میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! ہمارے پیارے پیارے آقا ،مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسلام کی خاطر کیسی کیسی تکالیف اُٹھائیں ! یہ سب کچھ کُھل کر نیکی کی دعوت شُروع کرنے کے بعد ہوا۔ لہٰذا جب بھی کسی کو نیکی کی دعوت دینے اور اس کے سبب کوئی تکلیف اُٹھانی پڑ جائے توسلطانِ خیرُالْاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی راہِ تبلیغِ اسلام میں پیش آنے والی تکالیف وآلام کو یاد کر کے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کیجئے کہ اُس نے دین کی خاطر سختیاں جھیلنے والی سُنّت ادا کرنے کی سَعادت بخشی۔ اِس طرح اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّشیطان ناکام و نامُراد ہوگا اور صَبْر کرنا آسان ہو جائے گا۔ یقیناً راہِ خُدا میں تکلیفیں اُٹھانا بھی سُنّت اور اِن پر صبر کرنا بھی سُنّت اور باوُجُود سخت ترین مُشکلات کے نیکی کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھنا بھی سُنّت ہے۔ ؎
سُنّتیں عام کریں دین کا ہم کام کریں
نیک ہو جائیں مُسلمان مدینے والے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اعلانِنُبُوَّت کے ساتویں سال جب کُفَّارِ قریش نے دیکھا کہ اِن کے بے پناہ ظلم و ستم کے باوُجُود مُسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے اور حمزہ و عُمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جیسے حَضَرات بھی ایمان لاچکے ہیں ۔ شاہِ حَبشہ نَجَّاشی نے بھی مسلمانوں کو پناہ دے دی ہے تو’’خَصائِصِ کُبریٰ‘‘کی روایت کے مطابق انہوں نے بِالاتِّفاق یہ فیصلہ کیا کہ ( حضرت سیِّدُنا ) محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو (مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ) عَلَی الْاِعلانشہید کردیا جائے۔ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا ابو طالِب کو پتا چَلا تو انہوں نے بھی بنی ہاشم و بنی مُطَّلِب کوجَمع کرکے کہا کہ ( حضرت سیِّدُنا) مُحمّد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو تَحفُّظ کی خاطرِ اپنے شِعْب (یعنی دَرّے۔ گھاٹی ) میں لے چلو۔ چُنانچِہ ایسا ہی کیا گیا ۔ (خصائصِ کُبریٰ ج۱ص۲۴۹) یہ دَرّہ مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں واقِع ہے جو بنی ہاشم کا مَوروثی تھا۔ اور ’’شِعْبِ ابی طالِب‘‘ کہلاتا تھا۔ (دو پہاڑوں کے درمیانی راستے یا وہاں کے خشک قِطعے یعنی زمین کو شِعْب کہتے ہیں )
جب کُفّارِ قریش کو پتا چلا کہ بَنی ہَاشِم و بَنی مُطَّلِب نے (سوائے ابولہب کے) بِلا امتیازِ مذہب، سلطانِ عرب ،محبوبِ رب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو اپنے ذِمّے لے لیا ہے، تو اُنہوں نیمُحَصَّب میں جو کہمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً او ر مِنٰی شریف کے درمیان واقِع ہے، آپس میں عہد کیا کہ ’’ جب تک’’ بنو ہاشِم‘‘ مُحمّد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کو اِن کے حوالے نہیں کریں گے کوئی شخص ان سے کسی قسم کا تعلُّق نہیں رکھے گا۔ نہ اِن کے پاس کوئی چیزفروخت کی جائے گی نہ ان سے رِشتہ ناطہ کیا جائے گا اور نہ ہی اِنہیں کُھلے بندوں پھرنے دیا جائے گا۔ ‘‘یہ مُعاہَدہ لکھ کر کعبۂ مُشرَّفہ کے دروازۂ مبارَکہ پر لٹکا دیا گیا۔ کُفّارِ قریش نے اس پر سختی سے عمل کرتے ہوئے بَنوہاشِم اور بَنُو عبدالمُطَّلب کا مُکمل طور پر ’’سماجی قَطْع تعلُّق‘‘ (یعنی سَوشل بائیکاٹ) کردیا۔ چُنانچِہ یہ دونوں خاندان بھی مُسلمانوں کے ساتھ’’ شِعْبِ ابی طالب‘‘ میں مَحصُور (یعنی مُقیّد) تھے۔
بڑی سختی سے کرتے تھے قریش اِس گھر کی نگرانی نہ آنے دیتے تھے غلّہ ادھر تاحدِّ اِمکانی
کوئی غَلّے کا سوداگر اگر باہَر سے آجاتا تو رستے ہی میں جا کر بُولَہَب کمبخت بہکاتا
پہاڑوں کا دَرّہ اِک قَلعۂ مَحصُور تھا گویا خُدا والوں کو فاقوں مارنا منظور تھا گویا
رسولُ اللّٰہ لیکن مُطمئن تھے اور صابِر تھے
خُدا جس حال میں رکھے اِسی حالت پہ شاکر تھے
اب صورتِ حال یہ تھی کہ مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں باہَر سے جو بھی غَلّہ (یعنی اناج) آتا کُفّارِ جفا کاراسے خود ہی خریدلیتے اور مُسلمانوں تک نہ پہنچنے دیتے ۔ جب مَحصُورِین (یعنی شِعْبِ ابی طالِب میں مُقَیّد رہنے والوں ) کے بچے بھوک سے بِلبِلاتے تو کُفّارِ ناہَنجار اِن کی آوازوں پر قَہقَہے لگاتے اور خُوشی مناتے تھے،