اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
رحمتِ عالم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم كا فرمانِ عالىشان ہے:اَوْلَى النَّاسِ بِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَكْثَرُهُمْ عَلَىَّ صَلَاةً۔ یعنی تم مىں سے قىامت كے دن مىرے سب سے زىادہ نزدىك وہ شخص ہوگا جس نے دنىا مىں مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھے ہوں گے۔ ([2])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرت كعب الاحبار رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہىں كہ حضرت سىدنا موسىٰ کلیم الله عَلَیْہِ السَّلَام كے زمانے مىں اىك مرتبہ قحط پڑا، لوگوں نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام كى بارگاہ مىں درخواست كى:یا کلیمَ الله!دعا فرمائیے کہ بارش ہو۔آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ارشاد فرماىا: اُخْرُجُوْا مَعِیْ اِلَی الْجَبَل۔ مىرے ساتھ پہاڑ پر چلو۔ سب لوگ ساتھ چل پڑے تو آپ نے اعلان فرماىا: لَایَتْبَعُنِیْ رَجُلٌ اَصَابَ ذَنْبًا۔ مىرے ساتھ كوئى اىسا شخص نہ آئے جس نے كوئى گناہ كىا ہو۔ ىہ سن كر سارے لوگ واپس چلے گئے، صِرف (برخ العابد نام کا)اىك آنكھ والا آدمی ساتھ چلتا رہا۔حضرت سىدنا موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس سے فرماىا:اَلَمْ تَسْمَعْ مَا قُلْتُ؟كىا تم نے مىرى بات نہىں سنى؟ عرض كى:سنی ہے۔ پوچھا: كىا تم بالكل بے گناہ ہو؟ عرض كى: یا کلیمَ الله!مجھے اپنا اور كوئى جُرم تو ىاد نہىں، البتہ! اىك بات كا تذكرہ كرتا ہوں اگر وہ گناہ ہے تو میں بھی واپس چلا جاتا ہوں۔فرماىا: مَا ھُوَ؟ وہ كىا؟ عرض كى: اىك دن مىں نے گزرگاہ پر كسى كى قِىام گاہ مىں اىك آنكھ سے جھانكا تو كوئى كھڑا تھا، كسى كے گھر مىں اس طرح جھانكنے كا مجھے بہت قلق(یعنی صدمہ) ہوا، مىں خوفِ خُدا سے لرز
اٹھا،مجھ پر ندامت غالِب آئى اور جس آنكھ سے جھانكا تھا اس كو نكال كر پھىنك دىا۔ ارشاد فرمائیے!اِنْ کَانَ ھٰذَا ذَنْبًا رَجَعْتُ۔ اگرمیرا یہ عمل گناہ ہے تو مىں بھى چلا جاتا ہوں۔حضرت سَیِّدُنا موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس كو ساتھ لے لىا پھر پہاڑ پر پہنچ كر آپ نے اس شخص سے ارشاد فرماىا: اللہ سے بارش كى دُعا كرو۔اس نے ىوں دُعا كى:ىاقدوس عَزَّ وَجَلَّ! ىا قدوس عَزَّ وَجَلَّ!تىرا خزانہ كبھى ختم نہىں ہوتا اوربخل تىرى صفت نہىں، اپنے فضل و كرم سے ہم پر پانى برسادے۔ فورا ًبارش ہوگئى اور حضرت سَیِّدُنا موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام اور وہ شخص بھىگتے ہوئے پہاڑ سے واپس تشرىف لائے۔([3])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحْمَت ہو اور ان کے صَدْقے ہماری بے حِساب مَغْفرت ہو۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا اپنے سے کم مرتبہ فرد سے دُعا کروانا جائز ہے اور یہ انبیا ومرسلین عَلَیْہِمُ السَّلَام اور بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین کا طریقہ رہاہے، یقیناً نبی کا دَرَجہ اُمّتی سے بَہُت بڑا ہوتا ہے،پھر بھی حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے اُمّتی سے دُعا کروائی۔خود ہمارے مکی مَدَنی آقا، میٹھے
میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےافضل الانبیا ہونے کے باوُجُودعُمرے کی اِجازَت دیتے ہوئے امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمرِفاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے ارشاد فرمایا:يَا اَخِیْ اَشْرِكْنَا فِی شَیْءٍ مِنْ دُعَائِكَ وَلَا تَنْسَنَا۔ یعنی اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دُعا میں شریک کرنا اور بھول نہ جانا۔([4])
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت،مُجَدّدِ دىن و ملّت، پَروانۂ شَمْعِ رِسالَت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 326 صَفحات پر مشتمل کتاب فضائلِ دعا صَفْحَہ 112پر اپنے لیے دوسروں سے دعا کروانے کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مدینہ مُنَورہ کے بچوں سے اپنے لئے دُعا کراتے کہ دُعا کرو عمر بخشا جائے۔([5])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں بھی چاہئے کہ وقتاً فوقتاً دوسروں سے دعا کی درخواست کرتے رہیں کہ نہ جانے کس کى دعا قبول ہوجائے اور ہمارا بیڑا پار
ہوجائے۔ کیونکہ اس بارگاہ مىں شہرت و عزت، دولت وثروت اور شکل وصورت نہیں دیکھی جاتی بلکہ یہاں تو صِرف نیّت و اخلاص دیکھا جاتا ہے۔
نہ کسی کے رقص پہ طنز کر نہ کسی کے غم کا مذاق اڑا
جسے چاہے جیسے نواز دے یہ مزاجِ عشقِ رسول ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ایک طرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اس پرہیزگار اور متقی بندے کا یہ حال ہےکہ کبھی كوئى اىسا فعل ہی نہیں کیا جس كے متعلق ىہ شك ہو كہ یہ گناہ ہے اور اتفاقاً گزرتے ہوئے کسی پر نِگاہ پڑگئی حالانکہ یہ گناہ نہیں تھا پھر بھی خوفِ خدا کے باعث اىسى ندامت طاری ہوئى كہ انہوں نے اپنی وہ آنكھ ہی نكال كر پھىنك دی اور ایک طرف ہمارا یہ حال ہے کہ ہم دن میں ہزاروں گناہ کرتے ہیں مگر ندامت تو کجا،ہمیں اِس بات کا احساس تک نہیں ہوتا۔
ندامت سے گناہوں کا اِزالہ کچھ تو ہوجاتا
ہمیں رونا بھی تو آتا نہیں ہائے ندامت سے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بدقسمتى سے جس طرح آدمى بولنے مىں بے
باک ہے اسى طرح دىکھنے مىں بھى بے باک ہے، اسے احساس تک نہىں کہ دىکھنابھی اىک عمل ہے جواس کے لىے ثواب یا عذاب کا باعث بن سکتا ہے ۔مثلاً اگر اپنى ماں کو محبت بھرى نظر سے دىکھتا ہے تو اىک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اوراگر غىر محرم کو شہوت کے ساتھ دىکھتا ہے تو عذابِ نار کا حق دار بنتا ہے کیونکہ غیر محرم عورت کو دیکھنا انسان کا نہیں شیطان کا کام ہے۔ جیسا کہ حضرت سیِّدُنا عبدُﷲ بن مَسْعُود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبیِ پاک، صاحبِ لَوْلاک صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ ذی وَقار ہے:اَلْمَرْاَةُ عَوْرَةٌ فَاِذَا خَرَجَتْ اِسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ۔ عورت عورت (یعنی چھپانے کی چیز)ہے جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانک جھانک کر دیکھتا ہے۔([6]) اور حُجَّةُ الْاِسْلَام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی فرماتے ہیں: جو آدمی اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر قادر نہیں ہوتا وہ اپنی شرمگاہ کی بھی حفاظت نہیں کرسکتا۔([7])
حضرت سیِّدُنا عبدُﷲ بن مَسْعُود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عِبْرَت نشان ہے:
اَلْعَيْنَانِ تَزْنِيَانِ۔ آنکھیں بھی بدکاری کرتی ہیں۔([8]) اور حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ زِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ۔ آنکھوں کی بدکاری دیکھنا ہے۔([9])
لہٰذا نظر کی حفاظت سے متعلق چند باتىں عرض کى جاتی ہیں تاکہ ہم اپنے آپ کو بدنِگاہى سے بچاسکىں ۔نظر کی اہمیت کااس بات سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک میں اسکے متعلق بڑا واضح حکم ارشاد ہوا ہے۔چنانچہ پارہ18 سورۂ نور کى 30ویں آىت مىں مردوں کے متعلق حکم ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ (پ ۱۸، النور:۳۰)ترجمۂ کنزالاىمان:مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنى نِگاہىں کچھ نىچى رکھىں۔ اور آىت نمبر 31 مىں عورتوں کو حکم ہوتا ہے: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ (پ ۱۸، النور:۳۱) ترجمۂ کنزالاىمان:اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنى نِگاہىں کچھ نىچى رکھىں۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی نظر کی حفاظت کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ چنانچہ،
سرکارِ مدىنہ منورہ، سردارِ مکّہ مکرّمہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امىر
المومنىن حضرت سَیِّدُنا مولا مشکل کشا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے ارشاد فرماىا:اے علی!اىک نظر کے بعد دوسرى نظر نہ کرو (ىعنى اگر اچانک بلا قصد کسى عورت پر نظر پڑى تو فوراً نظر ہٹا لے اور دوبارہ نظر نہ کرے) کہ پہلى نظر جائز اور دوسرى ناجائز ہے۔([10])
جاہِل لوگ اس حدیث پاک کو غلط پیرائے میں بیان کرتے ہوئے مَعَاذَ اللہ کچھ اس طرح کہتے سنائی دیتے ہىں کہ ”پہلى نظر مُعاف ہے“، لہٰذا وہ اپنی نظر ہٹاتے ہی نہیں اور مسلسل بدنِگاہی کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ مُعاف تو وہ پہلی نظر ہے جو عَورت پر بے اختیار پڑ گئی اور فوراً ہٹالی،قصداً ڈالی جانے والی پہلی نظر بھی حَرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔جیسا کہ مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مُفْتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ پاک کی شَرْح میں فرماتے ہیں:پہلی نِگاہ سے مُراد وہ نِگاہ ہے جو بغیر قَصْد (یعنی ارادے کے بغیر)اَجنبی عَورَت پر پڑ جائےاور دوسری نِگاہ سے مراد دوبارہ اسے قَصْداً دیکھنا ہے۔اگر پہلی نظر بھی جَمائے رکھی توبھی دوسری نِگاہ
کے حکم میں ہوگی اور اس پر بھی گناہ ہوگا۔([11])
حضرت سَیِّدُنا جرىربن عبد اللہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں: مىں نے نُورِ مجسم، شاہِ بنى آدم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اچانک نظر پڑجانے کے متعلق پوچھا تو آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے نظر پھیر لینے کا حکم دیا۔([12])
حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص نورِ مجَسّمْ، شہنشاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضِر ہوا جس کا خون بہہ رہاتھا تو سرورِ کونین، دُکھی دِلوں کے چین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استفسار فرمایا : تجھے کیا ہوا؟ عرض کی:(آپ کی خدمت میں حاضری کے لیے آتے ہوئےراستے میں)میرے پاس سے ایک عورت گزری تو میں نے اس کی طرف دیکھا اور میری نِگاہیں مسلسل اس کا پیچھا کر رہی تھیں کہ اچانک سامنے دیوار آگئی جس نے مجھے زخمی کردیا اور میرا یہ حال کر دیا جسے آپ مُلاحَظہ فرمارہے ہیں۔ تو سرورِ دو عالم صَلَّی
اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اللہ عَزَّ وَجَلَّ جب کسی بندے سے بھلائی کاارادہ فرماتا ہے تواُسے دنیاہی میں اس (کے گناہ) کی سزادے دیتاہے۔([13])
پیارے اسلامی بھائیو! عِبْرَت پکڑئیے اور بدنگاہی سے فوراً باز آجائیے کہ دنیا میں آج مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ بدنگاہی و بے حیائی بھی ہے۔ کیونکہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ بدنِگاہی کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَ اللہ جب تک غىر محرم عورتوں کو تکتے نہىں انہىں چین نہیں آتااور وہ اپنے اس مذموم مقصد کے حُصول کی خاطِر بازاروں، شاپنگ سینٹروں، تفریح گاہوں، الغرض جہاں جہاں بے پردہ عورتوں کا اِزْدِحام (مجمع)ہوتا ہےوہاں مارے مارے پھرتے،خوب بدنِگاہیاں کرتے اور اپنی دنیا وآخرت کی بربادی کا سامان کرتے ہیں۔ چنانچہ حُجَّةُ الْاِسْلَام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی مِنْهَاجُ الْعَابِدِیْن میں فرماتے ہیں:حضرت سیِّدُنا عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے منقول ہے کہ خود کو بدنِگاہی سے بچاؤ کیونکہ بدنِگاہی دل میں شہوت کا بِیج بَوتی ہے،پھر شہوت بدنِگاہی کرنے والے کو فتنہ میں مبتلا کردیتی ہے۔([14])
بدنِگاہی کرنے والے کو اگر پتا چل جائے کہ کوئى غىر مرد اس کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کو بری نظر سے دىکھ رہا ہے تو اس کی غىرت کو جوش آجائے اور وہ آگ بگولا ہو جائے،لہٰذا اسے غور کرنا چاہئے کہ جسے وہ دىکھ رہا ہے وہ بھی تو کسى کى ماں، بہن، بیوی یا بیٹی ہے۔یہ کیسی منطق ہے کہ جو بات اپنے لئے ناپسند ہے اسے دوسروں کے حق میں برا نہیں سمجھاجاتا؟حالانکہ مسلمان کی شان اور کامِل مومن کی پہچان تو یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کےلئے بھی پسند کرے۔جیسا کہ حضرت سَیِّدُنا اَنَس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورِکونین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِاَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ۔ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔([15])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ!تبلیغِ قرآن و سنّت کی
عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامى کى ىہ خصوصىت ہے کہ ىہ مُعاشَرتی برائىوں کو ہائى لائٹ (High light)کرتى، ہمارے اندر کے چور کو پکڑتى،ضمیر کو جھنجوڑتی اور مُعاشَرے میں پائی جانے والی مختلف برائیوں سے ہونے والے نقصانات کی طرف ہمیں مُتَوجّہ کرتی ہے تاکہ اگر لاشعوری ونادانستہ طور پر ہم ان میں سے کسی عادَت کو اپنائے ہوں تو اس کی روک تھام کے لئے کوشِش کرسکیں۔مثلاً فی زمانہ یہ بات عام ہے کہ مَحافِل وتقریبات میں اپنى بىوى، بیٹی وغیرہ کاغیر مردوں سے تعارف کروایا جاتا ہے کہ ان سے ملىے ىہ مىرى بىوی ہے، یہ میری بیٹی ہے اور وہ اجنبی شخص اس کى بیوی، بىٹى کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دىکھتا ہے اور بسا اوقات تو ہاتھ تک ملاتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔کیا یہ شَرم سے ڈوب مَرنے کا مَقام نہیں!
شَرمِ نبى خوفِ خدا ىہ بھى نہىں وہ بھى نہىں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ یہ دعوتِ اسلامی ہی ہے جس نے بے حیائی و بے پردگی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ آپ بھی دعوتِ اسلامی والے بن جائیے کیونکہ جب تمام عاشقانِ رسول مل کر بے حیائی کے منہ زور شیطانی سیلاب کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے تو خود بخود اس کا زور ٹوٹ جائے گا۔
تمام اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو حضرت سیِّدُنا حَسَن بَصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کا یہ فرمان ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے،آپ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ سَروَرِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا فرمانِ عِبْرَت نِشان ہے:(بے پردہ عورت کو)دیکھنے والے پر اور اُس (بے پردہ عورت) پر جسے دیکھا جائے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لعنت۔([16])یعنی دیکھنے والا جب بِلا عُذر قَصْدًا دیکھے اور عورت اپنے آپ کو بِلاعُذر قَصْدًا دکھائے تو دونوں پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لَعْنت۔
شیخ سعدی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی فرماتے ہیں:
بَرَاں بَنْدَۂ حَقْ نیکوئی خَواسْتَسْتْ کہ بَا اُو دِل و دَسْتِ زَنْ رَاسْتَسْتْ
مفہوم: اللہ عَزَّ وَجَلَّ دنیا میں جس شخص کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے ایسی بیوی عطا فرماتا ہے جو ہر لحاظ سے شوہر کی فرمانبردار ہوتی ہے۔
زِ بیگانگاں چَشْمِ زَنْ کَور باد چُوں بَیروں شُد از خانہ دَرْگَور باد
مفہوم:جب کوئی عورت گھر سے باہر جانا چاہے تو چاہئے کہ وہ قبر میں دفن مُردے کی طرح آنکھیں بند کر لے۔نہ یہ کسی کو دیکھے اور نہ ہی کوئی اس کی طرف متوجہ ہو۔
بَپَوشَائِش از مَرْدِ بیگانہ رُوئے وَگر نَشَنْوَدْ چِہ زَنْ آنکہ چِہ شَو
مفہوم:(بیوی کو غیر مردوں سے بچانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ) بیوی کو پردے کا عادی بنایا
جائے تاکہ نہ کوئی غیر مرد اس کی جانب متوجہ ہو اور نہ کوئی اسے دیکھے۔یاد رکھو! اگر وہ پردہ نہ کرے تو پھر مرد و عورت میں فرق ہی کیا ہوگا؟
مری جس قدر ہیں بہنیں سبھی مدنی برقع پہنیں
ہو کرم شہِ زمانہ مَدَنی مدینے والے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کی بدنگاہی و بے حیائی کے خلاف جاری جنگ کے نتیجے میں بے شمار اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں گناہوں بھری زِنْدَگی سے توبہ کرکے دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ چنانچہ،
اوکاڑہ (پنجاب پاکستان)کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے کہ میں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے منسلک ہونے سے قبل گناہوں کے صحرا میں بھٹک رہا تھا۔ والدین کی نافرمانی کے علاوہ ایسے قبیح گناہوں کا ارتکاب بھی میرا معمول بن چکا تھا جو ایک غیرت مند مسلمان کو زیب نہیں دیتے۔ بدنگاہی کے اولین و آسان ذرائع یعنی فلمیں ڈرامے اور گانے باجے دیکھنے سننے کو بے حد پسند کرتا تھا،فحاشی وعریانی سے بھرپور فلموں کے گندے مناظر ہر وقت میری
آنکھوں میں بسے رہتے اور میں ان فلمی مناظر کو زِنْدَگی کا حقیقی روپ دینے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا اور یوں لڑکیوں کو عشقِ مجازی کے جال میں پھانس کر اپنے نفسِ بد کی تسکین کا سامان مہیا کرنا میرا محبوب ترین مشغلہ بن چکا تھا۔ الغرض بدنگاہی کے سبب میں جن افعالِ بد اور برے خیالات میں مبتلا ہو چکا تھا، ان کی نحوست سے بَہُت جلد میرااعصابی نظام اس قدر ضعف کا شکار ہو گیا کہ کسی لڑکی کو شہوت کی نظر سے دیکھتے ہی غسل فرض ہوجاتا۔
روز و شب اسی طرح گناہوں میں بسر ہو رہے تھے کہ میرے رب عَزَّ وَجَلَّکا کرم بالائے کرم ہوا اور مجھے اس برے ماحول سے چھٹکا را کچھ یوں نصیب ہواکہ 1998ء میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل و کرم سے مجھے دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول کی سنّتوں بھری فضا مل گئی۔ ایک عاشقِ رسول جواگرچہ شیخ طریقت، امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے مرید تو نہ تھے مگر وہ دعوتِ اسلامی کے اس عظیم مَدَنی مقصد ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔‘‘ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ،کے جذبے سے سرشار دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ تھے، انہوں نے ایک دن انفرادی کوشش کرتے ہوئے مجھے ایک ضخیم کتاب بنام فیضانِ سنّت مُطالعہ کے لیے دی، پڑھی تو بہت اچھی لگی، ایسی پر تاثیر تحریر پہلی
مرتبہ پڑھی تو اس نے میرا اندازِ حیات ہی بدل دیا اور میں اپنے سابقہ گناہوں کی مغفرت اور اپنی اصلاح کے جذبے کے تحت دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوگیا ۔مدرسہ بالغان میں دُرُست مخارج سے قرآنِ پاک پڑھنا شروع کردیا اور مدنی انعامات پر عمل کو اپنا معمول بنا لیا جس کی برکت سے نہ صرف آنکھوں کے قفلِ مدینہ کی دولت نصیب ہوئی بلکہ بدنگاہی کے ملعون مرض سے بھی جان چھوٹ گئی اور میں والدین کی بھی اطاعت کرنے لگا ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اس ماحول نے میرے گناہوں سے بھرپور دامن کو ایسا دھویا کہ آج میں اپنے گاؤں کی مسجد میں امام وخطیب کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ حلقہ نگران کی حیثیت سے مدنی کاموں کی ترقی وعروج کے لیے کوشا ں ہوں۔ میری والدہ کا کہنا ہے کہ میری آنکھوں کو یقین نہیں آتا کہ جو بیٹا میری ایک نہیں سنتا تھا دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول نے اسے اطاعت گزار بنانے کے ساتھ ساتھ امامت وخطابت کے اعلیٰ منصب پر فائز کردیا ہے ۔
سُنّتیں مصطَفٰے کی تُو اپنائے جا
دین کو خوب محنت سے پھیلائے جا
یہ وصیّت تو عطارؔ پہنچائے جا
اُس کو جو اُن کے غم کا طلبگار ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے!بدنگاہی نے ایک اسلامی بھائی کو کس طرح ہلاکت خیز گناہوں میں مبتلا کر دیا۔ یہ تو پروردگار عَزَّ وَجَلَّکا کرم ہوا کہ وہ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحو ل سے وابستہ ہو گئے اور انہیں بدنگاہی کی لعنت سے چھٹکارا مل گیا،لہٰذا یاد رکھئے بدنگاہی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی اس کی وجہ سے بندہ نہ صرف ماں باپ کا نافرمان بن جاتا ہے بلکہ ہر وقت اس کے دل و دماغ میں شیطان سمایا رہتا ہے، عجب بےسکونی کا عالم اس پر طاری رہتا ہے، نفسانی خواہشات و خیالات اس پر غالب رہتے ہیں، نفس کی تسکین کے لیے وہ مزید ہلاکت خیز گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے مثلاً زناکاری ولواطت کے علاوہ اپنے ہاتھوں سے اپنی جوانی برباد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ الامان والحفیظ۔۔
حجۃ الاسلام امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی منہاج العابدین میں فرماتے ہیں: بعض اوقات ایک بار بد نگاہی کرنے والا عرصہ تک تلاوتِ قرآن کی سعادت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔([17]) اور حضرتِ علامہ عبد الغنی نابلسی حنفی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے اَلْـکَشْفُ وَ الْبَیَانُ فِیْمَا یَتَعَلَّقُ بِالنِّسْیَان کے صَفْحَہ 27 تا 32پر حافِظہ کمزور
کرنے والے جو اسباب تحریر فرمائے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ اپنا اور غَیر کا سَتْر دیکھنے سے تنگدستی آتی اور حافِظہ کمزور ہوتا ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب اپنی شرم گاہ کو دیکھنے سے بھی حافظہ کی کمزوری اور تنگدستی کا وبال آتا ہے تو پھر بدنگاہی کرنے اور فلمیں دیکھنے کے دنیوی و اُخروی نقصانات کا تو پوچھنا ہی کیا!
اسلام نے عورت کو جہاں عزت و مرتبہ کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا وہیں اس کی عفت و عصمت کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہوئے یہ ذمہ داری مرد کو سونپی اور اس کے لیے چند قواعد وضوابط بھی عطا فرمائے تا کہ شاہراہِ حیات پر گامزن مرد و عورت کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ دورانِ سفر مرد و عورت کا چونکہ دو طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے:محرم اور غیر محرم۔محرم سے مراد وہ لوگ ہیں جو مردو عورت دونوں کے لیے حرمت کا درجہ رکھتے ہیں اور اِن کا اُن سے نکاح کرنا ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً مرد کے لیے ماں، بہن، بیٹی وغیرہ محرم ہیں تو عورت کے لیے باپ، بھائی اور بیٹا وغیرہ محرم ہیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اسلام نے جہاں شاہراہِ حیات پر گامزن مرد و عورت کے مخصوص حقوق کا تعین فرمایا وہیں راستے میں ملنے والے دیگر لوگوں کے مخصوص حقوق کا بھی تعین فرما دیا ہے۔ چنانچہ آئیے !یہ جاننے کے لیے کہ مرد و عورت کے آپس میں ایک دوسرے کو یا دیگر لوگوں کو دیکھنے کے متعلق اسلام نے ہمیں کیا مدنی پھول عطا فرمائے ہیں،صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کے اسلامی آدابِ حیات پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا ”بہارِ شریعت“ کی روشنی میں ان مدنی پھولوں کا جائزہ لیتے ہیں۔چنانچہ،
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1197 صَفحات پر مشتمل کتاب بہارِ شریعت (جلد سوم) صَفْحَہ 442 تا 449 پر موجود مدنی پھول کچھ تغیر کے ساتھ پیشِ خدمت ہیں۔ان مدنی پھولوں کی چار صورتیں ہیں:
(۱)مرد کا مرد کو دیکھنا (۲)عورت کا عورت کو دیکھنا
(۳)عورت کا مرد کو دیکھنا (۴)مرد کا عورت کو دیکھنا
(1) مَرد، مرد کے ہر حِصّۂ بَدَن کی طرف نظر کرسکتا ہے سوا ان اعضا کے جن کا سَتْر (یعنی چھپانا)ضَروری ہے۔ وہ ناف کے نیچے سے گھٹنے کے نیچے تک ہے
کہ اس حِصّۂ بَدَن کا چھپانا فرض ہے، جن اَعضا کا چھپانا ضَروری ہے انکو عَورَت کہتے ہیں۔کسی کو گھٹنا کھولے ہوئے دیکھے تو اسے منع کرے اور ران کھولے ہوئے دیکھے تو سختی سے منع کرے اور شرم گاہ کھولے ہوئے ہو تو اسے سزا دی جائے گی۔([18])
(2)بَہُت چھوٹے بچے کے بدن کے کسی حِصّہ کا چھپانا فرض نہیں، پھر جب کچھ بڑا ہوگیا تو اس کے آگے پیچھے کا مَقام چھپانا ضَروری ہے۔ پھر جب دس برس سے بڑا ہوجائے تواس کے لیے بالغ کا سا حکم ہے۔([19])(مرد کے) جس حِصّۂ بَدَن کی طرف نظر کرسکتا ہے اس کو چھو بھی سکتا ہے۔([20])
(3)لڑکا جب مُرَاہِق(یعنی بالغ ہونے کے قریب)ہوجائے اور وہ خوبصورت نہ ہو تو نظر کے بارے میں اس کا وہی حکم ہے جو مرد کا ہے اور خوبصورت ہو تو عَورَت کا جو حکم ہے وہ اس کے لیے ہے یعنی شَہوَت کے ساتھ اس کی طرف نظر کرنا حَرام ہے اور شَہوَت نہ ہو تو اس کی طرف بھی نظر کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ تنہائی بھی جائز ہے۔شَہوَت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے یقین
ہو کہ نظر کرنے سے شَہوَت نہ ہوگی اور اگر اس کا شُبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے، بوسہ کی خواہش پیدا ہونا بھی شَہوَت کی حد میں داخِل ہے۔([21])
(4) عمل (یعنی دوا) دینے کی ضَرورت ہو تو مرد مرد کے مَوضعِ حُقْنہ (یعنی پیچھے کے مَقام) کی طرف نظر کرسکتا ہے یہ بھی بوجہِ ضَرورت جائز ہے اور خَتْنہ کرنے میں مَوضعِ خَتْنہ کی طرف نظر کرنا بلکہ اس کا چھونا بھی جائز ہے کہ یہ بھی بوجہِ ضَرورت ہے۔([22])
(1) اس کا وہی حکم ہے جو مرد کو مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے یعنی ناف کے نیچے سے گھٹنے تک نہیں دیکھ سکتی، باقی اعضا کی طرف نظر کرسکتی ہے۔ بشرطیکہ شَہوَت کا اندیشہ نہ ہو۔([23])
(2) عورتِ صالحہ (یعنی نیک بی بی)کو یہ چاہیے کہ اپنے کو بدکار (یعنی زانیہ و فاحِشہ)عورت کے دیکھنے سے بچائے، یعنی اس کے سامنے دوپٹّا وغیرہ نہ
اُتارے کیونکہ وہ اسے دیکھ کر (غیر)مردوں کے سامنے اس کی شکل و صُورَت کا ذِکْر کرے گی، مسلمان عَورَت کو یہ بھی حَلال نہیں کہ کافِرہ کے سامنے اپنا سَتْر کھولے۔([24])
(3) گھروں میں کافِرہ عورتیں آتی ہیں اور بیبیاں ان کے سامنے اسی طرح مَوَاضِعِ سَتْر کھولے ہوئے ہوتی ہیں جس طرح مسلمہ کے سامنے رہتی ہیں ان کو اس سے اِجْتِناب (بچنا)لازِم ہے۔ اکثر جگہ دائیاں کافِرہ ہوتی ہیں اور وہ بچہ جَنانے کی خدمت انجام دیتی ہیں، اگر مسلمان دائیاں مل سکیں تو کافِرہ سے ہر گز یہ کام نہ کرایا جائے کہ کافِرہ کے سامنے ان اَعْضا کے کھولنے کی اِجازَت نہیں۔ ([25])
(1) عورت کا مردِ اجنبی کی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے، جو مرد کا مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وَقْت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی طرف نظر کرنے سے شَہوَت نہیں پیدا ہوگی اور اگر اس
کا شُبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے۔([26])
(2) عورت مردِ اجنبی کے جسم کو ہرگز نہ چھوئے جبکہ دونوں میں سے کوئی بھی جوان ہو، اس کو شَہوَت ہوسکتی ہو اگرچہ اس بات کا دونوں کو اطمینان ہو کہ شَہوَت نہیں پیدا ہوگی۔([27])بعض جوان عورتیں اپنے پیروں کے ہاتھ پاؤں دباتی ہیں اور بعض پیراپنی مُریدہ سے ہاتھ پاؤں دَبْواتے ہیں اور ان میں اکثر دونوں یا ایک حدِ شَہوَت میں ہوتا ہے ایسا کرنا ناجائز ہے اور دونوں گنہگار ہیں۔
اس کی کئی صورتیں ہیں:
(شوہر اپنی)عَورَت کی ایڑی سے چَوٹی تک ہر عُضْو کی طرف نظر کرسکتا ہے شَہوَت اور بِلا شَہوَت دونوں صُورَتوں میں دیکھ سکتا ہے، اسی طرح عورت بھی اپنے شوہر کے ہر عُضْو کو دیکھ سکتی ہے۔ ہاں بہتر یہ ہے کہ (دونوں میں سے کوئی بھی
ایک دوسرے کے)مَقامِ مخصوص کی طرف نظر نہ کرے کیونکہ اس سے نِسْیَان پیدا ہوتا ہے (یعنی حافِظہ کمزور ہوتا ہے)اور نظر میں بھی ضُعْف پیدا ہوتا ہے (یعنی نگاہ بھی کمزور ہو جاتی ہے)۔ ([28])
جو عورت اس کے مَحارِم میں ہو اس کے سر، سینہ، پنڈلی، بازو، کلائی، گردن، قدم کی طرف نظر کرسکتا ہے جبکہ دونوں میں سے کسی کی شَہوَت کا اندیشہ نہ ہو محارم کے پیٹ، پیٹھ اور ران کی طرف نظر کرنا ناجائز ہے۔([29])اسی طرح کروٹ اورگھٹنے کی طرف نظر کرنا بھی ناجائز ہے۔([30])(یہ حکم اس وقت ہے جب جسم کے ان حصوں پر کوئی کپڑا نہ ہو اور اگر یہ تمام اعضا موٹے کپڑے سے چھپے ہوئے ہوں تو وہاں نظر کرنے میں حرج نہیں)کان اور گردن اور شانے (یعنی کندھے)اور چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔([31])مَحارِم کے جن اَعْضا کی طرف نظر کرسکتا ہے ان کو چھو بھی
سکتا ہے جبکہ دونوں میں سے کسی کی شَہوَت کا اندیشہ نہ ہو ۔مرد اپنی والِدہ کے پاؤں دبا سکتا ہے مگر ران اُس وقت دبا سکتا ہے جب کپڑے سے چھپی ہو، یعنی (دبا سکتا ہے مگر)کپڑے کے اوپر سے اور بِغیر حائِل چھونا جائز نہیں۔([32])والِدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتا ہے۔ حدیث میں ہے ”جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔“([33])
(1) اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے کا حکم یہ ہے کہ اس کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے کیونکہ اس کی ضَرورت پڑتی ہے کہ کبھی اس کے مُوَافِق یا مُخالِف شہادت (گواہی)دینی ہوتی ہے یا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اگر اسے نہ دیکھا ہو تو کیونکر گواہی دے سکتا ہے کہ اس نے ایسا کیا ہے۔ اس کی طرف دیکھنے میں بھی وہی شرط ہے کہ شَہوَت کا اندیشہ نہ ہو اور یوں بھی ضَرورت ہے کہ (آج کل گلیوں بازاروں میں)بَہُت سی عَورَتیں گھر سے باہَر آتی جاتی ہیں، لہٰذا اس سے بچنا بَہُت دُشوار ہے۔ بعض عُلَما نے قدم کی طرف
بھی نظر کو جائز کہا ہے۔([34])
(2) اَجْنَبِیّہ عَورَت کے چہرہ کی طرف اگرچہ نظر جائز ہے ،جبکہ شَہوَت کا اندیشہ نہ ہو مگر یہ زَمانَہ فتنے کا ہے اس زَمانے میں ایسے لوگ کہاں جیسے اگلے زَمانے میں تھے، لہٰذا اس زَمانے میں اس کو (یعنی چہرے کو)دیکھنے کی مُمانَعَت کی جائے گی مگر گواہ و قاضی کے لیے کہ بوجہِ ضَرورت ان کے لیے نظر کرنا جائز ہے۔بَہُت چھوٹی لڑکی جو مشتہاۃ (یعنی قابلِ شَہوَت)نہ ہو اس کو دیکھنا اور چھونا بھی جائز ہے۔([35])
(3) اَجْنَبِیّہ عَورَت نے کسی کے یہاں کام کاج کرنے، روٹی پکانے کی نوکری کی ہے اس صُورَت میں اس کی کلائی کی طرف نظر جائز ہے کہ وہ کام کاج کے لیے آستین چڑھائے گی، کلائیاں اس کی کھلیں گی اور جب اس کے مکان میں ہے تو کیوں کر بچ سکے گا، اسی طرح اس کے دانتوں کی طرف نظر کرنا بھی جائز ہے۔([36])
(4) اَجْنَبِیّہ عَورَت کی طرف نظر کرنے میں ضرورت کی ایک صُورَت یہ بھی ہے کہ عورت بیمار ہے اس کے علاج میں بعض اَعْضا کی طرف نظر کرنے کی ضَرورت پڑتی ہے بلکہ اس کے جسم کو چھونا پڑتا ہے۔ مثلاً نبض دیکھنے میں ہاتھ چھونا ہوتا ہے یا پیٹ میں ورم کا خیال ہو تو ٹٹول کر دیکھنا ہوتا ہے یا کسی جگہ پھوڑا ہو تو اسے دیکھنا ہوتا ہے بلکہ بعض مرتبہ ٹٹولنا بھی پڑتا ہے اس صُورَت میں مَوضعِ مَرْض کی طرف نظر کرنا یا اس ضَرورت سے بقدرِ ضَرورت اس جگہ کو چھونا جائز ہے ۔یہ اس صُورَت میں ہے کہ کوئی عَورَت عِلاج کرنے والی نہ ہو، ورنہ چاہیے یہ کہ عورتوں کو بھی عِلاج کرنا سکھایا جائے تاکہ ایسے مَواقِع پر وہ کام کریں کہ ان کے دیکھنے وغیرہ میں اتنی خرابی نہیں جو مرد کے دیکھنے وغیرہ میں ہے۔ اکثر جگہ دائیاں ہوتی ہیں جو پیٹ کے ورم کو دیکھ سکتی ہیں جہاں دائیاں دستیاب ہوں مرد کو دیکھنے کی ضَرورت باقی نہیں رہتی۔ عِلاج کی ضَرورت سے نظر کرنے میں بھی یہ اِحتیاط ضَروری ہے کہ صِرْف اتنا ہی حِصّۂ بَدَن کھولا جائے جس کے دیکھنے کی ضَرورت ہے باقی حِصّۂ بَدَن کو اچھی طرح چھپا دیا جائے کہ اس پر نظر نہ پڑے۔([37])
(5) عَورَت کو فَصْد کرانے (یعنی رَگ سے خون نکلوانے)کی ضَرورت ہے اور
کوئی عَورَت ایسی نہیں ہے جو اچھی طرح فَصْد کھولے تو مَرد سے فَصْد کرانا جائز ہے۔([38])
(6) (مرد و عورت کے)جس عُضْو کی طرف نظر کرنا ناجائز ہے اگر وہ بدن سے جدا ہوجائے تو اب بھی اس کی طرف نظر کرنا ناجائز ہی رہے گا، مثلاً پیڑو کے بال (یعنی ناف کے نیچے کے بال) کہ ان کو جُدا کرنے کے بعد بھی دوسرا شخص دیکھ نہیں سکتا۔ عورت کے سر کے بال یا اس کے پاؤں یا کلائی کی ہڈی کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اَجنبی شخص اُن کو نہیں دیکھ سکتا۔ عَورَت کے پاؤں کے ناخُن کہ ان کو بھی اجنبی شخص نہیں دیکھ سکتا اور ہاتھ کے ناخُن کو دیکھ سکتا ہے۔([39])
(7) غسل خانہ یا پاخانہ میں مُوئے زیرِ ناف مُونڈ کر بعض لوگ چھوڑ دیتے ہیں ایسا کرنا دُرُسْت نہیں بلکہ ان کو ایسی جگہ ڈال دیں کہ کسی کی نظر نہ پڑے یا زمین میں دفن کردیں۔ عورتوں کو بھی لازِم ہے کہ کنگھا کرنے میں یا سر دھونے میں جو بال نکلیں انہیں کہیں چھپا دیں کہ ان پر اجنبی کی نظر نہ پڑے۔اجنبیہ
عورت کے ساتھ خَلْوَت یعنی دونوں کا ایک مکان میں تنہا ہونا حَرام ہے ہاں اگر وہ بالکل بوڑھی ہے کہ شَہوَت کے قابِل نہ ہو تو خَلْوَت ہوسکتی ہے۔ عَورَت کو طلاقِ بائن دے دی تو اس کے ساتھ تنہا مکان میں رہنا ناجائز ہے اور اگر دوسرا مکان نہ ہو تو دونوں کے مابین پردہ لگادیا جائے تاکہ دونوں اپنے اپنے حِصّہ میں رہیں، یہ اس وَقْت ہے کہ شوہر فاسِق نہ ہو اور اگر فاسِق ہو تو ضَروری ہے کہ وہاں کوئی ایسی عورت بھی رہے جو شوہر کو عورت سے روکنے پر قادر ہو۔([40])مَحارِم کے ساتھ خَلْوَت جائز ہے، یعنی دونوں ایک مکان میں تنہا ہوسکتے ہیں مگر رضاعی بہن اور ساس کے ساتھ تنہائی جائز نہیں جبکہ یہ جوان ہوں۔ یہی حکم عورت کی جوان لڑکی کا ہے جو دوسرے شوہر سے ہے۔([41])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!فی زمانہ واقعی بدنِگاہی سے بچنا بہت دشوار ہوگیا ہے کیونکہ ہر طرف بے پردگی کا دور دورہ ہےلیکن ہمیں اپنی نِگاہوں کی حفاظت کرنی ہے اگر کہیں بے پردگی بھرا ماحول ہے تو ہم کىوں دىکھ رہے ہیں ؟ عورت اگر بے پردگی اختیار کر کے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى نافرمانى کی مرتکب ہو رہی ہے تو
ہم کىوں بدنگاہی کے ذریعے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى نافرمانى کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ہمىں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے چونکہ نِگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دىا ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حکمِ خداوندی پر عمل کرتے ہوئے اپنى نِگاہىں نیچی رکھیں۔خود کو بدنِگاہى سے بچانے کےسبب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے ساتھ ذہنی وقلبی سکون بھی حاصِل ہوتا ہے اور عبادت میں بھی دل لگتاہے۔
تاجدارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ فرحَت نِشان ہے:مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَنْظُرُ اِلَى مَحَاسِنِ امْرَاَةٍ اَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ يَغُضُّ بَصَرَهُ اِلَّا اَحْدَثَ اللّٰهُ لَـهُ عِبَادَةً يَجِدُ حَلَاوَتَـهَا۔ یعنی جو مسلمان کسى عورت کى خوبىوں کى طرف (بلا قصد) پہلى بار نظر کرے پھر اپنى آنکھ نىچى کرلے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُسے اىسى عبادت (کی توفیق)عطا فرمائے گا جس کى وہ لذّت پائے گا۔([42])
پس نىت کرلىجئے کہ آج کے بعد کبھی بدنِگاہی نہىں کرىں گے، اس بے پردگى کے ڈھىر کو نہىں دىکھىں گے ۔اگر دىکھنے والے باز آجائیں گے تو دکھانے والىاں بھی باز آجائیں گى۔کاش!ہمارے معاشرے سے بے پردگى اور بے حىائى ختم ہوجائے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غىوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حَلاوَت نِشان ہے:اِنَّ النَّظْرَةَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ اِبْلِيسَ مَسْمُوْمٌ مَنْ تَرَكَهَا مَخَافَتِیْ اَبْدَلْـتُهُ اِيْمَانًا يَجِدُ حَلَاوَتَهُ فِیْ قَلْبِهٖ۔ یقیناً نظر ابلىس کے تىروں مىں سے زہر مىں بجھا ہوا اىک تىر ہے، پس جو مىرے خوف سے اسے ترک کرے گا مىں اسے اىسا اىمان عطا کروں گا جس کى مٹھاس وہ اپنے دل مىں پائے گا۔([43])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقیناً بد نِگاہی کا عذاب برداشت نہیں ہوسکے گا۔ بدنِگاہی کا عذاب نہایت سخت ہے۔
حُجَّةُ الْاِسلام حضرت سَیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالى عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی نقل کرتے ہىں: جو کوئى اپنى آنکھوں کو حَرام نظر سے پُر کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قِىامَت کے روز اُس کى آنکھوں کو آگ سے بھر دے گا۔([44])
حضرت سَیِّدُنا علامہ ابوالفرج عبدالرحمن بن جوزى عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نقل کرتے ہىں:عورت کے محاسن (ىعنى حسن و جمال) کو دىکھنا ابلىس کے تىر وں مىں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تىر ہے،جس نے نامحرم سے آنکھ کى حفاظت نہ کى اُس کى آنکھ مىں بروزِ قىامت آگ کى سَلائى پھىرى جائے گى۔([45]) پیارے اسلامی بھائیو!ذرا غور تو کیجئے کہ سُرمہ لگاتے ہوئے ہمارے ہاتھ کانپتے ہیں اور اگر سُرمہ کی سَلائی آنکھ سے مَس ہوجائے یا سُرمہ ذرا تیز ہو تو ہماری چىخ نکل جاتی ہےجب ہمیں سُرمے کی معمولی سَلائی تڑپا کر رکھ دیتی ہےتو بدنِگاہی کے سبب اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوگیا اور ہماری آنکھ مىں آگ کی سَلائی پھیر دی گئی تو ہمارا کیا بنے گا!
حضرت سیدنا علاء بن زیاد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں:لَا تَتَّبِعْ بَصَرَكَ رِدَاءَ الْمَرْاَةِ فَاِنَّ النَّظَرَ يَجْعَلُ فِی الْقَلْبِ شَهْوَةً ۔ اپنى نظر کو عورت کى چادر پر بھى نہ ڈالو کیونکہ نظر دل مىں شہوت پىدا کرتى ہے۔([46])
صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:اجنبیہ عورت نے خوب موٹے کپڑے پہن رکھے ہیں کہ بَدَن کی رنگت وغیرہ نظر نہیں آتی تو اس صُورَت میں اس کی طرف نظر کرنا جائز ہے کہ یہاں عَورَت کو دیکھنا نہیں ہوا بلکہ ان کپڑوں کو دیکھنا ہوا یہ اس وقت ہے کہ اس کے کپڑے چُسْت نہ ہوں اور اگر چُسْت کپڑے پہنے ہو کہ جِسْم کا نقشہ کھنچ جاتا ہو مثلاً چُسْت پائجامے میں پنڈلی اور ران کی پوری ہیئت (ہَے۔ءَت)نظر آتی ہے تو اس صُورَت میں نظر کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح بعض عورتیں بہت باریک کپڑے پہنتی ہیں مثلاً آبِ رواں (ایک قسم کا نہایت اچھا اورباریک کپڑا)یا جالی یا باریک ململ ہی کا دوپٹّا جس سے سر کے بال یا بالوں کی سیاہی یا گردن یا کان نظر آتے ہیں اور بعض باریک تنزیب (تَن۔ زیب، ایک نہایت ہی باریک کپڑا)یا جالی کے کُرْتے پہنتی ہیں کہ پیٹ اور پیٹھ بالکل (صاف)نظر آتی ہے، اس حالت میں نظر کرنا حرام ہے اور ایسے موقع پر انکو اس قسم کے کپڑے پہننا بھی ناجائز ۔([47])
پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں چاہئے کہ ہرمعاملے میں شریعت
وسنت کی پابندی کریں۔میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى مىٹھى مىٹھى نِگاہیں نیچی رہا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عیسٰی ترمِذی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِینقل فرماتے ہیں: جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکسی طرف توجُّہ فرماتے تو پورےمُتَوَجِّہ ہوتے، مبارَک نظریں نیچی رہتی تھیں، آپ کی نظریں آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی تھی، اکثر آنکھ مبارَک کے کنارے سے دیکھا کرتے تھے۔([48])
مذکورہ حدیث پاک میں یہ الفاظ ’’پورے مُتَوَجِّہ ہوتے‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظر چراتے نہیں تھے ۔ اور یہ بات کہ ’’مبارَک نظریں نیچی رہتی تھیں‘‘ یعنی جب کسی چیز کی طرف دیکھتے تو اپنی نِگاہ پَست(یعنی نیچی) فرما لیا کرتے تھے۔ بِلا ضَرورت اِدھر اُدھرنہ دیکھا کرتے تھے، بس ہمیشہ عالمُ الغَیب جَلَّ جَلَالُہ کی طرف مُتَوَجِّہ رہتے،اُسی کی یادمیں مشغول اور آخِرت کے مُعامَلات میں غورو تفکر فرماتے رہتے۔([49])اور یہ الفاظ’’آپ کی نظریں آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی تھیں‘‘حد درجہ شرم وحیا کی دلیل ہے، حدیثِ پاک میں جو یہ آیا ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحمَةٌ لِّـلْعٰلَمِین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب تشریف فرما ہوکر
گفتگو فرماتے تو اکثر اوقات اپنی نِگاہ شریف آسمان کی طرف اُٹھاتے تھے۔([50]) توآپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ نظر اٹھاناانتظارِ وحی میں ہوتا تھا ورنہ نظر مبارک کا زمین کی طرف رکھنا روز مرّہ کے معمولات میں تھا۔([51])
آقا کى حىا سے جھکى رہتى نظر اکثر
آنکھوں پہ مرے بھائى لگا قفلِ مدىنہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حُجَّةُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمدغَزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالوَالِی اِحْیَاءُ الْعُلُوم میں نَقل فرماتے ہیں:حضرت سیِّدُناجُنَید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی سے کسی نے عرض کی: یاسیِّدی!میں آنکھیں نیچی رکھنے کی عادت بنانا چاہتا ہوں، کوئی ایسی بات ارشاد فرمائیے جس سے مدد حاصل کروں ۔ فرمایا :یہ ذِہن بنائے رکھوکہ میری نظر کسی دوسرے کو دیکھے اِس سے پہلے ایک دیکھنے والا (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ) مجھے دیکھ رہا ہے۔([52])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کاش!حقیقی معنوں میں ہمارے ذِہن میں ہر وَقت یہ بات جمی رہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں دیکھ رہا ہے اگرواقعی اس تصوُّر کی معراج نصیب ہو جائے تو پھر گناہوں کا صُدور نہیں ہوسکتا۔یہاں پر ضروری مسئلہ ىاد رکھىےکہ بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آسمان سے دىکھ رہا ہے۔ایسا ہر گز نہیں کہنا چاہئے کہ یہ کفریہ جملہ ہے۔چنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 692صفحات پر مشتمل کتاب ”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“ صفحہ104پر ہے:سُوال:بدنِگاہی کرنے والے کو ڈرانے کیلئے یہ کہہ سکتے ہیں یا نہیں کہاللہ عَزَّوَجَلَّ آسمان سے دیکھ رہا ہے۔
جواب:نہيں کہہ سکتے کہ یہ کُفر یہ جملہ ہے ۔ فتاوٰی عالمگیری جلد2 صَفْحَہ 259 پر ہے:”اللہ تعالیٰ آسمان سے یا عرش سے دیکھ رہا ہے“ ایسا کہنا کفر ہے ۔ ہاں بدنِگاہی بلکہ کسی بھی طرح کا گناہ کرنے والے کو یہ اِ حساس دلایا جائے کہ ”اللہ عَزَّ وَجَلَّ دیکھ رہا ہے۔“جیسا کہ پارہ 30 سورةُالْعَلَق کی14 ویں آیتِ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے: اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ یَرٰىؕ(۱۴) (پ۳۰، العلق:۱۴) ترجمۂ کنزالایمان:کیا نہ جانا کہ
اللہ (عَزَّ وَجَلَّ)دیکھ رہا ہے۔([53])
افسوس! ذرائع ابلاغ (میڈیا) مثلاً ریڈیو، ٹی۔ وی کے مختلف چینلز اور متعدد رسائل اور اخبارات بے حیائی کو فروغ (فَ۔ رو۔ غ) دینے میں مصروف ہیں ۔ جس کی بنا پر ہمارا مُعاشَرہ تیزی سے فحاشی، عُریانی و بے حَیائی کی آگ کی لپیٹ میں آتا جا رہا ہے جس کے سبب خاص کر نئی نسل اخلاقی بے راہ روی و شدید بدعملی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ فلمیں ڈرامے، گانے باجے، بیہودہ فنکشنز رواج پا رہے ہیں۔ اکثر گھر سینما گھروں اوراکثر مَجالس نَقَّار خانوں(یعنی نوبت وڈھول وغیرہ بجانے کی جگہوں) کا سَماں پیش کر رہی ہیں اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو ایمان کے بھی لالے پڑے ہیں کہ شیطان کے اِیما پر کفارِ بداطوار نے گانوں میں کفریہ کلمات کے ایسے ایسے زہر گھول دیئے ہیں جنہیں دلچسپی سے سننا اور گنگنانا کفر ہے۔اس کى مثالىں امىر اہلسنت کے بىان ”گانوں کے 35 کفرىہ اشعار“ میں دی گئی ہیں جو تحریری صورت میں بھی مکتبة المدینه نے شائع کیا ہے، اسے پڑھ کر آپ کوجھرجھرى آجائے گی اور زندگى بھر گانوں سے نَفْرَت ہوجائے گی اورجو
لاشعوری میں آج تک سنتے رہے اس پر شرم آئے گی کہ مىں اس قدر بے حس ہوچکا ہوں اور میرا ضمیر مرچکا ہے کہ اپنے رب کى شان مىں گستاخى کی جاتی رہی اور میں سنتا رہا۔سمجھانے کے لىے ایک شعربیان کیا جاتا ہے۔
تجھ کو دى صُورَت پرى سى دل نہىں تجھ کو دىا
ملتا خُدا تو پوچھتا ىہ ظلم تو نے کىوں کىا
اس شعر میں دو صریح کفریات ہیں(۱)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کومَعَاذَ اللہ ظالم کہا گیا ہے (۲)اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر اعتراض کیا گیا ہے۔
حضرتِ سیِّدُنا فرقد سَبَخی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:مُنافِق جب دیکھتا ہے کہ کوئی (اُسےدیکھنے والا) نہیں ہے تو وہ برائی کی جگہوں میں داخل ہوجاتا ہے۔وہ اس بات کا توخیال رکھتا ہے کہ لوگ اُسے نہ دیکھیں مگراللہ عَزَّ وَجَلَّ دیکھ رہا ہے اس بات کا لحاظ نہیں کرتا۔([54])
چھپ کے لوگوں سے کىے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کىا ہونا ہے
حضرتِ سیِّدُناحَسّان بِن اَبی سنان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان نَمازِ عید کے لیے گئے۔ جب واپس گھر تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کی اہلیہ کہنے لگی:آج آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے کتنی عورَتیں دیکھیں؟ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ خاموش رہے، جب اُس نے زیادہ اصرار کیا تو فرمایا:گھر سے نکلنے سے لے کرتمہارے پاس واپس آنے تک میں اپنے (پاؤں کے) انگوٹھوں کی طرف دیکھتا رہا۔([55])
سُبحٰنَ اللہ!اللہ والے بِلا ضَرورت بِالخصوص بھیڑکے موقع پر اِدھر اُدھر دیکھتے ہی نہیں کہ مَبادا(یعنی ایسا نہ ہو کہ)شرعاًجس کی اجازت نہ ہواس پر نظر پڑجائے !(گزرے ہوئے نیک بندوں کی ایک علامت بیان کرتے ہوئے )حضرتِ سیِّدُنا داود طائی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ نے فرمایا:نیک لوگ فُضول اِدھر اُدھر دیکھنے کو ناپسند کرتے تھے۔([56])
آنکھ اٹھتى تو مىں جھنجھلا کے پلک سى لىتا
دل بگڑتا تومىں گھبراکے سنبھالا کرتا([57])
پیارے اسلامی بھائیو!اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے دو طرح کے ہیں، بعض اس کی عبادت میں اس لیے مصروف رہتے ہیں کہ ان کے دل خوفِ خدا سے لبریز ہوتے ہیں، اگر کبھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو فوراً اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ ایک آنکھ والے آدمی کی حکایت میں بیان ہو چکا ہے۔جبکہ بعض لوگ اپنے پروردگار عَزَّ وَجَلَّکی عبادت جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لیے نہیں بلکہ رِضائے رَبُّ الاَنام پانے کے لیے کرتے ہیں۔اگر ایسے لوگ تھوڑی دیر کے لیے بھی بارگاہِ خداوندی سے توجہ ہٹاتے ہیں تو انہیں فوراً خبردار کر دیا جاتا ہے تاکہ دوبارہ ایسا نہ ہو۔ جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا ابو یعقوب نَہْرَجُوری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ فرماتے ہیں:میں نے طواف کے دوران ایک شخص کو دیکھا جس کی ایک آنکھ نہ تھی اور وہ یہ دعا مانگ رہا تھا:”اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!میں تجھ سے تیر ی پناہ مانگتاہوں۔“ میں نے اس سے پوچھا :یہ کیسی دعاہے ؟تو اس نے بتایا:میں پچا س سال سے بَـیْتُ الله شریف کی خدمت کر رہا ہوں(مگر کبھی میں نے کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا) ایک دن میں نے ایک شخص کو دیکھا تو اس کے حسن
کی تعریف کردی۔ اچانک مجھے ایک تھپڑآن لگا جس سے میری آنکھ میرے رخسار پر بہہ گئی،تکلیف کی شدت سے میرے منہ سے آہ نکلی تو دوسرا تھپڑ آلگا اور کسی کہنے والے نے کہا :اگر تُونے پھر آہ کی تو ہم اور ماریں گے۔([58])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس بات سے اِنکار ممکن نہیں کہ اہل وعیال کی کفالت کا ذمہ دار مرد ہے جسےپورا کرنے کے لئے وہ مختلف ذرائع بروئے کار لاتا ہے مثلاً کوئی کاروبار یا نوکرى وغىرہ کرتا ہے اور کفالَت گھر بیٹھے ہرگز نہیں ہوسکتی اس کے لئے یقیناً باہر جانا پڑے گا اور فی زمانہ باہَر کا ماحَول کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اىسے حالات مىں نظر کى حِفاظَت انتہائی ضَروری ہے اور اس کے لئے ہمیں خوب مشق کرنی پڑے گی اور وہ یوں کہ اپنے گھر مىں بھی نِگاہیں نىچى رکھنے کی کوشش کیجئے ، زہے نصیب شیخِ طریقت، اَمِیْرِ اہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کےعطاکردہ اس مَدَنی انعام ’’آنکھوں کی حفاظت کی عادت بنانے کے لئے سونے کے اوقات کے علاوہ کم از کم 12 منٹ آنکھیں بند رکھیں؟‘‘ پر عمل کی سَعادَت حاصِل ہوجائے۔نىت کرلىجئے کہ نظر کی حفاظت کی عادت بنانے کی خاطر روزانہ کم ازکم12 منٹ آنکھىں
بند رکھوں گا اور اس دوران فضول نہ بیٹھئے بلکہ آخِرَت کے بارے مىں غور وفکر کرتے رہئے، اىمان کی سلامتی،سکرات کی سختیوں اور قَبر وحشر کے اَحوال کے متعلق غور وفکر کیجئے، کبھى جنّت کا تو کبھی جہنّم کا تصوّر کیجئے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا کردہ نعمتوں پر غور کیجئے،اپنے گناہوں کو ىاد کیجئےاور اپنے آپ کو اس طرح ڈرائیےکہ اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوگىا، رسول پاک صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم روٹھ گئے تو مىرا کىا بنے گا؟کىا عجب! ندامت سے آنسو بہہ جائىں اور ہمارا بیڑا پار ہوجائے۔
ہمیں ہر وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بے نیازی سے ڈرتے رہنا اور ہر گناہ سے بچنا چاہئے اگرچہ بظاہروہ گناہ ہمیں چھوٹا نظر آئے۔ممکن ہے کہ ہم جس گناہ کو چھوٹا سمجھ رہے ہیں وہی رب تعالیٰ کی دائمی ناراضی کا سبب بن جائے۔لہٰذاہمیں اپنے ہر ہرعضو کى حفاظت کر نی چاہئے۔اسی مضمون کوشیخِ طریقت، امِیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں ذکر فرمایا ہے:
دوزخ کى کہاں تاب ہے کمزور بدن مىں
ہر عضو کا عطار لگا قفلِ مدىنہ
مفتیِ دعوتِ اسلامی حضرت مولانا مفتی محمد فاروق عطاری مدنی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی آنکھوں کے قفلِ مدينہ کے تعلق سے زبردست ذِہن رکھتےاور اس پر سختی سے عامل تھے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے اپنی موٹر سائيکل اس لئے بيچ دی کہ چلاتے ہوئے غير محرم عورَت آڑے آجانے کی صورت میں نظر کی حفاظت بے حد کٹھن ہے۔ایک اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ مجھے ايک بار کسی گاڑی ميں مفتی فاروق عطاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْبَارِی کے ساتھ سفر کا موقع ملا ميں نے انہيں شيشوں کے باہر نظر ڈالتے ہوئے نہيں ديکھا ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ڈرائیونگ کرتے ہوئے غیر عورتوں سے اپنی نظر کی حفاظَت کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ىہ مُفْتى فاروق رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتعالٰی علیہ کا تقوىٰ اورخوفِ خدا تھا کہ انہوں نے بدنِگاہى کے اندیشہ سے ڈرائىونگ چھوڑ دى اور بائىک بىچ دى۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خود کو گناہوں سے بچانے اور نیکیوں کا جذبہ پانے کی خاطر دعوتِ اسلامی کےسنتوں کی تربیت کے مدنی قافلوں میں سفر کو اپنا معمول بنا لیجئے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہم سب کوبدنِگاہی سے بچنے کے ساتھ ساتھ فضول نظری اور ہر طرح کی فضولیات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نمبر شمار |
کتاب |
مصنف/ مولف/ مطبوعہ |
1 |
قرآن مجید |
کلام باری تعالٰی مکتبة المدینه باب المدینہ کراچی |
2 |
کنز الایمان |
اعلٰی حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ، مکتبة المدینه باب المدینه کراچی |
3 |
مسند امام احمد |
امام احمد بن محمد بن حنبل، متوفی ۲۴۱ھ ، دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
4 |
صحیح بخاری |
امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری، متوفی ۲۵۶ھ، دار الکتب العلمیة |
5 |
صحیح مسلم |
امام مسلم بن حجاج قشیری، متوفی ۲۶۱ھ، دار ابن حزم، بیروت۱۴۱۹ھ |
6 |
سنن ابن ماجه |
امام ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجه، متوفی ۲۷۳ھ، دار المعرفه، بیروت۱۴۲۰ھ |
7 |
سنن الترمذی |
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی ۲۷۹ھ، دار الفکر ، بیروت۱۴۱۴ھ |
8 |
سنن ابی داود |
امام ابوداودسلیمان بن اشعث سجستانی،متوفی۲۷۵ھ، داراحیاءالتراث العربی،بیروت ۱۴۲۱ھ |
9 |
موسوعة ابن ابی الدنیا |
حا فظ امام ابوبکرعبدالله بن محمدقُرشی ،متوفی۲۸۱ھ، مکتبة العصریه بیروت۱۴۲۶ھ |
10 |
المعجم الکبیر |
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ، داراحیاء التراث العربی، بیروت۱۴۲۲ھ |
11 |
حلیة الاولیاء |
ابو نعیم احمد بن عبد الله اصفهانی شافعی، متوفی ۴۳۰ھ، دار الکتب العلمیه، بیروت ۱۴۱۹ھ |
12 |
شعب الایمان |
امام ابوبکراحمد بن حسین بن علی بیهقی،متوفی۴۵۸ھ ، دارالکتب العلمیه، بیروت |
13 |
مجمع الزوائد |
حافظ نور الدین علی بن ابی بکر هیتمی، متوفی ۸۰۷ھ، دار الفکر، بیروت |
14 |
اشعة اللمعات |
شیخ محقق عبدالحق محدث دهلوی، متوفی ۱۰۵۲ ھ، کوئٹہ۱۳۳۲ھ |
15 |
مرآۃ المناجیح |
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، مرکز الاولیاء لاهور |
16 |
الهدایة |
برهان الدین علی بن ابی بکرمرغینانی،متوفی۵۹۳ھ، داراحیاءالتراث العربی،بیروت |
17 |
الدر المختار |
محمد بن علی المعروف بعلاء الدین حصکفی، متوفی ۱۰۸۸ھ، دار المعرفه، بیروت۱۴۲۰ھ |
18 |
الفتاوی الھندیة |
علامہ شیخ نظام، متوفی۱۱۶۱ھ وجماعة من علماء الهند، دار الفکر، بیروت۱۴۰۳ھ |
19 |
رد المحتار |
محمدامین ابن عابدین شامی،متوفی۱۲۵۲ھ، دارالمعرفه،بیروت۱۴۲۰ھ |
20 |
بهارِ شریعت |
مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ، مکتبة المدینه باب المدینه کراچی |
21 |
الشمائل المحمدیه |
امام محمدبن عیسٰی ترمذی،متوفی۲۷۹ھ، داراحیاءالتراث، بیروت |
22 |
الشفا بتعریف حقوق المصطفی |
قاضی ابو الفضل عیاض مالکی، متوفی ۵۴۴ھ، مرکز اهلسنت برکات رضا، هند ۱۴۲۳ھ |
23 |
مدارج النبوة |
شیخ محقق عبدالحق محدث دهلوی،متوفی۱۰۵۲ھ، نوریه رضویه، پبلشنگ کمپنی، لاهور۱۹۹۷ء |
24 |
شرح المواهب |
محمد بن عبدالباقی بن یوسف زرقانی ، متوفی۱۱۲۲ھ، دارالکتب العلمیة، بیروت۱۴۱۷ھ |
25 |
احیاء علوم الدین |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ، دار صادر، بیروت |
26 |
منهاج العابدین |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ، دار الکتب العلمیة، بیروت |
27 |
مکاشفة القلوب |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ، دار الکتب العلمیة، بیروت |
28 |
بحر الدموع |
امام عبد الرحمن بن علی ابن جوزی، متوفی۵۹۷ھ، مکتبة دار الفجر، دمشق ۱۴۲۰ھ |
29 |
روض الریاحین |
امام عبد الله بن اسعد یافعی، متوفی۷۶۸ھ، دارالکتب العلمیة،بیروت۱۴۲۱ھ |
30 |
فضائل دعا |
رئیس المتکلمین مولانا مفتی نقی علی خان متوفی۱۲۹۷ھ، مکتبة المدینه باب المدینه کراچی۱۴۲۰ھ |
31 |
کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب |
حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ، مکتبة المدینه باب المدینه کراچی |
عنوان |
صفحہ نمبر |
عنوان |
صفحہ نمبر |
درود شریف کی فضیلت |
1 |
بدنگاہی سے چھٹکارا مل گیا |
14 |
ایک آنکھ والا آدمی |
2 |
بدنگاہی کے نقصانات |
17 |
اپنے سے کم مرتبہ والے سے دعا کروانا |
3 |
دیکھنے ونہ دیکھنے کی مختلف صورتیں |
18 |
(۱)مرد کا مرد کو دیکھنا |
19 |
||
بچو!دعا کرو عمر بخشا جائے |
4 |
(۲)عورت کا عورت کو دیکھنا |
21 |
نہ جانے کس کى دُعا قبول ہو |
4 |
(۳)عورت کا اجنبی مردکو دیکھنا |
22 |
ندامت |
5 |
(۴)مرد کا عورت کو دیکھنا |
23 |
نِگاہ کی اہمیت |
5 |
(1)مرد کا اپنی زَوجہ کو دیکھنا |
23 |
دوسری نظر نہ کرو |
7 |
(2)مرد کا اپنے محارِم کی طرف نظر کرنا |
24 |
پہلی نظر سے کیا مراد ہے؟ |
8 |
||
اچانک نظر پڑ جائے تو کیا کریں؟ |
9 |
(3)مرد کا آزاد عورت اجنبیہ کو دیکھنا |
25 |
نظر نہ جھکانے کی ہاتھوں ہاتھ سزا |
9 |
نظر کی حفاظت کی فضیلت |
30 |
کامِل مومن کی پہچان |
11 |
ابلیس کا زہریلا تیر |
31 |
دعوتِ اسلامی کی معاشرتی برائیوں کے خلاف جنگ |
11 |
آنکھوں میں آگ بھر دی جائے گی |
31 |
آگ کی سَلائی |
32 |
عورت کى چادر بھى نہ دیکھو |
32 |
کوئی دیکھ تو نہیں رہا! |
38 |
نِگاہ مصطفےٰ کی ادائیں |
33 |
نیچی نظر رکھنے کا لاجواب طریقہ |
39 |
آنکھوں کے قُفلِ مدینہ کاایک مَدَنی نسخہ |
35 |
غیر کی طرف متوجہ ہونے کی سزا |
40 |
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ |
41 |
||
’’اللہ آسمان سے دیکھ رہا ہے‘‘ کہنا کیسا؟ |
36 |
موٹر سائیکل بیچ دی |
43 |
ماخذ ومراجع |
44 |
||
ذرائع ابلاغ |
37 |
فہرست |
47 |
پیارے اسلامی بھائیو!دُنیا ایک امتحان گاہ ہے جس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں آخرت میں ہونے والے امتحان کی تیاری کے لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ بروزِ قیامت یہ معلوم ہو سکے کہ ہم میں سے کون اطاعتِ خداوندی کا پیکر بنا رہا اور کس کا شمار نافرمانوں میں رہا۔ ہمیں اس امتحان کی تیاری کے لیے پیدائش سےلے کر موت تک کا جو مخصوص وَقْت دیا گیا ہے ہمیں اِسی دورانیے(Duration) میں اپنی اجتماعی اور اِنْفِرادِی زِنْدَگی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے بسر کرنی ہے اور یہی ہمارا ’’مقصدِ حیات ‘‘ہے۔ (مقصد حیات، ص ۹)
...[1] مبلغِ دَعوتِ اِسلامی و نگران مرکزی مجلسِ شُوریٰ حضرت مولانا ابو حامِد حاجی محمد عمران عطاری مَدَّ ظِلُّہُ الْعَالِی نے یہ بیان۴ ذو القعدۃ الحرام ۱۴۳۰ھ بمطابق 23اکتوبر 2009ء کو مسجد البر (دبئی) میں تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں فرمایا۔ ۱۰ ربیع الاول۱۴۳۴ ھـ بمطابق 23 جنوری 2013ء کو ضَروری ترمیم و اِضافے کے بعد تحریری صُورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (شُعْبَہ رَسَائِلِ دَعْوَتِ اِسْلَامی مَجْلِس اَ لْمَدِیْنَةُ الْعِلْمِیة)
[2] ...ترمذی،کتاب الوتر، باب ماجاء فی فضل الصلاة علی النبی،۲۷/۲، حدیث:۴۸۴
[3] روض الریاحین، الحکایة الستون بعد الثلاث مائة، ص۲۹۵ملخصاً
[4] ابن ماجه، کتاب المناسك، باب فضل دعاء الحاج،۴۱۱/۳،حدیث:۲۸۹۴
[5] فضائلِ دعا، ص۱۱۲
[6] ترمذی، کتاب الرضاع، باب:۱۸، ۲ /۳۹۲، حدیث:۱۱۷۶
[7] احیا ء علوم الدین،کتاب کسرالشھوتین،۳ /۱۲۵
[8] مسند احمد، ۲ /۸۴، حدیث :۳۹۱۲
[9] ابو داود،کتاب النکاح،باب فی ما یؤمر به من غض البصر،۲ /۳۵۸، حدیث:۲۱۵۳
[10] ابو داود،کتاب النکاح، باب ما یؤمر به من غض البصر، ۳۵۸/۲، حدیث:۲۱۴۹
[11] مرآة المناجیح،۱۷/۵
[12] مسلم،کتاب الآداب، باب نظر الفجأة، ص۱۱۹۰، حدیث:۲۱۵۹
[13] بحر الدموع، الفصل السابع ، الحذر من النظر، ص ٥٧
مجمع الزوائد، كتاب التوبة، باب فيمن عوقب بذنبه فی الدنيا ،۱۰/ ۳۱۳، حديث:۱۷۴۷۱
[14] منهاج العابدین،تقویٰ الاعضاء الخمسة، الفصل الاول :العين، ص۶۲
[15] بخاری ، کتاب الایمان ،باب من الایمان ان یحب لاخیه … الخ،۱۶/۱، حدیث:۱۳
[16] شعب الایمان، باب الحیاء، فصل فی الحمام، ۶ /۱۶۲، حدیث:۷۷۸۸
[17]منھاجُ العابدین، ص ۱۵۷
[18] عالمگیری، کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...إلخ،۵/ ۳۲۷
[19] ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحة، فصل فی النظر والمس، ۹/ ۶۰۲
[20] ھدایة،کتاب الکراھیة، فصل فی الوطء والنظر واللمس،۲/ ۳۷۱
[21] ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحة، فصل فی النظر والمس،۹/ ۶۰۲
[22] ھدایة،کتاب الکراھیة، فصل فی الوطء والنظر واللمس، ۲/۳۶۹ عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/ ۳۳۰
[23] ھدایة،کتاب الکراھیة، فصل فی الوطء والنظر واللمس، ۲/ ۳۷۰
[24] عالمگیری،کتاب الکراھیة،الباب الثامن فیمایحل...الخ، ۵/۳۲۷
[25]المرجع السابق
[26] عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/ ۳۲۷
[27] المرجع السابق
[28] عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/۳۲۷ الدرالمختار و ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحة، فصل فی النظر والمس،۹/۶۰۵
[29] ھدایة،کتاب الکراھیة، فصل فی الوطء والنظر واللمس، ۲/۳۷۰
[30] ردالمحتار، کتاب الحظر والاباحة، فصل فی النظر والمس،۹/۶۰۶
[31] عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ، ۵/۳۲۸
[32] عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/۳۲۸
[33] الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحة، فصل فی النظر والمس، ۹/۶۰۶
[34] الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحة، ۹/۶۱۰
عالمگیری، کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/۳۲۹
[35] ھدایة،کتاب الکراھیة، فصل فی الوطء والنظر واللمس،۲/۳۶۸
[36] عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/۳۲۹
[37] ھدایة،کتاب الکراھیة، فصل فی الوطء والنظر واللمس، ۲/۳۶۹، وغیرھا
[38] عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/۳۳۰
[39] الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحة، فصل فی النظر و المس،۹/۶۱۲ ۔ ۶۱۴
[40] الدرالمختار و ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحة، فصل فی النظر و المس،۹/ ۶۰۷
[41] المرجع السابق،ص۶۰۸
[42] مسند احمد ، حدیث ابی امامة الباهلی،۲۹۹/۸،حدیث:۲۲۳۴۱
[43] المعجم الکبیر، ۱۷۳/۱۰،حدیث:۱۰۳۶۲
[44] مکاشفة القلوب، ص۱۰
[45] بحر الدموع،ص۱۷۱
[46] حلیة الاولیاء، العلاء بن زیاد، ۲۷۷/۲، رقم:۲۲۱۷
[47] عالمگیری،کتاب الکراھیة، الباب الثامن فیما یحل...الخ،۵/ ۳۲۹
[48] شمائلِ ترمذی،باب ما جاء فی خلق رسول الله، ص۲۳، حدیث:۷
[49] شرح الزرقانی علی المواهبِ اللدنیة،المقصد الثالث، الفصل الاول،واما بصرہ الشریف، ۲۷۲/۵
[50] ابودَاود،کتاب الادب،باب الهدی فی الکلام،۳۴۲/۴،حدیث: ۴۸۳۷
[51] اشعة، ۴/۵۲۶، مدارِجُ النّبوّت،۱/ ۶
[52] احیاء العلوم، کتاب المراقبة والمحاسبة،المرابطة الثانیةالمراقبة،۱۲۹/۵ملخصاً
[53] کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص۱۰۴
[54] احیاء العلوم، کتاب المراقبة والمحاسبة،المرابطة الثانیة المراقبة، ۱۳۰/۵، ملخصاً
[55] موسوعة الامام ابن ابی الدنیا،کتاب الورع، باب الورع فی النظر، ۲۰۵/۱
[56] موسوعة الامام ابن ابی الدنیا،کتاب الورع، باب الورع فی النظر، ۲۰۴/۱
[57] ذوقِ نعت از مولانا حسن رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان
[58] بحر الدموع، ص ۵۷