اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطان لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ(26صفحات)مکمَّل پڑھ لیجئے، اِن شاءَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّایمان تازہ ہو گا اور بعض وسوسے بھی دور ہوں گے
اللہ کے مَحبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: تمہارے دِنوں میں سب سے افضل دن جُمُعہ ہے، اسی دن حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ پیدا ہوئے ، اِسی میں ان کی روحِ مبارکہ قبض کی گئی ، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن ہلاکت طاری ہوگی لہٰذا اس دن مجھ پر دُرُودِ پاک کی کثر ت کیاکرو کیونکہ تمہارادُرُود پا ک مجھ تک پہنچا یا جا تا ہے ۔صحا بۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْواننے عر ض کی:’’یا رسولَ اللہ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! آپ کے وِصال کے بعد دُرُودپاک آپ تک کیسے پہنچا یا جائے گا؟‘‘ ارشا د فرمایا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انبیائے کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے اجسام کو کھا نا زمین پر حرام فرمایاہے ۔‘‘ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۱ص۳۹۱حدیث ۱۰۴۷داراحیاء التراث العربی بیروت)
تُو زندہ ہے و اللہ تو زندہ ہے و اللہ
مِری چشمِ عالم سے چُھپ جانے والے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
سلسلۂ عالیہ چِشتیہ کے عظیم پیشوا خواجۂ خواجگان، سلطانُ الھند حضرت سیِّدُنا خواجہ غریب نواز حسن سَنْجَری علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی کومدینۂ منوَّرہ زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً کی حاضِری کے موقع پر سیِّدُ الْمُرسَلین، خَاتمُ النَّبِیّین ،جنابِ رَحمۃٌ لِّلْعٰلمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سییہ بشارت ملی:
’’اے مُعین الدِّین توہمارے دین کامُعِین (یعنی دین کا مددگار) ہے ، تجھے ہندوستان کی وِلایت عطا کی، اجمیر جا،تیرے وُجُود سے بے دینی دُور ہوگی اور اسلام رونق پذیرہو گا۔‘‘ (سیرالاقطاب ص۱۲۴ )چُنانچِہ سیِّدُنا سلطانُ الہند خوا جہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مدینۃ الہندا جمیر شریف تشریف لائے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مساعیٔ جمیلہ سے لوگ جُوق دَر جُوق حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگے۔ وہاں کے کافِر راجہ پرتھوی راج کو اس سے بڑی تشویش ہونے لگی۔ چُنانچِہ اس نے اپنے یہاں کے سب سے خطرناک اور خوفناک جادوگر اَجَے پال جوگی کوسرکار خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مقابلے کے لئے تیّار کیا۔ ’’اَجَے پال جوگی‘‘ اپنے چَیلوں کی جماعت لے کر خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس پہنچ گیا۔ مسلمانوں کا اِضطِراب دیکھ کرحُضُور خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان کے گرد ایک حِصار کھینچ د یا اور حکم فرمایا کہ کوئی مسلما ن اِس دائرے سے باہَر نہ نکلے۔ اُدھر جادوگروں نے جادو کے زور سے پانی، آگ اور پتھّر برسانے شروع کر دیئے مگر یہ سارے وا رحِصار کے
قریب آکر بے کار ہو جاتے ۔ اب اُنہوں نے ایسا جادو کیا کہ ہزاروں سانپ پہاڑوں سے اُتر کر خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور مسلمانوں کی طرف لپکنے لگے، مگر جُوں ہی وہ حِصار کے قریب آتے مرجاتے۔ جب چیلے ناکام ہوگئے تو خود ان کا گُرُو خوفناک جادوگر اَجَے پال جوگی جادو کے ذَرِیعے طرح طرح کے شُعبدے دکھانے لگا مگر حِصار کے قریب جاتے ہی سب کچھ غائب ہوجاتا۔ جب اس کا کوئی بس نہ چلا تو وہ بپھر گیا اورغُصّے سے پَیچو تاب کھاتے ہوئے اس نے اپنا مِرگ چھالا (یعنی ہرنی کا چمڑابالوں والا ) ہوا میں اُچھالا اورکود کر اُس پرجابیٹھا اور اُڑتا ہواایکدم بلند ہوگیا۔ مسلمان گھبرا گئے کہ نہ جانے اب ا وپر سے کیا آفت برپا کرے گا! میرے آقاغریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس کی حَرَکت پر مسکرا رہے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی نعلینِ مبارَک کو اشارہ کیا،حکم پاتے ہی وہ بھی تیزی کے ساتھ اُڑتی ہوئیں جادوگر کے تَعاقُب میں روانہ ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر پہنچ گئیں اور اس کے سر پر تڑاتڑ
پڑنے لگیں ! ہرضَرب میں وہ نیچے اتر رہا تھا، یہاں تک کہ عاجز ہوکر اُترا اور سرکارِ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قدموں پر گر پڑا اور سچے دل سے توبہ کی ا ور مسلمان ہوگیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان کاا سلامی نام عبدا ﷲ رکھا ۔ (خزینۃ الاصفیاء ج۱ص۲۶۲)اور وہ خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نظر فیض اثر سے ولایت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوکر عبد اﷲ بیابانی نام سے مشہور ہوگئے۔ (آفتابِ اجمیر) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
سیِّدُنا خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب مدینۃُ الھند اجمیر شریف تشریف لائے تو اَوّلاً ایک پِیپل کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے۔ یہ جگہ وہاں کے کافِر راجہ پرتھوی راج چوہان کے اونٹوں کے لئے مخصوص تھی۔ راجہ کے کارِندوں نے آکر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر رُعب جھاڑا ا ور بے اَدَبی کے ساتھ کہا
کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہ جگہ راجہ کے اونٹوں کے بیٹھنے کی ہے ۔ خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ’’اچھا ہم لوگ جاتے ہیں تمہارے اونٹ ہی یہاں بیٹھیں ۔‘‘ چُنانچِہ اُونٹوں کو وہا ں بٹھادیا گیا۔ صبح ساربان آئے اور اُونٹوں کو اُٹھانا چاہا، لیکن باوُجُود ہر طرح کی کوشش کے اُونٹ نہ اُٹھے۔ ساربان نے ڈرتے جھجکتے حضرتِ سیِّدُ نا خواجہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمتِ سرا پا کرامت میں حاضِر ہوکر اَپنی گستاخی کی مُعافی مانگی۔ ہند کے بے تاج بادشاہ حضرتِ سیِّدُنا غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: ’’جاؤخدا عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے تمہارے اُونٹ کھڑے ہوگئے۔‘‘ جب ساربان واپس ہوئے تو واقعی سب اُونٹ کھڑے ہوچکے تھے! (خواجۂ خواجگان) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔ ٰاٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
حُضور خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چند مُریدین ایک بار اجمیر شریف کے مشہور تالاب اَنا ساگر پر غسل کرنے گئے۔کافروں نے دیکھ کر شور مچا دیا کہ یہ مسلمان ہمارے تالاب کو’’ ناپاک‘‘ کررہے ہیں ۔ چُنانچِہ وہ حضرات لَوٹ گئے اور جاکر سارا ماجرا خواجہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک چھاگل ( پانی رکھنے کا مٹی کا برتن) دے کر خادِم کو حکم دیا کہ اس کو تالاب سے بھر کر لے آؤ۔ خادِم نے جاکر جُوں ہی چھاگل کوپانی میں ڈالا، سارے کا سارا تالاب اُس چھاگل میں آگیا!لوگ پانی نہ ملنے پر بے قرار ہوگئے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمتِ سراپا کرامت میں حاضِر ہو کر فریاد کرنے لگے۔چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے خادِم کو حکم دیا کہ جاؤ اور چھاگل کا پانی واپَس تالاب میں اُنڈَیل دو۔ خادِم نے حکم کی تعمیل کی اور اَنا ساگر پھر پانی سے لبریز ہوگیا!(خواجۂ خواجگان) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر
رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
ہے تِری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارے
کسی تَیراک نے پایا نہ کَنارا تیرا
حضرتِ سیِّدُنا خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے ایک مُرید کے جنازے میں تشریف لے گئے، نَمازِ جنازہ پڑھا کر اپنے دستِ مبارَک سے قَبْر میں اُتارا۔ حضرتِ سیِّدُنا بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : تدفین کے بعد تقریباً سارے لوگ چلے گئے، مگرحُضور خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اُس کی قَبْر کے پاس تشریف فرما رہے۔ اچانک آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک دم غمگین ہوگئے۔ کچھ دیر کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زَبان پر اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ جاری ہوا اور آپ مطمئن ہوگئے۔ میرے اِستِفسار پر فرمایا: میرے اِس مُرید پر
عذاب کے فِرِشتے آپہنچے جس پر میں پریشان ہوگیا۔ اتنے میں میرے مُرشِدِ ِگرامی حضرت ِسیِّدُنا خواجہ عثمان ہَروَنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الغنی تشریف لائے اور فِرِشتوں سے اس کی سِفارش کرتے ہوئے فرمایا: اے فِرِشتو! یہ بندہ میرے مُرید مُعین الدّین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مُرید ہے، اس کو چھوڑ دو۔ فِرِشتے کہنے لگے: ’’یہ بَہُت ہی گنہگار شخص تھا۔‘‘ ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ غیب سے آواز آئی: ’’اے فِرِشتو! ہم نے عثمان ہَروَنی کے صدقے مُعینُ الدّین چشتی کے مُرید کو بَخْش دیا۔‘‘ (معینُ الاَرواح)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حِکایت سے درس ملا کہ کسی پیرِ کامل کا مُرید بن جانا چاہیئے کہ اُس کی برکت سے عذابِ قبر دُور ہونے کی امّید ہے۔
حضرتِ سیِّدُنا خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمر شریف جب پندرہ
سال کی ہوئی تو والدِ گرامی کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا۔ وراثت میں ایک باغ اور ایک پَن چکّی ملی اسی کو اپنے لئے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی نگہبانی کرتے اور اسکے درختوں کی آبیاری فرماتے ۔ایک روز آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے باغ میں پَودوں کو پانی دے رہے تھے کہ اُس دَور کے مشہور مجذوب حضرت ِسیِّدُنا ابراہیم قَندَوزی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ باغ میں داخِل ہوگئے۔ جُوں ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نظر اُس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندے پر پڑی، فوراً سارا کام چھوڑ کر دَوڑے اور سلام کرکے دست بوسی کی اور نہایت ہی اَدَب سے ایک درخت کے سائے میں بٹھایا پھر ان کی خدمت میں تازہ انگوروں کا ایک خَوشہ انتہائی عاجِزی کے ساتھ پیش کیااور دو زانوہوکر بیٹھ گئے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی کو اس نوجوان باغبان کا انداز بھا گیا، خوش ہو کربغل سے ایک کَھلی کا ٹکڑا نکالااور چبا کرخواجہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مُنہ میں ڈال دیا۔ کَھلی کا ٹکڑا جُوں ہی
حَلق سے نیچے اُترا، خواجہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دل کی کیفیت یکدم بدل گئی اور دل دنیا سے اُچاٹ ہوگیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے باغ، پن چکی اور سازو سامان بیچ ڈالا ،ساری قیمت فُقَراء ومساکین میں تقسیم کردی اورحُصولِ علمِ دین کی خاطِر راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ کے مسافِر بن گئے۔(مرآۃ الاسرار ص۵۹۳،تاریخ فرشتہ ج۲ ص۷۴۰)اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر بے حساب کرم نَوازیاں فرمائیں اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام کے پیشوا اور ہندوستان کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
خُفْتَگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہے
سالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا
ایک روز حضرتِ سیِّدُنا غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ، حضرتِ سیِّدُنا شیخ
اَوحَدُ الدّین کِرمانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی اور حضرتِ سیِّدُنا شیخ شہابُ الدّین سُہروردی علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی ایک جگہ تشریف فرما تھے کہ ایک لڑکا (سلطان شمسُ الدّین اَلْتَمَش) تیر و کمان لئے وہاں سے گزرا۔ اسے دیکھتے ہی حُضُور غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:’’ یہ بچّہ دِہلی کا بادشاہ ہو کر رہے گا ۔‘‘ بالآخر یہی ہوا کہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ دہلی کا بادشاہ بن گیا۔ (سیرُ الاَقطاب ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔ ٰاٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
تمہارے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی
کہا جو دن کو کہ شب ہے تو رات ہو کے رہی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہوسکتا ہے کہ شیطان کسی کے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کے غیب کا علم تو صرفاللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کو ہے خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کیسے غیب کی خبر دیدی؟ تو عرض یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہادَۃ ہے، اس کا علمِ غیب ذاتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے ہے جبکہ ا نبِیاءِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور ا ولیاءِ عِظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام کا علمِ غیب عطائی بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے بھی نہیں ۔ انہیں جب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بتایا تب سے ہے اور جتنا بتایا اُتنا ہی ہے، اِس کے بتائے بغیرایک ذرّہ کا بھی نہیں ۔ ہوسکتا ہے کسی کو یہ وَسوَسہ آئے کہ جباللہ عَزَّوَجَلَّ نے بتادیا تو غیب، غیب ہی نہ رہا۔ اس کا جواب آگے آرہا ہے کہ قرآنِ پاک میں نبی کے علمِ غیب کو غیب ہی کہا گیاہے۔ اب رہا یہ کہ کس کو کتنا علمِ غیب ملا، یہ دینے والا جانے ا ور لینے والا جانے۔ علمِ غیبِ مصطفیٰ صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم کے بارے میں پارہ 30 سُورۃُ التّکویرآیت نمبر 24میں ارشاد ہوتا ہے :
وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ(۲۴) (پ ۳۰ التکویر۲۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اور یہ نبی (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔
اِس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیرِخازن میں ہے: ’’مراد یہ ہے کہ
مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس علمِ غیب آتا ہے تو تم پر اس میں بُخل نہیں فرماتے بلکہ تم کو بتاتے ہیں ۔‘‘ (تفیسر خازن ج۴ ص۳۵۷) اِس آیت و تفسیر سے معلوم ہوا کہاللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دا نائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں کو علمِ غیب بتاتے ہیں اور ظاہر ہے بتائے گا وُہی جو خود بھی جانتا ہو۔
حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ کے علمِ غیب کے بارے میں پارہ 3 سورۂ اٰلِ عمران آیت نمبر 49میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔ بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! منُدرَجۂ بالا آیت میں حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ
روحُ اللہ علٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام صاف صاف اِعلان فرمارہے ہیں کہ تم جو کچھ کھاتے ہو وہ مجھے معلوم ہوجاتا ہے اور جو کچھ گھر میں بچاکر رکھتے ہو اس کا بھی پتا چل جاتا ہے۔ اب یہ علم غیب نہیں تو اور کیا ہے؟ جب حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ علٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی یہ شان ہے تو آقائے عیسیٰ میٹھے میٹھے مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کیا شان ہوگی؟ آپ صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلّم سے آخر کیاچھپا رَہ سکتا ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تواللہ عَزَّوَجَلَّ جو کہ غیبُ الغیب ہے، اُس کو بھی چشمانِ سر سے مُلاحَظہ فرما لیا۔ ؎
اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چُھپا تم پہ کروڑوں درود (حدائق بخشش)
بَہرحال ربِّ ذوالجلالعَزَّوَجَلَّنے انبیائِ کرام علیہم السلام کو علمِ غیب سے نوازا ہے انبِیاء ِکرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی تو بڑی شان ہے، فَیضانِ انبیاءِ کرام
عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامسے اولیائے عِظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام بھی غیب کی خبریں بتا سکتے ہیں ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبد الحقّ محدِّثِ دِہلوی علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القوی نے ’’اَخبارُ الاخیار ‘‘صَفْحَہ نمبر15میں حضورِ غوثُ الاعظمعلیہ رَحمَۃُ اللّٰہ الْاَکرم کا یہ ارشاد ِ معظَّم نقل کیا ہے: ’’اگر شریعت نے میرے منہ میں لگام نہ ڈالی ہوتی تو میں تمہیں بتا دیتا کہ تم نے گھر میں کیا کھایا ہے اور کیا رکھا ہے، میں تمہارے ظاہر و باطن کو جانتا ہوں کیونکہ تم میری نظر میں آر پار نظر آنے والے شیشے کی طرح ہو۔‘‘
حضرتِ مولیٰنا رُومی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں :
لَوحِ محفوظ اَست پیشِ اولیاء
اَزچہ محفوظ اَست محفوظ اَز خطا
(یعنی لوحِ محفوظ اولیاء ُاﷲ رحمہم اﷲ تعالٰی کے پیشِ نظر ہوتا ہے جو کہ ہر خطا سے محفوظ ہوتا ہے)
اجمیر شریف کے حاکم نے ایک بار کسی شخص کو بے گناہ سُولی پر چڑھا دیا
اور اُس کی ماں کو کہلا بھیجا کہ اپنے بیٹے کی لاش آکر لے جائے۔ مگر وہاں جانے کے بجائے اُس کی ماں روتی ہوئی خواجۂ خواجگان سرکارِ غریب نوازسیِّدُنا حسن سَنْجَری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضر ہوئی اور فریاد کی: ’’آہ! میراسَہارا چھن گیا، میرا گھر اُجڑ گیا، یا غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ! میرا ایک ہی بیٹا تھا اُسے حاکمِ ظالِم نے بے قُصور سُولی پر چڑھادیا ہے۔‘‘ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جلال میں آکر اُٹھے اور فرمایا: مجھے اپنے بیٹے کی لاش پر لے چلو۔ چُنانچِہ اُس کے ساتھ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس کی لاش پر آئے اور اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’اے مقتول! اگر حاکمِ وقت نے تجھے بے قُصُور سُولی دی ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم سے اُٹھ کھڑا ہو۔‘‘ فوراً لاش میں حَرَکت پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ (ماہِ اجمیر)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کہیں شیطان یہ وسوسہ نہ ڈالے کہ مار نا اور جِلانا تو صرف اللہ عَزَّوَجَلَّہی کا کام ہے کوئی بندہ یہ کیسے کرسکتا ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ بے شکاللہ عَزَّوَجَلَّہی فاعلِ حقیقی ہے مگر وہ اپنی قدرتِ کامِلہ سے جس کو چاہتا ہے اختیارات عطا فرماتا ہے۔ دیکھئے !بے جان کو جان بخشنا اللہ عَزَّوَجَلَّکا کام ہے، مگراللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے ہوئے اختیارات سے حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اﷲ علٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام بھی ایسا کرتے تھے۔ چُنانچِہ پارہ 3 سورۂ اٰلِ عمران آیت نمبر49میں ہے:
اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ (پ ۳ آل عمران ۴۹)
ترجَمۂ کنزالایمان:کہ میں تمہارے لئے مِٹّی سے پرند کی سی مُورت بناتا ہوں پھر اُس میں پُھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ (عَزَّوَجَلَّ)کے حکم سے ۔
کہتے ہیں :ایک بار اَورنگ زَیب عالمگیر علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ القدیر سلطانُ الہند خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزارِ پُر انوار پر حاضر ہوئے۔ احاطہ میں ایک اندھا فقیر بیٹھا صدا لگارہا تھا: یا خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ! آنکھیں دے۔آپ نے اس فقیر سے دریافت کیا: بابا! کتنا عرصہ ہوا آنکھیں مانگتے ہوئے؟ بولا، برسوں گزر گئے مگر مراد پوری ہی نہیں ہوتی۔ فرمایا: میں مزارِ پاک پر حاضِری دے کر تھوڑی دیر میں واپَس آتا ہوں اگر آنکھیں روشن ہوگئیں فَبِہا (یعنی بَہُت خوب) ورنہ قتل کروا دوں گا۔ یہ کہہ کر فقیر پر پہرالگا کر بادشاہ حاضِری کے لئے اندر چلے گئے۔ اُدھر فقیر پر گِریہ طاری تھا اور رو رو کر فریاد کررہا تھا: یا خواجہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ! پہلے صرف آنکھوں کا مسئلہ تھا اب تو جان پر بن گئی ہے، اگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کرم نہ فرمایا تو مارا جاؤں گا۔ جب بادشاہ حاضری دے کر لوٹے تو اُس کی آنکھیں روشن ہوچکی تھیں ۔ بادشاہ نے مسکرا کر
فرمایا: کہ تم اب تک بے دِلی اور بے توجُّہی سے مانگ رہے تھے اور اب جان کے خوف سے تم نے دل کی تڑپ کے ساتھ سوال کیا تو تمہاری مُراد پوری ہوگئی۔
اب چشمِ شِفا سُوئے گنہگار ہو خواجہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
عِصیاں کے مرض نے ہے بڑا زور دکھایا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ مانگنا تو اللہ عَزَّوَجَلََّّسے چاہئے اور وُہی دیتا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خواجہ صاحب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے کوئی آنکھیں مانگے اور وہ عطا بھی فرما دیں ! جواباً عرض ہے کہ حقیقتاً اللہ عَزَّوَجَلَّہی دینے والا ہے، مخلوق میں سے جو بھی جو کچھ دیتا ہے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّہی سے لے کر دیتا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا کے بِغیر کوئی ایک ذرّہ بھی نہیں دے سکتا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اگر
کسی نے خواجہ صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے آنکھیں مانگ لیں اور اُنہوں نے عطائے خداوندی عَزَّوَجَلَّسے عنایت فرما دِیں تو آخِر یہ ایسی کون سی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی؟ یہ مسئلہ تو فی زمانہ فنِّ طِبّ نے بھی حل کر ڈالا ہے! ہر کوئی جانتا ہے کہ آج کل ڈاکٹر آپریشن کے ذریعے مُردہ کی آنکھیں لگا کر اندھوں کوبِینا(یعنی دیکھتا) کر دیتے ہیں ۔ بس اِسی طرح خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بھی ایک اندھے کو اللہ عَزَّوَجَلَّکی عطا کردہ رُوحانی قوَّت سے نابِینائی کے مرض سے شفا دے کر بینا(یعنی دیکھتا) کر دیا۔ بَہرحال اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی نبی یا ولی کو مرض سے شِفا دینے یا کچھ عطا کرنے کا اختیار دیا ہی نہیں ہے تو ایسا شخص حکمِ قرآن کو جھٹلا رہا ہے۔چُنانچِہ پارہ 3سورۂ اٰلِ عمران آیت نمبر 49 میں حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اﷲ علٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا قول نقل کیا گیا ہے:
وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ (پ ۳ آل عمران ۴۹)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور میں شِفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے (یعنی کوڑھی) کو اور میں مُردے جِلاتا ہوں اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے حکم سے۔
دیکھا آپ نے! حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اﷲ علٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام صاف صاف اعلان فرما رہے ہیں کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بخشی ہوئی قدرت سے مادر زاد اندھوں کو بینائی اور کوڑھیوں کو شِفا دیتا ہوں حتّٰی کہ مُردوں کو بھی زندہ کر دیا کرتا ہوں۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے انبیاء ِ کرامعَلَیْہِمُالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو طرح طرح کے اختیارات عطا کئے جاتے ہیں اور فیضانِ انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام سے اولیاءِعُظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام کو بھی اختیارات دیئے جاتے ہیں ، لہٰذا وہ بھی شفا دے سکتے ہیں اوربَہُت کچھ عطا فرما سکتے ہیں ۔
محیِ دِیں غوث ہیں اور خواجہ مُعینُ الدین ہیں
اے حسنؔ کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا
ایک دفعہ ایک کافر خنجر بغل میں چھپا کر خوا جہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو قتل کرنے کے اِرادے سے آیا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اُس کے تَیور بھانپ لئے اور مُؤمنانہ فِراسَت سے اُس کا اِرادہ معلوم کرلیا ۔ جب وہ قریب آیاتو اس سے فرمایا:’’تم جس ارادے سے آئے ہو اُس کو پورا کرو میں تمہارے سامنے موجود ہوں ۔‘‘ یہ سُن کر اُس شخص کے جِسم پر لَرزہ طاری ہوگیا ۔ خنجر نکال کر ایک طرف پھینک دیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قدموں پر گِر پڑا اور سچے دل سے توبہ کی اور مسلمان ہو گیا۔ (مرآۃ الاسرار مترجم ص ۵۹۸ ،الفیصل مرکز الاولیاء لاہور)
مرکز الاولیاء لاہورمیں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج
بخش کے مزار پُر انوار پر قیام فرما کر رُوحانی فُیوض سے مالا مال ہو ئے اور بوقت ِرُخصت یہ شعر پڑھا ؎
گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقِصاں را پیر کامل کاملاں رہنما
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
6 رَجَبُ الْمُرَجَّب 633سنِ ہجری کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔(اخبار الاخیارص۲۳فاروق اکیڈمی ،ضلع خیر پور گمبٹ)
وصال کے بعد آپ کی نورانی پیشانی پر یہ نقش ظاہر ہوا:
حَبِیْبُ اللّٰہِ مَاتَ فِیْ حُبِّ اللّٰہ
(یعنی اللہ کا حبیب اللہ کی مَحَبَّت میں دنیا سے گیا) ۔ (اخبار الاخیارص۲۳)
{1}نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر اور برے لوگوں کی صُحبت بدی کرنے سے بدتر ہے۔{2}بد بختی کی علامت یہ ہے کہ گناہ کرتا رہے پھر اس کے باوُجُود اللہ کی بارگاہ میں خود کو مقبول سمجھے۔{3}خدا کا دوست وہ ہے جس میں تین خوبیاں ہوں : ایک سخاوت دریا جیسی دوسرے شفقت آفتا ب کی طرح تیسرے تواضع زمین کی مانند۔ (اخبار الاخیارص۲۳،۲۴)
اجمیر بلایا، مجھے اجمیر بلایا
اجمیر بلا کر مجھے مہمان بنایا
ہو شکر ادا کیسے کہ مجھ پاپی کو خواجہ
اجمیر بلا کر مجھے دربار دکھایا
سلطانِ مدینہ کی محبت کا بھکاری
بن کر میں شہا آپ کے دربار میں آیا
دنیا کی حکومت دو نہ دولت دو نہ ثروت
ہر چیز ملی جامِ مَحَبَّت جو پلایا
قدموں سے لگا لو، مجھے سینے سے لگا لو
خواجہ ہے زمانے نے بڑا مجھ کو ستایا
ڈوبا، ابھی ڈوبا، مجھے للہ سنبھالو
سیلاب گناہوں کا بڑے زور سے آیا
اب چشمِ شفا، بہرِ خدا سُوئے مریضاں
عصیاں کے مرض نے ہے بڑا زور دکھایا
سرکارِ مدینہ کا بنا دیجئے عاشق
یہ عرض لئے شاہ کراچی سے میں آیا
یا خواجہ کرم کیجئے ہوں ظلمتیں کافور
باطل نے بڑے زور سے سر اپنا اٹھایا
عطارؔ کرم ہی سے ترے جم کے کھڑا ہے
دشمن نے گرانے کو بڑا زور لگایا