لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ

حج وعمرہ کا مفصَّل طریقہ

رفیقُ الحَرمین

 

 

مُؤَلِّف:

شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا

ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادِری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ

 

 

 

 

ناشِر

مکتبۃُ المد ینہ بابُ المدینہ کراچی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

   نام کتاب   :            رفیق الحرمین

    مُؤلِّف     :         شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا

                        ابوبلال محمد الیاس عطّارؔقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ

  تاریخِ اشاعت:    شوال المکرم ۱۴۳۳ھ ،اگست2012ء

   ناشر       :           مکتبۃ المدینہ عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ     مَدینہ باب المدینہ کراچی

مکتبۃُ الْمد    ینہ کی شاخیں

٭کراچی :  شہید مسجد، کھارا در، باب المدینہ کراچی                        فون: ـ: ـ34250168021-

٭لا ہو  ر : داتا دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ                                      فون: 37311679042-

٭سردار آباد : (فیصل آباد)امین پور بازار                                         فون: 2632625041-

٭کشمیر : چوک شہیداں ، میر پور                                                  فون: 37212058274-

٭حیدر آباد : فیضانِ مدینہ،آفندی ٹاؤن                                         فون: 2620122022-

٭ملتان : نزد پیپل والی مسجد، اندرون بوہڑ گیٹ                                 فون: 4511192061-

٭اوکا  ڑہ : کالج روڈبالمقابل غوثیہ مسجد، نزد تحصیل کونسل ہال        فون: 2550767044-

٭راولپنڈی : فضل داد پلازہ، کمیٹی چوک، اقبال روڈ         فون: 5553765051-

٭خان پور : دُرانی چوک، نہر کنارہ                                فون: 5571686068-

٭نواب شاہ : چکرا بازار، نزد  MCB                                                      فون: 43621450244-

٭سکھر : فیضانِ مدینہ،بیراج روڈ                                 فون: 5619195071-

٭گوجرانوالہ : فیضانِ مدینہ،شیخوپورہ موڑ،گوجرانوالہ      فون: 4225653051-

٭پشاور : فیضانِ مدینہ،گلبرگ نمبر1،النور سٹریٹ، صدر

E.mail: ilmia@dawateislami.net

www.dawateislami.net

مدنی التجاء:کسی اورکو یہ کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں ۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

حج و عمرے والے  کیلئے 56نیّتیں (مع روایات، حکایات و مدنی پھول)

(حجّاج و مُعتَمِرین ان میں سے موقع کی مُناسَبَت سے وہ نیتیں کر لیں جن پر عمل کرنے کا واقِعی ذِہن ہو)

[1]: صِرْف رِضائے الٰہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ پانے کے لئے حج کروں گا۔(قَبولیَّت کیلئے اِخلاص شرط ہے اور اخلاص حاصل کرنے میں یہ بات بہت معاون ہے کہ جب ریا کاری اور شہرت کے تمام اسباب تَرْک کر دیئے جائیں ۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری اُمّت کے اَغنِیاء(یعنی مالدار)سَیر و تفریح کے لیے اور درمِیانے دَرَجے کے لوگ تجارت کے لیے اور قُرّاء ( یعنی قاری)دِکھانے اور سنانے کیلئے اور فُقَرا مانگنے کے لئے حج کریں گے۔(تاریخ بغداد ج ۱۰  ص ۲۹۵)

[ 2]: اِس آیتِ مبارَکہ پر عمل کروں گا :

وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ۲، البقرۃ:۱۹۶)

ترجَمۂ کنزالایمان : حج  اورعمرہ اللہ کے لئے پورا کرو ۔

[3]: (یہ نیّت صِرْف فرض حج کرنے والا کرے) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت کی نیَّت سے اِس حکمِ قراٰنی: وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًا ترجَمۂ کنزالایمان:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے ۔ (پ۴، اٰل عمران:۹۷) پرعمل کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔

[4]: حُضُورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی میں حج کروں گا۔

[5]: ماں باپ کی رِضا مندی لے لوں گا ۔


(بیوی شوہر کو رِضا مندکرے ، مقروض جو ابھی قرض ادانہیں کر سکتا تو اُس( قرض خواہ)سے بھی اجازت لے، اگر حج فرض ہوچکا ہے تو اِجازت نہ بھی ہو تب بھی جانا ہوگا، (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج ا ص ۱۰۵۱) ہاں عُمرہ یانَفلی حج کے لئے والِدَین سے اِجازت لئے بِغیر سفرنہ کریں ۔ یہ بات غَلَط مشہورہے کہ جب تک والِدَین نے حج نہیں کیا اولاد بھی حج نہیں کرسکتی)۔

[6]:مالِ حلال سے حج کروں گا ۔( ورنہ حج قَبول ہونے کی اُمّید نہیں اگرچِہ فرض اُتر جائے گا۔ اگر اپنے مال میں کچھ شُبہ ہو تو قرض لے کر حج کو جائے اور وہ قرض اپنے (اُسی مشکوک) مال سے ادا کردے۔ (ایضاً)حدیث شریف میں ہے:  جو مالِ حرام لے کر حج کو جاتا ہے جب لَبَّیْک کہتا ہے، ہاتِف غیب سے جواب دیتا ہے :نہ تیری لَبَّیْک قَبول، نہ خدمت پذیر (یعنی منظور) اور تیرا حج تیرے منہ پر مردود ہے، یہاں تک کہ تُو یہ مالِ حرام کہ تیرے قبضے میں ہے اُس کے مستحقوں کو واپَس دے۔(فتاویٰ رضویہ ج۲۳ ص ۵۴۱))

[7]:سفرِ حج کی خریداریوں میں بھاؤ کم کروانے سے بچوں گا۔ ( میرے آقااعلیٰ حضرت ،امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :بھاؤ(میں کمی) کے لئے حُجَّت( یعنی بَحث و تکرار) کرنا بہتر ہے بلکہ سنّت، سوا اُس چیز کے جو سفرِ حج کے لئے خریدی جائے ، اِس (یعنی سفرِ حج کی خریداریوں ) میں بہتر یہ ہے کہ جو مانگے دیدے۔(فتاویٰ رضویہ ج۱۷ ص ۱۲۸ )){8} چلتے وقت گھروالوں ، رشتے داروں اور دوستوں سے قُصور مُعاف کرواؤں گا،ان سے دعا کرواؤں گا۔( دوسروں سے دعا کروانے سے بَرَکت حاصِل ہوتی ہے ، اپنے حق میں دوسرے کی دُعا قَبول ہونے کی زیادہ


امّید ہوتی ہے۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 326صَفْحات پر مشتمل کتاب ’’فضائلِ دُعا‘‘صَفْحَہ 111پر ہے :منقول ہے، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہَ الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَامکو خطاب ہوا:اے موسیٰ! مجھ سے اُس منہ کے ساتھ دُعا مانگ جس سے تُو نے گناہ نہ کیا۔ عرض کی: الٰہی! وہ منہ کہاں سے لاؤں ؟ (یہاں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَام  کی تواضُع ہے ورنہ وہ یقینا ہر گناہ سے معصوم ہیں ) فرمایا: اَوروں سے دُعا کرا کہ اُن کے مُنہ سے تُو نے گناہ نہ کیا۔(مُلَخَّص اَز مثنوی مولانا روم دفتر سوم ص۳۱)

[9]:حاجت سے زائد تَوشہ(اَخراجات) رکھ کر رُفَقاء پر خَرْچ اور فُقَراء پر تصدُّق(یعنی خیرات) کر کے ثواب کماؤں گا ۔ (ایسا کرنا حجِّ مَبرور کی نشانی ہے،)مَبرور اُس حج اور عمرہ کو کہتے ہیں کہ جس میں خیر اور بھلائی ہو، کوئی گناہ نہ ہو،دِکھاواسنانا نہ ہو، لوگوں کے ساتھ اِحسان کرنا، کھانا کھلانا ،نَرْم کلام کرنا، سلام پھیلانا، خوش خُلقی سے پیش آنا، یہ سب چیزیں ہیں جو حج کو مبرور بناتی ہیں ۔ جبکہ کھاناکھلانا بھی حجِّ مَبرور میں داخِل ہے تو حاجت سے زیادہ تَوشہ ساتھ لو تا کہ رفیقوں کی مدد اور فقیروں پر تصدُّق بھی کرتے چلو۔ اصل میں مَبرور’’بِر‘‘ سے بنا ہے۔ جس کے معنیٰ اُس اطاعت اور اِحسان کے ہیں جس سے خدا کا تقرُّب حاصل کیا جاتاہے۔(کتاب الحج، ص ۹۸))

[10]:زَبان اور آنکھ وغیرہ کی حفاظت کروں گا۔(نصیحتوں کے مَدَنی پھولصَفْحَہ 29 اور 30پر ہے: (۱)(حدیثِ پاک ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے)اے ابنِ آدم! تیرا دِین اُس وَقت تک


دُرُست نہیں ہوسکتاجب تک تیری زَبان سیدھی نہ ہواور تیری زَبان تب تک سیدھی نہیں ہوسکتی جب تک تُواپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ سے حَیا نہ کرے۔  (۲)جس نے میری حرام کردہ چیزوں سے اپنی آنکھوں کوجُھکا لیا(یعنی انہیں دیکھنے سے بچا)میں اسے جہنَّم سے امان (یعنی پناہ) عطاکر دوں گا )۔

[11]: دَورانِ سفر ذِکر ودُرُود سے دل بہلاؤں گا ۔( اس سے فِرِشتہ ساتھ رہے گا ! گانے باجے اورلَغوِیات کا سلسلہ رکھا تو شیطان ساتھ رہے گا)۔

[12]: اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دُعا کرتا رہوں گا۔( مسافِر کی دعا قَبول ہوتی ہے۔ نیز’’ فضائلِ دُعا ‘‘صفحہ 220پر ہے: مسلمان کہ مسلمان کے لیے اُس کی غَیْبَت (یعنی غیر موجودَگی) میں (جو) دُعا مانگے(وہ قَبول ہوتی ہے) حدیث شر یف میں ہے:یہ (یعنی غیر موجودَگی والی )دُعا نہایت جلد قَبول ہوتی ہے۔ فِرِشتے کہتے ہیں ـ:اُس کے حق میں تیری دعا قَبول اور تجھے بھی اِسی طرح کی نِعمت حُصُول) )۔

[13]: سب کے ساتھ اچّھی گفتگو کروں گا اور حسبِ حیثیَّت مسلمانوں کو کھانا کِھلاؤں گا۔(فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:مَبرور حج کا بدلہ جنَّت ہے۔ عَرض کی گئی : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حج کی  مَبروریّت کس چیز کے ساتھ ہے ؟فرمایا: اچّھی گفتگو اور کھانا کھلانا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۷۹ حدیث۴۱۱۹)

[14]:پریشانیاں آئیں گی توصَبْر کروں گا ۔ (حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی  فرماتے ہیں :مال یا بدن میں کوئی نقصان یا مصیبت پہنچے تو اُسے خوش دلی سے قَبول کرے کیوں کہ یہ اِس کے


حجِّ مَبرور کی علامت ہے۔(اِحیاءُالعلوم ج۱ ص ۳۵۴)۔

[15]: اپنے رُفَقاء کے ساتھ حُسنِ اَخلاق کا مُظاہَرہ کرتے ہوئے ان کے آرام وغیرہ کا خیال رکھوں گا،غصّے سے بچوں گا ، بے کار باتوں میں نہیں پڑوں گا، لوگوں کی(ناخوشگوار) باتیں برداشت کروں گا۔

[16]:تمام خوش عقیدہ مسلمان عَرَبوں سے(وہ چاہے کتنی ہی سختی کریں ، میں ) نرمی کے ساتھ پیش آؤں گا۔( بہارِ شریعت جلد۱حصّہ6 صَفْحَہ1060پر ہے:بدوؤں اور سب عَرَبیوں سے بَہُت نرمی کے ساتھ پیش آئے، اگر وہ سختی کریں (بھی تو) ادب سے تَحَمُّل(یعنی برداشت) کرے اِس پر شَفاعت نصیب ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خُصُوصاً اہلِ حَرَمین،خُصُوصاً اہلِ مدینہ۔ اہلِ عَرَب کے اَفعال پر اعتِراض نہ کرے، نہ دل میں کَدُورَت(یعنی مَیل) لائے، اس میں دونوں جہاں کی سعادت ہے)۔

[17]: بِھیڑ کے موقع پر بھی لوگوں کو اَذِیَّت نہ پہنچے اِس کا خیال رکھوں گا اور اگر خود کو کسی سے تکلیف پہنچی تو صَبْر کرتے ہوئے مُعاف کروں گا۔ (حدیثِ پاک میں ہے:جو شخص اپنے غُصّے کو روکے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۳۱۵ حدیث ۸۳۱۱))۔

[18]:مسلمانوں پر اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے ’’نیکی کی دعوت‘‘ دے کر ثواب کماؤں گا۔

[19]: سفر کی سنّتوں اور آداب کا حتَّی الامکان خیال رکھوں گا۔

[20]: اِحْرام میں لَبَّیْککی خوب کثرت کروں گا۔( اسلامی بھائی بُلند آواز سے کہے اور اسلامی بہن پَست آواز سے)[21]:


مسجِدَینِ کَریْمَین (بلکہ ہر جگہ ہر مسجد )میں داخِل ہوتے وَقْت پہلے سیدھا پاؤں اندر رکھوں گااور مسجِد میں داخِلے کی دُعاپڑھوں گا۔اِسی طرح نکلتے وَقت اُلٹا پہلے نکالوں گا اور باہَرنکلنے کی دُعا پڑھوں گا۔

[22]: جب جب کسی مسجِد خُصُوصاً مسجِدَینِ کَریْمَین میں داخِلہ نصیب ہوا ، نفلی اعتِکاف کی نیّت کر کے ثواب کماؤں گا ۔ (یاد رہے! مسجِد میں کھانا پینا، آبِ زم زم پینا،سَحَری و اِفطار کرنا اور سونا جائز نہیں ، اعتِکاف کی نیّت کی ہو گی تو ضمناً یہ سب کام جائز ہو جائیں گے ) [23]: کعبۂ مُشَرَّفہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پر پہلی نظر پڑتے ہی دُرُودِ پاک پڑھ کر دعا مانگوں گا۔

[24]:دَورانِ طواف ’’مُسْتَجاب ‘‘پر(جہاں ستّرہزارفِرِشتے دُعا پر اٰمین کہنے کے لئے مقرَّر ہیں وہاں ) اپنی اور ساری امّت کی مغفِرت کیلئے دعا کروں گا۔

[25]: جب جب آبِ زم زم پیوں گا، ادائے سنَّت کی نیّت سے قبلہ رُو،کھڑے ہو کر،بِسمِ اللّٰہ پڑھ کر ،چوس چوس کر تین سانس میں ، پیٹ بھر کر پیوں گا ، پھر دُعامانگوں گا کہ وقتِ قَبول ہے۔(فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ہم میں اور مُنافِقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کُوکھ (یعنی پیٹ )بھر نہیں پیتے۔ (ابن ماجہ ج ۳ ص ۴۸۹ حدیث ۳۰۶۱ ))

[26]:مُلتَزَم سے لپٹتے وَقت یہ نیَّت کیجئے کہمَحَبَّت  و شوق کے ساتھ کعبہ اور ربِّ کعبہ عَزَّ وَجَلَّ  کا قُرب حاصِل کر رہا ہوں اور اُس کے تعلُّق سے بَرَکت پا رہاہوں ۔(اُس وَقت یہ امّید رکھئے کہ بدن کا ہر وہ حصّہ جو کعبۂ مَشرَّفہ سے مَس (TOUCH) ہوا


ہے اِنْ شَآءَاللہ جہنَّم سے آزاد ہوگا)۔

[27]: غلافِ کعبہ سے چمٹتے وَقت یہ نیّت کیجئے کہ مغفِرت وعافیت کے سُوال میں اِصرار کر رہا ہوں ، جیسے کوئی خطاکار اُس شخص کے کپڑوں سے لپٹ کر گڑ گڑا تا ہے جس کا وہ مُجرِم ہے اور خوب عاجِزی کرتا ہے کہ جب تک اپنے جُرم کی مُعافی اور آیَندہ کے اَمن و سلامَتی کی ضمانت نہیں ملے گی دامن نہیں چھوڑوں گا۔( غلافِ کعبہ وغیرہ پر لوگ کافی خوشبو لگاتے ہیں لہٰذا اِحرام کی حالت میں اِحتیاط کیجئے )۔

[28]: رَمیِ جَمرات میں حضرتِسیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُشابَہَت ( یعنی مُوافَقَت)اورسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت پر عمل ، شیطان کو رُسوا کر کے مار بھگانے اور خواہِشاتِ نفسانی کو رَجْم (یعنی سنگسار) کرنے کی نیّت کیجئے۔(حکایت:حضرتِ سیِّدُنا جُنیدِ بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الھَادِینے ایک حاجی سے پوچھا کہ تُو نے رَمی کے وَقت نفسانی خواہِشات کوکنکریاں ماریں یا نہیں ؟ اُس نے جواب دیا:نہیں ۔ فرمایا : توپھر تُو نے رمی ہی نہیں کی۔(یعنی رَمی کا پورا حق ادا نہیں کیا)(مُلَخَّص از کشف المحجوب ص ۳۶۳ ) )

[29]:سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بالخصوص چھ مقامات یعنی صَفا، مَروہ، عَرَفات ، مُزدَلِفہ،جَمرۂ اُولیٰ،جَمرۂ وُسطٰی پر دعا کیلئے ٹھہرے ، میں بھی ادائے مصطَفٰے کی ادا کی نیّت سے ان جگہوں میں جہاں جہاں ممکِن ہوا و ہاں رُک کر دُعا مانگوں گا۔

[30]:طواف وسَعی میں لوگوں کو دھکّے دینے سے بچتا رہوں گا۔(جان بوجھ کر کسی کو اس طرح دھکّے


دینا کہ ایذا پہنچے بندے کی حق تلفی اور گناہ ہے ،توبہ بھی کرنی ہو گی اور جس کو اِیذا پہنچائی اُس سے مُعاف بھی کرانا ہو گا۔ بُزُرگوں سے منقول ہے:ایک دانگ کی(یعنی معمولی سی) مقدار اللہ تَعَالٰی کے کسی ناپسندیدہ فِعل کو ترک کر دینا مجھے  پانچ سو نفلی حج  کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔(جامع العلوم والحکم لابن رجب ص ۱۲۵ ))۔

[31]: عُلَماء ومشائخِ اہلسنّت کی زیارت و صُحبت سے بَرَکت حاصِل کروں گا، ان سے اپنے لئے بے حساب مغفِرت کی دعا کرواؤں گا۔

[32]: عبادات کی کثرت کروں گا بالخصوص نَمازِ پنجگانہ پابندی سے اداکروں گا۔

[33]: گناہوں سے ہمیشہ کیلئے توبہ کرتا ہوں اورصِرف اچّھی صُحبت میں رہا کروں گا ۔ (اِحیاء ُالعلوم میں ہے : حج کی  مَبرورِ یَّتکی ایک علامت یہ ہے کہ جو گناہ کرتا تھا اُنہیں چھوڑ دے، بُرے دوستوں سے کَنارہ کش ہو کر نیک بندوں سے دوستی کرے، کھیل کود اور غفلت بھری بیٹھکوں کو ترک کر کے ذِکر اور بیدار ی  کی مَجالِس اختِیار کرے۔ امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی ایک اور جگہ فرماتے ہیں : حجِّ مَبرور کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے بے رغبت اور آخِرت کی جانب مُتَوجِّہ ہو اور بیتُ اللّٰہ شریف کی ملاقات کے بعد اپنے ربِّ کائنات  عَزَّ وَجَلَّ کی ملاقات کیلئے تیّاری کرے ۔(اِحیاءُ العلوم ج ۱ ص ۳۴۹ ، ۳۵۴ ))

[34]:واپَسی کے بعد گناہوں کے قریب بھی نہ جاؤں گا ،نیکیوں میں خوب اِضافہ کروں گا اور سنّتوں پر مزید عمل بڑھاؤں گا (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :(حج سے پہلے کے حُقُوقُ اللّٰہ اور حُقوقُ العِباد جس کے ذمّے تھے) اگر بعدِ حج با وَصفِ قدرت اُن


اُمور(مَثَلاً قضا نَمازوروزہ ،باقی ماندہ زکوٰۃ وغیرہ اورتَلَف کردہ بقیّہ حُقُوقُ العباد کی ادائیگی ) میں قاصِر رہا تو یہ سب گناہ از سرِنو اُس کے سر ہوں گے کہ حُقُوق تو خودباقی ہی تھے اُن کے ادا میں پھرتاخیر و تقصیرسے گناہ تازہ ہوئے اور وہ حج ان کے اِزالے کو کافی نہ ہو گا کہ حج گزرے(یعنی پچھلے) گناہوں کو دھوتا ہے آیَندہ کے لئے پروانۂ بے قَیدی(یعنی گناہ کرنے کا اجازت نامہ ) نہیں ہوتا بلکہ حجِ مَبرور کی نشانی ہی یہ ہے کہ پہلے سے اچّھا ہو کر پلٹے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص ۴۶۶ ) )۔

[35]: مکّۂ مکرَّمہ اور مدینۂ منوَّرہ زَادَھُمَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے یاد گار مبارَک مقامات کی زِیارت کروں گا۔

[36]: سعادت سمجھتے ہوئے بہ نیَّتِ ثواب  مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی زِیارت کروں گا۔

[37]: سرکارِ مدینہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے دربارِ گُہَر بار کی پہلی حاضِری سے قبل غسل کروں گا، نیا سفید لباس،سر پر نیا سربندنئی ٹوپی اور اس پر نیا عمامہ شریف باندھوں گا، سُرمہ اورعمدہ خوشبو لگاؤں گا۔

[38] اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اس فرمانِ عالیشان : وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)۵،النساء:۶۴)(ترجَمۂ کنزالایمان:اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہسے مُعافی چاہیں ا ور رسول ان کی شَفاعت فرمائے تو ضَرور اللہکوبَہُت توبہ قَبول کرنے والا مہربان پائیں )  پر عمل کرتے ہوئے مدینے کے شَہَنْشاہ


صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضِری دوں گا۔

[39]: اگر بس میں ہوا تواپنے مُحسن وغمگُسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی با رگاہ ِ بے کس پناہ میں اس طرح حاضِرہوں گاجس طرح ایک بھاگا ہوا غلام اپنے آقا کی بارگاہ میں لرزتا کانپتا ، آنسو بہاتاحاضِر ہوتا ہے ۔ (حکایت : سیّدُنا امام مالِکعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق جب سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذِکر کرتے رنگ اُن کا بدل جاتا اورجُھک جاتے۔ حکایت : حضرتِ سیِّدُنا امامِ مالِکعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق سے کسی نے حضرتِ سیِّدُنا اَیُّوب سَخْتِیَانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَانِی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: میں جن حَضْرات سے روایت کرتا ہوں وہ اُن سب میں افضل ہیں ،میں نے انہیں دو مرتبہ سفرِ حج میں دیکھا کہ جب ان کے سامنے نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَام کا ذکرِ انور ہوتا تو وہ اتنا روتے کہ مجھے ان پر رَحم آنے لگتا۔میں نے ان میں جب تعظیمِ مصطَفٰے وعشقِ حبیبِ خدا کا یہ عالَم دیکھاتو مُتأَثِّر ہو کران سے احادیثِ مبارَکہ روایت کرنی شُروع کیں ۔ (الشفاء ج۲ ص ۴۱ ، ۴۲)) {40}سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاہی دربار میں ادب واحتِرام اور ذوق وشوق کے ساتھ درد بھری مُعتَدِل(یعنی درمیانی) آواز میں سلام عرض کروں گا ۔

[41]: حکمِ قراٰنی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)


۲۶،الحجرات:۲)(ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو !اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حُضُور بات چِلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چِلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو)پرعمل کرتے ہوئے اپنی آواز کوپَست اور قدرے دھیمی رکھوں گا۔

[42]: اَسْئَلُکَ الشَّفاعَۃَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ( یعنی یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں آپ کی شَفاعت کا سُوالی ہوں )کی تکرار کر کے شَفاعت کی بھیک مانگوں گا۔

[43]:شیخین کَریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی عَظَمت والی بارگا ہوں میں بھی سلام عرض کروں گا۔

[44]: حاضِری کے وَقت اِدھر اُدھر دیکھنے اورسُنہَری جالیوں کے اندر جھانکنے سے بچوں گا۔

[45]: جن لوگوں نے سلام پیش کرنے کا کہا تھا اُن کا سلام بارگاہِ شاہِ انام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عَرْض کروں گا۔[46]: سُنہَری جالیوں کی طرف پیٹھ نہیں کروں گا۔

[47]: جنَّتُ البقیع کے مَدفُونین کی خدمتوں میں سلام عرض کروں گا۔

[48]: حضرتِ سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اورشُہَدائے اُحُد کے مزرات کی زیارت کروں گا ، دعا و ایصالِ ثواب کروں گا، جَبَلِ اُحُد کا دیدار کروں گا۔

[49]: مسجدِ قُبا شریف میں حاضِری دوں گا۔

[50]: مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے درودیوار ، بَرگ وبار،گل وخار اورپتَّھر و غبار اور وہاں کی ہر شے کاخوب ادب واحتِرام کروں گا۔ (حکایت: حضرت سیِّدُنا امامِ مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق


نے تعظیمِ خاکِ مدینہ کی خاطرمدینہ ٔطیبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں کبھی بھی قَضائے حاجت نہیں کی بلکہ ہمیشہ حَرَم سے باہَر تشریف لے جاتے تھے ،البتَّہ حالتِ مَرَض میں مجبوری کی وجہ سے معذورتھے۔(بستان المحدثین ص۱۹))

[51]: مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی کسی بھی شے پر عیب نہیں لگاؤں گا ۔ (حکایت:مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ایک شخص ہر وقت روتا اورمُعافی مانگتا رہتا تھا، جب اِس کا سبب پوچھا گیا تو بولا: میں نے ایک دن مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی دَہی شریف کو کھٹّااورخراب کہہ دیا، یہ کہتے ہی میری نسبت سَلب ہو گئی اور مجھ پر عِتاب ہوا ( یعنی ڈانٹ پڑی) کہ’’ اَو دِیارِ محبوب کی دَہی کوخراب کہنے والے! نگاہِ مَحَبَّت سے دیکھ! محبوب کی گلی کی ہرہر شے عمدہ ہے۔‘‘( ماخوذاز بہارِ مثنوی ص۱۲۸ )حکایت : حضرتِ سیِّدُنا امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا کہ ’’مدینے کی مٹّی خراب ہے ‘‘یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ نے فتویٰ دیا کہ اس گستاخ کو تیس دُرّے لگائے جائیں اور قید میں ڈال دیا جائے۔(الشفاء ج۲ص۵۷ )

[52]: عزیزوں اور اسلامی بھائیوں کوتُحفہ دینے کیلئے آبِ زم زم، مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی کَھجوریں اور سادہ تَسبِیحَیں وغیرہ لاؤں گا۔ (بارگاہِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ میں سُوال ہوا : تسبیح کس چیز کی ہونی چاہئے؟ آیا لکڑی کی یا پتَّھروغیرہ کی؟الجواب: تسبیح لکڑی کی ہو یا پتّھر کی مگر بیش قیمت( یعنی قیمتی) ہونا مکروہ ہے اور سونے چاندی کی حرام۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۵۹۷)[53]: جب تک مدینۂ منوَّرہ


زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہوں گا دُرُود و سلام کی کثرت کروں گا۔

[54]:  مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں قِیام کے دَوران جب جب سبز گنبد کی طرف گزر ہو گا، فوراً اُس طرف رُخ کر کے کھڑے کھڑے ہاتھ باندھ کر سلام عرض کروں گا۔ (حکایت : مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں سیِّدُنا ابو حازِم رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضِر ہو کر ایک صاحِب نے بتایا : مجھے خواب میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی، فرمایا: ابو حازِم سے کہدو،’’ تم میرے پاس سے یوں ہی گزر جاتے ہو، رُک کر سلام بھی نہیں کرتے!‘‘ اس کے بعد سیِّدُنا ابو حازِم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے اپنا معمول بنا لیا کہ جب بھی روضۂ انور کی طرف گزر ہوتا ، ادب و احتِرام کے ساتھ کھڑے ہو کر سَلام عرض کرتے، پھر آگے بڑھتے۔(المنامات مع موسوعۃ ابن اَبِی الدُّنْیا ج۳ص۱۵۳حدیث۳۲۳))

[55]: اگرجنَّتُ البقیع میں مدفن نصیب نہ ہوا، اورمدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے رخصت کی جاں سوز گھڑی آگئی تو بارگاہِ رسالت میں اَلوَداعی حاضِری دوں گااور گڑ گڑا کر بلکہ ممکن ہوا تو رو رو کر بار بار حاضِری کی التِجاکروں گا۔

{56} اگر بس میں ہُو اہو توماں کی مامتا بھری گود سے جداہونے والے بچّے کی طرح بِلک بِلک کر روتے ہوئے دربارِرسول کو بار بار حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے رخصت ہوں گا۔


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

آپ کو عزمِ   مدینہ مُبارَک ہو

            فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘( اِبن ماجہ ج۱ ص۱۴۶ حدیث ۲۲۴)اِس کی شَرح میں یہ بھی ہے کہ حج ادا کرنے والے پر فرض ہے کہ حج کے ضَروری مسائل جانتا ہو۔عُمُوماً حُجّاجِ کرام طواف و سَعی وغیرہ میں پڑھی جانے والی عَرَبی دعاؤں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اگرچِہ یہ بھی بَہُت اچّھا ہے جب کہ دُرُست پڑھ سکتے ہوں ، اگر کوئی یہ دعائیں نہ بھی پڑھے تو گنہگار نہیں مگر حج کے ضَروری مسائل نہ جاننا گناہ ہے۔ رفیقُ الحرمین اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو بَہُت سارے گناہوں سے بچا لے گی۔ بعض مفت دی جانے والی حج کی اُردو کتابوں میں شَرعی مسائل میں سخت بے احتیاطی سے کام لیا گیا ہے، اِس سے تشویش ہوتی ہے کہ اِن کُتُب سے رہنمائی لینے والے حاجیوں کا کیا بنے گا، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ رفیقُ الحرمین برسوں سے لاکھوں کی تعداد میں چھپ رہی ہے ۔ اِس میں زیادہ تر مسائل فتاویٰ رضویہ شریف اور بہارِ شریعت جیسی


مستند کتابوں میں مُندَرج مسائل آسان کرکے لکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اب اس میں مزید ترمیم و اضافہ کیاگیا ہے اور اس پردعوتِ اسلامی کی مجلس ’’المدینۃُ العلمیہ‘‘ نے  نظرِ ثانی کی ہے اور دارُالافتاء اہلسنّت نے اوّل تا آخِر ایک ایک مسئلہ دیکھ کر رہنمائی فرمائی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ خوب اچّھی اچھی نیّتیں کر کے رفیقُ الحرمین کی ترکیب کی گئی ہے۔ وَاللّٰہ رفیق الحرمین سے مدینے کے مسافروں کی رہنمائی کرکے صِرف و صِرف حُصولِ رضا ئے الٰہی مقصود ہے۔ ذاتی آمدنی کا تصوُّر نہیں ۔ شیطٰن لاکھ سُستی دلائے رفیقُ الحرمین مہربانی فر ما کر اوّل تا آخِر پوری پڑھ لیجئے ۔  

            بیان کردہ مسائل پر غور کیجئے، کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توعُلَماءِ اہلسنَّت سے پوچھئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ’’رفیق الحرمین ‘‘کے اندر حج و عمرے کے مسائل کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں عَرَبی دُعائیں بھی مَع ترجَمہ شامل ہیں ۔ اگر سفرِ مدینہ میں رفیقُ الحرمین آپ کے ساتھ ہوئی تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ حج کی کسی اورکتاب   کی کم ہی حاجت ہو گی۔ ہاں ،جو اس سے بھی زیادہ مسائل سیکھنا چاہے اور سیکھنا بھی


چاہئے تو بہارِ شریعت حصّہ 6کا مُطالَعہ کرے۔

مَدَنی التِجا:ہوسکے تو12 عددرفیقُ الحرمین، 12عدد جیبی سائز کے کوئی سے بھی رسائل اور 12 عدد سنّتوں بھرے بیانات کیV.C.Dsمکتبۃُ المدینہ سے ہدیۃً لیکرساتھ لے لیجئے اور حُصولِ ثواب کیلئے وہاں تقسیم فرما دیجئے نیز فراغت کے بعد اپنی رفیقُ الحرمین بھی حَرَمینِ طیبّیَن ہی میں کسی اسلامی بھائی کو پیش کر دیجئے ۔   بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، شیخین کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور سیِّدُنا حمزہ ،شُہَداءِ اُحُد، اہلِ بقیع و معلی کے مدفونین کی بارگاہوں میں میرا سلام عرض کیجئے گا۔دَورانِ سفر بالخصوص حَرَمینِ طیِبین میں مجھ گنہگار کی بے حساب بخشش اور تمام اُمّت کی مغفِرت کی دُعا کے لیے مَدَنی اِلتِجا ہے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کے حج و زیارت کو آسان کرے اور قَبول فرمائے۔اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

 ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ

غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

۶ شعبان المعظم  ۱۴۳۳ھ

2012-7-27


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

مدینے کے مسافر اوراِمدادِ مصطفٰے  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

ایک نوجوان طَوافِ کعبہ کرتے ہوئے فقط دُرُود شریف ہی پڑھ رہاتھا کسی نے اُس سے کہا:کیا تجھے کوئی اور دُعائے طَواف نہیں آتی یا کوئی اور بات ہے؟ اُس نے کہا :دُعائیں تو آتی ہیں مگر بات یہ ہے کہ میں اور میرے والد دونوں حج کے لئے نکلے تھے ، والد صاحِب راستے میں بیمار ہو کر فوت ہوگئے، اُن کا چہرہ سیاہ پڑگیا ، آنکھیں اُلٹ گئیں اورپیٹ پھول گیا!میں بَہُت رویااور کہا: اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ جب رات کی تاریکی چھا گئی تو میری آنکھ لگ گئی، میں سوگیا تو میں نے خواب میں ایک سفید لباس میں ملبوس معطَّر معطَّر حسین و جمیل ہستی کی زِیارت کی۔ اُنہوں نے میرے والدِ مرحوم کی میِّت کے قریب تشریف لاکر اپنا نورانی ہاتھ اُن کے چہرے اور پیٹ پر پھیرا، دیکھتے ہی دیکھتے میرے مرحوم باپ کا چہرہ دودھ سے زِیادہ سفید اور روشن ہوگیا اور پیٹ بھی اَصلی حالت پر آگیا۔ جب وہ بُزُرْگ واپس جانے لگے تومیں نے اُن کا دامَنِ اَقدَس تھا م لیا اور عرض کی:یا سیِّدی!(یعنی اے میرے سردار! )


آپ کو اُس کی قَسَم جس نے آپ کو اِس جنگل میں میرے والدِمرحوم کے لئے رَحمت بنا کر بھیجا ہے آپ کون ہیں ؟فرمایا:تُو ہمیں نہیں پہچا نتا؟ ہم تو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہیں ، تیرا یہ باپ بَہُت گنہگار تھا مگر ہم پربکثرت دُرُود شریف پڑھتا تھا، جب اِس پر یہ مصیبت نازِل ہوئی تو اِس نے ہم سے فَریاد کی لہٰذا ہم نے اِس کی فَریاد رَسی کی ہے اور ہم ہر اُس شخص کی فَریاد رسی کرتے ہیں جو اِس دُنیا میں ہم پر زِیادہ دُرُود بھیجتا ہے۔ (رَوضُ الرَّیاحین ص۱۲۵)

فَریاد   اُمَّتی   جو کرے   حالِ   زار   میں

              ممکن نہیں کہ خیرِ بَشَر کو خبر نہ ہو           (حَدائق بخشش)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’خدا آپ کا حج قبول کرے‘‘ کے سولہ حُرُوف کی نسبت سے

حاجیوں کے لئے کار آمد 16 مَدَنی پھول

            ٭اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رِضا کے طلبگار پیارے پیارے حاجیو! آپ کو سفرِ حج وزیارتِ مدینہ بَہُت بَہُت مبارَک ہو ۔ ضَروریاتِ سفر کا روانگی سے تین چار دن پہلے ہی اِنتِظام کرلیجئے، نیز کسی تجرِبہ کار حاجی سے مشورہ بھی فرمالیجئے٭ اپنے وطن سے پھل یا پکے ہوئے کھانے کے ڈِبّے، مٹھائی


وغیرہ غذائی اشیاء ساتھ لے جانے کی حاجیوں کو گورنمنٹ کی طرف سے مُمانَعَت ہے ٭مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی رِہائش گاہ سے مسجدُ الحرام پیدل جانا ہو گا اس میں اور طواف و سعی میں سب ملا کر تقریباً 7کلومیٹر بنتے ہیں ، نیز مِنٰی ، عَرَفات اور مُزدَلِفہ میں بھی کافی چلنا ہوگا،لہٰذا حج کے بَہُت دن پہلے سے روازنہ پون گھنٹہ پیدل چلنے کی ترکیب رکھئے (اس کی مستقل عادت بنا لی جائے تو صحّت کیلئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ بے حد مفید ہے) ورنہ ایک دم سے بَہُت زیادہ پیدل چلنے کے سبب حج میں آپ آزمائش میں پڑ سکتے ہیں !٭کم کھانے کی عادت ڈالئے ، فائدہ نہ ہو تو کہنا ! خُصُوصاً 5ایّامِ حج میں ہلکی پُھلکی غذا پر قَناعت کیجئے تا کہ بار بار استنجا کی’’ حاجت ‘‘ نہ ہو، خصوصاً مِنٰی مُزدَلِفہ اور عرفات کے استنجا خانوں پر لمبی لمبی قِطاریں لگتی ہیں !٭ اسلامی بہنیں کانچ کی چوڑیاں پہن کر طواف نہ کریں ،بھیڑ میں ٹوٹنے سے خود اپنے اوردوسرے کے زخمی ہونے کا اندیشہ ہی٭ اسلامی بہنیں اُونچی ایڑی کی چپلَّیں نہ پہنیں کہ راستے میں پیدل چلنے میں پریشانی ہو گی٭ حَرَمین طیبین کی رِہائش گاہوں کے واش روم میں ’’انگلش کموڈ‘‘ ہوتے ہیں ، وطن سے ان کا استِعمال سیکھ لیجئے ورنہ کپڑے پاک رکھنا نہایت دُشوار ہوگا٭کسی کا دیاہوا ’’ پیکٹ‘‘ کھول کر چیک کئے بِغیر ہرگز ساتھ مت لیجئے اگر کوئی ممنوعہ چیز نکل آئی تومَطار (AIRPORT) پر مصیبت میں پڑ سکتے ہیں٭


ہوائی جہاز میں اپنی ضَرورت کی اَدوِیات مَع ڈاکٹری سَنَداپنے گلے کے بیگ میں رکھئے ۔  تاکہ ایمبر جنسی میں آسانی رہے ٭زَبان اور آنکھوں کا قفلِ مدینہ لگایئے، اگر بِلاضَرورت بولتے رہنے کی عادت ہوئی تو غیبتوں ، تہمتوں اور دل آزاریوں وغیرہ گناہوں سے بچنا دشوار رہے گا،اِسی طرح آنکھوں کی حفاظت اوراکثر نگاہیں نیچی رکھنے کی ترکیب نہ ہوئی تو بد نِگاہی سے محفوظ رہنا نہایت مشکل ہو گا۔ حَرَم میں ایک نیکی لاکھ نیکی اور ایک گناہ لاکھ گُنا ہے۔ حَرَم سے مُراد صِرف مسجدُ الحرام نہیں تمام حُدُودِ حَرَم ہے ٭نَماز میں اکثر محرِم کے سینے یا پیٹ کا کچھ حصّہ کُھل جاتا ہے اس میں کسی قسم کی کراہت نہیں کیونکہ اِحرام میں یہ خلافِ مُعتاد(یعنی خلافِ عادت) نہیں اوراِس کا خیال رکھنابھی بَہُت دشوار ہے ٭ کفن کو آبِ زم زم میں بھگو کر لانا اچّھا ہے کہ اِس طرح مکے مدینے کی ہوائیں بھی اِسے چوم لیں گی۔ نِچوڑنے میں یہ احتیاط کرنی مُناسِب ہے کہ اس مقدّس پانی کا ایک قطرہ بھی گر کر نالی وغیرہ میں نہ جائے ، کسی پودے وغیرہ میں ڈا ل دینا چاہئے۔ (آبِ زم زم شریف اپنے وطن میں بھی چھڑ ک سکتے ہیں )٭طواف و سَعی کرتے ہوئے بعض اوقات حج کی کتابوں کے اَوراق گرے پڑے نظر آتے ہیں ،ممکنہ صورت میں اُن کو اُٹھا لیجئے مگر طواف میں کعبہ شریف کو پیٹھ یا سینہ نہ ہو اِس کا خیال رکھئے۔البتّہ کسی کی گِری پڑی رقم یا بَٹوا وغیرہ نہ اُٹھایئے (چند برس پہلے ایک پاکستانی حاجی نے دورانِ


طواف ہمدردی میں کسی کی گری ہوئی رقم اٹھائی،رقم والے کو غلط فہمی ہوئی اور اُس نے پولیس کے حوالے کیا اور بے چارہ عرصے کیلئے جیل میں ڈالدیا گیا!)٭حجازِ مقدَّس میں ننگے پاؤں رہنا اچّھا ہے مگر گھر اور مسجِد کے حمّام اور راستے کی کیچڑ وغیرہ میں چپّل پہن لیجئے۔نیز گرد آلود اور میلے کُچیلے پاؤں لیکر مسجدَینِ کریَمین بلکہ کسی مسجِد میں بھی داخِل نہ ہوں ، اگر صفائی نہیں رکھ پائے تو بِغیرچپّل مت رہئے٭ مُستَعمَل(یعنی استِعمالی) چپّل پہن کر بیسن پر وُضو کرنے سے احتیاط کیجئے کہ اکثر نیچے پانی بکھرا ہوتا ہے اگر چپّل ناپاک ہوئے تو اندیشہ ہے کہ چھینٹے اُڑکر آپ کے لباس وغیرہ پر پڑیں ۔(یہ ذِہن میں رہے کہ جب تک چپّل یا پانی یا کسی بھی چیز کے بارے میں یقینی طور پر نَجس یعنی ناپاک ہونے کا عِلْم نہ ہو وہ پاک ہے )  ٭مِنٰی شریف کے استِنجا خانوں کے نل میں عام طور پر پانی کا بہاؤ کافی تیز ہوتا ہے، لہٰذابَہُت تھوڑا تھوڑا کھولئے تاکہ آپ چھینٹوں سے محفوظ رہ سکیں ۔

ا ن میں سے حسبِ ضَرورت چیزیں اپنے ساتھ لے جائیے: ٭ مَدَنی پنج سُورہ٭اپنے پیر ومُرشِد کا شَجرہ ٭بہارِ شریعت کاچَھٹا حصّہ اور 12 عدد  رفیقُ الحرمین خودبھی پڑھئے اور حاجیوں کو بانٹ کر خوب ثواب کما یئے  ٭قلم اورپیڈ٭ڈائری٭قبلہ نُما(یہ حجازِ مقدَّس ہی میں خریدئیے،مِنٰی، عَرَفات وغیرہ میں قبلے کی سمت معلوم کرنے میں مدد دے گا) ٭ کُتُب ،


پاسپورٹ، ٹکٹ، ٹریول چیک، ہیلتھ سر  ٹیفکیٹ وغیرہ رکھنے کے لئے گلے میں لٹکانے والا چھوٹا سا بیگ ٭اِحرام ٭اِحرام کے تہبند پر باندھنے کے لئے جیب والا نائیلون یا چمڑے کا بیلٹ ٭عِطْر ٭جانَماز ٭تسبیح ٭چارجوڑے کپڑے، بنیان،سوئیٹر،وغیرہ،ملبوسات (موسِم کے مطابق) ٭اَوڑھنے کے لئے کمبل یاچادر ٭ ہوا بھرنے والاتکیہ ٭ عِمامہ شریف مع سَربند و ٹَوپی ٭بچھانے کے لئے چَٹائی یا چادر ٭ آئینہ، تیل، کنگھا، مسواک، سُرمہ ، سُوئی دھاگا،قینچی سفرمیں ساتھ لینا سُنّت ہے ٭ناخُن تراش٭ سامان پر نام ، پتا لکھنے کیلئے موٹامارکر پین ٭ تولیا ٭ رُومال ٭استِعمال کرتے ہوں تو نظر کے چشمے دو عدد٭صابُن٭منجن ٭ سیفٹی ریزر ٭ لوٹا ٭ گلاس ٭ پلیٹ ٭ پیالہ٭ دسترخوان ٭گلے میں لٹکانے والی پانی کی بوتل ٭چمچ ٭ چُھری ٭دردِسر اور نزلہ وغیرہ کے لئے ٹِکیاں نیز اپنی ضَرورت کی دوائیں ٭ گرمی میں اپنے اُوپر پانی چھڑکنے کے لئے اِسپرئیر( مِنٰی و عرفات شریف میں اِس کی قَدر ہو گی) ٭ حسبِ ضَرورت کھانے پکانے کے برتن۔

’’مدینہ‘‘ کے پانچ حروف کی نسبت سے سامان کے بیگج کے لئے 5مدنی پھول

{۱} دستی سامان کے لئے مضبوط ہینڈبیگ{۲}لگیج کروانے کے لئے


بڑا بیگ لیجئے (اس پر بڑے مارکر پین سے نام وپتا اور فون نمبروغیرہ لکھ لیجئے نیزکو ئی نشان لگالیجئے مَثَلاً٭مزید اپنے بیگج کے لوہے کے حلقے وغیرہ میں رنگین کپڑے کی دھجّی یالیس(lace)کی چھوٹی سی پٹّی نُمایاں کر کے باندھ دیجئے{۳}بیگ پر تالا لگا لیجئے مگرایک چابی احرام کے بیلٹ کی جیب میں اور ایک دستی بیگ میں رکھ لیجئے ورنہ چابی گم ہو جانے کی صورت میں جدّہ کسٹم میں ’’بڑے بڑے قینچوں ‘‘ کے ذَرِیعے کاٹ کر بیگ کھولتے ہیں ، آپ ٹینشن میں آ جائیں گے {۴}اَٹاچی کیس  ( دستی بیگ) کے اندر بھی نام پتے اورفون نمبرکی چٹ ڈال دیجئے {۵} دونوں ’’ٹرالی بیگ‘‘ (یعنی پہیّے والے ) ہوں تو سَہولت رہے گی۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ

ہیلتھ سرٹیفکیٹ کے مَدَنی پھول:

قانون کے مطابِق تمام سفری کاغذات بَہُت پہلے سے تیّار کروالیجئے، مَثَلاً ’’ہیلتھ سر ٹیفکیٹ‘‘ یہ آپ کو حاجی کیمپ میں گردن توڑ بُخار کاٹِیکا لگوانے اور’’ پولیوویکسِن‘‘ کے قطرے پلائے جانے کے بعد ملے گا اگر اِس میں کسی قِسم کی کمی ہوئی تو آپ کو جہاز پر سُوار ہونے سے رو کا جاسکتا ہے یا جَدّہ شریف کے مَطار پربھی رُکاوٹ پیش آسکتی ہے ٭حِفاظتی ٹیکا روانگی سے صِرف دو چار روز قبل لگوانا خاص فائدہ مند نہیں ، 15دن قبل لگوا لینا بے حد مفید رہے گا ورنہ مبارک سفرکی گہما گہمی میں خطرناک بلکہ جان لیوا


بیماری کا خطرہ رہے گا،نیز٭ قانوناً لازِمی نہ سہی مگر فِلو اور ہیپاٹائٹس کے ٹیکے بھی لگوالینا آپ کے لیے بَہُت بہتر ہے ان طبّی کاروائیوں کوبوجھ مت سمجھئے اِس میں آپ کا اپنا بھلاہی٭اکثر ٹریول ایجنٹ یا کاروان والے بِغیر کسی طبّی کاروائی کے گھر بیٹھے ہی ہیلتھ سرٹیفِکیٹ فراہم کر دیتے ہیں ، جو کہ آپ کی صحّت کیلئے نقصان دِہ ہونے کے ساتھ ساتھ دھوکا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے ۔ ٹریول ایجنٹ ،قصداً دستخط کرنے والا ڈاکٹر اور جان بوجھ کرغَلَط سرٹیفِکیٹ لیکراستِعمال کرنے والا حاجی( یامُعتَمِر) سبھی گنہگار اور عذابِ نار کے حقدار ہیں ،جنہوں نے اِس طرح کے کام کئے ہوں وہ سب سچّی توبہ کریں۔

ہوائی جہاز والے کب احرام باندھیں ؟:

ہَوائی جہاز سے بابُ المدینہ کراچی تا جَدّہ شریف تقریباً چار گھنٹے کا سفر ہے(دنیا میں سے کہیں سے بھی سفر کریں ) دورانِ پَرواز مِیقات کاپتا نہیں چلتا، لہٰذا اپنے گھر سے تیّاری کرکے چلئے، اگر وقتِ مکروہ نہ ہوتو اِحرام کے نَفل بھی گھر پرہی پڑھ لیجئے اور اِحرام کی چادریں بھی گھر ہی سے پہن لیجئے، البتہّ گھر سے اِحْرام کی نیّت نہ کیجئے، طَیّارے میں نیّت کر لیجئے گا کیونکہ نیّت کرنے کے بعد لَبَّیک پڑھنے سے آپ’’ مُحرِم ‘‘ ہو جائیں گے اورپابندیاں شرو ع ہوجائیں گی اورہوسکتا


ہے کہ کسی وجہ سے پرواز میں تاخیر ہوجائے۔ ’’ مُحرِم ‘‘  ائیر پورٹ پر خوشبودار پھولوں کے گجرے بھی نہیں پہن سکتا ۔[1]؎اِس لئے پاکستان سے سفر کرنے والے یوں بھی کرسکتے ہیں کہ اِحرام کی چادروں میں ملبوس یا روزمرّہ کے لباس ہی میں تشریف لائیں ۔ہوائی اڈّے پر بھی حمّام ، وُضُوخانہ اور جائے نَماز کا اِہتمام ہوتا ہے، یہیں اِحرام کی ترکیب فرما لیجئے مگر آسانی اِس میں ہے کہ جب طیّارہ فَضامیں ہموار ہو جائے اُس وَقت نیّت و لَبَّیک کی ترکیب کیجئے۔ ہاں جو عِلْم رکھتے اور اِحرام کی پابندیاں نبھا سکتے ہوں وہ جتنی جلدی ’’مُحرِم ‘‘ ہو جائیں گے انہیں اِحرام کا ثواب ملنا شُروع ہو جائے گا (نیّت اور مِیقات وغیرہ کی تفصیل آگے آرہی ہے)

جہاز کا خوشبو دار ٹشو پیپر:

خبردار! طیّاروں میں اکثر سَینٹ سے تر بتر  ٹشو پیپر کاچھوٹا سا پیکٹ دیاجاتا ہے ، اِحرام والا اُسے ہر گز نہ کھولے، اگرہاتھ پر خوشبو کی زیادہ تری لگ گئی تو دم واجِب ہو جائیگا، کم لگی تو صَدقہ ، اگر تری نہ لگی ہاتھ صِرْ ف خوشبو دار ہو گئے تو کچھ نہیں ۔


جَدّہ شریف تا مکّۂ مُعظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً:

جَدّہ شریف کے ہَوائی اَڈّے پرپَہُنچ کر اپنا دستی سامان لئے لَبَّیْک پڑھتے ہوئے دھڑکتے دل سے جہاز سے اُترئیے اور کسٹم شَیڈ سے مُتَّصِل کاؤنٹر پر اپنا پاسپورٹ اور ہیلتھ سر   ٹیفکیٹ چَیک کرواکر شَیڈ میں جمع شدہ سامان میں سے اپنا سامان شَناخت کرکے علٰیحَدہ کرلیجئے، کسٹم وغیرہ سے فراغت اور بس کی روانگی کی کاروائی میں تقریباً6تا8گھنٹے صَرف ہوسکتے ہیں ۔خوب صبرو ہمّت سے کام لیجئے ۔ جَدّہ شریف کے حج ٹرمینل سے مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً   کا فاصِلہ تقریباً ایک یا ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہو سکتا ہے مگر گاڑیوں کے رش اور قانونی کاروائیوں کے سبب کئی قِسْم کی پریشانیاں درپیش آسکتی ہیں ، بس وغیرہ کا بھی اِنتِظار کرنا پڑتا ہے، ہر موقع پر صَبْر و رِضا کے پیکر بن کر لَبَّیْک پڑھتے رہئے ۔ غصّے میں آ کر مُنتَظِمِینکے متعلِّق بَڑبَڑ اور شور وغُل کرنے سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید اُلَجھنے، صَبْر کا ثواب برباد ہونے اور مَعَاذَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ ایذائے مسلم، غیبتوں ، الزام تراشیوں اور بدگمانیوں وغیرہ گناہوں میں پھنسنے کی صورَتیں پیدا ہو سکتی ہیں ۔ ایک چُپ سو سکھ۔روانگی کی ترکیب بن جانے پر مَع سامان اپنے مُعَلِّم کی بس میں لَبَّیْکپڑھتے ہوئے مَکَّۂ مُعَظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف روانہ ہوجائیے۔


مدینے کی پرواز والوں کا اِحرام:

جن کی وطن سے براہِ راست مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی پرواز ہو اُن کو یہ سفر بِغیر اِحرام کرنا ہے، مدینہ شریف سے جب مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف آنے لگیں اُس وَقت مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  سے یا ذُوالحُلَیفہ ( اَبیار علی) سے اِحرام کی نیّت کیجئے۔

مُعلِّم کی طرف سے سُواری:

جَدّہ شریف سے مکّۂ مکرّمہ، مدینۂ مُنوَّرہ، مِنٰی، عَرَفات، مزدَلِفَہ اور واپَسی میں پھر مَکَّہ شریف سے جَدّہ شریف تک پہنچا نا نیز اپنے وطن سے براہِ راست مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کی پرواز والوں کو بھی یہی سَہولتیں دینا مُعَلِّم کے ذِمیّ ہے اور اِس کی فیس آپ سے پہلے ہی وُصُول کی جاچُکی ہے۔ جب آپ پہلی بار مَکَّہ شریف مُعَلِّم کے دفتر پر اُتریں گے اُس وَقت کا کھانا اور عَرَفات شریف میں دوپہر کا کھانا بھی مُعَلِّم کے ذِمّے ہے۔

سفر کے 26 مَدَنی پھول

٭چلتے وَقت عزیزوں ، دوستوں سے قُصُور مُعاف کروایئے اور جن سے مُعافی طلب کی جائے اُن پر لازِم ہے کہ دل سے مُعا ف کردیں ۔ حدیثِ مُبارَک میں ہے کہ


جس کے پاس اُس کا (اسلامی)بھائی معذِرت لائے، واجِب ہے کہ قَبول کرلے (یعنی مُعاف کر دے) ورنہ حوضِ کوثر پر آنا نہ ملے گا۔ ( فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص۶۲۷) ٭ کسی کی اَمانت پاس ہویا قرضہ ہو تو لوٹادیجئے، جن کے مال ناحق لئے ہوں واپَس کردیجئے یامُعاف کروالیجئے، پتا نہ چلے تو اُتنا مال فُقَراء کو دے دیجئے٭نَماز، روزہ، زکوٰۃ، جتنی عبادات ذِمیّ ہوں ادا کرلیجئے اور تاخیر کے گناہ کی توبہ بھی کیجئے۔ اِس سفرِ مُبارَک کا مقصد صِرْف اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اُس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی خوشنودی ہو۔رِیا کاری اورتکبُّر سے جُدا رہئے ٭ عورت کے ساتھ جب تک شوہر یا مَحرِم بالِغ قابلِاطمینان نہ ہو جس سے نکاح ہمیشہ کو حرام ہے سفر حرام ہے، اگر کرے گی حج ہو جائے گا مگر ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا۔(بہارِ شریعت ج ا ص ۱۰۵۱)(یہ حکم صِرْف سفرِ حج کے لئے ہی نہیں ، ہر سفر کے لئے ہے ) ٭کِرائے کی گاڑی پر جو کچھ سامان بار (LOAD)کرنا ہو، پہلے سے دِکھادیجئے اور اِس سے زائد بِغیر اِجاز تِ مالِک گاڑی میں نہ رکھئے۔ حکایت : سیِّدُنا عبداللّٰہ بن مبارَک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو سفر پر روانہ ہوتے وَقت کسی نے دوسرے کو پہنچانے کے لئے خط پیش کیا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: اونٹ کرائے پر لیا ہے،سُواری والے سے اِجازت لینی ہو گی کیونکہ میں نے اُس کو سارا سامان دکھادیا ہے اور یہ خط زائد شے ہے۔(ماخوذاً احیاءُ العلوم ج ۱ ، ص ۳۵۳ ) ٭ حدیثِ پاک میں ہے کہ :’’جب تین آدَمی سفر کو جائیں تو اپنے میں سے ایک کو اَمیر بنالیں ۔‘‘


(اَبو داوٗد ج ۳، ص۵۱ ،حدیث۲۶۰۸) اِس سے کاموں میں اِنتِظام رہتا ہے٭اَمیر اُسے بنائیں جو خوش اَخلاق ، سمجھدار، دینداراور سُنَّتوں کا پابند ہو٭اَمیر کو چاہیے کہ ہم سفر اِسلامی بھائیوں کی خدمت کرے اور اُن کے آرام کا پُورا خیال رکھی٭جب سفرپرجانے لگیں تو اِس طرح رُخصت ہوں جیسے دُنیاسے رُخصت ہوتے ہوں ۔چلتے وقت یہ دُعا پڑھئے :

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِكَ مِنْ وَّعْثَآءِ السَّفَرِ وَکَاٰبَۃِ

الْمُنْقَلَبِ وَسُوْٓ ءِ الْمَنْظَرِ  فِی  الْمَالِ  وَ الْاَھْلِ  وَ الْوَلَدِط

واپسی تک مال و اہل و عِیال محفوظ رہیں گے ٭لباسِ سفر پہن کر اگر وَقتِ مکرُوہ نہ ہو تو گھر میں چار رَکْعَت نَفْل اَلْحَمْد و قُل سے پڑھ کر باہَر نکلیں ۔ وہ رَکْعَتیں واپَسی تک اَہْل و مال کی نگہبانی کریں گی٭گھر سے نکلتے وقت اٰیَۃُ الْکُرْسی اور قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَسے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِتک تَبَّتْ کے سِوا پانچ سُورَتیں ، سب بِسْمِ اللّٰہ کے ساتھ پڑھئے، آخِر میں بھی بِسْمِ اللّٰہ شریف پڑھئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ راستے بھر آرام رہے گا۔نیز اس وقت [اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ] (پ۲۰، القصص ۸۵)  (ترجَمۂ کنزالایمان:بیشک جس نے تم پر قراٰن فرض کیا وہ تمہیں پھیر لے جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو)


ایک بار پڑھ لے، بالخیر واپَس آئیگا٭مکروہ وَقت نہ ہو تو اپنی مسجد میں دو رَکْعَت نَفْل ادا کیجئے ۔

ہوائی جہاز کے گرنے اور جلنے سے امن میں رہنے کی دعا: ہوائی جہاز میں سُوار ہو کراوَّل آخِر دُرُود شریف کے ساتھ یہ دعا ئے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پڑھئے:

اَللّٰهُمَّ   اِ نِّیْۤ   اَعُوْذُبِكَ   مِنَ  الْھَدْمِ  وَ اَعُوْذُبِكَ    مِنَ    التَّرَدِّیْ  ط وَاَعُوْذُبِكَ  مِنَ   الْغَرَقِ  وَ الْحَرَقِ   وَ الْھَرَمِ  وَ  اَعُوْذُبِكَ   اَنْ یَّتَخَبَّطَنِیَ   الشَّیْطٰنُ  عِنْدَ  الْمَوْتِ  ط  وَ اَعُوْذُبِكَ  اَنْ  اَمُوْتَ  فِی سَبِیْلِكَ   مُدْبِرًا  وَ  اَعُوْذُبِكَ  اَنْ  اَمُوْتَ   لَدِیْغًا  ط

ترجَمہ: یااللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ، عمارت گرنے سے اور تیری پناہ چاہتا ہوں بلندی سے گرنے اور تیری پناہ چاہتا ہوں ڈوبنے جلنے اوربڑھاپے[2]؎ سے اور تیری پناہ طلب کرتا ہوں اس سے کہ شیطان مجھے موت کے وَقت وَسوَسے دے اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ تیری راہ میں میں پیٹھ پھیرتا مر جاؤں اور تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ سانپ کے ڈسنے سے انتقال کروں ۔


بُلند مَقام سے گرنے کو تَرَدِّیْ اورجلنے کوحَرَق کہتے ہیں ۔حُضُورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔یہ دُعا طَیّارے کیلئے مخصوص نہیں ، چُونکہ اِس دُعامیں ’’بلندی سے گرنے‘‘ اور ’’جلنے‘‘ سے بھی پناہ مانگی گئی ہے اور ہوائی سفر میں یہ دونوں خطرات موجود ہوتے ہیں لہٰذا اُمّید ہے کہ اِسے پڑھنے کی بَرَکت سے ہوائی جہاز حادِثے سے محفوظ رہے ٭ رَیل یا بس یا کار وغیرہ میں بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَر، اَلْحَمْدُ للہ  اور سُبْحٰنَ اللہِسب تین تین بار، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ایک بار، پھر یہ قُراٰنی دُعاپڑھئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ سُواری ہر قِسم کے حادِثے سے محفوظ رہے گی۔ دُعا یہ ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ(۱۳)وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(۱۴)۲۵زخرف۱۳۔۱۴) ترجَمۂ کنزالایمان:پاکی ہے اُسے جس نے اِس سَواری کو ہمارے بس میں کردیا اور یہ ہمارے بُوتے (یعنی طاقت)کی نہ تھی اور بے شک ہمیں اپنے رب (عَزَّوَجَلَّ)کی طر ف پلٹنا ہے٭جب کسی منزِل پر اُتریں تو دو رَکعَت نَفل پڑھیں کہ (اگر وَقتِ مکروہ نہ ہو تو) سنَّت ہی٭جب کسی منزِل پر اُتریں یہ دُعا پڑھئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس منزل میں کوچ کرتے وقت کوئی چیزنقصان نہ دیگی۔دُعا یہ ہے:

اَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ

میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے کامِل کلمات کے واسطے سے ساری مخلوق کے شَر سے پناہ مانگتا ہوں ۔

 


٭’’یَاصَمَدُ‘‘134بار روزانہ پڑھئے بھُوک اور پیاس سے اَمن رہے گا ٭ جب دُشمن یا رَہزن(یعنی ڈاکو) کا خوف ہو سورہ ٔ  لِاِیْلٰف پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر بَلا سے اَمان(یعنی پناہ) ملے گی٭دشمن کے خوف کے وقت یہ دعا پڑھنا بَہُت مفید ہے :

اَللَّهُمَّ اِنَّا نَجْعَلُكَ فِىْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ

ترجَمہ:اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! میں تجھ کو ان کے سینوں کے مقابل کرتاہوں اور اُن کی بُرائیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔

٭ اگر کوئی چیز گم ہو جائے تو یہ کہے:

یَاجَامِعَ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ اِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَo اِجْمَعْ بَیْنِیْ وبَیْنَ ضَآلَّتِیْ

( ترجمہ:اے لوگوں کو اُس دن جمع کرنے والے جس میں شک نہیں ، بے شک اﷲ (عزوجل) وعدے کا خلاف نہیں کرتا،(مجھے) میرے اور میری گُمی چیز کے درمیان جمع کردے) اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ  مل جائے گی۔

٭ہر بُلندی پر چڑھتے اَللّٰہُ اَکْبَر کہئے اور ڈھال(یعنی ڈھلوان) میں اُترتے سُبْحٰنَ اللہِ ٭ سوتے وقت ایک بارآیَۃُ الْکُرْسی ہمیشہ پڑھئے کہ چور اور شیطان سے امان (یعنی پناہ) ہے٭جب کسی مشکل میں مَدد کی ضَرورت پڑے تو حدیثِ پاک میں ہے کہ اِس طرح تین بار پکارئیے:’’یَا  عِبَادَ  اللّٰہِ  اَعِیْنُوْنِیْ‘‘یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے بندو! میری مدد کرو۔ (حِصْنِ حَصِین ص۸۲)٭سَفَر سے واپسی میں


بھی بیان کردہ گزَشتہ آدابِ سفر کو مَلْحُوظ رکھئے٭لو گوں کو چاہیے کہ حاجی کا استقبال کریں اور اس کے گھر پہنچنے سے قبل دُعا کرائیں کہ حاجی جب تک اپنے گھر میں قدم نہیں رکھتااُس کی دُعا قَبول ہے٭وطن پہنچ کرسب سے پہلے اپنی مسجِد میں مکروہ وَقْت نہ ہو تو دو رَکْعَت نَفل ادا کیجئے٭دورَکْعَت گھر آکر بھی(مکروہ وَقْت نہ ہو تو ) ادا کیجئے٭پھر سب سے پُرتَپاک طریقے سے ملاقات کیجئے۔(تفصیلی معلومات کیلئے بہارِ شریعت جلد۱حصّہ6 صفحہ1051تا1066، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ  جلد10 صفحہ726تا731سے مُطالعہ فرما لیجئے)

’’یا اللہ‘‘کےچھ حروف کی نسبت سے سفر میں نَماز کے 6مَدَنی پھول

{۱}شَرْعاً مسافِروہ شخص ہے جو تین دن کے فاصِلے تک جانے کے اِرادے سے اپنے مقامِ اِقامت مَثَلاً شہریاگاؤں سے باہَرہوگیا۔ خشکی میں سفر پر تین دن کی مَسافت سے مُراد ساڑھے ستاون میل (تقریباً 92 کِلو میٹر )   کا فاصِلہ ہے۔(فتاوٰی رضویہمُخَرَّجہ ج۸ص۲۴۳،۲۷۰ر ،بہارِ شریعت ج ۱ ص۷۴۰،۷۴۱) {۲}جہاں سفر کر کے پہنچیں اور پندَرَہ یا زیادہ دِن قِیام کی نیّت ہے تو اب مسافِر نہ رہے بلکہ مُقِیم ہوگئے، ایسی صُورَت میں نَماز میں قَصر نہیں کریں گے۔ جب پندَرَہ دِن سے کم رہنے کی نیّت ہو تو اب نَمازوں میں قَصر کریں گے یعنی ظہر،عَصْراورعشاء کی فَرْض رَکْعَتَوں میں چار چار فَرْضوں کی جگہ


دو دو رَکْعَت فَرْض ادا کریں گے۔ فَجراور مغرِب میں قَصْر نہیں ، باقی تمام سُنَّتیں ، وِتْر وغیرہ سب پوری ادا کریں {۳}بے شمار حُجّاجِ کرام شوّالُ المکرم یا ذِیقعدۃُ الحرام میں مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچ جاتے ہیں ۔ چونکہ ایّامِ حج آنے میں کافی وَقت باقی ہوتا ہے لہٰذا چندہی دنوں کے بعد اُنہیں تقریباً 9دن کیلئے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  بھیج دیا جاتا ہے ،اِس صورت میں وہ مدینہ شریف میں مسافِرہی رہتے ہیں بلکہ اِس سے قَبل مکّے شریف میں 15دن سے کم وقفہ ملنے کی صورت میں وہاں بھی مسافِر ہی ہوتے ہیں ۔ ہاں مکّے یا مدینے میں یعنی ایک ہی شہر کے اندر 15یا زیادہ دن رہنے کا یقینی موقع مِلنے کی صورت میں اِقامت کی نیّت دُرُست ہو گی {۴} جس نے اِقامت کی نیّت کی مگر اُس کی حالت بتاتی ہے کہ پندرہ دن نہ ٹھہریگا تو نیَّت صحیح نہیں مَثَلاً حج کرنے گیا اور ذُو الحِجَّۃِ الحرام کا مہینہ شُروع ہوجانے کے باوُجُود پندرہ دن مکّۂ معظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ٹھہرنے کی نیَّت کی تو یہ نیّت بیکار ہے کہ جب حج کا ارادہ کیا ہے تو (15 دن اس کو ملیں گے ہی نہیں کہ8 ذُ و الحِجَّۃِ الحرام ) مِنٰی شریف( اور 9 کو)عَرَفات شریف  کو ضَرور جائیگا پھراِتنے دنوں تک  (یعنی 15 دن مسلسل) مکّۂ معظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں کیونکر ٹھہر سکتا ہے؟مِنٰی شریف سے واپَس ہوکر نیَّت کرے تو صحیح ہے۔  جبکہ واقعی 15  یا زِیادہ دن مکّۂ معظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ٹھہرسکتا ہو،اگرظنِّ غالِب ہو کہ 15دن کے اندر


اندر مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً یا وطن کیلئے روانہ ہوجائے گا تو اب بھی مسافِر ہے  {۵} تادمِ تحریرجدّہ شریف آبادی کے خاتِمے سے مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی آبادی کے آغازتک کا فاصِلہ بذریعہ سڑک 53 کلومیٹر اور بذریعہ ہوائی جہاز47کلومیٹر ہے۔اور جدّہ شریف کی آبادی کے خاتمے سے لے کر عرفات شریف تک ایک سڑک سے سفر 78کلومیٹر اور دیگر دو سڑکوں سے 80کلومیٹر کا سفر ہے ۔جبکہ مَطار (AIRPORT) سے ہوائی فاصِلہ 67کلومیٹر ہے۔ لہٰذا جدّہ شریف سیمکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً جائیں تب بھی اور براہ راست عرفات شریف پہنچیں تب بھی وہ پوری نمازیں پڑھیں گے{۶}ہوائی جہاز میں فَرْض، وِتر، سُنَّتیں اور نَوافِل وغیرہ تمام نَمازیں دَورانِ پرواز پڑھ سکتے ہیں ، اِعادہ(یعنی دوبارہ پڑھنے) کی حاجت نہیں ۔فَرْض ، وِتْر اورسنَّتِ فجر قِبلہ رُو کھڑے ہو کر قاعِدے کے مطابِق ادا کیجئے۔ طیّارے کی دُم ، حمّام و کچن وغیرہ کے پاس کھڑے کھڑے نَماز پڑھنا ممکن ہو تا ہے۔ باقی سنَّتیں اور نوافِل دورانِ پرواز اپنی نِشَست پر بیٹھے بیٹھے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔اس حالت میں قبلہ رُو ہونا شَرط نہیں ۔  (مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’ نماز کے اَحکام‘‘ میں شامل رسالہ ’’ مسافر کی نماز کا مُطالعہ کیجئے)

رُکے ہیبت سے جب مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کر

چلے آؤ چلے آؤ یہ گھر رحمن کا گھر ہے

                                                (ذوقِ نعت)


’’کرم‘‘ کے تین حُرُوف کی نسبت سے 3فرامینِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

[1]حاجی اپنے گھر والوں میں سے چارسو کی شَفاعَت کرے گا اور گناہوں سے ایسا نکل جائے گا جیسے اُس دِن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ (مُسْنَدُ الْبَزَّار ج۸ص۱۶۹حدیث۳۱۹۶)[2]حاجی کی مغفِرت ہوجاتی ہے اور حاجی جس کے لئے اِستِغفار کرے اس کے لئے بھی مغفِرت ہے۔(مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۳ ص۴۸۳حدیث۵۲۸۷)[3] جو حج یا عُمرہ کیلئے نِکلا اور راستے میں مرگیا اُس کی پیشی نہیں ہوگی،نہ حساب ہوگا اور اُس سے کہا جائے گا: اُدْخُلِ الْجَنَّۃَ یعنی تو جنَّت میں داخِل ہوجا۔(اَلْمُعْجَمُ الْاَوْسَط ج ۴ ص ۱۱۱ حدیث ۸۸۳۵)

ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں :

میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن’’رسالۂ مبارکہ اَنْورُ البِشارَہ‘‘ میں  پیدل چلنے کی رغبت دِلاتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ہوسکے تو پِیادہ (پیدل مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے مِنٰی، عَرَفات وغیرہ) جاؤ کہ جب تک مَکَّۂ مُعَظَّمہ پلٹ کر آؤگے ہر قد م پر سات کروڑنیکیاں لکھی جائیں گی۔ یہ نیکیاں تَخْمِیْناً (یعنی اندازاً) اٹھتّر کھرب چالیس اَرَب آتی ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا فَضل اُس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صَدقے میں اِس اُمّت پر بے شمار ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ج ۱۰ ص ۷۴۶ )


سگِ مدینہعُفِیَ عَنہ  عرض کرتا ہے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے پُرانے طویل راستے کا حساب لگایا ہے۔ اب چُونکہ مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے مِنٰی شریف کے لئے پہاڑوں میں سُرَنگیں ( TUNNELS) نِکالی گئی ہیں اور پیدل چلنے والوں کے لئے راستہ مختصر اور آسان ہوگیا ہے اِس حساب سے نیکیوں کی تعداد میں بھی فرق واقِع ہو گا۔وَاللّٰہُ وَرَسُولُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

پیدل حاجی سے فرشتے گلے ملتے ہیں :

فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: جب حاجی سُوار ہو کر آتے ہیں تو فِرِشتے ان سے مُصافَحہ کرتے (یعنی ہاتھ ملاتے) ہیں اور جو پیدل چل کر آتے ہیں فِرِشتے اُن سے مُعانَقہ کرتے  (یعنی گلے ملتے ) ہیں ۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج۴ ص۴۶۵)

دورانِ حج کیلئے قراٰنی حکم:

پارہ 2 سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ آیت نمبر 197میں ارشاد ِربّانی ہے:  فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ  ترجَمۂ کنزالایمان: تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو، نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا حج کے وقت تک ۔

اِس آیتِ مبارَکہ کے تحت  صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : (حج میں ) تو ان باتوں


سے نہایت ہی دُور رہنا چاہیے، جب غصّہ آئے یا جھگڑا ہو یا کسی معصیت (یعنی نافرمانی )کا خیال ہو فوراً سر جُھکا کر قلب کی طرف مُتَوجِّہ ہوکر اِس آ یت کی تِلاوت کرے اور دو ایک بار لا حول شریف پڑھے، یہ بات جاتی رہے گی۔ یِہی نہیں کہ (خود)اِسی (یعنی حاجی)کی طرف سے ابتِدا ہو یا اس کے رُفَقا (ساتھیوں )  ہی کے ساتھ جِدال(یعنی جھگڑا )ہو جائے بلکہ بعض اوقات امتحاناً راہ چلتوں کو پیش کر دیا جاتا ہے کہ بے سبب اُلجھتے بلکہ سَبّ وشَتم(یعنی گالی گلوچ) ولعن وطعن کو تیّار ہوتے ہیں ، اسے (یعنی حاجی کو)ہر وَقت ہوشیار رہنا چاہیے، مَبادا (یعنی ایسا نہ ہو۔ خدا نہ کرے) ایک دو کلمے(یعنی جملوں ) میں ساری محنت اور روپیہ برباد ہو جائے۔ (  بہارِ شریعت ج۱ ص۱۰۶۱)

سنبھل کر پاؤں رکھنا حاجیو!راہِ مدینہ میں

کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بیکار ہو جائے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حاجی کے لئے سرمایۂ عشق ضروری ہے:

خوش نصیب حاجِیو!حج کے لئے جس طر ح سرمایۂ ظاہِری کی ضَرورت ہے اُسی طرح سرمایۂ باطِنی یعنی سرمایہ عِشق ومحَبَّت کی بھی سخت حاجت ہے اور یہ سرمایہ عاشقانِ رسول کے یہاں ملتا ہے۔ حکایت: سرکارِ بغداد، حُضُورِ غوثِ اعظم


رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہِ معظّم میں ایک صاحِب حاضِر ہوئے، غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حاضِرین سے فرمایا:یہ ابھی ابھی بیتُ الْمقدَّس سے ایک قدم میں آئے ہیں تاکہ مجھ سے آدابِ عِشق سیکھیں ۔(اخبار الاخیار ص۱۴ بِتَصَرُّفٍ)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

کسی عاشق رسول سے نسبت قائم کرلیجئے: سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ !ایک باکرامت وَلی بھی سرمایۂ عِشق کے حُصُول کی خاطِر اپنے سے بڑے وَلی کی بارگاہ میں حاضِری دیتا ہے پھر ہم تُو کس شُمار وقِطار میں    ہیں ! لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ کسی عاشِقِ رسول سے نِسبت قائم کرکے اُس سے آدابِ عِشق سیکھیں اور پھر سفرِ مدینہ اِختِیار کریں ۔؎

پہلے ہم سیکھیں قرینہ            پھر ملے مُرشِد سے سینہ

چل پڑے اپنا سفینہ             اور پہنچ جائیں مدینہ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

          پیارے حاجیو!اب عاشقانِ رسول حاجیوں کی جذب و مستی بھری دوعجیب و غریب حکایات پڑھئے اورجھومئے:


پُراَسرار حاجی:

حضرتِ سَیِّدُنا فُضَیل بن عِیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :میدانِ عَرَفات میں حجّاج مَشغولِ دُعا تھے، میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو سر جھُکائے شَرم سار کھڑا تھا،میں نے کہا: اے نوجوان!تُو بھی دُعا کر۔ وہ بولا:مجھے تو اِس بات کا ڈَر لگ رہا ہے کہ جو وَقت مجھے مِلاتھا شاید وہ جاتا رہا، اب کس مُنہ سے دُعا کروں !میں نے کہا:تُو بھی دُعا کر تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے بھی اِن دُعا مانگنے والوں کی بَرَکت سے کامیاب فرمائے۔ حضرت سَیِّدُنا فُضَیل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں : اُس نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے  کی کوشِش کی کہ ایک دَم اُس پر رِقَّت طاری ہوگئی اور ایک چیخ اُس کے مُنہ سے نکلی، تڑپ کر گرا اور اُس کی رُوح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی۔(کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۶۳) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

ذَبح ہونے والا حاجی:

حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالنُّون مصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : میں نے مِنٰی شریف میں ایک نوجوان کو آرام سے بیٹھا دیکھا جب کہ لوگ قُربانیوں میں مَشغول تھے۔ اِتنے میں وہ پکارا: اے میرے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ!تیرے سارے بندے قُربانیوں میں


مَشغول ہیں ،میں بھی تیری بارگاہ میں اَپنی جان قُربان کرنا چاہتا ہوں ، میرے مالِک عَزَّوَجَلَّ !مجھے قَبول فرما۔یہ کہہ کراپنی اُنگلی گلے پرپَھیری اور تڑپ کر گرپڑا، میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ جان دے چکا تھا۔(کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۶۴) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں

       تِرے نام پر سب کو وارا کروں میں (سامانِ بخشش)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اپنے نام کے ساتھ ’’حاجی‘‘ لگانا کیسا ؟:

محترم حاجیو!دیکھا آپ نے! حج ہو تو ایسا! اللہ عَزَّوَجَلَّ اِن دونوں بابَرَکت حاجیوں کے طُفیل ہمیں بھی رِقَّتِ قلبی نصیب فرمائے۔ یاد رکھئے!ہر عبادت کی قَبولِیَّت کے لئے اِخلاص شَرط ہے۔آہ! اب علمِ دین اور اَچّھی صُحبت سے دُوری کی بِنا پر اَکثر عبادات رِیاکاری کی نذرہوجاتی ہیں ۔ جس طرح اب عُمُوماً ہر کام میں نُمُود و نُمائش کا عمل دَخل ضَروری سمجھا جانے لگاہے اِسی طرح حج جیسی عظیم سَعادت بھی دِکھاوے کی بَھینٹ چڑھتی جارہی ہے ، مَثَلاً بے شُمارافراد حج ادا کرنے کے بعد اپنے آپ کو اپنے


مُنہ سے بِلا کسی مَصلحت وضَرورت کے حاجی کہتے اور اپنے قلم سے لکھتے ہیں ۔ آپ شاید چونک پڑے ہوں گے کہ اِس میں آخِر کیا حَرَج ہے ؟ ہاں ! واقعی اِس صورت میں کوئی حَرَج بھی نہیں کہ لوگ آپ کو اپنی مرضی سے حاجی صاحِب کہہ کر پکاریں مگر پیارے حاجیو!اپنی زَبان سے اپنے آپ کو حاجی کہنا اپنی عبادت کا خود اِعلان کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ اِس کو اِس چُٹکُلے سے سمجھنے کی کوشِش کیجئے:

چٹکلا: ٹرین چھک چھک کرتی اپنی منزِل کی طرف رواں دواں تھی، دو شخص قریب قریب بیٹھے تھے ایک نے سلسلۂ گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا:جناب کا اِسمِ شریف؟ جواب ملا : ’’ حاجی شفیق‘‘اور آپ کا مبارَک نام؟اب دوسرے نے سُوال کیا،پہلے نے جواب دیا : ’’نَمازی رفیق‘‘حاجی صاحِب کو بڑی حیرت ہوئی ، پوچھ ڈالا:اَجی نَمازی رفیق!یہ تو بڑا عجیب سانام لگتا ہے۔ نمازی صاحِب نے پوچھا : بتایئے آپ نے کتنی بار حج کا شَرَف حاصل کیا ہے؟ حاجی صاحِب نے کہا: اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ! پچھلے سال ہی تو حج پر گیا تھا۔نَمازی صاحِب کہنے لگے:آپ نے زندگی میں صِرف ایک بار حجِّ بَیْتُ اللّٰہ کی سعادت حاصل کی تو، بَبانگِ دُہُل اپنے نام کے ساتھ ’’ حاجی ‘‘کہنے کہلوانے لگے ، جبکہ بندہ توبرسہا برس سے روزانہ پانچ وَقت نَماز ادا کرتا ہے، تو پھر اپنے نام کے ساتھ اگر لفظ ’’نَمازی‘‘کہدے تو اِس میں آخِر تَعَجُّب کی کون سی بات ہے!


حج مبارَک کا بورڈ لگانا کیسا...؟:

سمجھ گئے نا! آج کل عجیب تَماشا ہے! نُمُود ونُمائش کی اِنتِہا ہوگئی، حاجی صاحِب حج کو جاتے اورجب لوٹ کرآتے ہیں توبِغیر کسی اچّھی نِیّت کے پوری عمارت  بَرقی قُمقُموں سے سجاتے اور گھر پر’’حج مُبارَک‘‘کا بورڈ لگاتے ہیں ،بلکہ توبہ!توبہ!کئی حاجی تو اِحرام کے ساتھ خُوب تصاویر بناتے ہیں ۔آخِر یہ کیا ہے؟ کیا بھاگے ہوئے مجرِم کا اپنے رَحمت والے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اِس طرح دُھوم دھام سے جانا مناسب ہے؟ نہیں ہرگز نہیں بلکہ رو تے ہوئے اور آہیں بھرتے ہوئے، لرزتے، کاپنتے ہوئے جانا چاہیے۔    ؎

آنسوؤں کی لڑی بن رہی ہو           اور آہوں سے پھٹتا ہو سینہ

وِردِ لب ہو ’’مدینہ مدینہ‘‘             جب چلے سُوئے طیبہ سفینہ

جب مدینے میں ہو اپنی آمد           جب میں دیکھوں تِرا سبزگنبد

ہِچکیاں باندھ کر روؤں بے حد             کاش! آجائے ایسا قرینہ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بصرہ سے پیدل حجّ!: بِغیراچّھی نِیّت مَحض لذّتِ نفس و حُبِّ جاہ کے سبب اپنے مکان پر حج مبارَک کا بورڈ لگانے والوں اور اپنے حج کا خوب چرچا کرنے والوں کیلئے ایک کمال دَرَجے کی عاجِزی


پر مشتمل حِکایت پیشِ خدمت ہے، چُنانچِہ حضرتِ سَیِّدُنا سُفیان ثَوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی حج کے لئے بصرہ سے پیدل نکلے۔ کسی نے عرض کی:آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سُوار کیوں نہیں ہوتے؟ فرمایا :کیا بھاگے ہوئے غلام کو اپنے مولا عَزَّوَجَلَّ کے      دَربار میں صُلح کے لئے سُواری پر جاناچاہیے؟میں اِس مُقدّس سر زمین میں جاتے ہوئے بَہُت زیادہ شَرم محسوس کرتا ہوں ۔(تَنْبِیہُ الْمُغْتَرِّیْن ص۲۶۷) اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

ارے زائرِ مدینہ! تُو خوشی سے ہنس رہا ہے

دلِ غمزدہ جو پاتا تو کچھ اور بات ہوتی!

میں طواف کے قابل نہیں :  حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوَالِی    نَقْل کرتے ہیں : ایک بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے سُوال ہُوا: کیا آپ کبھی کعبۂ مُشرَّفہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کے اندر داخِل ہوئے ہیں ؟(انہوں نے بطورِ انکساری) فرمایا: کہاں بَیْتُ اللّٰہشریف اور کہاں میرے گندے قدم!میں تو اپنے قدموں کو بَیْتُ اللّٰہ شریف کے طواف کے بھی قابِل نہیں سمجھتا ، کیوں کہ یہ تو میں ہی جانتا ہوں کہ یہ قدم


کہاں کہاں اور کیسی کیسی جگہوں پر چلے پھرے ہیں !(اِحیاءُ الْعُلُوم  ج۱ ص ۳۴۵)  اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

اُن کے دِیار میں تُو کیسے چلے پھرے گا؟

                       عطارؔ تیری جُرأَت! تُو جائے گا مدینہ!! (وسائلِ بخشش ص ۳۲۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حاجی پر حُبِّ جاہ و ریا کے سخت حَملے:

پیارے حاجیو!میٹھے مدینے کے مسافرو!غالباً نَماز روزہ وغیرہ کے مقابلے میں حج میں بَہُت زیادہ بلکہ قدم قدم پر’’ رِیاکاری‘‘ کے خطرات پیش آتے ہیں ، حج ایک ایسی عبادت ہے جو ایک تو علی الاعلان کی جاتی ہے اوردوسرے ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ، اس لئے لوگ حاجی سے عاجِزی سے ملتے ،خوب احتِرام بجا لاتے، ہاتھ چومتے،گجرے پہناتے اور دعاؤں کی درخواستیں کرتے ہیں ۔ ایسے موقع پر حاجی سخت امتحان میں پڑ جاتا ہے کیوں کہ لوگوں کے عقیدت مندانہ سُلوک میں کچھ ایسی’’ لذّت ‘‘ہوتی ہے کہ اِس کی وجہ سے عبادت کی بڑی سے بڑی مَشَقَّت بھی پھول معلوم ہوتی اور بسا اوقات بندہ حُبِّ جاہ اور رِیا کاری کی تباہ کاری کی گہرائی


میں گرچکا ہوتا ہے مگر اُسے کانوں کان اِس کی خبر تک نہیں ہوتی ! اُس کا جی چاہتا ہے کہ سب لوگوں کو میرے حج پر جانے کی اطِّلاع ہو جائے ،تا کہ مجھ سے آ آ کر ملیں ، مبارکبادیاں پیش کریں ، تحفے دیں ، میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں ، مجھ سے دعاؤں کیلئے عَرض کریں ، مدینے میں سلام عَرض کرنے کی گڑ گڑا کر درخواست کریں اور مجھے رخصت کرنے ائیر پورٹ تک آئیں وغیرہ وغیرہ خواہِشات کے ہُجوم اور علمِ دین کی کمی کے سبب حاجی بعض اوقات ’’شیطان کا کھلونا ‘‘بن کر رہ جاتا ہے لہٰذ شیطان کے وار سے خبر دار رہتے ہوئے، اپنے دل کے اندر خوب عاجِزی پید ا کیجئے، نُمائشی انداز سے خود کو بچایئے۔ خدا کی قسم! رِیاکاری کا عذاب کسی سے بھی برداشت نہیں ہو سکے گا۔دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہکی مطبوعہ 616 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’نیکی کی دعوت(حصّہ اوّل)‘‘ صَفْحَہ79پر فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم ہے:’’بے شک جہنَّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنَّم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ وادی اُمّتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اُن رِیاکاروں کے لئے تیّار کی ہے جو قراٰنِ پاک کے حافِظ، غیرُ اللّٰہ کے لئے صَدَقہ کرنے والے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر کے حاجی اور راہ ِخدا عَزَّوَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے۔‘‘(اَلْمُعْجَمُ الْکبِیرج۱۲ص۱۳۶حدیث ۱۲۸۰۳)


حاجیوں کی ریا کاری کی دو مثالیں : نیکی کی دعوت حصّہ اوّل صَفْحَہ 76پر ہے:{1}اپنے حج وعُمرے کی تعداد، تِلاوتِ قراٰن کی یومیہ مقدار،رَجَبُ المُرجَّب و شعبانُ المعظَّم کے مکمَّل اور دیگر نفلی روزوں ، نوافِل،دُرُود شریف کی کثرت وغیرہ کااِس لئے اظہار کرنا کہ واہ واہ ہو اور لوگوں کے دلوں میں احتِرام پیدا ہو {2} اِس لئے حج کرنا یا اپنے حج کا اظہار کرناکہ لوگ حاجی کہیں ، ملاقات کیلئے حاضِر ہوں ، گِڑگڑاکر دعاؤں کی التجائیں کریں ، گجرے پہنائیں ، تحائف وغیرہ پیش کریں۔ (اگر اپنی عزّت کروانا یا تحفے وغیرہ حاصِل کرنا مقصود نہ ہو بلکہ تحدیثِ نعمت وغیرہ اچّھی اچّھی نیّتیں ہوں توحج و عمرے کااظہار کرنے، عزیزوں اور رشتے داروں کو جمع کرنے اور ’’محفلِ مدینہ‘‘ سجانے کی مُمانَعت نہیں بلکہ کارِ ثوابِ آخِرت ہے)(رِیا کاری کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ’’نیکی کی دعوت‘‘ حصّہ اوّل صفحہ 63تا 106کامُطالَعہ کیجئے)

مِرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو

                                کر اِخلاص ایسا عطا یاالٰہی                     (وسائلِ بخشش ص۷۸)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


یاد رکھنے کی 55 اِصْطِلاحات: حاجی صاحِبان مندرَجۂ ذَیل اِصطِلاحات اور اَسْمائے مَقامات وغیرہ ذِہن نَشین فرما لیں گے تو اِس طرح آگے مُطالَعَہ کرتے ہوئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آسانی پائیں گے۔

[1] اَشْھُرِحَج:حج کے مہینے یعنی شَوَّالُ الْمُکَرَّم و ذُوالْقَعْدہ دو نوں مکمّل اور ذُوالْحِجَّہ کے اِبتدائی دَس دِن۔

[2] اِحرام:جب حج یا عُمرہ یا دونوں کی نیَّت کرکیتَلْبِیَہ پڑھتے ہیں تو بعض حَلال چیزیں بھی حرام ہوجاتی ہیں ،اِس کو ’’اِحرام‘‘کہتے ہیں اورمَجازاًاُن بِغیر سِلی چادروں کو بھی اِحرام کہا جاتا ہے جنھیں مُحرِم استِعمال کرتا ہے۔

[3] تَلْبِیَہ:یعنی لَبَّیْکَ ط  اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔۔۔۔،اِلَخپڑھنا۔

[4] اِضطِباع:اِحرام کی اُوپر والی چادر کوسیدھی بغل سے نکال کر اِس طرح اُلٹے کندھے پر ڈالنا کہ سیدھا کندھا کُھلا رہے۔

[5] رَمَل:اَکڑ کر شانے(کندھے) ہِلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے قدرے (یعنی تھوڑا) تیزی سے چلنا۔

[6] طَواف:خانۂ کعبہ کے گرد سات چکّر لگانا، ایک چکّر کو ’’شَوْط‘‘ کہتے ہیں ، جمع ’’اَشْواط‘‘۔


[7] مَطاف :جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے۔

[8] طَوافِ قُدُوْم:مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً   میں داخِل ہونے پر  کیا جانے والا وہ پہلا طواف جو کہ ’’اِفراد‘‘ یا ’’قِران‘‘ کی نیَّت سے حج کرنے والوں کے لئے سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے۔

[9] طَوافِ زِیارۃ:اِسے طوافِ اِفاضہ بھی کہتے ہیں ، یہ حج کا رُکن ہے ، اِس کا وَقت 10ذُوالْحِجَّۃِ الحرام کی صبحِ صادق سے 12 ذُوالْحِجَّۃِ الحرام کے غُروبِ آفتاب تک ہے مگر 10ذُوالْحِجَّۃِ الحرامکو کرنا اَفضَل ہے۔

[10]   طَوافِ وَداع:اسے’’ طواف ِ رخصت ‘‘ اور’’ طوافِ صَدر‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ یہ حج کے بعد مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  سے رُخصت ہوتے وَقت ہر آفاقی حاجی پر واجِب ہے۔

[11]   طَوافِ عُمْرَہ:یہ عُمرہ کرنے والوں پر فرض ہے۔

[12]   اِسْتِلام: حجراَ سود کو بوسہ دینا یا ہاتھ یا لکڑی سے چُھو کر ہاتھ یا لکڑی کو چوم لینا یا ہاتھوں سے اُس کی طر ف اِشارہ کر کے اُنہیں چو م لینا۔

[13]   سَعْی:’’صَفا‘‘اور’’مَروَہ‘‘کے مابَین(یعنی درمیان) سات پھیرے لگا نا  (صَفا سے مَروہ تک ایک پھیرا ہوتا ہے یوں مَروہ پر سات چکَّر پورے ہوں گے)


[14]   رَمی:جَمرات(یعنی شیطانوں )پر کنکریاں مارنا۔

[15]   حَلْق:اِحرام سے باہَر ہونے کے لئے حُدُودِ حرم ہی میں پُورا سَر مُنڈوانا ۔

[16] قَصر:چوتھائی(4/1)سر کا ہر بال کم اَزکم اُنگلی کے ایک پَورے کے برابر کتروانا ۔

[17]   مَسْجِدُ الْحَرام:مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کی وہ مسجِد جس میں کعبۂ مُشَرَّفہ واقِع ہے۔

[18]   بابُ السَّلام:مسجِدُ الحرام کا وہ دَروازۂ مُبارَکہ جس سے پہلی بار داخِل ہونا افضل ہے اور یہ جانِبِ مشرق واقع ہے۔(اب یہ عُمُوماً بند رہتا ہے)

[19]   کَعْبَہ:اِسے ’’بَیْتُ اللّٰہ‘‘بھی کہتے ہیں یعنیاللہ عَزَّوَجَلَّ کاگھر۔ یہ پوری دُنیا کے وَسط(یعنی بیچ) میں واقع ہے اور ساری دُنیا کے لوگ اِسی کی طرف رُخ کرکے نَماز ادا کرتے ہیں اور مسلمان پروانہ وار اِس کا طواف کرتے ہیں ۔

کعبۂ مشرفہ کے چار کونوں کے نام:

[20] رُکنِ اَسْوَد:جُنُوب و مشرق (SOUTH EAST) کے کونے میں واقِع ہے، اِسی میں جنَّتی پتَّھر ’’حَجرِ اَسْوَد‘‘نَصْب ہے[21]رُکنِ عراقی : یہ عراق کی سَمْت شِمال مشرقی (NORTH-EASTERN) کونا ہے ۔ [22] رُکنِ شامی:یہ ملکِ شام کی سمت شمال مغرِبی (NORTH-WESTERN) کو نا ہے۔


[23] رُکنِ یَمانِی : یہ یَمَن کی جانِب مغرِبی(WESTERN )کو نا ہے۔

[24]   بابُ الکعبہ:رُکنِ اَسْوَد اور رُکنِ عراقی کے بیچ کی مشرِقی دیوار میں زمین سے کافی بُلند سونے کا دروازہ ہے۔

[25]   مُلْتَزَم:رُکنِ اَسْوَد اور بابُ الکعبہ کی درمیانی دیوار۔

[26]   مُسْتَجار:رُکنِ یَمانی اور شامی کے بیچ میں مغربی دیوار کا وہ حصّہ جو ’’مُلْتَزَم‘‘ کے مُقابِل یعنی عَین پیچھے کی سیدھ میں واقِع ہے۔

[27]   مُسْتَجاب:رُکنِ یَمانی اور رُکنِ اَسْوَد کے بیچ کی جُنُوبی دیوار یہاں ستَّر ہزار فِرِشتے دُعاپر اٰمین کہنے کے لئے مقرَّر ہیں ۔ اِسی لئے سَیِّدی اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے اِس مقام کانام ’’مُستَجاب‘‘ (یعنی دُعا کی مقبولیَّت کی جگہ)رکھا ہے۔

[28]  حَطِیْم:کعبۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کی شمالی دیوار کے پاس نِصف (یعنی آدھے) دائرے(HALF CIRCLE) کی شکل میں فَصِیل (یعنی باؤنڈری ) کے اندر کا حصَّہ۔’’حطیم‘‘ کعبہ شریف ہی کاحصَّہ ہے اور اُس میں داخِل ہونا عَین کعبۃُ اللّٰہ شریف میں داخِل ہونا ہے۔

[29]   مِیْزابِ رَحْمَت:سونے کا پَرنالہ یہ رُکنِ عراقی وشامی کی شمالی

 


دیوارکی چھت پر نَصب ہے اِس سے بارِش کاپانی’’حطیم‘‘میں نچھاوَر ہوتا ہے۔

[30]   مَقامِ اِبْراھِیْم :دروازۂ کَعْبہ کے سامنے ایک قُبَّے(یعنی گنبد) میں وہ جنَّتی پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرتِ سَیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللّٰہ  عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے  کَعبہ شریف کی عمارَت تعمیر کی اور یہ حضرتِ سَیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللّٰہ  عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کا زِندہ مُعجِزہ ہے کہ آج بھی اِس مُبارَک پتَّھر پر آپ  عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قَدَمَین شَرِیفَین کے نَقش موجود ہیں ۔

[31]   بِیْرِزَم زَم:مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً    کا وہ مقدَّس کُنواں جو حضرتِ سَیِّدُنا اِسمٰعیل  عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے عالم طُفُولِیَّت(یعنی بچپن شریف ) میں آپ کے ننھّے ننھّے مُبارَک قدموں کی رَگڑ سے جاری ہوا تھا۔(تفسیرِ نعیمی ج۱ ص۶۹۴) اِس کا پانی دیکھنا، پینا اور بدن پرڈالنا ثواب اور بیماریوں کے لئے شِفا ہے۔یہ مُبارَک کنواں مقامِ ابراہیم سے جُنُوب میں واقِع ہے۔( اب کُنویں کی زیارت نہیں ہو سکتی)

[32]   بابُ الصَّفا:مسجِدُالحرام کے جُنُوبی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے نزدیک ’’کوہِ صفا‘‘ہے۔

[33]   کوہِ صَفا:کَعْبۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کے جُنُوب میں واقع ہے۔

[34]   کوہِ مَروَہ:کوہِ صَفا کے سامنے واقع ہے۔


[35]   مِیْلَیْن اَخْضَرَیْن:یعنی ’’دو سَبز نِشان‘‘۔ صَفا سے جانِبِ مروہ کچھ دُور چلنے کے بعد تھوڑے تھوڑے فاصِلے پر دونوں طرف کی دیواروں اور چھت میں سَبْز لائٹیں لگی ہوئی ہیں ۔ان دونوں سَبز نشانوں کے دَرمِیان دَورانِ سَعی مَردوں کو دوڑنا ہوتا ہے۔

[36]   مَسْعٰی:مِیْلَیْنِ اَخْضَرَیْن کا دَرمِیانی فاصلہ جہاں دَورانِ سَعْی مرد کو دوڑنا سُنَّت ہے۔  

[37]   مِیقات:اُس جگہ کو کہتے ہیں کہمَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً جانے والے آفاقی کو بِغیراِحرام وہاں سے آگے جانا جائز نہیں ، چاہے تجارت یا کسی بھی غرض سے جاتاہو، یہاں تک کہمَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کے رہنے والے بھی اگر مِیقات کی حُدُود سے باہَر (مَثَلاً طائِف یا مدینہ مُنَوَّرَہ)جائیں تو اُنھیں بھی اَب بِغیر اِحرام  مَکَّۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  آنا ناجائز ہے۔

میقات پانچ ہیں

[38]   ذُوالْحُلَیْفَہ:مدینہ شریف سے مَکَّۂ پاک کی طرف تقریباً10 کلومیٹر پر ہے جو مدینۂ مُنَوَّرَہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کی طرف سے آنے والوں کے لئے ’’مِیْقات‘‘ہے۔ اَب اِس جگہ کانام ’’اَبیارِ علی‘‘ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم  ہے۔


[39]   ذَاتِ عِرْق:عراق کی جانب سے آنے والوں کے لئے مِیْقات ہے۔

[40] یَلَمْلَم:یہ اہلِ یمن کی مِیْقات ہے اور پاک و ہندوالوں کیلئے مِیْقاتیَلَمْلَمکی مَحاذات ہے۔

[41]   جُحْفَہ:ملکِ شام کی طرف سے آنے والوں کیلئے مِیْقات ہے۔

[42]   قَرْنُ الْمَنازِل:نجد(موجودہ رِیاض)کی طرف سے آنے والوں کے لئے مِیْقات ہے۔ یہ جگہ طائِف کے قریب ہے۔

[43]   حَرَم:  مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً   کے چاروں طرف مِیلوں تک اِس کی حُدُود ہیں اور یہ زمین حُرمَت و تَقَدُّس کی وجہ سے ’’حَرَم‘‘کہلاتی ہے۔ ہر جانب اِس کی حُدُود پر نشان لگے ہیں ۔ حرم کے جنگل کا شکار کرنا نیز خود رَو دَرَخت اور تَر گھاس کاٹنا، حاجی، غیرِحاجی سب کے لئے حرام ہے۔ جو شخص حُدُودِ حَرَم میں رہتا ہو اُسے ’’حَرَمی‘‘یا ’’اَہلِ حَرَم‘‘کہتے ہیں ۔

[44]   حِل:حُدُودِحَرَم کے باہَر سے مِیقات تک کی زمین کو ’’حِل‘‘کہتے ہیں ۔ اِس جگہ وہ چیزیں حَلال ہیں جو حَرَم کی وجہ سے حُدود حَرَم میں حرام ہیں ۔ زمینِ حِل کا رہنے والا ’’حِلّی‘‘کہلاتا ہے۔

[45]   آفاقِی:وہ شخص جو ’’مِیقات‘‘کی حُدُود سے باہَر رہتا ہو۔

[46]   تَنْعِیْم:حُدودِ حرم سے خارج وہ جگہ جہاں سے مَکَّۂ مکرَّمہ  زَادَھَا اللہُ


شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  میں قِیام کے دَوران عُمرے کے لئے اِحرام باندھتے ہیں اور یہ مَقام مسجِدُالحرام سے تقریباً 7 کلومیٹر جانِبِ مدینۂ مُنَوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  ہے، اب یہاں مسجد ِعائشہ بنی ہوئی ہے۔ اِس جگہ کو عوام ’’چھوٹاعُمرہ‘‘کہتے ہیں ۔

[47]   جِعِرَّانَہ:حُدودِ حرم سے خارجمَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  سے تقریباً 26 کلومیٹر دُور طائِف کے راستے پر واقِع ہے۔یہاں سے بھی دَورانِ قِیامِ مَکَّہ شریف عُمرے کا اِحرام باندھا جاتا ہے۔ اِس مقام کو عوام ’’بڑا عُمرہ‘‘کہتے ہیں ۔

[48]   مِنٰی:مسجدُالحرام سے پانچ کلو میٹر پر وہ وادی جہاں حاجی صاحِبان ایّامِ حج میں قِیام کرتے ہیں ۔ ’’مِنٰی‘‘حَرَم میں شامل ہے۔

[49]   جَمرات:مِنٰی میں واقِع تین مقامات جہاں کنکریاں ماری جاتی ہیں ۔ پہلے کا نام جَمْرَۃُ الْاُخْریٰیاجَمْرَۃُ الْعَقَبَہہے۔ اِسے بڑا شیطان بھی بولتے ہیں ۔ دوسرے کوجَمْرَۃُ الْوُسْطٰی (مَنجھلا شیطان)اور تیسرے کو جَمْرَۃُ الْاُولٰی (چھوٹا شیطان)کہتے ہیں ۔

[50]   عَرَفات:مِنٰی سے تقریباًگیارہ کلومیٹر دُور میدان جہاں 9 ذُوالْحِجَّہکو تمام حاجی صاحِبان جمع ہوتے ہیں ۔ عَرَفات شریف حُدودِ حَرَم سے خارِج ہے۔

[51]   جَبَلِ رَحْمت:عَرَفات شریف کا وہ مقَدَّس پہاڑ جس کے قریب


وُقوف کرنا افضل ہے۔

[52]   مُزْدَلِفہ: ’’مِنٰی‘‘سے عَرَفات کی طرف تقریباً 5 کلومیٹر پر واقِع میدا ن جہاں عَرَفات سے واپَسی پررات بسر کرنا سُنَّتِ مُؤَکدہ اور صبحِ صادِق اور طلوعِ آفتاب کے دَرمِیان کم اَز کم ایک لمحہ وُقوف واجِب ہے۔

[53]   مُحَسِّر:مُزدلِفہ سے ملاہوا میدان، یہیں اَصحابِ فیل پر عذاب نازِل ہوا تھا۔ لہٰذا یہاں سے گزرتے وقت تیزی سے گزرنا اور عذاب سے پناہ مانگنی چاہئے۔

[54]   بَطْنِ عُرَنَہ :عَرَفات کے قریب ایک جنگل جہاں حاجی کا وُقوف دُرُست نہیں ۔

[55]   مَدْعٰی:مسجدِحرام اور مَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے قبرِستان ’’جَنَّتُ الْمَعْلٰی‘‘کے مابَیْن(کی درمیانی) جگہ جہاں دعا مانگنا مُسْتحب ہے۔

بڑے دربار میں پہنچایا مجھ کو میری قسمت نے

                    میں صدقے جاؤں کیا کہنا مِرے اچّھے مُقدَّر کا        (سامانِ بخشش )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دُعا قَبول ہونے کے29 مَقامات: محترم حاجیو!یوں توحَرَمَیْن شَرِیْفَیْن میں ہر جگہ اَنوار و تَجلّیات کی چھَماچھَم برسات برس رہی ہے تاہم ’’اَحْسَنُ الْوِعَاء لآدابِ الدُّعاء ‘‘


سے بعض دُعا قَبول ہونے کے مخْصوص مَقامات کا ذِکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ آپ اُن مَقامات پر مزید دِل جَمعی اور توجُّہ کے ساتھ دُعا کرسکیں ۔

مَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے مَقامات یہ ہیں :{1}مَطاف {2} مُلتَزَم{3}مُسْتَجار{4}بیتُ اللّٰہ کے اَندر {5}میزابِ رَحمت کے نیچے {6} حَطِیْم {7}حَجرِاَسوَد{8}رُکنِ یَمانی خُصوصاً جب دَورانِ طواف وہاں سے گزر ہو {9}مَقامِ اِبراہیم کے پیچھے {10}زَم زَم کے کنویں کے قریب {11}صَفا {12} مروہ {13}مَسعٰی خُصوصاً سبز میلوں کے درمیان {14} عَرَفات خُصوصاً موقِفِ نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک {15} مزدَلِفہ خُصوصاً مَشْعَرُالحرام {16}مِنٰی{17} تینوں جَمرات کے قریب {18}جب جب کَعْبہ مشَرَّفہ پر نظر پڑے۔مدینہ مُنوَّرہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے مَقامات یہ ہیں : {19}مسجدِنبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام {20} مُواجَھَہ شریف، اِمام اِبنُ الجزری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :دُعا یہاں قَبول نہ ہوگی تو کہاں قَبول ہوگی(حصن حصین ص۳۱) {21}منْبرِاطہر کے پاس {22} مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سُتونوں کے نزدیک {23}مسجدِ قُبا شریف{24}مسجدُ الفتح میں خُصوصاً بدھ کوظہر وعَصر کے


دَرمِیان{25}باقی مساجدِ طیِّبہ جن کو سرکارِمدینہ، سُکونِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے (مَثَلاً مسجدِغَمامہ، مسجدِ قِبْلَتَین وغیرہ وغیرہ ) {26} وہ مُبارَک کُنویں جنہیں سَروَرِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے {27}   جَبَل اُحُد شریف {28}مَشَاہَدِ مُبارَکہ ؎[3] {29}مزاراتِ بقیع۔تاریخی روایات کے مطابِق جنتُ البقیع میں تقریباً دس ہزار صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانآرام فرما ہیں ۔

             افسوس! 1926 میں جنَّتُ البقیع کے مزارات کو شہید کردیا گیااب جگہ جگہ مبارک قبریں مسمار کرکے وہاں راستے نکال دیئے گئے ہیں لہٰذا آج تک سگِ مدینہ عفی عنہ کو جنَّتُ البقیع کے اندر داخِلے کی جُرأَت نہیں ہوئی مَبادا (یعنی کہیں ایسانہ ہو)کسی مزارِ فائض الانوار پر پاؤں پڑ جائے اور مسئلہ بھی یِہی ہے کہ قبرمسلم پر پاؤں رکھنا، بیٹھنا وغیرہ سب حرام ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ  کا مطبوعہ 48 صَفْحات پر مشتمل رسالہ ، ’’قبروالوں کی 25 حکایات‘‘ صَفْحَہ34پر ہے: (قبرِستان میں قبریں مِٹا کر)جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے۔(رَدُّالْمُحتار


ج ۱ ص ۶۱۲ ) بلکہ نئے راستے کا صِرف گمان ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔(دُرِّمُختارج۳ص۱۸۳ لہٰذا عاشقانِ رسول سے درخواست ہے کہ وہ باہَر ہی سے سلام عرض کریں ۔بقیع شریف کے صدر دروازے سے سلام عرض کرناضَروری نہیں ، صحیح طریقہ یہ ہے کہ قبرِستان کے باہَرایسی جگہ کھڑے ہوں جہاں آپ کی قبلے کو پیٹھ ہو کہ اِس طرح مدفونینِ بقیع کے چہروں کی طرف آپ کا رُخ ہو جائیگا۔

ہیں مَعاصی حد سے باہَر پھر بھی زاہِد غم نہیں

رحمتِ عالم کی اُمّت، بندہ ہوں غفّار کا     (سامانِ بخشش )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حج کی قسمیں

حج کی تین قسمیں ہیں :{1} قِرَان{2} تَمَتُّع {3} اِفراد

[1] قِرَان: یہ سب سے افضل ہے،قِران کرنے والا ’’قارِن‘‘ کہلاتا ہے ، اِس میں عُمرہ اور حج کا اِحرام ایک ساتھ باندھا جاتا ہے مگرعُمرہ کرنے کے بعد’قارِن‘‘ حَلْق یا ’’قَصْر‘‘ نہیں کرواسکتا اِسے بدستور اِحرام میں رہنا ہو گا، دسویں ، گیارہویں یا بارہویں ذُوالْحِجَّہ  کو قربانی کرنے


کے بعد حَلْق یا قَصْرکروا کے اِحرام کھول دے۔

[2] تَمَتُّع: یہ حج ادا کرنے والا’’مُتَمَتِّع‘‘کہلاتا ہے۔ یہ اَشْہُرِحج میں ’’مِیْقات‘‘کے باہر سے آنے والے ادا کر سکتے ہیں ۔ مَثَلاً پاک و ہند سے آنے والے عُمومًا تَمَتُّع ہی کیا کرتے ہیں کہ آسانی یہ ہے کہ اس میں عُمرہ تو ہوتا ہی ہے لیکن عُمرہ ادا کرنے کے بعد ’’حَلْق یا قَصْر‘‘کرواکے اِحرام کھول دیا جاتا ہے او رپھر8 ذُوالْحِجَّہیا اِس سے قبل حج کا اِحرام باندھا جاتا ہے۔

[3]اِفراد: اِفراد کرنے والے حاجی کو ’’مُفْرِد‘‘کہتے ہیں ۔ اِس حج میں ’’عُمرہ‘‘شامل نہیں ہے اِس میں صرف حج کا ’’اِحرام‘‘باندھا جاتا ہے۔ اہلِ مَکَّہ اور ’’حِلِّی‘‘یعنی مِیْقات اور حُدُودِ حرم کے دَرمِیان میں رہنے والے باشندے (مَثَلاً اہلیانِ جَدَّہ شریف) ’’حج اِفراد‘‘ کرتے ہیں ۔قِران یا تمتُّع کریں گے تو دم واجِب ہو گا،آفاقی چاہے تو ’’اِفراد‘‘ کر سکتا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اِحرام باندھنے کا طریقہ: حج ہو یا عُمرہ اِحرام باندھنے کا طریقہ دونوں کا ایک ہی ہے۔ ہاں نیَّت اور اُس کے اَلفاظ میں تھوڑاسافرق ہے۔نیَّت کابیان اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آگے آرہا ہے۔ پہلے اِحرام


باندھنے کا طریقہ مُلاحَظہ فرمایئے:{۱}ناخُن تَراشئے {۲}بغل اور ناف کے نیچے کے بال دُور کیجئے بلکہ پیچھے کے بال بھی صاف کرلیجئے {۳}مِسْواک کیجئے {۴}وُضو کیجئے {۵}خوب اچھی طرح مَل کے غُسل کیجئے{۶}جسم اوراِحرام کی چادروں پر خوشبو لگایئے کہ یہ سُنَّت ہے، کپڑوں پرایسی خوشبو (مَثَلاً خُشک عَنبر وغیرہ)نہ لگایئے جس کاجِرم (یعنی تَہ )  جَم جائے {۷}اِسلامی بھائی سِلے ہوئے کپڑے اُتار کر ایک نئی یا دُھلی ہوئی سفید چادر اوڑھیں اور ایسی ہی چادر کا تہبند باندھیں ۔ (تہبند کے لئے لٹھا اور اَوڑھنے کے لئے تولیا ہوتو سَہولت رہتی ہے، تہبند کا کپڑا موٹا لیجئے تاکہ بدن کی رنگت نہ چمکے اور تولیا بھی قدرے بڑی سائز کا ہو تواچّھا){۸}پاسپورٹ یارقم وغیرہ رکھنے کے لئے جیب والا بیلٹ چاہیں تو باندھ سکتے ہیں ۔ ریگزین کا بَیلٹ اکثر پَھٹ جاتا ہے، آگے کی طرف زِپ( zip)والا بٹوا لگا ہوا نائیلون( nylon) یا چمڑے کا بیلٹ کافی مضبوط ہوتا اور برسوں کام دے سکتا ہے۔

اِسلامی بہنوں کا اِحرام: اِسلامی بہنیں حسبِ معمول سِلے ہوئے کپڑے پہنیں ، دستانے اور موزے بھی پہن سکتی ہیں ، وہ سَر بھی ڈھانپیں مگر چہرے پر چادر نہیں اَوڑھ سکتیں ، غیر مَردوں سے چہرہ چُھپانے کے لئے ہاتھ کا پنکھا یا کوئی کتاب وغیرہ سے ضَرورتاً  آڑکرلیں ۔ اِحرام


میں عورَتوں کو کسی ایسی چیز سے مُنہ چھپانا جو چہرے سے چِپٹی ہو حرام ہے۔

اِحرام کے نَفل: اگر مکروہ وَقت نہ ہوتو دو رَکْعَت نَماز نَفل بہ نیَّتِ اِحرام (مرد بھی سَر ڈھانپ کر) پڑھیں ، بہتر یہ ہے کہ پہلی رَکْعَت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ اورر دوسری رَکْعَت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہ شریف پڑھیں ۔                    

عُمرے کی نیَّت: اب اِسلامی بھائی سَر ننگا کر دیں اور اِسلامی بہنیں سَر پر بدستور چادر اوڑھے رہیں اگر (عام دنوں کا)عُمرہ ہے تب بھی اور اگر حجِّ تَمَتُّع کررہے ہیں جب بھی عُمرے کی اِس طرح نیَّت کریں :

اَللّٰهُمَّ اِ نِّیْۤ  اُرِيْدُ الْعُمْرَةَ  فَيَسِّرْ   هَا لِیْ وَ تَقَبَّلْهَا  مِنِّیْ  وَ اَعِنِّیْ عَلَيْهَا وَ بَارِكْ لِیْ  فِيْهَا  ط   نَوَيْتُ  الْعُمْرَةَ   وَ اَحْرَمْتُ  بِهَا   لِلّٰهِ  تَعَالٰیط

اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں عُمرے کا اِرادہ کرتا ہوں میرے لئے اِسے آسان اور اِسے میری طرف سے قَبول فرمااور اِسے (ادا کرنے میں ) میری مدد فرما اور اِسے میرے لئے بابَرَکت فرما۔میں نے عُمرے کی نیَّت کی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے اِس کا اِحرام باندھا۔
حج کی نیَّت: مُفْرِدبھی اِسی طرح نیَّت کرے اور مُتَمَتِّع بھی جب 8ذُوالْحِجَّہ یااِس سے قبل حج کا اِحرام باندھے مندَرجۂ ذَیل اَلفا ظ میں نیَّت کرے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ   اُرِیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَتَقَبَّلْہُ مِنِّیْ وَاَعِنِّیْ عَلَیْہِ وَبَارِِِِِِکْ لِیْ فِیْہِ ط نَوَیْتُ الْحَجَّ وَاَحْرَمْتُ بِہٖ لِلّٰہِ تَعَالٰی ط

اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں حج کا اِرادہ کرتا ہوں اِس کو تُو میرے لئے آسان کردے اور اِسے مجھ سے قبول فرما اور اِس میں میری مدد فرما اور اِسے میرے لئے بابَرَکت فرما۔میں نے حج کی نیَّت کی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کیلئے اِس کا اِحرام باندھا۔

حجِّ قِران کی نیَّت

 قارِن’’ عُمرہ اور حج‘‘ دونوں کی ایک ساتھ نیَّت کرے گا، چُنانچِہ وہ اِس طرح نیَّت کرے:

اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ   اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ وَالْحَجَّ فَیَسِّرْھُمَا

اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں عُمرہ اور حج دونوں کا اِرادہ کرتا ہوں ، تُو اِنھیں میرے لئے آسان کردے


لِیْ وَتَقَبَّلْہُمَامِنِّیط نَوَیْتُ الْعُمْرَۃَوَالْحَجَّ وَ اَحْرَمْتُ بِہِِمَامُخْلِصًا لِلّٰہِ تَعَالٰی ط

اور اِنھیں میری طرف سے قَبول فرما۔ میں نے عُمرہ اور حج دونوں کی نیَّت کی     اور خالِصَۃً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے اِن دونوں کا اِحرام باندھا۔                    

لَبَّیْک: خواہ عُمرے کی نیَّت کریں یا حج کی یا حجِّ قِران کی تینوں صورَتوں میں نیَّت کے بعد کم اَز کم ایک بار لَبَّیْک کہنا لازِمی ہے اور تین بار کہنا افضل۔ لَبَّیْک یہ ہے:

لَبَّیْكَ  ط   اَللّٰھُمَّ   لَبَّیْكَ  ط   لَبَّیْكَ   لَا   شَرِیْكَ   لَكَ   لَبَّیْكَ ط  اِنَّ  الْحَمْدَ   وَ النِّعْمَۃَ    لَكَ   وَ الْمُلْكَ ط    لَا  شَرِیْكَ   لَكَط

میں حاضِر ہوں ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں حاضِر ہوں ، (ہاں )میں حاضِر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضِر ہوں ، بے شک تمام خوبیاں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور تیرا ہی ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ۔

اے مدینے کے مسافِرو!  آپ کا اِحرام شُروع ہوگیا، اب یہلَبَّیْک ہی آپ کاوَظیفہ اور وِرد ہے، اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اِس کا خوب وِرد کیجئے۔

دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:

[1]جب لَبَّیْککہنے


والالَبَّیْک کہتا ہے تو اسے خوشخبری دی جاتی ہے۔ عرض کی گئی : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کیا جنَّت کی خوشخبری دی جاتی ہے؟ اِرشاد فرمایا:’’ہاں ‘‘(مُعْجَم    اَ وْسَطج۵ ص۴۱۰ حدیث ۷۷۷۹) [2] جب مسلمان ’’لَبَّیْک ‘‘کہتا ہے تو اُس کے دائیں اور بائیں زمین کے آخِری سِرے تک جو بھی پتھر، دَرَخت اور ڈھیلا ہے وہ سب لَبَّیْک کہتے ہیں۔( تِرْمِذیج۲ ص۲۲۶ حدیث۸۲۹)

معنٰی پر نظر رکھتے ہوئے لَبَّیْک پڑھئے: اِدھراُدھر دیکھتے ہوئے بے دلی سے پڑھنے کے بجائے نہایت خُشوع وخُضوع کے ساتھ معنیٰ پر نظر رکھتے ہوئے لَبَّیْک پڑھنا مناسِب ہے ۔ اِحرام باندھنے والالَبَّیْک کہتے وَقت اپنے پیارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مُخاطِب ہوتا ہے اور عرض کرتاہے: ’’لَبَّیْک یعنی ’’ میں حاضر ہوں ،اپنے ماں باپ کواگر کوئی یِہی الفاظ کہے تویقینا توجُّہ سے کہے گا ، پھر اپنے پَروردَگار عَزَّ وَجَلَّ سے عرض و مَعروض میں کتنی توجُّہ ہونی چاہئے یہ ہر ذِی شُعُور سمجھ سکتا ہے ۔ اسی بِنا پر حضرت ِسیِّدُناعلّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی فرماتے ہیں : ایک فرد لَبَّیْککے الفاظ پڑھائے اور دوسرے اُس کے پیچھے پیچھے پڑھیں یہ مُستَحب نہیں بلکہ ہرفَرْد خود تَلْبِیہ پڑھے۔(اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاریص۱۰۳)


لَبَّیْک کہنے کے بعد کی ایک سنَّت: لَبَّیْکسے فارغ ہونے کے بعد دُعا مانگنا سُنَّت ہے، جیسا کہ حدیثِ مُبارَکہ میں ہے کہ تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب لَبَّیْک سے فارِغ ہوتے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اُس کی خوشنودی اور جنَّت کا سُوال کرتے اور جہنَّم سے پناہ مانگتے۔ (مُسنَد اِمام شافعیص۱۲۳) یقیناً ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ خو ش ہے، بِلاشُبہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَطْعی جنَّتی بلکہ بَعَطائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ مالِکِ جنَّت ہیں مگر یہ سب دُعائیں دیگر بَہُت ساری حکمتوں کے ساتھ ساتھ اُمّت کی تعلیم کے لیے بھی ہیں کہ ہم بھی سنَّت سمجھ کر دُعا مانگ لیا کریں ۔

’’اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک‘‘کے نو حروف کی نسبت سے لَبَّیْک کے 9 مَدَنی پھول

          [1] اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، وُضو بے وُضو ہر حال میں لَبَّیْک کہئے[2] خُصوصاً چڑھائی پرچڑھتے ،ڈھلوان اُترتے( سیڑھیوں پر چڑھتے اُترتے )، دوقافلوں کے ملتے ،صُبْح وشام، پچھلی رات، پانچوں وَقْت کی نَمازوں کے بعد،غَرَض کہ ہر


حالت کے بدلنے پر لَبَّیْککہئے[3]جب بھی لَبَّیْک شُروع کریں کم ازکم تین بار کہیں [4]’’مُعْتَمِر‘‘یعنی عُمرہ کرنے والا اور’’مُتَمَتِّع‘‘ بھی عُمرہ کرتے وَقْت جب کَعْبہ مشَرَّفہ کا طواف شُروع کرے اُس وَقْت حَجر اَسْوَد کا پہلا اِسْتِلام کرتے ہی ’’لَبَّیْک‘‘کہنا چھوڑ دے[5]’’مُفْرِد‘‘اور ’’قارِن‘‘لَبَّیْککہتے ہوئے  مَکَّۂ مُعَظَّمہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  میں ٹھہریں کہ ان کی لَبَّیْک اورمُتَمَتِّع جب حج  کا اِحرام باندھے اس کی لَبَّیْک 10ذُوالْحِجَّۃِ الْحرام شریف کو جَمْرَۃُ الْعَقَبہ  (یعنی بڑے شیطان)کو پہلی کنکری مارتے وَقتخَتْم ہوگی[6]اِسلامی بھائی بہ آوازِ بُلندلَبَّیْک کہا کریں مگر آواز اِتنی بھی بُلند نہ کریں کہ اِس سے خود کو یا کسی دوسرے کو تکلیف ہو[7]اِسلامی بہنیں جب بھی لَبَّیْک کہیں دھیمی آوازسے کہیں اور یہ سبھی یاد رکھیں کہ علاوہ حج کے بھی جب کبھی جو کچھ پڑھیں اُس تلفُّظ کی ادائیگی میں اِتنی آواز لازِمی ہے کہ اگر بَہَرا پَن یاشور وغُل نہ ہو توخود سُن سکیں [8]اِحرام کے لئے نیَّت شَرط ہے اگر بِغیرنیَّتلَبَّیْک کہی اِحرام نہ ہوا ،اِسی طرح تنہا نیَّت بھی کافی نہیں جب تکلَبَّیْک یا اِس کے قائِم مقام کوئی اور چیز نہ ہو( عالمگیری ج۱ ص۲۲۲)[9]اِحرام کے لئے ایک بار زَبان سے لَبَّیْک کہنا ضَروری ہے اور اگر اس کی جگہ سُبْحٰنَ اللہ یااَلْحَمْدُ للہ یا لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ یا کوئی اور ذِکْرُاللّٰہ کیا اور


اِحرام کی نیت کی تو احرام ہوگیا مگر سنّتلَبَّیْککہنا ہے۔    (ایضاً)

کروں خوب احرام میں  لبیک کی تکرار

دے حج کا شَرَف ہر برس ربِّ غفّار

اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                                              صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد 

نِیَّت کے مُتعلِّق ضَروری ہدایت: یادرکھئے!نِیَّت دِل کے اِرادے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نَماز، روزہ، اِحرام کچھ بھی ہو، اگردِل میں نیَّت موجود نہ ہو تو صِرْف زَبان سے نیَّت کے اَلفاظ ادا کرلینے سے نیَّت نہیں ہوسکتی اور نِیَّت کے اَلفا ظ عَرَبی زَبان میں کہنا ضَروری نہیں ، اپنی مادَری زَبان میں بھی کہہ سکتے ہیں بلکہ زَبان سے کہنا لازِمی نہیں ،صِرْف دِل میں اِرادہ بھی کافی ہے۔ ہاں زَبان سے کہہ لینا افضل ہے اور عَرَبی زَبان میں زِیادہ بہتر کیونکہ یہ ہمارے مَکّی مَدَنی سُلطان، رَحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم  کی میٹھی میٹھی زَبان ہے۔عَرَبی زَبان میں جب نیَّت کے اَلفاظ کہیں تو اُس کے معنٰی بھی ضَرور ذِہن میں ہونے چاہئیں ۔


اِحرام کے معنٰی: اِحرام کے لفظی معنیٰ ہیں : حرام کرنا کیوں کہ اِحرام باندھنے والے پر بعض حَلال باتیں بھی حرام ہوجاتی ہیں ، اِحرام والے اِسلامی بھائی کو مُحرِم اور اِسلامی بہن کو مُحرِمَہ کہتے ہیں ۔

اِحرام میں یہ باتیں حَرام ہیں : [1]اِسلامی بھائی کو سِلائی کیا ہوا کپڑاپہننا [2] سَرپر ٹوپی اوڑھنا، عمامہ یا رُومال وغیرہ باندھنا[3] مرد کا سر پر کپڑے کی گٹھڑی اُٹھانا (اِسلامی بہنیں سَر پر چادراوڑھیں اور اِنھیں سَر پر کپڑے کی گٹھری اُٹھانامَنْع نہیں ) [4]مرد کا دَستانے پہننا۔ (اِسلامی بہنوں کومَنْع نہیں ) [5]اِسلامی بھائی ایسے موزے یا جوتے نہیں پہن سکتے جو وَسطِ قدم (یعنی قدم کے بیچ کا اُبھار)چھُپائیں ،( ہَوائی چپَّل مناسِب ہیں ) [6] جسم ، لباس یا بالوں میں خوشبو لگانا[7]خالِص خوشبو مَثَلاً اِلائچی، لونگ، دار چینی، زَعْفران، جاوَتَّری کھانا یا آنچل میں باندھنا، یہ چیزیں اگر کسی کھانے یا سالن وغیرہ میں ڈال کر پکائی گئی ہوں اب چاہے خوشبو بھی دے رہی ہوں تو بھی کھانے میں حَرَج نہیں [8]جِماع کرنا یا بوسہ،مساس(یعنی چُھونا )، گلے لگانا،اَندامِ نِہانی (عورت کی شرمگاہ)پر نگاہ ڈالنا جبکہ یہ آخِری چاروں یعنی جِما ع کے علاوہ کام بشَہوَت ہوں [9] فُحش اور ہر قسم کا گناہ ہمیشہ حرام تھا اب اور بھی سَخْت حرام ہوگیا


[10]  کسی سے دُنیوی لڑائی جھگڑا [11]جنگل کا شکار کرنا یاکسی طرح بھی اِس پر مُعاوِن ہونا ، اِس کا گوشت یا انڈا وغیرہ خریدنا، بیچنا یا کھانا[12]اپنا یا دوسرے کا ناخُن کتَرنا یا دوسرے سے اپنے ناخُن کتَروانا [13]سَر یا داڑھی کے بال کاٹنا، بغلیں بنانا،مُوئے زیر ناف لینا، بلکہ سَر سے پاؤں تک کہیں سے کوئی بال جُدا کرنا[14]وَسمہ یامہندی کا خِضاب لگانا [15]زَیتون کا یا تِل کاتیل چاہے بے خوشبو ہو، بالوں یا جسم پر لگانا [16]کسی کا سَرمُونڈنا خواہ وہ اِحرام میں ہویا نہ ہو۔(ہاں اِحرام سے باہَر ہونے کا وَقْت آ گیا تو اب اپنا یا دوسرے کا سر مُونڈ سکتا ہے) [17]جُوں مارنا، پھینکنا، کسی کو مارنے کے لئے اِشارہ کرنا، کپڑا اُس کے مارنے کے لئے دھونایا دھوپ میں ڈالنا، بالوں میں جُوں مارنے کے لئے کسی قسم کی دوا وغیرہ ڈالنا، غرضیکہ کسی طرح اُس کے ہلاک پر باعث ہونا۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۰۷۸،۱۰۷۹)

اِحْرام میں یہ باتیں مکروہ ہیں :[1]جِسم کا مَیل چُھڑانا[2]بال یا جِسم صابون وغیرہ سے دھونا [3] کنگھی کرنا[4]اِس طرح کُھجانا کہ بال ٹوٹنے یا جُوں گرنے کا اَندیشہ ہو [5] کُرتا یا شَیروانی وغیرہ پہننے کی طرح کندھوں پر ڈالنا[6]جان بوجھ کر خوشبو سونگھنا[7] خوشبودار پھل یا پتّامَثَلاً لیموں ، پودینہ، نارنگی وغیرہ سونگھنا(کھانے میں مُضایَقہ نہیں) [8]


عِطر فَروش کی دُکان پر اِس نیَّت سے بیٹھنا کہ خوشبو آئے [9]مہکتی خوشبو ہاتھ سے چُھونا جب کہ ہاتھ پر نہ لگ جائے ورنہ حرام ہے [10]کوئی ایسی چیز کھانا یا پینا جس میں خوشبو پڑی ہواور نہ وہ پکائی گئی ہو نہ بُو زائل (یعنی ختم) ہو گئی ہو[11] غلافِ کَعْبہ کے اندر اِس طرح داخِل ہوناکہ غلاف شریف سَریامنہ سے لگے [12] ناک وغیرہ مُنہ کا کوئی بھی حصَّہ کپڑے سے چُھپانا[13]بے سِلا کپڑا رَفو کیا ہوایا پَیوَند لگا ہوا پہننا [14]تکیہ پر مُنہ رکھ کر اَوندھا لیٹنا( اِحرام کے علاوہ بھی اوندھا سونا مَنْع ہے کہ حدیثِ پاک میں اس طرح سونے کو جہنَّمیوں کا طریقہ کہا گیا ہے ) [15]تعویذ اگرچِہ بے سِلے کپڑے میں لپیٹا ہوا ہو، اُسے باندھنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر بے سِلے کپڑے میں لپیٹا ہوا تعویذ بازو وغیرہ پر باندھا نہیں بلکہ گلے میں ڈال لیا تو حَرَج نہیں [16]سر یا مُنہ پر پٹّی باندھنا[17]بِلا عُذر بدن پر پٹّی باندھنا [18]بناؤ سِنگھار کرنا[19]چادر اوڑھ کر اِس کے سِروں میں گرہ دے لینا جب کہ سر کُھلا ہو ورنہ حرام ہے[20] تہبند کے دونوں کناروں میں گرہ دینا [21]رقم وغیرہ رکھنے کی نیَّت سے جیب والا بیلٹ باندھنے کی اِجازَت ہے۔ البتَّہ صِرْف تہبند کو کَسنے کی نیَّت سے بیلٹ یا رسّی وغیرہ باندھنا مکروہ ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۰۷۹،۱۰۸۰)


یہ باتیں اِحْرام میں جائز ہیں : [1]مِسواک کرنا[2]انگوٹھی پہننا[4] ؎[3]بے خوشبو سُرمہ لگانا۔ لیکن مُحرم کے لئے بِلاضَرورت اِس کا استِعمال مکروہِ تنزیہی ہے ۔ (خوشبوداردار سرمہ ایک یا دو بار لگایا تو ’’ صَدَقہ ‘‘ ہے او ر تین یا اس سے زائد میں ’’دم‘‘)[4]بے مَیل چُھڑائے غُسل کرنا[5]کپڑے دھونا۔ (مگر جُوں مارنے کی غَرَض سے حرام ہے) [6] سَر یا بدن اِس طرح آہِسۃ سے کُھجانا کہ بال نہ ٹوٹیں [7]چَھتْری لگانا یا کسی چیز کے سائے


میں بیٹھنا[8]چادر کے آنچلوں کو تہبندمیں گُھرسنا[9]داڑھ اُکھاڑنا [10] ٹوٹے ہوئے ناخُن جُدا کرنا[11]پھُنسی توڑ دینا[12]آنکھ میں جوبال نکلے، اُسے جُدا کرنا [13] ختنہ کرنا[14]فَصد( بغیر بال مُونڈے) پَچھنے (حجامہ ) کروانا[15] چیل، کوّا، چوہا، چھُپکلی ، گرگٹ، سانپ، بچّھو، کھٹمل ،  مچھّر، پِسُّو،مکھّی وغیرہ خبیث اور موذی جانوروں کو مارنا۔(حرم میں بھی ان کو مارسکتے ہیں ) [16] سَر یا مُنہ کے علاوہ کسی اورجگہ زخم پر پٹّی باندھنا[5] [17]سَر یا گال کے نیچے تکیہ رکھنا[18] کان کپڑے سے چھُپانا[19]سَر یا ناک پراپنا یا دوسرے کاہاتھ رکھنا (کپڑا یا رُومال نہیں رکھ سکتے )[20]ٹھوڑی سے نیچے داڑھی پر کپڑا آنا [21]سَر پرسِینی(یعنی دھات کا بنا ہوا خوان) یا غلّے کی بوری اُٹھانا جائز ہے مگر سَر پر کپڑے کی گٹھڑی اُٹھانا حرام ہے۔ ہاں ’’مُحْرِمَہ‘‘دونوں اُٹھا سکتی ہے [22] جس کھانے میں اِلائچی، دار چینی، لونگ وغیرہ پکائی گئی ہوں اگرچِہ اُن کی خوشبوبھی آرہی ہو (مَثَلاً قورمہ، بِریانی، زردہ وغیرہ)اُس کا کھانا یا بے پکائے جس کھانے پینے میں کوئی خوشبوڈالی ہوئی ہو وہ بو نہیں دیتی، اُس کا کھانا پینا[23]گھی یا چربی یا

 


کڑوا تیل یابادام یا ناریل یا کدّو، کاہُو کا تیل جس میں خوشبونہ ڈالی ہوئی ہو اُس کا بالوں یا جِسم پر لگانا[24]ایسا جوتا پہننا جائز ہے جو قدم کے وَسْط کے جوڑ یعنی قدم کے بیچ کی اُبھری ہوئی ہڈّی کو نہ چھُپائے۔ (لہٰذا مُحرِم کے لئے اِسی میں آسانی ہے کہ وہ ہَوائی چپّل پہنے)[25]بے سلے ہوئے کپڑے میں لِپیٹ کر تعویذ گلے میں ڈالنا[26]پالتو جانور مَثَلاً اُونٹ، بکری، مُرغی، گائے وغیرہ کو ذَبْح کرنا اُس کا گوشت پکانا، کھانا۔اُس کے انڈے توڑنا،بھوننا ،کھانا۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۰۸۱،۱۰۸۲)

مرد وعورت کے اِحرام میں فَرق: اِحرام کے مذکورۂ بالامسائل میں مرد وعورت دونوں برابرہیں تاہَم چند باتیں اِسلامی بہنوں کے لئے جائز ہیں ۔آج کل اِحرام کے نام پر سِلے سِلائے           ’ ’ اسکارف‘‘ بازار میں بِکتے ہیں ، معلومات کی کمی کی بِنا پر اسلامی بہنیں اُسی کو اِحرام سمجھتی ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ، حسبِ معمول سِلے ہوئے کپڑے پہنیں ۔ہاں اگر مذکورہ اسکارف کوشَرْعاً ضَروری نہ سمجھیں اور ویسے ہی پہننا چاہیں تو منع نہیں ۔

   {۱}سَرچھُپانا، بلکہ اِحرام کے علاوہ بھی نَماز میں اور نامَحْرَم (جن میں خالو، پھوپھا ، بہنوئی ، ماموں زاد، چچازاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور خُصوصِیَّت کے ساتھ دیورو جیٹھ بھی شامل ہیں )کے سامنے فرض ہے۔نامَحْرَموں کے سامنے عورت کا اِس طرح آجانا کہ


سَر کھلا ہوا ہو یااِتنا باریک دوپٹّا اوڑھا ہُوا ہو کہ بالوں کی سیاہی چمکتی ہو علاوہ اِحرام کے بھی حرام ہے اور اِحرام میں سخت حرام{۲}مُحرِمہ جب سَر چھُپا سکتی ہے تو کپڑے کی گٹھڑی سَر پر اُٹھانا بَدَرَجَۂ اَولیٰ جائز ہوا {۳}سِلا ہوا تعویذ گلے یا بازو میں باندھنا{۴}غلافِ کَعْبۂ مشَرَّفہ میں یوں داخِل ہونا کہ سَر پر رہے مُنہ پر نہ آئے کہ اِسے بھی مُنہ پر کپڑا ڈالنا حرام ہے۔(آج کل غلافِ کعبہ پر لوگ خوب خوشبو چھڑکتے ہیں لہٰذا اِحرام میں احتیاط کریں ){۵}دَستانے، موزے اورسِلے کپڑے پہننا {۶}اِحرام میں منہ چُھپانا عورت کوبھی حرام ہے، نامَحرم کے آگے کوئی پنکھا (یاگتّا) وغیرہ مُنہ سے بچا ہواسامنے رکھے۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۸۳){۷}اِسلامی بہن پی کیپ والا نِقاب بھی پہن سکتی ہے مگریہ اِحتیاط ضَروری ہے کہ چِہرے سے مَس (TOUCH) نہ ہو۔ اِس میں یہ اندیشہ رہے گا کہ تیز ہوا چلے اور نِقاب چِہرے سے چپک جائے یا بے توجُّہی میں پسینہ وغیرہ اُسی نِقاب سے پُونچھنے لگے ، لہٰذا سخت احتیاط رکھنی ہو گی۔

’’حج کا احرام‘‘کے نو حروف کی نسبت سے اِحرام کی 9  مُفید اِحتیاطیں

      {۱}اِحرام خریدتے وَقت کھول کر دیکھ لیجئے ورنہ روانگی کے موقع پرپہنتے


وَقت چھوٹا بڑا نکلا تو سخت آزمائش ہو سکتی ہے{۲}روانگی سے چند روز قبل گھر ہی میں اِحرام باندھنے کی مَشق کر لیجئے{۳}اُوپر کی چادر تَولیے کی اور تہبند موٹے لٹّھے کا رکھئے،  اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ نَمازوں میں بھی سَہُولت رہے گی اور مِنٰی شریف وغیرہ میں ہواسے اُڑنے کا امکان بھی کم ہو جائیگا{۴}اِحرام اور بیلٹ وغیرہ باندھ کر گھرمیں کچھ چل پھر لیجئے تا کہ مَشق ہو جائے ، ورنہ باندھ کر ایک دم سے چلنے پھرنے میں تہبند خوب ٹائٹ ہونے یا کھل جانے وغیرہ کی صورت میں پریشانی ہو سکتی ہے{۵}خُصُوصاً لٹّھے کا اِحرام عمدہ اور موٹے کپڑے کا لیجئے ورنہ پتلا کپڑا ہواا ور پسینہ آیا تو تہبند چپک جانے کی صورت میں رانوں وغیرہ کی رنگت ظاہِر ہو سکتی ہے۔بعض اوقات تہبند کاکپڑا اتنا باریک ہوتا ہے کہ پسینہ نہ ہو تب بھی رانوں وغیرہ کی رنگت چمکتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 496 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’نَماز کے اَحکام‘‘ صَفْحَہ194پر ہے: اگرایسا باریک کپڑاپہنا جس سے بدن کا وہ حصّہ جس کانَمازمیں چُھپانا فرض ہے نظرآئے یاجِلدکا رنگ ظاہِرہونَمازنہ ہوگی۔( فتاوٰی عالمگیری ج۱ ص۵۸) آج کل باریک کپڑوں کارَواج بڑھتا جارہا ہے ۔ ایسے باریک کپڑے کاپاجامہ پہنناجس سے ران یاسَترکا کوئی حصّہ چمکتاہوعِلاوہ نَمازکے بھی پہنناحرام ہے۔(بہارِ شریعت ج ۱ ص ۴۸۰ ) {۶}نیّت سے قبل احرام پر


خوشبو لگانا سنَّت ہے، بے شک لگایئے مگر لگانے کے بعد عِطر کی شیشی بیلٹ کی جیب میں مت ڈالئے ۔ ورنہ نیّت کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالنے کی صورت میں خوشبو لگ سکتی ہے۔ اگر ہاتھ میں اتنا عِطْر لگ گیا کہ دیکھنے والے کہیں کہ’’ زیادہ ہے‘‘ تو دَم واجب ہو گا اورکم کہیں تو صَدَقہ ۔اگر عِطْر کی تری وغیرہ نہیں لگی ہاتھ میں صِرف مَہک آ گئی توکوئی کفّارہ نہیں ۔بیگ میں بھی رکھنا ہو تو کسی شاپر وغیرہ میں لپیٹ کر خوب احتیاط کی جگہ رکھئے{۷} اُوپر کی چادر دُرُست کرنے میں یہ اِحتیاط رکھئے کہ اپنے یا کسی دوسرے مُحرِم کے سَر یا چہرے پر نہ پڑے۔ سگِ مدینہ عفی عنہ نے بھیڑ بھاڑ میں احرام دُرُست کرنے والوں کی چادروں میں دیگر مُحرِموں کے مُنڈے ہوئے سر پھنستے دیکھے ہیں {۸}کئی مُحرِم حضرات کے اِحرام کا تہبند ناف کے نیچے ہوتا ہے اور اُوپر کی چادر پیٹ پر سے اکثر سَرکتی رہتی اورناف کے نیچے کا کچھ حصَّہ سب کے سامنے ظاہِر ہوتا رہتاہے اور وہ اِس کی پرواہ نہیں کرتے،اِسی طرح چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے وَقْت بے اِحتیاطی کے باعِث بعض اِحرام والوں کی ران وغیرہ بھی دوسروں پر ظاہِر ہوجاتی ہے۔ برائے مہربانی! اِس مسئلے کو یادرکھئے کہ ناف کے نیچے سے لے کرگُھٹنوں سَمیت جِسم کا سارا حصّہ سترہے اوراِس میں سے تھوڑاسا حصَّہ بھی بِلا اجازت شَرْعی دوسروں کے آگے کھولنا حرام ہے۔ سترکے یہ مسائل صِرْف اِحرام کے ساتھ مَخصُوص


نہیں ۔ اِحرام کے علاوہ بھی دوسروں کے آگے اپنا ستر کھولنا یا دوسروں کے کھلے ستر کی طرف نظر کرنا حرام ہے{۹} بعضوں کے اِحرام کا تہبند ناف کے نیچے ہوتا ہے اور بے احتیاطی کی وجہ سے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دوسروں کی موجودگی میں  پَیڑُو  [6] کا کچھ حصّہ کھلارہتاہے۔بہارِشریعت میں ہے : نَماز میں چوتھائی (4/1) کی مقدار (پَیڑو) کُھلا رہا تو نَماز نہ ہو گی اور بعض بے باک ایسے ہیں کہ لوگوں کے سامنے گھٹنے بلکہ رانیں کھولے رہتے ہیں یہ( نَماز واِحرام کے علاوہ)بھی حرام ہے اور اِس  کی عادت ہے تو فاسِق ہیں ۔(بہارِ شریعت ج اول ص ۴۸۱)

احرام کے بارے میں ضَروری تنبیہ: جوباتیں اِحرام میں ناجائزہیں اگر وہ کسی مجبوری کے سبب یابھُول کر ہوں تو گناہ نہیں مگراُن پرجوجُرمانہ مقرَّرہے وہ بَہَر حال ادا کرنا ہوگا اب یہ باتیں چاہے بِغیر ارادہ ہوں ، بھول کر ہوں ، سوتے میں ہوں یاجبراًکوئی کروائے ۔ (ایضاًص۱۰۸۳)

میں اِحرام باندھوں کروں حجّ و عُمرہ

ملے لُطفِ سَعْیِ صفا اور مَروَہ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


حَرم کی وَضاحَت:عام بول چال میں لوگ ’’مسجدِ حرام‘‘کو حَرَم شریف کہتے ہیں ، اِس میں کوئی شک نہیں کہ  مسجدِ حرام شریف حرمِ محترم ہی میں داخِل ہے مگر حرم شریف مَکَّہ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً    سَمیت[7]؎    اُس کے اِرد گرد مِیلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حَدیں بنی ہوئی ہیں ۔ مَثَلاً جَدَّہ شریف سے  آتے ہوئے مَکَّہ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  سے قبل 23 کلومیٹر پہلے پولیس چوکی آتی ہے، یہاں سڑک کے اُوپر بورڈ پر جَلی حُروف میں لِلْمُسْلِمِیْنَ فَقَط(یعنی صِرْف مسلمانوں کے لئے)لکھا ہوا ہے۔ اِسی سڑک پر جب مزید آگے بڑھتے ہیں تو بِیْرِشَمِیْسیعنی حُدَیْبِیہ کامقام ہے، اِس سَمت پر ’’حرم شریف‘‘کی حَد یہاں سے شُروع ہو جاتی ہے۔’’ایک مُؤَرِّخ کی جدید پیمائش کے حساب سے حرم کے رَقبے کا دائرہ 127  کلومیٹر ہے جبکہ کُل رقبہ 550مُرَبَّع کِلو میٹر ہے۔‘‘(تاریخ مکۂ مکرمہ ص ۱۵) (جنگلوں کی کانٹ چھانٹ ، پہاڑوں کی تراش خراش اور سُرنگوں ( TUNNELS)کی ترکیبوں وغیرہ کے ذَرِیعے بنائے جانے والے نئے راستوں اور سڑکوں کے سبب وہاں فاصلے میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے حَرَم کی اصل


حُدود وُہی ہیں جن کا احادیثِ مبارَکہ میں بیان ہوا ہے)

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے

                     بارِشاللہ کے کرم کی ہے       (وسائلِ بخشش ص۱۲۴)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مَکَّۂ مکرَّمہ کی حاضِری:حَرَم جب قریب آئے تو سَر جھُکائے، آنکھیں شرمِ گناہ سے نیچی کئے خُشُوع وخُضُوع کے ساتھ اِس کی حد میں داخِل ہوں ، ذِکْر و دُرُود اورلَبَّیْک کی خُوب کثرت کیجئے اورجُوں ہی ربُّ الْعٰلَمِین جَلَّ جَلَا لُہٗ کے مقدَّس شہر مَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  پر نظر پڑے تو یہ دُعا پڑھئے:

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ  لِّیْ  قَرَارًا  وَّ ارْزُقْنِیْ  فِیْہَا  رِزْقًـا  حَلَالًا ط                     ترجمہ:اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے اِس میں قرار اور رزقِ حلال عطا فرما ۔

          مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً   پہنچ کر ضَرورتاً مکان اور حِفاظتِ سامان وغیرہ کا انتظام کرکے ’’لَبَّیْک‘‘ کہتے ہوئے ’’بابُ السَّلام‘‘پر حاضِر ہوں اور اُس دروازۂ پاک کو چُوم کر پہلے سیدھا پاؤں مسجدُ الحرام میں رکھ کرہمیشہ کی طرح مسجِد میں داخِلے کی دعا پڑھئے:

بِسْمِ اللّٰہِ  وَ السَّلَامُ  عَلٰی  رَسُوْلِ اللّٰہِ  ط   اَللّٰھُمَّ


 افْتَحْ   لِیْۤ   اَبْوَابَ   رَحْمَتِكَط اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام سے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم  پر سلام ہو،اے اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے   لئے اپنی رَحمت کے دروازے کھول دے۔

اِعتکاف کی نیَّت کرلیجئے: جب بھی کسی مسجِد میں داخِل ہوں اور اعتِکاف کی نیّت کریں تو ثواب ملتا ہے، مسجد الحرام میں بھی نیَّت کرلیجئے، اَلْحَمْدُ للہِ عَزَّوَجَلَّ یہاں ایک نیکی لاکھ نیکی کے برابر ہے ،  لہٰذا ایک لاکھ اِعتِکاف کاثواب پائیں گے جب تک مسجِد کے اندر رہیں گے اعتکاف کاثواب ملے گااور ضِمنًا کھانا، زَم زَم شریف پینا اور سونا وغیرہ بھی جائز ہوجائے گا ورنہ مسجِد میں یہ چیزیں شرعاً ناجائز ہیں ۔

نَوَیْتُ  سُنَّتَ  الْاِعْتِکَافِ  ط      ترجمہ:میں نے سُنَّتِ اِعتِکاف کی نیت کی۔

کَعْبہ مُشرَّفہ پر پہلی نظر: جوں ہی کَعْبۂ مُعَظَّمہ پر پہلی نظر پڑے تین بار لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَر        ؕ کہئے اور دُرُود شریف پڑھ کر دُعا مانگئے کہ کَعْبَۃُ اللّٰہ شریف پر پہلی نظر جب پڑتی ہے اُس وَقْت مانگی ہوئی دُعا ضَرور قَبول ہوتی ہے۔آپ چاہیں تو یہ دُعا مانگ لیجئے کہ ’’ یَا اَللہ عَزَّوَجَلَّ ! میں جب بھی کوئی جائز دُعا مانگا کروں اور اُس میں بہتری ہو


تووہ قَبول ہُوا کرے۔‘‘حضرتِ علّامہ شامیقُدِّسَ سِرُّہُ السّامینے فُقَہا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے حوالے سے لکھا ہے: کعبۃُ اللّٰہ پر پہلی نظر پڑتے وَقت جنَّت میں بے حساب داخلے کی دُعا مانگی جائے اور دُرُود شریف پڑھا جائے۔(رَدُّالْمُحتار ج۳ص ۵۷۵)

نوری چادر تنی ہے کعبے پر

                           بارِش اللّٰہ کے کرم کی ہے                   (وسائلِ بخشش ص۱۲۴)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سب سے افضل دُعا: اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے رضا کے طلبگارمحترم عاشقانِ رسول !اگر طواف وسَعْی وغیرہ میں ہر جگہ کسی اور دُعا کے بجائے دُرُود شریف ہی پڑھتے رہیں تو یہ سب سے افضل ہے اور  اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ  دُرُود و سلام کی بَرَکت سے بِگڑے کام سَنور جائیں گے،وہ اختیار کرو جو محمدٌرّسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچّے وعدے سے تمام دعاؤں سے بہتر و افضل ہے یعنی یہاں اورتمام مواقِع میں اپنے لیے دُعا کے بدلے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود بھیجو،رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :ایسا کرے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تیرے سب کام بنا دے گا اور تیرے گناہ مُعاف فرمادے گا۔(ترمذی ج ۴ ص ۲۰۷ حدیث ۲۴۶۵،فتاوٰی رضویہ  مُخَرَّجہ  ج ۱۰ ص ۷۴۰ )


طواف میں دُعا کے لئے رُکنا مَنْع ہے: محترم حاجیو!چاہیں تو صِرْف دُرُودوسلام پر ہی اکتِفاکیجئے کہ یہ آسان بھی ہے اور افضل بھی۔ تاہم شائقینِ دُعا کے لئے دُعائیں بھی داخِل ترکیب کردی ہیں لیکن یاد رہے کہ دُرُود و سلام  پڑھیں یا دعائیں سب آہِستہ آواز میں پڑھنا ہے ، چلّا کر نہیں جیسا کہ بعض مُطَوِّف( یعنی طواف کروانے والے)پڑھاتے ہیں نیز چلتے چلتے پڑھنا ہے،پڑھنے کیلئے دَورانِ طواف کہیں بھی رُکنا نہیں ہے ۔

عمرے کا طریقہ

طواف کا طریقہ: طواف شُروع کرنے سے قَبْل مرد اِضْطِباع کرلیں یعنی چادر سیدھے ہاتھ کی بغل کے نیچے سے نکال کر اُس کے دونوں پَلّے اُلٹے کندھے پراِس طرح ڈال لیں کہ سیدھا کندھا کُھلا رہے۔ اب پروانہ وار شمعِ کَعبہ کے گرد طواف کے لئے تیّار ہوجائیے۔

 اِضْطِباعی حالت میں کَعبہ شریف کی طر ف مُنہ کئے حجرِ اَسود کی بائیں (left) طرف رُکنِ یَمانی کی جانب حجرِ اَسْود کے قریب اِس طرح کھڑے ہوجائیے کہ پورا ’’حَجَرِ اَسوَد‘‘آپ کے سیدھے ہاتھ کی طرف رہے۔ اب بِغیر ہاتھ اُٹھائے اِس


طرح طواف کی نیَّت[8]؎؎ کیجئے:

اَللّٰھُمَّ  اِ نِّیْۤ   اُرِیْدُ  طَوَافَ بَیْتِكَ  الْحَرَامِ  فَیَسِّرْہُ   لِیْ  وَ تَقَبَّلْہُ  مِنِّیْط

ترجَمہ:اے اللہ  عَزَّ وَجَلَّ میں تیرے محترم گھر کا طواف کرنے کا اِرادہ کرتا ہوں ،تُو اِسے میرے لئے آسان فرمادے اور میری جانب سے اِسے قَبول فرما۔

             نیَّت  کرلینے کے بعد کَعْبہ شریف ہی کی طرف مُنہ کئے سیدھے ہاتھ کی جانب اتنا چلئے کہ حَجَرِاَسْوَد آپ کے عَین سامنے ہو جائے۔( اور یہ معمولی سا سرکنے سے ہو جائے گا، آپ حجرِ اسود کی عین سیدھ میں آ چکے اِس کی علامت یہ ہے کہ دُور ستون میں جو سبز لائٹ لگی ہے وہ آپ کی پیٹھ کے  بالکل پیچھے ہو جائے گی)

          سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ!یہ جنَّت کا وہ خوش نصیب پتھر ہے جسے ہمارے پیارے آقا مکّی مَدَنی مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یقیناً چوما ہے۔ اب دونوں ہاتھ کانوں تک اِس طرح اُٹھائیے کہ ہتھیلیاں حَجَرِاَسْوَد کی طرف رہیں اور پڑھئے:

 


بِسْمِ اللّٰهِ   وَ الْحَمْدُ  لِلّٰهِ  وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ  وَ الصَّلٰوةُ  وَ السَّلَامُ عَلٰی  رَسُوْلِ  اللّٰهِ ط   

اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نام سے اور تمام خُوبیاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کیلئے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ  سب سے بڑاہے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودو سلام ہوں ۔

     اب اگر ممکن ہو تو حَجَرِاَسْوَد شریف پر دونوں ہتھیلیاں اور اُن کے بیچ میں مُنہ رکھ کر یوں بوسہ دیجئے کہ آواز پیدا نہ ہو، تین بار ایسا ہی کیجئے۔ سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! جھوم جائیے کہ آپ کے لب اُس مُبارَک جگہ لگ رہے ہیں جہاں یقیناً مدینے والے آقا  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارَکہ لگے ہیں ۔ مچل جائیے ....تڑپ اُٹھئے....اور ہوسکے تو آنسوؤں کو بہنے دیجئے۔ حضرتِ سیِّدُناعبداللّٰہ بن عمر     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ہمارے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  حَجَرِاَسْوَد پر لب ہائے مبارَکہ رکھ کر روتے رہے پھر اِلتِفات فرمایا (یعنی توجُّہ فرمائی) تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی رورہے ہیں ۔ اِرشاد فرمایا:اے عمر (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)!  یہ رونے اور آنسو بہانے کاہی مقام ہے۔        (اِبن ماجہ ج۳ ص۴۳۴ حدیث۲۹۴۵)

رونے  والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں

ذِکْرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں

    


اِس بات کا خیال رکھیے کہ لوگوں کو آپ کے دَھکّے نہ لگیں کہ یہ قُوّت کے مُظاہَرہ کی نہیں ،عاجِزی اور مسکینی کے اِظہار کی جگہ ہے۔ ہُجُوم کے سبب اگر بوسہ مُیَسَّر نہ آسکے تو نہ اوروں کو ایذا دیں نہ خود دَبیں کُچلیں بلکہ ہاتھ یا لکڑی سے حَجَرِاَسوَد کو چُھو کر اُسے چُوم لیجئے، یہ بھی نہ بَن پڑے تو ہاتھوں کا اِشارہ کر کے اپنے ہاتھوں کو چُوم لیجئے، یہی کیا کم ہے کہ مَکّی مَدَنی سرکار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُبارَک مُنہ رکھنے کی جگہ پر آپ کی نگاہیں پڑرہی ہیں ۔

            حَجَرِاَسْوَدکوبوسہ دینے یا لکڑی یاہاتھ سے چھُوکر چُومنے یاہاتھوں کا اِشارہ کر کے انھیں چُوم لینے کو ’’اِستلام‘‘کہتے ہیں ۔

  فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: روزِ قیامت یہ پتَّھر اُٹھا یا جائے گا، اِس کی آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا، زبان ہوگی جس سے کلام کرے گا، جس نے حق کے ساتھ اُس کا اِ ستِلام کیااُس کے لیے گواہی دے گا۔ (ترمذی ج۲ص۲۸۶حدیث۹۶۳)

اب

اَللّٰھُمَّ  اِیْمَانًۢا  بِكَ  وَاتِّبَاعًالِّسُنَّۃِ  نَبِیِّكَ  مُحَمَّدٍ  صَلَّی  اللّٰہُ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَسَلَّمَط

ترجَمہ:الٰہی تجھ پر ایمان لاکراور تیرے نبی محمد صلَّی اﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم کی سنّت کی پیروی کرنے کو یہ طواف کرتا ہوں ۔

کہتے


ہوئے کَعبہ شریف کی طرف ہی چِہرہ کئے سیدھے ہاتھ کی طرف تھوڑاساسَرَکئے جب حَجَرِاَسوَد آپ کے چہرے کے سامنے نہ رہے (اور یہ اَدنیٰ سی حَرَکت میں ہوجائے گا ) تو فوراً اِس طرح سیدھے ہوجایئے کہ خانۂ کَعبہ آپ کے اُلٹے ہاتھ کی طرف رہے، اِس طرح چلئے کہ کسی کو آپ کا دَھکّا نہ لگے۔مَرد اِبتِدائی تین پھیروں میں رَمَل کرتے چلیں یعنی جلد جلد چھوٹے قدم رکھتے، شانے(یعنی کندھے) ہِلاتے چلیں جیسے قَوی و بَہادر لوگ چلتے ہیں ۔بعض لوگ کُودتے اور دوڑتے ہوئے جاتے ہیں ، یہ سُنَّت نہیں ہے۔ جہاں جہاں بھیڑ زِیادہ ہو اور رَمَل میں خود کو یا دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو اُتنی دیر رَمَل ترک کردیجئے مگر رَمَل کی خاطر رُکئے نہیں ، طواف میں مَشغُول رہئے۔ پھر جُوں ہی موقع ملے، اُتنی دیر تک کے لئے رَمَل کے ساتھ طواف کیجئے۔

   طواف میں جس قَدَرخانۂ کَعبہ سے قریب رہیں یہ بہتر ہے مگراِتنے زِیادہ قریب بھی نہ ہوجائیں کہ کپڑا یا جِسم پُشتۂ دیوار[9]؎سے لگے اور اگر نزدیکی میں ہُجُوم کے سبب رَمل نہ ہوسکے تو اب دُوری بہتر ہے۔ اسلامی بہنوں کیلئے طواف میں خانۂ کعبہ سے دُوری افضل ہے ۔پہلے چکّر میں چلتے چلتے دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھیے:


پہلے چَکَّر کی دُعا

سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاۤ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ وَ اللّٰہُ  اَکْبَرُ ط وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِـیْمِ ط وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُـوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ط اَللّٰھُمَّ اِیْمَانًۢا بِكَ وَتَصْدِیْقًۢا بِكِتَابِكَ وَوَفَآءًۢ بِعَھْدِكَ وَاتِّبَاعًا لِّسُنَّۃِ نَبِیِّكَ وَحَبِیْبِكَ

ترجمہ:اللہ تعالٰی پاک ہے اور سب خوبیاں اللہ عَزَّ وَجَلَّہی کیلئے ہیں اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی توفیق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہے جو سب سے بُلند اورعَظَمت والا ہے اور رَحمت کاملہ اور سلام نازل ہواللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر۔ اے  اللہ عَزَّ وَجَلَّ!تجھ پر ایمان لاتے ہوئے اور تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے اور تجھ سے کیے ہوئے عہد  کو پورا کرتے ہوئے اور تیرے نبی اور تیرےحبیب محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی

 


 

مُحَمـَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمط اَللّٰھُمَّ  اِ نِّیْۤ  اَسْئَلُكَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃَ وَ الْمُعَافَاۃَ الدَّاۤئِمَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِـرَۃِ  وَالْفَـوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ   مِنَ   النَّارِ  ط

(دُرُود شریف پڑھ لیجئے) سنَّت کی پیروی کرتے ہوئے (میں طواف شُرو ع کر چکاہوں )اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تجھ سے (گناہوں سے)مُعافی کا اور ( بلاؤں سے) عافیّت کا اوردائمی حفاظت کا،     دین و دنیا اور آخِرت میں  اور حُصولِ جنَّت میں کامیابی        اورجہنَّم سے نَجات پانے کا سُوال کرتا ہوں ۔

            رُکنِ یَمانی تک پہنچنے تک یہ دُعا پوری کر لیجئے، اب اگر بِھیڑ کی وجہ سے اپنی یادوسروں کی اِیذا کا اَندیشہ نہ ہو تو رُکنِ یَمانی کودونوں ہاتھوں سے یا سیدھے ہاتھ سے تَبَرُّکًا چُھوئیں ، صِرف بائیں (الٹے) ہاتھ سے نہ چُھوئیں ۔ موقع ملے تو رُکنِ یَمانی کو بوسہ بھی دیجئے،اگر چُومنے یاچُھونے کا موقع نہ ملے تو یہاں ہاتھوں سے اشارہ کر کے چُومنا  نہیں ۔ ( رُکنِ یَمانی پر آج کل لوگ کافی خوشبو لگا دیتے ہیں لہٰذا احرام والے چُھونے اور چومنے میں احتیاط فرمائیں )

  اب آپ کعبۂ مُشَرَّفہ کے تین کونوں کا طواف پورا کرکے چوتھے کونے رُکنِ اَسوَد کی طرف بڑھ رہے ہیں ، رُکنِ یَمانی ا ور رُکنِ اَسوَد کی دَرمِیانی دیوار کو ’’مُستَجاب ‘‘ کہتے ہیں ، یہاں دُعا


پراٰمین کہنے کے لئے ستَّر ہزار فرشتے مقرَّر ہیں ۔ آپ جو چاہیں اپنی زَبان میں اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دُعا مانگئے یا سب کی نیَّت سے اور مجھ گنہگا ر سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہکی بھی نیَّت شامل کر کے ایک مرتبہ دُرُود شریف پڑھ لیجئے، نیز یہ قراٰنی دُعا بھی پڑھ لیجئے :

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب ہمارے! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔

            اے لیجئے!آپ حَجَرِ اَسوَد کے قریب آپہنچے ،یہاں آپ کا ایک چکَّر پورا ہوا۔ لوگ یہاں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی دُور ہی دُور سے ہاتھ لہراتے ہوئے گزر رہے ہوتے ہیں ایسا کرنا ہرگز سُنَّت نہیں ، آپ حسبِ سابِق یعنی پہلے کی طرح رُوبہ قِبلہ حَجَرِ اَسوَد کی طرف مُنہ کر لیجئے۔ اب نیَّت کرنے کی ضَرورت نہیں کہ وہ تو اِبتداء ً ہوچکی، اب دوسرا چکَّر شُروع کرنے کے لئے پہلے ہی کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا: بِسْمِ اللّٰهِ   وَ الْحَمْدُ  لِلّٰهِ  وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ  وَ الصَّلٰوةُ  وَ السَّلَامُ عَلٰی  رَسُوْلِ  اللّٰهِ  ط پڑھ کر اِستِلام کیجئے۔ یعنی موقع ہو تو حَجَرِ اَسوَد کو بوسہ دیجئے ورنہ اُسی طرح ہاتھ سے اِشارہ کر کے اُسے چُوم لیجئے۔ پہلے ہی


کی طرح کعبہ شریف کی طرف مُنہ کر کے تھوڑاسا سیدھے ہاتھ کی جانِب سَرَکئے۔ جب حَجَرِ اَسوَد سامنے نہ رہے تو فوراً  اُسی طرح کعبۂ مُشَرَّفہ کو بائیں (left) ہاتھ کی طرف لئے طواف میں مَشغُول ہوجائیے اوردُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعاپڑھئے:

دوسرے چَکَّر کی دُعا

اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَا الْبَیْتَ بَیْتُكَ وَ الْحَرَمَ حَرَمُكَ وَ الْاَمْنَ  اَمْنُكَ وَالْعَبْدَ عَبْدُكَ وَاَنَا عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَھٰذَا مَقَامُ الْعَآئِذِبِكَ مِنَ النَّارِط فَحَرِّمْ لُحُوْمَنَا وَ بَشَرَتَنَا  عَلَی النَّارِ ط اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ  اِلَیْنَا  الْاِیْمَانَ  وَ زَیِّنْہُ  فِیْ

اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!بے شک یہ گھر تیرا گھر ہے او ریہ حرم تیرا حرم ہے اور (یہاں کا)امن وامان تیرا ہی دیا ہوا ہے اور ہر بندہ تیرا ہی بندہ ہے اور میں بھی تیرا ہی بندہ ہوں اور تیرے ہی بندے کا بیٹا ہوں اوریہ مقام جہنَّم سے تیری پناہ مانگنے والے کا ہے،     تو ہمارے گو شت او ر جسم کو دو زخ پر حرام فرما دے، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمارے لئے ایمان کو محبوب بنادے

 


 

قُلُوْبِنَا وَ کَرِّہْ  اِلَیْنَا  الْکُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ وَ اجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِیْنَط   اَللّٰھُمَّ قِنِیْ عَذَابَكَ یَوْمَ تَبْعَثُ  عِبَادَكَ  ط  اَللّٰھُمَّ  ارْزُقْنِیْ  الْجَنَّۃَ  بِغَیْرِ  حِسَابٍ  ط

(دُرُود شریف پڑھ لیجئے) اور ہمارے دلوں میں اس کی چاہ پیدا کردے اور ہمارے لئے کفر اور بدکاری   اور نافرمانی کو ناپسند بنادے اور ہمیں ہدایت پانے والوں میں شامل کر لے، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!جس دن تو اپنے بندو ں کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے مجھے اپنے عذاب سے بچا، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے بے حساب جنّت عطافرما۔

رُکنِ یَمانی پر پہنچنے سے پہلے پہلے یہ دُعا ختم کردیجئے۔ اب موقع ملے تو پہلے کی طرح بوسہ لے کر یا پھر اُسی طرح چُھوکر ’’حَجَرِ اَسوَد‘‘کی طرف بڑھئے،دُرُود شریف پڑھ کر یہ دعائے قراٰ نی پڑھئے:

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب ہمارے! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔

          اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَدکے قریب آپہنچے۔ اب آپ کا ’’دوسرا چکّر‘‘ بھی


پورا ہوگیا، پھر حسبِ سابِق دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاکریہ دُعا:

بِسْمِ اللّٰهِ   وَ الْحَمْدُ  لِلّٰهِ  وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ  وَ الصَّلٰوةُ  وَ السَّلَامُ عَلٰی  رَسُوْلِ  اللّٰهِ  ط پڑھ کر حَجَرِ اَسوَدکا اِستِلام کیجئے اور پہلے ہی کی طرح تیسراچکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:

تیسرے چَکَّر کی دُعا

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ  اَعُوْذُبِكَ مِنَ الشَّكِّ وَالشِّرْكِ وَالنِّفَاقِ وَالشِّقَاقِ وَسُوْٓ ءِ الْاَخْلَاقِ وَسُوْٓ ءِ الْمَنْظَرِ وَالْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَھْلِ وَالْوَلَدِط اَللّٰھُمَّ  اِنِّیْۤ  اَسْئَلُكَ رِضَاكَ وَالْجَنَّۃَ  وَ

اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں  شک اور شرک      اور نفاق اورحق کی مخالفت سے اور بُر ے اَخلاق اور بُرےحال  سے اوراَہل وعِیال اورمال میں بُرے انجام سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے تیری رِضا اور جنَّت مانگتا ہوں اور

 


 

اَعُوْذُبِكَ  مِنْ سَخَطِكَ  وَ النَّارِ طاَللّٰھُمَّ  اِنِّیْۤ   اَعُوْذُبِكَ  مِنْ  فِتْنَۃِ  الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِكَ   مِنْ   فِتْنَۃِ   الْمَحْیَا   وَ الْمَمَاتِط

(دُرُود شریف پڑھ لیجئے) تیرے غَضَب اور جہنَّم سے پناہ چاہتاہوں ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں قبر کی آزمائش اور زندگی اور      موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتاہوں ۔

            رُکنِ یَمانی پر پہنچنے سے پہلے یہ دُعا ختم کردیجئے اور پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھتے ہوئے دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعائے قراٰنی پڑھئے:  

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)

ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب ہمارے! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔

          اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَدکے قریب آپہنچے، آپ کا ’’تیسرا چکّر‘‘ بھی مکمَّل ہوگیا، پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:

بِسْمِ اللّٰهِ   وَ الْحَمْدُ  لِلّٰهِ  وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ  وَ الصَّلٰوةُ


وَ السَّلَامُ عَلٰی  رَسُوْلِ  اللّٰهِ  ط پڑھ کر حَجَرِ اَسوَد کا اِستِلام کیجئے اور پہلے ہی کی طرح چوتھا چکّر شُروع کیجئے،اب رَمَل نہ کیجئے کہ رَمَل صِرْف تین ابتِدائی پھیروں میں کرنا تھا ۔ اب آپ کوحسبِ معمول درمیانہ چال کے ساتھ بَقِیَّہ پھیرے مکمَّل کرنے ہیں ۔ دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:

چوتھے چَکَّر کی دُعا

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہَا عُمْرَۃً  مَّبْرُوْرَۃً  وَّسَعْیًا  مَّشْکُوْرًا وَّ ذَنْۢبًا  مَّغْفُوْرًا وَّعَمَلًا صَالِحًا  مَّقْبُوْلًا وَّ تِجَارَۃً  لَّنْ تَبُوْرَ ط یَا عَالِمَ مَا فِی الصُّدُوْرِ اَخْرِجْنِیْ  یَاۤ   اَللّٰہُ  مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ ط

اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میرے اس حج کو حجِ مبرور اور میری کوشش کو کامیاب      اور گناہوں کی مغفرت کا ذَرِیعہ اور مقبول نیک عمل اور     بے نقصان تجارت بنادے۔ اے سینوں کے حال جاننے والے !  اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے ( گناہ کی) تاریکیوں سے (عمل صالح کی) روشنی کی طر ف نکال  دے۔     

 


 

اَللّٰھُمَّ  اِ نِّیْۤ   اَسْئَلُكَ  مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَآئِمَ مَغْفِرَتِكَ  وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ وَّالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَّالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ  وَالنَّجَاۃَ  مِنَ  النَّارِ ط  اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ  وَبَارِكْ لِیْ  فِیْہِ  وَ اخْلُفْ  عَلٰی   کُلِّ  غَآئِبَۃٍ   لِّیْ   بِخَیْرٍ  ط

(دُرُود شریف پڑھ لیجئے)    اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے تیری رَحمت (کے حاصل ہونے ) کے ذریعوں     اور تیری  مغفرت کے اسباب کا اورتمام      گناہوں سے بچتے رہنے اور ہرنیکی کی توفیق کااور     جنّت  میں جانے  اور جہنَّم سے نَجات پانے کا  سُوال کرتاہوں ۔ اور اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے دیے ہوئے رزق میں قَناعت عطا فرمااور اس میں میرے لیے بَرَکت بھی دے اور     ہر نقصان کا اپنے کرم سے مجھے نعمَ البدل عطا فرما۔

         

           



[1] ۔۔۔ اِحرام کی حالت میں خوشبو کے استعمال کے اَحکام کی تفصیل سُوالاً جواباً آگے آرہی ہے۔ ہاں اِحرام کی چادریں اگر پہن لی ہیں مگر ابھی تک نیّت کرکے لبیک نہیں کہی تو خوشبو لگانا، خوشبودار پھولوں کے گجرے پہننا سب جائز ہے۔

[2] ۔۔۔ یعنی ایسے بڑھاپے سے جس سے زندگی کا اَصل مقصود فوت ہو جائے یعنی عِلْم و عمل جاتے رہیں ۔(مراٰۃ ج۴ ص۳ )

[3] ۔۔۔ مَشَاہد جمع ہے مَشہَد کی اور مشہد کا معنیٰ ہے: ’’حاضِر ہونے کی جگہ‘‘یہاں مراد یہ ہے کہ جس جس مقام پر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتشریف لے گئے وہاں دعا قَبول ہوتی ہے اور خُصُوصاً مکۂ مکرَّمہ اور مدینۂ منوَّرہ زَادَھُمَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں بے شمار مقامات پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہوئے مَثَلاً حضرتِ سیِّدُنا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  کا مقدّس باغ وغیرہ۔

[4] ۔۔۔ انگوٹھی کے بارے میں عرض ہے کہ تاجدار مدینہ، راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی خدمت باعظمت میں ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھے۔ میٹھے مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا بات ہے کہ تم سے بُت کی بو آتی ہے؟ انہوں نے وہ (پیتل کی ) انگوٹھی اُتار کر پھینک دی پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر حاضِر ہوئے۔ فرمایا :کیا بات ہے کہ تم جہنَّمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو؟ انہوں نے اسے بھی پھینک دیا پھر عرض کی: یارسولَ اللّٰہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم! کیسی انگوٹھی بنواؤں ؟ فرمایا: چاندی کی بناؤ اور ایک مِثقال پورا نہ کرو۔ (ابو داوٗد ج۴ ص۱۲۲ حدیث۴۲۲۳) یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن کی ہو۔ اسلامی بھائی جب کبھی انگوٹھی پہنیں تو صرف چاندی کی ساڑھے چار ماشہ(یعنی374ملی گرام) سے کم وزن چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنیں ایک سے زیادہ نہ پہنیں اور اس ایک انگوٹھی میں نگینہ بھی ایک ہی ہوایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں اور بغیر نگینے کے بھی نہ پہنیں ۔ نگینے کے وزن کی کوئی قید نہیں ۔ چاندی یا کسی اور دھات کاچَھلّا (چاہے مدینۂ منورہ ہی کا کیوں نہ ہو) یا چاندی کے بیان کردہ وزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات (مَثَلاً سونا، تانبا، لوہا، پیتل، اسٹیل وغیرہ) کی انگوٹھی نہیں پہن سکتے۔ سونے چاندی یا کسی بھی دھات کی زنجیر گلے میں پہننا گناہ ہے۔ اسلامی بہنیں سونے چاندی کی انگوٹھیاں اور زنجیریں وغیرہ پہن سکتی ہیں ، وزن اور نگینوں کی کوئی قید نہیں ۔(انگوٹھی کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے ، فیضانِ سنّت جلد۲ کے باب ’’ نیکی کی دعوت‘‘(حصّہ اوّل)صفحہ 408 تا 412 کا مُطالَعہ فرمایئے)

[5] ۔۔۔ مجبوری کی صورت میں سر یا منہ پر پٹی باندھ سکتے ہیں مگر اس پر کفّارہ دینا ہوگا۔ (اس کا مسئلہ صفحہ 315  پر ملاحظہ فرمائیں)

[6] ۔۔۔   ناف کے نیچے سے لیکر عُضوِ مخصوص کی جڑ تک بدن کی گولائی میں جتنا حصّہ آتا ہے اُسے’’ پَیڑو‘‘ کہتے ہیں ۔

[7] ۔۔۔  مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  میں آبادی بڑھتی جارہی ہے اور کہیں کہیں حرم کے باہَر تک پھیل چکی ہے مَثَلاً تنعیم کہ یہ حرم سے باہَر ہے مگر شایدشہرِ مکّہ میں داخل۔واللّٰہ ورسولہٗ اعلم۔

[8] ۔۔۔  نماز، روزہ، اِعتِکاف، طواف وغیرہ ہر جگہ یہ مسئلہ ذہن میں رکھئے کہ عَرَبی زَبان میں نیَّت اُسی وَقت کار آمد ہوتی ہے جب کہ اس کے معنیٰ معلوم ہوں ورنہ نیَّت اُردو میں بلکہ اپنی مادَری زَبان میں بھی ہوسکتی ہے اور ہر صورت میں دل میں نیَّت ہونا شَرْط ہے، زَبان سے نہ بھی کہیں تب بھی چل جائے گا کہ دِل ہی میں نیَّت ہونا کافی ہے ہاں زَبان سے کہہ لینا افضل ہے۔

[9] ۔۔۔  مٹّی ( یا سیمنٹ ) کا ڈھیر جو مکان کی باہری دیوار کی مضبوطی کیلئے اُس کی جڑ میں لگاتے ہیں اُسے ’’ پُشتہ ٔ دیوار‘‘ کہتے ہیں ۔