اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

آقا كامہینا ([1])

 شیطٰن لاکھ سستی دلائے یہ بیان(32 صَفْحات)مکمَّل پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ                                     روزوں اور عبادتِ الہٰی کے جذبے سے مالا مال ہو جائیں گے۔

عاشِقِ دُرُود و سلام کا مقام

حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابو بکر شبلیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الولی ایک روز بغد ادِمعلّٰی کے جَیِّد عالِم حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر بن مجاہدعلیہ رَحمۃُ اللہِ الْواحِد کے پاس تشریف لائے،انہوں نے فوراً کھڑے ہو کر اُن کو گلے لگا لیا اور پیشانی چوم کر بڑی تعظیم کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا۔ حاضرین نے عرض کیا:یا سیِّدی! آپ اور اہلِ بغداد آج تک اِ نہیں دیوانہ کہتے رہے ہیں مگر آج ان کی اِس    قَدَر تعظیم کیوں ؟ جواب دیا: میں نے یوں ہی ایسا نہیں کیا،اَلْحَمْدُلِلّٰہآج رات میں نے خواب میں یہ ایمان افروز منظر دیکھا کہ حضرتِ سیِّدُ نا ابو بکرشبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الولی بارگاہِ رسالت


میں حاضِر ہوئے تو سرکار ِدو عالم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کھڑے ہوکر ان کو سینے سے لگا لیا اور پیشانی کو بوسہ دے کر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! شبلی پر اِس قَدَر شفقت کی وجہ؟ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (غیب کی خبر دیتے ہوئے) فرمایا کہ یہ ہر نَماز کے بعد یہ آیت پڑھتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)۱۱، التوبہ: ۱۲۸) اوراس کے بعد مجھ پر دُرُود پڑھتا ہے۔(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص ۳۴۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہینا

      رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شعبانُ الْمُعظَّم کے بارے میں فرمانِ مکرم ہے:شَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ اللہ۔ یعنی شعبان میرا مہیناہے اور رَمضان اللہ کا مہینا ہے۔(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۰۱حدیث۴۸۸۹)

شعبان کے پانچ حروف کی بہاریں

       سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ماہِ شعبانُ الْمعظَّم کی عظمتوں پر قربان ! اِ س کی فضیلت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے ’’ میرا مہینا‘ ‘فرمایا۔ سرکارِغوثِ اعظم شیخ عبدُ القادِر جِیلانی حنبلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الولی لفظ


’’شعبان‘‘ کے پانچ حروف: ’’ش، ع، ب ، ا ،ن‘‘ کے مُتعلِّق نقل فرماتے ہیں : ش سے مراد’’شَرف‘‘ یعنی بزرگی ،ع سے مراد’’ علو‘‘ یعنی بلندی،ب سے مراد’’بِر‘‘ یعنی اِحسان، ’’ا‘‘ سے مراد’’ اُلْفت‘‘ اور ن سے مراد ’’نور‘‘ ہے تو یہ تمام چیزیں اللہ تَعَالٰی اپنے بندوں کو اِس مہینے میں عطا فرماتا ہے،یہ وہ مہیناہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، برکتوں کانزول ہوتا ہے، خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور گناہوں کا کَفارہ ادا کیا جاتا ہے،اورخیرُالْبَرِیَّہ، سَیِّدُ الْوَریٰ جنابِ محمدِمُصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودِ پاک کی کثرت کی جاتی ہے اور یہ نبیِّ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود بھیجنے کا مہینا ہے۔(غُنْیَۃُ الطّالِبین ج۱ص۳۴۱،۳۴۲)

صَحابۂِ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا جذبہ

      حضرتِ سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : ’’ماہِ شعبان کا چاند نظر آتے ہیصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان تِلاوتِ قراٰنِ پاک کی طرف خوب مُتَوَجِّہ ہو جاتے، اپنے اَموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غربا ومساکین مسلمان ماہِ رَمضان کے روزوں کے لئے تیاری کرسکیں ، حکام قیدیوں کوطَلَب کرکے جس پر ’’حَد‘‘ (یعنی شرعی سزا) جاری کرنا ہوتی اُس پر حَد قائم کرتے ،بَقِیّہ میں سے جن کو مناسب ہوتا اُنہیں آزاد کردیتے، تاجر اپنے قرضے ادا کردیتے ، دوسروں سے اپنے قرضے وصول کرلیتے۔ (یوں ماہ ِ رَمَضانُ الْمبارَک سے قبل ہی اپنے آپ کو فارِغ کر لیتے) اور رَمضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کرکے (بعض حضرات ) اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔‘‘(ایضاً ص ۳۴۱ )

 


موجودہ مُسلمانوں کا جذبہ

       سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ!پہلے کے مسلمانوں کو عبادت کاکس قَدَرذَوق ہوتا تھا! مگر افسوس!آج کل کے مسلمانوں کو زیادہ تر حصولِ مال ہی کا شوق ہے۔ پہلے کے مَدَنی سوچ رکھنے والے مسلمان مُتَبرَّکایّام(یعنی برکت والے دنوں ) میں ربُّ الانام عَزَّ وَجَلَّ کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اُس کا قرب حاصل کرنے کی کوششیں کرتے تھے اور آج کل کے مسلمان مُبارَک دنوں ، خصوصاً ماہِ رَمَضانُ الْمُبَارَک میں دنیا کی ذلیل دولت کمانے کی نئی نئی ترکیبیں سوچتے ہیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ا پنے بندوں پر مہربان ہوکر نیکیوں کا اَجْر و ثواب خوب بڑھادیتا ہے، لیکن دنیا کی دولت سے مَحَبَّت کرنے والے لوگ رَمَضَانُ الْمُبَارَک میں اپنی  چیزوں کا بھاؤ بڑھا کر غریب مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کردیتے ہیں ۔صد کروڑ افسوس! خیرخواہیِٔ مسلمین کا جذبہ دم توڑتا نظرآ رہا ہے!   ؎

ا ے خاصۂِ خاصانِ رُسُل وقتِ دُعا ہے     اُمّت پہ تِری آکے عَجَب وَقْت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے      پردیس میں وہ آج غریبُ الغُرَبا ہے

فَریاد ہے اے کشتیِٔ اُمّت کے نگہبان

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

نفل روزوں کا پسندیدہ مہینا

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے دِلوں کے چین ،سرورِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ


 ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا پسند فرماتے ۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہبن ابی قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے امُّ المؤمنین سَیِّدَتُنا عائِشہ صدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو فرماتے سنا: انبیا کے سرتاج ، صاحب معراج  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پسندیدہ مہینا شعبانُ المُعَظَّم تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رَمَضانُ الْمُبارَک سے ملادیتے۔(سُنَنِ ابوداوٗد ج۲ص۴۷۶حدیث۲۴۳۱)

لوگ اس سے غافل ہیں

حضرتِ سیِّدُنا اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی:  یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اِس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے؟ فرمایا:رَجب اور رَمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے، لوگ اِس سے غافل ہیں ،اِس میں لوگوں کے اَعمال اللہُ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّ کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں ۔(سُنَن نَسائی ص ۳۸۷حدیث ۲۳۵۴)

مرنے والوں کی فہرس بنانے کا مہینا

        حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا سب مہینوں میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ


کے نزدیک زیادہ پسندیدہ شعبان کے روزے رکھنا ہے؟ تو محبوبِ ربُّ العِباد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سال مرنے والی ہر جان کو لکھ دیتا ہے اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرا وَقْتِ رخصت آئے اور میں روزہ دار ہوں ۔ (مُسْنَدُ اَبِیْ یَعْلٰی ج۴ص۲۷۷حدیث۴۸۹۰)

آقا شعبان کے اکثر روزے رکھتے تھے

        بخاری شریف میں ہے:حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے: اپنی اِستطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس وَقْت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اکتا نہ جاؤ۔(صَحیح بُخاری ج۱ص۶۴۸حدیث ۱۹۷۰)

حدیثِ پاک کی شرح

       شارِحِ بخاری حضرتِ عَلَّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :مراد یہ ہے کہ شعبان میں اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے تَغْلِیباً(تَغ۔لی۔باًیعنی غلبے اور زِیادت کے لحاظ سے)  کل(یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے) سے تعبیر کردیا ۔جیسے کہتے ہیں :’’فلاں نے پوری رات عبادت کی‘‘ جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اورضروریات سے فراغت بھی کی ہو، یہاں تَغْلِیباًاکثرکو ’’کل‘‘ کہہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں : اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قوت ہو وہ زیادہ سے زیادہ


روزے رکھے ۔البتہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رَمضان کے روزوں پر اثر پڑے گا،یہیمَحمَل (مَح۔مَل یعنی مرادو مقصد) ہے اُن احادیث کا جن میں فرمایا گیا کہ نصف (یعنی آدھے )شعبان کے بعد روزہ نہ رکھو ۔(تِرمذی حدیث ۷۳۸)   (نُزہۃُالقاری ج ۳ ص ۳۷۷ ، ۳۸۰ )

دعوتِ اسلامی میں روزوں کی بہاریں

    دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ فیضانِ سنَّت(جلد اوّل)‘‘ صَفْحَہ1379پر ہے:حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں : مذکورہ حدیث ِ پاک میں پورے ماہِ  شَعْبانُ الْمُعَظَّم کے روزوں سے مراد اکثر  شَعْبانُ الْمُعَظَّم(یعنی مہینے کے آدھے سے زیادہ دنوں )کے روزے ہیں ۔(مُکاشَفَۃُ القُلُوب ص ۳۰۳)اگر کوئی پورے شَعْبانُ الْمُعَظَّم کے روزے رکھنا چاہے تو اُس کومُمانعت بھی نہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّتبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کے کئی اسلامی بھائی اور اسلامی بہنوں میں رَجَبُ الْمُرَجَّب اور شَعْبانُ الْمُعَظَّم دونوں مہینوں میں روزے رکھنے کی ترکیب ہوتی ہے اور مسلسل روزے رکھتے ہوئے یہ حضرات رَمَضانُ الْمُبارَکسے مل جاتے ہیں ۔

شَعْبان کے اکثر روزے رکھنا سنّت ہے

      اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا رِوایت فرماتی ہیں : حضورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو میں نے شعبان سے زیادہ کسی مہینے


میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سِوائے چند دِن کے پورے ہی ماہ کے روزے رکھا کرتے تھے۔(سُنَنِ تِرمِذی ج۲ص۱۸۲حدیث۷۳۶)

تِری سنّتوں پہ چل کر مِری روح جب نکل کر

چلے تو گلے لگانا مَدَنی مدینے والے(وسائلِ بخشش (مُرَمَّم)  ص۴۲۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بھلائیوں والی راتیں

      اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :میں نے نبیِّ کریم، رء وفٌ رَّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالتَّسْلِيْم کو فرماتے سنا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ(خاص طور پر)چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے:{۱}بقر عید کی رات{۲}عیدُ الفطر کی(چاند) رات{۳}شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رِزق اور (اِس سال)حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں {۴} عرفے کی (یعنی 8اور9 ذُوالحجّہ کی درمیانی) رات اذانِ (فجر) تک۔(تفسیردُرِّ مَنثور ج ۷ ص ۴۰۲)

نازُک فیصلے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!پندرہ شَعْبانُ الْمُعَظّم کی رات کتنی نازُک ہے!نہ جانے کس کی قسْمت میں کیا لکھ دیا جائے! بعض اوقات بندہ غفْلت میں پڑا رَہ جاتا ہے اور اُس کے بارے میں کچھ کا کچھ ہوچکا ہوتا ہے ۔’’غُنْیَۃُ الطّالِبِین‘‘میں ہے: بہت سے کَفن


دُھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں مگرکفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں ، کافی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کی قبریں کھودی جا چکی ہوتی ہیں مگر اُن میں دَفْن ہونے والے خوشیوں میں مَسْت ہوتے ہیں ، بعض لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ اُن کی موت کا وَقت قریب آچکا ہوتا ہے۔کئی مکانات کی تعمیر ات کا کام پورا ہو گیا ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ان کے مالکان کی زندگی کا وَقت بھی پورا ہوچکا ہوتا ہے۔(غُنْیَۃُ الطّا لِبین ج۱ص۳۴۸ )

آگاہ اپنی موت سے کوئی بَشَر نہیں

سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ڈھیروں گناہگاروں  کی مغفِرت ہوتی ہے مگر۔۔۔

      حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے رِوایت ہے، حضور سراپا نور ، فیض گنجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل(عَلَیْہِ السَّلَام) آئے اور کہا : شعبان کی پندرَہویں رات ہے، اس میں اللہ تَعَالٰیجہنَّم سے اِتنوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کَلْب کی بکریوں کے بال ہیں مگرکافراور عداوت والے اور رِشتہ کاٹنے والے اورکپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نظر رَحمت نہیں فرماتا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۸۴ حدیث ۳۸۳۷) (حدیثِ پاک میں ’’ کپڑا لٹکانے والے‘‘ کا جو بیان ہے، اِس سے مراد وہ لو گ ہیں جو تکبُّر کے ساتھ ٹَخنوں کے نیچے تہبند یا پاجامہ یا ثَوب یعنی لمبا کرتا وغیرہ لٹکاتے ہیں ) کروڑوں حنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا

 

امام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللہ اِبنِ عَمْر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے جورِوایت نَقْل کی اُس میں قاتل کا بھی ذِکْر ہے ۔(مُسندِ اِمام احمد ج ۲ ص ۵۸۹ حدیث ۶۶۵۳)

     حضرتِ سَیِّدُنا کثیربن مرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت ، سراپا رَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ شعبان کی پندرَہویں شب میں تمام زمین والوں کو بخش دیتا ہے سوائے   مشرک اور عداوت والے کے۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج ۳ ص ۳۸۱ حدیث۳۸۳۰)

 حضرتِ داوٗد عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا

        امیرُ الْمؤمنین حضرت مولیٰ مشکل کُشا، سَیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ شیرخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم شَعْبانُ الْمُعَظّم کی پندرہویں رات یعنی شبِ براءَت میں اکثر باہر تشریف لاتے۔ ایک بار اِسی طرح شبِ براءَ ت میں باہر تشریف لائے اور آسمان کی طرف نَظَر اُٹھا کر فرمایا: ایک مرتبہ اللہ تَعَالٰی کے نبی حضرت سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے شعبان کی پندرہویں رات آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور فرمایا:یہ وہ وقت ہے کہ اس وَقت میں جس شخص نے جو بھی دُعا اللہ عَزَّ وَجَلَّسے مانگی اُسکی دعا اللہ عَزَّ وَجَلَّنے قبول فرمائی اور جس نے مغفرت طلب کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اسکی مغفرت فرمادی بشرطیکہ دُعا کرنے والا عشار (یعنی ظُلْماً ٹیکس لینے والا) ، جادوگر،کاہن اورباجا بجانے والا نہ ہو،پھر یہ دعا کی: اَللّٰھُمَّ رَبَّ دَاوٗدَ اغْفِرْ لِمَنْ دَعَاکَ فِیْ ہٰذِہٖ اللَّیْلَۃِ اَوِاسْتَغْفَرَکَ فِیْھَا۔ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اے دا وٗد  کے پروردگار!جو اِس رات میں تجھ سے دُعا کرے یا مغفرت طلب کرے تو اُس کوبخش دے۔ (لَطائِفُ الْمَعارِف لابن رجب الحنبلی ج۱ ص۱۳۷باختصار)


ہر خطا تُو درگزر کر بیکس و مجبور کی

  یا الٰہی! مغفرت کر بیکس و مجبور کی(وسائلِ بخشش (مرمَّم) ۹۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

محرُوم لوگ

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!شبِ بَرَاءَت بے حد اَہم رات ہے، کسی صورت سے بھی اسے غفلت میں نہ گزارا جائے، اِس رات رَحمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے ۔ اِس مبارَک شب میں اللہ تبارَک وَتعالیٰ ’’بنی کلب ‘‘ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو جہنَّم سے آزاد فرماتا ہے۔ کِتابوں میں لکھا ہے: ’’قبیلۂِ بنی کلب ‘‘قبائلِ عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا۔‘‘  ([2])آہ ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پر شبِ بَرَاءَت یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وَعید ہے۔حضرتِ سیِّدُنا امام بیہقی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’فَضائِلُ الْاَوقات‘‘ میں نقل کرتے ہیں : رسولِ اکرم، نُورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی: {۱} شراب کا عادی {۲}ماں باپ کا نافرمان {۳} زِناکا عادی {۴}قَطْع تعلق کرنے والا {۵}تصویر بنانے والا اور{۶}چغل خور۔  (فضائل الاوقات ج۱ص۱۳۰حدیث ۲۷) اِسی طرح کاہن ،جادوگر،تکبُّر کے ساتھ پاجامہ یا تہبندٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اور کسی

مسلمان سے بلا اجازت شرعی بغض و کینہ رکھنے والے پر بھی اِس رات مغفِرت کی سعادت سے محرومی کی وعید ہے،چنانچہ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ متذکرہ(یعنی بیان کردہ) گناہوں میں سے اگر مَعَاذَ اللہکسی گناہ میں ملوث ہوں تو وہ بالخصوص اُس گناہ سے اور بالعموم ہر گناہ سے شبِ بَرَاءت کے آنے سے پہلے بلکہ آج اور ابھی سچی توبہ کرلیں ، اور اگربندوں کی حق تلفیاں کی ہیں توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی مُعافی تلافی کی ترکیب فرما لیں ۔

امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا پیام تمام مسلمانوں کے نام

میر  ے آقا اعلٰی حضرت، اِمامِ اَہْلسُنّت، ولیِ نِعمت،عظیمُ البَرَکَت، عظیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شَمْعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت، ماحِیِ بِدعت، پیرِ طریقت،باعِثِ خَیْر وبَرَکت، حنفی مذہب کے عظیم عالِم و مفتی حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے اپنے ایک اِرادتمند (یعنی معتقد)کو شبِ برائَ ت سے قبل توبہ اور مُعافی تلافی کے تعلق سے ایک مکتوب شریف ارسال فرمایا جو کہ اُس کی اِفادِیت کے پیش نظر حاضر خدمت ہے  چنانچہ ’’ کُلِّیاتِ مکاتیب رضا ‘‘ جلد اوّلصَفْحَہ356  تا 357پر ہے : شبِ بَرَاءَت قریب ہے، اِس رات تمام بندوں کے اَعمال حضرتِ عزت میں پیش ہوتے ہیں ۔ مولا عَزَّ وَجَلَّ بطفیل حضورِ پر نور ،شافع یوم النشور عَلَيْهِ اَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالتَّسْلِيْممسلمانوں کے ذنوب (یعنی گناہ )معاف فرماتا ہے مگر چند ، ان میں وہ دو مسلمان جو باہم دُنیوی وجہ سے رَنجش


رکھتے ہیں ، فرماتا ہے : ’’اِن کورہنے دو، جب تک آپَس میں صلح نہ کرلیں ۔‘‘لہٰذا اہل سنت کو چاہئے کہحتَّی الْوَسْع قبل غروب آفتاب 14 شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کر لیں ، ایک دوسرے کے حقوق ادا کردیں یا معاف کرالیں کہ بِاِذْنِہٖ تَعَالٰی حُقُوقُ الْعِباد سے صحائف اَعمال (یعنی اعمالنامے) خالی ہو کر بارگاہِ عزت میں پیش ہوں ۔حقوقِ مولیٰ تعالیٰ کے لئے توبۂ صادِقہ(یعنی سچی توبہ) کافی ہے۔ (حدیثِ پاک میں ہے:)اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنبَ لَہٗ (یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں(ابن ماجہ حدیث۴۲۵۰)ایسی حالت میں بِاِذْنِہٖ تَعَالٰیضرور اِس شب میں اُمید مغفرت تامہ (تامْ۔مَہْ یعنی مغفرت کی پکی امید) ہے بشرطِ صحت عقیدہ۔(یعنی عقیدہ درست ہونا شرط ہے ) وَہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْم۔(اور وہ گناہ مٹانے والارحمت فرمانے والا ہے) یہ سب مُصالحت اخوان (یعنی بھائیوں میں صلح کروانا)ومعافیٔ حقوق بِحَمْدِہٖ تعالٰی یہاں سالہائے دراز (یعنی کافی برسوں )سے جاری ہے، اُمیدہے کہ آپ بھی وہاں کے مسلمانوں میں اس کااِجْرا کرکے  مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ اَجْرُھَا وَاَجْرُمَنْ عَمِلَ بِھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا یَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِ ہِمْ شَیٌٔ (یعنی جو اسلام میں اچھی راہ نکالے اُس کیلئے اِس کا ثواب ہے اور قیامت تک جو اس پر عمل کریں ان سب کا ثواب ہمیشہ اسکے نامۂ اعمال میں لکھا جائے بغیر اس کے کہ اُن کے ثوابوں میں کچھ کمی آئے ) کے مصداق ہوں اور اِس فقیر کیلئے عفْو وعافیت دارَین کی دُعا فرمائیں۔فقیر آپ کے لئے دُعا کرتا ہے اور کرے گا۔ سب مسلمانوں کو سمجھادیا جائے کہ

 

 

وَہاں (یعنی بارگاہِ الٰہی میں )نہ خالی زَبان دیکھی جاتی ہے نہ نفاق پسند ہے،صلح ومُعافی سب سچے دل سے ہو ۔ وَالسلام۔ فقیراحمد رضا قادِری عُفِیَ عَنْہٗ از: بریلی

پندَرہ شَعبان کا روزہ

       حضرتِ سَیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی شیر خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم، رء وْفٌ رَّحیم عَلَيْهِ اَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالتَّسْلِيْم کا فرمانِ عظیم ہے: جب پندَرَہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (یعنی عبادت)کرو اور دن میں روزہ رکھو۔بے شک اللہ تَعَالٰی  غروب آفتاب سے آسمانِ دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور کہتا ہے:’’ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ اُسے بخش دوں !ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اُسے روزی دوں !ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اُسے عافیت عطا کروں !ہے کوئی ایسا! ہے کوئی ایسا! اور یہ اُس وَقت تک فرماتا ہے کہ فجرطلوع ہو جائے ۔ ‘ ‘

(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۲ص۱۶۰حدیث ۱۳۸۸)

فائدے کی بات

     شبِ بَرَاءَت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں لہٰذا ممکن ہو تو 14 شَعبانُ الْمُعَظَّم کوبھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ اَعمال نامے کے آخری دن میں بھی روزہ ہو۔ 14شعبان کوعصر کی نمازباجماعت پڑھ کر وَہیں نفل اعتکاف کر لیا جائے اور نمازِ مغرب کے انتِظار کی نیت سے مسجد ہی میں ٹھہرا جائے تاکہ اعمالنامہ تبدیل ہو نے کے آخر ی لمحات میں مسجِد کی حاضِری، اعتکاف اور انتظارِ نماز وغیرہ کا ثواب لکھا جائے ۔ بلکہ


زہے نصیب! ساری ہی رات عبادت میں گزاری جائے۔

سبز پرچہ

     اَمیرُ المُؤمنینحضرتِ سَیِّدُناعمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  ایک مرتبہ شعبانُ المُعَظَّم کی پندرہویں رات یعنی شبِ براء ت عبادت میں مصروف تھے۔ سراُٹھایا تو ایک ’’سبز پرچہ‘‘ ملا  جس کا نور آسمان تک پھیلا ہواتھا،اُس پر لکھا تھا،’’ہٰذہٖ بَرَاءَۃٌ مِّنَ النَّارِ مِنَ الْمَلِکِ الْعَزِیْزِ لِعَبْدِہٖ عُمَرَ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْز‘‘ یعنی خدائے مالک وغالب کی طرف سے یہ ’’جہنَّم کی آگ سے آزادی کا پروانہ‘‘ہے جو اُس کے بندے عمر بن عبد العزیز کو عطا ہوا ہے۔ (تفسیر رُوحُ البَیان ج۸ص۴۰۲)

                        سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حکایت میں جہاں اَمیرُ المُؤمنین سَیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عظمت وفضیلت کا اظہار ہے وَہیں شبِ بَراءَ ت کی رِفعت و شرافت کا بھی ظہور ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّیہ مُبارَک شب جہنَّم کی بھڑکتی آگ سے بَرَاءَت (بَر۔ا۔ء۔ت یعنی چھٹکارا) پانے کی رات ہے، اِسی لئے اِس رات کو ’’شبِ بَرَاءَ ت ‘‘ کہا جاتا ہے۔

مغرِب کے بعد چھ نوافِل

        معمولاتِ اولیا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام  سے ہے کہ مغرب کے فرض وسنَّت وغیرہ کے بعد چھ رَکعت نفل(نَفْ۔لْ) دو دو رَکعت کر کے ادا کئے جائیں ۔پہلی دو رَکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے:’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّان دورَکعتوں کی بر کت سے مجھے درازیِ عمر بالخیر عطا فرما ۔ ‘‘ دوسری دو رَکعتوں میں یہ نیت فرمایئے:’’یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دو رکعتوں کی بَرکت سے بلاؤں سے


میری حفاظت فرما۔‘‘ تیسری دو رَکعتوں کیلئے یہ نیت کیجئے:’’ یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ ان دو رَکعتوں کی بر کت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔‘‘ان 6رَکعتوں میں سُوْرَۃُ  الْفَاتِحَہ کے بعد جو چاہیں وہ سورَتیں پڑھ سکتے ہیں ،چاہیں تو ہر رَکعت (رَکْ ۔عَت) میں سُوْرَۃُ  الْفَاتِحَہ کے بعد تین تین بار سُوْرَۃُ  الْاِخْلَاص  پڑھ لیجئے۔ ہر دو رَکعت کے بعداِکیس بار قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ (پوری سورت)یا ایک بار سُوْرَۂ یٰسٓ شریف پڑھئے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلند آواز سے یٰسٓشریف پڑھیں اور دوسرے خاموشی سے خوب کان لگا کر سنیں ۔ اس میں یہ خیال رہے کہ سننے والا اِس دَوران زَبان سے یٰسٓشریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے اور یہ مسئلہ خوب یاد رکھئے کہ جب قراٰنِ کریم بلند آواز سے پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کیلئے حاضر ہیں اُن پر فرضِ عین ہے کہ چپ چاپ خوب کان لگا کر سُنیں ۔اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّرات شروع ہوتے ہی ثواب کا اَنبار(اَمْ۔بار)لگ جائے گا۔ ہر بار یٰسٓشریف کے بعد’’ دُعائے نصف شعبان ‘‘بھی پڑھئے۔

دُعائے نصفِ شَعبانُ المُعظَّم

اَلْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ  ؕ    بِسْمِ اللہ  الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ

اَللّٰہُمَّ يَا ذَا الْمَنِّ وَلَا يُمَنُّ عَلَيْهِط يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ ط


يَا ذَا الطَّوْلِ وَالْاِنْعَامِ ط لَآاِلٰهَ اِلَّا اَنْتَط ظَهْرُ اللَّاجِيْنَطوَجَارُ الْمُسْتَجِيْرِيْنَط وَاَمَانُ الْخَآئِفِيْنَط اَللّٰہُمَّ اِنْ كُنْتَ كَتَبْتَنِيْ عِنْدَكَ فِيْ اُمِّ الْكِتٰبِ شَقِيًّا اَوْمَحْرُوْمًااَوْمَطْرُوْداًاَوْمُقَتَّرًا عَلَيَّ فِی الرِّزْقِ فَامْحُ اللّٰہُمَّ بِفَضْلِکَ شَقَاوَتِیْ وَحِرْمَانِيْ وَطَرْدِیْ وَاقْتِتَارَ رِزْقِیْط وَاَثْبِتْنِيْ عِنْدَكَ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا مُّوَفَّقًالِّلْخَیْرَاتِطفَاِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ فِيْ كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِطعَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِط(یَمْحُوا اللّٰهُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۚۖ-وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ(۳۹)((پارہ13، الرعد:39)،اِلٰہِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِط فِيْ لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَہْرِ شَعْبَانَ الْمُکَّرَمِطاَلَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْہَا کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَّیُبْرَمُطاَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ وَالْبَلْوَاءِ مَا نَعْلَمُ وَمَا لَا نَعْلَمُط  وَاَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُطاِنَّکَ
اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُط وَصَلَّی اللہُ  تَعَالٰی عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمَطوَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَO

ترجمہ: اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!  اے احسان کر نے والے کہ جس پر اِحسان نہیں کیا جاتا ! اے بڑی شان و شوکت والے! اے فضل واِنعام والے ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پریشان حالوں کا مدد گار، پناہ مانگنے والوں کوپناہ اورخوفزدوں کو امان دینے والا ہے ۔ اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! اگرتو اپنے یہاں اُمُّ الکتاب (یعنی لوحِ محفوظ ) میں مجھے شقی (یعنی بد بخت) ، محروم ، دھتکارا ہوا اور رِزق میں تنگی دیاہوا لکھ چکا ہوتو اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!اپنے فضل سے میری بدبختی ، محرومی ، ذلَّت اور رِز ق کی تنگی کو مٹادے اور اپنے پاس اُمُّ الْکِتابمیں مجھے خوش بخت، (کشادہ) رِزق دیاہوا اور بھلا ئیوں کی توفیق دیاہوا ثبت (تحریر) فرمادے ، کہ تو نے ہی تیری نازِل کی ہوئی کِتاب میں تیرے ہی بھیجے ہوئے نبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ فیض ترجمان پر فرمایا اور تیرا (یہ)فرمانا حق ہے: ’’ ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ جو چاہے مٹاتا ہے اور ثابِت کرتا ہے اور اصل لکھا ہوا اُسی کے پاس ہے ۔‘‘خدایا عَزَّ وَجَلَّ! تَجلّیِ اعظم کے وسیلے سے جو نصفِ شَعْبَانُ الْمُکرَّم کی رات (یعنی شبِ براء َت) میں ہے کہ جس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام اور اٹل کر دیا جاتا ہے ۔( یَااللہ!) آفتوں   کوہم سے دور فرما کہ جنہیں ہم جانتے اور نہیں بھی جانتے جبکہ تو انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہے ۔بے شک تو سب سے بڑھ کر عزیز اور عزت والا ہے ۔ اللہ تَعَالٰی ہمارے سردار محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آل واصحاب


رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ پر دُرُودو سلام بھیجے ۔ سب خوبیاں سب جہانوں کے پالنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لئے ہیں ۔

سگِ مدینہعُفِیَ عَنہٗ کی مَدَنی  التِجائیں

       اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ!سگِ مدینہعُفِیَ عَنْہٗ  کا سا لہا سال سے شبِ بَرَاءَت میں بیان کردہ طریقے کے مطابِق چھ نَوافل وتلاوت وغیرہ کا معمول ہے۔ مغرب کے بعد کی جانے والی یہ عبادت نفل ہے، فرض و واجب نہیں اورنمازِمغر ب کے بعد نوافِل وتلاوت کی شریعت میں کہیں مُما نعت بھی نہیں ۔ حضرتِعَلَّامہ اِبن رَجب حنبلی (حَم۔بَ۔لی) عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی لکھتے ہیں :ا ہلِ شام میں سے جلیل الْقدر تابعین مَثَلاً حضرتِ سیِّدُنا  خالِد بن مَعْدان ، حضرتِ سیِّدُنا مَکْحُول، حضرتِ سیِّدُنا لقمان بن عامر رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام  وغیرہ   شبِ بَراءَ ت کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس میں خوب عبادت بجا لاتے، انہی سے دیگر مسلمانوں نے اِس مبارک رات کی تعظیم سیکھی۔(لَطائِفُ الْمَعارِفج۱ ص۱۴۵)فقہ حنفی کی معتبر کتاب،’’ دُرِّمُخْتار‘‘ میں ہے :   شبِ براءت میں شب بیداری(کر کے عبادت) کرنا مستحب ہے ، (پوری رات جاگنا ہی شب بیداری نہیں) اکثر حصّے میں جاگنا بھی شب بیداری ہے۔ (دُرِّمُختارج۲ص۵۶۸، بہارِ شریعت ج۱ص۶۷۹)   مَدَنی التجا :ممکن ہو تو تمام اسلامی بھائی اپنی اپنی مساجد میں بعدِ مغرِب چھ نوافل وغیرہ کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں ۔اسلامی بہنیں اپنے اپنے گھر میں یہ اعمال بجا لائیں ۔  


سال بھر جادو سے حِفاظت

   دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ166 صفحات پر مشتمل کتاب ، ’’اسلامی زندَگی‘‘ صَفْحَہ135 پرہے:اگر اس رات(یعنی شبِ براء َت)  سات پتے بیری (یعنی بیر کے دَرخت ) کے پانی میں جوش د ے کر (جب پانی نہانے کے قابل ہو جائے تو )  غسل کرے اِنْ شَآءَاللہُ الْعَزِیْز  تمام سا ل جادو کے اثر سے محفوظ رہے گا۔

شبِ بَرَاءَ ت اور قبروں کی زیارت

   امُّ المؤمِنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :میں نے ایک رات سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو نہ دیکھا تو بقیع پاک میں مجھے مل گئے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا : کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ

 اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہاری حق تلفی کریں گے؟ میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ اَزواجِ مطہرات  (مُ۔طَہْ۔ہَرات) میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو فرمایا: ’’بیشک اللہ تَعَالٰی شعبان کی پندرَہویں رات آسمانِ دُنیا پر تجلی فرماتا ہے ،پس قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخش دیتا ہے۔‘‘(سُنَنِ تِرمِذی ج ۲ ص ۱۸۳ حدیث ۷۳۹ )

آتَشبازی کا مُوْجِد کون؟

               میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّشبِ براءَت جہنَّم کی آگ سے


’’بَراءَت‘‘ یعنی چھٹکارا پانے کی رات ہے،مگرصد کروڑ افسوس! مسلمانوں کی ایک تعداد آگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے خودپیسے خرچ کرکے اپنے لئے آگ یعنی آتشبازِی کاسامان خریدتی اور خوب پٹاخے وغیرہ چھوڑ کر اِس مقَدّس رات کا تقدُّس پامال کرتی ہے ۔ مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اپنی مختصر کتاب’’ اسلامی زندگی‘‘ میں فرماتے ہیں :’’اس رات کو گناہ میں گزارنا بڑی محرومی کی بات ہے آتشبازی کے متعلق مشہور یہ ہے کہ یہ نمرود بادشاہ نے ایجاد کی جبکہ اس نے حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کوآگ میں ڈالا اور آگ گلزار ہوگئی تو اُس کے آدمیوں نے آگ کے اَنار بھر کر ان میں آگ لگا کر حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی طرف پھینکے۔‘‘(اسلامی زندگی ص۷۶)

شبِ براء ت کی مُرَوَّجہ آتشبازی حرام ہے

          افسوس! شبِ براء ت میں ’’آتَشبازی‘‘ کی ناپاک رسم اب مسلمانوں کے اندر زور پکڑتی جارہی ہے۔’’ اسلامی زندگی ‘‘ میں ہے: مسلمانوں کالاکھوں روپیہ سالانہ اس رسم میں برباد ہو جاتا ہے اور ہر سال خبریں آتی ہیں کہ فلاں جگہ سے اِتنے گھر آتَشبازی سے جَل گئے اور اتنے آدمی جل کرمر گئے۔ اس میں جان کا خطرہ، مال کی بربادی اورمکانوں میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے،(نیز)اپنے مال میں اپنے ہاتھ سے آگ لگانا اور پھر خدا تعالیٰ کی نافرمانی کا وبال سر پر ڈالنا ہے، خد ا عَزَّ وَجَلَّ کیلئے اس بیہودہ اور حرام کام سے بچو، اپنے بچّوں

اورقرابت داروں کو روکو، جہاں آوارہ بچے یہ کھیل کھیل رہے ہوں وہاں تماشا دیکھنے کیلئے بھی نہ جاؤ۔(اَیضاً )(شبِ براءَت کی مُرَوَّجہ) آتش بازی کا چھوڑنا بلاشک اِسراف اور فضول خرچی ہے لہٰذا اِس کا ناجائز وحرام ہونا اور اسی طرح آتش بازی کابنانا اور بیچنا خریدنا سب شرعاًممنوع ہیں۔(فتاوی اجملیہ ج۴ص۵۲)میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : آتشبازی جس طرح شادیوں اور شبِ براء َت میں رائج ہے بیشک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں تضییع مال( تض۔یی ۔ عِ۔مال یعنی مال کا ضائِع کرنا) ہے۔ 

( فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۲۷۹)

آتش بازی کی جائز صورَتیں

       شبِ براءَت میں جو آتش بازی چھوڑی جاتی ہے اُس کا مقصد کھیل کود اور تفریح ہوتا ہے لہٰذا یہ گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔ البتّہ اِس کی بعض جائز صورَتیں بھی ہیں جیسا کہ بارگاہ ِ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ میں سُوال ہوا:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ آتَشبازی بنانا اور چھوڑنا حرام ہے یا نہیں؟ الجواب:ممنوع وگناہ ہے مگر جو صورتِ خاصّہ لَہْو ولَعِب وتَبْذِیرواِسراف سے خالی ہو(یعنی اُن مخصوص صورتوں میں جائز ہے جو کھیل کود اورفضول خرچی سے خالی ہو)، جیسے اعلانِ ہِلال(یعنی چاند نظر آنے کا اعلان) یا جنگل میں یا وقتِ حاجت شہر میں بھی د فعِ جانورانِ موذی(یعنی ایذا دینے والے جانوروں کو بھگانے کیلئے) یاکھیت یا میوے کے درختوں سے جانوروں (اور پرندوں ) کے بھگانے اُڑانے کو


ناڑِیاں ،پَٹاخے،تُو مڑیاں چھوڑنا۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۲۹۰)

تجھ کو شعبانِ معظَّم کا خدایا واسِطہ

بخش دے ربِّ محمد تو مری ہر اک خطا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

       شبِ براء َت میں عبادت کا جذبہ بڑھانے، اِس مقدّس رات میں خود کو آتَش بازی اور دیگر گناہوں سے بچانے نیز اپنے آپ کو باکردار مسلمان بنانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ،دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے ، ہرماہ کم از کم تین دن کے لئے عاشقانِ رسول کے ہمراہ’’ مَدَنی قافِلے‘‘میں سنّتوں بھرا سفر اختیار کیجئے اور مَدَنی انعامات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشِش فرمایئے۔ آپ کی ترغیب و تحریص کیلئے دو مَدَنی بہاریں پیش کی جاتی ہیں :

{1}شبِ بَراءَ ت کے اجتِما ع سے میرا دل چوٹ کھا گیا

     مرکزالاولیا (لاہور) کے ایک اسلامی بھائی کی تحریرکالب لباب ہے:تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی  کے’’ مدنی ماحول‘‘ سے وابستہ ہونے سے پہلے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ زیادہ تربدمذہبوں کی صحبت میں رہنے کے بہت بڑے گناہ کے ساتھ ساتھ دیگر طرح طرح کے گناہوں کی خوفناک دلدل میں بھی پھنساہواتھا،صدکروڑ افسوس کہ شب و روز فلمیں ڈرامے دیکھنا ، فحاشی کے اَڈوں کے پھیرے لگانا میرے نزدیک مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ


قابلِ فخر کام تھا ۔  میری گناہوں بھری خزاں رسیدہ شام کے اِختتام اور نیکیوں بھری صبح بہاراں کے آغازکے اسباب یوں بنے کہ ایک اسلامی بھائی کی اِنفرادی کوشش کی بَرَکت سے مجھے ’’ہِنجر وال‘‘ میں شبِ براءَ ت کے سلسلے میں ہونے والے سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی سعادت نصیب ہو گئی۔مبلِّغ دعوتِ اسلامی کابیان اس قَدَرپرسوزاوررِقت انگیزتھاکہ میں اپنے گناہوں پر ندامت سے پانی پانی ہو گیا ، اللہ عَزَّ وَجَلَّکی ناراضی کا کچھ ایسا خوف طاری ہوا کہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بہ نکلے۔اجتماع کے اختتام پرہمارے عَلاقے کے’’ مدنی قافِلہ ذمے دار‘‘اسلامی بھائی نے مجھ سے ملاقات فرمائی اور مجھے تین دن کے مَدَنی قافلے میں سفر کی ترغیب دی، چونکہ دل چوٹ کھاچکاتھا لہٰذا میں ان کی اِنفرادی کوشش کے نتیجے میں مَدَنی قافلے کا مسافِربن گیا۔ مَدَنی قافلے کے اندر عاشقانِ رسول کی شفقتوں بھری صحبت میں رہ کر بے شمار سنتیں سیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیں نے اپنے سابقہ تمام گناہوں سے توبہ کرلی۔جب رَمَضانُ المبارَک کی تشریف آوَری ہوئی تومیں نے عاشقانِ رسول کے ساتھ آخری عشرے کے اعتکاف کی سعادت حاصل کی۔اُس اعتکاف میں ستائیسویں شب ایک خوش نصیب اسلامی بھائی کو اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سرکارِ دو عالم، نورِمجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی زیارت نصیب ہوئی، اس بات نے میرے دل میں دعوتِ اسلامی  کیمَحَبَّت کومزید 12 چاند لگا دیئے اور میں مکمل طور پردعوتِ اسلامی  کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوگیا۔


آؤ کرنے لگو گے بَہُت نیک کام،  مدنی ماحول میں کرلو تم اعتکاف

فضلِ رب سے ہو دیدارِ سلطانِ دیں ،   مدنی ماحول میں کر لوتم اعتکاف

شا دمانی سے جھومے گا قلبِ حزیں ،

مدنی ماحول میں کرلو تم اعتکاف(وسائلِ بخشش(مُرَمَّم) ص ۶۴۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{2}فلموں کا خوار

       بابُ المدینہ( کراچی )کے عَلاقے ’’بڑابورڈ‘‘ کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ پہلے پہل میں مُعاشرے(مُ۔عا۔شَرے) کا بگڑا ہوانوجوان تھا ،روزانہ  پابندی کے ساتھ خوب فلمیں ڈرامے دیکھنے کے سبب مَحَلَّے میں ’’فلموں کا خوار‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیاتھا۔ میری توبہ کا سبب یہ بنا کہ ایک اسلامی بھائی کی ’’انفرادی کوشش ‘‘ کے نتیجے میں ’’ کَھجّی گراؤنڈ‘‘(گلبہار۔بابُ المدینہ) میں تبلیغِ قراٰن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کی طرف سے ہونے والے شبِ برائَ ت (برا۔ئَ۔ت) کے سنتوں بھرے اجتماعِ پاک میں شرکت کی سعادت حاصِل ہو گئی،وہاں پر میں نے ’’ قبر کی پہلی رات‘‘ کے موضوع پر رُلادینے والا بیان سنا ،  خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ سے دل بے چین ہوگیا ،میں نے پچھلے گناہوں سے توبہ کی اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوگیا۔ ہمارا سارا گھرانا ماڈَرن تھا، اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میری اِنفرادی کوشش سے میرے پانچ بھائی بھی


دعوتِ اسلامی والے بن گئے اورسب نے سروں پر عمامہ شریف کا تاج سجا لیا اور گھر کے اندر مَدَنی ماحول بن گیا، تادمِ تحریر حلقہ مُشاوَرت کے خادِم کی حیثیت سے سنتوں کی خدمت کررہا ہوں ۔مجھے سنتوں کی تربیت کے مَدَنی قافلوں میں سفر کا کافی شوق ہے، اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہر ماہ پابندی سے تین دن عاشقانِ رسول کے ساتھ مدنی قافلے میں سفر کرتا ہوں ۔

یقینا مُقَدَّر کا وہ ہے سکندر  جسے خیرسے مل گیا مَدنی ماحول

یہاں سنتیں سیکھنے کو ملیں گی       دِلائے گا خوفِ خدا مَدنی ماحول

اے بیمارِ عِصیاں تُو آجا یہاں پر

گناہوں کی دے گا دوا مَدنی ماحول(وسائلِ بخشش(مُرَمَّم) ص ۶۴۷۔۶۴۸)    

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت، شَہَنشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے  مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ  جنت  میں میرے ساتھ ہو گا ۔(اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)

سینہ تری سنّت کا مدینہ بنے آقا

جنّت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’شعبانُ المعظم ‘‘  کے گیارہ حُرُوف کی نسبت سے قبرِستان کی حاضِری کے 11 مَدَنی پھول

{1} نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظیم ہے: میں نے تم کو زیارتِ قُبُور سے منع کیا تھا، اب تم قبروں کی زیارت کرو کہ وہ دُنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخِرت کی یاد دلاتی ہے۔   (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۲ص۲۵۲حدیث۱۵۷۱)

 {2} (ولیُّ اللہ کے مزار شریف یا)کسی بھی مسلمان کی قَبْر کی زیارت کو جانا چاہے تو مُستَحَب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان پر (غیرِ مکروہ وقت میں ) دو رَکْعَت نَفْل پڑھے، ہر رَکْعَت میں سُوْرَۃُ  الْفَاتِحَہ

کے بعد ایک بار اٰیَۃُ الْکُرْسِی  اور تین بار سُوْرَۃُ  الْاِخْلَاص  پڑھے اور اس نَماز کا ثواب صاحبِ قَبْرکو پہنچائے،اللہ تَعَالٰی اُس فوت شدہ بندے کی  قَبْر میں نور پیدا کرے گا اور اِس(ثوا ب پہنچانے والے) شخص کو بَہُت زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔(فتاوٰی عالمگیری ج۵ص۳۵۰)

{3}مزارشریف یا  قَبْر کی زیارت کیلئے جاتے ہوئے راستے میں فضول باتوں میں مشغول نہ ہو۔(اَیضاً)

{4}قبرستان میں اُس عام راستے سے جائے،جہاں ماضی میں کبھی بھی مسلمانوں کی قبریں نہ تھیں ، جوراستہ نیابناہواہو اُس پرنہ چلے۔ ’’رَدُّالْمُحتار‘‘ میں ہے: (قبرستان میں قبریں پاٹ کر) جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے ۔(رَدُّالْمُحتار ج ۱ ص ۶۱۲ ) بلکہ


       نئے راستے کا صِرف گمانِ غالب ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔ (دُرِّمُختار ج ۳ ص ۱۸۳)

{5}کئی مزاراتِ اولیاء پر زائرین کی سہولت کی خاطر مسلمانوں کی قبریں مسمار کر کے(یعنی توڑ پھوڑ ) کر فرش بنادیا گیا ہے،ایسے فرش پر لیٹنا، چلنا ، کھڑا ہونا ، تِلاوت اور ذِکرو اَذکار کیلئے بیٹھناوغیرہ حرام ہے،دُور ہی سے فاتِحہ پڑھ لیجئے ۔

{6} زیارتِ قبر میِّت کے مُوَاجَہَہ میں (یعنی چہرے کے سامنے)  کھڑے ہو کر ہو اور اس( یعنی  قبر والے) کی پائنتی( پا۔اِن۔تِی یعنی قدموں ) کی طرف سے جائے کہ اس کی نگاہ کے سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئے کہ اُسے سر اُٹھا کر دیکھنا پڑے۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۹ص۵۳۲)

 {7}قبرستان میں ا ِس طرح کھڑے ہوں کہ قبلے کی طرف پیٹھ اورقبر والوں کے چِہروں کی طرف منہ ہو اس کے بعد کہئے:اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَ ثَرِ۔ترجمہ:اےقَبْر والو! تم پر سلام ہو،اللہ عَزَّ وَجَلّ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے آگئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں ۔(فتاوٰی عا لمگیریج ۵ ص ۳۵۰)

{8}جو قبرستان میں داخِل ہو کر یہ کہے اَللّٰہُمَّ رَبَّ الاْجْسَادِ الْبَالِیَۃِ وَالْعِظَامِ النَّخِرَۃِ الَّتِیْ خَرَجَتْ مِنَ الدُّنْیَا وَہِیَ بِکَ مُؤْمِنَۃٌ اَدْخِلْ عَلَیْہَا رَوْحًا مِّنْ عِنْدِکَ وَسَلاَمًا مِّنِّیْ۔ ترجمہ: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!(اے)


گل جانے والے جسموں اور بوسیدہ ہڈیوں کے رب!جو دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوئے تو ان پر اپنی رحمت اور میرا سلام پہنچا دے۔  توحضرتِ سیِّدُنا آدم(عَلَیْہِ السَّلَام) سے لے کر اس وقت تک جتنے مومن فوت ہوئے سب اُس (یعنی دُعا پڑھنے والے) کے لیے دعائے مغفِرت کریں گے۔(مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہج۱۰ ص۱۵)

{9}شفیع مجرمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کافرمانِ شفاعت نشان ہے: جو شخص قبرستان میں داخل ہوا پھر اُس نے سُوْرَۃُ  الْفَاتِحَۃ، سُوْرَۃُ  الْاِخْلَاص اور سُوْرَۃُ  التُّکَاثُر پڑھی پھر یہ دُعا مانگی: یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں نے جو کچھ قراٰن پڑھا اُس کا ثواب اِس قبرستان کے مومن مرد وں اور مومن عورَتوں کو پہنچا ۔ تو وہ تمام مومن قیامت کے روز اس( یعنی ایصالِ ثواب کرنے والے )  کے سفارشی ہوں گے۔ (شَرْحُ الصُّدُور، ص ۳۱۱)حدیثِ پاک میں ہے : جو گیارہ بار سُوْرَۃُ  الْاِخْلَاص  پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو پہنچائے ، تو مردوں کی گِنتی کے برابر اسے(یعنی ایصالِ ثواب کرنے والے کو) ثواب ملے گا۔(دُرِّمُختار،ج۳ ص ۱۸۳)

{10} قَبْر کے اوپر اگر بتی نہ جلائی جائے اس میں سوئے ادب( یعنی بے ادبی) اور بد فالی ہے ہاں اگر(حاضرین کو)خوشبو (پہنچانے) کے لیے(لگانا چاہیں تو) قَبْر کے پاس خالی جگہ ہو وہاں لگائیں کہ خوشبو پہنچانا محبوب (یعنی پسندیدہ) ہے۔  (مُلَخَّصاً فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۹ ص۴۸۲، ۵۲۵ )اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک اور جگہ فرماتے ہیں :’’صحیح مسلم شریف‘‘


میں حضرت عَمْرْوبِن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ، انھوں نے دمِ مرگ (یعنی بوقت ِوفات) اپنے فرزند سے فرمایا: ’’جب میں مرجاؤں تو میرے ساتھ نہ کوئی نوحہ کرنے والی جائے نہ آگ جائے ۔‘‘( مُسلِم ص۷۵حدیث۱۹۲)

{11} قَبْرپر چَراغ یا موم بتّی وغیرہ نہ رکھے ہاں رات میں راہ چلنے والوں کے لیے روشنی مقصود ہو، تو قَبْر کے ایک جانب خالی زمین پر موم بتّی یاچَراغ رکھ سکتے ہیں ۔

     ہزاروں سنّتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صَفْحات پر مشتمل کتاب بہارِ شریعت حصّہ 16 اور(۲) 120 صَفحات کی کتاب ’’ سنتیں اور آداب‘‘  ہدِیّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

یہ رسالہ پڑھ لینے کے بعد ثواب

کی نیّت سے کسی کو دے دیجئے

غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

یکمرَجَبُ الْمُرَجَّب ۱۴۳۶ھ

2015-04-21


مآخذ و مراجع

کتاب

مطبوعہ

کتاب

مطبوعہ

قرآن مجید

 

نزہۃالقاری

فرید بک اسٹال مرکز الاولیاء لاہور

تفسیردر منثور

دار الفکر بیروت

القول البد یع

مؤسسۃ الریان بیروت

تفسیر روح البیان

دار احیاء التراث العربی بیروت

غنیۃ الطالبین

دار الکتب العلمیۃ بیروت

صحیح بخاری

دار الکتب العلمیۃ بیروت

مکاشفۃ القلوب

دار الکتب العلمیۃ بیروت

مسلم

دار ابن حزم بیروت

شرح الصدور

مرکز اہلسنت برکات رضا الہند

سنن ابوداوٗد

دار احیاء التراث العربی بیروت

لطائف المعارف

دار ابن حزم بیروت

سنن ترمذی

دار الفکر بیروت

فضائل الاوقات

مکتبۃ المنارۃ مکۃ المکرمۃ

سنن نسائی

دار الکتب العلمیۃ بیروت

درمختار

دار المعرفۃ بیروت

ابن ماجہ

دار المعرفۃ بیروت

ردالمحتار

دار المعرفۃ بیروت

مسند امام احمد

دار الفکر بیروت

فتاوی عالمگیری

دار الفکر بیروت

مسند ابی یعلی

دار الکتب العلمیۃ بیروت

فتاوٰی رضویہ

 رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور

شعب الایمان

دار الکتب العلمیۃ بیروت

فتاوی اجملیہ

شبیر برادر مرکز الاولیاء لاہور

مصنف ابن ابی شیبہ

دار الفکر بیروت

بہار شریعت

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

جامع الصغیر

دار الکتب العلمیۃ بیروت

کلیات مکاتیب رضا

مکتبہ بحر العلوم گنج بخش روڈ مرکز الاولیاء لاہور

ابن عساکر

دار الفکر بیروت

اسلامی زندگی

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

مرقاۃ

دار الفکر بیروت

وسائل بخشش (مرمم)

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔



[1]۔۔۔  یہ بیان امیرِ اہلسنّتدامت برکاتہم العالیہ نے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی عالمی مَدَنی مرکز  فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع (۲۶رَجَبُ المُرَجَّب ۱۴۳۱؁ ھ/ 8-07-10) میں فرمایا تھا۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ

[2]۔۔۔  مرقاۃ ج۳ ص۳۷۵