اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

بیٹى كى پرورش ([1])

درود شريف كى فضيلت

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ كےمحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم كا فرمانِ تقرُّب نِشان ہے:جس نے مجھ پر 100مرتبہ درود پاك پڑھا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اس كى دونوں آنكھوں كے درمىان لكھ دىتاہے كہ ىہ نِفاق اور جہنّم كى آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قىامت شہدا كے ساتھ ركھے گا۔([2])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!           صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


انوكھی شہزادی

حضرت سیّدناشیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی جب شادی کے لائق ہوئی تو بادشاہ کے یہاں سے رشتہ آیا مگر آپ نے تین دن کی مہلت مانگی اور مسجد مسجد گھوم کرکسی پارسا نوجوان کو تلاش کرنے لگے۔ ایک نوجوان پر آپ کی نگاہ پڑی جس نے اچّھی طرح نماز ادا کی(اورگڑگڑا کر دعا مانگی)۔ شیخ نے اس سے پوچھا : کیا تمہاری شادی ہو چکی ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ پھر پوچھا: کیا نکاح کرنا چاہتے ہو؟ لڑکی قرآنِ مجید پڑھتی ہے، نماز روزہ کی پابند ہے اور سیرت و صورت والی بھی ہے۔ اس نے کہا: بھلا میرے ساتھ کون رشتہ کرے گا!شیخ نے فرمایا: میں کرتا ہوں، لو یہ کچھ درہم !ایک درہم کی روٹی ، ایک کا سالن اور ایک کی خوشبو خرید لاؤ۔اس طرح شاہ کرمانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی نے اپنی دختر نیک اختر کا نکاح اس سے پڑھا دیا۔ دلہن جب دولہا کے گھر آئی تو اس نے دیکھا کہ پانی کی صراحی پر ایک روٹی رکھی ہوئی ہے ۔ اس نے پوچھا:یہ روٹی کیسی ہے؟دولہا نے کہا:یہ کل کی باسی روٹی ہے میں نے افطار کے لئے رکھ لی تھی۔ یہ سن کر وہ واپس ہونے لگی۔یہ دیکھ کر دولہا  بولا: مجھے معلوم تھا کہ شیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی مجھ غریب


انسان کے گھر نہیں رُک سکتی۔ دلہن بولی:میں آپ کی مفلسی کے باعث نہیں بلکہ اس لئے لوٹ کر جارہی ہوں کہ ربُّ العالمین پر آپ کا یقین بہت کمزور نظر آ رہا ہے جبھی تو کل کیلئے روٹی بچا کر رکھتے ہیں۔ مجھے تو اپنے باپ پر حیرت ہے کہ انہوں نے آپ کو پاکیزہ خصلت اور صالح کیسے کہہ دیا!دولہا یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا اور اس نے کہا:اس کمزوری سے معذرت خواہ ہوں۔ دلہن نے کہا: اپنا عذر آپ جانیں، البتہ! میں ایسے گھر میں نہیں رُک سکتی  جہاں ایک وَقْت کی خوراک جمع رکھی ہو، اب یا تو میں رہوں گی یا روٹی ۔ دولہا نے فوراً جا کر روٹی خیرات کر دی(اور ایسی درویش خصلت انوکھی شہزادی کا شوہر بننے پر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا شکر ادا کیا)۔ ([3])

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری  بے حساب مغفرت ہو۔

یقینِ کامِل کی بہاریں

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھاآپ نے!مُتَوکّلین کی بھی کیا خُوب اَدائیں ہیں۔ شہزادی ہونے کے باوُجُود ایسا زبردست توکل کہ کل کیلئے کھانا بچانا گوارا ہی نہیں!یہ سب یقینِ کامِل کی بہاریں ہیں کہ جس خُدا نے آج کھِلایا ہے وہ آئندہ کل بھی کھِلانے پر یقیناً قادِر ہے ۔


شیخ شاہ کرمانی کا تعارف

امیر المومنین حضرت سَیِّدُنا عُثْمانِ غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے زمانۂ خِلافت میں اسلامی فتوحات کا سِلْسِلہ جب وادیٔ مَکْران کے مَغْرِب میں واقع وسیع و عریض ملکِ ”کِرْمَان تک پَہُنْچا تو اس وقت کے شاہِ کِرْمَان نے اسلامی سلطنت کا باجگُزار بننے میں عافیت جانتے ہوئے صلح کی طرف قدم بڑھایا اور یوں اسلام کے نُور سے مُلکِ کِرمان کے گھر گھر میں اُجالا ہونے لگا اور تیسری صدی ہجری میں کرمان کے شاہی خاندان میں ایک ایسی ہستی پیدا ہوئی جس نے اس خاندان کا نام رہتی دُنیا تک روشن کر دیا، یہ ہستی تھی حضرت سَیِّدُنا شاہ بن شُجاع کِرمانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی کی ۔ شاہی خاندان سے تعلّق رکھنے کے باوُجُود آپ کا حُکومَت سے  کوئی واسطہ نہ تھا،مگر لوگوں کے دلوں پر رَاج آپ ہی کا تھا کیونکہ ایک روایت کے مطابق آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ  کا شُمار ابدالوں میں ہوتا ہے۔

      آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ  کے مرتبہ کی بلندی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ کا وصال ہوا تو حضرت سَیِّدُنا ابو عبداللہمحمد بن احمد عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَحَد فرماتے ہیں:میں حضرت سَیِّدُنا سہل بن عبد اللہ تستری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  کی خدمت میں حاضر تھا کہ اچانک ہانپتی کانپتی ایک کبوتری ہمارے سامنے


 آگری، میں اُسے اڑانے لگا تو حضرت سَیِّدُناسہل بن عبداللہ تستری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  نے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اَطْعِمْهَا وَاسْقِهَا یعنی اسے کچھ کھلاؤ پلاؤ۔ حضرت سَیِّدُنا ابو عبداللہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں:میں نے ایک روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس کے آگے ڈالے تو وہ کھانے لگی، پھر میں نے پانی رکھا تو اس نے پانی بھی پی لیا، اس کے بعد وہ اڑ گئی۔ میں یہ سب دیکھ کر حیران ہورہاتھا،بالآخر میں نے پوچھ ہی لیا کہ اس کبوتری کا ماجرا کیا ہے؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا: شاہ کرمانی اس جہانِ فانی سے کوچ فرما گئے ہیں اور یہ کبوتری مجھ سے تعزیت کرنے آئی تھی۔([4])

عظیم باپ کی عظیم بیٹی

      پیارے اسلامی بھائیو!غور فرمائیے!حضرت سىدنا شىخ شاہ كرمانى قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی  نے اس قدر عظیم مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود اپنی شہزادی کی پرورش سے غفلت اختیار نہ فرمائی بلکہ اسے دُنیا کی چَکاچَوند سے دُور رکھنے کے ساتھ ساتھ رِضائے خُداوَنْدی پر ہر حال میں صابِر و شاکِر رہنے کی مدنی سوچ بھی عطا فرمائی۔ لہٰذا ىاد ركھىے ! اولاد كى پرورش مىں جہاں ماں كا بڑا كردار ہے وہاں باپ بھى


ایک اَہَم  سُتُون کی حیثیت رکھتا ہے، بالخصوص بىٹى كے مُعامَلے مىں باپ کا کردار بَہُت اَہمىَّت كا حامِل ہے۔

قبل از اسلام عورت  کی حیثیت

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اسلام سے قبل اگر دنیا کے مختلف مُعاشَروں میں عورت کی حیثیت دیکھی جائے تو معلوم ہو گاکہ عورتیں مردوں کی محکوم تھیں،مَرد خواہ باپ ہوتا یا شوہر،بیٹا ہوتا یا بھائی، ان سے جیسا چاہے سُلُوک کرتا،عورتوں کی حیثیت بس ایک خِدمَتگار کی سی تھی، کہیں ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سُلوک ہوتا تو کہیں وَراثَت میں دیگر مال و اسباب کی طرح ان کا  بھی بٹوارہ ہوتا۔ کہیں  انہیں شوہر کی موت کے ساتھ اس کی چِتا (لکڑیوں کا وہ ڈھیر جس پر ہندو اپنے مُردہ کو جلاتے ہیں)میں زِنْدہ جَل کر سَتی ہونا پڑتا (یعنی بیوہ کو مردہ شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا)تو کہیں پیدا ہوتے ہی انہیں زمین میں زِنْدہ دَفْن کر دیا جاتاکیونکہ بیٹی کی پیدائش کو باعثِ عار (شرمندگی )سمجھا جاتا تھا، بسا اوقات كسى شخص كو معلوم ہوتا كہ اس كے ىہاں بىٹى كى وِلادَت ہوئى ہے تو وہ كئى دِنوں تك لوگوں كے سامنے نہ آتا اور غور كرتا رہتا كہ وہ اس معاملے مىں كىا كرے؟ آىا ذِلَّت برداشت كركے بیٹی كى پَرْوَرِش كرے ىا عار سے بچنے كے لىے اپنى بىٹى كو زِنْدَہ


زمىن مىں دفن كردے۔ جیساکہ پارہ۱۴ سورۃُ النحل کی آیت نمبر ۵۸اور ۵۹ میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸)یَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖؕ-اَیُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِؕ-اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(۵۹) (پ۱۴، النحل:۵۸، ۵۹)

ترجمۂ كنز الايمان:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصّہ کھاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے گا يا اسے مٹی میں دبا دیگا۔ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں۔

زندہ دفن کرنے کی قبیح رسم کا آغاز

      عہدِ جاہلیت میں کئی قبیح اور سنگدلانہ رسمیں رائج تھیں جنہیں لوگ بڑے فخر سے انجام دیا کرتے تھے، مثلاً ایک رسم یہ بھی تھی کہ بعض لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا کرتے اور اس پر غمزدہ یا پشیمان ہونے کے بجائے فخر کرتے۔ اس ظالمانہ حرکت کے آغاز کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک بار ربیعہ قبیلہ پر ان کے دُشمنوں نے شب خُون مارا اور وہ رَبیعہ کے سردار کی بیٹی کو اُٹھا کر


لے گئے۔ جب دونوں قبیلوں کے درمیان صُلح ہوئی تو اس لڑکی کو بھی واپس کر دیا گیا اور اسے اختیار دیا گیا کہ چاہے تو اپنے باپ کے پاس رہے یا قید کے دوران جس شخص کے ساتھ رہی تھی اس کے پاس واپس چلی جائے۔ اس نے اس شخص کے پاس جانا پسند کیا تو اس کے باپ کو بڑا غصہ آیا اور اس نے اپنے قبیلے میں یہ رسم جاری کر دی کہ جب کسی کے ہاں بچی پیدا ہو تو اس کو زندہ زمین میں دبا دیا جائے تاکہ آئندہ ان کے قبیلہ کی ایسی رسوائی نہ ہو۔ پھر دوسرے قبائل میں بھی یہ رواج آہستہ آہستہ مقبولیت اختیار کرتا گیا۔([5])

بیٹیوں کو دفن کرنے کی چند وجوہات

      بیٹیوں کو دفن کرنے کی اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں:

·       عام اہلِ عرب کی معاشی حالت بڑی خستہ ہوتی تھی، بچیوں کو پالنا، جوان کرنا، پھر ان کی شادی کرنا وہ اپنے لیے ناقابلِ برداشت بوجھ تصور کرتے تھے، اس لیے ان کو بچپن میں ہی ٹھکانے لگا دیا کرتے تھے۔

·       قبائل میں باہمی کشت و خون (قتل و غارت)روز مَرہ کا معمول تھا۔ لڑکے جوان ہو کر ایسی لڑائیوں میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ لڑکیاں لڑائیوں میں بھی شرکت نہ


کر سکتیں اور پھر ان کو دشمن کی دَستبرد سے بچانے کے لیے بھی انہیں بسا اوقات مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑتا، اس لیے وہ ان کو زندہ رکھنا اپنے لیے وبالِ جان سمجھتے ۔

·       ان کی جاہِلانہ نَخْوَت (گھمنڈ)بھی اس کا ایک سَبَب تھی، وہ کسی کو اپنا داماد بنانا اپنی توہین سمجھتے تھے اس سے بچنے کا یہی آسان طریقہ تھا کہ نہ بچی زندہ ہو نہ اسے بیاہا جائے اور نہ کوئی ان کا داماد بنے۔

وجوہات اگرچہ مختلف اورمتعددتھیں لیکن یہ ظالمانہ رسم عرب کے جاہلی معاشرے میں اپنے پنجے گاڑ چکی تھی، عام طور پر اسے کوئی معیوب چیز یا ظلم بھی نہ سمجھا جاتا۔ باپ اپنی اولاد کا مالکِ کل ہوتا، چاہے اسے زندہ رکھےیا قتل کر دے، کسی کو اس پر اِعْتِراض کا کوئی حَق حاصِل نہیں تھا۔بلکہ ایک ہی شخص اپنی کئی کئی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتا اور اسے ذرہ بھر افسوس نہ ہوتا۔جیسا کہ امیر المومنین حضرت سَیِّدُنا عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنا قیس بن عاصم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ایک بار سركار صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم كى بارگاہ مىں حاضر ہوئے تو (زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں کے زندہ درگور کرنے کے فعل پر شرمسار ہوتے ہوئے) عرض كی: مىں نے زمانۂ جاہلىت مىں آٹھ بىٹىوں كو زندہ دَفْن كىا (کیا میرا یہ گناہ


معاف ہو جائے گا؟)۔تو آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:(معاف تو اسلام لانے کے ساتھ ہی ہو چکا ہے، البتہ!) ہر زندہ در گور کی گئی بیٹی کے بدلے تم ایک غلام آزاد کرو۔ عرض کی: میرے پاس اونٹ بہت ہیں۔ ارشاد فرمایا: تو پھر ہر بیٹی کے بدلے ایک جانور صدقہ کرو۔([6])

پیارے اسلامی بھائیو! حضرت سَیِّدُنا قیس بن عاصم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے اقرار سے بَخُوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب انہوں نے اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ دفن کیا تھاتو نہ معلوم دوسروں نے کتنی بیٹیوں کو دَفْن کیا ہو گا!لیکن اس کے باوجود اس سنگ دل مُعاشَرے میں خال خال ایسے لوگ بھی موجود تھے جو معصوم بچیوں کی بے کسی پر خون کے آنسو بہاتے اور جہاں تک ممکن ہوتا بچیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے۔ مثلاً امیر المومنین حضرت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے چچا زاد بھائی اور حضرت سَیِّدُنا سعید بن زید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے والد زید بن عمرو بن نُفَیل کو جب پتہ چلتا کہ فلاں کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور وہ اس کو زندہ دفن کرنا چاہتا ہے تو دوڑ کر اس کے پاس جاتے او راس بچی کی پرورش اور اس کی شادی وغیرہ کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھاتے اور اس طرح اس ننھی


کلی کو کھلنے سے پہلے ہی مسل ڈالنے سے بچا لیتے۔مشہور شاعر فَرَزْدَق کے دادا حضرت سَیِّدُنا صَعْصَعَہ بن ناجیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا بھی یہی معمول تھا، حضرت سَیِّدُنا علامہ آلوسی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  نے طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سَیِّدُنا صَعْصَعَہ بن ناجیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  نے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میں نے زَمانۂ جاہلیت میں (بھی نیک کام کیے ہیں، کیا مجھے ان کا بھی اجر ملے گا؟ مثلاً میں نے)360 بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا اور ہر ایک کے عوض دو دو دس دس ماہی گابھن اونٹنیاں اور ایک ایک اونٹ بطورِ فدیہ ان کے باپوں کو دیا، کیا مجھے اس عمل کا کوئی اجر ملے گا؟ تو سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس عمل کا اجر تو تجھے مل گیا، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے تجھے اسلام لانے کی توفیق مرحمت فرمائی اور تجھے نعمتِ ایمان سے سرفراز کردیا۔([7])

بیٹیوں کو مِلا اسلام کا سائبان

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اسلام كی صُبْحِ نُور کیا طُلوع ہوئی ہر طرف کفر اور ظُلم و سِتَم كا اندھىرا بھی ختم ہو گیا اور یوں بیٹیوں کو اِسلام کی بَرکت سے ایک نئی


زِنْدَگی ملی۔ جو لوگ پہلے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اب بیٹیوں کو اپنی آنکھوں کا تارہ سمجھنے لگے کیونکہ بے کسوں کے غمخوار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے سامنے نہ صرف اپنی شہزادیوں سے محبت کا عملی نمونہ پیش کیا بلکہ یہ مَدَنی  ذہن بھی بنایا کہ بىٹىوں كو عار نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  كى رحمت اور مغفرت كا ذرىعہ ہیں۔ نیز اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اولاد بالخصوص بیٹیوں کی پرورش کے متعلق فضائل بیان فرماکر ان کی اہمیت کو بھی خُوب اُجاگر فرمایا۔ چنانچہ بیٹیوں کے فضائل پر مشتمل چند احادیثِ مبارکہ مُلاحظہ فرمایئے۔

بیٹیوں کے فضائل پر مشتمل فرامینِ مصطفٰے

قیامت تک مدد کی بشارت

      حضورِ پاک،صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رَحمت نِشان ہے:جب كسى كے ہاں بىٹى كى ولادت ہوتى ہے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس كے گھر فِرِشْتوں كو بھىجتا ہے، جو آكر كہتے ہىں: اے گھر والو!تم پر سلامتی ہو۔پھر فِرِشْتے اپنے پروں


سےاس لڑکی كا اِحَاطہ كرلىتے ہىں اور اس كے سر پر ہاتھ پھىرکر كہتے ہىں: اىك كمزور لڑكى كمزور عورت سے پىدا ہوئى،جو اس كى كفالَت كرے گا قىامت تك اس كى مدد كى جائے گى۔([8])

ایک بیٹی کی پرورش پر انعام

      سركارِ مدىنہ، راحت قلب و سىنہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا: جس شخص كى اىك بىٹى ہو وہ اس كو اَدَب سكھائے اور اچھا اَدَب سكھائے اور اس كو تعلىم دے اور اچھى تعلىم دے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اس كو جو نعمتىں عطا فرمائى ہىں ان نعمتوں مىں سے اس كو بھى دے تو اس كى وہ بىٹى اس کے لئےدوزخ  كى آگ سے ستْر اور حِجاب (پردہ)ہوگى ۔([9])

تین بیٹیوں کی پرورش پر انعام

      دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم كافرمانِ عافیت نِشان ہے:جس شخص كى تىن بىٹىاں ہوں اور وہ ان پر صَبر كرے، انہىں كھِلائے پلائے اور ان كو اپنى كمائى سے كپڑے پہنائے تو وہ لڑكىاں اس كے لىے دوزخ كى


آگ سے حجاب بن جائىں گى۔([10])

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نےجنّت واجِب کردی

      اُمُّ المومنين حضرت سَيِّدَتُنا عائشہ صِدّيقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  فرماتى ہىں: مىرے پاس اىك مسكىن عورت اپنى دو بىٹىوں كے ساتھ آئى، مىں نے اس كو تىن كھجورىں دىں، اس نےایک  اىك كھجور دونوں بچیوں کو دى اور اىك كھجور كھانے كے لىے اپنے منہ كى طرف لے جارہی تھی کہ اس كى بىٹىوں نے اس سے وہ كھجور بھی مانگ لی، اس نےوہ کھجور بھی توڑ کر دونوں بىٹىوں كو کھِلا دى، مجھے اس پر تعجب ہوا پھر مىں نے رسولِ اكرم، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اس بات کا تذکرہ كىا تو آپ  صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اس(کے اس فعل )کے سبب اس عورت كے لىے جنَّت واجِب كردى۔([11])

بیٹیوں یا بہنوں کی پرورش پر انعام

      فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کواَدَب سکھائے اور ان پر مہربانی کا برتاؤ کرے


یہاں تک کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ انہیں بے نیاز کردے (یعنی وہ بالِغ ہوجائیں یا ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں ) تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اس کے لیے جنَّت واجِب فرمادیتا ہے۔یہ ارشادِ نبوی سن کر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  نے عرض کی:اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پروَرِش کرے  تو ؟ارشاد فرمایا: اس کیلئے بھی یِہی اَجر و ثواب ہے یہاں تک کہ اگر لوگ ایک کا ذِکر کرتے توآپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کے بارے میں بھی یہی ارشاد فرماتے ۔([12])

مقامِ شکر

      اسلامى بہنوں كے لىے مقام شکر ہے كہ ایک وقت وہ تھا جب دنىا مىں ان  كا پىدا ہونا عار اور ذلت و رسوائى سمجھا جاتا تھا مگر اسلامى تعلىمات، قرآنى آىات اور نبوی ارشادات نے ان كى اہمىت اجاگر کرکے اس بات کا شعور دلایا کہ بیٹیاں رحمتِ خداوندی کے نُزول کا باعث ہیں، لہٰذا ان كى قدر كرنى چاہىے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج کے اس پرآشُوب دور میں اسلامی تعلیمات سے آراستہ ماں باپ کی تربیت و توجّہ جہاں بیٹوں کو مُعاشرے کا ایک باعزّت فرد بنانے پر مرکوز ہے وہیں وہ بىٹى کی بہترین پرورش سے بھی غافل نہیں۔بلکہ بیٹی کی عظمت و اہمیت کے پیشِ نظر اس کی


عزّت و عفّت كى حِفاظَت کے لیے اسلام نے جو اس کی تربیت کے سنہری مدنی پھول عطا فرمائے ہیں وہ انہیں متاعِ جاں سمجھتے ہیں۔

بیٹی کی پرورش کے مدنی پھول

      پىارے اسلامى بھائىو!آج کے ناگفتہ بہ حالات میں اسلامی تعلیمات سے دوری اور غیر مسلموں کی اندھی تقلید نے مسلمانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا، بد قسمتی سے فی زمانہ مسلمانوں کے رہن سہن کے طور طریقے اور رسومات  اسلامی تعلیما ت کے سراسر خلاف نظر آتے ہیں ، ایسے نامُساعِد حالات میں اولاد خصوصاً بیٹی کی دُرُسْت اسلامی تربیت انتہائی مشکل نظر آتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم اپنی بیٹی کی صحیح تربیت کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اسلامی معلومات حاصِل کرنا ضروری ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم صحیح معنوں میں اپنے اس فرضِ منصبی کی بجا آوری کرسکیں۔کیونکہ آج کی بیٹی کل کسی کی بیوی اور بہو ہوگی، پھر ماں اور بعد میں ساس بنے گی، لہٰذا آج اس بیٹی کی تربیت پر بھرپور توجہ دینا ضَروری ہے تا کہ کل جب یہ خود کسی کی ماں بنے تو اپنی اولاد کی بہترین تربیت سے غفلت کی مرتکب نہ ہو۔

آئیے!چند ایسے مَدَنی پھولوں پر نظر ڈالتے ہیں جو ایک بیٹی کی پرورش میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں:


(1) بیٹی کی پیدائش پر رَدّ عمل

      بیٹا پیدا ہویا بیٹی، ہر حال میں شکر بجا لانا چاہيے کیونکہ اگر بیٹا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی نعمت ہے تو بیٹی رحمت۔دونوں ہی پیار اور شفقت کے مستحق ہیں۔دورِ جدید میں یہ مُشاہدہ عام ہے کہ لڑکے کی ولادت پر جس مَسَرَّت کا اِظہار ہوتا ہے لڑکی کی ولادت پر اس کا عُشْرِ عَشِیر بھی نہیں ہوتا۔چونکہ دنیاوی طور پر لڑکیوں سے والدین اور خاندان کو بظاہر کوئی منفعت حاصِل نہیں ہوتی شاید اسی لئے بعض نادان بیٹیوں کی ولادت ہونے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور بسااوقات بچی کی امی کو طرح طرح کے طعنے دئيے جاتے ہیں، طلاق کی دھمکیاں دی جاتی ہیں بلکہ اوپر تلے بیٹیاں ہونے کی صورت میں اس دھمکی کو عملی تعبیر بھی دے دی جاتی ہے۔ایسوں کوچاہيے کہ وہ گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی روایات کے علاوہ درج ذیل روایت پربھی غور کریں کہ جس میں بیٹی کی پیدائش پر جنت کی بشارت سے نوازا گیا ہے۔چنانچہ،

حضرت سَیِّدُناابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:جس کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ نہ تو اسے زندہ دَفن کرے نہ حقیر سمجھے اور نہ ہی اس پر بیٹے کو


فضیلت دے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اسے جنّت میں داخِل فرمائے گا۔([13])

(2) کان میں اَذان

      بیٹی کی پیدائش پر غمزدہ ہونے کے بجائے خوشی کا اظہار کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ اسکے کانوں میں اللہ و رسول عَزَّ  وَجَلَّ وَصَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری کا پیغام اذان و اقامت کی صورت میں پہنچایا جائے تا کہ اسکی رُوح نُورِ توحید سے مُنَور اور دل عشقِ مصطفےٰ کی شمع سے فروزاں (روشن)ہو جائے۔ ایسا کرنا مستحب اور سنّت سے ثابت ہے۔ چنانچہ،

      دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ  22 صَفحات پر مشتمل رسالے’’عقیقے کے بارے میں سوال جواب‘‘صفحہ 7 پر ہے:’’جب بچّہ پیدا ہو تو مستحب یہ ہے کہ اس کے کان میں اَذان واِقامت کہی جائے  اَذان کہنے سے  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بلائیں دُور ہوجائیں گی۔امامِ عالی مقام حضرتِ سیِّدُنا امامِ حُسین ابنِ علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما  سے روایت ہے کہ  سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :جس شخص کے ہاں بچّہ پید ا ہو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو بچّہ اُمُّ


الصِّبْیان سے محفوظ رہے گا۔([14]) اُمُّ الصِّبْیان کے مُتَعلِّق عاشِقوں کے امام، امامِ اہلسنّت،مُجَدِّد ِ دین و ملّت ، پروانۂ شمعِ رسالت ، عاشِقِ ماہِ نُبُوَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:(صَرْع)بہت خبیث بَلَا ہے اور اسی کو اُمُّ الصِبْیَان کہتے ہیں اگر بچّوں کو ہو، ورنہ صَرْع (مرگی)۔ ([15])

      ’’نُزْهَةُ الْقَارِی‘‘ میں ہے:صَرْع کے معنی بے ہوش ہو کر گرپڑنے کے ہیں یہ کبھی اَخلاط(اَخلاط ،خلط کی جمع۔ جسم کی چار خِلطَیں(۱) صَفرا(یعنی پِت) (۲) خون(۳) بلغم اور (۴) سَودا( جَلا ہوا سیاہ بلغم))کے فساد کے سبب ہوتا ہے جسے مِرگی کہتے ہیں اور کبھی جِنّ یا خبیث ہمزادکے اثر سے ہوتا ہے۔([16]) میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: جب بچّہ پیداہو فوراً سیدھے کان میں اذان بائیں(الٹے)میں تکبیر کہے کہ خَلَلِ شیطان واُمُّ الصِّبْیان سے بچے۔([17]) بہتریہ ہے کہ دَہنے (یعنی سیدھے) کان میں چار مرتبہ اَذان اور بائیں (یعنی اُلٹے) کان میں تین مرتبہ اِقامت کہی جائے ۔ (اگر ایک مرتبہ اذان و اقامت کہہ دی تب بھی کوئی حَرج


نہیں)ساتویں دن اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مُونڈا جائے اور سر مُونڈانے کے وَقْت عقیقہ  کیا جائے اور بالوں کو وزْن کرکے اُتنی چاندی یا سونا صَدَقہ کیا جائے۔([18]) بہت لوگوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اذان کہی جاتی ہے اور لڑکی پیدا ہوتی ہے تو نہیں کہتے۔یہ نہ چاہیے بلکہ لڑکی پیدا ہو جب بھی اذان و اقامت کہی جائے۔([19])

(3) تحنیک

      تحنیک یعنی گھٹی دینے کے متعلق حضرت سَیِّدُنا اَبُو زَكَريا یحییٰ بن شَرف نَوَوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:تمام عُلَمائے کِرام کا اس بات پر اِتفاق ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد کھجور (یا کسی میٹھی چیز)کی گھٹی دینا مستحب ہے، اگر کھجور نہ ہو تو جو بھی میٹھی چیز میسر ہو اس سے گھٹی دی جاسکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھٹی دینے والا کھجور کو اپنے منہ میں خوب چباکر نرم کرے کہ اسے نگلا جا سکے پھر وہ بچے کامنہ کھول کر اس میں رکھ دے ۔ مستحب یہ ہے کہ گھٹی دینے والا نیک اور متقی و پرہیز گار ہو ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔اگر ایسا کوئی شخص پاس موجود نہ


ہو تو نَومَولُود کو تحنیک کی خاطِر کسی نیک شخص کے پاس لے جایا جا سکتا ہے۔([20])جیساکہ اُمُّ المومنين حضرت سَيِّدَتُنا عائشہ صِدّيقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے (نوزائیدہ) بچوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس ميں لايا کرتے تھے، آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے ليے خيرو برکت کی دعا فرماتے اور تَحْنِیْک فرمايا کرتے تھے۔([21])

      پیارے اسلامی بھائیو!صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے معمول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بچوں بالخصوص بیٹی کی تَحْنِیْک صالح ومتقی مسلمانوں سے کروائی جائے تاکہ نیک لوگوں کی دعائیں اور برکات اس کی گھٹی میں شامل ہوں۔

(4) اچھا نام رکھنا

      ماں باپ کی طرف سے چونکہ بچے کے لئے سب سے پہلا اور بنیادی تحفہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کا خوبصورت و بابرکت نام رکھیں تاکہ یہ تحفہ عمر بھر اسے ماں باپ کی شفقتوں اور مہربانیوں کی یاددلاتا رہے،یہاں تک کہ میدانِ محشر میں بھی اپنے والدین کے عطاکردہ اسی نام سے بارگاہِ خداوندی میں حاضری کے لیے بلایا


 جائے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا اچھے نام رکھا کرو۔([22])

پیارے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا  بچوں بالخصوص بیٹیوں کے نام رکھنے میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئے اور ان کا نام ایسا ہونا چاہئے کہ دنیا  وآخرت میں انہیں کہیں شرمسار نہ ہونا پڑے،اس لیے کہ بسا اوقات مَسائلِ شَرعیہ سے ناواقف ہونے کی وجہ سے لوگ بیٹیوں کے نام معروف کفار خواتین کے نام پر رکھ دیتے ہیں یا نئے نئے نام رکھنے کی دوڑ میں ایسے نام رکھ دیتے ہیں جو بے معنیٰ ہوتے ہیں یا ان کا معنیٰ اچھا نہیں ہوتا،ایسے تمام نام رکھنے سے بچنا چاہئے۔جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے:ایسا نام رکھنا جس کا ذکر نہ قرآنِ مجید میں آیا ہو نہ حدیثوں میں ہو نہ مسلمانوں میں ایسا نام مستعمل ہو، اس میں عُلَما کو اِخْتِلاف ہے بہتر یہ ہے کہ نہ رکھے۔([23]) لہٰذا چاہئے کہ بیٹیوں کے نام اُمَّہاتُ المومنین، صحابیات و صالحات رضی اللّٰہ تعالٰی عَنْہُنَّ  کے اَسْمائے مُبارَکہ پر ہی رکھے جائیں۔اس کا


 ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ کی بیٹی کا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی برگزیدہ و نیک خواتین سے رُوحانی تعلق قائم ہوجائے گا اور دوسرا ان نیک ہستیوں سے موسوم ہونے کی برکت سے اسکی زِنْدَگی پر مَدَنی اثرات مُرتّب ہوں گے۔ اگر آپ نے اپنی بیٹی کا نام رکھتے وقت ان مَدَنی پھولوں کو مَدّنظر نہیں رکھا تھا تو پریشان مت ہوں بلکہ فوراً ان کا نام تبدیل کر دیجئے۔ چنانچہ،

      اُمُّ المومنين حضرت سَيِّدَتُنا عائشہ صِدّيقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  سے مروی ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بُرے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے۔([24]) اور حضرت سَیِّدُنا ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما  سے مروی ہے کہ اُمُّ الْمُومنین حضرت سیِّدَتُنا  جُویریہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  کا نام پہلے برّہ (نیکی) تھا،آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بدل کر جُویریہ رکھ دیا ۔([25]) نام رکھنے میں حضرت سَیِّدُنا اَبُو زَكَريا یحییٰ بن شَرف نَوَوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  کا عطا کردہ یہ مدنی پھول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے کا نام اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے کسی برگزیدہ بندے (مثلاً پیر و مرشد وغیرہ) سے رکھوانا مستحب ہے اور جس دن بچہ پیداہو اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے۔([26])

 

(5) بال منڈوانا وعقیقہ کرنا

ساتویں دن بال منڈوا کر ان کے وزن برابر چاندی صدقہ کرنا چاہئے، نیز عقیقہ بھی اسی دن کر دینا چاہئے۔ چنانچہ، اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت  فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:ساتویں اور نہ ہوسکے توچودھویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے، دُختر (بیٹی)کے لئے ایک، پِسر(بیٹے)کے لئے دو (بکریاں)کہ اس میں بچے کاگویارہن سے چھڑانا ہے۔([27])

     ’’عقیقے کے بارے میں سوال جواب ‘‘صفحہ 4 پر ہے:’’جس بچّے نے عقیقے کا وقت پایا یعنی وہ بچّہ سات دن کا ہوگیا اور بِلاعُذر جبکہ استِطاعت(یعنی طاقت)بھی ہو اُس کا عقیقہ نہ کیا گیاتو وہ اپنے ماں باپ کی شَفاعت نہ کرے گا ۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ اَلْغُـلَامُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِیْقَتِهٖ یعنی’’ لڑکا اپنے عقیقے میں گِروی ہے۔‘‘([28]) اَشِعَّةُ اللَّمْعات میں ہے،امام احمد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں:’’بچّے کا جب تک عقیقہ نہ کیاجائے اُس کو والِدَین کے حق میں شَفاعت کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔‘‘([29])


صدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ ، حضرتِ  علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی مذکورہ حدیث پاک کے تَحْت فرماتے ہیں:’’گِروی ‘‘ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سے پورانَفْعْ حاصِل نہ ہو گا جب تک عقیقہ نہ کیا جائے اور بعض (مُحَدِّثین)نے کہا بچّے کی سلامَتی اور اُس کی نَشْو ونُما(پھلنا پھولنا)اور اُس میں اچّھے اَوصاف (یعنی عمدہ خوبیاں)ہونا عقیقے کے ساتھ وابَستہ ہیں۔([30])

(6) رزقِ حلال کھلانا

دورِ جدید میں مہنگائی نے چونکہ ہر کس و ناکس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، لہٰذا یہ بات عام دیکھی گئی ہے کہ ضروریات کی تکمیل اور آسائشوں کے حصول کے لئے بسا اوقات حرام  وحلال کمائی کی پروا نہیں کی جاتی اور یہ بات یکسر فراموش کر دی جاتی ہے کہ حرام کمائی دنیا وآخرت میں عظیم خسارے کا باعث ہے۔ جیسا کہ حضرت سَیِّدُناجابر بن عبد اللہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :وہ گوشت ہرگز جنت میں داخل نہ ہوگا جو حرام میں پلا بڑھا۔([31])


پس ہمیشہ رزقِ حلال کما کر اپنی اولاد کی پرورش کرنے کی کوشش کیجئےکہ جو شخص اس لئے حلال کمائی کرتا ہے کہ سوال کرنے سے بچے، اہل وعیال کے لئے کچھ حاصِل کرے اور پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمکتا ہو گا۔([32])

(7) اچھی باتیں سکھانا

عورتوں کے متعلق چونکہ یہ بات بڑی معروف ہے کہ وہ فضول گوئی کی عادی ہوتی ہیں، لہٰذا اپنی بیٹی کو فضول گوئی وغیرہ سے بچانے کی اچھی اچھی نیتوں سے کوشش کیجئے کہ جب وہ ذرا ہوشیار ہو جائے اور زبان کھولنے لگے تو سب سے پہلے اس کی پاک وصاف زبان سے اسم جلالت ’’ اللہ‘‘ اور کلمہ طیبہ ہی جاری ہو ۔ حضرتِ سیدنا ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہلواؤ۔([33])  چنانچہ پندرھویں صدی کی عظیم علمی و رُوحانی شخصیت، شیخِ طریقت، امِیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا


ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنی نواسی کے لئے سب گھر والوں کو کہہ رکھا تھا کہ اس کے سامنے ’’اللہ اللہ‘‘ کا ذکر کرتے رہیں تاکہ اس کی زبان سے پہلا لفظ ’’اللہ‘‘ نکلے اور جب وہ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی بارگاہ میں لائی جاتی توآپ خود بھی اس کے سامنے ذکر اللہ کرتے ۔ چنانچہ جب آپ کی نواسی نے بولنا شروع کیا تو پہلا لفظ ’’اللہ‘‘ ہی بولا۔

(8) تعلیم اور اسلامی تربیت

      دورِ حاضِر میں اگر مُعاشَرے کا بغور جائزہ لیں تو ہر طرف دو ہی چیزیں نظر آتی ہیں۔ جدید تعلیم و ترقی اور نام نہاد روشن مستقبل کے نام پر ایک طرف مغربی تہذیب(Western culture)سے معمور مختلف(Different)خوبصورت (Beautiful) اور دل آویز(Attractive) ناموں کے ساتھ شہر شہر بلکہ گلی گلی کھلے ہوئے اسکولز (Schools) نظر آتے ہیں جن کی ایک کثیر تعداد اسلام دشمن قوتوں کے زیرِ اثر مَذہَب و ملّت کی قُیود سے آزاد مُعَاشَرے کے حامِل لوگ تیار کرنے میں مگن ہے تو دوسری طرف ہر جگہ بالخصوص بڑے شہروں کے پوش علاقوں، ہاؤسنگ سوسائٹیز (Housing Societies)،وی آئی پی پاپولیشن ایریاز(V.I.P. Population Areas)، اَپر کلاس ریزیڈنشل ایریاز (Upper class residential areas) میں


اسلامک سکولز (Islamic Schools) کے نام پر بدمذہبوں کے بنائے گئے ادارے و جامعات ہماری آنے والی نسلوں کے ایمان اور دینی حمیت وغیرت کے لئے شدید خطرات کا باعث بن رہے ہیں۔

      لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عشقِ رسول سے سرشار معاشرے کی تشکیل کے لیے مدنی تربیت کا ایک ایسا مضبوط و مربوط لائحہ عمل اختیار کیا جائے جس سے دورِ جدید کے نوجوانوں کی فکرو سوچ میں تبدیلی آنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان کا رُخ سُوئے مدینہ ہو جائے بلکہ ان کا سینہ ہی مدینہ بن جائے۔جس کے لیے سب سے پہلی سیڑھی یہ ہے کہ آج کی اس ننھی منی کلی کی طوفانِ بادو باراں سے حفاظت کی جائے کہ آج جس کی مسکراہٹ ماں باپ کوغموں سے دور کر دیتی ہے، کل جب پوری طرح کھِل کر کسی کے گلستانِ حیات میں مہکے تو چاروں طرف فضا خوشگوار ہو جائے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں بالخصوص بیٹیوں کو عفت و عصمت کا پیکر بنانے، توحید و رسالت سے روشناس کرانے اور اسلام کے نام پر تن من دھن قربان کر دینے کے لئے تیار کریں تاکہ عاشقانِ رسول کی عشق و مستی سے بھرپور داستانیں قصۂ پارینہ (ماضی کی کوئی داستان)بننے کے بجائے دورِ جدید میں حقیقت کا رُوپ دھار سکیں اور اس کے لیے تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی


تحریک دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے اور پاکیزہ و معطر و معنبر مدنی ماحول سے بہتر کوئی ماحول نہیں۔

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ کا تعلق زندگی کے جس بھی شعبے سے ہو فکر  نہ کیجیے دعوتِ اسلامی آپ کو ہر جگہ اور زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فراہم کرتی نظر آئے گی، مثلاً ڈھائی سال کی عمر میں اپنی بیٹی کو جدید دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ فرض علمِ دین سکھانے کے لیے دارُ المدینہمیں داخل کروائیے یا پھر تھوڑی بڑی عمر کی ہو تو اسے قرآنِ کریم ناظرہ و حفظ کروانے کے لیے مدرسۃ المدینہ للبناتاور عِلْمِ دین کی ترویج و اشاعت کے لیے جامعاتُ المدینہ للبنات میں داخل کروا دیجئے۔

      اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت،مُجَدّدِ دىن و ملّت، پَروانۂ شَمْعِ رِسالَت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:بچپن سے جو عادت پڑتى ہے  كم چھوٹتى ہے۔([34]) لہٰذا جو لوگ ایک بیٹی کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں درحقیقت وہ آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک بیٹی کی پرورش کے دوران تعلیم و تربیت کے جن مراحل سے دوچار ہونا


پڑتا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تعلیم و تربیت اگرچہ لازم وملزوم ہیں مگر ان پر طائرانہ نظر ڈالنے سے صُورت کچھ یوں بنتی ہے:

 (۱) بنیادی و ضروری عقائد کی تعلیم

      طاغوتی طاقتیں عاشقانِ رسول کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے ان کے عقیدے اور عمل کو برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں انہیں بعض بد باطن لوگوں کی بھی بھرپور مدد حاصل ہے۔غیرمسلم قوتوں کی مسلمانوں کو مٹانے اور پاکیزہ اسلامی تعلیمات کو بگاڑنے کی ان ناپاک سازشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ اِس پُر فِتن دور میں گناہوں کی یلغار اور فیشن پرستی کی پھٹکار نے مسلمانوں کی اکثریت کو بے عمل بنا دیاہے، علمِ دین سے بے رغبتی اور ہر خاص و عام کا رُجحان صرف دُنیاوی تعلیم کی طرف ہے، دینی مسائل سے ناواقفیت کی بنا پر ہر طرف جَہالَت کے بادل منڈلا رہے ہیں، لادینیت و بدمذہبیت کے ٹھاٹھيں مارتے سیلاب میں مسلمان تیزی کے ساتھ بد اخلاقی کے عمیق گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔چنانچہ ان نازُک حالات میں عاشقانِ رسول کے کانوں تک ذکرِ خدا و مصطفےٰ کی پرسوز آوازیں پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ آج کی بیٹی اور کل کی ماں کی ایسی بھرپور مدنی تربیت کی جائے کہ آنے والی نسل عشقِ رسول کے رنگ


میں رنگ جائے۔ ماں کی گود چونکہ بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے لہٰذا ایک بیٹی کی صحیح معنوں میں مدنی تربیت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماں خود بھی ضروری علومِ دینیہ سے آگاہ ہو تاکہ وہ اپنی بیٹی کو ابتدائی عمر سے ہی توحید و رسالت کے عشق و مستی سے بھرپور جام پینے کا ایسا عادی بنا دے کہ جس کی لذت میں گم ہو کر اسے زِنْدَگی بھر کسی دوسری طرف دیکھنے کا ہوش ہی نہ رہے۔ چنانچہ اسے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ، فرشتوں،آسمانی کتابوں، انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام بالخصوص نبیوں کے سردار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، قیامت اور جنّت ودوزخ کے متعلق بتدریج بنیادی عقائد سکھائیے۔مثلاً

توحیدِ باری تعالٰی کے متعلق بنیادی عقائد:

      ہمیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے پیدا کیا ہے، وہی ہمیں رزق عطا فرماتا ہے ، اسی نے زندگی دی ہے، وہی موت دے گا ، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، وہ جسم ،جگہ اور مکان سے پاک ہے(بعض ماں باپ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کا نام لینے پر اپنے بچے کو آسمان کی طرف انگلی اٹھانا سکھاتے ہیں ،ایسا نہ کیا جائے )، وہ کسی کا محتاج نہیں ساری کائنات اس کی محتاج ہے، وہ اولاد سے پاک ہے،وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، جوکچھ ہوچکا ہے، جوہورہا ہے یا ہوگا وہ سب جانتا ہے۔


فرشتوں کے متعلق بنیادی عقائد:

     فرشتے اسکی نوری مخلوق ہیں جو اسکے حکم سے مختلف کام سرانجام دیتے ہیں۔ مثلاً بارش برسانا، ہوا چلانا، کسی کی روح نکالنا وغیرہ۔

آسمانی کتابوں کے متعلق بنیادی عقائد:

       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اپنے بندوں کی ہدايت کیلئے بہت سے صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں جن میں چار کتابیں بہت مشہور ہیں:

(1)تورات(یہ حضرت سَیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام  پر نازل ہوئی)

(2)زبور(یہ حضرت سَیِّدُنا داود عَلَیْہِ السَّلَام  پر نازل ہوئی)

(3)انجیل(یہ حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام  پر نازل ہوئی)

(4)قرآنِ کریم(یہ ہمارے نبی محمد مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمپر نازل ہوئی)

انبیائے کرام کے متعلق بنیادی عقائد:

               اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے مخلوق کی رہنمائی کے لئے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا جن کی مکمل تعداد وہی جانتا ہے اور سب سے آخر میں ہمارے نبی محمد مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھیجا۔آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے آخری نبی ہیں، آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

قیامت اور جنت و دوزخ کے متعلق بنیادی عقائد:

          قیامت سے مرادیہ ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ یہ آسمان وزمین سب تباہ ہوجائیں گے، پھر مردے اپنی


 قبروں سے اٹھ کر میدانِ محشر میں بارگاہِ خداوندی میں حاضِر ہوں گے اور اپنے اعمال کا حساب دیں گے،جس کے عمل اچھے ہوں گے اسے جنّت ملے گی اور جس کے برے ہوں گے اسے دوزخ میں جانا پڑے گا۔ جنّت کا شوق اور جہنّم  کا خوف پیدا کرنے کے لیے بیٹی کی سمجھ بوجھ کے مطابق انعاماتِ جنّت اور عذاباتِ جہنّم کی روایات سنائيے اور اسے بتائيے کہ اگر ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور اسکے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کریں گے تو ہمیں جنّت ملے گی اور اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نافرمانی میں زِنْدَگی بسر کی تو جہنّم کا عذاب ہمارا منتظر ہوگا۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہ ([35])

ذکرِمصطفےٰ چونکہ نورِ ایمان وسُرورِ جان ہے۔اس لئے چاہيے کہ ایسے اسباب پیدا کیے جائیں کہ آپ کی بیٹی کے دل میں درودِ پاک اور نعت شریف پڑھنے اور سننے کا ذوق وشوق پیدا ہو جائے۔مثلاً بچے کو سُلانے یا بہلانے کے لئے لَوری دینے کا رواج عام ہے لیکن لَوری دیتے وقت خیال رکھا جائے کہ یہ بے مَعانی کلمات پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں کوئی غیرشرعی کلمہ ہو بلکہ بہتر یہ ہے کہ حمد


 یا نعت یا اولیائے کرام کی منقبت بچے کو سنائی جائے تو ثواب بھی ملے گا اور بچے کو نیند بھی آجائے گی۔ اس کے علاوہ صالحین و صالحات کے واقعات کہانیوں کی صورت میں سنانا بھی مفید ہے،کیونکہ اسلاف سے عقیدت ومَحبَّت کا تعلّق ایمان کی مَضبوطی کا ذریعہ ہے اور بچوں کے دل میں صحابۂ کرام واہلِ بیتِ اَطہار عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور دیگر اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام  کی عقیدت پیدا کرنے کا آسان ذریعہ ان نفوسِ قدسیہ کی سیرت کے نورانی واقعات بھی ہیں۔نیز ایک مسلمان کے لئے چونکہ اس کا ایمان متاعِ حیات کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا آئندہ نسلوں کے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے بیٹے سے بڑھ کر بیٹی کے ایمان کی حفاظت کی فکر دیگر تمام دُنیاوی اشیاء سے کہیں زیادہ ہونی چاہيے اور ایمان کی حفاظت کا ایک بہت بڑا ذریعہ کسی پیرِ کامل سے بیعت ہوجانا بھی ہے،فی زمانہ کسی جامع شرائط پیرِ کامل کا ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لہٰذا اگر آپ کسی کے مرید نہیں تو فوراً اپنے بچوں سمیت سلسلہ قادریہ رضویہ عطاریہ کے عظیم بزرگ شیخِ طریقت ،امیرِ اہلِ سنّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے مرید بن جائیں۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ، قطب ِمدینہ، میزبانِ مہمانانِ مدینہ،خلیفۂ اعلیٰ حضرت، حضرت سَیِّدُنا ضیاء الدین احمد مدنی  عَلَیْہِ رَحمَۃُ


اللّٰہ ِالْغَنِی  کے مرید اور خلیفۂ قطب ِمدینہ حضرت مولانا عبد السلام قادری رضوی، شارحِ بخاری فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی،جانشینِ قطبِ مدینہ حضرت علامہ فضل الرحمٰن قادری اور مفتیِ اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقار الدین رضویرَحْمَۃُ اللّٰہِ تعالٰی علیہم کے خلیفۂ مجاز ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر بزرگوں سے بھی خلافتیں اور اجازتِ اسانیدِ احادیث حاصِل ہیں۔ آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سلسلہ قادریہ میں مُرید فرماتے ہیں ۔ قادِری سلسلے کی عظمت کے کیاکہنے کہ اس کے عظیم پیشوا حُضور سَیِّدُنا غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم قیامت تک کے لئے بفضل ِ خدا اپنے مریدوں کے توبہ پر مرنے کے ضامِن ہیں۔([36])

(۲) قرآن و سنت کی تعلیم

      امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عَلِی بِن اَبِی طَالب کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مَروِی ہے کہ شَہَنْشَاہ ِمدینہ،قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :’’اپنی اَولاد کو 3 باتیں سکھاؤ (۱) اَپنے نبی صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحَبَّت(۲) اَہلِ بیت عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی مَحبَّت اور (۳) تِلاوتِ قرآنِ کریم، کیونکہ قرآن پڑھنے والے لوگ، اَنبِیا و اَصفِیا کے ساتھ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے سایۂ رَحمت میں ہو


گئے جس دن اُس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘ ([37])

      حضرت سیِّدُنا شیخ ابو محمد سہل تُسْتُری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں: ایمان کی علامَت مَحبَّتِ باری تعالٰی،مَحبَّتِ باری تعالٰی کی علامت مَحبَّتِ کلامِ باری تعالٰی،مَحبَّتِ کلامِ باری تعالٰی کی علامت مَحبَّتِ محبوبِ باری تعالٰی اور مَحبَّتِ محبوبِ باری تعالٰی کی علامت اِتّباعِ محبوبِ باری تعالٰی ہے۔([38])

      پس بنیادی و ضروری عقائد کے علاوہ بیٹی کے دل میں قرآن و سنت  کی مَحبَّت پیدا کرنا ضَروری ہے تاکہ بچپن ہی سے باری تعالٰی ومحبوبِ باری تعالٰی کی مَحبَّت اس کے دل میں پیدا ہو جائے اور قرآن و سنت کے مطابق وہ اپنی ساری زِنْدَگی گزار دے کیونکہ قرآن و سنت پر عمل ہی دونوں جہاں میں کامیابی کا سبب ہے مگر یاد رکھئے!قرآنِ کریم پر عمل کرنے کے لیے اسے صحیح پڑھنا، سیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے، مگر افسوس صد افسوس! مخلوقِ خدا ربّ عَزَّ  وَجَلَّ کے کلام کو پڑھنے، سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے بتدریج دور ہوتی جا رہی ہے اور دنیاوی ترقی وخوشحالی کیلئے ہر وقت نِت نئے عُلوم وفُنون سیکھنے سکھانے میں مصروف ہے۔ حالانکہ اس کی تعلیم کے مُتَعَلّق اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ


عالیشان ہے:خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَه۔ یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اوردوسروں کو سکھائے۔([39])چنانچہ والدین پر لازم ہے کہ بیٹی کی پرورش میں قرآن وسنّت کی مَحبَّت اس کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھردیں۔

(۳) فرض عُلوم اور دینی تعلیم

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!فرض علوم اور دینی تعلیم کی اہمیت کے متعلق شیخِ طریقت، امِیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ  505 صَفحات پر مشتمل کتاب غیبت کی تباہ کاریاں کے صَفْحَہ 5 پر فرماتے ہیں:سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔([40]) یہاں اسکول کالج کی دُنیوی تعلیم نہیں بلکہ ضروری دینی علم مُراد ہے، لہٰذا سب سے پہلے بنیادی عقائد کا سیکھنا فرض ہے، اس کے بعدنَماز کے فرائض و شرائِط و مفسدات، پھر رَمضانُ المبارَک کی تشریف آوری پر فرض


ہونے کی صُورت میں روزوں کے ضَروری مسائل، جس پر زکوٰۃ فرض ہو اُس کے لئے زکوٰۃ کے ضَروری مسائِل، اسی طرح حج فرض ہونے کی صورت میں حج کے، نکاح کرنا چاہے تو اسکے، تاجر کو خرید و فروخت کے،نوکری کرنے والے کو نوکری کے، نوکر رکھنے والے کو اِجارے کے، وَعلٰی ھٰذَا الْقِیاس (یعنی اور اسی پر قِیاس کرتے ہوئے) ہر مسلمان عاقِل و بالغ مردو عورت پر اُس کی مَوجودہ حالَت کے مُطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔ اِسی طرح ہر ایک کیلئے مسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے۔ نیز مسائلِ قلب (باطِنی مسائل) یعنی فرائضِ قَلْبِیہ (باطِنی فرائض) مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہ اوران کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر، ریاکاری،حَسَد وَغَیْرهَا اوران کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ مُہلکات یعنی ہلاکت میں ڈالنے والی چیزوں جیسا کہ جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان وغیرہ کے بارے میں ضَروری معلومات حاصل کرنا بھی فرض ہے تاکہ ان گناہوں سے بچا جا سکے۔([41])

      اِمامِ اَجَلّ حضرت سیِّدُنا شیخ ابو طالب مکی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:عمل سے پہلے علم ضروری ہے کیونکہ عمل کے فرض ہونے کی وجہ سے اس کا علم حاصل


 کرنا بھی فرض ہو جاتا ہے۔([42])

آدابِ زِنْدَگی

پیارے اسلامی بھائیو!بیٹی کی پرورش کے دوران قرآن و سنّت اور كتبِ اسلاف  (بُزرگوں کی کتابوں)میں بیان کردہ جن آداب کی ضَرورت پیش آسکتی ہے اگر ان کا مُطالَعہ کیا جائے تو ہم انہیں تین مختلف حصّوں میں کچھ یوں تقسیم کر سکتے ہیں:

·        ذات سے مُتَعَلّق آداب

·        خاندان سے مُتَعَلّق آداب

·        مُعاشَرے سے مُتَعَلّق آداب

ذات سے مُتَعَلّق آداب

پاکیزگی و طہارت کو ایک مسلمان کی زِنْدَگی میں  جو اہمیت حاصِل ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:

وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸) (پ۱۱،التوبة:۱۰۸)

ترجمۂ كنز الايمان:اورستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔


      نیز ایک فرمانِ مصطفےٰصَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہےکہ پاکیزگی نصف ایمان ہے۔([43])اور یہ مروی ہے کہ بُنِیَ الدِّیْنُ عَلَی النَّظَافَة یعنی دین کی بنیاد پاکیزگی پر ہے۔([44]) یہاں طہارت سے صرف کپڑوں کا صاف ہونا ہی مراد نہیں بلکہ دل کی صفائی بھی مراد ہے،اس لیے کہ نَجاست صرف بدن یا  کپڑوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ باطِن کی صفائی بھی شریعت کو مطلوب ہےکیونکہ جب تک باطِن پاک نہ ہو عِلْمِ نافِع (نَفْعْ بخش عِلْم)حاصِل نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان علم کے نور سے روشنی پاسکتا ہے،لہٰذا بیٹی کی پرورش کے دوران والدین پر لازم ہے کہ وہ بیٹی کے ظاہر کی پاکی و طہارت کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کی پاکیزگی پر بھی بھرپور توجہ دیں تا کہ اس کا دل بُری صِفات سے  پاک رہے۔ مثلاًحسد،تکبر،ریا کاری، عجب و خود پسندی، جھوٹ، غیبت ،چغلی،گالی گلوچ، امانت میں خیانت ،بدعہدی وغیرہ اور ان کے  دنیا و آخرت میں نقصانات سے خوب آگاہ کریں تاکہ بیٹی ان ہلاک کر دینے اور جہنّم میں لے جانے والے گناہوں سے بچ سکے۔مگر یاد رکھئے!تربیت اس وقت ہی فائدہ دے گی جب آپ خود بھی ان باطنی گناہوں  سے بچنے کی کوشش کریں


گے،کیونکہ والدین اگر نیک  اور گناہوں سے بچنے والے ہوں تو ان کی برکات ان کے بچوں کو بھی نصیب ہوتی ہیں۔

خاندان سے مُتَعَلّق آداب

      پیارے اسلامی بھائیو!اس سے مراد وہ آداب ہیں جو ایک مَضْبُوط و خُوشحال خاندان کی بَقا کے لیے اِنْتِہائی ضَروری ہیں۔مثلاً وَالِدَین کا اَدَب و اِحترام اور دیگر چھوٹوں بڑوں کے ساتھ حُسنِ سُلوک، صِلہ رحمی (رِشْتہ داروں سے اچھے سُلُوک)کی فضیلت اور قطع تعلقی کی مَذمّت وغیرہ۔ ان آداب کے بجا لانے کی بنا پر ایک بیٹی خاندان بھر کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے، لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی پرورش میں ذَرَّه بھر کوتاہی نہ ہونے دیں اور بچپن ہی سے اس کی اسلامی تربیّت کا ایسا اہتمام کریں کہ ہر کوئی ان کی بیٹی کے حُسْنِ سُلُوک کی تعریف کرے نہ کہ اس کی بَدسُلُوکی و بے اَدَبی اور بدکلامی کاہر طرف چرچا ہو۔

      بچے بالخصوص بیٹیاں چونکہ والدین سے دیگر رشتے ناطوں کی پہچان سیکھنے کے ساتھ ساتھ  یہ بھی سیکھتی ہیں کہ انکے والدین اپنے قرابت داروں سے کس طرح پیش آتے ہیں،لہٰذا اگر آپ اپنے بعض قرابت داروں سے صِلہ رحمی کے بجائے


قطع تعلقی کر لیں گے یا اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کریں گے تو آپ کی اولاد بالخصوص بیٹیوں کے ذہنوں سے ان رشتوں کا تقدس ہمیشہ کیلیے خَتْم نہیں تو کم ضَرور ہو جائے گا،لہٰذا خود بھی یاد رکھئے اور اپنی بیٹی کو بھی یہ بات خوب باور کرا دیجئے:

·        صِلہ رحمی سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  راضی ہوتا ہے کيونکہ صلہ رحمی خود اسی کا حکم ہے۔

·        صِلہ رحمی سے فِرشتے خوش ہوتے ہيں۔

·        صِلہ رحمی کرنے والے کی لوگ تعريف کرتے ہيں۔

·        صِلہ رحمی سے شیطان لعين غمناک ہوتا ہے۔

·        صِلہ رحمی سے عمر اور رزق ميں برکت ہوتی ہے۔

·        صِلہ رحمی سے دلی اطمينان حاصل ہوتا ہے اور حديث شريف ميں بھی ہے کہ (فرائض کی تکمیل کے بعد)افضل اعمال وہ ہيں جو مومن کی خوشی کا باعِث بنيں۔([45])

·        صِلہ رحمی سے مَحبَّت ميں زيادتی ہوتی ہے، کيونکہ جن لوگوں پر اس نے احسان کئے ہوں گے وہ سب اس کی خوشی و غم ميں شريک ہوں گے اور اس کی مدد بھی کرتے رہيں گے جس کی وجہ سے باہمی محبت بڑھے گی۔


·        صِلہ رحمی موت کے بعد بھی اجر وثواب کا باعث بنتی ہے، کيونکہ لوگ اس کی موت کے بعد اس کے احسانات کو ياد کرکے اس کے لئے ايصالِ ثواب و دُعا کا اہتمام کريں گے۔([46])

مُعاشَرے سے مُتَعَلّق آداب

      معاشرہ باہم مل جل کر رہنے والے افراد کے مجموعے کو کہتے ہیں جس کی بنیاد کی مختلف وُجوہ ہیں۔مثلاً برادری، قوم، زَبان، مذہَب اور جغرافیائی حُدود وغیرہ۔ عام طور پر مختلف مُعاشَروں کی تشکیل میں اجتماعی زِنْدَگی کی بقا کے لیے دو اُمور کو بڑی اہمیت حاصِل ہے:ایک یہ کہ لوگ اس طرح زِنْدَگی بَسَر کریں کہ ان کی ذات کی تکمیل ہو اور دوسرا یہ کہ ایسے اُصُول و ضَوَابط تیار کیے جائیں جن کے ذریعے باہمی خوشگوار تعلقات قائم ہوں۔یہ اُصُول وضَوَابط چونکہ انسان بناتے ہیں، لہٰذا ان میں تبدیلی کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے اور یہ تبدیل ہوتے بھی رہتے ہیں، مگر اسلامی معاشرہ ایسا ہے جس کے بنیادی عقائداور اُصُولِ شریعت میں اختتامِ وحی کے بعدکبھی کوئی تبدیلی آئی ہے نہ آئے گی، اس لیے کہ یہ ایک ایسی مُتَوازِن اور معتدل زِنْدَگی کا نام ہے جس میں انسانی عقل، رسوم و رواج اور تمام مُعاشَرتی


آداب وحیِ اِلٰہی کی روشنی میں طے پاتے ہیں اور وحی کے نزول کا دروازہ چونکہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے،لہٰذا اب اسلامی معاشرے کے جو بنیادی خدو خال سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبانِ حق ترجمان سے بیان ہوئے ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں، البتہ !ہر دور کی ضَروریات کے مطابق پیدا ہونے والے جدید مسائل کا حل بھی قرآن و سنّت کے بیان کردہ اصولوں سے ہی اخذ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ حل قرآن و سنّت کے مخالف نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی فلاح و صلاح سے تعلق رکھتا ہو تو اسے قبول کر لیا جائے گا ورنہ رد کر دیا جائے گا۔ چنانچہ،

ایک اِسلامی و فلاحی مُعَاشَرے کی بَقا کے لیے اِنتہائی ضَروری ہے کہ اس کے اَفراد کی تربیّت پر بھرپور توجہ دی جائے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کا آغاز ماں کی گود سے ہوتاکہ اس تربیّت کے اَثرات زِنْدَگی بھر بچے پر مُرتَّب رہیں۔ اس تَناظُر میں بیٹی کی بہترین پرورش کی اَہَمِیَّت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ اگر آج اس کی تربیّت میں کوئی کمی رہ گئی تو اس کا اِزالہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گا۔

                             اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  عَزَّ  وَجَلَّ!ہم مسلمان ہیں اور ایک اسلام پسند معاشرے کا حصہ ہیں، ہمیں چاہئے کہ کبھی بھی بیٹی کی پرورش میں اس کی مدنی تربیت سے کوتاہی نہ برتیں، اسے معاشرتی برائیوں کی قباحتوں سے کماحقہ آگاہ کریں تاکہ وہ ان سے بچ سکے۔


بچپن کی عادت کم ہی چھوٹتی ہے

      آج ایک باپ اپنی آٹھ دس سالہ بىٹى كو جس بے پردگی کے ساتھ اپنے ہمراہ  اىك اىسى تقرىب مىں لے جاتا ہے جہاں مردوں عورتوں کا اختلاط ہے،موسىقى اورمىوزك کا اہتمام ہے، بے حَیا اور مغربی تہذیب کی ماری لڑکیاں ڈھول کی تھاپ پر نہایت ہی بیہودگی کے ساتھ رقص کر رہی ہیں اور وہ پھول جىسى بچى یہ سب دىكھ اور سن رہى ہے كہ ىہ بڑى بڑى لڑكىاں اپنے كزن كے ساتھ ناچ رہى ہىں، گانا گارہى ہىں۔تو اس کا یہی ذہن بنے گا کہ چونکہ یہاں پر مجھے  مىرا باپ لے كر آىا ہے، لہٰذا ایسی جگہ جانا اور ناچنا گانا دُرُسْت ہے کیونکہ  اگر ىہ سب غلط ہوتا تو مىرا باپ ہر گز مجھے ىہاں نہ لاتا۔

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں چاہئے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی اصلاح پر بھی توجہ رکھیں اور انہیں ایسی تقاریب ومَحافل سے دور رکھیں جو خِلافِ شَرْع اُمور پر مشتمل ہوں۔اس لیے کہ جو لوگ باوُجُود ِقدرت اپنی عورَتوں اور بہنوں،بیٹیوں کو بے پردَگی سے مَنْع نہ کریں وہ ’’دَیُّوث‘‘ہیں اور دیوث کے متعلق جنت سے محرومی کی وعید مروی ہے۔اہل وعیال کو خِلافِ شَرْع مَحافل میں لے جانے والوں کی تنبیہ کے لئے فتاوىٰ رَضَوىہ شریف مىں مرقوم اىك فتویٰ


سے چند اقتباسات کا مفہوم پیشِ خدمت ہے ۔چنانچہ،

جنت سے محرومی

               رسول اللہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (ارشاد)فرماتے ہیں:ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَــنَّةَ:اَلْعَاقُّ بِوَالِدَيْهِ وَالدَّيُّوثُ وَرَجُلَةُ النِّسَاءِ تىن شخص جنّت مىں نہ جائىں گے، ماں باپ كو آزار (تکلیف)دىنے والا، دَىُّوث اور مرد بننے والى عورت۔([47])

مَحبوب کے ساتھ حشر

               رسول اللہ  صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:لَا يُحِبُّ رَجُلٌ قَوْمًا اِلَّا جَعَلَهُ اللّٰهُ مَعَهُمْ جو جس قوم سے مَحبَّت ركھے گا اللہ تعالٰی اسے انہىں كے ساتھ کردے  گا۔([48])اور فرماتے ہیں:مَنْ اَحَبَّ قَوْمًا حَشَرَہُ اللهُ فِیْ زُمْرَتِهِمْ جو جس قوم سے دوستى كرے گا اللہ تعالٰی اسے انہىں كے گروہ مىں اٹھائے گا۔([49]) اور فرماتے ہیں:الْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ آدمى اپنے دوست كے ساتھ ہوگا۔([50])


 بنی اسرائیل کی تباہی کے اسباب

      بنى اسرائىل مىں پہلى خرابى جو آئى وہ ىہ تھى كہ ان مىں اىك شخص دوسرے سے ملتا تو اس سے كہتا:يَا هٰذَا!اِتَّقِ اللهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَاِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَكَ یعنی اے شخص! اللہعَزَّ  وَجَلَّ سے ڈر اور اپنے كام سے باز آ كہ ىہ حلال نہىں۔ پھر دوسرے دن اس سے ملتا اور وہ اپنے اُسى حال پر ہوتا تو ىہ اُس کو اپنے ساتھ كھانے پىنے اور پاس بىٹھنے سے نہ روكتا۔ پس جب وہ ىہ کام کرنے لگے تو اللہ تعالىٰ نے ان كے دل باہم اىك دوسرے پر مارے كہ منع كرنے والوں كا حال بھى اِنہى خطا والوں كے مِثل ہوگىا۔ پھر فرماىا:

لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۷۸)كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) (پ۶،المائدة:۷۸، ۷۹)

ترجمۂ كنز الايمان: بنى اسرائىل كے كافِر لعنت كىے گئے داود و عىسٰى بن مرىم كى زبان پر، ىہ بدلہ ہے ان كى نافرمانىوں اور حد سے بڑھنے كا، وہ آپَس مىں اىك دوسرے كو برے كام سے نہ روكتے تھے، البتہ وہ سخت بُرى حركت تھى كہ وہ كرتے تھے۔([51])


اللہ عَزَّ  وَجَلَّ فرماتا ہے:

وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۶۸) (پ۷،الانعام:۶۸)

 ترجمۂ كنز الايمان: اور اگر شىطان تجھے بھلا دے تو ىاد آنے پر ظالموں مىں مت بىٹھ۔

تفسىرِ احمدى میں ہے:ظالم لوگ بدمذہب فاسِق اور كافِر ہىں ان سب كے ساتھ بىٹھنا منع ہے۔([52])

نازک شیشیاں

      عورت مَوم کی ناک بلکہ رَال (چیڑ کا گوند) کی پڑیا بلکہ بارُود کی ڈبیا ہے،آگ كے ایک اَدْنیٰ سے لگاؤ میں بھَقْ سے ہوجانے (یعنی فوراً جل جانے)والی ہے۔عقل بھی ناقص اوردین بھی ناقص اور طینت (یعنی بنیاد) میں کجی(ٹیڑھا پَن) اور شہوت (خواہشِ نفس) میں مَرد سے سو حِصّہ بیشی(زائد) اور صحبتِ بد کا اَثَرِ مُسْتَقِل مَردوں کو بگاڑدیتاہے۔ پھر ان نازُک شیشیوں کا کیا کہنا  جوخفیف(ىعنى معمولى سى)ٹھیس سے پاش پاش ہو جائیں۔ یہ سب مضمون یعنی ان عورات کا  ناقِصاتُ العقل وَالدِّین اور کج طبع اورشہوت میں زائد اور نازُک شیشیاں ہونا صحیح حدیثوں میں ارشاد ہوئے ہیں


اور صحبتِ بد کے اَثَر میں تو بکثرت احادیثِ صحیحہ وارِد ہیں۔ ازاں جملہ یہ حدیثِ جلیل کہ مشکوٰۃِ حکمتِ نبوت کی نُورانی قندیل ہے۔فرماتے ہیں:اچھّے مُصَاحِب اور بُرے ہمنشین کی کہاوَت ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہار کی بھٹی کہ مشک والا تیرے لئے نفع سے خالی نہیں یا تَو تُو اس سے خریدے گا کہ خود بھی مشک والا ہوجائے گا ورنہ خوشبو تو ضرور پائے گا اور لوہار کی بھٹی تیرا گھر پھونک دے گی یا کپڑے جلادے گی یا کچھ نہیں تو اتنا ہوگا کہ تجھے بد بو پہنچے۔ اگر تیرے کپڑے اس سے کالے نہ ہوئے تو دُھواں تو ضَرور پہنچے گا۔([53])

      فحش گیت شیطانی رَسْم اور کافِروں کی رِیت ہے۔ شیطان ملعون بے حَیا ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کمال حَیا والا۔ بے حَیائی کی بات سے حَیا والا ناراض ہوگا اور وہ بے حَیاؤں کا اُستاد انہیں اپنا مسخرہ بنائے گا۔حدیث میں ہے رسولُ اللہ  صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (ارشاد)فرماتے ہیں:اَلْجَنَّۃُ حَرَامٌ عَلٰی كُلِّ فَاحِشٍ اَنْ یَّدْخُلَھَا۔ جنّت ہر فحش بکنے والے پر حَرام ہے۔([54])

 یُونہی بے ضَرورت وحاجَتِ شرعیہ لوگوں سے فحش کلامی بھی ناجائز وخلافِ


حیا ہے۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (ارشاد)فرماتے ہیں:اَلْـحَيَاءُ مِنَ الْاِيمَانِ وَالْاِيمَانُ فِی الْـجَنَّةِ، وَالْبَذَاءُ مِنَ الْـجَفَاءِ وَالْـجَفَاءُ فِی النَّار حَىا ایمان سے ہے اور ایمان جنّت میں ہے اور فحش بکنا بے اَدَبی ہے اور بے اَدَبی دوزخ میں ہے۔([55]) مَا كَانَ الْفُحْشُ فِی شَیْءٍ قَطُّ اِلَّا شَانَهُ، وَلَا كَانَ الْـحَيَاءُ فِی شَیْءٍ قَطُّ اِلَّا زَانَهُ فحش جب کسی چیز میں دخل پائے گا اسے عیب دار کردے گا اور حیا جب کسی چیز میں شامل ہوگی اس کا سنگار کردے گی([56])۔([57])

گناہ گار کون؟

      پیارے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے!نابالغ شرعی احکام کا مکلف نہیں لہٰذا اس کا گناہ شُمار نہیں لىكن والدین یا سرپرست اگر بچوں كو اىسى جگہ لے گئے جہاں بے پردگی وبے حَىائى اور گانے باجے وغیرہ گناہوں کا سلسلہ ہے جیسا کہ فی زمانہ عام تقاریب کا حال ہے تواس لےجانے والے پراپنے گناہ کے ساتھ ساتھ اس نابالغ کو لے جانے كا گناہ بھی ہوگا۔نیز یہ بچہ یا بچی  جس کو بچپن ہی سے آپ اس


 طرح کا ماحول فراہم کر رہے ہیں سِنِ شُعُور کو پَہُنْچ کر ان عادتوں كو اختىار كریں گےتو اس کا سَبَب بھی آپ ہی بنے ۔پھر جب اسے سمجھائیں گے  كہ ىہ افعال  غَلَط اور خِلافِ شرع ہیں تو اس كے ذہن مىں ىہ سوال پىدا ہوگا كہ اگر ىہ غَلَط تھا تو مىرے والد مجھے کیوں بچپن سے ایسی جگہوں پر لے جاتے رہے۔چنانچہ اعلىٰ حضرت امام اہل سنّت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت لكھتے ہىں كہ بچپن سے جو عادَت پڑتی ہے کم چھوٹتی ہے تواپنے نابالغ بچوں كو اىسى ناپاكىوں سے نہ روكنا ان كے لىے مَعَاذَ اللہجہنّم كا سامان تىار كرنا اور خود سخت گناہ مىں گرفتار ہونا ہے۔اللہ تعالٰی نے فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۶) (پ۲۸، التحریم:۶)

 ترجمۂ كنز الايمان:اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھروالوں کو اس آگ سے بچاؤ جسکے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت کرّے (دُرُشْت خو) فِرِشْتے مُقَرَّر ہیں جواللہ کاحکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔([58])


فیشن کی خرابیاں

 فی زمانہ اسلامى بہنوں کے لباس میں فىشن کے نام پر جو  خرابىاں پیدا ہورہی ہىں وہ کسی پر مخفی نہیں۔حتی کہ  مذہبی ماحول سے وابستہ عورتيں بھی شادی بیاہ کی تقاریب و محافل میں ایسے لباس پہنتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ افسوس!صد افسوس! پردہ کرنا تو کجا! جن اعضاء کا چھپانا واجب ہے فیشن کے نام پر ان کو  بھی کماحقہ نہیں چھپایا جاتا۔ حالانکہ عورت سے مراد ہی چھپانے كى چىزہے۔اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی تہذیب سے ناطہ توڑ کر مغربی تہذیب سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔ کیونکہ اسلامی تہذیب میں تو قلب و نگاہ کو پاک رکھنے کی تاکید مروی ہے اور کبھی بھی اس طرح کی نام نہاد آزادی نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اُمُّ المومنين حضرت سَيِّدَتُنا عائشہ صِدّيقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے ارشاد فرمایا:اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (اس بناؤ سنگھار کو) دیکھ لیتے جو عورتوں نے اَب اِیجاد کر لیا ہے تو ان کو (مسجد میں آنے سے)منع فرما دیتے۔([59])

      علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (متوفی ۸۵۵ ھـ) اس حدیثِ پاک کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:اگر اُمُّ الْمومنین حضرت سیِّدَتُنا  عائشہ


صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتیں جو اس زمانہ کی بالخصوص شہری عورتوں نے ایجاد کر لیا ہے اور اپنی زیبائش اور نُمائش میں غیر شرعی طریقے اور مذموم بدعات نکال لی ہیں، تو وہ عورتوں کی بہت زیادہ مَذمَّت فرماتیں۔([60])

معلوم ہوا فیشن کے نام پر ہر دور میں عورتوں نے کوئی نہ کوئی نیا کام ضرور کیا جس کی مذمت اس وقت کی صالحات نے اپنا فرضِ منصبی جان کر ضرور کی، لہٰذا آئیے!اسلامی تاریخ کے پربہار گلستان میں جھانک کر اپنی بزرگ خواتین کی حیاتِ طیبہ سے چند مدنی پھول چنتے ہیں کہ جن کی خوشبو سے ہم اپنی بیٹیوں کی پرورش کے دوران ان کی زِنْدَگیوں کو مہکا سکیں۔چنانچہ،

خاتونِ جنّت کی پرورش

      سب سے پہلے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ امام الانبىا،محبوبِ كبرىا صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنى شہزادی حضرت سیِّدَتُنا خاتونِ جنَّت، بى بى فاطمہ زہرا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  كى جو مدنی تربىت فرمائى ہر اسلامی بہن کو اسے پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ اس لیے کہ آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں، آپ کہیں سفر پر تشریف لے جانا چاہتے تو سب سے آخر میں اپنی


 شہزادی سے مل کر روانہ ہوتے اور واپسی میں سب سے پہلےآپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے پاس تشریف لاتے۔چنانچہ آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے ہادیِ عالَم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے شادی کے بعد اپنے شوہر کی خدمت اور گھر كے كام كاج کے ساتھ ساتھ اپنے شہزادوں کی  جومَدَنی تربىت فرمائی اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  عَزَّ  وَجَلَّ دنیا آج بھی اس کی عظمت کی گواہ ہے اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تاقیامِ قیامت رہے گی۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت  آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  کے گھرانے کی عظمت کوخراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

كىا بات رضا اس چمنستانِ كرم كى

زَہرہ ہے كلى جس مىں حسىن اور حسن  پھول

      شہزادیِ کونَینرضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کی حیاتِ طیبہ کے بے شمار مہکتے مدنی پھولوں میں سے آپ کی حیاتِ طیبہ کے آخری اَیام کا صِرف یہی ایک واقعہ کافی ہے جسے شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ  397 صَفحات پر مشتمل کتاب ”پردے کے بارے میں سوال جواب“ کے صَفْحَہ 200 پر کچھ یوں نقل فرمایا ہے:سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہِری کے بعد خاتونِ جنّت، شہزادیِ کونَین، حضرت


سیِّدَتُنا  فاطمہ زہرا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  پر غمِ مصطَفٰے کا اِس قَدَرغَلَبہ ہوا کہ آپ کے لبوں کی مسکراہٹ ہی خَتْم ہو گئی! اپنے وِصال سے قبل صِرْف ایک ہی بارمُسکراتی دیکھی گئیں۔اِس کا واقِعہ کچھ یوں ہے: حضرت سیِّدَتُنا  خاتونِ جنّت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  کو یہ تشو یش تھی کہ عُمر بھر تو غیر مَردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں بعدِ وفات میری کفن پوش لاش ہی پر لوگوں کی نظر نہ پڑ جائے! ایک موقع پر حضرتِ سیِّدَتُنا  اَسماء بنتِ عمیس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  نے کہا :میں نے حَبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازے پر دَرَخْت کی شاخَیں باندھ کر ایک ڈَولی کی سی صُورَت بنا کر اُس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ پھر اُنہوں نے کَھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑ کر اُس پر کپڑا تان کر سیِّدہ خاتونِ جنّت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  کو دکھایا۔ آپ بَہُت خوش ہوئیں اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ بس یِہی ایک مسکراہٹ تھی جو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہِری کے بعد دیکھی گئی۔ ([61])

بنتِ سعید بن مسیب کی پرورش

      حضرت سیدنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کی صاحبزادی پیکرِ حُسْن وجَمال تھی، آپ نے اپنی بیٹی کی تربیت اس طرح فرمائی کہ وہ نہ صرف قرآنِ


پاک کی حافظہ تھی بلکہ حضور صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کو بھی بَہُت زیادہ جاننے والی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ صورت کے ساتھ ساتھ حسنِ سیرت کی دولت سے بھی مالا مال تھی تو بے جا نہ ہو گا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ عبدالملک بن مَروان نے آپ سے آپ کی اس بیٹی کے لیے اپنے بیٹے ولید کی شادی کا پیغام بھیجا مگر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے انکار کر دیا ، خلیفہ نے بَہُت کوشش کی کہ کسی طرح آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ راضی ہوجائیں لیکن آپ برابر انکار فرماتے رہے، پھر وہ ظلم وسِتَم پر اُتَر آیا اور ایک سرد رات اس ظالِم نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کو 100 کوڑے مارے اور اُون کا جبہ پہنا کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ پر ٹھنڈا پانی ڈلوا دیامگر پھر بھی آپ نے اپنی بیٹی کا رشتہ نہ دیا۔ آپ نے اپنی بیٹی کو بچپن سے جو پاکیزگی و طہارت کا درس دیا تھا آپ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اسے دنیا کی چکا چوند میں بھول جائے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی اس بیٹی کا نکاح اپنے ایک شاگرد حضرت سیدنا ابو وداعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ سے فرمایا جو انتہائی غریب تھے۔

حضرت سیدنا ابو وداعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ خود اپنی اس شادی کا واقعہ کچھ یوں بیان فرماتے ہیں کہ مَیں حضرت سیدنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کی محفل میں باقاعدگی سے حاضِر ہوا کرتا تھا،پھر چند دن حاضِر نہ ہوسکا۔ جب دوبارہ آپ


رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کے پاس حاضِر ہوا توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے پوچھا: اتنے دن کہاں تھے؟میں نے عرض کی: میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھابس اسی پریشانی میں چند دن حاضِری کی سعادت حاصِل نہ ہو سکی ۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا: مجھے اطلاع کیوں نہیں دی  کہ میں بھی جنازے میں شرکت کر لیتا؟حضرت سیدنا ابو وداعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں:ا س پر میں خاموش رہا۔جب میں نے رخصت چاہی تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا: کیا دوسری شادی کرنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کی:حضور!میں بہت غریب ہوں، میرے پاس بمشکل چند درہم ہوں گے، مجھ جیسے غریب کی شادی کون کروائے گا۔تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرمانے لگے:میں تیری شادی کرواؤں گا ۔میں نے حیران ہوتے ہوئے عرض کی: کیا آپ میری شادی کرائیں گے؟فرمایا:ہاں!میں تیری شادی کراؤں گا۔پھرآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی حمد بیان کی اور حضور صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود وسلام پڑھا اور میری شادی اپنی بیٹی سے کرادی۔میں وہاں سے اٹھا او رگھر کی طر ف روانہ ہوا ۔میں اتنا خوش تھا کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرو ں ، پھر میں سوچنے لگا کہ مجھے کس کس سے اپنا قرضہ وصول کرنا ہے ، اسی طر ح میں آنے والے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا پھر میں نے مغر ب کی نمازمسجد میں ادا


کی اور دوبارہ گھر آ گیا۔میں گھر میں اکیلا ہی تھا، پھر میں نے زیتو ن کا تیل اور رو ٹی دستر خوان پر رکھ کر کھانا شروع ہی کیا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔میں نے پوچھا:کون؟آواز آئی:سعید۔میں سمجھ گیا کہ ضرور یہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ ہی ہوں گے۔ اتنی دیر میں وہ اندر تشریف لے آئے۔ میں نے عرض کی:آپ مجھے پیغام بھیج دیتے، میں خود ہی حاضر ہوجاتا۔فرمانے لگے:نہیں! تم اس بات کے زیادہ حق دار ہو کہ تمہارے پاس آیاجائے۔ میں نے عرض کی: فرمائیے!میرے لئے کیاحکم ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا: اب تم غیر شادی شدہ نہیں ہو، تمہاری شادی ہوچکی ہے، میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ تم شادی ہوجانے کے بعد بھی اکیلے ہی رہو ، پھر ایک طرف ہٹے تو میں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کمرے میں چھوڑ آئے اور مجھے فرمایا:یہ تمہاری زوجہ ہے۔ اتنا کہنے کے بعد تشریف لے گئے۔ میں دروازے کے قریب گیا اور جب اطمینان ہوگیا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ جاچکے ہیں تو واپس کمرے میں آ کراس شرم وحیا کی پیکر کو زمین پر بیٹھے ہوئے پایا۔

میں نے جلدی سے زیتون کے تیل اور روٹیوں والا برتن اٹھا کر ایک طر ف رکھ دیا تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکے۔پھر میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر اپنے


 پڑوسیوں کو آواز دینے لگا۔تھوڑی ہی دیر میں سب جمع ہوگئے اور پوچھنے لگے : کیا پریشانی ہے؟میں نے جب بتایا کہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے اپنی بیٹی سے میری شادی کرادی ہے اور وہ اپنی بیٹی کو میرے گھر چھوڑ گئے ہیں تولوگو ں نے بے یقینی سے پوچھا :کیا واقعی حضرت سیدنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے تجھ سے اپنی بیٹی کی شادی کرائی ہے؟میں نے کہا:اگر یقین نہیں آتا تو میرے گھر آکر دیکھ لو، ان کی بیٹی میرے گھر میں موجود ہے۔یہ سن کر سب میرے گھر آگئے ۔جب میری والدہ کو یہ معلوم ہوا تو وہ بھی فوراً ہی آگئیں اور مجھ سے فرمانے لگیں:اگر تین دن سے پہلے تو اس کے پاس گیا توتجھ پر میرا چہرہ دیکھنا حرام ہے۔میں تین دن انتظار کرتا رہا، چوتھے دن جب گیا اور اسے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ حسن وجمال کا شاہکار تھی ، قرآنِ پاک کی حافظہ، حضور صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں کو بَہُت زیادہ جاننے والی اور شوہر کے حُقوق کو بَہُت زیادہ پہچاننے والی تھی۔اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا۔ نہ تو حضر ت سیدنا سعید بن مسیب رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ میرے پاس آئے اور نہ ہی میں حاضِر ہو سکا ، پھر میں ہی ان کے پاس گیا۔ وہ بَہُت سارے لوگوں کے جھرمٹ میں جَلْوَہ فرماتھے ، سلام جواب کے بعد مجلس کے ختم ہونے تک انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی،جب


سب لوگ جاچکے اور میرے عَلاوہ کوئی اور نہ بچا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: اس انسان کو کیسا پایا ؟میں نے عرض کی:حُضور!(آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کی بیٹی ایسی صِفات کی حامِل ہے کہ) شاید کوئی دشمن ہی اسے ناپسند کرے ورنہ دوست تو ایسی چیز وں کو پسند کرتے ہیں۔فرمایا :اگر وہ تجھے تنگ کرے تو لاٹھی سے اِصْلاح کرنا۔ پھر جب میں گھر کی طرف روانہ ہوا تو انہوں نے مجھے بیس ہزار درہم دیئے جنہیں لے کر میں گھر چلا آیا۔([62])

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عورت کے لئے بناؤ سنگھار کرنا تو جائز ہے مگر اس پر لازم ہے کہ اپنے شوہر كے لىے چار دىوارى كے اندر رہتے ہوئے بنے سنورے، غیر مردوں كو دكھانے كے لىے  نہیں۔ لیکن افسوس! آج کل گھر مىں تو سادے اورمىلے کچیلے كپڑے پہنے جاتے ہیں مگر باہر جانا ہو تو اچھے سے اچھے کپڑے پہننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لہٰذا نىت كرلىجئے کہ جىسا شرىعت نے تربىت و پرورش كرنے كا حكم دىا ہے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہم اپنى بىٹى کی اسی طرح پرورش کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کو ایسی باپردہ مبلغہ بنائیں گے جو اسلامى بہنوں مىں مَدَنى


اِنقلاب برپا كرے گى۔

نصیحت بوقت رخصت

حضرت سیِّدَتُنا اسماء بنت خارجہ فزاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہا نے اپنی بیٹی کو شادی کے بعد گھر سے رخصت کرتے وقت نصیحت آموز مدنی پھولوں کا جو گلدستہ عطا فرمایا اے کاش! ہر ماں یہ مدنی پھول اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت یاد کرادے۔ یہ مدنی پھول کچھ یوں ہیں:بیٹی تو جس گھر میں پیدا ہوئی اب یہاں سے رخصت ہو کر ایک ایسی جگہ (یعنی شوہر کے گھر)جارہی ہے جس سے توواقف نہیں اور ایک ایسے ساتھی(یعنی شوہر) کے پاس جارہی ہے جس سے مانوس نہیں۔

     اس کے لئے زمین بن جانا وہ تیرے لئے آسمان ہوگا۔

·           اس کے لئے بچھونا بن جانا وہ تیرے لئے سُتُون ہوگا۔

·           اس کے لئے کنیز بن جانا وہ تیرا غلام ہوگا۔

·           اس سے کمبل کی طرح چمٹ نہ جانا کہ وہ تجھے خود سے دور کر  دے۔

·           اس سے اس قدر دور بھی نہ ہونا کہ وہ تجھے بھلا ہی دے ۔

·           اگر وہ قریب ہوتو قریب ہوجانا اور اگر دور ہٹے تو دور ہوجانا۔

·           اس کے ناک ،کان اور آنکھ (یعنی ہرطرح کے راز ) کی حفاظت کرنا کہ وہ تجھ


سے صرف تیری خوشبو سونگھے(یعنی راز کی حفاظت اور وفاداری پائے )۔

·           وہ تجھ سے صرف اچھی بات ہی سنے اور صر ف اچھا کام ہی دیکھے ۔([63])

ان مدنی پھولوں سے وہ مائیں نصیحت حاصِل کریں جو بیٹیوں کے گھرکو جنّت بنانے کے اچھے مشورے دینے کے بجائے شوہر ،نندوں اور ساس پر حکومت کرنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔پھر جب بیٹی ان مشوروں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو فتنہ وفساد کی ایک ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے کہ دونوں گھرانے اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔    اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ہمیں اپنی اَولاد کی مَدَنی تربیّت کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور اس (تحریری)بیان کو ہمارے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے۔

      اپنی اولاد کی اسلامی اُصُولوں کے مُطابِق تربیّت کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول کسی نعمت سے کم نہیں، لہٰذا خود بھی دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ رہئے اور اپنے اہل وعَیال کو بھی اس مہکے مہکے مَدَنی ماحول سے وابستہ رکھئے، کیونکہ دعوتِ اسلامى كے مَدَنى ماحول سے وابستہ ہو کر بے شمار لوگوں کی زندگیاں بدل چکی ہیں، آپ بھی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگیوں میں خوشگوار مدنی تبدیلی پیدا کرنے کے لیے فیضانِ اولیا سے مالا مال دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول


سے وابَستہ ہو جایئے اور اپنے شہر میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں پابندی سے شرکت فرمایئے پھر دیکھئے آپ پر کیسا مَدَنی رنگ آتا ہے ! ترغیب کیلئے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع کی ایک مَدَنی بَہَار پیشِ خدمت ہے۔

سنّتوں بھرے اِجتماع کی مَدَنی بَہَار

           پنجاب(پاکستان) کی ایک اسلامی بہن کے بیان کا لُبِّ لُبا ب ہے کہ میں گانے باجے سننے کی بہت شوقین تھی ۔میرے پاس گانوں کی بہت ساری کیسٹیں اور کتابیں جمع تھیں بلکہ میں خُود بھی گانے لکھتی تھی ۔فِلْموں ڈِراموں کی ایسی دیوانی تھی کہ لگتا تھا شایدانکے بغیر (مَعَاذَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ)میں جی نہ سکوں گی۔ افسوس! نگاہوں کی حفاظت کا بالکل بھی ذہن نہیں تھا۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے کرم سے بِالآخر گناہوں بھری زِنْدَگی سے کنارہ کشی کی صُورت بن ہی گئی،ہوا یوں کہ میں نے دعوتِ اسلامی کے اسلامی بہنوں کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی سَعادَت حاصِل کی۔اس سنّتوں بھرے اجتماع میں ہونے والے بیان، دُعا اور اسلامی بہنوں کی اِنفرادی کوشش کے مَدَنی پھولوں نے میرے دل میں مَدَنی اِنقِلاب برپا کردیا ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  عَزَّ  وَجَلَّ میں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور سنّتوں بھری زِنْدَگی


 گزارنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوگئی۔ تادمِ تحریر حلقہ ذِمہ دار کی حیثیت سے سنّتوں کی خدمت کی سعادت حاصِل کر رہی ہوں ۔

کرم جو آپ کا اے سیِّدِ اَبرار ہو جائے

تو ہر بدکار بندہ دم میں نیکوکار ہو جائے

      اپنى بىٹىوں كو بالكل اس قسم كى كسی تقرىب اور دعوت مىں نہ لے كر جائىے جہاں خلاف ِ شرع کام ہوتے  ہوں، جہاں اس كے اَخلاقىات برباد ہوں جہاں اس كى آخرت برباد ہو ہم سب كو كوشش كرنى ہے اس بے حَىائى كا مقابلہ كرنا ہے اور ہم نىت كرىں مىرے گھر كى كوئى اسلامى بہن بىٹى اٹھے گى اور وہ اسلامى بہنوں مىں مَدَنى اِنقلاب لائے گی۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ہم سب كو عمل كى توفىق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صحبت بد کا اثر

فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: بُرے مصاحب (ساتھی ،ہمنشین ) سے بچ کہ تو اسی کے ساتھ پہچانا جائے گا یعنی جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست و برخاست ہوتی ہے، لوگ اسے ویسا ہی جانتے ہیں۔(کنزالعمال، کتاب الصحبة، قسم الاقوال، الباب الثالث فی الترهیب عن صحبة السوء، ۹/ ۱۹، حدیث:۲۴۸۳۹)


مآخذ  ومراجع

نمبر شمار

کتاب

مصنف/ مولف/ مطبوعہ

1

قرآن مجید

کلام باری تعالٰی مکتبة المدینه باب المدینه کراچی

2

کنز الایمان

اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ، مکتبة المدینه باب المدینه کراچی

3

تفسیراتِ احمدیه

شیخ احمدبن ابی سعیدملّاجیون جونپوری،متوفی۱۱۳۰ھ، پشاور

4

روح المعانی

شهاب الدین سید محمود آلوسی، متوفی ۱۲۷۰ھ،دار احیاء التراث العربی، بیروت۱۴۲۰ھ

5

مسند امام احمد

امام احمد بن محمد بن حنبل، متوفی ۲۴۱ھ ،دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ

6

سنن الدارمی

امام حافظ عبد الله بن عبدالرحمن دارمی،متوفی۲۵۵ھ،دارالکتاب العربی، بیروت ۱۴۰۷ھ

7

صحیح بخاری

امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری، متوفی ۲۵۶ھ، دار الکتب العلمیة، بيروت


 

8

صحیح مسلم

امام مسلم بن حجاج قشیری، متوفی ۲۶۱ھ دار ابن حزم، بیروت۱۴۱۹ھ

9

  سنن ابن ماجه

امام ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجه، متوفی ۲۷۳ھ، دار المعرفه، بیروت۱۴۲۰ھ

10

سنن ترمذی

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی ۲۷۹ھ، دار الفکر ، بیروت۱۴۱۴ھ

11

سنن ابی داود

امام ابوداود سلیمان بن اشعث سجستانی،متوفی۲۷۵ھ، داراحیاءالتراث العربی،بیروت ۱۴۲۱ھ

12

موسوعة ابن ابی الدنیا

حا فظ امام ابوبکرعبدالله بن محمدقُرشی ،متوفی۲۸۱ھ، مکتبة العصریه، بیروت۱۴۲۶ھ

13

مسند ابی یعلی

احمدبن علی بن مثنی موصلی، متوفی ۳۰۷ھ، دار الکتب العلمیة، بیروت ۱۴۱۸ھ

14

المعجم الصغیر

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ، دار الکتب العلمیة،بیروت۱۴۰۴ھ

15

المعجم الکبیر

امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ،داراحیاء التراث العربی، بیروت۱۴۲۲ھ

 

 

 



16

مستدرک

امام محمد بن عبد الله حاکم نیشاپوری، متوفی ۴۰۵ھ  ،دار المعرفه، بیروت ۱۴۱۸ھ

17

حلیة الاولیاء

ابو نعیم احمد بن عبد  الله اصفهانی شافعی، متوفی ۴۳۰ھ ،دار الکتب العلمیة، بیروت ۱۴۱۹ھ

18

شعب الایمان

امام ابوبکراحمد بن حسین بن علی بیهقی،متوفی۴۵۸ھ ، دارالکتب العلمیة، بیروت

19

شرح السنة

امام ابومحمدحسین بن مسعودبغوی،متوفی۵۱۶ھ ،دارالکتب العلمیة،بیروت۱۴۲۴ھ

20

مجمع الزوائد

حافظ نور الدین علی بن ابی بکر هیتمی، متوفی ۸۰۷ھ ،دار الفکر، بیروت

21

الجامع الصغیر

حافظ جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،متوفی ۹۱۱ھ ، دار الکتب العلمیة، بیروت

22

شرح صحیح مسلم

امام محی الدین ابوزکریا یحیی بن شرف نووی،متوفی۶۷۶ھ ،دارالکتب العلمیة،بیروت۱۴۰۱ھ

23

عمدة القاری

امام بدرالدین ابومحمدمحمودبن احمدعینی، متوفی۸۵۵ھ،  دارالفکر،بیروت۱۴۱۸ھ

 

 

 

24

اشعة اللمعات

شیخ محقق عبدالحق محدث دهلوی، متوفی ۱۰۵۲ ھ، کوئٹہ۱۳۳۲ھ

25

نزھة القاری

علامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی،متوفی۱۴۲۰ھ، فرید بک سٹال مرکز الاولیاء لاھور۱۴۲۱ھ

26

فتاوی رضویہ

اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاھور

27

ملفوظاتِ اعلٰی حضرت

اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ ،مکتبة المدینہ باب المدینہ کراچی

28

بهارِ شریعت

مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ، مکتبة المدینہ باب المدینہ کراچی

29

الشفا بتعریف حقوق المصطفی

قاضی ابو الفضل عیاض مالکی، متوفی ۵۴۴ھ، مرکز اھلسنت برکات رضا ھند ۱۴۲۳ھ

30

تنبیه الغافلین

فقیه ابو اللیث نصر بن محمد سمرقندی، متوفی۳۷۳ھ، دار الکتاب العربی، بیروت ۱۴۲۰ھ

31

قوت القلوب

شیخ ابوطالب محمدبن علی مکی، متوفی۳۸۶ھ ،دارالکتب العلمیة،بیروت۱۴۲۶ھ

 

 


 

32

احیاء علوم الدین

امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ، دار صادر، بیروت

33

عیون الحکایات

امام عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفی۵۹۷ھ ،دار الکتب العلمیة، بیروت ۱۴۲۴ھ

34

بهجة الاسرار

ابو الحسن نور الدین علی بن یوسف شطنوفی، متوفی ۷۱۳ھ، دار الکتب العلمیة، بیروت۱۴۲۳ھ

35

روض الریاحین

امام عبد الله بن اسعد یافعی، متوفی۷۶۸ھ، دارالکتب العلمیة،بیروت۱۴۲۱ھ

36

غیبت کی تباہ کاریاں

حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دَامَتْ بَرَکاتُهُمُ الْعَالِیَه ،باب المدینہ کراچی

37

پردے کے بارے میں سوال جواب

حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دَامَتْ بَرَکاتُهُمُ الْعَالِیَه ،باب المدینہ کراچی

نیک صحبت کا اثر

فرمانِ صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام: نیک صحبت ساری عبادات سے افضل ہے، دیکھو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سارے جہاں کے اولیا سے افضل ہیں کیوں؟ اس لئے کہ وہ صحبت یافتہ جناب مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، ۳/ ۳۱۲)

کوئی دیکھ تو نہیں رہا!

حضرتِ سیِّدُنا فرقد سَبَخی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:مُنافِق جب دیکھتا ہے کہ کوئی (اُسےدیکھنے والا) نہیں ہے تو وہ برائی کی جگہوں میں داخل ہوجاتا ہے۔وہ اس بات کا توخیال رکھتا ہے کہ لوگ اُسے نہ دیکھیں مگراللہ عَزَّ  وَجَلَّ  دیکھ رہا ہے اس بات کا لحاظ نہیں کرتا۔(احیاء العلوم، کتاب المراقبة والمحاسبة،المرابطة الثانیة المراقبة، ۱۳۰/۵، ملخصاً)


دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران

حضرت مولانا محمد عمران عطاری سَلَّمَہُ الْبَارِی کے تحریری بیانات

طبع شدہ و زیرِ طبع بیانات

(1) ۔۔۔فیضانِ مرشد   (صفحات46 )

(2) ۔۔۔جنت کی تیاری (صفحات134 )

(3) ۔۔۔احساسِ ذمہ داری (صفحات50 )

(4) ۔۔۔وقفِ مدینہ (صفحات86 )

(5) ۔۔۔مدنی کاموں کی تقسیم (صفحات68 )

(6) ۔۔۔مدنی کاموں کی تقسیم کے تقاضے (صفحات73)

(7) ۔۔۔مدنی مشورے کی اہمیت (صفحات32 )

(8) ۔۔۔سود اور اس کا علاج (صفحات92 )

(9) ۔۔۔سیرتِ سیدنا ابو الدردا رضی اللّٰہ  عنہ  (صفحات75)

(10) ۔۔۔پیارے مرشد (صفحات48 )

(11) ۔۔۔برائیوں کی ماں (صفحات112 )

(12) ۔۔۔فیصلہ کرنے کے مدنی پھول (صفحات56)

(13) ۔۔۔غیرت مند شوہر(صفحات48 )

(14)۔۔۔جامع شرائط پیر (صفحات88 )

(15) ۔۔۔صحابی کی انفرادی کوشش (صفحات124 )

(16) ۔۔۔کامل مرید (صفحات48)

(17) ۔۔۔پیر پر اعتراض منع ہے (صفحات 60)

(18) ۔۔۔امیر اہلسنت کی دینی خدمات (صفحات 480)

(19)۔۔۔جنّت کا راستہ (صفحات 56)

(20) ۔۔۔ ہمیں کیا ہو گیا ہے  (116)

(21) ۔۔۔ مقصدِ حیات (صفحات 60)

(22) ۔۔۔ موت کا تصور(صفحات 44)

(23) ۔۔۔ صدقے کا انعام  (صفحات 60)

(24) ۔۔۔ بیٹی کی پرورش  (صفحات 72)

زیرِ ترتیب  تحریری بیانات

(1) ۔۔۔ ایک آنکھ والا آدمی

(2) ۔۔۔ گناہوں کی نحوست

٭٭٭٭٭٭

 



[1]۔۔۔ مبلغِ دَعوتِ اِسلامی و نگران مرکزی مجلسِ شُوریٰ حضرت مولانا ابو حامِد حاجی محمد عمران عطاری مَدَّ ظِلُّہُ الْعَالِی  نے یہ بیان ۱۴ شوال المکرم ۱۴۳۱ھ بمطابق 23ستمبر 2010ء کو تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے عالَمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ (کراچی) میں ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں فرمایا۔ ۱۰ ربیع الاول۱۴۳۴ ھـ بمطابق 23 جنوری 2013ء کو ضَروری ترمیم و اِضافے کے بعد تحریری صُورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (شُعْبَہ رَسَائِلِ دَعْوَتِ اِسْلَامی مَجْلِس اَ لْمَدِیْنَةُ الْعِلْمِیة)

[2]۔۔۔مجمع الزوائد،کتاب الادعیة، باب فی الصلاۃ علی النبی،۱۰ /۲۵۳، حدیث:۱۷۲۹۸

[3]۔۔۔روض الریاحین، الحکاية الثانیة والتسعون بعد المائة، ص۱۹۲

[4]۔۔۔ حلیة الاولیاء، ذکر الجماعة العارفین العراقیین، شاہ بن شجاع الکرمانی، ۱۰/ ۲۵۴

[5]۔۔۔روح المعانی، الجزء الثلاثون، التکویر، تحت الآیة ۸، ص ۳۶۰

[6]۔۔۔المعجم الکبیر، ۳۳۷/۱۸، حدیث:۸۶۳

[7]روح المعانی، الجزء الثلاثون، سورۃ التکویر، تحت الآیة ۹، ص ۳۶۱

 المعجم الکبیر، ۸/ ۷۷، حدیث:۷۴۱۲

[8]۔۔۔المعجم الصغیر، الجزء۱، ۱/ ۳۰

[9]۔۔۔حلية الاولياء، ۵ /۶۷، حدیث:۶۳۴۸

[10]۔۔۔ابن ماجه، کتاب الادب، باب بر الوالد والاحسان الی البنات، ۴ /۱۸۹، حدیث:۳۶۶۹

[11]۔۔۔مسلم، کتاب البر والصلة، باب فضل الاحسان الی البنات،  ص۱۴۱۵، حدیث:۲۶۳۰

[12]۔۔۔شرح السنة للبغوی،کتاب البر والصلة، باب ثواب کافل الیتیم، ۴۵۲/۶،حدیث:۳۳۵۱

[13]مستدرک،کتاب البر والصلة، ۵/ ۲۴۸، حدیث: ۷۴۲۸

[14]۔۔۔مسند ابی یعلٰی، ۶/۳۲، حدیث:۶۷۴۷

[15]۔۔۔ملفوظاتِ اعلٰی حضرت، ص۴۱۷

[16]۔۔۔نزهة القاری،۵/ ۴۸۹

[17]۔۔۔فتاوٰی رضویہ، ۲۴/ ۴۵۲

[18]۔۔۔بہارِشریعت،۳/ ۳۵۵

[19]۔۔۔المرجع السابق

[20]۔۔۔شرح صحيح مسلم،کتاب الادب ،باب استحباب تحنیک المولود، الجزء الرابع عشر، ۷/ ۱۲۲

[21]۔۔۔مسلم،کتاب الادب ،باب استحباب تحنیک المولود … الخ،ص۱۱۸۴، حدیث: ۲۱۴۷

[22]ابو داود ،کتاب الادب، باب فی تغیر الاسماء ،۴/۳۷۴، حدیث:۴۹۴۸

[23]بہارِ شریعت، ۳/ ۶۰۳

[24]۔۔۔ترمذی ، کتاب الآداب، باب ماجاء فی تغییر الاسماء، ۴/ ۳۸۲، حدیث:۲۸۴۸

[25]۔۔۔مسلم، کتاب الادب، باب استحباب تغییر الاسم القبیح ، ص۱۱۸۲، حدیث:۲۱۴۰

[26]۔۔۔شرح صحيح مسلم،کتاب الادب ،باب استحباب تحنیک المولود، الجزء الرابع عشر، ۷/ ۱۲۴

[27]۔۔۔فتاویٰ رضویہ، ۲۴/ ۴۵۲

[28]۔۔۔تِرمِذی،کتاب الاضاحی، باب من العقیقة، ۳/۱۷۷، حدیث:۱۵۲۷

[29]۔۔۔اشعةُ اللّمعات، ۳/۵۱۲

[30]۔۔۔بہارِ شریعت،۳/  ۳۵۴

[31]۔۔۔سنن الدارمی ،کتاب الرقاق،باب فی اکل السحت،۲/۴۰۹، حدیث:۲۷۷۶

[32]۔۔۔شعب الایمان ،باب فی الزهد وقصر الامل ،۷/۲۹۸، حدیث: ۱۰۳۷۵

[33]۔۔۔شعب الایمان،باب فی حقوق الاولاد والاھلین،۶/۳۹۷، حدیث:۸۶۴۹

[34]۔۔۔فتاویٰ رضویہ،۲۱۵/۲۲

[35]۔۔۔یہ عقائد بہارِ شریعت  کے پہلے حصےسے ماخوذ ہیں۔ چنانچہ عقائد کی مزید معلومات کے لیے صدر الافاضل کی آسان تصنیف کتاب العقائد، صدر الشریعہ کی بہارِ شریعت حصہ اول کا مطالعہ کرنے کے لیے مکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کیجئے۔ نیز امیرِ اہلسنت کی کتاب کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب کے علاوہ مدنی نصاب برائے قاعدہ اور مدنی نصاب برائے ناظرہ  کا بھی ضرور مطالعہ کیجئے۔

[36]۔۔۔بهجة الاسرار ،ذکر فضل اصحابه وبشراھم ،ص۱۹۱

[37]۔۔۔الجامِع الصغیر، ص۲۵، حدیث:۳۱۱

[38]۔۔۔قوت القلوب،الفصل السابع عشر ، ۱/ ۱۰۴

[39]۔۔۔بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب خیرکم من تعلم …الخ، ۳/ ۴۱۰، حدیث:۵۰۲۷

[40]۔۔۔ابن ماجه، کتاب السنة، باب فضل العلماء … الخ، ۱/ ۱۴۶، حدیث: ۲۲۴

[41]۔۔۔غیبت کی تباہ کاریاں، ص ۵

[42]۔۔۔قوت القلوب، الفصل الحادی و الثلاثون، ۱/ ۲۲۶

[43]۔۔۔ترمذی،کتاب الدعوات، ۵/۳۰۸، حدیث:۳۵۳۰

[44]۔۔۔الشفاء ، الباب الثانی فی تکمیل محاسنه،فصل واما نظافة جسمه…الخ، ۱ /۶۱

[45]۔۔۔المعجم الکبیر، ۱۱/ ۵۹، حدیث ۱۱۰۷۹

[46]۔۔۔تنبیه الغافلین، باب صلة الرحم، ص ۷۳، مفهوماً

[47]مستدرك، کتاب الایمان،۱۰۸ ثلاثة لایدخلون الجنة، ۲۵۲/۱، حدیث:۲۵۲

[48]مسند احمد، مسند السیدة عائشة،۹/ ۴۷۸،حدیث:۲۵۱۷۵

[49]المعجم الکبیر، ۱۹/۳، حدیث:۲۵۱۹

[50]بخاری،کتاب الادب، باب علامة حب الله، ۱۴۷/۴، حدیث:۶۱۶۸

[51]۔۔۔ابوداود،کتاب الملاحم،باب الامروالنھی، ۴ /۱۶۲،حدیث:۴۳۳۶

[52]۔۔۔تفسیراتِ احمدیہ، ص۳۸۸

[53]۔۔۔بخاری، کتاب البیوع، باب فی العطار    وبیع المسک، ۲/ ۲۰، حدیث: ۲۱۰۱

[54]۔۔۔موسوعة الامام ابن ابی الدنیا، کتاب الصمت وآداب اللسان،باب ذم الفحش والبذاء،۷ / ۲۰۴، حدیث:۳۲۵

[55]۔۔۔ترمذی، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی الحیاء،۴۰۶/۳، حدیث:۲۰۱۶

[56]۔۔۔ترمذی، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی الفحش والتفحش، ۳۹۲/۳، حدیث:۱۹۸۱ بتغیر

[57]۔۔۔فتاویٰ رضویہ،۲۲ /۲۱۰ تا ۲۱۵

[58]۔۔۔فتاویٰ رضویہ،۲۲/ ۲۱۵

[59]۔۔۔بخاری،کتاب الاذان، باب انتظار الناس قیام الامام العالم،۱ / ۳۰۰، حدیث:۸۶۹

[60]۔۔۔عمدة القاری، ابواب صفة الصلوة، باب انتظار الناس قیام الامام العالم، ۴/ ۶۴۹، تحت الحدیث: ۸۶۹

[61]۔۔۔پردے کے بارے میں سوال جواب، ص ۲۰۰  بحوالہ جذب القلوب مترجم، ص ۲۳۱

[62]۔۔۔عُیونُ الحکایات، الحکایة السابعة والعشرون، ا/ ۸۰ مفهوماً

[63]۔۔۔احیاء علوم الدین، کتاب آداب النکاح، القسم الثانی من ھذا الباب النظر فی حقوق الزوج، ۲/ ۷۵