وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗۙ-لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌۗۙ-اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْۗ-فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْۗ-وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙۛ(۱۵۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب! تم جہاں سے آ ؤ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور اے مسلمانو !تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو کہ لوگوں کو تم پر کوئی حجت نہ رہے مگر جو ان میں ناانصافی کریں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور یہ اس لئے ہے کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور کسی طرح تم ہدایت پاؤ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے حبیب! تم جہاں سے آ ؤ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو تاکہ لوگوں کو تم پر کوئی حجت نہ رہے مگر جو اُن میں سے ناانصافی کریں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اورتاکہ میں اپنی نعمت تم پر مکمل کردوں اورتاکہ تم ہدایت پاؤ۔
{وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ: اور تم جہاں سے آؤ۔}اس رکوع میں تین مرتبہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں کو مسجد حرام یعنی کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے ،اس سے بظاہر ایسالگتا ہے کہ یہ تکرا ر ہے لیکن در حقیقت یہ تکرار نہیں کیونکہ ہر بار کے حکم کی علت جدا ہے ، پہلی بار جب نماز میں مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس کی علت یہ بیان ہوئی کہ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رضا جوئی کے لئے مسجد حرام کو قبلہ بنایا اورنماز میں ا س کی طرف منہ کرنے کاحکم دیا۔دوسری مرتبہ جب مسجد حرام کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالٰی نے ہرامت کا الگ الگ قبلہ بنایا ہے جس کی طرف منہ کر کے وہ نماز پڑھتے ہیں ، اور جب امت ِمحمدِیَّہ بھی ایک امت ہے تو ان کا قبلہ مسجد حرام کو بنایا اور اس کی طرف منہ کر کے انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیاگیا۔تیسری مرتبہ جب یہ حکم دیاگیا تو اس کی یہ علت بیان فرمائی کہ قبلہ کے معاملے میں یہودی مسلمانوں کے خلاف حجت قائم نہ کر سکیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۲/۱۱۹، ملخصاً)
{وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ: اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو ۔} اس آیت میں مجموعی طور لوگوں سے فرما دیا گیا کہ تم حالت ِ سفر میں ہو یا حالت ِ اقامت میں ، جنگل و بیابان میں ہو یا شہر میں ، ہر جگہ ہر حالت میں اور ہر وقت تم سب نے نماز میں خانہ کعبہ ہی کی طرف منہ کرنا ہے تاکہ یہودیوں کو اس اعتراض کا حق نہ رہے کہ ان کی کتابوں میں تو قبلہ کی تبدیلی کالکھا ہوا تھا لیکن اِس نبی نے تو ایسا کیا ہی نہیں ،یا وہ یہ اعتراض نہ کرسکیں کہ یہ نبی ہمارے دین کی تو مخالفت کرتے ہیں لیکن قبلہ ہمارے والا ہی مانتے ہیں اور مشرکین کو یہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملے کہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قریش کی مخالفت میں حضرت ابراہیم اور حضرت ا سمٰعیلعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ بھی چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی عظمت و بزرگی مانتے بھی ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱/۱۰۱)
{ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ: مگر جو ان میں ناانصافی کریں۔} یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے توحجت پوری ہوچکی، اب بھی اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو وہ خود ظالم ہے۔ یاد رہے کہ دین کی راہ میں طعنے سننا انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت رہی ہے۔
{فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْ: تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔}اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیاجا رہا ہے کہ تم کعبہ کی طرف منہ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے کفار کی طرف سے ہونے والے اعتراضات سے نہ ڈرو،ان کے طعنے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور تم میرے حکم کو پورا کرنے کے معاملے میں مجھ سے ڈرو اور میرے حکم کی مخالفت نہ کرو، بے شک میں تمہارا مددگار ہوں۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱/۲۵۵)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ انسان کو ہر وقت اللہتعالیٰ کا عذاب پیش نظر رکھنا چاہئے اور کسی بھی کام کو کرنے یا نہ کرنے سے پہلے ا س بات پر غور ضرور کر لینا چاہئے کہ یہ کام کرنے یا نہ کرنے سے اللہتعالیٰ کی رضاحاصل ہو گی یا اس کا نتیجہ اللہ تعالٰی کی ناراضی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔مروی ہے کہ جب حضرت معاذبن جبلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رونے لگے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کس چیز نے رُلایا ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم! میں نہ تو موت کی گھبراہٹ سے رو رہاہوں اور نہ ہی دنیا سے رخصتی کے غم میں آنسو بہا رہا ہوں ،بلکہ میں تو اس لئے روتا ہوں کہ میں نے حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے سنا کہ دو مٹھیاں ہیں ، ایک جہنم میں جائے گی اور دوسری جنت میں۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ میں کون سی مٹھی میں ہوں گا۔(شعب الایمان، الحادی عشرمن شعب الایمان وہو باب فی الخوف من اللہ تعالی، ۱/۵۰۲، الحدیث: ۸۴۱)
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’قیامت کے دن ان لوگوں کا حساب آسان ہوگا جو آج دنیا میں اللہتعالیٰ کی رضا کے لئے اپنا مُحاسبہ کرتے ہیں ، وہ اس طرح کہ انہیں جب بھی کوئی کام درپیش ہو تو پہلے اس پر غور کرتے ہیں ،پھر اگر وہ کام اللہتعالیٰ کی رضاکے لئے ہوتواسے کرگزرتے ہیں اور اگر اس کے برخلاف نظر آئے تو اس سے رک جاتے ہیں۔پھر فرمایا: ’’اور بروزِ قیامت ان لوگوں کا حساب کٹھن ہوگا جو آج دنیا میں عمل کرتے وقت غوروفکر نہیں کرتے اور کسی قسم کا محاسبہ کئے بغیر وہ کام کر ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ دیکھیں گے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل شمار کر رکھا ہے ۔پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا‘‘ (کہف:۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اورکہیں گے: ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیاہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے۔(ذم الہوی، الباب الثالث فی ذکر مجاہدۃ النفس ومحاسبتہا وتوبیخہا، ص۵۱، رقم: ۱۲۲-۱۲۳)
{وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ: اور تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کروں۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! جس طرح اللہتعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تمہارا رسول بنایاجو کہ تمہارے سامنے حق کی طرف ہدایت دینے والی آیتیں تلاوت فرماتے ہیں ،رشد و ہدایت کے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ،اللہتعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عظیم قدر ت پر قطعی دلائل قائم کرتے ہیں ،تمہیں بت پرستی کی نجاست سے پاک کرتے ہیں اورتمہیں وہ چیز سکھاتے ہیں جن سے تم اپنے نفسوں کو پہچان سکو اور ان کا تَزکِیہ کر سکو، اسی طرح مستقل طور پر تمہارے لئے بیتُ اللہکو قبلہ بنا دیا تاکہ اللہ تعالٰی تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔(تفسیر منیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۱/۳۳، الجزء الثانی)
گویا جیسے مسلمانوں کا نبی جداگانہ تھا ایسے ہی ان کا قبلہ بھی جداگانہ ہو گیا۔
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ(۱۵۱)
ترجمۂکنزالایمان: جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجاجو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور تمہیں کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں تھا۔
{كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ: جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا۔} خانہ کعبہ کی تبدیلی اللہتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھی اب اس سے بڑی نعمت یعنی حضور سیدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بیان ہے۔ جیسے خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے نسبت ہے ایسے ہی ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے نسبت ہے۔ کعبہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعمیر کا نتیجہ ہے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ا س تعمیر کے بعد کی دعا کا ثمرہ ہیں۔
یاد رہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ تعالٰی کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ حضوراقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اللہ تعالٰی خود اپنا احسان قرار دیتا ہے جیسے فرمایا:
’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا‘‘(ال عمران: ۱۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا۔
اور وہ رسول بھی کیسے ہیں ؟ قرآن ، علمِ قرآن، فہمِ قرآن، اسرارِ قرآن، حکمت ، طہارتِ نفس، تزکیہ قلب، اصلاحِ ظاہر و باطن اور دنیاو آخرت کی ساری بھلائیاں دینے والے ہیں۔ اسی تطہیر و تزکیہ کو ایک اور جگہ اللہ تعالٰی بیان فرماتا ہے:
’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا‘‘۔ (التوبہ:۱۰۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو۔
{وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ: اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں۔} قرآن اور احکامِ الٰہیہ جو ہم نہیں جانتے تھے وہ تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہمیں سکھاتے ہیں۔
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں :
اور حقیقت یہ ہے کہ صرف ظاہری مضامینِ قرآن اور اللہ تعالٰی کے احکام ہی نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سب کچھ سکھاتے ہیں۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اولین و آخرین کے علوم کے جامع ہیں۔ قصیدہ بُردہ میں امام بُوصیری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
فَاقَ النَّبِیِّیْنَ فِیْ خَلْقٍ وَ فِیْ خُلُقٍ وَلَمْ یُدَانُوْہٗ فِیْ عِلْمٍ وَلَا کَرَمٖ
ٰؑیعنی آپ حسن و جمال اور اخلاق میں تمام نبیوں پر فائق ہیں اور علم و کرم میں کوئی آپ کے برابر نہیں۔
بخاری شریف میں حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہم کو(مخلوق کی) ابتداء ِپیدائش کی خبریں دینے لگے حتیّٰ کہ یہاں تک بیان کیا کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی منزلوں میں ،جس نے یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔ (یعنی تمام کائنات کی خبریں ارشاد فرمادیں۔)(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲/۳۷۵، الحدیث: ۳۲۹۲)
حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ہر قول و فعل میں وہ علم و حکمت ہے کہ دنیا آج تک وہ تمام علم و حکمت معلوم نہیں کرسکی۔
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲)
ترجمۂکنزالایمان:تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:تو تم مجھے یاد کرو ،میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
{فَاذْكُرُوْنِیْ: تو تم میری یاد کرو۔} کائنات کی سب سے بڑی نعمت حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ذکر کرنے کے بعد اب ذکر ِ الٰہی اور نعمت الٰہی پر شکر کرنے کا فرمایا جارہا ہے۔
ذکر تین طرح کا ہوتا ہے:۔ (۱)زبانی ۔(۲)قلبی۔(۳) اعضاء ِبدن کے ساتھ ۔زبانی ذکر میں تسبیح و تقدیس، حمدوثناء،توبہ واستغفار، خطبہ و دعا اور نیکی کی دعوت وغیرہ شامل ہیں۔ قلبی ذکر میں اللہ تعالٰی کی نعمتوں کو یاد کرنا، اس کی عظمت و کبریائی اور اس کی عظیم قدرت کے دلائل میں غور کرناداخل ہے نیز علماء کاشرعی مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہے۔ اعضاء ِبدن کے ذکر سے مراد ہے کہ اپنے اعضاء سے اللہتعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے بلکہ اعضاء کو اطاعتِ الٰہی کے کاموں میں استعمال کیا جائے۔(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱/۱۲۸)
بکثر ت احادیث میں اللہتعالیٰ کا ذکر کرنے کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 10 احادیث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
(1)…اللہ کا ذکرایمانِ کامل کی نشانی ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث معاذ بن جبل، ۸/۲۶۶، الحدیث: ۲۲۱۹۱)
(2)…ذکراللہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی پانے کا ذریعہ ہے۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب القصد فی العمل، الفصل الثانی، ۱/ ۲۴۵، الحدیث: ۱۲۵۰)
(3)…ذکرِ الٰہی عذاب الٰہی سے نجات دلانے والا ہے۔(مؤطا امام مالک، کتاب القرآن، باب ما جاء فی ذکر اللہ تبارک وتعالی، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۰۱)
(4)…ذکر کرنے والے قیامت کے دن بلند درجے میں ہوں گے۔ (شرح السنّہ، کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجلّ ومجالس الذکر، ۳/۶۷، الحدیث: ۱۲۳۹)
(5)…ذکر کے حلقے جنت کی کیاریاں ہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۲-باب، ۵/۳۰۴، الحدیث: ۳۵۲۱)
(6)…ذکر کرنے والوں کوفرشتے گھیر لیتے اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی القوم یجلسون۔۔۔ الخ، ۵/۲۴۶، الحدیث: ۳۳۸۹)
(7)… شب قدر میں اللہکا ذکر کرنے والے کو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام دعائیں دیتے ہیں۔( شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون، فی لیلۃ العید ویومہما، ۳/۳۴۳، الحدیث: ۳۷۱۷)
(8)…ذکر کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔(مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند ابی ہریرۃ، ۳/۵۶، الحدیث: ۷۴۲۸)
(9)… اللہکا ذکر کرنے سے شیطان دل سے ہٹ جاتا ہے۔(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ قل اعوذ برب الناس، ۳/۳۹۵)
(10)…اللہکے ذکر سے دل کی صفائی ہوتی ہے۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزوجل والقرب الیہ، الفصل الثالث، ۱/ ۴۲۷، الحدیث: ۲۲۸۶)
{اَذْكُرْكُمْ: میں تمہیں یاد کروں گا۔} اللہتعالیٰ اطاعت سے یاد کرنے والوں کو اپنی مغفرت کے ساتھ، شکر کے ساتھ یاد کرنے والوں کو اپنی نعمت کے ساتھ، محبت کے ساتھ یاد کرنے والوں کواپنے قرب کے ساتھ یاد فرماتا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے۔ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا، اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوتا ہوں جو مجھ سے رکھے اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، اگر بندہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اکیلا ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں ا سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں گز بھراس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں دونوں ہاتھو ں کے پھیلاؤ کے برابر اس سے قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں (یعنی جیسے اللہ کی شایانِ شان ہے یا مراد یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف زیادہ تیزی سے متوجہ ہوتی ہے۔)(بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذرکم اللہ نفسہ، ۴/۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)
{وَ اشْكُرُوْا لِیْ: اور میرا شکر کرو۔} جب کفرکا لفظ شکر کے مقابلے میں آئے تو اس کا معنی نا شکری اور جب اسلام یا ایمان کے مقابل ہو تو اس کا معنی بے ایمانی ہوتا ہے۔ یہاں آیت میں کفرسے مراد ناشکری ہے۔
شکر کا مطلب ہے کہ کسی کے احسان و نعمت کی وجہ سے زبان، دل یا اعضاء کے ساتھ اس کی تعظیم کی جائے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :یااللہ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کہ میرا شکر کرنا بھی تو تیری ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: جب تو نے یہ جان لیا کہ ہرنعمت میری طرف سے ہے اور اس پر راضی رہا تو یہ شکر ادا کرنا ہے۔ (احیاء العلوم، کتاب الصبر والشکر، الشطر الثانی، بیان طریق کشف الغطاء ۔۔۔ الخ، ۴/۱۰۵)
شکر کے فضائل اور ناشکری کی مذمت:
قرآن و حدیث میں شکر کے کثیر فضائل بیان کئے گئے اور ناشکری کی مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
’’لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)‘‘(ابراہیم: ۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
اور حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب اللہتعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے اور وہ کہتا ہے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ‘‘ تو یہ کلمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک اسے نعمت دینے سے بہتر ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فضل الحامدین، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۳۸۰۵)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ اللہتعالیٰ جب کسی قوم سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کی عمر دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔(فردوس الاخبار، باب الالف، جماع الفصول منہ فی معانی شتی۔۔۔ الخ، ۱/۱۴۸، الحدیث: ۹۵۴)
حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :اللہتعالیٰ دنیا میں کسی بندے پر انعام کرے پھر وہ اس نعمت کا اللہ تعالٰی کے لئے شکر ادا کرے اور ا س نعمت کی وجہ سے اللہ تعالٰی کے لئے تواضع کرے تو اللہتعالیٰ اسے دنیا میں اس نعمت سے نفع دیتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے آخرت میں درجات بلند فرماتا ہے اور جس پر اللہ تعالٰی نے دنیا میں انعام فرمایا اور اس نے شکر ادا نہ کیا اور نہ اللہ تعالٰی کے لئے اس نے تواضع کی تو اللہتعالیٰ دنیا میں اس نعمت کا نفع اس سے روک لیتا ہے اور اس کے لئے جہنم کا ایک طبق کھول دیتا ہے ،پھر اگر اللہ تعالٰی چاہے گا تو اسے (آخرت میں ) عذاب دے گا یا اس سے در گزر فرمائے گا۔(رسائل ابن ابی الدنیا، التواضع والخمول، ۳/۵۵۵، رقم: ۹۳)
شکر سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر7کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! صبر اور نمازسے مدد مانگو، بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا:اے ایمان والو۔} اس سے پہلی آیات میں ذکر اور شکر کا بیان ہوا اور اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ نماز ، ذکراللہاور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کامل ہوتی ہے ۔اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو ۔ صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اوراہل ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیاگیا اور ان دونوں کا بطور خاص اس لئے ذکر کیاگیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نمازہے ۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱/۲۵۷، ملخصاً)
حضورسید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی نماز سے مدد چاہتے تھے جیساکہ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:’’ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو جب کوئی سخت مہم پیش آتی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نماز میں مشغول ہوجاتے ۔( ابو داؤد، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل، ۲/۵۲، الحدیث: ۱۳۱۹)
اسی طرح نماز اِستِسقا اور نمازِحاجت بھی نماز سے مدد چاہنے ہی کی صورتیں ہیں۔
{اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔} حضرت علامہ نصر بن محمد سمرقندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اللہتعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) ہر ایک کے ساتھ ہے لیکن یہاں صبر کرنے والوں کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالٰی ان کی مشکلات دور کر کے آسانی فرمائے گا۔(تفسیر سمرقندی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۱/۱۶۹)
اس آیت میں صبر کا ذکر ہوا ،صبر کا معنی ہے نفس کو ا س چیز پر روکنا جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو۔(مفردات امام راغب، حرف الصاد، ص۴۷۴)
بنیادی طور پر صبر کی دو قسمیں ہیں : (۱)…بدنی صبر جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اور ان پر ثابت قدم رہنا (۲)…طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا۔ پہلی قسم کا صبر جب شریعت کے موافق ہو توقابل تعریف ہوتا ہے لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری قسم ہے۔ (احیاء العلوم، کتاب الصبر والشکر، بیان الاسامی التی تتجدد للصبر۔۔۔الخ، ۴/۸۲)
قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال میں صبر کے بے پناہ فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ترغیب کے لئے ان میں سے 10فضائل کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(1)… اللہتعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (پ ۱۰، الانفال: ۴۶)
(2)…صبر کرنے والے کو اس کے عمل سے اچھا اجر ملے گا۔ (پ۱۴، النحل: ۹۶)
(3)… صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔(پ۲۳، الزمر: ۱۰)
(4)…صبر کرنے والوں کی جزاء دیکھ کر قیامت کے دن لوگ حسرت کریں گے۔ (معجم الکبیر، ۱۲/۱۴۱، الحدیث: ۱۲۸۲۹)
(5)…صبر کرنے والے رب کریم عَزَّوَجَلَّکی طرف سے درودو ہدایت اور رحمت پاتے ہیں۔(پ۲، البقرۃ: ۱۵۷)
(6)… صبر کرنے والے اللہ تعالٰی کو محبوب ہیں۔(پ۴، آل عمران: ۱۴۶)
(7)… صبر آدھا ایمان ہے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، الصبر نصف الایمان، ۳/۲۳۷، الحدیث: ۳۷۱۸)
(8)… صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔(احیاء العلوم، کتاب الصبر والشکر، بیان فضیلۃ الصبر، ۴/۷۶)
(9)…صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴/۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
(10)…صبر ہر بھلائی کی کنجی ہے۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع۔۔۔ الخ، ۷/۲۰۱، رقم: ۹۹۹۶)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’خدارا انصاف ! اگر آیۂ کریمہ’’ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ میں مطلق استعانت کا ذات ِالٰہی جَلَّ وَعَلا میں حصر مقصود ہو تو کیا صرف انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہی سے استعانت شرک ہوگی، کیا یہی غیر خدا ہیں ، اور سب اشخاص واشیاء وہابیہ کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انہیں کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے۔ نہیں نہیں ، جب مطلقا ًذات اَحَدِیَّت سے تخصیص اور غیر سے شرک ماننے کی ٹھہری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے ہمیشہ ہر طرح شرک ہی ہوگی کہ انسان ہوں یا جمادات ، اَحیاء ہوں یا اموات، ذوات ہوں یاصفات، افعال ہوں یا حالات، غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں ، اب کیاجواب ہے آیۂ کریمہ کا کہ رب جَلَّ وَعَلا فرماتاہے:
’’وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ‘‘(البقرۃ: ۴۵)
استعانت کرو صبر ونماز سے۔
کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے؟ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے۔ دوسری آیت میں فرماتاہے:
’’وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى‘‘(مائدہ:۲)
آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر۔
کیوں صاحب! اگرغیر خدا سے مددلینی مطلقاً محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہرگھل گیا۔ حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے کہ (۱) صبح کی عبادت سے استعانت کرو۔(۲) شام کی عبادت سے استعانت کرو۔(۳)کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو۔ (۴) علم کے لکھنے سے استعانت کرو ۔(۵) سحری کے کھانے سے استعانت کرو۔(۶) دوپہر کے سونے سے استعانت و صدقہ سے استعانت کرو۔(۷) حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو۔ (فتاوی رضویہ، ۲۱/۳۰۵-۳۰۶)
مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴)
ترجمۂ کنزالایمان: اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جواللہکی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔
{وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ :اور جواللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو۔} صبر کے ذکر کے بعد اب صبر کرنے والوں کی ایک عظیم قسم یعنی شہیدوں کا بیان کیا جارہا ہے۔ یہ آیت ِکریمہ شہداء کے حق میں نازل ہوئی۔ بعض لوگ شہداء کی شہادت پر افسوس کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ لوگ شہید ہو کر نعمتوں سے محروم ہو گئے۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱/۱۰۳)
جس میں فرمایا گیا کہ انہوں نے فانی زندگی اللہتعالیٰ کی راہ میں قربان کر کے دائمی زندگی حاصل کرلی ہے۔
اس آیت میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے، نہ زبان سے انہیں مردہ کہنے کی اجازت ہے اور نہ دل میں انہیں مردہ سمجھنے کی اجازت ہے،جیسا کہ ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ (ال عمران:۱۶۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللہکی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ موت کے بعد اللہتعالیٰ شہداء کو زندگی عطا فرماتا ہے، ان کی ا رواح پر رزق پیش کیا جاتا ہے ،انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ، ان کے عمل جاری رہتے ہیں ، ان کا اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے بدن میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں۔(شعب الایمان، السبعون من شعب الایمان، ۷/۱۱۵، الحدیث: ۹۶۸۶)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہتعالیٰ اس سے فرمائے گا :اے ابن آدم!تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بہت اچھی منزل ہے۔ اللہتعالیٰ فرمائے گا:’’تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔ (سنن نسائی ، کتاب الجہاد، ما یتمنی اہل الجنۃ، ص۵۱۴، الحدیث: ۳۱۵۷)
شہید وہ مسلمان ،مُکَلَّف ،طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن، اسے اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن کیا جائے۔(بہار شریعت، شہید کا بیان،۱/۸۶۰)
بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب ِعلم اورسفرِحج غرض راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔ مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم ملاحظہ فرمائیں۔
{وَ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ:لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔}یعنی یہ بات تو قطعی ہے کہ شہداء زندہ ہیں لیکن ان کی حیات کیسی ہے اس کا ہمیں شعور نہیں اسی لئے ان پر شرعی احکام عام میت کی طرح ہی جاری ہوتے ہیں جیسے قبر، دفن، تقسیمِ میراث، ان کی بیویوں کا عدت گزارنا، عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکنا وغیرہ۔
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم ضرورتمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو۔
{وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ: اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے۔} آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔ امام شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بقول خوف سے اللہ تعالٰی کا ڈر، بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے،جیساکہ حدیث شریف میں ہے،سرکار دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ جب کسی بندے کا بچہ مرتا ہے تو اللہتعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے:’’ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی ۔وہ عرض کرتے ہیں کہ ’’ہاں ، یارب! عَزَّوَجَلَّ، پھر فرماتا ہے:’’ تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا ۔وہ عرض کرتے ہیں :ہاں ، یارب! عَزَّ وَجَلَّ، اللہ تعالٰی فرماتا ہے: اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں : اس نے تیری حمد کی اور ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا، اللہتعالیٰ فرماتا ہے:’’ اس کے لیے جنت میں مکان بناؤ اور اس کا نام بیتُ الحمد رکھو۔‘‘(ترمذی، کتاب الجنائز، باب فضل المصیبۃ اذا احتسب، ۲/۳۱۳، الحدیث: ۱۰۲۳)
یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اللہتعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ستایا جانا اور انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان کوچاہئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالٰی کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے ۔صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب( اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ( وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا( استقبال کرتے ہیں ) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو )صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب(جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔ (بہار شریعت، کتاب الجنائز، بیماری کا بیان، ۱/۷۹۹)
اور کثیر احادیث میں مسلمان پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث یہ ہیں ،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ اللہتعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب شدۃ المرض، ۴/۴، الحدیث: ۵۶۴۶)
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے مروی ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کو جو تکلیف ،رنج، ملال اور اَذِیَّت و غم پہنچے، یہاں تک کہ ا س کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالٰی ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، ۴/۳، الحدیث: ۵۶۴۱)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمان مرد و عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہتعالیٰ سے اس حال میں ملتا ہےکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(ترمذی ، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴/۱۷۹، الحدیث: ۲۴۰۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے ،کاش! دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی ، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴/۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)
اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)
ترجمۂکنزالایمان: کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہکے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
{اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ:وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے۔}اس سے پہلی آیت میں مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور اس آیت میں یہ بتایاگیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہتعالیٰ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(جلالین، البقرۃ، تحت الایۃ: ۱۵۶، ص۲۲)
’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنے کے فضائل:
احادیث میں مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 5فضائل یہ ہیں :
(1)…اُم المؤمنین حضرت ام سلمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :میں نے سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہتعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ (پڑھے اور یہ دعا کرے) ’’اللہمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِی وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْہَا‘‘اے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو اللہتعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :جب حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فوت ہو گئے تو میں نے سوچا کہ مسلمانوں میں حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بہتر کون ہو گا؟ وہ تو پہلے گھر والے ہیں جنہوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہجرت کی۔ بہر حال میں نے یہ دعاکہہ لی، چنانچہ اللہ تعالٰی نے ان کے بدلے مجھے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عطا فرما دئیے (جو کہ حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بہت بہتر تھے) (مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص۴۵۷، الحدیث: ۳(۹۱۸))
(2)…حضرت امام حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان مرد یا عورت پر کوئی مصیبت پہنچی اور وہ اسے یاد کر کے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کہے، اگرچہ مصیبت کا زمانہ دراز ہو گیا ہو تو اللہتعالیٰ اُس پر نیا ثواب عطا فرماتا ہے اور ویسا ہی ثواب دیتا ہے جیسا اس دن دیا تھا جس دن مصیبت پہنچی تھی ۔(مسند امام احمد، حدیث الحسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ، ۱/۴۲۹، الحدیث: ۱۷۳۴)
(3)…ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔ عرض کی گئی کیا یہ بھی مصیبت ہے ؟ ارشاد فرمایا: جی ہاں ! اور ہر وہ چیزجو مومن کو اَذِیَّت دے وہ اس کے لئے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۱/۳۸۰)
(4)…ایک اورحدیث شریف میں ہے کہ مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنا رحمت ِالٰہی کا سبب ہوتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲/۱۲۲، الجزء الثالث، الحدیث: ۶۶۴۶)
(5)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے جو پہلی امتوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی ،وہ چیز مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنا ہے۔(معجم الکبیر، ۱۲/۳۲، الحدیث: ۱۲۴۱۱)
اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ -وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ(۱۵۷)
ترجمۂکنزالایمان: یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی درو دیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
{اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ: یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود ہیں اور رحمت۔} صبر کرنے والے اللہ تعالٰی کے محبوب ہوتے ہیں ، ان کیلئے بخشش اور ہدایت و رحمت ہے۔
مصیبت پر صبر کرنے کے کئی آداب ہیں ، ان میں سے 4آداب یہ ہیں جنہیں علامہ ابن قدامہ مقدسی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنی کتاب’’مختصر مِنہاجُ القَاصِدین‘‘ کے صفحہ277 پر ذکر فرمایا ہے۔
(1)… جب مصیبت پہنچے تو اسی وقت صبر و اِستِقلال سے کام لیا جائے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ صبر صدمہ کی ابتداء میں ہوتاہے۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب زیارۃ القبور، ۱/۴۳۳، الحدیث: ۱۲۸۳)
(2)… مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا جائے ،جیسا کہ حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا عمل اوپر گزرا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے انتقال پر ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔
(3)… مصیبت آنے پرزبان اور دیگر اعضا سے کوئی ایسا کلام یا فعل نہ کیا جائے جو شریعت کے خلاف ہو جیسے زبان سے اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں شکوہ و شکایت کے کلمات بولنا، سینہ پیٹنا اورگریبان چاک کر لینا وغیرہ۔
(4)…صبر کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ مصیبت زدہ پر مصیبت کے آثار ظاہر نہ ہوں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بطن سے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ایک لڑکا فوت ہو گیا۔ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے گھر والوں سے کہا:حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ان کے بیٹے کے انتقال کی خبر اس وقت تک نہ دینا جب تک میں خود انہیں نہ بتا دوں۔ جب حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے انہیں شام کا کھانا پیش کیا،انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا،پھر حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہانے پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھا بناؤ سنگھار کیا۔حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے ازدواجی عمل کیا جب حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ وہ سیر ہو گئے اور اپنی فطری خواہش بھی پوری کر لی ہے تو پھر انہوں نے کہا:اے ابو طلحہ!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، یہ بتائیں کہ اگر کچھ لوگ کسی کو عاریت کے طور پر کوئی چیز دیں پھر وہ اپنی چیز واپس لے لیں تو کیا وہ ان کو منع کر سکتے ہیں ؟ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا :نہیں۔ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے کہا تو پھر آپ اپنے بیٹے کے متعلق یہی گمان کر لیں (کہ وہ ہمارے پاس اللہتعالیٰ کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی یعنی اس کا انتقال ہو چکا ہے)(مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی طلحۃ الانصاری رضی اللہ تعالی عنہ، ص۱۳۳۳، الحدیث: ۱۰۷(۲۱۴۴))
اورحضرت مطرف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بیٹا فوت ہوگیا۔ لوگوں نے انہیں بڑا خوش و خرم دیکھا تو کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ غمزدہ ہونے کی بجائے خوش نظر آرہے ہیں۔ فرمایا: جب مجھے اس صدمے پر صبر کی وجہ سے اللہ تعالٰی کی طرف سے درود و رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے تو میں خوش ہوں یا غمگین؟ (مختصرمنہاج القاصدین، کتاب الصبر والشکر، فصل فی آداب الصبر، ص۲۷۷)
اورامام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ’’ احیاء العلوم ‘‘میں فرماتے ہیں : ’’ حضرت فتح موصلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زوجہ پھسل گئیں تو ان کا ناخن ٹوٹ گیا،اس پر وہ ہنس پڑیں ،ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو درد نہیں ہو رہا؟ انہوں نے فرمایا: ’’اس کے ثواب کی لذت نے میرے دل سے درد کی تلخی کو زائل کر دیا ہے۔ (احیاء العلوم، کتاب الصبر والشکر، بیان مظان الحاجۃ الی الصبر۔۔۔ الخ، ۴/۹۰)
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِۚ-فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَاؕ-وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ(۱۵۸)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے والا خبردار ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے چکر لگائے اور جو کوئی اپنی طرف سے بھلائی کرے تو بیشک اللہ نیکی کابدلہ دینے والا، خبردار ہے۔
{اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔}صبر اورصابرین کے اِجمالی بیان کے بعد اب صبر کا ایک مشہور اور عظیم واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ صفاو مروہ مکہ مکرمہ کے دو پہاڑ ہیں جو کعبہ معظمہ کے بالمقابل مشرقی جانب واقع ہیں ،حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہااور حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان دونوں پہاڑوں کے قریب اس مقام پر جہاں زمزم کا کنواں ہے حکمِ الٰہی سے سکونت اختیار فرمائی۔ اس وقت یہ مقام سنگلاخ بیابان تھا، نہ یہاں سبزہ تھا نہ پانی، نہ خوردو نوش کا کوئی سامان۔ رضائے الٰہی کے لیے ان مقبول بندوں نے صبر کیا۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت کم عمر تھے،انہیں پیاس لگی اور جب پیاس کی شدت بہت زیادہ ہوگئی تو حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا بے تاب ہو کر کوہِ صفا پر تشریف لے گئیں وہاں بھی پانی نہ پایا تواُتر کر نیچے کے میدان میں دوڑتی ہوئی مروہ تک پہنچیں۔اس طرح سات چکر لگائے۔(صاوی، ابراہیم، تحت الایۃ: ۳۷، ۳/۱۰۲۷-۱۰۲۸)
اور اللہ تعالٰی نے ’’اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘ ’’اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘کا جلوہ اس طرح ظاہر فرمایا کہ غیب سے ایک چشمہ زمزم نمودار کیا اور ان کے صبر و اخلاص کی برکت سے ان کے اتباع میں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑنے والوں کو مقبولِ بارگاہ قرار دیا اور ان دونوں پہاڑوں کو قبولیتِ دعا کا مقام بنادیا۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ ابراہیم آیت 13میں بھی مذکور ہے۔
{مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ:اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔} شعائر اللہ سے دین کی نشانیاں مراد ہیں خواہ وہ مکانات ہوں جیسے کعبہ ،عرفات، مُزدلفہ ، تینوں جَمرات (جن پر رمی کی جاتی ہے)، صفا،مروہ، منیٰ،مساجد یا وہ شعائر زمانے ہوں جیسے رمضان، حرمت والے مہینے ، عیدالفطر وعیدالاضحی ، یومِ جمعہ، ایاّمِ تشریق یا وہ شعائر کوئی دوسری علامات ہوں جیسے اذان، اقامت ، نمازِ با جماعت، نمازِ جمعہ، نماز عیدَین، ختنہ یہ سب شعائر ِدین ہیں۔(تفسیر بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۱/۹۱ملخصاً)
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کو صالحین سے نسبت ہو جائے وہ چیز عظمت والی بن جاتی ہے، جیسے صفا مروہ پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے قدم کی برکت سے اللہ تعالٰی کی نشانی بن گئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مُعَظَّم چیزوں کی تعظیم و توقیر دین میں داخل ہے اسی لئے صفا مروہ کی سعی حج میں شامل ہوئی۔
{فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ: تو اس پر کوئی حرج نہیں۔}اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں صفا و مروہ پر دو بت رکھے تھے، صفا پر جو بت تھا اس کا نام اُساف اور جو بت مروہ پر تھا اس کا نام نائلہ تھا۔ کفار جب صفاومروہ کے در میان سعی کرتے تو ان بتوں پر تعظیماًہاتھ پھیرتے،زمانۂ اسلام میں یہ بت تو توڑ دیئے گئے لیکن چونکہ کفار یہاں مشرکانہ فعل کرتے تھے اس لیے مسلمانوں کو صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا گراں محسوس ہوتا تھا کیونکہ اس میں کفار کے مشرکانہ فعل کے ساتھ کچھ مشابہت بنتی ہے ،اس آیت میں ان کا اطمینان فرما دیا گیا۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲/۱۳۸)
کہ چونکہ تمہاری نیت خالص عبادت الٰہی کی ہے لہٰذا تمہیں مشابہت کا اندیشہ نہیں کرنا چاہیے اور جس طرح خانہ کعبہ کے اندر زمانہ جاہلیت میں کفار نے بت رکھے تھے اب عہد اسلام میں بت اٹھادیئے گئے اور کعبہ شریف کا طواف درست رہا اور وہ شعائر ِدین میں سے رہا اسی طرح کفار کی بت پرستی سے صفا و مروہ کے شعائر ِدین ہونے میں کچھ فرق نہیں آیا۔
یہاں ایک مسئلہ ذہن نشین رکھیں کہ حج میں سعی (یعنی صفا و مروہ کے سات چکر) واجب ہے۔ اس کے ترک کرنے سے دم دینا یعنی قربانی واجب ہوتی ہے۔اس کے بارے میں تفصیلی احکام کیلئے بہارِ شریعت حصہ 6کا مطالعہ فرمائیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِۙ-اُولٰٓىٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ(۱۵۹) اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓىٕكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْۚ-وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۶۰)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرماچکے ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت۔مگر وہ جو توبہ کریں اور سنواریں اور ظاہر کردیں تو میں ان کی توبہ قبول فرماؤں گااور میں ہی ہوں بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں حالانکہ ہم نے اسے لوگوں کے لئے کتاب میں واضح فرمادیا ہے تو ان پر اللہ لعنت فرماتاہے اور لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں اور ( چھپی ہوئی باتوں کو) ظاہر کردیں تو میں ان کی توبہ قبول فرماؤں گا اور میں ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہوں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى:بیشک وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔} یہ آیت ان علماء یہود کے بارے میں نازل ہوئی جو توریت شریف کے احکام اور اس میں موجود نعت مصطفی کی آیتیں چھپاتے تھے۔ (صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱/۱۳۳)
دینی مسائل کوچھپانا گناہ ہے خواہ اس طرح کہ ضرورت کے وقت بتائے نہ جائیں یا اس طرح کہ غلط بتائے جائیں بلکہ غلط بتانے پر تو بہت سخت وعیدیں ہیں۔ یہ دونوں گناہ علماء یہود کرتے تھے کہ حضورپر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت بتاتے نہ تھے اور زنا کی سزا بدل دیتے تھے کہ بجائے رجم کے منہ کالا کراتے تھے۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۱/۱۴۰)
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 79میں بھی یہودیوں کی اس طرح کی حرکتوں کا بیان گزر چکا ہے۔
احادیث میں دینی مسائل چھپانے کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا ہے لیکن وہ اسے چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی۔‘‘(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم، ۴/۲۹۵، الحدیث: ۲۶۵۸)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو علم کے بغیر فتویٰ دے ا س پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔(ابن عساکر، محمد بن اسحاق بن ابراہیم۔۔۔ الخ، ۵۲/۲۰)
غلط مسائل بیان کرنے والوں ، بغیر پڑھے عالم و مفتی و محدث و مفسر کہلانے والوں اور قرآن و حدیث کی غلط تشریحات و توضیحات کرنے والوں کی آج کل کمی نہیں اور یہ سب مذکورہ آیت و احادیث کی وعید میں داخل ہیں۔ اسی وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہیں تو محض کوئی آرٹیکل یا کالم لکھنے والے لیکن دین کو بھی اپنے قلم سے تختہ مشق بناتے ہیں۔
{یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ: اللہ ان پر لعنت فرماتا ہے۔} اسلام کی حقانیت، حضور اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت اور شریعت کے احکام چھپانے والوں پر اللہ تعالٰی کی لعنت ہے اور دیگر حضرات یعنی ملائکہ و مومنین کی بھی لعنت ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَۙ(۱۶۱)
ترجمۂکنزالایمان:بیشک وہ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پر لعنت ہے اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور کافر ہی مرے ان پراللہ اور فرشتوں او ر انسانوں کی ،سب کی لعنت ہے۔
{وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ: اور جو حالتِ کفر میں مرے۔} سب سے بدبخت آدمی کفر پر مرنے والا ہے اگرچہ اس کی ساری زندگی اعلیٰ درجے کی عبادت و ریاضت اور تبلیغ و خدمت ِ دین میں گزری ہو ۔کفر پر مرنے والوں پراللہ تعالٰی کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔
برے خاتمے کا خوف:
اس آیت سے معلوم ہوا مرتے وقت ایمان کی دولت سے محروم رہ جانا سب سے بڑی بدبختی ہے اور اس وقت ایمان کا سلامت رہ جانا بہت بڑی سعادت ہے ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اگرچہ کتنا ہی نیک و پارسا،عبادت گزار اور پرہیزگار کیوں نہ ہو اپنے برے خاتمے سے خوفزدہ رہے ۔ہمارے بزرگانِ دین کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے کہ وہ سب سے زیادہ برے خاتمے کے بارے میں خوفزدہ رہتے تھے۔چنانچہ جب حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِکا وقت وصال آیا تو آپ نے رونا شروع کر دیا، ان سے کہا گیا: آپ امید رکھئے ،اللہ تعالٰی سب سے بڑھ کر گناہوں سے درگزر فرمانے والا ہے۔آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: (تم کیا سمجھتے ہو کہ) کیا میں اپنے گناہوں کی وجہ سے آنسو بہا رہا ہوں ؟ اگر میں جانتا کہ اللہ تعالٰی کی وحدانیت پر قائم رہتے ہوئے مروں گا تو پھر مجھ پر پہاڑوں کے برابر بھی گناہ ڈال دئیے جاتے تو مجھے کوئی پروا نہ ہوتی۔ (یعنی ایمان پر موت ہوجائے تو مجھے کچھ ڈر نہیں۔)(احیاء العلوم، کتاب الخوف والرجاء، بیان الدواء الذی بہ یستجلب۔۔۔ الخ، ۴/۲۱۱)
حضرت امام احمد بن حنبلرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے انتقال کے وقت جب آپ کے صاحب زادے نے طبیعت دریافت کی تو فرمایا،’’ابھی جواب کا وقت نہیں ہے ، بس دعا کرو کہ اللہ تعالٰی میرا خاتمہ ایمان پر کر دے کیونکہ ابلیس لعین اپنے سر پر خاک ڈالتے ہوئے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ ’’تیرا دنیا سے ایمان سلامت لے جانا میرے لئے باعث ِ ملال ہے۔ اور میں اس سے کہہ رہا ہوں کہ ابھی نہیں ، جب تک ایک بھی سانس باقی ہے میں خطرے میں ہوں ، میں (تجھ سے ) پرامن نہیں ہوسکتا ۔(تذکرۃ الاولیاء، ذکر امام احمد حنبل، ص۱۹۹، الجزء الاول)
حضور غوث اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اولیاء کے سردار ہیں لیکن خوف ِ خدا کا جو عالم تھااس کا اندازہ آپ کی طرف منسوب ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عید کے دن فرمایا :
خلق گوید کہ فردای روز عید است خوشی در روح ہر مومن پدید است
دراں روزے کہ باایماں بمیرم مرا درد ملک خود آں روز عید است
یعنی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کل عید ہے!کل عید ہے! اور سب خوش ہیں لیکن میں تو جس دن ا س دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے کر گیا میرے لئے تو وہی دن عید ہو گا۔
لعنت کرنے سے متعلق شرعی مسائل:
یہاں آیت میں کافروں پرلعنت کی گئی ہے۔ یہ مسئلہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس شخص کے کفر پر مرنے کا یقین نہ ہو اس پر لعنت نہ کی جائے نیز فاسق کا نام لے کر لعنت جائز نہیں جیسے کہا جائے ’’ فلاں شخص پر لعنت ہو‘‘البتہ وصف کے ساتھ لعنت کر سکتے ہیں جیسے احادیث میں جھوٹوں ، سود خوروں ، چوروں اور شرابیوں وغیرہ پر لعنت کی گئی ہے ۔ نیزوصف کے اعتبار سے لعنت قرآن پاک میں بھی کی گئی ہے جیسے جھوٹوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ
’’لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ‘‘(آل عمران:۶۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان:جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔
{وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ: اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔} مومن تو کافروں پر لعنت کریں گے ہی ،بروزِ قیامت کافر بھی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ(۱۶۲)
ترجمۂکنزالایمان:ہمیشہ رہیں گے اس میں نہ ان پر سے عذاب ہلکا ہو اور نہ انہیں مہلت دی جائے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے، ان پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
{لَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ: ان پر سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا۔} کفار کو کبھی عذاب سے چھٹکارا نہ ملے گا اور نہ انہیں نیک اعمال کی یا توبہ کی مہلت دی جائے گی ۔کافر کا عمل اسے کچھ نفع نہیں دیتا البتہ علماء نے فرمایا ہے اور احادیث سے سمجھ آتا ہے کہ جس عمل کا تعلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ذاتِ گرامی سے ہو اس سے کافر کو بھی فائدہ ہوتا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ ابوطالب کے عذاب میں حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی برکت سے کمی ہوئی اور یونہی نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ولادت کی خوشی میں ابو لہب نے اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تو جس انگلی کے اشارے سے اس نے آزاد کیا تھا اس سے اسے کچھ سیراب کیا جاتا ہے۔ یہی کلام علامہ عینیرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ابولہب والی حدیث کے تحت عمدۃ القاری جلد نمبر14 صفحہ45پر فرمایا ہے۔
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠(۱۶۳)
ترجمۂکنزالایمان:اور تمہارا معبود ایک معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تمہارا معبود ایک معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، بڑی رحمت والا، مہربان ہے۔
{وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ: اور تمہارا معبود ایک معبود ہے۔} کفار نے حضورِ اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے اللہ تعالٰی کی شان و صفت معلوم کی تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ تمہارا معبودایک معبود ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۱/۱۰۸)
نہ اس کے اجزاء ہیں ، نہ کوئی اس کی مثل ہے ، معبود و رب ہونے میں کوئی اس کا شریک نہیں ، وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے، مخلوق کو تنہا اسی نے بنایا، وہ اپنی ذات میں اکیلا ہے۔
حضرت اسماء بنت یزید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالٰی کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے،ایک یہ آیت:
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
دوسری سورۂ اٰل عمران کی ابتدائی آیت:
الٓمَّٓۙ(۱) اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ(۲)
(ترمذی، کتاب الدعوات، ۶۴-باب، ۵/۲۹۱، الحدیث: ۳۴۸۹)
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ ۪-وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۶۴)
ترجمۂکنزالایمان:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی تبدیلی میں اور کشتی میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندگی بخشی اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کے پابند ہیں ان سب میں یقینا عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
{اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش(میں نشانیاں ہیں )۔} کعبہ معظمہ کے گرد مشرکین کے تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں وہ معبودمانتے تھے انہیں یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس لیے انہوں نے حضور سید عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ایسی آیت طلب کی جس سے اللہ تعالٰی کی وحدانیت ثابت ہو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ص۸۹، ملتقطاً)
اور انہیں یہ بتایا گیا کہ آسمان و زمین کی تخلیق، آسمان کی بلندی، اس میں چمکتے ہوئے ستارے، اس کا بغیر ستونوں کے قائم ہونا، سورج چاند، ستاروں کے ذریعے اس کی زینت سب اللہ تعالٰی کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔یونہی زمین اور اس کی وسعت، اس میں موجود پہاڑ، معدنیات، جواہرات، اس میں رواں سمندر، دریا، چشمے ، اس سے اگنے والے درخت، سبزہ، پھل، پھول، نباتات، شب و روز کا آنا جانا، دن رات کا چھوٹا بڑا ہونا، سمندر میں بھاری بوجھ کے باوجود کشتیوں کا تیرنا، لوگوں کا اس میں سوار ہونا، سمندری عجائبات، ہواؤں کا چلنا،سمندر کے ذریعے مشرق و مغرب میں تجارت کرنا، سمندر سے بخارات کا اٹھنا، بارش کی صورت میں برسنا، بارش سے خشک اورمردہ زمین کا سر سبزوشاداب ہوجانا، اس پانی اور اس کے ثمرات سے زندگی میں باغ و بہار آنا، زمین میں کروڑوں قسم کے حیوانات کا ہونا ،ہواؤں کی گردش، ان کے خواص و عجائبات ،یہ تمام چیزیں اللہ تعالٰی کے علم و حکمت اور اس کی قدرت و وحدانیت پر عظیم دلیلیں ہیں۔یہ سارا تو ایک قسم کا اجمالی بیان ہے۔ مذکورہ بالا چیزوں میں ہر ایک پر جداگانہ غور و فکر کریں تو اللہ تعالٰی کی قدرت کے ایسے حیرت انگیز کرشمے نظر آتے ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ کائنات میں انتہائی کثرت سے پائی جانے والی ہوا پر ہی غور کرلیں تو اس میں نجانے کتنی گیسیں ، کتنی تاثیرات اور ضروریات انسانی کی کتنی بنیادی چیزیں ہیں۔ صرف یہی دیکھ لیں کہ اگر ہوا نہ ہو تو تمام انسان دس منٹ کے اندر اندر مرجائیں ، زمین کے اوپر اور ہوا میں پائے جانے والے جانوروں کی حیات ختم ہوجائے۔ یہ تو قدرت ِ الٰہی کی ایک قسم کی صرف ایک تاثیر ہے جبکہ قدرت الٰہی کی کھربوں سے زائد قسموں میں ایک ایک چیز میں کروڑوں عجائبات ہیں۔ کسی زمانے میں آنکھ کو صرف دیکھنے کا ایک آلہ سمجھا جاتا تھا اور علمی ترقی کے ساتھ ساتھ آنکھ کے ایسے ایسے ظاہری و باطنی، جسمانی و روحانی عجائبات سامنے آرہے ہیں کہ اب صرف آنکھ سے متعلقہ علوم کی اقسام نہ جانے کتنی ہیں اور لاکھوں لوگ اس علم کے ماہر ہونے کے باوجوداس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم نے آنکھ سے متعلق ہر چیز کا علم حاصل کرلیا ہے۔
اس آیت مبارکہ اور اس کی تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سائنسی علوم بھی معرفت ِ الٰہی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جتنا سائنسی علم زیادہ ہوگا اتنی ہی اللہ تعالٰی کی عظمت و قدرت کی پہچان زیادہ ہوگی، لہٰذا اگر کوئی دینِ اسلام کی خدمت اور اللہ تعالٰی کی معرفت کی نیت سے سائنسی علوم سیکھتا ہے تو یہ بھی عظیم عبادت ہوگی نیز اللہ تعالٰی نے جو کائنات میں غور و فکر کا حکم دیا ہے یہ اس حکم کی تعمیل بھی قرار پائے گی۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْۤا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَۙ-اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ (۱۶۵)
ترجمۂکنزالایمان:اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ اور کیسی ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ سارا زور خدا کو ہے اور اس لئے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے ہیں اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اگر ظالم دیکھتے جب وہ عذاب کو آنکھوں سے دیکھیں گے کیونکہ تمام قوت اللہ ہی کی ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔
{وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا:اور کچھ لوگ اللہ کے سوا اور معبود بنالیتے ہیں۔} مشرکین اپنے باطل معبودوں سے اسی طرح محبت کرتے جیسے اللہ تعالٰی سے محبت ہونی چاہیے۔ بتوں کی عبادت کرتے، ان کیلئے اللہ تعالٰی کی صفات ثابت کرتے، ان کے نام پر جانور ذبح کرتے، جو معاملات صرف اللہ تعالٰی کیلئے خاص ہیں وہ اپنے بتوں کے ساتھ کرتے، ان کی خاطر کٹ مرنے کو تیار رہتے، یہ سب باطل و مردود تھا۔ یاد رہے کہ اللہ تعالٰی کے پیاروں سے محبت اللہ تعالٰی ہی کی وجہ سے ہوتی ہے لہٰذا اس محبت کو جدا شمار نہیں کیا جاسکتا جیسے ہمیں حضور پرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے محبت ہے تو یہ اللہ تعالٰی ہی کی محبت ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ:اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔} اللہ تعالٰی کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالٰی سے محبت کرتے ہیں۔ محبت ِ الٰہی میں جینا اورمحبت ِ الٰہی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہِ نیاز میں سر بَسجود ہونا، یادِ الٰہی میں رونا، رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے ، اللہ تعالٰی کیلئے محبت کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اسی کی خاطر کسی سے روک لینا، نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالٰی کے سپرد کردینا، احکامِ الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالٰی کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالٰی کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالٰی کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالٰی کے سب سے پیارے رسول و محبوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالٰی کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالٰی کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت ِ الٰہی میں اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالٰی کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔
{وَ لَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا: اور اگر ظالم دیکھتے ۔}آیت کے اس حصے میں کافروں سے متعلق کہا جارہا ہے کہ قیامت کے دن کے عذاب کا منظر اگر دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ کتنا خوفناک منظر ہے۔
اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ(۱۶۶)
ترجمۂکنزالایمان:جب بیزار ہوں گے پیشوا اپنے پیروؤں سے اور دیکھیں گے عذاب اور کٹ جائیں گی ان کی سب ڈوریں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: جب پیشوااپنے پیروی کرنے والوں سے بیزار ہوں گے اور عذاب دیکھیں گے اور سب رشتے ناتے کٹ جائیں گے۔
{اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا: جب پیشوا بیزار ہوں گے۔} یہاں قیامت کے دن کی منظر کشی ہے جب مشرکین اور ان کے پیشوا جنہوں نے انہیں کفر کی ترغیب دی تھی ایک جگہ جمع ہوں گے اور عذاب نازل ہوتا ہوا دیکھیں گے تو ایک دوسرے سے بیزاری و نفرت کا اظہار کریں گے۔ پیروکار تو کہیں گے، اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم نے اپنے ان سرداروں کی پیروی کی اور انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر،جبکہ پیشوا اپنے پیروکاروں سے نفرت و بیزاری کا اظہار کریں گے۔ یہ مضمون قرآن پاک میں متعدد جگہوں پر بیان کیا گیا ہے مثلا سورۂ احزاب آیت66تا 68 اور سورۂ سَبا آیت 31تا 33 وغیرہ۔
{وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ: اور سب رشتے ناتے کٹ جائیں گے۔}یعنی قیامت کے دن کافروں کے وہ تمام تعلقات جو دنیا میں ان کے مابین تھے خواہ وہ دوستیاں ہوں یا رشتہ داریاں یا باہمی موافقت کے عہدوہ سب ختم ہوجائیں گے اور ہر کوئی اپنے اعمال کا جوابدہ ہوگا ، کوئی کسی کا مددگار نہ بن سکے گا۔ یاد رہے کہ قیامت کے دن کفار کے رشتے تو ٹوٹ جائیں گے لیکن اولیاء و متقین و صالحین کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ باقی رہے گاجیسے قرآن پاک میں ہے:
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ (الزخرف:۶۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پرہیزگاروں کے علاوہ اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّاؕ-كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۠(۱۶۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور کہیں گے پیرو کاش ہمیں لوٹ کر جانا ہوتا (دنیا میں )تو ہم ان سے توڑ دیتے جیسے انہوں نے ہم سے توڑ دی، یونہی اللہ انہیں دکھائے گا ان کے کام ان پر حسرتیں ہوکر اور وہ دوزخ سے نکلنے والے نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور پیروکار کہیں گے اگر ہمیں ایک مرتبہ لوٹ کرجانا مل جائے تو ہم ان پیشواؤں سے ایسے ہی بیزار ہوجاتے جیسے یہ ہم سے بیزار ہوئے ہیں۔ اللہ اسی طرح انہیں ان کے اعمال ان پر حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ دوزخ سے نکلنے والے نہیں۔
{لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً: اگر ہمیں ایک مرتبہ لوٹ کر جانا مل جاتا۔} کافر انتہائی تمنا کریں گے کہ کاش انہیں ایک مرتبہ دنیا میں لوٹ کر جانا مل جائے تو اولاً اپنے پیشواؤں سے بیزاری کا اظہار کرلیں ، مزید اپنے باطل معبودوں سے بیزار ہوجائیں اور تیسرا ایمان لا کر نیک اعمال کرلیں۔ کافروں کی موت کے وقت بھی ایسی ہی تمنائیں ہوتی ہیں جیسا کہ سورۂ مومنون آیت 99اور100میں ہے کہ کافر کہے گا ،اے اللہ مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں کچھ تو نیکی کرلوں۔ یونہی سورۂ زُمر آیت 58 میں ہے کہ کافر کہے گا ، اے کاش کہ مجھے ایک مرتبہ واپسی مل جائے تاکہ میں نیکیاں کرلوں۔ اس طرح کا مضمون پارہ 24 سورۂ زمراور سورۂ مومن میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کی اصل حسرت تو کافر ہی کو ہوگی لیکن مسلمان بھی نیکیوں کی کمی اور گناہوں میں ملوث ہونے پر حسرت کا اظہار کریں گے، جیسے حدیث مبارک ہے ’’ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ہر مرنے والے کو افسوس و ندامت ہوگی۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یارسول اللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ندامت ہوگی؟ فرمایا: ا گر نیک ہوگا تو زیادہ نیکیاں نہ کرنے پر نادم ہوگا اوراگر گنہگار ہوگا توگناہوں سے باز نہ آنے پر نادم ہوگا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴/۱۸۱، الحدیث: ۲۴۱۱)
حسرت کی اور بھی صورتیں ہوں گی جیسے دوسروں پر ظلم کرنے اور انہیں تکلیف دینے والوں کو ڈھیروں ڈھیر نیکیوں کے باوجود حسرت ہوگی کیونکہ ان کی نیکیاں دوسروں کو دیدی جائیں گی۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۴، الحدیث: ۵۹(۲۵۸۱)) جسے طلب علم کا موقع ملا لیکن علم حاصل نہ کیا اسے حسرت ہو گی۔(ابن عساکر، حرف المیم، محمد بن احمد بن جعفر۔۔۔ الخ،۵۱/۱۳۷) کسی جگہ جمع ہونے والے لوگ اللہ تعالٰی کا ذکر کئے بغیر اٹھ گئے تو وہ مجلس ان کے لئے حسرت ہوگی۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، کلام عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ، ۸/۱۸۹، الحدیث: ۴)
{كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ: اللہ اسی طرح انہیں ان کے اعمال دکھائے گا۔} قیامت کے دن اللہ تعالٰی کافروں کے برے اعمال ان کے سامنے کرے گا تو انہیں نہایت حسرت ہوگی کہ انہوں نے یہ کام کیوں کئے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ جنت کے مقامات دکھا کر ان سے کہا جائے گا کہ اگر تم اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کرتے تو یہ تمہارے لیے تھے، پھر جنت کی وہ عالیشان منزلیں مؤمنین کو دیدی جائیں گی ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۱/۱۱۰)
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)
ترجمۂکنزالایمان: اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
ترجمۂکنزالعرفان: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا: جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ ۔} مشرکین نے اپنی طرف سے بہت سے جانوروں کو حرام قرار دیا ہوا تھا ،اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی کہ زمین میں پیدا شدہ چیزیں اللہ تعالٰی نے حلال کی ہیں اور لوگوں کے نفع کیلئے ہی انہیں پیدا کیا ہے لہٰذا صرف ان چیزوں سے بچو جنہیں اللہ تعالٰی نے خود منع فرما دیا اور جن چیزوں سے اللہ تعالٰی نے منع نہیں فرمایا وہ سب حلال ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دینا اس کی رَزّاقِیَّت سے بغاوت ہے مسلم شریف کی حدیث ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: جو مال میں اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہوں وہ ان کے لیے حلال ہے۔ اور اسی حدیث میں ہے کہ’’ میں نے اپنے بندوں کو باطل سے بے تعلق پیدا کیا پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انہوں نے لوگوں کودین سے بہکایا اور جو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اس کو حرام ٹھہرایا۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب صفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))
حلال و طیب سے مراد وہ چیز ہے جو بذات ِ خود بھی حلال ہے جیسے بکرے کا گوشت، سبزی، دال وغیرہ اور ہمیں حاصل بھی جائز ذریعے سے ہو یعنی چوری، رشوت، ڈکیتی وغیرہ کے ذریعے نہ ہو۔
رزق حلال کے فضائل اور حرام رزق کی مذمت:
احادیث مبارکہ میں رزق حلال کی بہت فضیلت اور رزق حرام کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ۔ان میں 3 احادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یارسول اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، دعا فرمائیے کہ اللہ تعالٰی مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اے سعد! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ،اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، ۵/۳۴، الحدیث: ۶۴۹۵)
(2) …حضرت ابو سعیدخدری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے حلال مال کمایاپھر اسے خود کھایا یا اس کمائی سے لباس پہنا اور اپنے علاوہ اللہ تعالٰی کی دیگر مخلو ق (جیسے اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں ) کو کھلا یا اور پہنا یا تو اس کا یہ عمل اس کے لئے برکت و پاکیزگی ہے ۔(الاحسان بترتیب ابن حبان، کتاب الرضاع، باب النفقۃ، ذکر کتبۃ اللہ جلّ وعلا الصدقۃ للمنفق۔۔۔ الخ، ۴/۲۱۸، الحدیث: ۴۲۲۲، الجزء السادس)
(3)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو اللہ تعالٰی اسے(آخرت میں ) ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ تعالٰی اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔اللہعَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا (بنی اسرائیل: ۹۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴/۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۷)
ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی کمائے اور حلال روزی سے ہی کھائے اور پہنے اسی طرح دوسروں کو بھی جو مال دے وہ حلال مال میں سے ہی دے ۔ہمارے بزرگان دین رزق کے حلال ہونے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے ا س کی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے ،چنانچہ ایک بار امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے پی لیا ۔ غلام نے عرض کی، میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ا س کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اِس دودھ کے بارے میں کچھ دریافت نہیں فرمایا؟ یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے پوچھا، یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بیمار پر منتر پھونکا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے یہ دودھ دیا ہے ۔ حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنے یہ سن کر اپنے حلق میں اُنگلی ڈالی اور وہ دودھ اُگل د یا ۔ اِس کے بعد نہایت عاجزی سے دربارِ الٰہی میں عرض کیا ،’’ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا ، اس دودھ کا تھوڑا بہت حصہ جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرما دے۔(منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، تقوی الاعضاء الخمسۃ، الفصل الخامس، ص۹۷)
اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹)
ترجمۂکنزالایمان: وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دے گا اور یہ (حکم دے گا) کہ تم اللہ کے بارے میں وہ کچھ کہو جو خود تمہیں معلوم نہیں۔
{اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ: وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا حکم دے گا۔} سُوْءاورفَحْشَاءِکو مُترادف یعنی ہم معنیٰ بھی قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوء سے مراد مطلقاً گناہ ہے اورفَحْشَآءِسے مراد کبیرہ گناہ ہیں۔(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۹، ۱/۱۴۰)
شیطان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو برائی کی طرف بلائے، کفرو شرک کی طرف، اللہ تعالٰی کے متعلق غلط عقائد منسوب کرنے کی طرف یا اس کے حلال کردہ کو حرام کہنے اور اس کے حرام کردہ کو حلال کہنے کی طرف، برے کاموں مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، وعدہ خلافی، بہتان، لڑائی فساد، حسد، بغض و کینہ، تکبر و اَنانیت، نفرت و عداوت، جنگ و جَدل، تذلیل و تحقیر، استہزاء والزام تراشی وغیرہ چیزوں کی طرف بلائے۔ یونہی بے حیائی کے کام گانے، باجے، فلمیں ، ڈرامے، ناچ، مُجرے، بدنگاہی، فحش گفتگو، گندی باتیں ، ناجائز تعلقات، بری نیت سے دیکھنا، چھونا، بدکاری وغیرہ گناہوں کی طرف بلانا شیطان کا کام ہے۔افسوس کی بات ہے کہ آج کل ان برائیوں میں سے بہت سی چیزوں کی طرف بلانے میں گھروالوں اور دوست احباب، گھر، بازار، معاشرہ، افسر وغیرہ کا تعاون یا ترغیب ہوتی ہے۔ کوئی آدمی نیکیوں کی طرف آنے کا سوچتا بھی ہے تو مذکورہ بالا افراد اسے کھینچ کر گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ اے کاش ہمیں اچھی صحبت، اچھا مطالعہ، اچھا گھرانہ اور اچھے دوست مل جائیں۔
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِـعُ مَاۤ اَلْفَیْنَا عَلَیْهِ اٰبَآءَنَاؕ-اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْــٴًـا وَّ لَا یَهْتَدُوْنَ(۱۷۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب ان سے کہا جائے اللہ کے اتارے پر چلو تو کہیں بلکہ ہم تو اس پر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان سے کہا جائے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں : بلکہ ہم تواس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایاہے۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ وہ ہدایت یافتہ ہوں ؟
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ: اورجب ان سے کہا جائے۔} جب کافروں سے کہا جاتا کہ توحید و قرآن پر ایمان لاؤ اور پاک چیزوں کو حلال جانو جنہیں اللہ تعالٰی نے حلال کیاتو مشرکین اس کا ایک ہی جواب دیتے کہ ہم تو اسی راہ و رسم اور طور طریقے پر چلیں گے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔ انہیں فرمایا گیا کہ جب باپ دادا دین کے امور کونہ سمجھتے ہوں اور راہِ راست پر نہ ہوں توان کی پیروی کرنا حماقت و گمراہی ہے۔باپ دادا چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر خود کشی کرتے ہوں تو کیا اولاد بھی چالیس سال کی عمر میں خود کشی کرے؟ وہ روزانہ کیچڑ میں چھلانگ مارتے ہوں تو کیا اولاد بھی یہی شروع کر دے؟ سیدھی بات ہے کہ صحیح بات میں پیروی کی جائے اور غلط میں ہرگز نہیں۔
شریعت کے مقابلہ میں گمراہ باپ دادا کی پیروی کرنا حرام ہے۔ یونہی گناہ کے کاموں میں باپ دادا کی پیروی ناجائز ہے کہ بحکمِ حدیث اللہ تعالٰی کی نافرمانی کے کام میں کسی کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔(مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ۔۔۔ الخ، ص۱۰۲۴، الحدیث: ۳۹(۱۸۴۰))
ہمارے ہاں شادی مرگ اور دیگر کئی مواقع پر شریعت پر چلنے کا کہا جائے تو لوگ آگے سے یہی باپ دادا، خاندان اور برادری کے رسم و رواج کا عذر پیش کرتے ہیں یہ بھی سراسر غلط و باطل ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ بروں کی پیروی بری ہے اور اچھوں کی پیروی اچھی جیسے ہم بزرگانِ دین، صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین، اولیاء و صالحین کی پیروی کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی ہے کہ اس کا حکم خود قرآن نے دیا ہے چنانچہ فرمایا:
وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبہ:۱۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
ہر نماز میں بزرگوں کی پیروی کی دعا مانگنے کا فرمایا چنانچہ فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (الفاتحہ: ۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا۔
اللہ تعالٰی ہمیں اچھوں کی پیروی کرنے اور بروں کی پیروی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۷۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور کافروں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی ایسے کو پکارے جو خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں سنتا۔ (یہ کفار) بہرے، گونگے، اندھے ہیں تو یہ سمجھتے نہیں۔
{وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اور کافروں کی مثال۔} حضور پرنورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکافروں کو مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے کچھ نفع حاصل نہ کرتے یعنی ایمان نہ لاتے۔ ان کے اس سننے کی مثال بیان کی گئی کہ جس طرح جانوروں کا ایک ریوڑ ہو اور ان کا مالک انہیں آواز دے تو وہ محض ایک آواز تو سنتے ہیں لیکن مالک کے کلام کا مفہوم نہیں سمجھتے، یونہی کافروں کا حال ہے کہ حبیب ِ خداصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَانہیں حق کی طرف بلاتے ہیں ، یہ ان کا کلام سنتے ہیں لیکن جواب میں جانوروں جیسا طرزِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے آنکھ، کان، زبان کا کیا فائدہ جس سے کوئی نفع نہ اٹھایا جاسکے۔ اس اعتبار سے تو یہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ اس آیت میں کچھ درس ہمارے لئے بھی ہے کہ دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت، قرآن و حدیث ، اصلاح و تفہیم کے باوجود جو طرزِ عمل ہمارا ہے وہ بھی کچھ سوچنے کا تقاضا کرتا ہے کہ اِس اعتبار سے ہمارے آنکھ، کان بھی کھلے ہوئے ہیں یا نہیں ؟
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والوکھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤاور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
{وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ کا شکر ادا کرو۔}اللہ تعالٰی نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ کئی مقامات پررزقِ الٰہی کھانے کا بیان کیا، جیسے سورۂ بقرہ آیت168،سورۂ مائدہ87 ،88،سورۂ اعراف آیت31،32اورسورۂ نحل آیت 114وغیرہ ۔ الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں جہاں رزقِ الٰہی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہوجاؤ، یہ چیزیں تمہیں اطاعت ِ الٰہی سے دور نہ کردیں ، کھا پی کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرو۔ چنانچہ فرمایا: اور اللہ کا شکر ادا کرواگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۷۳)
ترجمۂکنزالایمان: اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو نا چار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور حرام کئے ہیں جس کے ذبح کے وقت غیرُ اللہکا نام بلند کیا گیا تو جو مجبور ہوجائے حالانکہ وہ نہ خواہش رکھنے والا ہو اور نہ ضرورت سے آگے بڑھنے والاہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ: تم پر یہی حرام کئے۔ }کفار نے چونکہ اپنی طرف سے بہت سے جانوروں کو حرام قرار دے رکھا تھا جن کا بیان سورۂ مائدہ آیت 103میں آئے گا۔ کفار کی اس حرکت پر فرمایا گیا کہ جن جانوروں کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے جیسے بَحیرہ وغیرہ وہ حرام نہیں ، حرام صرف وہ ہیں جو ہم نے فرمادئیے۔یہی مضمون مزید تفصیل کے ساتھ سورۂ مائدہ آیت 3 میں بھی موجود ہے۔
یہاں آیت میں چار چیزوں کا بیان ہے: (۱)مردار، (۲)خون، (۳)خنزیر کا گوشت، (۴)غیرُاللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور۔ ان کی تفصیل یہ ہے :
(1)…مردار:جو حلال جانور بغیر ذبح کئے مرجائے یا اس کو شرعی طریقے کے خلاف مارا گیا ہو مثلاً مسلمان اور کتابی کے علاوہ کسی نے ذبح کیا ہو یا جان بوجھ کر تکبیر پڑھے بغیر ذبح کیا گیا ہو یا گلا گھونٹ کر یا لاٹھی پتھر، ڈھیلے، غلیل کی گولی سے مار کر ہلاک کیا گیا ہو یاوہ بلندی سے گر کر مر گیا ہو یا کسی جانور نے اسے سینگ مارکر مار دیا ہو یا کسی درندے نے ہلاک کیا ہو اسے مردار کہتے ہیں اور اس کا کھانا حرام ہے البتہ مردار کا دباغت کیا ہوا چمڑا کام میں لانا اور اس کے بال سینگ ہڈی ، پٹھے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ،تحت الآیۃ: ۱۷۳، ص۴۴)
زندہ جانور کا وہ عضو جو کاٹ لیا گیا ہووہ بھی مردار ہی ہے۔
(2)…خون: خون ہر جانور کا حرام ہے جبکہ بہنے والا خون ہو ۔ سورہ اَنعام آیت 145میں فرمایا :’’ اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا‘‘ ’’یا بہنے والا خون‘‘ ذبح کے بعد جو خون گوشت اور رگوں میں باقی رہ جاتا ہے وہ ناپاک نہیں۔
(3)…خنزیر: خنزیر (یعنی سور) نَجس العین ہے اس کا گوشت پوست بال ناخن وغیرہ تمام اجزاء نجس و حرام ہیں ، کسی کو کام میں لانا جائز نہیں چونکہ آیت میں اُوپر سے کھانے کا بیان ہورہا ہے اس لیے یہاں صرف گوشت کا ذکر ہوا۔
(4)… غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ: اس کا معنی یہ ہے کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے اور جس جانور کو غیراللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے وہ حرام و مردار ہے البتہ اگر ذبح فقط اللہتعالیٰ کے نام پر کیا اور اس سے پہلے یا بعد میں غیر کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ عقیقہ کا بکرا، ولیمہ کا دنبہ یا جس کی طرف سے وہ ذبیحہ ہے اسی کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ اپنے ماں باپ کی طرف سے ذبح کررہا ہوں یا جن اولیاء کے لیے ایصال ثواب مقصود ہے ان کا نام لیا تو یہ جائز ہے، اس میں کچھ حرج نہیں اور ا س فعل کو حرام کہنا اور ایسے جانور کو مردار کہنا سراسر جہالت ہے کیونکہ ذبح سے پہلے یا ذبح کے بعد غیر کی طرف منسوب کرنا ایسافعل نہیں جو کہ حرام ہوجیسے ہم اپنی عام گفتگو میں بہت سی عبادات کو غیر کی طرف منسوب کرتے ہیں ،مثلاً یوں کہتے ہیں کہ ظہر کی نماز،جنازہ کی نماز،مسافر کی نماز،امام کی نماز،مقتدی کی نماز، بیمار کی نماز، پیر کا روزہ،اونٹوں کی زکوٰۃ اور کعبہ کا حج وغیرہ،جب یہ نسبتیں حرام نہیں اور ان نسبتوں کی وجہ سے نماز ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ میں کفر و شرک اور حرمت تو درکنار نام کو بھی کراہت نہیں آتی تو کسی ولی یا بزرگ یا کسی اور کی طرف منسوب کر کے فلاں کی بکری کہنا کیسے حرام ہو گیا اور اس سے یہ خدا کے حلال کئے ہوئے جانور کیوں جیتے جی مردار ا ور سور ہو گئے کہ اب کسی صورت حلال نہیں ہو سکتے ۔ جو لوگ انہیں مردار کہتے ہیں وہ شریعت مطہرہ پر سخت جرأت کرتے ہیں۔یاد رکھیں کہ کوئی مسلمان اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کا نام لے کر جانور ذبح نہیں کرتا اور کسی مسلمان کے بارے میں شرعی ثبوت کے بغیر یہ کہنا کہ اس نے غیرُاللہ کانام لے کر جانور ذبح کیا تو یہ بد گمانی ہے اور کسی مسلمان پر بد گمانی کرناحرام ہے اور حتی الامکان اس کے قول اور فعل کو صحیح وجہ پر محمول کرنا واجب ہے اور ذبح کے معاملے میں دل کے ارادے پر اس وقت تک کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا جب تک قائل اپنے ارادے کی تصریح نہ کر دے اور اگر بالفرض بعض نا سمجھ احمقوں پر شرعی ثبوت کے ساتھ ثابت ہو بھی جائے کہ انہوں نے غیرُاللہ کا نام لے کر ذبح کیا اور اس ذبح سے معاذاللہ ان کا مقصود غیر خدا کی عبادت ہے تو کفر کا حکم صرف انہیں پر ہو گا،اُن کی وجہ سے عام حکم لگا دینا اور باقی لوگوں کی بھی یہی نیت سمجھ لینا باطل ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے ربّ تعالیٰ کا نام لے کرذبح کر رہا ہے تو اس پر بد گمانی حرام و ناروا ہے اور خود سے بنائے ہوئے ذہنی تَصوُّرات پر کسی مسلمان کو معاذ اللہ کفر کا مُرتکب سمجھنا اللہ تعالٰی کے حلال کئے ہوئے کو حرام کہہ دینا ہے اور تکبیر کے وقت جو اللہ تعالٰی کا نام لیا گیا اسے باطل و بے اثر ٹھہرانا ہر گزصحیح ہونے کی کوئی وجہ نہیں رکھتا ۔اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ (انعام:۱۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے ۔
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہمیں شریعت مطہرہ نے ظاہر پر عمل کرنے کا حکم فرمایا ہے باطن کی تکلیف نہ دی تو جب اس نے اللہ تعالٰی کا نام پاک لے کر ذبح کیا توجانور کا حلال ہو نا واجب ہے کہ دل کا ارادہ جان لینے کی طرف ہمیں کوئی راہ نہیں۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۲/۲۰۱)
اس مسئلے کے بارے میں مزید تفصیل اور دلائل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 20ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ ’’سُبُلُ الْاَصْفِیَاء فِیْ حُکْمِ ذَبَائِح لِلاَوْلِیَاء‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
{فَمَنِ اضْطُرَّ:تو جو مجبور ہوجائے۔} مُضطَریعنی مجبور جسے حرام چیزیں کھانا حلال ہے وہ ہے جو حرام چیز کے کھانے پر مجبور ہو اور اس کو نہ کھانے سے جان چلی جانے کا خوف ہواور کوئی حلال چیز موجود نہ ہو خواہ بھوک یا غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو یا کوئی شخص حرام کے کھانے پر مجبور کرتا ہو اورنہ کھانے کی صورت میں جان کااندیشہ ہو ایسی حالت میں جان بچانے کے لیے حرام چیز کا قدرِ ضرورت یعنی اتنا کھالینا جائز ہے کہ ہلاکت کا خوف نہ رہے بلکہ اتنا کھانا فرض ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۱/۱۱۳)
{غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ: بخشنے والا ، مہربان۔} حالت ِ مجبوری میں حرام کھانے کی اجازت دینا اور اسے معاف رکھنا اللہ تعالٰی کی کرم نوازی کی دلیل ہے اس لئے آیت کے آخر میں مغفرت و رحمت والی صفات کا تذکرہ فرمایا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاۙ-اُولٰٓىٕكَ مَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْۖ-ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۷۴)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو چھپاتے ہیں اللہ کی اتاری کتاب اور اس کے بدلے ذلیل قیمت لے لیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ان سے بات نہ کرے گا اور نہ انہیں ستھرا کرے، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے ذلیل قیمت لیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ان سے نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں۔} کافروں کے ایک گروہ مشرکین کے اعمال کا ذکر کرنے کے بعد اب دوسرے گروہ یعنی یہودیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ پہلا گروہ اللہ تعالٰی کے حق میں کوتاہی کرنے والا تھا اور دوسرا گروہ مصطفی کریمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے حق میں کوتاہی کرنے والا ہے۔ شانِ نزول: یہودیوں کے سردار اورعلماء یہ امید رکھتے تھے کہ نبی آخر الزماں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان میں سے مبعوث ہوں گے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ سرکارِ دو عالم، محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ دوسری قوم میں سے مبعوث فرمائے گئے تو انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ لوگ توریت و انجیل میں حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف دیکھ کر آپ کی فرمانبرداری کی طرف جھک پڑیں گے اور اِن یہودی سرداروں اور علماء کے نذرانے، ہدیئے ،تحفے تحائف سب بند ہوجائیں گے، حکومت جاتی رہے گی تو اس خیال سے انہیں حسد پیدا ہوا اور توریت و انجیل میں جو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نعت و صفت اور آپ کے وقت ِنبوت کا بیان تھا انہوں نے اس کو چھپا دیا۔ اس پر یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۱/۱۱۳)
یہودیوں کے اس طرح کے طرزِ عمل پر فرمادیا گیا کہ ذاتی مفادات، مالِ دنیا اور عیش و آرام کی خاطر اللہ تعالٰی کی کتاب اور اس کے احکام، عظمت و شانِ مُصطَفَوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ چھپانے والے مال دولت سے اپنے خزانے نہیں بھر رہے بلکہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں کہ یہ حرکات انہیں جہنم میں لے جانے کا سبب ہوں گی، قیامت کے دن یہ لوگ اللہ تعالٰی سے ہم کلامی کے شرف سے محروم ہوں گے، رحمت ِالٰہی ان سے دور ہوگی، کفر و معصیت کی گندگی میں ڈوبے ہوئے ہوں گے اور انہیں کسی بھی طرح گناہوں سے پاک نہیں کیا جائے گا بلکہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ یاد رہے کہ چھپانا یہ بھی ہے کہ کتاب کے مضمون پر کسی کو مطلع نہ ہونے دیا جائے، نہ وہ کسی کو پڑھ کر سنایا جائے اورنہ دکھایا جائے اور یہ بھی چھپانا ہے کہ غلط تاویلیں کرکے معنی بدلنے کی کوشش کی جائے اور کتاب کے اصل معنی پر پردہ ڈالا جائے۔ یہودی ہرطرح کی تاویلیں کرتے تھے اور ابھی تک بہت سے لوگوں میں اس طرح کا طرزِ عمل جاری ہے قرآن پڑھ کر توحید ِ الٰہی کی غلط تشریح کرنا، عظمت ِ مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی آیات کو چھپانا، ان کے معانی بدلنا،پردے اور سود وغیرہ کے متعلق آیات کے معانی میں تحریف کرنا سب اسی فعلِ حرام میں داخل ہیں۔
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِۚ-فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ(۱۷۵)
ترجمۂکنزالایمان: وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی اور بخشش کے بدلے عذاب، تو کس درجہ انہیں آگ کی سہار ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور بخشش کے بدلے عذاب خرید لیا تویہ کتنا آگ کو برداشت کرنے والے ہیں۔
{اَلَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى: جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی۔}یعنی جو ہدایت و مغفرت یہ لوگ اختیار کرسکتے تھے اس کے چھوڑنے کو یہاں فرمایا گیا کہ انہوں نے ہدایت و مغفرت کی جگہ ضلالت و عذاب خرید لیا۔ یہ نہیں کہ ان کے پاس ہدایت و مغفرت تھی اور پھر انہوں نے اسے بیچ دیا۔ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ دنیا میں سب سے بہترین چیز ہدایت اور علم ہے اور سب سے بری چیز گمراہی اور جہالت ہے تو جب یہودی علماء نے دنیا میں ہدایت اور علم کو چھوڑ دیا اور گمراہی و جہالت پر راضی ہو گئے تو اس بات میں کوئی شک نہ رہاکہ وہ دنیا میں (اپنی جانوں کے ساتھ) انتہائی خیانت کر رہے ہیں۔نیز آخرت میں سب سے بہترین چیز مغفرت ہے اور سب سے زیادہ نقصان دہ چیز عذاب ہے تو جب انہوں نے مغفرت کو چھوڑ دیا اور عذاب پر راضی ہو گئے تو بلا شبہ وہ آخرت میں انتہائی نقصان اٹھانے والے ہیں اور جب ان کاحال یہ ہے تو لامحالہ دنیا و آخرت میں سب سے بڑے خسارے میں یہ لوگ ہیں۔اس آیت میں یہودی علماء کے بارے میں فرمایا گیا کہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا، کیونکہ وہ حق بات کو جانتے تھے اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اوصاف ظاہر کرنے میں اور ان کے بارے میں شبہات زائل کرنے میں عظیم ثواب ہے اور تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت و شان چھپانے میں اور ان سے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈالنے کی صورت میں بڑا عذاب ہے ،اس کے باوجود جب انہوں نے حق کو چھپایا تو لا محالہ انہوں نے مغفرت کے بدلے عذاب خریدلیا۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۲/۲۰۶)
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْكِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍ۠(۱۷۶)
ترجمۂکنزالایمان: یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ اتاری اور بے شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے لگے وہ ضرور پرلے سرے کے جھگڑالو ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ (سزا) اس لئے ہے کہ اللہ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور بے شک کتاب میں اختلاف کرنے والے دور کی مخالفت و ضد میں ہیں۔
{فِی الْكِتٰبِ: کتاب میں۔} کتاب سے مراد قرآن شریف ہے یا توریت شریف ،پہلی صورت میں اختلاف سے مراد ہو گا نہ ماننا اور دوسری صورت میں اس سے مراد ہو گا صحیح طور پر نہ ماننا کیونکہ یہودی قرآن کو تو بالکل نہ مانتے تھے اور توریت کو ماننے کے دعویدار تھے، مگر صحیح طور پر نہ مانتے تھے، ورنہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آتے۔ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی، اس صورت میں کتاب سے قرآن ہی مرادہوگا اور ان کا اختلاف یہ تھا کہ ان میں سے بعض قرآن کو شعر کہتے تھے ، بعض جادو اور بعض کہانت کہا کرتے تھے۔(تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۱/۱۸۱، الجزء الثانی)
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَۚ-وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِۙ-وَ السَّآىٕلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِۚ-وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَۚ-وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْاۚ-وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۱۷۷)
ترجمۂکنزالایمان: کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصل نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اور اپنا قول پورا کرنے والے جب عہد کریں اور صبر والے مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت یہی ہیں جنہوں نے اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلوبلکہ اصلی نیک وہ ہے جو اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پرایمان لائے اور اللہ کی محبت میں عزیز مال رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں اور سائلوں کو اور (غلام لونڈیوں کی) گردنیں آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے اوروہ لوگ جو عہد کرکے اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔
{لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ: اصل نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو۔} مفسرین نے اس آیت کا خاص شانِ نزول بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ خطاب اہلِ کتاب اور مؤمنین سب کو ہے اور معنی یہ ہیں کہ صرف قبلہ کی طرف منہ کرلینا اصل نیکی نہیں جب تک عقائد درست نہ ہوں اور دل اخلاص کے ساتھ ربِّ قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروری اعمال کو بجالاتے ہوئے اور دوسروں کے عمل کو حقیر اور معمولی نہ سمجھتے ہوئے کسی خاص عمل کو زیادہ رغبت و محبت اور کثرت کے ساتھ کرنا تو درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ضروری عمل مثلاً فرائض و واجبات ترک کرنے کی صورت میں یا اپنے عمل اور طریقے کے علاوہ دوسروں کے عمل اور طریقے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کسی ایک عمل کوہی اچھا سمجھنا سراسر باطل اور غلط ہے۔ مثلاً ایک آدمی روزوں کی کثرت کرتا ہے تو وہ روزے نہ رکھنے والے کو حقیر نہ سمجھے، یونہی ذکرودرود کی کثرت کرنے والا تبلیغِ دین میں مشغول آدمی کو کم تر نہ سمجھے، یونہی وعظ و نصیحت کرنے والاتحریرو تصنیف اور تدریس سے دین کی خدمت کرنے والے کو کم ترنہ سمجھے۔ یہودیوں کا رد اسی وجہ سے کیا گیا کہ ایمان صحیح اور اعمالِ صالحہ کی طرف تو آتے نہ تھے ، رشوت،حرام خوری، سود، فیصلہ کرنے میں ناانصافی، بغض و کینہ اور دیگر گناہوں میں تو دلیر تھے اور قبلہ کے مسئلہ میں حق بات معلوم ہونے کے باوجود بلاوجہ جھگڑتے تھے اور ایک خاص قبلے والا ہونے کو کافی سمجھتے تھے۔ آیت سے معلو م ہوا کہ اعمال سے ایمان مقدم ہے ، پہلے ایمان لاؤ، پھر نیک عمل کرو کیونکہ جڑ شاخوں سے پہلے ہوتی ہے۔ ایمان جڑ ہے اور اعمال شاخیں ، ایمان میں سب سے اول اللہ تعالٰی پر ایمان ہے۔
{مَنْ اٰمَنَ: جو ایمان لائے۔} آیت کے اس حصے سے لے کر آخر تک نیکی کے چھ اہم طریقے ارشاد فرمائے گئے ہیں : (۱) ایمان لانا۔ (۲) اللہ تعالٰی کی محبت میں مستحق افراد کو اپنا پسندیدہ مال دینا۔ (۳) نماز قائم کرنا۔ (۴) زکوٰۃ دینا۔ (۵) عہد پورا کرنا۔ (۶) مصیبت ، سختی اور جہاد میں صبر کرنا۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے :۔
ایمان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تو اللہ تعالٰی پر ایمان لائے کہ وہ حی و قیوم ، علیم وحکیم، سمیع وبصیر ، غنی وقدیر، ازلی و ابدی،واحد، لاشریک لہ ہے۔
دوسرا قیامت پر ایمان لائے کہ وہ حق ہے، اس میں بندوں کا حساب ہوگا، اعمال کی جزا دی جائے گی، مقبولانِ بارگاہِ الٰہی شفاعت کریں گے، حضورسید ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سعادت مندوں کو حوض کوثر پر سیراب فرمائیں گے ،پل صراط پر گزر ہوگا اور اس روز کے تمام احوال جو قرآن میں آئے یا سیدالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے بیان فرمائے سب حق ہیں۔
تیسرا فرشتوں پر ایمان لائے کہ وہ اللہ تعالٰی کی مخلوق اور فرمانبردار بندے ہیں ، نہ مردہیں نہ عورت ،ان کی تعداد اللہ تعالٰی جانتا ہے ۔چار ان میں سے بہت مقرب ہیں : (1)حضرت جبرئیل۔ (2)حضرت میکائیل۔ (3)حضرت اسرافیل۔ (4) حضرت عزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام ۔
چوتھا کتب الٰہیہ پر ایمان لانا کہ جو کتاب اللہ تعالٰی نے نازل فرمائی حق ہے ان میں چار بڑی کتابیں ہیں : (1) توریت جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (2) انجیل جو حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (3) زبور جو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہوئی۔ (4) قرآن، جو کہ حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہوئی اور اس کے علاوہ حضرت شِیث، حضرت ادریس ،حضرت آدم اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بہت سے صحیفے نازل ہوئے۔
پانچواں تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لانا کہ وہ سب اللہ تعالٰی کے بھیجے ہوئے ہیں اور معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہیں۔ان کی صحیح تعداد اللہ تعالٰی جانتا ہے ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۷، ص۴۷-۴۸)
یاد رہے کہ ایمان مفصل جو بچوں کو سکھایا جاتا ہے، اس کی اصل یہ آیت بھی ہے اور اس کے علاوہ دوسری آیات بھی ہیں۔
{وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ: اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے۔}اس سے پہلے ایمان کا بیان ہوا اور اب اعمال کا ذکر کیا جا رہا ہے اورآیت کے اس حصے میں نیکی کا دوسرا طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کی محبت میں مستحق افراد کو اپنا پسندیدہ مال دیا جائے۔
اس آیت میں مال دینے کے 6 مَصرف ذکر فرمائے گئے ہیں :۔
(1)… رشتہ داروں پر خرچ کرنا۔ حضرت سلمان بن عامررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے،تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ رشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو ثواب ہیں ایک صدقہ کرنے کا اورایک صلہ رحمی کرنے کا۔ (ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ، ۲/۱۴۲، الحدیث: ۶۵۸)
حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،سرکار دو عالم صَلَّیاللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’سب سے ا فضل صدقہ کنارہ کشی اختیار کرنے والے مخالف رشتہ دار پر صدقہ کرنا ہے۔(معجم الکبیر، حکیم بن بشیر عن ابی ایوب، ۴/۱۳۸، الحدیث: ۳۹۲۳)
(2)… یتیموں پر خرچ کرنا۔ جس نابالغ شخص کے باپ کا انتقال ہو چکا ہو اسے یتیم کہتے ہیں۔ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: کہ ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے، میں اور وہ کفالت کرنے والادونوں جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضورا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔(بخاری، کتاب الادب، باب فضل من یعول یتیماً، ۴/۱۰۱، الحدیث: ۶۰۰۵)
(3)… مسکینوں پر خرچ کرنا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسکین وہ نہیں جو لوگوں میں گھومتا رہتا ہے اور ایک لقمہ یا دو لقمے اور ایک کھجور یا دو کھجوریں لے کر چلا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی :یارسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، پھرمسکین کون ہے؟ ارشاد فرمایا جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اس کی ضروریات سے اسے مستغنی کر دے اور نہ اس کے آثار سے مسکینی اور فقر کا پتا چلے تاکہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ وہ لوگوں سے سوال کرتا ہو۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب المسکین الذی لا یجد غنی۔۔۔ الخ، ص۵۱۷، الحدیث: ۱۰۱(۱۰۳۹))
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ ایک لقمہ روٹی اور ایک مُٹھی خُرما اور اس کی مثل کوئی اور چیز جس سے مسکین کو نفع پہنچے، اُن کی وجہ سے اللہ تعالٰی تین شخصوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے، ایک صاحب خانہ جس نے حکم دیا، دوسری زوجہ کہ اسے تیار کرتی ہے، تیسرے خادم جو مسکین کو دے کر آتا ہے، پھر حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: حمد ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے جس نے ہمارے خادموں کو بھی نہ چھوڑا۔ (یعنی رحمت سے محروم نہ چھوڑا۔) (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴/۸۹، الحدیث: ۵۳۰۹)
(4)… مسافروں پر خرچ کرنا۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ مومن کو اس کے عمل اور نیکیوں سے مرنے کے بعد بھی یہ چیزیں پہنچتی رہتی ہیں۔ علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اشاعت کی ۔ نیک اولاد جسے چھوڑ کر مرا ہے یا مُصحف جسے میراث میں چھوڑا یا مسجد بنائی یا مسافر کے لیے مکان بنادیا نہر جاری کردی یا اپنی صحت اور زندگی میں اپنے مال میں سے صدقہ نکال دیا جو اس کے مرنے کے بعد اس کو ملے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب ثواب معلّم الناس الخیر، ۱/۱۵۷، الحدیث: ۲۴۲)
(5)…سائلوں کو دینا۔ یاد رہے کہ صرف ا س سائل کو اپنا مال دے سکتے ہیں جسے سوال کرنا شرعی طور پر جائز ہو جیسے مسکین، جہاد اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول افراد وغیرہ، اور جسے سوال کرنا جائز نہیں اس کے سوال پر اسے دینا بھی ناجائز ہے اور دینے والا گناہگار ہو گا، البتہ بعض لوگوں کو سوال کرنا جائز نہیں ہوتا لیکن ضرورت مند ہوتے ہیں انہیں بغیر مانگے دینا جائز ہے جیسے فقیر۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آج کل ایک عام بلا یہ پھیلی ہوئی ہے کہ اچھے خاصے تندرست چاہیں تو کما کر اوروں کو کھلائیں ، مگر انہوں نے اپنے وجود کو بیکار قرار دے رکھا ہے، کون محنت کرے مصیبت جھیلے، بے مشقت جو مل جائے تو تکلیف کیوں برداشت کرے۔ ناجائز طور پر سوال کرتے اور بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں کہ مزدوری تو مزدوری، چھوٹی موٹی تجارت کو ننگ و عار خیال کرتے اور بھیک مانگنا کہ حقیقۃً ایسوں کے لیے بے عزتی و بے غیرتی ہے مایۂ عزت جانتے ہیں اور بہت ساروں نے تو بھیک مانگنا اپنا پیشہ ہی بنا رکھا ہے، گھر میں ہزاروں روپے ہیں ، سود کا لین دین کرتے، زراعت وغیرہ کرتے ہیں مگر بھیک مانگنا نہیں چھوڑتے، اُن سے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشہ ہے واہ صاحب واہ! کیا ہم اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔ حالانکہ ایسوں کو سوال حرام ہے اور جسے اُن کی حالت معلوم ہو، اُسے جائز نہیں کہ ان کو دے۔(بہار شریعت، حصہ پنجم، سوال کسے حلال ہے اور کسے نہیں ، ۱/۹۴۰-۹۴۱)
(6)… گردنیں چھڑانے میں خرچ کرنا۔ گردنیں چھڑانے سے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنا مراد ہے۔ حضرت ابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو مسلمان مرد کسی مسلمان مرد کو آزاد کرے گا، اللہ تعالٰی غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے نجات دے گا۔ حضرت سعید بن مرجانہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں :جب میں نے حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ حدیث سنی اورمیں نے جا کر ا س کا ذکر حضرت علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے کیا تو انہوں نے اپنے ایک ایسے غلام کو آزاد کر دیا جس کی حضرت عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار قیمت دے رہے تھے۔(مسلم، کتاب العتق، باب فضل العتق، ص۸۱۲، الحدیث: ۲۴(۱۵۰۹))
یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر صدقات ِ واجبہ ہوں تو اس کے دیگر احکام کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
اللہ تعالٰی کی راہ میں رضائے الٰہی کی خاطر پیارا مال دینا چاہیے نیز زندگی و تندرستی میں دے جب خود اسے بھی مال کی ضرورت ہو کیونکہ اس وقت مال زیادہ پیارا ہوتا ہے۔اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(دہر:۸،۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں خاص اللہ کی رضاکے لیے کھانا کھلاتے ہیں ، ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکر یہ نہیں چاہتے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۂ ال عمران۹۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم ہرگزبھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو۔
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک آدمی نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہیارسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ،کونسا صدقہ ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ جب کہ تم تندرستی کی حالت میں صدقہ دو اور تمہیں خود مال کی ضرورت ہو اور تنگدستی کاخوف بھی ہو اور مالداری کا اشتیاق بھی۔ یہ نہ ہو کہ جان گلے میں آ پھنسے اور کہے کہ اتنا فلاں کے لئے اور اتنافلاں کے لئے حالانکہ اب تو وہ فلاں کا ہوچکا۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب ایّ الصدقۃ افضل۔۔۔ الخ، ۱/۴۷۹، الحدیث: ۱۴۱۹)
{وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ: اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دے۔}آیت کے اس حصے میں نیکی کا تیسرا اور چوتھا طریقہ بیان کیا گیا کہ فرض نمازیں ان کے ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرے اور اس کے مال میں جو زکوٰۃ واجب ہو اسے ادا کرے۔
{وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ: اور اپنے عہد پورا کرنے والے۔}یہاں نیکی کے پانچویں طریقے کابیان ہے اور اس آیت میں عہد سے سارے جائز وعدے مراد ہیں خواہ اللہ تعالٰی سے کئے ہوں یا رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے یا اپنے شیخ سے یا نکاح کے وقت بیوی سے یا کسی اور سے جیسے حکمرانوں کے وعدے عوام سے، بشرطیکہ جائز وعدے ہوں ، ناجائز وعدوں کو پورا کرنے کی اجازت نہیں۔
{وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ:اور مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے وقت صبرکرنے والے۔} آیت کے اس حصے میں نیکی کے چھٹے طریقے کا بیان ہے کہ فَقر و فاقہ اور بیماری وغیرہ کی مصیبت و سختی میں اور راہ خدا میں ہونے والی جنگ میں قتال کے وقت صبر کیا جائے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۷، ۱/۱۱۵)
یاد رہے کہ اس آیت میں صبر کے چند مقامات بیان ہوئے ،ان کے علاوہ بھی صبر کے بہت سے مقامات ہیں ، نیز صبر کے فضائل سورہ ٔبقرہ کی آیت نمبر 153کے تحت گزر چکے ہیں۔
{اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ: یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ }یعنی صحیح عقائد رکھنے والے اور نماز، زکوٰۃ، صدقات کے عامل، صبر کے عادی، وعدے کے پابند اور نیک اعمال کرنے والے ہی اپنےدعوی ایمان میں کامل طور پرسچے ہیں جو کفر اور دیگرتمام گناہوں سے بچنے والے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں بھی اپنے ایمان کا دعویٰ پرکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰىؕ-اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىؕ-فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍؕ-ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۷۸)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو بھلائی سے تقا ضا ہو اور اچھی طرح ادا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا فرض کردیا گیا، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دیدی جائے تو اچھے طریقے سے مطالبہ ہو اور وارث کو اچھے طریقے سے ادائیگی ہو۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی اور رحمت ہے ۔ تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
{ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى: تم پر مقتولوں کے خون کا بدلہ لینا فرض کردیا گیا۔} یہ آیت اَوس اور خَزرج کے بارے میں نازل ہوئی ،ان میں سے ایک قبیلہ دوسرے سے قوت، تعداد، مال و شرف میں زیادہ تھا۔ اُس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک کے بدلے دو کو قتل کرے گا، زمانہ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی زیادتیوں کے عادی تھے۔ عہد اسلام میں یہ معاملہ حضور سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں پیش ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی اور عدل و مساوات کا حکم دیا گیا ۔ا س پر وہ لوگ راضی ہوئے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸،۱/۲۱۳)
قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے، اس آیت میں قصاص اور معافی دونوں مسئلے ہیں اور اللہ تعالٰی کے اس احسان کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو قصاص اورمعافی میں اختیار دیا ہے۔اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول سے اسلام کی نظر میں خونِ انسان کی حرمت کا بھی علم ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر قصاص واجب ہے خواہ اس نے آزاد کو قتل کیا ہو یا غلام کو، مرد کو قتل کیا ہو یا عورت کو کیونکہ آیت میں ’’قَتْلٰى‘‘ کا لفظ جو قتیل کی جمع ہے وہ سب کو شامل ہے۔ البتہ کچھ افراد اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ نیز اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو قتل کرے گا وہی قتل کیا جائے گاخواہ آزاد ہو یا غلام ،مرد ہو یا عورت اور زمانۂ جاہلیت کی طرح نہیں کیا جائے گا ، ان میں رائج تھا کہ آزادوں میں لڑائی ہوتی تو وہ ایک کے بدلے دو کو قتل کرتے، غلاموں میں ہوتی تو بجائے غلام کے آزاد کو مارتے، عورتوں میں ہوتی تو عورت کے بدلے مرد کو قتل کرتے اور محض قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ بعض اوقات بہت بڑی تعداد میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رکھتے۔ ان سب چیزوں سے منع کردیا گیا ۔
{فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ: تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دیدی جائے۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جس قاتل کو مقتول کے اولیاء کچھ معاف کریں جیسے مال کے بدلے معاف کرنے کا کہیں تو یہاں قاتل اور اولیاءِ مقتول دونوں کو اچھا طریقہ اختیار کرنے کا فرمایا گیا ہے۔ مقتول کے اولیاء سے فرمایا کہ اچھے انداز میں مطالبہ کریں ، شدت و سختی نہ کریں اور قاتل سے فرمایا کہ وہ خون بہاکی ادائیگی میں اچھا طریقہ اختیار کرے ۔ آیت میں قاتل اور مقتول کے وارث کو بھائی کہا گیا اس سے معلوم ہوا کہ قتل اگرچہ بڑاگناہ ہے مگر اس سے ایمانی بھائی چارہ ختم نہیں ہوجاتا۔ اس میں خارجیوں کے مذہب کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں۔اہلسنّت کا عقیدہ یہ ہے کہ گناہ ِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے کافر نہیں۔
(1)… مقتول کے ولی کو اختیار ہے کہ خواہ قاتل کو بغیر عوض معاف کردے یامال پر صلح کرے اوراگر وہ اس پر راضی نہ ہو اور قصاص چاہے تو قصاص ہی فرض رہے گا۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸،۱/۲۱۳)
(2) …اگر مال پر صلح کریں تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے اور مال واجب ہوتا ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ص۵۲)
مزید تفصیلات کیلئے بہارِ شریعت حصہ 17کا مطالعہ فرمائیں۔
{فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ: تو جو اس کے بعد زیادتی کرے۔}یعنی دستورِ جاہلیت کے مطابق غیر ِقاتل کو قتل کرے یادِیَت قبول کرنے اور معاف کرنے کے بعد قتل کرے تو اس کیلئے دردناک عذاب ہے۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ص۹۵)
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۷۹)
ترجمۂکنزالایمان:اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقل مندو کہ تم کہیں بچو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اوراے عقل مندو! خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے تاکہ تم بچو۔
{وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ: خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے۔} قصاص میں قوموں اور لوگوں کی حیات بیان کی گئی ہے۔ جس قوم میں ظالم کی پردہ پوشی اور حمایت کی جائے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے اور جہاں ظالم اور مجرم کو سزا دی جائے وہاں جرائم خود بخود کم ہوجاتے ہیں۔ ایک محلے سے لے کر عالمی سطح تک کے مجرموں میں یہی ایک فلسفہ کار فرما ہے۔ آپ غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ جن ممالک میں جرائم پر سخت سزائیں نافذ ہیں وہاں کے جرائم کی تعداد اور جہاں مجرموں کو سزائیں نہیں دی جاتیں وہاں جرائم کی تعداد کتنی ہے۔
كُتِبَ عَلَیْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَكَ خَیْرَاﰳ ۖۚ الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِۚ-حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَؕ(۱۸۰)
ترجمۂکنزالایمان: تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کرجائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے موافق دستور یہ واجب ہے پرہیزگاروں پر۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے (تو) اگر وہ کچھ مال چھوڑے تو اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لئے اچھے طریقے سے وصیت کرجائے۔ یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے ۔
{كُتِبَ عَلَیْكُمْ: تم پر فرض کیا گیا ہے۔} جب تک اسلام میں میراث کے احکام نہیں آئے تھے اس وقت تک مرنے والے پر اپنے مال کے بارے میں وصیت کرنا واجب تھا کیونکہ اس وقت صرف وصیت کے مطابق مال تقسیم ہوتا تھا جب میراث کے احکام آگئے تو وصیت کا حکمِ وجوب منسوخ ہو گیا۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ص۵۴)
یاد رہے کہ وصیت واجب ہونے کا حکم اگرچہ منسوخ ہو چکا لیکن وصیت کا جواز اب بھی باقی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ ا س کے پاس کچھ مال ہو اور وہ دو راتیں ا س طرح گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الوصایا، باب الوصایا وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: وصیۃ الرجل۔۔۔ الخ، ۲/۲۳۰، الحدیث: ۲۷۳۸)
البتہ ایک تہائی تک وصیت ہوسکتی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ وصیت مال کے تہائی حصے میں ہے اور تہائی بہت ہے۔(بخاری، کتاب الوصایا، باب الوصیۃ بالثلث، ۲/۲۳۲، الحدیث: ۲۷۴۳)
اور یہ بھی یاد رہے کہ وارث کیلئے وصیت درست نہیں۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالٰی نے ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے ، خبردار! وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔(ابن ماجہ، کتاب الوصایا، باب لا وصیۃ لوارث، ۳/۳۱۰، الحدیث: ۲۷۱۳)
البتہ اگر وُرثاء راضی ہوں تو تہائی سے زیادہ میں بھی وصیت ہوسکتی ہے اور وارث کیلئے بھی وصیت ہوسکتی ہے۔ وصیت کرتے ہوئے بھی ورثاء کا خیال رکھنا چاہیے چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’تمہارا اپنے عیال کو غنی چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں محتاج چھوڑے اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیں۔(بخاری، کتاب الوصایا، باب ان یترک ورثتہ اغنیاء خیر۔۔۔ الخ، ۲/۲۳۲، الحدیث: ۲۷۴۲)
اور یہ بھی یاد رہے کہ اگرمال کثیر ہو تو وصیت کرنا افضل ہے اور اگر مال قلیل ہو تو وصیت نہ کرنا افضل ہے۔ یونہی وصیت کرنے کی صورت میں تہائی سے کم ہی کرنا افضل ہے۔(عالمگیری، کتاب الوصایا، الباب الاول، ۶/۹۰)
فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌؕ(۱۸۱)
ترجمۂکنزالایمان:تو جو وصیت کو سن سنا کر بدل دے اس کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہے بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جو وصیت کو سننے کے بعد اسے تبدیل کردے تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہی ہے، بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
{فَمَنْۢ بَدَّلَهٗ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ: پھر جو وصیت کو سننے کے بعد اسے تبدیل کردے۔} وصیت کرنے کے بعد زندگی کے اندر اندر وصیت کرنے والے کو تو وصیت تبدیل کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن فوت ہونے کے بعد کسی دوسرے شخص کو وصیت میں تبدیلی کی اجازت نہیں خواہ وصی تبدیل کرے یا گواہ یا کوئی اور۔ یونہی وصیت کے کاغذات میں تبدیلی کی جائے یا مال کی تقسیم میں۔ افسوس کہ مال کی محبت میں لوگ وصیتوں میں بہت ہیر پھیر کرتے ہیں ، وصیت چھپا دیتے ہیں ، جعلی وصیت نامے بنالیتے ہیں ، وصیت میں تبدیلی کردیتے ہیں ، وصیت پر عمل نہیں کرتے۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی یاد رہے کہ وصیت کے بارے میں ضروری ہے کہ شریعت نے جو قوانین بنائے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ ان سے ہٹ کر عمل کی اجازت نہیں مثلاً ورثاء راضی نہ ہوں پھر بھی تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کردی جائے اور اس پر عمل کرلیا جائے۔ یہ سب ناجائز و حرام ہے۔
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۸۲)
ترجمۂکنزالایمان: پھر جسے اندیشہ ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلح کرادی اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جس کو وصیت کرنے والے کی طرف سے جانبداری یا گناہ کا اندیشہ ہوتو وہ ان کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{فَمَنْ خَافَ: تو جسے اندیشہ ہو۔} اگر کسی عالم یا حاکم یا وصی یا رشتے داروغیرہ کو معلوم ہو کہ مرنے والا وصیت میں کسی پر زیادتی کر رہا ہے یا شرعی احکام کی پابندی نہیں کررہا تو مرنے والے کو سمجھا بجھا کر وصیت درست کرا دے تو یہ شخص گنہگارنہیں بلکہ اپنے نیک عمل کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہوگا۔ یونہی اگر فوت ہونے والا تو غلط وصیت کرگیالیکن بعد میں کوئی حاکم یا عالم یا رشتے داروغیرہ یہ لوگ مُوصٰی لہ یعنی جس کے حق میں وصیت کی گئی اس میں اور وارثوں میں شرع کے موافق صلح کرادے تو گنہگار نہیں بلکہ مستحقِ ثواب ہوسکتا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
{ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ: تم پر روزے فرض کیے گئے۔} اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔’’شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔‘‘(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۳، ۱/۱۱۹)
اس آیت میں فرمایا گیا ’’جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ یاد رہے کہ رمضان کے روزے10 شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے تھے۔(در مختار، کتاب الصوم، ۳/۳۸۳)
آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى (نازعات: ۴۰،۴۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطعِ شہوت ہے۔(بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم، ۳/۴۲۲، الحدیث: ۵۰۶۶)
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍؕ-فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕ-وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴)
ترجمۂکنزالایمان: گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھاناپھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: گنتی کے چند دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہواُن پر ایک مسکین کا کھانا فدیہ ہے پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور اگر تم جانو تو روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔
{اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ: گنتی کے چند دن ہیں۔} فرض روزے گنتی کے دن ہیں یعنی صرف رمضان کا ایک مہینہ ہے جو انتیس دن کا ہوگا یا تیس دن کا۔ لہٰذا گھبرا نے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ذہن میں رکھو کہ جس رب عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں گیارہ ماہ کھلایا پلایا ، وہ اگر ایک ماہ صرف دن کے وقت کھانے پینے سے منع فرما دے اور اس فاقے میں بھی تمہارے جسم و روح، ظاہر و باطن، دنیا و آخرت کا فائدہ ہو تو ضرور اس کی اطاعت کرو۔
{فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا: تو تم میں جو کوئی بیمار ہو۔} حیض ونفاس والی عورت کو تو روزہ رکھنے کی اجازت ہی نہیں وہ تو بعد میں قضا کرے گی ۔ اس کے علاوہ بھی چند افراد ہیں جنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ آیت میں بطورِ خاص بیمار اور مسافر کو رخصت دی گئی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ سفر سے مراد تین دن کی مسافت یعنی ساڑھے ستاون میل یعنی بانوے کلو میٹر ہے۔ اس سے کم سفر ہے تو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(درّ مختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم،۳/۴۶۲-۴۶۳)
مریض کو بھی رخصت ہے جبکہ اسے روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاک ہونے کا اندیشہ ہوتو یہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں ممنوع ایام کے علاوہ اوردنوں میں روزہ رکھ لے۔
البتہ یہ یاد رہے کہ مریض کو محض زیادہ بیماری کے یا ہلاکت کے صرف وہم کی بنا پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ کسی دلیل یا سابقہ تجربہ یا کسی ایسے طبیب کے کہنے سے غالب گمان حاصل ہو جو طبیب ظاہری طور پر فاسق نہ ہو۔(رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم، ۳/۴۶۴)
(1)…جو فی الحال بیمار نہ ہو لیکن مسلمان ماہرطبیب یہ کہے کہ وہ روزے رکھنے سے بیمار ہوجائے گا وہ بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے۔
(2) …حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کا یا اس کے بیمار ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس کوبھی افطار جائز ہے۔
(3)…جس مسافر نے طلوعِ فجر سے قبل سفر شروع کیا اس کو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے لیکن جس نے طلوعِ فجر کے بعد سفر کیا اس کو اُس دن کا روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(بہار شریعت، حصہ پنجم، ۱/۱۰۰۳)
{فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ: ایک مسکین کا فدیہ۔} شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہو گئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا،جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے اورنہ آئندہ ہی اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہو کہ روزہ رکھ سکے‘‘ اس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیے کے طور پر نصف صاع یعنی اسی گرام کم دو کلو گندم یا اس کا آٹا دیدے یا اس کی قیمت دیدے اور اگر فدیہ جَو سے دینا ہو تو گندم سے دُگنا دینا ہوگا۔(درّ مختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم،۳/۴۷۱-۴۷۲)
یہ بھی یاد رہے کہ اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی قوت آگئی تو روزہ رکھنا لازم ہوجائے گا۔(عالمگیری، کتاب الصوم، الباب الخامس، ۱/۲۰۷)
مسئلہ: اگر کوئی شیخ فانی غریب و نادار ہواور فدیہ دینے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اللہ تعالٰی سے استغفار کرتا رہے۔(درّ مختار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم،۳/۴۷۲)
{فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ:پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔}فدیہ کی مقدار تو مخصوص ہے لیکن اگر کوئی زیادہ دینا چاہے تو بخوشی دے سکتا ہے۔ جتنا زیادہ دے گا اتنا ہی ثواب بڑھتا جائے گا۔ جیسے بعض صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے نماز کے خشوع و خضوع میں فرق پڑنے پر پورا باغ صدقہ کردیا۔یہاں یہ مسئلہ بھی یاد رہے کہ مسافر و مریض کو روزہ نہ رکھنے کی اگرچہ اجازت ہے لیکن زیادہ بہتر و افضل روزہ رکھنا ہی ہے جیساکہ آیت کے آخر میں فرمایا:
وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارا روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے۔
طبی لحاظ سے روزوں کے بے شمار فوائد ہیں ،ان میں سے6 فوائد درج ذیل ہیں :
(1)…روزہ رکھنے سے معدے کی تکالیف اور ا س کی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور نظام ہضم بہتر ہو جاتا ہے۔
(2)…روزہ شوگر لیول،کولیسٹرول اوربلڈ پریشر میں اعتدال لاتا ہے اور ا س کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ نہیں رہتا۔
(3)…روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے اور ا س کی وجہ سے دل کوانتہائی فائدہ مند آرام پہنچتا ہے۔
(4)…روزے سے جسمانی کھچاؤ، ذہنی تناؤ ، ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے ۔
(5)…روزہ رکھنے سے موٹاپے میں کمی واقع ہوتی اور اضافی چربی ختم ہو جاتی ہے۔
(6)…روزہ رکھنے سے بے اولادخواتین کے ہاں اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ابھی چند سال ہوئے ماہِ رجب میں حضرت والد ماجد قَدَّسَ اللہُ سِرَّہُ الشَّرِیْف خواب میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا :اب کی رمضان میں مرض شدید ہو گا،روزہ نہ چھوڑنا۔ ویسا ہی ہوا ا ور ہر چند طبیب وغیرہ نے کہا (مگر) میں نے بِحَمْدِاللہ تَعَالٰیروزہ نہ چھوڑا اور اسی کی برکت نےبفضلہ تعالیٰ شفا دی کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے:’’صُوْمُوْا تَصِحُّوْا‘‘ روزہ رکھو تندرست ہو جاؤ گے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ موسی، ۶/۱۴۶، الحدیث: ۸۳۱۲، ملفوظات، حصہ دوم، ص۲۰۶)
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)
ترجمۂکنزالایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمارہو یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور ( یہ آسانیاں اس لئے ہیں ) تاکہ تم (روزوں کی) تعداد پوری کرلو اور تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اورتاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
{شَهْرُ رَمَضَانَ: رمضان کا مہینہ۔} اس آیت میں ماہِ رمضان کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے اوراس کی دو اہم ترین فضیلتیں ہیں ، پہلی یہ کہ اس مہینے میں قرآن اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کے لئے اس مہینے کا انتخاب ہوا۔اس مہینے میں قرآن اترنے کے یہ معانی ہیں :
(1)… رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا۔
(2)… قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان میں ہوئی۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۵، ۲/۲۵۲-۲۵۳)
(3)… مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا،(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۵،۱/۱۲۱)
یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فَوقتاً حکمت کے مطابق جتنا جتنااللہ تعالٰی کو منظور ہوا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام لاتے رہے اوریہ نزول تیئس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔
رمضان وہ واحد مہینہ ہے کہ جس کا نام قرآن پاک میں آیا اورقرآن مجید سے نسبت کی وجہ سے ماہِ رمضان کو عظمت و شرافت ملی ۔اس سے معلوم ہوا کہ جس وقت کو کسی شرف و عظمت والی چیز سے نسبت ہو جائے وہ قیامت تک شرف والا ہے۔اسی لئے جس دن اور گھڑی کو حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادت اور معراج سے نسبت ہے وہ عظمت و شرافت والے ہوگئے، جیسے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی روزِ جمعہ پیدائش پر جمعہ کا دن عظمت والا ہوگیا۔(مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۷(۸۵۴))
حضرت یحییٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش ، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر قرآن میں سلام فرمایا گیا۔ (مریم: ۱۵) اسی طرح حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اپنی پیدائش، وصال اور زندہ اٹھائے جانے کے دن پر سلام فرمانا قرآن میں مذکور ہے۔(مریم: ۳۳)
{ وَ الْفُرْقَانِ: اور حق و باطل میں فرق کرنے والا۔}زیر تفسیر آیت میں قرآن مجیدکی تین شانیں بیان ہوئیں :
(۱)… قرآن ہدایت ہے،(۲)… روشن نشانیوں پرمشتمل ہے اور(۳) …حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔ قرآن شریف کے23نام ہیں اور یہاں قرآن مجیدکا دوسرا مشہور نام فرقان ذکر کیا گیاہے۔
{یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ: اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے۔} اللہ تعالٰی نے اپنی عبادت ہم پر فرض فرمائی لیکن اپنی رحمت سے ہم پرتنگی نہیں کی بلکہ آسانی فرماتے ہوئے متبادل بھی عطا فرمادئیے۔ روزہ فرض کیا لیکن رکھنے کی طاقت نہ ہو تو بعد میں رکھنے کی اجازت دیدی، بعض صورتوں میں فدیہ کی اجازت دیدی، کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اشارے سے پڑھنے کی اجازت دیدی، ایک مہینہ روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ مہینے دن میں کھانے کی اجازت دیدی اور رمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اجازت دی بلکہ سحری و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا۔ گنتی کے چند جانوروں کا گوشت حرام قرار دیا تو ہزاروں جانوروں ، پرندوں کا گوشت حلال فرمادیا۔ کاروبار کے چند ایک طریقوں سے منع کیا تو ہزاروں طریقوں کی اجازت بھی عطا فرمادی۔ مرد کو ریشمی کپڑے سے منع کیا تو بیسیوں قسم کے کپڑے پہننے کی اجازت دیدی۔ الغرض یوں غور کریں تو آیت کا معنیٰ روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم پر آسانی چاہتا ہے اور وہ ہم پر تنگی نہیں چاہتا۔
{وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ: اور تاکہ تم گنتی پوری کرو۔} گنتی پوری کرنے سے مراد رمضان کے انتیس یا تیس دن پورے کرنا ہے اور تکبیر کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے دین کے طریقے سکھائے تو تم اس پر اللہ تعالٰی کی بڑائی بیان کرو اور ان چیزوں پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرو۔
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ(۱۸۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے حبیب! جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں نزدیک ہوں ، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے تو انہیں چاہئے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پائیں۔
{وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ: اور اے حبیب! جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں۔} اس آیت میں طالبانِ حق کی طلب ِمولیٰ کا بیان ہے۔ جنہوں نے عشق الٰہی میں اپنی خواہشات کو قربان کردیا ،وہ اُسی کے طلبگار ہیں۔ ان حضرات کو قرب ووصالِ الٰہی کی خوشخبری دی جارہی ہے ۔شانِ نزول :صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی ایک جماعت نے جذبہ عشق الٰہی میں سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ ہمارا ربعَزَّوَجَلَّ کہاں ہے؟ اس پر بتایا گیا کہ اللہ تعالٰی مکان سے پاک ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۶،۱/۱۲۳)
کیونکہ جو چیز کسی سے مکان کے اعتبار سے قرب رکھتی ہو وہ اس کے دور والے سے ضروردوری پر ہوتی ہے اور اللہ تعالٰی سب بندوں سے قریب ہے۔ قرب ِ الٰہی کی منازل تک رسائی بندے کو اپنی غفلت دور کرنے سے میسر آتی ہے۔ فارسی کا شعر ہے:
دوست نزدیک تراز من بمن ست ویں عجب ترکہ من ازوے دورم
ترجمہ: میرا دوست مجھ سے بھی زیادہ میرے نزدیک ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ میں اس سے دور ہوں۔
{اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ:میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے۔} دعا کا معنیٰ ہے اپنی حاجت پیش کرنا اور اِجابت یعنی قبولیت کا معنیٰ یہ ہے کہ پروردگار عَزَّوَجَلَّ اپنے بندے کی دعا پر ’’ لَبَّیْکَ عَبْدِیْ‘‘ فرماتا ہے البتہ جو مانگا جائے اسی کاحاصل ہو جانا دوسری چیز ہے۔ اللہ تعالٰی کے کرم سے کبھی مانگی ہوئی چیز فوراً مل جاتی ہے اور کبھی کسی حکمت کی وجہ سے تاخیر سے ملتی ہے۔ کبھی بندے کی حاجت دنیا میں پوری کردی جاتی ہے اورکبھی آخرت میں ثواب ذخیرہ کردیا جاتا ہے اور کبھی بندے کا نفع کسی دوسری چیز میں ہوتاہے تو مانگی ہوئی چیز کی بجائے وہ دوسری عطا ہو جاتی ہے۔ کبھی بندہ محبوب ہوتا ہے اس کی حاجت روائی میں اس لیے دیر کی جاتی ہے کہ وہ عرصہ تک دعا میں مشغول رہے۔ کبھی دعا کرنے والے میں صدق و اخلاص وغیرہ قبولیت کی شرائط نہیں ہوتیں اس لئے منہ مانگی مراد نہیں ملتی۔ اسی لیے اللہ تعالٰی کے نیک اور مقبول بندوں سے دعا کرائی جاتی ہے تاکہ ان کی دعا کے صدقے گناہگاروں کی بگڑی بھی سنور جائے ۔ دعا کے بارے میں تفصیل جاننے کیلئے ’’فیضانِ دعا‘‘ کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔([1])
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىٕكُمْؕ-هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْۚ-فَالْــٴٰـنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ۪-وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۪-ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِۚ-وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَۙ- فِی الْمَسٰجِدِؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَاؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(۱۸۷)
ترجمۂکنزالایمان: روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال ہوا وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا تو اب ان سے صحبت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہواور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے پوپھٹ کرپھر رات آنے تک روزے پورے کرواور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیزگاری ملے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا، وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو ۔ اللہکو معلوم ہے کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمادیا تو اب ان سے ہم بستری کرلو اور جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہوا ہے اسے طلب کرو اور کھاؤ اور پیویہاں تک کہ تمہارے لئے فجر سے سفیدی (صبح) کا ڈورا سیاہی(رات) کے ڈورے سے ممتاز ہوجائے پھر رات آنے تک روزوں کو پورا کرو اور عورتوں سے ہم بستری نہ کرو جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں توان کے پاس نہ جاؤ ۔اللہ یونہی لوگوں کے لئے اپنی آیات کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار ہوجائیں۔
{اُحِلَّ لَكُمْ: تمہارے لئے حلال کر دیا گیا۔} شانِ نزول:شروع اسلام میں افطار کے بعد کھانا پینا، جماع کرنا نمازِ عشاء تک حلال تھا، نمازِ عشا ء کا وقت شروع ہونے کے بعدیہ سب چیزیں بھی حرام ہوجاتی تھیں، یونہی سونے کے بعد بھی یہ چیزیں حرام ہوجاتی تھیں اگرچہ ابھی عشاء کا وقت شروع نہ ہوا ہو۔بعض صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے رمضان کی راتوں میں ہم بستری کا فعل سرزد ہوا۔ اس پروہ حضرات نادم ہوئے اور بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ میں صورتِ حال عرض کی تو آیت اتری۔(جلالین وصاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷،۱/۱۵۶،۱۵۷)
اور فرمادیا گیا کہ آئندہ تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا حلال کردیا گیانیز اللہ تعالٰی کو معلوم ہے کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے رہے ہو لیکن اللہ تعالٰی نے تمہیں معاف فرمادیااور آئندہ کیلئے اجازت بھی عطا فرمادی۔ آیت میں خیانت سے وہ ہم بستری مراد ہے جو اجازت سے پہلے رمضان کی راتوں میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی تھی۔
{وَ ابْتَغُوْا: اور تلاش کرو۔} اللہ تعالٰی کے لکھے ہوئے کو طلب کرنے سے مراد یا تو یہ ہے کہ عورتوں سے ہم بستری اولاد حاصل کرنے کی نیت سے ہونی چاہیے جس سے مسلمانوں کی افرادی قوت میں اضافہ ہو اور دین قوی ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد شرعی طریقے کے مطابق یہ فعل کرنا ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ص۶۹)
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جو اللہ تعالٰی نے لکھا اس کو طلب کرنے کے معنی ہیں رمضان کی راتوں میں کثرت سے عبادت کرنا اور بیدار رہ کر شب قدر کی جستجو کرنا۔ (تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲/۲۷۲)
{وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا: اور کھاؤ اور پیو۔} یہ آیت حضرت صَرمہ بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمحنتی آدمی تھے، ایک دن روزے کی حالت میں دن بھر اپنی زمین میں کام کرکے شام کو گھر آئے، بیوی سے کھانا مانگا، وہ پکانے میں مصروف ہوگئیں اوریہ تھکے ہوئے تھے اس لئے ان کی آنکھ لگ گئی، جب بیوی نے کھانا تیار کرکے انہیں بیدار کیاتو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا کیونکہ اس زمانہ میں سوجانے کے بعد روزہ دار پر کھانا پینا ممنوع ہوجاتا تھا ۔ چنانچہ اسی حالت میں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے دوسرا روزہ رکھ لیا جس سے کمزوری انتہا کو پہنچ گئی اوردوپہر کے وقت بیہوش ہوگئے ۔ تاجدار رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ان کا حال بیان کیا گیا تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۷،۱/۱۲۶، بخاری، کتاب الصوم، باب قول اللہ جل ذکرہ: احلّ لکم۔۔۔ الخ، ۱/۶۳۱، الحدیث: ۱۹۱۵)
اور رمضان کی راتوں میں کھانا پینا مباح فرمادیا گیا۔آیت میں سفید اور سیاہ ڈورے کا تذکرہ ہے۔ اس سے رات کو سیاہ ڈورے سے اور صبح صادق کو سفید ڈورے سے تشبیہ دی گئی ہے اور معنی یہ ہیں کہ تمہارے لیے کھانا پینا رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک جائز کردیا گیا۔
یاد رہے کہ بغیر افطار کئے اگلا روزہ رکھ لینا اوریوں مسلسل روزے رکھنا صومِ وصال کہلاتا ہے اور یہ ممنوع ہیں۔ اس کی اجازت صرف حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو تھی اور یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے:رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو صوم ِوصال کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو انہوں نے عرض کی:آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا :تم میں میرے جیسا کون ہے مجھے تو میرا رب عَزَّوَجَلَّکھلاتا اور پلاتا ہے۔(بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفر والردۃ، باب کم التعزیر والادب، ۴/۳۵۲، الحدیث: ۶۸۵۱)
{وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَۙ-فِی الْمَسٰجِدِ: جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔} اس میں بیان ہے کہ رمضان کی راتوں میں روزہ دار کے لیے بیوی سے ہم بستری حلال ہے جبکہ وہ معتکف نہ ہولیکن اعتکاف میں عورتوں سے میاں بیوی والے تعلقات حرام ہیں۔
اس آیت میں اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ایک شرعی مسئلے کا بیان ہوا، اسی مناسبت سے ہم یہاں اعتکاف کے بارے میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا عمل مبارک،ا عتکاف کے فضائل اور اعتکاف سے متعلق مزید مسائل بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاسے مروی ہے کہ حضور پر نورصَلَّیاللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو وفات دی اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اعتکاف کیا کرتیں۔(بخاری، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر۔۔۔ الخ، ۱/۶۶۴، الحدیث:۲۰۲۶)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضورا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا،پھر ایک ترکی خیمہ میں رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا جس کے دروازے پر چٹائی لگی ہوئی تھی۔آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ چٹائی ہٹائی اور خیمہ کے ایک کونے میں کر دی،پھر خیمہ سے سر باہر نکالا اور لوگوں سے فرمایا:’’میں اس رات (یعنی لیلۃ القدر)کی تلاش میں پہلے عشرے کا اعتکاف کرتا تھا،پھر میں درمیانی عشرہ میں اعتکاف بیٹھا،پھر میرے پاس کوئی(فرشتہ ) آیا تو میری طرف وحی کی گئی کہ یہ آخری عشرے میں ہے، تم میں سے جس شخص کو پسند ہو وہ اعتکاف کرے،چنانچہ لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ساتھ اعتکاف کیا۔(مسلم، کتاب الصیام، باب فضل لیلۃ القدر۔۔۔ الخ، ص۵۹۴، الحدیث: ۲۱۵(۱۱۶۷))
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے، ایک سال اعتکاف نہ کرسکے ، جب اگلاسال آیا تو حضورانورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بیس دن اعتکاف کیا۔ (ترمذی، کتاب الصوم، باب ما جاء فی الاعتکاف اذا خرج منہ، ۲/۲۱۲، الحدیث: ۸۰۳)
حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں :نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اُسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اُس نے تمام نیکیاں کیں۔( ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب فی ثواب الاعتکاف، ۲/۳۶۵، الحدیث: ۱۷۸۱)
حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اللہ تعالٰی کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالٰی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کر دے گا اور ہر خندق مشرق و مغرب کے مابین فاصلے سے بھی زیادہ دور ہو گی۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۵/۲۷۹، الحدیث: ۷۳۲۶)
حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے ،سید المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کئے۔(شعب الایمان، الرابع والعشرین من شعب الایمان، ۳/۴۲۵، الحدیث: ۳۹۶۶)
حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اعتکاف کرنے والے کو روزانہ ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔(شعب الایمان، الرابع والعشرین من شعب الایمان، ۳/۴۲۵، الحدیث: ۳۹۶۸)
(1)… مردوں کے اعتکاف کے لیے باقاعدہ شرعی مسجد ضروری ہے۔
(2)… معتکف کو مسجد میں کھانا، پینا، سونا جائز ہے۔
(3)…عورتوں کا اعتکاف ان کے گھروں میں مسجد ِ بیت میں جائز ہے اور فی زمانہ انہیں مسجدوں میں اعتکاف کی اجازت نہیں۔
(4)…واجب اور سنت اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔نفلی اعتکاف میں روزہ ضروری نہیں اور نفلی اعتکاف چند منٹ کا بھی ہوسکتا ہے۔ جب مسجد میں جائیں ، نفلی اعتکاف کی نیت کرلیں۔
(5)…واجب و سنت اعتکاف میں ایک لمحے کیلئے بلااجازت ِ شرعی مسجد سے نکلے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔([2])(بہارِ شریعت، حصہ پنجم، اعتکاف کا بیان، ۱/۱۰۲۰-۱۰۲۶ملخصًا)
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو۔
{وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔} اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،۱/۳۰۴)
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لیے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا ناجائز و حرام ہے۔ اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لیے حکام پر اثر ڈالنا، رشوتیں دینا حرام ہے ۔حکام تک رسائی رکھنے والے لوگ اس آیت کے حکم کو پیش نظر رکھیں۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’وہ شخص ملعون ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے۔(تاریخ بغداد، باب محمد، محمد بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ،۱/۳۶۰، رقم: ۲۶۲)
یہ بھی معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی، جھوٹی وکالت، جھوٹے مقدمہ کی پیروی و کوشش کی اجرتیں حرام ہیں۔ حرام کے بارے میں آگے تفصیل سے بیان آئے گا۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِؕ-قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّؕ-وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰىۚ-وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۸۹)
ترجمۂکنزالایمان: تم سے نئے چاند کو پوچھتے ہیں تم فرمادو وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے لئے اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ گھروں میں پچھیت توڑ کر آؤ ہاں بھلائی تو پرہیزگاری ہے، اور گھروں میں دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔تم فرمادو،یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں میں پچھلی دیوار توڑ کر آؤ ، ہاں اصل نیک توپرہیزگار ہوتاہے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ: تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔} شانِ نزول: یہ آیت حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ایک دوسرے صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جواب میں نازل ہوئی، ان دونوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے متعلق سوال کیا، اس کے جواب میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کے سبب کی بجائے اس کے فوائد بیان فرمائے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں (تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹،۱/۲۶۳، الجزء الثانی)
اور آدمیوں کے ہزار ہا دینی ودنیوی کام اس سے متعلق ہیں ،زراعت ، تجارت ،لین دین کے معاملات، روزے اور عید کے اوقات، عورتوں کی عدتیں ،حیض کے ایّام ، حمل اور دودھ پلانے کی مدتیں اور دودھ چھڑانے کے وقت اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۱/۱۲۹)
کیونکہ شروع میں جب چاند باریک ہوتا ہے تو دیکھنے والا جان لیتا ہے کہ ابتدائی تاریخیں ہیں اور جب چاند پورا روشن ہوتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مہینے کی درمیانی تاریخ ہے اور جب چاند چھپ جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہینہ ختم پر ہے ،پھر مہینوں سے سال کا حساب ہوتا ہے ۔یہ وہ قدرتی جنتری ہے جو آسمان کے صفحہ پر ہمیشہ کھلی رہتی ہے اور ہر ملک اور ہر زبان کے لوگ پڑھے بھی اور بے پڑھے بھی سب اس سے اپنا حساب معلوم کرلیتے ہیں۔یاد رہے کہ بہت سے احکام میں چاند کا حساب رکھنا ضروری ہے جیسے بالغ ہونے کی عمر کے اعتبار سے ، یونہی روزہ،عیدَین، حج کے مہینوں اور دنوں کے بارے میں ، یونہی زکوٰۃ میں جو سال گزرنے کا اعتبارہے وہ بھی چاند کے اعتبار سے ہے۔
{وَ لَیْسَ الْبِرُّ: اوریہ کوئی نیکی نہیں۔} شانِ نزول :زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی یہ عادت تھی کہ جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تواپنے مکان میں اس کے دروازے سے داخل نہ ہوتے ،اگر ضرورت ہوتی تو پچھلی دیوار توڑ کر آتے اور اس کو نیکی جانتے۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم گھروں کے پیچھے سے آؤ۔ اصل نیکی تقویٰ ، خوفِ خدا اور احکامِ الٰہی کی اطاعت ہے ۔(تفسیر مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ص۱۰۱)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کو بغیر ممانعت کے ناجائز سمجھنا جُہلاء کا کام ہے۔اپنی طرف سے غلط قسم کی رسمیں اور پابندیاں لگالینا جائز نہیں۔ بہت سے کام ویسے جائز ہوتے ہیں لیکن اپنی طرف سے شرعاً ضروری سمجھ لینے سے ناجائز ہو جاتے ہیں جیسے مسلمان فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے سوئم، چالیسواں وغیرہ کرتے ہیں کہ ویسے کریں تو جائز ہیں لیکن اگر یہ سمجھ کرکریں کہ یہ کرنا ضروری ہے یا دوسرے اور چالیسویں دن ہی کرنا ضروری ہے تو ناجائز ہے، یونہی سوئم اور چالیسواں وغیرہ جائز ہے تو انہیں اپنی طرف سے ناجائز کہنا بھی حرام ہے کفار کے طرزِ عمل کی نقالی ہے۔ بہرحال اِفراط و تفریط سے بچنا ضروری ہے اوراس طرح کی چیزوں کی طرف غور کرنا چاہیے، شادی، مَرگ اور زندگی کے دیگر معاملات میں نجانے کیسی کیسی رسمیں کہاں سے گھس آئی ہیں۔
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ(۱۹۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو ، بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کوپسند نہیں کرتا۔
{وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اوراللہ کی راہ میں لڑو۔} 6ہجری میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا ،اس سال حضورسید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ طیبہ سے عمرے کے ارادے سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، مشرکین نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا اور اس پر صلح ہوئی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آئندہ سال تشریف لائیں تو آپ کے لیے تین روز کیلئے مکہ مکرمہ خالی کردیا جائے گا، چنانچہ اگلے سال7ہجری میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عمرے کی قضاء کے لیے تشریف لائے ۔اب حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ ایک ہزار چار سوصحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمتھے ۔مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ کفار نے اگر وعدہ پورا نہ کیا اور حرم مکہ میں حرمت والے مہینے ذی القعدہ میں جنگ کی تو مسلمان چونکہ حالت ِ احرام میں ہوں گے اس لئے اس حالت میں جنگ کرنا ان کیلئے بڑا مشکل تھا کیونکہ زمانہ جاہلیت سے ابتدائے اسلام تک نہ حرم میں جنگ جائز تھی اورنہ حرمت والے مہینوں میں ، لہٰذا انہیں تَرَدُّد ہوا کہ اس وقت جنگ کی اجازت ملتی ہے یا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۱/۱۳۰)
آیت میں اجازت کا معنی یا تو یہ ہے کہ جو کفار تم سے لڑیں یا جنگ کی ابتداء کریں تم ان سے دین کی حمایت اور اعزاز کے لیے لڑو یہ حکم ابتداء اسلام میں تھاپھر منسوخ کیا گیا اور کفار سے قتال کرنا واجب ہوا خواہ وہ ابتداء کریں یا نہ کریں یا یہ معنی ہے کہ ان سے لڑو جو تم سے لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ بات سارے ہی کفار میں ہے کیونکہ وہ سب دین کے مخالف اور مسلمانوں کے دشمن ہیں خواہ انہوں نے کسی وجہ سے جنگ نہ کی ہو لیکن موقع پانے پرچُوکنے والے نہیں۔ یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو کافر میدان جنگ میں تمہارے مقابلے پر آئیں اور وہ تم سے لڑنے کی قدرت اور اہلیت رکھتے ہوں تو ان سے لڑو۔ اس صورت میں ضعیف ، بوڑھے، بچے، مجنون، اپاہج، اندھے، بیمار اور عورتیں وغیرہ جو جنگ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے(اور وہ جنگ میں نہ تو شریک ہیں اور نہ ہی جنگ کرنے والوں کی کسی قسم کی مدد کر رہے ہیں تو یہ افراد) اس حکم میں داخل نہ ہوں گے اور انہیں قتل کرنا جائز نہیں۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۰، ص۸۰)
{وَ لَا تَعْتَدُوْا: اور زیادتی نہ کرو۔}اس سے مراد ہے کہ جو جنگ کے قابل نہیں ان سے نہ لڑو یا جن سے تم نے عہد کیا ہو یا بغیر دعوت کے جنگ نہ کرو کیونکہ شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دی جائے، اگروہ ا نکار کریں توان سے جِزیَہ طلب کیاجائے اور اگرا س سے بھی انکار کریں تب جنگ کی جائے۔ اس معنی پر آیت کا حکم باقی ہے منسوخ نہیں۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۰، ص۸۱)
وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِۚ-وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى یُقٰتِلُوْكُمْ فِیْهِۚ-فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْؕ-كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ(۱۹۱)فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۹۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکا لا تھا اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کافروں کی یہی سزا ہے۔پھر اگر وہ باز رہیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (دورانِ جہاد) کافروں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکا لا تھا اور فتنہ قتل سے زیادہ شدید ہوتا ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو۔ کافروں کی یہی سزا ہے۔پھر اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
{وَ اقْتُلُوْهُمْ: اور انہیں قتل کرو۔} آیت مبارکہ میں اوپر بیان کئے گئے سِیاق و سِباق میں فرمایا گیا کہ چونکہ کافروں نے تمہیں مکہ مکرمہ سے بے دخل کیا تھا اور اب بھی تمہارے ساتھ آمادۂ قتال ہیں تو تمہیں دورانِ جہاد ان سے لڑنے ، انہیں قتل کرنے اور انہیں مکہ مکرمہ سے نکالنے کی اجازت ہے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول نہ کرنے والوں کو مکہ مکرمہ سے نکال دیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ان کے قتل کا حکم ان کے جرم سے زیادہ بڑا نہیں کیونکہ وہ لوگ فتنہ برپا کرنے والے ہیں اور ان کا فتنہ شرک ہے یا مسلمانوں کو مکہ مکرمہ سے نکالنا(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۱، ص۸۱)
تو ان کا فتنہ ان کو قتل کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہاں یہ حکم نہیں دیا جارہا ہے کہ کافروں کو قتل کرنے میں لگے رہو، امن ہو یا جنگ، صلح ہو یا لڑائی ہر حال میں انہیں قتل کرو بلکہ یہاں صرف دورانِ جہاد قتل کرنے کا حکم ہے۔ بہت سے اسلام دشمن لوگ اس طرح کی آیات سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے لوگوں کی مَکاریوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
{وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو۔} مسجد ِ حرام شریف کے ارد گرد کئی کلومیٹر کا علاقہ حرم کہلاتا ہے۔ حرم کی حدود میں مسلمانوں کو لڑنے سے منع کردیا گیاکیونکہ یہ حرم کی حرمت کے خلاف ہے لیکن اگر کفار ہی وہاں مسلمانوں سے جنگ کی ابتداء کریں تو انہیں جواب دینے کیلئے وہاں پر بھی ان سے لڑنے اور انہیں قتل کرنے کی اجازت ہے۔البتہ اگر وہ کفر سے باز آجائیں تو اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے انہیں معاف فرمادے گا کہ اسلام تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِؕ-فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ(۱۹۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اورعبادت اللہ کے لئے ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو صرف ظالموں پر سختی کی سزا باقی رہ جاتی ہے۔
{حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ: یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے۔} عرب کے کافروں کے متعلق فرمایا گیا کہ ان سے تب تک لڑو کہ ان کا فتنہ یعنی شرک ختم ہوجائے اور ان کا دین بھی دینِ اسلام ہوجائے اور سرزمینِ عرب پر صرف ایک اللہ کی عبادت ہو۔ لہٰذا اگر وہ کفر و باطل پرستی سے باز آجاتے ہیں تو پھر ان پر کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔
اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌؕ-فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۱۹۴)
ترجمۂکنزالایمان: ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے جو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: ادب والے مہینے کے بدلے ادب والا مہینہ ہے اورتمام ادب والی چیزوں کا بدلہ ہے۔توجو تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہواور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔
{اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ: ادب والے مہینے کے بدلے ادب والا مہینہ ہے۔} مسلمانوں کو چونکہ حرمت والے مہینوں میں لڑنا نہایت بھاری لگ رہا تھا اس لئے ان کی مزید تسلی کیلئے اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ حرمت والے مہینے میں جنگ کی اجازت اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور یہ اجازت کفار کی طرف سے حرمت پامال کرنے کی وجہ سے دی گئی ہے۔ انہوں نے تمہیں عمرہ کرنے اور مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا لہٰذا اب اگر تم ان سے لڑتے ہو اور ان کا خون بہاتے ہو تویہ حرم اور ماہ حرام کی بے حرمتی نہیں ہوگی کیونکہ یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے اجازت کے ساتھ ہوگا اوریہ سب لڑائی اصل میں حرمتوں کا بدلہ ہوگا یعنی کافروں کا حرمت والے مہینے میں فتنہ و فساد کرنا حرمتوں کو پامال کرنا ہے اور تمہارا جواب دینا اصل میں حرمتوں کا بدلہ لینا ہے نہ کہ حرمتوں کو پامال کرنا۔ یوں سمجھ لیں کہ ڈاکو کی گولی کے جواب میں اگر پولیس گولی چلائے تو پولیس کو مجرم نہیں کہیں گے بلکہ ان کے فعل کو حفاظت و ذمہ داری کہا جائے گا۔ قاتل کے قتل کو زیادتی نہیں کہیں گے بلکہ اسے قصاص کہا جائے گا۔
{فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ: تو جو تم پر زیادتی کرے۔} کافر مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے، شروع اسلام میں دن رات، صبح و شام ہر وقت مسلمانوں کو ستانے میں لگے رہے، کسی کو شہید کیا، کسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا، کسی کوانگاروں پر لٹایا، کسی کو کوڑے مارے، کسی کا راہ چلتے مذاق اڑایا، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ہجرت پر مجبور کردیا، ان کے کاروبار ختم کردئیے، انہیں ان کے رشتے داروں سے جدا کردیا۔ ان تمام واقعات کی تلخیاں مسلمانوں کے دلوں میں موجود تھیں ، اب جبکہ مسلمانوں کو بدلہ لینے کا موقع مل رہا تھا تو اس بات کا امکان تھا کہ مسلمان بھی بدلہ لینے میں اپنے جذبہ انتقام کو بھر پور طریقے سے پورا کرتے اور بدلہ لینے میں حد سے بڑھ جاتے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے ہی مسلمانوں کو سمجھادیا کہ تم پر جنہوں نے زیادتیاں کی ہیں تمہیں ان سے بدلہ لینے کا اختیار تو دیا جارہا ہے لیکن تم اتنا ہی بدلہ لے سکتے ہو جتنی انہوں نے تم پر زیادتی کی ، اس سے زائد کی تمہیں ہرگز اجازت نہیں۔ لہٰذا بدلہ لینے میں بھی تقویٰ اور خوفِ خدا کو پیشِ نظر رکھو اور یہ جان لو کہ اللہ تعالٰی کا قرب اور مَعِیَّت اسی کو نصیب ہوگی جو ہر حال میں تقویٰ اختیار کرے گا۔
بدلہ لینے سے متعلق دین اسلام کی حسین تعلیم:
کیا حسین تعلیم ہے اور کیا پاکیزہ تربیت ہے جس وقت جذبات مچل رہے ہوں ، جذبہ انتقام جوش مار رہا ہو، دشمن قبضے میں آنے ہی والا ہو، غلبہ حاصل ہوا ہی چاہتا ہو اس وقت بھی تقویٰ کا عدل و انصاف کا درس دیا جارہا ہے، زیادتی کرنے سے منع کیا جارہا ہے۔ کیا روئے زمین پر کوئی دوسرا ایسا دین، قانون ہے جو اپنے ماننے والوں کو اس طرح کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کا درس دیتا ہو؟ ہرگز نہیں۔ یقینا یہ صرف اسلام ہی ہے۔
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- وَ اَحْسِنُوْاۚۛ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۹۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو اورنیکی کرو بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت فرماتاہے۔
{وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔} راہِ خدا میں خرچ کرنے کا اصل حکم تو مال کے حوالے سے ہے لیکن علامہ صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کے معنیٰ کی مزید وسعت کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری اوراس کی رضا کے کاموں میں اپنے جان و مال کو صرف کرو خواہ جہاد ہو یا رشتے داروں سے حسنِ سلوک یا اللہ تعالٰی کے کمزور اور غریب بندوں کی مددکی صور ت میں ہو۔ (صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱/۱۶۳)
{وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ: اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔} خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی بہت سی صورتیں ہیں :۔
(1)…صحیح بخاری میں ہے’’یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب وانفقوا فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۳/۱۷۸، الحدیث: ۴۵۱۶)
یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
(2)… حضرت ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ہم انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے بارے میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالٰی نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا اور اس کے مددگار کثیر ہوگئے تو ہم میں سے بعض نے بعض سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا: (جہاد کی مصروفیت میں ) ہمارے مال ضائع ہو گئے لہٰذااب اللہ تعالٰی نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے تو (کیا ہی اچھا ہو کہ)اگر ہم اپنے اموال میں ٹھہریں اور جو ضائع ہوا اس کی درستی کرلیں ، اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو ہم نے کہا اس کا رد فرمایا،کہ ہلاکت توجہاد چھوڑکر اپنے اموال کی درستی میں لگ جانا ہے۔ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ، ۴/۴۵۴، الحدیث: ۲۹۸۳)
(3)… انصار جتنا اللہ تعالٰی توفیق دیتا صدقہ و خیرات کرتے رہتے ۔ ایک سال انہیں تنگدستی کا سامنا ہوا تو انہوں نے یہ عمل روک دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴/۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۱)
(4)… حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ کوئی شخص گناہ کرتا اور کہتا میری بخشش نہ ہو گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴/۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۲)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو ترک کرنا بھی ہلاکت کا سبب ہے، فضول خرچی بھی ہلاکت ہے، جہاد ترک کرنا بھی ہلاکت ہے یونہی اس طرح کی ہر وہ چیز جو ہلاکت کا باعث ہو ان سب سے باز رہنے کا حکم ہے حتیّٰ کہ بے ہتھیار میدان جنگ میں جانایا زہر کھانا یا کسی طرح خود کشی کرناسب حرام ہے۔چونکہ خودکشی خود کو ہلاک کرنے کی نہایت ہی نمایاں صورت ہے لہٰذا یہاں اس کی وعید بیان کی جاتی ہے، چنانچہ خود کشی کے بارے میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے پہاڑ سے گر کر خود کشی کی وہ مسلسل جہنم میں گرتا رہے گا اور جس نے زہر کھا کر خود کشی کی ( قیامت کے دن) وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں اسے ہمیشہ کھاتا رہے گا اورجس نے چھری کے ذریعے خود کو قتل کیا ، (قیامت کے دن) وہ چھری اس کے ہاتھ میں ہو گی اور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ وہ چھری اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔(بخاری، کتاب الطب، باب شرب السمّ والدواء بہ۔۔۔ الخ، ۴/۴۳، الحدیث: ۵۷۷۸)
وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِؕ-فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِۚ-وَ لَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى یَبْلُغَ الْهَدْیُ مَحِلَّهٗؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّاْسِهٖ فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍۚ- فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْٙ-فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِۚ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْؕ-تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌؕ-ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ یَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠(۱۹۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو پھر اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجو جو میسر آئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے تو بدلہ دے روزے یا خیرات یا قربانی پھر جب تم اطمینان سے ہو تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے اس پر قربانی ہے جیسی میسر آئے پھر جسے مقدور نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس کے لئے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو پھر اگر تمہیں (مکہ سے) روک دیا جائے تو (حرم میں ) قربانی کا جانور بھیجو جو میسر آئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے پر نہ پہنچ جائے پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے تو روزے یا خیرات یا قربانی کا فدیہ دے پھر جب تم اطمینان سے ہو تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے اس پر قربانی لازم ہے جیسی میسر ہو پھر جو (قربانی کی قدرت) نہ پائے تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے (اس وقت رکھو) جب تم اپنے گھر لوٹ کر جاؤ، یہ مکمل دس ہیں۔یہ حکم اس کے لئے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔
{وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَةَ لِلّٰهِ:اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو۔}آیت میں مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ان کے فرائض و شرائط کے ساتھ خاص اللہ تعالٰی کے لیے بغیر سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔
حج کی تعریف اور حج و عمرہ کے چند احکام:
حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا ۔اس کے لیے خاص وقت مقرر ہے جس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ۔ حج 9ہجری میں فرض ہو ا،اس کی فرضیت قطعی ہے، اس کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱/۱۰۳۵-۱۰۳۶)
حج کے فرائض یہ ہیں :(۱)…احرام (۲)… وقوف ِ عرفہ (۳)… طواف زیارت۔
حج کی تین قسمیں ہیں : (۱)…اِفرادیعنی صرف حج کا احرام باندھا جائے۔ (۲)…تَمَتُّع یعنی پہلے عمرہ کا احرام باندھا جائے پھر عمرہ کے احرام سے فارغ ہونے کے بعد اسی سفر میں حج کا احرام باندھا جائے۔(۳)…قِران یعنی عمرہ اور حج دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے ، اس میں عمرہ کرنے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ برقرار رہتی ہیں۔ عمرہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عمرہ میں صرف احرام باندھ کر خانہ کعبہ کا طواف اورصفامروہ کی سعی کرکے حلق کروانا ہوتا ہے۔ حج و عمرہ دونوں کے ہر ہر مسئلے میں بہت تفصیل ہے۔ اس کیلئے بہارِ شریعت کے حصہ 6کا مطالعہ کریں۔([3])
{فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ:تو اگر تمہیں روک دیا جائے۔} یہاں سے حج کے ایک اہم مسئلے کا بیان ہے جسے اِحصار کہتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرحج یا عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعدحج یا عمرہ کی ادائیگی میں تمہیں کوئی رکاوٹ پیش آجائے جیسے دشمن کا خوف ہو یا مرض وغیرہ توایسی حالت میں تم احرام سے باہر آجاؤاور اس صورت میں حدودِحرم میں قربانی کا جانور اونٹ یا گائے یا بکری کا ذبح کروانا تم پر واجب ہے اور جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ ہوجائے تب تک تم سر نہ منڈواؤ۔
{فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا: پھر جو تم میں بیمار ہو۔} اِحصار کے بعد ایک اور مسئلے کا بیان ہے وہ یہ ہے کہ حالت ِ احرام میں بال منڈوانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یونہی لباس، خوشبووغیرہ کے اعتبار سے کافی پابندیاں ہوتی ہیں۔ اگر ان کا خِلاف کریں تو دَم یا صدقہ لازم آتا ہے لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں کہ مجبوری کی وجہ سے احرام کی پابندیوں کی مخالفت کرنا پڑتی ہے۔ بغیر عذر کے اور عذر کی وجہ سے کئے گئے افعال میں شریعت نے کچھ فرق کیا ہے ۔ آیت میں اس کی کچھ صورتوں کا بیان ہے۔ جان بوجھ کر احرام کی پابندیوں کی مخالفت کرے گا تو گناہگار بھی ہوگا اور فدیہ دینا بھی لازم آئے گا اور مجبوری کی وجہ سے مخالفت کرے تو گناہگار نہ ہوگا لیکن فدیہ دینا پڑے گا البتہ مجبوری والے کو فدیے میں کچھ رخصتیں بھی دی گئی ہیں چنانچہ صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’جہاں دَم کا حکم ہے وہ جرم اگر بیماری یا سخت گرمی یا شدید سردی یا زخم یا پھوڑے یا جووں کی سخت ایذا کے باعث ہوگا تو اُسے جُرمِ غیر اختیاری کہتے ہیں اس میں اختیار ہو گا کہ دَم (قربانی) کے بدلے چھ مسکینوں کو ایک ایک صدقہ دے دے یا دونوں وقت پیٹ بھر کھلائے یا تین روزے رکھ لے۔اور اگر اس (جرم)میں صدقہ کا حکم ہے اوربمجبوری کیا تو اختیار ہوگا کہ صدقہ کے بدلے ایک روزہ رکھ لے ۔(بہارِ شریعت، حصہ ششم، جرم اور ان کے کفارے کا بیان،۱/۱۱۶۲)
{فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ: تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے۔} جو شخص ایک ہی سفرمیں شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرے اس پر شکرانے کے طور پر قربانی لازم ہے اور یہ قربانی عید کے دن والی قربانی نہیں ہوتی بلکہ جداگانہ ہوتی ہے اوراگر قربانی کی قدرت نہ ہو تو اسے حکم ہے کہ دس روزے رکھے، ان میں سے تین روزے حج کے دنوں میں یعنی یکم شوال سے نویں ذی الحجہ تک احرام باندھنے کے بعد کسی بھی تین دن میں رکھ لے، اکٹھے رکھے یا جدا جدا دونوں کا اختیار ہے اور سات روزے 13ذی الحجہ کے بعد رکھے۔مکہ مکرمہ میں بھی رکھ سکتے ہیں لیکن افضل یہ ہے کہ گھر واپس لوٹ کر رکھے۔(بہار شریعت، حصہ ششم،۱/۱۱۴۰-۱۱۴۱، ملخصاً)
{حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ: مکہ کے رہنے والے۔} حجِ تمتع یا حجِ قِران کا جائز ہونا صرف آفاقی یعنی میقات سے باہر والوں کے لئے ہے ۔ حدودِ میقات میں اور اس سے اندر رہنے والوں کے لئے نہ تمتع کی اجازت ہے اورنہ قران کی، وہ صرف حجِ اِفراد کرسکتے ہیں۔
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌۚ-فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ﳳ-وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ(۱۹۷)
ترجمۂکنزالایمان: حج کے کئی مہینہ ہیں جانے ہوئے تو جو ان میں حج کی نیت کرے تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا حج کے وقت تک اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے اور توشہ ساتھ لوکہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل والو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: حج چند معلوم مہینے ہیں تو جو اِن میں حج کی نیت کرے توحج میں نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو اورنہ کوئی گناہ ہو اور نہ کسی سے جھگڑاہو اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے اورزادِ راہ ساتھ لے لو پس سب سے بہتر زادِ راہ یقیناپرہیزگاری ہے اور اے عقل والو!مجھ سے ڈرتے رہو۔
{اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ: حج چند معلوم مہینے ہیں۔} حج کے چند احکام بیان کرنے کے بعد یہاں مزید حج کے احکام و آداب بیان کئے جا رہے ہیں۔ فرمایا گیا کہ حج کے چند مشہور و معروف مہینے ہیں یعنی شوال، ذوالقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ۔ حج کے ارکان صرف ساتویں ذی الحجہ سے بارھویں تک ادا ہوتے ہیں۔ مگر شوال، ذیقعدہ کو بھی حج کے مہینے اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان میں احرام با ندھنا بلا کراہت جائز ہے اور ان سے پہلے حج کا احرام باندھنا مکروہ ہے۔
{فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ: تو جو ان میں حج کو لازم کرلے۔} یعنی جو شخص احرام باندھ کر یا ہَدی کا جانور چلا کرحج کو اپنے اوپر لازم کرلے اس پر یہ چیزیں لازم ہیں : ۔
(1)…رفث سے بچنا۔ رَفَث سے مراد ہے، ہم بستری کرنا یا عورتوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا یا فحش کلام کرنا۔ (ہدایہ، کتاب الحج، باب الاحرام،۱/۱۳۵)
البتہ نکاح کرسکتا ہے۔
(2)…فسوق سے بچنا۔ فسق کا معنیٰ ہے گناہ اور برائی کے کام۔
(3)…جدال سے بچنا ۔ جِدال سے مراد ہے ،اپنے ہم سفروں سے یا خادموں سے یا غیروں کے ساتھ جھگڑنا۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۷، ص۹۵)
یاد رہے کہ گناہ کے کام اور لڑائی جھگڑا تو ہر جگہ ہی ممنوع ہے لیکن چونکہ حج ایک عظیم اور مقدس عبادت ہے اس لئے اس عبادت کے دوران ان سے بچنے کی بطورِ خاص تاکید کی ہے۔
{وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ: اور تم جو بھلائی کرو ۔} برائیوں کی ممانعت کے بعد نیکیوں کی ترغیب دی گئی ہے کہ بجائے فسق کے تقویٰ اور بجائے لڑائی جھگڑا کے اخلاق حمیدہ اختیار کرو۔
{وَ تَزَوَّدُوْا: اور زادِ راہ لو۔} شانِ نزول: بعض یمنی لوگ حج کے لیے بغیر سامانِ سفر کے روانہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو متوکل یعنی’’توکل کرنے والا‘‘ کہتے تھے اور مکہ مکرمہ پہنچ کر لوگوں سے مانگنا شروع کردیتے اور کبھی غصب اور خیانت کے مرتکب بھی ہوتے ،ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۷، ۱/۱۳۹)
اور حکم ہوا کہ سفر کا سامان لے کر چلو ، دوسروں پر بوجھ نہ ڈالواور سوال نہ کرو کہ یہ تمام چیزیں توکل اور تقویٰ کے خلاف ہیں اور تقویٰ بہترین زادِ راہ ہے۔نیز یہ بھی سمجھادیا گیا کہ جس طرح دنیوی سفر کے لیے سامانِ سفر ضروری ہے ایسے ہی سفر آخرت کے لیے پرہیز گاری کا سامان لازم ہے۔
{وَ اتَّقُوْنِ: اور مجھ سے ڈرو۔} عقل والے کہہ کر اس لئے مخاطب کیا تاکہ لوگوں کو سمجھ آجائے کہ عقل کا تقاضا خوفِ الٰہی ہے۔ جو اللہ تعالٰی سے نہ ڈرے وہ بے عقلوں کی طرح ہے۔ عقل وہی ہے جو اللہ تعالٰی سے خوف پیدا کرے اورجس عقل سے آدمی بے دین ہو وہ عقل نہیں بلکہ بے عقلی ہے ۔ ابو جہل بے عقل تھا اور حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عقلمند تھے ۔
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۪-وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْۚ-وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ(۱۹۸)
ترجمۂکنزالایمان: تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو تو جب عرفات سے پلٹو تو اللہ کی یاد کرو مشعر حرام کے پاس اور اس کا ذکر کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی اور بیشک تم اس سے پہلے بہکے ہوئے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مشعر حرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اس کا ذکر کروکیونکہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اگرچہ اس سے پہلے تم یقینابھٹکے ہوئے تھے۔
{لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُم: تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ }شان نزول: بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ راہِ حج میں جس نے تجارت کی یا اونٹ کرایہ پر چلائے اس کا حج ہی ضائع ہوگیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(ابو داؤد، کتاب المناسک،باب الکریّ، ۲/۱۹۸، الحدیث: ۱۷۳۳)
اس سے معلوم ہوا کہ جب تک تجارت سے افعال حج کی ادا میں فرق نہ آئے اس وقت تک تجارت کی اجازت ہے۔نیز یہاں مال کو ربعَزَّوَجَلَّ کافضل قرار دیا ہے،اس سے معلوم ہوا کہ مال فی نفسہ بری چیز نہیں بلکہ اس کا غلط استعمال برا ہے۔ ہزاروں نیکیاں صرف مال کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہیں جیسے زکوٰۃ و صدقات و حج و عمرہ وغیرہ۔
{فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ: تو جب تم عرفات سے واپس لوٹو۔} عرفات ایک مقام کا نام ہے جوحج میں وقوف (یعنی ٹھہرنے) کی جگہ ہے ۔ مشہور مفسر ضحاک کا قول ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا جدائی کے بعد 9ذی الحجہ کو عرفات کے مقام پر جمع ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو پہچانا اس لیے اس دن کا نام عرفہ اور مقام کانام عرفا ت ہوا۔ (تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الایۃ: ۱۹۸، ۱/۳۲۰، الجزء الثانی)
ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اس روز بندے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اس لئے اس دن کا نام عرفہ ہے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۱/۱۴۰)
حاجی کیلئے9ذی الحجہ کے زوالِ آفتاب سے لے کر 10ذی الحجہ کی صبح صادق سے پہلے تک کم از کم ایک لمحے کیلئے عرفات میں وقوف فرض ہے ۔(بہار شریعت،حصہ ششم، ۱/۱۱۴۷)
اور 9تاریخ کواتنی دیر وقوف کرنا کہ وہیں سورج غروب ہوجائے یہ واجب ہے۔ (عالمگیری، کتاب المناسک، الباب الخامس، ۱/۲۲۹)
{عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ: مشعر حرام کے پاس۔}مَشْعَرِحرام مُزدلفہ میں وہ جگہ ہے جہاں امامِ حج وقوفِ مزدلفہ کرتا ہے۔ مزدلفہ میں واقع وادی مُحَسِّرْکے سوا تمام مزدلفہ وقوف کا مقام ہے ۔ مزدلفہ میں رات گزارنا سنت ہے اور فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر طلوعِ آفتاب کے دوران کم از کم ایک لمحے کیلئے وہاں ٹھہرنا واجب ہے ۔ بغیر عذر وقوفِ مزدلفہ ترک کرنے سے د م لا زم آتا ہے اور مشعر حرام کے پاس وقوف افضل ہے ۔مزدلفہ میں وقوف کے دوران تَلْبِیَہ، تہلیل و تکبیر اور ثناء و دعا وغیرہ میں مشغول رہنا چاہیے۔ 9ذوالحجہ کو مزدلفہ میں نما زِ مغرب وعشاء کو ملا کر عشاء کے وقت میں پڑھنا ہوتا ہے۔
{وَ اذْكُرُوْهُ: اور اسے یاد کرو۔} فرمایا گیا کہ تم ذکر و عبادت کا طریقہ نہ جا نتے تھے ، اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ذریعے تمہیں عبادت کے طریقے سکھائے لہٰذا اس نعمت پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرو ۔
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۹۹)
ترجمۂکنزالایمان: پھر بات یہ ہے کہ اے قریشیو تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے معافی مانگو، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر (اے قریشیو!) تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے دوسرے لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے مغفرت طلب کرو ،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ: پھر تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے دوسرے لوگ پلٹتے ہیں۔} قریش مزدلفہ میں ٹھہرے رہتے تھے اور سب لوگوں کے ساتھ عرفات میں وقوف نہ کرتے، جب لوگ عرفات سے پلٹتے تو یہ مزدلفہ سے پلٹتے اور اس میں اپنی بڑائی سمجھتے، اس آیت میں انہیں حکم دیا گیا کہ وہ بھی سب کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں اور ایک ساتھ واپس لوٹیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۹، ۱/۱۴۱)
یہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی سنت ہے ۔
اس سے معلوم ہواکہ اسلامی احکام برادریوں کے اعتبار سے نہیں بدلتے اور نہ ہی کسی کے رتبے اور مقام کی وجہ سے ان میں تبدیلی ہوتی ہے بلکہ امیر و غریب، گورے کالے، عربی عَجمی سب کے لئے اسلام کے احکام برابر ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :قریش ایک مخزومی عورت کے بارے میں بہت ہی پریشان تھے جس نے چوری کی تھی، لوگ کہنے لگے کہ اس بارے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے گفتگو کون کرے؟ بعض آدمیوں نے کہا کہ حضرت اسامہ بن زیدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے سواء ا یسی جرأت اور کون کر سکتا ہے کیونکہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چہیتے ہیں۔جب حضرت اسامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنے اس بارے میں حضور پر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا:’’کیا تم اللہ تعالٰی کی حدود کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟پھر آ پ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:’’بے شک تم سے پہلے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے تھے کہ جب کوئی مالدار چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے۔خدا کی قسم!اگرمحمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۵۶-باب، ۲/۴۶۸، الحدیث: ۳۴۷۵)
تاریخ اسلام میں مسلمان قاضیوں کے ایسے بے شمار واقعات موجودہیں جس میں انہوں نے کسی کے رتبے اور قرابت داری کی پرواہ کئے بغیر شریعت کے احکام کو نافذ کیا،انہی واقعات میں سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔چنانچہ حضرت سعد بن ابراہیم رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ خلیفہ ولید بن یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کے قاضی مقرر تھے ۔ایک مرتبہ ولید نے آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے پاس ملک شام میں بلایا، چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بااعتماد شخص کو مدینہ منورہ میں قاضی بناکر خود ملک شام کی جانب چل دیئے۔ جب آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شام کی سر حد پر پہنچے تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو شہر سے باہر ہی روک دیا گیااور کافی عرصہ تک داخلہ کی اجازت نہ ملی ۔ ایک رات آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مسجد میں مصروف عبادت تھے کہ ایک شخص کو دیکھا کہ نشے کی حالت میں بدمست ہے او رمسجد میں گھوم رہا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پوچھا : ’’یہ شخص کون ہے ؟ لوگو ں نے بتا یا: یہ خلیفہ ولید بن یزید کا ماموں ہے، اس نے شراب پی ہے اور اب نشے کی حالت میں مسجد کے اندر گھوم پھر رہا ہے۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو بہت جلال آیا کہ یہ کتنی دیدہ دِلیری سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کے پاک دربار میں ایسی گندی حالت میں بے خوف گھوم پھر رہا ہے۔ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے غلام کودُرَّہ لانے کا حکم فرمایا۔ غلام نے درہ (کوڑا) دیا ۔ درہ لے کر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا:’’ مجھ پر لازم ہے کہ میں اس پر شرعی سزا نافذ کروں چاہے یہ کوئی بھی ہو، اسلام میں سب برابر ہیں۔ چنانچہ آپ آگے بڑھے اور مسجد میں ہی اس کو80 کوڑے مارے ۔ وہ شخص80کوڑے کھانے کے بعد نہایت زخمی حالت میں خلیفہ ولید بن یزید کے پاس پہنچا۔ خلیفہ نے جب اپنے ماموں کی یہ حالت دیکھی تو بہت غضبناک ہوا اور پوچھا’’ تمہاری یہ حالت کس نے کی؟ کس نے تمہیں اِتنا شدید زخمی کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا: ایک شخص مدینہ منورہ سے آیا ہوا تھا، اس نے مجھے80کوڑے سزا دی اور کہا: ’’یہ سزا دینا اور حد قائم کرنا مجھ پر لازم ہے۔ خلیفہ نے جب یہ سنا تو اس نے فوراً حکم دیا کہ ہماری سواری تیار کی جائے، اسی وقت حکم کی تعمیل ہوئی اور خلیفہ کچھ سپاہیوں کو لے کر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس پہنچ گیا اور آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے کہا :’’ اے ابو اسحاق ! تو نے میرے ماموں کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا، اسے اتنی درد ناک سزا کیوں دی؟ حضرت سعد بن ابراہیم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا:’’ اے خلیفہ! تونے مجھے قاضی بنایا تا کہ میں شریعت کے احکام نافذ کروں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دوں۔ چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ سرعام اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی جا رہی ہے اور یہ شخص نشے کی حالت میں اللہ تعالٰی کے دربار میں گھوم پھر رہا ہے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں تو میری غیرت ایمانی نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی ہوتی دیکھوں اور تمہاری قرابت داری کی وجہ سے چشم پوشی کروں اور شرعی حدو د قائم نہ کروں۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الرابعۃ والاربعون بعد المائۃ، ص۱۶۳-۱۶۴، ملتقطاً)
فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًاؕ-فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ(۲۰۰)
ترجمۂکنزالایمان: پھر جب اپنے حج کے کام پورے کرچکو تو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ اور کوئی آدمی یوں کہتا ہے کہ اے رب ہمارے ہمیں دنیا میں دے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب اپنے حج کے کام پورے کرلوتو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے بلکہ اس سے زیادہ (ذکر کرو) اور کوئی آدمی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دیدے اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔
{فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ: تو اللہ کا ذکر کرو جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے تھے۔} زمانہ جاہلیّت میں عرب حج کے بعد کعبہ کے قریب اپنے باپ دادا کے فضائل بیان کیا کرتے تھے۔ (صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۱/۱۷۰)
اسلام میں بتایا گیا کہ یہ شہرت و خود نمائی کی بیکار باتیں ہیں ، اس کی بجائے ذوق وشوق کے ساتھ ذکر ِالٰہی کرو ۔ اس آیت سے بلند آواز سے ذکر کرنا اور لوگوں کا اکٹھے مل کر ذکر کرنا دونوں ثابت ہوتے ہیں کیونکہ عرب لوگ اپنے باپ دادا کا ذکر بلند آواز سے کرتے تھے اور مجمع میں کرتے تھے۔
{فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ:کچھ لوگ کہتے ہیں۔} آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں دعا کرنے والوں کی دو قسمیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک وہ کافر جن کی دعا میں صرف طلبِ دنیا ہوتی تھی اورآخرت پر ان کا اعتقا د نہ تھا ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں۔دوسرے وہ ایمان دار جو دنیا و آخرت دونوں کی بہتری کی دعا کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ مومن اگر دنیا کی بہتری طلب کرتا ہے تووہ بھی جائز ہے اور یہ طلب ِ دنیا اگردین کی تائید و تَقْوِیَت کے لئے ہو تو یہ دعا بھی امورِدین سے شمار ہوگی۔لیکن یہ یاد رہے کہ آخرت کو اصلا ًفراموش کرکے صرف دنیا مانگنا بہر حال مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ دنیا کے طلبگاروں اور آخرت کے طلبگاروں کے بارے میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(۱۹)(بنی اسرائیل:۱۸،۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:جو جلدی والی (دنیا)چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اس کیلئے دنیا میں جو چاہتے ہیں جلد دیدیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لیے جہنم بنارکھی ہے جس میں وہ مذموم،مردود ہوکر داخل ہوگا۔ اور جو آخرت چاہتا ہے اوراس کیلئے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
نیز ایک اورمقام پر صرف دنیا کی رنگینیوں میں مگن رہنے والوں سے اور اس کے بعد جو اللہ تعالٰی کے نزدیک بہتر اور افضل چیزہے اس کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِكُمْؕ-لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ(ال عمران: ۱۴،۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت کو آراستہ کردیا گیا یعنی عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں اور نشان لگائے گئے گھوڑوں اورمویشیوں اور کھیتیوں کو( ان کے لئے آراستہ کردیا گیا) یہ سب دنیوی زندگی کا سازوسامان ہے اور صرف اللہ کے پاس اچھا ٹھکاناہے۔(اے حبیب!)تم فرماؤ ، (اے لوگو!)کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز بتادوں ؟ (سنو، وہ یہ ہے کہ)پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ان جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے اور (وہاں ) پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی خوشنودی ہے اور اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ(۲۰۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے رب ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔ایسوں کو ان کی کمائی سے بھاگ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ ان لوگوں کے لئے ان کے کمائے ہوئے اعمال سے حصہ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ: اور کوئی یوں کہتا ہے۔}اس آیت میں مذکور مسلمان کی دعا بہت جامع دعا ہے اورتھوڑے الفاظ میں دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اس میں مانگی گئی ہیں۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:۔ ’’اَللّٰہمَّ رَبَّنَآ ٰاٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘(بخاری، کتاب الدعوات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ۔۔۔ الخ، ۴/۲۱۴، الحدیث: ۶۳۸۹)
دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفیدشے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہا۔
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِۚ-وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِۙ-لِمَنِ اتَّقٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ(۲۰۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کی یاد کرو گنے ہوئے دنوں میں توجو جلدی کرکے دو دن میں چلا جائے اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو رہ جائے تو اس پر گناہ نہیں پرہیزگار کے لئے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اسی کی طرف اٹھنا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذکر کرو تو جو جلدی کرکے دو دن میں (منیٰ سے) چلا جائے اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے تو اس پر (بھی) کوئی گناہ نہیں۔ (یہ بشارت) پرہیزگار کے لئے ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم اسی کی طرف اٹھائے جاؤ گے ۔
{وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ:اور گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذکر کرو۔} گنتی کے دنوں سے مراد اَیّام تَشریق ہیں اور ذکراللہ سے نمازوں کے بعد اور جَمرات کی رمی کے وقت تکبیر کہنا مراد ہے۔ (صاوی ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۳، ۱/۱۷۱)
اورمراد یہ ہے کہ منیٰ میں قیام کے دوران اللہ تعالٰی کے ذکر میں مشغول رہو۔
{فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ: تو جو جلدی کرکے دو دن میں چلا جائے۔} دس، گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذوالحج، ان چار دنوں میں منیٰ میں جمرات پر رمی کی جاتی ہے۔ دس تاریخ کو صرف ایک جمرہ کی اور بقیہ تاریخوں میں تینوں جمرات کی۔تیرہ تاریخ کو بھی رمی تو ہے لیکن اگر کوئی شخص بارہ تاریخ کی رمی کرکے منیٰ سے واپس آجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اگرچہ تیرہ کو رمی کرکے واپس آنا افضل ہے۔(تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۳، ص۹۸)
یہاں دو دنوں میں رمی کرکے چلے جانے سے مراد دس ذوالحجہ کے بعد دودن ہیں۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰى مَا فِیْ قَلْبِهٖۙ-وَ هُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ(۲۰۴)وَ اِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ(۲۰۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور بعض آدمی وہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تجھے بھلی لگے اور اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ لائے اور وہ سب سے بڑا جھگڑالو ہے۔اور جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے اور اللہ فسادسے راضی نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تمہیں بہت اچھی لگتی ہے اوروہ اپنے دل کی بات پر اللہکو گواہ بناتا ہے حالانکہ وہ سب سے زیادہ جھگڑا کرنے والا ہے۔اور جب پیٹھ پھیرکر جاتا ہے توکوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور کھیت اور مویشی ہلاک کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
{مَنْ یُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ: جس کی گفتگو تجھے اچھی لگتی ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت اَخْنَسْ بن شَرِیْق منافق کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ حضورسید المرسلینصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں حاضر ہو کر بہت لجاجت سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا تھا اور اپنے اسلام اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی محبت کا دعویٰ کرتا اوراس پر قسمیں کھاتا اور درپردہ فساد انگیزی میں مصروف رہتا تھا۔ اس نے مسلمانو ں کے مویشیوں کو ہلا ک کیا او ر ان کی کھیتیوں کو آگ لگائی تھی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۱/۱۴۴-۱۴۵)
یہاں مجموعی طور پر جو خرابیاں بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں :
(1)…ظاہری طور پر بڑی اچھی باتیں کرنا، (2)…اپنی غلط باتوں پر اللہ کو گواہ بنانا، (3)…جھگڑالو ہونا، (4)… فساد پھیلانا، (5)…لوگوں کے اموال برباد کرنا، (6)…نصیحت کی بات سن کر قبول کرنے کی بجائے تکبر کرنا ۔
یہاں آیت مبارکہ میں اگرچہ ایک خاص منافق کا تذکرہ ہے لیکن یہ آیت بہت سے لوگوں کو سمجھانے کیلئے کافی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی زبان بڑی میٹھی ہے، گفتگو بڑی نرمی سے کرتے ہیں ، بڑی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں لیکن در پردہ دین کے مسائل میں یا لوگوں میں یا خاندانوں میں فساد برپا کرتے ہیں اور ہلاکت و بربادی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُهٗ جَهَنَّمُؕ-وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ(۲۰۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو اسے اور ضد چڑھے گنا ہ کی ایسے کو دوزخ کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا بچھونا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو تو اسے ضد مزید گناہ پر ابھارتی ہے توایسے کو جہنم کافی ہے اور وہ ضرور بہت برا ٹھکاناہے۔
{وَ اِذَا قِیْلَ لَهُ: اور جب اس سے کہا جائے۔} منافق آدمی کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اگر اسے سمجھایاجائے تو اپنی بات پراڑ جاتا ہے، دوسرے کی بات ماننا اپنے لئے توہین سمجھتا ہے، نصیحت کئے جانے کو اپنی عزت کا مسئلہ بنالیتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے، گھروں میں دیکھ لیں تو لڑکی والے لڑکے یا اس کے گھر والوں کو نہیں سمجھا سکتے،چھوٹے خاندان والے بڑے خاندان والوں کو نہیں سمجھا سکتے، عام آدمی کسی چودھری کو نہیں سمجھاسکتا، عوام کسی دنیوی منصب والے کو نہیں سمجھا سکتے، مسجدوں میں کوئی نوجوان عالم یا دینی مُبلغ کسی پرانے بوڑھے کو نہیں سمجھا سکتا، جسے سمجھایا وہی گلے پڑ جاتا ہے۔ دینی شعبے میں بھی اس خرابی کی کچھ کمی نہیں۔اللہ تعالٰی ہمارے حال کی اصلاح فرمائے۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ(۲۰۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے اللہ کی مرضی چاہنے میں اور اللہ بندوں پر مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور اللہ بندوں پر بڑا مہربان ہے۔
{مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ: جو اپنی جان بیچتا ہے۔} شانِ نزول: حضرت صُہیب رومی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے، مشرکین قریش کی ایک جماعت نے آپ کا تعاقب کیا تو آپ سواری سے اترے اور ترکش سے تیر نکال کر فرمانے لگے کہ اے قریش! تم میں سے کوئی میرے پاس نہیں آسکتا جب تک کہ میں تیر مارتے مارتے تمام ترکش خالی نہ کردوں اور پھر جب تک تلوار میرے ہاتھ میں رہے اس سے ماروں گا اوراگر تم میرا مال چاہو جو مکہ مکرمہ میں مدفون ہے تو میں تمہیں اس کا پتا بتادیتا ہوں ، تم میرا راستہ نہ روکو۔ وہ اس پر راضی ہوگئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے تمام مال کا پتابتادیا، جب آپ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے آیت تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تمہاری یہ جاں فروشی بڑی نفع بخش تجارت ہے۔(ابن عساکر، صہیب بن سنان بن مالک۔۔۔ الخ، ۲۴/۲۲۸)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪-وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والواسلام میں پورے داخل ہو اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
{ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً: اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔} شانِ نزول: اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے اصحاب، تاجدار رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے بعد شریعت مُوسَوی کے بعض احکام پر قائم رہے، ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے، اس روز شکار سے لازماً اِجتناب جانتے اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مُباح یعنی جائز ہیں ، ان کا کرنا ضروری تونہیں جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے تو ان کے ترک کرنے میں اسلام کی مخالفت بھی نہیں ہے اور شریعت مُوسَوی پر عمل بھی ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیاکہ اسلام کے احکام کا پورا اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہوگئے اب ان کی طرف توجہ نہ دو۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۰۸، ۱/۱۴۷)
یاد رکھیں کہ داڑھی منڈوانا، مشرکوں کا سا لباس پہننا ، اپنی معاشرت بے دینوں جیسی کرنا بھی سب ایمانی کمزوریکی علامت ہے جب مسلمان ہو گئے تو سیرت و صورت، ظاہروباطن، عبادات ومعاملات، رہن سہن، میل برتاؤ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔نیزیہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہب یا دوسرے دین والوں کی رعایت کرنا شیطانی دھوکے میں آنا ہے۔ اونٹ کا گوشت کھانا اسلام میں فرض نہیں مگر یہودیت کی رعایت کے لئے نہ کھانا بڑا سخت جرم ہے۔ کافروں کو راضی کرنے کیلئے گائے کی قربانی بند کرنابھی اسی میں داخل ہے۔ یونہی کسی جگہ اذان بند کرنا یا اذان آہستہ آواز سے دینا سب اسی میں داخل ہے۔
فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۲۰۹)
ترجمۂکنزالایمان:اور اگر اس کے بعد بھی بَچلو کہ تمہارے پاس روشن حکم آچکے تو جان لو کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اگر تم اپنے پاس روشن دلائل آجانے کے بعد بھی لغزش کھاؤ تو جان لو کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
{فَاِنْ زَلَلْتُمْ: پھر اگر تم پھسلو۔} اس سے مراد یہ ہے کہ واضح دلیلوں کے باوجود اسلام میں پورے پورے داخل ہونے سے دور رہو اور اسلام کی راہ کے خلاف روش اختیار کرو تو یہ تمہارا سخت جرم ہے۔ علم کے باوجود بے عملی جہالت ہے۔
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیَهُمُ اللّٰهُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠(۲۱۰)
ترجمۂکنزالایمان: کاہے کے انتظار میں ہیں مگر یہی کہ اللہ کا عذاب آئے چھائے ہوئے بادلوں میں اور فرشتے اتریں اور کام ہوچکے اور سب کاموں کی رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: لوگ تواسی چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ بادلوں کے سایوں میں ان کے پاس اللہ کا عذاب اور فرشتے آجائیں اور فیصلہ کردیا جائے اوراللہ ہی کی طرف سب کام لوٹائے جاتے ہیں۔
{هَلْ یَنْظُرُوْنَ: کس چیز کا انتظار کرتے ہیں۔} فرمایاجارہا ہے کہ دینِ اسلام چھوڑنے اور شیطان کی فرمانبرداری کرنے والے کس چیز کا انتظار کررہے ہیں؟ کیا اس کا کہ اللہ تعالٰی کا عذاب اور عذاب کے فرشتے اتر آئیں اور ان کا قصہ تمام کردیا جائے۔
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍؕ-وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲۱۱)
ترجمۂکنزالایمان: بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے کتنی روشن نشانیاں انہیں دیں اور جو اللہ کی آئی ہوئی نعمت کو بدل دے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے انہیں کتنی روشن نشانیاں دیں اور جو اللہ کی نعمت کواپنے پاس آنے کے بعد بدل دے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
{ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ: ہم نے انہیں کتنی روشن نشانیاں دیں۔} فرمایا گیا کہ بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے انہیں کتنی روشن نشانیاں عطا فرمائیں ، ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزات کو ان کی نبوت کی صداقت کی دلیل بنایا، ان کے ارشاد اور ان کی کتابوں کو دین اسلام کی حقانیت کا گواہ بنایا۔یاد رہے کہ یہ پوچھنا حقیقت میں انہیں قائل کرنے اور شرمندہ کرنے کے لئے ہے اور ان کی اپنی نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالٰی کی مہربانیوں کا اقرار کرانے کے لئے ہے۔
{وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ: اور جو اللہ کی نعمت کو بدل دے۔} اللہ تعالٰی کی نعمت سے آیات الٰہیہ مراد ہیں جو ہدایت کا سبب ہیں اوران کی بدولت گمراہی سے نجات حاصل ہوتی ہے انہیں میں سے وہ آیات ہیں جن میں سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت اور حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت و رسالت کا بیان ہے اور یہود و نصاریٰ کا اپنی کتابوں میں تحریف کرنا اس نعمت کو تبدیل کرناہے۔
زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۘ-وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ(۲۱۲)
ترجمۂ کنزالایمان: کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی آراستہ کی گئی اور مسلمانوں سے ہنستے ہیں اور ڈر والے ان سے اوپر ہوں گے قیامت کے دن اور خدا جسے چاہے بے گنتی دے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی کو خوشنما بنادیا گیا اور وہ مسلمانوں پرہنستے ہیں اور (اللہ سے) ڈرنےوالے قیامت کے دن ان کافروں سے اوپر ہوں گے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔
{زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا: کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی کو خوشنما بنادیا گیا۔} کافروں کیلئے دنیا کی زندگی آراستہ کردی گئی یعنی انہیں یہی زندگی پسند ہے، وہ اسی کی قدر کرتے اور اسی پر مرتے ہیں۔دنیا کی زندگی وہ ہے جو نفس کی خواہشات میں صرف ہو اور جو توشہ آخرت جمع کرنے میں خرچ ہو وہ بفضلہ تعالیٰ دینی زندگی ہے۔ اس آیت میں وہ لوگ داخل ہیں جو آخرت سے غافل ہیں۔
{وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: اور وہ مسلمانوں پرہنستے ہیں۔} کفار غریب مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے اور دنیاوی سازو سامان سے ان کی بے رغبتی دیکھ کر ان کی تحقیر کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت عمار بن یاسر، حضرت صہیب اور حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمکو دیکھ کر کفار مذاق اڑایا کرتے تھے اور دولت ِدنیا کے غرور میں اپنے آپ کو اونچا سمجھتے تھے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۲، ۱/۱۵۰)
ان کے متعلق فرمایا کہ قیامت کے دن ایماندار اِن کافروں سے بلندو بالا ہوں گے کیونکہ بروزِ قیامت مومنین قرب ِ الٰہی میں ہوں گے اور کفار جہنم میں ذلیل و خوارہوں گے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غریب مسلمانوں کا مذاق اڑانایا کسی مومن کو ذلیل یا کمینہ جاننا کافروں کا طریقہ ہے۔فاسق و کافر اگرچہ مالدار ہو ذلیل ہے اور مومن اگرچہ غریب ہو ، کسی بھی قوم سے ہو عزت والا ہے بشرطیکہ متقی ہو۔
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً- فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ
مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪-وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ
لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ-وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ
اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا
بَیْنَهُمْۚ-فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ
الْحَقِّ بِاِذْنِهٖؕ-وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ
مُّسْتَقِیْمٍ(۲۱۳)
ترجمۂکنزالایمان: لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے اور کتاب میں اختلاف انہیں نے ڈالا جن کو دی گئی تھی بعداس کے کہ ان کے پاس روشن حکم آچکے آپس کی سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تمام لوگ ایک دین پر تھے تو اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے ہوئے اور ڈر سناتے ہوئے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات میں فیصلہ کردے اورجن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے ہی اپنے باہمی بغض و حسد کی وجہ سے کتاب میں اختلاف کیا (یہ اختلاف )اس کے بعد(کیا) کہ ان کے پاس روشن احکام آچکے تھے تو اللہ نے ایمان والوں کو اپنے حکم سے اُس حق بات کی ہدایت دی جس میں لوگ جھگڑ رہے تھے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔
{كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً:تمام لوگ ایک دین پر تھے۔} حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانہ سے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے عہد تک سب لوگ ایک دین اور ایک شریعت پر تھے، پھر ان میں اختلاف ہوا تو اللہ تعالٰی نے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مبعوث فرمایا ،یہ بعثت میں پہلے رسول ہیں،(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۳، ۱/۱۵۰)
رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سلسلہ شروع ہوا ۔ نیز لوگوں کی ہدایت کیلئے بہت سے انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کتابیں اور صحیفے عطا کئے گئے جیسے حضرت آدم ،حضرت شیث اور حضرت ادریس عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر صحیفے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر توریت ،حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر زبور، حضرت عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انجیل اور خاتَم الانبیاء محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر قرآن نازل فرمایا۔انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ہدایات آجانے کے بعد بھی لوگوں نے اختلاف کیا جیسے یہودونصاریٰ نے اپنی کتابوں میں اختلاف کیا اور آپس کے حسد کی وجہ سے کتاب اللہ کو بھی مشقِ ستم بنانے سے باز نہ آئے۔یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو حضور پرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذریعے حق کی ہدایت فرمائی چنانچہ یہودو نصاریٰ کو جن باتوں میں اختلاف تھا ان میں جو حق تھا اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو وہ سمجھادیا۔
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ(۲۱۴)
ترجمۂکنزالایمان: کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد نہ آئی، پہنچی انہیں سختی اور شدت اور ہلا ہلا ڈالے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کب آئے گی اللہ کی مدد سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پرپہلے لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اٹھے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ : کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔} یہ آیت غزوۂ احزاب کے متعلق نازل ہوئی جہاں مسلمانوں کو سردی اور بھوک وغیرہ کی سخت تکلیفیں پہنچی تھیں۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۵، ۲/۲۷، الجزء الثالث)
اس میں انہیں صبر کی تلقین فرمائی گئی اور بتایا گیا کہ راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنا ہمیشہ سے خاصانِ خدا کا معمول رہا ہے۔ ابھی تو تمہیں پہلوں کی سی تکلیفیں پہنچی بھی نہیں ہیں۔بخاری شریف میں حضرت خَبّاب بن ارت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَخانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر مبارک سے تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے ،ہم نے حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ یارسول اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، ہمارے لیے کیوں دعا نہیں فرماتے؟ ہماری کیوں مدد نہیں کرتے؟ ارشادفرمایا: تم سے پہلے لوگ گرفتار کیے جاتے تھے، زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے تھے،آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کرڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے لیکن ان میں سے کوئی مصیبت انہیں ان کے دین سے روک نہ سکتی تھی۔(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲/۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۲)
{وَ زُلْزِلُوْا: اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا۔} سابقہ امتوں کی تکلیف و شدت اس انتہاء کو پہنچ گئی کہ فرمانبردار مومن بھی مدد طلب کرنے میں جلدی کرنے لگے اور اللہ کے رسولوں نے بھی اپنی امت کے اصرار پر فریاد کی حالانکہ رسول بڑے صابر ہوتے ہیں اور ان کے اصحاب بھی لیکن باوجود ان انتہائی مصیبتوں کے وہ لوگ اپنے دین پر قائم رہے اور کوئی مصیبت ان کے حال کو مُتغَیّر نہ کرسکی چنانچہ ان کی فریاد پر بارگاہِ الٰہی سے جواب ملا کہ سن لو، بیشک اللہ تعالٰی کی مدد قریب ہے ، اس جواب سے انہیں تسلی دی گئی اور یہی تسلی حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دی گئی۔ اس آیت اور تفسیر میں مبلغین کیلئے اور نئے مسلمان ہونے والوں کے لئے اور نئے نئے کسی نیکی کے ماحول اپنانے والوں کیلئے تسلی اور بشارت ہے کہ وہ صبرواستقامت کے ساتھ اپنی تبلیغ، دین اور نیکی پر چلتے رہیں۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ(۲۱۵)
ترجمۂکنزالایمان: تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ، تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کروتو و ہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لئے ہے اور جو بھلائی کروبیشک اللہ اسے جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: آپ سے سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں ؟تم فرماؤ: جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو و ہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافر کے لئے ہے اور تم جو بھلائی کرو بیشک اللہ اسے جانتا ہے۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ: آپ سے سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں ؟۔} یہ آیت حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جواب میں نازل ہوئی جو بوڑھے شخص تھے اور بڑے مالدار تھے، انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے سوال کیا تھا کہ کیا خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں ؟ اس آیت میں انہیں بتادیا گیا (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۵، ۱/۱۵۲)
کہ جس قسم کا اور جس قدر مال قلیل یا کثیرخرچ کرو اس میں ثواب ہے اور خرچ کرنے کی جگہیں یہ ہیں یعنی والدین، رشتے دار، یتیم، مسکین اور مسافر۔ یہاں دو مسائل ذہن نشین رکھیں :
(۱)…اس آیت میں صدقہ نافلہ کا بیان ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۵،۱/۲۵۶)
(۲)…ماں باپ کو زکوۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔(رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، ۳/۳۴۴)
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠(۲۱۶)
ترجمۂکنزالایمان: تم پر فرض ہوا خدا کی راہ میں لڑنا اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناگوار ہے اورقریب ہے کہ کوئی بات تمہیں ناپسند ہوحالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
{ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ:تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔} جہاد فرض ہے جب اس کے شرائط پائے جائیں اور اگر کافر مسلمانوں کے ملک پر حملہ کردیں تو جہاد فرض عین ہوجاتا ہے ورنہ فرض کفایہ۔ فرمایا گیا کہ تم پر جہاد فرض کیا گیا اگرچہ یہ تمہیں طبعی اعتبار سے ناگوار ہے اور تمہارے اوپر شاق ہے لیکن تمہیں طبعی طور پر کوئی چیز ناگوار ہونا اس بات کی علامت نہیں کہ وہ چیز ناپسندیدہ اور نقصان دہ ہے جیسے کڑوی دوائی، انجکشن اورآپریشن طبعی طور پر ناپسند ہوتے ہیں لیکن نقصان دہ نہیں بلکہ نہایت فائدہ مند ہیں۔ یونہی کسی چیز کا تمہیں پسند ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اچھی اور مفید ہے۔ بچے کو پڑھائی کی جگہ ہر وقت کھیلتے رہنا پسند ہوتا ہے ، شوگر کے مریض کو مٹھائی پسند ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں یہ چیزیں اس کیلئے مفید بھی ہیں بلکہ نقصان دہ ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو! اچھا یا برا ہونے کا مدار اپنی سوچ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تعالٰی کے حکم پر رکھو۔ اللہ تعالٰی نے جس چیز کا حکم دیا وہ بہرحال ہمارے لئے بہتر ہے اور جس سے منع فرمایا وہ بہرحال ہمارے لئے بہتر نہیں ہے۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون سورہ نساء آیت 19میں بھی ہے۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِؕ-قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌؕ-وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۗ-وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِؕ-وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْاؕ-وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۱۷)
ترجمۂکنزالایمان: تم سے پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنے کا حکم تم فرماؤ اس میں لڑنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس پر ایمان نہ لانا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے بسنے والوں کو نکال دینا اللہ کے نزدیک یہ گناہ اس سے بھی بڑے ہیں اور ان کا فساد قتل سے سخت تر ہے اور ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیردیں اگر بن پڑے اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہوکر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: آپ سے ماہِ حرام میں جہاد کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، تم فرماؤ: اس مہینے میں لڑنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس پر ایمان نہ لانا اور مسجد حرام سے روکنااور اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال دینا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بڑا گناہ ہے اورفتنہ قتل سے بڑا جرم ہے اوروہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہوسکے توتمہیں تمہارے دین سے پھیردیں اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے پھر کافر ہی مرجائے تو ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ:آپ سے ماہِ حرام میں جہاد کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔}
شانِ نزول: نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن جَحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی سرکردگی میں مجاہدین کی ایک جماعت روانہ فرمائی تھی جس نے مشرکین سے جہادکیا ۔ان کا خیال تھا کہ لڑائی کا دن جمادی الاخریٰ کا آخری دن ہے مگر حقیقت میں چاند 29تاریخ کو ہوگیا تھا اور رجب کی پہلی تاریخ شروع ہوگئی تھی۔ اس پر کفار نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ تم نے ماہ حرام میں جنگ کی ۔حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے اس کے متعلق سوال ہونے لگے تواس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۲/۲۳، الجزء الثالث)
کہ ماہِ حرام میں لڑائی کرنا اگرچہ بہت بڑی بات ہے لیکن مشرکوں کا شرک، مسلمانوں کو ایذائیں دینا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوستانا یہاں تک کہ ہجرت پر مجبور کردینا، لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اورمسلمانو ں کو مسجد ِ حرام میں نماز پڑھنے سے روکنا، دورانِ نماز طرح طرح کی ایذائیں دینا یہ ماہِ حرام میں لڑائی سے بہت بڑھ کر ہے۔ لہٰذا پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے کرتوت دیکھ لو پھر مسلمانوں پر اعتراض کرنا۔ تمہارے یہ افعال مسلمانوں کے فعل سے زیادہ شدید ہیں کیونکہ کفر و ظلم تو کسی حالت میں جائز نہیں ہوتے جبکہ لڑائی تو بعض صورتوں میں جائز ہوہی جاتی ہے نیز مسلمانوں نے جو ماہِ حرام میں لڑائی کی تو وہ ان کی غلط فہمی کی وجہ سے تھی کہ چاند کی تاریخ ان پر مشکوک ہوگئی لیکن کفار کا کفر اور مسلمانوں کو ایذائیں تو کوئی قابلِ شک فعل نہیں ، یہ تو واضح طور پر ظلم و سرکشی تھی۔یا د رہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ممانعت کا حکم سورۂ توبہ آیت نمبر5سے منسوخ ہے۔
آیت’’ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
(1)…اس آیت سے معلوم ہوا کہ خود بڑے بڑے عیبوں میں مبتلا ہونا اور دوسروں پر طعن کرنا کافروں کا طریقہ ہے۔ یہ بیماری ہمارے ہاں بھی عام ہے کہ لوگ ساری دنیا کی برائیاں اور غیبتیں بیان کرتے ہیں اور خود اس سے بڑھ کر عیبوں کی گندگی سے آلودہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیث پاک میں بھی اس بیماری کو بیان کیا گیا ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے کسی کو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا تو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحظر والاباحۃ، باب الغیبۃ، ذکر الاخبار عمّا یجب علی المرء۔۔۔ الخ، ۷/۵۰۶، الحدیث: ۵۷۳۱)
(2)… فتنہ انگیزی قتل سے بڑھ کر جرم ہے۔ بعض لوگوں کو فتنہ و فساد کا شوق ہوتا ہے، آیت میں توفتنہ سے مراد کفر و شرک ہے لیکن اس سے ہٹ کر بھی فتنہ انگیزی کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔
(3)…اس آیت سے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان بھی معلوم ہوئی کہ کفار نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر اعتراض کیا اور اللہ تعالٰی نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طر ف سے کفار کوجواب دیا۔
{وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ: اوروہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے۔} اس آیت میں خبر دی گئی کہ کفار مسلمانوں سے ہمیشہ عدوات رکھیں گے اور جہاں تک ان سے ممکن ہوگا وہ مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے چنانچہ آج دنیا میں یہی ہورہا ہے، کفار کی ہزاروں تنظیمیں مسلم اور غیر مسلم ممالک میں اپنا دین، اپنا کلچر، اپنی تہذیب پھیلانے میں مشغول ہیں۔ جہاں اصل اسلام سے پھیر سکیں وہاں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتی ہیں ، جہاں یہ نہ ہوسکے وہاں لوگوں کوقرآن کی من مانی تاویلوں میں لگادیتی ہیں ، حدیثوں کے انکار میں لگادیتی ہیں ، نت نئے فتنوں میں مبتلا کردیتی ہیں۔ اگر ایمانیات پر حملہ نہ کرسکیں تو اخلاقیات تباہ کرکے ایمان کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں الغرض آیت کی حقانیت واضح ہے کہ کفار تمہیں ہمیشہ دین سے پھیرنے کی کوششوں میں لگے رہیں گے۔
{وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ: اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے۔} مرتد ہونے سے تمام عمل باطل ہو جاتے ہیں ، آخرت میں تو اس طرح کہ ان پر کوئی اجرو ثواب نہیں اور دنیا میں اس طرح کہ شریعت حکومت ِ اسلامیہ کو مُرتد کے قتل کا حکم دیتی ہے، مرد مرتد ہوجائے تو بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے،مرتد شخص اپنے رشتے داروں کی وراثت پانے کا مستحق نہیں رہتا، مرتد کی تعریف کرنا اور اس سے تعلق رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ چونکہ مرتد ہونے سے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں لہٰذا اگر کوئی حاجی مرتد ہو جائے پھر ایمان لائے تو وہ دوبارہ حج کرے، پہلا حج ختم ہو چکا۔ اسی طرح زمانہ اِرتِداد میں جو نیکیاں کیں وہ قبول نہیں۔جو حالت ِ ارتداد میں مرگیا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گاجیسا کہ آیت کے آخر میں ’’هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو خاتمہ بالخیر نصیب کرے۔یاد رکھیں کہ مرتد ہونا بہت سخت جرم ہے، افسوس کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت دین کے بنیادی عقائد سے لاعلم ہے، شادی و مرگ اور ہنسی مذاق کے موقع پر کفر یہ جملوں کی بھرمار ہے، گانے، فلمیں ، ڈرامے خصوصاً مزاحیہ ڈرامے کفریات کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ، ان چیزوں سے بچانے والے علوم کا حاصل کرنا فرض ہے۔[4]
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-اُولٰٓىٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۱۸)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں لڑے وہ رحمت الٰہی کے امید وار ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزالعرفان:بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے گھر بار چھوڑدئیے اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہ رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔}اس آیت میں ایمان، ہجرت اور جہاد تین بڑے اعمال کا ذکر ہے اور یہ تینوں اعمال بجا لانے والوں کے بارے ایک اور مقام پر اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰)یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ(۲۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۲۲) (توبہ۲۰ تا۲۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور جنتوں کی بشارت دیتا ہے، ان کے لئے ان باغوں میں دائمی نعمتیں ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔
{اُولٰٓىٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ:وہ رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں۔} اس سے معلوم ہوا کہ عمل کرنے سے اللہ تعالٰی پر اجر دینا واجب نہیں ہوجاتا بلکہ ثواب دینا محض اللہ تعالٰی کا فضل ہے۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ-وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ۬ؕ-قُلِ الْعَفْوَؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ(۲۱۹)
ترجمۂکنزالایمان: تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے اورتم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو فاضل بچے اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تم فرمادو: ان دونوں میں کبیرہ گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ دنیوی منافع بھی ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔آپ سے سوال کرتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ: جو زائد بچے۔ اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم غوروفکر کرو۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ: آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔}یاد رہے کہ اِس آیت میں شراب کو حرام قرار نہیں دیا گیا بلکہ حرمت کی آیات سورہ ٔ مائدہ میں بعد میں نازل ہوئیں اور 3ہجری میں غزوئہ احزاب سے چند روز بعد شراب حرام کی گئی۔
اس آیت میں شراب اور جوئے کی مذمت بیان کی گئی ہے کہ جو ئے اور شراب کا گناہ اس کے نفع سے زیادہ ہے، نفع تو یہی ہے کہ شراب سے کچھ سُرور پیدا ہوتا ہے یا اس کی خریدو فروخت سے تجارتی فائدہ ہوتا ہے اور جوئے میں یہ فائدہ ہے کہ اس سے کبھی مفت کا مال ہاتھ آجاتا ہے لیکن شراب اور جوئے کی وجہ سے ہونے والے گناہوں اورفسادات کا کیا شمار۔شراب سے عقل زائل ہوجاتی ہے، غیرت و حَمِیَّت کا جنازہ نکل جاتا ہے، ماں ، بہن، بیٹی کی تمیز ختم ہوجاتی ہے، عبادت سے دل اکتا جاتا ہے، عبادت کی لذت دل سے نکل جاتی ہے۔ جوئے کی وجہ سے لوگوں سے دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں ، آدمی سب کی نظر میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے، جوئے باز، سٹے باز کے نام سے بدنام ہوتا ہے، کبھی کبھار اپنا سب مال و اسباب جوئے میں ہار دیتا ہے، زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے، محنت سے جی چرانا شروع ہوجاتا ہے اور مفت خورہ بننے کی عادت پڑ جاتی ہے وغیرہا۔ ایک روایت میں ہے کہ جبریل امینعَلَیْہِ السَّلَام نے حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اللہ تعالٰی کو جعفرطیار کی چار خصلتیں پسند ہیں۔ سرکار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت جعفر طیار رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کی کہ ایک خصلت تویہ ہے کہ میں نے کبھی شراب نہیں پی، یعنی حرمت کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی کبھی شراب نہیں پی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ اس سے عقل زائل ہوتی ہے ا ور میں چاہتا تھا کہ عقل اور بھی تیز ہو۔ دوسری خصلت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی میں نے کبھی بت کی پوجا نہیں کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ پتھر ہے نہ نفع دے سکے نہ نقصان۔ تیسری خصلت یہ ہے کہ میں کبھی زنا میں مبتلا نہ ہوا کیونکہ میں اس کو بے غیرتی سمجھتا تھا۔ چوتھی خصلت یہ تھی کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کیونکہ میں اس کو کمینہ پن خیال کرتاتھا۔ (تفسیرات احمدیہ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ص۱۰۱ملتقطاً)
سبحان اللہ، کیا سلیم الفِطرت تھے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ اگر شراب کا ایک قطرہ کنویں میں گر جائے پھر اس جگہ منارہ بنایا جائے تو میں اس پر اذان نہ کہوں گااور اگر دریا میں شراب کا قطرہ پڑ جائے پھر دریا خشک ہوجائے اور وہاں گھاس پیدا ہو تومیں اس میں اپنے جانوروں کو نہ چراؤں گا۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ص۱۱۳)
سبحان اللہ! گناہ سے کس قدر نفرت ہے۔ ’’اللہ تعالٰی ہمیں ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(1)…جوا کھیلنا حرام ہے۔
(2)…جوا، ہر ایسا کھیل ہے جس میں اپنا کل یا بعض مال چلے جانے کا اندیشہ ہو یا مزید مل جانے کی امید ہو۔
(3) …شطرنج تاش ، لڈو، کیرم، بلیئرڈ، کرکٹ وغیرہ ہار جیت کے کھیل جن پر بازی لگائی جائے سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں۔یونہی کرکٹ وغیرہ میں میچ یا ایک ایک اوور یا ایک ایک بال پر جو رقم لگائی جاتی ہے یہ جوا ہے، یونہی گھروں یا دفتروں میں چھوٹی موٹی باتوں پر جو اس طرح کی شرطیں لگتی ہیں کہ اگر میری بات درست نکلی تو تم کھانا کھلاؤ گے اور اگر تمہاری بات سچ نکلی تو میں کھانا کھلاؤں گا یہ سب جوئے میں داخل ہیں۔ یونہی لاٹری وغیرہ جوئے میں داخل ہے۔ آج کل موبائل پرکمپنی کو میسج کرنے پر ایک مخصوص رقم کٹتی ہے اور اس پر بھی انعامات رکھے جاتے ہیں یہ سب جوئے میں داخل ہیں۔
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ: آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ؟} تفسیر خازن میں ہے کہ سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو صدقہ دینے کی رغبت دلائی تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: صدقہ کی مقدار ارشاد فرمادیں کہ کتنا مال راہِ خدا میں دیا جائے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۹، ۱/۱۵۹)
اور فرمایا گیا کہ جتنا تمہاری حاجت سے زائد ہو ۔ ابتدائے اسلام میں حاجت سے زائد مال خرچ کرنے کا حکم دیا گیا، صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم اپنے مال میں سے اپنی ضرورت کی مقدار لے کر باقی سب راہ خدا میں تصدُّق کردیتے تھے۔یہ حکم اگر بطورِ فرض کے تھا تو زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے منسوخ ہوگیا اور اگر نفلی حکم تھا تو آج بھی مستحب طور پر باقی ہے۔
فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰىؕ-قُلْ اِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَیْرٌؕ-وَ اِنْ تُخَالِطُوْهُمْ فَاِخْوَانُكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَاَعْنَتَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۲۲۰)
ترجمۂکنزالایمان:دنیاو آخرت کے کام سوچ کر کرو اور تم سے یتیموں کا مسئلہ پوچھتے ہیں تم فرماؤ ان کا بھلا کرنا بہتر ہے اور اگر اپنا ان کا خرچ ملالو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے، اور اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈالتا، بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: دنیااور آخرت کے کاموں میں (غوروفکر کرلیاکرو) اور تم سے یتیموں کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔تم فرماؤ: ان کا بھلا کرنا بہتر ہے اور اگر ان کے ساتھ اپنا خرچہ ملالو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے جداخوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا۔ بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
{فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ: دنیا و آخرت کے کاموں میں۔} اس حصے کا تعلق پچھلی آیت کے آخری جملے سے ہے اور اس کا معنٰی یہ بنے گا ’’ تا کہ تم دنیا و آخرت کے معاملے میں غور و فکر کرو۔ یعنی جتنا تمہاری دنیوی ضرورت کے لیے کافی ہو وہ لے کر باقی سب مال اپنی آخرت کے نفع کے لیے خیرات کردو ۔ اس سے جداگانہ بھی دنیا و آخرت کے کام سوچ سمجھ کر ہی کرنے چاہئیں۔
{ وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْیَتٰمٰى: اور تم سے یتیموں کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔}
جب یہ آیت: اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا (النساء: ۱۰) نازل ہوئی کہ یتیموں کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنے والا ہے تو لوگوں نے یتیموں کے مال جدا کر دیئے اور ان کا کھانا پینا علیحدہ کردیا اس میں یہ صورتیں بھی پیش آئیں کہ جو کھانا یتیم کے لیے پکایاجاتا اس میں سے کچھ بچ جاتا اور خراب ہوجاتا اور کسی کے کام نہ آتا، اس میں یتیموں کا نقصان ہونے لگا۔ یہ صورتیں دیکھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی کہ اگر یتیم کے مال کی حفاظت کی نیت سے اس کا کھانا اس کے سرپرست اپنے کھانے کے ساتھ ملالیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یتیموں کے فائدے کے لیے ملانے کی اجازت دی گئی۔(ابو داود، کتاب الوصایا، باب مخالطۃ الیتیم فی الطعام، ۳/۱۵۷، الحدیث: ۲۸۷۱، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۰، ۲/۴۰۴)
لیکن ساتھ ہی تنبیہ فرمادی کہ تمہیں یتیموں کے فائدے کیلئے مال ملانے کی اجازت تو دیدی گئی ہے لیکن کون اچھی نیت سے یتیموں کا مال ملاتا ہے اور کس کی نیت میں فساد ہوتا ہے یہ اللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ ظاہراً تو یتیموں کا فائدہ کررہے ہو اور حقیقت میں ان کا مال ہڑپ کرنے کا ارادہ ہو۔آیت مبارکہ کا یہ حصہ’’وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ‘‘ کہ اللہ تعالٰی اصلاح کی نیت والے اور فساد کی نیت والے دونوں کو جانتا ہے،یہ فرمان نہایت جامع ہے اور زندگی کے ہزاروں شعبوں کے لاکھوں معاملات میں رہنمائی کیلئے کافی ہے جہاں ایک ہی چیز میں اچھی اور بری دونوں نیتیں ہوسکتی ہیں وہاں دوسرے لوگ اگرچہ بری نیت کو نہ جانتے ہوں لیکن اللہ تعالٰی تو جانتا ہے۔
(1)…یتیم وہ نابالغ بچہ یا بچی ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، اگر اس کے پاس مال ہو اور اپنے کسی ولی کی پرورش میں ہو اس کے احکام اس آیت میں مذکور ہیں کہ ولی خواہ اس یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر اس پر خرچ کرے یا علیحدہ رکھ کر جس میں یتیم کی بہتری ہو وہ کرسکتا ہے لیکن ملانا خراب نیت سے نہیں ہونا چاہیے۔
(2)…اگرچہ اس آیت کا نزول یتیموں کی مالی اصلاح کے بارے میں ہوا مگر اصلاح کے لفظ میں ساری مصلحتیں داخل ہیں۔ یتیموں کے اخلاق، اعمال ،تربیت، تعلیم سب کی اصلاح کرنی چاہیے ۔ یوں سمجھیں کہ یتیم ساری مسلم قوم کیلئے اولاد کی طرح ہیں۔
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّؕ-وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْۚ-وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْاؕ-وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۚۖ-وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖۚ-وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۠(۲۲۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ سے اچھی اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اپنے حکم سے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اورمشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو اور (مسلمان عورتوں کو) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ مشرک تمہیں پسندہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
{وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ: اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو۔} یہ آیت حضرت مرثد غَنَوِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ،وہ ایک بہادر شخص تھے۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے انہیں مکہ مکرمہ روانہ فرمایا تاکہ وہاں سے کسی تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو نکال لائیں۔وہاں عَناق نامی ایک مشرکہ عورت تھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت کرتی تھی، وہ حسین اور مالدار تھی جب اُس کو اِن کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ کے پاس آئی اور اپنی طرف دعوت دی ۔آپ نے خوفِ الٰہی کی وجہ سے اس سے اِعراض کیا اور فرمایا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا تب اس نے نکاح کی درخواست کی توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ یہ بھی رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اجازت پر موقوف ہے۔ چنانچہ پھر اپنے کام سے فارغ ہو کر جب آپ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو صورت ِ حال عرض کرکے نکاح کے متعلق دریافت کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۱، ۱/۱۶۰)
اور فرمایا گیا کہ مشرکہ عورتوں سے نکاح کی اجازت نہیں اگرچہ وہ تمہیں پسند ہوں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ اہلِ کتاب یعنی یہودی، عیسائی عورت سے نکاح کی اجازت ہے ۔ اس کی تفصیل سورہ مائدہ آیت5میں آئے گی۔
{وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ: اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے۔} شانِ نزول: ایک روز حضرت عبداللہبن رواحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی خطا پر اپنی باندی کے طمانچہ مارا پھر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کیا۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی ایمانی حالت کے متعلق دریافت کیا ۔ عرض کیا کہ وہ اللہ تعالٰی کی وحدانیت اور حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت کی گواہی دیتی ہے، رمضان کے روزے رکھتی ہے، اچھی طرح وضو کرتی ہے اور نماز پڑھتی ہے۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ مومنہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے عرض کیا :تو اس ذات کی قسم جس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو سچا نبی بنا کر مبعوث فرمایا، میں اس کو آزاد کرکے اس کے ساتھ نکاح کروں گا ، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا ۔ اس پر لوگوں نے طعنہ زنی کی کہ تم نے ایک سیاہ فام باندی کے ساتھ نکاح کیا حالانکہ فلاں مشرکہ آزاد عورت تمہارے لیے حاضر ہے ،وہ حسین بھی ہے ،مالدار بھی ہے اس پریہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۱، ۱/۱۶۱)
کہ مسلمان باندی مشرکہ عورت سے بہتر ہے خواہ وہ مشرکہ آزاد ہو اور حسن و مال کی وجہ سے اچھی معلوم ہوتی ہو۔
{ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا: اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔} یہ عورت کے سرپرستوں سے خطاب ہے کہ اپنی مسلمان عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو۔ مسلمان عورت کا نکاح مشرک و کافر کے ساتھ باطل و حرام ہے۔مشرک و کافر لوگ تو تمہیں جہنم کی آگ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی تمہیں اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور تمہیں نصیحت فرمانے کیلئے تم پر اپنے احکام نازل فرماتا ہے۔ اس آیت میں آج کل کے مسلمانوں کے لئے بہت واضح حکم موجود ہے۔انتہائی افسوس ہے کہ قرآن میں اتنی صراحت و وضاحت سے حکم آنے کے باوجود مسلمان لڑکوں میں مشرکہ لڑکیوں کے ساتھ اور یونہی کافر لڑکوں اور مسلمان لڑکیوں میں باہم شادیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کفارو مسلم اکٹھے رہتے ہیں۔ مغربی طرزِزندگی نیز لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے جہاں اور تباہیاں مچی ہوئی ہیں اور بے حیائی کا طوفان امڈ آیا ہے وہیں باہم ایسی حرام شادیوں کے ذریعے زندگی بھر کی بدکاری کے سلسلے بھی جاری و ساری ہیں۔ اس تمام صورتحال کا وبال اُن لڑکوں لڑکیوں پر بھی ہے جو اس میں مُلَوَّث ہیں اور ان والدین پربھی جو راضی خوشی اولاد کو اس جہنم میں جھونکتے ہیں اور ان حکمرانوں اور صاحب ِ اختیار پر بھی ہے جو ایسی تعلیم کو رواج دیتے ہیں یا باوجودِ قدرت اس کا اِنسِداد کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور یونہی اس کا وبال اُن نام نہاد جاہل دانشوروں ، لبرل اِزم کے مریضوں اور دین دشمن قلمکاروں پر بھی ہے جو اس کی تائید و حمایت میں ورق سیاہ کرتے ہیں۔
وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِؕ-قُلْ هُوَ اَذًىۙ-فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِۙ-وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَۚ-فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور تم سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم تم فرماؤ وہ ناپاکی ہے تو عورتوں سے الگ رہو حیض کے دنوں اور ان سے نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہولیں پھر جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا بیشک اللہ پسند رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں تم فرماؤ: وہ ناپاکی ہے تو حیض کے دنوں میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ جب تک پاک نہ ہوجائیں پھر جب خوب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس وہاں سے جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیاہے ، بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
{وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ: اور تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔}شانِ نزول:عرب کے لوگ یہودیوں اور مجوسیوں کی طرح حیض والی عورتوں سے بہت نفرت کرتے تھے، ان کے ساتھ کھانا پینا، ایک مکان میں رہنا انہیں گوارا نہ تھا بلکہ یہ شدت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی طرف دیکھنا اور ان سے کلام کرنا بھی حرام سمجھتے تھے جبکہ عیسائیوں کا طرزِ عمل اس کے بالکل برعکس تھا یعنی وہ ان دنوں میں عورتوں سے ملاپ میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے تھے۔ مسلمانوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے حیض کا حکم دریافت کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۳، ۲/۶۴، الجزء الثالث)
اور اِفراط و تفریط کی راہیں چھوڑ کر اعتدال کی تعلیم فرمائی گئی اور بتادیا گیا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے ہم بستری کرنا حرام ہے۔ اور چونکہ یہ قرآن کی واضح آیت سے ثابت ہے لہٰذا ایسی حالت میں جماع جائز جاننا کفر ہے اور حرام سمجھ کر کر لیا تو سخت گنہگار ہوا اس پر توبہ فرض ہے۔(بہار شریعت، حصہ دوم، نفاس کا بیان، ۱/۳۸۲)
یونہی ناف سے لے کر گھٹنے کے نیچے تک کی جگہ سے لذت حاصل کرنا منع ہے۔(رد المحتار، کتاب الطہارۃ، ۱/۵۳۴)
بقیہ ان سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ کھانا پینا حتیّٰ کہ ان کا جوٹھا کھانا بھی جائز ہے ،گناہ نہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی گندگی کا مقام ہے۔
{فَاِذَا تَطَهَّرْنَ: پھر جب خوب پاک ہوجائیں۔} خوب پاک ہونے سے مراد ایامِ حیض ختم ہونے کے بعد غسل کر لینا ہے۔
(1)…حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔
(2)…حیض کے دنوں میں عورت کیلئے تلاوتِ قرآن، نماز، روزہ، مسجد میں داخلہ، قرآن کو چھونا اور خانہ کعبہ کا طواف حرام ہوجاتاہے۔
(3)…ذکرودرود وغیرہ میں کوئی حرج نہیں البتہ اس کیلئے وضو کرلینا مستحب ہے۔
(4) …ایامِ حیض کے روزوں کی قضا عورت پر لازم ہے جبکہ نمازیں معاف ہیں۔مزید تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ 2کا مطالعہ فرمائیں۔
نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۪-فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ٘-وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْهُؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۲۳)
ترجمۂکنزالایمان: تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں ، تو آؤ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو اور اپنے بھلے کا کام پہلے کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اس سے ملنا ہے اور اے محبوب بشارت دو ایمان والوں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہوآؤ اور اپنے فائدے کا کام پہلے کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو اور اے حبیب ! ایمان والوں کوبشارت دو۔
{نِسَآؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ:تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں۔}عورتوں سے متعلق فرمایا کہ وہ تمہاری کھیتیاں ہیں یعنی عورتوں کی قربت سے نسل حاصل کرنے کا ارادہ کرو ،نہ کہ صرف اپنی خواہش پوری کرنے کا۔ نیز عورت سے ہر طرح ہم بستری جائز ہے لیٹ کر، بیٹھ کر ، کھڑے کھڑے ، بشرطیکہ صحبت اگلے مقام میں ہو کیونکہ یہی راستہ کھیتی یعنی اولاد کا ثمرہ حاصل کرنے کا ہے۔
{وَ قَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ:اور اپنے بھلے کا کام پہلے کرو۔} اس سے مراد ہے کہ اعمال صالحہ کرویا جماع سے قبل بسم اللہ پڑھو نیز بیویوں میں مشغول ہو کر عبادات سے غافل نہ ہو جاؤ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو کہے:
’’بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ‘‘
اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، ہمیں شیطان سے محفوظ رکھنا اور اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھنا جو تو ہمیں عطا فرمائے۔
پس (یہ دعا پڑھنے کے بعد صحبت کرنے سے) جو بچہ انہیں ملا اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔(بخاری، کتاب الوضوئ، باب التسمیۃ علی کلّ حال وعند الوقاع، ۱/۷۳، الحدیث: ۱۴۱)
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۲۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کو اپنی قَسَموں کا نشانہ نہ بنالو کہ احسان اور پرہیزگاری او ر لوگوں میں صلح کرنے کی قسم کرلو اور اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اپنی قسموں کی وجہ سے اللہ کے نام کو احسان کرنے اور پرہیزگاری اختیارکرنے او ر لوگوں میں صلح کرانے میں آڑنہ بنالواور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
{وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ: اور اپنی قسموں کی وجہ سے اللہ کے نام کو آڑنہ بنالو۔} حضرت عبد اللہبن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے قسم کھائی تھی کہ میں اپنے بہنوئی حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے نہ کلام کروں گا نہ ان کے گھر جاؤں گا اورنہ ان کے مخالفین سے ان کی صلح کراؤں گا۔ جب اس کے متعلق ان سے کہا جاتا تو وہ کہتے کہ میں قسم کھا چکا ہوں اس لیے یہ کام کر ہی نہیں سکتا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۴، ۱/۱۶۴)
اور نیک کام نہ کرنے کی قسم کھانے سے منع کردیا گیا۔
یہاں ایک اہم مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی شخص نیکی سے باز رہنے کی قسم کھالے تو اس کو چاہیے کہ قسم کو پورا نہ کرےبلکہ وہ نیک کام کرے اور قسم کا کفارہ دے ۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: جس شخص نے کسی امر پر قسم کھالی پھر معلوم ہوا کہ خیر اور بہتری اس کے خلاف میں ہے تو چاہیے کہ اس امرِ خیر کو کرلے اور قسم کا کفارہ دے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب ندب من حلف یمیناً۔۔۔ الخ، ص ۸۹۸، الحدیث: ۱۲(۱۶۵۰))
یہی حکم سورہ نور آیت نمبر 22میں بھی مذکور ہے۔
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(۲۲۵)
ترجمۂکنزالایمان: اللہ تمہیں نہیں پکڑ تا ان قَسَموں میں جو بے ارادہ زبان سے نکل جائے ہاں اس پر گرفت فرماتا ہے جو کام تمہارے دل نے کئے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ ان قسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرمائے گاجو بے ارادہ زبان سے نکل جائے ہاں اس پر گرفت فرماتا ہے جن کا تمہارے دلوں نے قصد کیا ہو اور اللہ بہت بخشنے والا،بڑا حلم والا ہے۔
{لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ: اور اللہ ان قسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرمائے گاجو بے ارادہ زبان سے نکل جائے۔} قسم تین طرح کی ہوتی ہے:(۱) لَغو ۔(۲) غموس۔ (۳) مُنعقدہ ۔
(1)… لغویہ ہے کہ کسی چیز کو اپنے خیال میں صحیح جان کر قسم کھائی اور درحقیقت وہ اس کے خلاف ہو یہ معاف ہے اور اس پر کفارہ نہیں۔
(2)… غموس یہ ہے کہ کسی گزری ہوئی چیز پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے، یہ حرام ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعیدیں ہیں۔
(3)… منعقدہ یہ ہے کہ کسی آئندہ چیزپر قسم کھائے، اس قسم کو اگر توڑے تو بعض صورتوں میں گنہگار بھی ہے اور کفارہ بھی لازم ہوتا ہے۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھا ہے کہ قصد و بے قصد زبان سے جاری ہوتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی، یہ سخت معیوب ہے۔([5])(بہار شریعت، حصہ نہم، قسم کا بیان، ۲/۲۹۸)
لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَةِ اَشْهُرٍۚ-فَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲۶)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو قسم کھا بیٹھتے ہیں اپنی عورتوں کے پاس جانے کی انہیں چار مہینے کی مہلت ہے، پس اگر اس مدت میں پھر آئے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھابیٹھیں ان کیلئے چار مہینے کی مہلت ہے، پس اگر اس مدت میں وہ رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآىٕهِمْ:اور وہ جو اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھابیٹھیں۔} یہ قسم کھانا کہ میں اپنی بیوی سے چار مہینے تک یا کبھی صحبت نہ کروں گا اسے اِیلاء کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم توڑدے اور چار ماہ کے اندر صحبت کرلے تب تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے ورنہ چار ماہ کے بعد عورت کو طلاق بائنہ پڑ جائیگی اس آیت میں اسی کا بیان ہے۔ ایلاء کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے بہار شریعت،حصہ8سے ’’ایلاء کا بیان‘‘مطالعہ فرمائیں۔
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۲۷)
ترجمۂکنزالایمان:اور اگر چھوڑ دینے کا ارادہ پکا کرلیا تو اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂکنزالعرفان:اور اگر وہ طلاق کاپختہ ارادہ کرلیں تو اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
{وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ: اور اگر وہ طلاق کاپختہ ارادہ کرلیں۔} زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ معمول تھا کہ اپنی عورتوں سے مال طلب کرتے، اگر وہ دینے سے انکار کرتیں تو ایک سال، دو سال ،تین سال یا اس سے زیادہ عرصہ ان کے پاس نہ جانے اور صحبت ترک کرنے کی قسم کھالیتے اور انہیں پریشانی میں چھوڑ دیتے نہ تووہ بیوہ ہوتیں کہ کہیں اپنا ٹھکانہ کر لیتیں اورنہ شوہر دار کہ شوہر سے کچھ سکون حاصل کرتیں۔اسلام نے اس ظلم کو مٹایا اور ایسی قسم کھانے والوں کے لیے چار مہینے کی مدت معین فرما دی کہ اگر عورت سے چار مہینے یا اس سے زائد عرصہ کے لیے یا غیر معین مدت کے لیے ترکِ صحبت کی قسم کھا لے جس کو ایلا کہتے ہیں تو اس کے لیے چار ماہ انتظار کی مہلت ہے اس عرصہ میں خوب سوچ سمجھ لے کہ عورت کو چھوڑنا اس کے لیے بہتر ہے یا رکھنا، اگر رکھنا بہتر سمجھے اور اس مدت کے اندر رجوع کرے تو نکاح باقی رہے گا اور قسم کا کفارہ لازم ہو گا اور اگر اس مدت میں رجوع نہ کیا اورقسم نہ توڑی تو عورت نکاح سے باہر ہوگئی اور اس پر طلاق بائن واقع ہوگئی۔ یہ حکم بھی عورتوں پر اسلام کے احسانات میں سے ایک احسان اور حقوقِ نسواں کی پاسداری کی علامت ہے۔([6])
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًاؕ-وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۲۲۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور طلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک اور انہیں حلال نہیں کہ چھپائیں وہ جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیااگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہروں کو اس مدت کے اندر ان کے پھیر لینے کا حق پہنچتا ہے اگر ملاپ چاہیں اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں اور انہیں حلال نہیں کہ اس کوچھپائیں جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیا ہے اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں پھیر لینے کا حق رکھتے ہیں اگروہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں اور عورتوں کیلئے بھی مردوں پر شریعت کے مطابق ایسے ہی حق ہے جیسا (ان کا) عورتوں پر ہے اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے اور اللہ غالب، حکمت والا ہے۔
{وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ:اور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کو تین حیض تک روکے رکھیں۔}اس آیت میں مُطَلَّقہ عورتوں کی عدت کا بیان ہے جن عورتوں کو ان کے شوہروں نے طلاق دی ہواگر وہ شوہر کے پاس نہ گئی تھیں اور ان سے خَلْوَت صحیحہ بھی نہ ہوئی تھی جب تو ان پر طلاق کی عدت ہی نہیں ہے جیسا کہ سورۂ احزاب کی آیت 49 میں ہے اور جن عورتوں کوکم سِنی یا بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہوان کی عدت تین مہینے ہے اور جو حاملہ ہوں ان کی عدت بچہ جننا ہے جیسا کہ ان دونوں کی عدتوں کا بیان سورہ طلاق کی آیت 4 میں ہے اور جس کا شوہر فوت ہوجائے اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت بچہ جننا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر فوت شدہ کی بیوی حاملہ نہ ہو تو اس عورت کی عدت 4ماہ، 10دنہے جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت234میں ہے۔ مذکورہ بالا عورتوں کے علاوہ باقی جو آزاد عورتیں ہیں یہاں ان کی عدت اور طلاق کا بیان ہے کہ ان کی عدت تین حیض ہے۔
{وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ: اور انہیں حلال نہیں۔} جس چیز کا چھپانا حلال نہیں وہ حمل اور حیض کا خون ہے۔(جلالین، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۸، ص۳۴)
ان کا چھپانا اس لئے حرا م ہے کہ ان کے چھپانے سے رجوع کرنے اوراولاد کے بارے میں جو شوہر کا حق ہے وہ ضائع ہوگا۔
{اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ: اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں۔} یہاں بطورِ خاص ایمان کا تذکرہ کرکے یہ سمجھایا ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے ہر حکم پر عمل کیا جائے۔ لہٰذا ہرنیک عمل کو ایمان کا تقاضا کہہ سکتے ہیں۔
{وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ: اور ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں پھیر لینے کا حق رکھتے ہیں۔} شوہروں کو رجعی طلاق میں عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔آیت میں ’’اَرَادُوْا‘‘ کے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طلاق رجعی میں رجوع کیلئے عورت کی مرضی ضروری نہیں صرف مرد کا رجوع کافی ہے، ہاں ظلم کرنے اور عورت سے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کیلئے رجوع کرنا سخت برا ہے۔رجوع اصلاح کی نیت سے ہونا چاہیے۔افسوس کہ ہمارے ہاں اِس جہالت کی بھی کمی نہیں ، بیویوں کو ظلم وستم اور سسرال سے انتقام لینے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے حتیّٰ کہ بعض اوقات تو شادی ہی اس نیت سے کی جاتی ہے اور بعض اوقات رجوع اس نیت سے کیا جاتا ہے۔یہ سب زمانہ جاہلیت کے مشرکوں کے افعال ہیں۔
{وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ: اور عورتوں کیلئے بھی شریعت کے مطابق مردوں پر ایسے ہی حق ہے جیسا عورتوں پر ہے۔} یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔آیت کی مناسبت سے یہاں ہم شوہر اور بیوی کے چند حقوق بیان کرتے ہیں۔
شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں : (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں ، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں۔
بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں : (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا، (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا، (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا، (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا، (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا، (6) اسے اپنا سردار جاننا، (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا، (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا، (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا، (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا، (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)
{وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ: اور مردوں کو ان پر فضیلت حاصل ہے۔} مرد و عورت دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن مرد کو بہرحال عورت پر فضیلت حاصل ہے اور اس کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں۔
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۲۹)
ترجمۂکنزالایمان: یہ طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا اس میں سے کچھ واپس لو مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے پھر اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہی حدوں پر نہ رہیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یااچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم نے جو کچھ عورتوں کو دیاہو اس میں سے کچھ واپس لو مگر اس صورت میں کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو اگر تمہیں خوف ہو کہ میاں بیوی اللہ کی حدوں کو قائم نہ کرسکیں گے تو ان پر اُس (مالی معاوضے) میں کچھ گناہ نہیں جو عورت بدلے میں دے کر چھٹکارا حاصل کرلے، یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
{اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ: طلاق دو بار تک ہے۔} یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی تورجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۲/۲۰۲)
اور ارشاد فرمادیا کہ طلاق رَجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طلاق دینے پررجوع کا حق نہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا اختیار دو بار تک ہے۔ اگر تیسری طلاق دی تو عورت شوہر پر حرام ہوجائے گی اور جب تک پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی دوسرے شوہر سے نکاح اور ہم بستری کرکے عدت نہ گزار لے تب تک پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی۔ لہٰذا ایک طلاق یا دو طلاق کے بعد رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے رکھ لو اور یا طلاق دے کر اسے چھوڑ دو تاکہ عورت اپنا کوئی دوسرا انتظام کرسکے۔ اچھے طریقے سے روکنے سے مراد رجوع کرکے روک لینا ہے اور اچھے طریقے سے چھوڑ دینے سے مراد ہے کہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے دے کہ اس طرح ایک طلاق بھی بائنہ ہوجاتی ہے۔ شریعت نے طلاق دینے اور نہ دینے کی دونوں صورتوں میں بھلائی اور خیر خواہی کا فرمایا ہے۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دونوں صورتوں میں الٹا چلتی ہے، طلاق دینے میں بھی غلط طریقہ اور بیوی کو رکھنے میں غلط طریقہ۔ اللہ تعالٰی ہدایت عطا فرمائے۔
{وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ: اور تمہیں حلال نہیں۔}یہاں بوقت ِ طلاق عورت سے مال لینے کا مسئلہ بیان کیا جارہا ہے ۔ اس کی دو صورتیں ہیں پہلی یہ کہ شوہر اپنا دیا ہوا مہر واپس لے اور یہ بطورِ خلع نہ ہو، یہ صورت تو سراسر ناجائز و حرام ہے ، یہ مضمون سورہ نساء کی آیت 20، 21میں بھی ہے ، وہاں فرمایا کہ تم بیویوں کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو طلاق کے وقت اس سے لینے کی اجازت نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عورت مرد سے خلع لے اور خلع میں عورت مال ادا کرے، اس صورت کی اجازت ہےاور آیت میں جو فرمایا کہ عورت کے فدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں اس سے یہی صورت مراد ہے لیکن اس صورت میں بھی یہ حکم ہے کہ اگر زیادتی مرد کی طرف سے ہو تو خلع میں مال لینا مکروہ ہے اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو مال لینا درست ہے لیکن مہر کی مقدار سے زیادہ لینا پھر بھی مکروہ ہے۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الطلاق، الباب الثامن، الفصل الاول، ۱/۴۸۸)
(1)…بلاوجہ عورت کیلئے طلاق کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔ایسی عورتیں اور وہ حضرات درج ذیل3 احادیث سے عبرت حاصل کریں جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکاتے ہیں :
(۱)حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ جو عورت اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی الخلع، ۲/۳۹۰، الحدیث: ۲۲۲۶)
(۲)حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے ۔(ابو داود، کتاب الطلاق، باب فیمن خبب امرأۃ علی زوجہا، ۲/۳۶۹، الحدیث: ۲۱۷۵)
(۳)حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے،پھر وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے،اس کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ ڈالتا ہے۔اس کے لشکر میں سے ایک آ کر کہتا ہے:میں نے ایسا ایسا کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک شخص آ کر کہتا ہے:میں نے ایک شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ ا س کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کروا دی۔ابلیس اس کو اپنے قریب کر کے کہتا ہے:ہاں !تم نے کام کیا ہے ۔(مسلم ، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعث سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔۔ الخ، ص۱۵۱۱، الحدیث: ۶۷(۲۸۱۳))
(2)…خلع کا معنیٰ: مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔ خلع میں شرط ہے کہ عورت اسے قبول کرے۔
(3)… اگر میاں بیوی میں نا اتفاقی رہتی ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کے گھروالے ان میں صلح صفائی کی کوشش کریں جیسا کہ سورہ نساء آیت 35میں ہے کہ مردو عورت دونوں کی طرف سے پنچ مقرر کیا جائے جو ان کے درمیان صلح صفائی کروادے لیکن اگر اس کے باوجود آپس میں نہ بنے اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں کوئی مضائقہ نہیں اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور جو مال طے کیا ہو عورت پر اُس کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے۔(ہدایہ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ۱/۲۶۱)
خلع کی آیت حضرت جمیلہ بنت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنے شوہر حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شکایت حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں کی اور کسی طرح ان کے پاس رہنے پر راضی نہ ہوئیں تب حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے ان کو ایک باغ دیا ہے اگر یہ میرے پاس رہنا گوارا نہیں کرتیں اور مجھ سے علیحدگی چاہتی ہیں تو وہ باغ مجھے واپس کریں میں ان کو آزاد کردوں گا۔ حضرت جمیلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس بات کو منظور کر لیا چنانچہ حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے باغ لے لیا اور انہیں طلاق دے دی۔ (در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۱/۶۷۱)
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۲۳۰)
ترجمۂکنزالایمان: پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے پھر وہ دوسرا اگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں اگر سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے دانش مندوں کے لئے۔
ترجمۂکنزالعرفان: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے تو اب وہ عورت اس کیلئے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے، پھر وہ دوسرا شوہراگر اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر ایک دوسرے کی طرف لوٹ آنے میں کچھ گناہ نہیں اگر وہ یہ سمجھیں کہ (اب) اللہ کی حدوں کو قائم رکھ لیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جنہیں وہ دانش مندوں کے لئے بیان کرتا ہے۔
{فَاِنْ طَلَّقَهَا: پھر اگر شوہر بیوی کو (تیسری) طلاق دیدے۔ }تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر حرمت ِ غلیظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، اب نہ اس سے رجوع ہوسکتا ہے اورنہ دوبارہ نکاح جب تک یہ نہ ہو کہ عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے یا وہ فوت ہوجائے اورعورت پھر اس دوسرے شوہر کی عدت گزارے۔
تین طلاقیں تین مہینوں میں دی جائیں یا ایک مہینے میں یا ایک دن میں یا ایک نشست میں یا ایک جملے میں بہر صورت تینوں واقع ہوجاتی ہیں اور عورت مرد پر حرام ہوجاتی ہے۔ تین طلاقوں کے بعد بغیر شرعی طریقے کے مردو عورت کاہم بستری وغیرہ کرنا صریح حرام و ناجائز ہے اور ایسی صلح کی کوشش کروانے والے بھی گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ تفصیل کیلئے علماء اہلسنّت کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ ۪-وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْاۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗؕ-وَ لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰیٰتِ اللّٰهِ هُزُوًا٘-وَّ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مَاۤ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَ الْحِكْمَةِ یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠(۲۳۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی میعاد آلگے تو اس وقت تک یا بھلائی کے ساتھ روک لو یا نکوئی کے ساتھ چھوڑ دو اور انہیں ضرر دینے کے لئے روکنا نہ ہو کہ حد سے بڑھو اور جو ایسا کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور اللہکی آیتوں کو ٹھٹھا نہ بنالو اور یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے اور و ہ جو تم پر کتاب و حکمت اتاری تمہیں نصیحت دینے کو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اوروہ اپنی (عدت کی اختتامی) مدت (کے قریب) تک پہنچ جائیں تو اس وقت انہیں اچھے طریقے سے روک لو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو اور انہیں نقصان پہنچانے کے لئے نہ روک رکھو تاکہ تم(ان پر) زیادتی کرو اور جو ایسا کرے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اللہ کی آیتوں کو ٹھٹھا مذاق نہ بنالو اور اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو اور اس نے تم پر جو کتاب اور حکمت اتاری ہے (اسے یاد کرو) اس کے ذریعے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
{وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو۔} یہ آیت ایک انصاری کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی عورت کو طلاق دی تھی اور جب عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تھی تورجوع کرلیا کرتے تھے تاکہ عورت قید میں پڑی رہے۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی ۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۱، ۱/۶۸۲)
جس کا خلاصہ ہے کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اوروہ اپنی عدت کی اختتامی مدت کے قریب پہنچ جائیں تو اس وقت انہیں اچھے طریقے سے روک لو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔ تمہیں رجوع کا اختیار تو دیا گیا ہے لیکن اس اختیار کو ظلم و زیادتی کا حیلہ نہ بناؤ کہ انہیں نقصان پہنچانے اورایذاء دینے کی نیت سے رجوع کرتے رہو۔ یہ فعل سراسر اللہ تعالٰی کی آیتوں کو ٹھٹھامذاق بنانے کے مُتَرادِف ہے کہ جیسے مذاق میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کی جاتی اسی طرح تم اللہتعالیٰ کی آیتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور یہ بھی یاد رکھو کہ جو اس طرح کرتا ہے وہ اپنی جان پر ہی ظلم کرتا ہے کہ حکمِ الٰہی کی مخالفت کرکے گنہگار ہوتا ہے۔تمہیں تو اپنے اوپر اللہ تعالٰی کا احسان یادکرنا چاہیے کہ اس نے تمہیں اسلام کی دولت عطا کی اور سیدُالانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا امتی بنایا ، تمہیں تمہاری عبادات، معاملات اور معاشرت کے طریقے سکھائے ، تمہیں تو اللہتعالیٰ کی عطا کردہ کتاب اور حکمت کو یاد کرنا چاہیے اور اللہ تعالٰی کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے، زندگی کے تمام معاملات میں اللہتعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے ۔ کائنات میں تمہارے اپنی بیویوں پر ظلم و ستم اور احکامِ شرعیہ کی مخالفت کو اور کوئی نہ بھی جانتا ہو لیکن اللہتعالیٰ توسب کچھ جاننے والا ہے، اس کی بارگاہ میں تو جواب دینا ہی پڑے گا۔سبحان اللہ، کتنی پیاری نصیحت ہے، کتنا پیارا بیان ہے۔ اللہ تعالٰی کرے کہ ہمارے گھروں کے معاملات بھی اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق ہوجائیں۔
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِؕ-ذٰلِكَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۲۳۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی میعاد پوری ہوجائے تو اے عورتوں کے والِیو انہیں نہ روکو اس سے کہ اپنے شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ آپس میں موافق شرع رضا مند ہوجائیں یہ نصیحت اسے دی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو یہ تمہارے لئے زیادہ ستھرا اور پاکیزہ ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی(عدت کی) مدت پوری ہوجائے تو اے عورتوں کے والیو! انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ آپس میں شریعت کے موافق رضا مند ہوجائیں۔یہ نصیحت اسے دی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ ستھرا اور پاکیزہ کام ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
{وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ: اور جب تم عورتوں کو طلاق دو۔} حضرت مَعْقِل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہن کا نکاح عاصم بن عدی کے ساتھ ہوا تھا انہوں نے ایک طلاق دیدی لیکن عدت گزرنے کے بعد پھر عاصم نے نکاح کی درخواست کی تو حضرت معقل بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مانع ہوئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔(بخاری ، کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح الّا بولیّ، ۳/۴۴۲، الحدیث: ۵۱۳۰)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی عورت کی عدت گزر جائے اور عدت کے بعد وہ عورت کسی سے نکاح کا ارادہ کرے خواہ وہ کوئی نیا آدمی ہو یا وہی ہو جس نے طلاق دی تھی تو اگر وہ مردو عورت باہم رضامند ہیں تو عورت کے سرپرستوں کو بلاوجہ منع کرنے کا حق نہیں۔ اس حکم کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے فرمایا کہ یہ ہر اس آدمی کو نصیحت کی جارہی ہے جو اللہ تعالٰی اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ مزید فرمایا کہ اس حکم پر عمل کرنا تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی و طہارت کا باعث ہے کیونکہ بعض اوقات سابقہ تعلقات کی وجہ سے عورتیں غلط قدم بھی اٹھالیتی ہیں جو بعد میں سب کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے ،اس لئے عورتوں کو مزید نکاح سے بلاوجہ منع نہ کرو۔ تمہاری حقیقی حکمت و مصلحت کو تم نہیں جانتے ،اللہ تعالٰی جانتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ اگر عورت غیر کُفو میں بغیر اجازتِ ولی نکاح کرے تو وہاں اولیاء کا حق ہوتا ہے۔ تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ 7میں ’’کفو کا بیان ‘‘ مطالعہ کریں۔
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ-وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَاۚ-لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖۗ-وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَۚ-فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاؕ-وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۳۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس اس کے لئے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور کسی جان پر بوجھ نہ رکھا جائے گا مگر اس کے مقدور بھر ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچہ سے اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی واجب ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ تو بھی تم پر مضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کردو، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ، (یہ حکم) اس کے لئے (ہے) جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے اور بچے کے باپ پر رواج کے مطابق عورتوں کے کھانے اور پہننے کی ذمہ داری ہے۔ کسی جان پر اتنا ہی بوجھ رکھا جائے گا جتنی اس کی طاقت ہو ۔ماں کو اس کی اولاد کی وجہ سے تکلیف نہ دی جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ تکلیف دی جائے اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی (حکم) ہے پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ( دوسری عورتوں سے) اپنے بچوں کو دودھ پلواؤ تو بھی تم پر کوئی مضائقہ نہیں جب کہ جومعاوضہ دیناتم نے مقرر کیاہو وہ بھلائی کے ساتھ ادا کردو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
{وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ:اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔} طلاق کے بیان کے بعد یہ سوال طبعاًسامنے آتا ہے کہ اگر طلاق والی عورت کی گود میں شیر خوار بچہ ہو تو اس کی جدائی کے بعد اس کی پرورش کا کیا طریقہ ہوگا اس لیے حکمت کا تقاضا تھا کہ بچہ کی پرورش کے متعلق ماں باپ پر جو احکام ہیں وہ اس موقع پر بیان کر دیئے جائیں لہٰذا یہاں ان مسائل کا بیان ہوا۔ آیت کا خلاصہ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ دوسال مکمل کرانے کا حکم اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے کیونکہ دو سال کے بعد بچے کو دودھ پلانا ناجائز ہوتا ہے اگرچہ اڑھائی سال تک دودھ پلانے سے حرمت ِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے اور اگر وہ میاں بیوی باہمی مشورے سے کسی اور سے بچے کو دودھ پلوانا چاہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں البتہ اس صورت میں دودھ پلانے والی عورت کو اس کی اجرت صحیح طریقے سے ادا کی جائے گی۔ ماں کو اس کی اولاد کی وجہ سے تکلیف نہ دی جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد سے تکلیف دی جائے۔ ماں کو ضَرر دینا یہ ہے کہ جس صورت میں اس پر دودھ پلانا ضروری نہیں اس میں اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے اور باپ کو ضرر دینا یہ ہے کہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر ذمہ داری ڈالی جائے۔ یا آیت کا یہ معنیٰ ہے کہ نہ ماں بچے کو تکلیف دے اور نہ باپ۔ ماں کا بچے کو ضرر دینا یہ ہے کہ اس کو وقت پر دودھ نہ دے اور اس کی نگرانی نہ رکھے یا اپنے ساتھ مانوس کر لینے کے بعد چھوڑ دے اور باپ کا بچے کو ضرر دینا یہ ہے کہ مانوس بچہ کو ماں سے چھین لے یا ماں کے حق میں کوتاہی کرے جس سے بچہ کو نقصان پہنچے ۔یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دودھ پلانے کے حوالے سے جو باپ کا قائم مقام ہے اس کا بھی یہی حکم ہے ۔
(1)…ماں خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت نہ ہویا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یابچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں مستحب ہے۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱/۲۸۳)
(2)… دودھ پلانے میں دو سال کی مدت کا پورا کرنا لازم نہیں۔ اگر بچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لیے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا ، جائز ہے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳۳، ۱/۱۷۳)
(3)… بچہ کی پرورش اور اس کو دودھ پلوانا باپ کے ذمہ واجب ہے اس کے لیے وہ دودھ پلانے والی مقرر کرے لیکن اگر ماں اپنی رغبت سے بچہ کو دودھ پلائے تو مستحب ہے۔
(4)…شوہر اپنی بیوی کو بچہ کے دودھ پلانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا اور نہ عورت شوہر سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت طلب کرسکتی ہے جب تک کہ اس کے نکاح یا عدت میں رہے۔
(5)… اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہواور عدت گزر چکی ہوتو وہ اس سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت لے سکتی ہے۔
(6)…بچے کے اخراجات باپ کے ذمہ ہوں گے نہ کہ ماں کے ذمہ۔
آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچے کا نسب باپ کی طرف شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے ’’مَوْلُوْدٌ‘‘ یعنی ’’بچے ‘‘کو ’’لَهٗ‘‘یعنی مذکر کی ضمیر کی طرف منسوب کرکے بیان فرمایا، لہٰذا اگر باپ سید ہو اور ماں غیر سیدہو تو بچہ سید ہے اور اگر باپ غیر سید اور ماں سیدانی ہو تو بچہ غیر سید ہی شمار ہوگا۔
{وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ: اور جو باپ کا قائم مقام ہے اس پر بھی ایسا ہی ہے۔} یعنی اگر باپ فوت ہوگیا ہو تو جو ذمہ داریاں باپ پر ہوتی ہیں وہ اب اُس کے قائم مقام پر ہو ں گی۔
[1] ۔۔۔۔۔ ’’فضائل دعا‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بھی بہت مفید ہے۔
[2] ۔۔۔۔۔ اعتکاف کے بارے میں مزید معلومات کے لئے فیضان سنت جلد اول سے " فیضانِ اعتکاف" کا مطالعہ کیجئے۔
[3] ۔۔۔۔ امیرِ اہلِسنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادی رضوی دَامَت بَرَکاتُہُم الْعالیہ کی کتاب ،،رفیق الحرمین،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)پڑھنا بھی بہت مفید ہے۔
[4] ۔۔۔۔ اس سلسلے میں امیرِ اہلِسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف ،،کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا ضرور مطالعہ کیجئے۔
[5] ۔۔۔۔ قسم کے مسائل جاننے کے لئے امیرِ اہلِسنّتدَامَت بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے’’قسم کے بارے میں سوال جواب‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ کیجئے۔
[6] ۔۔۔۔ طلاق کے مسائل سیکھنے کے لئے رسالہ،،طلاق کے آسان مسائل،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ کیجئے۔