اصول حدیث پرمشتمل ایک آسان اور ابتدائی کتاب
نصابِ اصول حدیث
مع
افاداتِ رضویہ
پیشکش
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبۂ درسی کتب)
ناشر
مکتبۃ المد ینہ باب المدینہ کراچی
وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رسول اللہ
نام کتاب : نصاب اصول حدیث مع افادات رضویۃ
پیش کش : مجلس المدینۃ العلمیۃ(شعبۂ درسی کتب )
سن طباعت : ۳ رجب المرجب ۱۴۳۰ھ، ۲۷جون۲۰۰۹ء
کل صفحات : 95 صفحات
ناشر : مکتبۃ المدینہ فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی
قیمت :
مکتبۃ المدینہ کی شاخیں
٭… کراچی : شہید مسجد، کھارا در، باب المدینہ کراچی فون: ـ021-32203311
٭… لا ہو ر : داتا دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ فون: 042-37311679
٭… سردار آباد : (فیصل آباد)امین پور بازار فون: 041-2632625
٭… کشمیر : چوک شہیداں ، میر پور فون: 058274-37212
٭… حیدر آباد : فیضانِ مدینہ،آفندی ٹاؤن فون: 022-2620122
٭… ملتان : نزد پیپل والی مسجد، اندرون بوہڑ گیٹ فون: 061-4511192
٭… اوکا ڑہ : کالج روڈبالمقابل غوثیہ مسجد، نزد تحصیل کونسل ہال فون: 044-2550767
٭… راولپنڈی : فضل داد پلازہ، کمیٹی چوک، اقبال روڈ فون: 051-5553765
٭… خان پور : دُرانی چوک، نہر کنارہ فون: 068-5571686
٭… نواب شاہ : چکرا بازار، نزد MCB فون: 0244-4362145
٭… سکھر : فیضانِ مدینہ،بیراج روڈ فون: 071-5619195
٭… گوجرانوالہ : فیضانِ مدینہ،شیخوپورہ موڑ،گوجرانوالہ فون: 055-4225653
٭… پشاور : فیضانِ مدینہ،گلبرگ نمبر1،النور اسٹریٹ، صدر
E.mail: ilmia@dawateislami.net
www.dawateislami.net
مد نی التجاء : کسی اور کو یہ کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
’’بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ‘‘کے ۱۹ حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی۱۹ ’’نیتیں ‘‘
فرمانِ مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہ۔ یعنی مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
(المعجم الکبیر للطَبَراني، الحدیث: ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵)
دو مَدَنی پھول:
{۱} بغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔
{۲}جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔
{۱}ہر بارحمد و {۲}صلوٰۃ اور{۳}تعوُّذو{۴}تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔(اسی
صفحہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے
گا)۔ {۵}رِضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لیے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ {۶} حتَّی الْوَسْعْ اِس کا باوُضُو اور {۷}قِبلہ رُو مُطالَعَہ کروں گا{۸}کتاب کو پڑھ کرکلاماللہ وکلام
رسولاللہ عزوجل وَ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوصحیح معنوں میں سمجھ کر اوامر کا
امتثال اور نواہی سے اجتناب کروں گا {۹}درجہ میں اس کتاب پر استاد کی بیان کردہ توضیح توجہ سے سنوں گا {۱۰}استاد کی توضیح کو لکھ کر ’’اِسْتَعِنْ
بِیَمِیْنِکَ عَلَی حِفْظِکَ‘‘پر عمل کروں گا{۱۱}طلبہ کے ساتھ مل کر
اس کتاب کے اسباق کی تکرار کروں گا{۱۲}اگر کسی طالب علم نے کوئی نامناسب سوال کیا تو اس پر ہنس کر اس کی دل آزاری کا سبب نہیں بنوں گا {۱۳}درجہ میں کتاب ، استاد اور درس کی تعظیم کی خاطر غسل کرکے،صاف مدنی لباس میں ،خوشبو لگا کر حاضری دوں گا{۱۴}اگر کسی طالب علم کو عبارت یامسئلہ سمجھنے میں دشواری ہوئی تو حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کروں گا{۱۵}سبق سمجھ میں آجانے کی صورت میں حمد الٰہی عَزَّوَجَلَّ بجا لاؤں گا{۱۶}اورسمجھ میں نہ آنے کی صورت میں دعاء کروں گااور باربارسمجھنے کی کوشش کروں گا{۱۷}سبق سمجھ میں نہ آنے کی صورت میں استاد پر بدگمانی کے بجائے اسے اپنا قصور تصور کروں گا{۱۸}کتابت وغیرہ میں شَرْعی یا فنی غلَطی ملی تو نا شرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا(مصنّف یاناشِرین وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا) {۱۹}کتاب کی تعظیم کرتے ہوئے اس پرکوئی چیزقلم وغیرہ نہیں رکھوں گا۔اس پر ٹیک نہیں لگاؤں گا۔
٭…٭…٭…٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
از:بانیِ دعوتِ اسلامی ،عاشق اعلیٰ حضرت، شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت،
حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
الحمد للّٰہ علی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اِشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسن وخوبی سر انجام دینے کے لیے متعدِّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُاللہ تعالٰی پر مشتمل ہے ،جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔
اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں :
(۱)شعبۂ کتُبِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ (۲)شعبۂ درسی کُتُب
(۳) شعبۂ اِصلاحی کُتُب (۴)شعبۂ تفتیشِ کُتُب
(۵)شعبۂ تراجِم کُتُب (۶)شعبۂ تخریج
’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلی حضرت
اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت،عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی ٔ سنّت، ماحی ٔبِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری الشّاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسعسَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ،تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِ س کی ترغیب دلائیں ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ!
رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے کہ : نَضَّرَاللہ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثًا فَحَفِظَہُ حَتَّی یُبَلِّغَہٗ (سنن ابو داود وابن ماجۃ و ترمذی وغیرہا)یعنیاللہ عَزَّوَجَل اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے یاد کر لیا یہاں تک کہ اسے (دوسروں تک) پہنچا دیا۔
سبحاناللہ عَزَّوَجَلَّ حدیث کو سن کراسے یاد رکھنے والا پھر اسے آگے پہنچانے والا کس قدر خوش نصیب ہے کہاللہ عَزَّوَجَل کے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی کن کی کنجی والی زبانِ اقدس سے اس کے لئے پھلنے پھولنے اور ترو تازہ رہنے کی دعا فرمارہے ہیں ۔اللہ عَزَّوَجَل ہمیں بھی انکی دعاؤں سے حصہ عطا فرمائے ۔اٰمین۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر وہ بات جو حضور نبی کریم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃ وَ التَّسْلِیْم کی طرف منسوب کر دی جائے وہ حدیث ہو یہ ضروری نہیں ، اس لئے کہ علماء و محدثین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ حضور سید المعصومین عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کی طرف بہت سی ایسی من گھڑت باتیں بھی منسوب کر دی گئی ہیں جو کہ فی الواقع آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث نہیں اس قسم کی من گھڑت و نام نہاد
احادیث کو اصطلاح میں احادیث ِموضوعہ کہتے ہیں ۔لہذا معلوم ہوا کہ احادیث کو یا د کرنے اور انہیں آگے پہنچانے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ فی الواقع احادیث ہیں بھی یا نہیں ۔ اب یہ پہچان عموما دو ہی طریقوں سے ہوتی ہے ۔
(۱)…معتبر ومستند علماء کے احادیث کو بیان کرنے سے چاہے زبانی بیان کرنے سے یا کتب و رسائل میں تحریراً بیان کرنے سے۔
(۲)… احادیث کو علمِ اصولِ حدیث کے ذریعے پرکھنے سے۔
لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ احادیث کی صحت و سقم کو پرکھنے کا پہلا طریقہ بھی اسی دوسرے طریقے پر موقوف ہے اس لئے کہ علماء کا کسی حدیث کو صحیح یا موضوع فرمانا اسی علمِ اصولِ حدیث کے ذریعے ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس علم یعنی علمِ اصولِ حدیث کے بارے میں کہا گیا ہے ۔
اِنَّہٗ مِنْ فُرُوْضِ الْکِفَایَۃِ اِذَا قَامَ بِہِ الْبَعْضُ سَقَطَ عَنِ الْبَاقِیْنَ فَاِنْ فَرَطَتْ فِیْہِ الْأُمَّۃُ أَثِمَتْ کُلُّہَا۔
یعنی یہ علم فرض کفایہ علوم میں سے ہے اگر بعض نے اسے حاصل کر لیا تو باقی لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہو جائے گی اور اگر پوری امت نے اس میں لا پرواہی کی توساری کی ساری گناہگار ہو گی۔
علمِ اصولِ حدیث کی اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر تبلیغِ قرآن و سنت کی عالم گیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کی مجلس ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کے ’’شعبۂ درسی کتب‘‘ نے یہ مختصر رسالہ بنام’’ نصابِ اصولِ حدیث‘‘ پیش کرنے کی سعی کی ہے۔اسے مرتب کرنے میں زیادہ تر دو کتب ’’نزھۃ
النظر شرح نخبۃ الفکر‘‘ اور’’ تیسیر مصطلح الحدیث‘‘ کو مدِ نظر رکھا گیا ہے گویا کہ یہ ان دونوں کتابوں کا خلاصہ ہے، تا کہ اگلے درجے میں طلبہ کو یہ کتب سمجھنے میں قدرے آسانی ہو۔
ہماری اس سعی میں اگر اہلِ علم کتابت کی یا فنی و شرعی غلطی پائیں تو مجلس کو تحریراً مطلع فرما کر مشکور ہوں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ علماء اہلسنت کا سایۂ عاطفت ہمارے سروں پر تا دیر قائم رکھے اور ہمیں ان کے فیوض و برکات سے مستفیض و مستنیر فرمائے نیز تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت ِاسلامی کی تمام مجالس بشمولمجلس’’المدینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں رات بارہویں ترقی و عروج عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ سید المرسلین صلیاللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
شعبۂ درسی کتب
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوت ِاسلامی)
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کسی بھی علم کی اہمیت کا اندازہ اس علم کے موضوع سے لگایاجاسکتاہے۔ علم اصول حدیث کا موضوع سندومتن یعنی حدیث ہے اورحدیث کی اہمیت کاانکار نہیں کیا جاسکتاکیونکہ شریعت کے بہت سے احکام جس طرح قرآن پرمبنی ہیں اسی طرح حدیث بھی احکام شرعیہ کا ایک اہم ترین ماخذہے۔چنانچہ اس مقدمہ کو چار حصوں پر تقسیم کیا جاتاہے:
(۱) … ضرورتِ حدیث(۲)… حجیت ِحدیث (۳)… تدوین ِحدیث
(۴)…سند ِحدیث کی اہمیت۔
قرآنِ کریم مکمل ضابطۂ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھنا آسان نہیں جب تک کہ احادیثِ معلِّمِ کائنات سے مدد حاصل نہ کی جائے مثال کے طور پر اسلام کے ایک اہم ترین رکن نمازہی کو لیجئے، قرآن کریم میں کم وبیش سات سو(۷۰۰)مقامات پر اس کا تذکرہ ہے اور کئی مقامات پر ا س کے قائم کرنے کا حکم دیاگیاہے جیسا کہاللہ تعالٰی کا فرمان ہے :{ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ }(نماز قائم کرو)۔
چنانچہ اب یہ سمجھنا کہ ’’صـلاۃ ‘‘ہے کیا، اسے کس طرح قائم کیا جائے یہ صرف عقل پرموقوف نہیں اور
اگر اس کا معنی سمجھنے کیلئے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں صرف لغوی معنی ملیں
گے اور اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کے
مابین بہت فرق ہے۔
الغرض اس کے اصطلاحی معنی ہمیں صرف احادیث یعنی سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اقوال وافعال واحوال سے ہی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات کو سمجھنے کیلئے نیز زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں ہادیٔ برحق صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رہنمائی کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہاللہ تعالٰی نے بندوں کو قرآن کریم سکھانے اور انہیں ستھرا کرنے کیلئے نبی ِآخرالزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا، چنانچہ ربّ عزوجل فرماتاہے:
یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴) (آل عمران: ۱۶۴)
ترجمۂ کنزالایمان: ’’ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اورا نہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اسی لئے تواللہ تعالٰی نے آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دنیا میں بھیجا۔اگرقرآن کریم مطلقاًآسان ہوتااور اسے بغیر رہنمائی کے سمجھا جاسکتاتواللہ تعالٰی اس کے سمجھانے کیلئے خصوصی طور پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوبطورِ معلِّمِ کائنات مبعوث کیوں فرماتا؟ نیز قرآن کریم کے آسان ہونے کے باوجود کسی سکھانے والے کو بھیجنا عبث قرار پاتاحالانکہاللہ تبارک وتعالی کی یہ شان نہیں کہ اس کی طرف کوئی عبث وفضول راہ پائے۔
یاد رہے کہ جس طرح قرآن احکامِ شرع میں حجت ہے اسی طرح حدیث بھی۔اور اس سے بہت سے احکامِ شریعت ثابت ہوتے ہیں ۔چنانچہ رب عزّوجلّ فرماتاہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-ترجمۂ کنز الایمان: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو‘‘۔
یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ رحمتِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کچھ عطافرمادیں وہ لے لیا جائے چاہے وہ قول کی صورت میں ہویاکسی اور صورت میں ۔’’خُذُوْہُ‘‘ اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمان پر عمل ضروری ہے۔ایک جگہ فرمایا:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) (النجم: ۳-۴)
ترجمۂ کنزالایمان:’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے‘‘۔
لہذا معلوم ہواکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا احکامِ شریعت کے بارے میں فرمان وحیِ الہی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے رب کا کوئی حکم جاری فرمانا۔ ایک جگہ یوں فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-
ترجمۂ کنزالایمان:جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نےاللہ کا حکم مانا۔
سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو رب نے اپنی اطاعت فرمایا اور ہر عاقل جانتا ہے کہ اطاعت حکم (قول)کی ہواکرتی ہے تومعلوم ہواکہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان (حدیث) حجتِ شرعی ہے کہ جس کی اطاعت کو رب نے اپنی اطاعت فرمایا۔حاصل یہ کہ حدیث حجت شرعی ہے اور اس کا حجت ہونا قرآن سے ثابت ہے۔
تدوین حدیث(حدیث کو جمع کرنے)کا سلسلہ عہدِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے لے کر تبع تابعین تک مسلسل جاری رہا۔اگرچہ ابتدائی دور میں سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو احادیث لکھنے سے منع فرمادیاتھا کیونکہ ابتدائی دور آیاتِ قرآنیہ کے نزول کا دور تھا لہذا اس دور میں صرف قرآن کریم کوہی ضبطِ تحریر میں لانا اہم ترین کام تھا، اور سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ احادیث لکھنے سے منع فرماتے تھے تاکہ قرآن اور احادیث میں التباس نہ ہوجائے چنانچہ ابتداء آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:
’’ لاَ تَکْتُبُوْا عَنِّيْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ ‘‘
میرا کلام نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے سن کر لکھا وہ اسے مٹادے۔
(صحیح مسلم شریف ، کتاب الزہد، جلد۲، ص۴۱۴)
لیکن جوں ہی نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہوااور التباس کے خطرات باقی نہ رہے توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کتابتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔چنانچہ امام ترمذی حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں :
’’کَانَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلٰی رَسُوْلِاللہ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیْثَ فَیُعْجِبُہٗ وَلَا یَحْفَظُہُ فَشَکَا
ترجمہ : ’’انصار میں سے ایک آدمی حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرہوتاپھرآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ارشادات سنتااور خوش ہوتااور ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِاللہ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ’’اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ اِلَی الْخَطِّ‘‘
انہیں یاد نہ رکھ سکتا تو اس نے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لواور ساتھ ہی اپنے دست مبارک سے لکھنے کا اشارہ فرمایا‘‘۔
ایک اور حدیث نقل کرتے ہوئے امام ترمذی فرماتے ہیں ،صحابۂ کرام حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بیٹھ کر احادیث لکھا کرتے تھے،ان میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَکْثَرُ حَدِیْثاً مِنِّیْ اِلاَّ مَا کَانَ مِنْ عَبْدِاللہ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَاِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا أَکْتُبُ‘‘
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سواء صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث محفوظ کرنے والا نہیں کیونکہ وہ احادیث لکھاکرتے تھے اورمیں نہیں لکھتاتھا۔ (جامع ترمذی)
لہذا معلوم ہوا کہ تدوین حدیث
کا سلسلہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابہ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ
اَجْمَعِیْن کے عہد مبارک ہی سے جاری ہوااور سرکارصَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بذات خود اس کی
اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ
کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی طرح تدوین حدیث کا یہ سلسلہ تابعین کے دور میں بھی جاری رہا، ان تابعین میں حضرت سعید بن مسیب، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد بن جبیرمکی، حضرت قتادہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے جلیل القدر تابعین بھی شامل ہیں ۔( رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن)
تابعین کے بعد تیسری صدی ہجری میں ان مشاہیر علما ء نے تدوین حدیث کا کام انجام دیا۔علی بن المدینی، یحیی بن معین، ابوبکرابن ابی شیبہ، ابوزرعہ رازی،ابوحاتم رازی، محمد بن جریر طبری، ابن خزیمہ، اور اسحاق بن راہویہ۔
ان کے بعد امام بخاری ومسلم اور دیگر کئی محدثین نے تدوین حدیث کا کام کیا۔امام بخاری ومسلم، علی بن المدینی ، یحیی بن معین اور اسحاق بن راہویہ کے شاگردوں میں ہیں ۔(اللہ تعالٰی کی ان پر رحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمین)۔
یاد رہے کہ ہر بات جو رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب کر دی جائے حدیث نہیں ہو سکتی بلکہ اس بات کے ثبوت کے لئے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں اس کی سند دیکھی جاتی ہے یعنی اس حدیث کے راویوں (بیان کرنے والوں ) کے حالات و صفات و دیگر لوازمات دیکھے جاتے ہیں ،مثلاان کا ایک دوسرے سے سماع(حدیث سننا) ثابت ہے بھی یا نہیں اور آیا یہ سلسلہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تک متصل ہے یا نہیں ۔راویوں کے اسی سلسلے کو سند یا اسناد کہتے ہیں چونکہ اس سے حدیث کی صحت و سقم یعنی اس کے صحیح و غیر صحیح ہونے کا پتا چلتا ہے اسی لئے علماء و محدثین نے اس اہم ترین موضوع کے لئے باقاعدہ ایک مستقل فن ’’علم اصول حدیث ‘‘مدون فرمایا جس کے ذریعے انھوں نے احادیثِ صحیحہ و غیرِ صحیحہ کوالگ الگ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھایا۔
(اللہ عَزَّوَجَل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو)۔
علم اصول حدیث میں اگرچہ سند ومتن دونوں سے بحث کی جاتی ہے لیکن متنِ حدیث کے مقابلے میں سندِ حدیث پر بہت زیادہ کلام کیا جاتا ہے لہذا ہم یہاں سند ِحدیث کی اہمیت بیان کرتے ہیں ۔
٭…حضرت عبداللہ ابن مبارکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ : ’’الِاسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ لَوْ لَا الِاسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاء مَا شَاء یعنی اسناد دین کا حصہ ہے اگر اسناد نہ ہوتی توجس کے دل میں جو آتا کہتا۔‘‘ (فتح المغیث)
٭…انہی سے مروی ہے کہ: ’’مَثَلَ الَّذِيْ یَطْلُبُ أََمْرَ دِیْنِہٖ بِلَا اِسْنَادٍ کَمَثَلِ الَّذِيْ یَرْتَقِيْ السَّطْحَ بِلَا سُلَّمیعنی اس شخص کی مثا ل جو اپنے کسی امر دینی کو بلا اسناد طلب کرتا ہے اس کی طرح ہے جو سیڑھی کے بغیر چھت پر چڑھنے میں لگا ہو۔‘‘
٭…انہی سے منقول ہے کہ:بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ: یَعْنِي الِاسْنَادَ
یعنی ہمارے او ر دیگر لوگوں کے درمیان قابل اعتماد چیز اسناد ہے ۔(فتح المغیث و مقدمۃ مسلم)
٭…اور امام شافعی رَحِمَہُ اللہِ الْکَافی سے منقول ہے کہ:’’مَثَلَ الَّذِيْ یَطْلُبُ الْحَدِیْثَ بِلا
اِسْنَادٍ کَمَثَلِ حَاطِبِ لَیْلٍیعنی اس شخص کی مثال جو بلا
سند حدیث کو طلب کرتا ہے اس کی مانند ہے جو اندھیری رات میں لکڑیاں تلاش کرتا ہے(مطلب یہ ہے کہ جو شخص اندھیری رات میں لکڑیاں تلاش کرتا ہے تو پھر
ان لکڑیوں کے علاوہ دیگر چیزیں بھی اٹھالیتا ہے یعنی اندھیرے کی وجہ سے وہ امتیاز
نہیں
کرپاتاکہ میں لکڑیاں اٹھا رہا ہوں یا کوئی اور چیز۔یہی مثال اس شخص کی ہے جو حدیث میں کلام کو خلط ملط کرکے پیش کرتا ہے )۔(فتح المغیث)
٭…اور حضرت سفیان ثوریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے کہ:’’الِاسْنَادُ سِلاَحُ الْمُؤْمِنِ فَاِذَا لَمْ یَکُنْ مَعَہٗ سِلاَحٌ فَبِأَيِّ شَیٍٔ یُقَاتِلُیعنی اسناد مؤمن کا ہتھیار ہے اگر اس کے پاس ہتھیار ہی نہیں ہو گا تو وہ کس چیز کی مدد سے لڑے گا۔‘‘(فتح المغیث)
٭…بقیہ نے کہا کہ میں نے حضرت حماد بن زید کو چند احادیث سنائیں تو انھوں نے فرمایا کہ :’’مَا أَجْوَدَہَا لَوْ کَانَ لَہَا أَجْنِحَۃٌ یَعْنِيْ الأَسَانِیْدَ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان احادیث کے پرو بازو بھی ہوتے یعنی اسانید کے ساتھ ذکر کی جاتیں ۔ (فتح المغیث)
٭…اور مطر نےاللہ تعالٰی کے اس فرمان { اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ } (الاحقاف: ۴) کے بارے میں کہا کہ اس سے مراد اسناد ِحدیث ہے۔ (فتح المغیث)
٭…جب امام زہری کو کسی اسحاق بن ابو فروہ نامی شخص نے بغیر اسناد کے چند احادیث سنائیں تو آپ نے اس سے فرمایا:’’قَاتَلَکَ اللہ یَا ابْنَ أَبِيْ فَرْوَۃَ! مَا أَجْرَأَکَ عَلَی اللہ أَنْ لَا تُسْنِدَ حَدِیْثَکَ، تُحَدِّثُنَا بِأحَادِیْثَ لَیْسَ لَھَا خُطُمٌ وَلَا أَزِمَّۃٌ یعنی اے ابن ابو فروہ! تجھےاللہ تباہ کرے تجھے کس چیز نےاللہ پر جری کردیا ہے ؟کہ تیری حدیث کی کوئی سند نہیں ،تو ہم سے ایسی حدیثیں بیان کرتا ہے جن کی نکیل ہے نہ لگام۔(معرفۃ علوم الحدیث)
نوٹ:
خطیب کا قول ہے : ’’وَأَمَّا أَخْبَارُ الصَّالِحِیْنَ وَحِکَایَاتُ
الزُّہَّادِ وَالْمُتَعَبِّدِیْنَ وَمَوَاعِظُ الْبُلَغَائِ وَحِکَمُ الأُدَبَائِ فَالْأَسَانِیْدُ زِیْنَۃٌ لَہَا وَلَیْسَتْ شَرْطاً فِيْ تَأْدِیَتِہَا‘‘مفہوم یہ ہے کہ: صالحین و زاہدین و بزرگان دین کے فضائل کے قصوں کے لئے سند شرط و ضروری نہیں ہاں ایک طرح کی زینت و اضافی خوبی ہے۔
٭…٭…٭…٭
وہ شخص جو سند کے ساتھ حدیث کو نقل کرے۔
وہ مبتدی جو روایت ، درایت ،شرح اور فقہ کے اعتبار سے حدیث پڑھنے میں مشغول ہو۔
وہ شخص جو علم حدیث میں روایۃ درایۃ مشغول ہوااور کثیر روایات اور ان کے راویوں کے حالات پر مطلع ہو۔
وہ محدث جو ایک لاکھ احادیث کی اسانید ومتون کا عالم ہو۔
وہ محدث جسے تین لاکھ حدیثیں اسانید ومتون کے ساتھ یاد ہوں ۔
وہ محدث جسے جملہ احادیث مرویہ اسانید ومتون کے ساتھ یاد ہوں اور وہ
راویوں کے حالات سے پوری طرح واقف ہو۔
حدیث کی وہ کتاب جس میں صرف احادیثِ صحیحہ ذکر کرنے کا التزام کیا گیا ہوجیسے: صحیح بخاری ومسلم۔
حدیث کی وہ کتاب جس میں ابوابِ فقہ کی ترتیب پر فقط احادیث ِاحکام جمع کی گئی ہوں جیسے سنن ابوداود و نسائی۔
حدیث کی وہ کتاب جس میں آٹھ عنوانات کے تحت احادیث لائی جائیں ۔ وہ آٹھ عنوانات یہ ہیں : سیر ، آداب، تفسیر،عقائد، فتن، احکام، اشراط، مناقب۔
حدیث کہ وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی مرویات الگ الگ جمع کی جائیں جیسے مسند امام احمد۔
حدیث کی وہ کتاب جس میں اسمائے شیوخ کی ترتیب سے احادیث لائی جائیں ، جیسے معجم طبرانی ومعجم کبیر،صغیرواوسط۔
وہ کتاب جس میں حدیث کی کسی
دوسری کتاب کی احادیث کے اثبات کیلئے دیگر اسانید سے وہی احادیث جمع کی جائیں ،
جیسے ابو نعیم کی’’ مستخرج
علی الصیحین۔‘‘
وہ کتاب جس میں کسی حدیث کی کتاب پر ایسی حدیثوں کو زائدکیاجائے جو اس کتاب میں قابل ذکر ہونے کے باوجود مذکور نہ ہوں جیسے حاکم کی ’’مستدرک علی الصیحین۔‘‘
وہ چھوٹی کتاب جس میں صرف ایک موضوع کے متعلق احادیث جمع کی گئی ہوں ۔
وہ کتاب جس میں شیخ کے املاء کرائے ہوئے فوائد ونکاتِ حدیث جمع ہوں ۔
وہ کتاب جس میں ایک شخص کی احادیث جمع ہوں جیسے ابراہیم بن عسکری کی مسند ابوہریرہ۔
وہ کتاب جس میں مرسل حدیثیں جمع کی گئی ہوں جیسے ابوداود کی مراسیل۔
٭…٭…٭…٭
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الْمُسَلْسَلِ اِحْسَانُہٗ اَلْمُتَّصِلِ اِنْعَامُہٗ، غَیْرِ مُنْقَطِعٍ وَلَا مَقْطُوْعٍ فَضْلُہٗ وَاِکْرَامُہٗ، وَذِکْرُہٗ سَنَدُ مَنْ لَا سَنَدَ لَہٗ، وَاِسْمُہٗ اَحَدُ مَنْ لَا اَحَدَ لَہٗ، وَاَفْضَلُ الصَّلَوَاتِ العَوَالِي المَنْزُوْلِ، وَاَکْمَلُ السَّلَاَمِ الْمُتَوَاتِرِ الْمَوْصُوْلِ، عَلٰی أَجَلِّ مُرْسَلٍ، کَشَّافِ کُلِّ مُعْضَلٍ، اَلْعَزِیْزِ الَْاَعَزِّ الْمُعِزِّ الْحَبِیْبِ، الْفَرْدِ فِیْ وَصْلِ کُلِّ غَرِیْبٍ، فَضْلُہٗ الْحَسَنُ مَشْہُوْرٌ مُّسْتَفِیْضٌ، وَبِالْاِسْتِنَادِ اِلَیْہِ یَعُوْدُ صَحِیْحاً کُلُّ مَرِیْضٍ، قَدْ جَاءَ جُوْدُہٗ الْمَزِیْدُ، فِیْ مُتِّصِلِ الْاَسَانِیْدِ، بَلْ کُلُّ فَضْلٍ اِلَیْہِ مُسْنَدٌ، عَنْہٗ یُرْوٰی وَاِلَیْہِ یُرَدُّ، فَسُمُوْطُ فَضَائِلِہِ الْعُلْیَۃِ مُسَلْسَلَاتٌ بِالْاَوَّلِیَّۃِ، وَکُلُّ دُرٍّ جَیِّدٍ مِنْ بَحْرِہٖ مُسْتَخْرَجٌ، وَکُلُّ مُدِرِّجُوْدٍ ِفیْ سَائِلِیْہٖ مُدْرَجٌ، فَھُوَ الْمُخْرِجُ مِنْ کُلِّ حَرَجٍ، وَھُوَ الْجَامِعُ، وَلَہٗ الْجَوَامِعُ، عَلَمُہٗ مَرْفُوْعٌ، وَحَدِیْثُہٗ مَسْمُوْعٌ، وَمُتَابِعُہٗ مَشْفُوْعٌ، وَالْاِصْرُ عَنْہٗ مَوْضُوْعٌ، وَغَیْرُہٗ مِنَ الشَّفَاعَۃِ قََبْلَہٗ مَمْنُوْعٌ، فَاِلَیْہِ الِْاسْنَادُ فِیْ مَحْشَرِ الصُّفُوْفِ، وَاَمْرُ الْمُوْقِفُ عَلٰی رَاْیِہٖ مَوْقُوْفٌ، حَوْضُہٗ الْمَوْرُوْدُ لِکُلِّ وَارِدٍ مَسْعُوْدٍ، فَیَافَوْزَ مَنْ ھُوَ مِنْہٗ مُنْہِلٌ وَمَعْلُوْلٌ، فَبِہٖ کُلُّ عِلَّۃٍ مِّنْ مُعَلَّلٍ تَزُوْلُ، حِزْبُہٗ الْمُعْتَبَرُ، وَالشُّذُوْذُ مِنْہُ مُنْکَرٌ، وَطَرِیْقُ الشَّاذِ اِلٰی شَوَاظِ سَقَرَ،
حَافِظُ الْاُمَّۃِ مِنْ الْاُمُوْرِ الدَّلْہَمَۃِ، اَلذَّابُ عَنَّا کُلَّ تَلْبِیْسٍ وَتَدْلِیْسٍ، وَالْجَابِرُ لِقَلْبِ بَائِسٍ مُضْطَرِبٍ مِنْ عَذَابٍ بَئِیْسٍ، اَلْحَاکِمُ الْحُجَّۃُ الشَّاہِدُ الْبَشِیْرُ، مُعْجَمٌ ِفیْ مَدْحِہٖ کُلُّ بَیَانٍ وَتَقْرِیرٍ، عُلُوُّہٗ لَا یُدْرَکُ، وَمَا عَلَیْہِ مُسْتَدْرَکٌ، مَقْبُوْلُہٗ یُقْبَلُ، وَمَتْرُوْکُہٗ یُتْرَکُ، تَعَدَّدَ طُرُقُ الضَّعِیْفِ اِلَیْہِ، فَمِنْ سُنَنَہٖ الصِّحَاحِ اَلتَّعَطُّفُ عَلَیْہِ، فََیَجْبُرُ بِاِعْتِضَادِہِ قَلْبُہٗ الْجَرِیْحُ، وَیَرْتَقِيْ مِنْ ضُعْفِہٖ اِلٰی دَرَجَۃِ الصَّحِیْحِ، مَدَارُ اَسَانِیْدِ الْجُوْدِ وَالِْاکْرَامِ، مُنْتَہٰی سَلاَسِلِ الَْانبیاءِ الْکِرَامِ، صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَسَلَّمَ، مَلأَ آفَاقِ السَّمَائِ وَاَطْرَافِ الْعَالَمِ، وَعَلٰی اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَکُلِّ صَالِحٍ مِّنْ رِجَالِہٖ وَحِزْبِہٖ، رُوَاۃِ عِلْمِہٖ وَدُعَاۃِ شَرْعِہٖ وَوُعَاۃِ اَدَبِہٖ، وَعَلٰی کُلِّ مَنْ لَہٗ وِجَادَۃٌ وَمُنَاوَلَۃٌ مِنْ اَفْضَالِہِ الْوَاصِلَۃِ الدَّارَۃِ الْمُتَوَاصِلَۃِ بِحُسْنِ ضَبْطٍ مَحْفُوْظِ النِّظَامِ، مِنْ دُوْنِ وَہْمٍ وَلَا اِیْہَامٍ، وَلَا اِخْتِلاَطٍ بِالْاَعْدَائِ اللِّیَامِ، مَا رُوِیَ خَبْرٌ وَحُوِیَ اِجَازَۃٌ، وَغَلَبَ حَقِیْقَۃُ الْکَلاَمِ مَجَازَہٗ۔ آمِیْن اَمَّا بَعْدُ:
یہ خطبہ امام اہلسنت مجدددین وملت حضرت علامہ مولاناشاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا تحریر کردہ ہے جس میں تقریبا اسی(۸۰)مصطلحات حدیث کو بطوربراعۃاستہلال نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ ذکر کیا گیاہے جو آپ کی ذہانت، فطانت اورجودتِ طبع پر دال ہے۔مصطلحات مشمولہ درج ذیل ہیں :
٭حدیث٭خبر٭تقریر٭مسموع٭سند٭اسناد٭طریق٭متواتر
٭مشہور٭مستفیض٭عزیز٭غریب٭فرد٭احد٭مقبول٭مردود ٭صحیح ٭متصل ٭موصول ٭وصل ٭متصل الاسانید ٭معلل٭علت ٭شاذ ٭شذوذ ٭ضبط ٭حسن ٭ضعیف ٭اعتضاد ٭محفوظ ٭منکر ٭متابع٭شاہد٭معتبر٭مرسل٭معضل٭منقطع٭مدلس ٭موضوع ٭متروک ٭معلول ٭مدرج ٭مضطرب ٭مزید فی متصل الاسانید ٭اختلاط ٭وہم ٭مرفوع٭ موقوف ٭مقطوع ٭منتھی ٭عوالی ٭نوازل٭ علیۃ ٭علو ٭رجال ٭مسلسل بالاولیت ٭وداۃ ٭دعاۃ ٭صحب ٭روی ٭یروی ٭اجازۃ ٭مناولۃ ٭وجادۃ ٭مجاز ٭صالح ٭جید ٭حافظ ٭حاکم ٭حجت ٭جامع ٭جوامع ٭سنن ٭مسند ٭معجم ٭مستخرج ٭مستدرک ٭صحاح ٭مخرج ۔
ترجمہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے جس کا احسان مسلسل و انعام متصل ہے، اس کا فضل ختم ہوتا ہے ا ور نہ ہی اسکا کرم روکا جاسکتاہے، اس کا ذکر بے کس کاسہارا اور اس کا نام بے بس کا یار اہے۔اور افضل ترین درود جو نزول میں اعلی ترین ہو اور کامل ترین سلام جوپے درپے بغیر فاصلہ کے ہو، نازل ہورسولوں کے سردار پرجوکہ ہرپیچیدگی کوحل کرنے والے، عزیز ، عزیزتر، معزز بنانے والے محبوب ہیں ۔ یکتاہیں ہر غریب کی دستگیری کو پہنچنے میں ۔ان کا فضل حسن مشہور اور ہر ایک کو عام ہے اور ان کے سہارے سے ہر مریض صحیح ہوجاتاہے ان کی زائد ترسخاوت متصل سندوں میں وارد ہے۔بلکہ ہر فضل انہی کی طرف بلند کیا جاتاہے انہی سے سیراب ہوتاہے اور ا نہی کی طرف پھرتاہے لہذاان کے اعلی فضائل کی لڑی اولیت کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ہر عمدہ موتی انہی کے بحر ذخار سے نکالا
جاتاہے اور ہر سخاوت کا(دریا) بہانے والا ان کے مانگنے والوں میں ضم ہے لہذا وہ ہر تنگی سے نکالنے والے ہیں اور کمالات کے جامع ہیں اور انہیں کیلئے جوامع الکلم ہیں ان کا پرچم بلند ہے اور ان کی بات سنی جاتی ہے اور ان کی اتباع کرنے والے کی شفاعت مقبول ہے اور ان سے مستغنی ہونا خسران ہے ، ان سے پہلے اور کوئی شفاعت کیلئے ماذون نہیں تو انہی کی پناہ(سہارا)ہے صف بستہ قوم کے محشر میں اور موقف کا (ہولناک)معاملہ انہی کی رائے پر موقوف ہے ان کا حوضِ (کوثر) ہرسعادت مند کیلئے ہے، تو اس کی کامیابی قابل رشک ہے جوان سے بار بار سیراب ہو،پس انہی سے ہر بیمار کا روگ دور ہوتا ہے انہی کا گروہ قابل تقلید ہے اوراس سے علیحدگی بری ہے اور علیحدہ ہونے والے کا رستہ جہنم کے شعلوں کی طرف ہے،امت کی حفاظت کرنے والے ہیں تاریک حادثات سے، ہم سے دور کرنے والے ہیں ہر شک و عیب کو اور جوڑنے والے ہیں پریشان کے دل کو جو کہ بے چین ہو سخت عذاب کے خوف سے ۔حاکم، دلیل، گواہ اور خوشخبری دینے والے ہیں ، جن کی مدح میں ہر بیان وتقریر تشنہ ہے، ان کی بلندی تک نہیں پہنچا جاسکتا دریں حال کہ ان پر کوئی عیب نہیں ،انکا مقبول مقبول ہے اور ان کا دھتکارا ہوا مردود ہے، ناتواں کے لئے ان کی بارگاہ تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں پس ان کی عمدہ سنتوں میں سے کمزور پر مہربانی کرنابھی ہے لہذا ان کا دامن تھا منے سے اس کا زخمی دل دلاسہ پاتاہے اور اپنی کمزوری سے درست ہوکر تندرست کے مرتبے تک بلند ہوجاتاہے، آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخاوت وکرم کی سندوں کے سرچشمہ ہیں انبیاء کرام کے سلسلے کو انتہاء تک پہنچانے والے ہیں ،اللہ تعالٰی کا درود وسلام ہو ان پر اور دیگر انبیاء پرایسا درود وسلام جوآسمان کے افق اور عالم کے کناروں کو بھردے، اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آل واصحاب
پر اور آپ کے عہد مبارک اور لشکر کے ہرفرد ِصالح پر درود وسلام ہوجو کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم کے راوی اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت کے داعی اور آپ کے ادب کے محافظ ونگہبان ہیں اور ہر اس شخص پر درودوسلام ہوجو کہ پانے والا اور حاصل کرنے والا ہے آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مسلسل ولگاتار متواتر فضل سے قوی حافظہ کے ذریعے محفوظ نظام کو کسی وہم وایہام کے بغیر اور کمینے دشمنوں سے ملے بغیر اس حال میں کہ اس نے کوئی اپنی تجرباتی بات اور من مانی سند بیان نہیں کی ،اور اس کے کلام کی حقیقت اس کے مجاز پر غالب ہے۔آمین۔
وہ قول، فعل یا تقریر جسے سرکارصلیاللہ تعالٰی علیہ والہ وسلمکی طرف منسوب کیاگیاہو، اسی طرح صحابی یاتابعی کی طرف نسبت کی گئی ہوتواسے بھی حدیث کہہ دیاجاتاہے ۔
نوٹ:
تقریر سے مراد یہ ہے کہ کسی نے سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں کوئی کام کیایابات کہی اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے منع نہیں فرمایا بلکہ سکوت فرماکر اسے مقرررکھا۔
ایک قول کے مطابق یہ دونوں مترادف ہیں ، جبکہ ایک قول کے مطابق حدیث وہ ہے جو سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب ہے جبکہ خبر عام ہے چاہے سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف منسوب ہویاآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غیر کی طرف۔
نوٹ:
اس کتاب میں جہاں بھی خبراور حدیث کے الفاظ استعمال ہوں تو پہلے
والے معنی مراد ہونگے۔
اس کے بارے میں دو قول ہیں ایک قول کے مطابق اثر اور حدیث دونوں مترادف ہیں ، اور ایک قول کے مطابق دونوں میں فرق ہے کہ اثر وہ ہے اقوال وافعال ہیں جو صحابہ وتابعین کی طرف منسوب ہوں۔
راویوں کا وہ سلسلہ جو متن تک لے جائے، اسے اسناد بھی کہتے ہیں ۔
جس کلام پر سند کی انتہاء ہوجائے۔
ایسے اصول وقواعد کا علم جن کے ذریعے قبول ورد کے اعتبارسے سند ومتن کے احوال جانے جائیں ۔
سند ومتن، قبول ورد کے اعتبار سے۔
صحیح وغیر صحیح احادیث کی پہچان۔
’’الوسیط‘‘ میں ہے اس علم کو
حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اگر ساری امت میں اس کا عالم نہ پایاجائے توساری امت
گنہگار ہوگی۔
کلاماللہ کے بعد یہ علم تمام علوم سے اشرف وافضل ہے۔
حدیث کی درج ذیل گیارہ اعتبارات سے تقسیمات کی گئی ہیں ۔
(۱)…کثرت وقلتِ طرق کے اعتبارسے خبر کی اقسام:
متواتر، مشہور ، عزیز، غریب
(۲)…غرابتِ سند کے اعتبار سے خبر غریب کی اقسام:
فرد مطلق، فرد نسبی
(۳)…قابلِ استدلال ہونے یا نہ ہونے کے اعتبارسے خبر واحد کی اقسام:
مقبول ، مردود
(۴)…صفاتِ راوی کے اعتبار سے خبر مقبول کی اقسام:
صحیح لذاتہ، صحیح لغیرہ، حسن لذاتہ، حسن لغیرہ
(۵)…دوراویوں کے درمیان الفاظِ حدیث میں اختلاف کی وجہ سے خبر کی اقسام: محفوظ ، شاذ، معروف، منکر
(۶)…دوراویوں کے درمیان الفاظ ِحدیث میں موافقت کے اعتبار سے فرد نسبی کی اقسام: متابِع، متابَع، شاہد
(۷)…خبرِ مقبول کے معارضہ سے سلامت ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے اس کی اقسام: محکم، مختلف الحدیث، ناسخ، منسوخ
(۸)…سند میں سقوط ِراوی کے اعتبار سے خبر مردود کی اقسام:
معلق ، مرسل، معضل، منقطع، مدلس
(۹)…راوی میں طعن کے اعتبار سے خبر مردود کی اقسام:
موضوع، متروک، منکر ، معلل
(۱۰)…راوی کی طرف سے حدیث میں اضافہ یاتغیر وتبدل کرنے کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:
مدرج السند، مدرج المتن، مقلوب،
مزید فی متصل الاسانید، مضطرب، مصحف ومحرف
(۱۱)…مدارومصدر کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:
حدیث ِقدسی ، حدیث ِمرفوع، حدیث ِموقوف ، حدیث ِمقطوع
٭…٭…٭…٭…٭…٭
ٍ یادرہے کہ خبر یاتو کثیر طرق یعنی اسانید سے مروی ہوگی یا قلیل طرق سے۔ اس کثرت وقلت طرق کے اعتبار سے خبر کی چار اقسام ہیں :
۱۔خبرِ متواتر ۲۔خبرِ مشہور ۳۔خبرِ عزیز ۴۔خبرِ غریب
وہ حدیث جس کو سند کے ہر طبقہ میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد روایت کرے جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلا محال ہو اور سند کی انتہاء امرِ حسی پر ہو۔
حدیث کے درجہ تواتر تک پہنچنے کیلئے چار شرائط ہیں :
(۱)حدیث کے راوی کثیر ہوں ۔(۲)یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے یعنی ابتداء سے انتہاء تک راوی کثیر ہوں ۔(۳)یہ کثرت اس درجہ کی ہوکہ عادۃ یا اتفاقا ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔(۴)سند کی انتہاء امرِ حسی پر ہویعنی سند کا آخر’’ سَمِعْنَا‘‘ یا’’ رَأَیْنَا‘‘، وغیرہ الفاظ ہوں اور اگر سند کی انتہاء امر عقلی پر ہو مثلا عالم کا حادث ہونا تو یہ خبر متواتر نہیں ۔
’’مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘‘ترجمہ : جس
نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔اس حدیث پاک کو ستر سے زائد صحابہ کرام عَلَیْہِم الرِّضْوَان نے روایت کیا۔
خبرِ متواتر پر عمل کرنا واجب ہے اور یہ علم ضروری (علم بدیہی)کا فائدہ دیتی ہے اس کے راویوں کے حالات پربحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
خبرمتواتر کی دو قسمیں ہیں :
(۱)…متواترِ لفظی (۲)…متواترِ معنوی
وہ خبر جس کے الفاظ اور معانی دونوں متواتر ہوں ۔
اس کی مثال اوپر گزرچکی ہے۔(مَنْ کَذَبَ۔۔۔۔الخ)
وہ خبر جس کے صرف معانی متواتر ہوں الفاظ متواتر نہ ہوں ۔
متواتر معنوی کی مثال وہ احادیث ہیں جن میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے یہ احادیث ۱۰۰کے لگ بھگ ہیں جن میں سے ہر حدیث
میں یہ الفاظ موجود ہیں :’’ أَنَّہٗ رَفَعَ یَدَیْہٖ فِي الدُّعَاء ‘‘ یعنی آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا میں ہاتھ بلند فرمائے۔اب اگرچہ یہ عمل مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں ہوااور ان میں سے ہر واقعہ متواتر نہیں لیکن ان میں تمام احادیث میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا میں ہاتھ بلند فرمائے۔
وہ حدیث جس کے راوی ہر طبقے میں کم ازکم تین ہوں لیکن حدِ تواتر سے کم ہوں ۔
’’اَلْمُسْلِمُ مَنْ َسلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ‘‘۔ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ) ترجمہ: کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان سلامت رہیں ۔
اس سے علم طمانینت حاصل ہوتاہے اور اس سے ثابت ہونے والا حکم واجب العمل ہوتاہے۔
وہ حدیث جس کی سند کے کسی بھی طبقے میں کم ازکم دو راوی رہ جائیں ، یعنی سند کے کسی بھی طبقے میں دو راوی آگئے تو حدیث عزیز ہوگی، اگرچہ دیگر طبقات میں دو سے زائد راوی ہوں ۔
’’لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ‘‘(البخاری ومسلم)
ترجمہ:
تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔ اس حدیث مبارک کو صحابۂ کرام میں سے حضرت ابوہریرہ اور حضرت انسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے روایت کیا پھر حضرت انسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے حضرت قتادہ اور عبد العزیز نے پھر حضرت قتادہ سے شعبہ اور سعید نے پھر عبد العزیز سے اسماعیل بن علیہ اور عبد الوارث نے۔
خبرِ عزیز ظن کا فائدہ دیتی ہے لیکن قرائن وشواہد سے قوت پاکریہ بھی واجب العمل حکم کا فائدہ دیتی ہے۔
وہ حدیث جس کی سند کے کسی بھی طبقہ میں ایک راوی رہ جائے ،اب یہ عام ہے چاہے یہ تفرد ایک طبقے میں پایا جائے یا ایک سے زائد یا جمیع طبقات سند میں ۔
’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘(اعمال کادارومدار نیتوں پر ہے)سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس حدیث کو روایت کرنے میں حضرت عمر فاروقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ متفرد( تنہاہیں ) ۔کبھی یہ تفرد سند کے تمام طبقات میں ہوتاہے۔
خبر غریب ظن کا فائدہ دیتی ہے تاہم اس کی تائید میں قرائن وشواہد کے ملنے سے اس پربھی عمل ضروری ہوجاتاہے۔
خبر متواتر کے علاوہ حدیث کی آخری تین اقسام(مشہور، عزیزاور غریب) میں سے ہر ایک کو خبرِ واحد بھی کہتے ہیں ۔لہذا شروع میں حدیث کی یوں تقسیم کی جاسکتی ہے۔
حدیث کی دو اقسام ہیں :
(۱)…متواتر (۲)…اخبار آحاد۔
پھر اخبار آحاد کی تین قسمیں ہیں :
(۱)…مشہور (۲)…عزیز (۳)…غریب
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):کس اعتبار سے حدیث،خبر متواترومشہور وعزیزوغریب میں تقسیم ہوتی ہے؟
سوال نمبر (2):خبر متواترکی تعریف، مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (3):خبر متواترکی شرائط واقسام بیان کریں ۔
سوال نمبر (4):خبرمشہور کی تعریف مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (5):خبرعزیزکی تعریف مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (6):خبرغریب کی تعریف مثال اور حکم بیان کریں ۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
سند میں غرابت کے اعتبار سے خبرِ غریب کی دو قسمیں ہیں :
(۱)…فردِ مطلق (۲)… فردِ نِسبی
وہ حدیثِ غریب جس کی اصل سند میں غرابت ہو، اصل سند سے مراد سند کی وہ طرف ہے جس میں صحابی ہو۔یعنی صحابی سے صرف ایک تابعی روایت کرے۔
’’اَلْوَلَاءُ لُحْمَۃٌ کَلُحْمَۃِ النَّسَبِ لَا یُبَاعُ وَلاَ یُوْھَبُ وَلَا یُوْرَثُ‘‘ترجمہ: ولاء نسبی رشتے کی طرح ایک رشتہ ہے اسے نہ بیچاجاسکتاہے نہ ہبہ کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس کا وارث ہوا جاسکتاہے۔اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن دینار (تابعی) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے اکیلے روایت کیا ہے۔
وہ حدیثِ غریب جس کے درمیانِ سند میں غرابت ہویعنی اصلِ سند میں تو راوی کثیر ہوں لیکن اثناءسند میں کوئی راوی اکیلا رہ جائے۔
’’أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَکَّۃَ وَعَلٰی رَأْسِہٖ الْمِغْفَرُ۔‘‘ترجمہ:نبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مکہ میں داخل ہوئے اس حال میں کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سر اقدس پر خَود تھا۔اس حدیث کے درمیانِ سند میں امام مالک، امام زہری سے روایت کرنے میں منفرد ہیں ۔
نوٹ:
(i)فرد مطلق اور فرد نسبی خبر غریب کی قسمیں ہیں اور خبر غریب کا حکم گذرچکا ہے لہذا اعادہ کی ضرورت نہیں ۔(ii)فرد کا اکثر اطلاق فرد مطلق پر اور غریب کا اکثر اطلاق فرد نسبی پر ہوتاہے۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):فرد مطلق وفرد نسبی کس حدیث کی اقسام ہیں ؟
سوال نمبر (2):فرد مطلق وفرد نسبی کی طرف حدیث کی تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
سوال نمبر (3):فرد مطلق کی تعریف مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (4):فرد نسبی کی تعریف مثال اور حکم بیان کریں ۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر خبر قابل استدلال نہیں ہوتی بلکہ بعض اخبار سے استدلال کیا جاسکتاہے اوربعض میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی لہذا اس اعتبار سے خبر واحد کی اقسام یہ ہیں : (۱)خبر مقبول(۲)خبر مردود
وہ حدیث جس کے مخبر کا صدق راجح ہو۔
خبرِ مقبول قابلِ استدلال ہوتی ہے اور اس سے ثابت ہونے والے حکم پر عمل کرنا واجب ہوتاہے۔
وہ حدیث جس کے مخبر کا صدق راجح نہ ہو۔
خبرِ مردود قابلِ استدلال نہیں ہوتی لہذا اسے بطورِ حجت پیش نہیں کیا جاسکتا۔
نوٹ:
خبر مقبول اور مردود کی مثالیں آگے آئیں گی۔
نوٹ:
کسی حدیث کے مردود ہونے کے دو اسباب ہیں :
(۱)…سند سے کسی راوی کاسقوط (۲)…راوی میں طعن۔
اس کی قدرے تفصیل عنقریب آئے گی۔
٭…٭…٭…٭
سوال (۱):خبر مقبول وخبر مردودکونسی حدیث کی اقسام ہیں نیز حدیث کی یہ تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
سوال (۲):خبر مقبول کی تعریف وحکم بیان کریں ۔
سوال (۳):خبر مردود کی تعریف وحکم بیان کریں ۔
سوال (۴):اسباب ِرد کتنے اور کون کون سے ہیں ؟
٭…٭…٭…٭
صفات راوی کے اعتبار سے خبر مقبول کی درج ذیل چار اقسام ہیں :
(۱)…صحیح لذاتہ (۲)…صحیح لغیرہ
(۳)…حسن لذاتہ (۴)…حسن لغیرہ
وہ حدیث جس کی سند متصل ہو، تمام راوی عادل ضابط ہوں اور اس حدیث میں علت ِقادحہ وشذوذ ([2])نہ ہو۔
اس تعریف سے صحیح لذاتہ کی درج ذیل شرائط معلوم ہوئیں ۔(۱)سند متصل ہو(۲)راوی عادل ہوں (۳)راوی ضابط ہوں (۴) حدیث شاذ نہ ہو(۵)حدیث غیر معلل ہو۔اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط مفقود ہوتو
حدیث صحیح لذاتہ نہیں کہلائے گی([3])۔
حَدَّثَنَا عَبْدُاللہ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ ابْنِ شِہِابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّوْرِ۔(رواہ البخاری فی کتاب الاذان)ترجمہ:’’ہمیں عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا: فرماتے ہیں کہ ہمیں خبر دی مالک نے وہ روایت کرتے ہیں ابن شہاب سے اور ابن شہاب روایت کرتے ہیں محمد بن جبیر بن مطعم سے اور وہ اپنے والد سے کہ ان کے والد نے کہا میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سنا کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مغرب میں سورۂ طور کی تلاوت فرمائی‘‘۔
وہ حدیث جس کے راویوں میں صحیح لذاتہ کی تمام شرائط پائی جائیں لیکن ضبط روایت میں کچھ کمی ہو۔لیکن تعددِطرق سے یہ کمی پوری ہوجائے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أَبِيْ سَلْمَۃَ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ
اللہِ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِيْ لَاَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ۔
ترجمہ:
محمد بن عمرو سے روایت ہے وہ ابو سلمہ سے اور ابو سلمہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگرمجھے اپنی امت پر مشقت کا خوف نہ ہوتاتومیں انہیں ہرنماز کیلئے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔
حافظ ابن صلاح علوم الحدیث میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی محمد بن عمرو بن علقمہ صدق وعفت میں تومشہور ہیں لیکن یہ اہل ضبط واتقان میں سے نہیں ہیں یہاں تک کہ بعض محدثین نے ان کو ان کے سوئِ حفظ کی وجہ سے ضعیف قرار دیاہے اور بعض نے ان کے صدق اور جلالت کی وجہ سے ان کی توثیق کی ہے لہذا اس اعتبارسے ان کی حدیث حسن ہے۔لیکن اس حدیث کے ایک اور سند سے مروی ہونے کی وجہ سے وہ خدشہ دورہوگیا جو کہ راوی میں سوئِ حفظ کے سبب پیداہواتھا اور اس حدیث میں جو نقصان پہلے تھا اس کی تلافی دوسری حدیث سے ہوگئی تویہ حدیث صحیح لغیرہ کے مرتبہ پرپہنچ گئی۔
وہ حدیث جس کے راویوں میں صحیح لذاتہ کی تمام شرائط پائی جائیں لیکن ضبطِ روایت میں کچھ کمی ہواور یہ کمی کسی اور ذریعے سے پوری نہ ہو۔
حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الضَّبْعِي عَنْ أَبِی عِمْرَانَ الْجَوْنِي عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی مُوْسَی الْاَشْعَرِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِی بِحَضْرَۃِ الْعَدُوِّ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلِاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ’’اِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّۃِ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّیُوْفِ‘‘
ترجمہ:’’ حضرت قتیبہ سندِ مذکور کے ساتھ حضرت ابو موسی اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے دشمن کی موجودگی میں اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:’’ بے شک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں ۔‘‘ یہ حدیث حسن لذاتہ ہے کیونکہ اس کی اسناد کے چاروں رجال ثقہ ہیں سوائے جعفر بن سلیمان الضبعی کے کیونکہ ان کے ضبط میں کچھ کمی ہے اور یہ کمی کسی اور ذریعے سے پوری نہ ہوسکی۔
وہ حدیث ضعیف جس کا ضعف تعددِ طرق سے ختم ہوجائے([4])۔
’’عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَیْدِاللہ عَنْ عَبْدِاللہ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ امْرأَۃً مِنْ بَنِيْ فَزَارَۃَ تَزَوَّجَتْ عَلٰی نَعْلَیْنِ فَقَالَ رَسُوْلُاللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرَضِیْتِ مِنْ نَفْسِکِ وَمَالِکِ بِنَعْلَیْنِ؟ قَالَتْ نَعَمْ۔ فَأَجَازَ۔‘‘
ترجمہ: عاصم بن عبیداللہ مذکورہ سند سے روایت کرتے ہیں کہ بنو فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتوں کے عوض نکاح کرلیا تورسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس عورت سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے نفس اور مال کے بدلے میں دوجوتوں کے معاوضہ پر راضی ہو؟اس نے عرض کی ہاں توآپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نکاح کی اجازت دے دی۔ اس حدیث کا ایک راوی عاصم بن عبیداللہ سوء حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن چونکہ یہ حدیث متعدد صحابۂ کرام سے مروی ہے اس لیے حسن لغیرہ ہے۔
یاد رہے یہ چاروں اقسام قابل استدلال ہیں یعنی ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے([5]) کیونکہ یہ مقبول کی اقسام ہیں لیکن صحیح لذاتہ واجب العمل ہے۔
حسن لغیرہ حسن لذاتہ سے مرتبہ میں کم ہوتی ہے اگر کہیں ان دونوں میں
تعارض آجائے توحسن لذاتہ کو ترجیح دی جائے گی۔
نوٹ:
چونکہ حسن لغیرہ کو سمجھنا خبر ضعیف کو سمجھنے پر موقوف ہے لہذا ضمنا خبر ضعیف کی تعریف درج کی جاتی ہے۔
وہ حدیث جس کے راویوں میں صحیح اور حسن کی تمام یا بعض شرائط مفقود ہوں اور یہ کمی پوری نہ ہو۔
رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :’’اَلدِّیْکُ الْاَبْیَضُ صَدِیْقِيْ وَصَدِیْقُ صَدِیْقِيْ وَعَدُوُّ عَدُوِّ اللہِ‘‘
سفید مرغ میرا دوست اورمیرے دوست کا خیر خواہ اوراللہ کے دشمن کا دشمن ہے۔(کتاب الموضوعات لابن الجوزی)
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث مقبول ہے([7]) نیز مواعظ، ترغیب اور
ترہیب کے سلسلے میں بھی ضعیف احادیث بیان کی جا سکتی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ ضعیف حدیث کی نسبت بالجزم سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کرنا روانہیں ہاں یوں کہا جاسکتاہے کہ روي عن رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یا بلغنا عنہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کذا۔
بعض اوقات امام ترمذی ایک ہی حدیث کو حسن صحیح کہہ دیتے ہیں حالانکہ حسن رتبہ کے اعتبار سے صحیح سے کم ہوتی ہے جیسا کہ تعریفات کے ضمن میں گذرچکا ،اس کے جواب میں امام ابن حجر عسقلانی رَحِمَہ اللہ فرماتے ہیں :
(۱)…جب کسی حدیث کی دویازائد اَسناد ہوں توحَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ کا معنی ہوتاہے کہ ایک سند کے اعتبار سے حسن ہے جبکہ دوسری کے اعتبار سے صحیح۔
(۲)…اور اگر ایک ہی سند ہوتوایک قوم کے نزدیک اس کی شرائط کے مطابق وہ حدیث حسن جبکہ دوسری قوم کے نزدیک اس کی شرائط کے مطابق صحیح ہوتی ہے لیکن چونکہ امامِ مجتہد کو ناقل کی حالت میں تردد ہوتاہے اس لیے وہ حدیث کو ایک وصف سے متصف نہیں کرپاتااور کمالِ تقوی اور عدالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیتاہے کہ ھَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ یعنی حَسَنٌ أَوْ صَحِیْحٌ۔
کسی حدیث کے صحیح ہونے کیلئے جن اوصاف وشرائط کاپایاجانا ضروری ہے ان کے مختلف ہونے کی وجہ سے احادیثِ صحیحہ کے مابین آپس میں بھی تفاوت ہے کیونکہ بعض احادیثِ صحیحہ میں مذکورہ اوصاف وشرائط بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جبکہ بعض میں کچھ کمی کے ساتھ۔چنانچہ احادیث صحیحہ کے مراتب بیان کیے جاتے ہیں ۔
(۱)…وہ احادیث جنہیں امام بخاری ومسلم دونوں نے اپنی صحیحین میں ذکر کیا ایسی حدیث کو متفق علیہ کہتے ہیں ۔
(۲)…جنہیں صرف امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔
(۳)…جنہیں صرف امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔
(۴)…وہ احادیث جو امام بخاری ومسلم کی شرائط پر ہوں لیکن انہوں نے انہیں روایت نہ کیا ہو۔
(۵)…جو صرف امام بخاری کی شرائط پر ہوں ، لیکن انہوں نے انہیں روایت نہ کیا ہو۔
(۶)…جو صرف امام مسلم کی شرائط پر ہوں ، لیکن انہوں نے انہیں روایت نہ کیا ہو۔
(۷)…جو امام بخاری کے علاوہ دیگر ائمہ مثلا(امام ابن خزیمہ وامام ابن
حبان)کے نزدیک صحیح ہوں ۔([8])
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):صفاتِ راوی کے اعتبار سے خبرِ مقبول کی کتنی اور کون کون سی اقسام ہیں ؟
سوال نمبر (2):صحیح لذاتہ کی تعریف ، مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (3):صحیح لغیرہ کی تعریف، مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (4):حسن لذاتہ کی تعریف، مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (5):حسن لغیرہ کی تعریف، مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (6):حدیث ضعیف کی تعریف مثال اور حکم بیان فرمائیں ۔
٭…٭…٭…٭
دو راویوں کے درمیان الفاظ ِحدیث میں اختلاف کی دو اقسام ہیں :
(۱)… ثقہ اپنے سے ارجح کی مخالفت کرے گا ۔
(۲)… ضعیف راجح کی مخالفت کرے گا۔
اگر ثقہ راوی اپنے سے ارجح (اوثق) کی مخالفت کرے تو ثقہ کی روایت کو شاذ جبکہ ارجح کی روایت کو محفوظ کہیں گے۔
یاد رہے کہ شذوذ کبھی سند میں ہوتا ہے اور کبھی متن میں ۔
رَوَی التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہْ مِنْ طَرِیْقِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ عَوْسَجَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ’’أَنَّ رَجُلاً تُوُفِّیَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِاللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یَدَعْ وَارِثاً اِلاَّ مَوْلیً ہُوَ أَعْتَقَہٗ‘‘۔
ترجمہ :امام ترمذی و نسائی و ابن ماجہ اپنی سند کے ساتھ ابن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت کرتے ہیں کہ’’ ایک شخص رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں فوت ہو گیا اور اس نے اپنے آزاد کئے گئے غلام کے سوا کوئی وارث نہ چھوڑا‘‘۔
اس حدیث کو ابن جریج نے ابن عیینہ کی متابعت کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا تک متصل سندکے ساتھ بیان کیا ہے لیکن حماد بن زید نے سند میں انکی مخالفت کی ہے اور اسے عمرو بن دینار کے واسطے سے عوسجہ سے مرسلا نقل کیا اور سند میں حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کا ذکر نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ابو حاتم نے ابن عیینہ کی حدیث کو محفوظ قرار دیا ہے اور حماد بن زید جو کہ ثقہ راوی ہیں کی روایت کو شاذ قرار دیا ہے کیونکہ ابن عیینہ حماد بن زید سے اوثق ہیں ۔
رَوٰی أَبُوْدَاوٗدَ وَالتِرْمِذِيُّ مِنْ حَدِیْثِ عَبْدِ الْوَاحِدِ ابْنِ زِیَادٍ عَنْ الْاَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ مَرْفُوْعاً ’’اِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ الْفَجْرَ فَلْیَضْطَجِعْ عَنْ یَّمِیْنِہٖ‘‘
ترجمہ : امام ابو داود و ترمذی اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ھریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مرفوعا ًروایت کرتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی نماز فجر ادا کر چکے تو اسے
چاہیے کہ اپنے دائیں پہلو کے بل لیٹ جائے۔ (تھوڑی دیر آرام کے لئے)
عبد الواحد کی یہ روایت شاذ ہے کہ کیونکہ امام بیہقی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں عبد الواحد نے کثیر تعداد کی مخالفت کی ہے کیونکہ ایک کثیر تعداد نے اسے حضور صلیاللہ تعالٰی علیہ والہ وسلمکے فعل کے طور پر بیان کیا ہے نہ کہ بطورِ قول۔ لہذا عبد الواحد کی یہ روایت شاذ جبکہ کثیر تعداد کی مروی روایت محفوظ ہے۔
شاذ حدیث مردود ہے اور محفوظ مقبول (مقبول ومردود کا حکم گذر چکا)۔
جب ضعیف راوی الفاظ حدیث میں اپنے سے ارجح کی مخالفت کرے تو ضعیف کی روایت کو منکر جبکہ ارجح کی روایت کو معروف کہیں گے ۔
رَوَی ابْنُ حَاتَمٍ مِنْ طَرِیْقِ حُبَیِّبِ بْنِ حَبِیْبٍ وَہُوَ أَخُوْ حَمْزَۃَ بْنِ حبیب الزِّیَّاتِ الْمُقْرِيْ عَنْ أَبِيْ اِسْحَاقَ عَنْ العَیْزَارِ بْنِ حُرَیْثٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَقَامَ الصَّلَاۃَ وَآتٰی الزَّکوٰۃَ وَحَجَّ الْبَیْتَ وَصَامَ وَقَرَی الضَّیْفَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
ترجمہ: ابن حاتم نے حبیب بن حبیب جو کہ حمزہ بن حبیب الزیات المقری
کے بھائی ہیں سے انھوں نے ابو اسحاق سے انھوں نے عیزار بن حریث سے اور انھوں نے ابن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس نے نماز قا ئم کی اور زکاۃ ادا کی اور بیتاللہ کا حج کیا اور روزہ رکھا اور مہما ن کی مہمان نوازی کی وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ابو حاتم نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ حبیب (جوکہ ضعیف ہے) نے اسے دیگر ثقہ راویوں کی مخالفت کرتے ہوئے مرفوعا بیان کیا ہے حالانکہ دیگر ثقہ راویوں نے اسے ابو اسحاق سے موقوفا بیان کیا ہے لہذا ثقہ راویوں کی روایت معروف ہے ۔
حدیثِ معروف مقبول ہے جبکہ منکر مردود۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر(1):شاذومحفوظ کی تعریف،مثال اور حکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر(2):معروف ومنکرکی تعریف مثال اورحکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر(3):حدیث کی مندرجہ بالا تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
٭…٭…٭…٭
اس اعتبار سے حدیث کی تین اقسام کی جاسکتی ہیں :
(۱)… متابِع (۲)… متابَع(۳)… شاہد
وہ حدیث جو فرد حدیث (فرد نسبی) کے ساتھ لفظا و معنی یا فقط معنی موافقت کرے متابع کہلاتی ہے جبکہ جسکی موافقت کی جائے وہ متابَع کہلاتی ہے ۔متابعت کے لیے شرط ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہی صحابی کی مسند ہوں اور اگر صحابی مختلف ہو تو موافقت کرنے والی حدیث کو شاہد کہیں گے۔
رَوَی الشَّافِعِيُّ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِاللہ بْنِ دِیْنَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رَضِيَ اللہ عَنْہُمَا) أَنَّ رَسُوْلَاللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ’’ اَلشَّہْرُ تِسْعٌ وَّعِشْرُوْنَ فَلاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُا الہِلالَ وَلاَ تُفْطِرُوْا حَتّٰی تَرَوْہٗ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّۃَ ثَلاثِیْنَ‘‘۔
ترجمہ:امام شافعی نے امام مالک سے انھوں نے عبداللہ بن دینارسے
انھوں نے ابن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے روایت کیا کہ بے شک رسولاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:مہینہ (کبھی) انتیس دن کا (بھی)ہوتا ہے لہذا روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور روزہ ترک نہ کرو یہاں تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند دکھائی نہ دے تو تیس دن پورے کرو۔
امام شافعی (رحمۃاللہ علیہ ) اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں امام مالک سے متفرد ہیں کیونکہ امام مالک کے دوسرے اصحاب (شاگردوں ) نے اسی سند سے ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے۔ ’’فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدِرُوْا لَہٗ ‘‘امام شافعی کے متفرد ہونکی وجہ سے لوگوں نے یہ گمان کیا کہ امام شافعی کی یہ حدیث غریب ہے لیکن ہمیں ایک اور حدیث مل گئی جسے عبداللہ بن مسلمہ القعنبی نے انہی الفاظ کے ساتھ امام مالک سے روایت کیا ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنِ مَسْلِمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَبْدِاللہ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَاللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلشَّہْرُ تِسْعٌ وَّعِشْرُوْنَ ۔۔۔۔ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّۃَ ثَلاثِیْنَ ۔
یہ دونوں حدیثیں ایک ہی صحابی حضرت عبدا للہ ابن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کی سند سے ہیں ۔ لہذا امام شافعی سے مروی حدیث کو متابَع اور عبداللہ بن مسلمہ کی حدیث کو متابِع کہیں گے۔
اسی حدیث کو دوسرے صحابی کی سند سے امام نسائی نے روایت کیا ہے حدیث یہ ہے۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُنَیْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔۔۔ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّۃَ ثَلاثِیْنَ ۔لہذا امام نسائی سے مروی یہ حدیث شاہد ہے۔
متابِع ،متابَع اور شاھد فردِ نسبی کی اقسام ہیں اور فرد نسبی خبر غریب کی ایک قسم ہے لہذا ان کا حکم وہی ہے جو خبر غریب کا یعنی ان سے ظن کا فائدہ حاصل ہو گا لیکن قرائن و شواہد سے قوت پا کر یہ واجب العمل حکم کا فائدہ دیں گی۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):متابِع،متابَع اور شاہد کی تعریفات بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (2):متابع ومتابَع کی مثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (3):شاہد کی مثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (4):مندرجہ بالا اقسامِ حدیث کا حکم بیان فرمائیں ۔
٭…٭…٭…٭
بعض اوقات خبرِ مقبول کے معارض دوسری خبر مقبول آجاتی ہے جوکہ مفہوم میں پہلی کے مخالف ہوتی ہے لہذا اس معارضہ کے اعتبار سے خبر مقبول کی چار اقسام ہیں :
(۱)…محکم (۲)…مختلف الحدیث
(۳)…ناسخ (۴)…منسوخ
وہ حدیثِ مقبول جو ایسی دوسری حدیث کے معارضہ سے محفوظ ہوجو اسی کی مثل مقبول ہو۔صحاح کی کتابوں میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں ۔
اِنَّ أَشَدَّالنَّاسِ عَذَاباً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُشَبِّہُوْنَ بِخَلْقِ اللہ (بخاری و مسلم)
ترجمہ: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جواللہ تعالٰی کی مخلوق کی تصویریں بنا تے ہیں ۔
اس پر بلا شبہ عمل کرنا واجب ہے۔
وہ حدیثِ مقبول جس کی معارض اسی کی مثل مقبول حدیث ہواور ان دونوں کو جمع کرنا ممکن ہو۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا:’’لاَ عَدْوٰی وَلاَ طِیَرَۃَ‘‘کوئی مرض بھی اڑ کرنہیں لگتا اورنہ ہی بدفالی (کوئی چیز )ہے۔جبکہ دوسری حدیث میں فرمایا گیا:’’فِرَّمِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ‘‘مجذوم سے اس طرح بھاگ جس طرح توشیر سے بھاگتاہے۔یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں اوربظاہر ان میں تعارض ہے کیونکہ پہلی حدیث مرض کے متعدی ہونے یعنی اڑکر لگنے کی نفی کرتی ہے جبکہ دوسری بظاہر اثبات کرتی ہے لیکن علماء نے ان دونوں کے درمیان تطبیق کی ہے جو کہ اصولِ حدیث کی کتب میں مذکور ہے۔
ایسی دونوں حدیثیں جن کے ما بین تطبیق ممکن ہو ان دونوں پر عمل کرنا واجب ہے۔
اگر دو حدیثیں متعارض ہوں اوریہ معلوم ہوجائے کہ فلاں حدیث مؤخر ہے اور فلاں مقدم تو مؤخرناسخ اورمقدم کو منسوخ کہیں گے۔
ایک حدیث میں ہے: ’’أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ‘‘فصد لگانے
اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتاہے۔جبکہ دوسری حدیث میں ہے:’’أَنَّ النَّبِيَّ احْتَجَمَ وَھُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ‘‘ کہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فصد لگوایا اس حال میں کہ آپ احرام کی حالت میں روزہ دار تھے۔پہلی حدیث جو کہ تاریخ کے اعتبار سے مقدم ہے سے یہ ثابت ہوتاہے کہ فصد لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے جبکہ دوسری حدیث جو کہ موخر ہے سے ثابت ہوتاہے کہ فصد لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، لہذا دوسری حدیث ناسخ (حکم ختم کرنے والی)ہوئی جبکہ پہلی منسوخ۔ یادر ہے کہ نسخ حدیث کی اور بھی صورتیں ہیں ۔جیسے :(۱)تصریحِ رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے۔ (۲) تصریح صحابی رسول سے۔(۳)اجماع کی دلالت سے۔
ناسخ آجانے کے بعد منسوخ پر عمل جائز نہیں ۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):محکم کی تعریف مثال اور حکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (2):مختلف الحدیث کی تعریف، مثال اورحکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (3):ناسخ ومنسوخ کی تعریف، مثال اور حکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (4):حدیث کو مندرجہ بالااقسام میں کس اعتبار سے تقسیم کیا گیاہے؟
٭…٭…٭…٭
اس اعتبار سے خبر مردود کی پانچ اقسام ہیں :
(۱)…معلق (۲)…مرسل (۳)…معضل
(۴)…منقطع (۵)…مدلس
وہ حدیث جس میں سند کی ابتداء سے کوئی راوی مصنف کے تصرف سے ساقط ہو۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ چند راوی یا پوری سند کو حذف کردیا جائے مثلا یوں حدیث بیان کی جائے۔قال النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کذا (سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یوں فرمایا)
وہ حدیث جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد صحابی کا نام حذف کرکے اسے براہِ راست سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کیا جائے۔
’’عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ الْمُزَابَنَۃِ‘‘سعید بن مسیب (تابعی )بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا۔اس حدیث کو سعید بن مسیب جو کہ تابعی ہے نے براہ راست سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کیا ہے اور درمیان میں موجود صحابی کا نام ذکر نہیں کیا۔
وہ حدیث جس کی سند سے دویا دو سے زائد راوی پے درپے ساقط ہوں ۔مثال تبع تابعی حدیث بیان کرتے ہوئے نہ تابعی کا نام لے اور نہ صحابی کا بلکہ براہِ راست سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرے۔
اس کی مثال موطا امام مالک رَحِمَہُ اللہ تَعَالٰی کی یہ روایت ہے:’’بَلَغَنِيْ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَاللہ تَعَالٰی عَنْہٗ أَنَّ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِلْمَمْلُوْکِ طَعَامُہٗ وَکِسْوَتُہٗ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَا یُکلَّفُ مِنَ الْاَعْمَالِ اِلَّا مَا یُطِیْقُ‘‘امام مالک فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’غلام کو دستور کے مطابق کھانا اور کپڑے دئیے جائیں اور اسے اس کی طاقت بھر کاموں کا ہی ذمہ دار بنایا جائے۔‘‘
اس حدیث کی سند میں حضرت امام مالک رَحِمَہُ اللہ اور حضرت ابوہریرہ
رضیاللہ تعالٰی عنہ کے درمیان دو راوی محذوف ہیں اس لیے یہ حدیث معضل ہے کیونکہ حقیقت میں امام مالک رحمہاللہ نے محمد بن عجلان اور انہوں نے اپنے والد عجلان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔
وہ حدیث جس کی سند میں سے کوئی بھی راوی ساقط ہوجائے عموما اس کا اطلاق اس حدیث پر ہوتاہے جس میں تابعی سے نیچے درجے کا کوئی شخص صحابی سے روایت کرے۔
’’رَوٰی عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِيْ اِسْحَاقَ عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ مَرْفُوْعاً: اِنْ وَلَّیْتُمُوْہَا أَبَابَکْرٍ فَقَوِيٌ أَمِیْنٌ‘‘اس حدیث کی سند سے ایک راوی ساقط ہے جس کا نام شریک ہے یہ راوی ثوری اور ابو اسحاق کے درمیان سے ساقط ہے کیونکہ ثوری نے یہ حدیث ابو اسحاق سے نہیں سنی بلکہ شریک سے سنی ہے اور شریک نے ابو اسحاق سے۔
جس حدیث کی سند کا عیب پوشیدہ رکھا جائے اور ظاہر کو سنوار کر پیش کیا جائے ۔مدلس کی دو قسمیں ہیں :
(۱)…مدلس الاسناد (۲)…مدلس الشیخ
وہ حدیث جس کو راوی اپنے شیخ سے سنے بغیر ایسے الفاظ سے شیخ کی طرف نسبت کرے جس سے سننے کا گمان ہو، اسکی صورت یہ ہے کہ راوی نے حدیث اپنے شیخ کے علاوہ کسی اورسے سنی ہو لیکن روایت کرتے وقت ایسے الفاظ ذکر کرے جو شیخ سے سماع کا ایہام کرتے ہوں ، جیسے قَالَ، عَنْ اور أَنَّ وغیرہ۔
وہ حدیث جسے راوی اپنے استاد سے نقل کرتے ہوئے اس کیلئے کوئی غیر معروف نام ، لقب ، کنیت، یا نسب ذکر کرے تاکہ اسے پہچانانہ جاسکے۔
ایسی احادیث ضعیف کی اقسام سے ہیں ۔
نوٹ :
ان کی مثالیں اگلی کتابوں میں آئیں گی۔
تدلیس کا سبب کبھی یہ ہوتاہے کہ شیخ کے صغیر السن ہونے کی وجہ سے راوی ازراہ خفت اس کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا یا راوی کا شیخ کوئی معروف شخص نہیں ہوتایاعوام وخواص میں اس کو مقبولیت حاصل نہیں ہوتی یا پھر مجروح ضعیف
ہوتاہے لہذا شیخ کے نام کو ذکر کرنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1): معلق کی تعریف،مثال اور حکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (2): مرسل کی تعریف ، مثال اور حکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (3): معضل کی تعریف، مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (4): منقطع کی تعریف، مثال اور حکم بیان کریں ۔
سوال نمبر (5): مدلس کی تعریف واقسام بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (6): تدلیس کا سبب وحکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (7): حدیث کی مندرجہ بالا تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
٭…٭…٭…٭
طعن سے مراد راوی میں ایسی نامناسب صفات کا ہونا ہے جس کی وجہ سے حدیث مردود ہوجائے اس اعتبار سے خبرِ مردود کی چار قسمیں ہیں :
(۱)…موضوع (۲)…متروک(۳)…منکر(۴)…معلل
جو جھوٹی بات گھڑ کر سرکا رصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف بطورِ حدیث منسوب کردی گئی ہو اسے موضوع حدیث کہتے ہیں ۔([9])
نوٹ:
کسی حدیث پرموضوع ہونے کا حکم ظنِ غالب سے لگایا جاتاہے
قطعیت کے ساتھ کسی حدیث کو موضوع نہیں کہاجاسکتا، موضوع حدیث کو بیان کرنا جائز نہیں مگر یہ کہ اس کا موضوع ہونابیان کردیا جائے۔
’’اَلْبَاذِنْجَانُ شِفَاءٌ مِّنْ کُلِّ دَاءٍ‘‘ بینگن ہر بیماری کیلئے شفا ہے۔
وہ حدیث جس کی سند میں کوئی ایسا راوی آجائے جس پر کذب کی تہمت ہو۔تہمت کذب کے دو اسباب ہیں :(۱) وہ حدیث صرف اسی راوی سے مروی ہواور قواعد معلومہ کے خلاف ہو۔(۲) اس شخص کا عادۃ جھوٹ بولنا مشہورومعروف ہو لیکن حدیث نبویصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اس کا جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو۔
’’عمرو بن شمر جعفی جابر سے وہ ابو طفیل سے اور وہ حضرت علی اور حضرت عماررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے اور نویں ذی الحجہ کے دن صبح کی نماز سے تکبیرات تشریق شروع فرماتے اور ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز پر تکبیرات ختم کرتے تھے۔‘‘امام نسائی اور دار قطنی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں راوی عمرو بن شمر متروک الحدیث ہے۔
نوٹ:
متروک میں موضوع کی بہ نسبت ضعف کم ہوتاہے۔
وہ حدیث جس کا راوی فحش غلطی کرنے یاکثرتِ غفلت یا فسق کے ساتھ مطعون ہو۔(حدیث منکر کی ایک اور تعریف کی جاتی ہے جوکہ گذرچکی ہے)
’’ عَنْ أَبِيْ زُکَیْرٍ یَّحْيَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ قَیْسٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ عَائِشَۃَ مَرْفُوْعاً کُلُوْا الْبَلَحَ بِالتَّمْرِ کُلُوْا الْخَلَقَ بِالْجَدِیْدَ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَغْضِبُ وَیَقُوْلُ بَقِيَ ابْنُ آدَمَ حَتّٰی أَکَلَ الْخَلَقَ بِالْجَدِیْدِ رَوَاہٗ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَۃَ۔
ترجمہ:
ابوزکیر یحیی بن محمد بن قیس مذکورہ سند سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کچی کھجور کو چھواروں کے ساتھ اور پرانی کھجور کونئی کے ساتھ ملا کر کھاؤ کیونکہ شیطان غضبناک ہوتاہے کہ ابن آدم اتنا عرصہ زندہ رہا یہاں تک کہ پرانی کھجور کو تازہ کے ساتھ ملا کر کھانے لگا۔‘‘
امام نسائی رحمہاللہ نے فرمایا: کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ اسے روایت کرنے میں یحیی بن محمد بن قیس منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
وہ حدیث جس کے راوی میں طعن اس کے وہم کی وجہ سے ہو۔یعنی راوی وہم کے سبب ایک حدیث کو دودسری میں داخل کردے ،یامرفوع کو موقوف یا موقوف کو مرفوع قرار دے دے وغیرہ۔
نوٹ:
جب قرائن کو جمع کیا جائے تو حدیثِ معلل کا پتہ چلتاہے۔
مثال:
یعلی بن عبید سفیان ثوری سے وہ عمرو بن دینار سے اور وہ ابن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے اور وہ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’بائع اور مشتری کو خیار ہے۔‘‘اس سند میں یعلی بن عبید نے غلطی سے عمرو بن دینار کو سند میں ذکر کیا ہے حالانکہ سفیان ثوری عمرو بن دینار سے نہیں بلکہ عبداللہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں کیونکہ سفیان کے تمام اصحاب (شاگرد) اس حدیث کو عبداللہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں ۔
ان کا حکم:
یہ خبر مردود کی اقسام میں سے ہیں اور خبرِمردود کا حکم گذرچکا ہے۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):موضوع حدیث کی تعریف ومثال بیان کریں ۔
سوال نمبر (2):متروک کی تعریف ومثال بیان کریں ۔
سوال نمبر (3):منکر کی تعریف و مثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (4):معلل کی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (5):ان سب کا حکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (6):خبرمردودکی مندرجہ بالا تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
٭…٭…٭…٭
بعض اوقات راوی کی طرف سے حدیث میں اضافہ یا تغیر وتبدل وقوع پذیر ہوتاہے اس اعتبار سے حدیث کی درج ذیل چھ اقسام ہیں :
(۱)…مدرج السند(۲)…مدرج المتن (۳)…مقلوب
(۴)… مزید فی متصل الاسانید (۵)…مضطرب(۶)…مصحف ومحرف
جس حدیث کی سند میں تغیر کردیاجائے۔
’’رَوَی ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ الطْلَحِيْ عَنْ ثَابِتِ بْنِ مُوْسَی الْعَابِدِ الزَّاہِدِ عَنْ شَرِیْکٍ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ أَبِيْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ مَرْفُوْعاً: مَنْ کَثُرَتْ صَلَاتُہٗ بِاللَّیْلِ حَسُنَ وَجْہُہٗ بِالنَّہَارِ‘‘
ترجمہ:ابن ماجہ اسماعیل اطلحی سے وہ ثابت بن موسی سے (جوکہ عابدوزہد تھے)وہ شریک سے وہ اعمش سے وہ ابو سفیان سے وہ جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ جو شب میں نوافل کی کثرت کرے دن کے
وقت اس کا چہرہ حسین (نورانی) ہوگا۔
اس روایت کے بارے میں امام حاکم نے فرمایا کہ شریک یہ حدیث لکھوا رہے تھے کہ حَدَّثَنَا الْاَعْمَشُ عَنْ أَبِيْ سُفْیَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جب اتنا کہہ کر خاموش ہوئے تاکہ لکھنے والے لکھ لیں اتنے میں ثابت تشریف لے آئے انہیں دیکھ کر شریک نے کہا مَنْ کَثُرَتْ صَلَاتُہٗ بِاللَّیْلِ حَسُنَ وَجْہُہٗ بِالنَّہَارِ یہ سن کر ثابت نے گمان کیا کہ یہ اس سند کا متن ہے چنانچہ وہ اسے آگے بیان کرتے تھے۔
جس حدیث کے متن میں ایسا کلام بلا فصل داخل کردیا جائے جو حدیث کا حصہ نہ ہو مدرج المتن کہلاتی ہے۔یہ اضافہ کبھی متن کی ابتداء میں ہوتاہے کبھی درمیان میں اور کبھی آخر میں لیکن اکثر آخر میں ہی ہوتاہے۔
’’عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِیَادٍ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُاللہ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ وَیْلٌ لِلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ‘‘
ترجمہ: شعبہ سے روایت ہے وہ محمد بن زیاد سے اور وہ ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
نے فرمایا: وضوء کامل کرو خشک ایڑھیوں کیلئے آگ کا عذاب ہے۔‘‘
اس حدیث میں ’’أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ‘‘ کے الفاظ حضر ت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہیں گویا کہ انہوں نے فرمایا کہ وضوء کامل کرواور اس پر دلیل کے طور پر سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمان لائے کہ وَیْلٌ لِلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِلیکن اس سے حدیث کے الفاظ میں اشتباہ ہوگیا کیونکہ أَسْبِغُوا الْوُضُوء کے الفاظ ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف سے ہونے پر ظاہرا کوئی قرینہ نہیں ۔
ادراج بالاجماع حرام ہے لیکن اگر مشکل لفظ کی تفسیر کیلئے ادراج کیا گیاہوتوغیر ممنوع ہے۔
جس حدیث کے متن یا سند میں تبدیلی کردی جائے چاہے الفاظ کے بدلنے سے ہو یا ان کو مقدم ومؤخر کرنے سے ۔
’’عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللہ تَعَالٰی عَنْہٗ :اَلسَّبْعَۃُ الَّذِیْنَ یُظِلّہُمُاللہ فِيْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلاَّ ظِلُّہٗ فَفِیْہِ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاھَا حَتّٰی لاَ تَعْلَمَ یَمِیْنُہٗ مَا تُنْفِقُ شِمَالُہٗ‘‘ترجمہ: حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سات آدمی جنہیں اللہ تعالٰی اپنے
سایہ رحمت میں اس دن جگہ دے گا کہ جس دناللہ کے سایہ رحمت کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں سے ایک وہ شخص ہے کہ جس نے صدقہ کیا پھر اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے سیدھے ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ الٹے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔‘‘
اس حدیث کے الفاظ میں قلب ہے کیونکہ اصل الفاظ یہ تھے’’ حَتّٰی لاَ تَعْلَمَ شِمَالُہ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ ‘‘یہاں تک کہ اس کے الٹے ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ سیدھے ہاتھ نے کیا خرچ کیاہے۔
قلب جائز نہیں لیکن اگر بغرض امتحان کیا جائے تو جائز ہے تاکہ محدث کے حفظ کو جانچاجاسکے اور جھوٹے محدثین سے بچا جاسکے۔بشرطیکہ اسی مجلس میں درست حدیث بیان کردی جائے۔
جس حدیث کی سند بظاہر متصل ہوا سکے اثناء سند میں کسی راوی کا اضافہ کردیا جائے تو وہ حدیث مزید فی متصل الاسانید کہلاتی ہے۔
’’عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ہمیں حدیث بیان کی سفیان نے عبد الرحمن بن یزیدسے اور انہیں بسر بن عبیداللہ نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا کہ میں نے ابوادریس سے اور انہوں نے وائلہ سے اور انہوں نے ابو
مرثد غنوی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’تم قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف متوجہ ہوکر نماز نہ پڑھو۔‘‘
اس حدیث کی سند میں دوجگہوں پر راویوں کا اضافہ کیا گیا ہے ایک سفیان کا اور دوسرے ابوادریس کا، یہ اضافہ راویوں کے وہم کے سبب ہواکیونکہ دیگر ثقہ راویوں کی ایک جماعت نے یہ حدیث اس اضافہ کے بغیر بیان کی ہے۔
وہ حدیث جو ایسی مختلف اسانید سے مروی ہوجو قوت میں مساوی ہوں لیکن حدیث کے مفہوم میں ایسا تعارض ہوکہ تطبیق ممکن نہ ہو۔([11])
’’رَوَی التِّرْمِذِيُّ عَنْ شَرِیْکٍ عَنْ أَبِيْ حَمْزَۃَ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ قَالَتْ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الزَّکَاۃِ فَقَالَ: ’’اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکاۃِ‘‘ ’’مال میں زکوۃ کے علاوہ اور بھی حق ہے۔‘‘ اور ابن ماجہ نے قوت میں اسی کی مثل سند سے یہ حدیث روایت کی کہ :’’ لَیْسَ فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی
الـزَّکَاۃِمال میں زکوۃ کے علاوہ کوئی حق نہیں ۔‘‘ عراقی نے فرمایا کہ یہ ایسا اضطراب ہے کہ تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا۔
حدیث مضطرب ضعیف ہے۔([12])
وہ حدیث جس کے کسی کلمے کو اپنی اصلی حالت سے دوسری حالت میں بدل دیا گیاہو۔
حدیث شریف میں ہے :’’ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَ تْبَعَہٗ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ‘‘ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس سے متصل شوال کے چھ روزے رکھے۔‘‘پڑھنے والے نے اسے یوں پڑھا :’’مَنْ صَامَ رَمَضَاَنَ وَأَتْبَعَہٗ شَیْئاً مِنْ شَوَّالٍ‘‘ترجمہ: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس سے متصل شوال کے کچھ روزے رکھے۔اس طرح اس حدیث میں تصحیف ہوگئی۔
نوٹ:
یہ تصحیف فی المتن کی مثال ہے اسی طرح تصحیف فی السند اور تصحیف فی المعنی بھی ہوتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):مدرج السند کی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (2):مدرج المتن کی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (3):ادراج کا حکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (4):مقلوب کی تعریف ومثال وحکم بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (5):مزید فی متصل الاسانیدکی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (6):مضطرب کی تعریف ،مثال نیز حکم بھی بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (7):مصحف ومحرف کی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (8):حدیث کی مندرجہ بالا تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
٭…٭…٭…٭
اس اعتبار سے حدیث کی چار اقسام ہیں :
(۱)…حدیث قدسی (۲)…حدیث مرفوع
(۳)…حدیث موقوف (۴)…حدیث مقطوع
وہ حدیث جس کے راوی سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہوں اور نسبتاللہ تعالٰی کی طرف ہو۔
مثال:
سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے کہاللہ تعالٰی نے فرمایا:’’مَنْ عَادَ لِيْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ‘‘
ترجمہ:جس نے میرے کسی ولی(دوست)سے عداوت کی میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتاہوں ۔
وہ قول، فعل، تقریر یا صفت جس کی نسبت سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف کی جائے۔
’’عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُاللہ صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ‘‘
حدیث مرفوع کبھی متصل ،منقطع و مرسل وغیرہ ہوتی ہے لہذا یہ جس قسم کے تحت آئے گی اسی کا حکم اختیار کرے گی۔
وہ قول فعل یا تقریر جس کی نسبت صحابی کی طرف کی جائے۔
’’قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ لَا خَیْرَ فِيْ عِبَادَۃٍ لَا عِلْمَ فِیْہَا‘‘ یعنی اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جس میں علم نہ ہو۔‘‘(تاریخ الخلفاء، عربی ص۱۴۷)
وہ قول یا فعل جو کسی تابعی کی طرف منسوب ہو۔
’’ قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ: اَلصَّبْرُ کَنْزٌ مِّنْ کُنُوْزِ الْجَنَّۃِ‘‘
ترجمہ:حضرت حسن بصری (تابعی)رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ (تفسیر الحسن البصری عربی،۱/ ۲۱۱)
حدیث مقطوع کا تعلق متن سے ہے یعنی وہ متن جو تابعی کی طرف منسوب ہو وہ حدیث مقطوع ہے جبکہ حدیث منقطع کا تعلق سند سے ہے یعنی وہ حدیث جس کی سند میں سے کوئی راوی ساقط ہو جائے متن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
٭…٭…٭…٭
سوال نمبر (1):حدیث قدسی کی تعریف ومثال بیان کریں ۔
سوال نمبر (2):حدیث مرفوع کی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (3):حدیث موقوف کی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (4):حدیث مقطوع کی تعریف ومثال بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (5):مقطوع و منقطع کا فرق بیان فرمائیں ۔
سوال نمبر (6):حدیث کی مندرجہ بالا تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
٭…٭…٭…٭
وہ خوش نصیب جس نے ایمان کی حالت میں سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کا شرف حاصل کیاہواور ایمان ہی پر اس کا انتقال ہواہو۔ (نزہۃ النظرفی توضیح نخبۃ الفکر)
صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی تعداد کے بارے میں قطعی طور پر توکوئی فیصلہ نہیں کیاجاسکتا لیکن محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔
اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق افضل ترین صحابہ سیدنا صدیق اکبر پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی اور پھر علی المرتضی رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں ۔ ان کے بعد دیگر عشرہ مبشرہ ،پھراصحاب بدرواحداورپھر اہل بیعت رضوان۔
وہ صحابہ کرام جن سے کثیر تعداد میں احادیث مروی ہیں ان کو مکثرین صحابہ کہاجاتاہے یہ وہ حضرات ہیں جن کی مرویات کی تعداد دوہزار سے زائد ہے ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں ۔
(1)…حضرت ابوہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ :
۵۳۷۴ ا حادیث
(2)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھُما
۲۶۳۰ ا حادیث
(3)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
۲۵۴۰ احادیث
(4)…حضرت انس بن مالکرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
۲۲۸۶ احادیث
(5)…حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا
۲۲۱۰ احادیث
(6)…حضرت ابو سعید خدریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
۲۱۷۰ احادیث
ان کے علاوہ اور کسی صحابی کی احادیث کی تعداد دوہزار سے زائد نہیں ۔
وہ شخص جس نے کسی صحابی سے ملاقات کی ہواور اسلا م پر اس کاوصال ہواہو۔
(۱)…اہل مدینہ میں حضرت سعید بن مسیب۔ (۲)…اہل کوفہ میں
حضرت اویس قرنی ۔(۳)اہل بصرہ میں حضرت حسن بصری۔ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔
حدیث کی چھ مستند ترین کتابیں :
(۱)…بخاری شریف(۲)…مسلم شریف(۳)…ترمذی شریف
(۴)…ابوداؤد شریف(۵)…نسائی شریف(۶)…ابن ماجہ شریف۔
٭…٭…٭…٭
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
٭…حدیث کے صحیح نہ ہونے اور موضوع ہونے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔اور حدیث کے صحیح نہ ہونے سے اس کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔ (ج۵،ص۴۴۰،۴۴۱)
٭…ابن جوزی نے جس جس حدیث کو غیر صحیح کہا اس کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔ (ج۵،ص۴۴۱)
٭…لفظ ’’لا یثبت‘‘سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ حدیث موضوع ہے۔ (ج۵،ص۴۴۲)
٭…سند کا منقطع ہونا مستلزم وضع نہیں ۔ (ج۵،۴۴۸)
٭…ہمارے ائمہ کرام اور جمہور علماء کے نزدیک انقظاع سے صحت وحجیت میں کچھ خلل نہیں آتا۔ (ج۵، ص۴۴۸)
٭…حدیث مضطرب بلکہ منکر بلکہ مدرج بھی موضوع نہیں یہاں تک کہ فضائل میں مقبول ہیں ۔
(ج۵،ص۴۵۰)
٭…ضعف ِراویان کے باعث حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم وجزاف ہے۔(ج۵،ص۴۵۳)
٭…منکر ومتروک کی حدیث بھی موضوع نہیں ۔(ج۵،ص۴۵۵،۴۵۶)
٭…بارہا موضوع یا ضعیف کہنا صرف ایک سند کے اعتبار سے ہوتاہے نہ کہ اصلِ حدیث کے اعتبار سے۔
(ج۵،ص۴۶۸)
٭…تعدد ِطرق سے ضعیف حدیث قوت پاتی ہے بلکہ حسن ہوجاتی ہے۔(ج۵،ص۴۷۲)
٭…حصولِ قوت کو صرف دو سندوں سے آنا کافی ہے۔(ج۵،ص۴۷۵)
٭…اہلِ علم کے عمل کرلینے سے حدیثِ ضعیف قوی ہوجاتی ہے۔(ج۵،ص۴۷۵)
٭…حدیث ’’أَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ میں اگرچہ محدثین کو کلام ہے مگر وہ اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے۔(ج۵،ص۴۹۱)
٭…اَخذ میں قلت ِمبالات زمانہ ٔتابعین سے پیداہوئی۔(ج۵،ص۶۱۲)
٭…محدثین کی اصطلاح میں جس حدیث کو مُرْسَل، مُنْقَطِع، مُعَلَّق، مُعْضَل کہتے ہیں فقہاء اور اصولیین کی اصطلاح میں ان سب کومُرْسَل کہاجاتاہے۔ (ج۵،ص۶۲۱)
٭…لَاأَصْلَ لَہَا مقتضی ِ کراہت نہیں ۔ (ج۵،ص۶۴۱)
٭…کسی حدیث کی سند میں راوی کا مجہول ہونا اگراثرکرتا ہے تو صرف اس قدر کہ اسے ضعیف کہاجائے نہ کہ باطل وموضوع ۔ (ج۵،ص۴۴۳)
٭…نافع اورعبداللہ بن واقد دونوں شاگرد ِعبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاہیں ۔(ج۵،ص۱۶۷)
٭…محاوراتِ سلف واصطلاحِ محدثین میں تشیع اور رفض کے درمیان فرق ہے متأخرین’’ شیعہ‘‘ روافض کو کہتے ہیں ۔ (ج۵،ص۱۷۵)
٭…بخاری ومسلم کے تیس سے زیادہ وہ راوی ہیں جن کو اصطلاح قدماء پر بلفظِ تشیع ذکرکیاجاتاہے۔(ج۵،ص۱۷۶)
٭…چند اوہام یا کچھ خطائیں محدث سے صادرہونا نہ اسے ضعیف کردیتا ہے نہ اس کی حدیث کومردود۔ (ج۵،ص۱۸۴)
٭…حدیث ِمعلول کیلئے ضعف ِراوی ضروری نہیں ۔ (ج۵،ص۲۰۶)
٭…جمہور محدثین کے مذہبِ مختارپرمدلس کاعنعنہ مردود ہے۔(ج۵،ص۲۴۵)
٭…مرسل حدیث ہمارے اورجمہورکے نزدیک حجت ہے۔(ج۵،ص۲۹۲)
٭…ضعیف ومتروک میں زمین وآسمان کا فرق ہے کہ ضعیف کی حدیث معتبر ومکتوب اور متابعت وشواہد میں مقبول ہے بخلاف متروک ۔ (ج۵،ص۳۰۳)
٭…عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمرو انس سے افقہ ہیں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم
اجمعین۔ (ج۵،ص۳۱۱)
٭…حدیث صحیح نہ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ غلط ہے۔ (ج۵،ص۴۳۶)
٭…حدیث ِحسن احکامِ حلال وحرام میں حجت ہوتی ہے۔(ج۵،ص۴۳۷)
٭…کتب ِصحاحِ ستہ میں مذکورہ تما م احادیث صحیح نہیں تسمیہ بصحاح تغلیباً ہے۔(ج۵،ص۴۳۹)
٭…حدیثِ موضوع بالاجماع ناقابلِ انجبار،نہ فضائل وغیرہ کسی باب میں لائقِ اعتبار۔(ج۵،ص۴۴۰)
٭…حدیث ِضعیف احکام میں بھی مقبول ہے جبکہ محلِ احتیاط ہو۔(ج۵،ص۴۹۴)
٭…حدیثِ ضعیف پر عمل کیلئے خاص اس فعل میں حدیث ِصحیح کا آنا ضروری نہیں ۔(ج۵،ص۵۰۱)
٭…مسلم وبخاری میں بھی ضعفاء کی روایات موجود ہیں ۔(ج۵،ص۵۱۱،۵۱۲)
٭…دارقطنی احادثِ شاذہ معلّلہ سے پرُہے۔ (ج۵،ص۵۱۸)
٭…کتب ِموضوعات میں کسی حدیث کا ذکر مطلقاً ضعف ہی کو مسلتزم نہیں ۔ (ج۵،ص۵۴۸)
٭…ابنِ جوزی نے صحاحِ ستہ اور مسندِ امام احمد کی چوراسی احادیث کوموضوع کہا۔ (ج۵،ص۵۴۸)
٭…بالفرض اگر کتبِ حدیث میں اصلا ًپتانہ ہوتا،تاہم ایسی حدیث کا بعض کلمات ِعلماء میں بلا سند مذکور ہونا کافی ہے۔ (ج۵،ص۵۵۵)
٭…حدیث اگرموضوع بھی ہوتاہم فعل کی ممانعت نہیں ۔(ج۵،ص۵۶۱)
٭…عمل بموضوع اورعمل بما فی الموضوع میں فرقِ عظیم ہے۔(ج۵،ص۵۷۱)
٭…اعمالِ مشایخ محتاجِ سند نہیں ، اعمال میں تصرف اور ایجادِ مشایخ کو ہمیشہ گنجائش(ہے)۔ (ج۵،ص ۵۷۱)
٭…مشاجرات صحابہ میں سیروتاریخ کی موحش حکایتیں قطعا ًمردود ہیں ۔ (ج۵،ص۵۸۲)
٭…مجہول العین کا قبول ہی مذہب ِمحققین ہے۔ (ج۵،ص۵۹۵)
٭…فضائلِ اعمال سے مراد اعمالِ حسنہ ہیں نہ صرف ثواب ِاعمال۔(ج۵،ص۶۰۰)
٭…ہمارے امامِ اعظم رضیاللہ عنہ جس سے روایت فرمالیں اس کی ثقاہت ثابت ہوگی۔ (ج۵،ص۶۱۲)
٭… افِادۂ عام (جہالت ِراوی سے حدیث پر کیااثرپڑتاہے) کسی حدیث کی سند میں راوی کا مجہول ہونااگر اثرکرتاہے توصرف اس قدر کہ اسے ضعیف کہا جائے نہ کہ باطل وموضوع بلکہ علماء کو اس میں اختلاف ہے کہ جہالت قادحِ صحت ومانعِ حجیت بھی ہے یا نہیں ۔ (ج۵،ص۴۴۳)
٭… جس حدیث میں راوی بالکل مبہم ہو وہ بھی موضوع نہیں ۔(ج۵، ص۴۵۱)
٭… تعددِ طرق سے مبہم کا جبرِ نقصان ہوتاہے۔ (ج۵،ص۴۵۲)
٭… حدیث ِمبہم دوسری حدیث کیلئے مقوی ہوسکتی ہے۔ (ایضا)
٭… (تعددِ طرق سے ضعیف حدیث قوت پاتی بلکہ حسن ہوجاتی ہے) حدیث اگر متعدد طریقوں سے روایت کی جائے اور وہ سب ضعف رکھتے ہوں توضعیف ضعیف ملکر بھی قوت حاصل کرلیتے ہیں بلکہ اگر ضعف غایتِ شدت وقوت پرنہ ہوتوجبرِ نقصان ہوکر حدیث درجۂ حسن تک پہنچتی اور مثلِ صحیح خود احکامِ حلال میں حجت ہوجاتی ہے۔ (ج۵،ص۴۷۲)
٭…اعلی حضرترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (التعقبات علی الموضوعات)کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’نہ صرف ضعیف ِمحض بلکہ منکر بھی فضائل اعمال میں مقبول ہے۔‘‘(ج۵، ص۴۷۷)
٭… اعلی حضرترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (فَتحُ المُبین بِشرْح الاربَعِین) کے حوالے سے فرماتے ہیں ۔ایک حدیث ضعیف میں آیاہے کہ جسے میری طرف سے کسی عمل پر ثواب کی خبر پہنچی اور اس نے اس پر عمل کرلیا تو اسے اس کا اجر حاصل ہوجائے گا اگرچہ وہ بات میں نے نہ کہی ہو۔ (ج۵، ص۴۷۹)
٭… دوسری جگہ دار قطنی وغیرہا کتب سے نقل فرماتے ہیں کہ:’’ مَنْ بَلَغَہٗ عَنِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ شَیْئٌ فِیْہِ فَضِیْلَۃٌ فَاَخَذَ بِہٖ اِیْمَانًا بِہٖ وَرَجَاءً ثَوَابَہٗ، اَعْطَاہٗ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ کَذٰلِکَ‘‘ جسےاللہ عَزَّوَجَلَّ کی
طرف سے کسی بات میں کچھ فضیلت کی خبر پہنچے اور وہ اس پر یقین اور ثواب کی امید سے عمل کرلے تواللہ عزوجل اسے وہ فضیلت عطافرمائے گا اگرچہ خبر ٹھیک نہ ہو۔ (ج۵، ص۴۸۶)
٭…امام بخاری کو ایک لاکھ احادیثِ صحیحہ حفظ تھیں ، صحیح بخاری میں کل چارہزار بلکہ اس سے بھی کم ہیں ۔ (ج۵، ص۵۴۶)
٭… (ایسی جگہ اگر سند کسی قابل نہ ہوتوصرف تجربہ، سندِ کافی ہے) أَقُوْلُ بالفرض اگر ایسی جگہ ضعفِ سند ایسی ہی حد پر ہوکہ اصلا ًقابلِ اعتماد نہ رہے مگر جو بات اس میں مذکور ہوئی وہ علماء وصلحاء کے تجربہ میں آچکی توعلمائے کرام اس تجربہ ہی کو سندِ کافی سمجھتے ہیں ۔ (ج۵،ص۵۵۱)
٭… اَلْمُعَلَّقُ عِنْدَ نَا فِی الْاِسْتِنَادِکَالْمَوْصُوْلِہمارے نزدیک معلق مستند ہونے میں متصل کی طرح ہے۔ (ج۱،ص۲۳۸)
٭… حدیثِ ضعیف :حلیہ میں فرمایا کہ جب حدیثِ ضعیف بالاجماع فضائل میں مقبول ہے تو اباحت میں بدرجہ اَولی۔ (ج۱، ص۲۴۰)
٭… حدیثِ حسن :کسی مقصد کا ثبوت حدیثِ صحیح پر موقوف نہیں بلکہ حدیثِ صحیح کی طرح حسن سے بھی ثابت ہوجاتاہے۔ (ج۱،ص۲۴۱)
٭…حدیثِ ضعیف سے استحباب ثابت ہوتاہے سنیت نہیں ۔(ج۱،ص۱۹۶)
٭… راوی کی تعریف وستائش روایت کی تعریف وستائش نہیں ۔اور راوی کا فی نفسہٖ صادق ہونا، حدیث میں اس کے ضعیف ہونے کے منافی نہیں ۔(ج۳،ص۳۵۳)
٭…اسباب ِطعن دس ہیں : ۱۔کذب ۲۔تہمت ۳۔کثرت ِغلط ۴۔غفلت ۵۔فسق ۶۔وہم ۷۔مخالفت ِثقات ۸۔جہالت ۹۔بدعت ۱۰۔سوئِ حفظ ۔(ج۵،ص۴۵۴)
٭…مجہول کی تین قسمیں ہیں :۱۔مستور:جس کی عدالت ِظاہری معلوم اور باطنی کی تحقیق نہیں ۔۲۔مجہول العین: جس سے صرف ایک ہی شخص نے روایت کی ہو۔۳۔مجہول الحال: جس کی عدالت ِظاہری وباطنی کچھ ثابت نہیں ۔قسمِ اول یعنی مستور تو جمہور محققین کے نزدیک مقبول ہے یہی مذہب امام الأئمہ سیدنا امام اعظم رضیاللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔اور دو قسم باقی کو بعض اکابر حجت جانتے جمہور مورث ضعف مانتے ہیں ۔ (ج۵،ص۴۴۳،۴۴۴)
٭…(موضوعیتِ حدیث کیونکر ثابت ہوتی ہے)غرض ایسے وجوہ سے حکم وضع کی طرف راہ چاہنا محض ہوس ہے، ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون(۱)قرآنِ عظیم (۲)سنتِ متواترہ (۳)یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالۃ(۴)یا عقلِ صریح (۵)یا حسنِ صحیح(۶)یا تاریخِ یقینی کے ایسامخالف ہوکہ احتمالِ تاویل وتطبیق نہ رہے۔(۷)یا معنی ،شنیع وقبیح ہوں جن کا صدور حضور پُرنور صَلَوَاتُ اللہِ عَلَیْہ سے منقول نہ ہو، جیسے معاذاللہ کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدحِ باطل یا ذمِ حق پر مشتمل ہونا۔(۸)یا ایک جماعت جس کا عدد حدِ تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اُس کے کذب وبطلان پر گواہی مستنداً الی الحس دے۔عہ: زِدْتُہٗ لِاَنَّ
التَّوَاتُرَ لاَیُعْْتَبَرُ اِلَّافِی الْحِسِّیَّاتِ کَمَا نَصُّوْا عَلَیْہِ فِِی الْاَصْلَیْن۔ منہ (م)میں نے اس کا اضافہ کیا کیونکہ تواتر کا اعتبار حسیات کے علاوہ میں نہیں ہوتا جیسے کہ انہوں نے اصول میں اس کی تصریح کی ہے ۔ منہ (ت) (۹)یا خبر کسی ایسے امر کی ہوکہ اگر واقع ہوتا تو اُس کی نقل وخبر مشہور ومستفیض ہوجاتی، مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں ۔(۱۰)یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ وبشارت یا صغیر امر کی مذمّت اور اس پر وعید وتہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔ یہ دس۱۰ صورتیں تو صریح ظہور ووضوحِ وضع کی ہیں ۔(۱۱)یا یوں حکمِ وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک وسخیف ہوں جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہوکہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہیں یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔(۱۲)یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علیٰ سیدہم وعَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں ، جیسے حدیث:لَحْمُک لَحْمِیْ وَدَمُک دَمِی ْ(تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خُون میرا خُون۔ ت)
أقول: انصافاً یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبن العاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائلِ امیرالمومنین واہلِ بیت طاہرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُممیں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں ’’کَمَانَصَّ عَلَیْہِ الْحَافِظُ أَبُوْیَعْلٰی وَالْحَافِظُ الْخَلِیْلِيُّ فِي الْاِرْشَادِ‘‘(جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظ خلیلی نے
ارشاد میں تصریح کی ہے۔ت)یونہی نواصب نے مناقبِ امیرِ معٰویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیں حدیثیں گھڑیں کَمَاأَرْشَدَ اِلَیْہِ الْاِمَامُ الذَّابُّ عَنِ السُّنَّۃِ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی(جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہاللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں ۔ ت) (۱۳)یا قرائن ِحالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یاغضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑکر پیش کردی ہے جیسے حدیث ِسبق میں زیادتِ جناح اورحدیثِ ذمِ معلمین اَطفال۔(۱۴)یا تمام کتب وتصانیفِ اسلامیہ میں استقرائے تام کیاجائے اور اس کاکہیں پتانہ چلے یہ صرف اَجلہ حفاظ ائمۂ شان کاکام تھاجس کی لیاقت صدہاسال سے معدوم۔ (۱۵)یاراوی خود اقرارِ وضع کردے خواہ صراحۃً ،خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ ٔاقرار ہو،مثلاً ایک شیخ سے بلاواسطہ بدعوی سماع روایت کرے ، پھراُس کی تاریخِ وفات وہ بتائے کہ اُس کااس سے سننامعقول نہ ہو۔
یہ پندرہ باتیں ہیں کہ شاید اس جمع وتلخیص کے ساتھ ان سطور کے سوانہ ملیں ۔ وَلَوْبَسَطْنَا الْمَقَالَ عَلٰی کُلِّ صُوْرَۃٍ لَطَالَ الْکَلَامُ وَتَقَاصَی الْمَرَامُ، وَلَسْنَاھُنَالِکَ بِصَدَدِ ذٰلَکَ۔(اگرہم ہر ایک صورت پرتفصیلی گفتگو کریں تو کلام طویل اور مقصد دور ہوجائے گا لہذا ہم یہاں اس کے در پے نہیں ہوتے) (فتاوی رضویہ، ج۵، ص۴۶۰)
٭… (حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں )جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلیٰ
درجۂ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیثِ مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے ،اَحاد اگرچہ کیسے ہی قوتِ سند ونہایتِ صحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں ۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں )یہ اصولِ عقائد ِاسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رَحِمَہُ اللہ تعالٰی شرح عقائد ِنسفی میں فرماتے ہیں :خَبْرُ الْوَاحدِ عَلٰی تَقْدِیْرِ اشْتِمَالِہٖ عَلٰی جَمِیْعِ الشَّرَائِطِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِیْ اُصُوْلِ الْفِقْہِ لَایُفِیْدُ اِلاَّ الظَّنَّ وَلَاعِبْرَۃَ بِالظَّنِّ فِیْ َبابِ الْاِعْتِقَادَاتِ۔(حدیثِ احاد اگرچہ تمام شرائط ِصحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملۂ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں )
مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں : اَلاَْحَادُ لاَ تُفِیْدُ اْلاِعْتِمَادَ فِی اْلاِعْتِقَادِ (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد) (دربارہ ٔاحکام ضعیف کافی نہیں )دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ اُن کے لئے اگرچہ اُتنی قوت درکار نہیں پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا چاہئے، جمہور علماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے۔
(فضائل ومناقب میں باتفاق علماء حدیثِ ضعیف مقبول وکافی ہے)تیسرا مرتبہ فضائل ومناقب کا ہے یہاں باتفاقِ علماء ضعیف حدیث بھی کافی ہے،مثلاً کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گااتنا ثواب پائے گایاکسی نبی یاصحابی کی خُوبی بیان ہوئی کہ اُنہیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا،یہ فضل عطا کیا، تو ان کے مان لینے کوضعیف حدیث بھی بہت ہے،ایسی
جگہ صحت حدیث میں کلام کرکے اسے پایۂ قبول سے ساقط کرنا فرق مراتب نہ جاننے سے ناشیٔ،جیسے بعض جاہل بول اُٹھے ہیں کہ امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں ،یہ اُن کی نادانی ہے علمائے محدثین اپنی اصطلاح پر کلام فرماتے ہیں ، یہ بے سمجھے خدا جانے کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں ، عزیز ومسلم کہ صحت نہیں پھر حسن کیا کم ہے، حسن بھی نہ سہی یہاں ضعیف بھی مستحکم ہے۔فتاوی رضویہ ، (ج۵، ص۴۷۷)
٭…صحیح وموضوع دونوں ابتداء وانتہاء کے کناروں پر واقع ہیں ،سب سے اعلیٰ صحیح اور سب سے بدتر موضوع، اور وسط میں بہت اقسامِ حدیث ہیں درجہ بدرجہ،(حدیث کے مراتب اور اُن کے احکام) مرتبہ صحیح کے بعد حسن لذاتہٖ بلکہ صحیح لغیرہ پھر حسن لذاتہ، پھر حسن لغیرہ، پھر ضعیف بضعف قریب اس حد تک کہ صلاحیتِ اعتبار باقی رکھے جیسے اختلاطِ راوی یا سُوء ِ حفظ یا تدلیس وغیرہا، اوّل کے تین بلکہ چاروں قسم کو ایک مذہب پر اسمِ ثبوت متناول ہے اور وہ سب محتج بہاہیں اور آخر کی قسم صالح،یہ متابعات وشواہد میں کام آتی ہے اور جابر سے قوّت پاکر حسن لغیرہ بلکہ صحیح لغیرہ ہوجاتی ہے،اُس وقت وہ صلاحیتِ احتجاج وقبول فی الاحکام کا زیور گرانبہاپہنتی ہے، ورنہ دربارۂ فضائل تو آپ ہی مقبول وتنہا کافی ہے، پھر درجۂ ششم میں ضعفِ قوی ووہنِ شدید ہے جیسے راوی کے فسق وغیرہ قوادحِ قویہ کے سبب متروک ہونا، بشرطیکہ ہنوز سرحدِ کذب سے جُدائی ہو،یہ حدیث احکام میں احتجاج درکنار اعتبار کے بھی لائق نہیں ، ہاں فضائل میں مذہب راجح پر مطلقاً اور بعض کے طور پر بعد ِانجبار بتعدد ِ
مخارج وتنوعِ طرق ،منصب ِقبول وعمل پاتی ہے،کماسَنُبَیِّنُہٗ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰی (اِنْ شَاءَاللہ تَعَالٰی عنقریب ان کی تفصیلات آرہی ہیں ۔ ت) پھر درجہ ہفتم میں مرتبہ مطروح ہے جس کا مدار وضاع ،کذّاب یا متہم بالکذب پر ہو، یہ بدترین اقسام ہے بلکہ بعض محاورات کے رُو سے مطلقاً اور ایک اصطلاح پر اس کی نوعِ اشد یعنی جس کا مدار کذب پر ہو عینِ موضوع، یا نظرِ تدقیق میں یوں کہے کہ ان اطلاقات پر داخل موضوع حکمی ہے۔ان سب کے بعد درجہ موضوع کاہے،یہ بالاجماع نہ قابلِ انجبار،نہ فضائل وغیرہا کسی باب میں لائقِ اعتبار، بلکہ اُسے حدیث کہنا ہی توّسع وتجوّز ہے،حقیقۃً حدیث نہیں محض مجعول وافترا ہے، والعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔ وَسَیُرَّدُّ عَلَیْکَ تَفَاصِیْلُ جَلِّ ذٰلِکَ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ الْعَلِيُّ الْاَعْلٰی(اس کی روشن تفاصیل اِنْ شَاءَاللہ تَعَالٰی آپ کے لئے بیان کی جائیں گی۔ ت)طالبِ تحقیق ان چند حرفوں کو یاد رکھے کہ باوصفِ وجازت ،محصل وملخصِ علمِ کثیر ہیں اور شاید اس تحریرِ نفیس کے ساتھ ان سطور کے غیر میں کم ملیں ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔(فتاوی رضویہ، ج۵، ص۴۴۰)
[1] …کبھی اس حدیث کو بھی مشہور کہہ دیا جاتاہے جو لوگوں کی زبان پر مشہور ہو خواہ اس کی ایک سند ہو یا ایک بھی نہ ہو اور یہ مشہورِ لغوی ہے نہ کہ اصطلاحی جیسے:’’ اَلْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ‘‘، جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔
[2] …علت قادحہ:یعنی اس حدیث میں علت خفیہ قادحہ نہ ہو مثلا ثور بن یزید کے تمام شاگردوں نے کاتب مغیرہ بن شعبہ سے اس حدیث کو مرسلا بیان کیا کہ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے موزوں کے اوپراور نیچے دونوں حصوں پرمسح کیا اور ولید بن مسلم نے اسی کو ثوربن یزید سے متصلا بیان کیا حالانکہ یہ حدیث مرسل ہے نہ کہ متصل۔لہذا ولید بن مسلم کی اس حدیث میں علت خفیہ قادحہ موجود ہے۔
شذوذ: شذوذ یہ ہے کہ ثقہ راوی اپنے سے اوثق کی مخالفت کرے۔
[3] … حدیث کے صحیح نہ ہونے اور موضوع ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اور حدیث کے صحیح نہ ہونے سے اس کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔(فتاوی رضویہ ۵/۴۴۰۔۴۴۱)
[4] … ٭تعدد ِطرق سے ضعیف حدیث قوت پاتی ہے بلکہ حسن ہوجاتی ہے۔( فتاوی رضویہ۵/۴۷۲)
٭حصولِ قوت کو صرف دو سندوں سے آنا کافی ہے۔ ( فتاوی رضویہ ۵/۴۷۵)
[5] … حدیث ِحسن احکامِ حلال وحرام میں حجت ہوتی ہے۔(فتاوی رضویہ ۵/۴۳۷)
[6] … ٭یاد رہے کہ حدیث میں ضعف راوی کی وجہ سے ہوتاہے ورنہ کوئی بھی حدیث جو سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہوجائے وہ ضعیف نہیں ۔
٭تعدد طرق سے ضعیف حدیث قوت پاتی ہے بلکہ َحسن ہوجاتی ہے۔ ( فتاوی رضویہ۵/۴۷۲)
[7] … حلیہ میں فرمایا کہ جب حدیث ِضعیف بالاجماع فضائل میں مقبول ہے تو اباحت میں بدرجہ اَولی۔(فتاوی رضویہ۱/۲۴۰)
[8] … ٭ کتب صحاح ستہ میں مذکورہ تمام احادیث صحیح نہیں تسمیہ بصحاح تغلیباًہے۔ (فتاوی رضویہ ۵/۴۳۹)٭مسلم و بخاری میں بھی ضعفاء کی روایات موجود ہیں ۔ (فتاوی رضویہ ۵/۵۱۱)٭ ابن جوزی نے صحاح ستہ اور مسند امام احمد کی چوراسی احادیث کو موضوع کہا۔(فتاوی رضویہ ۵/۵۴۸)٭ بالفرض اگر کتب حدیث میں اصلاً پتا نہ ہوتا تاہم ایسی حدیث کا بعض کلماتِ علماء میں بلا سند مذکور ہونا بس (کافی) ہے۔(فتاوی رضویہ ۵/۵۵۵)
[9] … ٭ضعف ِراویان کے باعث حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم و جزاف ہے۔ (فتاوی رضویہ ۵/۴۵۳)
٭بارہا موضوع یا ضعیف کہہ دینا ایک سند کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حدیث کے اعتبار سے۔ (فتاوی رضویہ ۵/۴۶۸)
٭ابن جوزی نے جس جس حدیث کو غیر صحیح کہا اس کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔
(فتاوی رضویہ ۵/۴۴۱)
٭حدیث موضوع بالاجماع ناقابلِ انجبار، نہ فضائل وغیرہ کسی باب میں لائقِ اعتبار۔ (فتاوی رضویہ ۵/۴۴۰)
[10] …حدیث معلول کے لیے ضعف راوی ضروری نہیں (فتاوی رضویہ۵/۲۰۶)
[11] …حدیث مضطرب بلکہ منکر بلکہ مدرج بھی موضوع نہیں یہاں تک کہ فضائل میں مقبول ہے۔(فتاوی رضویہ۵/۴۵۰)
[12] … حدیثِ ضعیف سے استحباب ثابت ہوتا ہے سنیت نہیں ۔(فتاوی رضویہ۱/۱۹۶)
[13] …(i)یاد رہے کہ قرآن کریم کے الفاظ ومعانی دونوں من جانب اللہ ہوتے ہیں بخلاف حدیث قدسی کے کہ اس میں معانیاللہ عزوجل کی جانب سے اور الفاظ سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف سے ہوتے ہیں ۔(ii) حدیث قدسی کی تعداد دو سو(200) سے زائد ہے۔
[14] … مذکورہ فوائدِ حدیثیہ میں سے اکثر فوائد فتاوی رضویہ مخرجہ جلد ۵ میں موجود رسائل منیر العین اور حاجز البحرین سے لئے گئے ہیں ان فوائد کو فقط ایک نظر دیکھنے سے امامِ اہلسنت کی دیگر علوم و فنون میں مہارت و جودتِ طبع کی طرح علم اصول حدیث میں بھی مہارت و دقت ِنظری آفتاب ِنیم روز کی طرح واضح دکھائی دیتی ہے۔ ہم نے یہاں ان فوائد کو اجمالاً ذکر کیا ہے لہذا اگر کسی کو تفصیل یا تشریح مطلوب ہو تو ان رسائل اور دیگر کتب ِاصولِ حدیث کی طرف مراجعت کرے۔۱۲