اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطٰن لاکھ سُستی دلائے مگر آپ یہ رسالہ(42صفحات) مکمَّل پڑھ لیجئے اِنْشَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو مفید ترین معلومات ملیں گی
حضرتسیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہ سرکارِمدینۂ منوّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عظمت نشان ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّکے کچھ سَیّاح (یعنی سیر کرنے والے ) فرشتے ہیں ،جب وہ مَحافِلِ ذکر کے پاس سے گزرتے ہیں تو ایک دوسرے سے کہتے ہیں :(یہاں ) بیٹھو۔ جب ذاکرین (یعنی ذِکر کرنے والے)دُعا مانگتے ہیں تو فرشتے اُن کی دُعا پر اٰمین(یعنی ’’ایسا ہی ہو‘‘ ) کہتے ہیں ۔ جب وہ نبی پر دُرُود بھیجتے ہیں تو وہ فرشتے بھی ان کے ساتھ مل کر دُرُود بھیجتے ہیں حتی کہ وہمُنتَشِر (یعنی اِدھر اُدھر) ہوجاتے ہیں ، پھر فرشتے ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ اِن خوش نصیبوں کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ مغفرت کے ساتھ واپس جا رہے ہیں ۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۳ص۱۲۵حدیث۷۷۵۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنّت ،حضرتِ علامہ مولانا محمد الیاس عطارؔ قادری رضوی ضیائی دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی تصنیف ’’نیکی کی دعوت ‘‘(حصہ اول) صفحہ۱۶۱ پر ’’قسم کے بارے میں مدنی پھول‘‘موجود ہیں ، اِفَادِیت کے پیشِ نظر رسالے کی صورت میں بھی شائع کئے جارہے ہیں ۔مجلس مکتبۃُ المدینہ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آج کل کثیر لوگوں کا بات بات پر قسمیں کھانے کی طرف رُجحان(رُج۔حان) دیکھا جا رہا ہے ، بارہاجھوٹی قسم بھی کھا لی جاتی ہے، نہ توبہ کا شُعور نہ کَفّارہ دینے کی کوئی شُد بُد، لہٰذا امّت کی خیرخواہی کا ثواب کمانے کی حِرص کے سبب بطورِ نیکی کی دعوت قدرے تفصیل کے ساتھ قَسَم اور اس کے کَفّارے کے بارے میں مَدَنی پھول پیش کرتا ہوں ، قَبول فرمایئے۔ اس کا اَز اِبتداء تا انتِہا مُطالَعہ یا بعض اسلامی بھائیوں کامل بیٹھ کر دَرس دیناصِرف مُفید ہی نہیں ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّمفید ترین ثابِت ہو گا۔
قسم کو عَرَبی زَبان میں ’’یَمِین‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے:’ ’ دا ہنی(یعنی سیدھی) جانِب‘‘، چُونکہ اہلِ عَرَب عُمُوماً قسم کھاتے یا قسم لیتے وَقت ایک دوسرے سے داہنا (یعنی سیدھا) ہاتھ مِلاتے تھے اِس لئے قسم کو’’ یمین ‘‘کہنے لگے، یا پھر یَمِین ’’یُمْن‘‘ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہیں ’’بَرَکت وقُوَّت ‘‘ ، چُونکہ قسم میں اللہ تَعَالٰی کا بابَرَکت نام بھی لیتے ہیں اور اس سے اپنے کلام کو قُوَّت دیتے ہیں اِس لئے اِسے یَمِین کہتے ہیں یعنی بَرَکت و قُوَّت والی گفتگو۔(مُلَخَّص ازمِراۃُ المناجیح ج۵ ص۹۴) شَرعی اِعتِبار سے قسم اُس عَقد (یعنی عَہد وپَیماں ) کو کہتے ہیں جس کے ذَرِیعے قسم کھانے والا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا پُختہ (پکّا) اِرادہ کرتاہے ۔ (دُرِّمُختار ج۵ ص۴۸۸) مَثَلاً کسی نے یوں کہا : ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی
قسم ! میں کل تمہارا سارا قَرض ادا کردوں گا ‘‘ تو یہ قسم ہے۔
قسم تین طرح کی ہوتی ہے:(ا) لَغو (۲) غَمُوس (۳) مُنعَقِدہ ۔
{۱}لَغْویہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے یاموجودہ اَمر(یعنی مُعامَلے ) پر اپنے خیال میں (یعنی غَلَط فہمی کی وجہ سے) صحیح جان کر قسم کھائے اور درحقیقت وہ بات اس کے خلاف(یعنی اُلَٹ ) ہو ،مَثَلاً کسی نے قسم کھائی : ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! زَیدگھر پر نہیں ہے‘‘ اور اس کی معلومات میں یِہی تھا کہ زید گھر پر نہیں ہے اور اِس نے اپنے گُمان میں سچّی قسم کھائی تھی مگر حقیقت میں زید گھر پر تھا تو یہ قسم ’’لَغو ‘‘ کہلائے گی ،یہ مُعاف ہے اور اس پر کفّارہ نہیں {۲} غَمُوس یہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے یاموجودہ اَمر(یعنی مُعامَلے) پر دانِستہ (یعنی جان بوجھ کر)جھوٹی قسم کھائے مَثَلاً کسی نے قسم کھائی :’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! زیدگھر پر ہے،‘‘ اوروہ جانتا ہے کہ حقیقت میں زَید گھر پر نہیں ہے تو یہ قسم ’’غَمُوس ‘‘ کہلائے گی اورقسم کھانے والا سخت گنہگار ہوا ،اِستِغفار و توبہ فرض ہے مگر کفّارہ لازِم نہیں {۳}مُنْعَقِدہ یہ ہے کہ آیَندہ کے لیے قسم کھائی مَثَلاً یوں کہا:’’ربّ عَزَّ وَجَلَّکی قسم ! میں کل تمہارے گھر ضَرور آؤں گا۔‘‘ مگر دوسرے دن نہ آیا تو قسم ٹوٹ گئی ، اسے کفّارہ دینا پڑے گا اور بعض صورَتوں میں گنہگار بھی ہوگا۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۲)
خُلاصہ یہ ہوا کہ قَسَم کھانے والا کسی گزری ہوئی یاموجودہ بات کے بارے میں
قسم کھائے گا تو وہ یا توسچّاہوگا یاپھر جھوٹا،اگر سچّا ہوگا تو کوئی حَرَج نہیں اور اگرجُھوٹا ہوگا تو اُس نے وہ قسم اپنے خیال کے مطابِق اگرسچّی کھائی تھی تو اب بھی حرج نہیں یعنی گناہ بھی نہیں اور کفَّارہ بھی نہیں ہا ں اگراسے پتا تھا کہ میں جھوٹی قسم کھا رہا ہوں تو گنہگار ہوگا مگر کفّارہ نہیں ہے ، اور اگر اس نے آیَندہ کیلئے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قَسَم کھائی تو اگر وہ قسم پوری کردیتا ہے تو فَبِھا (یعنی خوب بہتر) ورنہ کَفّارہ دینا ہوگا اوربعض صورَتوں میں قسم توڑنے کی وجہ سے گنہگار بھی ہوگا۔ (ان صورَتوں کی تفصیل آگے آرہی ہے)
رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عالیشان ہے: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ساتھ شرک کرنا،والِدَین کی نافرمانی کرنا ، کسی جان کوقَتل کرنا اورجُھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہیں ۔‘‘ (بُخاری ج۴ص۲۹۵حدیث۶۶۷۵)
حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردُود ہوا تھا لہٰذا وہ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّنےحضراتِ سیِّدَینا آدم و حَوّا عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاموَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے فرمایا کہ جنّت میں رہو اور جہاں دل کرے بے رَوک ٹَوک کھاؤاَلبتَّہ اِس ’’دَرَخت ‘‘ کے قریب نہ جانا۔ شیطان نے کسی طرح حضراتِ سیِّدَینا آدم و حَوّاعَلٰی نَبِیِّنا
وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاموَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے پاس پہنچ کر کہا کہ میں تمہیں ’’شَجَرِخُلد‘‘ بتادوں ، حضرتِ سیِّدُنا آدمصَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے منع فرمایا توشیطان نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ (یعنی بھلائی چاہنے والا)ہوں ۔ اِنہیں خیال ہوا کہ اللّٰہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے! یہ سوچ کر حضرتِ سیِّدَتُنا حوّا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے اِس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت سیِّدُناآدم صَفِیُّ اللّٰہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیا انہوں نے بھی کھا لیا۔(مُلَخَّص ازتفسیرعبد الرّزاق ج۲ص۷۶) جیسا کہ پارہ 8 سُوْرَۃُ الْاَعْرَافْکی آیت20 اور 21 میں ارشاد ہوتا ہے:
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَهُمَا مَاوٗرِیَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَیْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ(۲۰)وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ(۲۱)
ترجَمۂ کنزالایمان:پھر شیطان نے ان کے جی میں خطرہ ڈالا کہ ان پر کھول دے ان کی شَرم کی چیزیں جو ان سے چُھپی تھیں اور بولا: تمہیں تمہارے ربّ نے اِس پیڑ سے اِسی لئے مَنع فرمایا ہے کہ کہیں تم دو فِرِشتے ہوجاؤ یا ہمیشہ جینے والے اور ان سے قَسَمکھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں ۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِیتفسیر خَزائنُ العِرفانمیں لکھتے ہیں :معنٰی یہ ہیں کہ اِبلیس مَلعُون نے جُھوٹی قسم کھا کر حضرتِ( سیِّدُنا) آدم (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کو دھوکا دیا اور پہلا جھوٹی قسم کھانے
والا اِبلیس ہی ہے، حضر تِ آدم (عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کو گُمان بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم کھا کرجُھوٹ بول سکتا ہے ،اس لئے آپ نے اُس کی بات کا اِعتبار کیا ۔
رسولِ کریم، رء ُوفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عظیم ہے: جو قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مار لےاللہ عَزَّ وَجَلَّاُس کے لئے جہنَّم واجِب کر دیتا اور اُس پر جنّت حرام فرما دیتا ہے ۔ عَرض کی گئی یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاگرچِہ وہ تھوڑی سی چیز ہی ہو؟ارشاد فرمایا: ’’اگرچِہ پِیلُو کی شاخ ہی ہو۔‘‘ (مُسلِم ص۸۲ حدیث ۲۱۸۔ (۱۳۷) ) پِیلُوایک دَرَخْت ہے جس کی شاخ اور جڑ سے مِسواک بناتے ہیں ۔
ایک حَضرَمی(یعنی مُلکِ یَمَن کے شہر’’ حَضْرَمَوت‘‘کے باشندے) اور ایک کِندی (یعنی قبیلۂ کِنْدَہ سے وابَستہ ایک شخص) نے مدینے کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہِ انور میں یَمَن کی ایک زمین کے مُتعلِّق اپنا جھگڑا پیش کیا، حَضرَمی نے عَرض کی: ’’یارسول اللّٰہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میری زمین اِس کے باپ نے چھین لی تھی ، اب وہ اِس کے قبضے میں ہے۔‘‘ تو نبیِّ مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دریافت فرمایا : ’’کیا تمہارے پاس کوئی گواہی ہے؟‘‘ عرض کی:’’نہیں ، لیکن میں اِس سے قسم لوں
گاکہ اللّٰہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ میری زمین ہے جو اس کے باپ نے غَصَب کر لی تھی۔‘‘ کِندی قسم کھانے کے لئے تیّار ہو گیا تو رسولِ اکرم، شَہَنشاہ ِ آدم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جو (جھوٹی) قسم کھا کر کسی کا مال دبائے گا وہ بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّمیں اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں گے۔‘‘ یہ سن کر کِندی نے کہہ دیا کہ یہ زمین اُسی(یعنی حَضرمی) کی ہے۔ (سُنَنِ ابوداوٗدج۳ص۲۹۸حدیث۳۲۴۴)
مُفَسِّرِشَہِیر،حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں : سُبْحٰنَ اللہِ!یہ ہے اثر اُس زَبانِ فیض تَرجُمان کا کہ دو کلمات میں اُس (کِندی) کے دل کا حال بدل گیا اور سچّی بات کہہ کر زمین سے لا دعویٰ ہوگیا۔ (مراۃُ المناجیح ج۵ ص۴۰۳)
رِشوتوں کے ذَرِیعے دوسروں کی جگہوں پر قبضہ کر کے عمارتیں بنانے والوں ، لوگوں کی طرف سے ٹھیکے پر ملی ہوئی زَرعی زمینیں دبالینے والے کِسانوں ، وَڈَیروں اور خائِن زمین داروں کو گھبراکر جھٹ پٹ توبہ کرلینی چاہئے اور جن جن کے حُقُوق دبائے ہیں وہ فوراً ادا کردینے چاہئیں کہ ’’ مسلم شریف‘‘ میں سرکارِ نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’جو شخص کسی کی بالِشت بھر زمین ناحق طور پر لے گا تُو اُسے قِیامت کے روز سات زمینوں کا طَوق(یعنی ہار) پہنایا جائے گا ۔‘‘ (صَحیح مُسلِم ص۸۶۹ حدیث ۱۶۱۰ )
بعض لوگ شارِعِ عام پر بِلاحاجت راستہ گھیر لیتے ہیں جن میں کئی صورتیں لوگوں کیلئے سخت تکلیف کا باعِث بنتی ہیں ، مَثَلاً{۱} بَقَرعید کے دنوں میں قربانی کے جانور بیچنے یا کرائے پر رکھنے یا ذَبح کرنے کیلئے بعض جگہ بِلاضرورت پوری پوری گلیاں گھیر لیتے ہیں {۲}راستے میں تکلیف دِہ حد تک کچرا یا مَلبہ ڈالتے ، تعمیرات کیلئے غیر ضَروری طور پربَجری اور سَریوں کا ڈھیر لگا دیتے ہیں اور یونہی تعمیرات کے بعد مہینوں تک بچا ہوا سامان و ملبہ پڑا رہتا ہے{۳} شادی و غمی کی تقریبوں ، نیازوں وغیرہ کے موقَعَوں پر گلیوں میں دیگیں پکاتے ہیں جن سے بعض اوقات زمین پر گڑھے پڑ جاتے ہیں پھر ان میں کیچڑ اورگندے پانی کے ذخیرے کے ذَرِیعے مچّھر پیدا ہوتے اور بیماریاں پھیلتی ہیں {۴}عام راستوں میں کُھدائی کروا دیتے ہیں مگر ضَرورت پوری ہوجانے کے باوُجُود بھروا کر حسبِ سابِق ہموار نہیں کرتے {۵}رِہائش یاکاروبار کیلئے ناجائز قبضہ جما کر اِس طرح جگہ گھیر لیتے ہیں کہ لوگوں کا راستہ تنگ ہو جاتا ہے ۔ ان سب کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 853 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’جہنَّم میں لے جانے والے اعمال(جلد اوّل)‘‘ صَفْحَہ 816 پر امام ابنِ حَجَر مکّی شافِعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کبیرہ گناہ نمبر 215 میں اِس فِعل (یعنی کام) کو گناہِ کبیرہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ شارِعِ عام میں غیر شَرعی تَصَرُّف (مُداخلت)کرنا
یعنی ایسا تَصَرُّف (یعنی دخل دینایا عمل اختیار )کرنا جس سے گزرنے والوں کو سخت نقصان پہنچے‘‘ اس کا سبب بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ اس میں لوگوں کی اِیذا رَسانی اورظُلماً اُن کے حُقُوق کا دبانا پایا جا رہا ہے۔ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ’’جس نے ایک بالشت زمین ظلم کے طور پر لے لی قِیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا حصّہ طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ (صَحیح بُخاری ج ۲ص۳۷۷حدیث۳۱۹۸)
جھوٹی قسم کے نقصانات کا نقشہ کھینچتے ہوئیمیرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت، مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :جھوٹی قسم گھروں کو وِیران کر چھوڑتی ہے (فتاوٰی رضویہ مُخرجَّہ ج ۶ ص۶۰۲) ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :جھوٹی قسم گزَشتہ بات پر دانِستہ(یعنی جان بوجھ کر کھانے والے پر اگر چِہ) اس کا کوئی کفَّارہ نہیں ، (مگر) اس کی سزا یہ ہے کہ جہنَّم کے کَھولتے دریا میں غَوطے دیاجائے گا۔(فتاوٰی رضویہ ج۱۳ ص۶۱۱) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ذرا غور کیجیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّجس نے ہمیں پیدا کیا، پوری کائنات کو تخلیق کیا(یعنی بنایا)، جس پر ہرہر بات ظاہِر ہے، کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں ، حتّٰی کہ دلوں کے بھید بھی وہ خوب جانتا ہے، جو رَحمن و رحیم بھی ہے اور قَہّار وجَبّار بھی ہے، اُس ربُّ الانام کا نام لے کر جھوٹی قسم کھانا کتنی بڑی نادانی کی بات ہے اور وہ بھی دُنیا کے کسی عارِضی(وَقتی) فائدے یا چندسِکّوں کے لئے!
یہود کے اَحبار(یعنی عُلَما) اور ان کے رئیسوں (یعنی سرداروں )ابُو رافِع وکِنانَہ بِن اَبِی الحُقَیْقاورکَعْب بِن اَشرَفاورحُیَیِّبنِ اَخْطَب نے اللہ عَزَّ وَجَلَّکاوہ عَہد چُھپایا جو سیِّدِ عالم، رسولِ محترمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے مُتَعلِّق ان سے تَورَیت شریف میں لیا گیا۔وہ اِس طرح کہ اُنہوں نے اِس کو بدل دیا اور اِس کی جگہ اپنے ہاتھوں سے کچھ کاکچھ لکھ دیا اور جُھوٹی قسم کھائی کہ یہاللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ہے ، یہ سب کچھ اُنہوں نے اپنی جماعت کے جاہلوں سے رشوتیں اورمال و زَر حاصل کرنے کے لئے کیا۔ان کے بارے میں یہ آیتِ مبارَکہ نازل ہوئی:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۷) (پ۳،ال عمرٰن :۷۷)
ترجَمۂ کنزالایمان:جو اللہ کے عہد اوراپنی قسموں کے بدلے ذلیل دام لیتے ہیں آخِرت میں ان کا کچھ حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے، نہ ان کی طرف نظر فرمائے قِیامت کے دن اور نہ انہیں پاک کرے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(تفسیرِخازن ج۱ص۲۶۵)
عبداللّٰہ بن نَبْتَل(نامی ایک) مُنافِق (تھا)جو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مجلس میں حاضِر رہتا اور یہاں کی بات یَہودکے پاس پہنچاتا (تھا)، ایک روزحُضورِ
اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دولت سَرائے اقدس میں تشریف فرماتھے ،حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اِس وَقت ایک آدَمی آئے گا جس کا دل نہایت سخت اور شیطان کی آنکھوں سے دیکھتا ہے ، تھوڑی ہی دیر بعد عبداللّٰہ بن نَبْتَل آیا ، اس کی آنکھیں نیلی تھیں ، حُضُور سیّدِ ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا :تو اور تیرے ساتھی کیوں ہمیں گالیاں دیتے ہیں ؟ وہ قسم کھا گیا کہ ایسا نہیں کرتا اور اپنے یاروں کو لے آیا، انہوں نے بھی قسم کھائی کہ ہم نے آپ کو گالی نہیں دی ، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی :
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْؕ-مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لَا مِنْهُمْۙ-وَ یَحْلِفُوْنَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۴) (پ۲۸،مجادلہ:۱۴)
ترجَمۂ کنزالایمان: کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جو ایسوں کے دوست ہوئے جن پر اللہ کا غَضَب ہے ، وہ نہ تم میں سے نہ ان میں سے ،وہ دانِستہ جھوٹی قسم کھاتے ہیں ۔ (خزائن العرفان)
منقول ہے کہ قِیامت کے دن ایک شخص کو اللہ عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں کھڑا کیا جائے گا،اللہ عَزَّ وَجَلَّاُسے جہنَّم میں لے جانے کا حکم فرمائے گا۔ وہ عَرض کرے گا: یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے کس لئے جہنَّم میں بھیجا جارہاہے ؟ارشادہوگا : نَمازوں کو ان کا وقت گزار کر پڑھنے اورمیرے نام کی جھوٹی قسمیں کھانے کی وجہ سے ۔ (مُکاشَفَۃُ الْقُلو ب ص۱۸۹)
حضرتِ سیِّدُنا ابو ذرغِفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے مروی ہے کہاللہ عَزَّ وَجَلَّکے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرشاد فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تَعَالٰی نہ کلام فرمائے گا، نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دَرد ناک عذاب ہے۔‘‘ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہاللہ عَزَّ وَجَلَّکے حبیب ، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ بات تین بار اِرشاد فرمائی تو میں نے عرض کی:وہ تو تباہ وبرباد ہو گئے، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا: {۱}تکبُّرسے اپنا تہبند لٹکانے والا اور {۲} اِحسان جتلانے والا اور{۳} جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچنے والا۔ (صَحیح مُسلِم ص۶۷حدیث۱۷۱(۱۰۶))
اِس روایت سے خُصوصاً وہ تاجِر و دُکاندار حضرات عبرت پکڑیں جوجھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال فَروخت کرتے ہیں ، اشیاء کے عُیوب(یعنی خامیاں ) چھپانے اور ناقِص و گھٹیا مال پر زیادہ نَفع کمانے کی خاطر پے دَر پے قَسمیں کھائے چلے جاتے ہیں اور اس میں کسی قِسم کی عار(یعنی شرم و جِھجک) محسوس نہیں کرتے ، اِ ن کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کہ شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالِک و مختاربِاِذنِ پَروَردَگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : جھوٹی قسم سے سودا فَروخت ہوجاتا ہے اور بَرَکت مِٹ جاتی ہے۔ (کَنْزُ الْعُمّال ج۱۶
ص۲۹۷ حدیث ۴۶۳۷۶ )ایک اور جگہ فرمایا:’’قسم سامان بِکوانے والی ہے اور بَرَکت مِٹانے والی ہے۔ ‘‘ (صَحیح بُخاری ج۲ص۱۵حدیث۲۰۸۷)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں :بَرَکت( مِٹ جانے ) سے مُراد آیَندہ کاروبار بند ہو جانا ہو یا کئے ہوئے بیوپار میں گھاٹا (یعنی نقصان )پڑ جانا یعنی اگر تم نے کسی کو جھوٹی قسم کھا کر دھوکے سے خراب مال دے دیا وہ ایک بار تو دھوکا کھا جائے گامگر دوبارہ نہ آئے گانہ کسی کو آنے دے گا، یا جو رقم تم نے اُس سے حاصل کرلی اُس میں بَرَکت نہ ہوگی کہ حرام میں بے برکتی ہے۔ (مراۃ المناجیح ج۴ ص ۳۴۴ )
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کا(32صَفحات) پر مشتمل رسالہ ’’کفن چوروں کے انکشافات‘‘ میں ہے:ایک بار خلیفہ عبدالملِک کے پاس ایک شخص گھبرا یا ہوا حاضِر ہوا اورکہنے لگا:عالی جاہ!میں بے حد گنہگار ہوں اورجاننا چاہتاہوں کہ آیا میرے لئے مُعافی ہے یا نہیں ؟خلیفہ نے کہا: کیا تیرا گناہ زمین وآسمان سے بھی بڑا ہے؟ اُس نے کہا : بڑا ہے ۔ خلیفہ نے پوچھا :کیا تیر اگناہ لَوح وقلم سے بھی بڑا ہے ؟ جواب دیا: بڑا ہے ۔ پوچھا: کیا تیر ا گناہ عَرش وکُرسی سے بھی بڑا ہے؟ جواب دیا: بڑا ہے۔خلیفہ نے کہا: بھائی یقیناتیراگنا ہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی رَحمت سے تو بڑا نہیں ہو سکتا ۔ یہ سن کر اُس کے سینے میں
تھما ہوا طوفان آنکھوں کے ذَرِیعے اُمنڈآیا اوروہ دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ خلیفہ نے کہا: بھئی آخِر پتا بھی تو چلے کہ تمہار ا گناہ کیاہے! اِس پر اُس نے کہا:حُضُور!مجھے آپ کو بتاتے ہوئے بے حد نَدامت ہورہی ہے تاہم عَرض کئے دیتاہوں ، شاید میری تَوبہ کی کوئی صورت نکل آئے۔یہ کہہ کر اُس نے اپنی داستانِ وَحشَت نشان سنانی شُروع کی۔ کہنے لگا:عالی جاہ! میں ایک کفن چور ہوں ،آج رات میں نے پانچ قبروں سے عبرت حاصل کی اور توبہ پر آمادہ ہوا۔پھر اُس نے پانچ قبروں کے عبرتناک اَحوال سنائے ، ایک قَبْر کا حال سناتے ہوئے اُس نے کہا:کفن چُرانے کی غَرَض سے میں نے جب دوسری قَبْر کھودی تو ایک دل ہِلادینے والا منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا! کیا دیکھتا ہوں کہ مُردے کا منہ خِنزیر جیساہوچکا ہے اوروہ طَوق وزَنجیر میں جکڑا ہوا ہے ۔ غیب سے آوازآئی : یہ جھوٹی قسمیں کھاتا اور حرام روزی کماتا تھا۔ ( ماخُوذ اَز تذکرۃ الواعظین ص۶۱۲)
خاتَمُ الْمُرْسَلِیْن، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’جو شخص قسم کھائے اور اس میں مچھر کے پَرکے برابر جھوٹ ملا دے تو وہ ’’ قسم‘‘ تایومِ قِیامت اُس کے دل پر( سیاہ) نکتہ بن جائے گی۔‘‘ (اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج۹ ص۲۴۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! لرز جایئے! کانپ اٹھئے !! یقینا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا عذاب
برداشت نہیں ہو سکے گا اگر ماضی میں جھوٹی قسمیں کھائی ہیں تو ان سے فوراً سے پیشتر توبہ کر لیجئے اور یہ بات خوب ذِہن نشین فر ما لیجئے کہ اگر بوقتِ ضَرورت قسم کھانی ہی پڑے تو صِرف و صِرْف سچّی قسم کھایئے ۔
اگر کوئی مسلمان ہمارے سامنے کسی بات کی قسم کھائے توحُسنِ ظن رکھتے ہوئے ہمیں اس کی بات کایقین کرلینا چاہئے ، امام شَرَفُ الدّین نَوَوی(نَ۔وَ۔وی) عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں کہ مسلمان بھائی کی قسم کا اعتبار کرنا اور اُس کو پورا کرنا مُستَحَب ہے بشرطیکہ اس میں فِتنے وغیرہ کا امکان نہ ہو ۔ (شرح مسلم لِلنَّووی ج۱۴ ص۳۲)
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّکےمَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے: (حضرتِ ) عیسیٰ ابنِ مریم نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو اُس سے فرمایا:’’ تو نے چوری کی،‘‘ وہ بولا: ’’ ہرگز نہیں اُس کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘تو(حضرتِ ) عیسیٰ نے فرمایا: میں اللّٰہُ پر ایمان لایا اور میں نے اپنے کو آپ جُھٹلایا ۔ (صَحیح مُسلِم ص۱۲۸۸ حدیث۲۳۶۸)
اللّٰہُ اَکبر!دیکھا آپ نے! حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
نے قسم کھا لینے والے کے ساتھ کتنا عظیم برتائو کیا۔ مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّاناُس قسم کھانے والے کو چھوڑدینے کیمُتَعَلِّق حضرت ِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے کے مُقدَّس جذبات کی عَکّاسی کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :یعنی اِس قَسَمکی وجہ سے تجھے سچّا سمجھتا ہوں کہ مومن بندہ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)کی ’’جھوٹی قسم‘‘ نہیں کھاسکتا ،(کیونکہ)اُس کے دل میں اللہ کے نام کی تعظیم ہوتی ہے، اپنے مُتَعَلِّق غَلَط فَہمی کا خیال کر لیتا ہوں کہ میری آنکھوں نے دیکھنے میں غَلَطی کی ۔ (مِراٰۃ ج ۶ ص ۶۲۳) اللہکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
قراٰنِ کریم کی قسم کھانا ،قَسَم ہے، البتّہ صِرف قراٰنِ کریم اُٹھا کر یا بیچ میں رکھ کر یا اُس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات کرنی قسم نہیں ۔’’فتاوٰی رضویہ‘‘ جلد13صَفْحَہ574 پرہے: جھوٹی بات پر قراٰنِ مجید کی قسم اُٹھانا سخت عظیم گناہ ِکبیرہ ہے اور سچّی بات پر قراٰنِ عظیم کی قسم کھانے میں حَرَج نہیں اورضَرورت ہو تو اُٹھا بھی سکتا ہے مگریہقَسَم کو بَہُت سخت کرتا ہے، بِلاضَرورتِ خاصّہ نہ چاہئے۔نیز صَفْحَہ 575 پرہے: ہاں مُصحَف(یعنی قراٰن) شریف ہاتھ میں لے کر یا اُس پر ہاتھ رکھ کر کوئی بات کہنی اگر لفظاً حَلف وقَسَم کے ساتھ نہ ہو حَلفِ
شَرعی نہ ہو گا (یعنی قراٰنِ کریم کو صِرف اُٹھانے یا اُس پر ہاتھ رکھنے یا اُسے بیچ میں رکھنے کو شرعاً قَسَم قرار نہ دیا جائے گا) مَثَلاً کہے کہ میں قراٰنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ ایسا کروں گا اورپھر نہ کیا تو( چونکہ قسم ہی نہیں ہو ئی تھی اس لئے) کفّارہ نہ آئے گا۔ واللّٰہُ تعالٰی اَعلم۔
فتاوٰی رضویہ جلد13صَفْحَہ609 پرایک شرابی کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہوئے کچھ اِس طرح پوچھا گیا ہے کہ اُس نے چار گواہوں کے سامنے قراٰنِ کریم اُٹھا کر قسم کھائی کہ آیَندہ شراب نہ پیوں گا مگر پھر پی لی ۔ اُس کے تفصیلی جواب کے آخِر میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :اگر اس نے قراٰن اٹھا کر قراٰن کے نام سے قسم کھائی یا اللہ تَعَالٰی کے نام سے قسم کھائی اور زبان سے ادا بھی کی ہو پھر قسم توڑدی ہے تو اس پر کفّارہ لازم ہے۔ اور اگراُس نے قراٰنِ مجید اٹھا کر قسم کھائی ہے اوربَہُت سخت مُعامَلہ ہے کہ قراٰن اُٹھا کر اُس نے اِس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پھر سے شراب نَوشی کی ہے جس سے قراٰنِ پاک کی توہین تک مُعامَلہ پہنچا اور (اُس نے )قراٰن کے عظیم حق کی پامالی کی ہے تو اس سخت کارروائی(یعنی جبکہ لفظ قسم نہ کہا ہو صِرف قراٰنِ کریم اٹھایا ہو اِس) پرکَفّارہ نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اس پر لازِم ہے کہ فوراً توبہ کرے اور اُس بُرے فِعل (یعنی شراب نوشی) کو
آیَندہ نہ کرنے کاپُختہ قَصد(یعنی پکّی نیّت) کرے ورنہ پھر اللہ تَعَالٰی کی طرف سے درد ناک عذاب اورجہنَّم کی آگ کا انتِظار کرے۔ وَالْعِیاذُ بِاللّٰہِ تعالٰی(یعنی اور اس سے اللہ تَعَالٰی کی پناہ)۔ اور اگر زَبان سے قسم ادا نہیں کی بلکہ اُسی قراٰن اُٹھانے کو قسم قرار دیا تو اِس قسم کا وُہی حکم ہے کہ اس پر کفّارہ نہیں بلکہ عذابِ الیم کا انتِظار کرے۔
سُوالـ:خدا کی جھوٹی قسم کھانے پر کیا کفّارہ دینا چاہئے ؟اگر ایک ہی وَقت میں کئی مرتبہ جھوٹی قسم خدا کی کھائے تو ایک کفّارہ دے یا ہر ایک قسم کا علیٰحَدہ علیٰحَدہ ؟ جواب : جھوٹی قسم گزَشتہ بات پر دانِستہ (یعنی جان بوجھ کر کھائی تو)، اُس کا کوئی کفّارہ نہیں ، اس(جھوٹی قَسم) کی سزا یہ ہے کہ جہنَّم کے کَھولتے دریا میں غَوطے دیاجائے گا ۔ اور آیَندہ(کی) کسی بات پر قسم کھائی اور وہ نہ ہو سکی تو اُس کا کَفّارہ ہے ،ایک قسم کھائی ہوتو ایک اور دس (کھائی ہوں )تو دس۔وَاللّٰہُ تَعالٰی اَعلم۔(یعنی اور اللہ تَعَالٰی سب سے زیادہ جاننے والا ہے)
ربِ کریم عَزَّ وَجَلَّکاپارہ2 سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ کی آیت 224میں فرمانِ عظیم ہے :
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ
ترجمۂ کنزالایمان.:اور اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنالو۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْہَادِیاس آیت کے تَحت لکھتے ہیں :بعض مُفَسِّرین(رَحِمَہُمُ اللہُ المُبِین) نے یہ بھی کہاہے کہ اس آیت سے بکثرت قسم کھانے کی مُمانَعَت ثابِت ہوتی ہے۔ ( حاشیۃُ الصّاوی ج۱ص۱۹۰)
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم نَخَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو ہمارے بُزُرگ قسم کھانے اور وعدہ کرنے پر ہماری پِٹائی کرتے تھے ۔ (صَحیح بُخاری ج ۲ص۵۱۶حدیث۳۶۵۱)
تُو جھوٹی قسموں سے مجھ کو سدا بچا یا ربّ!
نہ بات بات پہ کھائوں قسم، خدا یا ربّ!
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1182 صَفحات پر مشتمل کتاببہارِ شریعت جلد2 صَفْحَہ 298 تا 311اور319 سے قسم اور کَفّارے سیمُتَعلِّق15 مَدَنی پھول پیش کئے جاتے ہیں ،(ضرورتاً کہیں کہیں تصرُّف کیا گیا ہے)
{1}قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھاہے(یعنی دورانِ گفتگوباربارقسم کھانے کی عادت
بنارکھی ہے) کہ قَصد و بے قَصد(یعنی اِرادتاً اوربِغیرارادے کے) زَبان سے(قسم) جاری ہوتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچّی ہے یا جھوٹی! یہ سخت مَعیوب(یعنی بَہت بُری بات ) ہے اور غیرِ خدا کی قسم مکروہ ہے اور یہ شَرعاً قسم بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفّارہ لازِم نہیں ۔
{2}غَلَطی سے قسم کھا بیٹھا مَثَلاً کہنا چاہتا تھا کہ پانی لائو یاپانی پیوں گا اور زَبان سے نکل گیا کہ’’ خدا کی قسم پانی نہیں پیوں گا‘‘ تویہ بھی قسم ہے اگر توڑے گا کفَّارہ دینا ہوگا۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۰ )
{3} قسم توڑنا اختیار سے ہو یا دوسرے کے مجبور کرنے سے، قَصداً (یعنی جان بوجھ کر )ہو یا بھول چوک سے ہر صورت میں کَفّارہ ہے بلکہ اگر بیہوشی یا جُنُون میں قسم توڑنا ہوا جب بھی کفَّارہ واجِب ہے جب کہ ہوش میں قسم کھائی ہواور اگر بے ہوشی یا جُنُون(یعنی پاگل پن) میں قسم کھائی تو قسم نہیں کہ عاقل ہونا شَرط ہے اور یہ عاقل نہیں ۔(تَبیِینُ الحقائق ج۳ ص ۴۲۳ )
{4} یہ الفاظ قسم نہیں اگرچِہ ان کے بولنے سے گنہگار ہوگا جبکہ اپنی بات میں جھوٹا ہے : اگر ایسا کروں تومجھ پر اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کا غَضَب ہو۔اُس کی لعنت ہو ۔اُس کا عذاب ہو۔ خُدا کا قہرٹوٹے۔ مجھ پر آسمان پھٹ پڑے۔ مجھے زمین نگل جائے۔ مجھ پر خدا
کی مارہو۔ خدا کی پِھٹکارہو۔ رسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شَفاعت نہ ملے۔ مجھے خدا کا دیدار نہ نصیب ہو۔مرتے وقت کلمہ نہ نصیب ہو۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۴)
{5}بعض قسمیں ایسی ہیں کہ اُن کا پورا کرنا ضَروری ہے، مَثَلاً کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جس کابِغیر قسم(بھی) کرنا ضَروری تھا یا گناہ سے بچنے کی قسم کھائی(کہ گنا ہ سے بچنے کی قسم نہ بھی کھائیں تب بھی گناہ سے بچنا ضَروری ہی ہے) تو اس صورت میں قسم سچّی کرنا ضَرورہے۔مَثَلاً (کہا)خدا کی قسم ظُہرپڑھوں گا یا چوری یا زِنا نہ کروں گا۔ (قسم کی) دوسری (قِسم ) وہ کہ اُس کا توڑنا ضَروری ہے مَثَلاًگناہ کرنے یا فرائض و واجِبات (پورے) نہ کرنے کی قسم کھائی، جیسے قسم کھائی کہ نَماز نہ پڑھوں گا یا چوری کروں گا یا ماں باپ سے کلام (یعنی بات چیت) نہ کروں گا تو قسم توڑ دے۔ تیسری وہ کہ اُس کا توڑنا مُستَحب ہے مَثَلاً ایسے اَمر (یعنی مُعاملے یاکام) کی قسم کھائی کہ اُس کے غیر(یعنی علاوہ) میں بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے۔ چوتھی وہ کہ مُباح کی قسم کھائی یعنی(جس کا) کرنا اور نہ کرنا دونوں یکساں ہے اس میں قسم کا باقی رکھنا افضل ہے۔ (المبسوط للسرخسی ج۴ ص ۱۳۳ )
{6} اللہ عَزَّ وَجَلَّکے جتنے نام ہیں اُن میں سے جس نام کے ساتھ قسم کھائے گا قسم ہوجائے گی خواہ بول چال میں اُس نام کے ساتھ قسم کھاتے ہوں یانہیں ۔مَثَلاً اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) کی قسم، خدا کی قسم، رحمن کی قسم، رحیم کی قسم، پَروَردَگار کی قسم۔ یوہیں خدا کی جس صِفَت کی
قسمکھائی جاتی ہو اُس کی قسم کھائی، ہوگئی مَثَلاًخدا کی عزّت وجلال کی قسم، اُس کی کِبریائی(عَظَمت،بڑائی)کی قسم، اُس کی بُزُرگی یا بڑائی کی قسم ، اُس کی عَظَمت کی قسم، اُس کی قدرت و قوَّت کی قسم، قرآن کی قسم، کلامُ اﷲ کی قسم۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص۵۲)
{7}ان الفاظ سے بھی قسم ہوجاتی ہے :حَلف کرتا ہوں ۔ قسم کھاتا ہوں ۔ میں شہادت دیتا ہوں ۔ خداکو گواہ کرکے کہتا ہوں ۔ مجھ پر قسم ہے۔لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ میں یہ کام نہ کروں گا۔(اَیضاً)
{8}اگر یہ کام کرے یا کیا ہو تو یہودی ہے یا نصرانی یا کافر یا کافروں کا شریک۔مرتے وقت ایمان نصیب نہ ہو۔ بے ایمان مرے۔ کافر ہوکرمرے۔اور یہ الفاظ بَہُت سخت ہیں کہ اگر جھوٹی قسم کھائی یا قسم توڑ دی تو بعض صورت میں کافرہوجائے گا۔ جو شخص اِس قِسم کی جھوٹی قَسَمکھائے اُس کی نسبت حدیث میں فرمایا: ’’وہ وَیسا ہی ہے جیسا اُس نے کہا۔‘‘ یعنی یہودی ہونے کی قسم کھائی تو یہودی ہوگیا۔ یونہی اگر کہا:’’ خدا جانتاہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ ‘‘ اور یہ بات اُس نے جھوٹ کہی ہے تو اکثرعُلَما کے نزدیک کافرہے۔ (بہارِ شریعت ج۲ص۳۰۱ )
{9}جو شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرے مَثَلاً کہے کہ فُلاں چیز مجھ پر حرام ہے تو اِس کہدینے سے وہ شے حرام نہیں ہوگی کہ اللہ (عَزَّ وَجَلَّ) نے جس چیز کو حلال کیا
اُسے کون حرام کرسکے ؟مگر(جس چیز کو اپنے اُوپر حرام کیا)اُس کے بَرَتنے (بَ۔رَت۔نے یعنی استِعمال کرنے )سے کفّارہ لازِم آئیگا یعنی یہ بھی قسم ہے۔ (تَبیِینُ الحقائق ج ۳ص ۴۳۶) تجھ سے بات کرنا حرام ہے یہ(بھی) یَمین(یَ۔مِین۔یعنی قسم)ہے۔ بات کرے گا تو کفّارہ لازِم ہوگا۔ (فتاوٰی عالمگیریج ۲ ص ۵۸)
{10}غیرِخدا کی قسم،’’ قسم ‘‘نہیں مَثَلاً تمہاری قسم۔ اپنی قسم۔ تمہاری جان کی قسم ۔اپنی جان کی قسم۔ تمہارے سرکی قسم۔ اپنے سرکی قسم۔ آنکھوں کی قسم۔ جوانی کی قسم۔ ماں باپ کی قسم۔ اولادکی قسم۔ مذہب کی قسم۔ دین کی قسم۔ علم کی قسم۔ کعبے کی قسم۔ عرشِ اِلٰہی کی قسم۔ رَسُولُ اللہ کی قسم۔ (ایضاًص۵۱)
{11} خدا ورسول کی قسم یہ کام نہ کروں گا یہ قسم نہیں ۔ (ایضاًص۵۷،۵۸)
{12} اگر یہ کام کروں تو کافِروں سے بدتر ہوجائوں (کہا)تو(یہ) قسم ہے اور اگر کہا کہ یہ کام کرے (یعنی کروں )تو کافر کو اِس(یعنی مجھ) پرشَرَف ہو(یعنی فضیلت ہو) تو قسم نہیں ۔(ایضاًص۵۸)
{13} دوسرے کے قسم دِلانے سے قسم نہیں ہوتی مَثَلاً کہا :تمہیں خدا کی قسم یہ کام کردو۔ تو اِس کہنے سے(جس سے کہا) اُس پر قسم نہ ہوئی یعنی نہ کرنے سے کفّارہ لازِم
نہیں ۔ ایک شخص کسی کے پاس گیا اُس نے اٹھنا چاہا اُس نے کہا :خداکی قسم نہ اُٹھنا اور(جس سے کہا) وہ کھڑا ہوگیا تواُس قسم کھانے والے پر کفّارہ نہیں ۔ (ایضاًص۵۹۔۶۰)
{14}یہاں ایک قاعدہ یاد رکھنا چاہیے جس کا قسم میں ہرجگہ لحاظ ضرور ہے وہ یہ کہ قسم کے تمام الفاظ سے وہ معنٰے لیے جائیں گے جن میں اہلِ عُرف استعمال کرتے ہوں مَثَلاً کسی نے قسم کھائی کہ کسی مکان میں نہیں جائیگا اور مسجد میں یا کعبۂ معظمہ میں گیا تو قسم نہیں ٹوٹی اگرچہ یہ بھی مکان ہیں ، یوں ہی حمّام میں جانے سے بھی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۲ص ۶۸)
{15}قسم میں الفاظ کا لحاظ ہوگا ،اِس کا لحاظ نہ ہوگا کہ اِس قسم سے غَرَض کیا ہے یعنی ان لفظوں کے بول چال میں جو معنٰے ہیں وہ مُراد لیے جائیں گے قسم کھانے والے کی نیّت اور مقصد کا اعتِبار نہ ہوگا مَثَلاً قسم کھائی کہ’’ فُلاں کے لیے ایک پیسے کی کوئی چیز نہیں خریدوں گا ‘‘اور ایک رُوپے کی خریدی تو قسم نہیں ٹوٹی حالانکہ اِس کلام سے مقصد یہ ہوا کرتا ہے کہ نہ پیسے کی خریدوں گا نہ رُوپے کی مگرچُونکہ لَفظ سے یہ نہیں سمجھا جاتا لہٰذا اس کا اعتبار نہیں یا قسم کھائی کہ’’ دروازے سے باہَرنہ جائوں گا‘‘ اور دیوار کُود کریا سیڑھی لگا کر باہَر چلاگیا تو قسم نہیں ٹوٹی اگرچِہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ گھرسے باہَر نہ جائوں گا۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۵ ص۵۵۰)
اِس ضِمن میں حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمکی ایک حکایت سنئے اور جھومئے چُنانچِہ
ایک شخص نے قسم کھائی کہ انڈا نہ کھائوں گا اور پھر یہ قسم کھائی کہ جو چیز فُلاں شخص کی جیب میں ہے وہ ضَرور کھائوں گا۔ اب دیکھا تواُس کی جیب میں انڈا ہی تھا۔کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم سے پوچھا گیا تو فرمایا: اُس انڈے کو کسی مُرغی کے نیچے رکھ دے اور جب چُوزہ نکل آئے تو اُسے بُھون کر کھالے یا شوربے میں پکا کر شوربے سمیت کھالے۔(اس صورت میں قَسَم پوری ہو جا ئے گی)(الخیرات الحسان ص۱۸۵) اللہ عَزَّ وَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اگر وَاللّٰہ بِاللّٰہ تَاللّٰہ کہا تو تین قسمیں ہوئیں ۔ بخدا ۔قسم سے ۔بَحلفِ شَرعی کہتا ہوں ۔ اللّٰہ کو حاضِر ناظر جان کر کہتا ہوں ۔ اللّٰہ کو سمیع بصیر جا ن کر کہتا ہوں ۔ BY GODیہ سب قسم کے الفاظ ہیں ۔’’ اللّٰہ کو حاضِر ناظر جان کر کہتا ہوں ‘‘ اِس طرح کہنے سے قسم تو ہو جائے گی مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّکو حاضِر ناظر کہنا ممنوع ہے۔
نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاکثر ’’ وَمُقَلِّبِ القُلُوب‘‘(یعنی قسم ہے دلوں کے
بدلنے والے کی)یا’’ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدہٖ‘‘ (یعنی قسم اُس کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے)کے الفاظ کے ساتھ قسم ارشاد فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عمر (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَزیادہ تر جو قسم ارشاد فرماتے تھے وہ یہ تھی:وَمُقَلِّبِ القُلُوب یعنی قسم ہے دلوں کو بدلنے والے کی ۔ ( بُخاری ج۴ ص۲۷۸ حدیث۶۶۱۷)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 561صَفحات پر مشتمل کتاب ’’ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ کے صَفْحَہ 528پر ہے کہ میرے آقااعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولاناشاہ اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنسے عرض کی گئی: حُضُور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی قسم کھا کر خِلَا ف کرنے سے کفَّارہ لازم آئے گا یا نہیں ؟ تو فرمایا: نہیں ۔ (فتاوٰی عالمگیریج۲ص۵۱)
اللہ عَزَّ وَجَلَّکے مَحبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکوسُواری پر چلتے ہوئے مُلاحَظہ فرمایاجبکہ آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاپنے باپ کی قسم کھارہے تھے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّتم کو باپ کی قسم کھانے سے مَنع کرتا ہے، جوشَخص قَسَم
کھائے تواللہ عَزَّ وَجَلَّکی قَسَم کھائے یا چُپ رہے۔‘‘ (صَحیح بُخاری ج۴ص۲۸۶حدیث ۶۶۴۶)
مُفَسِّرِشَہِیر،حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں :یعنی غیرِ خدا کی قسم کھانے سے مَنع فرمایا گیا۔ چُونکہ اہلِ عَرَب عُمُوماً باپ دادوں کی قسم کھاتے تھے اِس لیے اِسی کا ذِکر ہوا، غیرِ خدا کی قسم کھانا مکروہ ہے ، (مرقاۃ ج۶ص۵۷۹)اللہ عَزَّ وَجَلَّسے مُراد ربّ تَعَالٰی کے ذاتی و صِفاتی نام ہیں لہٰذا قرآن شریف کی قسم کھانا جائز ہے کہ قرآن شریف کلامُ اللہ کا نام ہے اورکلام اللہ صِفَتِ الٰہی ہے، قرآنِ مجید میں زَمانہ، اِنجیر، زَیتون وغیرہ کی قسمیں ارشاد ہوئیں وہ شَرعی قسمیں نہیں نیز یہ اَحکام ہم پر جاری ہیں نہ کہ ربّ تَعَالٰی پر ۔ (مراٰۃ ج ۵ ص ۱۹۴،۱۹۵)
فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : قسم میں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو اُس کا پورا کرنا واجِب نہیں بشرطیکہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کا لفظ اِس کلام سیمُتَّصِل (یعنی ملا ہوا) ہو اوراگر فاصِلہ ہوگیا مَثَلاً قسم کھا کر چُپ ہوگیا یا درمیان میں کچھ اور بات کی پھر اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہا تو قَسَم باطِل نہ ہوئی۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج ۵ ص ۵۴۸ ) حضرتِ سیِّدُناعبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم، شاہِ آدم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا:’’جو شخص قسم کھائے اور اس کے ساتھ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہہ لے تو حانِث(یعنی قسم توڑنے والا) نہ ہوگا۔‘‘ ) تِرمِذی ج۳، ص۱۸۳حدیث ۱۵۳۶)
مُفَسِّرِشَہِیر،حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں :یعنی قسم سے مُتَّصِل(یعنی فوراً بعد) کہہ دے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ۔ خُلاصہ یہ ہے کہ اگر وعدے یا قسم سے مُتَّصِل اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کہہ دیا جائے تو اُس کے خلاف کرنے پر نہ گناہ ہے نہ کفَّارہ۔ (مراٰۃ المناجیح ج ۵ ص ۲۰۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حُصولِ علمِ دین کے لئے دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے اجتماعات بھی اہم ذَرِیعہ ہیں ،آپ بھی اپنے شہر میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کیجئے ، ان اجتماعات کی بَرَکت سے کیسے کیسے بگڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں مَدَنی انقلاب برپا ہوگیا ،اس کی ایک جھلک اس مَدَنی بہار میں مُلاحَظہ کیجئے ، چُنانچہ ایک عالِم صاحِب جو کہ دعوتِ اسلامی کے مبلِّغ ہیں انہوں نے بتایا کہ 1995 میں ایک شخص جس پر کم و بیش11ڈکیتیوں کے کیس تھے جن میں ایک قتل کا مقدَّمہ بھی شامِل ہے۔ ایک سال جیل کی سَلاخوں کے پیچھے بھی رہا تھا۔محکمۂ نَہْر میں ملازَمت بھی تھی ۔ تنخواہ 3000تھی مگر وہ نا جا ئز ذرائِع سے مَثَلاَ دَ رَخت فَروخت کرکے، چوری کا پانی وغیرہ دے کرماہانہ 10000تک کرلیتا۔ اس نے بڑی بڑی مونچھیں رکھی تھیں ، دیکھنے والے کو اس سے وَحشت ہوتی۔ ایک روز میں نے اِنفرادی کوشِش کرتے ہوئے اُسے دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے اجتِماع کی دعوت پیش کی مگر اس نے میری دعوت ٹال
دی، میں نے ہمّت نہیں ہاری وقتاً فوقتاً دعوت پیش کرتا رہا ۔ آخِرِ کارکم و بیش دو سال بعداس نے دعوت قبول کر لی اور و ہ ’’ریوالور‘‘ کے ساتھ اجتِماع میں شریک ہوگیا۔ اِتِّفاق سے اُس دن میرا ہی بیان تھا جو کہ جہنَّم کے عذاب کیمُتَعلِّق تھا۔ جہنَّم کی تباہ کاریاں سُن کر سخت سردیوں کا موسِم ہونے کے باوُجُود بد مَعاشپسینے سے شرابور ہوگیا۔ بعد اجتِماع وہ روتا جاتا اور کہتا جاتا :ہائے! میرا کیا بنے گا!میں نے بَہُت سارے گناہ کئے ہیں ۔ پھر وہ تین دن بخار کے عالَم میں رہا۔ اسے اپنے گناہوں کا شدَّت سے اِحساس ہوچکا تھا، اس نے توبہ کرلی اورنَمازیں بھی پڑھنے لگا۔ دوسری جُمعرات اسے پھر اجتِماع میں شرکت کی سعادت ملی اور جنَّت کے موضوع پر بیان سن کر اُس کو ڈھار س ملی۔ آہِستہ آہِستہ اس پر مَدَنی رنگ چڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہو گیا۔اس نے گھر سے. T.Vنکال باہَر کیا(کیوں کہ اس میں صرف گناہوں بھرے چینلز ہی دیکھے جاتے تھے، ’’مدنی چینل ‘‘شروع نہ ہوا تھا) داڑھی اور سبز عمامہ سجانے کی سعادت بھی حاصِل کر لی۔یہ بیان دیتے وَقت وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کاموں میں مشغول تنظیمی طور پر صوبائی سطح پر مجلسخُدّامُ المساجد کی ذمّے داری پر فائز ہے۔
اگر چور ڈاکو بھی آجائیں گے تو سدھر جائیں گے گر ملا مَدَنی ماحول
گنہگارو آئو، سِیہ کارو آئو گناہوں کو دیگا چھڑا مَدَنی ماحول
(وسائلِ بخشش ص۲۰۳)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ ترجَمے والے پاکیزہ قراٰن ، ’’ کنزالایمان مَع خزائن العرفان‘‘ صَفْحَہ516 تا 517 پر پارہ 14 سُوْرَۃُ النَّحَلآیت نمبر 91میں ارشادِ ربُّ العِباد ہے:
وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱)
ترجَمۂ کنزالایمان:اور کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کر کے نہ توڑو اور تم اللہ کواپنے اوپر ضامِن کر چکے ہو، بیشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے۔
اورپارہ 7 سُوْرَۃُالْمَائِدَہکی آیت 89میں اللہ عَزَّ وَجَلَّفرماتا ہے:
وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-
ترجَمۂ کنزالایمان:اوراپنی قسموں کی حفاظت کرو۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیتفسیر ’’خزائنُ العرفان‘‘ میں اس آیت کے تَحت لکھتے ہیں :یعنی انہیں پورا کرو اگر اس میں شَرعاً کوئی حرج نہ ہو اور یہ بھی حفاظت ہے کہ قَسمکھانے کی عادت ترک کی جائے ۔
حضرتِ سیِّدُناعَدی بن حاتِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک شخص 100 دِرہَم مانگنے آیا ،میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا : تم مجھ سے صِرف 100دِرہَم مانگ رہے ہو حالانکہ میں حاتِم(طائی) کا بیٹا ہوں ،اللہکی قسم! میں تمہیں نہیں
دوں گا ۔ پھر میں نے کہا: اگر میں نے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا یہ ارشادِ پاک نہ سنا ہوتاکہ’’ جس شخص نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اُس نے اِس سے بہتر چیز کا خیال کیا تو وہ اُس بہتر کام کو کرے ۔‘‘چُنانچِہ میں تمہیں 400دِرہم دوں گا۔ (صَحیح مُسلِم ص۸۹۹ حدیث۱۶۵۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بہتر کام کیلئے قسم توڑنے کی اجازت ضَرور ہے مگر توڑنے کے بعد کفّارہ دینا ہوتا ہے جیسا کہ حضر تِ سیِّدُنا اَبُوالْاَحْوص عَوف ابنِ مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَااپنے والدِ سے روایت فرماتے ہیں : میں نے عَرض کی: صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرمایئے کہ میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس کچھ مانگنے جاتا ہوں تووہ مجھے نہیں دیتا، نہ صِلۂ رِحمی کرتا ہے ، پھر اِسے (جب) میری ضَرورت پڑتی ہے تو میرے پاس آتا ہے، مجھ سے کچھ مانگتا ہے ۔ میں قسم کھا چکاہوں کہ نہ اِسے کچھ دوں گا نہ صِلہ ٔرِحمی کروں گا۔تو مجھے حُضُور سراپا نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حکم دیا کہ جو کام اچّھا ہے وہ کروں اور اپنی قسم کا کفَّارہ دے دوں ۔ (سُنَنِ نَسائی ص۶۱۹حدیث ۳۷۹۳)
اگر کسی کو ظُلماً اِیذا دینے کیقَسَمکھائی تو اِس قَسَم کا پورا کرنا گناہ ہے۔ اِس قسم کے بدلے کَفّارہ دینا ہو گا ۔ چُنانچِہ بُخاری شریف میں ہے،رَحمتِ عالم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ معظَّم ہے:اگر کوئی شخص اپنے اَہل کیمُتَعلِّق اس کو اَذِیَّت اور ضَرَر
(یعنی نقصان) پہنچانے کے لئے قسم کھائے پس بخدا اُس کو ضَر ردینا اور قَسم کو پورا کرناعِندَ اللّٰہ (یعنی اللّٰہ کے نزدیک )زیادہ گناہ ہے اِس سے کہ وہ اس قسم کے بدلے کفّارہ دے جو اللہ تَعَالٰی نے اس پر مقرَّر فرمایا ہے۔ (بُخاری ج۴ص ۲۸۱ حدیث۶۶۲۵،فتاوٰی رضویہ ج۱۳ ص ۵۴۹)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّانِاس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں :یعنی جو شخص اپنے گھر والوں میں سے کسی کا حق فوت (یعنی حق تلفی) کرنے پر قسم کھالے مَثَلاً یہ کہ میں اپنی ماں کی خدمت نہ کروں گا یا ماں باپ سے بات چیت نہ کروں گا، ایسی قسموں کا پورا کرنا گناہ ہے ۔اس پر واجِب ہے کہ ایسی قسمیں توڑے اور گھر والوں کے حُقُوق اداکرے، خیال رہے یہاں یہ مطلب نہیں کہ یہ قسم پوری نہ کرنا بھی گناہ مگر پوری کرنا زیادہ گُناہ ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی قسم پوری کرنا بَہُت بڑا گناہ ہے ،پوری نہ کرنا ثواب، کہ اگرچِہ ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے نام کی بے اَدَبی قسم توڑنے میں ہوتی ہے اسی لیے اس پر کفَّارہ واجِب ہوتا ہے مگر یہاں قسم نہ توڑنا زیادہ گناہ کامُوجِب ہے۔(مراٰۃ المناجیح ج۵ص۱۹۸مُلَخَّصاً)
کسی سے طَلَاق کی قسم لینا منافِق کا طریقہ ہے مَثَلاً کسی سے کہنا:’’ قسم کھاؤکہ فُلاں کام میں نے کیا ہوتو میری بیوی کو طَلَاق۔‘‘ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن’’ فتاوٰی رضویہ‘‘ جلد13 صَفْحَہ 198 پرحدیثِ پاک نَقل کرتے ہیں :مُؤمِن طَلَاق کی قسم نہیں کھاتا اور طلاق کی قسم نہیں لیتا مگر مُنافِق۔(اِبنِ عَساکِر ج ۵۷ ص۳۹۳)
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کے مطبوعہ ترجَمے والے پاکیزہ قراٰن ، ’’ کنزُالایمان مَع خزائنُ العرفان‘‘ صَفْحَہ235پرپارہ 7 سُوْرَۃُالْمَائِدَہکی آیت نمبر 89میں ارشادِ ربُّ العباد ہے:
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ- ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْؕ-وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۸۹) (پارہ ۷، المائدۃ آیت۸۹)
ترجَمۂ کنزالایمان: اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا، تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے یا اِنہیں کپڑے دینا یا ایک بَردَہ(غلام) آزاد کرنا، تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے یہ بدلہ ہے تمہاری قسموں کا، جب قسم کھاؤ اوراپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم احسان مانو ۔
{1} قسم کے لیے چند شَرطیں ہیں ، کہ اگر وہ نہ ہوں تو کفّارہ نہیں ۔ قسم کھانے
والا (۱) مسلمان(۲) عاقِل (۳)بالِغ ہو۔ کافر کی قسم، قسم نہیں یعنی اگر زمانۂ کُفر میں قسم کھائی پھرمسلمان ہوا تواُس قسم کے توڑنے پر کفّارہ واجِب نہ ہوگا۔ اور مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّیعنی اللہ کی پناہ) قسم کھانے کے بعد مُرتَد ہوگیا تو قسم باطلِ ہوگئی یعنی اگر پھر مسلمان ہوا اور قسم توڑ دی تو کفّارہ نہیں اور(۴) قسم میں یہ بھی شَرط ہے کہ وہ چیز جس کی قسم کھائی عَقلاً ممکن ہو یعنی ہوسکتی ہو، اگرچِہ مُحالِ عادی ہو اور (۵) یہ بھی شَرط ہے کہ قسم اور جس چیز کی قسم کھائی دونوں کو ایک ساتھ کہا ہو درمیان میں فاصِلہ ہوگا تو قسم نہ ہوگی مَثَلاً کسی نے اس سے کہلایا کہ کہہ، خدا کی قسم! اِس نے کہا:خدا کی قسم !اُس نے کہا :کہہ ،فُلاں کام کروں گا، اِس نے کہاتو یہ قسم نہ ہوئی۔ (فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۵۱)
{2} غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا اُن کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔ (تَبیِینُ الحَقائق ج ۳ص ۴۳۰)(یاد رہے!جہاں کَفّارہ ہے بھی تو وہ صِرف آیَندہ کے لئے کھائی گئی قسم پر ہے، گزَشتہ یاموجودہ کیمُتَعلِّق کھائی ہوئی قسم پر کَفّارہ نہیں ۔ مَثَلاً کہا: ’’خدا کی قسم! میں نے کل ایک بھی گلاس ٹھنڈا پانی نہیں پِیا۔‘‘ اگر پیا تھا اور یاد ہونے کے باوُجُود جھوٹی قسم کھائی تھی تو گنہگار ہوا توبہ کرے، کفّارہ نہیں )
{3}(دس)مَساکین کو دونوں وَقت پیٹ بھر کر کھلانا ہوگااور جن مَساکین کو صبح
کے وَقت کھلایا اُنھیں کو شام کے وَقت بھی کِھلائے، دوسرے دس مساکین کو کِھلانے سے(کفّارہ) ادانہ ہوگا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دَسوں کو ایک ہی دن(دونوں وَقت) کھلادے یا ہرروزایک ایک کو (دو وقت)یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وَقت کھلائے۔ اورمَساکین جن کو کھلایا ان میں کوئی بچّہ نہ ہو اور کھلانے میں اِباحَت(کھانے کی اجازت دے دینا ) وتَملیک(تَم۔لِیک ۔یعنی مالِک بنا دینا کہ چاہے کھائے چاہے لے جائے )دونوں صورَتیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عِوَض(یعنی بجائے) ہرمِسکین کونِصف (یعنی آدھا)صاع گیہوں یا ایک صاع جَو ( ایک صاع 4کلو میں سے 160گرام کم اورنِصف یعنی آدھا صاع 2کلو میں سے 80گرام کم کاہوتاہے) یا ان کی قیمت کا مالِک کردے یا دس روز تک ایک ہی مسکین کو ہر روزبَقَدَرِصَدَقۂ فِطردے دیا کرے یا بعض کو کِھلائے اور بعض کو دیدے ۔ غَرَض یہ کہ اُس کی( یعنی کَفّارہ ادا کرنے کی) تمام صورَتیں وَہیں سے(یعنی مکتبۃُ المدینہکی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد 2صَفْحَہ 205 تا217 پر دیئے ہوئے (ظِہار کے ) کفّارے کے بیان سے ) معلوم کریں فرق اِتنا ہے کہ وہاں (یعنی ظِہار کے کفّارے میں ) ساٹھ مسکین تھے(جبکہ) یہاں (یعنی قَسَم کے کَفّارے میں ) دس ہیں ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتارج۵ ص ۵۲۳)
{4}کَفَّارہ ادا ہونے کے لیے نیّت شَرط ہے بِغیر نیّت ادانہ ہوگا ہاں اگروہ شے جو مسکین کو دی اور دیتے وَقت نیّت نہ کی مگر وہ چیز ابھی مِسکین کے پاس موجود ہے اور اب نیَّت کرلی تو ادا ہوگیا جیسا کہ زکوٰۃ میں فقیر کو دینے کے بعد نیّت کرنے میں یِہی شَرط
ہے کہ ہُنُوز(یعنی ابھی تک) وہ چیز فقیر کے پاس باقی ہو تو نیّت کام کرے گی ورنہ نہیں ۔ (حاشیۃُ الطّحطاوی علی الدّرالمختارج۲ص ۱۹۸)
{5}رَمَضان میں اگر کَفَّارے کا کھانا کھلانا چاہتاہے تو شام اورسَحری دونوں وَقت کھلائے یا ایک مِسکین کو 20 دن شام کا کھانا کھلائے۔ (الجوھرۃ النیرہ ص ۲۵۳)
{6} اگر غلام آزاد کرنے یا10مِسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادِر نہ ہو توپے دَرپے (یعنی لگا تار) تین روزے رکھے۔ (اَیضاً)
{7}عاجِز (یعنی مجبور)ہونا اُس وَقت کامُعتَبر ہے جب کفّارہ ادا کرنا چاہتا ہے مَثَلاً جس وَقت قسم توڑی تھی اُس وَقت مالدار تھا مگر کفّارہ ادا کرنے کے وَقت(مالی اِعتِبار سے) مُحتاج ہے تو روزے سے کَفَّارہ ادا کرسکتا ہے اور اگر(قسم) توڑنے کے وَقت مُفلِس(و مسکین) تھا اور اب (کفّارہ ادا کرنے کے وقت ) مالدار ہے تو روزے سے (کَفَّارہ) نہیں ادا کرسکتا۔(الجوھرۃ النیرہ ص ۲۵۳وغیرہا)
{8}ایک ساتھ (اگر)تین روزے نہ رکھے یعنی درمِیان میں فاصِلہ کردیا تو کفّارہ ادا نہ ہوا اگرچِہ کسی مجبوری کے سبب ناغہ ہوا ہو، یہاں تک کہ عورت کو اگرحَیض آگیا تو
پہلے کے روزے کا اِعتبار نہ ہوگا یعنی اب پاک ہونے کے بعد(نئے سِرے سے) لگاتار تین روزے رکھے۔(دُرِّمُختارج۵ص۵۲۶)
{9}روزوں سے کَفّارہ ادا ہونے کے لیے یہ بھی شَرط ہے کہ ختم تک (یعنی تینوں روزے مکمَّل ہونے تک )مال پر قدرت نہ ہو مَثَلاً اگر دورَوزے رکھنے کے بعد اِتنا مال مل گیا کہ کَفّارہ ادا کر سکتا ہے تو اب روزوں سے(کَفّارہ ادا) نہیں ہوسکتابلکہ اگرتیسرا روزہ بھی رکھ لیا ہے اورغُروبِ آفتاب سے پہلے مال پر قادِر ہوگیا تو روزے ناکافی ہیں اگرچِہ مال پر قادِر ہونا یوں ہوا کہ اُس کے مُورِث(یعنی وارِث بنانے والے) کا انتِقال ہوگیا اور اُس کوتَرکہ(یعنی وِرثہ) اتنا ملے گا جو کَفّارے کے لیے کافی ہے۔ (دُرِّمُختارج۵ص۵۲۶)
{10}ان روزوں میں رات سے نیّت شَرط ہے اور یہ بھی ضَرور ہے کہ کفّارے کی نیّت سے ہوں مُطلَق روزے کی نیّت کافی نہیں ۔ ( مبسوط ج۴ ص ۱۶۶)
{11}قسم توڑنے سے پہلے کَفّارہ نہیں ، اور(اگر دے بھی) دیا تو ادا نہ ہوا یعنی اگر کفّارہ دینے کے بعد قسم توڑی تو اب پھر دے کہ جو پہلے دیا ہے وہ کفّارہ نہیں ، مگر فقیر سے
دیے ہوئے کو واپَس نہیں لے سکتا۔ (فتاوٰی عالمگیری ج ۲ ص ۶۴ )
{12}کفّارہ اُنھیں مَساکِین کو دے سکتاہے جن کو زکوٰۃ دے سکتا ہے یعنی اپنے باپ، ماں ،اولاد وغیرہُم کو جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کَفّارہ بھی نہیں دے سکتا ۔ (دُرِّمُختارج۵،ص۵۲۷) {13}کَفّارۂ قَسَم کی قیمت مسجِد میں صَرف (یعنی خرچ)نہیں کرسکتا نہ مُردے کے کفن میں لگا سکتا ہے یعنی جہاں جہاں زکوٰۃ نہیں خَرچ کر سکتا وہاں کَفّارے کی قیمت نہیں دی جا سکتی۔(عالمگیری ج ۲ ص ۶۲)( قسم اور کفّارے کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1182 صَفحات پر مشتمل کتاب بہارِ شریعت جلد2 صَفْحَہ 298 تا 311کا مُطالَعہ ضَروری ہے )
اگر کسی دینی یامسلمانوں کے سماجی ادارے کو کَفّارے کی رقم دینا چاہے تو دے سکتا ہے مگر بتانا ہوگا کہ یہ کَفّارے کی رقم ہے تا کہ وہ اُس رقم کو الگ رکھ کر اُسے بیان کردہ طریقے پر کام میں لائیں یعنی ایک ہی مسکین کو دس دن تک دونوں وَقت کھلانا یا دس مَساکین کو دونوں وَقت کِھلانا وغیرہ ۔اگر دینی ادارہ دینی کاموں میں صَرف کرنا چاہے تو حیلہ کرنے کا طریقہ یہ ہے ، مَثَلاً ایک ہی مسکین کو روزانہ ایک صدقۂ فطر یا دس مسکینوں کو ایک ہی دن میں ایک ایک صَدَقۂ فِطر کا مالِک بنا یا جائے اوروہ اپنی طرف سے دینی کاموں کیلئے پیش کریں ۔
تُو جھوٹی قَسَم سے بچا یا الٰہی
مجھے سچ کا عادی بنا یا الٰہی!
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جھوٹی قسموں سے توبہ کا جذبہ پانے ،بات بات پر قسم کھانے کی خصلت مِٹانے، ضروری دینی معلومات پانے اور سنّتوں پر عمل کی عادت بنانے کے لئے’’ دعوتِ اسلامی‘‘ کے مَدَنی ماحول میں 63دن کا مَدَنی تربیتی کورس کروایا جاتا ہے ، جس سے بن پڑے وہ یہ مفید ترین مَدَنی تربیتی کورس ضَرور کرے ،آپ کی ترغیب وتحریص (تَح۔ رِیص ) کے لئے ایک مَدَنی بہار پیش کی جاتی ہے ، چنانچِہ ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے: ہمارے عَلا قے کا ایک نوجوان جو کہ والِدَین کا اِکلوتا(یعنی ایک ہی) بیٹا تھا، غَلَط صحبت کے سبب چَرَس کا عادی بن گیا، گھر سے باہَر رَہنا اس کا معمول تھا ، والِد صاحِب اکثر اُس کو قبرِستان جا کر چرسیوں کے درمیان سے اُٹھا کرگھر لاتے ۔ تمام گھر والے اُس کے سبب پریشان تھے ۔ ایک دن ایک اسلامی بھائی نے اُس نوجوان پر اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے اُسے مَدَنی تربیتی کورس کرنے کی ترغیب دی ،خوش قسمتی سے اُس نے ہامی بھر لی اور تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالَمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ میں آگیا۔ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی!سبھی گھروالے دُعا کررہے تھے کہ یہ نیک بن جائے مگر اب بھی ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں یہ
واپَس نہ آجائے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّچند دنوں بعد کچھ اِس طرح فون آیا کہ’’ تربیّتی کورس اور فیضانِ مدینہ میں بَہُت مزا آرہا ہے ،فیضانِ مدینہ میں ایسا لگتا ہے کہ مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسے براہِ راست فیض آ رہا ہے،میں نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر لی ہے، اب میں باجماعت نَمازیں ادا کررہا ہوں ، سنّتیں سیکھ رہا ہوں اور مجھے بَہُت سُکون مل رہا ہے ۔‘‘ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مَدَنی تربیتی کورس سے واپَسی پر وہ واقِعی بالکل بدل چکا تھا۔ اُس کی حیرت انگیز تبدیلی سے سب گھر والے بلکہ سارا مَحَلّہ حیران تھا ۔ چِہرے پر نور برساتی داڑھی اورسر پرسبز عمامہ شریف کا تاج جگمگا رہا تھا۔ اُس نے آ تے ہی گھر والوں پر بھی اِنفِرادی کوشِش شُروع کردی جس کی بَرَکت سے والِد صاحِب نے چِہرے پر داڑھی اور سر پر عمامہ شریف کا تاج سجالیا اور پابندی سے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع میں شرکت فرمانے لگے۔ والِدَۂ محترمہ’’ درسِ نِظامی‘‘ اوربہن’’ شریعت کورس‘‘ کرنے کیلئے کمر بَستہ ہو گئیں ۔اُس نوجوان کے والِد صاحِب نے مبلِّغ دعوتِ اسلامی کو کچھ اِس طرح بتایا کہ میں دعوتِ اسلامی والوں کیلئے بَرَکت کی دُعا کرتا ہوں ،خُصوصاً ان کیلئے جنہوں نے میرے بیٹے پَر’’ اِنفِرادی کوشِش‘‘ کی اور63دن کے مَدَنی تربیتی کورس میں ہاتھوں ہاتھ لے گئے کیونکہ ہم اِس کی عادَتوں سے بَہُت پریشان تھے، اس کی والِدہ تو اتنی بیزار ہوچکی تھی کہ ایک دن جذبات سے مغلوب ہو کرکیڑے مکوڑے مارنے کی دوائی اُٹھا لائی کہ یا تو میں کھاکر مرجاؤں گی یااس کو کِھلا کر ماردوں گی ۔ اب اس کی والِدہ رو رو کر دعائیں دیتی ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی والوں کو سلامت رکھے کہ ان کی کوششوں
سے میرا بگڑا ہوا بیٹا نیک بن گیا۔
اگر سُنّتیں سیکھنے کا ہے جذبہ تم آجائو دیگا سکھا مَدَنی ماحول
تُو داڑھی بڑھا لے عمامہ سجا لےنہیں ہے یہ ہرگز بُرا مَدَنی ماحول
(وسائلِ بخشش ص۶۰۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے
، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک
عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔
غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و
بے حساب جنّت الفردوس میں آقا کے پڑوس کا طالب
18 شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ
کتاب |
مطبوعہ |
کتاب |
مطبوعہ |
قراٰن پاک |
مکتبۃالمدینہ باب المدینہ کراچی |
ابنِ عساکر |
دارالفکربیروت |
ترجمۂ کنز الایمان |
مکتبۃالمدینہ باب المدینہ کراچی |
مبسوط |
دارالکتب العلمیہ بیروت |
تفسیرخازن |
مصر |
تبیین الحقائق |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
حاشیۃ الصاوی علی الجلالین |
دارالفکربیروت |
حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار |
کوئٹہ |
تفسیرخزائن العرفان |
مکتبۃالمدینہ باب المدینہ کراچی |
درمختا ر |
دار المعرفہ بیروت |
بُخاری |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
جوہرہ نیرہ |
باب المدینہ کراچی |
مسلم |
دار ابن حزم بیروت |
فتاوٰی عالمگیری |
دار الفکر بیروت |
ابو داود |
دار احیاء التراث العربی بیروت |
فتاوٰی رضویہ |
رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور |
ترمذی |
دار الفکر بیروت |
مکاشفۃ القلوب |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
نسائی |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
بہارِ شریعت |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ |
شرح صحیح مسلم |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
اتحاف السادہ |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
مراٰۃ المناجیح |
ضیاء القراٰن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور |
تذکرۃالواعظین |
پشاور |
جمع الجوامع |
دار الکتب العلمیہ بیروت |
وسائل بخشش |
مکتبۃالمدینہ باب المدینہ کراچی |