اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

خاموش شہزادہ([1])

شیطٰن لاکھ  روکے مگر  یہ رسالہ (48صَفْحات) مکمَّل پڑھ لیجئے اگرزبان کی احتِیاط کی عادت نہ ہوئی تو دل خوفِ خداسے  زندہہونے کی صورت میں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ  آپ روپڑیں گے۔

دُرُود شریف کی فضیلت

        رسولِ نذیر ، سِراجِ منیر،محبوبِ ربِّ قدیر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ دلپذیر ہے:ذِکرِ الٰہی کی کثرت کرنا اور مجھ پر دُرُودِ پا ک پڑھنا فقر(یعنی تنگدستی) کو دُور کرتا ہے ۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص۲۷۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

       شہزادے نے یکا یک چُپ سادھ لی ۔ بادشاہ اور وُزرا اورتمام درباری حیران


ہیں کہ آخِر اس کو ہو کیاگیا ہے جو بولتانہیں ! سب نے کوشش کر دیکھی لیکن شہزادہ خاموش تھا خاموش ہی رہا۔ خاموشی کے باوُجُود شہزادے کے معمولات میں کوئی فَرق نہیں آیا۔ ایک دن خاموش شہزادہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پرندوں کا شکار کھیلنے چلا ۔ کمان پر تیر چڑھائے ایک گھنے دَرَخت کے نیچے کھڑا اُس میں پَرَندہ تلاش کر رہا تھا، اتنے میں دَرَخت کے پتّوں کے جُھنڈکے اندر سے کسی پَرَندے کے بولنے کی آوازآئی ، بس پھر کیا تھا ،اُس نے فوراًآواز کی سَمت تیرچلا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک پرندہ زخمی ہوکر گرااور تڑپنے لگا۔ خاموش شہزادہ بے اختیار بول اُٹھا:پَرَندہ جب تک خاموش تھا سلامت رہا مگر بولتے ہی تیر کا نشانہ بن گیا اورافسوس ! اس کے بولنے کے سبب میں بھی بول پڑا!۔

چُپ رہنے میں سو سکھ ہیں تو یہ تجرِبہ کرلے

     اے بھائی! زَباں پر تُو لگا قفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خاموشی میں اَمن ہے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ حکایت من گھڑت ہی سہی مگر یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ باتُونی شخص دوسروں کو بولنے پر مجبور کردیتا ، اپنا اور دیگرافراد کا وقت برباد کرتا ، کئی باربول کر پچھتاتا اور بارہا پریشانی اُٹھاتاہے ، واقِعی انسان جب تک خاموش رہتاہے بَہُت ساری آفتوں سے اَمن میں رہتاہے۔


بہرام اور پَرَندہ

     کہتے ہیں : بہرام کسی دَرَخت کے نیچے بیٹھا تھا ،اُسے ایک پَرَندے کی آواز سنائی دی اور اُس نے اُسے مار گرایا پھر کہنے لگا: زَبان کی حفاظت انسان اور پَرَندے دونوں کے لئے مُفید ہے اگر یہ پَرَ ندہ اپنی زَبان سنبھالتا تو ہلاک نہ ہوتا ۔ (مُستطرف ج۱ ص ۱۴۷ )

خاموشی کی فضیلت پر چار فرامِینِ مصطَفٰے

{1}مَنْ صَمَتَ نَجَا یعنی جو چپ رہا اُس نے نَجات پائی۔ (تِرمِذی  ج۴ ص۲۲۵ حدیث ۲۵۰۹){2}اَلصَّمْتُ سَیِّدُ الْاَخْلاَقخاموشی اَخلاق کی سردار ہے۔(اَلْفِردَوس بمأثور الْخطّاب ج۲ص۴۱۷حدیث۳۸۵۰){3}اَلصَّمْتُ اَرْفَعُ الْعِبَادَۃِخاموشی اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔(اَیضاً حدیث۳۸۴۹) {4}  آدَمی کا خاموشی پر قائم رہنا60 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۴ ص۲۴۵ حدیث ۵۳ ۴۹ )

60سال کی عبادت سے بہتر کی وضاحت

        مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان چوتھی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :یعنی اگر کوئی شخص ساٹھ سال عبادت کرے مگر زیادہ باتیں بھی کرے، اچّھی بُری بات میں تمیز نہ کرے اِس سے یہ بہتر ہے کہ تھوڑی دیر خاموش رہے کیونکہ خاموشی میں فکر بھی ہوئی، اِ صلاحِ نَفْس بھی ،مَعارِف و حقائق میں اِستِغراق بھی ، ذِکر خفی کے سَمُندر میں غوطہ لگانا بھی، مراقبہ بھی۔       (مراٰۃالمناجیح ج۶ص۳۶۱ مختصرا)


فالتو باتوں کے چار لرزہ خیز نقصانات

       ’’گپ شپ‘‘کرنے والے ،بات کا بتنگڑ بنانے والے ، بلکہ فضول بات چُونکہ جائز ہے گناہ نہیں یہ سوچ کر یا وَیسے ہی جو کبھی کبھار ہی فُضُول باتیں کرتے ہیں وہ بھی فُضُول باتوں کے مُتَعلِّق حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام ابوحامد محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِیکے تأَثُّرات (تَ۔اَث۔ثُرات) مُلاحَظہ فرمائیں اور اپنے آپ کوفُضُول گفتگو کے اِن چار نقصانات سے ڈرائیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ان چار وُجُوہات کی بِنا پرفُضُول باتوں کی مَذَمَّت فرمائی ہے: {1} فُضُول باتیں کِراماًکاتِبِین (یعنی اعمال لکھنے والے بُزُرگ فِرِشتوں )کو لکھنی پڑتی ہیں ، لہٰذا آدمی کو چاہیے کہ ان سے شَرْم کرے اورانہیں فُضُول باتیں لکھنے کی زَحْمت نہ دے ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پارہ 26 سُوْرَۃ قٓ، آیت نمبر18میں ارشاد فرماتاہے:

مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(۱۸)

ترجَمۂ کنزالایمان: کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔

{2}یہ بات اچھّی نہیں کہ فضول باتوں سے بھرپور اعمال نامہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش ہو{3} اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے دربار میں تمام مخلو ق کے سامنے بندے کو حکم ہو گا کہ اپنا اعمال نامہ پڑھ کر سناؤ! اب قِیامت کی خوفناک سختیاں اس کے سامنے ہوں گی ،انسان بَرہنہ(بَ۔رَہْ۔نہ یعنی ننگا) ہوگا،سخت پیاسا ہوگا، بھوک سے کمر ٹوٹ رہی ہو گی،جنَّت میں


 جانے سے روک دیا گیا ہوگااورہر قسم کی راحت اُس پر بند کردی گئی ہوگی، غور تو کیجئے ایسے تکلیف دِہ حالات میں فُضُول باتوں سے بھرپور اعمال نامہ پڑھ کر سنانا کس قَدَر پریشان کُن ہوگا! (حساب لگائیے اگرروزانہ صرف 15 مِنَٹ بھی فُضُول باتیں کی ہیں تو ایک مہینے کے ساڑھے سات گھنٹے ہوئے اورایک سال کے90 گھنٹے ،بِالفرض کسی نے پچاس سال تک روزانہ اَوسَطاً 15 مِنَٹ فُضُول گفتگو کی تو 187دن 12گھنٹے ہوئے یعنی چھ ماہ سے زائد،توغورفرمائیے! قِیامت کا ہولناک دن جس میں سورج صِرف ایک میل پر رہ کر آگ برسا رہا ہوگا،ایسی ہو شرُبا گرمی میں مسلسل بِلا وقفہ چھ ماہ تک کون’’ اعمال نامہ ‘‘پڑھ کر سنا سکے گا!یہ توصِرف یومیہ پندرہ مِنَٹ کی فُضُول گوئی کا حِساب ہے۔ہمارے تو بسااوقات کئی کئی گھنٹے دوستوں کے ساتھ ’’فُضُول گپ شپ ‘‘میں گزر جاتے ہیں ، گناہوں بھری باتیں اوردیگر بُرائیاں مزیدبَرآں) {4}بروزِقیامت بندے کوفُضول باتوں پر ملامت کی جائے گی اور اُس کوشرمندہ کیا جائے گا۔ بندے کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا اوروہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سامنے شرم ونَدامت سے پانی پانی ہوجائے گا۔(مِنہاجُ العابِدین ص۶۷)

ہر لفظ کا کس طرح حساب آہ! میں دوں گا

اللہ زَباں  کا  ہو  عطا  قُفلِ  مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


سب سے زِیادہ نقصان دِہ چیز

       حضرتِ سیِّدُنا سُفیان بن عبدُاللّٰہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :ایک بار میں نے بارگاہ ِرسالت میں عَرْض کی:یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   !آپ میرے لئے سب سے زیادہ خطرناک اورنقصان دہ ِچیز کسے قرار دیتے ہیں ؟تو سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زَبانِ مبارَک پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’اِسے۔‘‘ (سُنَنِ تِرمِذی ج۴ ص۱۸۴ حدیث ۲۴۱۸)

بھلائی کی بات کرو یا چُپ رہو

        کاش! بخاری شریف کی یہ حدیثِ پاک ہمارے ذِہْن و دماغ میں راسِخ ہو جائے ، جس میں یہ بھی ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوْ لِیَصْمُتْ ’’جو اللہ  اور قِیامت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے ۔ ‘‘ (بُخاری ج ۴ ص۱۰۵حدیث۶۰۱۸)دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 217 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’  اللّٰہ والوں کی باتیں ‘‘ صَفْحَہ91 پر امیرُالْمُؤمِنِین، حضرتِسیِّدُنا صدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  فرماتے ہیں : ’’ اُس بات میں کوئی بھلائی نہیں جس سے مقصود اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خوشنودی نہ ہو۔‘‘(حِلْیَۃُ الْاولیاء  ج۱ص۷۱)حضرت سیِّدُنا امام سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:عبادت کا اوّل خاموشی ہوتی ہے ،پھرعِلْم حاصل کرنا ، اس کے بعد اسے یاد کرنا،پھر اس پر عمل کرنااوراسے پھیلا نا ۔       (تاریخ بغداد ج۶ص۶)


       

اگر جنَّت درکار ہو تو۔۔۔

    حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمتِ باعَظَمت میں لوگوں نے عرض کیا:کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جس سے جنت ملے۔ ارشاد فرمایا: ’’کبھی بولو مت ۔ ‘‘  عرض کی : یہ تو نہیں ہوسکتا۔ فرمایا: ’’اچّھی بات کے سوا زَبان سے کچھ مت نکالو۔‘‘(اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۳۶)

اکثر مِرے ہونٹوں پہ رہے ذکرِ مدینہ

       اللہ   زَباں  کا  ہو  عطا  قفلِ  مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خاموشی ایمان کی سلامَتی کا ذَرِیعہ ہے

       جس بدنصیب کی زَبان قینچی کی طرح ہرکسی کی بات کاٹتی چلی جاتی ہو گی ، وہ دوسرے کی بات اچّھی طرح سمجھنے سے محروم رہے گابلکہ باتونی شخص کے لیے یہ بھی خطرہ رہتاہے کہ بک بک کرتے ہوئے زَبان سے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّکُفْریات نکل جائیں ۔ چُنانچِہ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام ابوحامد محمد بن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی  ’’اِحیاء ُالعلوم‘‘ میں بعض بُزُرگوں کا قول نَقْل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : خاموش رہنے والے شخص میں دو خوبیاں جمع ہوجاتی ہیں {۱} اُس کا دین سلامت رہتاہے اور {۲} دوسرے کی بات اچّھی طرح سمجھ لیتا ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۳ ص۱۳۷)


خاموشی جاہل کا پردہ ہے

       حضرتِ سیِّدُناسُفْیان بن عُیَیْنہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اَلصَّمْتُ زَیْنٌ لِّلْعَالِمِ وَسِتْرٌ لِّلْجَاہِلِخاموشی عالِم کا وقار اور جاہل کا پردہ ہے۔    (شُعَبُ الْاِیمان ج۷ ص ۸۶ حدیث۴۷۰۱)

خاموشی عبادت کی چابی ہے

       حضرتِ سیِّدُنا امام سفیانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان سے مروی ہے:زیادہ خاموشی عبادت کی چابی ہے ۔(اَلصَّمت مع موسوعۃ ابن اَبِی الدُّنْیا ج۷ص۲۵۵رقم۴۳۶)

مال کی حفاظت آسان ہے مگرزَبان۔۔۔۔

       حضرتِ سیِّدُنا محمدبن واسِع علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ النّافِع نیحضرتِ سیِّدُنا مالِک بن دینارعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارسے فرمایا:انسان کیلئے زَبان کی حفاظت مال کی حفاظت سے زیادہ دُشوار ہے ۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدیج۹ص۱۴۴ )

       افسوس!کہ اپنے مال کی حفاظت کے مُعامَلے(مُ۔عَا۔مَلے) میں عُمُوماً ہر ایک ہوشیار ہوتا ہے ، حالانکہ مال ضائِع ہوبھی گیا تو صِرف دنیا کا نقصا ن ہے۔ صد کروڑ افسوس! زَبان کی حفاظت کی سوچ نہایت کم رَہ گئی ہے، یقینا زَبان کی حفاظت نہ کرنے کے سبب دنیا کے نقصان کے ساتھ ساتھ آخِرت کی بربادی کا بھی پوراپورا امکان ہے۔


بک بک کی یہ عادت نہ سرِ حشر پھنسا دے

اللہ   زَباں  کا  ہو  عطا  قُفلِ  مدینہ (وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بولنے والا با رہا پچھتاتا ہے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خاموش رہنے میں نَدامت کا امکان بَہُت کم ہے جب کہ موقع بے موقع’’بول پڑنے‘‘کی عادت سے بارہا SORRY کہنا پڑتااورمُعافی مانگنی پڑتی ہے یا پھر دل ہی دل میں پچھتاواہوتا ہے کہ میں یہاں نہ بولا ہوتا تو اچّھا تھا کیوں کہ میرے بولنے پرسامنے والے کی جِھجک اُڑ گئی، کھری کھری سُننی پڑی، فُلاں ناراض ہوگیا،فُلاں کاچِہرہ اُترگیا ، فُلاں کا دل دُکھ گیا ۔ اپنا وقار بھی مَجروح ہوا وغیرہ وغیرہ۔حضرت سیِّدُنا  محمد بن نَضْر حارِثی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی سے مروی ہے:  زیادہ بولنے سے وَقار(دبدبہ)  جاتارہتا ہے۔   (اَلصَّمْت لِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ج۷ص۶۰رقم۵۲)

’’بول کر‘‘ پچھتانے سے ’’ نہ بول کر‘‘ پچھتانا اچّھا

       سچ ہے ، ’’ بول کر‘‘ پچھتانے سے’’ نہ بو ل کر‘‘ پچھتانا اچّھا اور ’’ زیادہ کھا کر‘‘ پچھتانے سے’’ کم کھا کر ‘‘پچھتانا اچّھا کہ جو بولتا رہتا ہے وہ مصیبتوں میں پھنستا رہتا ہے اور جوزیادہ کھانے کا عادی ہوتا ہے وہ اپنامِعْدہ تباہ کر بیٹھتا ، اکثرمَوٹاپے کا شکار ہو جاتا اور طرح طرح کی بیماریوں کی زَد میں رہتا ہے، اگر جوانی میں اَمراض سے قدرے بچت ہو بھی


گئی تو جوانی ڈھلنے کے بعد بسا اوقات’’ سراپا مَرَض ‘‘ بن جاتا ہے ۔ زیادہ کھانے کے نقصانات اور موٹاپے کے علاج وغیرہ جاننے کیلئے فیضانِ سنَّت جلد اوّل کے باب ’’پیٹ کا قفلِ مدینہ‘‘ کا مُطالَعَہ فرمایئے۔

گُونگا فائدے میں رَہتاہے

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا جائے تو نابِینافائدے میں رہتا ہے کہ غیر عورَتوں کو گھورنے، اَمردوں پر لذّت بھری نگاہیں ڈالنے ، فلمیں ڈِرامے دیکھنے، کسی’’ ہاف پینٹ‘‘ والے کے کُھلے گُھٹنے اور رانیں دیکھنے وغیرہ وغیرہ بدنِگاہیوں کے گناہوں سے بچا رَہتاہے۔ اِسی طرح گُونگا بھی زَبان کی بے شمار آفتوں سے محفوظ رَہتاہے ۔  امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُناابوبکر صِدِّیق فرماتے ہیں : کاش میں گونگا ہوتا مگر ذِکراللّٰہ کی حد تک گویائی (یعنی بولنے کی صلاحیّت) حاصل ہوتی۔(مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۱۰ ص۸۷ تحتَ الحدیث ۵۸۲۶  )’’ اِحیاءُ العُلُوم‘‘میں ہے:حضرتِ سیِّدُنا ابودَردا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک زَبان دراز عورت دیکھی تو فرمایا: اگر یہ گونگی ہوتی تو اس کے حق میں بہتر تھا۔(اِحیاءُ الْعُلوم  ج۳ ص ۱۴۲)

گھر اَمن کا گہوارہ کیسے بنے!

       پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے میٹھے میٹھے صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ارشاد سے خُصُوصاًہماری وہ اسلامی بہنیں درس حاصل کریں جو ہروَقت ’’لگائی بجھائی‘‘ اور’’تیری میری‘‘ میں مگن رہتیں اوراِدھر کی اُدھر اوراُدھر کی اِدھر لگانے سے فرصت


 نہیں پاتیں ۔  اگر اسلامی بہنیں صحیح معنوں میں اپنی زَبان پر ’’قفلِ مدینہ‘‘لگالیں تو ان کی گھر یلو پریشانیاں ، رشتے داروں سے ناچاقیاں اورساس بہو کی لڑائیاں وغیرہ بَہُت سارے مسائل حل ہوجائیں اورسارے کاساراخاندان اَمْن کا گہوارہ بن جائے کیونکہ زیادہ ترگھریلو جھگڑے زَبان کے بے جاا ستِعمال ہی کے سبب ہوتے ہیں ۔

ساس بہو کا جھگڑا نمٹانے کا مَدَنی نُسخہ

         ساس  اگر ڈانٹ ڈَپَٹ کرتی ہو تو ’’بہو ‘‘کو چاہیے کہ صِرف اورصِرف صَبْر کرے ، اپنی ساس کو جواباًایک لفظ بھی نہ کہے اوراپنے شوہر کو بھی شکایت نہ کرے، اپنے میکے میں بھی کچھ نہ بتائے بلکہ منہ بھی نہ چَڑھائے،نیزاپنے بچّوں یا برتنوں وغیرہ پربھی غصّہ نہ نکالے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ کامیابی اس کے قدم چوم لے گی۔ کہاجاتاہے:’’ایک چُپ سوکوہَرائے۔‘‘اِسی طرح اگرکوئی بہواپنی’’ ساس‘‘ سے جھگڑا کرتی ہوتوساس کوچاہیئے کہ بِالکل جوابی کاروائی نہ کرے، صِرف خاموشی ہی اختیارکرے گھر کے کسی فرد حتّٰی کہ اپنے بیٹے کو بھی شکایت نہ کرے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کہاوت:’’ایک چُپ سو سکھ‘‘ کے مطابق سکھ چین پائے گی۔ جی ہاں اگرصحیح معنوں میں سگِ مدینہعُفِیَ عَنْہُ  کے اس ’’مَدَنی نسخے ‘‘پر عمل کیا گیا تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ جلد ہی ساس بہو کی لڑائی ختم ہوجائے گی اور گھر اَمن کا گہوارہ بن جائے گا۔ساس بہو کے جھگڑوں کے علاج کیلئے حکمت بھرے مَدَنی پھولوں پر مشتمل V.C.D.’’ گھر امن کا گہوارہ کیسے بنے!‘‘ مکتبۃُ المدینہ سے حاصِل کیجئے


یا دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ : WWW.DAWATEISLAMI.NET پر مُلاحظہ فرمایئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اِس v.c.d.کی برکت سے کئی گھر امن کا گہوارہ بن چکے ہیں !

ہے دبدبہ خاموشی میں ہیبت بھی ہے پِنہاں

      اے بھائی! زَباں پر تو لگا قفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

زَبان کی خدمت میں درخواست

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب زَبان سیدھی رہے گی اور اس سے اچّھی اچّھی باتوں کا سلسلہ ہوگا تو اس کا فائدہ سارا ہی جسم اٹھائے گا اوراگر یہ ٹیڑھی چلی مَثَلاًکسی کو جِھڑکا ، گالی دی ، کسی کی بے عزّتی کردی، غیبت وچغلی کی ، جھوٹ بولا تو بسا اوقات دنیا میں بھی جسم کی پِٹائی ہوجاتی ہے۔ہمارے میٹھے میٹھے پیارے پیارے اور سب سے اچّھے اورخوش اَخلاق  آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ باصَفاہے: ’’جب انسان صُبح کرتا ہے تو اُس کے اَعْضاجُھک کرزَبان سے کہتے ہیں : ہمارے بارے میں اللہ (عَزَّوَجَلَّ)سے ڈر کیونکہ ہم تجھ سے وابَستہ ہیں اگرتُو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اوراگرتُوٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔‘‘ (سُنَنِ تِرمِذیج۴ ص۱۸۳حدیث ۲۴۱۵)

یارب نہ ضَرورت کے سوا کچھ کبھی بولوں !

 اللہ  زَباں  کا  ہو  عطا  قُفلِ  مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)


صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 اچّھی بات کرنے کی فضیلت

       تاجدارِرسالت ،مالِکِ کوثروجنَّتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ جنَّت نشان ہے: جنَّت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا باہَر اندرسے اور اندر باہَر سے دیکھا جاتاہے۔ ایک اَعرابی نے اُٹھ کرعَرْض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَیہ کس کے لیے ہیں ؟آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا: یہ اُس کے لیے ہیں جو اچّھی گفتگو کرے ، کھانا کھلائے،مُتَواتِرروزے رکھے ،اور رات کو اُٹھ کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے نماز پڑھے جب  لوگ سوئے ہوئے ہوں ۔ (سُنَنِ تِرمِذیج۴ ص۲۳۷ حدیث۲۵۳۵)

آقا طویل خاموشی والے تھے

          کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَوِیلَ الصَّمْت۔ یعنیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَطویل خاموشی والے تھے۔(شرحُ السُّنَّۃ لِلبَغوی ج۷ ص۴۵ حدیث ۳۵۸۹ ) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :خاموشی سے مراد ہے دنیاوی کلام سے خاموشی ورنہ حُضُورِ اقدس(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان) کی زَبان شریف اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)کے ذِکر میں تر رہتی تھی، لوگوں سے بِلاضَرورت کلام نہیں فرماتے تھے۔ یہ ذِکر ہے جائز کلام کا، ناجائز کلام تو عمر بھر زَبان شریف پر آیا ہی نہیں ۔ جھوٹ ، غیبت، چغلی وغیرہ ساری عمر شریف میں ایک بار بھی زبان مبارک پر


 نہ آئے۔ حضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سراپا حق ہیں پھر آپ تک باطِل کی رسائی کیسے ہو۔ (مِراٰۃُالمناجیح ج۸ص۸۱)

بولنے اور چُپ رہنے کی دو قِسمیں

       فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:اِمْلاَء ُ الْخَیْرِخَیْرٌ مِّنَ السُّکُوْتِ وَالسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنْ اِمْلَائِ الشَّرِّ یعنی اچّھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بُری بات کہنے سے بہتر ہے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۴ ص۲۵۶ حدیث۴۹۹۳)حضرتِ سیِّدُنا علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ’’کَشفُ المَحجُوب‘‘ میں فرماتے  ہیں :کلام(یعنی بولنا) دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک کلامِ حق اور دوسرا کلامِ باطل، اِسی طرح خاموشی بھی دو طرح کی ہوتی ہے: (۱)بامقصد(مَثَلاً فکرِ آخِرت یا شَرْعی اَحکام پر غور وخَوض وغیرہ کیلئے) خاموشی(یعنی چُپ رہنا) (۲)غفلت بھری(یا مَعاذَاللّٰہ گندے تصوّرات یا دنیا کے بے جاخیالات سے بھر پور)خاموشی۔ ہر شخص کوسُکوت (یعنی خاموشی)کی حالت میں خوب اچّھی طرح غور کر لیناچاہئے کہ اگر اِس کا بولنا حق ہے تو بولنا اُس کی خاموشی سے بہتر ہے اور اگر اُس کا بولنا باطِل ہے تو اُس کی خاموشی اس کے بولنے سے بہتر ہے ۔حُضور داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ گفتگو کے حق یا باطِل ہونے کے متعلِّق سمجھانے کیلئے ایک حکایت نَقْل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ایک مرتبہ حضرت ِسیِّدُنا ابو بکر شبلی بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی  بغدادشریف کے ایک مَحَلّے سے گزر تے ہوئے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا :  اَلسُّکُوْتُ


 خَیْرٌ مِّنَ الْکَلَامِ  یعنی خاموشی بولنے سے بہتر ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اسے فرمایا : ’’تیر ے بولنے سے تیرا خاموش رہنا اچّھا ہے اور میرا بولنا خاموش رہنے سے بہتر ہے۔‘‘ (ماخوذ اَز کشف المحجوب ص۴۰۲)

فُحش بات کی تعریف

       کتنے خوش نصیب ہیں وہ اسلامی بھائی اوراسلامی بہنیں !جو صِرف اچّھی گفتگوکیلئے ہی زَبان کو حَرَکت میں لاتے اورخوب خوب ’’نیکی کی دعوت‘‘لوگوں تک پہنچاتے ہیں ۔ افسوس! آج کل لوگوں کی بَہُت ہی کم بیٹھکیں ایسی ہوتی ہوں گی جو فُحش باتوں سے پاک ہوں حتّٰی کہ مذہبی وَضْع قَطْع کے افراد بھی اس سے بچ نہیں پاتے ۔شاید انہیں یِہی نہیں پتا ہوتا کہ فحش بات کسے کہتے ہیں ! تو سنئے: فحش بات کی تعریف یہ ہے:اَلتَّعْبِیْرُ عَنِ الْاُ مُورِ الْمُسْتَقْبَحَۃِ بِالْعِبَارَاتِ الصَّرِیحَۃِ یعنی شرمناک اُمور (مَثَلاً گندے اور بُرے معاملات) کا کھلے الفاظ میں تذکرہ کرنا۔ (اِحیاءُ العلوم ج ۳ ص۱۵۱)  تو وہ نوجوان جو شہوت کی تسکین کی خاطر خواہ مخواہ شادیوں کی خلوتوں اور پردے میں رکھنے کی باتوں کے قصّے چھیڑتے ہیں ، نیز فُحش یعنی بے حیائی کی باتیں کرنے والے بلکہ صرف سن کر دل بہلانے والے، گندی گالیاں زَبان پر لانے والے، بے شرمانہ اِشارے کرنے والے،ان گندے اشاروں سے لطف اندوز ہونے والے اور ’’گندی لذّتوں ‘‘ کے حصول کی خاطر فلمیں ڈِرامے (کہ ان میں عُمُوماًبے حیائی کی بھر مار ہوتی ہے) دیکھنے والے ایک دل ہِلا


دینے والی روایت بار بار پڑھیں اور خوفِ خداوندی سے لرزیں چُنانچِہ

منہ سے خون اور پیپ بہ رہا ہو گا

       منقول ہے: چار طرح کے جہنَّمی کہ جوکھولتے پانی اور آگ کے مابَین(یعنی درمِیان) بھاگتے پھرتے وَیل وثُبُور (یعنی ہلاکت) مانگتے ہونگے، ان میں سے ایک وہ شخص کہ اس کے مُنہ سے خون، پِیپ بہ رہا ہو گا، جہنَّمی کہیں گے: ’’اِس بد بخت کو کیا ہوا کہ ہماری تکلیف میں اِضافہ کئے دیتا ہے؟‘‘ کہا جائے گا: ’’یہ بدبخت بُری اور خبیث(یعنی گندی)بات کی طرفمُتَوَجِّہ ہو کر اُس سے لذّت اُٹھاتا تھا جیسا کہ جِماع کی باتوں سے۔‘‘( اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی  ج۹ ص۱۸۷)غیر عورَتوں یا اَمْرَدوں کے بارے میں آ نے والے گندے وَسوسوں پر توجُّہ جمانے، جان بوجھ کر بُرے خیالات میں خود کو گُمانے اور معاذَاللّٰہ ،’’گندی حَرَکت ‘‘ کے تصوُّر کے ذَرِیعے لذّت اُٹھانے والوں کو بیان کردہ روایت سے عبرت حاصِل کرنی چاہئے۔

نہ وَسوَسے آئیں نہ مجھے گندے خیالات

            دے ذِہن کا اور دل کا خدا! قُفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کُتّے کی شَکل والا

       حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن مَیْسَرہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’فُحش کلامی


(یعنی بے حَیائی کی باتیں ) کرنے والا قِیامت کے دن کُتّے کی شَکل میں آئے گا۔‘‘(اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی  ج۹ ص۱۹۰)

جنّت حرام ہے

        حُضُور تاجدارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ، صاحِبِ مُعطّر پسینہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے: ’’اُس شخص پر جنَّت حرام ہے جو فُحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔‘‘ (اَلصَّمْت لِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ج۷ص۲۰۴حدیث۳۲۵)

 سات مَدَنی پھولوں کا’’ فاروقی گلدستہ‘‘

        امیرُالْمُؤمِنِین،امامُ العادِلین،مُتَمِّمُ الْاَربَعِینحضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں :٭فُضُول گوئی سے بچنے والے کو حکمت و دانائی عطا کی جاتی ہے ٭ فُضُول نگاہی یعنی بِلاضَرورت اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچنے والے کو خُشوعِ قلب  ( سُکونِ قلبی)٭ فُضُول طَعام( یعنی ڈٹ کر کھانا یا بِغیر کسی بھوک کے صِرْف لذّت کے لئے طرح طرح کی چیزیں کھانا) چھوڑنے والے کو عِبادت میں لذّت دی جاتی ہی٭ فضول ہنسنے سے بچنے والے کو رُعب و دبدبہ عنایت ہوتا ہے ٭مذاق مسخری سے بچنے والے کو نورِ ایمان نصیب ہوتا ہی٭ دُنیا کیمَحَبَّت سے بچنے والے کو آخِرت کی مَحَبَّت دی جاتی ہی٭ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے سے بچنے والے کو اپنے عیبوں کی اصلاح کی توفیق ملتی ہے۔  ( ماخوذاَز المنبہات ص۸۹)


اے کاش ! ایسا ہو جائے.....

                   ہراسلامی بھائی اور اسلامی بہن ہر مَدَنی ماہ کے پہلے پیر شریف کو اِس رسالے کے مُطالَعے کا معمول بنا لے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے قَلْب میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس فرمائیں گے۔مَدَنی اِنعام نمبر45اور46کے مطابِق عمل زَبان کی حفاظت کا بہترین ذَرِیعہ ہے لہٰذا فضول گوئی سے بچنے کی عادت ڈالنے کیلئے ضَروری گفتگو بھی کم لفظوں میں نمٹائے نیز کچھ نہ کچھ بات اشارے سے اور لکھ کر کرنے کی کوشِش کیجئے اور فضول بات منہ سے نکل جانے کی صورت میں فوراً ایک یا تین بار دُرُود شریف پڑھنے کا معمول بنا لیجئے۔

ایک صَحابی کے جنَّتی ہونے کا راز

       ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی عطاسے لوگوں کو دیکھ کر ہی پہچان لیتے تھے کہ یہ جنَّتی ہے یا جہنَّمی بلکہ آنے والے کی پہلے ہی سے خبر ہوجاتی کہ وہ جنَّتی ہے یا دَوزَخی،چُنانچِہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب ، دانائے غُیُوب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص سب سے پہلے اس دروازے سے داخِل ہو گاوہ  جنَّتی  ہو گا۔‘‘اِتنے میں حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ دروازے سے داخِل ہوئے، لوگوں نے ان کو مبارَکباد دیتے ہوئے دریافت کیا کہ آخِر کس عمل کے سبب آپ کو یہ سعادت ملی ؟سیِّدُنا  عبداللّٰہ بن سلام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: میرا عمل بَہُت ہی تھوڑا ہے اور جس کی میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے امّید رکھتا ہوں وہ میرے


 سینے کی سلامتی اور بے مقصد باتوں کو چھوڑنا ہے ۔(اَلصَّمْت لِابْنِ اَبِی الدُّنْیاج۷ص۸۶رقم ۱۱۱)

       اس حدیثِ پاک کے الفاظ ’’سَلامَۃُ الصَّدْر ‘‘یعنی ’’ سینے کی سلامَتی‘‘ سے مُراد دل کا لَغْوِیّات (یعنی بے ہودہ ) اورحَسَد وغیرہ اَمراضِ باطِنِیَّہ سے پاک ہونا اور دل میں ایمان کا مضبوطُ و مُسَتحکَم ہونا ہے ۔

رفتار کا گُفتار کا کردار کا  دے دے

          ہر عُضو کا دے مجھ کو خدا  قفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

فُضُول باتوں کی مِثالیں

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ’’ فُضُول باتیں ‘‘ اگر چِہ گناہ نہیں تاہم اِس میں کوئی بھلائی بھی نہیں ۔ سُبْحٰنَ اللہ !حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو زَبانِ رسالت سے دُنیا ہی میں جنَّت کی بِشارت  عنایت ہوگئی! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ کبھی  فُضُول باتوں میں نہیں پڑتے تھے ، جس کام سے واسِطہ نہ ہوتا اُس کے بارے میں پوچھتے تک نہیں تھے، لیکن افسوس !ہمارا جن مُعامَلات سے دُور کا بھی تعلُّق نہیں ہوتا  پھر بھی اُس کیمُتَعَلِّق بے جا سُوالات کرتے ہی رہتے ہیں ۔مَثَلاً٭ یہ کتنے میں لیا؟ وہ کِتنے میں مِلا؟ فُلاں جگہ پلاٹ کا کیا بھاؤچل رہا ہے؟٭کسی کے مکان میں گئے یا کسی نے نیا مکان لیا تو سُوال ہوتا ہے :کتنے کا لیا؟


کتنے کمرے ہیں ؟ کِرایہ کتنا ہے ؟ مکان  مالک کیسا ہے ؟(یہ سُوال اکثر مَعاذَاللّٰہ غیبت و تہمت کا دروازہ کھولنے کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ اس کا جواب عموماً بِلااجازتِ شَرْعی کچھ اس طرح گناہوں بھرا ملتا ہے: ہمارا مکان مالک بَہُت سخت مزاج/بے رحم/ٹیڑھا/ کھوچڑا/ خردماغ/وائڑا/ کنجوس ہے) وغیرہ وغیرہ ٭اِسی طرح جب کوئی نئی دکان ، کار ، یا اسکوٹر وغیرہ خریدے توبلاوجہ خریدنے و الے سے اس کا بھائو،پائیداری ، نقد،ادھار، قسطوں وغیرہ سے متعلِّق سُوالات کئے جاتے ہیں ٭بے چارہ مریض جس سے بولا تک نہیں جاتا ہے اُس سے بھی بعض عِیادت کرنے والے نادان انسان جیسے     ’’ ڈاکٹروں کے بھی ڈاکٹر‘‘ ہوں یوں پورا پوراحِساب لیتے اور سب تفصیلات معلوم کرتے ہیں یہاں تک کہ ایکسرے اور لیبارٹری کی کارکردَگی بھی وُصول کرتے ہیں اور اگر آپریشن ہوا ہو تو بِلا وجہ سُوالات کے ذَرِیعے ٹانکوں کی تعدادتک پوچھ لیتے ہیں ،حتّٰی کہ’’ شرم کی جگہ ‘‘ کا مسئلہ ہو تب بھی بعض بے شَرْم اُس کا تفصیلی اِحتِساب کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ اِس طرح کی فُضُولیات میں عورَتیں بھی مردوں سے کسی طرح پیچھے نہیں رہتیں ٭گرمی یا سردی کے موسِم میں اِس کی کمی زیادَتی کے موقع پر بِلا حاجت باتیں ہوتی ہیں مَثَلاً گرمی کے موسِم میں بعض ابوالفضول ’’اُف!اُف‘‘ کرتے ہوئے کہیں گے: ایک تو آج کل سخت گرمی ہے اوراُوپر سے بجلی بھی بار بار چلی جاتی ہے ٭اسی طرح سردیوں میں اداکاری کے ساتھ دانت بجاتے ہوئے کہیں گے: آج تو بَہُت کڑاکے کی سردی ہی٭ اگر بارِش کا موسِم ہے تو بِلاضَرورت اس پربھی تبصرہ(تَب۔صِ۔رَہ) کیاجاتاہے مَثَلاًآج کل توبارِشیں بَہُت


 ہورہی ہیں ، ہر طرف پانی کھڑا ہوگیا ہے ، اِنتِظامیہ کیچڑ صاف کروانے کا کوئی خیال نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ٭ اِسی طرح ملکی اورسیاسی حالات پر بِلانیّتِ اِصلاح بے جا تبصرے ، مختلف سیاسی پارٹیوں پر بِلا وجہ تنقیدیں ٭ کسی شہر یا ملک کا سفر کِیا ہے تو وہاں کے پہاڑوں اور سبزہ زاروں کی غیر ضَروری منظر کشی ،مکانوں اور سڑکوں کی تفصیلات کا بِلاضَرورت بیان وغیرہ وغیرہ یہ سب فُضول گوئی نہیں تو اورکیا ہے؟البتّہ یہ یاد رہے کہ مذکورہ بالا اُمور کے بارے میں اگر ہم کسی کو باتیں کرتا ہوا پائیں تو اپنے آپ کو بدگُمانی سے بچائیں کیونکہ بعض اوقات ظاہِری دُ نیوی باتیں بھی اچّھی نیّت کے باعث کارِ ثواب ہو جاتی ہیں یا کم ازکم فُضُولیات میں نہیں رہتیں ۔

فُضُول گو کا جھوٹے مُبالَغے کے گناہ سے بچنا دشوار ہو تا ہے

       یہ ذِہن میں رہے کہ فضول بولناگناہ نہیں مگر فُضُول گوئی صرف اُس وقت ہے جبکہ بِلا کم و کاسْتْ اور صحیح صحیح بیان کرے، اگر جھوٹے مُبالَغے کئے تو گناہوں کی کھائی میں  جا گرا! تشویش کی بات یہ ہے کہ اِس طرح کی گفتگو کو ناپ تول کر دُرُست بیان کرنا کہ    ’’ فُضُول گوئی‘‘ کی حد سے آگے نہ بڑھے یہ بَہُت مشکل اَمْرہوتاہے،اکثر جھوٹے مُبالَغے ہوہی جاتے ہیں ، فُضُول گو بار ہا غیبتوں ، تہمتوں ، عیب دریوں اور دل آزاریوں وغیرہ کے دَلدَل میں بھی جا پڑتا ہے۔ لہٰذا عافیَّت چُپ رہنے ہی میں ہے کہ ایک چُپ سو سُکھ۔

کاش!بولنے سے قبل ذرا ٹھہر کر تولنے کی سعادت مل جائے

       واقِعی اگر کوئی انسان بولنے سے قبل ’’تولنے‘‘ یعنی غور کرنے کی عادت ڈالے تو


 اُسے اپنی بے شمار فُضُول باتیں خودہی محسوس ہونی شُروع ہوجائیں !صِرْف’’ فُضُول باتیں ‘‘ ہوں تو اگر چِہ گناہ نہیں مگر کئی طرح کے نقصانات ان میں موجود ہیں مَثَلاً ان باتوں میں زَبان چلانے کی زَحْمت ہوتی اور قیمتی وَقْت برباد ہوتا ہے اگر اُتنی دیر ذِکرُ اللّٰہیا دینی مُطالَعَہ کر لیا جائے ،یا کوئی سنَّت بیان کر دی جائے تو ثواب کا اَنبار(اَمْ۔بار) لگ جائے۔

دَہشت گردیوں کے فُضُول تذکِرے

       اِسی طرح معاذَاللّٰہ کہیں دہشت گردی کی وارِدات ہو گئی تو بس لوگوں کو فُضُول بلکہ بعض صورَتوں میں گناہوں بھری بحث کیلئے ایک موضوع ہی ہاتھ آ گیا! ہر جگہ اُسی کا تذکِرہ ، بے سَروپا قِیاس آرائیاں ، بے تُکے تبصرے ، اٹکل سے کسی بھی پارٹی یا لیڈر وغیرہ پر تہمت لگا دینا وغیرہ ۔ اکثر یہ گفتگو ’’ فضول ‘‘ ہی نہیں ، لوگوں میں خوف و ہِراس پھیلنے کا باعِث ، اَفواہیں گرم ہونے کا سبب اور ہنگامے برپا ہونے کی ’’ وجہ‘‘بھی بنتی ہیں ، دھماکوں اور دہشت گردیوں کی وارِداتیں سننے سنانے میں نفس کو بے انتِہا دلچسپی ہوتی ہے، بسا اوقات لب پر دعا ئیہ الفاظ ہوتے ہیں مگر قلب کی گہرائیوں میں سنسنی خیز خبریں سننے سنانے کے ذَرِیعے حَظّ(یعنی مزے) اُٹھانے اور لطف اندوز ہونے کا جذبہ چُھپا ہوتا ہے، کاش ! نفس کی اس شرارت کو پہنچانتے ہوئے ہم دہشت گردیوں اور دھماکوں کے تذکروں میں دلچسپی لینے سے باز آ جائیں ۔ ہاں مظلومانہ شہادت پانے والوں ، زخمیوں اور مُتأَثِّرہ مسلمانوں کی ہمدردیوں ، خدمتوں اور امن و سلامتی کی دعائوں سے گُریز نہ کیا جائے کہ یہ ثواب کے کام


 ہیں ۔ بس جب بھی اِس طرح کی گفتگو کرنے سننے کی صورت پیدا ہو تو اپنے دل پر غور کر لینا چاہئے کہ نیَّت کیا ہے ؟اگر اچّھی نیّت پائیں تو عمدہ اور بَہُت عمدہ ہے مگر اکثر اس قسم کی گفتگو کا حاصِل ’’ سنسنی‘‘ سے لطف اندوزی ہی پا یا جاتا ہے۔

صدِّیقِ اکبر منہ میں پتّھر رکھ لیتے

       یادرکھئے!زَبان بھیاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عظیم نعمت ہے، اِس کے بارے میں بھی قِیامت کے روزسُوال ہونا ہے، لہٰذا اس کا ہرگزبے جا استعِمال نہ کیا جائے۔ سیِّدُنا صِدّیقِ اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ  قَطْعی جنَّتی ہونے کے باوُجُود زَبان کی آفتوں سے بے حد مُحتاط رہا کرتے تھے چُنانچِہ’’ اِحیاءُ الْعُلُوم‘‘میں ہے: حضرتِ سیِّدُنا ابو بکرصِدّیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے مبارَک منہ میں پتّھر رکھ لیا کرتے تھے تاکہ بات کرنے کا موقع ہی نہ رہے۔ (اِحیاءُ الْعُلومج۳ ص۱۳۷)

رکھ لیتے تھے پتَّھر سُن ابوبکر دَہَن میں

اے بھائی! زَباں پر تُو لگا قفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

40برس تک خاموشی کی مَشق  

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اگرآپ واقِعی خاموشی کی عادت بنانا چاہتے ہیں تو اِس پر سنجیدَگی سے غور کرنا ہو گا، اور خوب مشق کرنی پڑیگی ورنہ سرسری کوشش سے زَبان پر


 قفلِ مدینہ لگنا دشوار ہے۔ زَبان کے بے جا استعمال کی تباہ کاریوں سے خود کو ڈراتے ہوئے خاموشی کی عادت بنانے کی بھر پور سعی فرمایئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّکامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ مگر کوشِش استِقامت کے ساتھ ہونی چاہئے۔ آئیے ! ایک کوشش کرنے والے کی استقامت کی حکایت سنتے ہیں ،حضرت سیِّدُنا اَرطاہ بن مُنذِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :ایک شخص چالیس سال تک خاموش رہنے کی اس طرح ’’مَشق‘‘ کرتا رہا کہ اپنے منہ میں پتّھر رکھتا،یہاں تک کہ کھانے یا پینے یا سونے کے علاوہ وہ پتّھر منہ سے نہ نکالتا۔(اَلصَّمْت لِابْنِ اَبِی الدُّنْیاج۷ص۲۵۶رقم۴۳۸)  یاد رہے! پتّھر اتنا چھوٹا نہ ہو کہ حَلْق سے نیچے اُتر کر کسی بڑی مشکل میں ڈالدے نیز روزے کی حالت میں منہ میں پتّھر نہ رکھا جائے کہ اِس کی مِٹّی وغیرہ حَلْق میں جا سکتی ہے۔

گفتگو لکھ کر مُحاسَبہ کرنے والے تابِعی بُزُرگ

       حضرت ِ سیِّدنارَبِیع بنخُثَیْم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ الکَرِیم یبیس سال تک دُنیاوی بات زَبان سے نہیں کی، جب صُبْح ہوتی تو قلم دَوات اور کاغذ لے لیتے اور دن بھر جو بولتے اُسے لکھ لیتے اور شام کو (اُس لکھے ہوئے کے مطابق)اپنا مُحاسَبہ فرماتے۔(اِحیاءُ الْعُلوم ج ۳ص۱۳۷)

بات چیت کے مُحاسبے کا طریقہ

       اپنا’’محاسَبہ‘‘ کرنے سے مُراد یہاں یہ ہے کہ اپنی ہر ہر بات پر غور کر کے اپنے آپ سے بازپُرس کرنا مَثَلاً فُلاں بات کیوں کی؟ اُس مقام پر بولنے کی کیا حاجت تھی؟


 فُلاں گفتگو (گُفت۔گُو) اتنے الفاظ میں بھی نمٹائی جا سکتی تھی مگر اس میں فُلاں فُلاں لفط زائد کیوں بولے؟ فُلاں سے جو جملہ تم نے کہا وہ شَرعی اجازت سے نہ تھا بلکہ دل آزار طنز تھا، اُس کا دل دُکھا ہو گا اب چلو توبہ بھی کرو اور اُس اسلامی بھائی سے مُعافی بھی مانگو،اُس بیٹھک میں کیوں گئے جب کہ معلوم ہے کہ وہاں فُضُول باتیں بھی ہوتی ہیں اور فُلاں فُلاں بات میں تم نے ہاں میں ہاں کیوں ملائی تھی؟ وہاں تمہیں غیبت بھی سننی پڑ گئی تھی بلکہ تم نے غیبت سننے میں دلچسپی بھی لی تھی چلو پکّی توبہ اور ایسی بیٹھکوں سے دُور رہنے کا بھی عہد کرو۔ اِس طرح سمجھدار آدمی اپنی گفتگو بلکہ روز مرّہ کے جملہ مُعامَلات کا مُحاسَبہ کر سکتا ہے۔ یوں گناہ، بے اِحتیاطیاں ،اپنی بَہُت ساری کمزوریاں اور خامیاں سامنے آ سکتیں اور اِصلاح کا سامان ہو سکتا ہے۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں محاسبے کو فکرِ مدینہ کہتے ہیں اور دعوتِ اسلامی میں روزانہ کم ازکم 12مِنَٹ فکرِ مدینہ کرنے اور اِس دوران مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُر کر نے کا ذِہْن دیا جاتا ہے۔

ذِکر و دُرُود ہر گھڑی وِردِ زَباں رہے

میری فُضُول گوئی کی عادت نکال دو (وسائلِ بخشِش ص۱۶۴)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عُمَر بن عبدالعزیز پھوٹ پھوٹ کر روئے

        حضرتِ سیِّدُنا ابو عبدُاللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ایک


عالِم صا حِب حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سامنے کہنے لگے : ’’خاموش عالِم‘‘بھی بولنے والے عالم ہی کی طرح ہوتا ہے۔فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ بولنے والاقِیامت کے دن چُپ رہنے والے عالِم سے افضل ہو گا اِس لئے کہ بولنے والے کا نَفْع لوگوں کو پہنچتاہے جبکہ چُپ رہنے والے کوصِرف ذاتی فائدہ ملتا ہے۔ وہ عالم صاحِب بولے: ’’یَاامیرَالْمُؤمِنِین ! کیا آپ بولنے کے فتنوں سے ناواقِف ہیں ؟‘‘ حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدُالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ یہ سن کر شدید(یعنی پھوٹ پھوٹ کر) روئے۔(اَلصَّمْت لِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ج۷ص۳۴۵رقم۶۴۸) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔  اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

حِکایت کی وَضاحت

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے بُزُرگوں کی احتیاطیں اور جذبۂ خوفِ خدا مرحبا! البتَّہ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ مُحتاط عُلمائے دین کا وعظ و نصیحت فرمانا ، شَرعی اَحکام بتانا، مُبلِّغین کا سنّتوں بھرا بیان کرنا، نیکی کی دعوت دینا ،خاموشی کے مقابلے میں افضل ترین عمل ہے۔ مگر اُن عالم صاحِب کا سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں بطورِ تَنبِیہ یہ عَرْض کرنا کہ’’کیا آپ بولنے کے فتنوں سے ناواقِف ہیں ؟‘‘ اپنی جگہ دُرُست تھا اور امیرُ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا خوفِ خدا سے زارو قِطار رونا بھی اُن عالِمِ رَبّانی کے اِس فِقرے کی تہ تک پہنچنے کی وجہ سے تھا۔واقِعی اچّھا بولنا اگر چِہ مخلوق کیلئے نَفْعْ


 بخش ہے لیکن خود بولنے والے کے لئے اِس میں کئی فَسادات کے خطرات بھی موجود ہیں مَثَلاً اگر اچّھامُبلِغ ہے تو اپنی فَصاحت وبَلاغت اور گفتگو کی رَوانی پر دوسروں کی طرف سے ملنے والی داد وتَحسین کے سبب یا صِرْف اپنی صَلاحِیّت پر گَھمَنڈ کے باعِث یا اپنے آپ کو     ’’ کچھ‘‘ سمجھنے اور دوسروں کو حقیر جاننے یا صِرْف نفسانیَّت کی وجہ سے دوسروں پر دھاک بٹھانے اور اپنی واہ واہ کروانے کی خاطر خوب مُحاوَرات و عُمدہ فِقرات وغیرہ کی ترکیبیں کرتے رہنے نیز اِس کیلئے اَدَق یعنی مشکل یا خوبصورت الفاظ بولنے وغیرہ وغیرہ کے فتنوں میں پڑ سکتا ہے۔ اگر عَرَبی بول چال پر عُبور ہُوا تو بات و بیانات میں اپنی عَرَبی دانی کا سکہ جمانے کی خاطر خوب عَرَبی مَقُولوں وغیرہ کے استِعمال کے فتنے میں مبتَلاہو سکتا ہے، اِسی طرح جس کی آواز اچّھی ہو وہ بھی خطروں میں گِھرا رہتا ہے ، چُونکہ لوگ اکثر ایسوں کی تعریف کرتے ہیں جس پر ’’ پُھول‘‘ کر اُس کے مَغرور ہوجانے، اچّھی آواز کو عَطِیَّۂ خداوندی(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عَطا) سمجھنے کے بجائے اپناکمال سمجھ بیٹھنے وغیرہ غلطیوں کا خَدشہ رہتا ہے۔ تو اُن عالمِ ربّانی کی ’’بولنے ‘‘کیمُتَعلِّق تَنبِیہ بجا ہے اور واقِعی جومبلِّغ مذکورہ مَذمُوم صِفات رکھتا ہو اُس کا بولنا اُس کے اپنے حق میں بَہُت بڑا فِتنہ اور بربادیٔ آخِرت کا سامان ہے اگر چِہ مخلوق کو اُس سے نَفْع پہنچتا ہو۔

بات کو فُضُولیات سے پاک کرنے کا بہترین نسخہ

       اپنی گفتگو میں کمی لانے کے جو واقِعی خواہش مند ہیں اُن کیلئے اپنی بات کی تنقیح


(یعنی چھان بِین)کرنے اور اپنی گفتگو کو بے جا یا ضرورت سے زائد لفظوں اور مختلف خامیوں سے پاک کرنے نیز نقصان دِہ بلکہ فُضُولیات کی آمیزِش سے بچانے کیلئے’’ اِحیاء العلوم‘‘ سے ایک بہترین نسخہ پیش کیا جاتا ہے چُنانچِہحُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد غزالی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِی کے فرمانِ والا شان کا خلاصہ ہے:گفتگو کی چارقِسمیں ہیں : {1}مکمّل نقصان دِہ بات{2} مکمَّل فائدے مند  بات {3}ایسی بات جو نقصان دِہ بھی ہو اور فائدے مند بھی۔ اور {4}ایسی بات جس میں نہ فائدہ ہو نہ نقصان۔پس پہلی قِسم کی بات جو کہ مکمّل نقصان دِہ ہے اُس سے ہمیشہ پرہیز ضَروری ہے۔ اور اسی طرح تیسری قِسم والی بات کہ جس میں نقصان اور فائدہ دونوں ہیں ، اس سے بھی بچنا لازِم ہے ۔ اور جو چوتھی قِسم ہے وہ فُضُولیات میں شامل ہے کہ اُس کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی کوئی نقصان لہٰذا ایسی بات میں وَقت ضائِع کرنا بھی ایک طرح کا نقصان ہی ہے ۔ ا س کے بعد صرف دوسری ہی قِسم کی بات رَہ جاتی ہے یعنی باتوں میں سے تین چوتھائی (یعنی75%)تو قابلِ استعمال نہیں اور صرف ایک چوتھائی(یعنی25%) بات جو کہ فائدہ مند ہے بس وُہی قابلِ استِعمال ہے مگر اِس قابلِ استِعمال بات کے اندر باریک قسم کی رِیا کاری ، بناوَٹ ، غیبت ، جھوٹے مبالغے ’’ میں میں کرنے کی آفت ‘‘ یعنی اپنی فضیلت و پاکیزگی بیان کر بیٹھنے وغیرہ وغیرہ اندیشے ہیں نیز فائدہ مندگفتگو کرتے کرتے فُضُول باتوں میں جا پڑنے پھر اس کے ذَرِیعے مزید آگے بڑھتے ہوئے اِس میں گناہ کا ارتِکاب ہو


 جانے وغیرہ وغیرہ خدشات شامل ہیں اوریہ شُمُولِیَّت ایسی باریک ہے جس کاعِلْم نہیں ہوتا، لہٰذا اس قابلِ استِعمال بات کے ذَرِیعے بھی ا نسان خطرات میں گِھرا رہتا ہے۔ (مُلَخَّص ازاِحیاءُ الْعُلوم ج ۳ص۱۳۸)

چُپ رہنے میں سو سکھ ہیں تو یہ تجرِبہ کر لے

اے بھائی! زَباں پر تو لگا قُفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

بے وُقُوف بے سوچے بولتاہے    

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عقل مند پہلے بات کو تولتا ہے پھر منہ سے بولتا ہے اوربَیوُقُوف جو کچھ جی میں آئے بولتا چلا جاتاہے، چاہے اِس کی وجہ سے کتنا ہی ذلیل کیوں نہ ہونا پڑے ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : لوگوں میں مشہور تھا کہ عقلمند کی زَبان اُس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے وہ بات کرنے سے پہلے اپنے دل سے رُجوع کرتاہے یعنی غور کرتا ہے کہ کہوں یا نہ کہوں ؟اگرمُفید ہوتی ہے تو کہتا ہے ورنہ چُپ رہتاہے ۔ جبکہ بیوقوف کی زَبان اُس کے دل کے آگے ہوتی ہے کہ اِدھریعنی دل کی طرف رُجوع کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی بس جو کچھ زَبان پر آیا کہہ دیتاہے۔    (مُلَخَّص اَزتَنبِیہُ الْغافِلین ص۱۱۵)

 بولنے سے پہلے تولنے کا طریقہ

       پیارے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے !ہمارے میٹھے میٹھے آقا ، مکّی مَدَنی مصطَفٰے


صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی اپنی زَبانِ حقِّ تَرجُمان سے کوئی فالتو لفظ ادا نہیں فرمایا اور نہ ہی کبھی قَہقَہہ لگایا۔کاش !یہ خاموشی اورزور سے نہ ہنسنے کی سُنَّتیں بھی عام ہو جائیں ۔ اے کاش!ہم ’’بولنے‘‘ سے پہلے ’’ تولنے‘‘ کے عادی بن جائیں ۔ تولنے کا طریقہ یہ ہے کہ اِس سے پہلے کہ الفاظ زَبان سے اداہوں اپنے دل سے سُوال کرلیا جائے کہ اِس بولنے کا مقصد کیاہے ؟کیا میں کسی کو نیکی کی دعوت دے رہاہوں ؟کیا یہ بات جو میں بولنا چاہتاہوں اس میں میرایا کسی دوسرے کا بھلا ہے ؟میری بات کہیں ایسے مُبالَغے سے پُرتو نہیں جو مجھے جھوٹ کے گناہ میں مبتَلا کردے ۔جھوٹے مُبالَغے کی مثال دیتے ہوئیصدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں :   ’’ اگر ایک مرتبہ آیا اور یہ کہہ دیاکہ ہزار مرتبہ آیا تو جھوٹا ہے۔‘‘ (بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ ص ۱۶۱،۱۶۲) یہ بھی سوچے کہ میں کہیں کسی کی جھوٹی تعریف تو نہیں کررہا ؟کسی کی غیبت تو نہیں ہورہی ؟میری اس بات سے کسی کا دل تو نہیں دُکھ جائیگا ؟بول کر نَدامت کے سبب رُجوع کرنے یاSORRYکہنے کی نوبت تو نہیں آئے گی ؟ تھوک کر چاٹنے یعنی جوش میں کہی ہوئی بات واپَس تو نہیں لینی پڑیگی ؟کہیں اپنا یا کسی دوسرے کا راز فاش تو نہیں کر بیٹھوں گا؟بولنے سے پہلے بات کو تولنے میں اگر یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس بات میں نہ نفع ہے نہ نقصان اور نہ ہی ثواب ہے نہ گناہ، تب بھی یہ بات بول دینے میں ایک طرح کا نقصان ہی ہے کیونکہ زَبان کو اِس طرح کی فضول اور بے فائدہ گفتگوکیلئے زَحْمت دینے کے بجائے


اگرلَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللّٰہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کہہ لیا جائے یا دُرُود شریف پڑھ لیا جائے تو یقینا اِس میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور یہ اپنے انمول وقت کا بہترین استِعمال ہے،ایسے عظیم فائدے کا ضائِع ہونا بھی لازِماً نقصان ہی ہے ۔

ذِکر و دُرُود ہر گھڑی وِردِ زَباں رہے

میری فُضُول گوئی کی عادت نکال دو (وسائلِ بخشِش ص۱۶۴)

چُپ رہنے کا طریقہ

       پیارے اسلامی بھائیو!فُضُول گوئی گُناہ نہ سہی مگر اِس میں محرومیاں اور کافی نقصانات موجود ہیں لہٰذا اِس سے بچنا بے حد ضَروری ہے ۔کاش! کاش! اے کاش! خاموشی کی عادت ڈالنے کیلئے زَبان پر’’ قفلِ مدینہ ‘‘لگانے کی سعادت مل جاتی۔ حکایت:حضرتِ سیِّدُنا  مُوَرِّق عِجْلِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ ایک ایسا مُعامَلہ جسے میں 20 سال تک حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن پانہ سکامگر پھر بھی اُس کی طلب نہیں چھوڑی۔پوچھا گیا :وہ اہم چیز کیا ہے؟فرمایا:خاموش رَہنا۔(اَلزُّہْد  لِلامام اَحمد ص۳۱۰رقم۱۷۶۲)خاموشی کے طلبگار کو چا ہئے کہ زَبان سے کرنے کے بجائے روزانہ تھوڑی بَہُت باتیں لکھ کر یا اشارے سے بھی کر لیا کرے  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اِس طرح خاموشی کی عادت شُروع ہوجا ئے گی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ’’دعوتِ اسلامی ‘‘ کی طرف سے نیک بننے کے عظیم نسخے ’’ مَدَنی انعامات‘‘ کا ایک مَدَنی اِنعام یہ بھی ہے: کیا آج آپ


 نے زَبان کا قفلِ مدینہ لگاتے ہوئے فُضُول گوئی سے بچنے کی عادت ڈالنے کے لیے کچھ نہ کچھ اشارے سے اور کم ازکم چار بار لکھ کر گفتگو کی؟ خاموشی کی عادت بنانے کی کوشش کے دَوران ایسا بھی ہوسکتاہے کہ فُضُول گوئی سے بچنے کی کوشش میں چند روز کامیابی ملی مگر پھربولنے کی عادت حسب ِ معمول ہو جائے ،اگر ایسا ہو بھی توہمت مت ہاریئے، بار بارکوشش کیجئے جذبہ سچّا ہوا تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کامیابی ضَرور حاصل ہو گی۔خاموشی کی عادت بنانے کی مشق کرنے کے دوران اپنا چِہرہ مُسکراتا رکھنا مناسب ہے تا کہ کسی کو یہ نہ لگے کہ آپ اُس سے ناراض ہیں جبھی منہ ’’ پُھلا یا‘‘ ہوا ہے۔ خاموشی کی کوشش کے دنوں میں غصّہ بڑھ سکتا ہے لہٰذا اگر کوئی آپ کا اشارہ نہ سمجھ پائے تو ہرگز اُس پر غصّے کا اظہار نہ کیجئے کہ کہیں بے جا دل آزاری وغیرہ کا گناہ نہ کر بیٹھیں ۔ اشارے وغیرہ سے گفتگو صرف انہیں کے ساتھ مناسب رہتی ہے جن کے ساتھ آپ کی ذِہنی ہم آہنگی ہو، اجنبی یا نامانوس آدمی ہو سکتا ہے کہ اشارے وغیرہ کی گفتگو کے سبب آپ سے ’’ ناراض‘‘ ہو جائے، لہٰذا اُس کے ساتھ ضَرورتاً زَبان سے بات چیت کر لیجئے۔ بلکہ کئی صورَتوں میں زَبان سے بولنا واجِب بھی ہو جاتا ہے ۔ مَثَلاًملاقاتی کے سلام کا جواب وغیرہ ۔کسی سے ملاقات کے وقت سلام بھی اِشارے سے نہیں زَبان سے کرنا سنَّتہے۔یوں ہی دروازے پر کوئی دستک دے اور اندر سے پوچھا جائے کون ہے؟تو جواب میں باہر والا ،   ’’ مدینہ! کھولو! ‘‘،’’میں ہوں ‘‘ وغیرہ نہ کہے بلکہ سنَّت یہ ہے کہ اپنا نام بتائے۔


اچّھے انداز پر پکارکر ثواب کمایئے

        ہونٹوں سے ’ ’شِش شی‘‘ کی آواز نکال کر کسی کو بُلانا یا مُتَوَجِّہکرنا اچّھا انداز نہیں ، نام معلوم ہونے کی صورت میں ’’ مدینہ! ‘‘کہہ کر بھی نہیں بلکہ نام یاکنیت (کُن۔ یَت)  سے پکارے کہ  سنَّت ہے، خصوصاً استنجاخانوں اور گندی جگہوں پر ’’مدینہ‘‘ کہہ کر پکارنے سے بچنے کی سخت ضرورت ہے۔ اگر نام نہ معلوم ہو تواُس مقام کے عُرف کے مطابِق مہذَّب انداز میں پکارا جائے، مَثَلاً ہمارے مُعاشرے میں عُمُوماً نوجوان کوبھائی جان! بھائی صاحِب ! بڑے بھائی ! اور عمر رسیدہ کو: چچا جان! بزرگو! وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں ۔بَہَرحال جب بھی کسی کو پکارا جائے تو مؤمن کاد ل خوش کرنے کے ثواب کی نیّت کے ساتھ اچّھے میں اچّھا انداز ہواورنام بھی پورا لیا جائے نیز موقع کی مناسبت سے آخِر میں لفظ’’ بھائی‘‘ یا      ’’ صاحِب‘‘ وغیرہ کا بھی اضافہ ہو، حج کیا ہے تو ’’ حاجی‘‘ کا لفظ بھی شامل کر لیا جائے۔جس کو پکارا گیا وہ ’’ لَبَّیک‘‘ (یعنی میں حاضر ہوں)کہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوت ِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں اکثر کسی کی پکار پر جواباً ’’ لَبَّیک‘‘ کہا جاتا ہے جو کہ سننے میں بہت بھلا معلوم ہوتا ہے اِ س سے مسلمان کے دل میں خوشی داخل ہو سکتی ہے ۔ نیز صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان کا  شہنشاہِخیرُالْاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے یاد فرمانے (یعنی بلانے ) پر’’لَبَّیک‘‘  کے ساتھ جواب دینا احادیث میں مذکورہے ، اس کے علاوہ  ایک ولیُّ اللّٰہ کے فعل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔چُنانچِہ کروڑوں حَنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن


 حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے  مسئلہ(مَس۔اَلہ) پوچھنے کے لیے انہیں جب کوئی اپنی طرف متوجّہ کرتا تو اکثر ’’ لبَّیک‘‘ فرماتے۔(مناقب الامام احمد بن حنبل للجوزی ص۲۹۸ ) مسنون دعاؤں کی مشہور کتاب ’’حِصْنِ حَصِیْن ‘‘ میں ہے : جب کوئی شخص تجھے بلائے تو جواب میں کہے :  لبَّیک۔(حصنِ حصین ص۱۰۴)

خاموشی کی برکت کی تین مَدَنی بہاریں

{1}خاموشی کی بَرَکت سے دیدارِمصطَفٰے

       ایک اسلامی بہن کی تحریر کا لُبِّ لُباب ہے: دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہکی طرف سے جاری کردہ خاموشی کی اَھَمِّیَّت پر مبنی سنّتوں بھرے بیان  کی کیسٹ سُن کر میں نے زَبان کے قفلِ مدینہ کی ترکیب شروع کی یعنی خاموشی کی عادت ڈالنے کا سلسلہ کیا ، تین ہی د ن میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ پہلے میں کس قَدَر فالتو باتیں کیاکرتی تھی! اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ خاموشی کی بَرَکت سے مجھے اچّھے اچّھے خواب نظر آنے  لگے ، فُضُول گوئی سے بچنے کی کوشش کے تیسرے دن میں نے مکتبۃُ المدینہ کی جاری کردہ سنّتوں بھرے بیان کی ایک مزید آڈیوکیسٹ بنام ’’اِطاعت کسے کہتے ہیں ‘‘ سُنی۔رات جب سوئی تو اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کیسٹ میں بیان کردہ ایک واقِعہ مجھے خواب میں دکھائی دینے لگا! ’’جنگ کا نقشہ تھا، سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  دشمن کی جاسوسی  کے لییحضرتِ سیِّدُنا حذُیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکو  روانہ کرتے ہیں ، وہ کُفّار کے


خَیموں کے پاس پہنچتے ہیں تو انہیں کُفّار کے سردار حضرت ابوسُفیان  (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں ،موقع غنیمت جانتے ہوئے سیِّدُناحُذَیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کما ن پر تیر چڑھالیتے ہیں کہ انہیں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا حکم یاد آتا ہے (جس کا مفہوم ہے:کوئی چھیڑ چھاڑ مت کرنا) چُنانچِہ اپنے مَدَنی امیر کی اطاعت کرتے ہوئے تیر چلانے سے باز رہتے ہیں ، پھر حاضِر ہوکر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ بابَرَکت میں کارکردگی پیش کرتے ہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ  مجھے اس خواب میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اوردوصَحابۂ کِرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خوب واضِح طور پر زِیارت نصیب ہوئی ، باقی سب مناظِر دُھندلے نظر آرہے تھے۔ ‘‘مزید لکھا ہے: اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! صرف تین دن کی فُضُول گوئی سے بچنے کی کوشِش سے مجھ پر آقائے دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بَہُت بڑا کرم ہوگیا ، بس میری تمنّاہے کہ کبھی بھی میری زَبان سے کوئی فالتو لفظ نہ نکلے۔ آپ دعا کیجئے کہ میں اپنی اس کوشِش میں کامیاب ہوجاؤں ۔

        خصوصاً اسلامی بہنوں کواس خوش نصیب اسلامی بہن پر کافی رشک آرہا ہوگا۔  کسی اسلامی بہن کا خاموشی اختیار کرناواقِعی بَہُت بڑی بات ہے کیوں کہ مَردوں کے مقابلے میں عُمُوماً عورَتیں زیادہ بولتی ہیں ۔


اللہ  زَباں  کا  ہو  عطا  قفلِ  مدینہ

میں کاش !زباں پر لوں لگا قفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 {2}عَلاقے میں مَدَنی ماحول بنانے میں خاموشی کاکردار

       ایک اسلامی بھائی نے سگِ مدینہعُفِیَ عَنْہُ  کو جو مکتوب بھیجا اُس کا لُبِّ لُباب ہے کہ’’  دعوتِ اسلامی‘‘ کے سنّتوں بھرے اجتِماع میں خاموشی کے مُتَعَلِّق سنّتوں بھرا بیان  سننے سے پہلے میں مَدَنی ماحول سے وابستہ ہونے کے باوُجُود میں بَہُت فُضُول گو تھا ، دُرُودشریف کی کوئی خاص کثرت نہ تھی۔جب سے چُپ رہنے کی کوشِش شُروع کی ہے، روزانہ ایک ہزار دُرُودشریف پڑھنا نصیب ہورہاہے ۔ ورنہ میرا انمول وَقت اِدھر اُدھر کی فُضول بَحثوں میں برباد ہو جاتا تھا۔بارہ دن میں پڑھے ہوئے 12 ہزار دُرُود شریف کا ثواب آپ کوتُحفتاً پیش(یعنی ایصالِ ثواب) کرتاہوں ۔ مزید عرض ہے کہ میرے باتُونی مزاج کے باعث ہونے والی کَجْ بَحثی (یعنی الٹی سیدھی باتوں )کی نُحُوست سے ہمارے ذَیلی حلقے میں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کام کو بھی نقصان پہنچ جاتاتھا۔ پچھلے دنوں ہمارے حلقے میں آپس کا اختِلاف نمٹانے کے لیے مَدَنی مشورہ ہوا، حیرت بالائے حیرت کہ میری خاموشی کے سبب اَلْحَمْدُلِلّٰہ سارا جھگڑا بَآسانی خَتْم ہو گیا ۔ ہمارے      ’’ نگرانِ پاک‘‘نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے بے تکلُّفی میں کچھ اس طرح فرمایا :


’’ مجھے بَہُت ڈرلگ رہا تھا کہ شاید آپ بحث شُروع کریں گے اور بات کا بتنگڑ بن جائے گا لیکن آپ کے خاموشی اپنانے کی نعمت نے ہمیں راحت بخشی۔‘‘دراصل بات یہ ہے کہ اِس سے قَبل مجھ نالائق کی فُضُول بحث اوربک بک کی عادتِ بد کے سبب ’’مَدَنی مشورے‘‘ وغیرہ کا ماحول خَراب ہوجایا کرتا تھا۔

مَدَنی کاموں کیلئے مَدَنی ہتھیار

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ فُضُول باتوں سے بچنا مَدَنی کاموں کیلئے کس قدر مفیدہے ۔ لہٰذا جو سنّتوں کا مبلِّغ ہے اُسے تو ہر حال میں سنجیدہ اورکم گو ہونا چاہیے ۔ جو بَڑ بَڑیا،باتُونی ، دوسروں کی بات کاٹنے والا، بار بار بیچ میں بول پڑنے والا ، بات بات پر بحث و تکرار کرنے اور’’ بال کی کھال‘‘ اُتارنے والا ہو اُس کی وَجہ سے دین کے کام کو نقصان پہنچنے کا سَخت اندیشہ رہتا ہے، کیوں کہ خاموشی جو کہ شیطان کو مار بھگانے کا   ’’ مَدَنی ہتھیار‘‘ ہے اِس سے یہ بد نصیب محروم ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو ذَرغِفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو وصیَّت کرتے ہوئے تاجدارِ رِسالت، مصطَفٰے جانِرَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’خاموشی کی کثرت کو لازِم کر لو کہ اس سے شیطان دَفْع ہو گا اور تمہیں دین کے کاموں میں مدد ملے گی۔‘‘(شُعَبُ الْاِیمان ج۴ ص۲۴۲حدیث۴۹۴۲)

اللہ اِس سے پہلے ایماں پہ موت دے دے

               نقصاں مِرے سبب سے ہوسنّتِ نبی  کا(وسائلِ بخشِش ص۱۰۸)


صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

{3}گھر میں مَدَنی ماحول بنانے میں خاموشی کا کردار

       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بے ضَرورت بات ، ہنسی مذاق، اورتُوتَڑاق کی عادات نکال دینے سے گھر میں بھی آپ کا وقاربُلند ہوگااور جب گھر کے افراد آپ کے سنجیدہ پن سیمُتأَثِّر(مُ۔تَ۔اَث۔ثِر)ہوں گے توان پر آپ کی ’’نیکی کی دعوت‘‘بَہُت جلد اثر کرے گی اور گھر میں مَدَنی ماحول نہ ہوا تو بنانے میں آسانی ہوجائے گی ۔ چُنانچِہ’’ دعوتِ اسلامی‘‘ کے سنّتوں بھرے اجتِماع میں خاموشی کی اَھَمِّیَّت پر کیا ہوا ایک سنّتوں بھرا بیان سُن کر ایک اسلامی بھائی نے جو تحریر دی اُس کاخُلاصہ ہے: سنّتوں بھرے بیان میں دی گئی ہدایت کے مطابِق اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ  مجھ باتُونی آدَمی نے خاموشی کی عادت ڈالنی شروع کردی ہے، سُبْحٰنَ اللہ!اس کا مجھے بے حدفائدہ پہنچ رہا ہے، میرے ابوالفضول ہونے کی وجہ سے گھر کے افراد مجھ سے بدظن تھے مگر جب سے چُپ رَہنا شروع کیا ہے، گھر میں میری ’’پوزیشن‘‘بن گئی ہے اورخُصُوصاً میری پیاری پیاری ماں جو کہ مجھ سے خوب بیزار رہا کرتی تھیں اب بے حد خوش ہوگئی ہیں ،چُونکہ پہلے میں بَہُت ’’ بکّی‘‘ تھا لہٰذا میری اچّھی باتیں بھی بے اثر ہو جاتی تھیں مگر اب میں امّی جان کو جب کوئی سنَّت وغیرہ بتاتاہوں تو وہ نہ صِرْف دلچسپی سے سنتی ہیں بلکہ عمل کرنے کی بھی کوشِش کرتی ہیں ۔


بڑھتا ہے خَموشی سے وقار اے مرے پیارے

اے بھائی! زَباں پر تُو لگا قفلِ مدینہ(وسائلِ بخشِش ص۶۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’یا ربِّ کریم ! ہمیں متّقی بنا ‘‘کے اُنّیس حُرُوف  کی نسبت سے گھر میں ’’ مَدَنی ماحول‘‘ بنانے کے 19مَدَنی پھول

{1}  گھر میں آتے جاتے بلند آواز سے سلام کیجئے۔

{2} والِدہ یا والِدصاحِب کو آتے دیکھ کرتعظیماً کھڑے ہو جایئے ۔

{3}  دن میں کم از کم ایک بار اسلامی بھائی والِدصاحِب کے اور اسلامی بہنیں ماں کے ہاتھ اور پاؤں چوما کریں ۔

{4}  والِدَین کے سامنے آواز دھیمی رکھئے،ان سے آنکھیں ہرگز نہ ملائیے، نیچی نگاہیں رکھ کر ہی بات چیت کیجئے۔

{5}ان کا سونپا ہوا ہر وہ کام جو خِلافِ شَرع نہ ہو فورا ًکر ڈالئے ۔

{6}سنجیدگی اپنایئے۔ گھر میں تُو تُکار، اَبے تَبے اور مذاق مسخری کرنے، بات بات پر غصّے ہو جانے، کھانے میں عیب نکالنے ، چھوٹے بھائی بہنوں کو جھاڑنے ، مارنے ، گھرکے بڑوں سے اُلجھنے ، بحثیں کرتے رہنے کی اگر آپ کی عادَتیں ہوں تو اپنا رَوَیّہ یکسر تبدیل کر دیجئے ،ہر ایک سے مُعافی تَلافی کر لیجئے ۔


 

{7}گھر میں اور باہر ہر جگہ آپ سنجیدہ ہو جائیں گے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ گھر کے اندر بھی ضَرور اِس کی بَرَکتیں ظاہِر ہوں گی۔

{8}ماں بلکہ بچّوں کی امّی ہو تو اُسے نیز گھر (اور باہَر)کے ایک دن کے بچّے کو بھی    ’’ آپ ‘‘کہہ کر ہی مخاطِب ہوں ۔

{9} اپنے مَحَلّے کی مسجِدمیں عشاء کی جماعَت کے وَقت سے لے کر دوگھنٹے کے اندر اندر سو جایئے ۔ کاش !تہجُّد میں آنکھ کُھل جائے ورنہ کم از کم نَماز ِفجر تو بآسانی (مسجِد کی پہلی صَف میں باجماعت )مُیَسَّر آئے اور پھر کا م کاج میں بھی سُستی نہ ہو ۔

{10} گھرکے افراد میں اگر نَمازوں کی سُستی ،بے پردَگی ،فلموں ڈِراموں اور گانے باجوں کا سلسلہ ہو اور آپ اگر سرپرست نہیں ہیں ،نیز ظنِّ غالب ہے کہ آپ کی نہیں سُنی جا ئے گی تو بار بار ٹَوکاٹَوک کے بجائے،سب کو نَرمی کے ساتھمکتبۃُ المدینہ سے جاری شُدہ سنّتوں بھر ے بیانا ت کی آڈیوکیسٹیں ،آڈیو/وِڈیوسی ڈیز سنایئے دکھائیے، مَدَنی چینل دکھایئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ’’مَدَنی نتا ئج‘‘ برآمد ہوں گے۔

{11}گھر میں کتنی ہی ڈانٹ بلکہ ما ر بھی پڑے ،صَبرصَبراور صَبر کیجئے۔اگر آپ زَبان چلائیں گے تو ’’مَدَنی ماحول ‘‘ بننے کی کوئی اُمّید نہیں بلکہ مزید بِگاڑ پیدا ہو سکتا ہے کہ بے جا سختی کرنے سے بسا اوقات شیطان لوگو ں کوضِدّی بنا دیتا ہے۔

{12}مَدَنی ماحول بنانے کا ایک بہترین ذَرِیعہ یہ بھی ہے کہ گھر میں روزانہ فیضا نِ سنَّت کا دَرس ضَرورضَرورضَرور دیجئے یا سنئے۔


{13}اپنے گھر والوں کی دنیا و آخِرت کی بہتری کے لئے دل سوزی کے ساتھ دعا بھی  کر تے رہئے کہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے: اَلدُّعاءُسِلَاحُ المُؤْ مِنِ یعنیدُعا مؤمِن کا ہتھیار ہے۔(اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۲ ص ۱۶۲ حدیث۱۸۵۵)

{14}سُسرال میں رہنے والیا ں جہاں گھر کا ذِکر ہے وہاں سُسرال اور جہاں والِدَین کاذِکر ہے وہاں ساس اورسُسَر کے ساتھ وُہی حُسنِ سُلو ک بجا لائیں جبکہ کوئی مانِعِ شَرعی نہ ہو۔ ہاں یہ احتیاط ضروری ہے کہ بہو سسر کے ہاتھ پاؤں نہ چومے ،یونہی داماد ساس کے۔

{15}مسائلُ القُر اٰن صَفحَہ290پر ہے :ہر نَماز کے بعد یہ دُعا اوّل وآخِر دُرود شریف کے ساتھ ایک بار پڑھ لیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ بال بچے سنّتوں کے پابند بنیں گے اور گھر میں مَدَنی ماحول قائم ہو گا ۔(دعا یہ ہے:)(اَللّٰھُمَّ) رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴)  ([2])  

     (’’اَللّٰھُمَّ ‘‘  آیتِ قراٰنی کا حصّہ نہیں )

{16}نافرمان بچّہ یا بڑا جب سویا ہوتو 11یا21دن تک اُس کے سِرہانے کھڑے ہو کر یہ آیاتِ مبارکہ صرف ایک بار اتنی آواز سے پڑھئے کہ اُس کی آنکھ نہ کُھلے :

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط  فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۠(۲۲)([3])


      (اوّل،آخِر،ایک مرتبہ دُرُود شریف)یاد رہے! بڑا نافرمان ہو تو سوتے سوتے سرہانے وظیفہ پڑھنے میں اس کے جاگنے کا اندیشہ ہے خصوصاً جب کہ اس کی نیند گہری نہ ہو ،یہ پتا چلنا مشکل ہے کہ صرف آنکھیں بندہیں یا سور ہا ہے لہٰذا جہاں فتنے کا خوف ہو وہاں یہ عمل نہ کیا جائے خاص کر بیوی اپنے شوہر پر یہ عمل نہ کرے ۔

{17} نیز نافرمان اولاد کو فرماں بردار بنانے کے لیے تاحُصُولِ مُرادنَمازِ فَجر کے بعد آسمان کی طرف رُخ کر کے ’ ’ یَاشَھِیْدُ‘‘ 21بار پڑھئے۔ (اوّل وآخِر، ایک بار دُرُود شریف)

{18}مَدَنی اِنعامات کے مطابِق عمل کی عادت بنایئے اورگھر کے جن افراد کے اندرنَرم گوشہ پائیں اُن میں اور آپ اگر باپ ہیں تو اَولاد میں نرمی اور حکمتِ عملی کے ساتھ مَدَنی اِنعامات کا نِفاذ کیجئے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمت سے گھر میں مَدَنی انقِلاب برپا ہو جا ئے گا۔

{19}پابندی سے ہر ماہ کم از کم تین دن کے مَدَنی قافِلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر کر کے گھر والوں کیلئے بھی دعا کیجئے ۔ مَدَنی قافِلے میں سفر کی بَرَکت سے بھی گھروں میں مَدَنی ماحول بننے کی ’’مَدَنی بہاریں ‘‘ سننے کو ملتی ہیں ۔

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کواختتام کی طرف لاتے ہوئے سنت کی فضیلت اور چند سنتیں اور آداب بیان کرنے کی سعادَت حاصِل کرتا ہوں ۔ تاجدارِ رسالت، شَہَنشاہِ


 نُبُوَّت، مصطَفٰے جانِ رَحمت،شَمعِ بزمِ ہدایت ،نَوشَۂ بز م جنت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے میری سنت سے  مَحَبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی ا و ر  جس نے مجھ سیمَحَبَّت کی وہ  جنت  میں میرے ساتھ ہو گا ۔      (اِبنِ عَساکِر ج۹ص۳۴۳)

سینہ تری سنّت کا مدینہ بنے آقا

جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

’’مسواک کرنا سنّت مبارکہ ہے ‘‘ کے بیس حُرُوف کی نسبت سے مِسواک کے 20 مَدَنی پھول

        پہلیدو فَرامینِمصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَملاحظہ ہوں : ٭دو رَکعت مِسواک کر کے پڑھنا غیرمِسواک کی 70 رَکعتوں سے اَفضل ہے(اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب  ج۱ ص۱۰۲ حدیث۱۸)٭مِسواک کا اِستعمال اپنے لئے لازِم کر لو کیونکہ اِس میں منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رِضا کا سبب ہے (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۲ ص۴۳۸حدیث ۵۸۶۹)٭ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ  بہارِ شریعت  جلد اوّل صَفْحَہ 288پرصدرُ الشَّریعہ ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی لکھتے ہیں ،مَشایخ کِرا م فرماتے ہیں : جو شخص مِسواک کا عادی ہو مرتے وَقت اُسیکلِمہ پڑھنا نصیب ہوگا  اور جو اَفیون کھاتا ہو مرتے وَقت اسے کلِمہ نصیب


 نہ ہوگا٭حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عبّاسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ مِسواک میں دس خوبیاں ہیں :منہ صاف کرتی ، مَسُوڑھے کو مضبوط بناتی ہے، بینائی بڑھاتی ، بلغم دُور کرتی ہے ، منہ کی بدبو ختم کرتی ، سنّت کے مُوافِق ہے ،فرشتے خوش ہوتے ہیں ، رب راضی ہوتا ہے، نیکی بڑھاتی اور معدہ دُرُست کرتی ہے (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۵ ص۲۴۹حدیث ۱۴۸۶۷)٭ حضرتِ سیِّدُنا عبدا لوہّاب شَعرانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی نقل کرتے ہیں : ایک بار حضرت ِسیِّدنا ابو بکر شبلی بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کو وضو کے وَقت مِسواک کی ضَرورت ہوئی، تلاش کی مگر نہ ملی،لہٰذا ایک دینار (یعنی ایک سونے کی اشرفی) میں مِسواک خرید کر استعمال فرمائی۔ بعض لوگوں نے  کہا : یہ تو آپ نے بَہُت زیادہ خرچ کر ڈالا! کہیں اتنی مہنگی بھی مِسواک لی جاتی ہے؟ فرمایا :بیشک یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک مچھّر کے پر برابر بھی حیثیَّت نہیں رکھتیں ،اگر بروزِ قِیامت اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھ سے یہ پوچھ لیا تو کیا جواب  دوں گا کہ : ’’ تو نے میرے پیارے حبیب کی سنّت (مِسواک) کیوں ترک کی؟ جو مال و دولت میں نے تجھے دیاتھااُس کی حقیقت تو(میرے نزدیک)  مچھر کے پر برابر بھی نہیں تھی ،تو آخر ایسی حقیر دولت اِس عظیم سنّت ( مِسواک) کو حاصل کرنے پر کیوں خرچ نہیں کی؟‘‘(مُلَخَّص ازلواقح الانوار ص ۳۸)٭سیِّدنا امام شافِعیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :چار چیزیں عقل بڑھاتی ہیں : فضول باتوں سے پرہیز،مِسواک کا استِعمال،صُلَحا یعنی نیک لوگوں کی صحبت اور اپنے علم پر عمل کرنا(حیاۃُ الحیوان ج ۲ص۱۶۶)٭ مِسوا ک


پیلو یا زیتون یا نیم وغیرہ کڑوی لکڑی کی ہو٭مِسواک کی موٹائی چھنگلیا یعنی چھوٹی اُنگلی کے برابر ہو٭ مِسوا ک ایک بالِشت سے زیادہ لمبی نہ ہو ورنہ اُس پر شیطان بیٹھتا ہی٭ اِس کے رَیشے نرم ہوں کہ سخت رَیشے دانتوں اور مَسُوڑھوں کے درمیان خَلا (GAP) کا باعث بنتے ہیں ٭ مِسواک تازہ ہوتوخوب(یعنی بہتر) ورنہ کچھ دیر پانی کے گلاس میں بِھگَو کر نرم کرلیجئی٭ مناسب ہے کہ اِس کے رَیشے روزانہ کاٹتے رہئے کہ رَیشے اُس وقت تک کارآمد رہتے ہیں جب تک ان میں تَلخی باقی رہے ٭ دانتوں کی چَوڑائی میں مِسواک کیجئی٭ جب بھی مِسواک کرنی ہو کم از کم تین بار کیجئے ٭ ہر بار دھو لیجئی٭مِسواک سیدھے ہاتھ میں اِس طرح لیجئے کہ چھنگلیا یعنی چھوٹی اُنگلی اس کے نیچے اور بیچ کی تین اُنگلیاں اُوپر اور انگوٹھا سِرے پر ہو٭پہلے سیدھی طرف کے اوپر کے دانتوں پر پھر اُلٹی طرف کے اوپر کے دانتوں پر پھر سیدھی طرف نیچے پھر اُلٹی طرف نیچے مِسواک کیجئے ٭ مٹھی باندھ کرمِسواک کرنے سے بواسیر ہوجانے کا اندیشہ ہے ٭ مِسواک وضو کی سنَّتِ قَبلیہ ہے البتّہ سنَّتِ مُؤَکَّدَہ اُ سی وقت ہے جبکہ منہ میں بدبو ہو ( ما خوذ از فتاویٰ رضویہ ج۱ ص ۶۲۳ )

٭ مِسواک جب ناقابلِ اِستعمال ہوجائے تو پھینک مت دیجئے کہ یہ آلۂ ادائے سنّت ہے، کسی جگہ اِحتیاط سے رکھ دیجئے یا دَفن کردیجئے یا پتھروغیرہ وزن باندھ کر سمندر میں ڈبود یجئے ۔ 

    ( تفصیلی معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ294تا295کا مطالعہ فرما لیجئے )


    ہزاروں سنتیں سیکھنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو کتب (۱) 312 صفحات پر مشتمل کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ16 اور(۲) 120صفحات کی کتاب’’ سنتیں اور آد ا ب ‘‘ہد یَّۃً حاصل کیجئے اور پڑھئے۔ سنتوں کی تربیّت کا ایک بہترین ذَرِیعہ دعوت اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سنتوں بھرا سفر بھی ہے۔

لوٹنے رَحمتیں قافلے میں چلو               سیکھنے سنتیں قافلے میں چلو

ہوں گی حل مشکلیں قافلے میں چلو         ختم ہوں شامتیں قافِلے میں چلو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ایک چپ سو سکھ

                                                                                      غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

                                                                                                بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

                                                                                              

                                                                                                                                                یکم محرم الحرم ۱۴۳۳ھ

یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔


 

ماخذ ومراجع

کتاب

مطبوعہ

کتاب

مطبوعہ

قراٰن پاک

مکتبۃالمدینہ باب المدینہ کراچی

 مراٰۃ المناجیح

ضیاء القراٰن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور

 ترجمۂ کنزالایمان

مکتبۃالمدینہ باب المدینہ کراچی

اتحاف السادۃ

 دار الکتب العلمیۃ بیروت

صحیح بخاری

دار الکتب العلمیۃ بیروت

احیاء العلوم

دارصادر بیروت

سنن ترمذی

دار الفکر بیروت 

مستطرف

دار الفکر بیروت

مسند امام احمد

دار الفکر بیروت 

القول البدیع

مؤسسۃ الریان بیروت

السنن الکبری 

دار الکتب العلمیۃ بیروت

تنبیہ الغافلین

دار الکتاب العربی بیروت

المستدرک

دار المعرفۃ بیروت

منہاج العابدین

 دار الکتب العلمیۃ بیروت

شعب الایمان

دار الکتب العلمیۃ بیروت

تاریخ بغداد

دار الکتب العلمیۃ بیروت

الفردوس بماثور الخطاب

دار الکتب العلمیۃ بیروت

تاریخ دمشق

دار الفکر بیروت

جمع الجوامع

دار الکتب العلمیۃ بیروت

کشف المحجوب

نوائے وقت پرنٹر ز مرکز الاولیاء لاہور

الصمت مع موسوعۃابن ابی الدنیا

المکتبۃ العصریۃ بیروت

المنبہات

پشاور

شرح السنۃ

دار الکتب العلمیۃ بیروت

لواقح الانوار

 داراحیاء التراث العربی بیروت

حصن حصین

المکتبۃ العصریۃ بیروت

فتاوٰی رضویہ

رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور

مناقب احمد بن حنبل

دار ابن خلدون بیروت

بہارِ شریعت

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

مرقاۃ المفاتیح

دار الفکر بیروت 

وسائل بخشش

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

 

 



[1] ۔۔۔   یہ بیان امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے تبلیغِ قراٰن و سنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ کے اندر ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع (۹جمادی الاخری۱۴۳۲؁ ھ/12-5-11) میں فرمایا تھا۔ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریراً حاضرِ خدمت ہے۔     ۔مجلسِ مکتبۃُ المدینہ

[2] ۔۔۔ ترجَمۂ کنز الایمان: اے ہمارے رب ہمیں دے ہماری  بیبیوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔ (پ ۱۹،الفرقان ۷۴ )   

[3] ۔۔۔ ترجَمۂ کنز الایمان : بلکہ وہ کمال شَرَف والاقراٰن ہے لَوحِ مَحفوظ میں۔(پ ۳۰،البروج: ۲۱،۲۲ )