اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

خزانے کے اَنبار([1])

شیطان لاکھ سُستی دلائے یہ بیان(39صَفحات) مکمّل پڑھ لیجئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ   وَجَلَّ

آپکوفکْرِ آخِرت کی دولت اور دُنیا سے بے رَغبَتی کی نِعمت مُیَسَّر آئے گی ۔

100 حاجَتیں پوری ہو ں گی

        سلطانِ دوجہان، مدینے کے سلطان،رَحمتِ عالَمِیان، سروَرِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنَّت نشان ہے: ’’جو مجھ پر جُمُعہ کے دن اور رات 100 مرتبہ دُرُود شریف پڑھے اللہ تَعَالٰیاُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخِرت کی اور30 دُنیا کی اور اللہ تَعَالٰی ایک فِرِشتہ مقرَّر فرمادے گا جو اُس دُرُودِ پاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف پیش کئے جاتے ہیں ، بِلاشبہ میرا علْم میرے وِصال کے بعد وَیسا ہی ہوگا جیسا میری حیات میں ہے۔‘‘ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی  ج۷ ص۱۹۹ حدیث۲۲۳۵۵ )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دریا میں گھوڑے دوڑادیئے

امیرُالْمُؤمِنِین، غَیْظُ الْمُنافقِین،امامُ الْعادِلِین،مُتَمِّمُ الْاَربَعِین، خلیفۃُ


 الْمُسلمینحضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دَورِ خِلافت میں حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی سِپَہ سالاری میں ’’جنگِ قادِسِیہ‘‘ میں لشکرِ اسلام نے شاندار کامیابی حاصل کی،اِس جنگ میں 30ہزارمَجوسی یعنی آتَش پَرَست موت کے گھاٹ اُترے جب کہ 8ہزار مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ’’قادِسِیہ‘‘ کی عظیم ُ الشّان فَتْح کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سَعدبن ابی وقّاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بابِل تک آتَش پرستوں کا تعاقُب کیا اور آس پاس کے سارے عَلاقے فَتْح کرلئے۔ ایران کا پایۂ تَخت (CAPITAL) مَدائِن جو کہ دریائے دِجلہ کے مشرِقی کَنارے پرواقِع تھا،یہاں سے قریب ہی تھا۔ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ہِدایت کے مطابِق حضرتِ سیِّدُنا سعد  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہمَدائِن کی طرف بڑھے، آتَش پرستوں نے دریا کا پُل توڑ دیا اور تمام کِشتیاں دوسرے کَنارے کی طرف لے گئے۔ اُس وقت دریا میں خوفناک طوفان آیا ہواتھااور اُس کو پار کرنا بظاہِرناممکِن نظر آتا تھا، حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے یہ کیفیت دیکھی تو  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا نام لے کر اپنا گھوڑا دریامیں ڈال دیا!دوسرے مجاہِدین نے بھی آپ کے پیچھے پیچھے اپنے گھوڑے دریا میں اُتار دیئے گویا ـ   ؎

دَشْت تو دَشْت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے               بَحرِ ظُلمات میں دَوڑادیئے گھوڑے ہم نے

        دَیو آ گئے! دَیوآگئے!!

        دُشمنوں نے جب دیکھا کہ مجاہِدین اسلام دریائے دِجلہ کے پھُنکارتے ہوئے پانی


کا سینہ چیرتے ہوئے مردانہ وار بڑھے چلے آرہے ہیں تو اُن کے ہوش اُڑ گئے اور ’’دَیواں آمَدَنْددَیواں آمَدَنْد‘‘( یعنی دَیوآگئے دَیوآگئے)کہتے ہوئے سر پر پَیر رکھ کربھاگ کھڑے ہوئے۔ شاہِ کِسریٰ کا بیٹا یَزد  گرد اپنا حَرَم ( یعنی گھر کی عورَتیں ) اور خزانے کا ایک حِصّہ پہلے ہی ’’حُلوَان‘‘ بھیج چکا تھا اب خود بھی مَدائِن کے درود یوار پر حسرت بھری نظر ڈالتا ہوا بھاگ نکلا۔ حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے’’مدائن‘‘ میں داخِل ہوئے تو ہر طرف عبرتناک سنّاٹا چھایا ہو اتھا، کِسریٰ کے پُرشِکوہ (پُر۔شِ۔کَو۔ہ) مَحَلّات ، دوسری بلند و بالا عمارات اور سرسبزو شاداب باغات زَبانِ حال سے دنیائے دُوں (یعنی حقیر دنیا )  کی بے ثَباتی (یعنی نا پائیداری ) کا اِعلان کر رہے تھے۔یہ منظر دیکھ کر بے اختیار حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے کی زَبانِ مبارک پر پارہ 25سُوْرَۃُ الدَّخَان  کی آیت نمبر25تا29جاری ہوگئیں ۔

كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ(۲۵)وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍۙ(۲۶)وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَۙ(۲۷)كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(۲۸)فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠(۲۹)

 ترجَمۂ کنزُ الایمان:کتنے چھوڑ گئے باغ اور چشمے او رکھیت اور عمدہ مکانات، اورنعمتیں جن میں فارِغُ البال تھے، ہم نے یونہی کیا، اور ان کا وارِث دوسری قوم کو کردیا، تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے اور انہیں مُہلَت نہ دی گئی ۔


سَونے کا گھوڑا اور سونے کی اُونٹنی

        مدائن سے مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں کروڑوں دینار (یعنی کروڑوں سونے کے سکّوں )کا خزانے کا انبار ہاتھ آیا جس میں نہایت ہی نادِر و نایاب چیزیں تھیں ، ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں : ایران کے مشہورآتَش پرست بادشاہ نَوشیرواں کا زَرنِگار(یعنی سونے کا)تاج، شاہانِ سَلَف( یعنی ایران کے گزرے ہوئے بادشاہوں کے یادگار ہیروں )سے جَڑاؤخنجر ، زِرہیں ، خَود اور تلواریں ،خالِص سونے کا قد آور گھوڑا جس کے سینے پر یاقُوت جَڑے  تھے، اُس پر سونے کا بنا ہوا ایک سُوارتھا جس کے سر پر ہیروں کا تاج تھا، اِسی طرح ایک طِلائی ( یعنی سونے کی) اُونٹنی اور اس کا طِلائی( یعنی سونے کا) سُوار ۔ اَیوانِ کِسریٰ (یعنی ایران کے بادشاہوں کے شاہی مَحَل) کا طِلائی فرش یعنی سَونے کا قالین (CARPET) جو بیش قیمت جواہِرات سے آراستہ تھا اور اس کا رَقبہ 60مُرَبَّع گز تھا وغیرہ وغیرہ ۔ مسلمان مالِ غنیمت جَمع کرنے میں ایسے دِیانت دار ثابت ہوئے کہ تاریخِ عالَم اِس کی مثال پیش کرنے سے قاصِرہے، اگر کسی مجاہِد کو ایک معمولی سی سُوئی ملی یا قیمتی ہیرا،اُس نے بِلاتاَ مُّل (تَ ۔اَم ْ۔م ُل )  اسے خزانے کے انبار (اَم ۔بار)میں شامِل کروادیا۔(البدایۃ والنھایۃ ج۵ص۱۳۵تا۱۴۰ بتصرف وغیرہ)

خزانے کے اَنبار کی پُکار

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے، ہمارے اَسلافِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے بَقائے اسلام کے لیے کیسے کیسے جانبازانہ اِقدام فرمائے! اِس حِکایت سے حضرتِ سیِّدُنا


سَعدبن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بے مثال کرامت بھی سامنے آئی کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بے خَطَراپنا گھوڑا دریائے دِجلہ کی بِپھری ہوئی موجوں میں ڈال دیا! اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خواہ کتنا ہی بڑا خزانے کا انبار ہو بِالآخِر بے کار ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب ایک بَہُت بڑے غفلت شِعاراسرائیلی مالدار کی عبرتناک حکایت آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ، اگر آپ کا دل زندہ ہوا تو اسے سُن کر اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو خَزانے کے انبار بالکل بیکار محسوس ہونے لگیں گے چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطْبُوعہ 412 صفْحات پرمُشتمِل کتاب ’’عُیُونُ الحِکایات‘‘ حصّہ اوّل، صفْحہ74 پر نقْل کردہ حِکایَت کا خُلاصہ مُلاحَظہ فرمائیے: حضرتِ سیِّدُنا یزیدبن مَیْسَرَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ پہلی اُمَّتوں میں ایک مال دار مگر کنجوس شخْص تھا، وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں کچھ بھی خرچ نہ کرتا، ہر وقْت کثرتِ دَھن کی دُھن (یعنی دولت کی لگن)میں مگن رہتا اوراِس کی پَیہَم کوشش رہتی کہ بس کسی طرح  مال بڑھتا رہے۔اُس ناعاقِبت اَندیش، حریصِ مال ودولت کی زندَگی کے شب وروز اپنے اَہل وعیال کے ساتھ خوب عَیْش وعِشْرت اور نہایت غَفْلت کے ساتھ بَسَرہو رہے تھے۔ایک دن  اُس کے گھر کے دروازے پر کسی نے دَستک دی۔ اُس غافِل دولت مند کے غلام نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک فقیر کو پایا،آنے کا مقصد پوچھا، جواب ملا:جاؤاور اپنے مالِک کو باہَربھیجو، مجھے اُس سے کام ہے۔ غلام نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا:’’وہ تو تیرے ہی جیسے کسی فقیر کی مدَد کرنے باہَر گئے ہیں ۔‘‘فقیر چلا


 گیا۔کچھ دیر بعد دَوبارہ دروازے پر دَستک پڑی، غلام نے دروازہ کھولا تووُہی فقیر نظر آیا ، اب کی بار اُس نے کہا:جاؤ! اپنے آقا سے کہو، مَیں مَلَکُ الْمَوت (عَلَیْہِ السَّلام) ہوں ۔ اُس مال کے نَشے میں دُھت اور یادِ خدا عَزَّوَجَلَّسے غافِل شخص کوجب یہ پتا چلا توتھرّا اُٹھااور گھبرا کر اپنے غلاموں سے کہنے لگا: ’’جاؤ! اور اُن سے اِنتِہائی نَرمی کے ساتھ پیش آؤ۔‘‘ غُلام باہَر آئے اور مَلَکُ الْمَوتعَلَیْہِ السَّلامکی مِنّت سَماجت کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے : ’’آپ ہمارے آقا کے بدلے کسی اور کی رُو ح قَبْض کر لیجئے اور اُسے چھوڑ دیجئے ۔ ‘‘ آپ عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا: ’’ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔‘‘ پھر اُس مالدار شخص سے کہا: تجھے جو وَصِیَّتکرنی ہے ابھی کرلے، میں تیری رُوح قبْض کئے بِغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔ یہ سُن کروہ مالدار شخص اور اُس کے اَہْل وعِیال چیخ اُٹھے اور رَو نا دَھونا مچا دیا، اُس شخص نے اپنے گھر والوں اور غلاموں سے کہا: سونے چاندی اور خزانوں کے صَندُو ق کھول کر میرے سامنے ڈھیر کردو۔فوراً حُکْم کی تعمیل ہوئی اوراس کے سامنے زندَگی بھر کے جمْع کئے ہوئے  خزانے کا اَنبار لگ گیا۔خزانے کے اَنبار کو مخاطَب کرکے وہ مالدار شخص کہنے لگا: ’’اے ذلیل وبَدترین مال ودولت! تجھ پر لعنت! میں تیری مَحَبَّت کی وجہ سے برباد ہوا،ہائے ! ہائے !میں تیرے ہی سبب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کی عبادت اورتیاریٔ آخِرت سے غافِل رہا ۔ ‘‘ خزانے کے اَنبار سے آوازآئی: اے مال و دولت کے پَرَستارپکّے دنیا دار اور غفلت شِعار! مجھے مَلامَت کیوں کرتا ہے؟ کیا تُو وُہی نہیں جو دُنیا داروں کی نظروں میں ذلیل وخوار تھا! پھرمیری وجہ سے آبرو دار بنا


 اورتیری رَسائی شاہی دَربار تک ہوئی، میری ہی بدولت تیرا نِکاح مالدار خاندان میں ہوا،یقینایہ تیری ہی بَدبختی ہے کہ تو مجھے شیطانی کاموں میں اُڑاتا رہا ،اگر توراہِ خدا میں خَرچ کرتا تو یہ ذِلّت ورُسوائی تیرا مُقَدّر نہ بنتی، بتا! کیا بُرے کاموں میں خرچ کرنے اور نیک کاموں میں صَرف نہ کرنے کا مشوَرہ میں نے دیا تھا؟ نہیں ،ہرگز نہیں ،تجھے پیش آنے والی تمام تَرتباہی کا ذِمّے دارتُو خود ہی ہے ،(اس کے بعد سیِّدُنا  مَلَکُ الْمَوتعَلَیْہِ السَّلامنے اُس کنجوس مالدار کی روح قبض کر لی )۔(عُیُونُ الحِکایات (عَرَبی) ص۴۹مُلَخَّصًا دار الکتب العلمیۃ بیروت )

دولتِ دُنیا کے پیچھے تُو نہ جا              آخِرت میں مال کا ہے کام کیا؟

                   مالِ دُنیا دوجہاں میں ہے وبال           کام آئے گا نہ پیشِ ذُوالْجَلال               (وسائل بخشش ص۳۷۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

  …جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے مال ودولت کے دیوانے کی قابِلِ عِبْرَت حِکایَتسماعت فرمائی کہ ایسا شخص جو عُمْر بھر عیش کوشیوں اورنفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑا رہا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ملی ہوئی ڈھیل سے بجائے سنبھلنے کے اُس کی غفلتوں کا سِلسِلہ طویل ہوتاچلا گیا، مال کے نَشے میں مَخمور، غریبوں اورمُحتاجوں کی امداد سے دُور اور عیّاشیوں میں مَسرور رہا۔آخِر کار’’ ایک دن مرنا ہے آخِر موت ہے ‘‘کے مِصداق موت کافِرِشتہ آپہنچا، اگرچِہ اُس وقت مال کا خُمار اُترا، ہوش ٹھکانے آئے لیکن’’ اب پچھتائے کیا ہَوت جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت۔‘‘مال و دولت کے حَریص اَفراد جنہیں دُنیا و آخِرت کے بربادہونے کی کوئی فکْر نہیں


 ہوتی اُن کے لئے اِس حِکایت میں درسِ عِبرت کے بے شمار مَدَنی پھولہیں ۔

گھپ اندھیری قبر میں جب جائے گا                بے عمل! بے انتِہا گھبرائے گا

کام مال و زر وہاں نہ آئے گا                        غافِل انساں یاد رکھ پچھتائے گا

                       جب ترے ساتھی تجھے چھوڑ آئیں گے                    قبر میں کیڑے تجھے کھا جائیں گے(وسائل بخشش ص۳۷۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مالِ کثیر میں کہیں خُفیہ تدبیر تو نہیں ؟

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ حقیقت ہے کہ بعض اَوقات اللہ عَزَّوَجَلَّ کثرتِ مال ومَنال سے نواز کر بھی آزمائش میں ڈال دیتا ہے، جیسا کہدعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صفْحات پر مشتمل کتاب ’’فیضانِ سنّت‘‘جلد اوّل صَفْحہ682پر ہے: صِحّت کی نعمت اور دولت کی کثرت اکثر مُبتَلائے مَعصِیَت کر دیتی ہے، لہٰذا جو (حسین وشانداریا) خوب جاندار یا (زبردست)مالدار یا صاحِبِ اقتِدارہو اُس کو خدائے علیم و خبیرعَزَّوَجَلَّ  کی خُفیہ تدبیرسے بَہُت زیادہ ڈَرنے کی ضَرورت ہے، جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا حَسَن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں : ’’ جس شخص پر اللہ عَزَّوَجَلَّ دُنیا میں (روزی میں خوب کثرت ، فرمانبردار اولاد کی نعمت، مال و دولت، حسین صورت، اچھی صِحّت، منصبِ وَجاہت، عُہدۂ وَ زارت یا صدارت یا حکومت وغیرہ کے ذَرِیعے)فراخی(فَ۔رَا۔خی) کرے مگر اُسے یہ اندیشہ نہ ہو کہ کہیں یہ (آسائشیں ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر تو نہیں ،تو ایسا شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر سے غافِل ہے۔ ‘‘(تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن  ص۱۲۸دارالمعرفۃ بیروت)


تو یہ  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ    کی طرف سے  ڈھیل ہے

         خبردار اے جاندار!خبردار اے شاندار! خبر دار اے مالدار!رخبر دار اے سرمایہ دار!خبر دار اے صاحِبِ اقتِدار!خبر دار اے افسر وعہدیدار! ربِّ عزیز و قدیر عَزَّوَجَلَّکی خُفیہ تدبیرسے خبر دار ! خبر دار!خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ ملی ہوئی جانی ،مالی یاحکومتی نعمتوں کے ذَرِیْعے ظلم، تکبُّر ، سر کشی اور طرح طرح کے گناہوں کا سِلسِلہ بڑھتا رہے اور کَسا کَسایا سُڈَول (یعنی خوبصورت) بدن اورمال و دَھن جہنَّم کا ایندھن بننے کا سبب بن جائے ۔ اِس ضِمْن میں حدیثِ نبَوِی علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاممَع آیتِ قراٰنی سنئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر سے تھرّایئے: حضرتِ سیِّدُنا عُقْبہ بن عامِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  سے رِوایت ہے، نبیِّ اَکرم، نورِ مُجَسَّم، رسولِ مُحتَشَم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عِبرَت نشان ہے:’’جب تم دیکھو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ دُنیا میں گناہ گار بندے کو وہ چیزیں دے رہا ہے جو اُسے پسند ہیں تو یہ اُس کی طرف سے ڈِھیل ہے۔ پھر یہ آیَتِ کریمہ تِلاوت فرمائی:

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ(۴۴) (پ۷، اَلْانعام: آیت۴۴)

ترجَمَۂ کنزالایمان:پھر جب اُنہوں نے بُھلا دیا جو نصیحتیں اُن کو کی گئی تھیں ، ہم نے اُن پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جب خوش ہوئے اُس پرجو اُنہیں ملا تو ہم نے اچانک اُنہیں پکڑ لیا اب وہ آس ٹوٹے رَہ گئے۔(مُسندِ اِمام احمد ج ۶ ص۱۲۲حدیث۱۷۳۱۳ دارالفکربیروت)


گُناہوں کو اچّھا سمجھنا کُفْر ہے

        مُفسِّرِشَہِیر ، حکیم ُ الا ُمّت مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان اِس آیَتِ کریمہ کے تَحت ’’تفسیرِ نورُ العِرفان‘‘میں فرماتے ہیں : اِس آیَتِ کرِیمہ سے معلوم ہوا کہ گناہ ومَعاصی کے باوُجُود دُنیو ِی راحتیں ملنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا غضَب اور عذاب (بھی ہو سکتا) ہے کہ اِس سے انسان اور زیادہ غافِل ہو کر گناہ پر دِلَیرہو جاتا ہے ، بلکہ کبھی خیال کرتا ہے کہ ’’گناہ اچّھی چیز ہے ورنہ مجھے یہ نعمتیں نہ ملتیں ‘‘ یہ کُفْرہے ۔ (یعنی گناہ کو گناہ تسلیم کرنا فرض ہے اِس کو جان بوجھ کر اچّھا کہنا یا اچّھا سمجھنا کُفْر ہے۔ کفریہ کلمات کی تفصیلات جاننے کے لئے  دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 692 صفْحات پر مشتمل کتاب ’’کفریہ کلِمات کے بارے میں سُوال جواب‘‘ کا مُطالَعہ فرمایئے)مزید فرمایا: نعمت پر خوش ہونا اگر فخر، تکبُّر اور شیخی کے طور پر ہو تو بُرا ہے اورطریقۂ کُفّار ہے اور اگر شُکْر کے لئے ہو تو بہتر ہے، طریقۂ صالحین ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مال کے بارے میں سُوال

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دُنیا کی ہر آسائش میں آزمائش ہے، قِیامت کے دن اِن آسائشوں (راحتوں ) اورکَشائشوں (یعنی فَراخِیوں ) کے مُتَعَلِّقسُوال ہونا ہے ۔ جس کو دُنیا میں جتنی زِیادہ نعمتیں اور وسائِل حاصل ہوں گے، اُس کو آخِرت میں اُسی قدَر مسائل بھی درپیش ہوں گے، جب بروزِ محشَر دُنیَوی مال واَسباب کے بارے میں سُوالات


 ہوں گے، مال کے غلَط اِستِعمال پر اللہ عَزَّوَجَلَّ عِتاب فرمائے گا تو غفلت شِعار مالدار کے سامنے یہ حقیقت کُھل کر آ جائے گی کہ’’مجھ جیسادُنیا کا امیر آخِرت کافقیر ہے۔‘‘ جیساکہ حضرتِ سیِّدُناابوذَر غِفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کا بَیان ہے کہ سردارِ مَکَّۂ مُکَرَّمَہ، سلطانِ مَدِیْنَۂ مُنَوَّرہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشاد فرمایا: ’’زیادہ مال و الے قِیامت کے دن کم ثواب والے ہوں گے، مگر جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ مال دے اور وہ اُسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دے اور اس میں نیک عمل کرے۔‘‘(صَحیح بُخاری ج۴ ص۲۳۱حدیث۶۴۴۳)

نِعمتوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی

        پارہ 30 سُوْرَۃُ التَّکاَثُر  کی آخِری آیَت میں اِرشادِ ربِّ اکبرعَزَّوَجَلَّہے:

ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠(۸)         ترجَمَۂ کنزالایمان : پھر بے شک ضَرور اُس دن تم سے نعمتوں کی پُر سِش ہو گی۔

 دوزخ کے کَنارینِعمتوں کے مُتَعلِّق سُوالات

        مُفسِّرِ شَہیر،حکیم ُالا ُمَّت مفتی احمد یارخان  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ المنّاننے ’’تفسیرِ نورُ العِرفان ‘‘میں اِس آیَتِ مبارَکہ کے تحت قدرے تفصیل کے ساتھ کلام فرمایا ہے،اِس میں سے بعض باتیں عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں : ’’میدانِ حشْر یا دوزخ کے کَنارے پر تم سے فِرِشتے یا خود رب تعالیٰ نعمتوں کے مُتَعَلِّق سُوال فرمائے گا اور یہ سُوال ہر نعمت کے مُتَعَلِّقہوگا، جسمانی یا رُوحانی ، ضَرورت کی ہو یا عیش وراحت کی، حتّٰی کہ ٹھنڈے پانی،


 دَرَخت کے سائے،راحت کی نیند کا بھی۔ مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں :بعدِ موت تین وقت اور تین جگہ حساب ہو گا،(۱) قَبْر میں ایمان کا(۲)حَشر میں ایمان واعمال کا (۳) دوزخ کے کَنارے نِعمتوں کے شُکر کا۔بِغیر استِحقاق جو عطا ہو وہ نعمت ہے، رب کا ہر عَطِیّہ نعمت ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی اِس کی دوقسمیں ہیں (۱) کسبی (۲) وَہبی ۔کَسبی یعنی وہ نعمتیں جو ہماری کمائی سے ملیں ، جیسے دولت ، سلطنت وغیرہ ۔وَہبییعنی وہ نعمتیں جو محض رب کی عطا سے ہوں ، جیسے ہمارے اَعضاء ، چاند ، سورج وغیرہ ۔ کسبی (یعنی اپنی کوششوں سے حاصل کئے ہوئے مال یا ہُنر ایسی) نعمت کے مُتَعَلِّق تین سُوال ہوں گے، (۱) کہاں سے حاصل کیں ؟(۲) کہاں خَرچ کیں ؟(۳) ان کاکیا شکریہ ادا کیا ؟ وَہبی (یعنی بغیر ہماری کوشش کے ملی ہوئی) نعمتوں کے مُتَعَلِّق آخِری دو سُوال ہوں گے(یعنی کہاں خرچ کیں ؟ان کا کیاشکریہ ادا کیا؟)۔تفسیرِخازِن،تفسیرِعزیزی، تفسیرِ روحُ الْبَیان وغیرہ میں ہے کہ مذکورہ آیَتِ کریمہ میں ’’اَلنَّعِیْم‘‘ سے نبیِّ کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْم کی ذات والا صِفات مُراد ہے، ہم سے حُضورِ اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں سُوال ہوگا کہ تم نے اِن کی اِطاعت کی یا نہیں ؟ کیونکہ حُضورِ پُرنور، شافِعِ یومُ النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو تمام نعمتوں کی اَصل ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت جس دل کو روشن کر دے، اُس کے لئے تمام نعمتیں رَحمتیں ہیں اور بدقسمتی سے جس کے دل میں رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مَحَبَّت نہ ہو اُس کے لئے سب نعمتیں زَحمتیں


 ہیں ، دولت ِ عُثمانی رَحمت تھی، دولتِ ابوجَہل زَحمت۔ ‘‘

صَدقہ پیارے کی حیاء کا کہ نہ لے مجھ سے حساب

          بخش بے پوچھے لَجائے کو لَجانا کیا ہے (حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

قِیامت میں مالداروں کے حساب کی لرزہ خیز کیفیت

       حلال مال جمع کرنابے شک گناہ نہیں ،نیز دولتمندی کی وجہ سے کسی مالدار کوگنہگار کہنا روا نہیں۔اگر100 فیصدی حلال مال کے سبب کوئی مالدار بنا اور اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کرتے ہوئے اُس نے اپنا مال خَرچ کیا تو گنہگار کُجا ثوابِ دارین کا حقدار ہے۔لہٰذا مال کمانا ہی ہے تو صرف وصرف حلال طریقے پر کمانا چاہئے ۔ مگر صِرف بقدر ضَرورت کمانے ہی میں عافِیَّت ہے، کیوں کہ حلال مال کا حساب ہو گا اوربروزِ قِیامت حساب کی کسی میں تاب نہ ہوگی ۔حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمدغزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی  اِحیاءُ الْعُلُوم کی تیسری جلد میں نَقل کرتے ہیں : ’’قِیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جس نے حرام مال کمایا اور حرام جگہ پرخَرچ کیا، کہا جائے گا:اسے جہنَّم کی طرف لے جاؤ اور ایک دوسرے شخص کو لایا جائے گا جس نے حلال طریقے سے مال کمایا اور حرام جگہ پر خَرچ کیا، کہا جائے گا:اسے بھی جہنَّممیں لے جاؤ،پھر ایک تیسرے شخص کو لایا جائے گا جس نے حرام ذرائِع سے مال جَمع کرکے حلال


جگہ پرخَرچ کیا، کہا جائے گاـ:اسے بھی جہنَّممیں لے جاؤ پھر(چوتھے) ایک اور شخص کو لایا جائے گا جس نے حلال ذرائِع سے کما کر حلال جگہ پر خَرچ کیا، اُس سے کہا جائے گا: ٹھہر جاؤ! ممکِن ہے تم نے طلبِ مال میں کسی فرض میں کوتاہی کی ہو، وقت پر نَماز نہ پڑھی ہو، اور اس کے رُکوع وسُجُود اور وُضو میں کوئی کوتاہی کی ہو! وہ کہے گا:  یَا اللہ  عَزَّ وَجَلَّ!میں نے حلال طریقے پر کمایا اور جائز مَقام پرخَرچ کیا،اور تیرے فرائض میں سے کوئی فَرض بھی ضائِع  نہیں کیا۔کہا جائے گا:ممکن ہے تو نے اس مال میں تکبُّرسے کام لیا ہو ،سُواری یا لباس کے ذَرِیعے دوسروں پرفَخْرظاہِر کیا ہو! وہ عَرض کرے گا: اے میرے رب!میں نیتکبُّر بھی نہیں کیا اورفَخْرکا اظہار بھی نہیں کیا ۔کہا جائے گا:ممکن ہے تو نے کسی کا حق دبایا ہو جس کی ادائیگی کا میں نے حکم دیا ہے کہ اپنے رشتے داروں ،یتیموں ، مسکینوں اور مسافِروں کو ان کا حق دو! وہ کہے گا:اے میرے رب!میں نے ایسا نہیں کیا،میں نے حلال طریقے پر کمایا اور جائز مقام پرخَرچ کیااور تیرے کسی فَرض کوترک نہیں کیا،تکبُّر وغُرُور بھی نہیں کیا اور کسی کا حق بھی ضائِع نہیں کیا ،تُو نے جسے دینے کا حکم دیا (میں نے اُسے دیا)۔

       پھر وہ سب لوگ آئیں گے اور اس سے جھگڑا کریں گے، وہ کہیں گے: یَا اللہ  عَزَّ وَجَلَّ ! تُو نے اسے مال عطا کیا اور مال داربنایااور اسے حکم دیا کہ وہ ہمیں دے اور ہماری مدد کرے۔ اب اگر اس نے ان کو دیا ہوگا،اور فرائض میں کوتاہی بھی نہیں کی ہوگی، تکبُّر اور فخر بھی نہیں کیا ہوگا پھر بھی کہا جائے گا رُک جا!میں نے تجھے جو بھی نعمت عنایت کی تھی،


خواہ وہ کھانا تھا،پانی تھا یا کوئی سی بھی لذّت ،ان سب کا شکر ادا کر،اِسی طرح سُوال پر سُوال ہوتا رہےگا۔‘‘(اِحیاءُالعُلوم ج۳ ص۳۳۱ دارصادربیروت)

سُوال اُس سے ہو گاجس نے حلال کمایا ہو گا

       یہ روایت نقل کرنے کے بعد سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی نے جو کچھ فرمایا ہے اُس کو اپنے انداز میں عرض کرنے کی سعی کرتا ہوں :میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بتایئے!  اِن سُوالات کے جوابات دینے کے لیے کون تیار ہوگا؟سُوالات اُس آدَمی سے ہوں گے جس نے حلال طریقے پر کمایا ہو گا نیزتمام حُقُوق اور فرائض بھی کما حَقُّہٗ(مکمَّل طور پر) ادا کیے ہوں گے۔جب ایسے شخص سے یہ حِساب ہوگا تو ہم جیسے لوگوں کا کیا حال ہوگا جو دُنیوی فِتنوں ،شُبہوں ، نفسانی خواہشوں ،آرائشوں اور زینتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ! ان سُوالات ہی کے خوف کے باعث اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے دُنیا اور اس کے مال ومَتاع سے آلُودہ ہونے سے ڈرتے ہیں ،وہ فَقَط ضَرورت کے مطابِق مختصر سے مالِ دُنیا پرقَناعت کرتے ہیں اوراپنے مال سے طرح طرح کے اچّھے کام کرتے ہیں ۔حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِینیک بندوں کے کثرتِ مال سے بچنے کی کیفیت بیان کرنے کے بعد عام مسلمانوں کو’’ نیکی کی دعوت ‘‘ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :آپ کو اُن نیک لوگوں کے طریقے کو اختیار کرنا چاہئے، اگر اس بات کوآپ اِس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ آپ اپنے خیال میں پرہیزگار اور نہایت ہی محتاط ہیں اورصرف حلال


 مال کماتے ہیں اور کمانے سے مقصود بھی محتاجی اورسُوال سے بچنا اور راہِ خدا میں خَرچ کرنا ہے اورآپ کا ذِہن یہ بنا ہوا ہے کہ میں اپنا حلال مال نہ توگناہوں میں صَرف کرتا ہوں نہ ہی اِس سے فُضُول خَرچی کرتا ہوں نیز مال کی وجہ سے میر ا دل اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کے پسندیدہ راستے سے بھی نہیں بدلتا اور اللہ  عَزَّ وَجَلَّ میرے کسی ظاہِر اور پوشیدہ عمل سے ناراض بھی نہیں ہے، اگرچِہ ایسا ہونا ناممکِن ہے۔باِلفَرض ایسا ہو تب بھی آپ کو چاہئے کہ صِرف ضَرورت کے مطابِق مال پرہی راضی رہیں اور مال داروں سے علیٰحِدگی اختیار کریں ،اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگاکہ جب ان مالداروں کو قِیامت میں حساب کیلئے روکا جائے گا توآپ پہلے ہی قافلے کے ساتھ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے پیچھے آگے بڑھ جائیں گے اورآپ کو حساب و کتاب اورسُوالات کے لیے نہیں روکاجائے گا کیونکہ حساب کے بعد نَجات ہوگی یا سختی۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبیِّ اکرم، نُورِ مُجَسَّم،شاہِ بنی آدم ، نبیِّ مُحتَشَم،شافِعِ اُمَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’فُقَراء مُہاجِرین ،مالدار مُہاجِرین سے پانچ سو سال پہلے جنَّت میں جائیں گے۔‘‘(تِرمِذیحدیث ۲۳۵۸)   (ماخوذاً اِحیاء العُلوم ج۳ ص۳۳۲)

مجھ کو دنیا کی دولت نہ زَر چاہئے

شاہِ کوثر کی میٹھی نظر چاہئے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


مال کا اِستِعمال اوراُخرَوی وبال

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دُنیَوِی نعمتوں اور راحتوں سے مالا مال لوگوں کومال کے اِستِعمال کے وقْت خبردار رہنا چاہئے کہ اِس کے غَلَط اِستِعمال کا اَنجام اُخرَوِی وبال ہے، یونہی مال ودولت کی بے جا  مَحَبَّت گناہوں پر اُکساتی، دربدر پِھراتی، لُوٹ مار کرواتی حتّٰی کہ لاشیں گِرواتی ہے اور جب یہ دولت کسی مُحبِّ مال کے ہاتھ سے نکلنے پر آتی ہے تو بے حد ستاتی اور خُوب تڑپاتی اور رُلاتی ہے،لہٰذا ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین مال ودولت کے مُعامَلے میں نِہایَت ہی مُحتاط تھے۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو الدَّرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے حضرتِ سیِّدُنا سَلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو ایک مکتوب روانہ فرمایا جس میں تھا: اے میرے بھائی! دُنیا سے اِتنا کچھ جمْع نہ کرو کہ حقِّ شکْر ادا نہ کر سکو، میں نے اَنبیاء کے تاجْدار، شَہَنْشاہِ اَبرار،دو۲ عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرماتے سنا ہے کہ بروزِ قِیامت ایک ایسے مال دار شخص کو لایا جائے گا  جس نے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی فرماں برداری میں زندَگی بَسَر کی ہو گی، پُلْ صراط پار کرتے ہوئے اُس کا مال اس کے سامنے ہوگا، جب وہ لڑکھڑانے لگے گا تو اُس کا مال کہے گا:’’چلتے جاؤ! کیونکہ تم نے مجھ سیمُتَعَلِّق اللہ تَعَالٰی  کا حق ادا کردیا ہے۔‘‘پھر ایک اور مال دار کو لایا جائے گا،جس نے دُنیا میں اپنے مال میں سے اللہ تَعَالٰی کا حق ادا نہیں کیا ہو گا، اُس کا مال اُس کے دونوں کندھوں کے درمیان ہو گا، وہ شخص جب پُلْ صِراط پر لڑکھڑائے گا تو اُس کا مال اُس سے کہے گا : تُو برباد ہو! تُو نے


مجھ سے اللہ تَعَالٰی کا حق کیوں ادا نہیں کیا؟ پس وہ اسی طرح ہلاکت وبربادی کو پکارتا رہے گا۔(تاریخ دِمَشق لابن عَساکِر ج۴۷ص۱۵۳دارالفکربیروت)

تیری طاقت،تیرا فن، عُہدہ تِرا                   کچھ نہ کام آئے گا سَرمایہ تِرا

دبدبہ دُنیا ہی میں رہ جائے گا             زور تیرا خاک میں مل جائے گا

              جیتنے دنیا سکندر تھا چلا          جب گیا دنیا سے خالی ہاتھ تھا (وسائل بخشش ص ۳۷۵، ۳۷۶)

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ رِوایت میں عِبرت ہے اُن صاحِبانِ ثَروَت وحیثیت کے لئے جو فرض ہونے کے باوُجُود زکوٰۃ دینے سے کتراتے، اپنی دولت  کوگناہوں کے کاموں میں گَنواتے، بھلائی کے کاموں میں خَرچ کرنے سے جی چُراتے اور محتاجوں کی مددسے جان چُھڑاتے ہیں ۔ غور فرمالیجئے کہ آج خو ش حال کردینے والا مال بروزِ قِیامت وبال کی صورت اِختِیار کرگیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ کاش!ہمارے دلوں سے دُنیا ومالِ دُنیا کی بے جا مَحَبَّت نکل جائے اور ہماری قَبْر وآخِرت بہتر ہو جائے۔

مِرے دل سے دُنیا کی اُلفت مِٹا دے               مجھے اپنا عاشِق بنا یاالٰہی!

تُو اپنی وِلایَت کی خیرات دے دے                مِرے غوث کا واسِطہ یاالٰہی!

مَدَنی اِنْعامات میں اَسلاف کی یاد

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بَیان کردہ رِوایتِ مُبارَکہ سے یہ بھی پتا چلا کہ اپنے اِسلامی بھائیوں کو مکتو بات کے ذَریعے نیکی کی دعوت پیش کرناصَحابۂ کِرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سنَّتِ کریمہ ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ !تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالَمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی دیگر مَدَنی خوبیوں کی حامِل ہونے کے ساتھ ساتھ اَسلافِ کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام


کی یاد بھی تازہ کرتی ہے جیسا کہ نیکی کی دعوت پر مُشتَمِل مدَنی مکتوبات روانہ کرنا۔ اِس کی ترغیب دلاتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی طرف سے پیش کردہ 72 مَدَنی اِنعامات میں سے مدَنی اِنعام نمبر 57 ہے:}’’کیا آپ نے اِس ہفتے کم ازکم ایک اسلامی بھائی کو مکتوب روانہ فرمایا؟‘‘(مکتوب میں مَدنی اِنعامات اور مدَنی قافِلے کی ترغیب دلائیں ){آپ سے بھی مدَنی التِجا ہے کہ’’ دعوتِ اسلامی ‘‘کے مدنی ماحول سے تادمِ حیات مُنسَلِک رہئے، ’’مَدَنی اِنعامات‘‘کے مطابِق عمَل کی کوشِش کیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ  بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین کے فُیُوضات اور دُنیا وآخِرت کی کثیر برکات حاصِل ہوں گی اورکثرتِ دولت کی ہَوَس کے بجائے نیکیوں کی کثرت کی حِرص بڑھے گی۔

دے جذبہ ’’مَدَنی اِنْعامات‘‘ کا تُو                  کرَم ہو دعوتِ اسلامی پر یہ

                   کرَم بہرِ شہِ کرب و بَلا ہو                         شریک اِس میں ہر اِک چھوٹا بڑا ہو(وسائل بخشش ص۹۱)

                                                                                                                                                                                                                                                                                                اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

 دَھن کمانے کی دُھن

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج ہمارے مُعاشَرے میں اَکثر لوگوں کے ذِہنوں پردولتوں اور خزانوں کے اَنبار جمْع کرنے کی دُھن سُوار ہے اور اِس راہِ پُرخار میں خواہ کتنی ہی تکالیف سے دوچار ہونا پڑے، پرواہ نہیں ،بس! ہر وقْت دولتِ دُنیا جمع کرنے کی حِرص ہے، اگر کبھی آخِرت کی بھلائی کے لئے نیکیوں کی دولت اکٹھّی کرنے کی طرف


 تَوَجُّہدلائی بھی جائے تو مُلازَمَت یا کاروباری مصروفِیَّت وغیرہ کے بہانے آڑے آجاتے ہیں ، بال بچوں کا دُنیوی مستقبِل سنوارنے کی کوشِشوں میں اپنا اُخرَوی مستقبِل بھول جاتے ہیں ، اَولاد کی دُنیوی پڑھائی پھر اُن کی شادی کی فِکْر کسی اور طرف ذِہن جانے ہی نہیں دیتی۔ اَولاد کے دُنیَوِی مستقبِل کی بہتری کے لئے ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین کا کیسا مَدَنی ذِہن تھا! یہ بھی مُلاحَظہ فرمائیے چُنانچِہ

عُمَر بن عبدُ العزیزکی مَدَنی سوچ

   دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ415 صَفْحات پر مشتمل کتاب ’’ضِیائے صَدَقات‘‘ صفْحہ83 پرہے کہ حضرتِ سیِّدُنا مَسْلَمَہ بن عَبدُ الْمَلِک عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمَلِکحضرتِ سیِّدُنا عُمَربن عبدُ العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ظاہِری حیات کے آخِری لمحات میں حاضِر ہوئے اور کہا:اے اَمیرُ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی بے مِثال زندَگی گزار کر دُنیا سے تشریف لے جارہے ہیں ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے 13بچّے ہیں لیکن وِراثت میں اُن کے لئے کوئی مال و اسباب نہیں چھوڑا!یہ سن کرحضرتِ سیِّدُنا عمرَبن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اِرشاد فرمایا: میں نے اپنی اَولاد کا حق روکا نہیں اور دوسروں کا اِن کو دیا نہیں اور میری اَولاد کی دو حالَتیں ہیں اگر وہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی اِطاعت کریں گے تو وہ اُن کو کِفایَت فرمائے گا کیونکہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  نیک لوگوں کوکِفایَت فرماتا ہے اور اگر میری اولاد نافرمان ہوئی تو مجھے اِس بات کی پرواہ نہیں کہ میرے بعدمالی


 اعتبار سے اُن کی زندَگی کیسے گزرے گی۔ (اِحیاءُ الْعُلومج۳ص۲۸۸ )

اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مَغْفِرَت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں یہ یاد رہے کہ اگر کسی کے پاس مال ہے تو اسے یہی حکم ہے کہ  صَدَقہ کرنے کے بجائے اولاد کی ضَرورت کے لئے رکھ چھوڑے ۔

مِرے غوث کا وسیلہ،رہے شاد سب قبیلہ

             اِنہیں خُلد میں بسانا، مَدَنی مدینے والے (وسائلِ بخشش ص۱۶۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

آزمائش میں کامیابی کی صورت

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بِلاحاجت دُنیوِی مال ودولت جمع کرنے کا جذبہ قابلِ تعریف نہیں اور جسے اللہ  عَزَّوَجَلَّنے بکثرت دُنیوی دولت عنایت فرمائی ہو اُس کیلئے کامیابی کی صورت یِہی ہے کہ وہ اُس کو اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کے مطابِق خَرچ کر کے نیکیوں کی دولت میں اِضافہ کرے چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 417 صفْحات پر مُشتمِل مُنْفَرِد کتاب ’’لُبابُ ا  لاِحیاء‘‘صَفْحَہ258 پر ہے: حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اِ رشاد فرمایا: ’’دُنیا کو آقا نہ بناؤ ورنہ وہ تمہیں غلام بنا لے گی، اپنا مال اُس ذات


کے پاس جمع کرو جس کے پاس سے ضائِع نہیں ہوتا کیونکہ جس کے پاس دُنیا کا خزانہ ہو اُسے(چوری ہو نے یا چِھن جانے وغیرہ کی ) آفت کا ڈر ہوتا ہے،لیکن(صدقہ وخیرات کر کے) اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کے پاس اپنا مال جمع کرانے والے کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا۔‘‘ ( لُبابُ الاِحیاءُ(عربی)ص۲۳۱ماخوذاً  دارالبیروتی دمشق)

تِرے غم میں کاش عطّارؔ،رہے ہر گھڑی گرِفتار

غمِ مال سے بچانا، مَدَنی مدینے والے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

آفات سے نَجات کا ذَرِیْعہ

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ابھی آپ نے مُلاحَظہ فرمایا کہ خالقِ کائنات، اللہُ رَبُّ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰت عَزَّوَجَلَّکی راہ میں صدَقہ و خیرات کرنا  بے حد فائدے کا سودا ہے اور اس سے مال محفوظ ہو جاتا ہے۔ یقینا صَدَقہ و خیرات آفات سے نَجات کا ذَرِیعہ ہے، لہٰذا ہر ایک کو چاہئے اپنے مال سے حسبِ توفیق و وُسعَت صدَقہ وخیرات کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ بَہُت ساری آفتوں اور مصیبتوں سے حِفاظَت ہوگی۔ چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ رِسالہ ’’راہِ خدا میں خَرچ کرنے کے فضائِل‘‘ میں اعلیٰ حضرت، امام اہلِ سنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک رِوایت نقْل کرتے  ہیں : ’’اَلصَّدَقَۃُ تَمْنَعُ سَبْعِیْنَ نَوْعًا مِّنْ اَنْوَاعِ الْبَلاءِ اَھْوَنُہَا الْجُذَامُ


وَالْبَرَصُیعنی صدَقہ70    قسم کی بلاؤں کو روکتا ہے جن میں آسان تر بلا بدن بگڑنا(کوڑھ) اور سفید داغ ہیں (تاریخ بغداد ج۸ ص۲۰۴دار الکتب العلمیۃ بیروت)

        لُقمے کے بد لے لُقمہ

      سُبْحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ !صدَقہ واقِعی بلاؤں کو دفْع کرتا ہے ۔اِس ضِمْن میں ایک ایمان افروزحِکایت سماعت فرمائیے چُنانچِہحضرتِ سیِّدُنا امام عبد اللہ بن اَسعَد یافِعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِی ’’رَوْضُ الرِّیَاحِیْن‘‘میں نقْل فرماتے ہیں : اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی رضا کیلئے ایک عورت نے کسی محتاج(یعنی مسکین) کوکھانا دیااور پھر اپنے شوہر کو کھانا پہنچانے کھیت کی طرف چل پڑی،اُس کے ساتھ اُس کا بچّہ بھی تھا، راستے میں ایک دَرِندے(یعنی پھاڑ کھانے والے جانور) نے بچّے پر حملہ کر دیا، وہ دَرِندہ بچّے کو نگلنا ہی چاہتا تھا کہ ناگہاں (یعنی اچانک) غیب سے ایک ہاتھ ظاہِرہوا جس نے اُس دَرِندے کو ایک زوردارضَرب لگائی اوربچّے کو چُھڑا لیا، پھر غیب سے آواز آئی: ’’اے نیک بخت! اپنے بچّے کو سلامَتی کے ساتھ لے جا! ہم نے لُقمے کے بدلے تجھے لُقمہ عطا کر دیا۔‘‘ (یعنی تُو نے غریب کو کھانے کا لُقمہ کِھلایا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تیرے بچّے کو دَرِندے کا لُقمہ بننے سے بچا لیا)۔ (رَوْضُ الرَّیاحِین ص ۲۷۴ ) اللہ عَزّ   َوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدْقے  ہماری بے حساب مَغْفِرَت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

رہِ حق میں سبھی دولت لُٹا دوں

                   خدا ! ایسا مجھے جذبہ عطا ہو      (وسائل بخشش ص۹۱)


شیطان کا غلام کون؟

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جسے مالِ دُنیا ملنے کے ساتھ ساتھ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں خرْچ کرنے کا جذبہ بھی مل گیا وہ توسعادت مند ٹھہرا لیکن جو غفلَت میں ڈالنے والی دُنیوی آسایشوں میں مُنہمِک رہا اورنفسانی خواہِشات کی پَیروی کی، اُس نے گویا شیطان کی غلامی اِختِیار کی جیسا کہحُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمدغزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی اِحیا ءُالْعُلُوم میں نَقل کرتے ہیں : جب سب سے پہلے دِرہَم و دِینارتیار ہوئے تو شیطان نے اُن کو اُٹھا کر اپنی پیشانی پر رکھا پھر اُن کو چُوما اور بولا : جس نے تم سیمَحَبَّت کی حقیقت میں وہ میرا غلام ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج ۳ص۲۸۸)

......وہ ذلیل خوار ہو

        میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!ہمارے بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِیندُنیوِی مال ودولت  اور اِس کی فکْر سے آزاد اور تَوَکُّلوقناعت کی دولت سے مالا مال تھے، دُنیَوی مستقبِل سے بڑھ کراُخروی مستقبِل کی فکْر میں مَگن رہنے والے سعادت مند تھے، وہ اِس حقیقت سے اچّھی طرح واقِف تھے کہ دولت کی مَحَبَّت باعث رُسوائی وذِلّت ہے، جیسا کہ مشہور ومقبول وَلیُّ اللّٰہحضرتِ سیِّدُنا شیخ شِبْلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِیکا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے: جس نے دولتِ دُنیا کے ساتھ پیار کیا وہ ذلیل وخوارہوا۔(رَوْضُ الرَّیاحِینص۱۳۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت)            


مِرا دل پاک ہو سرکار دُنیا کی مَحَبَّت سے

                             مجھے ہو جائے نفرت کاش! آقا مال ودولت سے               (وسائل بخشش ص۱۳۳)

مَحَبّتِ مال ودولت کی تباہ کاریاں

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقِعی مال ودولت کی مَحَبَّت انسان کو خواری وذلّت کے عمیق(یعنی گہرے) گڑھے میں دھکیل دیتی ہے،اگرچِہ بعض اَوقات انسان دُنیا میں تھوڑی بہت عزّت وشہرت حاصل کر بھی لیتا ہے مگر اکثر اُخروی تباہی وبربادی اُس کا مقدَّر بن جاتی ہے۔دولت کے نشے میں مست رہنے والوں کے لئے حضرتِ سیِّدُناشیخ شِبْلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِیکے بیان کردہ اِرشاد میں عبرت ہی عبرت ہے۔ مال ودولت کی مَحَبَّت میں اندھا ہونے والا اَنجامِ آخِرت سے بالکل غافِل ہوکر اَحکامِ شریعت کو پسِ پُشت ڈال دیتا ہے پھر اُسے حکْمِ خدا عَزَّوَجَلَّ کی پرواہ رہتی ہے،نہ ہی ارشادِ مصطَفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا پاس۔ یقینا فکْرِ مال ودولت فکْرِ آخِرت سے غفلت میں ڈالتی اوربے شمار گناہوں کا سبب بنتی ہے جن میں سے چند یہ ہیں : ترکِ زکوٰۃ وعُشْر، سُود ورِشوت کا لین دَین، بُخل کی نُحُوست، قطْعِ رِحمی(یعنی رشتے داری توڑنا)، جھوٹ اور ناحق دوسروں کا مال دبا لیناوغیرہ۔

مال کی دِینی ودُنیَوِی آفات

        دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ853 صفْحات پر مشتمل کتاب ’’جہنَّم میں لے جانے والے اعمال‘‘ جلد1 صَفْحَہ565 تا 567 پر شیخُ الاسلام،


 شہابُ الدِّین امام احمد بنحَجَر مکّی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  نے مال ودولت کی آفات تفصیلاً بیان فرمائی ہیں ، اُن میں سے چندکا ذِکر کرتا ہوں :

دِینی آفات

        مال ودولت کی کثرت انسان کو گناہوں پر اُبھارتی اور پہلے مُباح(یعنی جائز) لذّات کی طرف لے جاتی ہے حتّٰی کہ وہ اُن کا اِس قدَر عادی ہو جاتا ہے کہ اُس کے لئے  اُنہیں چھوڑنا انتہائی مشکِل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اگر وہ حلال کمائی کے ذریعے اُنہیں حاصل نہ کرسکے تو بسا اوقات حرام کام کرنے لگتا ہے، کیونکہ جس کے پاس مال کثرت سے ہو، اُسے لوگوں سے میل جول اور تعلُّقات بڑھانے کی بھی زیادہ ضَرورت ہوتی ہے اور جو اِس چیز میں مبتَلا ہو جائے وہ عُمُوماً لوگوں سے مُنَافَقَت سے پیش آئے گا اور اُنہیں راضی یا ناراض کرنے کے مُعامَلے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کا مُرتکِب ہو گا تو اِس کے نتیجے میں وہ عداوت، کینہ، حسد، ریاکاری،تکبُّر، جھوٹ، غیبت، چغلی وغیرہ کا باعث بننے والے دیگر کئی بڑے بڑے گناہوں میں مبتَلاہو جائے گا۔

دُنیَوِی آفات

        مال داروں کو لاحِق ہونے والی دُنیوی آفات میں خوف و غم، پریشانی، مَصائب کا سامنا، اَمارت(یعنی مالداری) برقرار رکھنے کے لئے ہر دم مال کمانا اور اُس کی حفاظت کرنا وغیرہ دیگر کئی آفات شامل ہیں ۔


 مال کا غلام ہلاک ہو

        امام ابن حجرعلیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ الاکبرفرماتے ہیں :مال نہ تو مطلقاً خیر(یعنی بھلائی کی چیز) ہے نہ ہی مَحض شَر ( یعنی بُرائی کی شے)  مال بعض اوقات قابلِ تعریف ہوتا ہے اور کبھی قابلِ مذمّت۔لہٰذا جس نے کِفایت (ضَرورت)  سے زیادہ حصہ حاصل کیا گویا خود کو ہلاکت پر پیش کیا،کیونکہ طبیعتیں ہدایت سے روکنے والی ہیں اورشَہوات وخواہِشات کی طرف مائل رہتی ہیں اور مال ان میں آلے کا کام دیتا ہے۔تو ایسی صورت میں ضَرورت سے زائد مال میں سخت خطرات ہیں ۔مزید آگے چل کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

 نے حدیثِ پاک نقل کی ہے کہ شفیعِ روزِ شُمار،دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشاد فرمایا: ’’دِرہَم ودینارکاغلام ہلاک ہو۔‘‘  (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۴  ص۴۴۱حدیث۴۱۳۶دارالمعرفۃ بیروت)

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کاش! ہم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُصوصی رَحمت کا نُزُول ہو کہ ہم دولتِ دُنیا سے پیار کرنے اور اِسی سوچ بِچار میں گُم رہنے کے بجائے اُخرَوی سعادتوں کی طرف دھیان دینے والے بن جائیں اور یہ اِستِغاثہ(یعنی فریاد) ہمارے حق میں دَرَجۂ قَبولیّت کا شرَف پا لے:

قلیل روزی پہ دو قناعَت                 فُضُول گوئی سے دیدو نفرت

                   دُرود پڑھنے کی بس ہو عادت                      نبیِّ رَحمت، شفیعِ اُمّت  (وسائلِ بخشش ص۱۰۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


اگر آپ سُد ھرنا چاہتے ہیں تو …

                      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ سے مَدَنی اِلتِجا ہے کہ دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول اپنا لیجئے کہ یہ ماحول خزانوں کا اَنبار اِکٹھّے کرنے کے بجائے اَبدی سعادَتوں کا حقدار بننے کا ذِہن دیتا ہے،لہٰذا اگر آپ سُدھرنا چاہتے ہیں تو دل سے دُنیا کی بے جا مَحَبَّت نکالنے، رِضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ حاصل کرنے کی تڑپ قلب میں ڈالنے، سینہ سنّتِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مدینہ بنانے،مال ودولت کو صحیح مَصرَف(یعنی خرچ کی دُرُست جگہ)میں اِستِعمال کرنے کاعلْم پانے اور دل کو فکرِ آخِرت کی آماجگاہ بنانے کیلئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے، مَدَنی اِنعامات کے مطابِق زندگی گزارئیے اورسُنَّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں  کے مسافِر بنتے رہئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ دونوں جہاں میں بیڑا پار ہوگا۔آپ کی ترغیب و تَحریص کیلئے ایک مَدَنی بہار پیش کی جاتی ہے چُنانچِہ

ویڈیوسینڑختم کردیا

        لانڈھی(باب المدینہ،کراچی)کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کاخلاصہ ہے: ہمارے علاقے میں ایک مبلّغِ دعوتِ اسلامی نیکی کی دعوت کو عام کرنے کے عظیم جذبے کے تحت بڑی مستقل مزاجی سے چوک درس دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ اس چوک درس میں ایک  ویڈیوسینٹروالے کو بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوگئی ۔جب مبلغ دعوتِ اسلامی


 نے فیضانِ سنّت کا درس شروع کیاتوخوفِ خدا عَزَّ  وَجَلَّ اور عشقِ مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بھرپور،فکرِعاقِبت سے معمور الفاظ تاثیرکا تیربن کر ’’ویڈیو سینڑ والے ‘‘کے دل میں پیوست ہوگئے، بعدِ درس جب اسلامی بھائیوں نے اُن پراِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے دعوت اسلامی کے ہفتہ وارسُنَّتوں بھرے اجتِماع کی دعوت پیش کی تو فوراََراضی ہوگئے ۔اور شرکت بھی کی جس کی بَرَکت سے اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان میں تبدیلی آنے لگی ،کچھ ہی عرصے میں انہوں نے ویڈیوسینڑ ختم کردیا اور دھاگے کا کاروبار شروع کرکے حلال روزی کی طلب میں مشغول ہو گئے ۔

مالِ دنیا ہے دونوں جہاں میں وبال،      آپ دولت کی کثرت کا چھوڑیں خیال

قبر میں کام آئے گاہر گز نہ مال،          حشر میں ذَرّے ذَرّے کا ہو گا سُوال

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مال جَمْعْ کرنے نہ کرنے کی صورَتیں

                   میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مال جمع کرنے نہ کرنے کی صورتوں کے متعلّق بارگاہِ رضویت میں ہونے والے’’سُوال وجواب‘‘ کے مختلف اِقتباسات پیش کرتا ہوں ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کی معلومات میں بے حد اِضافہ ہوگا: سُوال :ایک شخص جو اَہل و عِیال(یعنی بال بچّے) رکھتا ہے اپنی ماہانہ یا سالانہ آمدنی سے بِلا اِفراط وتَفرِیط(یعنی بِغیر کمی وزِیادَتی کے) اپنے بال بچّوں پرخَرچ کر کے بقایا خدا کی راہ میں دیتا ہے آئِند ہ کو اَہل وعِیال


کے واسِطے کچھ نہیں رکھتا ،دوسرا اپنی آمدنی سے بچّوں پرایک حصّہ خَرچ کرکے دوسرا حصّہ خیرات کرتا اور تیسرا حصّہ آئندہ انکی ضَرورتوں میں کام آنے کی غَرَض سے رکھ چھوڑنے کو اچّھا جانتا ہے،ان دونوں میں افضل کون ہے؟

       الجواب:حُسنِ نیّت ( یعنی اچّھی نیّت ) سے دونوں صورَتیں مَحمود(بَہُت خوب) ہیں ، اور بَاِختِلافِ اَحوال (یعنی حالات مختلِف ہونے کی وجہ سے ) ہر ایک (کبھی) افضل ، کبھی واجِب، وَلہٰذا اس بارے میں احادیث بھی مختلف آئیں اور سَلَفِ صالِح (یعنی بزرگانِ دین ) کا عمل بھی مختلِف رہا۔

اَقُول ُوَبِاللّٰہِ التَّوْفِیق(اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی توفیق سے میں کہتا ہوں )اس میں قَولِ مُوْجَزْ و جَامِع (یعنی مختصر وجامِع قول ) اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ یہ ہے کہ آدَمی دو  قسم (کے) ہیں :(۱)  مُنْفَرِد کہ تنہا ہو اور(۲) مُعِیْلکہ عِیال(یعنی بال بچّے وغیرہ) رکھتا ہو، سُوال اگر چِہ مُعِیْلسیمُتَعلِّق ہے مگر ہرمُعِیْل اپنے حقِّ نفس (یعنی خود اپنے بارے) میں مُنْفَرِد اور اس پر اپنے نفس(یعنی اپنی ذات) کے لحاظ سے وُہی اَحکام ہیں جو مُنْفَرِد پر ہیں لہٰذا دونوں کے اَحکام سے بَحث درکار۔ {1}وہ اَہلِاِنْقِطَاعوَ تَبَتُّل اِلَی اللّٰہاَصْحابِ تَجْرِیْد وَتَفْرِیْد (یعنی ایسے لوگ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاطِر دنیا سے کَنارہ کَشی اختیار کر لی ہو اور ان پر اہل وعِیال کی ذمّے داری نہ ہو یا انکے اہل و عِیال ہی نہ ہوں ) جنھوں نے اپنے رب سے کچھ (مال)نہ رکھنے کا عَہد باندھا (وعدہ کیا )ان پر اپنے عَہْد کے سبب تَرکِ اِدّ ِخار (یعنی مال جمع نہ کرنا )لازِم ہوتا ہے اگرکچھ بچارکھیں


 تونَقْضِ عَہْد(یعنی وعدہ خِلافی) ہے اور بعدِ عہد پھر جَمع کرنا ضَرور ضُعفِ یقین سے نَاشِیٔ (یعنی یقین کی کمزوری کی وجہ سے ہے ) یا اُس کامُوْہِمْ ( یعنی وہم ڈالنے والا ) ہوگا، ایسے (حَضرات )   اگر کچھ بھی ذَخیرہ کریں مستِحقِ عِقاب( یعنی سزاکے حق دار) ہوں ۔

{2}فَقر و توکُّل ظاہِر کرکے صَدَقات لینے والا اگر یہ حالت مُستَمِر (مُسْ۔ت َ۔مِرْ یعنی برقرار) رکھنا چاہے تو اُن صَدَقات میں سے کچھ جمع کر رکھنااُسے ناجائز ہوگا کہ یہ دھوکا ہوگا اور اب جوصَدَقہ لے گا حرام و خبیث ہوگا۔

{3}جسے اپنی حالت معلوم ہو کہ حاجت سے زائد جو کچھ بچا کررکھتا ہے نَفس اُسے طُغیان وعِصیان (یعنی سرکشی ونافرمانی) پر حامِل ہوتا(یعنی اُبھارتا ) ، یاکسی مَعصِیَت (یعنی نافرمانی) کی عادت پڑی ہے اُس میں خَرچ کرتا ہے تو اُس پرمَعصِیَت سے بچنا فرض ہے اور جب اُس کایِہی طریقہمُعَیَّن(م ُ۔عَیْ۔یَنْ یعنی مُقرَّر)ہو کہ باقی مال اپنے پاس نہ رکھے تو اِس حالت میں اس پر حاجت سے زائد سب آمَدَنی کو مَصارِفِ خَیر (یعنی بھلا ئی کے کاموں ) میں صَرف کر دینا لازِم ہوگا۔

{4} جو ایسا بے صَبرا ہوکہ اگر اُسے فاقہ پہنچے تو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّرب عَزَّوَجَلَّ کی شکایت کرنے لگے اگر چِہ صِرف دل میں ، نہ زَبان سے، یا طُرُقِ ناجائزہ (یعنی ناجائز طریقوں ) مِثلِ سَرِقہ (سَ ۔رِ۔قَہ یعنی چوری) یا بھیک وغیرہ کا مرتکِب ہو، اس پر لازِم ہے کہ حاجت کے قَدَرجَمع رکھے، اگر پیشہ وَر ہے کہ َروزکارَوزکھاتا ہے، تو ایک دن کا،اور ملازِم ہے کہ ماہوار ملتا ہے یا


مکانوں دکانوں کے کرائے پر بسر ہے کہ(کرایہ) مہینہ پیچھے آتا ہے، تو ایک مہینے کا اور زمیندار ہے کہ فصل(چھ ماہ) یا سال پر پاتا ہے تو چھ مہینے یا سال بھر کااور اصل ذَرِیعۂ مَعاش مَثَلاً آلاتِ حرفَت ( یعنی کام کے اَوزار)یا دکان مکان دیہات بَقَدرِ کِفایت کا باقی رکھنا تو مُطلَقاً اس پر لازِم ہے۔

{5}جو عالمِ دین مُفتِیِٔ شَرع یا مُدافِعِ بِدع (بد مذ ہبیت کوروکنے والا) ہو اور بیتُ المال سے رِزق نہیں پاتا، جیسا (کہ اب)یہاں ہے،اور وہاں اس کا غیر(یعنی کوئی دوسرا) ان مَناصبِ دِینیہ (یعنی دینی مَنصَبوں ) پرقِیام نہ کرسکے کہ اِفتا ( فتویٰ دینے)یا دَفعِ بِدعات میں اپنے اَوقات کا صَرف کرنا اس پر فرضِ عَین ہو اور وہ مال و جائداد رکھتا ہے جس کے باعث اُسے غَنا(مالی طور پر مضبوطی )اور ان فرائضِ دِینیہ کے لیے فارِغُ البالی ہے (یعنی روزگار وغیرہ سے بے فکری ہے) کہ اگر (سارا ہی مال)خَرچ کر دے مُحتاجِ کَسب (یعنی کام کاج کرنے کا محتاج )ہو اور ان اُمُور(یعنی ان دینی فریضوں کی ادائیگی) میں خَلَل پڑے، اس پر بھی اَصل ذَرِیعے کا اِبقا (یعنی باقی رکھنا)اور آمَدَنی کا بَقَدرِ مذکور جَمع رکھنا واجِب ہے ۔

{6}اگر وہاں اور بھی عالِم یہ کام کرسکتے ہوں تو اِبقاء وجمعِ مذکور(حسبِ ضَروت مال جمع کرنا اور مال کے ذرائِع باقی رکھنا) اگر چِہ واجِب نہیں مگر اَہَم و مُؤَکَّدْ(سخت تاکید کیا ہوا)بیشک ہے کہ علمِ دین و حمایتِ دین کے لیے فَراغ بال ( یعنی خوشحالی) ، کَسبِ مال( یعنی مال کمانے) میں اِشتِغال( یعنی مشغول ہونے) سے لاکھوں درجے افضل ہے مَعہٰذا (یعنی اسی کے ساتھ )


ایک سے دو اور دوسے چاربھلے ہوتے ہیں ،ایک (عالم)کی نظر کبھی خطا کرے تو دوسرے (عُلَماء) اُسے صَو اب (یعنی صحیح بات) کی طرف پھیر دیں گے، ایک (عالم)کو مرض وغیرہ کے باعث کچھ عُذر پیش آئے تو جب اور(عُلمائ) موجود ہیں کام بند نہ رہے گا لہٰذا  تَعَدُّدِ عُلَمائے دین (علمائے دین کی کثرت) کی طرف ضَرور حاجت ہے۔

{7} عالم نہیں مگر طلبِ علمِ دین میں مشغول ہے اورکَسب میں اِشتِغال( مال کمانے میں مشغول ہونا ) اُس (یعنی علمِ دین کی طلب)سے مانِع (یعنی روکنے والا) ہوگا تو اس پر بھی اُسی طرح اِبقاء و جمع مَسطُور آکد واَہَم ہے۔(یعنی اس کے لئے بھی حسبِ ضَرورت مال جمع کرنا اور مال کے ذارئِع کو باقی رکھنابَہُت اَہَم وضَروری ہے )

{8}تین صورَتوں میں جَمع مَنع ہُوئی، دومیں واجِب ، دو میں  مُؤَکَّدْ (یعنی تاکیدی اور )جو ان آٹھ(قِسموں ) سے خارِج ہو، وہ اپنی حالت پر نظر کرے اگر جَمع نہ رکھنے میں اس کاقَلب پریشان ہو، تو جُّہ بَعبادت و ذِکرِ الہٰی میں خَلَل پڑے تو بمعنیٔ مذکوربَقَدرِ حاجت جَمع رکھنا ہی افضل ہے اور اکثر لوگ اِسی قسم کے ہیں ۔

{9}اگرجَمع رکھنے میں اس کا دل مُتَفَرِّق(یعنی مُنتَشِر) اور مال کے حفِظ(یعنی حفاظت) یا اس کی طرف مَیلان(جُھکاؤ) سے مُتَعلِّقہوتوجمع نہ رکھنا ہی افضل ہے کہ اَصل مقصود ذِکرِ الہٰی کے لیے فَراغ بال(فارِغ ہونا) ہے جو اُس میں مُخِل( خلل ڈالنے والا) ہو وُہی ممنوع  ہے۔

{10}جواصحاب نُفُوسِ مُطْمَئِنَّہ(یعنی اہلِ اطمینان) ہوں ،(کہ)نہ عَدَمِ مال(مال نہ


ہونے ) سے اُن کا دل پریشان(ہو) نہ وُجُودِ مال (یعنی مال ہونے ) سے اُن کی نظر (پریشان ہو )  ، وہ مُختار ہیں ( یعنی با اختیار ہیں کہ چاہیں تو بقیہ مال صَدَقہ وخیرات کر دیں یا اپنے پاس ہی رکھیں ) ۔

{11}حاجت سے زیادہ کا مَصارِفِ خیر(یعنی اچّھی جگہوں ) میں صَرف (خَرچ) کردینا اور جَمع نہ رکھنا صورتِ سِوُم میں تو واجب تھا باقی جُملہ صُوَر(یعنی دیگر تمام صورَتوں ) میں ضَرور مطلوب(یعنی پسندیدہ)،اور جوڑ کر(یعنی جمع)رکھنا اس کے حق میں ناپسند ومَعیوب کہمُنْفَرِد کو اس کا جوڑنا طولِ اَمَلَ (یعنی لمبی اُمّید ) یا حُبِّ دُنیا(یعنی دنیا کی مَحَبَّت ) ہی سے ناشِی(یعنی پیدا )ہوگا۔(مطلب یہ کہ مال جمع کرنا لمبی اُمّید یا دُنیا سے  مَحَبَّت ہی کی وجہ سے ہوگا اور یہ دونوں صورتیں اچّھی نہیں ہیں )

دُنْیا کا مُسافِر

        فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:’’دُنیا میں یُوں رہ گویا تُو مسافر بلکہ راہ چلتا ہے اور اپنے آپ کو قبر میں سمجھ کر صبح کرے تو دل میں یہ خیال نہ لاکہ شام ہوگی اور شام ہوتو یہ نہ سمجھ کہ صبح ہوگی۔‘‘  (سُنَنِ تِرمِذی ج۴ ص۱۴۹ حدیث۲۳۴۰ دارالفکربیروت)

  تمہیں شرم نہیں آتی

       سلطانِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک موقع پرارشاد فرمایا:یَا اَیُّہَا النَّاسُ اَمَا تَسْتَحْیُوْنَاے لوگو!کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟حاضِرین نے عَرض کی: یا رسولَ اللہ!کس بات سے؟ فرمایا:جَمع کرتے ہو جونہ کھاؤ گے اور عمارت بناتے ہوتو جس میں نہ رہو گے اور وہ آرزُوئیں باندھتے ہو جن تک نہ پہنچو گے اس سے شرماتے


نہیں ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۲۵ص۱۷۲حدیث۴۲۱  داراحیاء التراث العربی بیروت)

 جب کوئی لقمہ لیتا ہوں ۔۔۔۔۔

         حضرتِ سیِّدُنا اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے ایک مہینے کے وعدے پر ایک کنیز سَو دینار کو خریدی، رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:کیا اُسامہ سے تعجُّب نہیں کرتے جس نے ایک مہینے کے وَعدے پر(کنیز) خریدی،بیشک اُسامہ کی امّید لمبی ہے ،قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !میں توجب آنکھ کھولتا ہوں یہ گُمان ہوتا ہے کہ پلک جھپکنے سے پہلے موت آجائیگی اور جب پِیالہ منہ تک لے جاتا ہوں کبھی یہ گمان نہیں کرتا کہ اس کے رکھنے تک زندہ رہوں گا اور جب کوئی لقمہ لیتا ہوں گمان ہوتاہے کہ اسے حَلق سے اُتارنے نہ پاؤں گا کہ موت اُسے گلے میں روک دے گی، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بیشک جس بات کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے ضَرور آنے والی ہے تم تھکا  نہ سکو گے۔(اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۴ ص۱۰۸ حدیث۵۱۲۷ دارالفکربیروت)

          یہ سب( تو) مُنْفَرِدکا بیان (ہے )رہا عِیا ل دار(تو)ظاہِر ہے کہ وُہ اپنے نَفس کے حق میں ’’مُنْفَرِد‘‘ہے، تو خوداپنی ذات کے لیے اُسے اُنہِیں اَحکام کا لحاظ چاہئے اورعِیال کی نظر سے اُس کی صورَتیں اور ہیں ان کابیان کریں ۔

{12}عِیال کی کَفالَت شَرع نے اِس پرفَرض کی، وہ ان کو تَوَکُّل و تَبَتُّل(دنیا سے کَنارہ کشی ) وَ صَبْرْعَلَی الْفاقَہ (یعنی اوربھوک پیاس سے صَبر) پر مجبور نہیں کرسکتا، اپنی جان کو


 جتنا چاہے کُسے (یعنی آزمائش میں ڈالے ) مگر اُن(یعنی بال بچّوں ) کو خالی چھوڑنا اس پر حرام ہے ۔

{13}وہ جس کی عِیال میں صورت چہارُم کی طرح بے صبرا ہو اور بے شک بَہُت عوام ایسے نکلیں گے تو اس کے لحاظ سے تو اس پر دوہرا وُجُوب ہوگا کہ قَدَرِ حاجت جَمع رکھے ۔

{14}ہاں جس کی سب عِیال(یعنی بال بچّے) صابِر ومُتَوَ کِّل ہوں اُسے رَوا (جائز )ہوگا کہ سب (مال)راہِ خدا میں خَرچ کردے۔   (فتاوٰی رضویہ ج۱۰ ص۳۱۱تا۳۲۷ مختصرا)

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بیان کو اِختِتام کی طرف لاتے ہوئے سنّت کی فضیلت اور چند سنّتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت ،  شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بزمِ جنّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنّت نشان ہے: جس نے میری سنّت سے  مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ   جنّت  میں میرے ساتھ ہو گا ۔  (اِبنِ عَساکِر ج۹ ص۳۴۳)

سینہ تری سنّت کا مدینہ بنے آقا

جنّت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’انگوٹھی کے اَہم اَحکام‘‘ کے ستَّرہ حُرُوف کی نسبت

 سے انگوٹھی کے 17 مَدَنی پھول

٭مرد کو سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے۔ سلطانِ دو جہان،رَحمتِ عالَمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے مَنع فرمایا ۔         (بُخاری ج ۴ ص۶۷حدیث۵۸۶۳)

٭(نابالِغ)لڑکے کو سونے کا زَیور پہنانا حرام ہے اور جس نے پہنایا وہ گنہگار ہوگا۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۵۹۸ ) ٭لوہے کی انگوٹھی جَہنَّمیوں کا زیور ہے۔(ترمذی ج۳ص۳۰۵ حدیث۱۷۹۲)  ٭مرد کیلئے وُہی انگوٹھی جائز ہے جومَردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو یعنی ایک نگینے کی ہو اور اگر اس میں (ایک سے زیادہ یا) کئی نگینے ہوں تو اگرچِہ وہ چاندی ہی کی ہو، مرد کے لیے ناجا ئز ہے۔(رَدُّالْمُحتار ج۹ص۵۹۷) ٭ اسی طرح مردوں کے لیے ایک سے زیادہ(جائز والی) انگوٹھی پہننا یا(ایک یا زیادہ) چھلّے پہننا بھی ناجائز ہے کہ یہ      ( چھلّا) انگوٹھی نہیں ۔ عورَتیں چَھلّے پہن سکتی ہیں ۔(بہار شریعت حصّہ ۱۶ص۷۱)  ٭چاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی کہ وزن میں ساڑھے چار ماشے(یعنی چار گرام 374 ملی گرام) سے کم ہو،پہننا جائز ہے اگر چِہ بے حاجتِ مُہر،(مگر) اس کا تَرک( یعنی جس کو اِسٹامپ کی ضَرورت نہ ہو اُس کا نہ پہننا) افضل ہے اور مُہر کی غَرَض سے خالی جواز نہیں (یعنی جن کو انگوٹھی سے اِسٹامپ لگانی ہواُن کے لئے صِرف جائز ہی نہیں )بلکہ سنّت ہے ،ہاں تکبُّر یا زنانہ پن کا سنِگار(یعنی لیڈیز اسٹائل کی ٹِیپ ٹاپ) یا اور کوئی غَرَضِ مذموم(یعنی قابلِ مذمّت مطلب ومَفاد) نیّت میں ہو تو ایک انگوٹھی(ہی)کیااِس نیّت سے (تو)اچّھے کپڑے پہننے بھی جائز نہیں ۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۲


ص۱۴۱) ٭ عیدَین میں مرد کے لئے چاندی کی جائز والی انگوٹھی پہننا مُستحب ہے۔(بہارِ شریعت  ج ۱ص ۷۷۹ ،۷۸۰ بتصرف مکتبۃ المدینہ باب ا لمدینہ کراچی)٭انگوٹھی اُنھیں کے لیے سنّت ہے جن کو مُہر کرنے(یعنی اِسٹامپ STAMP   لگانے) کی حاجت ہوتی ہے، جیسے سلطان و قاضی اور عُلَما جو فتوے پر(انگوٹھی سے)مُہرکرتے ( یعنی اِسٹامپ لگاتے)ہیں ، ان کے علاوہ دوسروں کے لیے جِن کو مُہر کرنے کی حاجت نہ ہو سنّت نہیں البتّہ پہننا جائز ہے۔ (فتاوٰی عالمگیریج۵ ص۳۳۵)  فِی زمانہ انگوٹھی سے مُہر کرنے کا عُرف نہیں رہا،بلکہ اس کام کے لئے’’اِسٹام‘‘ بنوائی جاتی ہے۔لہٰذا جن کو مُہر نہ لگانی ہواُن قاضی وغیرہ کے لئے بھی انگوٹھی پہننا سنّت نہ رہا٭مرد کو چاہیے کہ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھے اور عورت نگینہ ہاتھ کی پُشت کی طرف رکھے۔ (الہدایۃ ج۴ ص۳۶۷)٭ چاندی کا چَھلّا خاص لباسِ زَنان (یعنی عورتوں کا پہناوا) ہے مَردوں کو مکروہ۔(یعنی ناجائز وگناہ ہے)(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص۱۳۰)٭عورت سونے چاندی کی جتنی چاہے انگوٹھیاں اور چھلّے پہن سکتی ہے ،اِس میں وزن اور نگینے کی تعدادکی کوئی قید نہیں ٭لوہے کی انگوٹھی پر چاندی کا خَول چڑھا دیا کہ لوہا بالکل نہ دکھائی دیتا ہو، اس انگوٹھی کے پہننے کی مُمانَعَت نہیں ۔( عالمگیری ج۵ص۳۳۵) ٭ دونوں میں سے کسی بھی ایک ہاتھ میں انگوٹھی پہن سکتے ہیں اورسب سے چھوٹی انگلی میں پہنی


جائے۔( رَدُّالْمُحتارج۹ص۵۹۶،بہار شریعت حصّہ ۱۶ص۷۰)٭ مَنّت کا یا دَم کیا ہوا دھات (METAL) کاکڑابھی مرد کو پہننا ناجائز وگناہ ہے۔٭ مدینۂ منوَّرہزادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً یااجمیر شریف کے چَھلّے اور اسٹیل کی انگوٹھی بھی جائز نہیں ۔٭بواسیر وغیرہ کے لئے دم کئے ہوئے چاندی کے چَھلّے بھی مَردوں کے لئے جائز نہیں ٭ اگر آپ نے دھات کاکڑایا دھات کاچھلّا ، ناجائز انگوٹھی،یا دھات کی زنجیر (CHAIN)  پہنی ہے توابھی ابھی اُتار کر توبہ کرلیجئے۔

       ہزاروں سنّتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کُتُب (۱) 312 صَفحات پرمشتمل کتاب بہارِ شریعت حصّہ 16 اور(۲) 120 صَفحات کی کتاب ’’ سنَّتیں اور آداب‘‘ہدِیَّۃً حاصِل کیجئے اور پڑھئے۔ سنَّتوں کی تربیّت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر بھی ہے۔

لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو            سیکھنے سنّتیں قافلے میں چلو

ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو                ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{۷۸۶}۶ {۹۲}

رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔

 

 



[1] ۔۔۔ یہ بیان امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ کے اندر سنّتوں بھرے اِجتِماع ( شبِ براء ت ۱۴۳۱؁ ھ/ 27-7-10) میں فرمایا ۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔     ۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ