اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

کچھ اس رسالے کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔

           عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ کے رمضان ہال میں ۶جُمادَی الْاُخرٰی ۱۴۳۳ھ (28.4.12)جمعے ا ور ہفتے کی درمیانی شب الیکڑانک میڈیا او ر پیپر میڈیا کے صَحافیوں اور دیگرمتعلقین کا مَدَنی مذاکرہ ہوا جورات گئے تک جاری رہا، ایک صحافی نے مَدَنی مذاکرے میں جبکہ ایک اور نے مَدَنی چینل کو دیئے جانے والے تأثُّرات میں (جسے مَدَنی چینل پر دی جانے والی دعوتِ اسلامی کی ’’مَدَنی خبریں ‘‘ کے اندر میں نے اپنی قیام گاہ پر سُنا) صَحافت کے حوالے سے رہنمائی سے متعلق رِسالہ شائع کروانے کا مطالبہ کیا۔ میرا بھی پہلے ہی سے رِسالہ پیش کرنے کا ذِہن تھا اور اس ضِمْن میں میر ے پاس سوالاً جواباً کافی مواد موجود  تھا ، جو کہ بنام ’’اَخبار کے بارے میں سُوال جواب‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اِس کے مُؤلّف و علمائے مُفَتِّشین کو جزائے خیر عطافرمائے اور صَحافیوں ، اَخبار بینوں اور جملہ مسلمانوں کی دنیا وآخرت کیلئے نفع بخش بنائے۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

طالبِ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کا پڑوس

۶شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ

2012-6-27

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!        صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 

 

 اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

اخبار کے بارے میں سوال جواب

شیطٰن لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ پورا پڑھ لیجئےاِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ گناہوں سے بچنے کا ذہن بنے گا۔

دُرُود شریف کی فضیلت

      مدینے کے سُلطان، رَحمت ِعالَمِیان، سَرورِ ذیشان، مَحبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عَظَمت نشان ہے:جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے مجھ پر کثرت سے دُرُود پڑھنا چاہئے کیونکہ مجھ پر  دُرُودپڑھنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے والا ہے ۔(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص ۴۱۴،بستان الواعظین للجوزی ص۲۷۴)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صَحافت کی تعریف

سُوال :’’ صَحافت‘‘کی کیا تعریف ہے ؟

جواب : صَحافت کا لَفْظ  ’’ صَحیفہ‘‘  سے نکلا ہے جس کے لُغوی معنٰی ہیں ’’ کتاب یا رِسالہ ‘‘ ۔

 بَہَرحال عَمَلاًایک عرصۂ درازسے ’’صَحِیفہ‘‘سے مُراد ایسا مطبوعہ مَواد ہے جو مقرّرہ وقفوں کے بعد شائِع ہوتا ہے چُنانچِہ اِس مَفہوم میں ’’اخبار‘‘اور’’ماہناموں ‘‘ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ’’صَحافت‘‘، کسی بھی مُعامَلے کے بارے میں تحقیق اور پھر اُسے صَوتی، بَصری( یعنی سننے ، دیکھنے) یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارِئین(یعنی پڑھنے والے)، ناظِرین یا سامِعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

موجودہ صَحافت کی دوقِسمیں

سُوال :صَحافت کی کتنی قِسمیں ہیں ؟

جواب :آج کل صَحافت دو حصّوں میں مُنْقَسِم ہے :(۱) پرنٹ میڈیایعنی طَباعتی و اشاعَتی ذرائع اِبلاغ۔اخبارات ،رسائل وغیرہ(۲) الیکٹرانک میڈیا۔یعنی برقی ذرائع اِبلاغ ۔ ریڈیو ۔ٹی وی۔انٹر نیٹ وغیرہ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دُنیا کاسب سے پہلا اخبار

سُوال : کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ دُنیا میں سب سے پہلا اخبار کہاں سے اور کون سا نکلا؟

جواب :اَخبار کی تاریخ بَہُت پُرانی ہے ،ایک اندازے کے مطابق   104؁ء میں چین


 

کے اندر کاغذ کی اِیجاد ہوئی ،سب سے پہلا چھاپہ خانہ (Printing Press)وہیں بنا اورایک تحقیق کے مطابِق سب سے پہلا مطبوعہ اخبار بھی چین ہی میں بَنام ’’گزٹ ٹی پاؤ‘‘ ( یعنی مَحَل کی خبریں ) جاری ہوا۔ بَرِّعظیم پاک وہند کے پہلے اردو اخبار کا نام ’’جامِ جہاں نُما ‘‘ہے جس کا سنِ اشاعت مارچ 1822ء ہے ۔وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خودکُشی کی خبریں

سُوال :سنا ہے آپ ’’خودکُشی‘‘ کی وارِدات کی خبر اخبار میں شائِع کرنے سے اختِلاف رکھتے ہیں ؟

جواب : مَع نام و پہچان خو د کُشی کرنے والے مسلمان کی خبر کی اشاعت چُونکہ خلافِ شریعت ہے اِس لئے اِس انداز پر آنے والی خبرسے اِختِلاف ہے ۔ اِس ضِمْن میں تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، ’’دعوتِ اسلامی ‘‘ کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 505 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘ صَفْحَہ 192 کا اِقتِباس مُلاحَظہ ہو :فوت شدہ لوگوں کی بُرائی کرنا بھی غیبت ہے، بعض اَوقات بڑا صَبْر آزما مُعامَلہ ہوتا ہے ۔ مَثَلاً ڈاکو، دَہشت گرد، اپنے عزیز کے قاتل وغیرہ قتل کر دیئے جائیں یا انہیں پھانسی لگا دی جائے توکئی لوگ(مَقْتُولین کی بے سبب مَذَمّت کر کے) غیبت کے گناہ میں پڑ ہی جاتے ہیں ۔  اِسی طرح خود کُشی کرنے والے

مسلمان کے بارے میں بِلا اجازتِ شَرْعی یہ کہدینا کہ ’’ فُلاں نے خود کُشی کی ‘‘ یہ غیبت ہے ۔لہٰذانام و پہچان کے ساتھ کسی مسلمان کی خود کُشی کی اخبار میں خبر بھی نہ لگائی جائے کہ اس سے مرنے والے کی غیبت بھی ہوتی اور اس کے ساتھ ساتھ مرحوم کے اَہْل وعِیال کی عزّت پر بھی بٹّا لگتا ہے۔ (اور اگر خبر لگائی مَثَلاً ’’ فُلاں نے فُلاں کو قَتْل کر کے‘‘ یا’’ جُوا میں بڑی رقم ہار کر خود کشی کر لی۔‘‘تو ایسی خبر سے مرحوم کے خود کُشی کرنے سے قبل کا عیب بھی کُھلتا ہے جو کہ خبر لگانے والو ں کے حق میں دو غیبتوں یعنی گناہ دَر گناہ کا باعِث بنتا ہے۔ بلکہ اِس طرح کی خبروں کی اشاعت سے مَعَاذَ اللہ گناہوں اور عذابوں کی کثرت کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے کیوں کہ اخبار کے ذَرِیعے ایسی خبریں ہزاروں ، لاکھوں افراد تک پہنچتی ہیں ۔ وَالعِیاذُ بِاللہِ تعالٰی) ہاں ، اِس انداز میں تذکِرہ کیا(یا اخبار میں خبر لگائی )کہ پڑھنے یا سننے والے خود کشی کرنے والے کو پہچان ہی نہ پائے کہ وہ کون تھا تو حَرَج نہیں مگر یہ ذِہْن میں رہے کہ نام نہ لیا مگر گاؤں ، مَحَلّہ ، برادری، اوقات ،خود کشی کا (سبب و)اندازوغیرہ بیان کرنے سے خود کُشی کرنے والے کی شناخت ممکن ہے، لہٰذا پہچان ہو جائے اِس انداز میں تذکِرہ بھی غیبت میں شمار ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان خودکُشی کرنے سے اسلام سے خارِج نہیں ہو جاتا اِس کی نَمازِ جنازہ بھی ادا کی جائے گی ،اِس کیلئے(ایصالِ ثواب اور) دعائے مغفِرت بھی کریں گے۔ مرنے والے مسلمان کو(خواہ اُس نے خود کُشی ہی کی ہو) بُرائی سے

یاد کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں ۔اِس ضِمْن میں دوفَرامَینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مُلاحَظہ ہوں :{1}اپنے مُردوں کو بُرا نہ کہو کیونکہ وہ اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال کو پَہُنچ چکے ہیں ۔ (بُخاری  ج۱ص۴۷۰ حدیث ۱۳۹۳)  {2}اپنے مُردوں کی خوبیاں بیان کرو اور ان کی بُرائیوں سے باز رہو۔      ( تِرمِذی ج۲ص ۳۱۲حدیث ۱۰۲۱)حضرتِ علّامہ محمد عبد الرّء ُوف مَناوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الھادِیلکھتے ہیں : مُردے کی غیبت زِندے کی غیبت سے بدتر ہے ،کیونکہ زندہ شخص سے مُعاف کروانا ممکن ہے جبکہ مُردہ سے مُعاف کروانا ممکن نہیں ۔ (فَیْضُ الْقَدِیر لِلْمناوِی ج۱ص۵۶۲تَحتَ الْحدیث۸۵۲)

پہلوؤں سے گوشت کاٹ کرکھلانے کا عذاب

              پیارے صَحافی اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلغیبت کی نُحُوست سے ہم سبھی کی حفاظت فرمائے۔ اٰمین۔جب کسی ایک فردکے سامنے غیبت کرنا بھی آخِرت کیلئے تباہ کُن ہے تو اُن اخباروں کے ذمّے داروں کا کیا انجام ہو گا جو کہ گھر گھر غیبتیں پہنچاتے اور لاکھوں لاکھ افراد کو غیبتوں بھری خبریں پڑھاتے ہیں ! خدارا!کبھی اپنی ناتُوانی پر تنہائی میں غور کیجئے کہ ہماری حالت تو یہ ہے کہ معمولی خارِش بھی برداشت نہیں ہوتی ، ناخُن کا معمولی چَرکا( یعنی ہلکا ساچِیرا) بھی سہا نہیں جاتا تو اگر غیبت کر کے بِغیر توبہ کئے مر گئے اور عَذابِ الٰہی میں پھنس گئے تو کیا


 

بنے گا! غیبت کے مختلف ہولناک عذابات میں سے ایک عذاب مُلاحَظہ ہو، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے: جس رات مجھے آسمانوں کی سَیر کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پہلوؤں سے گوشت کاٹ کر خُود اُن ہی کوکِھلایا جا رہا تھا ۔ ا نہیں کہا جاتا ،کھاؤ ! تم اپنے بھائیوں کا گوشت کھایا کرتے تھے ۔ میں نے پوچھا : اے جبرئیل یہ کون ہیں ؟ عرض کی: یہ لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔ (دَلائِلُ النُّبُوَّۃ  لِلْبَیْہَقی ج ۲ ص ۳۹۳ ،تَنبِیہُ الغافِلین   ص ۸۶)وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی

(وسائلِ بخشش ص۶۶۷)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خودکُشی میں ناکام رہنے والوں کی خبریں

سُوال :خودکشی کی ناکام کوشش کرنے والوں کی خبروں کے متعلِّق آپ کیا کہتے ہیں ؟

جواب :بِلا مَصلَحتِ شَرْعی نام و پہچان کے ساتھ کسی مسلمان کی ایسی خبر شائِع کرنا گناہ ہے کہ یقیناً اِس میں نہ صِرْف ایک مسلمان کی بلکہ اُس کے سارے خاندان کی رُسوائی اور بدنامی کا سامان ہے ۔ پیشگی معذِرت کے ساتھ عرض ہے : اللہ نہ کرے آپ میں سے کسی صَحافی یا اخبارکے مالِک یا مُدیر  یا کسی T.V.چینل کے ڈائریکٹر


 

کے گھر میں  خود کُشی کی کوئی(کامیاب یا) ناکام ’’وارِدات‘‘ ہوجائے توو ہ کیا کرے گا؟ یقینا آپ فرمائیں گے کہ وہ یہ سانِحہ چُھپانے اور اِس کی خبرِ وَحْشت اثر کی اشاعت رُکوانے کے لیے اپنا پورا زور صَرف کردیگا!دنیامیں عزّت اور آخِرت میں جنّت کے طلبگار پیارے صحافیو! اِسی تناظُر میں آپ کو دوسرے مسلمانوں کی عزّت کابھی سوچنا چاہئے۔’’بخاری شریف‘‘ میں ہے: حضرت سیِّدُناجَریر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں :’’ میں نے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نماز پڑھنے ،زکوۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔‘‘( بُخاری ج ۱ ص ۳۵  حدیث ۵۷) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہفرماتے ہیں : ’’ ہر فردِاسلام کی خیرخواہی (یعنی بھلائی چاہنا )  ہرمسلمان پر فرض ہے ۔‘‘(فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص ۴۱۵) مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ  الحَنّان فرماتے ہیں :جس مسلمان کی غیبت کی جا رہی ہو، اُس کی عزت بچانے والے کو فرشتہ پلْ صراط پر پروں میں ڈھانپ کر گزارے گا تا کہ دوزخ کی آگ کی تپش اُس تک نہ پہنچ پائے۔(مراٰۃ ج۶ ص ۵۷۲ ملخصاً)  وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔   

غمِ حیات ابھی راحتوں میں ڈھل جائیں

تری عطا کا اشارہ جو ہوگیا یاربّ

(وسائلِ بخشش ص ۹۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مارے جانے والے ڈاکوؤں کی مَذَمَّت

سُوال :آپ نے’’ غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘ کے اِقتِباس میں تو ڈاکوؤں ،دہشت گردوں وغیرہ جِنہوں نے لوگوں کا سُکون برباد کرکے رکھ دیا ہے اُن کے قتل ہوجانے یا پھانسی لگ جانے کے بعد ان کی بھی مَذَمَّت کرنے سے مَنْع کردیا !

جواب :میں نے ہر صورت کومَنْع نہیں کیا اور نہ ہی اپنی طرف سے مَنْع کیا،صِرْف حکمِ شریعت بیان کیا ہے،جو مسلمان واقِعی چور یا ڈاکوتھے اور اپنے کیفرِ کردارکو پَہُنچ گئے اب ہو سکے تواُن کیلئے دُعائے مغفِرت کی جائے، اُن کوبِغیر صحیح مقصد کے ہرگز بُرا بھلا نہ کہا جائے کہ احادیثِ مبارَکہ میں اپنے مُردوں کو بُرائی کے ساتھ یاد کرنے کی مُمانَعَت ہے،بلکہ وہ زندہ ہوں اُس وَقت بھی بِلا مَصلَحتِ شَرْعی انہیں بُرا بھلا کہنے کی اِجازت نہیں ،مذَمَّت کی مُتَعَدَّد صورَتوں میں سے بعض ناجائز صورَتیں ہمارے زمانے میں یہ بھی ہیں کہ مَحض ٹائم پاس کرنے، گپیں مارنے ،بُرائی بیان کرنے یامَحض ایک خبر بنانے کے طور پر مذکورہ بالا افراد کو بُرا کہاجاتا ہے، ہاں ،اخبار والے اگر اِس نیّت سے ایسوں کی مذمَّت بھری خبر چھاپیں تا کہ ان کے انجام سے مسلمانوں کو عبرت حاصِل ہو تو جائز بلکہ کارِ ثواب ہے۔ وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔   

وہ اِس وَقْت جنّت کی نَہروں میں غوطے لگا رہاہے

       دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُالمدینہ کی مطبوعہ 505 صَفْحات پر مشتمل کتاب،


 

’’ غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘ صَفْحَہ191پر’’ سُنَنِ ابوداوٗد‘‘ کے حوالے سے مَرقوم ہے : حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :  ماعِزاَسْلَمیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو جب رَجم کیا گیا تھا،(یعنی زِنا کی ’’حد‘‘ میں اِتنے پتّھر مارے گئے کہ وفات پا چکے تھے) دو شخص آپَس میں باتیں کرنے لگے، ایک نے دوسرے سے کہا: اسے تو دیکھو کہ اللہ عَزَّوَجَل نے اس کی پردہ پوشی کی تھی مگر اس کے نَفْس نے نہ چھوڑا ، رُجِمَ رَجْمَ الْکَلْبِ یعنی کُتّے کی طرح رَجْم کیا گیا۔حُضُورِ پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سن کرسُکُوت فرمایا (یعنی خاموش رہے)۔کچھ دیر تک چلتے رہے، راستے میں مَرا ہوا گدھا ملا جو پاؤں پھیلائے ہوئے تھا۔ سرکارِ والا تبار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان دونوں شخصوں سے فرمایا: جاؤ اِس مُردار گدھے کا گوشت کھاؤ۔ انھوں نے عرض کی: یا نبیَّ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اِسے کون کھائے گا! ارشاد فرمایا: وہ جو تم نے اپنے بھائی کی آبروریزی کی، وہ اس گدھے کے کھانے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ قسم ہے اُس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ (یعنی ماعِز ) اِس وَقت جنَّت کی نَہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔( ابوداوٗد ج۴ ص۱۹۷حدیث ۴۴۲۸ ) وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔   

تُو مرنے والے مسلماں کو مت بُرا کہنا

’’ تُو بے حساب، اسے بخش، یاخدا‘‘ کہنا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

چورڈاکو کی گرفتاری کی خبریں دینا

سُوال : جو چور یا ڈاکو پکڑے گئے اخبار میں ان کی خبر لگانے کے متعلِّق آپ کیا کہتے ہیں ؟

جواب :اوّل تو یہ دیکھ لیا جائے کہ جو پکڑے گئے وہ واقِعی چور یا ڈاکو ہیں بھی یا نہیں ! بہارِ شریعت جلد2 صَفْحَہ 415پرمسئلہ نمبر2ہے:’’چوری کے ثُبُوت‘‘ کے دو طریقے ہیں : ایک یہ کہ چور خود اقرار کرے اور اِس میں چند بار کی حاجت نہیں صِرْف ایک بار(کا اقرار) کافی ہے دوسرا یہ کہ دومَرد گواہی دیں اور اگر ایک مرد اور دو عورَتوں نے گواہی دی توقَطْع(یعنی ہاتھ کاٹنے کی سزا) نہیں مگر مال کا تاوان دلایا جائے اور گواہوں نے یہ گواہی دی کہ (ہم نے چوری کرتے نہیں دیکھا فَقَط) ہمارے سامنے(چوری کا) اقرار کیا ہے تو یہ گواہی قابلِ اِعتِبار نہیں ۔ گواہ کا آزاد ہوناشَرْط نہیں (یعنی غلام کی گواہی بھی یہاں مقبول ہے ) ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج ۶ ص ۱۳۸) دُوُم یہ کہ پکڑے جانے والوں کی خبر لگانے میں مَصلَحتِ شَرْعی دیکھی جائے ۔ عُمُوماً خبریں لگانے میں کوئی صحیح مقصد پیشِ نظر نہیں ہوتا نیزشَرْعی ثُبُوت کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی بس یوں ہی ’’ خبر برائے خبر‘‘چھاپنے کی ترکیب کر دی جاتی ہے، جبھی تو بارہا ایسا ہوتا ہے کہ جس کو بطورِ ’’مجرِم‘‘ اخباروں میں خوب اُچھالا گیا بعد میں وہی ’’باعزّت بَری‘‘ بھی ہو گیا! تو جس کا چور، ڈاکو، خائن یا ٹھگ (Cheater) وغیرہ ہوناشَرْعاً ثابِت نہ ہو اُس کو ’’مجرِم‘‘ قراردینا ہی گناہ ہےچہ جائیکہ اُسے اخبار میں بطورِ مجرِم مُشتَہَرکرکے لاکھوں لوگوں میں ذلیل وخوار کر دینا! یقیناً


 

 یہ ایک بَہُت بڑا گناہ ہے اور اس میں اُس مسلمان بلکہ اُس کے پورے خاندان کی سخت بے عزّتی اورشدید اِیذا و دل آزاری کاسامان ہے۔

تُونے چوری کی(حکایت)

            پیارے صَحافی اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَل آپ کی اورمیری آبرو محفوظ رکھے، پاک پَروَرْدگار عَزَّوَجَل ہمیں چوری کرنے اور کسی مسلمان پر چوری کا الزام دھرنے سے بچائے۔اٰمین۔بے سوچے سمجھے سُنی سُنائی بات میں آکر کسی مسلمان کو چور کہنا یا لکھ دینا آسان نہیں ۔اِس ضِمْن میں مسلم شریف کی روایت مُلاحَظہ ہو: چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اللہ کے مَحْبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکافرمانِ عالی شان ہے: حضرتِ عیسیٰ ابنِ مریم نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو اُس سے فرمایا : ’’سَرَقْتَ‘‘ یعنی ’’ تو نے چوری کی۔‘‘ وہ بولا: ’’ ہرگز نہیں ، اُس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ‘‘ تو (حضرتِ) عیسیٰ نے فرمایا:اٰمَنتُ بِاللہِ وَ کَذَّبْتُ نَفْسِیْ۔ یعنی میں اللہ عَزَّوَجَل پر ایمان لایا اور میں نے اپنے آپ کو جُھٹلایا ۔ ( مُسلِم ص ۱۲۸۸ حدیث  ۲۳۶۸ ) مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان  عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ  الحَنّان اُس قَسَم کھانے والے کو چھوڑدینے کےمُتَعَلِّق حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ  اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : یعنی اِس


 

قَسَم کی وجہ سے تجھے سچّا سمجھتا ہوں کہ مومِن بندہ اللہ (عَزَّوَجَل) کی جھوٹی قسم نہیں کھاسکتا، (کیونکہ)اُس کے دل میں اللہ کے نام کی تعظیم ہوتی ہے، اپنے مُتَعَلِّق غَلَط فَہمی کا خیال کر لیتا ہوں کہ میری آنکھوں نے دیکھنے میں غَلَطی کی ۔ (مِراٰۃ ج ۶ ص ۶۲۳ )  اور امام نَوَوی رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ اس حدیث کے تَحْت فرماتے ہیں :’’ کلام کا ظاہر یہ ہے کہ میں نے اللہ تَعَالٰی کی قسم کھانے والے کی تصدیق کی اور اُس کا چوری کرنا جو میرے سامنے ظاہِر ہوا ، میں نے اِس کو جُھٹلایا ۔ (وضاحت یہ ہے کہ)شاید اُس شخص نے وہ چیز لی تھی جس میں اس کا حق تھا یا اِس نے غَصْب کا قَصْد نہیں کیا تھا یا حضرتِ عیسیٰعَلَيْهِالصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو ظاہِری طور پر یوں محسوس ہوا کہ اُس شخص نے ہاتھ بڑھا کر کوئی چیز لی (یعنی چُرائی) ہے لیکن جب اس نے حَلَف لیا(یعنی قسم کھائی) تو آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے اپنا گمان ساقِط کردیا اور اس گمان سے رُجوع کر لیا ۔‘‘(شرح مسلم للنووی ج۸ص۱۲۲) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

ہے مومِن کی عزّت بڑی چیز یارو!

بُرائی سے اس کو نہ ہرگز پکارو

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

گرفتار شُدہ چور کی خبر لگانا کیسا؟

سُوال : جو شخص بطورِ چور یا ڈاکو شَناخْتْ کرلیا گیا ہو اُس کی خبر اخبار میں لگائی جاسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب :شَرْعی ثُبُوت حاصل ہوجانے کی صورت میں بھی یہ غور کرلیجئے کہ اس کی خبر اخبار میں ’’خبر برائے خبر‘‘ چھاپ رہے ہیں یا کوئی اچّھی نیّت بھی ہے! مَثَلاً بطورِ چور مُشتَہَر ہونے پر اُس کی ہونے والی ذِلّت سے دوسرے لوگ عبرت حاصِل کریں نیز آیَندہ کیلئے اس بدکام سے مُحتاط بھی ہوجائیں اِس نیّت سے چوری کی خبر کی اِشَاعَت کی جاسکتی ہے ۔ چور اگر چِہ بَہُت بُرا بندہ ہے مگر بِغیر کسی شَرْعی مصلَحت کے اُس  کی تذلیل و تشہیر جائز نہیں ، کیوں کہ چور ہونے کے باوُجُود بَحَیثِیَّتِ مسلمان اس کی حُرمت باقی ہے۔ہاں جتنی شریعت کی طرف سے تشہیر وتذلیل کی اجازت ہے اُتنی کی جاسکتی ہے ،اس سے زائد نہیں یعنی یہ نہیں کہ ابمَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّجس کی مرضی ہو جب چاہے غیبت کرتا رہے! فی زمانہ اخبار والوں کے پاس شَرْعی ثُبُوت کی اطِّلاع کے مُعتَمَد(یعنی قابلِ اعتِماد) ذرائِع ہوتے ہیں یا نہیں اِس کو صحافی صاحبان خوب سمجھ سکتے ہیں ۔نیز جس انداز میں اور جس ترکیب سے خبریں لیتے ہیں اس میں یہ بھی غورکیا جائے کہ قانون کی رُو سے اِس کی اجازت بھی ہے یا نہیں ۔ہر مسلمان کی اپنی اپنی جگہ عزّت و حُرمَت ہے، سبھی کو چاہئے کہ احتِرامِ مسلم کا لحاظ رکھیں ۔ سُنَنِ اِبنِ ماجہ میں ہے : خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحمَۃٌ لّلْعٰلمینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ


 

نے کعبۂ معظمہ سے مخاطِب ہو کر ارشاد فرمایا : مومِن کی حُرمت (یعنی عزّت و آبرو) تجھ سے زِیادہ ہے۔ ( اِبن ماجہ ج۴ ص۳۱۹ حدیث ۳۹۳۲)

چو ر سے بڑھ کر مُجرِم

جس کے یہاں چوری ہوئی اُس کو بھی چاہئے کہ خوامخواہ ہر ایک پر شُبہ کرتا اور تہمت دھرتا نہ پھرے جیسا کہ آ ج کل اکثر ایسا ہو رہاہے مَثَلاً گھرمیں کوئی چیز چوری ہو جاتی ہے تو کبھی بے قُصُور بہو مُتَّہم (مُت۔تَ۔ھَم) ہوتی یعنی تُہمت کی زَد میں آتی ہے تو کبھی بھاوَج کی شامت آتی ہے یا گھر کے نوکر پر بجلی گرائی جاتی ہے حالانکہ کسی کے بارے میں شَرْعی ثُبُوت تو درکَناربسا اوقات کوئی واضِح قرینہ بھی نہیں ہوتا ! لہٰذا سبھی کو اِس روایت سے عبرت حاصِل کرنی چاہئے جیسا کہ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: وہ شخص جس کا مال چوری ہوا، ہمیشہ تُہمت (لگانے) میں رہیگا یہاں تک کہ وہ چور سے( بھی) بڑا مجرِم بن جائے گا۔( فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص۱۰۹، شُعَبُ الْاِیمان ج۵ ص۲۹۷ حدیث۶۷۰۷)وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

سنوں نہ فُحش کلامی نہ غیبت وچغلی

تری پسند کی باتیں فَقَط سنا یاربّ

(وسائلِ بخشش ص۹۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مُلزَم کا نام چھاپنا کیسا؟

سُوال:جو مُلزَم پکڑے جاتے ہیں اُن کے نام مَع پہچان اخبار میں چھاپے جا سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب:یہاں غیبت کے جوازکی عُمومی شرائط کے ساتھ دو باتیں اورہیں ،اَوَّلاً یہ کہ محض الزام نہ ہو بلکہ ثُبُوت ِشَرْعی ہو یعنی اس کا مجرِم ہونا قانوناً ثابِت ہوچکا ہو، دوسرا یہ کہ جُرم ایسا ہو کہ اس کی تَشْہِیر سے عوامُ النّاس کو فائدہ ہو ،یعنی جیسے بعض اوقات محض ذاتی مُعامَلات ہوتے ہیں اور ان پر گرفتاری ہوجاتی ہے ، اِن مُعامَلات کا عوام کے ساتھ کوئی تعلُّق نہیں ہوتا تو ان کی تشہیر کی ہرگز اجازت نہیں ۔ مذکورہ بالا تفصیل سے واضِح ہوگیا کہ بعض صورتوں میں اخبار میں نام مع پہچان دینے کی اجازت ہے اور بعض میں نہیں کیونکہ اس سے ان کو اور ان کے خاندان والوں کو سخت اَذِیَّت ہو گی۔ کسی کی گرفتاری اگرظُلماً محض خانہ پُری یا کسی انتِقامی کاروائی کے ضِمْن میں کی گئی ہو تب تو گرفتاری بھی سخت گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔اور گرفتاری کاحُکم جاری کرنے والا،گرفتار کرنے والا وغیرہ جو بھی اُس مظلوم کی گرفتاری میں جان بوجھ کر شریک ہوئے سبھی گنہگار اور عذابِ نار کے حقدار ہیں ۔ نیز  ضابِطۂ تعزیراتِ پاکستان کی دَفْعات 499 سے502کے تَحْت ’’یہ لوگ خود قابلِ گرفتاری مجرِم‘‘ ٹھہرتے ہیں ۔

مسلمان کی بے عزَّتی کبیرہ گناہ ہے

         دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبعہ 504 صَفْحات

پر مشتمل کتاب ، ’’غیبت کی تباہ کاریاں ‘‘ صَفْحَہ58تا59کا ایک لرزہ خیز اِقتِباس مُلاحَظہ ہو جو کہ خوفِ خدا رکھنے والوں کیلئے نہایت ہی عبرت انگیز ہے چُنانچِہ رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لالصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عالیشان ہے: بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزَّتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔( ابوداوٗد  ج۴ ص۳۵۳حدیث۴۸۷۷)

خدا و مصطَفٰے کو ایذا دینے والا

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کامُحافِظ ہے مگر افسوس! ایسا نازُک دَور آ گیا ہے کہ اب اکثر مسلمان ہی دوسرے مسلمان بھائی کی عزّت کے پیچھے پڑا ہوا ہے جی بھر کر غیبتیں کررہا ہے اور چُغلیاں کھا رہا ہے ، بِلا تکلُّف تہمتیں لگا رہا ہے ، بِلا وجہ دل دُکھا رہا ہے، دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ رسالے، ’’ ظلم کا انجام‘‘ صَفْحَہ19تا20پر ہے:حُقُوقُ الْعِباد کامُعامَلہ بڑا نازُک ہے مگر آہ! آج کل بے باکی کا دَور دَورہ ہے، عوام توکُجا خواص کہلانے والے بھی عُمُوماً اِس کی طرف سے غافِل رہتے ہیں ۔غصّے کا مَرَض عام ہے اِس کی وجہ سے اکثر’’ خواص‘‘ بھی(بلا اجازتِ شَرْعی) لوگوں (کوایک دم جھاڑ دیتے اور ان)  کی دل آزاری کر بیٹھتے ہیں او ر اِس کی طرف ان کی بالکل توجُّہ نہیں ہوتی کہ


 

کسی مسلمان کی بِلاوجہِ شَرعی دل آزاری گناہ وحرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفتاوٰی رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 342 پر طَبَرانِی شریف کے حوالے سے نَقْل کرتے ہیں : سلطانِ دو جہانصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عبرت نشان ہے: مَنْ  اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ  اٰذَانِیْ  وَمَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللہ۔(یعنی) جس نے (بِلاوَجہِ شَرْعی ) کسی مسلمان کو اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اُس نےاللہ عَزَّوَجَلَّکو ایذا دی۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَطج۲ ص۳۸۷ حدیث ۳۶۰۷)اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینے والوں کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پارہ22سُوْرَۃُ الْاَحْزَابآیت 57 میں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷)

ترجَمۂ کنزالایمان:بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ( عَزَّوَجَلَّ)اور اس کے رسول کو ان پر اللہ(عَزَّوَجَلَّ)کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ( عَزَّوَجَلَّ)نے ان کے کئے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔  وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

گناہ بے عدد اور جُرم بھی ہیں لاتعداد

کرعَفو سہ نہ سکوں گا کوئی سزا یاربّ

(وسائلِ بخشش ص۹۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دہشت گردی کی وارِدات کی خبر چھاپنے کے نقصانات

سُوال: دَہشت گردی کی وارِداتوں کی خَبریں چھاپنے کے مُتَعلِّق آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب :اگر میری ذاتی رائے معلوم کرنا مقصود ہے تو عَرْض ہے کہ دہشت گردی کی وارِداتوں کی خبریں چھاپنے میں کوئی بھلائی نہیں ، اُلٹا مُتَعَدَّد نقصانات ہیں مَثَلاً اِس سے خواہ مخواہ خوف و ہِراس پھیلتا ہے، نیز جذباتی اور مُجرِمانہ ذِہنیَّت کے کئی نادان انسان مار دھاڑ پر اُتر آتے ،خوب اَسْلَحَہ چلاتے،گولیاں برساتے، مکانوں ا ور دُکانوں ، بسوں اور کاروں وغیرہ کی توڑ پھوڑ مچاتے، گاڑیاں جلاتے، لوٹ مار مچاتے اور اپنے وطنِ عزیز کی اِملاک نَذْرِ آتَش کرکے درحقیقت اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑے چلاتے ہیں اوریوں دَہشت گردوں کی مَیلی مُرادیں بر آتی ہیں کہ اکثر دہشت گردی کے ذَرِیعے ان کا مقصد ہی بداَمْنی پھیلانا ہوتا ہے اورستم ظریفی یہ ہے کہ بعض ذرائِعِ اِبلاغ خوب مِرْچ مسالے لگا کر تخریب کاریوں کی خبریں چمکا کر اِس مُعامَلے میں دہشت گردوں کے خواہی نخواہی مُعاوِن ثابِت ہوتے بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر گویا مددگار بنتے ہیں اورقرائِن سے ایسا لگتا ہے کہ دو چارعام افراد کی ہَلاکتوں پرمَبنی خبر ان کے نزدیک خاص قابلِ توجُّہ ہی نہیں ہوتی! کوئی اہم لیڈر مارا جائے ،ڈھیروں لاشیں گریں ، غیر معمولی نقصان ہو، خوب ہنگامے ہوں ،جگہ بہ جگہ گاڑیاں جلائی جا رہی ہوں ،شہر بند پڑاہوجبھی

خوب سنسنی خیز سُرخیاں (Headings) لگتیں اور ٹھیک ٹھاک اَخبار بکتے ہیں ۔

وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یاد رکھو! وُہی بے عَقل ہے اَحمق ہے جو

کثرتِ مال کی چاہت میں مَرا جاتا ہے

(وسائلِ بخشش ص۱۲۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دہشت گردی کی خبر اخبار کی جان ہوتی ہے

سُوال: دہشت گردی کی خبر تو اخبار کی جان ہوتی ہے،آج کل اخبار بِکتا ہی اس طرح کی خبروں سے ہے۔ کیادہشت گردی کی خبر دینا جائز ہی نہیں ؟

جواب : میں نے جواز و عَدَمِ جواز(یعنی جائز اورناجائز ہونے )کی بات نہیں کی،اپنی ذاتی رائے کے مطابِق اِس طرح کی خبروں کے اُن مَنفی اثرات ( Side Effects) کی جانب توجُّہ دلانے کی سعی کی ہے، جن کا عام مُشاہَدَہ ہے،اور ہر ذِی شُعُور مسلمان اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھ سے اتِّفاق کریگا۔ میرے ناقِص خیال میں اگر دہشت گرد یوں اور اشتِعال انگیز خبروں کی دنیا بھر میں اشاعت بند ہوجائے تو دہشت گردیاں بھی کافی حد تک دم توڑ جائیں ! اِنسِدادِ تخریب کاری کے اِدارے بے شک فَعّال رہیں اور دشمنوں پر کڑی نظر رکھیں ۔ عوام کو اگر چِہ سنسنی خیز خبرو ں سے اکثر دلچسپی ہوتی ہے مگر اس میں ان کا اپنا کوئی فائدہ نہیں ، بس ایک’’ فُضُول


 

موضوع‘‘ ہاتھ آ جاتا ہے،بے کار باتوں ،قِیاس آرائیوں انتِظامیہ پر تنقیدوں اور تہمتوں وغیرہ کا سلسلہ چل نکلتا ہے! دنیاکے جن مَمالِک میں اِس طرح کی داخِلی وارِداتوں کی تشہیر پر پابندی ہے وہاں نہ ہڑتالیں ہوتی ہیں نہ ہنگامے، وہ پُر اَمْن بھی ہیں اور دُنیوی اعتبار سے ترقّی کی راہوں پر گامزن بھی۔ اگر ایسی خبروں کی اشاعت نہ کرنے میں اُمّت کا کوئی بَہُت بڑا نقصان نظر آتا ہو اور ثواب کا بَہُت بڑا ذخیرہ ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوتا ہو تو صَحافی حضرات میری تَفہیم فرمائیں ، میں اپنے مَوقِف پر اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّنظرِ ثانی کرلوں گا۔نیز صحافی حضرات بھی’’ضمانت ضبط ‘‘یا ’’اخبار کی اشاعت پر پابندی‘‘ کا باعث بننے والے قانونِ مطبوعات و صحافت کے ضابِطۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 24کے تحت آنے والے 15جرائم میں سے شق نمبر3اور6 پر غور فرما لیں ۔ (شِق نمبر3)تَشدُّد یا جِنس سے تعلُّق رکھنے والے جرائم کی ایسی رُودادجس سے غیرصحّت مندانہ تَجَسُّس یا نَقْل کا خیال پیداہونے کا امکان ہو(شِق نمبر6)اَمْنِ عامّہ میں خَلَل ڈالنے کی کوشِش ۔ وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

سرفراز اور سُرخرو مولیٰ

مجھ کو تُو روزِ آخِرت فرما

(وسائلِ بخشش ص۱۱۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صَحافت کی آزادی

سُوال: آپ کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آپ صَحافَت کی آزادی سے مُتّفِق نہیں !

جواب : میں ہر اُس ’’آزادی‘‘سے غیر مُتَفِق ہوں جو’’ آخِرت کی بربادی‘‘ کا باعِث ہو ، میں اِس وَقت مسلمانوں سے مُخاطِب ہوں اور جو صَحافی مسلمان ہیں اُن پر خود ہی شریعت کی طرف سے پابندیاں عائد ہیں ، وہ مَن مانی کرنے کے لئے ’’آزاد‘‘ ہی کب ہیں !ہاں تعمیرِ قوم و مِلّت کے لئے شریعت کے دائرے میں رہ کر بے شک وہ خوب اپنا قلم استِعمال کریں ۔فِی نَفْسِہٖ صَحافت کوئی بُری چیز بھی نہیں ، صَحافت کا سب سے بڑا اُصول سچّائی ہے، صداقت ہی پر صَحافت کی عمارت تعمیر ہوسکتی ہے۔ہماری تاریخ میں ایسے بے شمار صحافیوں کے نام موجود ہیں جن کو ہم آج بھی سلام کرتے اور ان کے کارناموں کی قَدْر کرتے ہیں ۔ وہ بے باک تھے، حق گو تھے، دِیانت دار تھے، ان کا لکھا ہواایک ایک حَرْف گویا انمول ہیرا ہوتا تھا جسے وہ قوم کی نَذْر کرتے تھے ۔

’’اچّھے بچّے گھر کی بات باہَر نہیں کیا کرتے!‘‘

     میٹھے میٹھے صَحافی اسلامی بھائیو!اللہ تعالٰی ہم سب کو عقلِ سلیم کی نعمت عنایت فرمائے۔ اٰمین۔باشُعُور لوگ اپنے بچّوں کوشُروع ہی سے یہ تعلیم دیتے ہیں کہ دیکھو بیٹا! ’’اچّھے بچّے گھر کی بات باہَر نہیں کیا کرتے۔‘‘ مگر بعض اخبارات کا

کردار اِس مُعامَلے میں نادان بچّوں سے بھی گیا گزرا ہو تا ہے، بس جوخبر ہاتھ لگی ، چھاپ دی، اب چاہے اِس سے نسلی فَسادات کو ہوا ملے چاہے لِسانی فسادات کو، چاہے اِس سے کوئی زخمی ہو یا کسی کی لاش گرے،خواہ اِس سے کسی کا گھر تباہ ہویا چاہے اپناوطنِ عزیز ہی داؤ پر لگ جائے ۔ کیسی ہی راز داری کی خبرکیوں نہ ہو، آزادیِ صَحافت کے نام پر چھاپنی ضَرور ہے، گویا ہر طرح کی ہر خبر کی اشاعت ہی آزادیِ صَحافت ہے! ہر سمجھدار آدمی یہ بات جانتا ہے کہ ہر بات ہر کسی کو نہیں بتائی جاتی۔پھر جب آدَمی زَبانی بات کرتا بھی ہے تووہ دس بیس یاپچاس سو تک پہنچتی ہو گی مگر اخبار بینی کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے اور  دوست دشمن سبھی پڑھتے ہیں ۔ کاش!بولنے سے پہلے تولنے اور چھاپنے سے پہلے ناپنے کا ذِہن بن جائے۔ کاش! اے کاش!یہ حدیثِ پاک ہر مسلمان صَحافی حِرزِجان بنالے جس میں میرے پیارے پیارے آقا مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ ہدایت نشان ہے: ’’ جب تو کسی قوم کے آگے وہ بات کریگا جس تک اُن کی عقلیں نہ پہنچیں تو ضَرور وہ اُن میں کسی پر فِتنہ ہو گی۔‘‘ (ابنِ عَساکر ج۳۸ص۳۵۶) کیا آزادیِ صَحافت اس کا نام ہے کہ مسلمانوں کی بے دَرَیغ عزّتیں اُچھالی جائیں !رشوتیں لیکر فریقِ مقابِل کا حَسَب نَسَب کھنگال ڈالا  جائے! مسلمانوں پر خوب خوب تہمتیں دھری جائیں ! مسئلہ تو یہ ہے کہ الزام

تراشی غیر مسلموں پر بھی جائز نہیں مگر افسوس! کہ اب مسلمان ایک دوسرے کے خلاف تہمتوں سے بھر پور بیانات داغتے اور آزادیِ صَحافت کے نام پر بعض اخبارات انہیں آنکھیں بند کر کے چھاپتے ہیں ، خُصُوصاً انتِخابات کے دنوں میں بطورِ رشوت ملنے والے چند سکّوں کی خاطر کسی ایک فریق سے’’ ترکیب‘‘ بنا لی جاتی ہے اور فریقِ ثانی پر جی بھرکر کیچڑ اُچھالی جاتی اور اس کی خوب خوب پَولیں کھولی جاتی ہیں اور یوں گناہوں کا ایک طویل سلسلہ چل نکلتا ہے، انتِخابات خَتْم ہو جاتے ہیں مگر دشمنیاں باقی رہ جاتی ہیں ۔

ایسی خبر شائع نہ فرمائیں جو فتنے جگائے

           پیارے پیارے صَحافی اسلامی بھائیو!اللہ عَزَّوَجَلَّ دنیا کی دولت کی حِرص سے ہماری حِفاظت کرے، ہمیں مسلمانوں میں فتنے پھیلانے والا بننے سے بچا کر اَمن و امان کا داعی بنائے۔ اٰمین۔صد کروڑ افسوس کہ بسا اوقات جان بوجھ کر ایسی خبریں بھی چھاپ دی جاتی ہیں جو مسلمانوں میں فتنہ وفَساداور بُرا چرچا پھیلنے کا باعِث بنتی ہیں ، ایسا کرنے والے کو اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرنا اور اپنی موت کو یاد کرنا چاہئے ۔ چٹپٹی خبروں سے اگر اخبار کی چند کاپیاں بِک بھی گئیں اور دنیا کی ذلیل دولت میں قدرے اضافہ ہو بھی گیا تب بھی ان سے کب تک فائدہ اُٹھائیں گے؟ انہیں کب تک کھائیں گے؟آخِراِس دارِناپائیدار میں کب تک

گُل چَھرّے اُڑائیں گے ؟ یاد رکھئے !آخِر کار آپ جناب کو اندھیری قبر میں اُترنا ہی ہےاورکَما تَدِیْنُ تُدَان( یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی)سے سابِقہ پڑنا ہی ہے ۔ بُرا چرچا پھیلانے کے عذاب سے ڈرنے اور دل میں خوفِ آخِرت پیدا کرنے کیلئے ایک آیتِ کریمہ اور ایک حدیثِ مبارَکہ مُلاحَظہ ہو: پارہ 18سُوْرَۃُ النُّوْر آیت نمبر 19 میں اللہ عَزَّوَجَلَّکا فرمانِ عبرت نشان ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-

ترجَمۂ کنزالایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لئے درد ناک عذاب ہے دنیا اور آخِرت میں ۔

     حدیثِ پاک میں ہے: ’’ فِتنہ سویا ہوا ہوتا ہے اُس پراللہ عَزَّوَجَلَّکی لعنت جو اِس کو بیدار کر ے ۔‘‘(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوطی ص۳۷۰حدیث ۵۹۷۵)

سَنسنَی خیز خبریں پھیلانا

     اِس بات پر جس قَدَر افسوس کیا جائے کم ہے کہ آج کل بعض صحافیوں کا کام ہی صِرف افواہیں اُڑانا اور سنسنی خیز خبریں پھیلانا رہ گیا ہے ۔ ان کی تمام تر کوشِش یِہی ہوتی ہے کہ کسی طرح گھروں میں گُھس کرلوگوں کے سنسنی پھیلانے والے ذاتی حالات معلوم کریں ہوسکے تو بطورِ ثُبُوت فوٹو بھی بنالیں اور ان کی عام تشہیر کرکے انہیں بے آبرو کریں ، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے  مُتَنَفِّر(مُ۔ تَ ۔ نَفْ۔فِر) کریں اور لڑائیں ، اب ان کا سب سے بڑا کارنامہ جاسوسی رَہ گیا ہے، خبریں تو جاسوسی، مضامین تو جاسوسی


 

  اور کہانیاں تو وہ بھی جاسوسی۔اللہ تعالٰی ہم مسلمانوں کو ایک دوسرے کی عزّت کا محافِظ بنائے اور دونوں جہانوں میں سُر خرو کرے۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

اَخلاق ہوں اچھّے مِرا کِردار ہو سُتھرا

محبوب کا صدقہ تُو مجھے نیک بنادے

(وسائلِ بخشش ص۱۰۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صحافیوں کا کُرید کر باتیں اُگلوانا

سُوال: اگر صَحافی موقع بہ موقع گھروں پر جا کر ’’کُرید‘‘ نہیں کریں گے تو قوم تک صحیح اَحوال کون پہنچائے گا !

جواب :قوم کوہر سطح کے لوگوں کے بِغیر کسی حُدُود و قُیُود کے مَعائِب( یعنی عیبوں ) سے باخبر کرنے کی آخِر حاجت ہی کیا ہے؟کسی ایک آدھ قومی و عوامی مسئلے سےمُتَعَلِّق بطورِ خاص کوئی ایک آدھ تحقیق شدہ بات بیان کرنے کی تو اجازت ہوسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ کچھ ڈھکا چھپا نہیں ۔ یاد رکھئے کہ کسی کے ذاتی مُعامَلات کی ٹوہ میں پڑنے اور ان کی ’’چھان کُرید‘‘ کرنے کی شریعت نے مُمانَعَت فرمائی ہے۔ چُنانچِہ پارہ26  سُوْرَۃُ الْحُجُرَاتآیت 12 میں ارشاد ہوتا ہے:

وَّ لَا تَجَسَّسُوْا                         ترجَمۂ کنزالایمان: اور عیب نہ ڈھونڈو۔


 

مسلمانوں کی عیب جُوئی نہ کرو

      اِس حصّۂ آیتِ مقدّسہ کے تَحْت صدرُالْاَ فاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی’’خَزائِنُ العِرفان‘‘میں فرماتے ہیں : ’’یعنی مسلمانوں کی عیب جُوئی نہ کرو اور ان کے چُھپے حال کی جُستجُومیں نہ رہوجسے اللہ تَعَالٰینے اپنی سَتّاری سے چُھپایا ۔ حدیث شریف میں ہے : گُمان سے بچو گمان بڑی جھوٹی بات ہے اور مسلمانوں کی عیب جُوئی نہ کرو ، ان کے ساتھ حرص و حسد ،بُغْض ، بے مُرَوَّتی نہ کرو ، اےاللہ تَعَالٰیکے بندو !بھائی بنے رہو جیسا تمہیں حُکم دیا گیا ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، اُس پرظُلْم نہ کرے ، اُس کو رُسوا نہ کرے ، اُس کی تَحقیر نہ کرے ، تقوٰی یہاں ہے ، تقوٰی یہاں ہے ، تقوٰی یہاں ہے ، ( اور’’یہاں ‘‘ کے لفظ سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا) آدَمی کے لئے یہ بُرائی بَہُت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کوحَقیر دیکھے ، ہر مسلمان، مسلمان پرحرام ہے، اس کا خون بھی ، اس کی آبرو بھی ، اس کا مال بھی ۔’’اللہ تَعَالٰیتمہارے جسموں اور صورَتوں اورعَمَلوں پر نظر نہیں فرماتا لیکن تمہارے دلوں پر نظر فرماتا ہے ۔‘‘([1])(بخاری و مسلم)حدیث شریف میں ہے: جو بندہ دنیا میں دوسرے کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تَعَالٰیروزِ قِیامت اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔‘‘ ([2])       (خزائن العرفان ص۹۵۰مکتبۃ المدینہ )


 

۔۔۔۔۔تو تُم ان کو ضائِع کر دو گے

       حضرتِ سیِّدُناامیرِمُعاوِیہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں : میں نے  نبیِّ مُکَرَّم ، نُورِ مُجسَّم، رسولِ اکرم، شَہَنْشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا یہ ارشادِ معظَّم خود سنا ہے:اِنَّکَ اِنِ اتَّبَعْتَ عَوْرَاتِ النَّاسِ اَفْسَدْتَّھُمْ۔ ’’اگر تم نے لوگوں کے (پوشیدہ) عُیُوب تلاش کئے تو تم ان کوتباہ کردو گے۔ ‘‘(ابوداوٗدج۴ص۳۵۶حدیث۴۸۸۸)

      مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  اس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں :ظاہر یہ ہے کہ اس فرمانِ عالی میں خطاب خُصُوصی طور پر جنابِ مُعاوِیہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)سے ہے چونکہ آیَندہ یہ سلطان بننے والے تھے، تو اُس غُیُوب داں محبوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے پہلے ہی اُن کو طریقۂ سلطنت کی تعلیم دی کہ تم بادشاہ بن کر لوگوں کے خُفیہ عُیُوب نہ ڈھونڈھا کرنا، درگزر اور حتَّی الاِمکان عَفْوو کرم سے کام لینا اور ہوسکتا ہے کہ رُوئے سُخَن سب سے ہو کہ باپ اپنی جوان اولاد کو، خاوَند اپنی بیوی کو، آقا اپنے ماتَحتوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے نہ دیکھے ۔ بدگمانیوں نے گھر بلکہ بستیاں بلکہ مُلک اُجاڑ ڈالے۔(مراٰۃ ج۵ص۳۶۴ مختصراً)

عیب جُو خود رُسوا ہو گا

       حُضُور نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیمعَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْمکا فرمانِ عظیم ہے : ’’اے وہ لوگو جو زَبان سے تو ایمان لائے ہو مگر جن کے دلوں میں ابھی تک ایمان داخِل نہیں ہوا! نہ تو مسلمانوں کی غیبت کرو اور نہ ہی ان کے پوشیدہ عیب تلاش کرو کیونکہ جو مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرتا ہےاللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کے عیب ظاہِر فرما دے گا اوراللہ عَزَّوَجَلَّجس کے عیب ظاہِر فرما دے تو وہ اُسے ذلیل و رُسوا کر دے گا اگرچِہ وہ اپنے گھر کے اندر بیٹھا ہوا ہو۔‘‘(ابوداوٗدج۴ص۳۵۴حدیث۴۸۸۰)

     پیارے پیارے صحافی اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّکی ذات عیبوں سے پاک ہے ، انبیائے کِرامعَلَیْہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ملائکہ نَقائص (یعنی خامیوں )سے پاک اور معصوم ہیں ، باقی ہم جیسے گنہگار تو سرا سر عیب دار ہیں ۔یہ تواللہ عَزَّوَجَلَّکا کرم ہے کہ اس نے ہمارے عیبوں پر پردہ ڈالا ہوا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ایک دوسرے کا پردہ فاش نہ کریں لیکن جو باز نہیں آتا اور دوسروں کو ذلیل و خوار کرنے کی گھات میں لگا رہتا ہےاللہ عَزَّوَجَلَّاسے بھی دنیا و آخِرت میں ذلیل کردیتا ہے حتّٰی کہ اُس کے وہ عیب بھی ظاہر کردیتا ہے جو اُس نے اپنے اہلِ خا نہ سے چُھپا رکھے تھے اور اِس طرح وہ اپنے گھر والوں کی نظروں سے بھی گر جاتا ہے اور پھر اِس کی اَولاد تک اِس کا احتِرام نہیں کرتی۔

مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنا مُنافِق کا کام ہے

     حضرتِ سیِّدُنا عبداللہبن محمد بن مَنازِل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے فرمایا :اَلْمُؤمِنُ یَطْلُبُ مَعَاذِیْرَاِخْوَانِہٖیعنی مومن تو اپنے مسلمان بھائیوں کاعُذْر تلاش کرتا ہے وَالْمُنَافِقُ یَطْلُبُ عَثَرَاتِ اِخْوَانِہٖ’’ جبکہمُنافِق اپنے بھائیوں کی غَلَطیاں ڈھونڈتاپھرتا ہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۷ ص۵۲۱ حدیث ۱۱۱۹۷) مطلب یہ کہ ایمان کی علامت لوگوں کے عُذْر قَبول کرنا ہے جبکہ ان کی غَلَطیاں تلاش کرنا نِفاق کی نشانی ہے۔وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

کسی کی خامیاں دیکھیں نہ میری آنکھیں اور

سنیں نہ کان بھی عیبوں کا تذکِرہ یاربّ

(وسائلِ بخشش ص۹۹)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بدکاری کی خبر لگانا کیسا؟

سُوال : بدکاری کے ملزَمِین کی اخبار میں خبریں لگانے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟

جواب :ان خبروں کا موجودہ انداز عُموماً غیر مُحتاط اور گناہوں بھرا ہوتا ہے ۔ گندی خبروں کا بعض اخباروں میں باقاعِدہ سلسلہ چلایا جاتا ہے ، ملزَم اور ملزَمہ کی تصاویر شائع کی جاتیں اور خوب حیا سوزباتیں لکھی جاتی ہیں اور یہ یقینا ناجائز ہے۔اور اِس طرح بسا اوقات ملکِ پاکستان کے’’ قانونِ مطبوعات وصَحافت‘‘ کی بھی

خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ دفعہ 24کے تحت جن15 شِقّوں کا بیان ہے اُس کی شق نمبر (3)اور (7) مُلاحظہ ہو: (3) تَشَدُّدیاجِنْس سے تعلُّق رکھنے والے جرائم کی ایسی رُودادجس سے غیرصحّت مندانہ تَجَسُّس یانَقْل کا خیال پیدا ہونے کا اِمکان ہو (7)غیرشائِستہ ،فحش،دُشنام آمیز یاہتک آمیزمَوادکی اِشاعت۔

زِنا کا شَرْعی ثُبُوت

       یہ بات خوب ذِہْن نشین کر لیجئے کہ کسی کو زانی اور زانیہ ثابِت کرنا نہایت دشوار اَمْر ہے۔ اِس کے شَرعی ثُبُوت کی صورت یہ ہے کہ یاتو وہ خود اقرار کرے یاپھر چار ایسے عادِل گواہ چاہئیں جنہوں نے آنکھوں سے زِنا ہوتے دیکھا ہو۔ مگر اِتنی بات پر بھی ان پر’’ حد‘‘ جاری نہیں ہو سکتی جب تک قاضی مختِلف سُوالات کر کے ہر طرح سے اطمینان نہ کر لے۔ اَلغرض زِنا کے شَرـعی ثُبُوت میں کافی باریکیاں ہیں ،جوبِغیرشَرعی ثُبُوت کے کسی پاکدامن مسلمان کو زانی یا زانیہ کہے یا لکھے وہ سخت گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہے۔

لوہے کے 80کوڑوں کی سزا

       اِس ضِمْن میں ایک دل ہلا دینے والی روایت سنئے اور خوفِ خدا وندی سے تھر تھرایئے! چُنانچِہدعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ الْمدینہکی مطبوعہ 1182 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت جلد2‘‘ صَفْحَہ394پر ہے:(حضرت)

عبد الرَّزّاق (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) (سیِّدُنا)عِکْرَمہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں : ایک عورت نے اپنی باندی کو زانِیہ کہا۔ عبدُاللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا: تُو نے زِنا کرتے دیکھا ہے؟ اُس نے کہا: نہیں ۔ فرمایا: قسم ہے اُس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!قِیامت کے دن اِس کی وجہ سے لوہے کے اَسی ۸۰ کوڑے تجھے مارے جائیں گے۔ (مُصَنَّف عَبْد الرَّزّاق ج۹ ص۳۲۰ رقم۱۸۲۹۱)  (خصوصاً صَحافیوں سے مَدَنی التجا ہے : مکتبۃُ المدینہکی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد 3 کے اندر شامل حصّہ 9 میں زِنا ،تہمت ،شراب نوشی وغیرہ کے فقہی احکامات مُلاحَظہ فرما لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ معلومات میں اضافہ ہو گا اور خوفِ خدا میں ترقی ہو گی)وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

دے خدا ایسی نظر جو خوبیاں دیکھا کرے

خامیاں دیکھے نہ بس اچّھائیاں دیکھا کرے

 صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اشتِہارات کے بارے میں مَدَنی پھول

سُوال:اَخبارات عام طور پر اشتِہارات ہی کی آمَدَنی سے چلتے ہیں ،اِس ضِمْن میں کچھ مَدَنی پھول دے دیجئے۔

جواب: اخبارات میں اشتِہارات چھاپنے جائز ہیں بشرطیکہ جاندار کی تصویر یا کوئی اور


 

مانِعِ شَرْعی نہ ہو۔جادو ٹونا کرنے والوں ،سُودی اِداروں ،خلافِ شَرْع اَقساط پر کاروبار کرنے والوں ،  گناہوں بھری لاٹریوں ،غیر اسلامی عقائد پر مبنی کتابوں ، نیز غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں کی مبارکبادیوں وغیرہ پر مشتمل اشتہارات نہ چھاپے جائیں ۔آج کل ایڈورٹائز منٹ میں اکثر جھوٹ یا جھوٹی مُبالَغہ آرائی سے کام لیاجاتا ہے، اخبارات والوں کو اس طرح کے اشتہارات چھاپنے سے بھی بچناضَروری ہے، مَثَلاً جعلی یا نا قص یا جن دواؤں سے شفا کا گمانِ غالِب نہیں ہے ان کے بارے میں اِس طرح کی سُرخی :’’ سو فیصدی شرطیہ علاج‘‘ یہ جھوٹا مُبالَغہ ہے ،بلکہ ایسے جملے تو کسی بھی دوائی کے بارے میں نہیں کہنے چاہئیں کیونکہ ہر طبیب جانتا ہے کہ طِبّ سارے کا سارا ظَنّی ہے، کسی بھی دوا کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اِس سے شِفا ہو ہی جائیگی۔ بے شمار وہ اَمراض جن کے مُعالَجات دریافت ہو چکے ہیں ،انہیں اَمراض میں علاج کی تمام مُجرَّب صورَتیں آزما لینے کے باوُجُود روزانہ بے شمارمریض دم توڑ دیتے ہیں ، یہ اِس بات کی واضِح دلیل ہے کہ کوئی بھی دوا ایسی نہیں جس کے ذَرِیعے شِفا ملنایقینی ہو۔ شِفا صِرْف مِن جانِبِ اللہہے۔ بَہَر حال اخبارات میں گناہوں بھرے اشتہارات شائع کرنا گناہ ہے، صِرْف جائز اشتہارات چھاپے جائیں ۔ قراٰنِ کریم ،پارہ 6سُوْرَۃُ الْمَائِدَہآیت نمبر2 میں ارشادِ ربُّ العِباد ہے:

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲)

ترجَمۂ کنزالایمان:اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اوراللہ سے ڈرتے رہو بے شکاللہ کا عذاب سخت ہے۔وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

بندے پہ تیرے نفسِ لعیں ہو گیا مُحیط

اللہ! کر علاج مِری حِرص و آز کا

(ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

فلمی اشتِہارات

سُوال: فلمی اشتِہارات کے بارے میں بھی کچھ روشنی ڈال دیجئے۔

جواب: فلموں ڈراموں اور میوزِک شَو وغیرہ کے اشتِہارات اپنے اخبارات میں دینا گناہ و حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے، ایسے اشتِہارات کے ذَرِیعے ملنے والی اُجرت بھی حرام ہے۔اس طرح کے اشتِہارات دیکھ کر جتنے لوگ وہ فلم یا ڈرامہ دیکھیں گے یا میوزِک شو میں شریک ہوں گے اُن سب کو اپنا اپنا گناہ ملے گاجبکہ ان سب کے مجموعے کے برابر گناہ اخبار کے مالِکوں اور اِس میں اشتہار ڈالنے کے ذمّے داروں کو ملیں گے۔مَثَلاً اِشتہار کے ذَرِیعے آگاہی پا کر دس ہزار افراد نے فلم دیکھی تو مذکورہ اخبار


 

والوں کو دس ہزار گناہ ملیں گے۔وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

سرورِ دیں ! لیجے اپنے ناتُوانوں کی خبر

نفس و شیطاں سیِّدا!کب تک دباتے جائیں گے

(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اخباری مضامین کیسے ہوں ؟

سُوال: اخبار کے مضامین کیسے ہونے چاہئیں ؟

جواب: اسلام کے رنگ میں رنگے ہوئے،اللہ ورسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مَحَبَّت قُلُوب میں بیدار کرنے والے ، صَحابہ و اہلبیتِ کرامعَلَيهِمُ الّرِضْوَان اور اولیائے عِظامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے عِشق سے دلوں کو سر شار کرنے والے، نیکیوں سے پیار دلانے اور گناہوں سے بیزار کرنے والے مضامین اخبار میں ہونے چاہئیں ۔ایسے موضوعات قلمبندکئے جائیں کہ پڑھنے والے نَمازی اور سنَّتوں کے پابند بنیں ، والِدَین کی اطاعت کا درس لیں اوران کا آپَس میں بھائی چارے اورمَحَبَّت و اُخُوّت کا ذِہن بنے۔ مگر صدکروڑ افسوس! ایسا نہیں ، اکثر اخبارات، ہفت روزے اور ماہنامے فُحش، لَچَراور مُخَرِّبُ الاَخلاق مضامین اور عشقیہ و فسقیہ تحریرات سے پُر ہوتے ہیں ۔ انہیں پڑھ کر لوگ دین سے مزید دُور ہوتے، نِت نئے گناہوں کی رغبت پاتے اور چوریوں ، ڈکیتیوں کے نئے نئے گُر سیکھتے ہیں ۔

عُلَماء و مشائخ کی کردار کُشی

     پیارے پیارے صَحافی اسلامی بھائیو! اللہ     عَزَّوَجَلَّہمیں علمائے اہلسنّت کے قدموں میں رکھے اور بروزِ حشر انہیں کے زُمرے میں اٹھائے ۔ اٰمین۔فی زمانہ توایسا لگتا ہے کہ بعض اخبار والوں کو عُلَماء ومشائخ اور مذہبی شکل و شَباہت سے جیسے چِڑ ہو ! جہاں کسی مذہبی فرد یا مسجِد کے امام یامُؤذِّن وغیرہ کی کسی خطا کی بَھَنک کان میں پڑی، اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اُس مذہبی فرد کی تذلیل اور کردار کُشی کا کئی دن تک کیلئے باقاعِدہ ایک سلسلہ چلا دیا! ہاں کسی عامِل وبابا یعنی تعویذ گنڈے دینے والے کی بھول سامنے آنے اور شَرْعی ثُبُوت مل جانے کی صورت میں اُس فرد ِ خاص کے شر سے لوگوں کو بچانے کیلئے اس کے مُتَعلِّق بیان کرنا دُرُست ہے اور اِسی طرح اِس قبیل(یعنی قِسم) کے دوسرے جھوٹے لوگوں اور ٹھگوں سے مُحتاط رہنے کا مشورہ دینا بھی بَہُت مناسِب ہے لیکن یہ ہرگز ہرگز جائز نہیں کہ  اُسے ’’ نقلی پیر‘‘ قرار دے کر حقیقی عُلَماء و مشائخ کو بدنام کرنے کی مذموم ترکیبیں شروع کر دیں ، حالانکہ ہر تعویذات دینے والا پِیری مُریدی نہیں کرتا، عامل ہونا اور چیز ہے اور پیر ہونا اور۔

بعض کالم نگاروں کے کارنامے

        بعض ’’کالم نگار ‘‘ بھی نہایت بے باکی کے ساتھ شَرْعی مُعامَلات میں دَخِیل

ہوتے اور اسلامی اقدار کوپامال کرتے نظر آتے ہیں ، نیز جس کی چاہتے ہیں اپنے کالم کے ذَرِیعے عزّت اُچھالتے اور اُس کی آبرو کی دھجیاں بِکھیر دیتے ہیں اور جس پر’’ مہربان‘‘ ہو جاتے ہیں وہ اگر چِہ پاپی سماج میں پلنے والا گندی نالی کا کیڑا ہی کیوں نہ ہواُسے ’ ’ہِیرو‘‘ بنا دیتے ہیں !

گناہوں بھری تحریر مرنے کے بعد گناہ جاری رکھ سکتی ہے

           میٹھے میٹھے صحافی اسلامی بھائیو!اللہ     عَزَّوَجَلَّہم سب سے سدا کیلئے راضی ہو اور ہمیں بے حساب بخشے ۔اٰمین۔ ہر ایک کویہ ذِہْن نشین کر لینا چاہئے کہ جس بات کا زَبان سے ادا کرناکارِ ثواب ہے اُس کاقلم سے لکھنا بھی ثواب اور جس کا بولنا گناہ اُس کا لکھنا بھی گنا ہ ہے بلکہ بولنے کے مقابلے میں لکھنے میں ثواب و گناہ میں اضافے کا زیادہ امکان ہے مقولہ ہے :اَلْخَطُّ بَاقٍ وََّالْعُمْرُ فَانٍ یعنی ’’تحریر (تادیر) باقی رہے گی اور عُمر (جلد) فنا ہو جائیگی ‘‘ بَہَرحال تحریرتادیر قائم رہتی اور پڑھی جاتی ہے ، وہ جب تک دنیا میں باقی رہے گی لوگ اُس کے اچھّے یا بُرے اثرات لیتے رہیں گے اور لکھنے والا خواہ فوت ہو چکا ہواُس کیلئے ثواب یا عذاب میں زیادَتی کاسلسلہ جاری رہے گا۔گناہوں بھری تحریر مرنے کے    بعد بھی باقی رہ کر پڑھی جاتی رہنے کی صورت میں گناہ جاری رہنے کا خوفناک تصوُّر ہی خوفِ خدا رکھنے والے مسلمان کا ہوش اُڑانے کیلئے کافی ہے!

ایک غَلَط لَفْظ ہی کہیں جہنَّم میں نہ ڈالدے

     پیارے پیارے صَحافی اسلامی بھائیو!اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں دین ودنیا کے تمام مُعاملات میں مُحتاط رہنے کی سعادت بخشے اور ہماری آخِرت برباد ہونے سے بچائے۔ اٰمین۔ بَہُت ہی سوچ سمجھ کر لکھنایا بولنا چاہئے کہ مَبادا ( یعنی خدا نہ کرے)زَبان یا قلم سے کوئی ایسی بات صادر ہو جائے جو کہ آخِرت تباہ کر کے رکھ دے۔ اِس ضِمْن میں دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّممُلاحَظہ ہوں : {۱}بیشک آدَمی ایک بات کہتا ہے جس میں کوئی حَرَج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کے سبب ستّر سال جہنَّم میں گرتا رہے گا۔(تِرْمِذِی ج۴ ص ۱۴۱ حدیث ۲۳۲۱) {۲} کوئی شخص اللہ     عَزَّوَجَلَّکی ناراضی کی بات کرتا ہے وہ اُس مقام تک پہنچتی ہے جس کا اس کو خیال بھی نہیں ہوتا۔ پس اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کلام کی وجہ سے اس پر اپنی ناراضی قِیامت تک کے لئے لکھ دیتا ہے۔(اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر ج۱ ص ۳۶۵ حدیث ۱۱۲۹ ) میرے آقا اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  عِلْمِ دین نہ ہونے کے باوُجُود اسلامی مَضامین لکھنے اور شَرْعی مُعاملات میں مُداخَلَت کرنے والوں کی مذمّت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ جسے اُلٹے سیدھے دو حَرْف اُردو کے لکھنے آگئے وہ مصنِّف ومُحقِّق ومُجتَہِد بن بیٹھا اور دینِ متین میں اپنی ناقِص عَقْل، فاسِد رائے سے دخْل دینے لگا ، قراٰن وحدیث و عقائد وارشاداتِ اَئِمّہ سب کا مخالِف ہوکر پہنچا جہاں پہنچا !‘‘(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ ص۵۰۴)وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

دینی حَمِیَّت تُو مجھے ربِّ کریم دے

ڈر اپنا ،شَرم، اپنی دے قلبِ سلیم دے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مضمون نگار کیلئے مَدَنی پھول

سُوال: مضمون نگارکیلئے کچھ مَدَنی پھول ارشاد ہوں ۔

جواب: جب بھی کسی مضمون یا تحریر کی ترکیب کرنی ہو اُس وقت سب سے پہلے اپنے دل سے سُوال کرے کہ میں جولکھنے لگا ہوں اُس کی شَرْعی حیثیت کیا ہے؟ اِس پر ثواب بھی ملے گا یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گناہوں بھری باتیں لکھ کر دنیا میں چھوڑ جاؤں اورقبرو آخِرت میں پھنس جاؤں ! اَلغرض تحریر سے قبل اس کے دینی و اُخروَی فوائد اور دُنیوی جائز منافِع کے مُتَعَلِّق خوب سوچ لے، ضَرورتاً عُلمائِ کرام سے مشورہ کر لے۔ جب شَرْعی اور اَخلاقی حوالے سے مکمَّل اطمینان حاصل ہو جائے تو اب رِضائے الٰہی پانے اور ثواب کمانے کیلئے اچّھی اچّھی نیَّتیں کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّکانام لے کر قلم سنبھالے۔

ایک مصنِّف کی حکایت

     جاحِظ (جو کہ مُعْتَزِلی فرقے کامُصنّف گزرا ہے اس)کو مرنے کے بعد کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: کیا مُعاملہ ہوا؟ بولا:’’ اپنے قلم سے صِرْف ایسی بات لکّھو جسے

قِیامت میں دیکھ کر خوش ہو سکو۔‘ ‘ (اِحیاء العلوم ج۵ ص ۲۶۶)

وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

دے تمیز اچھے بھلے کی مجھ کو اے ربِّ غَفور

میں وُہی لکھوں کرے جو سُرخ رُو تیرے حُضور

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سُنی سنائی بات میں آ کر کسی کو گنہگار کہنا

سُوال:کسی شخص کے بارے میں کوئی بُرائی کی خبرعوام میں مشہور ہوجائے تو اُسے چھاپا جا سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب:صرف اِس بنیاد پر نہیں چھاپ سکتے۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِباً اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ۔ یعنی کسی انسان کے جھوٹا ہونے کویہی کافی ہے کہ وہ ہر سُنی سُنائی بات (بِلاتحقیق ) بیان کردے ۔( مُقَدّمہ صَحیح مُسلِم ص۸ حدیث۵)کسی کے گناہ کی صِرف شُہرت ہوجانا اُس کے گنہگار ہونے کی ہرگز دلیل نہیں ۔میرے آقا اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلِسنّت ،مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرحمٰن نےفتاوٰی رضویہ جلد 24صَفْحَہ 106تا108پر زبردست حنفی عالم حضرت علّامہ عارِف بِاللہ ناصِح فِی اللہ سیِّدی عبدالغنی نابُلُسی قُدِّسَ سِرُّہُ القُدسی کا طویل ارشادنَقل کیاہے اس کے ایک حصّے کاخُلاصہ ہے:کسی کو


 

صِرْف اِس وَجْہْ سے گنہگار کہنا جائز نہیں کہ بَہُت سارے لوگ اُس کی طرف گناہ مَنسوب کر رہے ہوں اور یوں بھی آج کل لوگوں میں بُغْض وکِینہ اور حسد و جھوٹ کی کثرت ہے۔ بعض اَوقات آدَمی جَہالت ولا علمی کے سبب بھی کسی پر الزام رکھ دیتا ہے اور لوگوں میں اِس کا تذکِرہ بھی کر دیتا ہے اور لوگ بھی اُس کے حوالے سے آگے بیان کر دیتے ہیں ۔ شُدہ شُدہ یہ خبر کسی ایسے شخص تک جا پہنچتی ہے جو کہ اپنے علم پرمغرور اور فضلِ خداوندی سے دُور ہوتا ہے ، وہ لاعلمی کے سبب بیان کردہ اُس’’ گناہ‘‘ کا بِلا کسی تحقیق اس طرح تذکِرہ کرتا ہے کہ مجھے یہ خبر تسَلْسُل کے ساتھ ملی ہے۔ حالانکہ جس کی طرف گناہ کی نسبت کی جا رہی ہوتی ہے اُس غریب کو خواب میں بھی اِس بات کی خبر نہیں ہوتی! مزید فرماتے ہیں : ’’جب کسی شخص سے بطریقِ تواتُر یا مُشاہَدہ (یعنی آنکھوں دیکھا)  گناہ ثابت بھی ہو جائے تب بھی اِس کا اظہار بند کردے کیونکہ لوگوں میں بطورِ غیبت کسی کے گناہ کا تذکِرہ حرام ہے اِس لئے کہ غیبت سچّی بھی حرام ہے۔‘‘وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

عیبوں کو عیب جُو کی نظر ڈھونڈتی ہے پَر

ہر خوش نظر کو آتی ہیں اچّھائیاں نظر

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

کیا ہر خبر چھاپنے سے قبل خوب تحقیق کرنی ہو گی ؟

سُوال: توکیاہر خبر چھاپنے کیلئے خوب تحقیق کرنی ہو گی ؟

جواب: ایسی جائز و بے ضَرر خبر جو کسی فرد یا قوم یا اِدارے وغیرہ کی مَذَمّت یا مَضَرَّت یا مَذَلَّت پر مبنی نہ ہو ، جس میں کسی قسم کی شَرْعی خامی یا فتنے یا امْنِ عامّہ میں خَلَل کا شائبہ نہ ہو، اپنے مُلک کاکوئی قانون بھی نہ ٹوٹتا ہو، کمزور قول ملنے پر بھی چھاپی جا سکتی ہے۔البتّہ لایعنی خبروں ، غیر مفید نظموں اور فُضُول مضمونوں اور بیکار چُٹکُلوں سے بچنا مُناسِب ہے ۔ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے: اِنَّ مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَایَعْنِیْہِ۔یعنی   فُضول باتیں تَرْک کر دینا انسان کے اسلام کی خوبی سے ہے۔(تِرمذی ج۴  ص۱۸۸۵حدیث۲۳۲۵) دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہکی مطبوعہ63 صَفحات پر مشتمل کتاب ،  ’’ بیٹے کو نصیحت‘‘ صَفْحَہ 9تا10پرحُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی فرماتے ہیں :اے پیارے بیٹے !حضور نبیِّکریم، رَ ء ُوفٌ رَّحیمعَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْمنے اپنی امّت کو جو نصیحتیں اِرشاد فرمائیں اُن میں سے ایک مہَکتامدنی پھول یہ(بھی) ہے :’’بندے کا غیر مفید کاموں میں مشغول ہونا اِس بات کی علامت ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے اِس سے اپنی نظرِ عنایت پھیر لی ہے اور جس مقصد کے لئے بندے کو پیدا کیا گیا ہے اگر اس کی زندگی کا ایک لمحہ


 

بھی اس کے علاوہ (یعنی اُس مقصد سے ہٹ کر)گزر گیا تو وہ (بندہ)اِس بات کا حقدار ہے کہ اُس کی حسرت طویل ہو جائے اور جس کی عمر40 سال سے زیادہ ہو جائے اور اِس کے باوُجُود اُس کی بُرائیوں پر اُس کی اچّھائیاں غالِب نہ ہوں تو اُسے جہنَّم کی آگ میں جانے کے لئے تیّار رہنا چاہئے۔‘‘ ( تفسیرروح البیان،سورۂ بقرۃ،تحت الایۃ : ۲۳۲ ، ج۱، ص۳۶۳ )  (اے بیٹے!)سمجھدار اور عقلمند کے لئے اتنی ہی نصیحت کافی ہے۔

گو یہ بندہ نکمّا ہے بیکار          اِس سے لے فَضل سے ربِّ غفّار

کام وہ جس میں تیری رِضا ہے   یاخدا تجھ سے میری دُعا ہے

(وسائلِ بخشش ص۱۳۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

شیطان افواہ اُڑاتا ہے

سُوال: اُڑتی ہوئی خبرملی کہ فُلاں فُلاں گروپ آپَس میں مُتصادِم ہو گئے ہیں اور باہم لڑائی چِھڑ گئی ہے ایسی خبریں چھاپنا کیسا؟

جواب: ایسی خبریں تومُصَدَّقہ( یعنی تصدیق شدہ) ہوں تب بھی چھاپنے میں نقصان کے سوا کچھ نہیں کہ عُمُوماًاِس طرح ہنگامے بڑھتے اور جان و مال کی ہلاکتوں اور بربادیوں میں اضافہ ہو تا ہے۔ ’’ اَمْنِ عامّہ میں خلل ڈالنے کی کوشش ‘‘پر مبنی خبریں تو خود ہمارے مُلکی قانون کے بھی خلاف ہیں ۔ رہی اُڑتی ہوئی خبر جسے  ’’ اَفواہ‘‘ کہتے ہیں ،اِس پرتو اعتِماد کرنا ہی نہیں چاہئے، ایسی افواہیں شیطان بھی

انسان کی شکل میں آ کر اُڑاتا ہے۔ چُنانچِہ حضرتِ (سیِّدُنا) ابنِ مسعود (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) فرماتے ہیں :’’شیطان آدَمی کی صورت اختیار کر کے لوگوں کے پاس آتا ہے اورانہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے۔ لوگ پھیل جاتے ہیں تو اُن میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کوسُنا جس کی صورت پہچانتا ہوں (مگر)یہ نہیں جانتا کہ اُس کا نام کیا ہے،وہ یہ کہتا ہے۔‘‘ (مقدمہ مسلم ص۹)

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اَفواہ کے سبب ہونے والا فَساد

     مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  مذکورہ روایت کے اِس حصّے،’’فَیُحَدِّثُھُمْ بِالْحَدِیْثِ مِنَ الْکَذِبِ‘‘( ترجمہ: ’’انہیں کسی جھوٹی بات کی خبر دیتا ہے‘‘)کے تَحْت فرماتے ہیں :(یعنی)’’ کسی واقِعے کی جھوٹی خبر یا کسی مسلمان پر بُہتان یا فَساد وشرارت کی خبرجس کی اَصْل ( یعنی حقیقت ) کچھ نہ ہو۔‘‘ مفتی صاحِب اِس روایت کے تَحْت مزیدفرماتے ہیں : حدیث بِالکل ظاہِری معنی پر ہے کسی تاویل کی ضَرورت نہیں ،یہ بارہا(کا) تجرِبہ ہے۔(چُنانچِہ )  ماہِ رَمَضان کی ستائیسویں تاریخ جُمُعہ کے دن یعنی 14اگست 1947 ؁کو پاکستا ن بنا۔ عیدُالفِطْر کے دن نَماز عید کے وَقْت تمام شہروں بلکہ دیہاتوں (تک) میں خبر اُڑ گئی کہ سِکھ مُسلَّح ہوکر اِس بستی پر حملہ آور ہو رہے ہیں (اور) قریب ہی آچکے ہیں ! ہر گھر ہر مَحَلّے ہر جگہ شور مچ گیا، لوگ تیّاریاں کر کے نکل آئے۔ حالانکہ بات

غَلَط تھی ہرجگہ لوگوں نے(یہی) کہا کہ’’ ابھی ایک آدَمی کہہ گیا ہے خبر نہیں کون تھا! ‘‘پھر جوفَساد شروع ہوا وہ سب نے دیکھ لیا ،خدا کی پناہ! اس(حدیثِ پاک میں دی ہوئی خبر) کاظُہُور ہوتا رَہتا ہے۔شیطان چُھپ کر بھی دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے اور ظاہِر ہو کرشکلِ انسانی میں نُمُودار ہو کر بھی۔ لہٰذا ہر خبربِغیر تحقیق نہیں پھیلانی چاہئے ۔اس کامطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی شیطان عالِم آدَمی کی شکل میں آ کر (بھی) جھوٹی حدیثیں بیان کر جاتاہے، لوگوں میں وہ جھوٹی حدیثیں پھیل جاتی ہیں ۔ اس لیے حدیث کو کتاب میں دیکھ کر اَسناد وغیرہ معلوم کر کے بیان کرناچاہئے۔مفتی صاحِب بیان کردہ حدیثِ مبارَک کے مُتَعَلِّق فرماتے ہیں : اگر چِہ فرمان حضرتِ ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا ہے مگر’’ مرفُوع حدیث‘‘ کے حکم میں ہے کہ ایسی بات صَحابی اپنے خیال یا رائے سے بیان نہیں فرما سکتے حُضُور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے سن کر ہی کہہ رہے ہیں ۔(مراۃ ج۶ ص ۴۷۷ ) اِس حدیثِ پاک اور اس کی شَرْح سے اُن لوگوں کو بھی درس حاصِل کرنا چاہئے ، جوموبائل فون پر s.m.s.کے ذَرِیعے موصول ہونے والی طرح طرح کی حدیثیں دوسروں کو فارْوَرْڈ کرتے( یعنی آگے بڑھاتے) رہتے ہیں ۔ حالانکہ ان میں کئی احادیث ’’ اُصولِ حدیث‘‘ سے مُتصادِم اور مُوضوع یعنی مَن گھڑت ہوتی ہیں ! لہٰذا ان حدیثوں کو اوراِسی طرح اخبارات وغیرہ میں شائع کردہ اَحادیث


 

کو بھی عُلماءِ کرام کے مشورے کے بِغیر نہ بیان کریں نہ ہی کسی کو s.m.s. کریں کیوں کہ غیرمُحتاط تَرجَموں کی بھر مار اور بے احتیاطی کا دَور دَورہ ہے۔ وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

لب حمد میں کُھلے، تری رَہ میں قدم چلے

یارب ! ترے ہی واسِطے میرا قلم چلے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تردیدی بیان کا طریقہ

سُوال:اگر کسی اخبار میں کسی کے نام سے کوئی قابلِ تردید مضمون یا بیان شائِع ہو اہو تو اُس کی تردید کا کیا طریقہ ہونا چاہئے؟

جواب:تردید میں فُلاں شخص نے یہ کہا ہے یا بیان دیا ہے وغیرہ نہ چھاپا جائے بلکہ صِرْف اُس اخبار کے نام پر اکتِفا کیا جائے کہ’’ فُلاں اخباریا  ہفت روزے یا ماہنامے نے ایسا لکھا ہے۔‘‘ مضمون نگار یا جس کی طرف بیان منسوب ہے اُس کی ذات پر ہرگز حملہ نہ کیاجائے، کیوں کہ اخبار یا ماہنامے وغیرہ میں کسی کانام شائِع ہوجانا’’ شَرْعی دلیل‘‘ نہیں ۔ مجھے(سگِ مدینہ عفی عنہ کو) خود تجرِبہ ہے کہ بعض اَوقات میری طرف سے ایسی باتیں اخبار میں آجاتی ہیں جن کا مجھے پتا تک نہیں ہوتا!ایک بار میں نے کسی عالم صاحِب سے اُن کی طرف منسوب غیر ذمّے دار انہ


 

اخباری بیان کے مُتَعَلِّق اِستِفسار کیا تو کچھ اس طرح جواب مِلا: ’’ میں نے اس طرح نہیں کہا تھا، صَحافی نے فون کیا تھا اور اپنی مَرضی سے فُلاں جُملہ بڑھا دیا ۔‘‘ بسا اَوقات کسی کی طرف منسوب کر کے اُس کی مرضی کے خلاف ایسابیان چھاپ دیا جاتا ہے جس کی تردید کرنے میں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور یوں وہ خوب آزمائش میں آ جاتا ہے۔ مَثَلاً کسی مُلک کا غیر مسلم صدر مَر گیا، کسی کی طرف سے تعزیتی بیان ڈالدیاگیا اوراُس میں مَرنے والے کو’’ مرحوم‘‘ لکھ دیا یا اُس کیلئے  ’’دُعا ئے مغفِرت کرنا‘‘ منسوب کر دیا تو تردید کا مرحلہ بڑا نازُک ہے۔یہاں یہ مسئلہ بھی سمجھ لیجئے کہ کسی غیر مسلم یا مُرتَدکو مرنے کے بعدمرحوم کہنے والے یا اُس کیلئے دعائے مغفِرت کرنے والے یا اُسے جنّتی کہنے والے پر حکمِ کفر ہے۔(ماخوذاً بہارِ شریعت ج اول ص ۱۸۵) صد کروڑ افسوس! کئی اخبارات میں اِس طرح کے کفریات بلا تکلُّف چھاپ دیئے جاتے ہیں ! اِسی طرح کوئی ناپسندیدہ شخص اِقتِدار پر آ گیا اور کسی کی طرف سے خوامخواہ مبارکباد کا پیغام اور دعائیہ کلمات چھاپ دیئے گئے ، بے چارہ تردید کیسے کریگا؟ بَہَر حال ! اخباروالوں کو ناپ تول کر لکھنا اور عُلمائے کرام کی رہنمائی کے ساتھ چلنا ضَروری ہے ورنہ کُفْریات لکھ دینے سے ایمان کے لالے پڑ سکتے ہیں ۔ کسی نے بیان نہ دیا ہو اس کی طرف سے قصداً جھوٹا بیان چھاپ دینا بھی گناہ اوراگر بیان دیا ہو مگر اُس میں


 

اپنی طرف سے ایسی غیر واجِبی ترمیم کر دینا جو جھوٹ مانی جائے وہ بھی گناہ ہے۔

مجھ کو حکمت کا خزانہ یاالٰہی کر عطا

اور چلانے میں قلم کردے تُو محفوظ از خطا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اِڈیٹر کو کیسا ہونا چاہئے؟

سُوال:اخبار اور ٹی وی چینل کے مالِک و مُدیر (Editor)اور ڈائریکٹرکو کیسا ہونا چاہئے؟

جواب:T.V.چینل ،اخبار ،ہفت روزہ، ماہنامہ وغیرہ کے مالِکان ، مدیران وذمّے داران کو علمِ دین کے زیور سے آراستہ ہونا چاہئے یاکم از کم ’’محتاط فِی الدّین ہوں ‘‘ اور عُلَمائِ کرام کے ماتَحْت رہتے ہوئے اُن سے رہنُمائی حاصِل کرکے چینل چلاتے یا اخبار وغیرہ نکالتے ہوں ،یہ لوگ اگر علمِ دین سے عاری ، خوفِ خدا سے خالی، آزاد خیال اور ’’ بے لگام‘‘ ہوئے تواُن کا چینل اخبار یاماہنامہ وغیرہ مسلمانوں کیلئے بے عملی بلکہ گمراہی کا آلہ ثابِت ہو سکتا ہے۔

اللہ!اِس سے پہلے ایماں پہ موت دیدے

نقصاں مِرے سبب سے ہو سنّتِ نبی کا

(وسائلِ بخشش ص۱۹۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

لوگوں کے حالات کی معلومات رکھنا

سُوال : لوگوں کے موجودہ حالات سے باخبر رہنے میں کوئی مُضایَقہ تو نہیں ؟


 

جواب :جائِز ذرائِع سے مُفید و جائز معلومات حاصِل کرنے میں کوئی مُضایَقہ نہیں ، بلکہ اچھّی نیّتیں ہوں تو ثواب ملے گا۔ ’’شَمائلِ ترمِذی‘‘ میں حضرتِ سیِّدُناہِند بن ابی ہالہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کردہ ایک طویل حدیث میں یہ بھی ہے کہ یَتَفَقَّدُاَصْحَابَہٗ  وَیَسْأَلُ النَّاسَ عَمَّا فِی النَّاسِ یعنی  شَہَنْشاہِ خیرُالْاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَصَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَانکے حالات کی معلومات فرماتے اور لوگوں میں ہونے والے واقِعات کے متعلِّق اِستِفسارات(یعنی پوچھ گچھ) کرتے۔ (شَمائل تِرمذی ص۱۹۲) حضرت عَلَّامہعلی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیاس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :یعنی سرکارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَصَحابہ جو صَحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَانحاضِر نہ ہوتے اُن کے بارے میں دریافْتْ فرماتے، اگر کوئی بیمار ہوتاتو اُس کی عیادت فرماتے یا کوئی مسافِر ہوتا تو اُس کے لیے دُعا کرتے ، اگر کسی کا انتِقال ہو جاتا تواُس کے لیے مغفِرت کی دُعافرماتے اور لوگوں کے مُعامَلات کی تحقیقات کر کے ان کی اِصلاح فرماتے۔(جمع الوسائل ج ۲ ص ۱۷۷)وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

خبریں معلوم کرنے کی اچّھی اچّھی نیّتیں

سُوال :خبریں معلوم کرنے کیلئے کیا کیا اچھّی نیَّتیں ہونی چاہئیں ؟


 

جواب : ہر جائزکام سے قبل حسبِ موقع اچھّی اچھّی نیَّتیں کرلینی چاہئیں ۔کسی فرد کے بارے میں جائز معلومات حاصِل کرنے میں اِس طرح  نیَّتیں کی جاسکتی ہیں ۔مَثَلاً اِس کے بارے میں اچھّی خبر سُنوں گا تو مَاشَاءَ اللہ،بَارَکَ اللہ کہوں گا، اس کادل خوش کرنے کیلئے مُبارَکباد پیش کروں گا، اگر یہ پریشان ہوا تو تسلّی دے کر اِس کی دلجوئی کروں گا۔ ممکن ہوا تو اِس کی اِمداد کروں گا،ضَرورتاً اچّھا مشورہ دوں گا،سفر       پر ہوا تو دُعا کروں گا ۔ بیمار ہوا تو عیادت یا دعائے شفا یا دونوں دوں گا۔ وغیرہ ۔

خبرمعلوم کرنے کی نِرالی حِکایت

               کسی کی خیر خبر معلوم کرنے پر اگر وہ حاجت مَند ظاہِر ہو تو ممکِنہ صورت میں اُس کی مدد کرنی چاہئے۔ ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں ہے :سَیِّدُ الْمُعَبِّرِین حضرتِ سیِّدُناامام محمد ابنِ سِیرِینعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْمُبِیْن نے ایک آدَمی سے پوچھا : کیا حال ہے؟ جوابدیا : ( بہت بُرا حال ہے کہ) کثیرُ العِیال ہوں ، (یعنی بال بچّے زیادہ ہیں ) اَخراجات پاس نہیں ،اوپر سے 500دِرْہم کا قرضداربھی ہوں ، یہ سُن کر حضرتِ سیِّدُناامام محمد ابنِ سیرین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْمُبِیْن اپنے گھر تشریف لائے، ایک ہزار دِرہم اُٹھائے اور اُس دُکھیارے کے پاس آئے اور سارے درہم اُسے عطا فرمائے اور فرمایا : 500دِرہم سے قَرض ادا کیجئے اور 500 گھر کے خَرْچ میں اِستِعمال فرمائیے۔ پھر آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے عَہْد کیا کہ’’ کسی سے حال نہیں


 

پوچھوں گا۔‘‘ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام ابوحامد محمد بن محمدبن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی یہ حکایت نَقْل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’حضرتِ سیِّدُناامام محمد ابنِ سِیرِینعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ ِالْمُبِیْننے اِس خوف سے آیَندہ کسی سے حال دریافْتْ نہ کرنے کا عَہْد کیاکہ اگرخودپوچھ کر خبر معلوم کرنے کے بعد میں نے اُس کی مدد نہ کی تو پوچھنے کے مُعامَلے میں منافِق ٹھہروں گا۔‘‘وَاللہُ اعلَمُ ورسولُہٗ اَعلَم عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ (کیمیائے سعادت،ج۱ ص ۴۰۸ ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

مجھے دے خود کو بھی اور ساری دنیا والوں کو

سُدھارنے کی تڑپ اور حوصَلہ یاربّ

(وسائلِ بخشش ص ۹۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اخبار پڑھنا کیسا؟

سُوال: اَخباربینی کرنا کیسا؟

جواب: جو اَخبار شَرْعی تقاضوں کے مطابِق ہو اُسے پڑھناجائز ہے اور جو اَخبار ایسا نہیں اُس کا مُطالَعہ صِرْف اُس کے لئے جائز ہے جو بے پردہ عورَتوں کی تصاویر اور فلمی اشتِہارات کے فُحش مناظِر وغیرہ سے نگاہوں کی حفاظت پر قدرت رکھتا ہو،


 

گناہوں بھری تحریرات وغیرہ بِلااجازت ِشَرْعی نہ پڑھتا ہو۔بعض اخبارات میں بسااوقات واہِیات وخُرافات کے ساتھ ساتھ گمراہ کُن کلمات بلکہ کبھی تو مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّکفریات تک لکھے ہوتے ہیں ! ایسے اخبارات پڑھنے والے کے خیالات میں جو فسادات پیدا ہو سکتے ہیں وہ ہر باشُعُور شخص سمجھ سکتا ہے۔ یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں اگر کبھی کسی عالمِ دین بلکہ عام آدَمی کو بھی اخبار بینی کرتاپائیں تو ہرگز بدگُمانی  نہ فرمائیں بلکہ ذہن میں حسنِ ظن جمائیں کہ یہ شَرْعی احتیاطوں کو مَلحوظ رکھتے ہوئے مُطالَعہ کر رہے ہوں گے۔ عام آدَمی کیلئے ایسا اَخبار جو گناہوں بھرا ہو اُسے پڑھنے کے دَوران خود کو معصیت وگمراہی سے بچانا نہایت مشکل ہے اور چُونکہ بعض اوقات غیر محتاط اخبارات کی تحریرات میں کُفریات بھی ہوتے ہیں اِس لئے ان کا مُطالَعہ مَعَاذَ اللہ عَزَّ وَجَلَّکُفْر کے گہرے گڑھے میں جا پڑنے کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ رہے کُفّار کے اخبار تو ان کی طرف توعام مسلمان کو دیکھنا بھی نہیں چاہئے کہ جب مسلمانوں کے کئی اخباربے قَیدی کا شکار ہیں تو اُن کا کیا پوچھنا!ظاہِر ہے ان میں تو کُفریات کی بھر مار ہو گی اور وہ اپنے باطِل مذہب کا پَرچار بھی کرتے ہوں گے۔ بَہَرحال مسلمان کوصِرْف اخبار بینی ہی نہیں ہر کام کے آغاز سے قبل اُس کے اُخرَوی (اُخ۔رَ۔وی) انجام پر غور کر لینا چاہئے اور ہر اُس کام سے بچنا چاہئے جس میں


 

آخِرت کے بگاڑ کا اندیشہ ہو۔ یاد رکھئے !’’ بنانا‘‘بَہُت مشکل ہے جبکہ’’ بگاڑنا‘‘ نہایت آسان۔دیکھئے ! مکان بنانا کس قَدَر دشوارکام ہے مگر اِسے گِرانا ہو تو آن کی آن میں گرا دیا جاتا ہے !اسی طرح لکھنا یا نقشہ وغیرہ بنانا مشکِل اُسے بگاڑ دینا نہایت آسان، فرنیچر بنانا مشکل اُسے توڑ پھوڑ کر بگاڑنا آسان ، کھانا پکانا مشکل پکے ہوئے کو بگاڑنا آسان، کسی کو قریب کر کے دوست بنانابَہُت مشکل مگر دو لفظ مَثَلاً ’’ دَفْعْ ہو جا!‘‘ کہہ کر دوستی بگاڑ دینابالکل آسان،اَخبار کو مختلف مَراحِل سے گزار کر فائنل کرناپھر چھاپنا وغیرہ مشکل مگر پھاڑ کر بگاڑ دینا آسان، اِسی طرح آخِرت کو بھی سمجھئے کہ اِسے بہتربنانے کیلئے خوب عبادت و رِیاضت کرنی،ہر گناہ سے بچنا اور خواہِشاتِ نفسانی مارنی ہوتی ہیں جبکہ بگاڑنانہایت آسان ہے جیسا کہ شیطان نے لاکھوں سال عبادت کر کے ایک مقام حاصِل کیا تھا مگر تکبُّر کے باعِث نبی کی توہین کر کے لمحے بھر میں آخِرت بگاڑ لی اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنَّمی ہو گیا۔’’اللہقدیرعَزَّ وَجَلَّ کی خُفْیہ تدبیر ‘‘سے لرزہ بَراَندام رہتے ہوئے ہر مُعامَلے میں آخِرت کی بھلائی کی طرف نظر رکھنا ہر مسلمان کیلئے ضَروری ہے ۔ پارہ 28سُوْرَۃُ الْحَشْر آیت نمبر 18 میں فرمانِ الٰہی ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-

ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہسے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ کل کیلئے کیا آگے بھیجا۔


 

کچھ نیکیاں کمالے جلد آخِرت بنالے

کوئی نہیں بھروسا اے بھائی! زندَگی کا

(وسائلِ بخشش ص۱۹۵)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

صَحافی کہیں آپ کے مُخالِف نہ ہو جائیں

سُوال:آپ کو لگتا نہیں کہ آپ کے اِس طرح کے جوابات سے صَحافی حضرات آپ کے مخالِف ہو جائیں گے؟

جواب:میں صِرْف اللہ عَزَّ وَجَلَّسے ڈرنے والے مسلمانوں سے مخاطِب ہوں ، میں نے جو کچھ عرض کیا ہے میرا حُسنِ ظن ہے کہ قلبِ سیلم رکھنے والا ہر باضَمیر صَحافی اُس کو دُرُست تسلیم کریگا۔ میں نے ملک و ملّت اور آخِرت کی بھلائی کی باتیں ہی تو عرض کی ہیں ، جب شریعتِ اسلامیہ سے ہٹ کربلکہ مُلکی قانون کے بھی خلاف کوئی کلام نہیں کیا تو کوئی مسلمان صَحافی مجھ سے کیوں اِختِلاف کرنے لگا!نفس کی حیلہ بازیوں میں آ کر ،غیر شَرْعی مَصلَحتوں کو آڑ بنا کر میری طرف سے پیش کردہ خیرخواہا نہ اسلامی اَحکامات کی مخالَفَت کر کے کوئی مسلمان اپنی آخِرت کیوں بگاڑے گا!ہاں خدانخواستہ میں نے کوئی بات ملکی قانون سے ٹکرانے والی یا خلافِ شریعت کر دی ہے تو برائے کرم! قانونی اور شَرْعی دلائل کے ساتھ میری اِصلاح فرما دیجئے مجھے اپنے مَوقِف پر بِلا وجہ اَڑتا نہیں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ


 

شکریہ کے ساتھ رُجوع کرتا پائیں گے۔ بے شک میں مانتا ہوں کہ بے راہ رَوی کا دَور دَورہ ہے اور پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے اِس لئے شاید میری یہ التجائیں صد ابَصَحرا بن کر ہی رہ جائیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ کوئی نادان دوست، اَدھوری باتیں سُن کریا سُنی سنائی باتوں میں آکر مجھ سے’’روٹھ‘‘ ہی جائے۔ ایسوں کیلئے میں صِرْف کسی کایہ شعر ہی پڑھ سکتا ہوں :    ؎

ہم ’’دعا‘‘ لکھتے رہے وہ’’دغا‘‘ پڑھتے رہے

ایک نُقطے نے ہمیں ’’ مَحرم‘‘ سے’’مُجرم‘‘ کر دیا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اخبار کیسا ہونا چاہئے

سُوال:اخبار نکالنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگرجائز ہے تو اخبار کیسا ہونا چاہئے ؟ اِس کی اشاعت کیلئے کچھ مَدَنی پھول دے دیجئے۔

جواب: اخبار نکالنا جائزہے ۔ مسلمان ہر مُعامَلے میں شَرْعی اَحکامات کے ماتَحْت ہے اور اخبار کے مُعامَلے میں بھی اسے شَریعت کی پاسداری کرنی ہوگی۔ خبردار! اخبار کا مُعاملہ نہایت نازُک ہے، معمولی سی بے احتیاطی مسلمانوں کو فتنہ وفساد ، آپَسی بُغض و عِناد ، گناہ و مَعاصی بلکہ گمراہی واِلْحاد کے غار میں دھکیل کر برباد کر سکتی ہے اور اس کا اُخْرَوی وَبال اخبار کے مالِکان و ذمّے داران پر آسکتا ہے ۔

ان خطرات سے بچنے کیلئے16 مَدَنی پھول (جن میں ضِمناً  مُلکِ پاکستان کی قانونی شِقیں بھی شامل ہیں ) قَبول فرمایئے۔

{1}مُدیر پارسا و مُحتاط عالمِ دین ہو یا باعمل عُلَمائِ کرام کی مجلس کے ماتَحْت کام کرنے والا۔

{2} عُلَمائے کرام ہرہر خبر ، مُراسَلہ ، نظم،کالم، آرٹیکل اور اشتہار وغیرہ بنظرِ غائِر اوّل تا آخِر پڑھ کر ، تنقیح و تفتیش فرما کر اجازت بخشیں تب اخبار ( یا ماہنامہ وغیرہ) اشاعت کیلئے پریس میں جائے۔

{3} کسی فردِ مُعَیّن یابرادری کی مَذَمَّت عیب دری اور اِیذا رَسانی پر مشتمل خبریں بِلااجازتِ شَرْعی شائِع نہ کی جائیں ۔

{4} ایسا شخص جس کے شَر سے مسلمانوں کو بچانا مقصود ہو اور فتنے اور امْنِ عامّہ میں خَلل کا اندیشہ نہ ہو توثواب کی نیّت سے اُس کا نام اوراُس میں موجود صرف خاص اُس خرابی کی اِشاعت کر دی جائے جو مسلمانوں کیلئے مُضِر ہو۔ فرمانِ مصَطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:کیا فاجِر کے ذِکر سے بچتے ہو اُس کو لوگ کب پہچانیں گے!فاجِر کا ذکر اُس چیز کے ساتھ کرو جو اُس میں ہے تاکہ لوگ اس سے بچیں ۔ (اَلسّنَنُ الکُبری لِلْبَیْہَقی  ج۱۰ ص۳۵۴ حدیث  ۲۰۹۱۴)

{5} کسی شخصِ مُعَیَّن کی کامیاب یا ناکام خودکُشی کی خبر نہ شائِع کی جائے۔

{6} کسی بدمذہب کا بیان یا مضمون وغیرہ شَرْعی اَغلاط سے پاک ہو تب بھی نہ چھاپا جائے

کہ اِس کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قارِئین اُس بدمذہب سے متعارِف ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی شخصیَّت سے مُتأَثِّرہو سکتے ہیں جو کہ ایمان کیلئے زَہرِ ہَلاہَل ہے۔ یاد رہے! فساد ِ عقیدہ فسادِ عمل سے بَدَرَ جہا بد ترہے۔

{7} کسی ’’ سیاسی پارٹی‘‘ سے گٹھ جوڑ کر کے اُس کے ماتَحْت نہ رہا جائے کہ جھوٹی خوشامد ، فریقِ مخالِف کی بے جا مخالَفَت، عیب دَری،الزام تراشی اور مسلمانوں کی اِیذا رَسانی وغیرہ وغیرہ گناہوں سے بچنا قریب بہ ناممکن ہوجائے گا اور ماتَحْتی کے باعث ایسے اخبارکی ’’ آزادیِ صَحافت ‘‘ خود بخود خَتْم ہو جائیگی!!!

{8} اُن خبروں اور بیانات کی اِشاعت نہ کی جائے جن سے مسلمانوں میں انتِشار ہو یا وطنِ عزیز کے وقار کو ٹھیس پہنچے ۔

{9}مُلکی رازا ِفْشا نہ کئے جائیں ۔

{10} قَلَم تخریبی نہیں صِرْف و صِرْف تعمیری انداز میں چلایا جائے اور تحریروں کے ذَرِیعے مسلمانوں کو نیک کام اور غیر مسلموں کودینِ اسلام کے قریب کیا جائے۔

{11} اپنے اخبار سے مُنْسَلِک اَجِیر صحافیوں پر تحائف اورخُصُوصی دعوتیں قَبول کرنے کے حوالے سے پابندی رکھی جائے کہ اکثر صورَتوں میں یہ رشوتیں ہوتی ہیں اور اِن کی وجہ سے بسا اوقات مُرَوَّتاً گناہوں بھرے بیانات وغیرہ کی اشاعت کرنی پڑجاتی ہے!


 

{12} فِلْم ایڈیشن،فِلمیصَفْحَہ ، فلموں ، اسٹیج ڈراموں اورمیوزیکل پروگراموں ،ناجائز چیزوں اورناجائز کاموں وغیرہ کے گناہوں بھرے اشتہارات دینے سے کُلّی طور پر لازِمی اجتِناب (یعنی پرہیز)کیاجائے۔

{13} اِلیکڑانک میڈیا کے گناہوں بھرے پروگراموں کی فِہرس شائع نہ کی جائے۔

{14} شَرْعی طورپر جُرم ثابت ہوجانے کی صورت میں بھی چُونکہ شخصِ مُعَیَّن کی بِلامَصلَحَت خبر مُشتَہَر کرنے کی شَرْعاً اجازت نہیں لہٰذا اُس کی پردہ پوشی کی جائے اورمُمکِنہ صورت میں نجی طورپر نیکی کی دعوت کے ذَرِیعے ایسے مجرم کی اِصلاح کی صُورت نکالی جائے۔ ڈھندورا پیٹنے اور اخباروں میں خبریں چمکانے سے سُدھار کے بجائے اکثر بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور بسااوقات ضِد میں آکر ’’ چھوٹا مجرِم ‘‘ بڑے مجرم کا رُوپ دھار لیتا ہے !

{15} جانداروں کی تصویریں نہ چھاپی جائیں (جوعُلمائِ کرام مووی اور تصویر میں فرق کرتے ہوئے مُووی کو جائز کہتے ہیں انہیں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی’’ مَدَنی چینل ‘‘کے ذَرِیعے دُنیا بھر میں اسلام کی خدمت کرنے میں کوشاں ہے)

{16}بہتر یہ ہے کہ اخبار میں آیات ِ قُراٰنیہ اور ان کا ترجَمہ نہ چھاپا جائے کیوں کہ جہاں آیت یا اس کا ترجَمہ لکھا ہو وہاں اور اُس کے عین پیچھے بِغیر طہارت کے چُھونا حرام ہے اور اکثر لوگ بے وُضو اخبار پڑھتے ہوں گے اور مسئلہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے چُھونے کے گناہ میں پڑ تے ہوں گے۔


 

میں تحریر سے دِیں کا ڈنکا بجادوں

عطا کر دے ایسا قلم یاالٰہی

(وسائلِ بخشش ص۸۳)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اخبارکے دفتر میں کام کرنا کیسا؟

سُوال: گناہوں بھرے اخبار کے دفتر میں کام کرنا اور اخبار کی چھپائی وغیرہ میں مُعاوَنَت کرنا کیسا؟ تنخواہ جائز ہوگی یاناجائز؟

جواب: گناہوں بھرا اخبار مکمَّل طورپر گناہوں بھرا نہیں ہوتا، اس میں جائز تحریرات بھی شامل ہوتی ہیں ، اگر صِرْف جائز مَضامین کی نوکری ہے تو جائز اور اِس کی تنخواہ بھی جائز اور اگر ناجائز کام ہی کرنا پڑتا ہے تو نوکری بھی ناجائز اور تنخواہ بھی ناجائز ۔ اگر دونوں طرح کے کام کرنے پڑتے ہیں تو جتنا جائز کام کیا اُس پر ملنے والی اُجرت جائز اور جتنا ناجائز کام کیا اتنی اُجرت ناجائز۔ مذکورہ دفتر میں ایسا کام کرنا جائز ہے جس میں گناہ میں کسی طرح سے مدد نہ کرنی پڑتی ہو۔ مَثَلاً چوکیداری وغیر ہ ۔

اخبار بیچنا کیسا؟

سُوال:اَخباربیچناجائزہے یانہیں ؟

جواب:وہ اخبار جو بُنیادی طور پر خبروں پر مشتمل ہولیکن کچھ حصّہ ہر قسم کے اشتہارات پربھی مشتمل ہو ان کا بیچنا اخبار فروشوں کیلئے جائز ہے اورآمدنی بھی حلال ہے جبکہ جو اخبار بنیادی طور پر فلموں یا ناجائز کاموں کی تشہیر ہی کیلئے ہوں ان کا بیچنا


 

ناجائز ہے۔ 

رزق حلال دے مجھے اے میرے کبریا

دیتا ہوں تجھ کو واسِطہ تیرے حبیب کا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

طالبِ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کا پڑوس

۶شعبان المعظم۱۴۳۳ھ

2012-6-27



[1] ۔۔۔ مسلم ، ص ۱۳۸۶حدیث۱۳۸۶،۱۳۸۷

[2] ۔۔۔ بخاری ج ۲ص۱۲۶حدیث۲۴۴۲