یہ تمام حاضِریاں قَبولِیَّتِ دُعا کے مَقامات ہیں ، یہاں دنیاو آخِرت کی بھلائیاں مانگئے۔اپنے والِدَین، پیر و مرشِد، اُستاد، اَولاد، اہلِ خاندان ،دوست و اَحباب اور تمام اُمَّت کے لئے دُعائے مغفِرت کیجئے اور شَہنشاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شَفاعت کی بھیک مانگئے، خُصُوصاً مُواجَھَہ شریف میں نعتیہ اَشعار عرض کیجئے، اگرنیچے دیا ہوا مَقطَع یہاں سگِ مدینہ عفی عنہ کی طرف سے 12 بار عرض کردیں تو اِحسانِ عظیم ہوگا:
پڑوسی خُلد میں عطاؔر کو اپنا بنالیجے
جہاں ہیں اِتنے اِحساں اور اِحساں یارَسُوْلَ اللّٰہ
{۱} مِنبرِ اطہر کے قریب دُعا مانگئے{۲} جنَّت کی کیاری میں (یعنی جو جگہ منبرو حُجرۂ منوَّرہ کے درمِیان ہے، اسے حدیث میں ’’جنّت کی کیاری‘‘ فرمایا) آکر دو رَکعَت نَفل غیرِ وَقتِ مکروہ میں پڑھ کر دُعا کیجئے {۳} جب تک مدینۂ طیِّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی حاضِری نصیب ہو، ایک سانس بیکار نہ جانے دیجئے{۴} ضَروریات کے سوا اکثر وَقت مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف میں باطہارت حاضِر رہئے، نَماز وتِلاوت و ذِکرودُرُود میں وَقت گزاریئے ،دنیا کی بات توکسی بھی مسجِدمیں نہ چاہیے نہ کہ یہاں {۵} مدینۂ طیِّبہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں روزہ نصیب ہو خُصُوصاً گرمی میں تو کیا کہنا کہ اس پر وعدۂ شَفاعت ہے{۶} یہاں ہر
نیکی ایک کی پچاس ہزار لکھی جاتی ہے، لہٰذا عبادت میں زیادہ کوشِش کیجئے، کھانے پینے کی کمی ضَرور کیجئے اور جہاں تک ہوسکے تصدُّق (یعنی خیرات) کیجئے خُصُوصاً یہاں والوں پر{۷} قراٰنِ مجید کا کم سے کم ایک ختم یہاں اورایک حَطیمِ کعبۂ معظمہ میں کر لیجئے {۸} روضۂ انور پر نظر عبادت ہے جیسے کعبۂ معظمہ یا قراٰنِ مجید کا دیکھنا تو ادب کے ساتھ اِس کی کثرت کیجئے اور دُرُود و سلام عرض کیجئے{۹} پنجگانہ یا کم از کم صبح ، شام مُواجَہَہ شریف میں عرضِ سلام کے لیے حاضر ہوں {۱۰} شہر میں خواہ شہر سے باہَر جہاں کہیں گنبدِ مبارَک پر نظر پڑے، فوراً دست بستہ اُدھر منہ کرکے صلوٰۃُ و سلام عرض کیجئے، بے اِس کے ہرگز نہ گزریئے کہ خلافِ ادب ہے {۱۱} حتَّی الوسع کوشِش کیجئے کہ مسجِد اوّل یعنی حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں جتنی تھی اُس میں نَماز پڑھئے اور اُس کی مِقدار100 ہاتھ طُول (لمبائی) اور100ہاتھ عرض (چوڑائی)(یعنی تقریباً50×50گز)ہے اگرچِہ بعد میں کچھ اضافہ ہوا ہے، اُس(یعنی اضافہ شدہ حصّے) میں نَماز پڑھنا بھی مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں پڑھنا ہے{۱۲} روضۂ انور کا نہ طواف کیجئے، نہ سجدہ، نہ اتنا جُھکنا کہ رُکوع کے برابر ہو۔ رَسُول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم اُن کی اِطاعت میں ہے۔ (ماخوذاًبہارِ شریعت ج اول ص۱۲۲۷تا ۱۲۲۸)
عالمِ وَجد میں رَقصاں مِرا پَر پَر ہوتا
کاش! میں گنبدِ خضرا کا کبوتر ہوتا
جوکوئی حُضورِ اَکرَم نورِ مُجسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِمُعَظَّم کے رُوبَرُو کھڑا ہوکر یہ آیت شریفہ ایک بارپڑھے:
{ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)}پھر70 مرتبہ یہ عرض کرے:صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فِرِشتہ اِس کے جواب میں یوں کہتا ہے: اے فُلاں !تجھ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا سلام ہو۔ پھرفِرِشتہ اُس کے لئے دُعا کرتا ہے: یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اِس کی کوئی حاجَت ایسی نہ رہے جس میں یہ ناکام ہو۔(اَلْمَواہِبُ اللَّدُنِّیَۃ ج۳ص۴۱۲)
جب جب سنہری جالیوں کے رُو برو حاضِری کی سعادت ملے اِدھر اُدھر ہرگز نہ دیکھئے اور خاص کر جالی شریف کے اندر جھانکناتوبَہُت بڑی جُرأت (جُرْ۔اَتْ) ہے۔ قبلے کی طر ف پیٹھ کئے کم از کم چار ہاتھ(یعنی تقریباً دو گز) جالی
مُبارَک سے دُور کھڑے رہئے اورمُواجَھَہ شریف کی طرف رُخ کر کے سلام عرض کیجئے، دُعا بھی مُواجَھَہ شریف ہی کی طرف رُخ کئے مانگئے۔ بعض لوگ وہاں دُعا مانگنے کے لئے کعبے کی طرف مُنہ کر نے کو کہتے ہیں ، اُن کی باتوں میں آکر ہرگز ہرگز سُنہری جالیوں کی طرف آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یعنی کعبے کے کعبے کو پیٹھ مت کیجئے۔
کعبے کی عظمتوں کا مُنکر نہیں ہوں لیکن
کعبے کا بھی ہے کعبہ میٹھے نبی کا روضہ(وسائلِ بخشش ص ۲۹۸)
جب جب آپمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخِل ہوں تو اِعتِکاف کی نیّت کرنا نہ بھولئے، اِس طرح ہر بار آپ کو’’ پچاس ہزار نفلی اِعتِکاف‘‘ کا ثواب ملے گا اور ضِمناً کھانا، پینا، اِفطار کرنا وغیرہ بھی جائز ہو جائے گا۔ اِعتِکاف کی نیَّت اِس طرح کیجئے:
نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکاف ([1]) ترجَمہ:میں نے سُنَّتِ اِعتِکاف کی نیَّت کی۔
خُصُوصاً چالیس نَمازیں بلکہ تمام فرض نَمازیں مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں ادا کیجئے کہ تاجدارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:’’جو شخص وُضو کر کے میری مسجِدمیں نَماز پڑھنے کے اِرادے سے نکلے یہ اُس کے لئے ایک حج کے برابر ہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۴۹۹ حدیث۴۱۹۱)
وہاں جو بھی سلام عرض کرنا ہے، وہ زَبانی یاد کر لینا مناسِب ہے، کتاب سے دیکھ کر سلام اور دُعا کے صیغے وہاں پڑھنا عجیب سا لگتا ہے کیونکہ سرورِ کائنات ،شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جسمانی حیات کے ساتھ حُجرۂ مُبارَکہ میں قبلے کی طرف رُخ کئے تشریف فرما ہیں اور ہمارے دِلوں تک کے خَطرات(یعنی خیالات) سے آگاہ ہیں ۔ اِس تَصَوُّرکے قائم ہوجانے کے بعد کتاب سے دیکھ کر سلام وغیرہ عرض کرنا بَظاہِر بھی نامُناسب معلوم ہوتاہے۔ مَثَلاً آپ کے پیر صاحِب آپ کے سامنے موجود ہوں تو آپ اُن کوکتاب سے پڑھ پڑھ کر سلام عرض کریں گے یا زَبانی ہی ’’یاحضرت السلام علیکم ‘‘ کہیں گے؟ اُمّید ہے آپ میرا مُدَّعا سمجھ گئے ہوں گے۔ یاد رکھئے!بارگاہِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بنے سجے اَلفاظ نہیں بلکہ دِل دیکھے جاتے ہیں ۔
مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ۱۴۰۵ھ کی حاضِری میں سگِ مدینہ عفی عنہ کو ایک پیر بھائی مرحوم حاجی اسمٰعیل نے یہ واقِعہ سُنایا تھا:دو یا تین سال پہلے تقریباً85 سالہ ایکحَجَّن بی سنہری جالیوں کے رُو بروسلام عرض کرنے حاضِر ہوئیں اور اپنے ٹوٹے پھوٹے اَلفاظ میں صلوٰۃ وسلام عرض کرنا شُروع کیا، ناگاہ ایک خاتون پر نظر پڑی جوکتاب سے دیکھ دیکھ کر نہایت عُمدہ اَلقاب کے ساتھ صلوٰۃ وسلام عَرض کر رہی تھی، یہ دیکھ کر بے چاری اَن پڑھ بُڑھیا کا دِل ڈوبنے لگا، عرض کی: یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میں تو پڑھی لکھی ہوں نہیں جو اچّھے اچّھے الفاظ کے ساتھ سلام عرض کرسکوں ، مجھ اَن پڑھ کا سلام آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کہاں پسند آئے گا! دِل بھر آیا، رو دھوکر چُپ ہورہی۔ رات جب سوئی تو سوئی ہوئی قسمت اَنگڑائی لے کر جاگ اُٹھی! کیا دیکھتی ہے کہ سرہانے اُمَّت کے والی، سرکارِ عالی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں ، لب ہائے مُبارَکہ کوجُنبِش ہوئی،رحمت کے پھول جھڑنے لگے، اَلفاظ کچھ یوں ترتیب پائے : ’’مایوس کیوں ہوتی ہو؟ ہم نے تمہارا سلام سب سے پہلے قَبول فرمایا ہے ۔ ‘‘
تم اُس کے مددگار ہو تم اُس کے طرفدار جو تم کو نکمّے سے نکمّا نظر آئے
لگاتے ہیں اُس کو بھی سینے سے آقا جو ہوتا نہیں مُنہ لگانے کے قابِل
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سبز سبزگنبد اور حُجرۂ مَقصُورَہ (یعنی وہ مبارک کمرہ جس میں حُضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ منوَّر ہے ) پر نظر جمانا عبادت اور کارِ ثواب ہے۔ زِیادہ سے زِیادہ وَقتمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں گزارنے کی کوشش کیجئے۔ مسجد شریف میں بیٹھے ہوئے دُرُود وسلام پڑھتے ہوئے حُجرۂ مُطَہَّرہ پر جتنا ہوسکے نگاہِ عقیدت جمایا کیجئے اور اِس حسین تَصَوُّر میں ڈوب جایا کیجئے گویا عنقریب ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حُجرۂ مُنوَّرہ سے باہَر تشریف لانے والے ہیں ۔ ہجروفراق اور اِنتظا رِآقا ئے نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے آنسو ؤ ں کو بہنے دیجئے۔
کیا خبر آج ہی دِیدار کا اَرماں نکلے اپنی آنکھوں کو عقیدت سے بچھائے رکھئے
سگِ مدینہ عفی عنہ کو۱۴۰۰ھ کی حاضِری میں مدینۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں بابُ المدینہ کراچی کے ایک نوجوان حاجی نے بتایاکہ میں مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں رَحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حُجرۂ مَقصُورہ کے پیچھے پُشتِ اَطہر کی جانِب سبز جالیوں کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ عَین
بیداری کے عالم میں ،میں نے دیکھا کہ اَچانک سبز سبزجالیوں کی رُکاوٹ ہٹ گئی اور تا جدارِ مدینہ، قرارِقلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حُجرۂ پاک سے باہَر تشریف لے آئے اور مجھ سے فرمانے لگے:’’مانگ کیا مانگتا ہے؟‘‘میں نور کی تجلّیوں میں اِس قَدَر گُم ہوگیا کہ کچھ عرض کرنے کی جَسارَت(یعنی ہمّت) ہی نہ رہی، آہ!میرے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جلوہ دِکھا کر مجھے تڑپتا چھوڑ کر اپنے حُجرۂ مُطَہَّرہ میں واپَس تشریف لے گئے۔
شربتِ دِید نے اِک آگ لگائی دِل میں تَپِش دِل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دِیا
اب کہاں جائے گا نقشہ ترا میرے دل سے تہ میں رکھا ہے اِسے دل نے گمانے نہ دیا
مَکّے مدینے کی گلیوں میں تھوکانہ کیجئے،نہ ہی ناک صاف کیجئے۔جانتے نہیں اِن گلیوں سے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گزرے ہیں ۔
اَو پائے نظر ہوش میں آ ، کُوئے نبی ہے آنکھوں سے بھی چلنا تو یہاں بے ادبی ہے
جنَّتُ البَقِیع شریف نیز جنَّتُ المَعلٰی(مَکّہ مکرّمہ)دونوں مقدّس قبرِستانوں کے مقبروں اور مزاروں کو شہید کردیاگیا ہے۔ ہزارہا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماور بے شمار اَہلبیتِ اَطہار رِضْوَانُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن و اَولیاء کِبارو عُشّاقِ زار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارکے مزارات کے نُقوش تک مِٹا دئیے گئے ہیں ۔ حاضِری کیلئے اندر داخِلے کی صورت میں آپ کا پاؤں مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی بھی صَحابی یا عاشقِ رسول کے مزار شریف پر پڑسکتا ہے!شَرعی مسئلہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی قبروں پر بھی پاؤں رکھنا حرام ہے۔’’رَدُّالْمُحتار‘‘میں ہے: (قبرِستان میں قبریں مِٹا کر)جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے ۔ (رَدُّالْمُحتارج۱ص۶۱۲) بلکہ نئے راستے کا صِرف گمان ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۱۸۳ )لہٰذا مَدَنی التجا ہے کہ باہَر ہی سے سلام عَرض کیجئے اور وہ بھیجنَّتُ البَقِیع کے صدر دروازے (MAIN ENTRANCE)پر نہیں بلکہ اُس کی چار دیواری کے باہَر اُس سَمت کھڑے ہوں جہاں سے قبلے کو آپ کی پیٹھ ہو تا کہ مَدفُونینِ بَقِیع کے چِہرے آپ کی طرف رہیں ۔اب اس طرح
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ فَاِنَّاۤ
ترجمہ:تم پر سلام ہو اے مومنوں کی بستی میں رہنے والو!ہم بھی
اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ ط اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاَ ھْلِ الْبَقِیْعِ الْغَرْقَدِ ط اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَ لَھُمْ ط
اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّتم سے آملنے والے ہیں ۔اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!بقیعِ غَرقد والوں کی مغفرت فرما۔اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!ہمیں بھی مُعاف فرما اور انہیں بھی مُعاف فرما۔
آہ!ایک وَقت وہ تھاکہ جب حِجازِ مقدَّس میں اہلسنّت کی ’’خدمت‘‘کا دَور تھا اوراُس وَقت کے خَطِیب واِمام بھی عاشقانِ رسول ہُوا کرتے تھے،جمعہ کے روز دَورانِ خُطبہ جب خَطِیب صاحِب مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں روضۂ اَنور کی طرف ہاتھ سے اِشارہ کرتے ہوئے اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی ھٰذا النَّبِیط (یعنی اِس نبی محترم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود وسلام ہو)کہتے تو ہزاروں عاشقانِ رسول کے دِلوں پر خنجر پھرجاتا اور وہ اَز خود رَفتگی کے عالم میں رونے لگ جایاکرتے۔
جب مدینہ مُنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے رُخصت ہونے کی جاں سوز گھڑی آئے روتے ہوئے اورنہ ہوسکے تو رونے جیسا مُنہ بنائے مُواجَھَہ شریف میں حاضِر ہو کررورو
کرسلام عرض کیجئے اورپھر سوزو رِقّت کے ساتھ یوں عرض کیجئے :
اَلْوَدَاعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِط اَلْوَدَاعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْوَدَاعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ط اَ لْاَمَانُ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ط لَا جَعَلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اٰخِرَ الْعَھْدِ مِنْكَ وَلَا مِنْ زِیَارَتِكَ وَلَا مِنَ الْوُقُوْفِ بَیْنَ یَدَیْكَ اِلَّا مِنْ خَیْرٍ وَّعَافِیَۃٍ وَّصِحَّۃٍ وَّسَلَامَۃٍ اِنْ عِشْتُ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی جِئْتُكَ وَ اِنْ مِّتُّ فَاَوْدَعْتُ عِنْدَكَ شَھَادَتِیْ وَاَمَانَتِیْ وَعَھْدِیْ وَ مِیْثَاقِیْ مِنْ یَّوْمِنَا ھٰذَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھِیَ شَھَادَۃُ
اَنْ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحَدَہٗ لَا شَرِیْكَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُـوْلُہٗ ط سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰)وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱)وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۸۲)اٰمِیْنَ، اٰمِیْنَ، اٰمِیْنَ، یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ بِحَقِّ طٰہٰ وَ یٰـسٓ
آہ! اب وَقتِ رُخصت ہے آیا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
صدمۂ ہِجر کیسے سَہوں گا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
بے قراری بڑھی جارہی ہے ہِجر کی اب گھڑی آرہی ہے
دِل ہُوا جاتا ہے پارہ پارہ اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
کس طرح شوق سے میں چلا تھا دِل کا غُنچہ خوشی سے کھلا تھا
آہ! اب چھوٹتا ہے مدینہ اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
کُوئے جاناں کی رنگیں فَضاؤ! اے مُعطَّر مُعَنبر ہَواؤ!
لو سلام آخِری اب ہمارا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
کاش! قِسمَت مِرا ساتھ دیتی موت بھی یاوَری میری کرتی
جان قدموں پہ قربان کرتا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
سوزِ اُلفت سے جلتا رہوں میں عِشق میں تیرے گھلتا رہوں میں
مجھ کو دیوانہ سمجھے زمانہ اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
میں جہاں بھی رہوں میرے آقا ہو نظر میں مدینے کا جلوہ
اِلتجا میری مقبول فرما اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
کچھ نہ حُسنِ عمل کر سکا ہوں نَذْر چند اَشک میں کر رہا ہوں
بس یِہی ہے مِرا کُل اَثاثہ اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
آنکھ سے اب ہُوا خون جاری رُوح پر بھی ہے اب رَنج طاری
جلد عطّاؔر کو پھر بُلانا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
اب پہلے کی طرح شیخینِ کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی پاک بارگاہوں میں بھی سلام
عرض کیجئے ، خوب رو رو کر دعائیں مانگئے باربار حاضِری کا سُوال کیجئے اور مدینے میں ایمان وعافیت کے ساتھ موت اور جنَّتُ البَقِیع میں مدفن کی بھیک مانگئے۔بعدِ فراغت روتے ہوئے اُلٹے پاؤں چلئے اور بار بار دَربارِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواس طرح حَسرَت بھری نظر سے دیکھئے جس طرح کوئی بچّہ اپنی ماں کی گود سے جُدا ہونے لگے تو بِلک بِلک کر روتا اور اُس کی طرف اُمّید بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ ماں اب بُلائے گی، کہ اب بُلائے گی اور بُلاکر شَفقَت سے سینے سے چِمٹا لے گی۔ اے کاش! رُخصت کے وَقت ایسا ہوجائے تو کیسی خوش بختی ہے، کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبلا کر اپنے سینے سے لگالیں اور بے قرار رُوح قدموں میں قربان ہو جائے۔
ہے تمنّائے عطاؔر یارب اُن کے قدموں میں یوں موت آئے
جھوم کر جب گرے میرا لاشہ تھام لیں بڑھ کے شاہِ مدینہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تُوبُوااِلیَ اللہ! اَسْتَغْفِرُاللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ علّامہ قطب الدّین عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ المُبِیْن فرماتے ہیں : حُضُور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت گاہ پر دُعا قبول ہوتی ہے۔(بلدالامین ،ص۲۰۱) یہاں پہنچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کوہِ مروَہ کے کسی بھی قریبی دروازے سے باہَر آجایئے۔سامنے نَمازیوں کیلئے بَہُت بڑا اِحاطہ بناہوا ہے، اِحاطے کے اُس پار یہ مکانِ عالیشان اپنے جلوے لُٹا رہا ہے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّدُور ہی سے نظر آجائے گا۔ خلیفہ ہارون رشید علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ المجیدکی والِدۂ محترمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نے یہاں مسجِد تعمیر کروائی تھی۔ آجکل اس مکانِ عَظَمت نشان کی جگہ لائبر یری قائم ہے اوراس پر یہ بورڈلگاہواہے: ’’مَکْتَبَۃُ مَکَّۃَ الْمُکَرَّمَۃ‘‘
یہ دُنیا کا سب سے پہلاپہاڑ ہے،مسجِد الحرام کے باہَر صَفا ومَروہ کے قریب واقِع ہے۔اِس پہاڑ پر دُعاقَبول ہوتی ہے ، اہلِ مکّہ قَحط سالی کے موقع پر اس پر آ کر دُعا مانگتے تھے۔حدیثِ پاک میں ہے کہ حَجرِ اَسوَد جنَّت سے یَہیں نازِل ہُوا تھا (الترغیب
والترہیب ،ج۲ص۱۲۵حدیث۲۰)اِس پہاڑ کو ’’اَلاَْمین ‘‘ بھی کہا گیا ہے کہ’’ طوفانِ نوح ‘‘میں حجرِ اسود اِس پہاڑ پربحفاظتِ تمام تشریف فرما رہا، کعبۂ مشرَّفہ کی تعمیر کے موقع پراِس پہاڑ نے حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکو پکار کر عرض کی:’’حجرِ اَسوَد اِدھر ہے۔‘‘(بلدالامین، ص۲۰۴بتغیر قلیل) منقول ہے : ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسی پہاڑ پر جلوہ اَفروز ہو کر چاند کے دو ٹکڑے فرمائے تھے۔ چُونکہ مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہاڑوں کے دَرمِیان گھرا ہُوا ہے چُنانچِہ اس پر سے چاند دیکھا جاتا تھاپہلی رات کے چاند کو ہِلال کہتے ہیں لہٰذا اس جگہ پر بَطورِ یادگارمسجدِ ہِلال تعمیر کی گئی۔ بعض لوگ اِسے مسجدِبِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں ۔ وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔ پہاڑ پر اب شاہی مَحَل تعمیر کردیا گیا ہے، اوراب اُس مسجد شریف کی زیارت نہیں ہو سکتی ۔ ۱۴۰۹ھ کے موسمِ حج میں اِس مَحَل کے قریب بم کے دھماکے ہوئے تھے اور کئی حُجّاجِ کرام نے جامِ شہادت نوش کیا تھا، اِس لئے اب مَحَل کے گرد سخت پہرا رہتا ہے۔مَحَل کی حفاظت کے پیشِ نظر اِسی پہاڑ کی سُرنگوں میں بنائے ہوئے وُضو خانے بھی خَتْم کر دیئے گئے ہیں ۔ ایک رِوایت کے مطابِق حضرت ِسیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاماِسی جَبَلِ ابوقُبَیسپرواقِع ’’غار الکنز‘‘میں مَدفُون
ہیں جبکہ ایک مُستند روایت کے مطابِق مسجدِخَیف میں دَفْن ہیں جو کہ مِنٰی شریف میں ہے۔ وَاللّٰہُ تعالٰی اَعْلمُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم۔ عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
مَکّے مدینے کے سُلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب تک مَکَّہ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہے اِسی مکانِ عالی شان میں سُکُونَت پذیر رہے۔ سیِّدُنا ابراھیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے علاوہ تما م اولاد بَشمول شہزادیٔ کونَین بی بی فاطِمہ زَہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی یہیں وِلادت ہوئی۔ سیِّدُنا جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے بارہا اِس مکانِ عالیشان کے اندر بارگاہِ رسالت میں حاضِری دی،حُضُورِ اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرکثرت سے نُزولِ وَحی اِسی میں ہوا۔ مسجدِ حرام کے بعد مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اِس سے بڑ ھ کر افضل کوئی مقام نہیں ۔ مگر صدکروڑبلکہ اربوں کھربوں افسوس! کہ اب اِس کے نشان تک مٹا دیئے گئے ہیں اور لوگو ں کے چلنے کے لئے یہاں ہموار فَرش بنادیا گیا ہے۔ مروَہ کی پہاڑی کے قریب واقع بابُ الْمَرْوَہ سے نکل کر بائیں طرف (LEFT SIDE) حَسرَت بھری نگاہوں سے صِرْف اِس مکان عرش نشان کی فَضاؤں کی زِیارَت کرلیجئے۔
یہ غار مُبارَک مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی دائیں جانِب مَحَلَّۂ مَسفَلہ کی طرف کم و بیش چار کلومیٹر پر واقِع’’جبلِ ثور‘‘ میں ہے۔یہ وہ مقدّس غار ہے جس کا ذِکرقراٰنِ کریم میں ہے ، مَکّے مدینے کے تاجوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے یارِ غار ویارِ مزار حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ بَوَقتِ ہِجرَت یہاں تین رات قِیام پذیر رہے۔ جب دشمن تلاشتے ہوئے غارِ ثور کے منہ پر آپہنچے تو حضرتِ سیِّدُنا صدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غمزدہ ہو گئے اور عرض کی : یَا رَسُوْلُ اللہ دشمن اتنے قریب آچکے ہیں کہ اگر وہ اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالیں گے تو ہمیں دیکھ لیں گے ، سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تسلّی دیتے ہوئے فرمایا : لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ- ترجَمۂ کنزالایمان:غم نہ کھا بیشک اللہہمارے ساتھ ہے (پ۱۰،التوبہ:۴۰) اِسی جَبَلِ ثَور پر قابیل نے سیِّدُنا ہابیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوشہید کیا ۔
تاجدارِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَظُہُورِ رِسالت سے پہلے یہاں ذِکر وفکر میں مشغول رہے ہیں ۔ یہ قبلہ رُخ واقع ہے۔سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپرپہلی وَحی اِسی غار میں اُتری،جو کہ وہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)سے مَا لَمْ یَعْلَمْؕ تک پانچ
آیتیں ہیں ۔یہ غار مُبارَک مسجدُالحرام سے جانِبِ مشرِق تقریباً تین میل پر واقِع ’’جبلِ حِرا‘‘ پر واقِع ، اس مبارک پہاڑ کو جَبَلِ نور بھی کہتے ہیں ۔ ’’غارِحرا ‘‘غارِثَور سے افضل ہے کیوں کہ غارِ ثور نے تین دن تک سرکارِ دو عالَمنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قدم چومے جبکہ غارِ حرا سلطانِ دوسرا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبتِ با بَرَکت سے زیادہ عرصہ مشرَّف ہوا۔
قِسمتِ ثَور و حِرا کی حِرص ہے
چاہتے ہیں دِل میں گہرا غار ہم (حدائقِ بخشش)
دارِاَرقم کوہِ صَفا کے قریب واقِع تھا۔جب کُفّارِ جفا کار کی طرف سے خطرات بڑھے تو سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِسی میں پوشیدہ طور پر تشریف فرما رہے۔ اِسی مکانِ عالیشان میں کئی صاحِبان مُشَرَّف بہ اسلام ہوئے۔ سیِّدُالشُّھَدا حضرتِ سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاورامیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اِسی مکانِ بَرَکت نشان میں داخلِ اِسلام ہوئے۔ اِسی میں یہ آیتِ مبارکہ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠(۶۴)نازِل ہوئی۔ خلیفہ ہارون رشید علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ المَجِیْد کی والِدۂ محترمہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَانے اِس جگہ پر مسجِد بنوائی۔بعد کے کئی
خُلَفاء اپنے اپنے دَور میں اِس کی تَزئِین میں حصّہ لیتے رہے ۔ اب یہ توسیع میں شامِل کر لیا گیاہے اور کوئی علامت نہیں ملتی۔
یہ مَحَلَّہ بڑا تا ریخی ہے،حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیلُاللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامیہیں رہا کرتے تھے، حضراتِ صدِّیق و فاروق وحمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمبھی اِسی مَحَلَّۂ مبارَکہ میں قِیام پذیر تھے۔ یہ مَحَلَّہ خانۂ کعبہ کے حصَّۂ دیوار ’’مُستجَار‘‘کی جانِب واقِع ہے۔
جنَّتُ البَقِیع کے بعد جنَّتُ المَعْلٰی دُنیا کا سب سے افضل قبرِستان ہے۔ یہاں اُمُّ المؤمِنین خدیجۃُ الکُبریٰ ، حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عمراور کئی صَحابہ وتابِعین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْناور اَولیاء و صالحین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنکے مزاراتِ مقدّسہ ہیں ۔ اب اِن کے قُبّے (یعنی گنبد)وغیرہ شہید کر دیئے گئے ہیں ، مزارات مِسمار کرکے اُن پر راستے نکالے گئے ہیں ۔ لہٰذا باہَر رَہ کر دُور ہی سے اِس طرح سلام عرض کیجئے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ
سلام ہو آپ پر اے قبروں میں رہنے والو!
الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ ط نَسْئَلُ اللّٰہَ لَنَا وَ لَکُمُ الْعَافِیَۃَط
مومنو اور مسلمانو! اور ہم بھی اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّآپ سے ملنے والے ہیں ۔ ہماللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس آپ کی اور اپنی عافیت کے طالب ہیں۔
اپنے لئے اپنے والدَین اور تمام اُمَّت کی مغفِرت کے لئے دُعا مانگئے اور بالخُصُوص اَہلِ جنَّتُ المَعْلٰیکے لئے اِیصال ثواب کیجئے۔اِس قبرِ ستان میں دُعا قَبول ہوتی ہے۔
یہ مسجد جنَّتُ المَعلٰی کے قریب واقِع ہے۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے نَمازِ فجر میں قراٰنِ پاک کی تِلاوت سن کر یہاں جنّات مسلمان ہوئے تھے۔
یہ مسجدِ جنّ کے قریب ہی سیدھے ہاتھ کی طرف ہے۔ ’’رایَۃ‘‘ عَرَبی میں جھنڈے کو کہتے ہیں ۔یہ وہ تاریخی مَقام ہے جہاں فتحِ مَکَّہ کے موقع پر ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنا جھنڈاشریف نَصْب فرمایا تھا۔
یہ مِنٰی شریفمیں واقِع ہے۔ حِجَّۃُ الْوَداع کے موقع پر ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہاں نَماز ادا فرمائی ہے۔ رَحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:صَلّٰی فِیْ مَسْجِدِ الْخَیْفِ سَبْعُوْنَ نَبِیًّامسجدِخیف میں 70انبیاء (عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)نے نماز ادا فرمائی ۔ (مُعجَم اَوسط ج۴ص۱۱۷حدیث ۵۴۰۷) اور فرمایا:فِی الْمَسْجِدِ الْخَیْفِ قَبْرُسَبْعِیْنَ نَبِیًّا مسجدِخیف میں 70انبیاء (عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کی قبریں ہیں ۔ (مُعجَم کبیر ج۱۲ ص ۳۱۶حدیث ۱۳۵۲۵ ) اب اِس مسجد شریف کی کافی توسیع ہو چکی ہے ۔ زائرینِ کرام کو چاہیے کہ بصد عقیدت واحترام اِ س مسجِد شریف کی زیارت کریں ، انبیام ئے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی خدمتوں میں اِس طرح سلام عرض کریں : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَنْبِیَائَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ط پھر ایصالِ ثواب کرکے دُعا مانگیں ۔
مکّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے جانِبِ طائف تقریباً 26 کلومیٹر پر واقِع ہے۔ آپ بھی یہاں سے عُمرے کا اِحرام باندھئے کہ فتحِ مکہ کے بعد طائف شریف فتح کر کے واپَسی پر ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہاں سے
عُمرے کا اِحرام زیبِ تن فرمایا تھا۔یوسف بن ماہک علیہ رحمۃُ اللّٰہ الخالق فرماتے ہیں : مقامِ جِعِرّانہ سے300انبیام ئے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے عُمرے کا احرام باندھا ہے،سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جِعِرّانہ پر اپنا عصا مبارک گاڑا جس سے پانی کا چشمہ اُبلا جو نہایت ٹھنڈا اور میٹھا تھا(بلد الامین ص ۲۲۱ ،اخبار مکہ ،جزء ۵ص۶۲،۶۹) مشہور ہے اُس جگہ پر کُنواں ہے۔ سیِّدُنا ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طائف سے واپَسی پر یہاں قِیام کیا اوریَہیں مالِ غنیمت بھی تقسیم فرمایا ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 28شوالُ المکرم کو یہاں سے عُمرے کا احرام باندھا تھا۔(بلد الامین ص ۲۲۰ ، ۲۲۱ ) اِس جگہ کی نسبت قُریش کی ایک عورت کی طرف ہے جس کا لقب جِعِرّانہ تھا ۔ (ایضاً ص۱۳۷) عوام اِس مقام کو ’’بڑا عمرہ‘‘ بولتے ہیں ۔یہ نہایت ہی پُرسوز مَقام ہے، حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبد الحقّ مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’اخبارُ الاخیار‘‘ میں نَقْل کرتے ہیں کہ میرے پیرو مرشدحضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُ الوہّاب مُتَّقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے مجھے تاکید فرمائی ہے کہ موقع ملنے پر جِعِرّانہ (جِ۔عِرْ۔رانہ) سے ضَرور عُمرے کا احرام باندھنا کہ یہ ایسا مُتَبَرَّک مقام ہے کہ میں نے یہاں ایک رات کے مختصر سے حصّے کے اندر سو سے زائد بار مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خواب میں دیدار کیا ہے
اَلحمدُ للّٰہ علٰی اِحْسانِہٖ ۔ حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُ الوہاب مُتَّقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کا معمول تھا کہ عمرے کا احرام باندھنے کیلئے روزہ رکھ کر پیدلجِعِرّانہ جایا کرتے تھے۔ (مُلَخَّص از اخبار الاخیار ص۲۷۸)
مدینہ روڈ پر ’’نَوارِیہ‘‘کے قریب واقع ہے۔ تادمِ تحریر یہاں کی حاضِری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ بس 2A یا13میں سُوار ہوجائیے، یہ بس مدینہ روڈ پر تَنعِیم یعنی مسجدِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے، مسجدُ الحرام سے تقریباً 17 کلومیٹر پر اِس کا آخِری اسٹاپ ’’نَوارِیہ‘‘ہے، یہاں اُتر جائیے اور پلٹ کر روڈ کے اُسی کَنارے پر مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف چلنا شُروع کیجئے، دس یا پندرہ منَٹ چلنے کے بعد ایک پولیس چیک پوسٹ (نکتۂ تفتیش) ہے پھر مَوقِفِ حُجّاج بنا ہوا ہے اس سے تھوڑا آگے روڈ کی اُسی جانِب ایک چار دیواری نظر آئے گی، یہیں اُمُّ المؤمنِین حضرتِ سیِّدَتُنا مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا مزار فائضُ الانوار ہے۔ یہ مزار مبارَک سڑک کے بیچ میں ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر کیلئے اِس مزار شریف کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹریکٹر(TRACTOR) اُلَٹ جاتا تھا، ناچار یہاں چار دیواری بنا دی گئی۔ ہماری پیاری پیاری امّی جان سیِّدَتُنا مَیمُونہ
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی کرامت مرحبا!
اَہلِ اِسلام کی مادَرانِ شفیق بانُوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
{۱}بیتُ اللّٰہ شریف کے اَندر {۲}مَقامِ ابراہیم کے پیچھے {۳} مَطاف کے کَنارے پر حَجَرِ اَسوَد کی سیدھ میں {۴}حَطِیم اور بابُ الکَعبہ کے دَرمِیان رُکنِ عِراقی کے قریب {۵}مَقامِ حُفْرَہ پر جو بابُ الکعبہ اور حَطِیم کے دَرمِیان دیوارِ کعبہ کی جَڑ میں ہے۔ اِس مَقام کو ’’مَقامِ اِمامتِ جبرائیل ‘‘بھی کہتے ہیں ۔ شَہَنشاہِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسی مقام پر سیِّدُنا جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامکو پانچ نَمازوں میں اِمامت کا شَرَف بخشا۔ اِسی مُبارَک مَقام پر سیِّدُنا ابراہیم خَلِیْلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ’’تعمیرِ کعبہ ‘‘کے وَقت مِٹّی کا گارا بنایا تھا {۶}بابُ الکَعبہ کی طرف رُخ کرکے۔ (دروازۂ کعبہ کی سیدھ میں نَماز ادا کرنا تمام اَطراف کی سیدھ سے افضل ہے ([2])) {۷}میزابِ رَحْمت کی طرف رُخ
کرکے۔(کہاجاتا ہے کہ مزار ضیا بار میں سرکارِ عالی وَقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ پُر انوار اِسی جانِب ہے){۸} تمام حَطِیم میں خُصُوصاً میزابِ رَحْمت کے نیچے {۹ } رُکنِ اَسوَد اور رُکن یَمانی کے درمِیان {۱۰}رُکنِ شامی کے قریب اِس طرح کہ ’’بابِ عُمرہ‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پُشتِ اَقدَس کے پیچھے ہوتا۔ خواہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ’’حَطِیم‘‘ کے اَندر ہو کر نماز ادا فرماتے یاباہَر{۱۱} حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نَماز پڑھنے کے مقام پر جو کہ رُکنِ یَمانی کے دائِیں یا بائِیں طرف ہے اور ظاہِر تَر یہ ہے کہ مُصَلّٰیِ آدم ’’مُسْتجَار‘‘ پر ہے۔(کتاب الحج، ص۲۷۴)
تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حُجرۂ مُبارَکہ (جس میں سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کامزارِ پُرانوارہے)اور مِنبرِ نور بار(جہاں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خُطبہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے)کا درمیانی حصَّہ جس کا طُول (یعنی لمبائی) 22مِیٹر اور
عَرْض ( چوڑائی) 15میٹر ہے رَوضَۃُ الجَنَّہ یعنی ’ ’جنَّت کی کیاری‘‘ہے۔ چُنانچِہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:مَا بَیْنَ بَیْتِی وَمِنبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ۔یعنیمیرے گھر اور مِنبر کی دَرمِیانی جگہ جنَّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔( بُخاری ج۱ ص ۴۰۲ حدیث ۱۱۹۵)عام بول چال میں لوگ اِسے ’’رِیاضُ الْجَنَّہ‘‘ کہتے ہیں مگر اَصْل لفظ ’’ رَوْضَۃُ الْجَنَّہ ‘‘ ہے۔
یہ پیاری پیاری کیاری تِرے خانہ باغ کی
سرد اِس کی آب و تاب سے آتش سَقَر کی ہے(حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مدینۂطیّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے تقریباً تین کلومیٹر جُنوب مغرِب کی طرف ’’قُبا‘‘نامی ایک قَدیمی گاؤں ہے جہاں یہ مُتَبَرَّک مسجِد بنی ہوئی ہے، قراٰنِ کریم اور اَحادیثِ صَحِیحہ میں اِس کے فضائل نہایت اِہتِمام سے بیان فرمائے گئے ہیں ۔ عاشِقانِ رسول مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے درمِیانی چال چل کر پیدل تقریباً 40مِنَٹ میں مسجِد قُبا پہنچ سکتے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے:’’ حُضورِ انور
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر ہفتے کبھی پَیدل تو کبھی سُواری پر مسجِد قُباتشریف لے جاتے تھے۔ ( بُخاری ج ۱ص۴۰۲حدیث۱۱۹۳)
دوفرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: {۱} مسجِد قُبا میں نَما ز پڑھنا عمرے کے برابر ہے( تِرمذی ج ۱ص۳۴۸حدیث۳۲۴){۲} جس شخص نے اپنے گھر میں وُضو کیا پھر مسجِد قُبا میں جا کر نَماز پڑھی تو اُسے عمرے کا ثواب ملے گا ۔ (ابنِ ماجہ ج۲ ص۱۷۵حدیث۱۴۱۲)
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ اُحُد( ۳ھ) میں شہید ہوئے تھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مزار فائضُ الانوار اُحُد شریف کے قریب واقِع ہے۔ ساتھ ہی حضرتِ سیِّدُنا مُصْعَب بن عُمَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرتِ سیِّدُنا عَبْدُ اللّٰہ بن جَحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مزارات بھی ہیں ۔ نیز غزوہ ٔ اُحُد میں 70صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے جامِ شہادت نوش کیا تھا اُن میں سے بیشتر شُہَدائے اُحُد بھی ساتھ ہی بنی ہوئی چار دیواری میں ہیں ۔
سیِّدُنا شیخ عبدُالحقّ مُحدِّث دِہلَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینَقْل کرتے ہیں :جو شخص ان شُہَدائے اُحُدسے گزرے اور ان کو سلام کرے یہ قِیامت تک اُس پر سلام بھیجتے رہتے ہیں ۔ شُہَدائے اُحُد عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور بالخُصوص مزارِ سیِّدُالشُّہَداء سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے بارہا جوابِ سلام کی آوازسنی گئی ہے۔ (جذب القلوب ص۱۷۷)
اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا سَیِّدَنَا حَمْزَۃُ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا عَمَّ نَبِیِّ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا عَمَّ
ترجمہ:سلام ہو آپ پر اے سیِّدُنا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سلام ہو آپ پر اے محترم چچا رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ،سلام ہو آپ پر اے عَمِّ بُزُرگوار اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ، سلام ہو آپ پر اے چچا
حَبِیْبِ اللّٰہِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا عَمَّ الْمُصْطَفٰی ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا سَیِّدَ الشُّہَدَآءِ وَ یَا اَسَدَ اللّٰہِ وَ اَسَدَ رَسُوْلِہٖ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا سَیِّدَنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ جَحْشٍ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا مُصْعَبَ بْنَ عُمَیْرٍ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا شُھَدَآءَ اُحُدٍ کَآ فَّۃً عَامَّۃً وَّ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗط
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے،سلام ہو آپ پر اے چچا مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ،سلام ہو آپ پر اے سردار شہیدوں کے اور اے شیر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اور شیر اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے۔سلام ہو آپ پر اے سیِّدُناعبد اللّٰہبن جَحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سلام ہو آپ پر اے مُصعَب بن عُمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔سلام ہو اے شُہَدائے اُحُد آپ سبھی پر اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمتیں اور بر کتیں ۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا شُھَدَآءُ یَا سُعَدَآ ءُ یَا نُجَبَآءُ یَا نُقَبَآءُ یَاۤ اَھْلَ الصِّدْقِ وَالْوَفَآءِ ط اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا مُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِؕ(۲۴)) اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا شُھَدَآءَ اُحُدٍ کَآ فَّۃً عَآمَّۃً وَّ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ط
ترجمہ:سلام ہو آپ پر اے شہیدو !اے نیک بختو! اے شریفو!اے سردارو!اے مُجسَّمِ صدِق ووفا!سلام ہو آپ پر اے مجاہِدو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جِہاد کا حق ادا کرنے والو! {ترجَمۂ کنزالایمان :سلامتی ہو تم پر تمہارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا ہی خوب ملا} سلام ہو اے شُہَدائے اُحُد آپ سبھی پر اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمتیں اور بر کتیں نازِل ہوں ۔
میٹھے میٹھے مَکّے مدینے کے زائرو ! زیارتوں اوران کے پَتوں کو بخوفِ طوالتِ رفیقُ الْمُعتَمِرِین درج نہیں کیا ، شائقین عاشقانِ رسول ،زیارات اور ایمان افروز حکایات کی معلومات کیلئے تبلیغ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ، ’’عاشِقانِ رسول کی حِکایتیں مَع مکے مدینے کی زیا رتیں ‘‘ کامُطالعہ فرمائیں اور اپنے ایمان کو گرمائیں ۔البتّہ کتاب پڑھ کر ہر شخص زیارات کے مَقامات پرپَہنچ جائے یہ دشوار ہے۔ زِیارت کی دو صورتیں ہیں :ایک تو یہ کہ مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے باہَر صُبح گاڑیوں والے: زِیَارَہ!زِیَارَہ! کی صدائیں لگاتے رہتے ہیں ،آپ اُن کی گاڑیوں میں سُوار ہو جایئے ۔ یہ آپ کو مساجِد خَمسہ، مسجدِقُبا اور مزارِ سیِّدُنا حَمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لے جائیں گے۔ دوسری یہ کہمکّے مدینے کی مزید زِیارتوں کے لئے آپ کو ایسے آدَمی تلاش کرنے ہوں گے جو اُجرت لے کر زِیارَتیں کرواتے ہوں ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال وجواب کے مطالَعے سے قَبْل چند ضَروری اِصطِلاحات وغیرہ ذِہن نشین کرلیجئے۔
{۱} دَم یعنی ایک بکرا۔ (اِس میں نَر، مادہ، دُنبہ،بَھیڑ، نیز گائے یا اُونٹ کا ساتواں حصَّہ سب شامل ہیں )
{۲} بَدَنہ یعنی اُونٹ یا گائے ۔(اِس میں بیل ،بھینس وغیرہ شامل ہیں )
گائے بکرا وغیرہ یہ تمام جانور اُن ہی شرائط کے ہوں جو قربانی میں ہیں ۔
{۳}صَدَقہ یعنی صَدَقہ ٔفِطر کی مِقدار۔آ ج کل کے حساب سے صَدَقۂ فِطر کی مِقدار 2کلومیں سے80گرام کم گندُم یا اُس کا آٹا یا اُس کی رقم یا اُس کے دُگنے جَو یاکَھجور یا اُس کی رقم ہے۔
اگر بیماری،سَخْت سردی، سخت گرمی، پھوڑے اور زَخْم یا جُوؤں کی شدید تکلیف کی وجہ سے کوئی جُرْم ہوا تو اُسے ’’جُرمِ غیراِختِیاری‘‘کہتے ہیں ۔ اگر کوئی
’’جُرمِ غیر اِختِیاری‘‘صادِر ہوا جس پر دَم واجِب ہوتا ہے تو اِس صورت میں اِختِیار ہے کہ چاہے تو دَم دے دے اور اگر چاہے تو دَم کے بدلے چھ مِسکِینوں کو صَدَقہ دے دے۔ اگر ایک ہی مِسکِین کو چھ صَدَقے دے دیئے تو ایک ہی شُمار ہو گا ۔ لہٰذا یہ ضَروری ہے کہ الگ الگ چھ مسکینوں کو دے۔ دوسری رِعایت یہ ہے کہ اگر چاہے تو دَم کے بد لے چھ مَساکین کو دونوں وَقْت پیٹ بھر کر کھانا کِھلا دے ۔ تیسری رِعایت یہ ہے کہ اگر صَدَقہ وغیرہ نہیں دینا چاہتا تو تین روزے رکھ لے ’’دَم‘‘ ادا ہوگیا۔ اگر کوئی ایسا جُرمِ غیراِختِیاری کیا جس پر صَدَقہ واجِب ہوتا ہے تو اِختِیار ہے کہ صَدَقے کے بجائے ایک روزہ رکھ لے۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۶۲ )
اگر کَفّارے کے روزے رکھیں تو یہ شَرْط ہے کہ رات سے یعنی صُبْحِ صادِق سے پہلے پہلے یہ نیَّت کرلیں کہ یہ فُلاں کَفّارے کا روزہ ہے۔ اِن’’ روزوں ‘‘ کے لئے نہ اِحْرام شَرْط ہے نہ ہی اِن کا پے درپے ہونا۔ صَدَقے اور روزے کی ادائیگی اپنے وطن میں بھی کرسکتے ہیں ، البتَّہ صَدَقہ اور کھانا اگر حَرَم کے مَساکین کو پیش کردیا جائے تو یہ افضل ہے۔ دَم اور بَدَنہ کے جانور کا حَرَم میں ذَبْح ہونا شَرْط ہے۔شکرانے کی قُربانی کا گوشْتْ
آپ خود بھی کھایئے ، مال دار کو بھی کھلایئے اورمَساکین کو بھی پیش کیجئے ،مگر کَفّارے یعنی ’’دَم‘‘اور’’ بَدَنے‘‘وغیرہ کا گوشْتْ صِرْف محتاجوں کا حق ہے، نہ خود کھاسکتے ہیں نہ غنی کوکِھلاسکتے ہیں ۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۶۲ ،۱۱۶۳)
بعض نادان جان بو جھ کر ’’جُرم‘‘ کرتے ہیں اور کَفّارہ بھی نہیں دیتے۔ یہاں دو گُناہ ہوئے ،ایک تو جان بوجھ کر جُرْم کرنے کااوردوسرا کَفّارہ نہ دینے کا۔ ایسوں کوکَفّارہ بھی دینا ہو گا اور توبہ بھی واجِب ہوگی۔ہاں مجبوراً جُرْم کرنا پڑا یابے خیالی میں ہو گیا تو کَفّارہ کافی ہے گناہ نہیں ہوا اِس لئے توبہ بھی واجِب نہیں اور یہ بھی یاد رکھئے کہ جُرْم چاہے یاد سے ہو یابُھولے سے، اس کا جُرْم ہونا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، خوشی سے ہویا مجبوراً، سوتے میں ہویا جاگتے میں ، بے ہوشی میں ہو یا ہوش میں ، اپنی مرضی سے کیا ہو یا دوسرے کے ذَرِیعے کروایا ہو ہرصُورت میں کَفّارہ لازِمی ہے، اگرنہیں دے گا تو گنہگار ہوگا۔ جب خَرْچ سَر پر آتا ہے تو بعض لوگ یہ بھی کہہ دیا کرتے ہیں :’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ مُعاف فرمائے گا!‘‘اور پھر وہ دَم وغیرہ نہیں دیتے۔ اَیسوں کوسوچنا چاہئے کہ کَفّارات شریعت ہی نے واجِب کئے ہیں اور جان بوجھ کر ٹالَمْ ٹَول کرنا شریعت ہی کی خِلاف وَرزی ہے جو کہ سخت تر ین جُرْم ہے۔ بعض مال
کے متوالے نادان حُجّاج، عُلَمائے کرام سے یہاں تک پوچھتے سنائی دیتے ہیں کہ صِرْف گناہ ہے نا!دم تو واجِب نہیں ؟ (مَعَاذَ اللہ) صدکروڑ افسوس! چند سکّے بچانے ہی کی فکر ہے ، گناہ کے سبب ہونے والے سخت عذاب کے اِستحقاق کی کوئی پرواہ نہیں ، گناہ کو ہلکا جاننا بَہُت سخت بات بلکہ بعض صورَتوں میں کُفْر ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ مَدَنی فکْر نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
سُوال:بھیڑ کے سبب یا بے خَیالی میں کسی طَواف کے دَوران تھوڑی دیر کے لئے اگر سینہ یا پیٹھ کعبے کی طرف ہوجائے تو کیا کریں ؟
جواب:طَواف میں سینہ یا پیٹھ کئے جتنا فاصِلہ طے کیا ہو اُتنے فاصلے کااِعادہ (یعنی دوبارہ کرنا ) واجِب ہے اور افضل یہ ہے کہ وہ پَھیرا ہی نئے سرے سے کرلیا جائے ۔
سُوال:تکبیرِطواف میں حجرِ اَسْوَد کے سامنے ہاتھ کندھوں تک اُٹھانا سنَّت ہے یا نَمازی کی طرح کانوں تک؟
جواب: اِس میں عُلَماء کے مختلف اَقوال ہیں ۔ ’’ فتاوٰی حج و عمرہ‘‘ میں جُداجدا اقوال نَقْل کرتے ہوئے لکھا ہے: کانوں تک ہاتھ اُٹھانا مَرْد کیلئے ہے کیوں کہ وہ
نَماز کیلئے بھی کانوں تک ہاتھ اُٹھاتا ہے اور عورت کندھوں تک ہاتھ اُٹھا ئے گی اس لئے کہ وہ نَمازکیلئے یہیں تک ہاتھ اٹھاتی ہے۔(فتاوٰی حج وعمرہ حصّہ اوّل ص ۱۲۷ )
سُوال: نَماز کی طرح ہاتھ باندھ کر طواف کرناکیسا؟
جواب:مُستَحب نہیں ہے،بچنا مناسِب ہے۔
سُوال:اگر دَورانِ طَواف پَھیروں کی گنتی بھول گئے یا تعداد کے بارے میں شک واقِع ہوا اِس پریشانی کاکیاحل ہے؟
جواب:اگر یہ طَواف فرض (مَثَلاً عُمرے کا طواف یا طوافِ زیارت)یا واجِب (مَثَلاً طَوافِ وَداع)ہے تو نئے سرے سے شُروع کیجئے ،اگر کسی ایک عادِل شخص نے بتا دیا کہ اتنے پَھیرے ہوئے تو اُس کے قَول پر عمل کر لینا بہتر ہے اور دو عادِل نے بتایا تو ان کے کہے پر ضَرور عمل کرے۔اور اگر یہ طَوافِ فرض یا واجِب نہیں مَثَلاً طَوافِ قُدوم (کہ یہ قارِن و مُفْرِد کیلئے سُنَّتِ مُؤکّدہ ہے)یا کوئی نفلی طَواف ہے تو ایسے موقع پر گُمانِ غالِب پر عمل کیجئے۔ (رَدُّالْمُحتار ج ۳ ص ۵۸۲)
سُوال:اگر تیسرے پَھیرے میں وُضو ٹوٹ گیا اور نیا وُضو کرنے چلے گئے تو اب
واپَس آ کر کس طرح طواف شُروع کریں ؟
جواب:چاہیں تو ساتوں پَھیرے نئے سِرے سے شُروع کریں اور یہ بھی اِختِیار ہے کہ جہاں سے چھوڑا وَہیں سے شُروع کریں ۔ چار سے کم کا یِہی حُکم ہے۔ ہاں چاریا زِیادہ پَھیرے کرلئے تھے تو اب نئے سِرے سے نہیں کرسکتے جہاں سے چھوڑا تھا وَہیں سے کرناہوگا۔ ’’حَجرِاَسْوَد‘‘سے بھی شُروع کرنے کی ضَرورت نہیں ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص۵۸۲)
سُوال:اگر کوئی قَطرے وغیرہ کی بیماری کی وجہ سے ’’ معذور ِ شَرْعی ‘‘ ہو ،طواف کیلئے اُس کا وُضو کب تک کار آمد رہتا ہے؟
جواب: جب تک اُس نَماز کا وَقْت باقی رہتا ہے۔صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :معذور طواف کررہا ہے چار پھیروں کے بعد وَقتِ نماز جاتا رہا تو اب اسے حکم ہے کہ وُضوکرکے طواف کرے کیونکہ وقتِ نماز خارج ہونے سے معذور کا وُضو جاتا رہتا ہے اوربِغیر وُضو طواف حرام اب وُضو کرنے کے بعد جو باقی ہے پورا کرے اور چار پھیروں سے پہلے وَقْت ختم ہوگیا جب بھی وُضو کرکے باقی کو پورا کرے اور اس صورت میں افضل یہ
ہے کہ سرے سے کرے۔(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۰۱،اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط ص ۱۶۷ ) صِرْف قَطرے آجانے سے کوئی معذور ِ شرعی نہیں ہو جاتا، اس میں کافی تفصیل ہے اِس کی معلومات کیلئے دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہکی مطبوعہ 499صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’نماز کے احکام‘‘ صَفحَہ 43تا 46 کا مُطالَعہ کیجئے۔
سُوال: عورت نے باری کے دنوں میں نَفلی طواف کر لیا ، کیا حکم ہے؟
جواب: گنہگاربھی ہوئی اور دم بھی واجِب ہوا۔ چُنانچِہ علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہ السَّامی فرماتے ہیں : نَفلی طواف اگرجَنابت کی( یعنی بے غُسلی) حالت میں ( یا عورت نے باری کے دِنوں میں ) کیا تو دم واجِب ہے اور بے وُضو کیا تو صَدَقہ ۔(رَدُّالْمُحتارج۳ص۶۶۱) اگربے غُسلے نے پاکی حاصل کرنے کے اور بے وُضُو نے وُضُو کرنے کے بعد طواف کا اِعادہ کر لیا تو کَفّارہ ساقِط ہو جائے گا ۔ مگر قَصداً ایسا کیا ہو تو توبہ کرنی ہو گی کیوں کہ باری کے دِنوں میں نیزبے وُضُو طواف کرنا گناہ ہے۔
سُوال: طَواف میں آٹھویں پھیرے کو ساتواں گُمان کیا اب یاد آگیا کہ یہ تو آٹھواں
پھیرا ہے اب کیا کرے؟
جواب:اِسی پر طَواف ختم کردیجئے۔ اگر جان بوجھ کر آٹھواں پھیرا شُروع کیا تو یہ ایک جدید(یعنی نیا) طَواف شُروع ہوگیا اب اس کے بھی سات پھیرے پورے کیجئے۔ (ایضاً ص۵۸۱)
سُوال:عُمرے کے طَواف کا ایک پَھیرا چھوٹ گیا تو کیا کَفّارہ ہے؟
جواب:عُمرے کا طواف فرض ہے ۔اِس کا اگر ایک پھیرا بھی چھوٹ گیا تو دَم واجِب ہے، اگربِالکل طَواف نہ کیا یا اکثر (یعنی چار پھیرے)تَرک کئے توکَفّارہ نہیں بلکہ ان کا ادا کرنا لازِم ہے۔ (لُبابُ الْمَناسِک ص۳۵۳)
سُوال:قارِن یامُفْرِد نے طَوافِ قُدوم تَرک کیا تو کیا سزا ہے؟
جواب:اُس پر کوئی کَفّارہ نہیں لیکن سُنّتِ مُؤَکَّدہ کا تارِک ہوا اور بُرا کیا۔ ( لُبابُ الْمَناسِک واَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط ص۳۵۲)
سُوال:مسجدُ الحرام کی چَھتوں سے طواف کر سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: اگر مسجِد حرام کی چھت سے کعبہ مقدسہ کا طواف ہوتو فرض طواف ادا ہو جائے گا جب کہ درمیان میں دیوار وغیرہ حاجِب(آڑ۔پردہ) نہ ہو۔لیکن اگر
نیچے مَطاف میں گنجائش ہے تو چھت سے طواف مکروہ ہے اس لیے کہ اس صورت میں بِلاضَرورت مسجِدکی چھت پر چڑھنااور چلنا پایا جاتا ہے جو مکروہ ہے۔ساتھ ہی اس حالت میں طواف ،کعبہ سے قریب ترہونے کے بجائے بَہُت دُور ہورہاہے اور بِلاوجہ اپنے کو سخت مَشَقَّت اورتَکان میں ڈالنابھی ہوتا ہے ،جب کہ قریب تر مقام سے طواف کرنا افضل ہے اور بِلاوجہ اپنے کو مَشَقَّت میں ڈالنامَنْع ۔ہاں اگر نیچے گنجائش نہ ہویاگنجائش ہونے تک اِنتظار سے کوئی مانِع(یعنی رکاوٹ) ہوتو چھت سے طواف بِلاکراہت جائز ہے۔ وَاللّٰہ تَعالٰی اَعلم ۔ (ماہنامہ اشرفیہ، جون ۲۰۰۵ء، گیارہواں فقہی سمینار ص۱۴)
سُوال: دَورانِ طواف بُلند آواز سے دُعا مُناجات یا نعت شریف وغیرہ پڑھنا کیسا ؟
جواب: اتنی اونچی آواز سے پڑھنا جس سے دیگر طواف کرنے والوں یا نمازیوں کو تشویش یعنی پریشانی ہو مکروہِ تحریمی ، ناجائز و گناہ ہے۔ البتّہ کسی کو اِیذاء نہ ہو اس طرح گنگُنانے یعنی دھیمی آواز سے پڑھنے میں حَرَج نہیں ۔ یہاں وہ صاحِبان غور فرمائیں جن کے موبائل فونز سے دورانِ طواف ٹُونز بجتی رہتیں اور عبادت گزاروں کو پریشان کرتی رہتی ہیں ان سب کو چاہئے کہ توبہ کریں۔
یاد رکھئے! یہ احْکام صِرْف’’ مسجدُ الحرام‘‘ کے لئے ہی نہیں تمام مساجد بلکہ تمام مقامات کیلئے ہیں اور میوزیکل ٹُون مسجد کے علاوہ بھی ناجائز ہے ۔
سُوال:اگرسَعْی سے قَبل کئے جانے والے طَواف کے پہلے پَھیرے میں رَمَل کرنا بُھول گئے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:رَمَل صِرْف ابتِدائی تین پَھیروں میں سنَّت ہے، ساتوں میں کرنا مکروہ ، لہٰذا اگر پہلے میں نہ کیا تو دوسرے اور تیسرے میں کرلیجئے اوراگرابتِدائی دوپھیروں میں رَہ گیا تو صِرْف تیسرے میں کرلیجئے اور اگر شُروع کے تینوں پَھیروں میں نہ کیا تو اب بَقِیَّہ چار پَھیروں میں نہیں کرسکتے۔(دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص۵۸۳)
سُوال:جس طَواف میں اِضْطِباع اور رَمَل کرنا تھا اُس میں نہ کیا توکیاکَفّارہ ہے ؟
جواب: کوئی کَفّارہ نہیں ۔ البتَّہ عظیم سُنَّت سے مَحرومی ضَرور ہے۔
سُوال:اگر کوئی ساتوں پَھیروں میں رَمَل کرلے تو؟
جواب: مکروہِ تنزیہی ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۵۸۴) مگر کوئی جُرمانہ وغیرہ نہیں ۔
سُوال:اِحرام کی حالت میں بیوی کو ہاتھ لگانا کیسا؟
جواب:بیوی کو بِلا شَہْوَت ہاتھ لگاناجائز ہے مگر شَہْوَت کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالنا یا بدن کوچُھونا حرام ہے۔اگر شَہْوَت کی حالت میں بَوس وکَنار کیا یاجِسم کوچُھوا تو دَم واجِب ہوجائے گا۔یہ اَفعال عورت کے ساتھ ہوں یا اَمْرَد کے ساتھ دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔(دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج ۳ ص ۶۶۷)اگر مُحرِمہ کوبھی مرد کے اِن اَفعال سے لذَّت آئے تو اُسے بھی دَم دیناپڑے گا۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۷۳ )
سُوال:اگر تصَوُّر جم جائے یاشَرْمگاہ پر نظر پڑجائے اور اِنزال ہو(یعنی منی نکل ) جائے تو کیا کَفّارہ ہے؟
جواب:اِس صورت میں کوئی کَفّارہ نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۴۴) رہاحرام کردہ عورَت یا اَمْرَدسے بد نِگاہی کرنایاقصداً اُن کا ’’گندا‘‘ تصَوُّر باندھنا یہ اِحْرام کے علاوہ بھی حرام اورجہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔نیز اس طرح کے گندے وَسوَسے بھی آئیں تو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّلطف اندو ز ہونے کے بجائے فوراً توجُّہ ہٹائے۔ اِسی طرح عورَتوں کیلئے بھی یِہی اَحکام ہیں ۔
سُوال:اگر اِحتِلام ہوجائے تو؟
جواب:کوئی کَفّارہ نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۴۴)
سُوال:اگر خُدا نخواستہ کوئی مُحرِم مُشت زَنی (ہینڈ پریکٹس )کا مُرتکِب ہُوا تو کیا کَفّارہ ہے؟
جواب:اگر اِنزال ہوگیا(یعنی منی نکل گئی) تو دَم واجِب ہے ورنہ مکرُوہ۔ (ایضاً)یہ فعل،خواہ اِحرام ہو یا نہ ہوبَہَرحال ناجائز وحرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : جو مُشْت زَنی (یعنی ہینڈ پریکٹسHand practic ) کرتے ہیں اگر وہ بِغیر توبہ کئے مر گئے تو بروزِ قِیامت اِس حال میں اُٹھیں گے کہ ان کی ہتھیلیاں گابَھن (یعنی حامِلہ) ہوں گی جس سے لوگوں کے مجمعِ کثیر میں ان کی رُسوائی ہوگی۔ (مُلَخَّص ازفتاویٰ رضویہ ج۲۲ ص۲۴۴)
سُوال:اگر اَمْرَد (یعنی خوبصورت لڑکے)سے مُصَافَحہ کیا اور شَہْوَت آگئی تو کیا سزا ہے ؟
جواب:دَم واجِب ہوگیا۔ اس میں اَمْرَد([3]) اور غیرِ اَمْرَد کی کوئی قید نہیں ، اگر دونوں کو شَہْوَت ہوئی اور دوسرا بھی مُحرِم ہے تو وہ بھی دَم دے۔
سُوال: اِحرام میں میاں بیوی کے ایک دوسرے کاہاتھ پکڑ کر طواف یا سَعْی کرنے میں اگر شَہْوَت آ گئی تو؟
جواب:جس کو شَہْوَت آئی اُس پر دم واجِب ہے اگر دونوں کو آگئی تو دونوں پر ہے ۔ اگر اِحْرام والے مردوں نے ایک دوسرے کاہاتھ پکڑا ہو جب بھی یِہی حُکم ہے۔
سُوال:مسئلہ معلوم نہیں تھا اور دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے ناخُن کاٹ لئے اب کیا ہوگا؟اگر کَفّارہ ہو تو وہ بھی بتا دیجئے۔
جواب:جاننا یا نہ جاننا یہاں عُذْر نہیں ہوتا ، خواہ بھُول کر جُرم کریں یا جان بوجھ کر اپنی مرضی سے کریں یا کوئی زبردستی کروائے کَفّارہ ہر صورت میں دینا ہو گا ۔ صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ایک ہاتھ ایک پاؤں کے پانچوں ناخُن کترے یا بیسوں ایک ساتھ تو ایک دَم ہے اور اگر کسی ہاتھ یا پاؤں کے پورے پانچ نہ کترے تو ہر ناخن پر ایک صَدَقہ، یہاں تک کہ اگر چاروں ہاتھ پاؤں کے چار چار کترے تو سولہ صَدَقے دے مگر یہ کہ صدقوں کی قیمت ایک دَم کے برابر ہو جائے تو کچھ کم کرلے یا دَم دے
اور اگر ایک ہاتھ یا پاؤں کے پانچوں ایک جلسہ میں اور دوسرے کے پانچوں دوسرے جلسہ میں کترے تو دو دَم لازم ہیں اور چاروں ہاتھ پاؤں کے چار جلسوں میں تو چار دَم۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۷۲،عالمگیری ج۱ص ۳۴۴ )
سُوال:ناخُن اگر دانت سے کتر ڈالے تو کیا سزا ہے؟
جواب:خواہ بلیڈ سے کاٹیں یا چا قو سے، ناخُن تَراش (یعنی نَیل کَٹَر)سے تَراشیں یا دانتوں سے کَتریں سب کا ایک ہی حُکم ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۷۲)
سُوال:مُحرِم کسی دوسرے کے ناخُن کاٹ سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب:نہیں کاٹ سکتا، اِس کے وُہی اَحْکام ہیں جودوسروں کے بال دُور کرنے کے ہیں ۔ (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاریص۳۳۲)
سُوال:اگر مَعَاذَ اللّٰہ! کسی مُحرِم نے اپنی داڑھی مُنڈوا دی توکیا سزا ہے؟
جواب:داڑھی مُنڈوانا یاخَشخَشی کروادینا وَیسے بھی حرام او ر جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے اور اِحْرام کی حالت میں سَخْت حرام۔ البتَّہ اِحرام کی حالت میں سَر کے بال بھی نہیں کاٹ سکتے ۔بَہَرحال دورانِ اِحرام کے حُکْم کے مُتعلِّق صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :سَر یا داڑھی کے چہارُم بال یا
زیادہ کسی طرح دُور کیے تو دَم ہے اور چہارُم سے کم میں صَدَقہ اور اگر چند لا ہے یا داڑھی میں کم بال ہیں ، تو اگر چوتھائی (4/1) کی مقدار ہیں تو کُل میں دَم ورنہ صَدَقہ۔ چند جگہ سے تھوڑے تھوڑے بال لیے تو سب کا مجموعہ اگر چہارم کو پہنچتا ہے تو دَم ہے ورنہ صَدَقہ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۱۷۰ ، رَدُّالْمُحتار ج ۳ ص ۶۵۹)
سُوال:عورَت اپنے بال لے سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب:نہیں ۔عورَت اگر پورے سَر یا چوتھائی(4/1) سَر کے بال ایک پَورے کے برابر کَتر لے تو دَم دے اور کم میں صَدَقہ۔ (لُبابُ الْمَناسِک ص ۳۲۷)
سُوال: مُحرِم نے گردن یا بَغَل یا موئے زیرِناف لے لئے توکیا حکم ہے ؟
جواب:پوری گردن یا پوری ایک بَغَل میں دَم ہے اور کم میں صَدَقہ اگرچِہ نصف یا زیادہ ہو۔یِہی حکم زیرِ ناف کا ہے۔ دونوں بَغلیں پوری مونڈائے جب بھی ایک ہی دَم ہے۔ (بہارِ شریعتص۱۱۷۰،دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۳ص۶۵۹)
سُوال:سَر، داڑھی،بَغلیں وغیرہ سب ایک ہی مجلس میں مُنڈوادئیے توکتنے کَفّارے ہوں گے؟
جواب:خواہ سَر سے لے کر پاؤں تک سارے بدن کے بال ایک ہی مجلس میں مُنڈ وائیں توایک ہی کفّارہ ہے۔ اگر الگ الگ اَعضا کے الگ الگ مجلس میں مُنڈوائیں
گے تو اُتنے ہی کَفّارے ہوں گے۔ (دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتارج ۳ ص ۶۵۹ ۔ ۶۶۱)
سُوال: اگر وُضو کرنے میں بال جھڑتے ہوں تو کیا اِس پربھی کَفّارہ ہے؟
جواب:کیوں نہیں ! وُضو کرنے میں ، کھُجانے میں یاکنگھا کرنے میں اگر دو یا تین بال گرے تو ہر بال کے بدلے میں ایک ایک مُٹّھی اَناج یا ایک ایک ٹکڑا روٹی یا ایک چُھوارا خیرات کریں اور تین سے زِیادہ گرے تو صَدَقہ دینا ہوگا۔ (بہارِ شریعت ج ۱ص۱۱۷۱)
سُوال:اگر کھانا پکانے میں چُولہے کی گرمی سے کچھ بال جل گئے تو؟
جواب:صَدَقہ دینا ہوگا۔ (ایضاً)
سُوال:مونچھ صاف کروادی، کیا کَفّارہ ہے؟
جواب:مونچھ اگرچِہ پوری مُنڈوائیں یاکتَروائیں صَدَقہ ہے۔ (ایضاً)
سُوال:اگر سینے کے بال مُنڈوا دیئے تو کیا کرے؟
جواب:سَر، داڑھی ،گردن ،بَغَل اورمُوئے زیرِ ناف کے علا وہ باقی اَعضا کے بال منڈوانے میں صِرْف صَدَقہ ہے۔(ایضاً)
سُوال:بال جھڑنے کی بیماری ہو اور خود بخود بال جھڑتے ہوں تو اس پرکوئی رِعایت ؟
جواب: اگر بِغیر ہاتھ لگائے بال گر جائیں یا بیماری سے تمام بال بھی جَھڑ جائیں تو
کوئی کَفّارہ نہیں ۔ (ایضاً)
سُوال:مُحرِم نے دوسرے مُحرِم کا سرمُونڈا توکیا سزا ہے؟
جواب: اگر اِحرام کھولنے کا وَقْت آگیا ہے ۔تو اب دونوں ایک دوسرے کے بال مُونڈ سکتے ہیں ۔اور اگر وَقت نہیں آیا تو اِس پر کَفّارے کی صورت مختلف ہے۔ اگر مُحرِم نے مُحرِم کا سَرمُونڈا تو جس کا سَر مونڈا گیا اُس پرتو کَفّارہ ہے ہی، مُونڈنے والے پر بھی صَدَقہ ہے اور اگرمُحرِم نے غیرِمُحرِم کا سَرمُونڈا یا مونچھیں لیں یا ناخُن تراشے تومساکین کوکچھ خیرات کر دے ۔(بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۱۴۲ ، ۱۱۷۱)
سُوال:غیرِمُحرِم، مُحرِم کا سَرمُونڈ سکتا ہے یانہیں ؟
جواب:وَقْت سے پہلے نہیں مُونڈ سکتا، اگر مُونڈے گا تومُحرِم پر تو کَفّارہ ہے ہی، غیرِ مُحرِم کو بھی صَدَقہ دینا ہو گا۔(ایضاً۱۱۷۱)
سُوال: اگر بال صَفا پاؤڈر یاCREAMسے بال صاف کئے تو کیا مسئلہ ہے!
جواب:بہارِ شریعت میں ہے:مونڈنا، کترنا، موچنے سے لینا یا کسی چیزسے بال اُوڑانا، سب کا ایک حکم ہے۔ (ایضاً)
سُوال:اِحرام کی حالت میں عِطْر کی شیشی ہاتھ میں لی اور ہاتھ میں خوشبو لگ گئی تو
کیا کَفّارہ ہے؟
جواب:اگر لوگ دیکھ کرکہیں کہ یہ بَہُت سی خوشبو لگ گئی ہے اگرچِہ عُضْو کے تھوڑے سے حصّے میں لگی ہو تو دَم واجِب ہے ورنہ معمولی سی خوشبو بھی لگ گئی تو صَدَقہ ہے۔ ( ماخوذ ازبہارِ شریعت ج۱ص۱۱۶۳)
سُوال:سَر میں خوشبودار تیل ڈال لیا توکیا کرے؟
جواب:اگر کوئی بڑاعُضْو مَثَلاً ران، مُنہ، پنڈلی یاسَر سارے کا سارا خوشبوسے آلودہ ہوجائے خواہ خوشبودار تیل کے ذَرِیعے ہو یا عِطْر سے، دَم واجِب ہوجائے گا۔ (ایضاً)
سُوال:بِچھونے یا اِحرام کے کپڑے پر خوشبو لگ گئی یا کسی نے لگا دی تو؟
جواب:خوشبو کی مقدار دیکھی جائے گی، زیادہ ہے تو دَم اور کم ہے تو صَدَقہ۔
سُوال:جوکَمرہ (ROOM)رہائش کیلئے مِلا اُس میں کارپیٹ،بچھونا،تکیہ، چادر وغیرہ خوشبودارہوں تو کیا کرے؟
جواب: مُحرِم ان چیزوں کے استِعمال سے بچے۔ اگر احتیاط نہ کی اور اِن سے خوشبو چھوٹ کربدن یا اِحرام پر لگ گئی تو زیادہ ہونے کی صورت میں دم اور کم میں صَدَقہ واجِب ہو گا۔ اور اگر نہ لگے تو کوئی کَفّارہ نہیں مگر اِس
صورت میں بچنا بہتر ہے۔ مُحرِم کو چاہئے مکان والے سے مُتَبادِل انتظام کا کہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرش اور بچھونے وغیرہ پرکوئی بے خوشبو چادر بچھا لے، تکیے کا غِلاف (cover) تبدیل کرلے یا اُسے کسی بے حوشبو چادر میں لپیٹ لے۔
سُوال:جوخوشبو نیَّتِ اِحرام سے پہلے بدن پر لگائی تھی کیا نیَّتِ اِحرام کے بعد اُس خوشبو کو زائل(دُور) کرنا ضَروری ہے؟
جواب:نہیں ، صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اِحرام سے پہلے بدن پر خوشبو لگائی تھی، اِحرام کے بعد پھیل کر اور اعضا کو لگی تو کفّارہ نہیں ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص۱۱۶۳)
سُوال: احرام کی نیّت سے پہلے گلے میں جو بیگ تھا اُس میں یا بیلٹ کی جَیب میں عِطْر کی شیشی تھی، نیّت کے بعد یاد آنے پر اُسے نکالنا ضَروری ہے یا رہنے دیں ؟اگر اِسی شیشی کی خوشبو ہاتھ میں لگ گئی تب بھی کفّارہ ہو گا ؟
جواب: احرام کی نیّت کے بعد وہ عطر کی شیشی بیگ یا بیلٹ سے نکالنا ضَروری نہیں اور بعد میں اُس شیشی کی خوشبو ہاتھ وغیرہ پر لگ گئی تو کفّارہ لازم آئے گا،کیونکہ یہ وہ خوشبو نہیں جو احرام کی نیّت سے پہلے کپڑے یا بدن پر لگائی گئی ہو۔
سُوال: گلے میں نیّت سے پہلے جو بیگ پہنا وہ خوشبو دار تھا ، نیز اس کے اندر خوشبو دار رُومال یا خوشبو والی طواف کی تسبیح وغیرہ بھی موجود ،ان کامُحرِم استِعمال کر سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: ان چیزوں کی خوشبو قصداً (یعنی جان بوجھ کر)سونگھنا مکروہ ہے اور اس احتیاط کے ساتھ استِعمال کی اِجازت ہے کہ اگر اس کی تری باقی ہے تو اتر کر احرام اور بدن کو نہ لگے لیکن ظاہر ہے کہ تسبیح میں ایسی احتیاط کرنا نہایت مشکل ہے بلکہ رومال میں بھی بچنا مشکل ہے۔ لہٰذا ان کے استعمال سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
سُوال: اگر دو تین زائد خوشبو دار چادریں نیّت سے قبل گود میں رکھ لے یا اَوڑھ لے اب احرام کی نیّت کرے۔ نیّت کے بعد زائد چادریں ہٹا دے ، اُسی احرام کی حالت میں اب اُن چادروں کا استِعمال کرناکیسا؟
جواب: اگر تری باقی ہے تو ان کو استِعمال کی اجازت نہیں اور اگر تری ختم ہوچکی ہے صِرْف خوشبو باقی ہے تو استِعمال کی اِجازت ہے مگر مکروہِ (تنزیہی ) ہے۔ صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اگر اِحرام سے پہلے بسایا (یعنی خوشبو دار کیا) تھا اور احرام میں پہنا تو مکروہ ہے مگر کفارہ نہیں ۔(ایضاًص ۱۱۶۵ )
سُوال:اِحتِلام ہوگیا یا کسی وجہ سے اِحْرام کی ایک یا دونوں چادریں ناپاک ہوگئیں اب دوسری چادریں موجود تو ہیں مگر اُن میں پہلے کی خوشبو لگی ہوئی ہے، اُنھیں پہن سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب:اگر خوشبو کی تری یا جِرم(یعنی عَین۔جسم) ابھی تک باقی ہے تو ان چادروں کو پہننے سے کفارہ لازم آئے گا ۔ اور اگرجِرم ختم ہو چکا ہے صرف خوشبو باقی ہے تو پھرمُحرِم و ہ چادریں استعمال کر سکتاہے ۔ہاں بلاعُذر ایسی چادریں استعمال کرنا مکروہِ تنزیہی ہے ۔ فُقَہا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : جس کپڑے پر خوشبو کا جِرم(یعنی عَین۔جسم) باقی ہو اسے اِحْرام میں پہنا، ناجائز ہے۔(عالمگیری ج۱ص۲۲۲)بہارِ شریعت میں ہے:’ ’ اگر احرام سے پہلے بسایا تھا اور احرام میں پہنا تو مکروہ ہے مگر کفارہ نہیں ۔‘‘ (بہارِ شریعت ج ۱ ص۱۱۶۵)
سُوال:اِحرام کی حالت میں حَجرِ اَسوَد کا بوسہ لینے یا رکن یمانی کو چُھونے یا ملتزم سے لپٹنے میں اگر خوشبو لگ گئی توکیاکریں ؟
جواب:اگربَہُت سی لگ گئی تو دَم اور تھوڑی سی لگی تو صَدَقہ۔ (ایضاً ص۱۱۶۴) (جہاں جہاں خوشبو لگ جانے کا مسئلہ ہے وہاں کم ہے یا زیادہ اس کا فیصلہ دوسروں سے
کروانا ہے۔ چونکہ زیادہ خوشبو لگ جانے پر دم ہے لہٰذا ہوسکتا ہے اپنا نفس زیادہ خوشبو کو بھی تھوڑی ہی کہے )
سُوال:محرِم جان بوجھ کر خوشبودار پھول سونگھ سکتا ہے یانہیں ؟
جواب:نہیں ۔محرم کا بالقصد (یعنی جان بوجھ کر)خوشبو یا خوشبو دار چیزسونگھنا مکروہِ تنزیہی ہے،مگر کَفّارہ نہیں ۔ (ایضاً۱۱۶۳)
سُوال:بے پکائی اِلائچی یا چاندی کے وَرَق والے الائچی کے دانے کھانا کیسا؟
جواب:حرام ہے ۔ اگر خالِص خوشبو،جیسے مُشک،زَعفران،لونگ، اِلائچی، دار چینی ، اِتنی کھائی کہ مُنہ کے اکثر حصّے میں لگ گئی تو دَم واجِب ہوگیا اور کم میں صَدَقہ۔ (ایضاً۱۱۶۴)
سُوال:خوشبودار زَرْدہ،بِریانی اورقَورمہ ،خوشبو والی سونف، چھالیہ ،کریم والے بسکٹ ، ٹافیاں وغیرہ کھاسکتے ہیں یانہیں؟
جواب:جو خوشبو کھانے میں پکالی گئی ہو، چاہے اب بھی اُس سے خوشبو آرہی ہو، اُسے کھانے میں مُضایَقہ نہیں ۔اِسی طرح خوشبوپکاتے وَقْت تو نہیں ڈالی تھی اُوپر ڈال دی تھی مگر اب اُس کی مَہَک اُڑگئی اُس کاکھانا بھی جائز ہے، اگربِغیر پکائی ہوئی خوشبو کھانے یا مَعْجون وغیرہ دوا میں مِلادی گئی تو
اب اُس کے اَجزاء غذا یا دوا وغیرہ بے خوشبو اَشیاء کے اَجزاء سے زِیادہ ہیں تو وہ خالِص خوشبو کے حُکم میں ہے اور کَفّارہ ہے کہ مُنہ کے اَکثر حصّے میں خوشبو لگ گئی تو دَم اور کم میں لگی تو صَدَقہ اور اگر اَناج وغیرہ کی مقدار زِیادہ ہے اور خالِص خوشبو کم تو کوئی کَفّارہ نہیں ، ہاں خالِص خوشبو کی مَہَک آتی ہوتو مکرُوہ ِتنزیہی ہے۔
سُوال: خوشبودار شربت،فروٹ جوس ،ٹھنڈی بوتلیں وغیرہ پینا کیسا ہے ؟
جواب:اگر خالِص خوشبو جیسے صندل وغیرہ کا شربت ہے تو وہ شربت تو پکا کرہی بنایا جاتا ہے ،لہٰذامُطْلَقًا پینے کی اجازت ہے اور اگر اس کے اندر خوشبو پیدا کرنے کے لیے کوئی ایسنس(Essense )ڈالا جاتا ہے تو میری معلومات کے مطابِق اس کے ڈالنے کا طریقہ یہ ہے کہ پکائے جانے والے شربت میں اُس کے ٹھنڈا ہونے کے بعد ڈالا جاتا ہے اور یقینا یہ قلیل مقدار میں ہوتا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اُسے تین بار یا زِیادہ پیا تو دَم ہے ورنہ صَدَقہ۔بہار ِشریعت میں ہے:’’ پینے کی چیز میں اگر خوشبومِلائی اگر خوشبو غالِب ہے (تو دم ہے)یا خوشبوکم ہے مگر اُسے تین بار یا زِیادہ پیا تو دَم ہے ورنہ صَدَقہ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۱۶۵ )
سُوال: مُحرِم نارْیَل کاتیل سَر وغیرہ میں لگاسکتاہے یا نہیں ؟
جواب:کوئی حَرَج نہیں ، البتَّہ تِل اور زیتون کا تیل خوشبو کے حُکم میں ہے۔ اگرچِہ اِن میں خوشبو نہ ہو یہ جِسم پر نہیں لگاسکتے۔ہاں ،اِن کے کھانے، ناک میں چڑھانے ، زَخم پر لگانے اور کان میں ٹپکانے میں کَفّارہ واجِب نہیں ۔(ایضاً ۱۱۶۶ )
سُوال:اِحرام کی حالت میں آنکھوں میں خوشبودار سُرمہ لگانا کیسا ہے؟
جواب:حرام ہے۔صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :خوشبودار سُرمہ ایک یا دو بار لگایا تو صَدَقہ دے، اس سے زیادہ میں دَم اور جس سُرمے میں خوشبو نہ ہو اُس کے استِعمال میں حَرَج نہیں ، جب کہ بَضَرورت ہو اور بِلاضَرورت مکروہ(وخلافِ اَولیٰ) ۔ (ایضاً ۱۱۶۴ )
سُوال:خوشبو لگا لی او رکَفّارہ بھی دے دیا تو اب لگی رہنے دیں یا کیا کریں ؟
جواب:خوشبولگاناجب جُرم قرار پایا تو بد ن یا کپڑے سے دُور کرنا واجِب ہے اور کَفّارہ دینے کے بعد اگر زائل(یعنی دُور) نہ کیا تو پھردَم وغیرہ واجِب ہوگا۔ (ایضاً ۱۱۶۶ )
سُوال: حجاز ِمقدَّس کے ہوٹلوں میں خوشبودار صابن،مُعطّر شیمپو اور خوشبووالے
پاؤڈر ہاتھ دھونے کے لیے رکھے جاتے ہیں اور اِحرام والے بِلا تکلُّف ان کو استعمال کرتے ہیں ، طیارے میں اورایئر پورٹ پر بھی اِحرام والوں کویِہی ملتا ہے، کپڑے اور برتن دھونے کا پاؤڈر بھی حجازِ مقدَّس میں خوشبودار ہی ہوتا ہے۔ان چیزوں کے بارے میں حکمِ شَرْعی کیا ہے؟
جواب:احرام والے ان چیزوں کواستعمال کریں تو کوئی کفّارہ لازِم نہیں آئے گا ۔ (البتّہ خوشبو کی نیّت سے ان چیزوں کا استِعمال مکروہ ہے۔)( ماخوذ از:احرام اور خوشبو دار صابُن ) ([4])
سُوال:اِحرام کی نیَّت کرلینے کے بعد ایئر پورٹ وغیرہ پر گلاب کے پھولوں کا گجرا پہنا جا سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب:احرام کی نیّت کے بعد گُلاب کا ہار نہ پہنا جائے، کیونکہ گلاب کا پھول خود عَین (خالِص)خوشبو ہے اور اس کی مَہَک بدن اور لباس میں بَس بھی جاتی ہے۔ چُنانچِہ اگر اس کی مَہَک لباس میں بس گئی اور کثیر(یعنی زیادہ)
ہے اور چار پَہَر یعنی بارہ گھنٹے تک اس کپڑے کو پہنے رہا تو دَم ہے ورنہ صَدَقہ اور اگر خوشبو تھوڑی ہے اور کپڑے میں ایک بالِشْت یا اس سے کم (حصّے)میں لگی ہے اور چارپَہَر تک اسے پہنے رہا تو ’’صَدَقہ‘‘ اور اس سے کم پہنا تو ایک مٹّھی گندُم دینا واجِب ہے۔اور اگر خوشبو قلیل(یعنی تھوڑی) ہے، لیکن بالِشت سے زیادہ حصّے میں ہے، تو کثیر (یعنی زیادہ)کا ہی حکم ہے یعنی چار پَہَر میں ’’ دم ‘‘ اور کم میں ’’ صَدَقہ‘‘اور اگر یہ ہار پہننے کے باوُجُود کوئی مَہَک کپڑوں میں نہ بسی تو کوئی کفّارہ نہیں ۔ (احرام اور خوشبو دارصابن ص۳۵تا۳۶)
سُوال:کسی سے مُصافَحہ کیا اور اُس کے ہاتھ سے مُحرِم کے ہاتھ میں خوشبو لگ گئی تو؟
جواب: اگرخوشبو کا عَین لگا تو’’ کفّارہ ‘‘ ہوگا اور اگرعَین نہ لگا بلکہ ہاتھ میں صِرْف مَہَک آئی، تو کوئی کفّارہ نہیں کہ اس مُحرِم نے خوشبو کے عَین سے نَفْعْ نہ اٹھایا، ہاں اس کو چاہیے کہ ہاتھ کو دھو کر اس مَہَک کو زائل کردے۔ (ایضاًص۳۵)
سُوال:خوشبودار شیمپو سے سر یا داڑھی دھو سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: رسالہ’’ اِحرام اور خوشبو دار صابن‘‘ صَفْحَہ25تا28سے بعض اِقتِباسات مُلا حَظہ ہوں :شیمپو اگر سریا داڑھی میں استعمال کیا جائے ، تو خوشبو کی مُمانَعَت کی عِلّت (یعنی وجہ) پر غور کے نتیجے میں اس کی مُمانَعَت
کا حکم ہی سمجھ میں آتا ہے، بلکہ کَفّارہ بھی ہونا چاہیے ، جیسا کہ خِطمِی (خوشبوداربُوٹی)سے سر اور داڑھی دھونے کا حکم ہے کہ یہ بالوں کونَرْم کرتا ہے اور جُوئیں مارتا ہے اورمُحرِم کے لیے یہ ناجائز ہے۔’’دُرمختار ‘‘ میں ہے : سر اور داڑھی کو خِطمِی سے دھونا (حرام ہے) کیونکہ یہ خوشبو ہے یا جُوؤں کو مارتا ہے۔(دُرّمختارج ۳ ص ۵۷۰) صاحِبَین( یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما) کے نزدیک چُونکہ یہ خوشبو نہیں ، لہٰذا یہاں ’’جنایتِ قاصِرہ‘‘ (نامکمَّل جُرم) کا ثُبوت ہوگا اور اس کا مُوجَب ’’صَدَقہ‘‘ ہے۔شَیمپو سے سَر دھونے کی صورت میں بھی بظاہِر’’ جِنایتِ قاصِرہ‘‘ (یعنی نامکمَّل جُرم) کا وُجُود ہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں بھی آگ کا عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا خوشبو کا حکم تو ساقِط ہوگیا لیکن بالوں کو نَرْم کرنے اور جُوئیں مارنے کی عِلّت(یعنی سبب) موجود ہے ، لہٰذا ’’صَدَقہ‘‘ واجِب ہونا چاہیے۔یہ اَمْر بھی قابلِ توجُّہ ہے کہ اگر کسی کے سر پر بال اورچِہرے پر داڑھی نہ ہو ، تو کیا اب بھی حکم سابِق ہی لگایا جائے گا…؟بظاہِر اس صورت میں کفّارے کا حکم نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ حُکمِ مُمانَعَت کی عِلّت(سبب) بالوں کا نَرْم اورجُوؤں کا ہَلاک ہونا تھا، اور مذکورہ صورت
میں یہ عِلّت مَفقُود(یعنی سبب غیر موجود) ہے اور اِنتفاء عِلّت (یعنی سبب کا نہ ہونا) اِنتفائِ مَعْلُول کو مُسْتَلزَم ( لازم کرنے والی) ہے لیکن اس سے اگر مَیل چُھوٹے تو یہ مکروہ ہے کہ مُحرِم کومَیل چُھڑانا مکروہ ہے۔اور ہاتھ دھونے میں اس کی حیثیَّت صابُن کی سی ہے کیونکہ یہ مائع(یعنی لکوِڈ۔liquid) حالت میں صابُن ہی ہے اور اِس میں بھی آگ کا عمل کیا جاتا ہے۔
سُوال:مسجِدَینِ کریمین کے فرش کی دھلائی میں جو خوشبو دار مَحلول (SOLUTION) استِعمال کیا جاتا ہے ، اُس میں لاکھوں مُحرِمِین کے پاؤں سَنتے ( یعنی آلودہ) ہوتے رہتے ہیں کیا حُکم ہے؟
جواب:کوئی کفّارہ نہیں کہ یہ خوشبو نہیں ۔ اوربِالفرض یہ مَحلول خالِص خوشبو بھی ہوتا ، تو بھی کفّارہ واجِب نہ ہوتا، کیونکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ مَحلُول پہلے پانی میں ملایا جاتا ہے اور پانی اس محلول سے زائد اور یہ محلو ل مغلوب(کم) ہوتا ہے اور اگر مائِع(یعنی لکوِڈ۔liquid) خوشبو کو کسی مائِع میں ملایا جائے اور مائِع غالِب ہو، تو کوئی جَزاء نہیں ہوتی۔ کُتُبِ فِقہ میں جومَشروبات کا حُکم عُموماً تحریر ہے اِس سے مُراد ٹھوس خوشبو کا مائِع میں ملایا جانا ہے۔ علّامہ حسین بِن محمد عبدالغنی مکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’اِرشادُالسّاری‘‘ صَفْحَہ 316
میں فرماتے ہیں :اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ گیلی شکر ( یعنی میٹھا شربت) اور اس کی مِثل ،گُلاب کے پانی کے ساتھ ملایا جائے، تو اگر عَرَقِ گُلاب مغلوب ہو، جیسا کہ عادۃً ایسا ہی عام طور پر ہوتا ہے ، تو اس میں کوئی کفّارہ نہیں اور حضرتِ علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی نے اسی کی مِثل’’ طَرابُلُسِی ‘‘سے نَقْل کیا اور اسے برقرار رکھا اور اس کی تائید کی اور اس کی اصل’’مُحیط ‘‘میں ہے۔ (ایضاًص۲۸تا۲۹)
سُوال:مُحرِم نے اگر ٹوٹھ پیسٹ استِعمال کر لی تو کیا کفّارہ ہے؟
جواب:ٹوتھ پیسٹ میں اگر آگ کا عمل ہوتا ہے، جیسا کہ یہی مُتَبادِر (یعنی ظاہِر ) ہے ، جب تو حکمِ کفّارہ نہیں ، جیسا کہ ماقَبل تفصیل سے گزر چکا۔(ایضا ص ۳۳) البتّہ اگر منہ کی بد بُو دُور کرنے اور خوشبو حاصِل کرنے کی نیّت ہو تو مکروہ ہے۔میرے آقااعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِسنّت ،مجدِّدِ دین وملّت ، مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :’’ تمباکو کے قِوام میں خوشبو ڈال کر پکائی گئی ہو، جب تو اس کا کھانا مُطْلَقاً جائز ہے اگرچِہ خوشبو دیتی ہو، ہاں خوشبو ہی کے قَصْد سے اسے اختیار کرنا کراہت سے خالی نہیں ۔‘‘ ( فتاوی رضویہ ج ۱۰ ص ۷۱۶)
سُوال:مُحرِم نے اگر بھول کر سِلا ہوا لباس پہن لیا اور دَس منٹ کے بعد یاد آتے ہی اُتار دیا تو کوئی کَفّارہ وغیرہ ہے یا نہیں؟
جواب:ہے، اگرچِہ ایک لمحے کے لئے پہنا ہو۔جان بوجھ کر پہنا ہو یا بُھولے سے ، ’’صَدَقہ‘‘ واجِب ہوگیا اور اگرچار پَہَر([5])یا اِس سے زِیادہ چاہے لگا تار کئی دِن تک پہنے رہا’’ دَم ‘‘واجِب ہوگا۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص ۷۵۷ )
سُوال:اگر ٹوپی یا عمامہ پہنا یا اِحْرام ہی کی چادرمُحرِم نے سَریامُنہ پر اَوڑھ لی یا اِحرام کی نیّت کرتے وَقْت مَرْد سلے ہوئے کپڑے یا ٹوپی اُتارنا بھول گیا یا بھیڑ میں دوسرے کی چادر سے مُحرِم کا سر یا مُنہ ڈھک گیا تو کیا سزا ہے؟
جواب:جان بوجھ کر ہو یا بھول کر یا کسی دوسرے کی کوتاہی کی بِنا پر ہوا ہو کفّارے دینے ہوں گے ہاں جان بوجھ کر جُرم کرنے میں گناہ بھی ہے لہٰذا توبہ بھی واجِب ہو گی ۔ اب کفّارہ سمجھ لیجئے: مَرْد سارا سَر یا سَر کا چوتھائی (4/1) حصَّہ یا مَرْد خواہ عورَت مُنہ کی ٹِکلی ساری یعنی پورا چہرہ یا چوتھائی حصَّہ چار پَہَر
یا زِیادہ لگاتار چُھپائیں ’’دَم‘‘ ہے اورچَوتھائی سے کم چارپَہَر تک یا چار پَہَر سے کم اگرچِہ سارا مُنہ یا سَر تو’’ صَدَقہ ‘‘ ہے اور چہارُم (یعنی چوتھائی) سے کم کو چارپَہَر سے کم تک چھپائیں تو کَفّارہ نہیں مگر گناہ ہے ۔ (ایضاً ص ۷۵۸)
سُوال:نزلے میں کپڑے سے ناک پونچھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب:کپڑے سے نہیں پونچھ سکتے، کپڑا یاتو لیہ دُور ر کھ کر اُس میں ناک سِنک (یعنی جھاڑ ) لیجئے۔صَدرُالشَّریعہ،بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :کان اور گُدی کے چُھپانے میں حَرَج نہیں ۔یوہیں ناک پر خالی ہاتھ رکھنے میں اور اگر ہاتھ میں کپڑا ہے اور کپڑے سَمیت ناک پر ہاتھ رکھا تو کَفّارہ نہیں مگر مکروہ و گناہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۱۶۹)
سُوال:ٹشو پیپر سے منہ کا پسینہ یاوُضو کاپانی یانزلے میں ناک پونچھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب:نہیں پونچھ سکتے۔
سُوال:تو منہ پر کپڑے یا ٹشو پیپر کا ماسک لگانا کیسا؟
جواب: ناجائز و گناہ ہے۔شرائط پائے جانے کی صورت میں کفّارہ بھی لازِم ہو گا۔
سُوال: مُحرِم نے خوشبو دار ٹِشو پیپر استِعمال کر لیا تو؟
جواب:خوشبودار ٹشو پیپر میں اگر خوشبو کا عَین موجود ہے یعنی وہ پیپر خوشبو سے بھیگا ہوا ہے ، تو اس تری کے بدن پر لگنے کی صورت میں جو حکم خوشبو کا ہوتا ہے، وُہی اس کا بھی ہوگا۔ یعنی اگر قلیل (یعنی کم)ہے اورعُضْوِ کامِل(یعنی پورے عُضْو) کو نہ لگے، تو صدقہ، ورنہ اگر کثیر (یعنی زیادہ)ہو یا کامِل (پورے)عُضْو کو لگ جائے، تو دم ہے۔ اور اگر عَین موجود نہ ہوبلکہ صِرْف مَہَک آتی ہو تو اگر اِس سے چہرہ وغیرہ پُونچھا اور چہرے یا ہاتھ میں خوشبو کا اثر آگیا، تو کوئی ’’کَفّارہ‘‘ نہیں کہ یہاں خوشبو کاعَین نہ پایا گیا اور ٹشو پیپر کا مقصودِ اصلی خوشبو سے نَفْعْ لینا نہیں ۔(احرام اور خوشبو دار صابن ص۳۱) اگر کوئی ایسے کمرے میں داخِل ہوا جس کو دھونی دی گئی اور اس کے کپڑے میں مَہَک بس گئی ، تو کوئی کفّارہ نہیں ، کیونکہ اس نے خوشبو کے عَین سے نَفْعْ نہیں اٹھایا۔ (عالمگیری ج۱ ص۲۴۱)
سُوال:سوتے وَقْت سِلی ہوئی چادر اَوڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب:چِہرہ بچا کرایک بلکہ اس سے زِیادہ چادریں بھی اَوڑھ سکتے ہیں ، خواہ پاؤں پورے ڈھک جائیں ۔
سُوال:طیارے یا بس وغیرہ کی اگلی نِشَست کے پیچھے یا تکیے پر منہ رکھ کر مُحرِم سَو گیا
کیاحکم ہے ؟
جواب: تکیہ میں منہ رکھ کرسونے پر کوئی کَفّارہ نہیں لیکن یہ مکروہِ تحریمی ہے۔ جبکہ بس وغیرہ کی اگلی سیٹ کے پیچھے منہ رکھ کر سونا جائز ہے کیونکہ عمومی طور پر سیٹ تختی ،دروازہ کی طرح سخت ہوتی ہے نہ کہ تکیہ کی طرح نرم۔
سُوال: گُھٹنوں میں مُنہ رکھ کر سونا کیسا؟تکیہ پر منہ رکھ کر سونے میں کفارہ نہیں مگر مکروہ ہے، کیوں ؟
جواب:اگر تو صرف گھٹنوں پرمنہ ہو یعنی گھٹنے کی سختی پر تو جائز ہے ،کیونکہ کپڑے کے اندر اگر سخت چیز ہو تو اس سخت چیز کا حکم لگتا ہے نہ کہ کپڑے کا،جیسا کہ علماء نے بوری اور گٹھڑی (کپڑے کے علاوہ)کا حکم لکھا ہے۔ لیکن گھٹنے پر منہ رکھ کر سونے میں یہ کیفیت بَہُت مشکل ہے بلکہ نیند کے دوران گھٹنے کی سختی پر اور صرف کپڑے پر چہرہ آتا رہے گا لہٰذا اس سے احتراز کیا (یعنی بچا)جائے ورنہ کفارے کی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں اور جہاں تک تکیے کا تعلُّق ہے تو وہ نرمی میں کپڑے کے مُشابہ ہے (اس لیے منع کیا گیا)مگر مِنْ کُلِّ الْوُجُوہ (یعنی ہر طرح سے ) کپڑا نہیں (اس لیے کفارہ نہیں )۔
سُوال:مُحرِم سردی سے بچنے کیلئے زِپ (zip)والے بسترے میں چہرہ اور سر چھوڑ
کر باقی بدن بند کر کے سَو سکتا ہے یانہیں ؟
جواب:سَو سکتا ہے۔ کیوں کہ عادتاً اِسے لباس پہننا نہیں کہتے۔
سُوال: مُحرِم کو قطرے آتے ہوں تو کیا کرے؟
جواب: بے سِلا لنگوٹ باندھ لے کہ احْرام میں لنگوٹ باندھنا مُطْلَقًا جائز ہے جبکہ سِلائی والا نہ ہو۔ (مُلَخَّص از فتاوٰی رضویہ ج۱۰ ص ۶۶۴)
سُوال:کیا بیماری وغیرہ کی مجبوری سے سِلا ہوا لباس پہننے میں بھی کَفّارے ہیں ؟
جواب:جی ہاں ۔بیماری وغیرہ کے سبب اگر سَر سے پاؤں تک سب کپڑے پہننے کی ضَرورت پیش آئی تو ایک ہی جُرم غیر اِختِیاری ([6])ہے۔اگر چارپَہَر پہنے یا زِیادہ تودَم اور کم میں ’’ صَدَقہ‘‘ اور اگر اُس بیماری میں ا س جگہ ضَرورت ایک کپڑے کی تھی اور دو پہن لئے مَثَلاً ضَرورت کُرتے کی تھی اور سِلائی والا بَنیا ن بھی پہن لیا تو اِس صُورت میں کَفّارہ تو ایک ہی ہوگا مگر گنہگار ہوگا اور اگر دوسرا کپڑا دوسری جگہ پہن لیا مَثَلاً ضَرورت پاجامے کی تھی اورکُرتا بھی پہن لیا تو ایک جُرم غیر اِختِیاری ہُوا اور ایک جُرم اِختِیاری۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ص۱۱۶۸،عالمگیری ج۱ص۲۴۲)
سُوال:اگر بِغیرضَرورت سارے کپڑے پہن لئے تو کتنے کَفّارے دیناہوں گے؟
جواب:اگر بِغیر ضَرورت سب کپڑے ایک ساتھ پہن لئے تو ایک ہی جُرم ہے۔ دو جُرم اُس وَقْت ہیں کہ ایک ضَرورت سے ہو اور دوسرا بِلا ضَرورت ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۶۸)
سُوال:اگر مُنہ دونوں ہاتھوں سے چُھپا لیا یا سَریا چِہرے پر کسی نے ہاتھ رکھ دیا ؟
جواب:سر یا ناک پراپنا یا دوسرے کاہاتھ رکھنا جائز ہے چُنانچِہ حضرتِ علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی فرماتے ہیں : اپنا یا دوسرے کا ہاتھ اپنے سر یاناک پر رکھنا بِالاتِّفاق مُباح(یعنی جائز) ہے کیونکہ ایسا کرنے والے کو ڈھکنے یاچھپانے والا نہیں کہا جاتا۔ (لُبابُ الْمَناسِک والْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط ص۱۲۳)
سُوال: تو کیا مُحرِم دُعا مانگنے کے بعد اپنے ہاتھ مُنہ پر نہیں پھیر سکتا ؟
جواب: پھیر سکتا ہے، منہ پر ہاتھ رکھنے کی مُطْلَقًا اجازت ہے، داڑھی والا اسلامی بھائی منہ پر بعدِ دُعا بلکہ وُضو میں بھی اِس انداز میں ہاتھ مَلنے سے بچے جس سے بال گرنے کا اندیشہ ہو۔
سُوال:اگر کندھے پر سلے ہوئے کپڑے ڈال لئے توکیا کَفّارہ ہے؟
جواب:کوئی کَفّارہ نہیں ۔ صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں :پہننے کا
مطلب یہ ہے کہ وہ کپڑا اس طرح پہنے جیسے عادۃً پہنا جاتا ہے، ورنہ اگرکُرتے کا تہبند باندھ لیا یا پاجامے کوتَہبند کی طرح لپیٹا پاؤں پائنچے میں نہ ڈالے تو کچھ نہیں ۔ یوہیں انگر کھا پھیلا کر دونوں شانوں پر رکھ لیا، آستینوں میں ہاتھ نہ ڈالے تو کفّارہ نہیں مگر مکروہ ہے اورمَونڈھوں (یعنی کندھوں ) پر سِلے کپڑے ڈال لیے تو کچھ نہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۶۹)
سُوال:اگر عُمرے کا حَلْق حَرَم سے باہَر کروانا چاہے تو کرواسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب:نہیں کرواسکتا، کروائے گا تو دَم واجِب ہوگا، ہاں اِس کے لئے وَقْت کی کوئی قید نہیں ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۳ص۶۶۶)
سُوال:کیا جَدَّہ شریف وغیرہ میں کام کرنے والوں کو بھی ہر بار عُمرے میں حَلْق یا تقصیر کرنا واجِب ہے؟
جواب: جی ہاں ۔ورنہ احرام کی پابندیاں ختم نہ ہو ں گی۔
سُوال: جس عورت کے بال چھوٹے ہوں ( جیسا کہ آج کل فیشن ہے) عُمروں کا بھی جذبہ ہے مگر بار بار قصر کرنے میں سر کے بال ہی ختم ہو جائیں گے ، کیا کرے؟ اگر سر کے سارے بال ختم ہو گئے یعنی ایک پورے سے کم رہ
گئے تو اب عمرے کرے گی تو قصْر ممکن نہ رہا، معافی ملے گی یا کیا؟
جواب:جب تک سر پر بال موجود ہوں عورت کیلئے ہر بار قَصْر واجِب ہے۔ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’عورتوں پرحَلْق نہیں بلکہ ان پر صِرْف تَقصِیر( واجِب )ہے ۔‘‘ (ابوداوٗد ج ۲ ص ۲۹۵ حدیث ۱۹۸۴ )ایسی عورت جس کے بال ایک پورے سے کم رہ گئے ہوں ،اس کیلئے اب قَصْر کی مُعافی ہے کیونکہ قَصْر ممکن نہ رہا اورحَلْق کرانا اس کے لیے مَنْعْ ہے ۔ایسی صورت میں اگر حج کا مُعامَلہ ہے توافضل یہ ہے کہ ایّامِ نَحر کے آخِر میں (یعنی 12ذُوالحِجَّۃِ الحرم کے غروبِ آفتاب کے بعد) اِحرام سے باہَر آئے،اگر ایّام نَحْر کے آخِر تک انتظار نہ بھی کیا تو کوئی چیز لازِم نہ ہوگی۔
سُوال: سَریا مُنہ زخمی ہو جانے کی صورت میں پٹّی باندھنا گناہ تو نہیں ؟
جواب:مجبوری کی صورت میں گناہ نہیں ہوگا، البتَّہ ’’جُرمِ غیر اِختِیاری‘‘کا کَفّارہ دینا آئے گا۔لہٰذا اگر دِن یا رات یا اِس سے زِیادہ دیر تک اِتنی چَوڑی پٹیّ باندھی کہ چوتھائی (4/1) یااِس سے زِیادہ سَریا مُنہ چُھپ گیا تو دَم اور کم میں صَدَقہ واجِب ہوگا (جُرم غیر اِختِیاری کی تفصیل صفحہ136پر مُلاحَظہ فرمایئے)
اِس کے علاوہ جِسم کے دوسرے اَعضا پر نیز عورَت کے سَر پر بھی مجبوراً پٹّی باندھنے میں کوئی مُضایَقہ نہیں ۔
سُوال:حج یاعمرے کی سَعْی کے قبل حَلْق کروا لیا کئی روز گز ر گئے کیا کرے؟
جواب:حج میں حَلْق کا مسنون وَقْتسَعْی سے قبل ہی ہوتا ہے یعنی حَلْق سے پہلے سَعْی کرنا خلافِ سنّت ہے ۔لہٰذا اگر کسی نے سَعْی سے قبل حلْق کروایا تو کوئی حَرَج نہیں ۔اورکئی دن گزرنے سے بھی مزید کچھ لازِم نہیں آئے گا کیونکہ سَعْی کے لئے کوئی وَقت ِانتہاء(END TIME)مُقرّر نہیں ہے ۔ ہاں اگر وہ سَعْی کے بِغیر ’’ وطن ‘‘ چلا گیا تو اب ترکِ واجِب کی وجہ سے دَم لازِم آئے گا،پھر اگر وہ لوٹ کرسَعْی کر لے تو دَم ساقِط ہو جائے گا البتّہ بہتر یہ ہے کہ اب وہ دَم ہی دے کہ اس میں نَفْعِ فَقُراء ہے ۔ یہ حُکْم اسی وَقْت ہے کہ جب حَلْق اپنے وَقت یعنی ایّامِ نحر میں دسویں کی رَمی کے بعد کروایا ہو ، اگر رَمی سے قبل یا ایّام ِنحر کے بعدحَلْق کروایا تو دَم واجِب ہوگا۔ عُمرے میں اگر کسی نے سَعْی سے قبل حَلْق کروایا تواس پر دَم لازِم آئے گا۔پھر اگرپورا یا طواف کا اکثر حصّہ یعنی چار پھیرے کر چکا تھا تو اِحرام سے نکل جائے گا ورنہ نہیں ۔کئی دن گزر جانے کی وجہ سے بھی سَعْی
ساقِط نہیں ہوگی کیونکہ یہ واجِب ہے لہٰذا اسے سَعْی کرنی ہو گی ۔
سُوال: کیا 13ذُوالحِجَّۃِ الحرام سے عمرے شُروع کر دیئے جائیں ؟
جواب: جی نہیں ۔ اَیّامِ تَشریق یعنی 9،10،11،12اور13ذُوالْحِجَّۃِ الْحرام اِن پانچ دِنوں میں عُمرے کا اِحرام باندھنا مکرُوہِ تحریمی (ناجائز و گناہ ) ہے۔ اگر باندھا تو دَم لازِم آئے گا ۔ (دُرِّ مُختار ج ۳ ص ۵۴۷)
سُوال: کیا مقامی حضرات جنہوں نے اِس سال حج نہیں کیا وہ بھی ان دنوں یعنی نویں تا تیرھویں پانچ دن عمرہ نہیں کر سکتے؟
جواب: ان کے لیے بھی اِن دنوں عُمرے کا احرام باندھ کر عمرہ کرنا مکروہ ِتحریمی ہے ۔ آفاقی،حِلّی اور مِیقاتی سبھی کیلئے اصل ممانَعَت ان دنوں میں عمرے کا احرام باندھنے کی ہے۔ عمرہ کا وَقت پورا سال ہے،مگر پانچ دن عمرہ کا احرام باندھنا مکروہ ِتحریمی ہے ،اور اگر نویں سے قبل باندھے ہوئے اِحرام کے ساتھ ان (پانچ )دنوں میں عمرہ کیا تو کوئی حرج نہیں اور اس صورت میں بھی مُستَحَب یہ ہے کہ ان دنوں کو گزار کر عمرہ کرے۔ (لُبابُ الْمَناسِک ص۴۶۶)
سُوال: اَشْہُرِ حج میں اگر کوئی حِلّی یا حَرَمی عُمرہ بھی کرے اور حج بھی کرے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:ایسا کرنے والے پر دم واجب ہو جائے گا کیوں کہ اس کو صِرْف حجَِ افراد کی اجازت ہے جس میں عمرہ شامل نہیں۔البتّہ وہ صِرف عمرہ کر سکتا ہے۔
سُوال: احرام میں کھانے سے قبل اور بعد ہاتھ دھوناکیسا؟ نہ دھونے سے مَیل کُچیل پیٹ میں جائے گا اور بعد میں نہیں دھوئیں گے تو ہاتھ چکنے اور بدبودار رہیں گے ، کیا کریں ؟
جواب: دونوں بار بِغیر صابن وغیرہ کے ہاتھ دھو لیجئے اگر کوئی خارِجی کالک یا چکنا ہٹ ہاتھوں میں لگی ہو تو ضَرورتاً کپڑے سے پونچھ لیجئے۔ مگر بال نہ ٹوٹیں اِس کی احتیاط کیجئے۔
سُوال:وُضو کے بعدمُحرِم کا رُومال سے ہاتھ مُنہ پُونچھنا کیساہے؟
جواب:مُنہ پر (اور مرد سَر پر بھی)کپڑا نہیں لگا سکتے، جِسم کا باقی حصَّہ مَثَلاً ہاتھ وغیرہ اِتنی اِحتِیاط کے ساتھ پُونچھ سکتے ہیں کہ مَیل بھی نہ چھوٹے اور بال بھی نہ ٹو ٹے۔
سُوال:مُحرِمہ چِہرہ بچا کر پی کیپ والا یا کمانی دار نِقاب ڈال سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب: ڈال سکتی ہے مگر ہَوا چلی یا غَلَطی ہی سے اپنا ہاتھ نِقاب پر رکھ لیاجس کے
سبب چاہے تھوڑی سی دیر کیلئے بھی چہرے پر نِقاب لگ گیا تو کفّارے کی صورت بن سکتی ہے۔
سُوال:حَلق کرواتے وَقت مُحرِم سَر پر صابن لگائے یا نہیں ؟
جواب:صابن نہ لگائے کیوں کہ مَیل چھوٹے گا اورمَیل چُھڑانا اِحرام میں مکرُوہِ( تنزیہی ) ہے۔
سُوال:ماہواری کی حالت میں عورَت اِحرام کی نیَّت کر سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب:کرسکتی ہے مگر اِحرام کے نَفل ادا نہیں کرسکتی، نیز طَواف پاک ہونے کے بعد کرے ۔
سُوال:سِلائی والے چپّل پہننا کیسا ہے؟
جواب:وَسطِ قدم یعنی قدم کا اُبھرا ہُوا حصَّہ اگر نہ چُھپائیں تو حرج نہیں ۔
سُوال:اِحرام میں گِرَہ یا بَکسُوا(سیفٹی پن) یا بٹن لگانا کیسا؟
جواب:خلافِ سنَّت ہے۔ لگانے والے نے بُراکیا ،البتّہ دم وغیرہ نہیں ۔
سُوال:مُحرِم ناک یا کان کا میل نکال سکتا ہے یانہیں ؟
جواب:وُضو میں ناک کے نرم بانسے تک روئیں روئیں پر پانی بہانا سُنَّتِ مُؤَکدہ
ہے اور غُسل میں فرض ۔لہٰذااگر ناک میں رینٹھ سو کھ گئی تو چھڑانا ہو گا، اور پلکوں وغیرہ میں اگر آنکھ کی چِیپڑ سوکھ گئی ہے تو اُسے بھی وُضواور غسل کیلئے چُھڑانا فرض ہے مگر یہ احتیاط ضَروری ہے کہ بال نہ ٹوٹے۔ رہا کان کامَیل نکالنا تو اِسے چھڑانے کی اجازت کی صَراحت کسی نے نہیں کی لہٰذا اِس کا حُکم وُہی ہوگاجوبدن کے مَیل کا ہے یعنی اِس کا چُھڑانا مکروہِ تنزیہی ہے۔مگر یہ احتیاط ضَروری ہے کہ بال نہ ٹوٹے۔
سُوال:کیا زِندہ والدَین کے نام پر عُمرہ کرسکتے ہیں ؟
جواب:کرسکتے ہیں ۔ فرض نَماز، روزہ، حج، زکوٰۃ نیز ہر قِسم کے نیک کام کا ثواب زندہ، مُردہ سب کو اِیصال کرسکتے ہیں ۔
سُوال:اِحْرام کی حالت میں جُوں مارنے کے کَفّارے بتا دیجئے۔
جواب:اپنی جُوں اپنے بدن یا کپڑے میں ماری یا پھینک دی تو ایک جُوں ہو تو روٹی کا ایک ٹکڑا اور دو یا تین ہوں تو ایک مُٹھّی اَناج اور اِس(یعنی تین) سے زِیادہ میں صَدَقہ۔ جُوئیں مارنے کے لئے سَر یا کپڑا دھویا یا دُھوپ میں ڈالا جب بھی وُہی کَفّارے ہیں جو مارنے میں ہیں ۔ دوسرے نے اِس کے کہنے پر اِس کی جُوں ماری جب بھی اِس(یعنی مُحرِم) پر کَفّارہ ہے
اگرچِہ مارنے والا اِحرام میں نہ ہو۔زمین وغیرہ پر گری ہوئی جُوں یا دوسرے کے بدن یا کپڑوں کی جُوئیں مارنے میں مارنے والے پر کچھ نہیں اگرچِہ وہ دوسرا بھی مُحرِم ہو۔
سُوال:اگرمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں کام کرنے والے مَثَلاً ڈرائیور یا وہاں کے باشندے وغیرہ روزانہ بار بار ’’طائف شریف‘‘ جائیں تو کیا ہر بار واپَسی میں انھیں روزانہ عُمرے وغیرہ کا اِحرام باندھنا ضَروری ہے ؟
جواب:یہ قاعدہ ذِہن نشین کر لیجئے کہ اَہلِ مَکَّہ اگرکسی کام سے ’’حُدُودِ حَرَم‘‘سے باہَر مگر مِیقات کے اندر (مَثَلاً جَدَّہ شریف)جائیں تو اُنھیں واپَسی کے لئے اِحرام کی حاجت نہیں اوراگر ’’مِیقات‘‘سے باہَر(مَثَلاًمدینۂ پاک،طائف شریف رِیاض وغیرہ) جائیں تو اب بغیراِحْرام کے ’’حُدُودِ حرم‘‘ میں واپَس آنا جائز نہیں ۔ڈرائیورچاہے دن میں کئی بار آنا جانا کرے ہربار اُس پر حج یا عمرہ واجب ہوتا رہے گا۔ بِغیر احرام کیمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً آئے گا تو دم واجِب ہو گا اگراِسی سال مِیقات سے باہَر جاکراحرام باندھ لے تودم ساقط ہو جائیگا۔
سُوال:اگر کوئی شخص جَدَّہ شریف میں کام کرتا ہو تو اپنے وطن مَثَلاً پاکستان سے کام کے لئے جَدَّہ شریف آیاتو کیا اِحرام لازِمی ہے؟
جواب:اگر نیَّت ہی جَدَّہ شریف جانے کی ہے تو اب اِحرام کی حاجت نہیں بلکہ اب جَدَّہ شریف سے مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً بھی جانا ہو جائے تو اِحرام کے بِغیرجاسکتا ہے۔لہٰذا جو شخصمکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں بِغیر اِحرام جاناچاہتاہو وہ حِیلہ کرسکتاہے بشرطیکہ واقِعی اُس کا اِرادہ پہلے مَثَلاً جَدَّہ شریف جانے کا ہو اور مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً حج و عُمرے کے اِرادے سے نہ جاتا ہو۔ مَثَلاً تِجارت کے لئے جَدَّہ شریف جاتا ہے اور وہا ں سے فارِغ ہو کر مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا اِرادہ کیا۔ اگر پہلے ہی سے مکّۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا اِرادہ ہے تو بِغیر اِحرام نہیں جاسکتا۔ جو شخص دوسرے کی طرف سے حجِّ بَدَل کو جاتا ہے اُسے یہ حِیلہ جائز نہیں ۔
سُوال:بعض غریب عُشّاق عُمرہ یاسفرِحج کے لئے لوگوں سے مالی اِمداد کا سُوال
کرتے ہیں ، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب:حرام ہے۔ صدرُالافاضل مولانانعیم ُالدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی نَقْل کرتے ہیں : ’’بعض یَمَنی حج کے لئے بے سروسامانی کے ساتھ روانہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو مُتَوَکِّل(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسا رکھنے والا) کہتے تھے اور مَکَّہ مکرّمہ پہنچ کر سُوال شُروع کردیتے اور کبھی غَصب و خِیانَت کے بھی مُرتکِب ہوتے، اُن کے بارے میں یہ آیتِ مقدَّسہ نازِل ہوئی اور حُکم ہُوا کہ توشہ (یعنی سفر کے اَخراجات)لے کر چلو اَوروں پر بار نہ ڈالو، سُوال نہ کرو کہ بہتر توشہ(یعنی زادِ راہ) پرہیزگاری ہے۔‘‘ (خزائنُ العرفان ص۶۷مکتبۃ المدینہ )
چُنانچِہ پارہ 2 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہآیت نمبر 197میں ارشادِ ربُّ العباد ہوتا ہے:
وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘- (پ ۲، البقرہ۱۹۷)
تَرجَمَۂ کنزُالایمان: اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے۔
سُلطانِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ باقرینہ ہے:’’جو شخص لوگوں سے سُوال کرے حالانکہ نہ اُسے فاقہ پہنچا نہ اِتنے بال بچے ہیں جن کی طاقَت نہیں رکھتا تو قِیامت کے دِن اِس طرح آئے گا کہ اُس کے مُنہ پَر گوشت نہ ہوگا۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیْمان، ج۳،ص۲۷۴حدیث۳۵۲۶)
مدینے کے دیوانو!بس صَبر کیجئے ، سُوال کی مُمانعت میں اِس قَدَر اِہتمام ہے کہ فُقَہا ئے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام فرماتے ہیں : غُسل کے بعد اِحرام باندھنے سے پہلے اپنے بد ن پر خوشبو لگایئے بشرطیکہ اپنے پاس موجود ہو، اگر اپنے پاس نہ ہو تو کسی سے طلب نہ کیجئے کہ یہ بھی سُوال ہے۔ (رَدُّالمُحتار ج۳ص۵۵۹)
جب بُلایا آقا نے خود ہی انتِظام ہوگئے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال:بعض لوگ اپنے وطن سے رَمَضانُ المبارَک میں عُمرے کا وِیزا لے کر حَرَمَیْن طَیِّبَیْن زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًاجاتے ہیں ،وِیزا کی مُدَّت ختم ہو جانے کے باوُجُود وَہیں رہتے ہیں یاحج کر کے وطن واپَس جاتے ہیں اُن کا یہ فِعل شرعاً دُرُست ہے یا نہیں ؟
جواب: دُنیا کے ہر ملک کا یہ قانون ہے کہ بِغیر وِیزا کے کسی غیرملکی کو رُکنے نہیں دیا جاتا۔ حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا میں بھی یِہی قاعِدہ ہے۔ مُدَّتِ وِیزاخَتْم ہونے کے بعد رُکنے والا اگر پولیس کے ہاتھ لگ جائے ،تو اب چاہے وہ اِحْرام کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو اُسے قید کر
لیتے ہیں ، نہ اُسے عُمرہ کر نے دیتے ہیں نہ ہی حج، سزا دینے کے بعد ’’خُرُوج‘‘ لگاکر اُسے اُس کے وَطن روانہ کردیتے ہیں ۔یاد رہے ! جس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ذلّت ، رشوت اور جھوٹ وغیرہ آفات میں پڑنے کا اندیشہ ہو اُس قانون کی خلاف ورزی جائز نہیں ۔ چُنانچِہ میرے آقااعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِسنّت ، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :’’مُباح (یعنی جائز) صورَتوں میں سے بعض(صورَتیں ) قانونی طور پر جُرم ہوتی ہیں اُن میں مُلَوَّث ہونا (یعنی ایسے قانون کی خِلاف ورزی کرنا ) اپنی ذات کو اذیّت وذلّت کے لئے پیش کرنا ہے اور وہ ناجائز ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج ۱۷ ص۳۷۰)لہٰذا بِغیرvisaکے دنیا کے کسی مُلک میں رَہنا یا’’حج ‘‘کیلئے رُکنا جائز نہیں ۔ غیر قانونی ذرائِع سے ’’حج‘‘ کیلئے رُکنے میں کامیابی حاصِل کرنے کو مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اللّٰہ و رسول عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاکرم کہنا سخت بے باکی ہے۔
سُوال: حج کیلئے بِغیر visaرُکنے والا نَماز پوری پڑھے یا قصر کرے؟
جواب:عُمرے کے وِیزے پر جاکر غَیر قانونی طور پرحج کیلئے رُکنے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں visaکی مُدّت پوری ہونے کے بعد غیرقانونی رہنے کی جن کی نیّت ہو وہ ویزا کی مدّت ختم ہوتے وقت جس شہر یا گاؤں میں مُقیم ہوں وہاں جب تک رہیں گے اُن کیلئے مُقیم ہی کے اَحکام ہوں گے اگرچِہ برسوں پڑے رہیں ۔ البتّہ ایک بار بھی اگر92 کِلو میٹر یا اِس سے زیادہ فاصلے کے سفر کے ارادے سے اُس شہر یا گاؤں سے چلے تو اپنی آبادی سے باہَرنکلتے ہی مسافِرہوگئے اوراب اُن کی اِقامت کی نیّت بے کار ہے۔ مَثَلاً کوئی شخص پاکستان سے عُمرے کے VISA پر مکّۂ مکرَّمہ زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا گیا ، VISA کی مُدّت ختم ہوتے وَقت بھی مکّہ شریف ہی میں مُقیم ہے تو اُس پر مُقیم کے احکام ہیں ۔ اب اگر مَثَلاً وہاں سے مدینۂ منوَّرہ زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا آگیاتو چاہے برسوں غَیر قانونی پڑا رہے ، مسافِر ہی ہے ،یہاں تک کہ اگر دوبارہمکّۂ مکرّمہ زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا آجائے پھر بھی مسافِر رہے گا ، اس کو ’’نماز قَصر ‘‘ہی ادا کرنی ہو گی ۔ہاں دوبارہ VISA مل جانے کی صورت میں اِقامت کی نیّت کی جا سکتی ہے ۔
سُوال:حرم کے کبوتروں اور ٹِڈّیوں کو خوامخواہ اُڑا ناکیسا؟
جواب:اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حرم کے کبوتر اُڑانا منع ہے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ص۲۰۸)
سُوال:حرم کے کبوتروں اور ٹِڈّیوں ( تِرِڈّی) کو ستانا کیسا؟
جواب:حرام ہے۔ صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حرم کے جانور کو شکار کرنا یا اُسے کسی طرح اِیذا دینا سب کو حرام ہے۔ مُحرِم اور غیر مُحرِم دونوں اس حکم میں یکساں ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۸۶)
سُوال: مُحرم کبوتر ذَبح کرکے کھا سکتے ہیں ؟
جواب: بہارِ شریعت جلد اوّل صَفحَہ 1180پر ہی:مُحرِم نے جنگل کے جانور کو ذَبْح کیا تو حلال نہ ہوا بلکہ مُردار ہے، ذَبح کرنے کے بعد اُسے کھا بھی لیا تو اگر کفّارہ دینے کے بعد کھایا تو اب پھر کھانے کا کَفّارہ دے اور اگر نہیں دیا تھا تو ایک ہی کَفّارہ کافی ہے۔
سُوال: حَرَم کی ٹڈّی پکڑ کر کھا سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: حرام ہے۔ (ویسے ٹِڈّی حلال ہے، مچھلی کی طرح مری ہوئی بھی کھا سکتے ہیں اِس
کوذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی)
سُوال:مسجدُ الحرام کے باہَر لوگوں کے قدموں سے کُچل کر زخمی اور مری ہوئی بے شمار ٹِڈّیاں پڑی ہوتی ہیں اگر یہ ٹڈّیاں کھالیں تو؟
جواب: اگرکسی نے ٹِڈّیاں کھا لیں تو اُس پر کوئی کفّارہ نہیں کیونکہ َحرَم میں شکار ہونے والے اُس جانورکا کھانا حرام ہے جو شَرْعی طریقے سے ذَبْح کرنے سے حلال ہوتا ہو جیسے ہِرَن وغیرہ ۔ اور ایسے شکار کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ َحرَم میں شکار کرنے سے وہ جانور مُردار قرار پاتا ہے اور مُردار کا کھانا حرام ہے ۔ ٹِڈّی کا کھانا اِس لئے حلال ہے اس میں شَرْعی طریقے سے ذَبْح کرنے کی شَرْط نہیں ، یہ جس طرح بھی ذَبْح ہوجائے حلال ہے، جیسے پاؤں تلے روندنے سے یا گلا دبانے سے ماری جائے تب بھی حلال ہی رہتی ہے۔ البتّہ یہ یاد رہے کہ بالقَصد (اِرادۃً) ٹِڈّیاں شکار کرنے کی بَہرحال حُدُودِ حَرَ م میں اجازت نہیں ۔
سُوال: حرم کے خشکی کے جنگلی جانور کو ذَبح کرنے کا کَفّارہ بھی بتا دیجئے۔
جواب:اس کا کَفّارہ اِس کی قیمت صَدَقہ کرنا ہے۔ ([7])
سُوال: حَرَم کی مُرغی ذَبْح کرنا،کھانا کیسا؟
جواب:حلال ہے ۔گھریلو جانور مَثَلاًمُرغی، بکری، گائے ،بھینس ،اونٹ وغیرہ ذَبح کرنے، اوران کا گوشت کھانے میں کوئی حَرَج نہیں ۔مُمانَعَت خشکی کے وَحشی یعنی جنگلی جانور کے شکار کی ہے۔
سُوال: مسجدالحرام کے باہَر بَہُت ساری ٹِڈّیاں ہوتی ہیں اگر کوئی ٹِڈّی پاؤں یا گاڑی میں کُچل کرزخمی ہو گئی یا مر گئی تو؟
جواب: کَفّارہ دینا ہو گا ، بہارِ شریعت جلد اولصَفْحَہ1184 پر ہے:ٹِڈّی بھی خشکی کا جانور ہے، اُسے مارے تو کَفّارہ دے اور ایک کَھجور کافی ہے۔ صَفْحَہ 1181پر ہے :کَفّارہ لازِم آنے کے لیے قَصْداً (یعنی جان بوجھ کر) قتل کرناشَرْط نہیں بُھول چوک سے قتل ہوا جب بھی کَفّارہ ہے ۔
سُوال: مسجد الحرام میں بکثرت ٹِڈّیاں ہوتی ہیں ، خُدام صفائی کرتے ہو ئے وائپر وغیرہ سے بے دردی کے ساتھ گھسیٹتے ہیں جس سے زخمی ہوتیں ، مرتی ہیں ۔ اگر نہ کریں تو صفائی کی صورت کیا ہو گی ؟ اِسی طرح سنا ہے کبوتروں کی تعداد میں کمی کیلئے ان کو پکڑ کرکہیں دُور چھوڑ آتے یا کھاجاتے ہیں ۔
جواب:ٹِڈّیاں اگر اتنی کثیر ہیں کہ ان کی وجہ سے حَرَج واقع ہوتا ہے تو ان کے مارنے میں کوئی حَرَج نہیں ،اس کے علاوہ مارنے پر تاوان لازِم ہوگا، چاہے جان بوجھ کر ماریں یا غلَطی سے ماری جائیں ۔حَرَم کا کبوتر پکڑ کر ذَبْح کر دیا تو تاوان لازِم ہے یونہی حَرَم سے باہَر بھی چھوڑ آنے پر تاوان لازِم ہوگا، جب تک کہ ان کے اَمن کے ساتھ حَرَم میں واپَس آجانے کا عِلْم نہ ہو جائے۔دونوں صورَتوں میں تاوان اُس کبوتر کی قیمت ہے اور اس سے مُراد وہ قیمت جو وہاں پر اِس طرح کے مُعامَلات کی معرِفت و بصارت (یعنی جان پہچان و معلومات )رکھنے والے دوشَخْص بیان کریں اور اگر دو شخص نہ ملتے ہوں تو ایک کی بھی بات کا اعتِبار کیا جائے گا۔
سُوال: حَرَم کی مچھلی کھانا کیسا؟
جواب: مچھلی خشکی کا جانور نہیں ، اِسے کھا سکتے ہیں اورضَرورتاً شکار بھی کر سکتے ہیں ۔
سُوال: حَرَم کے چوہے کو مار دیا تو کیا کَفّارہ ہے؟
جواب: کوئی کَفّارہ نہیں اِس کومارنا جائز ہے۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صَفْحَہ 1183پرہے کوّا، چیل، بھیڑیا، بچّھو، سانپ، چوہا،گُھونس، چَھچُھوندر ، کَٹ کَھنّاکُتّا (یعنی کاٹ کھانے والا کُتّا)، پِسُّو، مچّھر، کِلّی،کَچھوا، کَیکڑا، پتنگا،
کاٹنے والی چِیونٹی، مکّھی، چھپکلی، بُر اور تمام حَشراتُ الارض(یعنی کیڑے مکوڑے) بِجُّو، لَومڑی، گِیدڑ جب کہ یہ دَرِندے حملہ کریں یا جو دَرِندے ایسے ہوں جن کی عادت اکثر ابتِدائً حملہ کرنے کی ہوتی ہے جیسے شَیر،چِیتا، تَیندوا(چیتے کی طرح کا ایک جانور) اِن سب کے مارنے میں کچھ نہیں ۔ یوہیں پانی کے تمام جانوروں کے قَتْل میں کَفّارہ نہیں ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال:حرم کے پیڑو غیرہ کاٹنے کے مُتَعلِّق بھی کچھ ہدایات دے دیجئے۔
جواب:دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت جلداوّل‘‘ صَفْحَہ 1189 تا 1190 سے چند مسائل مُلاحَظہ ہوں : حَرَ م کے دَرَخْتْ چار قسم ہیں :{۱}کسی نے اُسے بویا ہے اور وہ ایسا دَرَخت ہے جسے لوگ بویا کرتے ہیں {۲} بویا ہے مگر اس قسم کا نہیں جسے لوگ بویا کرتے ہیں {۳} کسی نے اسے بویا نہیں مگر اس قسم سے ہے جسے لوگ بویا کرتے ہیں {۴} بویا نہیں ، نہ اس قسم سے ہے جسے لوگ بوتے ہیں ۔ پہلی تین قسموں کے کاٹنے
وغیرہ میں کچھ نہیں یعنی اس پر جُرمانہ نہیں ۔ رہا یہ کہ وہ اگر کسی کی ملک ہے تو مالِک تاوان لے گا۔ چوتھی قسم میں جُرمانہ دینا پڑے گا اور کسی کی ملک ہے تو مالِک تاوان بھی لے گااور جرمانہ اُسی وَقت ہے کہ تر ہو اور ٹوٹا یا اُکھڑا ہوا نہ ہو۔ جرمانہ یہ ہے کہ اُس کی قیمت کا غلہ لے کر مساکین پر تصدق کرے، ہر مسکین کو ایک صَدَقہ اور اگر قیمت کا غلہ پورے صَدَقہ سے کم ہے تو ایک ہی مسکین کو دے اور اس کے لیے حَرَم کے مساکین ہو نا ضرور نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قیمت ہی تصدق کردے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قیمت کا جانور خرید کر حرم میں ذَبْح کردے روزہ رکھنا کافی نہیں ۔ مسئلہ ۳: جو دَرَخت سُوکھ گیا اُسے اُکھاڑ سکتا ہے اور اس سے نَفْعْ بھی اُٹھا سکتا ہے مسئلہ ۵: دَرَخْتْ کے پتّے توڑے اگر اس سے دَرَخت کو نقصان نہ پہنچا تو کچھ نہیں ۔ یوہیں جو دَرَخت پھلتا ہے اُسے بھی کاٹنے میں تاوان نہیں جب کہ مالِک سے اجازت لے لی ہو اُسے قیمت دیدیمسئلہ ۶: چند شخصوں نے مل کر دَرَخت کاٹا تو ایک ہی تاوان ہے جو سب پر تقسیم ہو جائے گا، خواہ سب مُحرِم ہوں یا غیر مُحرِم یا بعض مُحرِم بعض غیر مُحرِم۔ مسئلہ ۷: حَرَم کے پیلو یا کسی دَرَخت کی
مسواک بنانا جائز نہیں ۔ مسئلہ ۹: اپنے یا جانور کے چلنے میں یا خیمہ نصب کرنے میں کچھ دَرَخت جاتے رہے تو کچھ نہیں ۔ مسئلہ ۱۰: ضَرورت کی وجہ سے فتویٰ اس پر ہے کہ وہاں کی گھاس جانوروں کو چرانا جائز ہے۔ باقی کاٹنا، اُکھاڑنا، اس کا وہی حکم ہے جو دَرَخت کا ہے۔ سوا اِذخر اور سوکھی گھاس کے کہ ان سے ہر طرح انتفاع جائز ہے۔ کھمبی کے توڑنے، اُکھاڑنے میں کچھ مُضایَقہ نہیں ۔
سُوال:اگر کسی آفاقی نے میقات سے اِحْرام نہیں باندھا، مسجدِ عائشہ سے اِحْرام باندھ کر عمرہ کر لیا تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر مکّۂ مکرَّمہ زادَھُمَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْمًا کے اِرادے سے کوئی آفاقی چلا اور میقات میں بِغیر ِاحْرام داخِل ہو گیا تو اُس پر دم واجِب ہو گیا ۔ اب مسجِدِ عائشہ سے اِحْرام باندھنا کافی نہیں یا تو دم دے یا پھر میقات سے باہَر جائے اور وہاں سے عمرے وغیرہ کا اِحْرام باندھ کر آئے تب دم ساقِط ہو گا۔
قراٰن پاک |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
الایضاح فی مناسک الحج |
المکتبۃ الامدادیہ مکۃ المکرمہ |
تفسیر خزائن العرفان |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
البحر العمیق فی المناسک |
موئسسۃالریان بیروت |
بخاری |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
مسلک متقسط |
باب المدینہ کراچی |
ابو داوٗد |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
لباب المناسِک |
باب المدینہ کراچی |
ترمذی |
دار المعرفۃ |
فتاوٰی رضویہ |
رضافاونڈیشن مرکز الاولیاء لاہور |
نسائی |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
بہارِ شریعت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
ابن ماجہ |
دار الفکر بیروت |
فتاوٰی حج وعمرہ |
جمیعت اشاعت اہلسنت باب المدینہ کراچی |
ابو یعلی |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
احرام اور خوشبو دارصابن |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
معجم کبیر |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
اِحیاء العلوم |
دارصادر بیروت |
معجم اوسط |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
کشف المحجوب |
نوائے وقت پرنٹر مرکز الاولیاء لاہور |
مسندابوداود طیالسی |
دار المعرفۃ بیروت |
الشفاء |
مرکزاہل السنۃ برکات رضاہند |
شعب الایمان |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
المواہب اللدنیۃ |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
المنامات |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
بستان المحدثین |
باب المدینہ کراچی |
مسند اِمام شافعی |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
مثنوی |
الفیصل ناشران وتاجران کتب مرکز الاولیاء لاہور |
ابن عساکر |
دار الفکر بیروت |
اخبار الاخیار |
فاروقی اکیڈمیکمبٹ پاکستان |
جامع العلوم والحکم |
دار الکتب العلمیۃ |
جذب القلوب |
النوریہ الرضویہ پبلشنگ کمپنی مرکز الاولیاء لاہور |
درمختار |
دار المعرفۃ بیروت |
کتا ب الحج |
مکتبہ نعمانیہ ضیاء کوٹ |
ردالمحتار |
دار المعرفۃ بیروت |
ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
فتاوٰی عالمگیری |
دار الفکر بیروت |
وسائلِ بخشش |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی |
[1] ۔۔۔ بابُ السلام اور بابُ الرحمۃ سے مسجد نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخل ہوں تو سامنے والے سُتون مبارک پر غور سے دیکھیں گے تو سُنہری حرفوں سے’’نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَاف ‘‘ اُبھرا ہوا نظر آ ئے گا جو کہ عاشقانِ رسول کی یاد دہانی کے لئے ہے۔
[2] ۔۔۔ کہا جاتا ہے: پاک وہند دروازۂ کعبہ ہی کی سَمت واقع ہیں ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ ط وَاللّٰہُ تعالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
[3] ۔۔۔ وہ لڑکا یامَرد جس کو دیکھنے یا چھونے سے شَہوَت آتی ہو اِحرام ہو یا نہ ہو اس سے دُور رہنا لازمی ہے۔ اگرمُصافحہ کرنے یا اسے چُھونے یا اس کے ساتھ گفتگو کرنے سے شَہوَت بھڑکتی ہو تو اب اس کے ساتھ یہ افعال کرنے جائز نہیں ۔اس کی تفصیلی معلومات کیلئیدعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ رسالہ، ’’ قوم لوط کی تباہ کاریاں ‘‘ (45 صَفْحات)پڑھئے۔
[4] ۔۔۔ دعوتِ اسلامی کی مجلس’’ تحقیقاتِ شرعیہ نے امّت کی رہنمائی کیلئے اتِّفاق رائے سے یہ فتویٰ مُرتَّب فرمایا ، مزید تین مقتدر علماءِاہلسنّت (۱)مفتیٔ اعظم پاکستان علامہ عبدالقیوم ہزاروی (۲)شَرَفِ ملّت حضرت علامہ محمد عبد الحکیم شرفؔ قادری اور (۳) فیضِ مِلّت حضرت علامہ فیض احمد اُوَیسی (رَحِمَہُمُ اللہُ تَعالٰی)کی تصدیق حاصِل کی اور مکتبۃ المدینہ نے بنام ’’ اِحرام اور خوشبو دار صابن ‘‘یہ رسالہ شائع کیا ۔ تفصیلات کے شائقین اِسے حاصِل کریں یا دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net:پر مُلاحظہ فرمائیں ۔
[5] ۔۔۔ چار پہر یعنی ایک دن یا ایک رات کی مقدار مَثَلاً طُلوعِ آفتاب سے غُروبِ آفتاب یا غُروبِ آفتاب سے طُلوعِ آفتاب یا دوپَہَر سے آدھی رات یا آدھی رات سے دوپَہَر تک۔ (حاشیہ اَنور البِشارہ مع فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ، ج۱۰ ,ص ۷۵۷ )
[6] ۔۔۔ جرم غیر اختیاری کا مسئلہ صفحہ260 پر مُلاحَظہ فرمایئے۔
[7] ۔۔۔ کفّارے کے تفصیلی اَحکام مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت ج ۱ ص 1179پر مُلاحَظہ فرمایئے بلکہ صفحہ 1191 تک مُطالَعہ کر لیجئے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّوہ ضَروری مسائل جاننے کو ملیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔