رفیق المعتمرین
مُؤَلِّف:
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا
ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادِری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
ناشِر
مکتبۃُ المد ینہ بابُ المدینہ کراچی
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
نام کتاب : رفیق المعتمرین
مُؤلِّف : شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا
ابوبلال محمد الیاس عطّارؔقادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
تاریخِ اشاعت: شعبان المعظم۱۴۳۳ھ ،جولائی2012 ء
ناشر : مکتبۃ المدینہ عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مَدینہ باب المدینہ کراچی
مکتبۃُ الْمد ینہ کی شاخیں
٭… کراچی : شہید مسجد، کھارا در، باب المدینہ کراچی فون: 32203311021-
٭… لا ہو ر : داتا دربار مارکیٹ، گنج بخش روڈ فون: 37311679042-
٭… سردار آباد : (فیصل آباد)امین پور بازار فون: 2632625041-
٭… کشمیر : چوک شہیداں ، میر پور فون: 37212 -058274
٭… حیدر آباد : فیضانِ مدینہ،آفندی ٹاؤن فون: 2620122022-
٭… ملتان : نزد پیپل والی مسجد، اندرون بوہڑ گیٹ فون: 4511192061-
٭… اوکا ڑہ : کالج روڈبالمقابل غوثیہ مسجد، نزد تحصیل کونسل ہال فون: 2550767044-
٭… راولپنڈی : فضل داد پلازہ، کمیٹی چوک، اقبال روڈ فون: 5553765051-
٭… خان پور : دُرانی چوک، نہر کنارہ فون: 5571686068-
٭… نواب شاہ : چکرا بازار، نزد MCB فون: 43621450244-
٭… سکھر : فیضانِ مدینہ،بیراج روڈ فون: 5619195071-
٭… گوجرانوالہ : فیضانِ مدینہ،شیخوپورہ موڑ،گوجرانوالہ فون: 4225653055-
٭… پشاور : فیضانِ مدینہ،گلبرگ نمبر1،النور اسٹریٹ، صدر
مد نی التجاء : کسی اور کو یہ کتاب چھاپنے کی ِجازت نہیں ہے ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
(مع روایات، حکایات و مدنی پھول)
(حجّاج و مُعتَمِرین ان میں سے موقع کی مُناسَبَت سے وہ نیتیں کر لیں جن پر عمل کرنے کا واقِعی ذِہن ہو)
{1}صِرْف رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ پانے کے لئے عمرہ کروں گا۔(قَبولیَّت کیلئے اِخلاص شَرْط ہے اور اِخلاص حاصل کرنے میں یہ بات بہت معاوِن ہے کہ رِیا کاری اور شہرت کے تمام اسباب تَرْک کر دیئے جائیں ){2}حُضُورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی میں عمرہ کروں گا{3}ماں باپ کی رِضا مندی لے لوں گا ۔ (بیوی شوہر کو رِضا مندکرے ، مقروض جو ابھی قرض ادانہیں کر سکتا تو اُس( قرض خواہ)سے بھی اجازت لے۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج ا ص ۱۰۵۱ )) {4} مالِ حلال سے عمرہ کروں گا {5} چلتے وقت گھروالوں ، رشتے داروں اور دوستوں سے قُصور مُعاف کرواؤں گا،ان سے دعا کرواؤں گا۔( دوسروں سے دعا کروانے سے بَرَکت حاصِل ہوتی ہے ، اپنے حق میں دوسرے کی دُعا قَبول ہونے کی زیادہ امّید ہوتی ہے۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 326صَفْحات پر مشتمل کتاب ’’فضائلِ دُعا‘‘صَفْحَہ 111پر منقول ہے، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکو خطاب ہوا:اے موسیٰ! مجھ سے اُس منہ کے ساتھ دُعا مانگ جس سے تُو نے گناہ نہ کیا۔ عرض کی: الٰہی! وہ منہ کہاں سے لاؤں ؟ (یہاں انبیاء عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی تواضُع ہے ورنہ وہ یقینا ہر گناہ سے
معصوم ہیں ) فرمایا : اَوروں سے دُعا کرا کہ اُن کے مُنہ سے تُو نے گناہ نہ کیا۔ (مُلَخَّص اَز مثنوی مولانا روم دفتر سوم ص۳۱)) {6}حاجت سے زائد تَوشہ(اَخراجات) رکھ کر رُفَقاء پر خَرْچ اور فُقَراء پر تصدُّق(یعنی خیرات) کر کے ثواب کماؤں گا {7} زَبان اور آنکھ وغیرہ کی حفاظت کروں گا۔(نصیحتوں کے مَدَنی پھولصَفْحَہ 29 اور 30پر ہے: (۱)(حدیثِ پاک ہے :اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے)اے ابنِ آدم! تیرا دِین اُس وَقت تک دُرُست نہیں ہوسکتاجب تک تیری زَبان سیدھی نہ ہواور تیری زَبان تب تک سیدھی نہیں ہوسکتی جب تک تُواپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے حَیا نہ کرے۔ (۲)جس نے میری حرام کردہ چیزوں سے اپنی آنکھوں کوجُھکا لیا(یعنی انہیں دیکھنے سے بچا)میں اسے جہنَّم سے امان (یعنی پناہ) عطاکر دوں گا ) {8} دَورانِ سفر ذِکر ودُرُود سے دل بہلاؤں گا ۔( اس سے فِرِشتہ ساتھ رہے گا ! گانے باجے اورلَغوِیات کا سلسلہ رکھا تو شیطان ساتھ رہے گا ) {9} اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دُعا کرتا رہوں گا۔( مسافِر کی دعا قَبول ہوتی ہے۔ نیز’’ فضائلِ دُعا ‘‘صَفْحَہ 220پر ہے: مسلمان کہ مسلمان کے لیے اُس کی غَیْبَت (یعنی غیرموجودَگی ) میں (جو) دُعا مانگے(وہ قَبول ہوتی ہے) حدیث شر یف میں ہے:یہ (یعنی غیر موجودَگی والی )دُعا نہایت جلد قَبول ہوتی ہے۔ فِرِشتے کہتے ہیں :اُس کے حق میں تیری دعا قَبول اور تجھے بھی اِسی طرح کی نِعمت حُصُول) ){10} سب کے ساتھ اچّھی گفتگو کروں گا ، اور حسبِ حیثیَّت مسلمانوں کو کھانا کِھلاؤں گا{11} پریشانیاں آئیں گی توصَبْر کروں گا {12}
اپنے رُفَقاء کے ساتھ حُسنِ اَخلاق کا مُظاہَرہ کرتے ہوئے ان کے آرام وغیرہ کا خیال رکھوں گا،غصّے سے بچوں گا ، بے کار باتوں میں نہیں پڑوں گا ، لوگوں کی(ناخوشگوار) باتیں برداشت کروں گا {13}تمام خوش عقیدہ مسلمان عَرَبوں سے(وہ چاہے کتنی ہی سختی کریں ، میں ) نرمی کے ساتھ پیش آؤنگا۔( بہارِ شریعت جلد۱حصّہ6 صَفْحَہ1060پر ہے : بدوؤں اور سب عَرَبیوں سے بَہُت نرمی کے ساتھ پیش آئے، اگر وہ سختی کریں (بھی تو) ادب سے تَحَمُّل(یعنی برداشت) کرے اِس پر شَفاعت نصیب ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خُصُوصاً اہلِ حَرَمین ، خُصُوصاً اہلِ مدینہ۔ اہلِ عَرَب کے اَفعال پر اعتِراض نہ کرے، نہ دل میں کَدُورَت(یعنی مَیل) لائے، اس میں دونوں جہاں کی سعادت ہے){14} بِھیڑ کے موقع پر بھی لوگوں کو اَذِیَّت نہ پہنچے اِس کا خیال رکھوں گا اور اگر خود کو کسی سے تکلیف پہنچی تو صَبْر کرتے ہوئے مُعاف کروں گا۔ (حدیثِ پاک میں ہے:جو شخص اپنے غُصّے کو روکے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قِیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۳۱۵ حدیث ۸۳۱۱) ) {15} مسلمانوں پر اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے ’’نیکی کی دعوت‘‘ دے کر ثواب کماؤں گا {16}سفر کی سنّتوں اور آداب کا حتَّی الامکان خیال رکھوں گا {17}اِحْرام میں لَبَّیْککی خوب کثرت کروں گا۔( اسلامی بھائی بُلند آواز سے کہے اور اسلامی بہن پَست آواز سے ) {18} مسجِدَینِ کَریْمَین (بلکہ ہر جگہ ہر مسجد )میں داخِل ہوتے وَقْت پہلے
سیدھا پاؤں اندر رکھوں گااور مسجِد میں داخِلے کی دُعاپڑھوں گا۔اِسی طرح نکلتے وَقت اُلٹاپاؤں پہلے نکالوں گا اور باہَرنکلنے کی دُعا پڑھوں گا {19}جب جب کسی مسجِد خُصُوصاً مسجِدَینِ کَریْمَین میں داخِلہ نصیب ہوا ، نفلی اعتِکاف کی نیّت کر کے ثواب کماؤں گا ۔ (یاد رہے! مسجِد میں کھانا پینا، آبِ زم زم پینا،سَحَری و اِفطار کرنا اور سونا جائز نہیں ، اعتِکاف کی نیّت کی ہو گی تو ضمناً یہ سب کام جائز ہو جائیں گے ) {20} کعبۂ مُشَرَّفہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پر پہلی نظر پڑتے ہی دُرُودِ پاک پڑھ کر دعا مانگوں گا {21} دَورانِ طواف ’’مُسْتَجاب ‘‘ پر(جہاں ستّرہزارفِرِشتے دُعا پر اٰمین کہنے کے لئے مقرَّر ہیں وہاں ) اپنی اور ساری امّت کی مغفِرت کیلئے دعا کروں گا {22}جب جب آبِ زم زم پیوں گا، ادائے سنَّت کی نیّت سے قبلہ رُو،کھڑے ہو کر،بِسمِ اللّٰہ پڑھ کر ،چوس چوس کر تین سانس میں ، پیٹ بھر کر پیوں گا ، پھر دُعامانگوں گا کہ وقتِ قَبول ہے۔(فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ہم میں اور مُنافِقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کُوکھ (یعنی پیٹ )بھر نہیں پیتے۔ (ابن ماجہ ج ۳ ص ۴۸۹ حدیث ۳۰۶۱ )) {23}مُلتَزَم سے لپٹتے وَقت یہ نیَّت کیجئے کہمَحَبَّت و شوق کے ساتھ کعبہ اور ربِّ کعبہ عَزَّوَجَلَّ کا قُرب حاصِل کر رہا ہوں اور اُس کے تعلُّق سے بَرَکت پا رہاہوں ۔(اُس وَقت یہ امّید رکھئے کہ بدن کا ہر وہ حصّہ جو کعبۂ مَشرَّفہ سے مَس (TOUCH) ہوا ہے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ جہنَّم سے آزاد ہوگا){24} غلافِ کعبہ سے چمٹتے وَقت یہ نیّت کیجئے کہ
مغفِرت وعافیت کے سُوال میں اِصرار کر رہا ہوں ، جیسے کوئی خطاکار اُس شخص کے کپڑوں سے لپٹ کر گڑ گڑا تا ہے جس کا وہ مُجرِم ہے اور خوب عاجِزی کرتا ہے کہ جب تک اپنے جُرم کی مُعافی اور آیَندہ کے اَمن و سلامَتی کی ضمانت نہیں ملے گی دامن نہیں چھوڑوں گا۔ ( غلافِ کعبہ وغیرہ پر لوگ کافی خوشبو لگاتے ہیں لہٰذا اِحرام کی حالت میں اِحتیاط کیجئے ) {25} رَمیِ جَمرات میں حضرتِسیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی مُشابَہَت ( یعنی مُوافَقَت)اورسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سنّت پر عمل ، شیطان کو رُسوا کر کے مار بھگانے اور خواہِشاتِ نفسانی کو رَجْم (یعنی سنگسار) کرنے کی نیّت کیجئے۔(حکایت:حضرتِ سیِّدُنا جُنیدِ بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی نے ایک حاجی سے پوچھا کہ تُو نے رمی کے وَقت نفسانی خواہِشات کوکنکریاں ماریں یا نہیں ؟ اُس نے جواب دیا:نہیں ۔ فرمایا : توپھر تُو نے رمی ہی نہیں کی۔(یعنی رَمی کا پورا حق ادا نہیں کیا)(مُلَخَّص از کشف المحجوب ص ۳۶۳ )) {26} طواف وسَعْی میں لوگوں کو دھکّے دینے سے بچتا رہوں گا۔(جان بوجھ کر کسی کو اس طرح دھکّے دینا کہ ایذا پہنچے بندے کی حق تلفی اور گناہ ہے ،توبہ بھی کرنی ہو گی اور جس کو اِیذا پہنچائی اُس سے مُعاف بھی کرانا ہو گا۔ بُزُرگوں سے منقول ہے:ایک دانگ کی(یعنی معمولی سی ) مقدار اللہ تَعَالٰی کے کسی ناپسندیدہ فِعل کو ترک کر دینا مجھے پانچ سو نفلی حج کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔(جامع العلوم والحکم لابن رجب ص ۱۲۵ )){27} عُلَماء ومشائخِ اہلسنّت کی زیارت و صُحبت سے
بَرَکت حاصِل کروں گا، ان سے اپنے لئے بے حساب مغفِرت کی دعا کرواؤں گا {28} عبادات کی کثرت کروں گا بالخصوص نَمازِ پنجگانہ پابندی سے اداکروں گا {29} گناہوں سے ہمیشہ کیلئے توبہ کرتا ہوں اورصِرف اچّھی صُحبت میں رہا کروں گا {30} واپَسی کے بعد گناہوں کے قریب بھی نہ جاؤں گا ،نیکیوں میں خوب اِضافہ کروں گا اور سنّتوں پر مزید عمل بڑھاؤں گا {31}مکّۂ مکرَّمہ اور مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے یاد گار مبارَک مقامات کی زِیارت کروں گا {32} سعادت سمجھتے ہوئے بہ نیَّتِ ثواب مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی زِیارت کروں گا {33} سرکارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دربارِ گُہَر بار کی پہلی حاضِری سے قبل غسل کروں گا، نیا سفید لباس،سر پر نیا سربندنئی ٹوپی اور اس پر نیا عمامہ شریف باندھوں گا، سُرمہ اورعمدہ خوشبو لگاؤں گا {34} اللہ عَزَّوَجَلَّکے اس فرمانِ عالیشان :
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ۵،النساء:۶۴)(ترجَمۂ کنزالایمان:اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہسے مُعافی چاہیں ا ور رسول ان کی شَفاعت فرمائے تو ضَرور اللہکوبَہُت توبہ قَبول کرنے والا مہربان پائیں ) پر عمل کرتے ہوئے مدینے کے شَہَنْشاہ
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضِری دوں گا {35} اگر بس میں ہوا تواپنے مُحسن وغمگُسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی با رگاہ ِ بے کس پناہ میں اس طرح حاضِرہوں گاجس طرح ایک بھاگا ہوا غلام اپنے آقا کی بارگاہ میں لرزتا کانپتا ، آنسو بہاتاحاضِر ہوتا ہے ۔ (حکایت : سیّدُنا امام مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِقجب سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا ذِکر کرتے رنگ اُن کا بدل جاتا اورجُھک جاتے۔ حکایت : حضرتِ سیِّدُنا امامِ مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق سے کسی نے حضرتِ سیِّدُنا اَیُّوب سَخْتِیَانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَانِیکے بارے میں پوچھا تو فرمایا: میں جن حَضْرات سے روایت کرتا ہوں وہ اُن سب میں افضل ہیں ،میں نے انہیں دو مرتبہ سفرِ حج میں دیکھا کہ جب ان کے سامنے نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْم کا ذکرِ انور ہوتا تو وہ اتنا روتے کہ مجھے ان پر رَحم آنے لگتا۔میں نے ان میں جب تعظیمِ مصطَفٰے وعشقِ حبیبِ خدا کا یہ عالَم دیکھاتو مُتأَثِّر ہو کران سے احادیثِ مبارَکہ روایت کرنی شُروع کیں ۔ (الشفاء ج۲ ص ۴۱ ، ۴۲)) {36}سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے شاہی دربار میں ادب واحتِرام اور ذوق وشوق کے ساتھ درد بھری مُعتَدِل(یعنی درمیانی) آواز میں سلام عرض کروں گا {37}حکمِ قراٰنی:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)
(پ۲۶،الحجرات:۲)(ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو !اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حُضُور بات چِلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چِلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو)پرعمل کرتے ہوئے اپنی آواز کوپَست اور قدرے دھیمی رکھوں گا{38}اَسْئَلُکَ الشَّفاعۃَ یا رسولَ اللّٰہ ( یعنی یَا رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم!میں آپ کی شَفاعت کا سُوالی ہوں )کی تکرار کر کے شَفاعت کی بھیک مانگوں گا {39}شیخین کَریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی عَظَمت والی بارگا ہوں میں بھی سلام عرض کروں گا {40}حاضِری کے وَقت اِدھر اُدھر دیکھنے اورسُنہَری جالیوں کے اندر جھانکنے سے بچوں گا {41}جن لوگوں نے سلام پیش کرنے کا کہا تھا اُن کا سلام بارگاہِ شاہِ انام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عَرْض کروں گا {42}سُنہَری جالیوں کی طرف پیٹھ نہیں کروں گا {43}جنَّتُ البقیع کے مَدفُونین کی خدمتوں میں سلام عرض کروں گا {44}حضرتِ سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور شُہَدائے اُحُد کے مزرات کی زیارت کروں گا ، دعا و ایصالِ ثواب کروں گا، جَبَلِ اُحُد کا دیدار کروں گا{45}مسجدِ قُبا شریف میں حاضِری دوں گا {46}مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے درودیوار ، بَرگ وبار،گل وخار اورپتَّھر و غبار اور وہاں کی ہر شے کا خوب ادب واحتِرام کروں گا۔ (حکایت: حضرت سیِّدُنا امامِ مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق
نے تعظیمِ خاکِ مدینہ کی خاطرمدینہ ٔطیبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں کبھی بھی قَضائے حاجت نہیں کی بلکہ ہمیشہ حَرَم سے باہَر تشریف لے جاتے تھے ،البتَّہ حالتِ مَرَض میں مجبوری کی وجہ سے معذورتھے۔(بستان المحدثین ص۱۹)){47}مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی کسی بھی شے پر عیب نہیں لگاؤں گا ۔ (حکایت:مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ایک شخص ہر وقت روتا اورمُعافی مانگتا رہتا تھا، جب اِس کا سبب پوچھا گیا تو بولا: میں نے ایک دن مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی دَہی شریف کو کھٹّااورخراب کہہ دیا، یہ کہتے ہی میری نسبت سَلب ہو گئی اور مجھ پر عِتاب ہوا ( یعنی ڈانٹ پڑی) کہ’’ اَو دِیارِ محبوب کی دَہی کوخراب کہنے والے! نگاہِ مَحَبَّت سے دیکھ! محبوب کی گلی کی ہرہر شے عمدہ ہے۔‘‘( ماخوذاز بہارِ مثنوی ص۱۲۸ )حکایت : حضرتِ سیِّدُنا امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا کہ ’’مدینے کی مٹّی خراب ہے ‘‘یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فتویٰ دیا کہ اس گستاخ کو تیس دُرّے لگائے جائیں اور قید میں ڈال دیا جائے۔(الشفاء ج۲ص۵۷ )) {48} عزیزوں اور اسلامی بھائیوں کوتُحفہ دینے کیلئے آبِ زم زم، مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی کَھجوریں اور سادہ تَسبِیحَیں وغیرہ لاؤں گا۔ (بارگاہِ اعلیٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرت میں سُوال ہوا : تسبیح کس چیز کی ہونی چاہئے؟ آیا لکڑی کی یا پتَّھروغیرہ کی؟الجواب: تسبیح لکڑی کی ہو یا پتّھر کی مگر بیش قیمت( یعنی قیمتی) ہونا مکروہ ہے اور سونے چاندی کی حرام۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۵۹۷)){49}جب تک مدینۂ منوَّرہ
زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہوں گا دُرُود و سلام کی کثرت کروں گا {50} مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں قِیام کے دَوران جب جب سبز گنبد کی طرف گزر ہو گا، فوراً اُس طرف رُخ کر کے کھڑے کھڑے ہاتھ باندھ کر سلام عرض کروں گا۔ (حکایت : مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں سیِّدُنا ابو حازِم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضِر ہو کر ایک صاحِب نے بتایا : مجھے خواب میں جنابِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی زیارت ہوئی، فرمایا: ابو حازِم سے کہدو،’’ تم میرے پاس سے یوں ہی گزر جاتے ہو، رُک کر سلام بھی نہیں کرتے!‘‘ اس کے بعد سیِّدُنا ابو حازِم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنا معمول بنا لیا کہ جب بھی روضۂ انور کی طرف گزر ہوتا ، ادب و احتِرام کے ساتھ کھڑے ہو کر سَلام عرض کرتے، پھر آگے بڑھتے۔(المنامات مع موسوعۃ ابن اَبِی الدُّنْیا ج۳ص۱۵۳حدیث۳۲۳)) {51} اگرجنَّتُ البقیع میں مدفن نصیب نہ ہوا، اورمدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے رخصت کی جاں سوز گھڑی آگئی تو بارگاہِ رسالت میں اَلوَداعی حاضِری دوں گا اور گڑ گڑا کر بلکہ ممکن ہوا تو رو رو کر بار بار حاضِری کی التِجاکروں گا {52} اگر بس میں ہُو اہو توماں کی مامتا بھری گود سے جداہونے والے بچّے کی طرح بِلک بِلک کر روتے ہوئے دربارِرسول کو بار بار حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے رخصت ہوں گا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘( اِبن ماجہ ج۱ ص۱۴۶ حدیث ۲۲۴)اِس کی شَرْح میں یہ بھی ہے کہ حج و عمرہ ادا کرنے والے پر فرض ہے کہ حج وعمرہ کے ضَروری مسائل جانتا ہو۔عُمُوماً حُجّاج و مُعتَمرِین طواف و سَعْی وغیرہ میں پڑھی جانے والی عَرَبی دعاؤں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں اگرچِہ یہ بھی بَہُت اچّھا ہے جب کہ دُرُست پڑھ سکتے ہوں ، اگر کوئی یہ دعائیں نہ بھی پڑھے تو گنہگار نہیں مگر حج وعمرہ کے ضَروری سائل نہ جاننا گناہ ہے ۔ رفیقُ الْمُعتَمِرِین اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو بَہُت سارے گناہوں سے بچا لے گی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّرفیقُ الْمُعتَمِرِین برسوں سے لاکھوں کی تعداد میں چَھپ رہی ہے ۔ اِس میں زیادہ تر فتاویٰ رضویہ شریف اور بہارِ شریعت جیسی مستند کتابوں میں مُندَرج مسائل آسان کرکے لکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اب اس کے اندر مزید ترمیم و اضافہ کیاگیا ہے اور اس پردعوتِ اسلامی کی مجلس ’’ المدینۃُ العِلمِیہ‘‘ نے نَظَرِ ثانی کی ہے اور دارُالاِْفتاء اہلسنّت نے اوّل تا آخِر ایک ایک مسئلہ دیکھ کر رہنمائی فرمائی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ خوب اچّھی اچّھی نیّتیں کر کے رفیقُ الْمُعتَمِرِین کی
ترکیب کی گئی ہے۔ وَاللّٰہ!رفیقُ الْمُعتَمِرِینکے ذَرِیعے مدینے کے مسافروں کی رہنمائی کرکے صِرْف و صِرْف ثوابِ آخِرت کا حُصُول مقصود ہے، ذاتی آمدنی کا تصوُّر نہیں ۔ شیطٰن لاکھ سُستی دلائے مگر ہمّت ہارے بِغیر بہ نیتِ ثواب رفیقُ الْمُعتَمِرِین اوّل تا آخِر پوری پڑھ لیجئے ۔
بیان کردہ مسائل پر غور کیجئے، کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توعُلَمائِ اہلسنَّت سے پوچھئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ!’’رفیقُ الْمُعتَمِرِین ‘‘کے اندر حج و عمرے کے مسائل کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں عَرَبی دُعائیں بھی مَع ترجَمہ شامل ہیں ۔ اگر سفرِ مدینہ میں رفیقُ الْمُعتَمِرِینآپ کے ساتھ ہوئی تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! عُمرے کی کسی اورکتاب کی کم ہی حاجت ہو گی۔ ہاں ،جو اس سے بھی زیادہ مسائل سیکھنا چاہے اور سیکھنا بھی چاہئے تو بہارِ شریعت حصّہ 6کا مُطالَعہ کرے۔
مَدَنی التِجا:ہوسکے تو12 عددرفیقُ الْمُعتَمِرِین، 12عدد جیبی سائز کے کوئی سے بھی رسائل اور 12 عدد سنّتوں بھرے بیانات کیV.C.Dsمکتبۃُ المدینہ سے ہدیۃً حاصِل کرکے ساتھ لے لیجئے اور حُصولِ ثواب کیلئے وہاں تقسیم فرما دیجئے نیز فراغت کے بعد بہ نیتِ ثواب اپنی رفیقُ الْمُعتَمِرِین بھی حَرَمینِ طیبّیَن ہی میں کسی اسلامی بھائی کو پیش کر دیجئے۔
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، شیخینِکَریْمَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَااور سیِّدُنا حمزہ ،شُہَداء اُحُد، اہلِ بقیع و معلی کے مدفونین کی بارگاہوں میں میرا سلام عرض کیجئے گا۔دَورانِ سفر بالخصوص حَرَمینِ طیِبین میں مجھ گنہگار کی بے حساب بخشش اور تمام اُمّت کی مغفِرت کی دُعا کے لیے مَدَنی اِلتِجا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کا عمرہ و سفرِ مدینہ آسان کرے اور قَبول فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ایک چُپ سو۱۰۰ سُکھ
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں
آقا کے پڑوس کا طالب
۲۹ رجب المرجب۱۴۳۳ ھ
2012-06-20
آج کا دن آنکھ ،کان،زبان
اور ہرعضو کو گناہوں اور فضولیات
سے بچاتے ہوئے،نیکیوں میں گزاروں گا اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
(اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یہ کلام ۱۴۱۴ھ کی حاضری میں ۲۹ ذوالحجّۃِ الحرام کو مسجد نبوی علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃ وَالسَّلام میں بیٹھ کر قلم بند کیا)
گو ذلیل و خوار ہوں کر دو کرم پر سگِ دربار ہوں کر دو کرم
یارسولَ اللّٰہ!رحمت کی نظر حاضِرِ دربار ہوں کر دو کرم
رَحمتوں کی بھیک لینے کے لئے حاضِرِ دربار ہوں کر دو کرم
دردِ عِصیاں کی دوا کے واسِطے حاضِرِ دربار ہوں کر دو کرم
اپنا غم دو چشمِ نَم دو دردِ دل حاضِرِ دربار ہوں کر دو کرم
آہ! پلّے کچھ نہیں حُسنِ عمل! مُفلس و نادار ہوں کر دو کرم
علم ہے نہ جذبۂ حُسنِ عمل! ناقِص و بیکار ہوں کر دو کرم
عاصِیوں میں کوئی ہم پَلّہ نہ ہو! ہائے وہ بدکار ہوں کر دو کرم
ہے ترقّی پر گناہوں کا مَرَض آہ! وہ بیمار ہوں کر دو کرم
تم گنہگاروں کے ہو آقا شَفیع میں بھی تو حق دار ہوں کر دو کرم
دولتِ اَخلاق سے محروم ہوں ہائے! بدگُفتار ہوں کر دو کرم
آنکھ دے کر مُدّعا پورا کرو طالبِ دیدار ہوں کر دو کرم
دوست، دشمن ہوگئے یامصطَفٰے بیکس و لاچار ہوں کر دو کرم
کر کے توبہ پھر گُنہ کرتا ہے جو
میں وُہی عطارؔ ہوں کر دو کرم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ مُشکبار ہی: جس نے مجھ پر ایک بار دُرُود پاک پڑھا اللہ عَزَّ وَجَلَّاس پر دس رَحمتیں نازِل فرماتا ہے، دس گناہ مٹاتا ہے، دس دَرَجات بُلند فرماتا ہے۔ (نَسائی، ج۱،ص۲۲۲،حدیث:۱۲۹۴)
تین فرامینِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:{۱} رَمَضان میں عُمرہ میرے ساتھ حج کے برابر ہے۔ (بخاری ج۱ص۶۱۴حدیث۱۸۶۳){۲}جو عُمرے کے لئے نکلا اور مرگیا اُس کے لئے قیامت تک عُمرہ کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا ۔ (ابو یعلی ج۵ص۴۴۱حدیث۶۳۲۷){۳}عُمرہ سے عُمرہ تک اُن گناہوں کا کفّارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حج مَبْرُور کا ثواب جنّت ہی ہے۔ (بخاری ۱ص۵۸۶حدیث۱۷۷۳)
عمرہ کی تیاری کیجئے
حج ہو یا عُمرہ اِحرام باندھنے کا طریقہ دونوں کا ایک ہی ہے۔ ہاں نیَّت اور اُس کے اَلفاظ میں
تھوڑاسافرق ہے۔نیَّت کابیاناِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآگے آرہا ہے۔ پہلے اِحرام باندھنے کا طریقہ مُلاحَظہ فرمایئے:{۱}ناخُن تَراشئے {۲}بغل اور ناف کے نیچے کے بال دُور کیجئے بلکہ پیچھے کے بال بھی صاف کرلیجئے {۳}مِسْواک کیجئے {۴}وُضو کیجئے {۵}خوب اچھی طرح مَل کے غُسل کیجئے{۶}جسم اوراِحرام کی چادروں پر خوشبو لگایئے کہ یہ سُنَّت ہے، کپڑوں پرایسی خوشبو (مَثَلاً خُشک عَنبر وغیرہ)نہ لگایئے جس کاجِرم (یعنی تَہ ) جَم جائے {۷}اِسلامی بھائی سِلے ہوئے کپڑے اُتار کر ایک نئی یا دُھلی ہوئی سفید چادر اوڑھیں اور ایسی ہی چادر کا تہبند باندھیں ۔ (تہبند کے لئے لٹھا اور اَوڑھنے کے لئے تولیا ہوتو سَہولت رہتی ہے، تہبند کا کپڑا موٹا لیجئے تاکہ بدن کی رنگت نہ چمکے اور تولیا بھی قدرے بڑی سائز کا ہو تواچّھا){۸}پاسپورٹ یارقم وغیرہ رکھنے کے لئے جیب والا بیلٹ چاہیں تو باندھ سکتے ہیں ۔ ریگزین کا بَیلٹ اکثر پَھٹ جاتا ہے، آگے کی طرف زِپ(zip)والا بٹوا لگا ہوا نائیلون( nylon) یا چمڑے کا بیلٹ کافی مضبوط ہوتا اور برسوں کام دے سکتا ہے۔
اِسلامی بہنیں حسبِ معمول سِلے ہوئے کپڑے پہنیں ، دستانے اور موزے بھی پہن سکتی ہیں ، وہ سَر بھی ڈھانپیں مگر چہرے پر چادر نہیں اَوڑھ سکتیں ، غیر مَردوں سے چہرہ
چُھپانے کے لئے ہاتھ کا پنکھا یا کوئی کتاب وغیرہ سے ضَرورتاً آڑکرلیں ۔ اِحرام میں عورَتوں کو کسی ایسی چیز سے مُنہ چھپانا جو چہرے سے چِپٹی ہو حرام ہے۔
اگر مکروہ وَقْت نہ ہوتو دو رَکْعَت نَماز نَفل بہ نیَّتِ اِحرام (مرد بھی سَر ڈھانپ کر) پڑھیں ، بہتر یہ ہے کہ پہلی رَکْعَت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ اورر دوسری رَکْعَت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہ شریف پڑھیں ۔
اب اِسلامی بھائی سَر ننگا کر دیں اور اِسلامی بہنیں سَر پر بدستور چادر اوڑھے رہیں اور عُمرے کی اِس طرح نیَّت کریں :
اَللّٰهُمَّ اِ نِّیْۤ اُرِيْدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْ هَا لِیْ وَ تَقَبَّلْهَا مِنِّیْ وَ اَعِنِّیْ عَلَيْهَا وَ بَارِكْ لِیْ فِيْهَا ط نَوَيْتُ الْعُمْرَةَ وَ اَحْرَمْتُ بِهَا لِلّٰهِ تَعَالٰیط
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں عُمرے کا اِرادہ کرتا ہوں میرے لئے اِسے آسان اور اِسے میری طرف سے قَبول فرمااور اِسے (ادا کرنے میں ) میری مدد فرما اور اِسے میرے لئے بابَرَکت فرما۔میں نے عُمرے کی نیَّت کی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لئے اِس کا اِحرام باندھا۔
نیَّت کے بعد کم اَز کم ایک بار لَبَّیْک کہنا لازِمی ہے اور تین بار کہنا افضل۔ لَبَّیْک یہ ہے:
لَبَّیْكَ ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْكَ ط لَبَّیْكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ لَبَّیْكَ ط اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَكَ وَ الْمُلْكَ ط لَا شَرِیْكَ لَكَط
میں حاضِر ہوں ، اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں حاضِر ہوں ، (ہاں )میں حاضِر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضِر ہوں ،بے شک تمام خوبیاں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور تیرا ہی ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ۔
اے مدینے کے مسافِرو! آپ کا اِحرام شُروع ہوگیا، اب یہلَبَّیْک ہی آپ کاوَظیفہ اور وِرد ہے، اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے اِس کا خوب وِرد کیجئے۔
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ {1}جب لَبَّیْککہنے والالَبَّیْک کہتا ہے تو اسے خوشخبری دی جاتی ہے۔ عَرْض کی گئی : یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا جنَّت کی خوشخبری دی جاتی ہے؟ اِرشاد فرمایا:’’ہاں ‘‘ (مُعْجَم اَ وْسَط ج ۵ ص۴۱۰ حدیث ۷۷۷۹) {2} جب مسلمان ’’لَبَّیْک ‘‘کہتاہے تو اُس کے دائیں اور بائیں زمین کے آخِری سِرے تک جو بھی پتھر، دَرَخت اور ڈھیلا ہے وہ سب لَبَّیْک کہتے ہیں ۔ ( تِرْمِذیج۲ ص۲۲۶ حدیث۸۲۹)
اِدھراُدھر دیکھتے ہوئے بے دلی سے پڑھنے کے بجائے نہایت خُشوع وخُضوع کے ساتھ معنیٰ پر نظر رکھتے ہوئے لَبَّیْک پڑھنا مناسِب ہے ۔ اِحْرام باندھنے والالَبَّیْک کہتے وَقْت اپنے پیارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مُخاطِب ہوتا ہے اور عرض کرتاہے: ’’لَبَّیْک ‘‘یعنی میں حاضر ہوں ،اپنے ماں باپ کواگر کوئی یِہی الفاظ کہے تویقینا توجُّہ سے کہے گا ، پھر اپنے پَرورْدَگارعَزَّوَجَلَّ سے عرض و مَعروض میں کتنی توجُّہ ہونی چاہئے یہ ہر ذِی شُعُور سمجھ سکتا ہے ۔ اسی بِنا پر حضرت ِسیِّدُناعلّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں : ایک فرد لَبَّیْککے الفاظ پڑھائے اور دوسرے اُس کے پیچھے پیچھے پڑھیں یہ مُستَحب نہیں ۔بلکہ ہرفَرْد خود تَلْبِیہ پڑھے۔ (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاریص۱۰۳)
لَبَّیْکسے فارغ ہونے کے بعد دُعا مانگنا سُنَّت ہے، جیسا کہ حدیثِ مُبارَک میں ہے کہ تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب لَبَّیْک سے فارِغ ہوتے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اُس کی خوشنودی اور جنَّت کا سُوال کرتے اور جہنَّم سے پناہ مانگتے۔ (مُسنَد اِمام شافعیص۱۲۳) یقیناً ہمارے
پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ خو ش ہے، بِلاشُبہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قَطْعی جنَّتی بلکہ بَعَطائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ مالِکِ جنَّت ہیں مگر یہ سب دُعائیں دیگر بَہُت ساری حکمتوں کے ساتھ ساتھ اُمّت کی تعلیم کے لیے بھی ہیں کہ ہم بھی سنَّت سمجھ کر دُعا مانگ لیا کریں ۔
اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک کے نو حروف کی نسبت
سے لَبَّیْک کے 9مدنی پھول
{1} اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، وُضو بے وُضو ہر حال میں لَبَّیْک کہئے {2} خُصوصاً چڑھائی پرچڑھتے ،ڈھلوان اُترتے(سیڑھیوں پر چڑھتے اُترتے ) ، دوقافلوں کے ملتے ، صبح وشام، پچھلی رات، پانچوں وَقْت کی نَمازوں کے بعد ، غَرَض کہ ہر حالت کے بدلنے پر لَبَّیْککہئے{3}جب بھی لَبَّیْک شُروع کریں کم ازکم تین بار کہیں {4}’’مُعْتَمِر‘‘یعنی عُمرہ کرنے والا اور’’مُتَمَتِّع‘‘ بھی عُمرہ کرتے وَقْت جب کَعْبۂ مشَرَّفہ کا طواف شُروع کرے اُس وَقْت حَجرِ اَسْوَد کا پہلا اِسْتِلام کرتے ہی ’’لَبَّیْک‘‘کہنا چھوڑ دے{5}’’مُفْرِد‘‘اور ’’قارِن‘‘لَبَّیْککہتے ہوئے مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ٹھہریں کہ ان کی لَبَّیْک اورمُتَمَتِّع جب
حج کا اِحرام باندھے اُس کی لَبَّیْک 10ذُوالْحِجَّۃِ الْحرام شریف کو جَمْرَۃُ الْعَقَبہ (یعنی بڑے شیطان)کو پہلی کنکری مارتے وَقتخَتْم ہوگی{6}اِسلامی بھائی بہ آوازِ بُلندلَبَّیْک کہا کریں مگر آواز اِتنی بھی بُلند نہ کریں کہ اِس سے خود کو یا کسی دوسرے کو تکلیف ہو{7}اِسلامی بہنیں جب بھی لَبَّیْک کہیں دھیمی آوازسے کہیں اور یہ سبھی یاد رکھیں کہ علاوہ حج وعُمرہ کے بھی جب کبھی جو کچھ پڑھیں تلفُّظ کی ادائیگی میں اِتنی آواز لازِمی ہے کہ اگر بَہَرا پَن یاشور وغُل نہ ہو توخود سُن سکیں {8} اِحْرام کے لئے نیَّت شَرْط ہے اگر بِغیرنیَّتلَبَّیْک کہا اِحْرام نہ ہوا ،اِسی طرح تنہا نیَّت بھی کافی نہیں جب تکلَبَّیْک یا اِس کے قائِم مقام کوئی اور چیز نہ ہو(فتاوٰی عالمگیری ج۱ ص ۲۲۲ ) {9} اِحْرام کے لئے ایک بار زَبان سے لَبَّیْک کہنا ضَروری ہے اور اگر اس کی جگہ سُبْحٰنَ اللہِ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ یا لَا اِلٰہ اَلَّا اللہُ یا کوئی اور ذِکْرُاللّٰہ کیا اور اِحرام کی نیت کی تو احرام ہوگیا مگر سنّتلَبَّیْککہنا ہے۔(ایضاً)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یادرکھئے!نِیَّت دِل کے اِرادہ کو کہتے ہیں ۔ خواہ نَماز، روزہ، اِحْرام کچھ بھی ہو، اگردِل میں نیَّت موجود نہ ہو تو صِرْف زَبان سے نیَّت کے اَلفاظ ادا کرلینے سے نیَّت
نہیں ہوسکتی اور نِیَّت کے اَلفا ظ عَرَبی زَبان میں کہنا ضَروری نہیں ، اپنی مادَری زَبان میں بھی کہہ سکتے ہیں بلکہ زَبان سے کہنا لازِمی نہیں ،صِرْف دِل میں اِرادہ بھی کافی ہے۔ ہاں زَبان سے کہہ لینا افضل ہے اور عَرَبی زَبان میں زِیادہ بہتر کیونکہ یہ ہمارے مَکّی مَدَنی سُلطان، رَحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی میٹھی میٹھی زَبان ہے۔عَرَبی زَبان میں جب نیَّت کے اَلفاظ کہیں تو اُس کے معنٰی بھی ضَرور ذِہن میں ہونے چاہئیں ۔
اِحْرام کے لفظی معنیٰ ہیں : حرام کرنا کیوں کہ اِحْرام باندھنے والے پر بعض حَلال باتیں بھی حرام ہوجاتی ہیں ، اِحْرام والے اِسلامی بھائی کو مُحرِم اور اِسلامی بہن کو مُحرِمَہ کہتے ہیں ۔
{1}اِسلامی بھائی کو سِلائی کیا ہوا کپڑاپہننا {2} سَرپر ٹوپی اوڑھنا، عمامہ یا رُومال وغیرہ باندھنا {3} مرد کا سر پر کپڑے کی گٹھڑی اُٹھانا (اِسلامی بہنیں سَر پر چادر اوڑھیں اور اِنھیں سَر پر کپڑے کی گٹھری اُٹھانامَنْع نہیں ){4}مرد کا دَستانے پہننا۔ ( اِسلامی بہنوں کومَنْع نہیں ){5}اِسلامی بھائی ایسے موزے یا جوتے نہیں پہن سکتے جو وَسطِ قدم (یعنی قدم کے بیچ کا اُبھار)چھُپائیں ،( ہَوائی چپَّل مناسِب ہیں ) {6} جسم ، لباس یا بالوں میں خوشبو لگانا{7}خالِص خوشبو مَثَلاً اِلائچی، لونگ، دار چینی، زَعْفران،
جاوَتَّری کھانا یا آنچل میں باندھنا، یہ چیزیں اگر کسی کھانے یا سالن وغیرہ میں ڈال کر پکائی گئی ہوں اب چاہے خوشبو بھی دے رہی ہوں تو بھی کھانے میں حَرَج نہیں {8}جِماع کرنا یا بوسہ،مساس(یعنی چُھونا )، گلے لگانا،اَندامِ نِہانی (عورت کی شرمگاہ)پر نگاہ ڈالنا جبکہ یہ آخِری چاروں یعنی جِما ع کے علاوہ کام بشَہْوَت ہوں {9} فُحش اور ہر قسم کا گناہ ہمیشہ حرام تھا اب اور بھی سَخْت حرام ہوگیا {10} کسی سے دُنیوی لڑائی جھگڑا {11}جنگل کا شکار کرنا یاکسی طرح بھی اِس پر مُعاوِن ہونا ، اِس کا گوشت یا انڈا وغیرہ خریدنا، بیچنا یا کھانا{12}اپنا یا دوسرے کا ناخُن کتَرنا یا دوسرے سے اپنے ناخُن کتَروانا {13}سَر یا داڑھی کے بال کاٹنا، بغلیں بنانا، مُوئے زیرِ ناف لینا، بلکہ سَر سے پاؤں تک کہیں سے کوئی بال جُدا کرنا {14} وَسمہ یامہندی کا خِضاب لگانا {15}زَیتون کا یا تِل کاتیل چاہے بے خوشبو ہو، بالوں یا جسم پر لگانا {16}کسی کا سَرمُونڈنا خواہ وہ اِحرام میں ہویا نہ ہو ۔ (ہاں اِحرام سے باہَر ہونے کا وَقْت آ گیا تو اب اپنا یا دوسرے کا سر مُونڈ سکتا ہے) {17} جُوں مارنا، پھینکنا، کسی کو مارنے کے لئے اِشارہ کرنا، کپڑا اُس کے مارنے کے لئے دھونایا دھوپ میں ڈالنا، بالوں میں جُوں مارنے کے لئے کسی قسم کی دوا وغیرہ ڈالنا، غرضیکہ کسی طرح اُس کے ہلاک پر باعث ہونا۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۰۷۸،۱۰۷۹)
{1}جِسم کا مَیل چُھڑانا{2}بال یا جِسم صابون وغیرہ سے دھونا {3} کنگھی کرنا{4}اِس طرح کُھجانا کہ بال ٹوٹنے یا جُوں گرنے کا اَندیشہ ہو{5} کُرتا یا شَیروانی وغیرہ پہننے کی طرح کندھوں پر ڈالنا{6}جان بوجھ کر خوشبو سونگھنا {7} خوشبودار پھل یا پتّامَثَلاً لیموں ، پودینہ، نارنگی وغیرہ سونگھنا(کھانے میں مُضایَقہ نہیں ) {8} عِطر فَروش کی دُکان پر اِس نیَّت سے بیٹھنا کہ خوشبو آئے {9}مہکتی خوشبو ہاتھ سے چُھونا جب کہ ہاتھ پر نہ لگ جائے ورنہ حرام ہے {10}کوئی ایسی چیز کھانا یا پینا جس میں خوشبو پڑی ہواور نہ وہ پکائی گئی ہو نہ بُو زائل (یعنی ختم) ہو گئی ہو {11} غلافِ کَعْبہ کے اندر اِس طرح داخِل ہوناکہ غلاف شریف سَریامنہ سے لگے {12} ناک وغیرہ مُنہ کا کوئی بھی حصَّہ کپڑے سے چُھپانا{13}بے سِلا کپڑا رَفو کیا ہوایا پَیوَند لگا ہوا پہننا {14}تکیہ پر مُنہ رکھ کر اَوندھا لیٹنا(اِحرام کے علاوہ بھی اوندھا سونا مَنْع ہے کہ حدیثِ پاک میں اس طرح سونے کو جہنَّمیوں کا طریقہ کہا گیا ہے ) {15}تعویذ اگرچِہ بے سِلے کپڑے میں لپیٹا ہوا ہو، اُسے باندھنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر بے سِلے کپڑے میں لپیٹا ہوا تعویذ بازو وغیرہ پر باندھا نہیں بلکہ گلے میں ڈال لیا تو حَرَج نہیں {16} سر یا مُنہ پر پٹّی باندھنا {17}بِلا عُذر بدن پر پٹّی باندھنا {18} بناؤ سِنگھار کرنا {19} چادر اوڑھ کر اِس کے سِروں میں گرہ دے لینا جب کہ سر کُھلا ہو ورنہ حرام ہے {20} تہبند کے دونوں کناروں میں گرہ دینا
{21}رقم وغیرہ رکھنے کی نیَّت سے جیب والا بیلٹ باندھنے کی اِجازَت ہے۔ البتَّہ صِرْف تہبند کو کَسنے کی نیَّت سے بیلٹ یا رسّی وغیرہ باندھنا مکروہ ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۷۹ ، ۱۰۸۰ )
{1}مِسواک کرنا{2}انگوٹھی پہننا([1]){3}بے خوشبو سُرمہ لگانا۔ لیکن مُحرم کے لئے بِلاضَرورت اِس کا استِعمال مکروہِ تنزیہی ہے ۔ (خوشبوداردار سرمہ ایک یا دو بار لگایا تو ’’ صَدَقہ ‘‘ ہے او ر تین یا اس سے زائد میں ’’دم‘‘){4}بے مَیل چُھڑائے غُسل کرنا{5}کپڑے دھونا۔ (مگر جُوں مارنے کی غَرَض سے حرام ہے) {6} سَر یا بدن
اِس طرح آہِسۃ سے کُھجانا کہ بال نہ ٹوٹیں {7}چَھتْری لگانا یا کسی چیز کے سائے میں بیٹھنا{8}چادر کے آنچلوں کو تہبندمیں گُھرسنا{9}داڑھ اُکھاڑنا {10} ٹوٹے ہوئے ناخُن جُدا کرنا {11}پھُنسی توڑ دینا{12}آنکھ میں جوبال نکلے، اُسے جُدا کرنا {13} ختنہ کرنا{14}فَصد( بغیر بال مُونڈے) پَچھنے (حجامت) کروانا {15} چیل، کوّا، چوہا، چھُپکلی ، گرگٹ، سانپ، بچّھو، کھٹمل ، مچھّر، پِسُّو،مکھّی وغیرہ خبیث اور موذی جانوروں کو مارنا۔(حرم میں بھی ان کو مارسکتے ہیں ) {16} سَر یا مُنہ کے علاوہ کسی اورجگہ زخم پر پٹّی باندھنا ([2]){17}سَر یا گال کے نیچے تکیہ رکھنا{18}کان کپڑے سے چھُپانا{19}سَر یا ناک پراپنا یا دوسرے کاہاتھ رکھنا (کپڑا یا رُومال نہیں رکھ سکتے ){20}ٹھوڑی سے نیچے داڑھی پر کپڑا آنا {21}سَر پرسِینی(یعنی دھات کا بنا ہوا خوان) یا غلّے کی بوری اُٹھانا جائز ہے مگر سَر پر کپڑے کی گٹھڑی اُٹھانا حرام ہے۔ ہاں ’’مُحْرِمَہ‘‘دونوں اُٹھا سکتی ہے {22} جس کھانے میں اِلائچی، دار چینی، لونگ وغیرہ پکائی گئی ہوں اگرچِہ اُن کی خوشبوبھی آرہی ہو (مَثَلاً قورمہ، بِریانی، زردہ وغیرہ)اُس کا کھانا یا بے پکائے جس کھانے پینے میں کوئی خوشبوڈالی ہوئی ہو وہ بو نہیں دیتی، اُس کا کھانا پینا{23}گھی یا چربی
یا کڑوا تیل یابادام یا ناریل یا کدّو، کاہُو کا تیل جس میں خوشبونہ ڈالی ہوئی ہو اُس کا بالوں یا جِسم پر لگانا{24}ایسا جوتا پہننا جائز ہے جو قدم کے وَسْط کے جوڑ یعنی قدم کے بیچ کی اُبھری ہوئی ہڈّی کو نہ چھُپائے۔ (لہٰذا مُحرِم کے لئے اِسی میں آسانی ہے کہ وہ ہَوائی چپّل پہنے){25}بے سلے ہوئے کپڑے میں لَپیٹ کر تعویذ گلے میں ڈالنا{26}پالتو جانور مَثَلاً اُونٹ، بکری، مُرغی، گائے وغیرہ کو ذَبْح کرنا اُس کا گوشت پکانا، کھانا۔اُس کے انڈے توڑنا،بھوننا ،کھانا۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۰۸۱،۱۰۸۲)
اِحْرام کے مذکورۂ بالامسائل میں مرد وعورت دونوں برابرہیں تاہَم چند باتیں اِسلامی بہنوں کے لئے جائز ہیں ۔آج کل اِحرام کے نام پر سِلے سِلائے ’ ’ اسکارف‘ ‘ بازار میں بِکتے ہیں ، معلومات کی کمی کی بِنا پر اسلامی بہنیں اُسی کو اِحْرام سمجھتی ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ، حسبِ معمول سِلے ہوئے کپڑے پہنیں ۔ہاں اگر مذکورہ اسکارف کوشَرْعاً ضَروری نہ سمجھیں اور ویسے ہی پہننا چاہیں تو مَنْع نہیں ۔
{۱}سَرچھُپانا، بلکہ اِحْرام کے علاوہ بھی نَماز میں اور نامَحْرَم (جن میں خالو، پھوپھا ، بہنوئی ، ماموں زاد، چچازاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور خُصوصِیَّت کے ساتھ دیورو جیٹھ بھی شامل ہیں )کے سامنے فرض ہے۔نامَحْرَموں کے سامنے عورت کا اِس طرح آجانا کہ سَر کھلا ہوا ہو یااِتنا باریک دوپٹّا اوڑھا ہُوا ہو کہ بالوں کی سیاہی چمکتی ہو علاوہ اِحرام
کے بھی حرام ہے اور اِحْرام میں سخت حرام{۲}مُحرِمہ جب سَر چھُپا سکتی ہے تو کپڑے کی گٹھڑی سَر پر اُٹھانا بَدَرَجَۂ اَولیٰ جائز ہوا {۳}سِلا ہوا تعویذ گلے یا بازو میں باندھنا{۴}غلافِ کَعْبۂ مشَرَّفہ میں یوں داخِل ہونا کہ سَر پر رہے مُنہ پر نہ آئے کہ اِسے بھی مُنہ پر کپڑا ڈالنا حرام ہے۔(آج کل غلافِ کعبہ پر لوگ خوب خوشبو چھڑکتے ہیں لہٰذا اِحرام میں احتیاط کریں ){۵}دَستانے، موزے اورسِلے کپڑے پہننا {۶}اِحرام میں منہ چُھپانا عورت کوبھی حرام ہے، نامَحرِم کے آگے کوئی پنکھا (یاگتّا) وغیرہ مُنہ سے بچا ہواسامنے رکھے۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۸۳){۷}اِسلامی بہن پی کیپ والا نِقاب بھی پہن سکتی ہے مگریہ اِحتیاط ضَروری ہے کہ چِہرے سے مَس (TOUCH) نہ ہو۔ اِس میں یہ اندیشہ رہے گا کہ تیز ہوا چلے اور نِقاب چِہرے سے چپک جائے یا بے توجُّہی میں پسینہ وغیرہ اُسی نِقاب سے پُونچھنے لگے ، لہٰذا سخت احتیاط رکھنی ہو گی۔
{۱}اِحْرام خریدتے وَقت کھول کر دیکھ لیجئے ورنہ روانگی کے موقع پرپہنتے وَقْت چھوٹا بڑا نکلا تو سخت آزمائش ہو سکتی ہے{۲}روانگی سے چند روز قبل گھر ہی میں اِحْرام باندھنے کی مَشق کر لیجئے{۳}اُوپر کی چادر تَولیے کی اور تہبند موٹے
لٹّھے کا رکھئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّنَمازوں میں بھی سَہُولت رہے گی {۴}اِحرام اور بیلٹ وغیرہ باندھ کر گھرمیں کچھ چل پھر لیجئے تا کہ مَشق ہو جائے ، ورنہ باندھ کر ایک دم سے چلنے پھرنے میں تہبند خوب ٹائٹ ہونے یا کھل جانے وغیرہ کی صورت میں پریشانی ہو سکتی ہے{۵}خُصُوصاً لٹّھے کا اِحرام عمدہ اور موٹے کپڑے کا لیجئے ورنہ پتلا کپڑا ہوا ور پسینہ آیا تو تہبند چپک جانے کی صورت میں رانوں وغیرہ کی رنگت ظاہِر ہو سکتی ہے۔بعض اوقات تہبند کاکپڑا اتنا باریک ہوتا ہے کہ پسینہ نہ ہو تب بھی رانوں وغیرہ کی رنگت چمکتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 496 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’نَماز کے اَحکام‘‘ صَفْحَہ194پر ہے: اگرایسا باریک کپڑاپہنا جس سے بدن کا وہ حصّہ جس کانَمازمیں چُھپانا فرض ہے نظرآئے یاجِلدکا رنگ ظاہِرہونَمازنہ ہوگی۔( فتاوٰی عالمگیری ج۱ ص۵۸) آج کل باریک کپڑوں کارَواج بڑھتا جارہا ہے ۔ ایسے باریک کپڑے کاپاجامہ پہنناجس سے ران یاسَترکا کوئی حصّہ چمکتاہوعِلاوہ نَمازکے بھی پہنناحرام ہے۔(بہارِ شریعت ج ۱ ص ۴۸۰ ) {۶}نیّت سے قبل احرام پر خوشبو لگانا سنَّت ہے، بے شک لگایئے مگر لگانے کے بعد عِطْر کی شیشی بیلٹ کی جیب میں مت ڈالئے۔ ورنہ نیّت کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالنے کی صورت میں خوشبو لگ سکتی ہے۔ اگر ہاتھ میں اتنا عِطْر لگ گیا کہ دیکھنے والے کہیں کہ’’ زیادہ ہے‘‘ تو دَم واجب ہو گا اورکم کہیں تو صَدَقہ ۔اگر عِطْر کی تری وغیرہ نہیں لگی
ہاتھ میں صِرف مَہک آ گئی توکوئی کفّارہ نہیں ۔بیگ میں بھی رکھنا ہو تو کسی شاپر وغیرہ میں لپیٹ کر خوب احتیاط کی جگہ رکھئے{۷} اُوپر کی چادر دُرُست کرنے میں یہ اِحتیاط رکھئے کہ اپنے یا کسی دوسرے مُحرِم کے سَر یا چہرے پر نہ پڑے۔ سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ نے بھیڑ بھاڑ میں احرام دُرُست کرنے والوں کی چادروں میں دیگر مُحرِموں کے مُنڈے ہوئے سر پھنستے دیکھے ہیں {۸}کئی مُحرِم حضرات کے اِحرام کا تہبند ناف کے نیچے ہوتا ہے اور اُوپر کی چادر پیٹ پر سے اکثر سَرکتی رہتی اورناف کے نیچے کا کچھ حصَّہ سب کے سامنے ظاہِر ہوتا رہتاہے اور وہ اِس کی پرواہ نہیں کرتے،اِسی طرح چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے وَقْت بے اِحتیاطی کے باعِث بعض اِحرام والوں کی ران وغیرہ بھی دوسروں پر ظاہِر ہوجاتی ہے۔ برائے مہربانی! اِس مسئلے کو یادرکھئے کہ ناف کے نیچے سے لے کرگُھٹنوں سَمیت جِسم کا سارا حصّہ سترہے اوراِس میں سے تھوڑاسا حصَّہ بھی بِلا اجازتِ شَرْعی دوسروں کے آگے کھولنا حرام ہے ۔سترکے یہ مسائل صِرْف اِحرام کے ساتھ مَخصُوص نہیں ۔ اِحرام کے علاوہ بھی دوسروں کے آگے اپنا ستر کھولنا یا دوسروں کے کھلے ستر کی طرف نظر کرنا حرام ہے{۹} بعضوں کے اِحرام کا تہبند ناف کے نیچے ہوتا ہے اور بے احتیاطی کی وجہ سے مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّدوسروں کی موجودگی میں پَیڑُو ([3])کا کچھ حصّہ کھلارہتاہے۔بہارِشریعت میں ہے : نَماز میں
چوتھائی (4/1) کی مقدار (پَیڑو) کُھلا رہا تو نَماز نہ ہو گی اور بعض بے باک ایسے ہیں کہ لوگوں کے سامنے گھٹنے بلکہ رانیں کھولے رہتے ہیں یہ( نَماز واِحرام کے علاوہ)بھی حرام ہے اور اِس کی عادت ہے تو فاسِق ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۴۸۱)
جوباتیں اِحرام میں ناجائزہیں اگر وہ کسی مجبوری کے سبب یابھُول کر ہوں تو گناہ نہیں مگراُن پرجوجُرمانہ مقرَّرہے وہ بَہَر حال ادا کرنا ہوگا اب یہ باتیں چاہے بِغیر ارادہ ہوں ، بھول کر ہوں ، سوتے میں ہوں یاجبراًکوئی کروائے ۔ (ایضاًص۱۰۸۳)
میں اِحرام باندھوں کروں حجّ و عُمرہ
ملے لُطفِ سَعْیِ صفا اور مَروَہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عام بول چال میں لوگ ’’مسجدِ حرام‘‘کو حَرَم شریف کہتے ہیں ، اِس میں کوئی شک نہیں کہ مسجدِ حرام شریف حرمِ محترم ہی میں داخِل ہے مگر حرم شریف مَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سَمیت([4]) اُس کے اِرد گرد مِیلوں تک پھیلا ہوا ہے اور ہر طرف اس کی حَدیں بنی ہوئی ہیں ۔ مَثَلاً جَدَّہ
شریف سے آتے ہوئے مَکَّہ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے قبل 23 کلومیٹر پہلے پولیس چوکی آتی ہے، یہاں سڑک کے اُوپر بورڈ پر جَلی حُروف میں لِلْمُسْلِمِیْنَ فَقَط (یعنی صِرْف مسلمانوں کے لئے)لکھا ہوا ہے۔ اِسی سڑک پر جب مزید آگے بڑھتے ہیں تو بِیْرِشَمِیْسیعنی حُدَیْبِیہ کامقام ہے، اِس سَمت پر ’’حرم شریف‘‘کی حَد یہاں سے شُروع ہو جاتی ہے۔’’ایک مُؤَرِّخ کی جدید پیمائش کے حساب سے حرم کے رَقبے کا دائرہ 127 کلومیٹر ہے جبکہ کُل رقبہ 550مُرَبَّع کِلو میٹر ہے۔‘‘ ( تاریخ مکۂ مکرمہ، ص ۱۵) (جنگلوں کی کانٹ چھانٹ ، پہاڑوں کی تراش خراش اور سُرنگوں ( TUNNELS)کی ترکیبوں وغیرہ کے ذَرِیعے بنائے جانے والے نئے راستوں اور سڑکوں کے سبب وہاں فاصلے میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے حَرَم کی اصل حُدود وُہی ہیں جن کا احادیثِ مبارَکہ میں بیان ہوا ہے)
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے
بارِش اللہ کے کرم کی ہے(وسائلِ بخشش ص۱۲۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حَرَم جب قریب آئے تو سَر جھُکائے، آنکھیں شرمِ گناہ سے نیچی کئے خُشُوع وخُضُوع کے ساتھ اِس کی حد میں داخِل ہوں ، ذِکْر و دُرُود اورلَبَّیْک
کی خُوب کثرت کیجئے اورجُوں ہی ربُّ الْعٰلَمِین جَلَّ جَلَا لُہٗ کے مقدَّس شہر مَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پر نظر پڑے تو یہ دُعا پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِّیْ قَرَارًا وَّ ارْزُقْنِیْ فِیْہَا رِزْقًـا حَلَالًا ط
ترجمہ:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اِس میں قرار اور رزقِ حلا ل عطا فرما ۔
مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچ کر ضَرورتاً مکان اور حِفاظتِ سامان وغیرہ کا انتظام کرکے ’’لَبَّیْک‘‘ کہتے ہوئے ’’بابُ السَّلام‘‘پر حاضِر ہوں اور اُس دروازۂ پاک کو چُوم کر پہلے سیدھا پاؤں مسجدُ الحرام میں رکھ کرہمیشہ کی طرح مسجِد میں داخِلے کی دعا پڑھئے:
بِسْمِ اللّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ط اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْۤ اَبْوَابَ رَحْمَتِكَط
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نام سے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سلام ہو،اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ میرے لئے اپنی رَحمت کے دروازے کھول دے۔
جب بھی کسی مسجِد میں داخِل ہوں اور اعتِکاف کی نیّت کریں تو ثواب ملتا ہے، مسجد الحرام میں بھی نیَّت کرلیجئے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یہاں ایک نیکی لاکھ نیکی کے برابر ہے ، لہٰذا ایک لاکھ اِعْتِکاف کاثواب پائیں گے جب تک مسجِد کے اندر رہیں گے
اِعْتِکاف کاثواب ملے گااور ضِمْنًا کھانا، زَم زَم شریف پینا اور سونا وغیرہ بھی جائز ہوجائے گا ورنہ مسجِد میں یہ چیزیں شرعاً ناجائز ہیں ۔
نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَافِ ط ترجمہ:میں نے سُنَّتِ اِعتِکاف کی نیت کی۔
جوں ہی کَعْبہ مُعَظَّمہ پر پہلی نظر پڑے تین بار لَا اِلٰہ اَلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْکہئے اور دُرُود شریف پڑھ کر دُعا مانگئے کہ کَعْبَۃُ اللّٰہ شریف پر پہلی نظر جب پڑتی ہے اُس وَقْت مانگی ہوئی دُعا ضَرور قَبول ہوتی ہے۔آپ چاہیں تو یہ دُعا مانگ لیجئے کہ ’’ یَا اللہ عَزَّوَجَلَّ! میں جب بھی کوئی جائز دُعا مانگا کروں اور اُس میں بہتری ہو تووہ قَبول ہُوا کرے۔‘‘حضرتِ علّامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامینے فُقَہا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے حوالے سے لکھا ہے: کعبۃُ اللّٰہ پر پہلی نظر پڑتے وَقت جنَّت میں بے حساب داخلے کی دُعا مانگی جائے اور دُرُود شریف پڑھا جائے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص ۵۷۵)
نوری چادر تنی ہے کعبے پر
بارِش اللہ کے کرم کی ہے(وسائلِ بخشش ص۱۲۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سب سے افضل دعا اللہ و رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضا کے طلبگارمحترم عاشقانِ رسول !اگر طواف وسَعْی وغیرہ میں ہر جگہ کسی اور دُعا کے بجائے دُرُود شریف ہی پڑھتے رہیں تو یہ سب سے افضل ہے اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّدُرُود و سلام کی بَرَکت سے بِگڑے کام سَنور جائیں گے،وہ اختیار کرو جو مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچّے وعدے سے تمام دعاؤں سے بہتر و افضل ہے یعنی یہاں اورتمام مواقِع میں اپنے لیے دُعا کے بدلے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود بھیجو، رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :ایسا کرے گااللہ عَزَّ وَجَلَّتیرے سب کام بنا دے گا اور تیرے گناہ مُعاف فرمادے گا۔(ترمذی ج ۴ ص ۲۰۷ حدیث ۲۴۶۵،فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۱۰ ص ۷۴۰ )
محترم زائرو!چاہیں تو صِرْف دُرُودوسلام پر ہی اکتِفاکیجئے کہ یہ آسان بھی ہے اور افضل بھی۔ تاہم شائقینِ دُعا کے لئے دُعائیں بھی داخِلِ ترکیب کردی ہیں لیکن یاد رہے کہ دُرُود و سلام پڑھیں یا دعائیں سب آہِستہ آواز میں پڑھنا ہے ، چلّا کر نہیں جیسا کہ بعض مُطَوِّف( یعنی طواف کروانے والے)پڑھاتے ہیں نیز چلتے چلتے پڑھنا ہے،پڑھنے کیلئے دَورانِ طواف کہیں بھی رُکنا نہیں ہے ۔
طواف شُروع کرنے سے قَبْل مرد اِضْطِباع کرلیں یعنی چادر سیدھے ہاتھ کی بغل کے نیچے سے نکال کر اُس کے دونوں پَلّے اُلٹے کندھے پراِس طرح ڈال لیں کہ سیدھا کندھا کُھلا رہے۔ اب پروانہ وار شمعِ کَعبہ کے گرد طواف کے لئے تیّار ہوجائیے۔
اِضْطِباعی حالت میں کَعبہ شریف کی طر ف مُنہ کئے حجرِ اَسود کی بائیں (left) طرف رُکنِ یَمانی کی جانب حجرِ اَسْود کے قریب اِس طرح کھڑے ہوجائیے کہ پورا ’’حَجَرِ اَسوَد‘‘آپ کے سیدھے ہاتھ کی طرف رہے۔ اب بِغیر ہاتھ اُٹھائے اِس طرح طواف کی نیَّت([5])کیجئے:
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اُرِیْدُ طَوَافَ بَیْتِكَ الْحَرَامِ
ترجَمہ:اے اللہ عَزَّوَجَلَّ میں تیرے محترم گھر کا طواف کرنے کا اِرادہ کرتا ہوں ،
فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْط
تُو اِسے میرے لئے آسان فرمادے اور میری جانب سے اِسے قَبول فرما۔
نیَّت کرلینے کے بعد کَعْبہ شریف ہی کی طرف مُنہ کئے سیدھے ہاتھ کی جانب اتنا چلئے کہ حَجَرِاَسْوَد آپ کے عَین سامنے ہو جائے۔( اور یہ معمولی سا سرکنے سے ہو جائے گا ، آپ حجرِ اسود کی عین سیدھ میں آ چکے اِس کی علامت یہ ہے کہ دُور ستون میں جو سبز لائٹ لگی ہے وہ آپ کی پیٹھ کے بالکل پیچھے ہو جائے گی)
سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ!یہ جنَّت کا وہ خوش نصیب پتھر ہے جسے ہمارے پیارے آقا مکّی مَدَنی مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یقیناً چوما ہے۔ اب دونوں ہاتھ کانوں تک اِس طرح اُٹھائیے کہ ہتھیلیاں حَجَرِاَسْوَد کی طرف رہیں اور پڑھئے:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نام سے اور تمام خُوبیاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کیلئے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑاہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُودو سلام ہوں ۔
اب اگر ممکن ہو تو حَجَرِاَسْوَد شریف پر دونوں ہتھیلیاں اور اُن کے بیچ میں مُنہ رکھ کر یوں بوسہ دیجئے کہ آواز پیدا نہ ہو، تین بار ایسا ہی کیجئے۔ سُبحٰنَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! جھوم
جائیے کہ آپ کے لب اُس مُبارَک جگہ لگ رہے ہیں جہاں یقیناً مدینے والے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارَکہ لگے ہیں ۔ مچل جائیے ....تڑپ اُٹھئے....اور ہوسکے تو آنسوؤں کو بہنے دیجئے۔ حضرتِ سیِّدُناعبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ ہمارے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حَجَرِاَسْوَد پر لب ہائے مبارَکہ رکھ کر روتے رہے پھر اِلتِفات فرمایا (یعنی توجُّہ فرمائی) تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبھی رورہے ہیں ۔ اِرشاد فرمایا:اے عمر (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) ! یہ رونے اور آنسو بہانے کاہی مقام ہے۔ (اِبن ماجہ ج۳ ص۴۳۴ حدیث۲۹۴۵)
رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں
ذِکْرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں
اِس بات کا خیال رکھیے کہ لوگوں کو آپ کے دَھکّے نہ لگیں کہ یہ قُوّت کے مُظاہَرہ کی نہیں ،عاجِزی اور مسکینی کے اِظہار کی جگہ ہے۔ ہُجُوم کے سبب اگر بوسہ مُیَسَّر نہ آسکے تو نہ اوروں کو ایذا دیں نہ خود دَبیں کُچلیں بلکہ ہاتھ یا لکڑی سے حَجَرِاَسوَد کو چُھو کر اُسے چُوم لیجئے، یہ بھی نہ بَن پڑے تو ہاتھوں کا اِشارہ کر کے اپنے ہاتھوں کو چُوم لیجئے، یہی کیا کم ہے کہ مَکّی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُبارَک مُنہ رکھنے کی جگہ پر آپ کی نگاہیں پڑرہی ہیں ۔
حَجَرِاَسْوَدکوبوسہ دینے یا لکڑی یاہاتھ سے چھُوکر چُومنے یاہاتھوں کا اِشارہ کر
کے انھیں چُوم لینے کو ’’اِستلام‘‘کہتے ہیں ۔
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: روزِ قیامت یہ پتَّھر اُٹھا یا جائے گا، اِس کی آنکھیں ہو ں گی جن سے دیکھے گا، زبان ہوگی جس سے کلام کرے گا، جس نے حق کے ساتھ اُس کا اِ ستِلام کیااُس کے لیے گواہی دے گا۔ (ترمذی ج۲ص۲۸۶حدیث۹۶۳)
اب اَللّٰھُمَّ اِیْمَانًۢا بِكَ وَاتِّبَاعًالِّسُنَّۃِ نَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَط ترجَمہ:الٰہی تجھ پر ایمان لاکراور تیرے نبی محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت کی پیروی کرنے کو یہ طواف کرتا ہوں ۔ کہتے ہوئے کَعبہ شریف کی طرف ہی چِہرہ کئے سیدھے ہاتھ کی طرف تھوڑاساسَرَکئے جب حَجَرِاَسوَد آپ کے چہرے کے سامنے نہ رہے (اور یہ اَدنیٰ سی حَرَکت میں ہوجائے گا ) تو فوراً اِس طرح سیدھے ہوجایئے کہ خانۂ کَعبہ آپ کے اُلٹے ہاتھ کی طرف رہے، اِس طرح چلئے کہ کسی کو آپ کا دَھکّا نہ لگے۔مَرد اِبتِدائی تین پھیروں میں رَمَل کرتے چلیں یعنی جلد جلد چھوٹے قدم رکھتے، شانے(یعنی کندھے) ہِلاتے چلیں جیسے قَوی و بَہادر لوگ چلتے ہیں ۔بعض لوگ کُودتے اور دوڑتے ہوئے جاتے ہیں ، یہ سُنَّت نہیں ہے۔ جہاں جہاں بھیڑ زِیادہ ہو اور رَمَل میں خود کو یا دوسروں کو تکلیف ہوتی ہو اُتنی دیر رَمَل ترک کردیجئے مگر رَمَل کی خاطر رُکئے نہیں ، طواف میں مَشغُول رہئے۔
پھر جُوں ہی موقع ملے، اُتنی دیر تک کے لئے رَمَل کے ساتھ طواف کیجئے۔
طواف میں جس قَدَرخانۂ کَعبہ سے قریب رہیں یہ بہتر ہے مگراِتنے زِیادہ قریب بھی نہ ہوجائیں کہ کپڑا یا جِسم پُشتۂ دیوار۱؎سے لگے اور اگر نزدیکی میں ہُجُوم کے سبب رَمل نہ ہوسکے تو اب دُوری بہتر ہے۔ اسلامی بہنوں کیلئے طواف میں خانۂ کعبہ سے دُوری افضل ہے ۔پہلے چکّر میں چلتے چلتے دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھیے:
سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ ط وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِـیْمِ ط وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُـوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ط اَللّٰھُمَّ اِیْمَانًۢا بِكَ وَتَصْدِیْقًۢا بِكِتَابِكَ وَوَفَآءًۢ بِعَھْدِكَ وَاتِّبَاعًا لِّسُنَّۃِ نَبِیِّكَ وَحَبِیْبِكَ مُحَمـَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃَ وَ الْمُعَافَاۃَ الدَّاۤئِمَۃَ فِی الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا وَالْاٰخِـرَۃِ وَالْفَـوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ مِنَ النَّارِ ط(دُرُود شریف پڑھ لیجئے)
اللہ تعالٰی پاک ہے اور سب خوبیاں اللہ عَزَّ وَجَلَّہی کیلئے ہیں اوراللہ عَزَّ وَجَلَّکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،اوراللہ عَزَّ وَجَلَّسب سے بڑا ہے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی توفیق اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ہے جو سب سے بُلند اورعَظَمت والا ہے اور رَحمت کاملہ اور سلام نازل ہواللہ عَزَّ وَجَلَّکے رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر۔ اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!تجھ پر ایمان لاتے ہوئے اور تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے اور تجھ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہوئے اور تیرے نبی اور تیرے حبیب محمد صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنَّت کی پیروی کرتے ہوئے (میں طواف شُرو ع کر چکاہوں)اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تجھ سے (گناہوں سے)مُعافی کا اور ( بلا ؤں سے) عافیّت کا اوردائمی حفاظت کا، دین و دنیا اور آخِرت میں اور حُصولِ جنَّت میں کامیابی اورجہنَّم سے نَجات پانے کا سُوال کرتا ہوں ۔
رُکنِ یَمانی پہنچنے تک یہ دُعا پوری کر لیجئے، اب اگر بِھیڑ کی وجہ سے
اپنی یادوسروں کی اِیذا کا اَندیشہ نہ ہو تو رُکنِ یَمانی کودونوں ہاتھوں سے یا سیدھے ہاتھ سے تَبَرُّکًا چُھوئیں ، صِرف بائیں (الٹے) ہاتھ سے نہ چُھوئیں ۔ موقع ملے تو رُکنِ یَمانی کو بوسہ بھی دیجئے،اگر چُومنے یاچُھونے کا موقع نہ ملے تو یہاں ہاتھوں سے اشارہ کر کے چُومنا نہیں ۔ ( رُکنِ یَمانی پر آج کل لوگ کافی خوشبو لگا دیتے ہیں لہٰذا احرام والے چُھونے اور چومنے میں احتیاط فرمائیں )
اب آپ کعبۂ مُشَرَّفہ کے تین کونوں کا طواف پورا کرکے چوتھے کونے رُکنِ اَسوَد کی طرف بڑھ رہے ہیں ، رُکنِ یَمانی ا ور رُکنِ اَسوَد کی دَرمِیانی دیوار کو ’’مُستَجاب ‘‘ کہتے ہیں ، یہاں دُعا پراٰمین کہنے کے لئے ستَّر ہزار فرشتے مقرَّر ہیں ۔ آپ جو چاہیں اپنی زَبان میں اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دُعا مانگئے یا سب کی نیَّت سے اور مجھ گنہگا ر سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہ کی بھی نیَّت شامل کر کے ایک مرتبہ دُرُود شریف پڑھ لیجئے، نیز یہ قراٰنی دُعا بھی پڑھ لیجئے :
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔
اے لیجئے!آپ حَجَرِ اَسوَد کے قریب آپہنچے ،یہاں آپ کا ایک چکَّر پورا ہوا۔ لوگ یہاں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی دُور ہی دُور سے ہاتھ لہراتے ہوئے گزر رہے ہوتے
ہیں ایسا کرنا ہرگز سُنَّت نہیں ، آپ حسبِ سابِق یعنی پہلے کی طرح رُوبہ قِبلہ حَجَرِ اَسوَد کی طرف مُنہ کر لیجئے۔ اب نیَّت کرنے کی ضَرورت نہیں کہ وہ تو اِبتداء ً ہوچکی، اب دوسرا چکَّر شُروع کرنے کے لئے پہلے ہی کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر اِستِلام کیجئے۔ یعنی موقع ہو تو حَجَرِ اَسوَد کو بوسہ دیجئے ورنہ اُسی طرح ہاتھ سے اِشارہ کر کے اُسے چُوم لیجئے پہلے ہی کی طرح کعبہ شریف کی طرف مُنہ کر کے تھوڑاسا سیدھے ہاتھ کی جانِب سَرَکئے۔ جب حَجَرِ اَسوَد سامنے نہ رہے تو فوراً اُسی طرح کعبۂ مُشَرَّفہ کو بائیں (left) ہاتھ کی طرف لئے طواف میں مَشغُول ہوجائیے اوردُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعاپڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھٰذَا الْبَیْتَ بَیْتُكَ وَ الْحَرَمَ حَرَمُكَ وَ الْاَمْنَ اَمْنُكَ وَالْعَبْدَ عَبْدُكَ وَاَنَا عَبْدُكَ
اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!بے شک یہ گھر تیر اگھر ہے او ریہ حرم تیرا حرم ہے اور (یہاں کا)امن وامان تیرا ہی دیا ہوا ہے اور ہر بندہ تیرا ہی بندہ ہے اور میں بھی تیرا ہی بندہ ہوں
وَابْنُ عَبْدِكَ وَھٰذَا مَقَامُ الْعَآئِذِبِكَ مِنَ النَّارِط فَحَرِّمْ لُحُوْمَنَا وَ بَشَرَتَنَا عَلَی النَّارِ ط اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا الْاِیْمَانَ وَ زَیِّنْہُ فِیْ قُلُوْبِنَا وَ کَرِّہْ اِلَیْنَا الْکُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ وَ اجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِیْنَط اَللّٰھُمَّ قِنِیْ عَذَابَكَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ ط اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)
اور تیرے ہی بندے کا بیٹا ہوں اوریہ مقام جہنَّم سے تیری پناہ مانگنے والے کا ہے، تو ہمارے گو شت او ر جسم کو دو زخ پر حرام فرما دے، اے اللہ عَزَّوَجَلَّہمارے لئے ایمان کو محبوب بنادے اور ہمارے دلوں میں اس کی چاہ پیدا کردے اور ہمارے لئے کفر اور بدکاری اور نافرمانی کو ناپسند بنادے اور ہمیں ہدایت پانے والوں میں شامل کر لے، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! جس دن تو اپنے بندو ں کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے مجھے اپنے عذاب سے بچا، اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے بے حساب جنّت عطافرما۔
رُکنِ یَمانی پر پہنچنے سے پہلے پہلے یہ دُعا ختم کردیجئے۔ اب موقع ملے تو پہلے کی طرح بوسہ لے کر یا پھر اُسی طرح چُھوکر ’’ حَجَرِ اَسوَد‘‘کی طرف بڑھئے،دُرُود شریف پڑھ کر یہ دعائے قراٰ نی پڑھئے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔
اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَدکے قریب آپہنچے۔ اب آپ کا ’’دوسرا چکّر‘‘ بھی پورا ہوگیا، پھر حسبِ سابِق دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاکریہ دُعا:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر حَجَرِ اَسوَدکا اِستِلام کیجئے اور پہلے ہی کی طرح تیسراچکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الشَّكِّ وَالشِّرْكِ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں شک اور شرک
وَالنِّفَاقِ وَالشِّقَاقِ وَسُوْٓ ءِ الْاَخْلَاقِ وَسُوْٓ ءِ الْمَنْظَرِ وَالْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْاَھْلِ وَالْوَلَدِط اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَسْئَلُكَ رِضَاكَ وَالْجَنَّۃَ وَ اَعُوْذُبِكَ مِنْ سَخَطِكَ وَ النَّارِ طاَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)
اور نفاق اورحق کی مخالفت سے اور بُر ے اَخلاق اور بُرے حال سے اوراَہل وعِیال اورمال میں بُرے انجام سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تجھ سے تیری رِضا اور جنَّت مانگتا ہوں اور تیرے غَضَب اور جہنَّم سے پناہ چاہتاہوں ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں قبر کی آزمائش اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتاہوں ۔
رُکنِ یَمانی پر پہنچنے سے پہلے یہ دُعا ختم کردیجئے اور پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھتے ہوئے دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعائے قراٰنی پڑھئے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے
وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)
اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔
اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَدکے قریب آپہنچے، آپ کا ’’تیسرا چکّر‘‘ بھی مکمَّل ہوگیا، پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ طپڑھ کر حَجَرِ اَسوَد کا اِستِلام کیجئے اور پہلے ہی کی طرح چوتھا چکّر شُروع کیجئے،اب رَمَل نہ کیجئے کہ رَمَل صِرْف تین ابتِدائی پھیروں میں کرنا تھا ۔ اب آپ کوحسبِ معمول درمیانہ چال کے ساتھ بَقِیَّہ پھیرے مکمَّل کرنے ہیں ۔ دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہَا عُمْرَۃً مَّبْرُوْرَۃً وَّسَعْیًا مَّشْکُوْرًا وَّ ذَنْۢبًا مَّغْفُوْرًا وَّعَمَلًا صَالِحًا مَّقْبُوْلًا وَّ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میرے عُمرے کو مبرور اور میری کوشش کو کامیاب اور گناہوں کی مغفرت کا ذَرِیعہ اور مقبول نیک عمل اور
تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ ط یَا عَالِمَ مَا فِی الصُّدُوْرِ اَخْرِجْنِیْ یَاۤ اَللّٰہُ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ ط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَآئِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ وَّالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَّالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ مِنَ النَّارِ ط اَللّٰھُمَّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِكْ لِیْ فِیْہِ وَ اخْلُفْ عَلٰی
بے نقصان تجارت بنادے۔ اے سینوں کے حال جاننے والے ! اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے ( گناہ کی) تاریکیوں سے (عمل صالح کی) روشنی کی طر ف نکال دے۔اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے تیری رَحمت (کے حاصل ہونے ) کے ذریعوں اور تیری مغفرت کے اسباب کا اورتمام گناہوں سے بچتے رہنے اور ہرنیکی کی توفیق کااور جنّت میں جانے اور جہنَّم سے نَجات پانے کا سُوال کرتاہوں ۔ اور اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے اپنے دیے ہوئے رزق میں قَناعت عطا فرمااور اس میں میرے لیے بَرَکت بھی دے اور
کُلِّ غَآئِبَۃٍ لِّیْ بِخَیْرٍ ط(دُرُود شریف پڑھ لیجئے)
ہر نقصان کا اپنے کرم سے مجھے نعمَ البدل عطا فرما۔
رُکنِ یَمانی تک یہ دُعا ختم کر کے پھر پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ قراٰنی دعا پڑھئے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔
اے لیجئے!آپ پھر حَجَرِ اَسوَد پر آپہنچے۔حسبِ سابِق دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاکر یہ دُعا :
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر اِستِلام کیجئے او ر پانچواں چکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اَظِلَّنِیْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِكَ یَوْمَ لَا
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!مجھے اس دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے جس دن
ظِلَّ اِلَّا ظِلُّ عَرْشِكَ وَلَا بَاقِیَ اِلَّا وَجْھُكَ وَاسْقِنِیْ مِنْ حَوْضِ نَبِیِّكَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شَرْبَۃً ھَنِیْٓئَۃً مَّرِیْٓئَۃً لَّا نَظْمَأ بَعْدَ ھَا اَبَدًا ط اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَسْئَلُكَ مِنْ خَیْرِ مَا سَئَلَكَ مِنْہُ نَبِیُّكَ سَیِّدُنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا اسْتَعَاذَكَ
تیرے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اور تیری ذاتِ پاک کے سوا کوئی باقی نہ رہے گا اور مجھے اپنے نبی محمد مصطَفٰے صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حوض (کوثر)سے ایسا خوشگوار اور خوش ذائقہ گھونٹ پلا کہ اس کے بعد کبھی مجھے پیاس نہ لگے،اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے ان چیزوں کی بھلائی مانگتاہوں جنہیں تیرے نبی سیّدنا محمد صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تجھ سے طلب کیا اور ان چیزوں کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں جن سے
مِنْہُ نَبِیُّكَ سَیِّدُنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ط اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَسْئَلُكَ الْجَنَّۃَ وَ نَعِیْمَہَا وَمَا یُقَرِّبُنِیْۤ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ فِعْلٍ اَوْ عَمَلٍ ط وَاَعُوْذُبِكَ مِنَ النَّارِ وَ مَا یُقَرِّبُنِیْۤ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ اَوْ فِعْلٍ اَوْ عَمَلٍ ط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)
تیرے نبی سیدنا محمد صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پناہ مانگی۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے جنَّت اور اس کی نعمتوں کا اور ہر اُس قول یا فعل یاعمل(کی تو فیق)کا سُوال کرتا ہوں جومجھے جنَّت سے قریب کر دے اور میں دوزخ اور ہر اُس قول یا فعل یا عمل سے تیر ی پناہ چاہتا ہوں جو مجھے جہنَّم سے قریب کر دے۔
رُکنِ یَمانی تک یہ دُعا ختم کر کے پہلے کی طر ح حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ قراٰنی دُعا پڑھئے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔
پھر حَجَرِ اَسوَد پر آکر دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کراِستِلام کیجئے اور اب چھٹا چکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّ لَكَ عَلَیَّ حُقُوْقًا کَثِیْرَۃً فِیْمَا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكَ وَ حُقُوْقًا کَثِیْرَۃً فِیْمَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَلْقِكَ اَللّٰھُمَّ مَا کَانَ لَكَ مِنْھَا فَاغْفِرْہُ لِیْ وَ مَا کَانَ لِخَلْقِكَ فَتَحَمَّلْہُ عَنِّیْ وَ اَغْنِنِیْ بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ بِطَاعَتِكَ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! بے شک مجھ پر تیرے بہت سے حُقُوق ہیں اُن مُعامَلات میں جومیرے اور تیرے درمیان ہیں اور بہت سے حُقُوق ہیں ان مُعاملات میں جو میرے اور تیری مخلوق کے درمیان ہیں ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ان میں سے جن کا تعلُّق تجھ سے ہو ان کی (کوتاہی کی ) مجھے مُعافی دے اور جن کا تعلُّق تیری مخلوق سے (بھی )ہو ان کی مُعافی اپنے ذمۂ کرم پر لے لے۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے (رِزقِ ) حلال عطا فرما کر حرام سے بے پرواہ کر دے اور اپنی اطاعت کی تو فیق عطا فرماکر
عَنْ مَّعْصِیَتِكَ وَ بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ یَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَۃِ ط اَللّٰھُمَّ اِنَّ بَیْتَكَ عَظِیْمٌ وَ وَجْھَكَ کَرِیْمٌ وَّاَنْتَ یَاۤ اَللّٰہُ حَلِیْمٌ کَرِیْمٌ عَظِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ط (دُرُود شریف پڑھ لیجئے)
نافرمانی سے او راپنے فضل سے نوازکر اپنے علاوہ دوسروں سے مُستغنی(یعنی بے پروا) کردے،اے وسیع مغفِرت والے!اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! بیشک تیرا گھر بڑی عَظَمت والا ہے اورتیری ذات کریم ہے اور اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تو حلم والا ،کرم والا ،عَظَمت والا ہے اور تومُعافی کو پسندکرتا ہے سو میری خطاؤں کوبخش دے۔
رُکنِ یَمانی تک یہ دُعا ختم کر کے پھر پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے حَجَرِ اَسوَد کی طرف بڑھئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ قراٰنی دُعاپڑھئے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔
پھر پہلے کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر حَجَرِ اَسوَدکا اِستِلام کیجئے اور
ساتواں اورآخِری چکّر شُروع کیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ اِیْمَانًا کَامِلًا وَّ یَقِیْنًا صَادِقًا وَّ رِزْقًا وَّاسِـعًا وَّقَلْبًا خَاشِعًا وَّ لِسَانًا ذَاکِرًا وَّ رِزْقًا حَلَالًا طَیِّبًا وَّ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا وَّتَوْبَۃً قَبْلَ الْمَوْتِ وَرَاحَۃً عِنْدَ الْمَوْتِ وَ مَغْفِرَۃً وَّرَحْمَۃًۢ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَفْوَ عِنْدَ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سیتیری رَحمت کے وسیلے سے کامل ایمان اور سچّا یقین اورکُشادہ رِزق اور عاجِزی کرنے والا دل اور ذِکر کرنے والی زَبان اور حلال او ر پاک روزی اور سچّی توبہ اور موت سے پہلے کی توبہ اورموت کے وقت راحت اور مرنے کے بعد مغفِرت اور رَحمت اور حساب کے وَقت مُعافی
الْحِسَابِ وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ مِنَ النَّارِ بِرَحْمَتِكَ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ ط رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَط(دُرُود شریف پڑھ لیجئے)
اور جنَّت کاحُصُول اور جہنَّم سے نَجات مانگتا ہوں ، اے عزّت والے!اے بَہُت بخشنے والے! ۔اے میرے رب اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میرے علم میں اِضافہ فرما اور مجھے نیکوں میں شامل فرما ۔
رُکنِ یَمانی پر آکریہ دُعا ختم کر کے پہلے کی طرح عمل کرتے ہوئے دُرُود شریف پڑھ کر پڑھئے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے رب! ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دےدے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا ۔
حَجَرِ اَسوَدپر پہنچ کر آپ کے سات پھیرے مکمَّل ہوگئے مگر پھر آٹھویں بار پہلے کی طرح دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھا کر یہ دُعا:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ
وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر اِستِلام کیجئے اور یہ ہمیشہ یاد ر کھئے کہ جب بھی طواف کریں اُس میں پھیرے سات ہوتے ہیں اور اِستِلام آٹھ۔
اب سیدھا کندھا ڈھانپ لیجئے اور’’ مَقامِ اِبراہیم ‘‘ پر آکر پارہ 1 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی یہ آیتِ مقدَّسہ پڑھئے:
وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ-
ترجَمۂ کنزالایمان :اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کونَماز کامقام بناؤ۔
اب مقامِ ابراہیم کے قریب جگہ ملے تو بہتر ورنہ مسجدِ حرام میں جہاں بھی جگہ ملے اگر وَقْتِ مکروہ نہ ہو تو دو رَکْعَت نمازِ طواف ادا کیجئے، پہلی رَکْعَت میں سُورَۃُ الْفَاتِحَۃِ کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ اور دوسری میں قُل ھُوَ اللّٰہ شریف پڑھئے، یہ نَماز واجِب ہے اور کوئی مجبوری نہ ہو تو طواف کے بعد فورا ًپڑھنا سُنَّت ہے۔اکثر لوگ کندھا کھلارکھ کر نَماز پڑھتے ہیں یہ مکروہ ہے ۔ اِضْطِباع یعنی کندھا کُھلا رکھنا صِرْف اُس طواف کے ساتوں پَھیروں میں ہے جس کے بعد سَعْی ہوتی ہے۔ اگر وَقْتِ مکروہ داخِل ہوگیا ہو تو بعد میں پڑھ
لیجئے اور یاد رکھئے اس نَماز کا پڑھنا لازِمی ہے۔
مَقامِ ابراہیمپر دو رَکْعَت ادا کرکے دُعا مانگئے،حدیثِ پاک میں ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے: ’’جو یہ دُعا کرے گا میں اس کی خطا بخش دوں گا، غم دور کروں گا، محتاجی اُس سے نکال لوں گا، ہر تاجرسے بڑھ کر اس کی تجارت رکھوں گا، دنیا ناچار و مجبور اُس کے پاس آئے گی اگرچِہ وہ اُسے نہ چاہے۔‘‘ (ابن عساکر ج۷ص۴۳۱) وہ دُعا یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنَّكَ تَعْلَمُ سِرِّیْ وَ عَلَانِیَتِیْ فَاقْبَلْ مَعْذِرَتِیْ وَ تَعْلَمُ حَاجَتِیْ فَاَ عْطِنِیْ سُؤْلِیْ وَ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ فَا غْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ ط اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ اَسْئَلُكَ اِیْمَانًا یُّبَاشِرُ قَلْبِیْ وَ یَقِیْنًا
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!تو میری سب چُھپی اورکُھلی باتیں جانتا ہے لہٰذا میری معذِرت قَبول فرمااور تو میری حاجت کو جانتا ہے لہٰذا میری خواہش کو پورا کر اور تو میرے دل کاحال جانتا ہے لہٰذا میرے گناہوں کو مُعاف فرما۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے مانگتا ہوں ایسا ایمان جو میرے دل میں سماجائے اور ایسا سچّا یقین
صَادِقًا حَتّٰی اَعْلَمَ اَنَّہٗ لَا یُصِیْبُنِیْ اِلَّا مَا کَتَبْتَ لِیْ وَ رِضًا بِمَا قَسَمْتَ لِیْ یَاۤ اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ط
کہ میں جان لوں کہ جو کچھ تو نے میری تقدیر میں لکھ دیا ہے وُہی مجھے پہنچے گا اور تیری طرف سے اپنی قسمت پر رِضا مندی، اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ۔
{۱}فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:’’جو مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رَکْعَتیں پڑھے، اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور قِیامت کے دن اَمْن والوں میں مَحشور ہوگا (یعنی اٹھایا جائیگا)۔‘‘ (الشفا ،الجزء الثانی ص۹۳ ){۲} اکثر لوگ بھیڑ بھاڑ میں گرتے پڑتے بھی زبردستی’’ مقامِ ابراھیم ‘‘کے پیچھے ہی نَماز پڑھتے ہیں ، بعض حضرات مستورات کونَماز پڑھانے کیلئے ہاتھوں کا حلقہ بنا کر راستہ گھیر لیتے ہیں انہیں اِس طرح کرنے کے بجائے بھیڑ کے موقع پر ’’ نمازِ طواف ‘‘ مقامِ ابراھیم سے دُور پڑھنی چاہئے کہ طواف کرنے والوں کو بھی تکلیف نہ ہو اورخود کو بھی دھکّے نہ لگیں {۳}مقامِ ابراہیم کے بعد اِس نَمازکے لیے سب سے افضل کعبۂ معظمہ کے اند ر پڑھنا ہے پھرحَطیممیں میزابِ رحمت کے نیچے اس کے بعدحَطیم میں کسی
اور جگہ پھر کعبۂ معظمہ سے قریب تر جگہ میں پھر مسجدُالحرام میں کسی جگہ پھر حَرَمِ مکّہ کے اندر جہاں بھی ہو ۔( لُبابُ الْمَناسِکص ۱۵۶){۴} سنّت یہ ہے کہ وقتِ کراہت نہ ہو تو طواف کے بعد فوراً نَماز پڑھے، بیچ میں فاصلہ نہ ہو اور اگر نہ پڑھی تو عمر بھر میں جب پڑھے گا ، ادا ہی ہے قضا نہیں مگر بُرا کیا کہ سنّتفوت ہوئی۔(اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّطص ۱۵۵ )
نَمازِ طواف ودُعاسے فارِغ ہوکر(مُلْتَزَمکی حاضِری مُستحَب ہے ) مُلْتَزَمسے لپٹ جائیے۔ دروازۂ کعبہ اور حَجَرِاَسوَد کے دَرمِیانی حصَّے کو مُلْتَزَم کہتے ہیں ، اِس میں دروازۂ کعبہ شامل نہیں ۔ مُلْتَزَم سے کبھی سینہ لگائیے تو کبھی پیٹ، اِس پر کبھی دایاں رُخسار تو کبھی بایاں رُخسار اور دونوں ہاتھ سَر سے اُونچے کر کے دیوار ِمقدَّس پر پھیلائیے یا سیدھا ہاتھ دروازۂ کعبہ کی طرف اور اُلٹا ہاتھ حَجَرِاَسوَد کی طرف پھیلا ئیے۔ خوب آنسو بہائیے اورنہایت ہی عاجِزی کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے پاک پَرْوَرْدَگار عَزَّ وَجَلَّ سے اپنے لئے اور تمام اُمَّت کے لئے اپنی زَبان میں دُعا مانگئے کہ مَقامِ قَبول ہے۔ یہاں کی ایک دُعا یہ ہے:
یَا وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّیْ نِعْمَۃً اَنْعَمْتَھَا عَلَیَّ ط
اے قدرت والے! اے بزرگ! تو نے مجھے جو نعمت دی، اس کو مجھ سے زائل نہ کر۔حدیث میں فرمایا: ’’جب میں چاہتا ہوں جبریل کو دیکھتا ہوں کہ مُلتَزَم سے لپٹے ہوئے یہ دعا کر رہے ہیں ۔ ‘‘ (ابن عَساکر ج۵۱ص۱۶۴)اورہو سکے تو دُرُود شریف پڑھ کر یہ دُعا بھی پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ یَا رَبَّ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ اَعْتِقْ رِقَابَنَا وَ رِقَابَ اٰبَآئِنَا وَ اُمَّھَاتِنَا وَ اِخْوَانِنَا وَ اَوْلَادِنَا مِنَ النَّارِ یَا ذَا الْجُوْدِ وَالْکَرَمِ وَ الْفَضْلِ وَ الْمَنِّ وَ الْعَطَآءِ وَ الْاِحْسَانِ ط اَللّٰھُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْاٰخِرَۃِ ط اَللّٰھُمَّ اِنِّیْۤ عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَ اقِفٌ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!اے اِس قدیم گھر کے مالک !ہماری گردنوں کو اور ہمارے (مسلمان) باپ دادوں اور ماؤں (بہنوں )اور بھائیوں اور اولاد کی گردنوں کو دوزخ سے آزاد کردے، اے بخشش اور کرم اور فضل اور اِحسان اورعطاوالے! اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تمام مُعامَلات میں ہمارا انجام بخیر فرما اورہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تیرا بندہ ہوں اوربندہ زادہ ہوں ، تیرے (مقدس گھر کے) دروازے کے
تَحْتَ بَابِكَ مُلْتَزِمٌ بِاَعْتَابِكَ مُتَذَلِّلٌۢ بَیْنَ یَدَیْكَ اَرْجُوْ رَحْمَتَكَ وَ اَخْشٰی عَذَابَكَ مِنَ النَّارِ یَا قَدِیْمَ الْاِحْسَانِ ط اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ اَنْ تَرْفَعَ ذِکْرِیْ وَ تَضَعَ وِزْرِیْ وَتُصْلِحَ اَمْرِیْ وَ تُطَھِّرَ قَلْبِیْ وَ تُنَوِّرَ لِیْ فِیْ قَبْرِیْ وَ تَغْفِرَ لِیْ ذَنْۢبِیْ وَاَسْئَلُكَ الدَّرَجَاتِ الْعُلٰی مِنَ الْجَنَّۃِ ط اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
نیچے کھڑاہوں ، تیرے دروازے کی چوکھٹو ں سے لپٹا ہوں ، تیرے سامنے عاجِزی کااظہار کر رہاہوں اور تیری رحمت کا طلب گار ہوں اورتیرے دوزخ کے عذاب سے ڈر رہاہوں اے ہمیشہ کے محسن !(اب بھی احسان فرما)اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں تجھ سے سُوال کرتا ہوں کہ میرے ذکر کو بلند ی عطا فرما اور میرے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر اور میرے کاموں کو دُرُست فرما اور میرے دل کو پاک کر اور میرے لئے قبر میں رو شنی فرما اور میرے گناہ مُعاف فرما اور میں تجھ سے جنَّت کے اونچے دَرَجوں کی بھیک مانگتا ہوں ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم۔
مُلتَزَمکے پاس نَمازِ طواف کے بعد آنا اُس طواف میں ہے جس کے بعد سَعْی ہے اور جس کے بعد سَعْی نہ ہو مَثَلاً طوافِ نفل یا طوافُ الزِّیارَۃ (جب کہ حج کی سَعْی سے پہلے فارِغ ہوچکے ہوں ) اُس میں نَماز سے پہلے مُلتَزَمسے لپٹئے، پھر مَقام اِبراہیم کے پاس جاکر دو رَکْعَت نَماز ادا کیجئے۔ (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط ص۱۳۸)
اب بابُ الکعبہ کے سامنے والی سیدھ میں دور رکھے ہوئے آبِ زَم زَم شریف کے کولروں پر تشریف لائیے اور(یاد رہے! مسجِدمیں آبِ زم زم پیتے وَقْت اعتِکاف کی نیّت ہوناضَروری ہے)قِبلہ رُو کھڑے کھڑے تین سانس میں خوب پیٹ بھر کر پئیں ، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ ز مزم پیٹ بھر کر نہیں پیتے۔(ابن ماجہ ج۳ ص۴۸۹حدیث ۳۰۶۱)ہر بار بِسْمِ اللّٰہِ سے شُروع کیجئے اور پینے کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّکہئے ہر بار کَعبۂ مُشَرَّفہ کی طر ف نِگا ہ اُٹھا کر دیکھ لیجئے،باقی پانی جِسم پر ڈالئے یا مُنہ سَر اور بدن پر اُس سے مَسْح کرلیجئے مگر یہ اِحتِیاط رکھئے کہ کوئی قطرہ زمین پر نہ گرے ۔پیتے وَقْت دُعا کیجئے کہ قبول ہے۔
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:{۱}یہ (آبِ زم زم ) بابَرَکت ہے اور
بھوکے کیلئے کھانا ہے اور مریض کیلئے شِفا ہے۔(ابوداود طیالسی ص ۶۱حدیث ۴۵۷ ) {۲} زَم زَم جس مراد سے پِیاجائے اُسی کیلئے ہے۔ ( اِبنِ ماجہ ج ۳ ص ۴۹۰ حدیث۳۰۶۲)
یہ زَم زَم اُس لئے ہے جس لئے اِس کو پئے کوئی
اِسی زَم زَم میں جنَّت ہے، اِسی زَم زَم میں کوثَر ہے(ذوقِ نعت)
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّ رِزْقًا وَّاسِعًا وَّشِفَآءً مِّنْ کُلِّ دَآءٍ ط
ترجمہ:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے علم نافِع اورکشادہ رزق اور ہر بیماری سے صحّت یابی کا سوال کرتا ہوں ۔
شارِحِ مسلم شریف حضرتِ سیِّدُنا امام نَوَوِی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :پس اُس شخص کے لئے مُستَحبہے جومغفِرت یا مَرَض وغیرہ سے شِفا کے لئے آبِ زم زم پینا چاہتا ہے کہ قبلہ رُو ہو کر پھر
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم طپڑھے پھرکہے: اے اللہ مجھے یہ حدیث پہنچی کہ تیرے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:’’ آبِ زم زم اُس مقصدکے لئے ہے کہ جس کے لئے اسے پیا جائے ۔‘‘(مسند امام احمدج۵ص۱۳۶حدیث۱۸۵۵)(پھر یُوں دعائیں مانگے مَثَلاً)اے اللہ! میں اسے پیتا ہوں تاکہ تو مجھے بخش دے یا اے اللہ! میں اسے پیتا ہوں اس کے ذَرِیْعے اپنے مَرَض سے شِفا چاہتے ہوئے ،اے اللہ! پس تومجھے شِفا عطا فرما دے ‘‘ اور مثل اس کے ( یعنی حسبِ ضرورت اِسی طرح مختلف دعائیں کرے)(الایضاح فی مناسک الحج للنووی ص۴۰۱)
بَہُت ٹھنڈا پانی استِعمال نہ فرمائیں کہیں آپ کی عبادت میں رُکاوٹ کے اسباب نہ پیدا ہو جائیں !نَفْس کی خواہِش کو دباتے ہوئے ایسے کولر سے آبِ زم زم نوش فرمائیں جس پر لکھا ہو: زَمْ زَمْ غَیْرُ مُبَرَّدْ ( یعنی غیرٹھنڈا زم زم)۔
آب زم زم دیکھنے سے نظر تیز ہوتی اور گناہ دُور ہوتے ہیں ،تین چُلّو سر پر ڈالنے سے ذلّت و رُسوائی سے حفاظت ہوتی ہے۔(البحر العمیق فی المناسک ج ۵ ص ۲۵۶۹ ۔۲۵۷۳)
تُو ہر سال حج پر بُلا یاالٰہی
وہاں آبِ زم زم پِلا یاالٰہی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اگر کوئی مجبوری یا تھکن وغیرہ نہ ہوتو ابھی ورنہ آرام کر کے صَفا و مَرْوہ کی سَعْی کے لئے تیّار ہوجائیے ،یاد رہے کہ سَعْی میں اِضْطِباع یعنی کندھا کُھلا رکھنا نہیں ہے۔ اب سَعْی کے لئے حَجَرِ اَسوَد کا پہلے ہی کی طرح دونوں ہاتھ کا نوں تک اُٹھا کریہ دُعا:
بِسْمِ اللّٰهِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اللّٰهُ اَكْبَرُ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ ط پڑھ کر اِستِلام کیجئے ۔ اور نہ ہوسکے تو اُس کی طرف منہ کرکے اَللہُ اَکْبَرُ وَ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ الۡحَمْدُ لِلہِاور دُرُود پڑھتے ہوئے فوراً بابُ الصَّفا پر آئیے!’’کوہِ صَفا‘‘چُونکہ ’’مسجد ِحرام‘‘ سے باہر واقِع ہے اورہمیشہ مسجِد سے باہَر نکلتے وَقْت اُلٹا پاؤں نکالنا سُنَّت ہے، لہٰذا یہا ں بھی پہلے اُلٹا پاؤں نکالئے اور حسبِ معمول دُرُود شریف پڑھ کر مسجِدسے باہَر آنے کی یہ دُعا پڑھئے:
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ وَ رَحْمَتِكَ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں ۔
اب دُرُود و سلام پڑھتے ہوئے صَفاپر اِتنا چڑھئے کہ کعبۂ مُعَظَّمہ نظر آجائے اور یہ بات یہاں معمولی سا چڑھنے پر حاصل ہو جاتی ہے، عوامُ النّاس کی طرح زیادہ اُوپر تک نہ چڑھئے اب یہ دعا پڑھئے:
اَبْدَءُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہٖ ( اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ-فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَاؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ(۱۵۸))
میں اس سے شُروع کرتا ہوں جس کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پہلے ذِکر کیا۔{ترجَمۂ کنزالایمان :بے شک صفا اور مروہ اللہکے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے ، اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دو نوں کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تونیکی کا صلہ دینے والا خبر دار ہے۔}(پ۲،البقرۃ:۱۵۸)
کافی لوگ کعبہ شریف کی طر ف ہتھیلیاں کرتے ہیں ، بعض ہاتھ لہرا رہے ہوتے ہیں تو بعض تین بار کانوں تک ہاتھ اُٹھا کر چھوڑ دیتے ہیں ، آپ ایسا نہ کریں بلکہ حسبِ معمول دُعا کی طرح ہاتھ کندھوں تک اُٹھا کرکعبۂ مُعَظَّمہ کی طرف مُنہ کئے اُتنی دیر تک دُعا مانگئے جتنی دیر میں سُوْرَۃُ الْبَقْرَۃکی 25 آیتو ں کی تِلاوت کی جائے، خوب گڑگڑا کر اور ہو سکے تورورو کر دُعا مانگئے کہ یہ قَبولیَّت کا مَقام ہے۔ اپنے لئے اورتمام جِنّ واِنْس مُسلمین کی خیر و بھلائی کے لئے اور احسانِ عظیم ہوگا کہ مجھ گنہگار وں کے سردارسگِ مدینہعُفِیَ عَنْہ کی بے حساب مغفِرت ہونے کے لئے بھی دُعا مانگئے۔ نیز دُرُود شریف پڑھ کریہ دُعا پڑھئے([7]):
اَللّٰہُ اَکْبَرُ ط اَللّٰہُ اَکْبَرُ ط اَللّٰہُ اَکْبَرُ ط لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ط اَللّٰہُ اَکْبَرُ ط وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَا ھَدٰنَا اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَاۤ اَوْلَانَا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَاۤ اَ لْھَمَنَا ط اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ ھَدٰنَا اللّٰہُ ط لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَـرِیْكَ لَہٗ ط لَہُ
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں ،اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب سے بڑا ہے۔ اور حمد ہے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)کے لیے کہ اس نے ہم کو ہدایت کی، حمد ہے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)کے لیے کہ اس نے ہم کو دیا،حمد ہے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے لیے کہ اس نے ہم کو الہام کیا، حمد ہے اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)کے لیے جس نے ہم کو اس کی ہدایت کی اور اگر اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ہدایت نہ کرتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لیے
الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ وَھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ط لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَاَعَزَّ جُنْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ ط لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ط ( فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ
مُلک ہے اور اسی کے لیے حمد ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتاہے اور وہ خود زندہ ہے مرتا نہیں ، اُسی کے ہاتھ میں خیر ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں جو اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اپنے لشکر کو غالب کیا اور کافروں کی جماعتوں کو تنہا اس نے شکست دی۔ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں ، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے اگرچِہ کافر بُرا مانیں۔{اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کی پاکی ہے شام و
تُصْبِحُوْنَ(۱۷)وَ لَهُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ عَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْهِرُوْنَ(۱۸)یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِ جُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ-وَ كَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ۠(۱۹)) اَللّٰھُمَّ کَمَا ھَدَیْتَنِیْ لِلْاِسْلَامِ اَسْئَلُكَ اَنْ لَّا تَنْزِعَہٗ مِنِّیْ حَتّٰی تَوَفَّانِیْ وَاَنَا مُسْلِمٌ ط
صبح اور اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں اور زمین میں اور تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت، وہ زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور مُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اُس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم نکالے جاؤگے} الٰہی! تو نے جس طرح مجھے اسلام کی طرف ہدایت کی، تجھ سے سوال کرتاہوں کہ اسے مجھ سے جُدانہ کرنا یہاں تک کہ مجھے اسلام پر موت دے،
سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ط اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ عَلٰی سُنَّۃِ نَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَتَوَفَّنِیْ عَلٰی مِلَّتِہٖ وَاَعِذْنِیْ مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ ط اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِمَّنْ یُّحِبُّكَ وَیُحِبُّ رَسُوْلَكَ وَاَنْۢبِیَآئَكَ وَمَلٰٓئِكَتَكَ
اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے لیے پاکی ہے اور اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)کے لیے حمد ہے اور اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) سب سے بڑا ہے، اور گناہ سے پھر نا اور نیکی کی طاقت نہیں مگر اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)کی مدد سے جو برتر و بُزُرگ ہے۔ الٰہی! تو مجھ کو اپنے نبی محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سنَّت پر زندہ رکھ اور ان کی ملّت پر وفات دے اور فتنوں کی گمراہیوں سے بچا، الٰہی! تو مجھ کو ان لوگوں میں کر جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور تیرے رسول وانبیاء وملائکہ اور نیک بندوں سے
وَعِبَادَكَ الصّٰلِحِیْنَط اَللّٰھُمَّ یَسِّرْلِیَ الْیُسْرٰی وَجَنِّبْنِیَ الْعُسْرٰی اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ عَلٰی سُنَّۃِ رَسُوْلِكَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَتَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ وَاجَعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ وَاغْفِرلِیْ خَطِیْٓـئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنَ ط اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُكَ اِیْمَانًا کَامِلًا
محبت رکھتے ہیں ۔ الٰہی! میرے لیے آسانی مُیَسَّر کر اور مجھے سختی سے بچا، الٰہی! اپنے رسول محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنَّت پر مجھ کو زندہ رکھ اور مسلمان مار اور نیکوں کے ساتھ ملا اور جنَّتُ النَّعیم کا وارِث کر اور قیامت کے دن میری خطا بخش دے۔ الٰہی! تجھ سے ایمانِ کامل
وَّ قَلْبًا خَاشِعًا وَّ نَسْئَلُكَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّ یَقِیْنًا صَادِقًا وَّدِیْنًا قَیِّمًا وَّنَسْئَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ مِنْ کُلِّ بَلِیَّۃٍ وَّنَسْئَلُكَ تَمَامَ الْعَافِیَۃِ وَنَسْئَلُكَ دَوَامَ الْعَافِیَۃِ وَنَسْئَلُكَ الشُّکْرَ عَلَی الْعَافِیَۃِ وَنَسْئَلُكَ الْغِنٰی عَنِ النَّاسِ ط اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِكْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ
اور قلبِ خاشِع کا ہم سُوال کرتے ہیں اور ہم تجھ سے علمِ نافع اور یقینِ صادِق اور دینِ مُستقیم کا سُوال کرتے ہیں اور ہر بلا سے عَفو و عافیت کا سُوال کرتے ہیں اور پوری عافیت اور عافیت کی ہمیشگی اور عافیت پر شکر کا سُوال کرتے ہیں اور آدمیوں سے بے نیازی کا سُوال کرتے ہیں ۔ الٰہی! تو دُرُود و سلام و بَرَکت نازل کر ہمارے سردار محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
وَ صَحْبِہٖ عَدَدَ خَلْقِكَ وَ رِضَا نَفْسِكَ وَ زِنَۃَ عَرْشِكَ وَ مِدَادَ کَلِمَاتِكَ کُلَّمَا ذَكَرَكَ الذَّاكِرُوْنَ وَغَفَلَ عَنْ ذِكْرِكَ الْغَافِلُوْنَ ط اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔
اور ان کی آل و اصحاب پر بقدرِ شمار تیری مخلوق اور تیری رِضا اور وزن تیرے عَرْش کے اور بقدرِ درازی تیرے کلمات کے جب تک ذِکر کرنے والے تیرا ذِکر کرتے رہیں اور جب تک غافل تیرے ذِکر سے غافل رہیں ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔
دُعا ختم ہونے کے بعد ہاتھ چھوڑدیجئے اور دُرُود شریف پڑھ کر سَعی کی نیَّت اپنے دِل میں کرلیجئے مگر زَبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے۔معنٰی ذِہن میں رکھتے ہوئے اِس طرح نیَّت کیجئے:
اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْۤ اُرِیْدُ السَّعْیَ بَیْنَ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃِ
ترجمہ:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تیری خوشنودی کی خاطِرصفا اور مروہ کے درمیان سعی کے
سَبْعَۃَ اَشْوَاطٍ لِّوَجْھِكَ الْکَرِیْمِ فَیَسِّرْہُ لِیْ وَ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ ط
سات پھیرے کرنے کا ارادہ کر رہاہوں تو اسے میرے لئے آسان فرمادے اور اسے میری طرف سے قَبول فرما ۔
اَللّٰھُمَّ اسْتَعْمِلْنِیْ بِسُنَّۃِ نَبِیِّكَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ وَ تَوَفَّنِیْ عَلٰی مِلَّتِہٖ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ مُّضِلَّاتِ الْفِتَنِ بِرَحْمَتِكَ یَاۤ اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ ط
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!تو مجھے اپنے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت کا تابع بنادے اور مجھے ان کے دین پر موت نصیب فرما اور مجھے پناہ دے فتنوں کی گمراہیوں سے اپنی رحمت کے ساتھ ، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
صَفاسے اب ذِکْر و دُرُود میں مَشغول دَرمِیانہ چال چلتے ہوئے جانِبِ مروہ چلئے (آج کل تو یہاں سَنگِ مَرمَر بچھا ہُوا ہے اور ائیر کُولر بھی لگے ہیں ۔ ایک سَعْی وہ بھی تھی جو
سیِّدتُنا ہاجِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے کی تھی، ذرا اپنے ذِہن میں وہ دِل ہِلا دینے والا منظر تازہ کیجئے،جب یہاں بے آب وگیاہ میدان تھا اورننھّے مُنّے اِسماعیل عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامشدّتِ پِیاس سے بِلک رہے تھے اورحضرتِ سیِّدتُنا ہاجِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاتلاشِ آب (پانی) میں بے تاب چِلچِلاتی دھوپ کے اندر اِن سَنگلاخ راستوں میں پھر رہی تھیں ) جُوں ہی پہلاسَبزمیل آئے مرد دوڑناشُروع کر دیں ۔ (مگر مُہَذَّب طریقے پر نہ کہ بے تَحاشہ )اور سُوار سُواری تیز کردیں ، ہاں اگر بھِیڑ زِیادہ ہو تو تھوڑا رُک جایئے جب کہ بھِیڑ کم ہونے کی اُمّید ہو۔ دوڑنے میں یہ یاد رکھئے کہ خود کو یا کسی دوسرے کو اِیذا نہ پہنچے کہ یہاں دَوڑنا سُنَّت ہے جب کہ کسی مسلمان کو قَصْداً ایذا دینا حرام۔ اِسلامی بہنیں نہ دَوڑیں ۔ اب اِسلامی بھائی دوڑتے ہوئے اور اِسلامی بہنیں چلتے ہوئے یہ دُعا پڑھیں :
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَ تَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ اِنَّكَ تَعْلَمُ مَا لَا نَعْلَمُ ط اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے معاف فرما اور مجھ پر رحم کر اور میری خطائیں جوکہ یقینا تیرے علم میں ہیں اُن سے درگزر فرما، بے شک تُو جانتا ہے ہمیں اس کا عِلْم نہیں ۔ بے شک تو عزّت و اِکرام والا ہے
وَ اھْدِنِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ ط اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہَا عُمْرَۃً مَّبْرُوْرَۃً وَّ سَعْیًا مَّشْکُوْرًا وَّ ذَنْۢبًا مَّغْفُوْرًا ط
اور مجھے صِراطِ مُستقیم پہ قائم رکھ، اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میرے عُمرے کو مبرور اور میری سعی کو مَشکور(پسندیدہ) فرما اور میرے گناہوں کو بخش دے۔
جب دوسرا سبز میل آئے تو آہستہ ہوجایئے اوردرمیانہ چال سے جانِبِ مروہ بڑھے چلئے۔اے لیجئے! مروہ شریف آگیا ،عوامُ النّاس دُور اُوپر تک چڑھے ہوئے ہیں ۔ آپ اُن کی نَقل مت کیجئے یہاں پہلی سیڑھی پر چڑھنے بلکہ اُس کے قریب زمین پر کھڑے ہونے سے بھی مروہ پر چڑھنا ہوگیا، یہاں اگرچِہ عمارات بن جانے کے سبب کعبہ شریف نظر نہیں آتا مگر کعبۂ مشَرَّفہ کی طر ف مُنہ کر کے صفا کی طرح اُتنی ہی دیر تک دُعا مانگئے۔اب نیَّت کرنے کی ضَرورت نہیں کہ وہ تو پہلے ہوچُکی یہ ایک پھیرا ہوا۔
اب حسبِ سابِق دُعاپڑھتے ہوئے مروہ سے جانِبِ صَفاچلئے اور حسبِ معمول مِیلَین اَخضَرَین (یعنی سبز میلوں)کے دَرمِیان مَرد دوڑتے ہوئے اور اِسلامی بہنیں چلتے ہوئے وُہی دُعا پڑھیں ، اب صَفا پر پہنچ کر دوپَھیرے پورے ہوئے۔ اِسی طرح صَفا اورمروہ کے دَرمِیان چلتے، دوڑتے ساتواں پھیرا مروہ پر ختم ہوگا،
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ آپ کیسَعْی مکمَّل ہوئی۔
بسا اوقات لوگ مَسعیٰ میں نَما زپڑھ رہے ہوتے ہیں ۔ دورانِ طواف تو نَمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے مگر دورانِ سَعْی ناجائز۔ ایسے موقع پر رُک کر نمازی کے سلام پھیرنے کا انتظار کر لیجئے۔ ہاں کسی گزرنے والے کو آڑ بناکر گزر سکتے ہیں ۔
اب ہوسکے تو مسجدِ حرام میں دو رَکعَت نَماز نَفل(اگر مکروہ وَقت نہ ہوتو) ادا کر لیجئے کہ مُستحب ہے۔ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سَعی کے بعد مَطاف کے کَنارے حَجَرِ اَسوَد کی سیدھ میں دو نَفل ادا فرمائے ہیں ۔ (مُسنَد اِمام احمد ج۱۰ص ۳۵۴ حدیث۲۷۳۱۳، رَدُّالْمُحتارج۳ص۵۸۹)
اب مرد حَلْق کریں یعنی سَر مُنڈوا دیں یا تَقْصِیر کریں یعنی بال کتروائیں ۔ مگر حَلْق کروانا بہتر ہے ۔
تَقْصِیر یعنی کم از کم چوتھائی(4/1) سَر کے بال اُنگلی کے پَورے برابر کٹوانا۔ اِس میں یہ اِحتِیاط رکھئے کہ ایک
پَورے سے زِیادہ کٹیں تا کہ سر کے بیچ میں جو چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں وہ بھی ایک پَورے کے برابر کٹ جائیں ۔ بعض لوگ قینچی سے دو تین جگہ کے چند بال کاٹ لیاکرتے ہیں ، حَنَفِیّوں کے لئے یہ طریقہ غَلَط ہے اور اِس طرح اِحرام کی پابندیاں بھی ختم نہ ہوں گی۔
اِسلامی بہنوں کو سَر مُنڈانا حرام ہے وہ صِرْف تَقْصِیر کروائیں ۔ اِس کاآسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی چُٹیا کے سِرے کو اُنگلی کے گرد لپیٹ کر اُتنا حصّہ کاٹ لیں ، لیکن یہ اِحتِیاط لازِمی ہے کہ کم ازکم چوتھائی (4/1) سَر کے بال ایک پَورے کے برابر کٹ جائیں ۔
آپ کو مبارَک ہو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ آپ عُمرے سے فارِغ ہوگئے۔
شَرَف مجھ کو عُمرے کا مولیٰ دِیا ہے
کرم مجھ گنہگار پر یہ بڑا ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مسجدِ حرام ومسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مبارَک دروازوں کے باہَر بے شمار لوگ جوتے چَپّل اُتار دیتے ہیں پھر واپَسی میں جو
بھی جُوتا پسند آیا پہن کر چلتے بنتے ہیں ! اِس طرح کے جُوتے یا چپّل بِلا اجازتِ شَرْعی جتنی بار استِعمال کریں گے اُتنی تعداد میں گناہ ہوتا رہے گا مَثَلاً بِلا اجازت شَرْعی ایک بار کے اُٹھائے ہوئے جُوتے100بار پہنے تو 100مرتبہ پہننے کا گناہ ہوا۔ اِن جُوتوں کے اَحْکام ’’لُقْطَہ‘‘(یعنی کسی کی گِری پڑی چیز)کے ہیں کہ مالِک ملنے کی امّید ہی خَتْم ہو جائے تو جس کو یہ ’’لُقْطَہ‘‘ملااگر یہ فَقِیر ہے تو خود رکھ سکتاہے ورنہ کسی فَقِیر کو دے دے۔
مذکورہ انداز پر دُنیا میں جس نے جہاں سے بھی اِس طرح کی حَرَکت کی وہ گنہگار ہے۔ اپنے لئے ’’لُقْطَہ‘‘یعنی گِری پڑی چیز اٹھالے جانے والے پر فرض ہے کہ توبہ بھی کرے اور اِس طرح جتنے بھی جوتے چپّل یاچیزیں لی ہیں ، اگر ان کے اَصْل مالِکوں یا وہ نہ رہے ہوں تو اُن کے وارِثوں تک پہنچانا ممکِن نہ ہو تو وہ ساری چیز یں یا اگروہ اشیاء باقی نہیں رہیں تو اُن کی قیمت کسی مسکین کو دیدے۔یا ان کی قیمت مسجِدو مدرسہ وغیرہ میں دیدے۔ (لُقْطے کے تفصیلی مسائل کیلئے بہارِ شریعت جلد2صَفْحَہ 471 تا484کامُطالَعَہ فرمایئے)
آہ! جو بو چکا ہوں ، وقتِ دِرَو([8])
ہوگا حسرت کا سامنا یارب!(ذوقِ نعت )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عورَتیں نَماز فرودگاہ(یعنی قِیام گاہ) ہی میں پڑھیں ۔ نَمازوں کے لیے جو مسجدین کریمین میں حاضِر ہوتی ہیں جَہالت ہے کہ مقصود ثواب ہے اور خود پیارے سرکار، مَدَنی تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا : ’’ عورت کو میری مسجِد(یعنی مسجد ِنَبَوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) میں نَماز پڑھنے سے زیادہ ثواب گھر میں پڑھنا ہے۔‘‘ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۱۰ص۳۱۰حدیث۲۷۱۵۸)
طَواف اگرچِہ نَفل ہو، اُس میں یہ سات باتیں حرام ہیں :
{۱}بے وُضو طَواف کرنا{۲}بِغیر مجبوری ڈَولی میں یا کسی کی گود میں یاکسی کے کندھوں وغیرہ پر طَواف کرنا {۳}بِلا عُذْر بیٹھ کر سَرَکنا یا گھٹنوں پر چلنا {۴} کعبے کو سیدھے ہاتھ پر لے کر اُلٹا طَواف کرنا{۵}طَواف میں ’’حَطِیم‘‘کے اَندر ہو کر گزرنا{۶} سات پھیروں سے کم کرنا{۷}جو عُضْو سِتْرمیں داخِل ہے اُس کا چوتھائی (4/1) حصَّہ کُھلا ہونا، مَثَلاًران یا آزاد عورت کا کان یا کلائی ۔(بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۱۲ ) اِسلامی بہنیں خوب اِحتیاط کریں ، دَورانِ طَواف خُصُوصًا حَجَرِ اَسوَد کا اِستِلام کرتے وَقْت کافی خواتین کی چوتھائی کلائی تو کیابعض اَوقات پوری کلائی کھل جاتی ہے !
(طَواف کے علاوہ بھی غیر مَحرَم کے سامنے سر کے بال یا کا ن یا کلائی کھولنا حرام وگناہ ہے۔ پردے کے تفصیلی اَحکام معلوم کرنے کے لییدعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ397 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’پردے کے بارے میں سوال جواب‘‘کا مُطالَعہ فرمایئے)
{۱}فُضُول بات کرنا{۲}ذِکْرودُعا یا تِلاوت یانعت ومناجات یا کوئی کلام بُلند آواز سے کرنا{۳}حمدو صلوٰۃ و مَنقبت کے سِوا کوئی شعر پڑھنا {۴} ناپاک کپڑوں میں طَواف کرنا۔(مُستَعمَل چپّل یا جُوتے ساتھ لئے طَواف نہ کریں اِحتِیاط اِسی میں ہے) {۵}رَمَل یا{۶} اِضْطِباع یا{۷} بوسۂ سنگِ اَسود جہاں جہاں ان کا حکم ہے ترک کرنا{۸}طَواف کے پھیروں میں زِیادہ فاصِلہ دینا ۔ہاں ضَرورت ہو تواِستِنجا کے لیے جاسکتے ہیں ،وُضو کر کے باقی پورا کر لیجئے {۹}ایک طَواف کے بعد جب تک اُس کی دو رَکْعَتَیں نہ پڑھ لیں دوسرا طَواف شُروع کردینا۔ ہاں اگر مکروہ وَقْت ہو تو حَرَج نہیں ۔ مَثَلاً صبحِ صادِق سے لے کر سورج بُلند ہونے تک یا بعدِ نَمازِ عَصْر سے غُروبِ آفتاب تک کہ اِس میں کئی طَواف بِغیر’’ نَمازِ طَواف‘‘ جائز ہیں البتّہ مکروہ وَقْت گزر جانے کے بعد ہر طَواف کے لئے دو دو رَکْعَت ادا کرنی ہوں گی {۱۰} طَواف میں کچھ کھانا {۱۱} پیشاب یا رِیْح وغیرہ کی شدَّت ہوتے
ہوئے طَواف کرنا۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۱۳ ،اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاری ص۱۶۵)
{۱}سلام کرنا{۲}جواب دینا {۳} ضَرورت کے وَقْت بات کرنا {۴} پانی پینا ( سَعْی میں کھابھی سکتے ہیں ){۵} حمدونعت یا مَنقَبَت کے اَشعار آہِستہ آہِستہ پڑھنا {۶} دَورانِ طَواف نَمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے کہ طَواف بھی نَماز ہی کی طرح ہے مگر سَعْی کے دَوران گزرنا جائز نہیں {۷} فتویٰ پوچھنا یا فتویٰ دینا۔ (اَیضاً ص۱۱۱۴،اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط ص۱۶۲)
{۱}بِغیرضَرورت اِس کے پَھیروں میں زِیادہ فاصِلہ(وقفہ ۔دُوری )دینا۔ہاں قَضائے حاجت یا تجدیدِ وُضُو کے لئے جاسکتے ہیں(سَعْی میں وُضُو ضَروری نہیں ، مُسْتحَب ہے ) {2}خریدو{3}فروخت {4}فُضُول کلام{5} ’’پریشان نظری ‘‘ یعنی اِدھر اُدھرفُضُول دیکھنا سَعْی میں بھی مکروہ ہے اور طَواف میں اور زِیادہ مکروہ {6} صَفا،یا {7}مروہ پر نہ چڑھنا (معمولی سا چڑھئے اوپر تک نہیں ) {8}بِغیر مجبوری مَرد کا ’’ مسعٰی ‘‘ میں نہ دوڑنا{9}طَواف کے بعد بَہُت تاخیر سے سَعْی کرنا {10} سَتْرِ عورت نہ ہونا۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۱۵)
{۱}سَعْی میں پَیدل چلنا واجب ہے جبکہ عُذْر نہ ہو(بِلا عُذْر سُواری پر یا گھِسَٹکر کی تو دم واجِب ہو گا)( لُبابُ الْمَناسِک ص ۱۷۸) {۲}سَعْی کے لئے طَہارَت شَرْط نہیں حَیض و نِفاس والی بھی کر سکتی ہے(عالمگیری ج۱ص۲۲۷){۳} جِسم ولباس پاک ہوں اورباوُضُو بھی ہوں یہ مُستحَب ہے۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۱۱۰ ){۴} سَعْی شُروع کرتے وَقْت پہلے صَفا کی دُعا پڑھئے پھرسَعْی کی نیَّت کیجئے ۔ سَعْی کے مُتَعدِّد افعال ہیں ، جیسا کہ حَجرِ اَسوَد کا اِستلام، صَفا پر چڑھنا، دُعا مانگنا وغیرہ ان سب پر نیّتیں کرلے تواچّھا ہے، کم از کم دل میں یہ نیّت ہونا بھی کافی ہے حُصُولِ ثواب کیلئے اصل سَعْی سے پہلے کے اَفعال کررہاہوں ۔
اِسلامی بہنیں یہاں بھی اور ہر جگہ مَردوں سے الگ تھلگ رہیں ۔ اَکثر نادان عورَتیں ’’ حَجَرِ اَسوَد‘‘ اور رُکنِ یَمانی کو چُومنے کے لیے یا کعبۃُ اللّٰہشریف کے قریب جانے کے لئے بے دَھڑک مَردوں میں جاگُھستی ہیں ۔ توبہ! توبہ!یہ سخت بے باکی ہے ۔اسلامی بہنوں کیلئے ٹھیک دوپَہَر کے وَقْت مَثَلاً دن کے 10 بجے طواف کرنا مناسِب ہے کہ اُس وَقْت بھیڑ کم ہوتی ہے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حسنؔ حج کرلیا کعبے سے آنکھوں نے ضِیا پائی
چلو دیکھیں وہ بستی جس کا رَستہ دل کے اندرہے
مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا مقدّس سفرآپ کومبارَک ہو! راستے بھر دُرُود وسلام کی کثرت کیجئے اورنعتیہ اَشعار پڑھتے رہئے یا ہوسکے تو ٹیپ ریکارڈر پرخوش اِلحان نعت خوانوں کے کیسٹ سنتے رہئے کہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّاس طرح ترقّیِ ذوق کے اسباب ہوں گے۔ مدینۂ پاک کی عَظَمت ورِفعَت کا تَصَوُّر باندھتے رہئے، اس کے فضائل پر غور کرتے رہئے([9])۔اِس سے بھی اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا شوق مزید بڑھے گا ۔
مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا فاصِلہ تقریباً 425کِلومیٹر ہے جسے عام
دنوں میں بس تقریباً 5گھنٹے میں طے کرلیتی ہے مگر حج کے دنوں میں بعض مصلَحتوں کی بِنا پر رفتا کم رکھی جاتی اور پہنچنے میں بس تقریباً 8تا10گھنٹے لے لیتی ہے۔ ’’ مرکزِ استِقبالِ حُجّاج ‘‘ پر بس رُکتی ہے، یہاں پاسپورٹ کا اِندِراج ہوتا ہے اور پاسپورٹ رکھ کر ایک کارڈ جاری کیا جاتا ہے جسے حاجی نے سنبھال کررکھنا ہوتا ہے، یہاں کی کاروائی میں بسا اوقات کئی گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں ،صبر کا پھل میٹھا ہے۔عَنقریب آپ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّمیٹھے مدینے کے گلی کوچوں کے جلوے لوٹیں گے ، جلدہی آپ گنبد خضرا کے دیدار سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔جُوں ہی دُور سےمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے مِینارِ نور بار پُروقار پر نگاہ پڑیگی، سبز سبز گنبد نظر آئیگا اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کے قلب میں ہَلچَل مچ جائیگی اور آنکھوں سے بے اِختیار آنسو چھلک پڑیں گے۔
صائم کمالِ ضَبط کی کوشش تو کی مگر
پَلکوں کا حلقہ توڑ کر آنسو نکل گئے
ہَوائے مدینہ سے آپ کے مشامِ دماغ مُعطّرہورہے ہوں گے اور آپ اپنی رُوح میں تازَگی محسوس کر رہے ہوں گے، ہوسکے تو ننگے پاؤں روتے ہوئے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی فَضاؤں میں داخِل ہوں ۔
جُوتے اُتار لو چلو باہوش باادب دیکھو مدینے کا حسیں گلزار آگیا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اوریہاں ننگے پاؤں رَہنا کوئی خِلافِ شَرع فعل بھی نہیں بلکہ مقدَّس سَر زمین کا سَراسَر ادب ہے۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے ہم کلامی کا شَرَف حاصل کیا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّنے ارشادفرمایا:
فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَۚ-اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىؕ(۱۲) (پ۱۶طٰہٰ:۱۲)
ترجَمۂ کنزالایمان:تو اپنے جُوتے اُتار ڈال ، بیشک تُو پاک جنگل طُویٰ میں ہے۔
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ!جب طورِ سینا کی مقدّس وادی میں سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو خود اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی جُوتے اُتار لینے کا حکم فرمائے تو مدینہ تو پھر مدینہ ہے، یہاں اگر ننگے پاؤں رہا جائے تو کیوں سَعادت کی بات نہ ہوگی!کروڑوں مالکیوں کے پیشوا اور مشہور عاشقِ رسول حضرتِ سیِّدُنا امام مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی گلیوں میں ننگے پیر چلا کرتے تھے۔ (الطبقاتُ الکُبریٰ لِلشَّعرانی الجزء الاول ص ۷۶ )آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں کبھی گھوڑے پر سُوار نہ ہوتے، فرماتے ہیں :’’ مجھے اللہ
عَزَّ وَجَلَّ سے حیا آتی ہے کہ اُس مبارَک زمین کواپنے گھوڑے کے قدموں تلے رَوندوں جس میں اُس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَموجودہیں ۔ (یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا روضہ انور ہے) (اِحیاءُ العلوم ج۱ ص ۴۸ )
اے خاکِ مدینہ!تُو ہی بتا میں کیسے پاؤں رکھوں یہاں
تُو خاکِ پا سرکار کی ہے آنکھوں سے لگائی جاتی ہے
حاضِریٔ روضۂ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے پہلے مکان وغیرہ کا بندوبست کر لیجئے ، حاجت ہو توکھا پی لیجئے ، اَلغَرَض ہر وہ بات جو خُشُوع وخُضُوع میں مانِع ہو اُس سے فارِغ ہو لیجئے۔اب تازہ وُضُو کیجئے اِس میں مسواک ضَرور ہو بلکہ بہتر یہ ہے کہ غُسل کر لیجئے ، دُھلے ہوئے کپڑے بلکہ ہو سکے تو نیا سفید لباس ، نیا عمامہ شریف وغیرہ زیبِ تن کیجئے ، سُرمہ اورخوشبو لگالیجئے اور مُشک افضل ہے ، اب روتے ہوئے دَربار کی طرف بڑھئے۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۲۲۳ماخوذاً)
اے لیجئے!وہ سبز سبز گنبد جسے آپ نے تصویروں میں دیکھا تھا، خیالوں میں چُوما تھا اب سَچ مُچ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
اَشکوں کے موتی اب نِچھاوَر زائرو کرو وہ سبز گنبدمَنبعِ اَنوارآگیا
اب سَرجھکائے باادب پڑھتے ہوئے دُرُود
روتے ہوئے آگے بڑھو دَربار آگیا(وسائل بخشش ص۴۷۳)
ہاں !ہاں !یہ وُہی سبز گنبد ہے جس کے دیدار کے لئے عاشقانِ رسول کے دِل بے قرار رہتے اور آنکھیں اَشکبار ہوجایا کرتی ہیں ، خُدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !رَوْضَۂ رَسَولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عظیم جگہ دُنیا کے کسی مَقام میں تو کُجا جنَّت میں بھی نہیں ہے۔
فِردوس کی بُلندی بھی چُھوسکے نہ اِس کو
خُلدِ بریں سے اُونچا میٹھے نبی کا روضہ(وسائلِ بخشش ص۲۹۸)
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُالمدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’وسائلِ بخشش ‘‘ کے صَفحَہ 298کے حاشیے میں ہے:روضہ کے لفظی معنی ہیں : باغ ۔ شعر میں روضہ سے مُراد وہ حصۂ زمین ہے جس پر رَحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جسمِ معظّم تشریف فرما ہے ۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فُقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : محبوبِ داور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسمِ انور سے زمین کا جو حصہ لگا ہوا ہے ۔ وہ کعبہ شریف سے بلکہ عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ (دُرِّمُختَارج۴ ص ۶۲)
اب سَراپا ادب و ہوش بنے، آنسو بہاتے یا رونا نہ آئے تو کم از کم رونے جیسی صورت بنائے بابِ بقیع([10])پر حاضِر ہوں۔’’اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ‘‘عرض کر کے ذرا ٹھہر جایئے۔ گویا سرکارِ ذِی وَقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاہی دَربار میں حاضِری کی اِجازت مانگ رہے ہیں ۔ اب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم کہہ کر اپنا سیدھا قَدَم مسجِد شریف میں رکھئے اور ہمہ تن ادب ہو کر داخلِ مسجدِ نبوی زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ہوں اِس وَقت جو تعظیم و ادب فرض ہے وہ ہر عاشقِ رسول کا دِل جانتا ہے۔ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، کان، زَبان، دِل سب خَیالِ غَیر سے پاک کیجئے اور روتے ہوئے آگے بڑھئے، نہ اردگرد نظریں گھُمایئے، نہ ہی مسجِد کے نَقش ونِگار دیکھئے، بس ایک ہی تڑپ، ایک ہی لگن اورایک ہی خَیال ہو کہ بھاگا ہوا مجرِم اپنے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ بے کس پنا ہ میں پیش ہونے کے لئے چلا ہے۔
چلا ہوں ایک مجرِم کی طرح میں جانِبِ آقا
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
اب اگر مکروہ وَقْت نہ ہو اور غَلَبۂ شوق مُہْلَت دے تو دو دو رَکعَت تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدو شکرانۂ بارگاہِ اَقدس ادا کیجئے، پہلی رَکْعَت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ اور دوسری میں الحمد شریف کے بعدقُلْ ھُوَاللّٰہُ شریف پڑھئے۔
اب ادب وشوق میں ڈوبے، گردن جُھکائے، آنکھیں نیچی کئے، رونے والی صورت بنائے بلکہ خود کو بزور رونے پر لاتے، آنسو بہاتے ، تھرتھراتے ، کپکپاتے ، گناہوں کی نَدامت سے پسینہ پسینہ ہوتے، سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فَضل وکَرَم کی اُمّید رکھتے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قَدَمَینِ شَرِیفَین([11])کی طرف سے سُنَہر ی جالیوں کے رُوبَرُو مواجَھَہ(مُوا۔جَ۔ھَہْ) شریف میں ( یعنی چِہرۂ مبارَک کے سامنے) حاضِر ہوں کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے مزارِ پُر اَنوار میں رُو بَقِبلہ جلوہ اَفروز ہیں ، مُبارَک
قدموں کی طرف سے حاضِر ہوں گے تو سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نِگاہِ بے کس پناہ براہِ راست آپ کی طرف ہوگی اور یہ بات آپ کیلئے دونوں جہاں میں کافی ہے۔ وَالحمدُللّٰہ ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۲۲۴)
اب سَراپا ادب بنے زِیرِقِندِیل اُن چاندی کی کِیلوں کے سامنے جوسُنہری جالیوں کے دروازۂ مُبارَکہ میں اُوپر کی طرف جانِبِ مشرِق لگی ہوئی ہیں ،قبلے کو پیٹھ کئے کم از کم چار ہاتھ (یعنی تقریباً دو گز)دُور نَماز کی طرح ہاتھ باندھ کر سرکار ِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ پُراَنوار کی طرف رُخ کر کے کھڑے ہوں کہ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘وغیرہ میں یِہی ادب لکھا ہے کہ یَقِفُ کَمَا یَقِفُ فِی الصَّلٰوۃ یعنی’’ سر کارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دَربار میں اِس طرح کھڑا ہو جس طرح نَماز میں کھڑا ہوتا ہے۔‘‘یقین مانئے!سرکارِ ذی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے مزارِ فائضُ الانوارمیں سچّی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات سے اُسی طرح زندہ ہیں جس طرح وفات شریف سے پہلے تھے اور آپ کو بھی دیکھ رہے ہیں بلکہ آپ کے دِل
میں جو خَیالات آرہے ہیں اُن پر بھی مُطَّلع (یعنی باخبر) ہیں ۔ خبردار! جالی مُبارَک کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچئے کہ یہ خِلافِ اَدَب ہے، ہمارے ہاتھ اِس قابِل ہی نہیں کہ جالی مُبارَک کو چُھو سکیں ، لہٰذا چار ہاتھ (یعنی تقریباً دو گز)دُور رہئے، یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ آپ کو اپنے مُواجَھَۂ اَقدس کے قریب بُلایا! سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نِگاہِ کرَم اگر چِہ ہرجگہ آپ کی طرف تھی، اب خُصُوصِیَّت اور اِس دَرَجۂ قُرب کے ساتھ آپ کی طرف ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۲۲۴، ۱۲۲۵ )
دِیدار کے قابِل تو کہاں میری نظر ہے
یہ تیری عنایت ہے جو رُخ تیرا اِدھر ہے
اب ادب اور شوق کے ساتھ غمگین اور درد بھری آواز میں مگر آواز اتنی بلند اور سخت نہ ہو کہ سارے اعمال ہی ضائع ہوجائیں ، نہ بالکل ہی پَست(یعنی دھیمی) کہ یہ بھی سُنَّت کے خِلاف ہے، مُعتَدِل(یعنی درمیانی) آواز میں اِن الفاظ کے ساتھ سلام عرض کیجئے: اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
ترجمہ:اے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ پر سلام اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمتیں
وَ بَرَکَاتُہٗ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا شَفِیْعَ الْمُذْنِبِیْنَ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ وَ عَلٰی اٰلِكَ وَاَصْحٰبِكَ وَ اُمَّتِكَ اَجْمَعِیْنَ ط
اور بَرَکتیں ۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ پر سلام۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تمام مخلوق سے بہتر آپ پر سلام۔ اے گنہگاروں کی شَفاعت کرنے والے آپ پر سلام، آپ پر، آپ کی آل و اصحاب پر اور آپ کی تمام امت پر سلام ۔
جہاں تک زَبان ساتھ دے، دِل جَمعی ہو مختلف اَلقاب کے ساتھ سلام عرض کرتے رہئے، اگر اَلقاب یاد نہ ہوں تو اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ کی تکرار کرتے(یعنی یِہی بار بار پڑھتے) رہئے۔ جن جن لوگوں نے آپ کو سلام کے لئے کہاہے اُن کا بھی سلام عرض کیجئے، جو جو عاشقانِ رسول یہ تحریر پڑھیں وہ مجھ سگِ مدینہ عُفِیَ عَنْہُ کا سلام عرض کر دیں تو مجھ گنہگاروں کے سردار پر اِحسانِ عظیم ہوگا۔یہاں خوب دُعائیں مانگئے اور باربار اِس طرح شَفاعت کی بھیک طلب
کیجئے:
اَسۡئَلُكَ الشَّفَاعَةَ يَـا رَسُوۡلَ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یعنی يَـا رَسُوۡلَ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!آپ سے شَفاعت کا سُوال کرتا ہوں ۔
پھر مشرِق کی جانِب ( اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف ) آدھے گز کے قریب ہٹ کر (قریبی چھوٹے سوراخ کی طرف)حضرتِ سیِّدُنا صِدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرۂ اَنور کے سامنے دَست بَستہ(یعنی اُسی طرح ہاتھ باندھ کر) کھڑے ہوکر اُن کو سلام پیش کیجئے، بہتر یہ ہے کہ اِس طرح سلام عرض کیجئے: اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا وَزِیْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا صَاحِبَ رَسُوْلِ
اے خلیفۂ رَسُول اللّٰہ ! آپ پر سلام ، اے رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وزیر آپ پر سلام، اے غارِ ثور میں رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رفیق!
اللّٰہِ فِی الْغَارِ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَا تُہٗ ط
آپ پر سلام اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رَحمتیں اور برکتیں ۔
پھر اِتنا ہی مزید جانِبِ مشرِق( اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف ) تھوڑا ساسَرَک کر (آخِری سوراخ کے سامنے ) حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے رُوبَرُو عرض کیجئے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا مُتَمِّمَ الْاَرْبَعِیْنَ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا عِزَّ الْاِسْلَامِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ط
اے امیرُ المُؤْمِنِین! آپ پر سلام ، اے چالیس کا عدد پورا کرنے والے!آپ پر سلام، اے اسلام ومسلمین کی عزّت! آپ پر سلام اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمتیں اوربَرَکتیں ۔
پھر بالِشت بھر جانِبِ مغرِب یعنی اپنے اُلٹے ہاتھ کی طرف سَرَکئے اور دونوں چھوٹے سُوراخوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر ایک ساتھ سیِّدَنا صِدّیقِ
اکبر و فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی خدمتوں میں اِس طرح سلام عَرض کیجئے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَا یَا خَلِیْفَتَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَا یَا وَزِیْرَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمَا یَا ضَجِیْعَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ط اَسْئَلُکُمَا الشَّفَاعَۃَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ عَلَیْکُمَا وَ بَارَكَ وَ سَلَّمَ ط
اے رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیخُلَفاء!آپ دونوں پر سلام، اے رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وُزَراء! آپ دونوں پر سلام، اے رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں آرام فرمانے والے! (ابو بکر وعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) آپ دونوں پر سلام ہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمتیں اور برکتیں ۔آپ دونوں صاحِبان سے سُوال کرتا ہوں کہ رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حُضُور میری سِفارِش کیجئے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُن پر اور آپ دونوں پر دُرُودو بَرَ کت اور سلام نازِل فرمائے۔
[1] ۔۔۔ انگوٹھی کے بارے میں عرض ہے کہ تاجدار ِمدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت باعظمت میں ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھے۔ میٹھے مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: کیا بات ہے کہ تم سے بُت کی بو آتی ہے؟ انہوں نے وہ (پیتل کی ) انگوٹھی اُتار کر پھینک دی پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر حاضِر ہوئے۔ فرمایا :کیا بات ہے کہ تم جہنَّمیوں کا زیور پہنے ہوئے ہو؟ انہوں نے اسے بھی پھینک دیا پھر عرض کیا: یارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کیسی انگوٹھی بنواؤں ؟ فرمایا: چاندی کی بناؤ اور ایک مِثقال پورا نہ کرو۔ (ابو داوٗد ج۴ ص۱۲۲ حدیث۴۲۲۳) یعنی ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن کی ہو۔ اسلامی بھائی جب کبھی انگوٹھی پہنیں تو صرف چاندی کی ساڑھے چار ماشہ(یعنی4 گرام 374ملی گرام) سے کم وزن چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنیں ایک سے زیادہ نہ پہنیں اور اس ایک انگوٹھی میں نگینہ بھی ایک ہی ہوایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں اور بغیر نگینے کے بھی نہ پہنیں ۔ نگینے کے وزن کی کوئی قید نہیں ۔ چاندی یا کسی اور دھات کاچَھلّا (چاہے مدینۂ منورہ ہی کا کیوں نہ ہو) یا چاندی کے بیان کردہ وزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات (مَثَلاً سونا، تانبا، لوہا، پیتل، اسٹیل وغیرہ) کی انگوٹھی نہیں پہن سکتے۔ سونے چاندی یا کسی بھی دھات کی زنجیر گلے میں پہننا گناہ ہے۔ اسلامی بہنیں سونے چاندی کی انگوٹھیاں اور زنجیریں وغیرہ پہن سکتی ہیں ، وزن اور نگینوں کی کوئی قید نہیں ۔(انگوٹھی کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے ، فیضانِ سنّت جلد۲ کے باب ’’ نیکی کی دعوت‘‘(حصّہ اوّل)صفحہ 408 تا 412 کا مُطالَعہ فرمایئے)
[2] ۔۔۔ مجبوری کی صورت میں سر یا منہ پر پٹی باندھ سکتے ہیں مگر اس پر کفّارہ دینا ہوگا۔ (اس کا مسئلہ صفحہ172پر ملاحظہ فرمائیں ۔)
[3] ۔۔۔ناف کے نیچے سے لیکر عُضوِ مخصوص کی جڑ تک بدن کی گولائی میں جتنا حصّہ آتا ہے اُسے’’ پَیڑو‘‘ کہتے ہیں ۔
[4] ۔۔۔ مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں آبادی بڑھتی جارہی ہے اور کہیں کہیں حرم کے باہَر تک پھیل چکی ہے مَثَلاً تنعیم کہ یہ حرم سے باہَر ہے مگر شایدشہرِ مکّہ میں داخل۔واللّٰہ ورسولہٗ اعلم۔
[5] ۔۔۔ نماز، روزہ، اِعتِکاف، طواف وغیرہ ہر جگہ یہ مسئلہ ذہن میں رکھئے کہ عَرَبی زَبان میں نیَّت اُسی وَقت کار آمد ہوتی ہے جب کہ اس کے معنیٰ معلوم ہوں ورنہ نیَّت اُردو میں بلکہ اپنی مادَری زَبان میں بھی ہوسکتی ہے اور ہر صورت میں دل میں نیَّت ہونا شَرط ہے، زَبان سے نہ بھی کہیں تب بھی چل جائے گا کہ دِل ہی میں نیَّت ہونا کافی ہے ہاں زَبان سے کہہ لینا افضل ہے۔
[6] ۔۔۔ تہ خانے(BASEMENT)میں سعی کیجئے۔
[7] ۔۔۔ رمی جمرات، وُقوفِ عَرَفات وغیرہ کے لئے جس طرح نیّت شَرط نہیں اسی طرح سعی میں بھی شَرط نہیں بِغیر نیّت کے بھی اگر کسی نے سعی کی تو ہوجائے گی مگر سعی میں نیت کرلینا مستحب ہے۔ نیّت نہیں ہوگی تو ثواب نہیں ملے گا۔
[8] ۔۔۔ یعنی فصل کاٹتے وقت
[9] ۔۔۔ دورانِ قِیام حرمینِ شریفین فضائلِ مکہ ومدینہ پر مبنی کُتب کا مُطالَعَہ ترقی ذوق کا بہترین ذَرِیعہ ہے نیز عشقِ رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہٖ وسلَّمبڑھانے کے لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہکا نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش‘‘ اور استاذ زَمَن مولانا حسن رضا خانعلیہ رَحمۃُ اللّٰہِ ذُوالمِنَنکا کلام’’ذوقِ نعت ‘‘ کا خوب مُطالَعَہ فرمایئے۔
[10] ۔۔۔۔ یہ مسجدِ نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جانِبِ مشرِق واقع ہے۔عُمُومادربان بابِ بقیع سے حاضِری کے لئے نہیں جانے دیتے لہٰذا لوگ بابُ السّلام ہی سے حاضِر ہوتے ہیں اِس طرح حاضِری کی ابتِدا ء سرِاقدس سے ہوگی اور یہ خلافِ ادب ہے کیونکہ بُزُرگوں کی خدمت میں قدموں کی طرف سے آنا ہی ادب ہے۔ اگر بابِ بقیع سے حاضِری نہ ہو سکے تو بابُ السّلام سے بھی حَرَج نہیں ۔ اگر بھیڑ وغیرہ نہ ہو تو کوشش کیجئے کہ بابِ بقیع سے حاضِری ہو جائے ۔
[11] ۔۔۔ بابُ البقیع سے حاضِری ملی تو پہلے قَدَمین شریفین آئیں گے اور بابُ السّلام سے آئے تو پہلے سرِ اقدس آئے گا۔
[12] ۔۔۔ لوگ عُموماً بڑے سوراخ کو’’مُواجَھَہ شریف‘‘ سمجھتے ہیں بلکہ اکثر اردو کتابوں میں بھی یہی لکھاہے مگر رفیق المعتمرین میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ کی تحقیق کے مطابق مُواجَھَہ شریف کی نشاندہی کی گئی ہے۔