اللہ تعالٰی عنہ سے بَتَواتُر منقول ہے۔ (تارِیخُ الْخُلَفاء لِلسُّیُوطی ص۳۴)
ابنِ عساکِر (علیہ رَحمَۃُ اللہِ الْقادِر)نے عبدُالرَّحمٰن بن ابی لیلیٰ( رَحمَۃُ اللہ تعالٰی علیہ) سے روایت کی کہ حضرت ِعلی مرتَضیٰ کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا تو میں اس کو مُفْتَرِی کی(یعنی الزام لگانے والے کو دی جانے والی) سزادوں گا۔ (تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۳۰ص۳۸۳دارالفکربیروت)
کلامِ حسنؔ
بَرادرِ اعلیٰ حضرت،اُستاذِ زَمن،حضرت مولانا حسن رضاخان عَلَیہِ رَحمَۃُ الْمَنَّان اپنے مجموعۂ کلام ’’ذوقِ نعت‘‘ میں اَفْضَلُ الْبَشَرِ بَعْدَ الانبیاء، محبوبِ حبیبِ خدا،صاحبِ
صِدق وصفا، حضرتِ سیِّدُنا ابوبکرصِدِّیق بن ابو قُحافَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی شانِ صداقت نشان میں یوں رَطْبُ اللِّسانہیں :
بَیاں ہو کس زَباں سے مرتَبہ صِدِّیقِ اَکبَر کا ہے یارِ غار ،محبوبِ خداصِدِّیقِ اَکبَرکا
یااِلٰہی! رَحم فرما ! خادِمِ صِدِّیقِ اَکبَر ہوں تری رَحمت کے صدقے، واسِطہصِدِّیقِ اَکبَرکا
رُسُل اور اَنبیاکے بعد جو اَفضل ہو عالَم سے یہ عالَم میں ہے کس کا مرتَبہ ، صِدِّیقِ اَکبَر کا
گدا صِدِّیقِ اَکبَرکا ،خدا سے فضْل پاتا ہے خدا کے فضْل سے ہوں میں گدا، صِدِّیقِ اَکبَر کا
ضعیفی میں یہ قُوّت ہے ضعیفوں کو قو ِی کر دیں سہارا لیں ضعیف و اَقْوِ یا صِدِّیقِ اَکبَر کا
ہوئے فاروق و عثمان و علی جب داخلِ بیعت بنا فخرِ سلاسِل سِلسِلہ صِدِّیقِ اَکبَر کا
مقامِ خوابِ راحت چین سے آرام کرنے کو بنا پہلوئے محبوب ِخدا صِدِّیقِ اَکبَر کا
علی ہیں اُس کے دُشمن اور وہ دُشمن علی کاہے جو دُشمن عقل کا دُشمن ہوا صِدِّیقِ اَکبَر کا
لٹایا راہِ حق میں گھر کئی بار اِس مَحَبّت سے کہ لُٹ لُٹ کر حسنؔ گھربن گیا صِدِّیقِ اَکبَر کا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
صاحِبِ مَروِیات کثیرہ حضرتِ سیِّدُناابوہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ رحمتِ عالَمِیان، مکّی مَدَنی سُلطان، محبوبِ رَحمن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
حقیقت نشان ہے: ’’مَا نَفَعَنِیْ مَالٌ قَطُّ مَا نَفَعَنِیْ مَالُ اَبِیْ بَکْریعنی مجھے کبھی کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا۔‘‘ بارگاہِ نُبُوّت سے یہ بِشارت سُن کر حضرتِ سیِّدُناابوبکر (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) رو دئیے اور عَرض کی: یا رسولَ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرے اورمیرے مال کے مالِک آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہی تو ہیں۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۱ ص۷۲ حدیث ۹۴ دارالمعرفۃ بیروت)
وُہی آنکھ اُن کا جو منہ تکے، وُہی لب کہ مَحو ہوں نَعت کے
وُہی سَر جو اُن کے لئے جُھکے، وُہی دل جو اُن پہ نِثار ہے (حدائق بخشِش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس روایَتِ مبارَکہ سے معلوم ہواکہ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مبارَک عقیدہ بھی یہی تھا کہ ہم محبوبِ ربُّ الانامعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے غلام ہیں اورغلام کے تمام مال ومَنال کا مالِک اُس کا آقا ہی ہوتاہے، ہم غلاموں کا تو اپناہے ہی کیا؟
کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے
یہ دل بھی تمہار ا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے
اِبتِدائے اِسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا وہ اپنے اِسلام کو حَتَّی الْوَسْع (جہاں تک مکن ہوتا)مَخفی رکھتا کہ حُضُورِ اَکرم، نورِ مُجَسَّم ،غم خوارِاُمَمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی طرف سے بھی یہی حُکم تھاتاکہ کافِروں کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف اور نُقصان سے محفوظ رہیں۔ جب مسلما ن مردوں کی تعداد 38 ہو گئی تو حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہنے بارگاہِ رسولِ انورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّممیں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ابعَلَی الاعلان تبلیغِ اِسلام کی اِجازت عِنایَت فرما دیجئے ۔ دو عالم کے مالِک ومختار،شفیعِ روزِ شمار، اُمّت کے غم خوارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اوّلاً اِنکار فرمایا مگر پھر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے اِصرارپر اِجازت عنایت فرما دی۔ چُنانچِہ سب مسلمانوں کو لے کر مسجدُالحرام شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں تشریف لے گئے اورخطیبِ اوّل حضر تِ سیِّدُنا صِدّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خطبہ کا آغاز کیا، خطبہ شروع ہوتے ہی کُفّار ومُشرکین چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ مکۂ مکرمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عَظَمَت و شَرافت مُسَلَّم تھی، اِس کے باوُجُود کُفّارِ بداَطوار نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر بھی اِس قدرخونی وار کئے کہ چہرۂ مُبارَک لَہولُہان ہوگیا حتّٰی کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بے ہوش ہوگئے۔ جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تووہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو وہاں سے اُٹھا کر لائے۔ لوگوں نے گُمان کیا کہ حضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ زندہ نہ بچ سکیں گے۔ شام کو جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اِفاقہ ہوا اور ہوش میں آئے تو سب سے پہلے یہ اَلفاظ زبانِ صداقت نشان پر جاری ہوئے: محبوبِ ربّ ِذُوالجَلال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا
حال ہے؟ لوگوں کی طرف سے اِس پر بَہُت مَلامت ہوئی کہ اُن کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہی یہ مصیبت آئی، پھر بھی اُنہی کا نام لے رہے ہو۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ ٔ ماجِدہ اُمُّ الْخَیرکھانا لے آئیں مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکی ایک ہی صد ا تھی کہ شاہِ خوش خِصال،پیکر ِحُسن وجمال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا حال ہے؟ والِدۂ محترمہ نے لاعلمی کا اِظہار کیا تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے فرمایا :اُمِّ جمیل رضی اللہ تعالٰی عنہا (حضرتِ سیِّدُنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن) سے دَ ریافت کیجئے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدۂ ماجِدہ اپنے لختِ جگر کی اِس مظلومانہ حالت میں کی گئی بیتا بانہ درخواست پوری کرنے کے لئے حضر تِ سیِّدَتُنا اُمِّ جمیلرضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس گئیں اورسرورِ معصوم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حال معلوم کیا۔ و ہ بھی نامُساعِد حالات کے سبب اُس وقت اپنا اِسلام چھپائے ہوئے تھیں اور چُونکہاُمُّ الْخَیرابھی تک مسلمان نہ ہوئی تھیں لہٰذا انجان بنتے ہوئے فرمانے لگیں : میں کیا جانوں کون محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)اور کون ابوبکر (رضی اللہ تعالٰی عنہ)۔ہاں آپ کے بیٹے کی حالت سُن کر رَنج ہوا، اگر آپ کہیں تو میں چل کر اُن کی حالت دیکھ لوں۔اُمُّ الْخَیر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کواپنے گھرلے آئیں ۔ انہوں نے جب حضر تِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالتِ زار دیکھی تو تَحَمُّل(یعنی برداشت) نہ کر سکیں ، رونا شروع کر دیا ۔ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہنے پوچھا:میرے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی خیر خبر دیجئے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ جمیلرضی اللہ تعالٰی عنہا نے
والِدۂ صاحِبہ کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے توجُّہ دِلائی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اِن سے خوف نہ کیجئے،تب اُنہوں نے عرض کی:نبیِّ رحمتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عنایت سے بخیروعافیت ہیں اوردارِاَرقم یعنی حضرتِ سیِّدُنا اَرقم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر تشریف فرما ہیں۔آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: خد اعَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں اُس وقت تک کوئی چیز کھاؤں گا نہ پیوں گا، جب تک شَہَنْشاہِ نُبُوّت، سراپا خیرو بَرَکَت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارَت کی سعادت حاصِل نہ کر لوں ۔چُنانچِہ والدۂ ماجِدہ رات کے آخِری حصے میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لے کر حضورتاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ بابَرَکت میں دارِ اَرقم حاضِر ہوئیں۔ عاشقِ اَکبر حضرت ِسیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہحضورِ انورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے لپٹ کر رونے لگے ، آقائے غمگُسارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اوروہاں موجود دیگر مسلمانوں پربھی گِریہ (یعنی رونا) طاری ہو گیا کہ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکی حالتِ زار دیکھی نہ جاتی تھی۔ پھرآپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے مصطَفٰے جانِ رَحمت، شمعِ بزمِ ہِدایت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے عرض کی :یہ میری والِدۂ ماجِدہ ہیں ، آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِن کے لئے ہِدایت کی دُعا کیجئے اور اِنہیں دعوتِ اِسلام دیجئے۔ شاہِ خیرُ الانام عَلَیہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالسَّلام نے اُن کو اِسلام کی دعوت دی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ! وہ اُسی وقت مسلمان ہو گئیں۔ (البدایۃ والنہایۃج۲ص۳۶۹۔۳۷۰ دارالفکربیروت)
جسے مل گیا غمِ مصطَفٰے، اُسے زندَگی کا مَزہ ملا
کبھی سَیلِ اَشک رَواں ہوا، کبھی ’’آہ‘‘ دِل میں دَبی رہی (وسائلِ بخشش)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! دینِ اِسلام کی اِشاعت و تَرویج کے لئے کس قدَر مَصائب وآلام برداشت کئے گئے، اسلام کے عظیم مبلغین نے تَن من دَھن سب راہِ خدا میں قربان کر دیا !آج بھی اگر مَدَنی قافلے میں سفر پر جاتے، اِنفرادی کوشِش فرماتے ، سنّتیں سیکھتے سکھاتے یا سُنَّتوں پر عَمَل کرتے کراتے ہوئے اگر مشکلات کا سامنا ہو تو ہمیں عاشقِ اکبر سیِّدُنا صدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات و واقِعات کو پیشِ نظر رکھ کر اپنے لئے تسلِّی کا سامان مُہَیّا کر کے مَدَنی کام مزید تیز کر دینا چاہئے اور دِین کے لئے تَن مَن دَھن نثار کر دینے کا جذبہ اپنے اندر اُجاگر کرنا چاہئے جیسا کہ عاشقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ آخِری دم تک اِخلاص اور اِستِقامت کے ساتھ دینِ اِسلام کی خدمت سَراَنجام دیتے رہے، راہِ خدا میں جان کی بازی لگا دی مگر پائے اِستِقلال میں ذرّہ بَرابَر بھی لغزِش نہ آئی، دینِ اِسلام قبول کرنے کی پاداش میں جوصَحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوان مظلومانہ زندَگی بَسَر کر رہے تھے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے اُن کے لئے رَحمت وشفقت کے دریابہا دیئے۔اور بارگاہِ ربُّ العُلٰی عَزَّوَجَلَّ سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے صاحِبِ تقویٰ کا لقب پایا اور
خدمتِ دِینِ خُدااور اُلفتِ مصطَفٰے میں مال خرچ کرنے پر سلطانِ دوجہاں ، رحمتِ عالمیانصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعریف وتَوصِیف بَیان فرمائی ۔
’’فتاوٰی رضویہ ‘‘ جلد28 صَفْحَہ509پرہے: امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہنے 7(غلاموں کوخرید کراُن) کو آزاد کیا، اِن سب ( غلاموں ) پر اللہُ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں ظُلْم توڑا جاتا تھا اور اِنہیں (صدِّیقِ اکبر)کے لئے یہ آیت اُتری:
وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ(۱۷) (پ۳۰، اللیل: ۱۷)
ترجَمۂ کنز الایمان:اور بَہُت اُس (دوزخ) سے دُور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار۔
صَفْحَہ 512 پر امام فخرالدین رازیعَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الباقی کے حوالے سے ہے: ہم سُنّیوں کے مُفسِّرِین کا اِس پر اِجماع ہے کہ’’اَتْقٰی‘‘ سے مراد حضرتِ( سیِّدُنا ) ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ)
قَصْرِ پاکِ خِلافت کے رُکنِ رکیں شاہِ قوسَین کے نائبِ اوّلیں
یارِ غار شَہَنشاہِ دُنیا و دیں اَصدَقُ الصَّادِقِیْں سَیِّدُ المُتَّقِیں
چشم وگوشِ وَزارت پہ لاکھوں سلام
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
مُشیرِ رسولِ انور،عاشقِ شَہنشاہِ بحرو بر حضر تِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھے تین چیزیں پسند ہیں :اَلنَّظْرُ اِلَیْکَ وَاِنْفَاقُ مَالِیْ عَلَیْکَ وَالْجُلُوْسُ بَیْنَ یَدَیْکَ یعنی (۱)آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ پُراَنوار کا دیدارکرتے رہنا(۲) آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمپر اپنامال خرچ کرنا اور(۳) آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی بارگاہ میں حاضِر رہنا۔(تفسیر روح البیان ج۶ص۲۶۴)
مرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمتِ عالَم میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لئے
تمہاری یاد کو کیسے نہ زندَگی سمجھوں یہی تو ایک سہارا ہے زندَگی کے لئے
اللہ داوَرعَزَّوَجَلَّنے حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہ تینوں خواہشیں حُبِّ رسولِ انورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے پوری فرما دیں {۱} آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سَفَر وحَضَر میں رَفاقت ِ حبیبصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نصیب رہی،یہاں تک کہ غارِ ثور کی تنہائی میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے سوا کوئی اور زِیارت سے مُشَرَّف ہونے والا نہ تھا {۲} اِسی طرح مالی قربانی کی سعادت اِس کثرت سے نصیب ہوئی کہ اپنا سارا مال وسامان سرکارِ دو جہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدموں پرقربان کر دیا اور{۳} مزارِ پُر اَنوار میں بھی اپنی دائمی رَفاقت وقُربت عنایت فرمائی۔
محمد ہے متاعِ عالَمِ اِیجاد سے پیارا
پِدر مادرسے مال و جان سے اَولاد سے پیارا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشِقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عشق ومحبت بھرے واقِعات ہمارے لئے مَشعلِ راہ ہیں۔ راہِ عشق میں عاشِق اپنی ذات کی پرواہ نہیں کرتابلکہ اُس کی دِلی تمنّایہی ہوتی ہے کہ رضائے محبوب کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹادے۔کاش!ہمارے اندر بھی ایسا جذبۂ صادِقہ پیدا ہوجائے کہ خدا و مصطَفٰے کی رضا کی خاطِراپنا سب کچھ قربان کر دیں۔ ؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
افسوس! صد کروڑ افسوس! اب مسلمانوں کی اکثریت کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ عشق و مَحَبَّتکے کھوکھلے دعوے اور جان ومال لُٹانے کے محض نعرے لگاتے ہیں ظاہری حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے گویا اِن کے نزدیک دُنیا کی قَدر (عزّت) اِس قَدَر بڑھ گئی ہے کہ معاذَاللہ اسلامی اَقدار کی کوئی پرواہ نہیں رہی، نبیِّ رَحمت، غمگُسارِ اُمَّتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی آنکھوں کی ٹھنڈ ک (یعنی نماز) کی پابندی کا کچھ لحاظ نہیں ،غیروں کی
نقّالی میں اِس قَدَرمَحوِیَّت کہ اِتِّباعِ سنّت کا بالکل خیال نہیں۔ اللہُ داوَر عَزَّوَجَلَّہمیں عاشقِ اکبر حضرتِ سیِّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکے صَدقے ولولۂ عشق ومَحَبَّت اور جذبۂ اِتِّباعِ سنّت عنایت فرمائے۔ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
تو انگریزی فیشن سے ہر دم بچا کر مجھے سنّتوں پر چلا یاالٰہی!
غمِ مصطفی دے غمِ مصطفی دے ہو دردِمدینہ عطا یاالہٰی!(وسائلِ بخشش )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
غزوۂ تَبُوک کے موقَع پرنبیِّ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْم نے اپنی اُمّت کے اَغنیا(یعنی مالداروں ) اور اَربابِ ثَروَت (یعنی دولتمندوں )کو حکم دیا کہ وہ اللہُ ربُّ العِباد عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں جہاد کے لئے مالی اِمداد میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں تاکہ مجاہدینِ اِسلام کے لئے خُورد ونوش (یعنی کھانے پینے) اور سواریوں کااِنتِظام کیا جا سکے۔ محبوبِ رَحمن، شاہِ کون ومکانصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے اِس فرمانِ رغبت نشان کی تعمیل کرتے ہوئے جس ہستی نے راہِ خداعَزَّوَجَلَّکے لئے اپنی ساری دولت بارگاہِ رِسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّممیں پیش کی وہ صَحابی اِبنِ صَحابی،عاشقِ اکبر حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہتھے،آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گھر کا سارا مال وَمتاع آقاصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے قدَ موں میں ڈھیر کر دیا۔ نبیِّ مختار، دوعالَم کے تاجدار، شَہَنشاہِ
اَبرارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے یارِغار کے اِ س اِیثار کو دیکھ کر استِفسارفرمایا: کیا اپنے گھر بار کے لئے بھی کچھ چھوڑا؟ بَصَد اَدَب واحترام عَرض گزار ہوئے: ’’ ان کے لیے میں اللہ اور اُس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (مطلب یہ ہے کہ میرے اور میرے اہل وعیال کے لیے اللہ و رسول کافی ہیں )(سبل الھدٰی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد،ج۵ص۴۳۵)
شاعر نے اِس جذبۂ جاں نثاری کو یوں نَظَم کیا ہے:
اِ تنے میں وہ رفیقِ نُبُوَّت بھی آگیا جس سے بِنائے عشق ومحبت ہے اُستُوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مردِ وَفا سَرِشت ہر چیز جس سے چشْمِ جہاں میں ہو اِعتبار
بولے حُضور، چاہیے فکرِ عِیال بھی کہنے لگا وہ عشق و مَحَبَّت کا راز دار
اے تجھ سے دِیدۂ مَہ واَنجُم فَروغ گِیر اے تیری ذات باعثِ تکوینِ رُوزگار
پروانے کو چَراغ تو بُلبل کو پھول بس
صِدّیق کے لیے ہے خدا کا رَسول بس
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
اعلیٰ حضرت،عظیم ُالبَرَکت، مجدِّدِ دین وملّت، امامِ عشق ومَحَبّت الحاج القاری الحافظ شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیہِ رَحمَۃُ الرَّحمٰن نقْل فرماتے ہیں : ’’حضرتِ سیِّدُنا امام فخر الدّین رازی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الھَادِینے’’مَفَاتِیْحُ الغَیْب(تفسیرِکبیر)‘‘ میں فرمایا کہسُوْرَۂ وَالَّیل (حضرتِ سیِّدُنا) ابوبکر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کی سورۃ ہے اور سُوْرَۂ وَالضُّحٰی (حضرتِ سیِّدُنا) محمّدصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی سورۃہے۔
وصفِ رُخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشّمس وضُحٰی کرتے ہیں
اُن کی ہم مَدح و ثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں (حدائق بخشِش شریف)
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن حضرتِ سیِّدُناامام فخر الدّین رازی عَلَیہِ رَحمَۃُ اللہِ الْھَادِیکے اِس قولِ مبارَک کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سور ۃکو ’’وَالَّیل‘‘کا نام دینااور مصطَفٰے جانِ رَحمتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی سورۃ کا نام ’’وَالضُّحٰی‘‘ رکھنا گویا اِس بات کی طرف اِشارہ ہے کہ نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صِدِّیق کا نور اور اُن کی ہدایت اور اللہُ عَزَّوَجَلَّ کی طرف اُن کا وسیلہ جن کے ذَرِیعے اللہُ عَزَّوَجَلَّ کا فضل اور اُس کی رضا طلَب کی جاتی ہے اور صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ، نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی راحت اور اُن کے اُنس وسُکون اور اِطمینانِ نفس کی وجہ ہیں اور اُن کے مَحرَمِ راز اور اُن کے خاص مُعامَلات سے وابَستہ رہنے والے، اِس لئے کہ اللہُ تبارَکَ وَتعالیٰ فرماتا ہے: وَّ جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًاۙ(۱۰)’’اور رات کو پردہ پوش کیا ۔ ‘‘ (پ 30 ، النبا : 10)اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۷۳)’’تمہارے لیے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اُس کا فضل ڈھونڈو اور اس لیے
کہ تم حق مانو۔ ‘‘(پ 20 ، القصص :73)اور یہ اِس بات کی طرف تَلْمِیْح(یعنی اِشارہ) ہے کہ دین کا نظام اِن دونوں (محبوبِ ربِّ اکبر و صِدِّیقِ اکبرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم و رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے قائم ہے جیسے کہ دنیاکا نظام دن رات سے قائم ہے تو اگر دن نہ ہو توکچھ نظر نہ آئے اور رات نہ ہو تو سکون حاصل نہ ہو۔ (ماخوذ ازفتاوٰی رَضَوِیہ ج۲۸، ص۶۷۹۔۶۸۱)
خاص اُس سابِقِ سیرِ قربِ خدا اَوحَدِ کامِلِیَّت پہ لاکھوں سلام
سایۂ مصطَفٰے ، مایۂ اِصطَفا عِزّ و نازِ خِلافت پہ لاکھوں سلام
اَصدَقُ الصَّادِقِیں ، سیِّدُ المُتَّقِیں چَشم وگوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
طَبَرانی نے اَوسط میں حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماکے حوالے سے بیان کیا ہے کہ تازِیْسْتْ (یعنی زندگی بھر)حضرتِ سیِّدُنا صِدّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہمنبرِ مُنوَّر پر اس جگہ نہیں بیٹھے جہاں حُضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما ہوتے تھے، اِسی طرح حضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ، حضرتِ سیِّدُنا صِدّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جگہ اور حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہحضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ، کی جگہ پر جب تک زندہ رہے کبھی نہیں بیٹھے۔(تارِیخُ الْخُلَفاء ص۷۲)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! جس طرح مُحِبِّ مہرِ مُنَوَّر،رَفیقِ رَسولِ اَنور،عاشقِ اکبر حضر تِ
سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو محبوبِ ربِّ اکبر،دوعالَم کے تاجْوَرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بے پناہ عشق ومَحَبَّت تھی، اِسی طرح رسولِ رحمت،سراپا جُودو سخاوَتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمبھی صِدِّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَحَبّت وشفقت فرماتے۔اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰننے ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘ کی جلد نمبر 8 صَفْحَہ610 پر وہ اَحادیث مبارَکہ جمع فرمائیں جن میں رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اپنے پیارے صِدِّیق اَکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی شانِ رفعت نِشان بیان فرمائی ہے چُنانچِہ تین روایات مُلاحظہ فرمایئے:{1} حِبْرُ الْاُ مَّہ( یعنی اُمَّت کے بہُت بڑے عالم) حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے رِوایَت ہے، رسو لُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اورحُضُورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صَحابہ(عَلَیْہِمُ الرِّضْوان ) ایک تالاب میں تشریف لے گئے،حُضُور(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا:ہر شخص اپنے یار کی طرف پَیرے (یعنی تیرے)۔ سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّماور ( حضرتِ سیِّدُنا )ابو بکر صِدِّیق(رضی اللہ تعالٰی عنہ ) باقی رہے، رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صِدِّیق ( رضی اللہ تعالٰی عنہ )کی طرف پَیر (یعنی تَیر) کے تشریف لے گئے اور انہیں گلے لگا کر فرمایا: ’’میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہکوبناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۱۱ص۲۰۸){2}حضرتِ (سیِّدُنا) جابربن عبد اللہرضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت ہے کہ ہم خدمتِ اقدس حُضُورِ پُر
نورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّممیں حاضِر تھے ، اِرشاد فرمایا: اِس وَقت تم پر وہ شخص چمکے (یعنی ظاہِرہو)گا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے میرے بعد اُس سے بہتر وبُزُرگ تر کسی کو نہ بنایا اور اُس کی شَفاعت،شَفاعتِ انبیاءِ کرام(عَلَیْہِمُ السَّلام) کے مانند ہوگی۔ ہم حاضِر ہی تھے کہ (حضرتِ سیِّدُنا) ابو بکر صِدِّیقرضی اللہ تعالٰی عنہ نظر آئے، سیِّدِ عالمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قِیام فرمایا(یعنی کھڑے ہوگئے) اور( حضرتِ سیِّدُنا ) صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پیار کیا اور گلے لگایا۔(تاریخِ بغدادج ۳ ص۳۴۰){3} حضرتِ (سیِّدُنا) عبد اللہ بنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے رِوایَت ہے، میں نے حُضُور اَقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو امیرُ المؤمنین (حضرتِ سیِّدُنا)علی (المرتضیٰ )کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے ساتھ کھڑے دیکھا، اتنے میں ابوبکر صِدِّیقرضی اللہ تعالٰی عنہ حاضِر ہوئے۔ حُضُور پُر نورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اُن سے مُصافَحہ فرمایا (یعنی ہاتھ ملائے)اورگلے لگایااو راُن کے دَہَن (یعنی منہ)پر بوسہ دیا ۔ مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی:کیا حُضور( صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) ابوبکر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا مُنہ چومتے ہیں ؟ فرمایا: ’’اے ابوالحسن([3]) (رضی اللہ تعالٰی عنہ)! ابوبکر(رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتَبہ میرے ربّ (عَزَّوَجَلَّ) کے حُضُور۔‘‘(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ ص ۶۱۰۔۶۱۲)
کہیں گرتوں کو سنبھالیں ،کہیں روٹھوں کو منائیں کھودیں اِلحاد کی جڑ بعدِ پیمبر صِدِّیق
تو ہے آزاد سقر سے ترے بندے آزاد ہے یہ سالکؔ بھی ترا بندۂ بے زر صِدِّیق
(دیوانِ سالک از مفتی اَحمد یار خانعلیہ رحمۃ الحنّان)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن ’’فتاوٰی رَضَوِیہ شریف‘‘ میں فرماتے ہیں :ــــ’’اولیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام فرماتے ہیں کہ پوری کائنات میں مصطَفٰیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جیسا نہ کوئی پیر ہے اور نہ ابوبکر صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسا کوئی مرید ہے۔‘‘ (فتاوٰی رَضَوِیہ مخرَّجہ ج۱۱ص۳۲۶)
عقل ہے تیری سِپَر، عشق ہے شَمشیر تری میرے دَرویش!خِلافت ہے جہانگیر تری
مَا سِوَا اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تری تُو مسلماں ہو توتقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 92 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ سَوانِحِ کربلا‘‘صَفْحَہ41پر ہے:بخاری ومسلم نے حضرتِ (سیِّدُنا)ابو موسیٰ اَشْعَری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی ،حُضُورِ اقدسعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مریض
ہوئے اور مرض نے غَلَبہ کیا تو فرمایا کہ ابوبکر کو حکم کروکہ نماز پڑھائیں۔ سَیِّدَتُنَا عائِشہ صِدِّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے عرض کی: یارسولَ اللہ! صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ نرم دل آدمی ہیں آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نَماز نہ پـڑھاسکیں گے۔ فرمایا:حکم دو ابوبکر کو کہ نماز پڑھائیں۔حضرت سَیِّدَتُنَا عائِشہ صِدِّیقہرضی اللہ تعالٰی عنہا نے پھر وہی عُذر پیش کیا۔ حُضُور (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے پھر یہی حکم بَتاکید فرمایا اور حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیاتِ مبارَک میں نماز پڑھائی۔ یہ حدیثِ مُتَوَاتِر ہے (جو کہ)حضرتِ عائشہ و ابنِ مسعود و ابنِ عبّاس وابنِ عُمر و عبداللہ بن زَمْعَہ وابو سعید وعلی بن ابی طالب و حفصہ( رضی اللہ تعالٰی عنہم ) وغیرہم سے مروی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اِس حدیث میں اس پربَہُت واضح دلالت ہے کہ حضرتِ صدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ مطلقاً تمام صَحابہ سے افضل اور خِلافت و اِمامت کے لئے سب سے اَحق واَولیٰ(یعنی زیادہ حقدار اور بہتر) ہیں۔ (تارِیخُ الْخُلَفاء ص ۴۷،۴۸)
عِلْم میں ،زُہْد میں بے شبہ تُو سب سے بڑھ کر کہ امامت سے تِری کھل گئے جَوہَر صِدِّیق
اِس اِمامَت سے کُھلا تم ہو اِمامِ اکبر تھی یہی رَمزِ نبی کہتے ہیں حیدر صِدِّیق
(دیوانِ سالک)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عاشقِ صادق کی یہ پہچان ہے کہ وہ ہرآن، یادِ محبوب کو
حِرزِ جاں بنائے رکھتا ہے۔عشقِ رسُول کی لذّت سے ناآشنا لوگوں کوجب عاشقوں کے اَندازسمجھ میں نہیں آتے تو وہ اُن کا مذاق اُڑاتے،پَھبتیاں کستے اورباتیں بناتے ہیں۔ایک شاعِرنے ایسے نا سمجھوں کو سمجھاتے ہوئے اور حقیقی عُشّاق کے دیوانگی سے بھر پور جذبات کی ترجُمانی کرتے ہوئے کہا:
نہ کسی کے رَقص پہ طنز کر نہ کسی کے غم کا مذاق اڑا
جسے چاہے جیسے نواز دے، یہ مزاجِ عشقِ رسول ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
خدا کی قسم اگر ہمیں عاشقِ اکبرحضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عشقِ رسول کے ایک ذرّے کا کروڑواں حصّہ بھی عطا ہو جائے توہمارا بیڑا پار ہو جائے۔
دولتِ عشق سے آقا مِری جھولی بھر دو بس یہی ہو مِرا سامان مدینے والے
آپ کے عشق میں اے کاش! کہ روتے روتے یہ نکل جائے مری جان مدینے والے
مجھ کو دیوانہ مدینے کا بنا لو آقا بس یہی ہے مِرا اَرمان مدینے والے
کاش! عطّارؔ ہو آزاد غمِ دُنیا سے بس تمہارا ہی رہے دِھیان مدینے والے
(وسائلِ بخشش)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
ہجرت ِ مدینۂ منوَّرہ کے موقع پر سرکارِ نامدار،مکّے مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے رازدار وجاں نِثار، یارِ غار و یارِ مزار حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جاں نِثاری کی جو اعلیٰ مثال قائم فرمائی وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے، تھوڑے بَہُت الفاظ کے فرق کے ساتھ مختلف کتابوں میں اِس مضمون کی روایات ملتی ہیں کہ جب اللہ کے حبیب، حبیب ِ لبیب، بے چین دلوں کے طبیبصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمغارِ ثَور کے قریب پہنچے تو پہلے حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ غار میں داخِل ہوئے، صفائی کی، تمام سوراخوں کو بند کیا، آخِری دو سوراخ بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی، تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے پاؤں مبارَک سے ان دونوں کوبند کیا ، پھر رسولِ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْم سے تشریف آوَری کی درخواست کی: رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اندر تشریف لے گئے اوراپنے وفادار، یارِغار و یارِ مزارصِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکے زانو پر سرِ انور رکھ کر مَحوِ اِستِراحت ہوگئے(یعنی سو گئے)۔ اُس غارمیں ایک سانپ تھا اُس نے پاؤں میں ڈس لیا مگر قربان جائیے اُس پیکرِ عشق ومَحَبَّت پر کہ دَرد کی شدَّت و کُلفت (یعنی تکلیف) کے باوُجود محض اِس خیال سے کہمصطَفٰے جانِ رَحمتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آرام و راحت میں خلَل واقِع نہ ہو، بدستور ساکِن وصامِت (یعنی بے حرکت وخاموش) رہے، مگرشدتِ تکلیف کی وجہ سے غیر اختیاری طور پرچشمانِ مُبارَک (یعنی آنکھوں ) سے آنسو بہ نکلے اور جب اَشکِ عِشق کے چند قطرے محبوب ِکریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْم کے وَجہ ِکریم (یعنی کرم والے چِہرے ) پر نچھاور ہوئے توشاہِ عالی وقار ،ہم
بے کسوں کے غم گُسارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہو گئے، اِستِفسارفرمایا: اے ابوبکر(رضی اللہ تعالٰی عنہ)! کیوں روتے ہو؟ حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہنے سانپ کے ڈَسنے کاواقِعہ عرض کیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ڈسے ہوئے حصّے پر اپنا لُعابِ دَہَن (یعنی تھوک شریف )لگایا تو فوراً آرام مل گیا۔ ( مِشْکاۃُ الْمَصابِیح ج۴ ص۴۱۷ حدیث ۶۰۳۴وغیرہ)
نہ کیوں کر کہوں یَا حَبِیْبِیْ اَغِثْنِیْ !
اِسی نام سے ہر مصیبت ٹلی ہے
منزلِ صدق و عشق کے رَہبر حضرتِ سیِّدُنا صدّیقِ اَکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی عَظَمت اور غارِ ثور والی حکایت کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا : ؎
یار کے نام پہ مرنے والا سب کچھ صَدَقہ کرنے والا
ایڑی تو رکھدی سانپ کے بِل پر زہر کا صدمہ سَہ لیا دل پر
منزلِ صدق وعشق کا رَہبر یہ سب کچھ ہے خاطرِ دلبَر
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ جب رسولِ ذِی وقار،شَہَنشاہِ اَبرار، صاحبِ پسینۂ خوشبودارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہمراہ غارِثور میں تشریف لے گئے تو کفّارِ ناہَنجار تقریباً غار کے قریب پہنچ چکے تھے،اِن دونوں مُقدَّس ہستیوں کی غار میں موجُودَگی کو
اللہُ رَبُّ الْعُلٰیعَزَّوَجَلَّنے پارہ10سُوْرَۃُ التَّوْبَۃآیت نمبر40 میں یوں بَیان فرمایا: ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ ترجَمۂ کنزالایمان:صرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے۔
اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ اِسی واقِعے کی طرف اِشار ہ کرتے ہوئے صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شانِ عَظَمت نشان یوں بیان فرماتے ہیں : ؎
یعنی اُس اَفضلُ الْخَلْقِ بَعْدَ الرُّسُل
ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہِجرت پہ لاکھوں سلام(حدائقِ بخشش شریف)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان دونوں مُقدّس ہستیوں کی حِفاظت کے ظاہِری اَسباب بھی پیدا فرما دیئے وہ اِس طرح کہ جونہی جنابِ رسالت مآبصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مَعِیَّت(یعنی ہمراہی) میں غارِ ثور میں داخِل ہوئے تو خدائی پہرہ لگا دیا گیا کہ غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تَن دیا اور کَنارے پر کبوتری نے انڈے دے دئیے۔دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 680 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب‘‘کے صَفْحَہ132پر ہے : یہ سب کچھ کفّارِ مکہ کو غار کی تلاشی سے باز رکھنے کے لئے کیا گیا، اُن دو کبوتروں کو ربِّ ذُوالْجَلال عَزَّوَجَلَّ نے ایسی بے مثال جزا دی کہ آج تک حَرَمِ مکّہ میں جتنے کبوتر ہیں وہ اُنہی دو کی اَولاد ہیں ، جیسے اُنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے نبیِّ رَحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
حِفاظت کی تھی ویسے ہی ربعَزَّوَجَلَّنے بھی حَرَم میں اُنکے شِکار پر پابندی عائِدفرمادی۔(مُکاشَفۃُ الْقُلوب ج۱ ص۵۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت )
فانوس بن کے جس کی حِفاظت ہَوا کرے
وہ شمع کیا بُجھے جسے روشن خدا کرے
جب کُفّارِقریش نے وہاں کبوتروں کا گھونسلا اور اُس میں انڈے دیکھے تو کہنے لگے: اگر اس غارمیں کوئی انسان موجود ہوتا تو نہ مکڑی جالا تنتی نہ کبوتری انڈے دیتی ۔ کُفّار کی آہٹ پا کر عاشقِ اکبر حضرت صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کچھ گھبرا گئے اور عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم! اب دُشمن ہمارے اس قدَر قریب آگئے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں دیکھ لیں گے۔حُضُورِ اکرم ،نُورِ مُجَسَّمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ- (پ۱۰، التوبۃ:۴۰) ترجَمۂ کنز الایمان : ’’غم نہ کھا،بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
اعلیٰ حضرت، امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمۃُالرَّحمٰنمکّے مدینے کے سلطان، سرورِ ذیشان ، سرکارِ دوجہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے اِس مُعجزۂ عالی شان اور خواریٔ دُشمنان کوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ؎
جان ہیں ، جان کیا نظر آئے
کیوں عَدو گردِ غار پھرتے ہیں (حدائقِ بخشش شریف)
پھرعاشقِ اکبر حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر سکینہ اُتر پڑا کہ وہ بالکل ہی
مطمئن اور بے خوف ہو گئے اور چوتھے دن یکم ربیعُ النُّور بروز دوشَنبہ (یعنی پیرشریف) حضور ِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم غار سے باہَر تشریف لائے اورمدینۂ منوَّرہ زادَھَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً روانہ ہو گئے۔( ماخوذ ازعجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص۳۰۳۔۳۰۴ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اَلحمدُلِلّٰہ! محبوبِ ربِّ اَکبرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اورصِدِّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کامیاب و بامُرادہوئے اور تلاش کرنے والے کُفّارِ بَداَطوار ناکام ونامُراد ہوئے۔ مکڑی نے جُستجُو کا دروازہ بند کر کے غار کا دَہانہ (منہ) ایسا بنادیا کہ وہاں تک سُراغ رسانوں (یعنی جاسوسوں ) کی سوچ بھی نہ پہنچ سکی اوروہ مایوس ہو کر واپس پلٹے اور مکڑی کو لازَوال سعادَت مُیَسَّرآئی جس کو ’’ مُکاشَفَۃُ القُلُوب‘‘ میں حضرتِ سیِّدُنا ابنِ نَقِیب عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِالحسیب نے کچھ یوں بیان کیا:ریشم کے کیڑوں نے ایسا ریشم بُنا جو حُسن میں یکتا(یعنی بے مثال) ہے مگر وہ مکڑی اِن سے لاکھ درَجے بہتر ہے اِس لئے کہ اُس نے غارِ ثور میں سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے غار کے دَہانے (یعنی منہ) پر جالا بُنا تھا۔(مُکاشَفۃُ الْقُلوب ج۱ ص۵۷)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
بعض سیرت نِگاروں نے لکھا ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب دشمن کے دیکھ لینے کا خدشہ ظاہِر کیا تو آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: اگر یہ لوگ اِدھر سے داخِل ہوئے تو ہم اُدھر سے نکل جائیں گے۔ عاشقِ اکبر سیِّدُناصِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جُوں ہی اُدھر نگاہ کی تو دوسری طرف ایک دروازہ نظر آیا جس کے ساتھ ایک سمُندر ٹھاٹھیں مار رہاتھا اور غار کے دروازے پر ایک کَشتی بندھی ہوئی تھی۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ج۱ ص۵۸)
تم ہوحَفیظ و مُغِیث کیا ہے وہ دُشمن خبیث تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں دُرُود
آس ہے کوئی نہ پاس ایک تمہاری ہے آس بس ہے یہی آسرا تم پہ کروڑوں دُرُود
(حدائق بخشش شریف)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے سرورذِیشان،رحمتِ عالَمِیان، شاہ ِ کون و مکان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا معجزۂ راحت نِشان مُلاحَظہ فرمایاکہ غارِ ثور کی دوسری طرف آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی نِگاہ پُراَنوار کی بَرَکت سے یارِ غار و یارِ مزاررضی اللہ تعالٰی عنہ کو کَشتی و سمندر نظر آئے اوریوں فیضانِ رِسالت سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہچین وراحت محسوس فرمانے لگے ۔اِس واقعے سے مزید یہ بھی پتا چلا کہ محبوبِ ربُّ العِباد ، راحتِ ہرقلْبِ ناشادصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے حاجت و مصیبت کے وقت طلبِ اِمداد صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوان کا طریقہ ہے:
وَاللہ! وہ سُن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے
اِتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن سیرینعلیہ رَحمَۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں :جب حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ غار کی طرف جارہے تھے تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کبھی سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے آگے چلتے اور کبھی پیچھے۔ حُضُورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدَم،رسولِ مُحتَشَمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ عرض کی: جب مجھے تلاش کرنے والوں کا خیال آتا ہے تو میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے پیچھے ہو جاتا ہوں اور جب گھات میں بیٹھے ہوئے دُشمنوں کا خیال آتا ہے تو آگے آگے چلنے لگتا ہوں ، مَبادا (یعنی ایسانہ ہوکہ) آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کوئی تکلیف پہنچے۔ پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطَفٰیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اِرشاد فرمایا: کیا تم خطرے کی صورت میں میرے آگے مَرنا پسند کرتے ہو؟ عرض کی: ’’ربِّ ذُوالجَلال کی قسم! میری یہی آرزو ہے۔‘‘ ( دَلَائِلُ النُّبُوَّۃِ لِلْبَیْہَقِی ج۲ ص ۴۷۶ مُلَخَّصاًدارالکتب العلمیۃ بیروت)
یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مِرا
میں خاک پر نگاہ درِ یار کی طرف (ذوقِ نعت)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان صِدِّیقِ اَکبر کی مبارک شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ؎
بہتری جس پہ کرے فخر وہ بہتر صِدِّیق سَروَری جس پہ کرے ناز وہ سَروَرصِدِّیق
زِیست میں موت میں اور قبر میں ثانی ہی رہے ثَانِیَ اثْنَیْنکے اِس طرح ہیں مظہَر صِدِّیق
اُن کے مَدّاح نبی اُن کا ثنا گو اللہ حق اَبُو الفَضْل کہے اور پَیَمبر صِدِّیق
بال بچّوں کے لئے گھرمیں خدا کو چھوڑیں مصطَفٰے پر کریں گھر بار نچھاور صِدِّیق
ایک گھر بار تو کیا غار میں جاں بھی دے د یں سانپ ڈستا رہے لیکن نہ ہوں مُضطَر صِدِّیق
(دیوانِ سالک)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ المنان فرماتے ہیں :حُضُور اَنورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی وَفات زَہر کے عَود کرنے (یعنی لَوٹ آنے) سے ہوئی۔ ([4])اِسی طرح حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدّیقرضی اللہ تعالٰی عنہکی وفات اُس وقت سانپ کا زہر لوٹ آنے سے ہوئی، جس نے ہجرت کی رات غار میں آپ کو ڈَسا تھا۔ حضرت صِدّیق کو فَنَا فِی الرَّسُوْل کا وہ درَجہ حاصِل ہے کہ آپ کی وَفات بھی حضور اَنور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّمکی وَفات کا نُمونہ ہے، پیر کے دن میں حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وَفات اور پیر کا دن گزار کر شب میں حضرت صِدّیقرضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات۔ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وَفات کے دن شب کو چَراغ میں تیل نہ تھا، حضرت ِصِدّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وَفات کے وقت گھر میں کفن کے لیے پیسے نہ تھے۔ یہ ہے فنا۔ (مراٰۃ المناجیح ج۸،ص۲۹۵ ضیاء القراٰن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)
اِمامِ عشق ومحبت، یارِ ماہِ رِسالت حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی سَفَرِ ہجرت کی بے مثال اُلفت وعقیدت کو سراہَتے ہوئے اعلیٰ حضرت ،عظیم ُ البَرَکَترحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : ؎
صِدِّیق بلکہ غار میں جاں اُس پہ دے چکے اور حفظِ جاں تو جان فُروضِ غُرَر کی ہے
ہاں ! تونے اِن کو جان، اُنہیں پھیر دی نماز پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بَشَر کی ہے
ثابِت ہوا کہ جُملہ فرائض فُروع ہیں اَصلُ الْاُصُوْل بندَگی اُس تاجوَر کی ہے (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ حضرات نے رسولِ انور، محبوبِ ربِّ اکبرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّماورمحبوبِ حبیب ِ داور،عاشقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے آخِرت کے سَفَرمیں مُوافَقت مُلاحَظہ فرمائی کہ شاہِ ِجُودونَوال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے گھر بوقتِ وِصال چراغ میں تیل نہ تھا آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جانِثارصدِّیق خوش
خِصال رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حال یہ تھا کہ بے وفا دُنیا کی فانی دولت کے پیچھے بھاگنے کے بجائے سرمایۂ عشق ومَحَبَّت کو سمیٹا،اپنے آپ کو تکلیفوں میں رکھنا گواراکیااوراسی حالت کو راحتِ ہردوسرا (یعنی دونوں جہاں کا سکون) جانا۔
جان ہے عشقِ مصطفی روز فُزُوں کرے ([5]) خدا
جس کو ہو دَرد کا مزہ نازِ دوا اٹھائے کیوں (حدائقِ بخشش)
پتا چلابارگاہِ ربُّ العزّت میں صاحب ِ قَدَر ومَنزِلَت وہ نہیں جس کے پاس مال و دولت کی کثرت ہے بلکہ صاحبِ شرافت وفضیلت اور زیادہ ذی عزَّت وہ ہے جو زیادہ تقویٰ و پرہیزگاری کی دولت سے مالا مال ہے جیساکہ اللہ مُجِیْبُ الدَّعْوَات عَزَّوَجَلَّ کا پارہ 26 سُوْرَۃُ الْحُجُرٰتکی آیَت13میں فرمانِ عزّت نِشان ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-
ترجمۂ کنزالایمان:بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزَّت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
بارگاہِ الہٰی کے مُقَرَّب اور پیارے دربارِ رِسالت کے چمکتے دمکتے ستارے ، سلطانِ دوجہاں صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھو ں کے تارے ، دکھیاروں کے ٹوٹے
دلوں کے سہارے حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سرورِ کائنات ،شَہَنشاہِ موجوادتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہِری وفات کے موقع پرغمِ مصطَفیٰ میں بیقرار ہو کریہ اَشعارکہے:
لَمَّا رَاَیْتُ نَبِیَّنَا مُتَجَدَّلاً ضَاقَتْ عَلَیَّ بِعَرْضِھِنَّ الدُّوْر
فَارْتَاعَ قَلْبِیْ عِنْدَ ذَاکَ لِہُلْکِہٖ وَالْعَظْمُ مِنِّیْ مَا حَیِیْتُ کَسِیْر
یَا لَیْتَنِیْ مِنْ قَبْلِ مَھْلَکِ صَاحِبِیْ غَیَّبْتُ فِیْ جَدْثٍ عَلَی صُخُوْر
ترجمہ{1} جب میں نے اپنے نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وَفات یافْتہ دیکھا تو مکانات اپنی وُسعَت کے باوُجود مجھ پر تنگ ہوگئے{2} اِس وقت آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی وفات سے میرا دل لرز اٹھا اور زندَگی بھر میری ہڈّی شکستہ(یعنی ٹوٹی ہوئی) رہے گی{3}کاش! میں اپنے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِنتِقال سے پہلے چٹانوں پر قبْر میں دَفن کردیا گیا ہوتا۔ (اَلْمَواہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ لِلْقَسْطَلَّانِی ج۳ص۳۹۴دار الکتب العلمیۃ بیروت)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ المنان ’’ دیوانِ سالک‘‘ میں غمِ مصطَفٰے میں اس طرح کے جذبات کا اِظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جنہیں خَلْق کہتی ہے مصطفی ،مراد ل اُنہیں پہ نثار ہے مِرے قلب میں ہیں وہ جلوہ گرکہ مدینہ جن کا دِیار ہے
وہ جھلک دکھا کے چلے گئے مِرے دل کا چین بھی لے گئے مِری روح ساتھ نہ کیوں گئی ،مجھے اب تو زندَگی بار ہے
وُہی موت ہے وُہی زندگی ،جوخدا نصیب کرے مجھے کہ مَرے تو اُن ہی کے نام پر،جو جیئے تو اُن پہ نِثار ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقِ شاہِ بحرو بر، راہِ عشق ومَحبَّت کے رہبر،عاشقِ اکبر حضرتِ سیِّدُنا صِدّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی اُلفت وعقیدت کا اشعار میں کس قَدَر سوز و رِقّت کے ساتھ اِظہار فرمایا ہے، کاش! سرورِ کائنات کے وزیر ودلبرحضرتِ سیِّدُناصِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غمِ مصطَفٰے میں بہنے والے پاکیزہ آنسوؤں کے صدقے ہمیں بھی غمِ مصطَفٰے میں رونے والی آنکھیں نصیب ہو جائیں۔
ہجرِ رسول میں ہمیں یا ربِّ مصطفی
اے کاش! پھُوٹ پھُوٹ کے رونا نصیب ہو (وسائلِ بخشش)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
عارِف بِاللہحضرت علّامہ امام عبدالرحمٰن جامی قُدِّسَ سرُّہُ السّامی نے اپنی مشہور کتاب’’ شَواہِدُ النُّبُوّۃ‘‘ میں یارِ غار و یارِ مزار، عاشقِ شَہَنْشاہِ ابرار خلیفۂ اوّل حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مبارَک زندگی کے آخِری ایّام کاایک ایمان افروز خواب نَقل کیا ہے اُس کا کچھ حصّہ بیان کیا جاتا ہے چُنانچِہ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : ایک دَفعہ رات کے آخِری حصّے میں مجھے خواب کے اندر دیدارِ مصطَفٰے کی سعادت نصیب ہوئی، آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے دو سفید کپڑے زیبِ بدن
فرما رکھے تھے اور میں اِن کپڑوں کے دونوں کَناروں کو ملا رہا تھا، اچانک وہ دونوں کپڑے سبز ہونا اور چمکنا شروع ہو گئے، اُن کی دَرَخشانی وتابانی (یعنی چمک دمک ) آنکھوں کو خِیرہ(یعنی چکا چوند)کرنے والی تھی، حضورِ پُرنورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ’’اَلسَّلامُ عَلَیْکُم‘‘ کہہ کرمُصافَحہ (یعنی ہاتھ ملانے)سے مشرَّف فرمایا اور اپنا دستِ مقدَّس میرے سینۂ پُردرد پر رکھ دیا جس سے میرا اِضطِرابِ قَلْبی (یعنی دل کا بے قرارہونا) دُور ہو گیا پھر فرمایا: ’’اے ابوبکر( رضی اللہ تعالٰی عنہ)! مجھے تم سے ملنے کا بَہُت اِشتِیاق(یعنی خواہِش) ہے، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم میرے پاس آ جاؤ؟‘‘ میں خواب میں بَہُت رویا یہاں تک کہ میرے اہلِ خانہ کو بھی میرے رونے کی خبر ہو گئی جنہوں نے بیدار ہونے کے بعد مجھے خواب کی اِس گِریہ وزاری سے مُطَّلَع کیا۔ (شواہد النبوۃ للجامی ص۱۹۹مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
دعوتِ اِسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطْبُوعہ 274صَفَحَات پر مُشْتَمِل کتاب ’’ صحابۂ کِرام کا عشقِ رسول ‘‘ صَفْحَہ67پر منقول ہے: حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہنے اپنی وفات سے چند گھنٹے پیشتر (یعنی قبل)اپنی شہزادی حضرت سَیِّدَتُنَا عائِشہ صِدِّیقہرضی اللہ تعالٰی عنہا سے دَریافت کیا کہ رسولُ اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے کفن میں کتنے کپڑے تھے؟حُضور رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی وَفات
شریف کس دن ہوئی؟ا ِس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آرزو تھی کہ کفَن ویومِ وَفات میں حُضُورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُوافَقَت ہو، جس طرح حیات میں حُضُور سرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی اِتِّباع (یعنی پیروی) کی اِسی طرح مَمَات(یعنی وَفات) میں بھی ہو۔ (صَحیح بُخاری حدیث۱۳۸۷، ج۱، ص۴۶۸دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اللہُ اللہُ یہ شوقِ اِتّباع
کیوں نہ ہو صِدِّیقِ اَکبر تھے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
صدِّیقِ اکبر کی وفات کا سبب غمِ مصَطَفٰے تھا
سُبْحٰنَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیقرضی اللہ تعالٰی عنہ عشقِ رسولِ باکمال و بے مثال کی دولتِ لازَوال سے کس قَدَر مالامال تھے، آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شب وروز کے اَحوا ل، بی بی آمِنہ کے لال، پیکرِ حسن وجمال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے عشقِ بے مثال کا مَظْہَرِ اَتَمّ(یعنی کامِل ترین اِظہار) ہیں۔ اُمِّی نبی، رسولِ ہاشِمی،مکّی مَدَنی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے وِصالِ ظاہِری کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مبارَک زندَگی میں سنجیدَگی زیادہ غالِب آ گئیاور (تقریباً 2سا ل7 ماہ پر مشتمل ) اپنی بقِیّہ(بَ۔قِیْ۔یَہ) زندَگی کے لیل ونَہار(یعنی دن رات) گزارنااِنتِہائی دُشوار ہوگیا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ یادِ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بے قرار رہنے لگے،چُنانچِہ حضرتِ
سیِّدُنا امام جلالُ الدّین سُیُوطِی شافِعی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی نَقل کرتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہبن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات کا اصل سبب سرورِ کائنات کی ( ظاہِری) وفات تھا کہ اِسی صدمے سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مبارَک بدن گھلنے لگا اور یہی وفات کا باعث بنا۔ ( تارِیخُ الْخُلَفا ئص۶۲بتغیر)
مَر ہی جاؤں میں اگر اِس در سے جاؤں دو قدم
کیا بچّے بیمارِ غم قُرب مسیحا چھوڑ کر (ذوقِ نعت)
حضرتِ سیِّدُنا امام عبدُ الرّحمٰن جلال ُ الدین سُیُوطِی شافِعی عَلَیہِ رَحمَۃُ اللہِ القَوِی ’’تَارِیْخُ الْخُلَفَائ‘‘ میں نقْل فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکے زمانۂ عَلَالت (یعنی بیماری کے ایّام) میں لوگ عِیادَت کے لئے حاضِر ہوئے اور عرض کی: اے جانَشینِ رَسول رضی اللہ تعالٰی عنہ! اِجازت ہو تو ہم آپ کے لئے طبیب لائیں۔ فرمایا: طبیب نے تو مجھے دیکھ لیا ہے ۔ عرض کیا: طبیب نے کیا کہا؟ اِرشاد فرمایا کہ اُس نے فرمایا:’’اِنِّیْ فَعَّالٌ لِّمَا اُرِیْدُ یعنیمیں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔‘‘ (تارِیخُ الْخُلَفاء ص ۶۲)مُراد یہ تھی کہ حکیم اللہ عَزَّوَجَلَّہے، اُس کی مرضی کو کوئی ٹال نہیں سکتا، جو مَشِیّت (یعنی مرضی) ہے ضرور ہوگا۔یہ حضرت صدِّیق اکبر کاتَوَکلُِّ صادِق تھا اور رِضائے حق پر راضی تھے۔(سوانح کربلا ص۴۸مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
میں مریضِ مصطفی ہوں مجھے چھیڑو نہ طبیبو!
مِری زندَگی جو چاہو مجھے لے چلو مدینہ
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! عاشقِساقی ٔ کوثر، امیرُالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر واقِعی محبوبِ ربِّ اَکبرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے عاشقِ اَکبر ہیں۔ غمِ ہجرِ مصطَفٰے و عشقِ رسولِ مجتبیٰ میں بیمار ہوجانا آپ کے ’’عاشقِ اَکبر‘‘ ہونے کی دلیل ہے۔ دل کی کُڑَھن اور جَلَن کا سبب صرف محبوبِ ربُّ العِبادصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی یاد اور اُن کا فِراق تھا اور ایک ہم ہیں کہ ہمارا دل دُنیاکیمَحَبّت ، عارضی حُسن وجمال اور چند روزہ جاہ وجَلال ہی کا شیدا ہے اور اسی کے لئے تڑپتا، ترَستا اور نفسانی خواہشات پوری نہ ہونے پر حَسرت ویاس سے آہیں بھرتا ہے۔
دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا اے مرے اللہ یہ کیا ہو گیا
کچھ مرے بچنے کی صورت کیجئے اب تو جو ہونا تھا مولیٰ ہو گیا
عیب پوشِ خلق دامن سے ترے
سب گنہگاروں کا پردہ ہو گیا(ذوقِ نعت )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وصالِ ظاہری کے اسباب مختلف بتائے جاتے ہیں ، بعض روایات کے مطابِق غارِ ثور والے سانپ کے زَہر کے اثر کے عَود کرنے( یعنی لوٹ کر آجانے) کے سبب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات ہو گئی۔ ایک سبب یہ بتایا گیا کہ غمِ مصَطفٰے میں گُھل گُھل کر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جان دیدی جبکہ ابنِ سعد و حاکِم نے ابنِ شَہاب سے روایت کی ہے کہ ( سیِّدُنا صدِّیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکی وفات کا ظاہِری سبب یہ تھا کہ) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس کسی نے تحفۃً خُزَیْرہ(یعنی قیمے والادلیہ ) بھیجا تھا، آپ اور حارِث بن کَلَدَہ دونوں کھانے میں شریک تھے(کچھ کھانے کے بعد)حارِث نے(جو کہ طبیب تھا)عرض کی: اے خلیفۂ رسولُ اللہ ! ہاتھ روک لیجئے(اور اسے نہ کھایئے) کہ اس میں زَہر ہے اور یہ وہ زَہر ہے جس کا اثر ایک سال میں ظاہِر ہوتا ہے، آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہ دیکھ لیجئے گا کہ ایک سال کے اندر اندر میں اور آپ ایک ہی دن فوت ہوں گے ۔یہ سُن کر آ پ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا لیکن زَہر اپنا کام کر چکا تھا اور یہ دونوں اِسی دن سے بیمار رہنے لگے اور ایک سال گزرنے کے بعد( اُسی زَہرکے اثر سے) ایک ہی دن میں انتقال کیا۔(تارِیخُ الْخُلَفاء ص۶۲)
حاکِم کی یہ روایت شَعَبی سے ہے کہ انہوں نے کہا :اِس دنیائے دُوں (یعنی ذلیل دنیا) سے ہم بھلا کیا توقُّع رکھیں کہ (اِس میں تو) رسولِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی زَہر دیا گیا اور حضرتِ سیِّدُنا صِدّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہکو بھی۔(اَیضاً) ان اقوال میں تعارُض (یعنی ٹکراؤ) نہیں ہو سکتا ہے(وفات شریف میں ) تینوں اَسباب جمع ہو گئے ہوں۔(نزہۃُ القاری ج۲ص۸۷۷فریدبک اسٹال))میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقِعی دنیا کی مَحَبَّت اندھی ہوتی ہے، اِس ذلیل دنیاکی اُلفت کی وجہ سے ہی سرکارِ مدینہ،راحتِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور عاشقِ اکبر سیِّدُنا صدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زَہر دیا گیا، جب کائنات کی سب سے بڑی ہستی یعنی ذاتِ نبوی کو بھی ذلیل دنیا کے نامُراد کُتّوں نے زَہر دینے کی ناپاک سازش کی تو اب اور کون ہے جو اپنے آپ کو اِس سے محفوظ سمجھے ! لہٰذا بالخصوص نامور عُلماء و مشائخ اور مذہبی پیشواؤں کو زیادہ مُحتاط رہنے کی ضَرورت ہے۔ دیکھئے نا ! اِسی کمینی دُنیا کے عشق میں مست ہوکر کسی نابَکار نے سیِّدالْاَ سخِیا، راکِبِ دوشِ مصطَفٰے ، نواسۂ رسول حضرتِ سیِّدُناامام حسن مجتَبیٰرضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی کئی بار زَہر دیا اور آخِر زَہر خُورانی ہی وفات کا باعث بنی۔نیز حضرتِ سیِّدُنا بِشْربِن بَرَاء رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرتِ سیِّدُنا امام جعفر صادِق رَحمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرتِ سیِّدُنا امام موسیٰ کاظِم رَحمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرتِ سیِّدُنا امام علی رضا رَحمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ اور حضرتِ سیِّدُنا
امامِ اعظم ابو حنیفہرضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفاتِ حسرت آیات کا سبب بھی زَہر ہوا ۔
وِصالِ ظاہِری سے قبْل فیضیابِ فیضانِ نُبُوَّت،صاحبِ فضیلت وکرامت حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وصیَّت فرمائی کہ میرے جنازے کو شاہِ بحروبر ،مدینے کے تاجور، حبیبِ داوَرصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے روضۂ اَنور کے پاک دَر کے سامنے لاکر رکھ دینا اوراَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ کہہ کر عرض کرنا: ’’یارسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، ابو بکر آستانۂ عالیہ پر حاضِر ہے۔‘‘ اگردروازہ خود بخود کُھل جائے تو اندر لے جانا ورنہ جنَّتُ البَقِیْع میں دفْن کر دینا۔ جنازۂ مُبارَکہ کو حسبِ وَصِیِّت جب روضۂ اَقدس کے سامنے رکھا گیا اور عرض کیا گیا: اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ!ابوبکر حاضِر ہے۔ یہ عرض کرتے ہی دروازے کا تالا خود بخودکُھل گیا اور آواز آنے لگی: اَدْخِلُوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ فَاِنَّ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ مُشْتَاقٌیعنی محبوب کو محبوب سے مِلادو کہ محبوب کو محبوب کا اِشتِیاق ہے۔ (تفسیر کبیر ج۱۰ص۱۶۷داراحیاء التراث العربی بیروت)
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کامنہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غور ! اگرحضرتِ سیِّدُناابوبکر صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ
رسول اللہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو زندہ نہ جانتے تو ہرگز ایسی وصیّت نہ فرماتے کہ روضۂ اَقدَس کے سامنے میر ا جنازہ رکھ کرنبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے اِجازت طلب کی جائے۔ حضرتِ سیِّدُناابوبکرصِدِّیقرضی اللہ تعالٰی عنہ نے وصیَّت کی اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نے اِسے عَمَلی جامہ پہنایا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبررضی اللہ تعالٰی عنہ اور تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان کایہ عقیدہ تھا کہ محبوب پروَرْدگار،شاہِ عالَم مدار ،دوعالَم کے مالِک ومُختار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمبعدِ وصال بھی قبر اَنور میں زندہ و حیات اور صاحبِ تَصَرُّفات واِختِیارات ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ!
تُو زِندَہ ہے وَاللہ تُو زِندَہ ہے وَاللہ
مرے چشمِ عالَم سے چُھپ جانے والے(حدائقِ بخشِش شریف)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ! بعطائے ربُّ الانام تمام انبیاءے کرام عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام زندہ ہیں۔ چُنانچِہ’’ ابنِ ماجہ ‘‘ کی حدیثِ پاک میں ہے: اِنَّ اللہَ حرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْانبیاءِ ِفَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ۔
بے شک اﷲ (عَزَّوَجَلَّ)نے حرام کیا ہے زمین پر کہ انبیاء ( عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام) کے جسموں کوخراب کرے تو اﷲ (عَزَّوَجَلَّ) کے نبی زندہ ہیں ، روزی دیئے جاتے ہیں۔(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۲ ص۲۹۱ حدیث ۱۶۳۷)
ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: اَلْانبیاء اََحیَاء ٌ فِیْ قُبُوْرِہِمْ یُصَلُّوْنیعنی
انبیا حیات ہیں اور اپنی اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں۔ (مُسْنَدُ اَبِیْ یَعْلٰی ج۳ ص۲۱۶ حدیث۳۴۱۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رسولصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے مُتَعلِّق ہر مسلمان کا وہی عقیدہ ہونا ضروری ہے جو صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوان اوراسلافِ عُظا م رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام کاتھا، اگر معاذَاللہشیطان وسوسے پیدا کرنے کی کوشِش کرے اور عَظَمتِ وشانِ مصطَفٰیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّممیں طعنہ زَنی کرتے ہوئے عقْلی دَلائل سے قائل کرنے کی ناپاک سَعی (کوشش) کرے تواُس سے الگ تھلگ ہوجائیے جیساکہ دعوتِ اِسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطْبُوعہ 162 صَفَحات پر مُشْتَمِل کتاب ’’ایمان کی پہچان ‘‘ صَفْحَہ58پر اعلٰی حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحمٰن عاشقانِ رسول کو تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’جب وہ(یعنی گستاخانِ رسول)رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی شان میں گستاخی کریں اَصْلاً (یعنی بالکل) تُمہارے قلب میں اُن (گستاخوں )کی عَظَمت،اُن کی مَحَبَّت کا نام ونِشان نہ رہے فوراً اُن(گستاخوں) سے الگ ہوجاؤ، اُن(لوگوں ) کو دُودھ سے مکّھی کی طرح نکال کر پھینک دو، اُن (بدبختوں )کی صُورت ،اُن کے نام سے نَفْرت کھاؤپھرنہ تم اپنے رِشتے،عِلاقے، دوستی، اُلفت کاپاس کرو نہ
اُن کی مَوْلَوِیَّت، مَشَیْخِیَّت، بُزُرگی ، فضیلت کو خطرے (یعنی خاطِر)میں لاؤ۔ آخِر یہ جو کچھ (رشتہ و تعلُّق )تھا ، محمدٌ رَّسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غلامی کی بِنا پر تھا، جب یہ شخص اُن ہی کی شان میں گُستاخ ہوا پھرہمیں اُس سے کیا عِلاقہ (تعلُّق) رہا؟‘‘(ایمان کی پہچان،ص۵۸ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
اُنہیں جانا اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام لِلّٰہِ الْحَمْد !میں دُنیا سے مسلمان گیا
اُف رے مُنکِر یہ بڑھا جوشِ تَعَصُّب آخِر بھیڑ میں ہاتھ سے کم بَخت کے اِیمان گیا(حدائق بخشِش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطی شافِعی علیہ ر حمۃ اللہِ القوی ’’ شرحُ الصُّدور‘ ‘ میں نقل کرتے ہیں :ایک شخص کی موت کا وَقت قریب آ گیا تو اس سے کلمۂ طیِّبہ پڑھنے کے لئے کہا گیا ۔ اس نے جواب دیا کہ میں اس کے پڑھنے پر قادر نہیں ہوں کیوں کہ میں ایسے لوگوں کے ساتھ نِشَست و برخاست (یعنی اٹھنا بیٹھنا)رکھتا تھا جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماکے بُرا بھلا کہنے کی تلقین کرتے تھے۔ (شَرْحُ الصُّدُورص۳۸مرکز اہلسنت برکات رضا الہند )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت سے شیخین کریمین یعنی سیِّدَینا صدّیق وفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما کی بُلند شانیں معلوم ہوئیں ، جب ان کی توہین کرنے والوں سے
دوستی رکھنے کا یہ وَبال کہ مرتے وقت کلمہ نصیب نہیں ہورہا تھا تو پھر جو لوگ خود توہین کرتے ہیں ان کا کیا حال ہو گا! لہٰذا شیخین کریمینرضی اللہ تعالٰی عنہما کے گستاخوں سے دورو نُفُور رہنا ضَروری ہے۔ صِرف عاشقانِ رسول و مُحبّانِ صَحابہ و اولیا کی صحبت اختیار کیجئے،ان عظیم ہستیوں کی اُلفت کا دِیا(یعنی چراغ) اپنے دل میں روشن کیجئے۔اور دونوں جہاں کی بھلائیوں کے حقدار بنئے۔ اللہُ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندوں کی مَحَبَّت قَبْروحَشْر میں بے حد کار آمدہے چُنانچِہ ایک شخص کابیان ہے: میرے اُستاذ کے ایک ساتھی فوت ہو گئے ۔ استاد صاحِب نے انہیں خواب میں دیکھ کر پوچھا : مافَعَلَ اللہُ بِکَ؟ یعنی اللہُ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ کیا؟ جواب دیا : اللہُ عَزَّوَجَلَّ نے میری مغفِرت فرما دی ۔ پوچھا : مُنکَر نَکیر کے ساتھ کیسی رہی ؟ جوابدیا: اُنہوں نے مجھے بٹھا کر جب سُوالات شروع کئے، اللہُ عَزَّوَجَل نے میرے دل میں ڈالا اور میں نے فرِشتوں سے کہدیا:’’ سیِّدَینا ابو بکر و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما کے واسِطے مجھے چھوڑ دیجئے۔‘‘ یہ سُن کر ایک فرِشتے نے دوسرے سے کہا:’’اس نے بڑی بُزُرگ ہستیوں کا وسیلہ پیش کیا ہے لہٰذا اس کو چھوڑ دو۔‘‘ چُنانچِہ انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور تشریف لے گئے۔(شَرْحُ الصُّدُورص۱۴۱)
واسِطہ دیا جو آپ کا
میرے سارے کام ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
دعوتِ اِسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطْبُوعہ561 صَفَحَات پر مُشْتَمِل کتاب ’’ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘صَفْحَہ61 پر امامِ اہلسنّت، مجدِّدِ دین وملّت الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحمٰن بیان فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضور اَقدسصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے داہنے (یعنی سیدھے)دستِ اَقدس میں حضرتِ صِدِّیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہاتھ لیا اور بائیں (یعنی الٹے) دستِ مُبارَک میں حضرتِ عمررضی اللہ تعالٰی عنہکا ہاتھ لیااور فرمایا : ھٰکَذَا نُبْعَثُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِیعنی ہم قِیامت کے روز یوں ہی اٹھائے جائیں گے ۔ ( تِرمِذی ج۵ ص۳۷۸ حدیث۳۶۸۹،تاریخ دمشق ج۲۱ص۲۹۷)
محبوبِ ربِّ عرش ہے اس سَبز قُبّے میں
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عُمر کی ہے (حدائقِ بخشِش شریف)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمارے رَہبرحضرتِ سیِّدُنا صدِّیقِ اَکبررضی اللہ تعالٰی عنہ یقینا عاشقِ اَکبر ہیں ، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے عشق کا اِظہار عَمَل و کِردار سے کیا اور جب عشق کی راہ، پُرخار اورسخت دُشوار گزار ہوئی تب بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جذبۂ عشقِ شَہَنْشاہِ ابرار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سرشار رہے ، خطیبِ اوّل کا شرف پاتے ہوئے دینِ اِسلام کی خاطرشدید مارپڑنے کے باوُجود آپ رضی اللہ تعالٰی عنہکے پائے
اِستِقلال میں ذرّہ بھر بھی لغزش نہ آئی۔راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اِس مُشکِلات بھری حیات میں ہمارے لئے یہ دَرس ہے کہ’’ نیکی کی دعوت ‘‘ کی راہوں میں خواہ کیسے ہی مصائب کا سامنا ہو مگر پیچھے ہٹنا کُجا اس کاخیال بھی دل میں نہ آنے پائے۔
جب آقا آخِری وقت آئے میرا مرا سر ہو ترا بابِ کرَم ہو
سدا کرتا رہوں سنّت کی خدمت مرا جذبہ کسی صورت نہ کم ہو(وسائلِ بخشش)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی عشق ومَحَبّت بھری مُبارَک زندَگی سے ہمیں یہ بھی درس ملتا ہے کہ ہماری آہیں اور سسکیاں دُنیا کی خاطر نہ ہوں ، مَحَبّت ِدُنیا میں آنسو نہ بہیں ، دُنیوی جاہ وحشمت (یعنی شان و شوکت)کے لئے سینے میں کَسَک پیدانہ ہو بلکہ ہمارے دل کی حسرت، حُبِّ نبی ہو، آنسو یادِ مصطَفٰے میں بہیں ، دُنیا کے دیوانے نہیں بلکہ شمعِرِسالت کے پروانے بنیں ،اُنہی کی پسند پر اپنی پسند قربان کریں اوریہی خواہِش ہو کہ کاش! میرا مال، میری جان محبوبِ رحمن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی آن پر قربان ہو جائے، اُن سے نسبت رکھنے والی ہر چیز دلعزیز ہو، جو خوش بخت ایسی زندَگی گزارنے میں کامیاب ہو گیاتو اللہُ تبارَک وتعالیٰ اُس کے لئے دُنیا مسخَّر اور مخلوق کو اُس کے تابع کر دے گا، آسمانوں میں اُس کے چرچے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدا و مصطَفٰے کا محبوب بن جائے گا۔
وہ کہ اُس در کاہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ اُس در سے پھر اللہ اُس سے پِھر گیا(حدائقِ بخشش شریف)
لیکن اَفسوس! صد اَفسوس! آج کے مسلمانوں کی اکثریت شاہِ اَبرار، دو عالَم کے مالِک ومُختار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُسوۂ حَسَنہ کو اپنا مِعیار بنانے کے بجائے اغیار کے شِعاراور فیشن پر نثار ہوکر ذلیل و خوار ہوتی جارہی ہے۔ ؎
کون ہے تارِکِ آئینِ رسولِ مُختار مصلَحت، وقت کی ہے کس کے عمل کا مِعیار
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شِعارِ اَغیار ہو گئی کس کی نِگہ طرزِ سلَف سے بیزار
قلْب میں سوز نہیں ، رُوح میں اِحساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
تُوْبُوْا اِلَی اللہ اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! جولوگ اپنے والدین سے مَحَبَّت کرتے ہیں وہ اُن کا دل نہیں دُکھاتے، جنہیں اپنے بچے سے مَحَبَّت ہوتی ہے وہ اُسے ناراض نہیں ہونے دیتے،کوئی بھی اپنے دوست کو غم زدہ دیکھنا گوارا نہیں کرتاکیونکہ جس سے مَحَبَّت ہوتی ہے اُسے رَنجیدہ نہیں کیاجاتا مگر آہ!آج کے اکثر مسلما ن جو کہ عشقِ رسول کے دعویدار ہیں مگر اُن کے کام محبوبِ ر بُّ ا لانام صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو شاد کرنے والے نہیں ، سنو!
سنو! رسولِ ذی وقار، دو عالَم کے تاجدار، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ’’جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۲۰ص۴۲۰حدیث۱۰۱۲)وہ کیسے عاشقِ رسول ہیں جو کہ نماز سے جی چُرا کر، نماز جان بوجھ کرقضا کر کے سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے قلبِ پُراَنوار کے لئے تکلیف و آزار کاسبب بنتے ہیں۔یہ کون سیمَحَبَّت اور کیسا عشق ہے کہ رسولِ رفیعُ الشان، مدینے کے سلطان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ماہِ رَ مضان کے روزوں کی تاکید فرمائیں مگر خود کو عاشقانِ رسول میں کھپانے والے اِس حُکمِ والا سے رُو گَردانی کر کے ناراضیٔ مصطَفٰے کاسبب بنیں ، حضورِ اکرمصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنمازِ تراویح کی تاکید فرمائیں مگر سُست و غافل اُمّتیوں سے نہ پڑھی جائے، پڑھیں بھی تو رَسماً ماہِ رَمَضان کے ابتدائی چند دن اور پھر یہ سمجھ بیٹھیں کہ پورے رمَضانُ المبارَک کی نمازِتراویح ادا ہو گئی۔پیارے مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمائیں : ’’مونچھیں خوب پست (یعنی چھوٹی) کرو اور داڑھیوں کو مُعافی دو (یعنی بڑھاؤ) یہودیوں کی سی صورت نہ بناؤ۔‘‘ (شرح معانی الآثار للطحاوی ج۴ ص۲۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت)مگر عشقِ رَسول کے دعوے دار مگر فیشن کے پرستار دُشمنانِ سرکارجیسا چہرہ بنائیں ، کیایہی عشقِ رسول ہے؟
سرکار کا عاشِق بھی کیا داڑھی مُنڈاتا ہے؟
کیوں عِشق کا چہرے سے اِظہار نہیں ہوتا!
فِکرِ مدینہ([6]) کیجئے!یہ کیسا عشق اور کیسی محبت ہے؟ کہ محبوبِ خوش خِصال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دُشمنوں جیسی شکل وصورت و چال ڈھال اپنانے میں فخر محسوس کیا جائے!
وَضع میں تم ہو نصاریٰ تو تَمَدُّن میں ہُنُود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مُحسن وکریم اور شفیق و رحیم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم توہمیں ہمیشہ یاد فرماتے رہے، بلکہدنیا میں تشریف لاتے ہی آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدہ کیا۔ اس وقت ہونٹوں پر یہ دُعاجاری تھی:رَبِّ ہَبْ لِیْ اُمَّتِیْ یعنی پروردگار!میری اُ مّت مجھے ہِبہ کر دے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۳۰ص۷۱۷)
پہلے سجدے پہ روزِ ازَل سے درود
یادگاریٔ اُمّت پہ لاکھوں سلام(حدائق بخشش شریف)
مَدارِجُ النُّبُوۃ میں ہے:حضرتِ سیِّدُنا قُثَم رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ شخص تھے جو آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو قبر انور میں اُتارنے کے بعد سب سے آخِر میں باہَر آئے تھے، چُنانچِہ ان کا بیان ہے کہ میں ہی آخِری شخص ہوں جس نے حُضُورِ انورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رُوئے مُنوَّر ،قبر اَطہر میں دیکھا تھا ،میں نے دیکھا کہ سلطانِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمقَبْر انور میں اپنے لبہائے مبارَکہ کوجُنبِش فرما رہے تھے(یعنی
مبارَک ہونٹ ہل رہے تھے) میں نے اپنے کانوں کو اللہعَزَّوَجَلَّکے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دَہَن (یعنی منہ)مبارَک کے قریب کیا ،میں نے سنا کہ آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے تھے ’’ ربِّ اُمَّتِی اُمَّتِی ‘‘ (یعنی پروردگار! میری اُمّت میری اُمّت) (مَدارجُ النُّبُوۃ ج۲ ص۴۴۲)نیزکنزالعُمّال جلد 7 صَفحَہ178 پر ہے: فرمانِ مصطَفٰیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :’’ جب میری وفات ہو جائے گی تو اپنی قَبْرمیں ہمیشہ پکارتا رہوں گا :یا ربِّ اُمَّتِی اُمَّتِی یعنی اے پروردگار! میری اُمّت میری اُمّت ۔ یہاں تک کہ دوسرا صُور پھونکا جائے۔‘‘(کَنْزُ الْعُمّال) میرے آقا اعلیٰ حضرت اپنے لئے ایمان کی حفاظت کی خیرات طلب کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں : ؎
جنہیں مَرقَد میں تا حشر اُمَّتی کہہ کرپکارو گے
ہمیں بھی یاد کر لو ان میں صدقہ اپنی رحمت کا(حدائقِ بخشش شریف)
مُحدِّثِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولاناسردار احمد علیہ رحمۃُ اللہِ الاَحَد فرمایا کرتے تھے کہ حُضُورِ پاکصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو ساری عمر ہمیں اُمَّتی اُمَّتی کہہ کر یادفرماتے رہے ، قبر انور میں بھی اُمَّتی اُمَّتی فرما رہے ہیں اورحشر تک فرماتے رہیں گے یہاں تک کہ محشر کے روز بھی اُمَّتی اُمَّتیفرمائیں گے ۔ حق یہ ہے کہ اگر صِرف ایک بار بھی اُمّتی فرماد یتے اور ہم ساری زندگی یانبی یانبی ،یارسولَ اللہ یا حبیبَ اللہ کہتے رہیں تب بھی اُس ایک بار اُمّتی کہنے کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
جن کے لب پر رہا’’ امَّتی اُمَّتی ‘‘یاد اُن کی نہ بھول اے نیازیؔ کبھی
وہ کہیں اُمَّتی تُو بھی کہہ یا نبی! میں ہوں حاضِر تیری چاکری کے لیے
حضرتِ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے،حُضور شاہِ خیرُالْاَنام صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : قِیامت کے دن تمام انبیاءِ کرام (عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ) سونے کے منبروں پر جلوہ گر ہوں گے ،میرا منبر خالی ہو گا کیوں کہ میں اپنے رب کے حُضُور خاموش کھڑا ہوں گا کہ کہیں ایسا نہ ہو اللہُ مجھے جنَّت میں جانے کا حکم فرما دے اور میری اُمّت میرے بعد پریشان پھرتی رہے۔ اللہُ تعالیٰ فرمائے گا:اے محبوب! تیری اُمّت کے بارے میں وُہی فیصلہ کروں گا جو تیری چاہت ہے ۔ میں عرض کروں گا : اللھُمَّ عَجِّلْ حِسَابَھُمْ یعنی اے اللہُ !ان کا حساب جلدی لے لے ( کہ میں ان کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں ) یہ مسلسل عرض کرتا رہوں گا یہاں تک کہ مجھے دوزخ میں جانے والے میرے اُمّتیوں کی فہرست دے دی جائے گی ( جو جہنَّم میں داخِل ہو چکے ہوں گے ان کی شَفاعت کر کے میں انہیں نکالتا جاؤں گا)یوں عذابِ الہٰی کے لیے میری اُمّت کا کوئی فرد نہ بچے گا۔ (کَنْزُ الْعُمّالج۷ ص۱۴ رقم۳۹۱۱۱دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اللہُ ! کیا جہنَّم اب بھی نہ سرد ہو گا
رو رو کے مصطَفٰے نے دریا بہا دیئے ہیں
اے عاشقانِ رسول!امَّت کے غمخوار آقا کے قدموں پرنثار ہو جایئے اور زندگی ان کی غلامی بلکہ ان کے غلاموں کی غلامی اور دعوتِ اسلامی اور اس کے مَدَنی قافِلوں
کے اندر سفر میں گزار کر مرنے کے بعد ان کی شَفاعت کے حق دار ہو جایئے اوراپنا منہ بروزِ قِیامت نبیِّ رحمت ،شفیعِ امَّتصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کودکھانے کے قابِل بنا لیجئے یعنی یہودو نصاریٰ کی سی شکل و صورت بنانی چھوڑ دیجئے ،اپنے چہرے پر ایک مٹّھی داڑھی سجا لیجئے،انگریزی بالوں کے بجائے زلفیں رکھ لیجئے اور ننگے سر گھومنے کے بجائے سبز عمامہ شریف کے ذَرِیعے اپنا سر ’’ سر سبز‘‘ کر لیجئے۔بس اپنے ظاہر و باطن پر مَدَنی رنگ چڑھا لیجئے۔
ڈر تھا کہ عصیاں کی سزا اب ہو گی یا روزِ جزا
دی اُن کی رَحمت نے صدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
میرے آقا اعلٰیحضرت، اِمامِ اَہلسنّت،ولیِّ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شمعِ رِسا لت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِّ سنّت، ماحِیِٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت، باعِثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیہِ رَحمَۃُ الرَّحمٰن ہمیں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں :
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضاؔ
یاد اُس کی اپنی عادت کیجئے
حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کے قدموں کی دُھول کے صدقے کاش! ہم بھی سچّے اور پکّے عاشقِ رسول بن جائیں۔ کاش! ہمارا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، سوناجاگنا،لینا دینا،جینا مرنا میٹھے میٹھے آقا، مدینے والے مصطَفٰیصلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی سُنَّتوں کے مطابِق ہو جائے ۔ اے کاش!
فَنا اِتنا تو ہو جاؤں میں تیری ذاتِ عالی میں
جو مجھ کو دیکھ لے اُس کو ترا دیدار ہو جائے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اپنے اندر عشقِ حقیقی کی شمع روشن کیجئے،اِنْ شَائَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ظاہر وباطن مُنَوَّر ہو جائے گا اور دُنیا و آخِرت میں سُرخرُوئی قدم چومے گی۔
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جَسُور، ([7]) فَقْر ہو جس کا غَیُور
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تَعَالٰی علٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد کو’’ صِدِّیقی‘‘ بولتے ہیں ، ان کے پاؤں کے انگوٹھے میں آج بھی سانپ کے کاٹنے کا نشان نظر آنا ممکن ہے۔ مگر دِکھائی نہ دینے پر کسی صدِّیقی صاحِب کی صِدِّیقیَّت پر بد گمانی جائز نہیں کہ ہر ایک میں یہ علامت واضِح نہیں ہوتی۔ سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ نے ایک صدِّیقی عالم صاحِب سے ’’انگوٹھے کا نشان‘‘ دکھانے کی درخواست کی تو کہا کہ میرے والِد صاحِبرحمۃُ اللہ تعالٰی علیہ نے کُھرچ کرظاہر کیا تھا مگر اب پھر چُھپ گیا ہے۔مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان’’ مِراۃ ُالمناجیح ‘‘جلد8صَفْحَہ359پر فرماتے ہیں :’’بعض صالحین کو فرماتے سنا
گیا کہ جو شیخ صِدِّیقی(سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کے شہزادے جو کہ صَحابی تھے اُن یعنی) حضرت محمد بن ابوبکر(رضی اللہ تعالٰی عنہما) کی اولاد سے ہیں ، انہیں سانپ یا تو کاٹتا نہیں اگر کاٹے تو(زہر) اثر نہیں کرتا۔(یہ) اُس لُعاب شریف کااثر ہے(جو کہ سرکارِ مدینہصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ کے انگوٹھے پر غارِثور میں سانپ کے ڈسنے کی جگہ لگایا تھا) اور ان کی اولاد کے پاؤں کے انگوٹھے میں ’’ سیاہ تِل‘‘ ہو تا ہے حتّٰی کہ اگر ماں باپ دونوں کی طرف سے شیخ صِدِّیقی ہو تو دونوں پاؤں کے انگوٹھے میں تِل ہو گا۔ میں نے بَہُت(سے) صدِّیقی حَضَرات کے پاؤں کے انگوٹھے میں یہ تِل دیکھے ہیں۔ غَرَضیکہ یہ عجیب مُعجزات ہیں ‘‘ ( یعنی صدِّیقیوں کو سانپ کانہ کاٹنا ، کاٹے تو زہر کا اثر نہ کرنا اور آج تک پاؤں کے انگوٹھے میں تِل کا پایا جانا یہ سب سرکارِ رسالت مآب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارَک لُعاب کے مُعجزات ہیں )
ضعیفی میں یہ قوّت ہے ضعیفوں ([8])کو قَوی کر دیں
سہارا لیں ضعیف و اَقوِیا([9]) صدِّیقِ اکبر کا(ذوقِ نعت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اپنے دل میں عشقِ رسول کی شمع جلانے اور اپنا سینہ مَحَبّتِرسول کا مدینہ بنانے کے لئے دعوتِ اِسلامی کے مدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے،اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس مدَنی ماحول کی برَکت سے راہِ سنّت پر چلنے کی سعادت اور فیضانِ صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی برَکات نصیب ہوں گی ۔ سنّتوں کی تربیّت کی
خاطر ہر ماہ کم از کم تین دن کیلئے مَدَنی قافلے میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرے سفر کا معمول بنایئے ، مَدَنی مرکز کے عنایت، فرمودہ نیک بننے کے نسخے ’’ مَدَنی انعامات‘‘ کے مطابِق اپنی زندگی کے شب و روز گزاریئے نیز روزانہ رات کم از کم 12منٹ فکرِ مدینہ کیجئے اور اس میں مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُر فرما لیجئے اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دونوں جہانوں میں بیڑا پار ہوگا۔دعوتِ اسلامی کو کس قدر فیضانِ صِدّیق اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ حاصل ہے اِس کا اَندازہ اِس مدَنی بہار سے لگائیے چُنانچِہ ایک عاشقِ رسول کا بیان اپنے انداز واَلفاظ میں پیش کرنے کی کوشِش کرتا ہوں :ہمارا مَدَنی قافِلہ’’ ناکہ کھارڑی‘‘ (بلوچستان، پاکستان ) میں سنَّتوں کی تربیّت کے لئے حاضِر ہو اتھا ،مَد نی قافِلے کے ایک مسافِر کے سر میں چار چھوٹی چھوٹی گانٹھیں ہوگئی تھیں جن کے سبب اُن کو آدھا سِیسی (یعنی آدھے سر) کا دَرد ہوا کرتا تھا۔جب درد اُٹھتا تو درد کی طرف والے چِہرے کا حصّہ سیا ہ پڑجاتا اور وہ تکلیف کے سبب اِس قَدَر تڑپتے کہ دیکھا نہ جاتا ۔ ایک رات اِسی طرح وہ درد سے تڑپنے لگے ،ہم نے گولیاں کِھلاکر اُن کو سُلادیا ۔صبح اُٹھے تو ہَشّاش بَشّاش تھے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ اَلْحَمْدُ للّٰہِعَزَّوَجَلَّ مجھ پر کرَم ہوگیا، میرے خواب میں سرکارِ رِسالت مآب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مَع چار یارعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکرم بالائے کرم فرمایا۔
سرِبالیں اُنہیں رَحمت کی اَدا لائی ہے
حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے
سرکارِمدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے
حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا :’’اِس کا درد ختم کردو۔‘‘ چُنانچِہ یارِ غار ویارِ مزار سیِّدُناصِدّیقِ ا کبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے میرا اِس طرح مَدَنی آپریشن کیا کہ میرا سَر کھول دیا اور میرے دِماغ میں سے چار کالے دانے نکالے اور فرمایا: ’’بیٹا! اب تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ مَدَنی بہار بیان کرنے والے اسلامی بھائی کا کہنا ہے: واقِعی وہ اِسلامی بھائی بالکل تندُرُست ہوچکے تھے ۔ سفر سے واپَسی پر جب اُنہوں نے دوبارہ ’’چیک اَپ ‘‘کروایا تو ڈاکٹر نے حیران ہوکر کہا: بھائی !کمال ہے: تمہارے دِماغ کے چاروں دانے غائب ہوچکے ہیں ! اِس پر انہوں نے رو رو کر مَدَنی قافِلے میں سفر کی بَرَکت اور خواب کا تذکِرہ کیا۔ ڈاکٹر بَہُت مُتأَثِّر ہوا۔ اُس اَسپتال کے ڈاکٹروں سمیت وہاں موجود 12 اَفراد نے12 دن کے مَدَنی قافِلے میں سفر کی نیّتیں لکھوائیں اور بعض ڈاکٹروں نے اپنے چِہرے پرہاتھوں ہاتھ سرورِ کائنات صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحَبَّت کی نشانی یعنی داڑھی مُبارک سجانے کی نیّت کی ۔
لوٹنے رحمتیں قافِلے میں چلو سیکھنے سنتیں قافِلے میں چلو
ہے نبی کی نظر قافِلے والوں پر پاؤگے راحتیں قافِلے میں چلو
صلُّوْا علَی الحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمّد
ہم کو بو بکر و عمر سے پیار ہے اِن شائَ اللہ اپنا بیڑا پار ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کو اِختِتام کی طرف لاتے ہوئے سنّت کی فضیلت اور چند سنّتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت ، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ،
مصطَفٰے جانِ رحمت، شمعِ بزمِ ہدایت ،نوشۂ بزمِ جنّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ جنّت نشان ہے: جس نے میری سنّت سے مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا ۔ (مِشْکاۃُ الْمَصابِیح ج۱ ص۵۵ حدیث ۱۷۵)
سینہ تری سنّت کا مدینہ بنے آقا
جنّت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمّد
{1} خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمینصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زُلفیں کبھی نصف (یعنی آدھے)کان مبارَک تک تو{2} کبھی کان مبارَک کی لَوتک اور{3}بعض اوقات بڑھ جاتیں تو مبارَک شانوں یعنی کندھوں کوجھوم جھوم کر چومنے لگتیں (الشمائل المحمدیۃ للترمذی ص۳۴،۳۵،۱۸){4}ہمیں چاہئے کہ موقع بہ موقع تینوں سنّتیں ادا کریں ،یعنی کبھی آدھے کان تک تو کبھی پورے کان تک تو کبھی کندھوں تک زلفیں رکھیں {5} کندھوں کو چُھونے کی حد تک زلفیں بڑھانے والی سنَّت کی ادائیگی عُمُوماً نفس پرزیادہ شاق ( یعنی بھاری) ہوتی ہے مگر زندَگی میں ایک آدھ بار تو ہر ایک کویہ سنَّت ادا کرہی لینی چاہئے ، اَلبتّہ یہ خیال رکھنا ضَروری ہے کہ بال کندھوں سے نیچے نہ ہونے پائیں ، پانی سے اچّھی طرح بھیگ جانے کے بعد زُلفوں کی درازی(یعنی لمبائی) خوب نُمایاں ہو جاتی ہے لہٰذا جن دنوں بڑھائیں ان دنوں غسل کے بعدکنگھی کرکے غور سے دیکھ لیا کریں
کہ بال کہیں کندھوں سے نیچے تو نہیں جا رہے {6}میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : عورتوں کی طرح کندھوں سے نیچے بال رکھنا مَرد کیلئیحرام ہے(تسہیلاً فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص۶۰۰){7} صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃُ اللہِ القوی فرماتے ہیں :مرد کویہ جائز نہیں کہ عورَتوں کی طرح بال بڑھائے، بعض صوفی بننے والے لمبی لمبی لٹیں بڑھا لیتے ہیں جو اُن کے سینے پر سانپ کی طرح لہراتی ہیں اور بعض چوٹیاں گُوندھتے ہیں یا جُوڑے(یعنی عورَتوں کی طرح بال اکٹّھے کر کے گدّی کی طرف گانٹھ) بنالیتے ہیں یہ سب ناجائز کام اور خِلاف شَرع ہیں۔ تصوُّف بالوں کے بڑھانے اور رنگے ہوئے کپڑے پہننے کا نام نہیں بلکہ حُضورِ اقدسصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی پوری پَیروی کرنے اور خواہِشاتِ نفس کو مٹانے کا نام ہے۔ (بہارِشریعت حصّہ ۱۶ص۲۳۰){8} عورت کا سر مُنڈوانا حرام ہے۔( خلاصہ ازفتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص۶۶۴) {9}عورت کو سر کے بال کٹوانے جیسا کہ اِس زمانے میں نصرانی عورتوں نے کٹوانے شروع کردیے ناجائز و گناہ ہے اور اس پر لعنت آئی۔ شوہر نے ایسا کرنے کو کہا جب بھی یہی حکم ہے کہ عور ت ایسا کرنے میں گنہگار ہوگی کیونکہ شریعت کی نافرمانی کرنے میں کسی کا (یعنی ماں باپ یا شوہر وغیرہ کا)کہنا نہیں مانا جائے گا۔ (بہارِشریعت حصّہ ۱۶ص۲۳۱) {10} بعض لوگ سیدھی یا اُلٹی جانب مانگ نکالتے ہیں یہ سنّتکے خلاف ہے {11} سنّت یہ ہے کہ اگر سر پربال ہوں تو بیچ میں مانگ نکالی جائے (ایضاً ) {12}(سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے) بِغیر حج کبھی سرمُنڈوانا ثابت نہیں (فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص۶۹۰ )
{13}آج کل قینچی یا مشین کے ذَرِیعے بالوں کو مخصوص طرز پر کاٹ کر کہیں بڑے تو کہیں چھوٹے کر دیئے جاتے ہیں ، ایسے بال رکھنا سنَّت نہیں {14} فرمانِ مصطَفٰیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم : ’’جس کے بال ہوں وہ ان کا اِکرام کرے۔‘‘ (سُنَنِ ابوداوٗد ج ۴ ص ۱۰۳ حدیث۴۱۶۳)یعنی ان کو دھوئے، تیل لگائے اور کنگھا کرے {15} حضرت سیِّدُنا ابراھیمخلیلُ اللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے سب سے پہلے مہمانوں کی ضِیافت کی اور سب سے پہلے ختنہ کیا اور سب سے پہلے مونچھ کے بال تراشے اور سب سے پہلے سفید بال دیکھا۔ عرض کی: اے رب! یہ کیا ہے؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: ’’اے ابراہیم! یہ وقار ہے۔‘‘ عرض کی: اے میرے رب! میرا وقار زیادہ کر۔ (موطا ج ۲ ص ۴۱۵ حدیث ۱۷۵۶ ) {16}دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ 16 صَفْحَہ224پر ہے: محبوبِ ربُّ العبادصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمانِ عبرت بُنیادہے : ’’جو شخص قصداً (یعنی جان بوجھ کر)سفید بال اُکھاڑے گا قِیامت کے دن وہ نیزہ ہوجائے گا جس سے اس کو بھونکا جائے گا۔‘‘ (کَنْزُ الْعُمّال ج ۶ ص۲۸۱رقم ۱۷۲۷۶) {17}بُچّی(یعنی وہ چند بال جو نیچے کے ہونٹ اور ٹھوڑی کے بیچ میں ہوتے ہیں اس) کے اَغَل بَغَل (یعنی آس پاس)کے بال مُونڈانا یا اُکھیڑنا بدعت ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۵ ص۳۵۸) {18} گردن کے بال مُونڈنا مکروہ ہے۔ (ایضاًص۳۵۷) یعنی جب سر کے بال نہ مُونڈائیں صرف گردن ہی کے مونڈائیں جیسا کہ بَہُت سے لوگ خط بنوانے میں گردن کے بال بھی مونڈاتے ہیں اور اگر پورے سر کے بال مونڈا دیے تو اِس کے ساتھ گردن کے بال بھی
دفن کردی جائیں ، بال، ناخن، حیض کالَتّا (یعنی وہ کپڑا جس سے عورت حیض کا خون صاف کرے) خون۔ (ایضاً ص۲۳۱، عالمگیری ج۵ ص۳۵۸) {20} مرد کو داڑھی یا سرکے سفید بالوں کو سُرخ یا زرد رنگ کر دینامُستَحَبہے، اس کیلئے مہندی لگائی جا سکتی ہے {21} داڑھی یا سر میں مہندی لگا کر سونا نہیں چاہئے ۔ ایک حکیم کے بقول اس طرح مہندی لگا کر سوجانے سے سر وغیرہ کی گرمی آنکھوں میں اُتر آتی ہے جو بینائی کے لئے مُضر یعنی نقصان دہِ ہے۔ حکیم کی بات کی تَوثِیق یوں ہوئی کہ ایک بار سگِ مدینہ عفی عنہ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اُس نے بتایا کہ میں پیدایشی اندھا نہیں ہوں ، افسوس کہ سر میں مہندی لگا کر سو گیا جب بیدار ہوا تو میری آنکھوں کانُور جا چکا تھا ! {22}مہندی لگانے والے کی مونچھ ،نچلے ہونٹ اور داڑھی کے خط کے کَنارے کے بالوں کی سفیدی چند ہی دنوں میں ظاہر ہونے لگتی ہے جو کہ دیکھنے میں بھلی معلوم نہیں ہوتی لہٰذا اگر بار بار ساری داڑھی نہیں بھی رنگ سکتے تو کوشِش کر کے ہر چار دن کے بعد کم از کم ان جگہوں پر جہاں جہاں سفیدی نظر آتی ہو تھوڑی تھوڑی مہندی لگا لینی چاہئے۔
ہزاروں سنّتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کُتُب (۱) 312 صفحات پرمشتمل کتاب بہارِ شریعت حصّہ 16 اور(۲) 120 صَفَحات کی کتاب ’’ سنّتیں اور آداب‘‘ہدِیّۃً حاصِل کیجئے اور پڑھئے۔ سنّتوں کی تربیّت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر بھی ہے۔
لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو سیکھنے سنّتیں قافلے میں چلو
ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
یقینا مَنبعِ خوفِ خدا صِدّیقِ اکبر ہیں حقیقی عاشقِ خیرُالوریٰ صدّیقِ اکبر ہیں
بِلا شک پیکرِ صبر و رِضا صدّیقِ اکبر ہیں یقینا مخزنِ صِدق و وفا صدّیقِ اکبر ہیں
نہایت مُتقی و پارسا صِدّیقِ اکبر ہیں تقی ہیں بلکہ شاہِ اَتقیا صِدّیقِ اکبر ہیں
جو یارِ غار محبوبِ خدا صدّیقِ اکبر ہیں وُہی یارِ مزارِ مصطفٰے صدّیقِ اکبر ہیں
طبیبِ ہر مریضِ لادوا صدّیقِ اکبر ہیں غریبوں بے کسوں کا آسرا صدّیقِ اکبر ہیں
امیرالمؤمنیں ہیں آپ امامُ المسلمیں ہیں آپ نبی نے جنّتی جن کو کہا صدّیقِ اکبر ہیں
سبھی اَصحاب سے بڑھ کر مقرَّب ذات ہے انکی رفیقِ سرورِ اَرض و سما صدیقِ اکبر ہیں
عمر سے بھی وہ افضل ہیں وہ عثماں سے بھی اعلیٰ ہیں یقینا پیشوائے مُرتَضٰی صدّیقِ اکبر ہیں
امامِ احمد و مالِک، ا مامِ بُو حنیفہ اور امامِ شافِعی کے پیشوا صدّیقِ اکبر ہیں
تمام اولیاء ُ اللہ کے سردار ہیں جو ا ُس ہمارے غوث کے بھی پیشوا صدّیقِ اکبر ہیں
سبھی عُلَمائے اُمّت کے، امام و پیشوا ہیں آپ بِلاشک پیشوائے اَصفیا صدّیق اکبر ہیں
خدا ئے پاک کی رحمت سے انسانوں میں ہر اک سے فُزوں تر بعد از کُل انبیا صدّیقِ اکبر ہیں
ہلاکت خیز طُغیانی ہو یا ہوں موجیں طوفانی کیوں ڈوبے اپنا بیڑا ناخدا صِدّیقِ اکبر ہیں
بھٹک سکتے نہیں ہم اپنی منزل ٹھوکروں میں ہے نبی کا ہے کرم اور رہنما صدّیقِ اکبر ہیں
گناہوں کے مرض نے نیم جاں ہے کر دیا مجھ کو طبیب اب بس مرے تو آپ یاصدّیقِ اکبر ہیں
نہ گھبراؤ گنہگار و تمہارے حشر میں حامی محبِّ شافِعِ روزِ جزا صِدّیقِ اکبر ہیں
نہ ڈر عطّارؔ آفت سے خدا کی خاص رحمت سے
نبی والی ترے، مُشکلکُشا صدّیقِ اکبر ہیں
[1] ...یہ بیان امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ 0اسلامی کے اوّلین مَدَنی مرکز جامع مسجد گلزارِ حبیب میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع (اندازاً ۳ رمضانُ المبارک ۱۴۱۰ھ/ 29-03-90) میں فرمایا تھا۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ
2... یعنی جس سال نامُرادو ناہَنجار اَبرہہ بادشاہ ہاتھیوں کے لشکرکے ہمراہ کعبۂ مشرَّفہ پر حملہ آور ہوا تھا۔ اِس واقِعے کی تفصیل جاننے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مَطْبوعہ کتاب ’’عجائب القرآن مع غرائب القرآن‘‘ کا مطالعہ کیجئے ۔
[3] ... اپنے بڑے شہزادے حضرتِ سیِّدُنا امام حَسَن مجتبیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت سے امیرُ المؤمنین حضرتِ سیِّدُناعلی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی کُنْیَت ’’ابو الحسن‘‘ ہے۔
[4] ۔۔۔ جو زَہر غزوۂ خیبر کے موقع پر زینب بنت حارث یہودیہ نے دیا تھا۔(مدارج النبوۃ ج ۲ ص ۲۵۰)
[5] ۔۔۔ یعنی بڑھائے،زیادہ کرے