اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
حُسینی دُولھا ([1])
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے16 صفحات کا یہ بیان مکمل پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
آپ اپنے دل میں مَدَنی انقِلاب برپا ہوتا محسوس فرمائیں گے ۔
حضرتِ سیِّدُناشیخ محمد بن سُلیمان جَزُولیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں سفر پر تھا، ایک مقام پر نَماز کا وقت ہو گیا، وہاں کُنواں تو تھا مگر ڈَول اور رسی نَدارَد( یعنی غائب) میں اِسی فکر میں تھا کہ ایک مکان کے اوپر سے ایک مَدَنی مُنّی نے جھانکا اور پوچھا: آپ کیا تلاش کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا : بیٹی ! رسّی اور ڈَول ۔ اُس نے پوچھا: آپ کا نام ؟ فرمایا: محمد بن سُلیمان جَزُولی ۔ مَدَنی مُنّی نے حیرت سے کہا: اچّھا آپ ہی ہیں جن کی شُہرت کے ڈنکے بج رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ کُنویں سے پانی بھی نہیں نکال سکتے ! یہ کہہ کر اُس نے کُنویں میں تھوک دیا۔ کمال ہو گیا! آناً فاناً پانی اوپر آگیا اور کنویں سے چھلکنے لگا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے وُضُو سے فراغت کے بعد اُس باکمال مَدَنی مُنّی سے فرمایا:
بیٹی! سچ بتاؤتم نے یہ کمال کس طرح حاصِل کیا؟ کہنے لگی: ’’ میں دُرُودِ پاک پڑھتی ہوں ، اِسی کی بَرَکت سے یہ کرم ہوا ہے۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اُس باکمال مَدَنی مُنّی سے مُتأَثِّر ہو کر میں نے وَہیں عہد کیا کہ میں دُرُود شریف کے متعلِّق کتاب لکھوں گا۔ (سعادۃُ الدّارین ص ۱۵۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت)چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے دُرُود شریف کے بارے میں کتاب لکھی جو بے حد مقبول ہوئی اور اُس کتاب کانام ہے:’’دلائلُ الخیرات‘‘
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ابھی پچھلے دنوں ہم نے کربلا کے عظیم شہیدوں عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی یاد منائی ہے۔ آئیے!میں آپ کو کربلا کے حُسینی دُولھا کی درد انگیز داستان سناؤں۔ چُنانچہ صدرُالْاَ فاضِل حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی اپنی مشہور کتاب ’’ سوانِحِ کربلا‘‘ میں نقل کرتے ہیں :
حضرتِ سیِّدنا وَہب ابن عبداللہ کلبیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قبیلہ بنی کلب کے نیک خُو اور خوبرو جوان تھے ، عُنفُوانِ شباب، اُمنگوں کا وَقت اور بہاروں کے دن تھے ۔ صِرف سترہ روز شادی کو ہوئے تھے اور ابھی بِساطِ عِشرت ونَشاط گرم ہی تھی کہ والد ۂ ماجِدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاتشریف لائیں جو ایک بیوہ خاتون تھیں اور جن کی ساری کمائی اور گھر کا چَراغ
یہی ایک نو جوان بیٹا تھا۔ مادرِ مُشْفِقَہ نے رونا شروع کر دیا۔ بیٹا حیرت میں آ کر ماں سے پوچھتا ہے: پیاری ماں ! رنج و ملال کا سبب کیا ہے؟ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اپنی عمر میں کبھی آپ کی نافرمانی کی ہو، نہ آئندہ ایسی جرأت کر سکتا ہوں۔ آپ کی اطاعت و فرماں برداری مجھ پر فرض ہے اور میں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ تابہ زندگی مُطیع و فرمانبردار ہی رہوں گا۔ ماں ! آپ کے دل کو کیا صدمہ پہنچا اور آپ کو کس غم نے رُلایا؟ میری پیاری ماں ! میں آپ کے حکم پر جان بھی فِدا کرنے کو تیّار ہوں آپ غمگین نہ ہوں۔
سعادت مند اکلوتے بیٹے کی یہ سعادت مندانہ گفتگو سُن کر ماں اوربھی چیخ ما ر کر رونے لگی اور کہنے لگی: اے فرزندِدِلبند ! تُو میری آنکھ کا نور، میرے دل کا سُرور ہے اے میرے گھر کے روشن چَراغ اور میرے باغ کے مَہکتے پھول ! میں نے اپنی جان گھلا گھلا کر تیری جوانی کی بہار پائی ہے۔ تُو ہی میرے دل کا قرار اور میری جان کا چَین ہے۔ ایک پَل تیری جدائی اور ایک لمحہ تیرا فِراق مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا۔
چُو دَر خَواب باشَم تُوئی دَر خَیالَم
چُو بَیدار گردَم تُوئی دَر ضَمِیرَم
(یعنی جب سوؤں تو میرے خوابوں اور خیالوں میں بھی تو اور جب جاگوں تو میرے دل کی یادوں میں بھی تو)اے جان مادر! میں نے تجھے اپنا خونِ جگر پلایا ہے۔ آج اِس وقت دشتِ کربلا میں نواسۂ محبوبِ رَبّ ذُوالجلال ، مولیٰ مشکلکشا کا لال، خاتونِ جنّت کا نونہال، شہزداۂ خوش خِصا ل ظلم وستَم سے
نِڈھال ہے۔ میرے لال! کیا تجھ سے ہو سکتا ہے کہ تُو اپنی جان اس کے قدموں پر قربان کر ڈالے ! اِس بے غیرت زندگی پر ہزار تُف ہے کہ ہم زندہ رہیں اور سلطانِ مدینۂ منوَّرہ ، شہنشاہِ مکۂ مکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لاڈلا شہزادہ ظلم و جَفاکے ساتھ شہید کر دیا جائے۔اگر تجھے میری مَحَبَّتیں کچھ یاد ہوں اور تیری پرورش میں جومشَقَّتیں میں نے اٹھائی ہیں ان کو تُو بھولا نہ ہو تو اے میرے چمن کے مہکتے پھول ! تُوپیارے حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر پر صَدقے ہو جا۔ حُسینی دولھا سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: اے مادرِ مہربان ، خوبیٔ نصیب ، یہ جان شہزادہ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر قربان ہو میں دل و جان سے آمادہ ہوں ، ایک لمحہ کی اجازت چاہتا ہوں تا کہ اُس بی بی سے دو باتیں کر لوں جس نے اپنی زندگی کے عیش و راحت کا سہرا میرے سر پر باندھا ہے اور جس کے ارمان میرے سوا کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے ۔ اس کی حسرتوں کے تڑپنے کا خیال ہے، اگر وہ چاہے تو میں اس کو اجازت دے دوں کہ وہ اپنی زندگی کوجس طرح چاہے گزارے۔ ماں نے کہا : بیٹا ! عورتیں ناقِصُ الْعقل ہوتی ہیں ، مَبادا تو اُس کی باتوں میں آجائے اور یہ سعادت سَرمَدی تیرے ہاتھوں سے جاتی رہے۔
حُسینی دولھا سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: پیاری ماں ! اما مِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مَحَبَّت کی گرہ دل میں ایسی مضبوط لگی ہے کہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کو کوئی کھول نہیں سکتا اور ان کی جاں نثاری کا نقش دل پر اس طرح کندہ ہے جو دنیا کے کسی
بھی پانی سے نہیں دھویا جا سکتا۔ یہ کہہ کر بی بی کی طرف آئے اور اسے خبردی کہ فرزندِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ابنِ فاطمِہ بَتُول، گلشنِ مولیٰ علی کے مہکتے پھول میدانِ کربلا میں رَنجیدہ و مَلُول ہیں۔ غدّاروں نے ان پر نَرغہ کیا ہے۔ میری تمنّا ہے کہ ان پر جان قربان کروں۔ یہ سن کر نئی دُلہن نے ایک آہِ سرددلِ پُر درد سے کھینچی اور کہنے لگی: اے میرے سرکے تاج ! افسوس کہ میں اس جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ شریعتِ اِسلامیہ نے عورتوں کو لڑنے کے لئے میدان میں آنے کی اجازت نہیں دی۔ افسوس ! اِس سعادَت میں میرا حصّہ نہیں کہ تیرے ساتھ میں بھی دشمنوں سے لڑ کر امام عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر اپنی جان قربان کروں۔ سبحٰنَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ نے تو جنّتی چَمَنِستان کا ارادہ کر لیا وہاں حُوریں آپ کی خدمت کی آرزُومند ہو ں گی۔ بس ایک کرم فرما دیں کہ جب سردار انِ اہلبیت عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ساتھ جنّت میں آپ کیلئے نعمتیں حاضِر کی جائیں گی اور جنّتی حُوریں آپ کی خدمت کیلئے حاضِر ہوں گی، اُس وَقت آپ مجھے بھی ہمراہ رکھیں۔ حُسینی دُولھا اپنی اُس نیک دُلہن اور برگُزِیدہ ماں کو لے کر فرزندِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضِر ہوا۔ دُلہن نے عرض کی:اے اِبْنَ رسول! شُہَداء گھوڑے سے زمین پر گرتے ہی حُوروں کی گود میں پہنچتے ہیں اورغِلمانِ جنّت کمالِ اطاعت شِعاری کے ساتھ ان کی خدمت کرتے ہیں۔’’ یہ‘‘ حُضُورپر جاں نثاری کی تمنّا رکھتے ہیں۔ اور میں نہایت ہی بے کس ہوں ، کوئی ایسے رِشتہ دار بھی نہیں جو میری خبر گیری کر سکیں۔ التِجا
یہ ہے کہ عرصہ گاہ محشر میں میری ’’ ان‘‘ سے جُدائی نہ ہو، اور دنیا میں مجھ غریب کو آپ کے اہلبیت اپنی کنیزوں میں رکھیں ، اور میری تمام عمر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی پاک بیبیوں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی خدمت میں گزر جائے۔
حضرت امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سامنے یہ تمام عہدو پَیماں ہو گئے اور سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بھی عرض کر دی کہ یا امامِ عا لی مقام! اگر حُضُور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت سے مجھے جنّت ملی تو میں عرض کروں گا : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ بی بی میرے ساتھ رہے ۔ حُسینی دُولھا سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے اجازت لے کر میدان میں چل دیئے۔ یہ دیکھ کر لشکرِ اَعداء پر لرزہ طاری ہو گیا کہ گھوڑے پر ایک ماہ رُو شہسوار اَجَلِ ناگہانی کی طرح لشکر کی طرف بڑھا چلا آرہا ہے ہاتھ میں نیزہ ہے دَوش پر سِپَرہے اور دل ہِلا دینے والی آواز کے ساتھ یہ رَجز پڑھتا آ رہا ہے: ؎
اَمِیْرٌ حُسَیْنٌ وَ نِعمَ الْاَ مِیر
لَہٗ لَمْعَۃٌ کَا لسِّرَاجِ الْمُنِیر
(یعنی حضرتِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ امیر ہیں اور بَہُت ہی اچّھے امیر۔ ان کی چمک دمک روشن چَراغ کی طرح ہے۔)
برقِ خاطف (یعنی اچک لینے والی بجلی)کی طرح میدان میں پہنچے ، کوہ پیکر گھوڑے پر سِپہ گری کے فُنُون دکھائے، صَفِ اَعداء سے مُبارِز طلب فرمایا ، جو سامنے آیا تلوار سے اُس
کا سر اڑایا ۔ گِردو پیش خُود سروں (یعنی سرکشوں ) کے سروں کا انبار لگا دیا۔ ناکسوں (یعنی نا اہلوں ) کے تن خاک و خون میں تڑپتے نظر آنے لگے۔ یکبار گی گھوڑے کی باگ مَوڑدی اور ماں کے پاس آ کر عرض کی کہ اے مادرِ مُشفِقہ! تُو مجھ سے اب تو راضی ہوئی! اور دُلہن کے پاس پہنچے جو بے قرار رو رہی تھی اور اس کو صَبر کی تلقین کی ۔اتنے میں اَعداء (یعنی دشمنوں ) کی طرف سے آواز آئی: ھَل مِنْ مُّبَارِز؟ یعنی کوئی ہے مقابلہ پر آنے والا ؟ سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ گھوڑے پر سَوار ہو کر میدان کی طرف روانہ ہوئے ۔ نئی دُلہن ٹکٹکی باندھے اُن کو جاتا دیکھ رہی ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہا رہی ہے۔
حُسینی دُولھا شیرژِیاں (یعنی غضبناک شیر) کی طرح تیغِ آبدار و نیزۂ جاں شِکار لے کر معرکۂ کا ر زار میں صاعِقہ وار آ پہنچا۔اس وقت میدان میں اَعداء کی طرف سے ایک مشہور بہادر اور نامدار سَوار حَکَم بن طفیل جو غرورِ نَبرَد آزمائی میں سَرشار تھا تکبُّر سے بَل کھاتا ہوا لپکا سیِّدُنا وَہب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک ہی حملے میں اس کو نیزہ پر اٹھا کر اس طرح زمین پر دے مارا کہ ہڈّیاں چکنا چُور ہو گئیں اور دونوں لشکروں میں شور مچ گیا اور مُبارِزوں میں ہمّتِ مقابلہ نہ رہی۔سیِّدُنا وَہبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے قلبِ دشمن پر پہنچے ۔ جو مُبارِز سامنے آتا اس کو نیزہ کی نوک پر اٹھا کر خاک پر پٹخ دیتے ۔ یہاں تک کہ نیزہ پارہ پارہ ہو گیا۔ تلوار میان سے نکالی اور تیغ زَنوں کی گردنیں اُڑا کر خاک میں ملا دیں۔ جب اَعداء اس جنگ سے تنگ آ گئے تو عَمرو بن سعد نے حکم دیا کہ سپاہی اس نوجوان کے گرد ہُجوم
کر کے حملہ کریں اور ہر طرف سے یکبارگی ٹوٹ پڑیں چُنانچِہ ایسا ہی کیا گیا۔ جب حُسینی دولھا زخموں سے چور ہو کر زمین پر تشریف لائے تو سیاہ دِلانِ بد باطِن نے ان کا سر کاٹ کر حُسینی لشکر کی طرف اُچھال دیا ۔ ماں اپنے لختِ جگر کے سر کو اپنے منہ سے ملتی تھی اور کہتی تھی: اے بیٹا، میرے بہادر بیٹا! اب تیری ماں تجھ سے راضی ہوئی۔ پھر وہ سر اسکی دُلہن کی گود میں لا کر رکھ دیا۔ دُلہن نے ایک جُھر جُھر ی لی اور اُسی وقت پروانہ کی طرف اُس شمع جمال پر قربان ہو گئی اور اس کی روح حُسینی دولھا سے ہم آغوش ہوگئی۔
سُر خروئی اسے کہتے ہیں کہ راہِ حق میں
سر کے دینے میں ذرا تو نے تَأَمُّل نہ کیا
اَسکَنَکُمَا اللہُ فَرَ ادِیْسَ الجِنَانِ وَ اَغْرَقَکُمَا فِی بِحَارِ الرَّحمَۃِ ِوَالرِّضوَانِ(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو فردوس کے باغوں میں جگہ عنایت فرمائے اور رحمت ورضوان کے دریاؤں میں غریق کرے) (مُلَخَّص ازسوانحِ کربلاص۱۴۱تا ۱۴۶مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے اہلبیت اطہار عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی محبت اور جذبۂ شہادت بھی کیسی عظیم نعمتیں ہیں صرف سترہ دن کا دولہا میدان کارزار میں دشمنوں کے لشکر جرار سے تن تنہا ٹکرا گیا اور جام شہادت نوش کرکے جنت کا حقدار ہو گیا۔ حسینی دولہا کی والدۂ
محترمہ اور نو بیاہتادلہن پربھی کروڑوں سلام!کس قدر بلند حوصلے کیساتھ ماں نے اپنے لال کو اور دلہن نے اپنے سہاگ کو امام عالی مقام، امام عرش مقام،امامِ تشنہ کام،امامِ ھمام ، سیّدالشھدائ،راکب ِدوش مصطفی، بیکسِ کربلا امامِ حسینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قدموں پر قربان ہوتے دیکھا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایسی بلندرتبہ خاتونان اسلام کے جذبۂ اسلامی کا کوئی ذرہ ہماری ماؤں اور بہنوں کو بھی نصیب کر ے کہ وہ بھی اپنی اولاد کو دین اسلام کی خاطر قربانیوں کیلئے پیش کریں ،انہیں سنتوں کے سانچے میں ڈھالیں اور عاشقان رسول کے ساتھ مدنی قافلوں میں سفر پر آمادہ کریں۔
لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو سیکھنے سنّتیں قافلے میں چلو
ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ علّامہ اَبُو الْفَرَج عَبْدُ الرَّحمٰن بِن جَوزِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی عُیُونُ الحکایات میں نقل کرتے ہیں : تین شامی گھڑسوار بہادر نوجوان بھائی اسلامی لشکر کے ساتھ جہاد پرروانہ ہوئے لیکن وہ لشکر سے الگ ہو کر چلتے اور پڑاؤ ڈالتے تھے ۔ اور جب تک کفار کا لشکر ان پر حملہ میں پہل نہ کرتا وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیتے تھے ۔ ایک مرتبہ رومیوں کا ایک بڑا لشکر مسلمانوں پر حملہ آورہوا اور کئی مسلمانوں کو شہیداور متعدد کوقیدی بنا لیا۔ یہ
بھائی آپس میں کہنے لگے : مسلمانوں پر ایک بڑی مصیبت نازل ہو گئی ہے ہم پر لازم ہے کہ اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر جنگ میں کود پڑیں ، یہ آگے بڑھے اورجو مسلمان باقی بچے تھے ان سے کہنے لگے: تم ہمارے پیچھے ہو جاؤ اور ہمیں ان سے مقابلہ کرنے دو۔ اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے چاہا تو ہم تمہارے لئے کافی ہوں گے۔پھر یہ رومی لشکر پر ٹوٹ پڑے اور رومیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ رومی بادشاہ ( جو ان تینوں کی بہادری کا منظر دیکھ رہا تھا) اپنے ایک جرنیل سے کہنے لگا:’’ جو ان میں سے کسی نوجوان کوگرفتار کر کے لائے گا میں اسے اپنا مقرب اور سپہ سالار بنا دوں گا۔‘‘ رومی لشکر نے یہ اعلان سن کر اپنی جانیں لڑا دیں اور آخر کار ان تینوں بھائیوں کو بغیر زخمی کئے گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ رومی بادشاہ بولا: ان تینوں سے بڑھ کرکوئی فتح اور مال غنیمت نہیں ، پھر اس نے اپنے لشکر کو روانگی کا حکم دے دیااور ان تینوں بھائیوں کواپنے ساتھ اپنے دارالسلطنت قسطنطنیہ لے آیااور بولا: اگر تم اسلام ترک کر دو تو میں اپنی بیٹیوں کی شادی تم سے کر دوں گا ا ور آئندہ بادشاہت بھی تمہارے حوالے کر دوں گا۔ ان بھائیوں نے ایمان پرثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی یہ پیشکش ٹھکرادی اور سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پکارا اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے استغاثہ کیا(یعنی فریاد کی)بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پو چھا: یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ درباریوں نے جواب دیا:’’ یہ اپنے نبی کو پکار رہے ہیں ‘‘، بادشاہ نے ان بھائیوں سے کہا: اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں تین دیگوں میں تیل خوب کڑکڑا کر تینوں کو ایک ایک
دیگ میں پھنکوا دونگا۔ پھر اس نے تیل کی تین دیگیں رکھ کر ان کے نیچے تین دن تک آگ جلانے کا حکم دیا۔ ہر دن ان تین بھائیوں کو ان دیگوں کے پاس لایا جاتا اور بادشاہ اپنی پیشکش ان کے سامنے رکھتا کہ اسلام چھوڑ دوتو میں اپنی بیٹیوں کی شادی بھی تم سے کردوں گا اور آئندہ بادشاہت بھی تمہارے حوالے کر دونگا۔ یہ تینوں بھائی ہر بار ایمان پر ثابت قدم رہے اور بادشاہ کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ تین دن کے بعد بادشاہ نے بڑے بھائی کو پکارا اور اپنا مطالبہ دُہرایا، اس مردِ مجاہد نے انکار کیا۔ بادشاہ نے دھمکی دی میں تجھے اس دیگ میں پھنکوا دونگا۔ لیکن اس نے پھربھی انکارہی کیا۔ آخر بادشاہ نے طیش میں آ کر اسے دیگ میں ڈالنے کا حکم دیا جیسے ہی اس نوجوان کو کھولتے ہوئے تیل میں ڈالا گیا، آناً فاناً اس کا سب گوشت پوست جل گیا اور اس کی ھڈیاں اوپر ظاہر ہوگئیں ، بادشاہ نے دوسرے بھائی کے ساتھ بھی اسی طرح کیا اور اسے بھی کھولتے تیل میں پھنکوا دیا۔ جب بادشاہ نے ا س قدر کڑے وقت میں بھی اسلام پرانکی استقامت اور ان ہوشربا مصائب پر صبر دیکھا تو نادم ہو کر اپنے آپ سے کہنے لگا: میں نے ان (مسلمانوں ) سے زِیادہ بہادُر کسی کونہ دیکھا اور یہ میں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ پھر اس نے چھوٹے بھائی کو لانے کا حکم دیا اور اسے اپنے قریب کر کے مختلف حیلے بہانوں سے ورغلانے لگالیکن وہ نوجوان اس کی چالبازی میں نہ آیا اور اس کے پائے ثبات میں ذرہ برابرلغز ش نہ آئی ، اتنے میں اس کا ایک درباری بولا: اے بادشاہ اگر میں اسے پُھسلا دوں تومجھے انعام میں کیا ملے گا؟ بادشاہ نے جواب دیا: میں
تجھے اپنی فوج کاسپہ سالار بنا دونگا۔ وہ درباری بولا :مجھے منظور ہے، بادشاہ نے دریافت کیا: تم اسے کیسے پھسلا ؤ گے؟ درباری نے جواباً کہا: اے بادشاہ تم جانتے ہو کہ اہل عرب عورتوں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ بات سارے رومی جانتے ہیں کہ میری فلانی بیٹی حسن و جمال میں یکتا ہے او ر پورے روم میں اس جیسی حسینہ کوئی اور نہیں۔ تم اس نوجوان کو میرے حوالے کر دو میں اسے اور اپنی اس بیٹی کو تنہائی میں یکجا کر دونگا اوروہ اسے پھسلانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بادشاہ نے اس درباری کو چالیس دن کی مدّت دی اور اس نوجوان کو اس کے حوالے کر دیا، وہ درباری اسے لیکر اپنی بیٹی کے پاس آیا اور سارا ماجرا اسے کہہ سنایا۔ لڑکی نے باپ کی بات پر عمل پیرا ہونے پر رضا مندی کا اظہار کیا، وہ نوجوان اس لڑکی کے ساتھ اس طرح رہنے لگا کہ دن کو روزہ رکھتا رات بھر نوافل میں مشغول رہتا۔ یہاں تک کہ مقررہ مدت ختم ہونے لگی تو بادشاہ نے اس لڑکی کے باپ سے نوجوان کا حال دریافت کیا۔ اس نے آ کر اپنی بیٹی سے پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ میں اسے پھسلانے میں ناکام رہی یہ میری طرف مائل نہیں ہو رہا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دونوں بھائی اس شہر میں مارے گئے اور انکی یاد اسے ستاتی ہے لہٰذا بادشاہ سے مہلت میں اضافہ کروا لو اورہم دونوں کو کسی اور شہر میں پہنچا دو۔ درباری نے سارا ماجرا بادشاہ کو کہہ سنایا۔ بادشاہ نے مہلت میں اضافہ کر دیا اور ان دونوں کو دوسرے شہر پہنچانے کا حکم دے دیا۔ وہ نوجوان یہاں بھی اپنے معمول پر قائم رہا یعنی دن میں روزہ رکھتا اور رات بھر عبادت میں مصروف رہتا، یہا ں تک
کہ جب مہلت ختم ہونے میں تین دن رہ گئے تو وہ لڑکی بے تابانہ اس نوجوان سے عرض گزار ہوئی:میں تمہارے دین میں داخِل ہونا چاہتی ہوں اور یوں وہ مسلمان ہو گئی۔ پھر انہوں نے یہاں سے فرار ہونے کی ترکیب بنائی وہ لڑکی اصطبل سے دو گھوڑے لائی اور اس پر سوار ہو کر یہ اسلامی سلطنت کی طرف روانہ ہو گئے۔ ایک رات انہوں نے اپنے پیچھے گھو ڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی ۔ لڑکی سمجھی کہ رومی سپاہی ان کا پیچھا کرتے ہوئے قریب آ پہنچے ہیں۔اس لڑکی نے نوجوان سے کہا: آپ اس ربّ عَزَّوَجَلَّ سے جس پر میں ایمان لاچکی ہوں دُعا کیجئے کہ وہ ہمیں ہمارے دشمنوں سے نجات عطا فرمائے، نوجوان نے پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ اس کے وہ دونوں بھائی جو شہید ہو چکے تھے ،فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ ان گھوڑوں پر سوار ہیں۔ اس نے ان کو سلام کیا پھر ان سے ان کے احوال دریافت کئے وہ دونوں کہنے لگے: ہم ایک ہی غوطے میں جنت الفردوس میں پہنچ گئے تھے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں تمہارے پاس بھیجا ہے۔ اس کے بعد وہ لوٹ گئے اور وہ نوجوان اس لڑکی کے ساتھ ملک شام پہنچا اور اس کے ساتھ شادی کر کے وہیں رہنے لگا۔ ان تین بہادرشامی بھائیوں کا قصہ ملک شام میں بہت مشہور ہوا اور ان کی شان میں قصیدے کہے گئے جن کا ایک شعر یہ ہے : ؎
سَیُعطِی الصَّادِقینَ بِفَضلِ صِدقٍ
نَجَاۃً فی الحَیَاۃِ وَ فِی المَمَاتِ
ترجمہ: عنقریباللہ عَزَّوَجَلَّ سچوں کو سچ کی برکت سے زندگی اور موت میں نجات عطا فرمائے گا۔( عُیُونُ الْحکایات ص ۱۹۷،۱۹۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ان تینوں شامی بھائیوں نے ایمان پر استقامت کا کیسازبردست مظاہرہ کیا، ان کے دلوں میں ایمان کس قدرراسخ ہو چکا تھا، یہ عشق کے صرف بلندبانگ دعوے کرنے والے نہیں حقیقی معنیٰ میں مخلص عاشقانِ رسول تھے۔ دونوں بھائی جامِ شہادت نوش کر کے جنت الفردوس کی سرمدی نعمتوں کے حقدار بن گئے اور تیسرے نے روم کی حسینہ کی طرف دیکھا تک نہیں اور دن رات رب عَزَّوَجَلَّکی عبادت میں مصروف رہا اور یوں جو بہ نیت شکار آئی تھی خود اسیر بن کررہ گئی ۔ اس حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مشکلات میں سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مدد چاہنا اور یا رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! پکارنااہلِ حق کاقدیم طریقہ رہا ہے۔
یا رسول اللہ کے نعرے سے ہم کو پیار ہے
جس نے یہ نعرہ لگایا اُس کا بیڑا پار ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اُس شامی نوجوان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا عزم و استِقلال اوراس کی ایمان پر استِقامت مرحبا! ذراغور تو فرمایئے! نگاہوں کے سامنے دو پیارے پیارے بھائی جامِ شہادت نوش کر گئے مگر اس کے پائے ثَبات کو ذرا بھی لغزِش نہیں آئی ،نہ دھمکیاں ڈرا سکیں نہ ہی قید و بند کی صُعُوبتیں اپنے عزم سے ہٹاسکیں۔ حق و صداقت کا حامی مصیبتوں کی کالی کالی گھٹاؤں سے بالکل نہ گھبرایا، طوفانِ بلا کے سیلاب سے اس کے پائے ثَبات میں جُنبش تک نہ ہوئی، خداو مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا شیدائی دنیا کی آفتوں کو بالکل خاطر میں نہ لایا۔ بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں پہنچنے والی ہر مصیبت کا اس نے خوش دلی کے ساتھ خیر مقدم کیا، نیز دنیا کے مال اور حُسن وجمال کالالچ بھی اس کے عزائم سے اس کو نہ ہٹا سکا اور اس مردِ غازی نے اسلام کی خاطر ہر طرح کی راحتِ دنیا کے منہ پر ٹھوکر مار دی۔ ؎
یہ غازی یہ تیرے پُراَسرار بندے جنہیں تو نے بَخشاہے ذوقِ خُدائی
ہے ٹھوکر سے دو نِیم صحرا و دریا سِمَٹ کر پہاڑ ان کی ہیبَت سے رائی
دو عالَم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومِن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشوَر کُشائی
آخِر کا ر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے رہائی کے بھی خوب اَسباب فرمائے۔ وہ رومی لڑکی مسلمان ہو گئی اور
دونوں رِشتۂ اِزدِواج میں بھی منسلِک ہو گئے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اگر آپ بھی دونوں جہاں کی سر خروئی کے تمنائی ہیں تو عاشقان رسول کے ساتھ مدنی قافلوں میں سنتوں کی تربیّت کے لیے سفراور روزانہ فکر مدینہ کے ذریعے مدنی انعامات کا رسالہ پُر کرکے ہر مدنی ماہ کے ابتدائی دس دن کے اندر اندر اپنے یہاں کے ذمہ دار کو جمع کروانے کا معمول بنالیجئے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امیرُ المؤمنین حضرتِسیِّدُنا صِدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ قَطْعی جنَّتی ہونے کے باوُجُود زَبان کی آفتوں سے بے حد خوف زدہ رہا کرتے تھے چُنانچِہ فرماتے ہیں:کاش میں گونگا ہوتا مگر ذِکرُاللّٰہ کی حد تک گویائی(یعنی بولنے کی صلاحیّت)حاصل ہوتی۔(مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۰ا ص۸۷ تحتَ الحدیث:۵۸۲۶)
[1]۔۔۔یہ بیان امیرِ اہلسنّتدَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے کراچی میں سندھ سطح پر ہونے والے تین روزہ سنتوں بھرے اجتماع ۱۴۲۰ھ میں فرمایاتھا۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔ ۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ