ظاہری وباطنی اَعمال کی اِصلاح کے لیے آیات واَحادیث پر مشتمل
شَیْخُ الْاِسْلَام اَلْحَافِظْ اَلْاِمَامْ مُحْیُ الدِّیْن اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی
کی مشہور زمانہ کتاب
ریاض الصالحین
کا اردو ترجمہ وشرح بنام
المعروف بــ
فیضانِ ریاض الصالحین
پیش کش
مجلس المدینۃ العلمیۃ(دعوتِ اسلامی)
شعبہ ٔفیضانِ حدیث
ناشر
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُولَ اللہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصحٰبِکَ یَاحَبِیبَ اللہ
نام کتاب : فیضانِ ریاض الصالحین(جلددوم)
پیش کش : شعبہ ٔ فیضانِ حدیث(مجلس المدینۃ العلمیۃ)
طباعت اوَّل : رجب المرجب۱۴۳۶ھ بمطابق اپریل2015ء
تعداد : 10000دس ہزار
ناشر : مکتبۃ المدینہ فیضان مدینہ محلہ سوداگران پرانی سبزی منڈی باب المدینہ کراچی
___________________________________________________________
تصدیق نامہ
تاریخ: یکم ربیع الغوث۱۴۳۶ھ حوالہ نمبر: ۲۰۴
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن
تصدیق کی جاتی ہے کہ کتاب ”فیضانِ معراج“(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) پر مجلس تفتیش کُتُب و رَسائل کی جانِب سے نظرِ ثانی کی کوشش کی گئی ہے۔مجلس نے اسے عقائد،کُفریہ عِبارات،اَخلاقیات، فقہی مسائل اور عَربی عِبارات وغیرہ کے حوالے سے مقدور بھر مُلاحظہ کر لیا ہے،البتہ کمپوزنگ یا کِتابت کی غَلَطیوں کا ذِمَّہ مجلس پر نہیں ۔
مجلس تفتیش کُتُب ورسائل(دعوتِ اسلامی)
2014-12-25
E.m٭il: ilmi٭@d٭w٭teisl٭mi.net
www.d٭w٭teisl٭mi.net
مدنی التجاء: کسی اورکویہ کتاب چھاپنے کی اجازت نہیں ۔
(دورانِ مطالعہ ضرورتاً انڈر لائن کیجئے، اِشارات لکھ کر صفحہ نمبر نوٹ فرما لیجئے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّعلم میں ترقّی ہوگی)
عنوان |
صفحہ |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
عنوان |
صفحہ |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:’’نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖمسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘(معجم کبیر ، یحیٰی بن قیس، ۶/۱۸۵، حدیث: ۵۹۴۲)
٭…بغیر اچھی نیّت کے کسی بھی عمل خیر کا ثواب نہیں ملتا۔
٭…جتنی اچھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔
(1)ہر بارحَمد و (2)صلوٰۃ اور (3)تعوُّذ و (4)تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔ (اسی صفحہ پر اُوپر دی ہوئی عَرَبی عبارت پڑھ لینے سے ان نیّتوں پر عمل ہوجائے گا) (5)رِضائے الٰہی کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخر مطالعہ کروں گا۔ (6)حتَّی الوَسْعْ اِس کا باوُضُو اور (7)قِبلہ رُو مطالَعَہ کروں گا (8)قرآنی آیات اور (9)احادیثِ مبارکہ کی زیارت کروں گا (10)جہاں جہاں ”اللہ“ کا نامِ پاک آئے گا وہاں عَزَّ وَجَلَّ (11)اور جہاں جہاں ”سرکار“ کا اِسْم مبارک آئے گا وہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پڑھوں گا (12)شرعی مسائل سیکھوں گا (13)اس حدیثِ پاک ’’تَھَادَوا تَحَابُّوا ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔ (مؤطا امام مالک، ۲/۴۰۷، حدیث: ۱۷۳۱) پر عمل کی نیت سے (ایک یا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا (14) دوسروں کو یہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔(15)اس کتاب کا ثواب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ساری امت کو ایصال کروں گا۔(16) کتاب مکمل پڑھنے کے لیے بہ نیت حصول علم دین روزانہ چند صفحات پڑھ کر علم دین حاصل کرنے کے ثواب کا حق دار بنوں گا۔(17)کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طورپر مطلع کروں گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ (ناشرین کو کتابوں کی اَغلاط صرف زبانی بتا دینا خاص مفید نہیں ہوتا۔)
مضامین |
صفحہ |
مضامین |
صفحہ |
المدینۃ العلمیۃ کا تعارف |
08 |
حدیث نمبر96:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بندوں سے محبت |
164 |
پیش لفظ وکام کی تفصیل |
09 |
حدیث نمبر97: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی دو عظیم نعمتیں |
167 |
باب نمبر(7) : یقین اور توکل کا بیان |
15 |
حدیث نمبر98:رسول اللہ کا کثرت سے عبادت کرنا |
170 |
حدیث نمبر74:رسول اللہ کے سامنے امتوں کا پیش ہونا |
22 |
حدیث نمبر99:رسول اللہ کا جذبہ عبادت |
174 |
حدیث نمبر75:جامع استغفار |
33 |
حدیث نمبر100:قوی مؤمن ضعیف مؤمن سے بہتر ہے۔ |
180 |
حدیث نمبر76:سَیِّدُنَا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کا توکل |
38 |
حدیث نمبر101:جہنم اور جنت ڈھانپ دی گئی ہیں ۔ |
190 |
حدیث نمبر77:جنتیوں کے دلوں کی حالت |
42 |
حدیث نمبر102:رسول اللہ کی نماز کا انداز |
197 |
حدیث نمبر78:بے مثال توکل وشجاعت |
45 |
حدیث نمبر103:نماز تہجد میں طویل قیام کرنا |
206 |
حدیث نمبر79:توکل کرنے کا حق |
52 |
حدیث نمبر104:میت کے ساتھ قبر تک جانے والی ۳چیزیں |
218 |
حدیث نمبر80:سوتے وقت پڑھے جانے والے کلمات |
55 |
حدیث نمبر105:جنت وجہنم کا قریب ہونا |
226 |
حدیث نمبر81:حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عظیم توکل |
59 |
حدیث نمبر106:جنت میں رسول اللہ کی رفاقت |
232 |
حدیث نمبر82:گھر سے نکلتے وقت کی دعا |
63 |
حدیث نمبر107:ایک سجدہ کرنے کی فضیلت |
242 |
حدیث نمبر83:شیطان سے حفاظت کا نسخہ |
65 |
حدیث نمبر108:بہترین شخص کون ہے؟ |
249 |
حدیث نمبر84:طالب علم کی برکت سے رزق |
68 |
حدیث نمبر109:سیدنا انس بن نضر کی عظیم الشان شہادت |
255 |
باب نمبر(8):استقامت کا بیان |
73 |
حدیث نمبر110:صحابۂ کرام کے صدقہ کرنے کا انداز |
265 |
حدیث نمبر85:اسلام پر استقامت |
76 |
حدیث نمبر111:ظلم کی حرمت |
276 |
حدیث نمبر86:جنت رحمت الٰہی سے ملے گی۔ |
79 |
باب نمبر(12) :بڑھاپے میں نیکیوں کا بیان |
289 |
باب نمبر(9): غوروفکر کا بیان |
85 |
حدیث نمبر112:رب تعالی کس کا عذرقبول نہیں فرماتا؟ |
291 |
چار4آیات مع تفسیر |
85 |
حدیث نمبر113:سیدنا عبداللہ بن عباس کا علمی مقام |
297 |
باب نمبر(10) :نیکیوں پر ابھارنے کا بیان |
113 |
حدیث نمبر114:ذکر اللہ کی کثرت |
302 |
حدیث نمبر87:نیک اعمال میں جلدی کرو۔ |
115 |
حدیث نمبر115:آخری عمر میں وحی کی کثرت |
309 |
حدیث نمبر88:صدقہ کرنے میں جلدی کرنا |
118 |
حدیث نمبر116:زندگی کے آخری لمحات کی اہمیت |
312 |
حدیث نمبر89:جنت کی بشارت |
122 |
باب نمبر(13) :طرق کثرت خیر کا بیان |
319 |
حدیث نمبر90:کون سا صدقہ افضل ہے؟ |
125 |
حدیث نمبر117:کون سا عمل افضل |
324 |
حدیث نمبر91:تلوار کا حق |
129 |
حدیث نمبر118:ہرجوڑ پر صدقہ ہے۔ |
328 |
حدیث نمبر92:آنے والا دور پہلے سے بُرا ہوگا۔ |
133 |
حدیث نمبر119:اُمت کے اچھے اور برے اَعمال |
332 |
حدیث نمبر93:نیک اَعمال میں جلدی کی ترغیب |
137 |
حدیث نمبر120:ہرتسبیح صدقہ ہے۔ |
335 |
حدیث نمبر94:فتح کا جھنڈا |
142 |
حدیث نمبر121:کسی نیکی کو حقیر نہ جانو۔ |
340 |
باب نمبر(11) : مجاہدہ کا بیان |
149 |
حدیث نمبر122:انسان کے تین سو ساٹھ ۳۶۰جوڑ |
343 |
حدیث نمبر95:اللہ کے ولی کا دشمن اللہ کا دشمن ہے۔ |
153 |
حدیث نمبر123:صبح وشام جنت کی مہمانی |
347 |
حدیث نمبر124:کسی شے کو حقیر نہ جانو۔ |
351 |
باب نمبر(15):اعمال پر محافظت کا بیان |
479 |
حدیث نمبر125:ایمان کی شاخیں |
354 |
حدیث نمبر153:وظائف پورے کرنے کی ترغیب |
482 |
حدیث نمبر126:ہرترجگہ میں اجر ہے۔ |
360 |
حدیث نمبر154:تہجد پابندی سے ادا کرنی چاہیے۔ |
485 |
حدیث نمبر127:راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کی فضیلت |
363 |
حدیث نمبر155:تہجد کے بدلے بارہ ۱۲رکعتیں |
487 |
حدیث نمبر128:نماز جمعہ کی فضیلت |
366 |
باب نمبر(16):سنت اور اس کے آداب کا بیان |
491 |
حدیث نمبر129:جسم سے گناہوں کا جھڑنا |
370 |
حدیث نمبر156:کثرت سوال سے بچو۔ |
499 |
حدیث نمبر130:نماز ورمضان کی فضیلت |
376 |
حدیث نمبر157:رسول اللہ کی صحابہ کرام کو وصیت |
503 |
حدیث نمبر131:نماز کے انتظار کی فضیلت |
378 |
حدیث نمبر158:جنت میں داخلہ کس کے لیے ممنوع؟ |
509 |
حدیث نمبر132:جنت میں داخلہ |
382 |
حدیث نمبر159:حکم نبوی پر عمل نہ کرنے کی سزا |
512 |
حدیث نمبر133:سفر ومرض میں نیک اَعمال |
384 |
حدیث نمبر160:صفیں سیدھی رکھنے کا حکم |
517 |
حدیث نمبر134:ہرنیکی صدقہ ہے۔ |
387 |
حدیث نمبر161:آگ انسانوں کی دشمن ہے۔ |
522 |
حدیث نمبر135:درخت لگانا صدقہ ہے۔ |
391 |
حدیث نمبر162:علم سیکھنے اور سکھانے والے کی مثال |
526 |
حدیث نمبر136:مسجد کی طرف اٹھنے والے ہر قدم پر نیکی |
395 |
حدیث نمبر163:حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی اپنی امت پر شفقت |
531 |
حدیث نمبر137:نیکیوں کا حریص |
399 |
حدیث نمبر164:آداب طعام |
534 |
حدیث نمبر138:کسی کو اپنی نفع بخش چیز دینے کی فضیلت |
403 |
حدیث نمبر165:قیامت کے دن اُٹھائے جانے کا حال |
539 |
حدیث نمبر139:جہنم کی آگ سے بچو۔ |
405 |
حدیث نمبر166:بلاضرورت کنکرپھنکنا منع ہے۔ |
549 |
حدیث نمبر140:کھانے پینے کے بعد حمد الٰہی |
409 |
حدیث نمبر167:حجر اسود کا بوسہ |
551 |
حدیث نمبر141:بُرائی سے رکنا بھی صدقہ ہے۔ |
413 |
باب نمبر(17):اطاعت خداوندی کا وجوب |
557 |
باب نمبر(14) : عبادت میں میانہ روی کا بیان |
421 |
حدیث نمبر168: رب تعالی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا |
563 |
حدیث نمبر142:سب سے زیادہ پسندیدہ عبادت |
423 |
باب نمبر(18):نئی باتوں سے ممانعت کا بیان |
577 |
حدیث نمبر143:اعمال نبوی کی جستجو |
429 |
حدیث نمبر169:دین میں نئی بات ایجاد کرنےوالا مردودہے۔ |
581 |
حدیث نمبر144:غلو کی مذمت |
437 |
حدیث نمبر170:رسول اللہ کا خطبہ مبارک |
589 |
حدیث نمبر145:دین آسان ہے۔ |
439 |
باب نمبر(19):اچھے یا برے کام کی بنیاد ڈالنا |
599 |
حدیث نمبر146:نماز میں خشوع وخضوع |
444 |
حدیث نمبر171:نیک یا برے عمل ایجاد کرنے کی جزاء یا سزا |
601 |
حدیث نمبر147:اُونگھ کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت |
447 |
حدیث نمبر172:ہرناحق قتل کا گناہ قابیل کے سر پر ہے۔ |
610 |
حدیث نمبر148:حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی نماز اور خطبہ کی کیفیت |
450 |
باب نمبر(20):بھلائی پر رہنمائی کرنے کا بیان |
621 |
حدیث نمبر149:حق دار کو اس کا حق دو۔ |
452 |
حدیث نمبر173:بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے کی فضیلت |
626 |
حدیث نمبر150:صوم داؤدی کی فضیلت |
456 |
حدیث نمبر174:برائی کی طرف رہنمائی کرنے کی مذمت |
630 |
حدیث نمبر151:کاتب وحی کا تقویٰ |
468 |
حدیث نمبر175:کفار کو دعوت اسلامی کی ترغیب |
639 |
حدیث نمبر152:ابواسرائیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی انوکھی نذر |
475 |
حدیث نمبر176:بھلائی پر رہنمائی کرنا سنت ہے۔ |
650 |
٭…٭…٭…٭…٭…٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ طاَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
(از شیخ طریقت، امیر اہلسنّت ،بانی دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائیدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ)
اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتبلیغ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک’’دعوتِ اسلامی‘‘ نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک’’المدینۃ العلمیۃ‘‘بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی پر مشتمل ہے، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے، اِس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں :
(1)شعبہ ٔکتُبِ اعلی حضرت (2)شعبہ ٔ درسی کُتُب (3)شعبہ ٔ اصلاحی کُتُب
(4)شعبہ ٔ تراجمِ کتب (6)شعبہ ٔ تفتیشِ کُتُب (6)شعبہ ٔ تخریج
’’المدینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلی حضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی سنّت، ماحی بِدعت، عالم شریعت، پیرطریقت، باعثِ خیر و بَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْعْ سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی، تحقیقی اور اِشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول ’’المدینۃ العلمیۃ‘‘کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرما کر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ ہمیں زیرِ گنبدِخضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
رمضان المبارک۱۴۲۵ھ
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی وہ عظیم بزرگ ہیں جنہوں نے آقائے دو جہاں ، حضور نبی رحمت شفیع اُمَّتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اَفعال واَقوال کواپنی مایہ ناز ومشہورِ زمانہ تصنیف’’ریاضُ الصالحِین‘‘میں نہایت ہی اَحسن انداز سے پیش کیا ہے ۔اس کتاب میں کہیں مُنْجِیَات (یعنی نجات دلانے والے اَعمال) مثلاً اِخلاص، صبر، اِیثار، توبہ، توکُّل، قناعت، بُردْباری، صلۂ رحمی،خوفِ خدا، یقین اورتقویٰ وغیرہ کا بیان ہے تو کہیں مُہلِکات(یعنی ہلاک کرنے والے اَعمال)مثلاً جھوٹ ، غیبت، چغلی وغیرہ کا بیان۔ یہ کتاب راہِ حق کے سَالِکِیْن کے لئے مَشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ احادیث کی اس عظیم کتاب کی اسی افا دِیت کے پیشِ نظر تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی مجلس المدینۃ العلمیۃ نے’’اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش‘‘کے مقدس جذبے کے تحت اس کے ترجمے وشرح کا بیڑا اُٹھایا تاکہ عوام وخواص اس نہایت ہی قیمتی علمی خزانے سے مالا مال ہو سکیں ، چنانچہ مجلس المدینۃ العلمیۃنے یہ عظیم کام’’شعبۂ فیضانِ حدیث‘‘ کو سونپا۔ اس شعبے کے اسلامی بھائیوں نے خالق کائنات پر بھروسہ کر کے فی الفور کام شروع کردیا، بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰیقلیل عرصے میں اِس کی پہلی جلد مکمل ہوکر زیور طبع سے آراستہ ہوگئی۔ریاض الصالحین کے اس ترجمے وشرح کا نام شیخ طریقت امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ ومولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے ’’اَنْوَارُالْمُتَّقِیْن شَرْحُ رِیَاضِ الصَّالِحِیْن المعروف فیضانِ ریاض الصالحین‘‘رکھاہے۔ دعوت اسلامی کی طرف سے ’’فیضانِ ریاض الصالحین‘‘(جلداوّل) پاکستان کے کئی جید علماء ومشایخ ودیگر شخصیات کی خدمت میں پیش کی گئی۔ بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰیپہلی جلدکو بہت پذیرائی ملی، مختلف علمائے کرام ومفتیان عظام ودیگر شخصیات کی طرف سے تحسین آمیز مکتوب (خطوط) اور فون موصول ہوئے۔ اور اب ’’فیضان ریاض الصالحین‘‘(جلددوم)آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ریاضُ الصالحین میں امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے مختلف موضوعات پر تقریباً 1896اَحادیث مبارکہ بیان فرمائی ہیں اور انہیں تقریباً 372 اَبواب
میں تقسیم کیا ہے ۔’’فیضانِ ریاض الصالحین‘‘(جلداول) 6اَبواب ،73 اَحادیث پرمشتمل ہے، جبکہ ’’فیضانِ ریاض الصالحین‘‘(جلددوم) 14اَبواب، 103اَحادیث پرمشتمل ہے، واضح رہے کہ اَبواب اور اَحادیث کی نمبرنگ پچھلی جلد کے اعتبار سے کی گئی ہے، پہلی جلدچونکہ6اَبواب اور73اَحادیث پر مشتمل تھی، اسی لیے دوسری جلد باب نمبر7 اورحدیث نمبر74سے شروع کی گئی ہے، نیز اب تک کسی بھی جلد میں اَبواب واَحادیث کی تعداد کو خاص نہیں کیا گیا اور نہ ہی آئندہ جلدوں میں کیا جائے گا، بلکہ ایک مکمل جلد کا کم وبیش 650صفحات پر اِنحصار کیا گیا ہے، اِن صفحات میں جتنے بھی اَبواب مع اَحادیث آسکتے ہیں ، اُنہیں شامل کرلیا جائے گا، بقیہ کو آئندہ جلدوں میں شامل کیا جائے گا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! اس کتاب پر شعبہ فیضانِ حدیث (المدینۃُ العلمیۃ)کے 8اسلامی بھائیوں نے کام کرنے کی سعادت حاصل کی، بالخصوص سید ابو طلحہ محمدسجاد عطاری المدنی، سیدمنیر رضا عطاری المدنی، ملک محمدعلی رضا عطاری المدنی، محمدعدیل رضا عطاری المدنی، محمد جان رضا عطاری المدنی سَلَّمَہُمُ اللہُ الْغَنِیّ نے خوب کوشش کی۔
کسی بھی کتاب پر کیے گئے کام کی تفصیل بیان کرنے سے اس کتاب کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے، بسا اوقات اس کتاب کے قاری یعنی پڑھنے والے کو کتاب پر کیے گئے کام اور محنت وکوشش کا اچھی طرح اندازہ نہیں ہوپاتا، اسی لیے کسی بھی کتاب پر کیے گئے کام کی تفصیل کو بیان کرنا نہایت مفید ہے۔اس کتاب ’’فیضانِ ریاض الصالحین جلددوم‘‘کے کام کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
(1) اس کتاب کے شروع سے لے کر آخر تک ہر ہر کام کو نہایت ہی احتیاط کے ساتھ سرانجام دیاگیا ہے۔
(2) ہرباب کے موضوع کو بڑی سرخی (M٭in He٭ding)کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔
(3) ہرباب کے شروع میں آیات واَحادیث کی مناسبت سے مختصر تمہید بھی بیان کی گئی ہے تاکہ پڑھنے والوں کو باب اور اس کے تحت بیان کی جانے والی احادیث وشرح کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
(4) ہرباب نئے صفحے سے شروع کیا گیا ہے نیز ہرباب کے تمام صفحات پر اس باب کا مختصر نام بھی دیا گیا ہے۔
(5) تمام اَبواب واَحادیث کی نمبرنگ جلداوّل کے اِعتبار سے ترتیب وار کی گئی ہے۔
(6) مختلف اَبواب یا اَحادیث کے تحت جہاں کہیں علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے آیات بیان فرمائی ہیں ، مستند اردو عربی تفاسیر سے اُن آیات کی مختصر تفسیر بیان کردی گئی ہے۔
(7) علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی بیان کردہ تمام آیات کوسرخی(He٭ding)کے ذریعے واضح کرتے ہوئے ایک ہی باب کی تمام آیات کی ترتیب وار نمبرنگ بھی کی گئی ہے۔
(8) تمام آیات مبارکہ کا متن،قرآنی رسم الخط والے سافٹ ویئر سے پیسٹ کیا گیا ہے۔
(9) آیاتِ قرآنیہ کا ترجمہ حتی المقدور کنزالایمان شریف سے لیا گیا ہے ۔
(10) امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے اس کتاب کی اَبواب بندی وبیانِ اَحادیث میں اِصلاحی اَنداز اِختیار کیا ہے، ہم نے بھی اَحادیث مبارکہ کی توضیح وتشریح میں دقیق علمی،فنی ولغوی اَبحاث کے بجائے اِصلاحی اَنداز اختیار کیا ہے ۔
(11) امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی ذکرکردہ پوری آیت یا حدیث میں بسا اوقات ایک ہی لفظ محل استدلال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات اس آیت یا حدیث کو باب کے تحت لانے کی وجہِ استدلال سمجھ نہیں آتی، اسی وجہ سے شروحات وغیرہ کتب کی مدد سے بعض آیات واحادیث کی ان کی باب کے ساتھ مطابقت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
(12) ریاض الصالحین کی احادیث کا عربی متن بھی ذکر کیا گیا ہے۔
(13) اَبواب کے تحت اور ضمناً بیان کی جانے والی تمام اَحادیثِ مبارکہ کا آسان فہم بامحاورہ اردو ترجمہ اور ہر حدیث کی باب کے مطابق مستند کتب سے توضیح وتشریح کی گئی ہے ۔
(14) اَحادیث کے ترجمے اور ان کی شرح میں علمائے اہلسنت کے تراجم و شروح سے بھی مددلی گئی ہے۔
(15) اَحادیث کی شرح میں باب سے مناسبت والے مواد کو تفصیلاً اور دیگر مواد کو اجمالاً بیان کیا گیا ہے۔
(16) جن اَحادیث کی شرح پچھلے کسی باب یا پچھلی جلد میں تفصیلاً گزر چکی ہے، اُن اَحادیث کی دوبارہ شرح
کرتے ہوئے باب سے مناسبت والے مواد کو تفصیلاً اور دیگرمواد کو اجمالاً بیان کرکے پچھلے باب یا جلد کی تفصیلی شرح کی طرف نشاندہی کردی گئی ہے۔
(17) عربی شروحات کو اُن کے اصل نام اور اُن کے مصنفین کے نام دونوں کے ساتھ مختلف مقامات پر ذکر کیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کے علم میں اضافہ ہو اور ذوق بھی برقرار رہے۔
(18) امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیمسلکاً شافعی تھے،اِس لیے انہوں نے فقہی مسائل میں امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا موقف اختیار فرمایا ہے جبکہ اس کتاب میں فقہی اَبحاث ودلائل کی طوالت سے بچتے ہوئے ضرورتاً اَحناف کا موقف ذکر کر دیا گیاہے ۔
(19) کوشش کی گئی ہے کہ حتی المقدور ہر حدیث کی وضاحت اس کے موضوع کے اعتبار سے ہولیکن کئی مقامات پر ضمناً اس حدیث پاک سے متعلقہ دیگر مفید باتیں بھی بیان کی گئی ہیں ۔
(20) اَحادیث کی شرح میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ دیگر عربی شروحات میں جو شارحین نے شرح بیان کی ہے اسے ہی نقل کیا جائے، البتہ علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینےبعض احادیث ایسی بھی ذکر کی ہیں ، کتب شروح میں جن کی کوئی خاص شرح نہیں کی گئی، ہم نے ایسی اَحادیث کے نفس موضوع کو لے کر مختلف کتب سے شرح ذکر کی ہے۔
(21) موقع کی مناسبت سے شرح میں ترغیبی وترہیبی اور دعائیہ کلمات بھی ڈالے گئے ہیں ۔
(22) بعض اَحادیث کے مختلف اَلفاظ کے معانی بھی بیان کیے گئے ہیں ۔
(23) اَحادیثِ مبارکہ اور اُن کی شرح کو مختلف سرخیوں (He٭dings) کے ذریعے واضح کیا گیا ہے تاکہ مطالعہ کرنے والوں کی دلچسپی اور ذوق برقرار رہے۔
(24) ہر حدیث کی شرح بیان کرنے کے بعد آخر میں اُس کا خلاصہ مدنی پھولوں کی صورت میں بطورِ مدنی گلدستہ بیان کیا گیا ہے۔
(25) اصل ماخذ تک پہنچنے کے لیے آیات مُقَدَّسَہ، اَحادیثِ مبارکہ، توضیحی عبارات ، فقہی جزئیات اور دیگر مواد کی مکمل تخریج حاشیے میں کردی گئی ہے ۔
(26) امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی بعض اَوقات اَحادیث کو بیان کرنے کے بعد حدیث کے ماخذ کی طرف اِشارہ کردیتے ہیں ۔ وہ اِشارہ عموماًتمام اَلفاظوں کے ساتھ بعینہٖ حدیث پاک کی طرف نہیں ہوتا بلکہ مطلق اِشارہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے تمام اَحادیث کی فقط اُس کتاب سے تخریج کی ہے جس میں حدیث کے بعینہٖ پورے الفاظ، یا بعض الفاظ یا مکمل یااکثرمفہوم موجود ہے۔ مثلاً: امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ایک حدیث پاک بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اسے امام بخاری وامام مسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمَا دونوں نے بیان فرمایا ہے۔جب اس حدیث کی تخریج کی گئی تو بعینہٖ ان الفاظوں کے ساتھ وہ حدیث فقط مسلم میں تھی، تو ہم نے اس حدیث کی تخریج بخاری کی بجائے فقط مسلم سے ہی کی ہے۔
(27) امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی بسا اوقات ایک حدیث بیان کرنے کے بعد اس سے متعلقہ دیگر روایات کو مختلف الفاظوں کے تغیر کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، ہم نے اصل حدیث کے ساتھ ساتھ ان تمام روایات کی بھی حتی المقدور تخریج کردی ہے۔
(28) ایسی کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا گیا جو ہمارے پاس کسی بھی اعتبار سے موجود نہ ہو۔
(29) اِس كتاب میں جن مطبوعات سے مواد لیا گیا ہے، ان کی تفصیل ماخذومراجع میں دے دی گئی ہے۔
(30) حسب موقع اِمامِ اَہْلسُنّت،عظیمُ البَرَکَت،عظیمُ المَرْتَبت،پروانۂِ شَمْعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت مولانا شاہ امام اَحْمَدرَضاخَان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن، خلفائے اعلیٰ حضرت، شیخ طریقت، امیرِ اہلسنت، بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ودیگر علمائے اہلسنت دَ امَتْ فُیُوضُہُمْ کے اَشعار بھی بیان کیے گئے ہیں ۔
(31) فارمیشن، رُموز ِاَوقاف اور مشکل اَلفاظ پر اِعراب کا اِلْتِزَام بھی کیا گیا ہے،نیزبعض مقامات پر مفید حواشی بھی دیے گئے ہیں ۔
(32) عنوانات وموضوعات(He٭dings) کی کتاب کے شروع میں اِجمالی فہرست اور کتاب کے آخر میں تفصیلی فہرست بھی دی گئی ہے، تاکہ ایک ساتھ کتاب کے تمام مضامین کا مطالعہ کیا جاسکے اور مطالعہ کرنے والے آسانی سے اپنے مطلوبہ مواد تک پہنچ سکیں ۔
(33) کام کے دوران مختلف مواقع پر مكمل كتاب کی کئی بار پروف ریڈنگ کی گئی ہے، البتہ اِحتیاطاً کتاب کا کام ہر اِعتبار سے مکمل ہونے کے بعد طباعت سے قبل پروف ریڈنگ کے ماہر ایک اسلامی بھائی سے اس کی فائنل پروف ریڈنگ بھی کروالی گئی ہے۔
(34) اِس کتاب کے مکمل مواد کی عقائد ومسائل وغیرہ کے حوالے سے شرعی تفتیش بھی کروالی گئی ہے۔
اس کتاب میں جو بھی خوبیاں ہیں وہ یقیناً اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم اور اس کے پیارے حبیب، ہم گناہگاروں کے طبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عطاؤں ، اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامکی عنایتوں اور امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی پُرخلوص دعاؤں کا نتیجہ ہے اورجو بھی خامیاں ہوں ان میں ہماری کوتاہ فہمی کادخل ہے۔حصولِ تقویٰ وعلمِ دین، اِطاعتِ رَبُّ الْعَالَمِیْن و اِتِّباعِ رَحْمَۃٌ لِّلْعالَمِیْن پر اِسْتِقَامَت پانے اور اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کا مُقَدَّس جذبہ اُجاگر کرنے کے لئے خود بھی اس کتاب کا مطالعہ کیجیے اورحسب ِ استطاعت دعوتِ اسلامیکے اشاعتی ادارے مَکْتَبَۃُ الْمَدِیْنَۃ سے ہد یۃً حاصل کر کے دوسروں کو بالخصوص مفتیانِ کرام اور علمائے اہلسنت کی خدمت میں تحفۃً پیش کیجئے ۔
پوری کوشش کی گئی ہے کہ یہ کتاب خوب سے خوب تر ہو لیکن پھر بھی غلطی کااِمکان باقی ہے، اہل ِعلم حضرات سے درخواست ہے کہ اپنے مفید مشوروں اور قیمتی آراء سے ہماری حوصلہ اَفزائی فرمائیں اوراِس کتاب میں جہاں کہیں غلطی پائیں ہمیں تحریری طور پر ضرور آگاہ فرمائیں ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہماری اِس کاوش کواپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور اِسے ہماری بخشش ونجات کا ذریعہ بنائے ۔
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
شعبۂ فیضان حد یث،مجلس المد ینۃ العلمیۃ
جمادی الثانی۱۴۳۶ہجری بمطابق اپریل2015ء
تمام تعریفیں اُس خالق کائنات کے لیے ہیں جس نے ساری مخلوق کا رِزق اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے۔ وہی سب کامالک ہے۔جسے چاہتا ہے،جتناچاہتا ہے،جیسے چاہتا ہے، رزق عطا فرماتا ہے۔جواُس پاک پروردگار عَزَّ وَجَلَّ پربھروسہ کرتاہے،کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اُس پر یقین رکھنے والاکبھی محروم نہیں رہتا۔ وہ مُتَوکلین کو دوست رکھتا ہے اور اُن کا والی وناصِر ہے ۔یقین وتوکل کی دولت پانے والا دنیا سے بے نیاز ہوجاتا ہے لیکن یقین وتوکل کی راہیں بہت کٹھن ہیں ، اِسی لیے اِس منزل تک بہت کم لوگ پہنچتے ہیں ۔ ریاض الصالحین کا یہ باب بھی ”یقین وتوکل“کے بارے میں ہے۔ عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے اِس باب میں 7 آیات اور11احادیث بیان فرمائی ہیں ۔پہلے آیات اور اُن کی تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں اِرشاد فرماتا ہے:
وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَۙ-قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ٘-وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًاؕ(۲۲) ( پ۲۱، الاحزاب:۲۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور جب مسلمانوں نے کافروں کے لشکر دیکھے بولے یہ ہے وہ جو ہمیں وعدہ دیا تھا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچ فرمایا اللہ اور اس کے رسول نےاور اس سے انہیں نہ بڑھا مگر ایمان اور اللہ کی رضا پر راضی ہونا ۔
تفسیرِخزائن العرفان میں ہے :’’(یعنی ) تمہیں شدّت و بَلاپہنچے گی اور تم آزمائش میں ڈالے جاؤ گے اور پہلوں کی طرح تم پر سختیاں آئیں گی اور لشکر جمع ہوہو کر تم پر ٹوٹیں گے اور اَنجام کار تم غالب ہوگے اور تمہاری مدد فرمائی جائے گی جیسا کہ اللہ تَعَالٰینے فرمایا: (اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-) (پ۲، البقرۃ: ۲۱۴)( ترجمہ ٔ کنزالایمان: کیااِس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد نہ آئی۔)اور حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ سَیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنے اَصحاب سے فرمایا کہ پچھلی نو یا دس راتوں میں لشکر تمہاری طرف آنے والے ہیں ، جب
اُنہوں نے دیکھا کہ اُس مِیْعاد پر لشکر آ گئے تو کہا: یہ ہے وہ جو ہمیں اللہ اور اُس کے رسول نے وعدہ دیا تھا ۔ یعنی جو اُس کے وعدے ہیں ، سب سچے ہیں ، سب یقینا ًواقع ہوں گے ، ہماری مدد بھی ہو گی، ہمیں غلبہ بھی دیا جائے گا اور مکّہ مکرّمہ اور روم و فارس بھی فتح ہوں گے۔‘‘([1])
ارشاد باری تعالی ہے:
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا ﳓ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ(۱۷۳)فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌۙ-وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ(۱۷۴) (پ۴، آل عمران : ۱۷۳۔۱۷۴)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لیے جتھاجوڑا تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زائد ہوااور بولے اللہ ہم کو بس ہے اور کیا اچھا کارساز توپلٹے اللہ کے احسان اور فضل سے کہ انہیں کوئی برائی نہ پہنچی اور اللہ کی خوشی پرچلے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
تفسیرِ کبیر میں ہے:’’یہ آیت جنگِ بدر کے متعلق نازل ہوئی،حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ( اسلام لانے سے پہلے) جب سردارِ مکہ ابوسُفیان نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف جانے کااِرادہ کیا تو حضور سید عالَم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے پکار کر کہا: ’’اگلےسال تم سے مقامِ بدر میں جنگ ہوگی۔‘‘ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے فرمایا: ’’اِن سے کہہ دو :اِنْ شَآءَ اللّٰہ ہماری تم سے جنگ ہو گی۔‘‘
پھرجب مقررہ وقت آیا اور ابوسفیان مکہ مکرمہ سے لشکر لے کر جنگ کے لیے روانہ ہوا تو اللہ تعالٰی نے ابو سفیان کے دل میں خوف ڈال دیا اور اس نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو اسے نُعَیْم بِنْ مَسْعوداَشْجَعِی ملا۔ ابو سفیان نے اس سے کہا: ’’میں مقامِ بدر میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے
جنگ کا وعدہ کر چکا ہوں لیکن میں اس سال جنگ نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں ، لیکن اگر ہم واپس چلے گئے اور محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)جنگ کے لیے بدر پہنچ گئے تو اُن کی جرأت بڑھ جائے گی۔تم ایسا کرو کہ کسی طرح مسلمانوں کو جنگ سے روک دو، میں اِس کے عوض تمہیں دس10اُونٹ انعام میں دوں گا۔‘‘ وہ راضی ہو گیا۔ چنانچہ وہ مدینے پہنچا تو وہاں مسلمانوں کو جنگ کی تیاریوں میں مصروف دیکھا تو اُن سے ملا اور اُنہیں خوف زدہ کرتے ہوئے کہنے لگا :’’ اگر وہ (یعنی کفار مکہ)تمہارے پاس آجائیں تو تمہارے اکثر لوگوں کو قتل کر دیں گے اور اگر تم اُن کی طرف گئے تو تم میں سے ایک بھی بچ کر نہ آئے گا۔‘‘
مسلمانوں کو اُس کی یہ بات کھٹکی۔جب سید عالَم نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلوم ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! میں ضرور جاؤں گا،چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔‘‘ پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ستّر 70سواروں کے ساتھ روانہ ہوئے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو مشرکین میں سےکوئی بھی نہ ملا۔مسلمانوں کے پاس مالِ تجارت تھا اور موضع بدر میں ہر سال آٹھ 8دن بازار لگتا تھا، وہاں مسلمانوں نے تجارت کی اور خوب نفع کماکربدر سےواپس مدینہ منورہ پہنچے۔‘‘([2])
اللہرب العزّت اِرشاد فرماتا ہے:
وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ (پ۱۹،الفرقان :۵۸) ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے گا۔
تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت ہے:’’یعنی لوگوں کے شر سے بچنے اور اُن کے اِحسانات سے بے نیاز ہونے کے لیے اُس ربّ پر بھروسہ کرو جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور اُسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ وہی اِس بات کا حقیقی مستحق ہے کہ اُس پر توکل کیا جائے کیونکہ اُس کے علاوہ باقی سب کوموت آنی ہے، جب وہ
مرجائیں گے تواُن پر توکل کرنے والابھی برباد ہوجائے گا۔ توکل کی اصل یہ ہے کہ بندہ اِس بات پر یقین رکھے کہ تمام اُمور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے صادر ہوتے ہیں ، اُس کے علاوہ کوئی اور اُنہیں ایجاد نہیں کرسکتا۔ اِس لیے اپنی تمام حاجات اُسی کے سِپُرد کی جائیں ۔ یہ عقیدہ رکھنا فرض اور اِیمان کی شرط ہے۔ ‘‘([3])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں ارشادفرماتا ہے:
وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۱) (پ۱۳، ابراھیم:۱۱) ترجمہ ٔ کنزالایمان:اورمسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔
تفسیر رُوح البیان میں ہے :’’یعنی مسلمانوں پرلازم ہے کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کہ علاوہ کسی پر توکل نہ کریں ۔ جب دُشمن مخالفت و دُشمنی کریں توصبر کریں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ہی بھروسہ کریں ۔‘‘([4])
ارشاد باری تعالی ہے:
فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ- (پ۴، آل عمران:۱۵۹) ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔
تفسیرِ خازن میں ہے:’’اور جب تم کسی کام کاپختہ اِرادہ کرلو توپھر تمام معاملات میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مدد چاہو اور اُسی پر بھروسہ کرو، اُس کے سوا کسی پر اِعتماد نہ کرو۔ بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی مدد فرمانے والا، حفاظت کرنے والا اور سیدھی راہ پر چلانے والا ہے۔ اِس آیت کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام معاملات میں اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کسی پر اِعتماد نہ کرے۔ہاں ! مشورہ کرنا توکل کے خلاف نہیں ۔‘‘([5])
ربّ تعالی اِرشاد فرماتا ہے:
وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-(پ۲۸، الطلاق:۳) ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔
تفسیرِ بغوی میں ہے:حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’اگر تم اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایسا توکل کروجیسا توکل کرنے کاحق ہے تو وہ تمہیں بھی ایسے ہی رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ۔‘‘([6])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) (پ۹، الانفال:۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب اُن پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں ۔
تفسیر دُرِّ منثور میں ہے: حضرتِ سَیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرما تے ہیں :’’مسلمان اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کسی سے اُمید نہیں رکھتے۔‘‘حضرتِ سَیِّدُنا سعید بن جُبَیْررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل اِیمان کو جمع کرتا ہے۔‘‘مزید فرمایا کہ ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ پرتوکل کرنا نصف ایمان ہے۔‘‘([7])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! چونکہ یہ باب یقین و توکل کے بارے میں ہے، لہذا اب یقین وتوکل سے متعلق چند اَہم اُمور کی وضاحت پیش کی جاتی ہے، ملاحظہ فرمائیے۔
علامہ سیدشریف جُرجَانی حنفی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’یقین لغت میں اُس علم کو کہتے ہیں جس میں کوئی شک نہ ہو۔ اور اِصْطِلَاح میں کسی شے کے بارے میں یہ پختہ اِعتقاد رکھنا کہ وہ اِس طرح ہے، اِس کے علاوہ کسی اور طرح نہیں ہوسکتی اور حقیقت میں بھی وہ شے اُسی طرح ہو تو ایسا اِعتقاد یقین کہلاتا ہے۔‘‘([8])
صَدرُ ا لا فاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْھَادِیتوکل کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’توکل کے معنی ہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر اِعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد کر دینا۔ مقصود یہ ہے کہ بندے کا اِعتماد تمام کاموں میں اللہ پر ہونا چاہیے۔‘‘([9])
فتح الباری میں ہےکہ جمہور علمائے کرام رَحِمَھُمُ اللّٰہُ السَّلَامنے فرمایا: ’’توکل اِس طرح حاصل ہوتا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کیے ہوئے وعدے پر کامل بھروسہ ہو اور اِس بات پر کامل یقین ہو کہ جو فیصلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے کیا ہوا ہے، وہ ضرور ہوگا ۔ ہاں بقدر ِحاجت رزق کی تلاش میں سنت کی پیروی نہ چھوڑے، دشمن سے بچاؤ کے لیے اَسلحے کی تیاری اورمال و اَسباب کی حفاظت کے لیے دروازے بند کرنانہ چھوڑے۔ اِسی طرح دیگربچاؤ کے طریقے، تمام اِحتیاطی تدابیر اِختیار کرے، مگر یہ ضروری ہے کہ اِن اَسباب ہی پرمطمئن نہ ہوجائے بلکہ یہ عقیدہ ہوکہ یہ اَسباب اَزْخُودنہ کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں ، نہ کسی قسم کا کوئی نقصان دُور کر سکتے ہیں بلکہ سبب و مُسَبَّب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہیں اور سب اُمور اُسی کے اِرادے پر مَوْقُوف ہیں ۔( یعنی وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔) ہاں جب بندے کا جُھکاؤ اَسباب کی طرف ہو جائے تو اُس کے توکل میں کمی آجاتی ہے ۔
اَسلاف کے مختلف اقوال کی رُو سے مُتَوَکِّل دوطرح کا ہوتاہے :(۱) واصِل (یعنی توکل کی منزل پا لینے والا)یہ وہ ہے جو اَسباب کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں کرتا اگرچہ اَسباب اختیار کرتا ہو ۔ (۲)سالِک(یعنی توکل
کی طرف بڑھنے والا) یہ وہ ہے جس کی توجہ کبھی کبھی اَسباب کی طرف ہوجاتی ہے مگر یہ علمی طریقوں اور ذوقِ حالیہ کی بنا پر اپنی اِس کیفیت کو دُور کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واصِل کا مرتبہ پا لیتا ہے۔حضرت سَیِّدُنَا ابو القاسم عبدالکریم ہُوَازِن قُشَیْرِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’توکل کا مقام دِل ہےاور ظاہری اَفعال توکل کے خلاف نہیں جبکہ بندہ اِس بات پر پختہ یقین رکھے کہ سب کچھ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حکم سے ہوتا ہے۔‘‘([10])
عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :’’کسبِ معاش (روزی کمانے) کی مشروعیت پر کثیر دلائل ہیں جن میں سے حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ مرفوع حدیث بھی ہے کہ:’’ اَفْضَلُ مَااَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہٖ یعنی سب سے زیادہ فضیلت والا کھانا وہ ہے جسے بندہ اپنی کمائی سے کھائے۔‘‘حضرتِ سَیِّدُنا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی اپنے کسب سے ہی کھاتے تھے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ارشادفرمایا: (وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ(۸۰)) (پ۱۷، الانبیاء:۸۰)ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’اور ہم نے اُسے تمہارا ایک پہناوا بنانا سکھایا کہ تمہیں تمہاری آنچ سے (زخمی ہونے سے) بچائے۔‘‘ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: ( خُذُوْا حِذْرَكُمْ) (پ۵، النساء: ۱۰۲)ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’اور اپنی پناہ لیے رہو۔‘‘ بلکہ بہت مرتبہ تو کسبِ معاش ( روزی کمانا) واجب بھی ہوتا ہے مثلاً جو شخص کمانے پر قادر ہو اور اُس کے گھر والے نفقے کے محتاج ہو ں تو اُس پر واجب ہے کہ کمائے ، نہیں کمائے گا تو گنہگار ہوگا ۔ ‘‘([11])
حضرتِ سَیِّدُنا سَہل بن عبد اللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ’’متوکل کی تین علامتیں ہیں :(۱)کسی سے سوال نہیں کرتا(۲) سائل کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتا (۳) اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھتا ۔‘‘([12])
ہمارے اَسلاف توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ اُن کے توکل کا یہ عالَم تھا کہ کئی کئی روز بھوکا رہنے کے باوجود بھی رزق کے معاملے میں کبھی وسوسوں کا شکار نہ ہوتے اور پھر اُن کا رزق اُن تک خود پہنچ جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنَاابو یعقوب اَقْطَعْ بَصْرِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ ایک بار مجھے دس دن تک کھا نے کو کچھ نہ ملا۔ کمزوری و گھبراہٹ بڑھی تو میں رزق کی تلاش میں قریبی وادی کی طرف چل دیا۔ راستے میں ایک شلجم پڑا دیکھا تو اُٹھا لیا، مگر یوں محسوس ہو ا جیسے کوئی کہہ رہا ہوکہ دس دن بھوکا رہنے کے بعد بھی یہ باسی شلجم کھاؤ گے؟ چنانچہ میں نے وہ نہ کھایااور مسجد میں آگیا ۔کچھ دیر بعد ایک عجمی آیا اور اُس نے مصری کیک، بادام اور شکر سے بھرا ہوا تھیلا میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا :’’یہ سب آپ کے لیے ہے۔‘‘ میں نے حیران ہو کر سبب دریافت کیا تو کہنے لگا :’’آج سے دس روز پہلے ہماری کشتی ڈوبنے لگی تو میں نے یہ نذر مانی کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّنے ہمیں نجات عطا فرمائی تو یہ تھیلا میں اُسے دوں گا جومجھے مسجد میں سب سے پہلے ملے گا ۔چونکہ سب سے پہلے مجھے آپ ہی نظر آئے اِس لیے یہ سامان آپ کاہے۔ ‘‘یہ سن کرمیں نے اُس میں سے کچھ چیزیں لیں اوربقیہ ا ُس کے بچوں کے لیے واپس کر دیں ۔پھر میں نے اپنے دل میں کہا: ’’تیرا رزق دس10دن سے تیرا منتظر تھا اور تو اُسے وادی میں تلاش کررہا تھا۔‘‘([13])
<
حدیث نمبر:74
عَنِْ اِبْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ، فَرَاَیْتُ النَّبِیَّ وَمَعَہُ الرُّہَیْطُ، وَالنَّبِیَّ وَمَعَہُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِیَّ وَلَیْسَ مَعَہُ اَحَدٌ، اِذْرُفِعَ لِیْ سَوَادٌ عَظِیْمٌ فَظَنَنْتُ اَنَّہُمْ اُمَّتِیْ، فَقِیْلَ لِیْ:ہَذَا مُوْسٰی وَقَوْمُہُ، وَلَکِنِ انْظُرْ اِلَی الْاُفُقِ،فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِیْمٌ،
فَقِیْلَ لِیْ:اُنْظُرْ اِلَی الْاُفُقِ الْآخَرِ، فَإِذَا سَوَادٌعَظِیْمٌ، فَقِیْلَ لِیْ:ہَذِہٖ اُمَّتُکَ، وَمَعَہُمْ سَبْعُوْنَ اَلْفاً یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ، ثُمَّ نَہَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَہُ، فَخَاضَ النَّاسُ فِی اُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: فَلَعَلَّہُمْ الَّذِیْنَ صَحِبُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: فَلَعَلَّہُمُ الَّذِیْنَ وُلِدُوْا فِی الْاِسْلَامِ،وَلَمْ یُشْرِکُوْابِاللّٰہِ شَیْاً،وَذَکَرُوْااَشْیَاءَ، فَخَرَجَ عَلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا الَّذِیْ تَخُوْضُوْنَ فِیْہِ؟ فَاَخْبَرُوْہُ فَقَالَ: ہُمُ الَّذِیْنَ لَایَرْقُوْنَ، وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ وَلَایَتَطَیَّرُوْنَ، وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ، فَقَامَ عُکَّاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ: اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَجْعَلَنِیْ مِنْہُمْ فَقَالَ:اَنْتَ مِنْہُمْ، ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ: اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَجْعَلَنِیْ مِنْہُمْ فَقَالَ:سَبَقَکَ بِہَاعُکَّاشَۃُ. ([14])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالَم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےاِرشادفرمایا :’’میرے سامنے اُمَّتیں پیش کی گئیں تو میں نے ایک نبی( عَلَیْہِ السَّلَام) کو دیکھا، اُن کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ ایک نبی( عَلَیْہِ السَّلَام) کو دیکھا اُن کے ساتھ ایک یا دو آدمی ہیں اور ایک نبی (عَلَیْہِ السَّلَام) کویوں دیکھا کہ اُن کے ساتھ کوئی بھی نہیں ۔اچانک ایک بہت بڑی جماعت میرے سامنے پیش کی گئی تومیں نے خیال کیا کہ شاید یہ میری اُمَّت ہوگی لیکن مجھے کہا گیا کہ یہ موسیٰ( عَلَیْہِ السَّلَام) اور اُن کی اُمَّت ہے، البتہ آپ آسمان کے کنارے کی طرف دیکھئے، میں نے دیکھا تو وہاں ایک بہت بڑی جماعت تھی۔مجھے کہا گیا کہ دوسرے کنارے کی طرف دیکھئے تو وہاں بھی ایک بہت بڑی جماعت تھی۔ مجھ سے کہاگیا:یہ آپ کی اُمَّت ہے اور اِن کے ساتھ سترہزار 70000اَفرادایسے ہیں جو بِلا حساب وعذاب جنت میں داخل ہوں گے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھڑے ہوئے اور کاشانہ ٔ اَقدس میں تشریف لے گئے ۔صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بلا حساب وعذاب جنت میں داخل ہونے والوں کے بارے میں بحث کرنے لگے ۔ بعض نے کہا: ’’شاید وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحبت یافتہ ہوں گے۔‘‘بعض نے کہا : ’’شاید وہ ہوں گے جومسلمان پیدا ہوئے اور پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے
ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ۔‘‘الغرض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے مختلف خیالات کا اِظہار کیا ۔ پھرآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم باہر تشریف لائے اور فرمایا:’’کس چیزکے بارے میں بحث کررہے ہو؟‘‘ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے زیر بحث مسئلہ بتایا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’یہ وہ لوگ ہیں جو نہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں ، نہ کراتے ہیں اور نہ ہی بد فالی لیتے ہیں اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کرتے ہیں ۔‘‘ (یہ سن کر) عُکَّاشہ بن مِحْصَن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہوئے اور عرض کی:’’یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! دعا کیجئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے بھی اُن میں شامل فرمادے۔‘‘ فرمایا :’’تو اُن میں سے ہے۔‘‘پھر ایک اور شخص کھڑا ہواورعرض کی: ’’دعا کیجیے اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے بھی اُن لوگوں میں شامل فرمادے ۔‘‘ فرمایا :’’اِس میں عُکَّاشَہ تم پرسبقت لے گئے۔‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حدیثِ مذکور میں تین باتوں کا بیان ہے :(1)حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے اُمَّتُوں کا پیش ہونا۔ (2)سترہزار70000لوگوں کاجنت میں بلاحساب وعذاب داخلہ (3)بلاحساب وعذاب جنت میں جانے والوں کی خصوصیات۔اِن تینوں کی وضاحت ملاحظہ فرمائیے۔
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان الفاظِ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’میرے سامنے اُمَّتیں پیش کی گئیں ۔یہ پیشی یا تو میثاق کے دن ہوئی یا کسی خوابی معراج میں یاجسمانی معراج میں ، تیسرا احتمال زیادہ قوی ہے کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معراج میں جہاں اور چیزیں ملاحظہ فرمائیں وہاں ہی سارے نبی مع اُن کی اپنی اُمَّتوں کے حال آنکھوں سے دیکھے۔ معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نگا ہ سے کوئی نبی اور ہر نبی کا کوئی اُمَّتی غائب نہیں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سب کو اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرمایا ہے۔ایک نبی(عَلَیْہِ السَّلَام) کویوں دیکھا کہ ا ن کے ساتھ کوئی بھی نہیں ۔یعنی بعض نبی دنیا میں وہ بھی گزرے جن کی بات ایک شخص نے بھی نہ مانی وہ ہمارے سامنے اکیلے ہی پیش ہوئے، بعض نبی وہ جن کی دعوت صرف ایک نے یا دو نے یا جماعت نے
قبول کی وہ نبی ہمارے سامنے اُسی ایک دو یازیادہ کے ساتھ پیش ہوئے۔ معلوم ہوا کہ اُمَّت سے مراد اُمَّت اجابت ہے۔وہاں ایک بہت بڑی جماعت تھی۔یعنی اُس جماعت کی کثرت کا یہ حال تھا کہ آگے داہنے بائیں ہر طرف اِس کثرت سے آدمی تھے کہ تاحدِّ نظر آدمی ہی آدمی تھے۔ اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی ساری اُمَّت کو ملاحظہ فرمایا،حضور سے کوئی شخص پوشیدہ نہیں ۔‘‘([15])
جب سرکارِ دوعالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی اُمَّت کو ملاحظہ فرمایا تو کہا گیا کہ اِن کے ساتھ ستر ہزار 70000افراد ایسے ہیں جو بِلاحساب و عذاب جنت میں داخل ہوں گے۔مرآۃ المناجیح میں ہے:”اِس میں دو اِحتمال ہیں ایک یہ کہ اُسی جماعت میں یہ لوگ بھی ہیں جو بغیر حساب جنت میں جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ اُن کے علاوہ ستر ہزار وہ بھی ہیں جو بغیر حساب جنتی ہیں ۔ پہلا اِحتمال زیادہ قوی ہے، ستر ہزار سے مراد بے شمار لوگ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ خاص تعداد ہی مُراد ہو۔ یعنی ساری اُمَّت میں ستر ہزار بے حساب جنتی ہیں ۔ اِس دوسرے اِحتمال کی تائید اِس روایت سے ہوتی ہے کہ فرمایا: اُن ستر ہزار میں سے ہر شخص کے ساتھ سترستر ہزار ہوں گے۔ اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ قیامت میں سب کا حساب نہ ہوگا، بعض لوگ حساب سے مستثنی ٰبھی ہوں گے۔‘‘([16])
حدیثِ مذکور میں جنتیوں کی تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں :(۱)نہ جھاڑ پھونک کرتے ہیں نہ کراتے ہیں ۔حضرت سَیِّدُنَاابو الحسن قابِسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’یہاں وہ جھاڑ پھونک مراد ہے جو لوگ زمانہ ٔ جاہلیت میں کیا کرتے تھے ۔ ورنہ وہ دم وتعویذ جو کلامِ الٰہی پرمُشتمل ہو وہ شارِع عَلَیْہِ السَّلَامنے خود بھی کیا اور اُمَّت کو بھی اِس کی تعلیم دی اور ایسا دم وتعویذمقامِ تو کل سے نہیں نکالتا۔‘‘(۲)بدفالی نہیں لیتے۔ یعنی وہ
پرندوں وغیرہ سے بدشگونی نہیں لیتے جیسا کہ اِسلام سے پہلے اُن کی عادت تھی۔ بد شگونی شر میں ہوتی ہےجبکہ فال خیر میں ۔حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فال (نیک شگون) کو پسند فرماتے تھے۔([17]) (۳)اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں ۔ اَسباب اختیار کرتے ہوئے کسی کام کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سپرد کردینا ”توکل“ کہلاتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں بِلا عذاب و حساب جنت میں داخلے کی خوشخبری دی گئی ہے اگر وہ ظالم اور گناہ گار ہوں کیا پھر بھی جنت میں داخل ہوں گے؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اِن اَوصاف کے ساتھ ساتھ عدل و اِنصاف کرنے والے اور گناہوں سے بچنے والے بھی ہوں گے۔ یا پھر اِن اَوصاف کی بدولت اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُن کے گناہ بخش دے گا اور اُن کی خطائیں مٹا دے گا۔([18])
یہ مشہور صحابی ہیں ،بدر اور بعد ِبدر تمام غزوات میں شریک ہوئے۔بدر میں آپ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضورِ اَنورشفیع روزِ محشر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے آپ کو کھجور کی چھڑی عنایت فرمائی جو آپ کے ہاتھ میں پہنچتے ہی تلوار بن گئی۔سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے آپ کو جنت کی بشارت دی۔ 45 سال عمر پائی، خلافتِ صدیقی میں وفات ہوئی۔ آپ سے حضرت سَیِّدُنَاابوہریرہ، سَیِّدُنَا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماور خود آپ کی بہن حضرت سَیِّدَتُنَا اُمّ قَیْس بنت مِحْصَنرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے روایات لی ہیں ۔([19])
حضرت سَیِّدُنَا عُکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد ایک اور شخص نے بارگاہِ رِسالت میں دعا کے لیے عرض کی۔اُس شخص کے بارے میں مُحَدِّثِیْنِ کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کا اِختلاف ہے۔عمدۃ القاری میں ہے: ایک قول کے مطابق وہ شخص منافق تھا۔سر کارِ دو عالم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اُس کی پردہ پوشی فرماتے
ہوئے اَحسن اَنداز میں جواب دیا کہ شاید وہ توبہ کر لے اور راہِ راست پر آجائے۔‘‘([20])
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’ایک قول یہ ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو وحی کے ذریعے علم ہوگیا تھا کہ عُکاشہ کا سوال قبول کیا جائے گا اور دوسرے شخص کے بارے میں یہ بات واقع نہ ہوگی۔ میں کہتا ہوں کہ خطیب بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْھَادِینے اپنی کتاب ”اَلْاَسْمَاءُ الْمُبْھَمَۃُ فِی الْاَنْبَاءِ الْمُحْکَمَۃِ“ میں فرمایا کہ دوسرے شخص حضرتِ سَیِّدُنا سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو وہ قول باطل ہوجائے گا جس میں کہا گیا کہ وہ شخص مُنَافِق تھا اور دوسرا قول (یعنی حضرت سَیِّدُنَا سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ والا)اَظْہَر و مُخْتَار ہے۔([21])
فَتْحُ الْبَارِی میں ہے:عَلَّامَہ قُرْطُبِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے فرمایا: ’’دوسرے شخص میں وہ صفات نہ تھیں جو حضرت سَیِّدُنَاعُکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں تھیں ، اِس لیے ا ُس کی بات قبول نہ کی گئی۔ کیونکہ اگر اُس کی بات بھی مان لی جاتی تو وہاں پر موجود تمام لوگ یہی سوال کر سکتے تھے اِس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا لہٰذاایسا جواب دیا گیا کہ جس سے یہ باب بند ہوگیا۔ اوریہ تاویل اِن دو وجوہات کی بنا پر اُس قول سے بہتر ہے جس میں دوسرے شخص کومنافق کہا گیا ہے:(۱) صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانمیں اَصل عدمِ نفاق ہے اور نقلِ صحیح کے بغیر اِس کے خلاف بات ثابت نہیں ہوسکتی۔(۲)ایسا سوال قصدِ صحیح اور تصدیقِ رسول پر یقین کی وجہ سے ہی ہوتا ہے پھر کسی منافق سے یہ کیسے صادر ہوسکتا ہے؟‘‘ عَلَّامہ سُہَیْلِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے فرمایا: ’’میرے نزدیک یہ وجہ تھی کہ حضرت سَیِّدُنَاعُکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سوال کی قبولیت کی گھڑی تھی جس کا سرکارِ دوعالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو علم تھا۔لیکن جب دوسرے شخص نے سوال کیا تو وہ مبارک ساعت گزر چکی تھی اِس لیے اُس کا سوال قبول نہ کیا گیا۔‘‘
اِمام ابن حجر عَسْقَلَانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں : ’’یہ وُجُوہات اَئِمَّہ کرام کے کلام سے حاصل ہوئی ہیں اور حقیقتِ حال اللہ عَزَّ وَجَلَّ بہتر جانتا ہے۔ اور مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرتِ سَیِّدُنا عُکاشہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
کی ہمشیرہ حضرتِ سَیِّدَتُنَا اُمِّ قَیْس بِنْتِ مِحْصَن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا :ایک مرتبہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بقیع کے متعلق فرمایا کہ اِ س قبرستان سے ستر ہزار70000 اَفرادبِلاحساب جنت میں جائیں گے ،اُن کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے ہوں گے۔ یہ سن کرایک شخص (یعنی سَیِّدُنَا عُکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) نے عرض کی:’’یارسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں بھی (اُن میں سے ہوں ؟) ‘‘فرمایا: ’’اور تو بھی۔‘‘ پھر ایک دوسراشخص کھڑا ہوا اور کہا :’’میں بھی؟‘‘ فرمایا: ’’عکاشہ تجھ پر سبقت لے گیا ۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سَیِّدَتُنَا اُمِّ قَیْس بنت مِحْصَن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے پوچھا کہ حضور سَروَرِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دوسرے شخص سے وہی بات کیوں نہیں کہی جو سَیِّدُنَاعکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے کہی تھی؟‘‘ فرمایا: ’’میرا خیا ل ہے کہ دوسرا شخص منافق تھا۔‘‘پس جس نے دوسرے شخص کو اِس حدیث کی بنیاد پر منافق کہا ہے تو اُس کے غیر کی تاویل کو رَد نہیں کیا جائے گا۔(یعنی جس نے منافق نہیں کہا بلکہ کوئی اور تاویل کی تو اُس کی بات اِس حدیث کی بنیاد پر رَد نہیں کی جائے گی) کیونکہ اِس حدیث میں تو صرف ظن کی بات ہے۔‘‘([22]) ( اورفقط ظن کی وجہ سے کسی کی منافقت ثابت نہیں ہوتی)۔
حدیثِ مذکور میں جھاڑ پھونک کی ممانعت کا بیان ہے جبکہ کئی احادیثِ مبارکہ سے دم کا ثبوت ملتا ہے تو اِن دو طرح کی حدیثوں میں کیسے مطابقت ہوگی؟آئیے اِس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیے۔شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیتفہیم البخاری میں فرماتے ہیں :’’بعض اَحادیث میں دَم (جھاڑ پھونک) کرنے کا جواز اور بعض میں ممانعت مذکور ہے، دونوں قسم کی اَحادیث بکثرت ہیں ، اِن میں اِتِّفَاق کی صورت یہ ہے کہ جن اَحادیث میں ممانعت ہے وہ اُس دم پر محمول ہیں جس میں غیر شرعی کلما ت ہوں اور جس دم میں کلماتِ قرآن اور اَسما ء ِ ا لہٰیہ مذکور ہیں وہ منتر (دَم) جا ئز ہیں ۔‘‘([23])
حضرتِ سَیِّدُنا ابو سَعِیْد خُدْرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا ایک قافلہ عرب کے کسی قبیلے میں گیا تو قبیلے والوں نے اُن کی ضِیافت نہ کی، اِسی دوران قبیلے کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، قبیلے والوں نے اہلِ قافلہ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اِس کاٹے کا دَم یا دَوَا ہے؟انہوں نے فرمایا: ’’چونکہ تم لوگوں نے حق ِضیافت ادا نہ کیا اس لیے جب تک ہمارے لیے کچھ مقرر نہ کرو ہم علاج نہیں کریں گے ۔‘‘ چنانچہ قبیلے والوں نے کچھ بکریاں دینا منظور کر لیں ۔ پس ایک صحابی نے درد والی جگہ پر اپنا لعاب لگایا اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تودَرد فوراً ختم ہوگیا ۔ پس قبیلے والے مقرر ہ بکریاں لے آئے ۔مگر صحابۂ کرام نے کہا کہ جب تک ہم اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نہ پوچھ لیں اُس وقت تک نہ لیں گے ۔جب حضورنبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے معاملہ پیش کیا گیا تو آپ مسکرائے اورفرمایا: ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ سے دَم کیا جاتا ہے؟ بہر حال تم وہ بکریاں لے لو اور میرا حصہ بھی رکھو۔‘‘([24])
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :’’ مجھے حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا کہ نظر لگنے کا دم کیا کرو۔‘‘([25])
حضرتِ سَیِّدُنا عبدالرحمٰن بن اَسْوَد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے زہریلے جانور کے کاٹے پر دَم کرنے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:’’حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ہر زہریلے جانور کے کاٹے پر دَم کرنے کی اِجازت مَرحَمَت فرمائی ہے۔‘‘([26])
حضرتِ سَیِّدُنا عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت سَیِّدُنَااَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوئے توحضرت سَیِّدُنَاثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُن سے عرض کی: ’’اے ابو حمزہ ! میں بیمار ہوں ۔‘‘ حضرت سَیِّدُنَااَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں وہ دَم نہ کروں جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیا کرتے تھے؟‘‘ عرض کی:’’ کیوں نہیں ۔‘‘ توحضرت سَیِّدُنَا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ دعا پڑھ کر اُنہیں دَم کیا: ’’اَللّٰھُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْھِبَ الْبَاسِ اِشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لَا شَافِی اِلَّااَنْتَ شِفَآءً لَا یُغَادِرُسَقَمًا یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! اے لوگوں کے ربّ! اے تکالیف کو دُور کرنے والے!شفا عطافرما، توہی شفا دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ، ایسی شفا عطا فرما جو اپنے بعد بیماری نہ چھوڑے ۔‘‘([27])
اُمُّ المومنین حضرتِ سَیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیمار ہوئے تو حضرت جبریل عَلَیْھِ السَّلَام نے آکر اِن کلمات کے ساتھ دم کیا:’’بِسْمِ اللہِ یُبْرِیْکَ وَمِنْ کُلِّ دَاءٍ یَشْفِیْکَ وَمِنْ شَرِّحَاسِدِِاِذَاحَسَدَوَشَرِّ کُلِّ ذِی عَیْنٍیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نام سے وہ آپ کو تندرست کر دے گا اور ہر بیماری سے شفا عطا فرمائے گااور ہر حاسِد کے حَسَد سے جب و ہ حَسَد کرے اور نظر لگانے والی آنکھ سے محفوظ رکھے گا۔‘‘([28])
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ ’’جب رسولِ اَکرم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہلِ خانہ میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آ پ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مُعَوَّذَات
(یعنی سورۃالفلق اورسورۃ الناس)پڑھ کر اُس پر دَم کرتے۔ پھرجب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مرضِ وفات لاحِق ہوا تو میں آپ پر دَم کرتی اور آپ کے دست مبارک کو آپ پر پھیرتی، کیونکہ آپ کے دستِ مبارک میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی۔‘‘([29])
فقہ حنفی کی مشہور و معتبر کتاب”رَدُّالمحتار“ میں ہے:’’جو تعویذ قرآن پاک یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اَسمائے مبارکہ سے لکھے جائیں اُن میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ۔‘‘([30]) بہارِ شریعت میں ہے: ’’گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے جبکہ وہ تعویذ جائز ہو یعنی آیاتِ قرآنیہ یا اَسماءِ اِلٰہیَّہ یا اَدْعِیَّہ (دُعاؤں )سے تعویذ کیا جائے اور بعض حدیثوں میں جو مُمَانَعَت آئی ہے اُس سے مُراد وہ تعویذات ہیں جو ناجائز اَلفاظ پر مشتمل ہوں ، جو زمانۂ جاہلیت میں کیے جاتے تھے۔اِسی طرح تعویذات اور آیات اور اَحادیث واَدْعِیَّہ کو رِکابی (یعنی پلیٹ)میں لکھ کر مریض کو بہ نیت شِفا پلانا بھی جائز ہے۔‘‘([31])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اِسلامی تادم تحریر ۹۵ سے زائد شعبہ جات میں دین کی تبلیغ اور نیکی کی دعوت میں مصروفِ عمل ہے، اِن شعبوں میں ایک شعبہ مجلس مکتوبات وتعویذاتِ عطاریہ بھی ہے۔ اِس شعبے میں پیارے آقا مدینے والے مُصْطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دُکھیاری اُمَّت کی غمخواری کے لیےکثیر اِسلامی بھائی (جنہیں مجلس مکتوبات وتعویذاتِ عطاریہ کی جانب سے اِجازت اور تربیت حاصل ہے)مختلف بستوں پر روزانہ کم وبیش ایک لاکھ پچیس ہزار مریضوں کو چار لاکھ سے زائد تعویذات واَورادِ عطاریہ دینے میں مصروف عمل ہیں ۔ نیز اِسی شعبے کے تحت مدنی چینل پر نشر کیے جانے والے سلسلے’’روحانی علاج‘‘ میں بھی کثیراَفراد کواَوْرَاد ووَظائف بتا کر غمخواری کی
جاتی ہے۔ اگر آپ بھی کسی جسمانی یا رُوحانی مرض میں مبتلا ہیں ، کسی پریشانی یا مُصِیْبَت کا شکار ہیں تو اپنے علاقے میں تعویذاتِ عطاریہ کے بستے پر تشریف لائیے اور وہاں سے تعویذاتِ عطاریہ حاصل کرکے اُنہیں بتائے گئے طریقے کے مطابق اِستعمال کیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ربّ تعالی کی رحمت سے شفا نصیب ہوگی، نیز ہر قسم کی تکالیف اور پریشانیوں سے بچنے کے لیے دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوجائیے، اپنی زندگی کو سنتوں کے سانچے میں ڈھال لیجئے، مدنی انعامات پر عمل کیجئے، مدنی قافلوں میں سفر کو اپنا معمول بنالیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس کی برکت سے دُنیوی تکالیف اور پریشانیاں دُور ہوجائیں گی۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) تمام انبیاءِ کرام عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کے سب اُمَّتی ہمارے پیارے نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیشِ نظر ہیں ۔
(2) اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔
(3) بد شگونی ناجائز وممنوع ہے ۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ چاہتا ہے، اُس کے حکم کے بغیر درخت کا ایک پَتّابھی نہیں ہِل سکتا ۔
(4) جو جھاڑ پھونک غیر شرعی کلمات کے ذریعے ہو وہ منع ہے ۔جبکہ آیات قرآنیہ اور اَسمائے اِلٰہیَّہ کے ذریعے کیا گیا دم نا صرف جائز بلکہ باعث ِخیر وبرکت ہے۔
(5) صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان حضورنبی اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوشفیع ومستجابُ الدَّعَوَات مانتے تھے جبھی تو اپنی دنیا وآخرت کی بہتری کے لیے آپ کی بارگاہ میں حاضری دیتے اور دعائیں کرواتے تھے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہماری دنیاوآخرت بہتر بنائے ،ہمیں اپنی دائمی رضا سے مالا مال فرمائے ۔آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:75
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَااَیْضًا اَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُوْلُ:اَللّٰہُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ،وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ،وَاِلَیْکَ اَنَبْتُ،وَبِکَ خَاصَمْتُ، اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِعِزَّتِکَ،لَا اِلٰہَ الَّا اَنْتَ اَنْ تُضِلَّنِیْ،اَنْتَ الْحَیُّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ،وَالْجِنُّ وَالْاِنسُ یَمُوْتُوْنَ.([32])
ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے ہی مَروی ہے کہ حضور نبی اَکرم نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمیہ کلمات پڑھا کرتے تھے: ’’اے میرے پروردگار! میں نے تیری اِطاعت کی، تجھ ہی پر اِیمان لایا، تجھ ہی پر بھروسہ کیا، تیری ہی طرف رُجوع لایا اور تیری ہی مدد سے جنگ کی ،اے میرے پروردگار! میں تیرے گمراہ کرنے سے تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو زندہ ہے، تجھے کبھی موت نہیں آئے گی جبکہ تمام جن واِنس مر جا ئیں گے۔
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیالفاظ ِحدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’میں نے تیری اِطاعت کی ۔ یعنی تیرے حکم پر میں نے سرِ تسلیم خم کیا، تمام اَوَامِرو نَوَاہی کوتسلیم کیا، تیری اور تیرے تمام اَحکام کی تصدیق کی،تجھ ہی پر بھروسہ کیا۔یعنی ظاہری اَسباب سے قطعِ نظر کرتے ہوئے میں نے اپنے تمام اُمور تیرے سپرد کیے ۔ایک قول کے مطابق معنی یہ ہے کہ میں نے قوت و طاقت سے بَری ہوکر اپنے معاملات تیری طرف پھیرے، مجھے یقین ہے کہ مجھے وہی ملے گا جو تقدیر میں میرے لیے لکھا جا چکا ہے۔ لہٰذامیں نے اپنے تمام اُمور تیرے سپرد کردئیے۔میں تیری ہی طرف رُجوع لایا۔یعنی میں نے اپنے
معاملات کی تدبیراورعبادات میں تیری طرف رُجوع کیا۔‘‘([33])
مُفَسِّرشَہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’(تیری ہی مدد سے جنگ کی)یعنی خدایا میں اپنی قوت و طاقت یا فوج و ہتھیار کے بھروسہ پر جہاد نہیں کرتا صرف تیرے بھروسہ پر کرتا ہوں ، یہ تو کل و ہ قُوَّت ہے جو کفار کے پاس نہیں صرف مسلمانوں کو حاصل ہے۔‘‘([34])
عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’یعنی میں نےدین کے دشمنوں سے جہاد کیا اورمضبوط دلائل سے اُن کے دلائل کا رد کیا،اورتلوار اور مضبوط نیزوں سے اُن کی کمر توڑ دی۔‘‘([35])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’میں تیری عزت کے وسیلے سے پناہ چاہتا ہوں ۔یعنی تیرے غلبہ و قدرت و طاقت کے ذریعے پناہ مانگتا ہوں ، بیشک تمام عزت تیرے ہی لیے ہے، تیرے سوا کوئی موجود، معبود اور مقصود نہیں ہے۔میں تجھ ہی سے سوال کرتا اور تجھ ہی سے پناہ مانگتا ہوں ۔ اور میں پناہ چاہتا ہوں ہدایت کے بعد گمراہی سےاور تو نے مجھے تیرے حکم اور فیصلے کو ظاہر و باطِن (دل و جان) سے تسلیم کرنے، تیری جناب میں جھکنے اور تیرے دُشمنوں سے لڑنے کی توفیق دی۔ اور مجھے ہر حال میں تیری عزت و نصرت سے اُمید ہے۔ ‘‘عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :’’اَنْ تُضِلَّنِیْکا معنی ہے کہ لمحہ بھر کے لیے بھی مجھے اپنی نظرِ رحمت سے جدا نہ کرنا بلکہ اپنی بارگاہ میں دائمی حاضری کا شرف بخشنا۔ یا پھر معنی یہ ہے کہ اپنے اَحکام کی بَجَا آوَرِی سے لمحہ بھر بھی دُور نہ کرنا بلکہ مجھے تیری دائمی بندگی کرنے والا بنانا۔یا پھر معنی یہ ہے کہ لمحہ بھر بھی مجھے اِیمان سے دُور نہ کرنا بلکہ مجھے ہمیشہ تیری اور جو کچھ تیری بارگاہ سے آیا اُس کی تصدیق کرنے والا بنانا۔‘‘
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’اِس میں کسی قسم کا کوئی تردُّدنہیں کہ حضور نبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد:”اَنْ تُضِلَّنِیْ“اِضْلالسے مشتق نہیں کہ اِس کا
مطلب گمراہ کرنا ہے۔ بلکہ یہ ضَلَّ سے متعدی ہے جو غَابَ کے معنی میں ہے جس کا مطلب ہے غائب ہونا، پوشیدہ ہونا، موجود نہ ہونا۔ اور اَعُوْذُبِعِزَّتِکَ اَنْ تُضِلَّنِیْ کا معنی ہے: ’’میں پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تو مجھے اپنی بارگاہ میں حاضری سے لمحہ بھر کے لیے بھی دور کرے۔‘‘([36])
حُجَّۃُ الْاِسْلَامحضرتِ سَیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیتوکل کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’توکل ایک دِلی حالت کا نام ہے اوریہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو ایک ماننے اور اُس کے فضل وکرم پر اِیمان لانے سے حاصل ہوتی ہے ۔ توکل کا معنی یہ ہے کہ دل اپنے پروردگارپر اِعتماد کرے اور اُس سے مطمئن رہے۔اپنی روزی کے بارے میں بلاوجہ فکر مند نہ ہو اور اَسبابِ ظاہری میں خلل پڑنے سے مایوس و پریشان نہ ہو بلکہ خالق ِحقیقی پر بھروسہ رکھے کہ وہی رزق دینے والا ہے ۔‘‘([37])
پیرانِ پیر، روشن ضمیر، حضرتِ سَیِّدُنا شیخ عبد القادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی سے پوچھا گیا کہ توکل کیا ہے؟ فرمایا: ’’توکل یہ ہے کہ دل صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف مشغول ہو اور اس کے غیر پر بھروسہ نہ کرے بلکہ دھیان بھی نہ دے اور اُس کے سِوا ہر چیزسے بے نیاز ہوجائے۔ ‘‘([38])
حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم بن مُہَلَّب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میں نے جنگل میں ایک نوجوان کو نماز پڑھتے دیکھا۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے کہا :’’اِس ویرانے میں تمہارا کوئی مُوْنِس وغمخوار بھی ہے؟‘‘ کہا: ’’ہاں ! ہے ۔‘‘میں نے کہا: ’’کہا ں ہے؟‘‘ کہا :’’میرے دائیں بائیں ، اوپر نیچے ،آگے پیچھے ہر طر ف ۔‘‘یہ سن کر میں سمجھ گیا کہ یہ عارِفین میں سے ہے۔میں نے کہا:’’تمہارا زادِ راہ کیا ہے؟ ‘‘کہا:’’توحید و رسالت کا اِقرار، اِخلاص،اِیمانِ صادِق اور پختہ تَوکُّل۔‘‘ میں نے کہا:’’ میرے بیٹے! کیا تم میرے ساتھ رہنا پسند کرو گے ؟‘‘کہا:
’’بندے کو اُس کا ساتھی یادِالٰہی سے غافل کردیتا ہے اور میں لمحہ بھر بھی اپنے ربّ کی یاد سے غافل ہو کر عبادت کی اُس لذت سے محروم نہیں ہونا چاہتا جسے میں اب محسوس کر رہا ہوں ۔‘‘میں نے کہا: ’’اِس ویرانے میں تمہیں وَحشت محسوس نہیں ہوتی؟‘‘ کہا:’’محبتِ الٰہی نے مجھ سے سب وَحشتیں دُور کردی ہیں اب میں دَرِندوں کے درمیان بھی خوف و وَ حْشَت محسوس نہیں کرتا۔ ‘‘میں نے کہا : ’’تم کہاں سے کھاتے ہو؟‘‘ کہا:’’جس ربّ نے مجھے ماں کے پیٹ میں رزق دیا وہی اب بھی مجھے رزق عطا فرماتا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا:’’تمہارے کھانے کا اِنتظام کس طر ح ہوتا ہے؟‘‘کہا :’’میں جہاں بھی ہوں مجھے وقت پر کھانا مل جاتا ہے، میرا ربّ میری حاجت کوخوب جانتا ہے ،وہ میرے حالات سے با خبر اور میرا حافظ و والی ہے۔ ‘‘میں نے کہا : ’’تمہیں مجھ سے کوئی حاجت ہے۔‘‘کہا : ’’ہاں ! اگر دوبارہ مجھے دیکھوتو مجھ سے گفتگو نہ کرنا اور نہ ہی میرے بارے میں کسی کو کچھ بتانا۔‘‘میں نے کہا: ’’جیسے تمہاری مرضی، اِس کے علاوہ کوئی اورحاجت ہو توبتاؤ؟‘‘کہا : ’’ہو سکے توغم و پریشانی کی حالت میں مجھے دعامیں یاد رکھنا ۔‘‘
میں نے کہا: ’’میرے بیٹے!تم مجھ سے افضل ہو، تم میں خوفِ خدا وتوکل مجھ سے زیادہ ہے۔ ‘‘کہا: ’’یوں نہ کہیے! بلکہ آپ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں ، آپ کی نماز یں اور روزے مجھ سے زیادہ ہوں گے۔‘‘میں نے کہا: ’’مجھے تم سے کام ہے؟‘‘ کہا: ’’بتائیے!‘‘ میں نے کہا: ’’میرے لیے دعا کرو!‘‘چنانچہ اُس نے یوں دعا کی: ”اللہ عَزَّ وَجَلَّآپ کو ہر لمحہ گناہوں سے محفوظ رکھے، ایسا غم عطا فرمائے جس میں اُس کی رضا پوشیدہ ہو، اِس کے علاوہ کوئی او ر غم آپ کو نہ ملے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اب دوبارہ کب ملاقات ہوگی؟‘‘ کہا: ’’دنیا میں مجھ سے ملاقات کی اُمید نہ رکھنا اور آخرت میں مجھ سے ملنا چاہو تو اَحکَامِ خداوندی بجا لانا، جن اُمور سے اُس نے بچنے کا حکم دیا ہے اُن سے ہمیشہ بچنا ،آخرت پرہیز گاروں کے جمع ہونے کی جگہ ہے ، میں وہاں اُن لوگوں میں ملوں گا جو دیدارِ الٰہی میں مشغول ہوں گے۔‘‘ میں نے کہا:’’تمہیں یہ کیسے معلوم ہواکہ تمہیں یہ مقام حاصل ہوگا؟‘‘ کہا:’’اِس لیے کہ میں ممنوعاتِ شرعِیَّہ سے بچتا ہوں اور میں دُعا کرتا ہوں کہ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے جنت میں اپنے دیدار کی دولتِ عُظمیٰ سے سرفراز فرمانا۔‘‘ اتناکہنے کے بعد اُس نوجوان نے چیخ ماری اور میری نظروں
سے اوجھل ہوگیا ۔([39])
(1) حضورنبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یہ دعا تعلیمِ اُمَّت کےلیے ہے ورنہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک گناہ کی رَسائی نہیں بلکہ سب گناہ گاروں کی بخشش آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدقے ہوگی ۔
(2) مسلمان کی سب سے قیمتی شے اُس کااِیمان ہے ۔لہٰذا ہر وقت اپنے ایمان کے بارے میں متفکر رہنے کے ساتھ ساتھ اِیمان وہدایت پر اِستقامت کی دعا ضرور کرتے رہنا چاہیے۔
(3) حقیقی متوکل صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی پر بھروسہ کرتا ہے اُس کے غیر کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا۔
(4) ربّ تعالی اور اُس کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے اَسباب اِختیار کرنا توکل ہی ہے۔
(5) اپنے رزق کے بارے میں وسوسوں کا شکارہو کربلا وجہ پریشان وغمگین نہیں ہوناچاہیے، کیونکہ جو رِزق مُقَدَّر میں ہے وہ مل کر رہے گا۔
(6) جو ہم نشین یادِ الٰہی سے دوری کا سبب بنے اُس سے دُور رہنا چاہیے۔
(7) توکل کی دولت اُسے ہی نصیب ہوتی ہے جو مؤمن ہو اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم پر کامل یقین رکھتا ہو۔
(8) جو ذکرِ الٰہی کی وادیوں کے مسافرہوں وہ کبھی بھٹکتے نہیں بلکہ منزل خود اُن کی جُسْتْجُو کرتی ہے۔
(9) دیدارِ الٰہی کی نعمتِ عظمیٰ کے متمنی کو چاہیے کہ اَحکامِ خداوندی بجا لائے ،حرام کاموں سے بچے اور دیدارِ الٰہی کی دعا کرتا رہے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایمان کی سلامتی عطا فرمائے، ہماری مغفرت فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:76
سَیِّدُنا اِبراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ کا تَوَکُّل
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَیْضًا قَالَ:حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ،قَالَہَا اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ حِیْنَ اُلْقِیَ فِی النَّارِ، وَ قَالَہَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ قَالُوْا: اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْا:حَسْبُنَااللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ. وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ:کَانَ آخِرَ قَوْلِ اِبْراہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ حِیْنَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ:حَسْبِیَ اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ. ([40])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہی سے مروی ہے، فرماتے ہیں :جب حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے یہ کلمات کہے:”حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں کافی ہے اور وہ کیا ہی ا چھا کارساز ہے۔‘‘اور حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی یہی کلمات کہے جب کفار نے (مسلمانوں سے) کہا کہ (کفار) تمہارے خلاف جمع ہوئے ہیں پس اُن سے ڈرو!تو (یہ سن کر) اُن کے اِیمان بڑھ گئے اور انہوں نے بھی یہی کہا کہ:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کار ساز ہے۔‘‘اور ایک روایت میں حضرتِ سَیِّدُنا ا بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضرت سَیِّدُنَا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کے آخری الفاظ یہ تھے: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کار ساز ہے۔‘‘
تفسیر روح البیان میں ہے کہ جب حضرت سَیِّدُنَا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو مِنْجَنِیْق میں رکھ کر آتش
نمرودمیں ڈالا جانے لگا تو آپ کے پاس ’’ہوا‘‘ کے فرشتے نے حاضر ہو کر عرض کی : ’’اگر آپ چاہیں تومیں آگ کو ہوا میں اُڑا دوں ۔‘‘پھر پانی کے فرشتے نے عرض کی: ’’اگر آپ چاہیں تو میں یہ آگ بجھا دوں ۔‘‘آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا:’’مجھے تمہاری اِس خدمت کی ضرورت نہیں ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارسازہے۔‘‘ فرشتے بڑھے اور انہوں نے اُس مِنْجَنِیْق کو پکڑ لیا (جس پر ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو مقید کیا گیا) تھا ۔ چنانچہ کفار مِنْجَنِیْق کو نہ اٹھا سکے ۔ ابلیس لعین نے اُن سے کہا:’’ اگر اِسے اٹھانا چاہتے ہو تو ننگے سروں والی دس عورتیں مِنْجَنِیْق کے قریب لے آؤ ۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو فرشتے وہاں سے چلے گئے۔پھرجب سَیِّدُنَاابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے کہا:”لَااِلٰہَ اِلَّااَنْتَ سُبْحَانَکَ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الْمُلْکُ لَاشَرِیْکَ لَکَ“(یعنی اے ربُّ العالمین تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو پاک ہے، تمام تعریفیں تیری ہی لیے ہیں ، اور تیرے ہی لیے بادشاہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ۔) اتنے میں جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے حاضر ہوکر عرض کی: ’’کوئی حاجت ہو تو حکم فرمائیے۔‘‘سَیِّدُنَا ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا: ’’مجھے تم سے کوئی حاجت نہیں ۔ ‘‘جبریل امین نے عرض کی:’’اچھا جس سے حاجت ہے اس سے تو عرض کیجئے۔‘‘فرمایا: ’’وہ میری حاجت کو خوب جانتا ہے۔‘‘ پس اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آگ کو حکم فرمایا:
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹) (پ۱۷، الانبیاء: ۶۹) ترجمہ ٔ کنزالایمان: اے آگ ہوجا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔
پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا حکم ملتے ہی آگ کی جلانے کی تاثیر اور گرمی بالکل ختم ہوگئی ، وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی اور اس میں صرف روشنی اور چمک باقی رہ گئی۔‘‘([41])
مُفَسِّرِشہیر، مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانتفسیر نعیمی میں فرماتے ہیں : ’’صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ایسے شاندار مؤمن ہیں اور ایسی آن والے متوکل ہیں کہ اُن سے
کفار ِمکہ کے ایجنٹوں نے کہا: تم بدرِ صغریٰ میں بااِر ادۂ جہاد ہر گز نہ جاؤ کیونکہ اُنہوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بہت سازو سامان والے بے شمار لشکر جمع کررکھے ہیں ، تمہارا وہاں جانا گویا موت کے منہ میں جانا ہے ، اُن سے ڈرو اور خوف کرو، مفت کیوں جانیں گنواتے ہو؟ تو اِس کلام کو سن کر اُن مقبولوں کے دلوں میں بجائے خوف و ڈر پیدا ہونے کے اور زیادہ کمالِ ایمان پیدا ہوگیا، اُن کا ایمان و توکل بڑھ گیا، بے ساختہ بول اٹھے کہ کوئی مضائقہ نہیں ، ہمیں کفار کی یلغار سے کوئی ڈر نہیں ، اُن کے مقابلہ میں ہمیں اللہ کافی و افی ہے، ہمارا تو وہی کارساز ہے، جس کا کارساز ایسا شاندار ہو اُسے کیا پرواہ۔ چنانچہ وہ حضرات بے دھڑک روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچے تو میدان خالی پایا، مزے سے وہاں رہے، بدر صغریٰ کے پاس ہی میلے میں تجارتیں کیں ، خوب کمائی کی اور لوٹے تو اِس طرح کہ اللہ تعالٰیکی نعمت یعنی تجارتی نفع اور اللہ تعالٰیکے فضل یعنی اُخروی ثواب سے اُن کے دامن بھرے ہوئے تھے۔ اُنہیں اِس سارے سفر میں تکلیف پہنچنا تو کیا معنیٰ کسی معمولی خراش نے چھوا بھی نہیں اور مزید مہربانی یہ ہوئی کہ یہ حضرات اِس سفر کے سارے حالات میں رضائے الٰہی کے تابع رہے کہ اُن کے ہر حال ، ہر جنبش سے ربّ تعالٰی راضی ہوا،اللہ تعالٰیبڑے ہی فضل و کرم والا ہے، اے جماعت صحابہ کی مقبول جماعت! یہ شیطان ہے جو تمہیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، یا مدینہ منورہ میں جو شیطان کے دوست یعنی منافقین ہیں اُنہیں ڈراتا ہے، تم اُ ن سے کیوں ڈرو؟ خیال رکھنا کہ اِن شیاطین اور اِن کے دوستوں سے کبھی نہ ڈرنا، ہمیشہ مجھ سے ہی ڈرنا، اگر تم سچے مسلمان ہو تو اِس نصیحت پر کار بند رہنا، ایمان کا تقاضا ہے کہ مؤمن کے دل میں اللہ تعالٰیکا خوف ہو ، غیروں کا خوف نہ ہو۔‘‘([42])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب بھی کوئی بڑی مصیبت آجائے تو یہ وظیفہ ’’حَسْبُنَااللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل‘‘پڑھ لیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ربّ تعالی کی مددونصرت اور اَمان حاصل ہوگی۔چنانچہ تفسیرروح المعانی میں ہے کہ حضرت سَیِّدُنَاابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’جب تم کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو تو یہ پڑھو:حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔‘‘ اُمُّ الْمُؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب بہت زیادہ غمگین ہوتے تو اپنے سراقدس اور داڑھی مبارک پر اپنا ہاتھ پھیرتے اور گہرا سانس لے کر فرماتے:”حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔“حضرت سَیِّدُنَاشَدَّاد بن اَوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشاد فرمایا: ”حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل ہر خوف زدہ کی امان ہے۔‘‘([43])
صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامفرماتے ہیں : ’’جو کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو اور وہ چار سو پچاس 450بار”حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل“ پڑھے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُسے اُس مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا ۔‘‘ بعض لوگ روزانہ اتنی بار پڑھتے ہیں ، مگر حق یہ ہے کہ ایک بار پڑھنا بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کافی ہوگا۔‘‘([44])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ ایک مُسَلَّمَہ حقیقت ہے کہ جو اَحکامِ خداوندی کی پابندی کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے پریشانیوں سے نجات عطا فرماتا ہے اور اُسے ایسے اَسباب مہیا فرماتا ہے کہ جن کے بارے میں وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں توکل ویقینِ کامل کی دولت سے مالامال فرمائے۔آمین
(1) جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ کرتا ہے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔
(2) انبیاء کرام عَلَیْھِمُ السَّلَام توکل کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوتے ہیں ۔
(3) مَصائب وآلام سے خلاصی کے لیے حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل بہترین وظیفہ ہے۔
(4) کامل ایمان والے کبھی بھی باطل قوتوں سے نہیں ڈرتے، اُن کے دلوں میں صرف اور صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف ہوتا ہے۔
(5) حق کے مقابلے میں باطل چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو آخر کاربَرباد و رُسوا ہوتا ہے، جیت ہمیشہ حق ہی کی ہوتی ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں یقینِ کامل جیسی عظیم دولت عطا فرمائے، ہماری تمام مشکلات اور مصیبتوں کو دور فرمائے، ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے، ایمان کی سلامتی عطا فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:77
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اَقْوَامٌ اَفْئِدَتُہُمْ مِثْلُ اَفْئِدَۃِ الطَّیْرِ. ([45])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’جنت میں کچھ ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوں کی مثل ہوں گے۔‘‘
حدیث مذکور میں اُن لوگوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جن کے دل پرندوں کے دلوں کی طرح نرم و کمزور ہوں گے، جس طرح رزق کے معاملے میں پرندے اپنے پروَردگار پر توکل کرتے ہیں ایسا ہی توکل ان لوگوں کا ہوگا ۔جس طرح پرندوں کے دلوں میں حسد ، بغض ،کینہ وغیرہ نہیں ہوتا اس طرح اُن نیک
بختوں کے دل بھی اِن صفاتِ مذمومہ سے پاک ہوں گے۔چنانچہ عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’مطلب یہ ہے کہ نرمی و کمزوری میں اُن کے دل پرندوں کی مثل ہوں گے جیساکہ ایک حدیث پاک میں ہے کہ اہلِ یمن کے دل نرم اور کمزور ہیں ۔ ایک توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ان لوگوں کے دل خوف اور ڈر میں پرندوں کے دلوں کی طرح ہیں کہ پرندے باقی تمام جانوروں کے مقابلے میں زیادہ خوفزدہ رہتے ہیں ۔(اسی طرح اُن لوگوں کے دلوں پر بھی خوفِ خدا کا غلبہ رہتا ہے اوروہ اُس کی ہیبت سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ۔)جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے: ) اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ-( (پ۲۲، فاطر: ۲۸) ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔‘‘([46])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’جنتیوں کو نرم و رحم دل اورمخلص ہونے اور حسد، کینہ، خیانت، بغض سے خالی ہونے میں پرندوں سے تشبیہ دی۔اور ایک قول یہ ہے کہ توکل میں تشبیہ دی جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں مروی ہے: اگر تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ایسا توکل کرو جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو وہ ضرور تمہیں رزق دے گا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو خالی پیٹ جاتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر آتے ہیں ۔‘‘([47])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’چڑیوں کے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے۔مالک سے مانوس ہوتے ہیں ،اَغنیا سے متنفر کہ غیر کو دیکھا اور بھا گے۔ دلوں میں ڈر بہت زیادہ، کینہ بغض اُن کے پاس نہیں ۔ جس اِنسان میں یہ صفات پیدا ہو جا ویں وہ تو فر شتہ بن جاوے ۔‘‘([48])
حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کابیان ہے کہ مجھ سے حضرت سَیِّدُنَاسلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا: ’’آؤ عہد کریں کہ ہم میں سے جس کا وصال پہلے ہوا وہ خواب میں آکر اپنا حال بتائے گا۔‘‘ میں نے کہا: ’’کیا ایسا ہوسکتاہے؟‘‘ فرمایا :’’ہاں ! مؤمن کی روح آزاد رہتی ہے ۔ روئے زمین میں جہاں چاہے جاسکتی ہے، اور کافر کی روح قید میں ہوتی ہے۔‘‘پھرحضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا وصال ہو گیا۔ حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں دو پہر کے وقت اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی،اچانک آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میرے سامنے آئے اوربلند آوازسے سلام کیا۔میں نے سلام کاجواب دیااورپوچھا: ’’وصال کے بعد آپ پر کیا گزری اورآپ کو کیا مرتبہ ملا؟‘‘ فرمایا: ’’میں بہت اچھی حالت میں ہوں اورآپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرنا کیونکہ توکل بہترین چیز ہے۔‘‘([49]) اور یہ تین بار ارشاد فرمایا۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صَدْقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔آمین
(1) ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے اُمَّتیوں کو کبھی جنت کی بشارت سناکر کبھی جہنم کے عذابات بتا کر آخرت کی تیاری اور اَعمالِ صالحہ کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔
(2) متوکلین اور نرم دل لوگوں کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔
(3) اللہ عَزَّ وَجَلَّاپنے نیک بندوں کو اتنی قوت عطا فرماتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی لوگوں کی رہنمائی کرتے اور آخرت کے اَحوال بتاتے ہیں ۔
(4) بعد ِوصال مؤمنوں کی اَرواح آزاد ہوتی ہیں جہاں چاہیں جا سکتی ہیں ۔
(5) باطنی اَمراض مثلاً حسد، بغض وکینہ وغیرہ سے پاک رہنے والے قلوب قابلِ تعریف ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں اَعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے،دونوں جہاں میں عافیت عطا فرمائے، ہماری بے حساب مغفرت فرمائے، جنت میں مصطفےٰ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پڑوس میں جگہ عطا فرمائے ۔آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:78
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اَنَّهُ غَزَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُمْ، فَاَدْرَكَتْهُمُ الْقَائِلَةُ فِي وَادٍكَثِيرِ الْعِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ ، وَنَز َلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَ ةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ وَنِمْنَا نَوْمَةً، فَاِذَارَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوْ نَا وَ اِذَا عِنْدَهُ اَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: اِنَّ هَذَا اِخْتَرَ طَ عَلَيَّ سَيْفِي وَاَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا، قَالَ:مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ فَقُلْتُ:اَللَّهُ ثَلَاثًا، وَلَمْ يُعَاقِبْهُ وَجَلَسَ.([50])
وَفِی رِوَایَۃٍ قَالَ جَابِرٌ :كُنَّامَعَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَاتِ الرِّقَاعِ، فَاِذَااَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيْلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِرَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَرَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ،وَسَيْفُ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلَّقٌ بِالشَّجَرَ ةِ فَاخْتَرَطَهُ فَقَالَ: تَخَافُنِي؟ قَالَ : لَا، قَالَ: فَمَنْ يَّمْنَعُكَ مِنِّي؟ قال:اَللَّهُ.([51])
وَفِی رِوَایَۃِ اَبِي بَكْر الاِسْمَاعِيْلِيِّ فِي صَحِيْحِهِ: قَالَ:مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: اَللَّهُ فَسَقَطَ السَّيْفُ مِنْ يَدِهِ، فَاَخَذَرَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّيْفَ فَقَالَ : مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ فَقَالَ:كُنْ خَيْرَ اٰخِذٍ، فَقَالَ:
تَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاَنِّي رَسُوْلُ الله؟ قَالَ: لَا، وَلٰكِنِّي اُعَاهِدُكَ اَنْ لَا اُقَاتِلَكَ وَلَا اَ كُوْنَ مَعَ قَوْمٍ يُقَاتِلُوْنَكَ فَخَلَّى سَبِيْلَهُ، فَاَ تَى اَصْحَابَهُ فَقَالَ:جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ.([52])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَاجابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ وہ حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کے لیے گئے۔جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واپس ہوئے تو وہ بھی دیگر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے ساتھ آپ کے ہمراہ تھے۔واپسی میں اُن حضرات کو دوپہر کا وقت ایسی وادی میں ہوا جہاں بکثرت کانٹے داردرخت تھے۔سرکارِ دوعالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قیام کے اِرادے سے وہاں ٹھہر گئے۔پس صحابۂ کرام درختوں کاسایہ لینے الگ الگ مقامات پر چلے گئے۔حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبھی ایک کانٹے دار درخت کے نیچے تشریف لائے اور اپنی تلواراُس پر لٹکا دی۔( راوی کہتے ہیں کہ ) ہم ابھی سوئے ہی تھے کہ اچانک آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ہمیں بلایا،ہم حاضر خدمت ہوئے تو آپ کے پاس ایک اعرابی تھا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:’’میں سو رہا تھا کہ اِس نے مجھ پرمیری تلوارتان لی۔میں بیدارہوا تو اِس کے ہاتھ میں ننگی تلوارتھی،اِس نے کہا:آپ کومجھ سے کون بچائے گا؟میں نےتین بار کہا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔‘‘پھرآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اُس سے کوئی بدلہ نہ لیا اوروہ بیٹھ گیا ۔
ایک روایت میں حضرتِ سَیِّدُنا جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یوں فرماتے ہیں کہ ہم ’’غزوۂ ذاتُ الرِّقاع‘‘ میں حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ہمراہ تھے۔ہم ایک سایہ دار درخت کے پاس پہنچے تو وہ ہم نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے لیے چھوڑ دیا۔مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی درخت پر لٹکی ہوئی تلواراُتار کرکہنے لگا:’’تم مجھ سے ڈرتے ہو؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’نہیں ۔‘‘اس نےکہا:’’تمہیں مجھ سے کون بچائےگا ؟‘‘فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔‘‘
ابوبکر اِسماعیلی کی جو رِوایت اُن کی صحیح میں ہےاُس روایت میں یوں ہے کہ اس نے کہا : ’’تمہیں مجھ
سے کون بچائے گا؟‘‘فرمایا :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔‘‘یہ سنتے ہی اُس کے ہاتھ سے تلوارگرگئی، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تلواراُٹھاکر فرمایا:’’اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ اس نے کہا:’’آپ بہترین پکڑ فرمانے والے ہو جائیے۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا :’’کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہاللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا رسول ہوں ؟‘‘ بولا: ’’نہیں ۔لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی آپ سے نہ لڑوں گا اور نہ آپ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔‘‘پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اُسے چھوڑ دیا ۔تو وہ اپنے ساتھیوں کے پاس چلاگیا اور کہا :’’میں ایسےشخص کے پا س سے آیا ہوں جو لوگوں میں سب سے بہتر ہیں ۔‘‘
میٹھے میٹھےاسلامی بھائیو! مذکورہ حدیث پاک شہنشاہ مدینہ قرار قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شجاعت وبہادری اور توکلِ خالص کی اعلیٰ ترین مثال ہے کہ طاقتور دشمن تلوار لیے سامنےہے اورتنِ تنہا ہونے کے باوجود نہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خوفزدہ ہوئے، نہ ہی آپ پر کچھ گھبراہٹ طاری ہوئی۔ آپ کو اپنے ربّ کریم پر کامل بھروسہ تھا کہ وہی حافظ وناصر ہے ۔ربّ تعالٰی فرماتا ہے:
وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ- (پ۶، المائدۃ:۶۷) ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے۔
پس آپ نے اپنامعاملہ ربّ قدیرکےسپر د کرتے ہوئےجیسے ہی اُس کا نام اَقدس لیاتواس مشرک پر ہیبت طاری ہوگئی، کانپنے لگا اور ڈر کے مارے تلوار ہاتھ سے گر گئی۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے وہ تلواراُٹھالی۔اب وہ مشرک بے بس ہو گیا۔ آپ چاہتے تو اُسے سزادیتےمگرآپ نےحِلم وبُردباری کامظاہرہ کرتے ہوئے ا ُسے کچھ نہ کہا، بلکہ اُسے چھوڑ دیا۔ سُبْحَانَ اللہ ہمارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیسے عظیم اَخلاق کے مالک تھے ۔ اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنت، مُجَدِّدِدِین وملت پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام اَحمدرضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنآپ کے اَخلاقِ کریمانہ یوں بیان فرماتے ہیں :
تِرے خُلْق کو حق نے عظیم کہا، تِری خِلْق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا، ترے خالقِ حسن و اَدا کی قسم
حدیث میں نجد کا تذکرہ ہے، اِس کے تحت مرآۃ المناجیح میں ہے:’’نجدکےلفظی معنی ہیں اونچی زمین۔اصطلاح میں عرب کے ایک مشہور صوبہ کا نام نجدہے۔ عرب کے پانچ صوبے ہیں ،حجاز،عراق، بحرین ،نجد، یمن۔چونکہ نجد کی زمین حجاز سے اونچی ہے، اِس لیے اِسے نجد کہتے ہیں ۔وسیع راستہ کو نجد کہا جاتا ہے۔نجدکا علاقہ تِہَامہ اور عراق کے درمیان ہے۔‘‘([53])نجد(موجودہ ریاض)کے بارے میں غیب دان نبی اَکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے غیب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا:’’ھُنَاکَ الزَّلازِلُ وَالْفِتَنُ، وَ بِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِیعنی نجد سے فتنے اٹھیں گے اور اُسں سے شیطان کا گروہ نکلے گا۔‘‘([54])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :’’(اعرابی نےکہا:آپ بہترین پکڑ فرمانے والے ہو جائیے۔)یعنی آپ مجھے اس حرکت کا بہترین بدلہ دیجئےکہ خطا میں نے کرلی ہے، عطا آپ کردو۔گناہ میں نے کرلیا، معافی آپ دےدیجئے،جس لائق میں تھا وہ میں نے کرلیا، جو آپ کی شان عالی کے لائق ہے وہ آپ کرو۔ پھل والے درخت کو پتھر مارتے ہیں تو وہ اُن پر پھل گراتا ہے۔( میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ نہ کبھی آپ سے لڑ وں گا اور نہ ہی آپ سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا)یعنی میں منافق نہیں ہوں کہ دل میں کفر رکھوں اور زبان سے کلمہ پڑھ دوں ، ہاں اتنا وعدہ ہے کہ کبھی آپ سے مقابل نہ آؤں گا، آپ کے سامنے میری آنکھ نہ اُٹھے گی۔(پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اسے چھوڑ دیا)یعنی اس سے فرمایا :جا! تجھے اجازت ہے، ہم تجھےمعافی دیتے ہیں ۔حضور (صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نےاسے اپنے دامنِ کرم میں بلایا تھا مگر وہ آیا نہیں ۔ شعر
کرکے تمہارے گناہ مانگیں تمہاری پناہ ……… تم کہو دامن میں آ تم پہ کروڑوں درود
اے میرے ربّ!جب تیرے بندے محمدمصطفےٰ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے رحم خسروانہ، عنایت شاہانہ کا یہ حال ہے تو مولی! تُو تو اُن کا ربّ ہے، اَرْحَمُ الرّاحِمِیْن ہے،تیرے کرم و عفو و سخا کا کیا پوچھنا، میرے مولیٰ! انہیں رؤف رحیم محبوب کا صدقہ ہم مجرموں سے در گزر فرما ،معافی دے دے ۔شعر
مَہْ فَشَانَدْ نُوْرسَگْ عُوْعُوْ کُنَدْ ……… ہَرْ کَے بَرْ طِیْنَتْ خُودْ مِیْ کُنَدْ
(یعنی )جب چاند چمکتا ہے تو کتا اس پر بھونکتا ہوا حملہ کرتا ہوااُچھلتا ہے توچانداُس کے کھلے ہوئے منہ میں نُور ڈال دیتا ہے۔حضورچاند ہیں ، اُس دشمن کو بھی اِیمان دے رہے ہیں ۔(اَعرابی اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا :میں بہترین اِنسان کے پاس سے آرہا ہوں )معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا بدن تو آزاد ہوگیا مگر د ل مقید ہو گیا۔ کیا تعجب ہے کہ بعد میں اُسے ایمان بھی نصیب ہوگیاہو۔وَاللہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ ([55])
زُرْقَانِیْ عَلَی الْمَواھِب میں ہے کہ ربیع الاول۳ ہجری میں حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کویہ خبر ملی کہ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے نجد کے مشہور بہادر’’دُعْثُوربن حارث مُحَارِبِی‘‘نے ایک بڑی فوج تیار کر لی ہے۔چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے 450 جاں نثار صحابۂ کرام رضوانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن کا لشکر لے کرنجد پہنچ گئے۔جب دُعثور کو معلوم ہوا کہمحمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ہمارے علاقے میں پہنچ چکے ہیں تو وہ اپنےساتھیوں کولے کرپہاڑوں کی جانب بھاگ گیامگر’’حبان‘‘ نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اُسےاِسلام کی دعوت دی تو وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔اُس دن شدیدبارش ہوئی تھی،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کانٹے دار درخت پر اپنے کپڑے سکھانے کے لیے پھیلادیئے اور وہیں آرام فرمانے لگے ۔پہاڑ پر موجود کفار آپ کو دیکھ رہے تھے انہوں نے
دُعثور سے کہا کہ محمد اکیلے ہیں ، یہ اچھاموقع ہے،جا کراُن پرحملہ کردو۔چنانچہ دُعثورجلدی سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آیا اورتلوار بلند کر کے کہا:’’اب تمہیں مجھ سے کون بچائےگا؟‘‘ سَیِّدُ الْمُتَوَکِّلِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ میری حفاظت فرمائے گا۔‘‘ اتنے میں جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام آئے اور دُعثور کے سینےپر ہاتھ ماراتو تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ رسول ﷲصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تلوار اُٹھاکر فرمایا:’’اب تجھےمجھ سے کون بچائے گا؟‘‘دُعثور نے کانپتے ہوئے کہا:’’کوئی نہیں ۔‘‘اور پھر وہ پکار اٹھا: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَ نَّکَ رَسُوْلُ اللہ ِیعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اورآپ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول ہیں ۔‘‘پھر وہ اِیمان کی دولت سے سرشار ہو کر اپنی قوم کے پاس تشریف لے گئے اوراُنہیں اِسلام کی دعو ت دی اور اُن کے ذریعے بہت سے لوگ دامن اِسلام سے وابستہ ہوئے۔‘‘([56])
محدثین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اس اعرابی کا نام کیا تھا،یہ واقعہ کس غزوہ میں پیش آیا، زمانہ نبوی میں یہ واقعہ ایک ہی مرتبہ پیش آیا یا ایک سے زیادہ مرتبہ؟ دُعثور اورغويرث دو علیحدہ شخص ہیں یایہ ایک ہی شخص کے دو نام ہیں ؟علامہ بَدْرُ الدِّیْن عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’اس اعرابی کانام غُوَ یْرَث بن حارثتھا ۔ خطیب نے اس کا نام غَوْرَکجبکہ علامہ خطابی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی نے اس کانام’’غُوَ یْرَث‘‘بتایا۔ابن اسحاق عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَّزَاقنے کہا کہ یہ واقعہ غزوۂ غَطْفَان میں پیش آیا۔ ایک قول کے مطابق غزوہ ذی اَمَرّ کاواقعہ ہے۔ ذِی اَمَرّ غطفان میں ایک جگہ کا نام ہے۔ جبکہ علامہ واقدی نے اسے غزوہ اَنمار قرار دیا۔اور ایک قول یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ ذات الرقاع میں پیش آیا۔([57])
شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفٰےاعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’بعض مؤرخین نے تلوار کھینچنے
والے واقعہ کوغَزْوَهٔ ذَاتُ الرِّ قَاعکے موقع پر بتایا ہے مگر حق یہ ہے کہ تاریخِ نبوی میں اس قسم کے دو واقعات ہوئے ہیں ۔غَزْوَهٔ غطفانکے موقع پر سر ِانور کے اوپر تلوار اٹھانے والا دُعْثُوْربن حَارِث مُحَارِبیتھاجو مسلمان ہو کر اپنی قوم کے اسلام کا باعث بنااور غزوہ ذات الرقاعمیں جس شخص نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر تلوار اٹھائی تھی اس کا نام غَوْرَث تھا۔اس نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ مرتے وقت تک اپنے کفر پر اَڑا رہا۔ہاں البتہ اس نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے کبھی جنگ نہیں کرےگا۔وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ([58])
(1) اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مدد طلب کرتے وقت تین مرتبہ ’’اللہ‘‘ کہنا مستحب ہے۔([59])
(2) جانی دشمن پر قابو پانے کے باوجود اسے معاف کر دینا حلم وبرد باری کی اعلیٰ ترین مثال ہے ۔
(3) اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر کامل بھروسہ کرنے والے کبھی مادی اشیاء سے خوفزدہ نہیں ہوتے ان کی نظر ہمیشہ اپنے ربِّ قدیر عَزَّ وَجَلَّ پر ہوتی ہے ۔
(4) انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مخلوق میں سب سے زیادہ بہادر ہوتے ہیں اور ان کے اندر قوت برداشت بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔
(5) ہمارےپیارے آقا، حضور نبی کریم رؤف ورحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنےدشمنوں سے انتقام لینے کے بجائے انہیں معاف فرما دیا کرتےاورآپ کے اس حُسنِ سلوک سے متاثر ہو کر آپ کے جانی دشمن بھی دامن اسلام سے وابستہ ہوکر آپ کے جانثار بن جاتے تھے۔
سُن سُن کے صحابہ کی باتیں جب لوگ مسلماں ہوتے تھے
پھر میرے رسول ِاکرم کی گفتار کا عالَم کیا ہوگا
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی توکل عطا فرمائے، عفوودرگزر کی دولت عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:79
عَنْ عُمَرَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: لَوْ أَنَّکُمْ تَتَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ، تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا. ([60])
ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ا گرتم اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ایسا توکل کرو جس طرح اُس پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں ضرور رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح بھوکے پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر واپس آتے ہیں ۔‘‘
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’ کوّے کا بچہ جب انڈے سے نکلتا ہے تو اس کا رنگ سفید ہوتا ہے،اس کے ماں باپ اسے ناپسند کرتے ہیں اور چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ چنانچہ وہ بچہ بھوکا رہتاہے۔مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی طرف مکھیوں اور چیونٹیوں کو بھیجتا ہےجنہیں کھاکر وہ تھوڑا بڑا ہوجاتا ہے اور رنگ بھی سیاہ ہوجاتا ہے۔ اس کے ماں باپ اس کے پاس واپس آتے ہیں تو اس کا کالارنگ دیکھ کر اس کی دیکھ بھال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ اس طرح بغیر کوشش کے اسے رزق ملتا رہتا ہے۔‘‘([61])
اللہ عَزَّ وَجَلَّنے حضرتِ سَیِّدُناعِزْرَائیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا: ’’روح قبض کرتے وقت تجھے کسی پر رحم بھی آیا؟‘‘عرض کی: ’’ہاں ! جب ایک کشتی غرق ہوئی تو اس کے کچھ مسافر ایک تختے کا سہارا لینے کی وجہ سے بچ گئے، ان میں ایک عورت بھی تھی جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی، مجھے اس کی روح قبض کرنے کا حکم ہوا تو مجھے اس کے بچے پر بہت رحم آیا۔‘‘اللہ عَزَّ وَجَلَّنے فرمایا: ’’میں نے اس بچے کو جزیرے پر ڈال دیااور اس کی طرف شیرنی بھیجی جو اسے دودھ پلاتی رہی یہاں تک کہ وہ بڑا ہوگیا ۔پھر جنوں نے اسے انسانوں کی بولی سکھائی، پھر وہ بادشاہ بنااورپھر وہ اپنی حقیقت کو بھلا کر خدا ہونے کا دعویٰ کربیٹھا ۔ اس کا نام شَدَّاد تھا۔‘‘یہ وا قعہ نقل کرنے کے بعد عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایسا رزاق ہے کہ اپنے دشمنوں کو بھی رزق دیتا ہے تو پھر اپنے محبوب بندوں کو کیسے چھوڑ سکتا ہے؟‘‘([62])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’ حق توکل یہ ہے کہ فاعل حقیقی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو ہی جانے۔ بعض نے فرمایا کہ کسب کرنا (اور) نتیجہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر چھوڑنا حق توکل ہے۔ جسم کو کام میں لگائے، دل کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے وابستہ رکھے۔ تجربہ بھی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرنے والے بھوکے نہیں مرتے ۔کسی نے کیا خوب کہا ۔ شعر
رزق نہ رکھیں ساتھ میں پنچھی اور درویش
جن کا ربّ پر آسرا اُن کو رزق ہمیش
خیال رہے کہ پرندے تلاش رزق کے لیے آشیانہ سے باہر ضرور جاتے ہیں ہاں درختوں میں چلنے کی طاقت نہیں تو انہیں وہاں ہی کھڑے کھڑے کھاد پانی پہنچتا ہے ۔‘‘([63])
حضرتِ سَیِّدُنا ابراہیم بن ادھم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْاَکْرَم کی توبہ کاایک سبب یہ واقعہ بنا کہ ایک دن آپ شکار کے لیے گئے ۔پھر جب کھانا کھانے لگے تو ایک کوّا آیا اورروٹی کا ایک ٹکڑا اٹھا کر تیزی سے ایک جانب اڑگیا۔ آپ کوبہت تعجب ہوا۔چنانچہ گھوڑے پر سوار ہو کر اس کا تعاقب کرنے لگے۔کَوّا کچھ دور ایک پہاڑ پر جاکر نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔آپ بھی پہاڑ پر چڑھے تو کوا وہاں موجود تھا اور قریب ہی ایک شخص پڑا تھا جس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔آپ نے جلدی سے اسے کھول دیا اور ماجرا دریافت کیا۔ اس نے بتا یا کہ میں ایک تاجر ہوں ، ڈاکوؤں نے میرا سارا مال چھین لیا اور میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر یہاں ڈال دیا میں اسی حالت میں سات دن سے یہاں موجود ہوں ۔ یہ کَوَّا روزانہ میرے پاس روٹی لے کر آتا ہے پھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے میرے منہ میں ڈال دیتا ہے ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میرے رزق کا ایسا انتظام فرمایاہے کہ میں ایک دن بھی بھوکا نہیں رہا۔‘‘اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی یہ شان رزّاقی دیکھ کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے صِدْقِ دل سے توبہ کی، غلاموں کو آزاد کردیا، اپنی تمام دولت وجائیدادوقف کردی اور شا ہانہ لباس اتار کر اُونی کپڑے پہن لیے۔ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کر کے بِلا زَادِ راہ پیدل ہی حج کے لیے چل دئیے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کی بدولت دوران سفر آپ کوبھوک و پیاس کا بالکل بھی احساس نہ ہوا یہاں تک کہ آپ بیت اللہ شریف پہنچ گئے۔ آپ نے اس کرم پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بہت شکر ادا کیا۔([64]) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صَدْقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔آمین
حضرت سَیِّدُنَاحَاتِم اَصَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمنے فرمایا :’’توکل چار طرح کا ہوتا ہے: (۱)مخلوق پر توکل (۲)مال پر توکل (۳) نفس پر توکل (۴) اپنے ربّ پرتوکل۔مخلوق پرتوکل کرنے والا کہتا ہے :فلاں کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی غم نہیں پہنچ سکتا ۔اورمال پر توکل کرنے والا کہتا ہے:جب تک میرے پاس کثیر مال
ہے مجھے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔اور نفس پر توکل کرنے والا کہتا ہے:جب تک میرا جسم سلامت ہے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہو سکتی۔ یہ تینوں اقسام جاہلوں کا توکل ہے۔ اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرنے والا کہتا ہے کہ :میں مالدار ہوں یا فقیر ،مجھے کوئی پرواہ نہیں کیونکہ میرا ربّ میرے ساتھ ہے، وہ جیسے چاہے گا مجھے سنبھالے گا ۔([65])(یہ حقیقی توکل ہے۔)
(1) جو رزق مُقَدَّر میں ہے وہ ضرور ملتا ہے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ جیسے چاہتا ہے اپنی مخلوق تک رزق پہنچاتا ہے۔
(2) رزق کے لیے تگ و دو ضرور کرنی چاہیے، حصولِ رزق کی کوشش ہرگز توکل کے خلاف نہیں ۔
(3) بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو عبرت آموز معاملات سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں ۔
(4) مال ودولت اورطاقت وقوت پر بھروسہ کرنا جاہلوں کا طریقہ ہے ۔ تو کل کا حق یہ ہے کہ صرف خدائے بزرگ وبرتر کی ذات پر بھروسہ کیا جائے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کامل توکل کی دولت سے مالا مال فرمائے ۔دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی سے سرفراز فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:80
سوتے وقت پڑھے جانے والے بابرکت کلمات
عَنْ اَبِیْ عُمَارَۃَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،یَا
فُلَانُ! إِذَا أَوَیْتَ إِلَی فِرَاشِکَ فَقُلْ: اَللّٰہُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِیْ إِلَیْکَ،وَوَجَّہْتُ وَجْہِیْ إِلَیْکَ،وَفَوَّضْتُ أَمْرِیْ إِلَیْکَ، وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِیْ إِلَیْکَ،رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ،لَامَلْجَأَ وَلَامَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ،آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ أَرْسَلْتَ، فَإِنَّکَ إِنْ مِتَّ مِنْ لَیْلَتِکَ مِتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ،وَإِنْ أَصْبَحْتَ أَصَبْتَ خَیْرًا. ([66])
وَفِیْ رِوَایَۃٍ فِی الصَّحِیْحَیْنِ عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: قَالَ لِیْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم: اِذَااَتَیْتَ مَضْجَعَکَ فَتَوَضَّاَ وُضُوْ ءَکَ لِلصَّلاَۃِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلٰی شِقِّکَ الاَیْمَنِ وَقُلْ:وَذَکَرَنَحْوَہُ، ثُمَّ قَالَ: وَاجْعَلْہُنَّ آخِرَمَا تَقُوْلُ.([67])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَاابو عُمارہ براء بن عازب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عنہماسے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’اے فلاں !جب تو اپنے بستر پرجائے تو یہ کلمات کہہ لیا کر:’’اَللّٰھُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِیْ إِلَیْکَ،وَوَجَّھْتُ وَجْھِیْ إِلَیْکَ،وَفَوَّضْتُ أَمْرِیْ إِلَیْکَ، وَأَ لْجَأْتُ ظَھْرِیْ إِلَیْکَ، رَغْبَۃً وَرَھْبَۃً إِلَیْکَ،لَامَلْجَأَ وَلَامَنْجَا مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ،آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ، وَ بِنَبِیِّکَ الَّذِیْ أَرْسَلْتَیعنی یااللہ! میں نے اپنا آپ تیرے حوالے کیا اورمیں تیری طرف متوجہ ہوا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کیااورتیری رحمت کا سہارا لیا،تیری طرف رغبت کرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے ، پناہ گاہ اور موضعِ نجات صرف تیری ہی طرف ہے۔میں تیری نازل کردہ کتاب اور تیرے بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لایا۔‘‘(آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے فرمایا:)’’اگر تو اِسی رات فوت ہوگیاتو اسلام پرفوت ہوگا اور اگر صبح پائے گا توبہت بھلائی حاصل کرے گا۔‘‘
صحیحین کی ایک روایت میں حضرت سَیِّدُنَا براء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مجھ سے ارشادفرمایا: ’’جب بستر پر جاؤ تو نمازکا سا وضو کرو، پھر اپنے سیدھے پہلو پر لیٹ جاؤ اور یہ کلمات کہو۔‘‘اس کے بعد پہلی حدیث جیسے کلمات بیان کیے اور پھر فرمایاکہ ’’انہیں اپنے آخری کلمات بناؤ ۔‘‘(یعنی ان کلمات کے بعد کوئی اور بات نہ کرو۔)
دلیل الفالحین میں عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’ میں نے اپنا آپ تیرے حوالے کیا۔یعنی میں نے تیرا حکم مانتے ہوئے تیری رضا پر راضی رہتے ہوئے تیری قدرت پر قناعت کرتے ہوئے خود کوتیرا فرمانبردار بنایا۔ اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا یعنی تجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے دُنیوی اُخروی تمام اُمور تیرے سپرد کیے اور اپنے نفس کو تیری طرف رجوع کرنے والا بنایا۔‘‘([68])
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں :’’میں نے تیری رحمت کا سہارا لیا۔یعنی میں نے تجھ پر توکل کیا اور اپنے معاملات میں تجھ پر بھروسہ کیا جیسے انسان اپنی کمر کے ساتھ کسی چیز سے ٹیک لگاتاہے۔رَغْبَۃًیعنی تیرے ثواب میں رغبت کرتے ہوئے۔ رَھْبَۃًیعنی تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے۔‘‘([69])
علامہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’اس حدیث میں تین اہم سنن مستحبہ بیان ہوئی ہیں :(۱) سونے سے قبل وضوکرنا۔اگر پہلے سے وضو ہے تو وہی کافی ہے کیونکہ مقصود طہارت کی حالت میں سونا ہے۔تاکہ اپنے خوابوں میں سچا ہو اورنیند کی حالت میں شیطان کے شر سے محفوظ رہے اور اگر اس رات موت آئے تو اچھی حالت میں آئے۔(۲) دائیں پہلو پر سونا کیونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس طرح سونے کوپسند فرماتے تھے اور اس طرح سونے والے کے لیے جاگنا آسان ہوتا ہے۔ (۳) سونے سے پہلے ذِکرُ اللہ کرناتاکہ ذِکراللہ ہی آخری عمل ہو۔‘‘([70])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان الفاظِ حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’(حدیثِ مذکورمیں )نفس سے مراد ذات یا جان ہے اور وَجْہٌ سے مراد
چہرہ یا توجہّ یا دل کا رُ خ یا ان دونوں جملوں میں اپنے ظاہر و باطن کی طرف اشارہ ہے یعنی الٰہی !میر ا باطن بھی تیرا مُطِیْع ہے کہ اس میں ریا (شرک) سرکشی نہیں اور میرا ظاہر بھی تیرا فرمانبردار کہ میرا کوئی عضو باغی نہیں ، غرضیکہ میرا اپنا کچھ نہیں ،سب کچھ تیرا ہے۔ سوتے وقت یہ کلمات اس لیے عرض کیے تاکہ معلوم ہو کہ میرا سونا بھی تیرے حکم کے ماتحت ہے۔(تیری طرف رغبت کرتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے) لہٰذا مجھے اندرونی و بیرونی آفات سے بچالے اور میری مَعاش و مَعاد اچھی کر دے۔ چونکہ بیداری میں انسان کچھ ذمہ دار ہوتا ہے اور بااِختیار، مگر سوجانے پر سب کچھ کھو بیٹھتا ہے۔ اسی لیے اس موقعہ پر یہ دعا بہت ہی موزوں ہے۔ نیز سوتے وقت یہ خبر نہیں ہوتی کہ اب سویرے کو اٹھوں گا یا قیامت میں ، اس لیے یہ کہہ کر سونا بہتر ہے کہ خدایا !اب سب کچھ تیرے سپرد۔(پناہ گاہ اور موضعِ نجات صرف تیری ہی طرف ہے)یعنی تیرے غضب سے پناہ صرف تیری رحمت کے دامن میں ہی مل سکتی ہے اور تیری پکڑ سے رہائی صرف توہی دے سکتا ہے۔تیرے غضب کی آگ کو صرف تیری رحمت ہی کا پانی بجھاسکتا ہے، اگر تو عدل کرے تو اُونچے اُونچے کانپ جائیں اگر فضل فرمائے تو گنہگاروں کی بھی امید بندھ جائے۔اس حدیث میں وعدہ فرمایا گیا کہ سوتے وقت (یہ کلمات)پڑھنے والا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایمان پر مرے گا، اسلام و تقویٰ پر جیئے گا، بڑی ہی مجرب دعا ہے۔ فقیر بِفَضْلِہِ تَعَالٰی اس پر عامل ہے۔‘‘([71])
(1) باوضو سونے والا شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔
(2) نیک لوگ ہرمعاملے میں شریعت کی پیروی کرتے ہیں حتی کہ سوتے وقت بھی سنن ومستحبات کی
ادائیگی کا خیال کرتے ہیں ۔
(3) اللہ عَزَّ وَجَلَّکے غضب سے صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت ہی بچاسکتی ہےاس لیے اس کی رحمت کا سوال کرنا چاہیے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں ہر آن اپنی رحمت کے سائے میں رکھے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے ۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:81
حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عَظِیم تَوَکُّل
عَنْ اَبِیْ بَکْرِنِ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَامِرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ کَعْبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ تَیْمِ بْنِ مُرَّۃَ بْنِ کَعْبِ بْنِ لُؤَیِّ بْنِ غَالِبِ القُرَشِیِّ الْتَیْمِیّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ وَاَبُوْہُ وَاُمُّہُ صَحَابَۃ ٌرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ قَالَ: نَظَرْتُ إِلٰی اَقْدَامِ الْمُشْرِکِیْنَ وَنَحْنُ فِیْ الغَاِروَہُمْ عَلٰی رُءُوْسِنَا فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہ!لَوْاَنَّ أَحَدَہُمْ نَظَرَ تَحَتَ قَدَمَیْہِ لَاَبْصَرَنَا، فَقَالَ: مَاظَنُّکَ یَا أبَا بَکْرٍبِاِثْنَیْنِ، اَللّٰہُ ثَالِثُہُمَا؟([72])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا ابو بکر صدیق عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تَیم بن مُرّہ بن کَعْب بن لُؤَیِّ بن غالب قرشی تیمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ ،آپ کے والداور والدہ کو بھی شرف صحابیت حا صل ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :’’(کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے موقع پر )جب ہم غار میں تھے تو میں نے مشرکین کے قدموں کو دیکھا وہ ہمارے سروں پر پہنچ گئے۔میں نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف نظر کی تووہ ہمیں دیکھ لے گا۔ ‘‘آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’اے ابو بکر! تیرا اُن دو کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جن کے ساتھ تیسرا ”اللہ عَزَّ وَجَلَّ “ہے؟‘‘
علامہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :”ثَالِثُھُمَایعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے تیسرے ہونے“ کا مطلب ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ ہے اوروہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حفاظت میں ہیں ۔اور یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اس فرمان عالیشان کے تحت داخل ہے، جس میں ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۠(۱۲۸) (پ۱۴، النحل:۱۲۸)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: بے شک اللہ اُن کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں ۔
اس حدیث میں حضور سَیِّدُالْمُتَوَکِّلِیْن،رَحْمَۃٌ الِّلْعَالَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اللہ عَزَّوَجَلَّپر عظیم توکل کا بیان ہے۔(کہ دشمن کے اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی نہ گھبرائے ۔) اسی طرح اس میں صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی فضیلت کا بھی بیان ہے کہ انہوں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنا مال ،اہل وعیال اور اپنے وطن کو چھوڑدیااور حضور کی حفاظت کے لیے اپنی جان داؤ پر لگادی۔‘‘([73])
سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ!اتنے کٹھن ونازک وقت میں بھی حضور نبی مکرم نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ پر کامل بھروسہ کیااور کفارکی طرف سےبالکل بھی نہ گھبرائے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے پیارے نبی کی زبر دست مدد فرمائی اور کفارمکہ کوآپ نظر ہی نہ آئے۔ چنانچہ منقول ہے کہ ان کافروں کے بارے میں حضور سیدعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا فرمائی:’’اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! انہیں اندھا کردے۔‘‘پس کفارِ مکہ غار کے ارد گرد پھر تے رہے لیکن انہیں غار میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور سَیِّدُنَاصدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی موجودگی کا علم نہ ہوسکا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے انہیں اندھا کردیا تھا۔([74])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : ’’جب ہجرت کی شب حضور انور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کو لے کر صدیق اکبر (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ )غار ثور میں بیٹھے، تب مشرکین عرب اس غار کے دروازے پر پہنچ گئے، تب آپ نے نہایت خوف کی حالت میں یہ کہا۔ جناب صدیق اکبر کو اس وقت اپنی جان کا خوف نہیں تھا اپنی جان تو آپ پہلے ہی فدا کرچکے تھے کہ اکیلے اندھیرے غار میں گھس گئے، سانپ سے کٹوا لیا، خوف حضور انور کی تکلیف کا تھا، یہ خوف بہترین عبادت تھا جس پر ساری عبادات قربان ہو ں ۔ حضرت صدیق اکبر اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یہ گفتگو ربّ تعا لیٰ کو ایسی پسند آئی کہ اسے قرآن کریم میں بایں الفاظ نقل فرمایا:
اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ- (پ۱۰، التوبۃ: ۴۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سےفرماتے تھے غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔([75])
حضرت سَیِّدُنا ابو عبداللہ قرشی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسے توکل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’ہر حال میں اللہ عَزَّ وَجَلَّسے تعلق قائم رکھنا۔‘‘ سائل نے عرض کی: ’’مزید کچھ فرمائیے۔‘‘ فرمایا:’’ہر اس سبب کو چھوڑدینا جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ تک پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔‘‘([76])
(1) اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ کرنے والا ہمیشہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حفاظت میں رہتا ہے۔
(2) انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام پر چاہے کیسا ہی کٹھن وقت آجائے وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوتے۔انہیں اپنے ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی ذات پر کامل بھروسہ ہوتا ہے۔
(3) صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی حضور نبی اکرم نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت کا یہ عالَم تھا کہ وہ آپ پر اپنی جانیں نچھاور کرتے ،آپ کے آرام کی خاطربڑی بڑی تکالیف خوش دلی سے برداشت کر لیا کرتے تھے ۔
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
(4) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندے ہر اس سبب کو چھوڑ دیتے ہیں جو اس پر توکل کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔
(5) جب دشمن کا خوف ہو تو اس وقت ذکر ِ الٰہی کرنے سے گھبراہٹ دُور ہوجاتی ہے اور دل کوسکون و قرار نصیب ہوتا ہے۔
(6) اشیاء میں تاثیر اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حکم ہی کی وجہ سے ہے۔ وہ جیسے چاہتا ہے اُن میں تصرف فرماتا ہے۔ یہ اُس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ آنکھ کو ایک شے نظر آئے اور اس کے برابر دوسری شے نظر نہ آئے۔جیسا کہ ہجرتِ مدینہ کے موقع پر ہوا کہ کفارِ مکہ کو اور توسب چیزیں نظر آرہی تھی لیکن اپنے قریب موجود رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور سَیِّدُنَاصدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بالکل نظر نہ آئے ۔ سچ ہے کہ :
آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی حقیقی توکل کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:82
عَنْ اُمِّ الْمُوْمِنِیْنَ اُمِّ سَلَمَۃَ،وَاسْمُہَاہِنْدُبِنْتُ اَبِیْ اُمَیَّۃَ حُذَیْفَۃَ الْمَخْزُوْمِیَّۃُ،رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَااَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ اِذَاخَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ قَالَ:بِسْمِ اللّٰہِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ،اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَضِلَّ اَوْاُضَلَّ،اَوْاَزِلَّ اَوْاُزَلَّ، اَوْاَظْلِمَ اَوْ اُظْلَمَ اَوْاَجْہَلَ اَوْیُجْہَلَ عَلَیَّ. ([77])
ترجمہ :اُمّ المومنین حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہَ رضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا جن کانام ہند بنت ابو امیہ حذیفہ مخزومیہ ہے۔ان سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تویہ کلمات پڑھا کرتے :’’بِسْمِ اللہِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ،اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَضِلَّ اَوْاُضَلَّ،اَوْاَزِلَّ اَوْ اُزَلَّ، اَوْاَظْلِمَ اَوْ اُظْلَمَ اَوْاَجْھَلَ اَوْیُجْھَلَ عَلَیَّیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نام سے ( نکلا )، میں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ کیا۔ اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں گمراہ ہونے یا گمراہ کیے جانے ، پھسل جانے یا پھسلائے جانے ، ظلم کرنے یا ظلم کیے جانے،جاہل بننے یا جاہل بنائے جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘
اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد بِنْ عَبْدُاللّٰہ طِیْبِیْ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’جب انسان اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکلتاہے تو لوگو ں سے میل جول ایک لازمی امر ہے۔ اس وقت اندیشہ ہے کہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے، کسی دینی معاملے میں بھٹکا توخود گمراہ ہوگا یا کسی اور کو گمراہ کرے گا اور اگر دُنیوی معاملات میں بھٹکا تو یہ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کربیٹھے گا یا کوئی اس پر ظلم وزیادتی کرے گا، اسی طرح خود کسی سے جاہلانہ برتاؤ کرےگا یا پھراس سے جاہلانہ برتا ؤ کیا جائے گا تو ان تمام صورتوں سے بچنے کے لیے آسان اور مختصر الفاظ میں پناہ مانگی گئی ہے۔‘‘([78])
مرآۃ المناجیح میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ بِلا ارادہ گناہ ہوجانا ”زَلَّت یعنی پھسل جانا“ہے اور اِرادتاً گناہ کرناضلالت، یا گناہِ صغیرہ زَلَّت ہے، گناہ کبیرہ ضلالت،یاعملی غلطی زَلَّت ہے اور اقتصادی غلطی ضلالت۔ چونکہ گھر سے باہر نکل کر ہر قسم کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے، اچھوں سے بھی اور بُروں سے بھی۔ اس لیے اس موقعہ پر یہ دعا بہت مناسب ہے۔ یعنی :یا اللہ گناہوں ،بدعقیدگیوں سے تو ہی مجھے بچانا۔ اب ہرطرح کے لوگوں سے مجھے ملنا ہے۔ خیال رہے کہ یہ دعائیں تعلیم اُمَّت کے لیے ہیں ۔حقوق العباد مارنا ظلم ہے اور حقوق اللہ ضائع کرنا جہالت۔ یعنی خدایا نہ تو میں کسی کا حق ماروں ، نہ کوئی میرا حق مارے اور نہ میں تیرے حقوق میں کوتاہی کروں ، نہ کوئی مجھ سے کوتاہی کرائے۔ سلامتی دین اسی میں ہے کہ انسان نہ ظالم ہو نہ مظلوم نہ جاہل ہو نہ مجہول۔‘‘([79])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) گھر سے نکلتے وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعا ضرور کرنی چاہیے تاکہ بندہ نقصان سے محفوظ رہے ۔
(2) نیک لوگ اپنا ہر معاملہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے سپرد کر دیتے ہیں کسی بھی معاملے میں اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کرتے بلکہ رحمت الٰہی کے طلبگار رہتے ہیں ۔
(3) ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی اُمَّت کی ہرہرمعاملے میں رہنمائی فرمائی ہے حتی کہ گھر سے نکلتے وقت ممکنہ گناہوں سے بچنے کی دعا بھی ارشاد فرمادی۔
(4) ا ِنسان فطرتاًکمزور واقع ہوا ہے جبکہ اس کا سب سے بڑا دشمن شیطان انتہائی فریبی ومکّار۔ وہ ہر وقت انسان کو بہکانے میں مصروف رہتاہے۔بالخصوص لوگوں سے میل جول کے وقت ممنوعات کے اِرتکاب کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ لہٰذا ہردم ربّ سے اس کا فضل وکرم مانگنا چاہیے کیونکہ اسی کی بدولت شیطان کے مکر وفریب سے بچا جا سکتا ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ذات پر توکل کرنے، گمراہ ہونے یا گمراہ کیے جانے ، پھسل جانے یا پھسلائے جانے ، ظلم کرنے یا ظلم کیے جانے،جاہل بننے یا جاہل بنائے جانےسے محفوظ فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:83
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ قَالَ یَعْنِیْ إِذَاخَرَجَ مِنْ بَیْتِہٖ: بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ،لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ، یُقَالُ لَہُ: ہُدِیْتَ وَکُفِیتَ وَوُقِیتَ، وَتَنَحَّی عَنْہُ الشَّیْطَانُ.([80]) زَادَ اَبُودَاود: فَیَقُوْلُ (یَعْنِی الشَّیْطَانَ) لِشَیْطَانٍ آخَرَکَیْفَ لَکَ بِرَجُلٍ قَدْ ہُدِیَ وکُفِیَ وَوُقِیَ؟“([81])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَاانس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اکرم شفیع معظمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص( گھر سے نکلتے وقت) یہ پڑھ لے: ”بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَإِلَّابِاللّٰہیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نام سے (باہر جاتا ہوں ) میں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّپر بھروسہ کیا نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی توفیق اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی عطا سے ہے۔‘‘ تو اس پڑھنے والے سے کہا جاتا ہے کہ تجھے ہدایت دی گئی، تیری کفایت کی گئی اور تجھے بچالیا گیا، نیز اس سے شیطان دور ہوجاتا ہے ۔‘‘ابوداؤد نے یہ
اضافہ کیا ہے کہ( جب کوئی یہ دعا پڑھ لیتا ہے تو)شیطان دوسرے شیطان سے کہتا ہے کہ’’تو اسے کیسے گمراہ کرسکتا ہے جسے ہدایت دی گئی جس کی کفایت کی گئی اور جسے بچا لیا گیا۔‘‘
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں کہ جب بندہ گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھتا ہے تو ایک فرشتہ کہتا ہے: ’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بندے! تجھے سیدھی راہ کی ہدایت دی گئی ، معاملات میں تیری کفایت کی گئی اور دشمنوں سے تیری حفاظت کی گئی۔‘‘ علامہ طیبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’جب وہ بِسْمِ اللہ کہتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نام کی برکت سے اسے ہدایت دی جاتی ہے، جب ” تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ“کہتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کی برکت سے تمام معاملات میں اس کی کفایت کی جاتی ہے اور”لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ“ کی برکت سے اسے دشمنوں سے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ یہ بہت پیاری دعا ہے۔‘‘([82])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں :’’گھر سے مراد رہنے کی جگہ ہے خواہ یہی گھر ہو جس میں بال بچوں کے ساتھ رہتے ہیں یا مسجد کا حجرہ، خانقاہ وغیرہ جہاں صوفیاء، طلباء اور مَشائخ رہتے ہیں ۔ غرضکہ ہر شخص اپنے ٹھکانے سے نکلتے وقت یہ پڑھ لیا کرے(مذکورہ دعا کا مطلب یہ ہے کہ ) اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نام سے نکلتا ہوں اور اپنے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سپرد کرتا ہوں ، میں کمزور ہوں ، وہ قوی ہے، اس کے بغیر نہ کسی میں طاقت ہے نہ قوت(لاحَوْلَ ولاقُوّۃ) گناہ سے بچنے کی طاقت حَوْل ہے، نیکی کرنے کی طاقت قُوَّت ہے، دنیا کے جنجال سے بچنے کی طاقت حَوْل ہے، ربِّ ذُوالجلال تک پہنچنے کی طاقت قُوَّتہے،اچھے کام کرنے کی طاقت حَوْل ہے ا ور مقبول کام کرنے کی طاقت قُوَّت۔ خیال رہے کہ اگرچہ ہم فرشتے کا یہ کلام سنتے نہیں مگر جب حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معرفت ہم تک یہ کلام پہنچ گیا تو اس کا کہنا عبث نہ ہوا، لہٰذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ جب ہم اُس
فرشتے کا یہ کلام سنتے نہیں تو اس کا کہنا بے کار ہے، نیز فرشتے کے اس کلام کا عملی طور پر ظہور بھی ہوجاتا ہے کہ اس بندے کو یہ تینوں نعمتیں مل جاتی ہیں ۔(شیطان دوسرے شیطان سے کہتا ہے) یعنی فرشتے کے اس کہہ دینے پر اس کا قرین شیطان جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اس سے بھاگ جاتا ہے۔ پھر جب شام شیاطین کا سردار ابلیس اس سے دن بھر کی کارکردگی کا امتحان لیتا ہے تو یہ قرین اس بندے کی دعا کا ذکر کرکے افسوس کرتا ہے کہ میں آج اسے بہکا نہ سکا، تب ابلیس اس کی تسلی کے لیے یہ کہتا ہے کہ تجھ پر کوئی میرا عتاب نہیں ، تو معذور تھا، وہ بندہ فرشتے کی امن میں آچکا تھا۔‘‘([83])
اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے: (۱) ایک یہ کہ فرشتے کی امان میں آجانا، امن و امان کا ذریعہ ہے، پھر جو حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امان میں آجائے اس کا کیا کہنا ۔(۲)دوسرے یہ کہ ابلیس فرشتوں اور ان کی امان و حفاظت کو دیکھتا ہے بدر میں ابلیس نے امدادی فرشتوں کو دیکھا تھا اور کہا تھا: اِنِّی اَرٰی مَالا تَرَوْنَ (یعنی جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہا) (۳)تیسرے یہ کہ حضورِاَنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے کوئی ناری اور نوری مخلوق چھپی ہوئی نہیں ۔حضور عَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں ، شیاطین کو ملاحظہ بھی فرماتے ہیں اور اُن کے کلام بھی سنتے ہیں پھر ہم خاکی مخلوق حضور عَلَیْہِ السَّلَامسے کیسے چھپ سکتے ہیں ؟‘‘([84])
سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر
ملکوت ومُلک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عِیاں نہیں
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) جو گھر سے نکلتے وقت مذکورہ دعا پڑھ لے، اس کے سب کام سنورجاتے ہیں ، شیطانی لشکروں سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اسے راہ ِحق کی ہدایت ملتی ہے۔
(2) دعا کے معاملے میں کبھی غفلت نہیں کرنی چاہیے کہ دعا شیطان کے خلاف بہترین ہتھیار ہے۔
(3) اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ کرنے والے ظاہری وباطنی دشمنوں سے محفوظ رہتے ہیں ، رحمتِ الٰہی ہر معاملے میں ان کی دستگیری کرتی ہے۔
(4) جس نیک و جائز کام کی ابتدا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مبارک نام سے کی جائے وہ کام بالخیر انجام پاتا ہے۔
(5) ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرشتوں کی آوازسنتے اورپہچانتے ہیں جبھی تو بتا دیا کہ مذکورہ دعا پڑھنے والوں کو فرشتے کیا جواب دیتے ہیں ۔
دُور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں گھر سے باہرنکلتے وقت اس کی دعا پڑھنے اور اپنے ربّ تعالی پر حقیقی معنی میں توکل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:84
طالبِ عِلْم کی بَرَکَت سے رِزق
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: کَانَ اَخَوَانِ عَلَی عَہْدِ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ اَحَدُہُمَا یَأْتِی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالْاٰخَرُ یَحْتَرِفُ، فَشَکَا الْمُحْتَرِفُ اَخَاہُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:
لَعَلَّکَ تُرْزَقُ بِہ.([85])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَاانس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانۂ اقدس میں دو بھائی تھے، ایک بارگاہ نبوی میں حاضر رہتا اور دوسرا کام کاج کرتا تھا ، کام کرنے والے نے حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے اپنے بھائی ( کے کام نہ کرنے ) کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’شاید تجھے اس کی برکت سے ہی رزق دیا جا رہا ہو ۔‘‘
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں : ’’ان دو بھائیوں میں سے ایک حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس علم و حکمت کی باتیں سیکھنے آتا اور دوسرا کام کاج کرتا تھا اور ان کا کھانا پینا ایک ساتھ تھا ۔کام کرنے والے نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں اپنے بھائی کی شکایت کی کہ نہ یہ خود کماتا ہے، نہ میرے ساتھ کام کرتا ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا :میرا گمان ہے کہ تیری کمائی سے اسے رزق نہیں مل رہا بلکہ تجھے اس کی وجہ سے رزق مل رہا ہے۔ لہٰذاتو اس پر اپنی کمائی کا احسان مت جتا۔‘‘([86])
’’لَعَلَّکَ تُرْزَقُ بِہِشاید تجھے اس کی برکت سے ہی رزق دیا جا رہا ہو۔‘‘ دلیل الفالحین میں ہے: ’’سرکار دو عالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس کے بھائی کے طلب معاش نہ کرنے اور اس کے اکیلے کمانے پر اسے تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اپنے بھائی کی وجہ سے تمہارا طلبِ معاش کے لیے نکلنا تمہارے رزق کی آسانی کا سبب ہو کیونکہ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی مدد فرماتا رہتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے:”تمہیں تمہارے کمزوروں کے سبب رزق ملتا ہے۔“
حدیثِ مذکور میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ جو شخص لوگوں سے امیدیں منقطع کر کے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف متوجہ ہوجاتا اوراپنی تدابیر چھوڑ کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ ایک حدیثِ پاک میں ہے کہ:’’طالبِ علم کا رزق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمہ کرم پر ہے۔‘‘ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ طالب علم کی ضروریات و حاجات آسانی سے پوری فرمادیتا ہے اور اس کی رحمت طالبِ علم کے سرپرست کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور سب کاموں میں اس کی کفایت کی جاتی ہے۔‘‘ ([87])
مُحَقِّقْ عَلَی الْاِطْلَاق شَیْخ عَبْدُ الْحَقّ مُحَدِّث دِہْلَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’اس شخص نے حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں اپنے بھائی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے سارا بوجھ مجھ پر ڈال دیا ہے اسے میری مدد کرنی چاہیے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس شخص کو بھائی کی کفالت کرنے پر صبر و ہمت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کچھ توکماکراپنے بھائی پر خرچ کرتا ہے یہ سب رزق تجھے اسی کی برکت سے دیا جاتا ہے۔حدیث مذکور اس بات پر واضح دلیل ہے کہ فقراء بالخصوص اپنے قریبی رشتہ داروں کی کفالت کرنا رزق میں برکت کا بہترین ذریعہ ہے۔‘‘([88])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں :’’یہ شخص اپنے کو خدمت دین کے لیے وقف کر چکا تھا، حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے پاس علم دین سیکھنے آتاتھا، یہ رسم آج تک چلی آرہی ہے کہ بعض لوگ اپنے کو علم دین کے لیے وقف کردیتے ہیں اور مسلمان اُن کا خرچہ اٹھا تے ہیں اصحاب صفہ بھی ایسے ہی لوگ تھے۔معلوم ہوا کہ طالب علم کی خدمت کرنا خرچہ دینا بہت بڑی عبادت ہے ۔ (فرمایا:شاید تجھے اس کی برکت سے ہی رزق دیا جا
رہا ہے) تو اسے علم دین سیکھنے دے، اس کا خرچہ تو برداشت کیے جا، اللہ تعالٰی اس کا رزق تیرے دستر خوان پربھیجے گا ،تجھے برکتیں ہوں گی ،اِس فرمانِ عالی سے چند مسئلے معلوم ہوئے:
(۱) ایک یہ کہ بعض لوگوں کا اپنے کو علم دین کے لیے وقف کردینا سنت صحابہ ہے۔ عالم دین بننا فرض کفایہ ہے بقدرِ ضرورت علم دین سیکھنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔(۲) دوسرے یہ کہ ان طالب علموں کا خرچہ مسلمانوں کو اٹھانا چاہیے، اِنْ شَآءَ اللہ اس میں بڑی برکت اور بڑا ثواب ہے۔(۳) تیسرے یہ کہ اپنے غریب قرابت داروں کی مدد کرنا بڑی برکت کا باعث ہے۔ ربّ تعالٰی فرماتا ہے:
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ (پ۱۵،بنی اسرائیل: ۲۶)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو۔
اور جب ایک شخص غریب بھی ہو، قرابت دار بھی اور طالب علم بھی اس پر خرچہ کرنا نُورٌ عَلٰی نُور ہے۔ خیال رہے!حضور انور کا”لَعَلَّیعنی شاید‘‘فرمانا ”شک“کے لیے نہیں ۔ کریموں کی ”شاید“ بھی یقینی بلکہ حَقُّ الْیَقِیْنِیْ ہوتی ہے۔‘‘([89])
(1) صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا یہ معمول تھا کہ وہ علم دین کے حصول کے لیے ہر وقت بارگاہِ رسالت میں حاضر رہا کرتے تھے۔
(2) حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ سے علم دین جیسی عظیم دولت سمیت ربّ تعالٰی کی ہر نعمت نصیب ہوتی ہے۔
(3) طالب علم کی برکت سے اُس کے والدین یا سرپرست وغیرہ کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔
(4) طالب علم کا رزق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے۔
(5) جو اپنے رزق میں وُسعت، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت اور دین ودنیا کی بھلائی کا خواہاں ہو، اسے چاہیے کہ دینی طلبہ کے ساتھ خیر خواہی کر ے۔
(6) جو سب کچھ چھوڑ کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر توکل کرتے ہوئے علمِ دین سیکھنے میں مشغول ہو جاتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ بغیر کَسْب کے اُسے رزق عطا فرماتا ہے۔
(7) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بعض نیک بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے سبب دوسروں کو رزق دیا جاتا ہے۔
(8) اپنے آپ کو علم دین کے لیے وقف کردینا صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سنت ہے۔
(9) دینی طلبہ کی حوصلہ اَفزائی کرنا ان کے ساتھ خیر خواہی کرنا بہت اچھا عمل بلکہ عبادت ہے ۔
(10) اگر کسی کو اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس بات کی توفیق بخشی ہے کہ وہ راہِ خدا میں اپنے کسی قریبی عزیز، رشتہ دار ، دوست احباب وغیرہ کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے ان پر خرچ کررہا ہے تو اسے چاہیے اس پر اِحسان نہ جتائے بلکہاللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل وکرم جانے اور اُس کا شکر ادا کرے۔
(11) جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی اس کی مدد فرماتا رہتا ہے۔
(12) فُقراء بالخصوص اپنے قریبی رشتہ داروں کی کفالت کرنا رزق میں برکت کا بہترین ذریعہ ہے۔
(13) ہمیں اپنے متعلقین کی خبر گیر ی کرتے رہنا چاہیے اور جتنا ممکن ہو اُن کی امداد کرنی چاہیے کہ جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کی مدد فرماتا رہتا ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توکل کی دولت عطا فرمائے،حصول علم دین کا ذوق وشوق عطا فرمائے، علم دین سیکھنے سکھانے والوں کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لیے خیر خواہی کرنے کی توفیق عطافر مائے، رزقِ حلال کمانے اور اپنے گھروالوں کو بھی حلال کھلانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
با ب نمبر:8 اِستِقامت کا بیان
ایسا کون ہوگا جسے کامیابی کی تمنا نہ ہو؟ہرشخص چاہتا ہے کہ میں کامیاب رہوں اور مجھے کبھی ناکامی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن سب کی یہ تمنا پوری نہیں ہوتی۔ ناکامی کی ایک بڑی وجہ استقامت نہ ملنابھی ہے ۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔کام کا نتیجہ توجلد چاہتا ہے لیکن استقامت اختیار نہیں کرتا لہٰذااپنے مقصد میں ناکام ہوجاتاہے۔ کسی کام کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس کام پر استقامت ضروری ہے۔ اگرچہ استقامت بذات خود ایک مشکل امر ہے، مشہور مقولہ ہے:’’اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ یعنی استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔‘‘ لیکن استقامت کی بدولت مشکل سے مشکل اُمور بھی بآسانی سر انجام دیے جاسکتے ہیں ۔
جو پتھر پہ پانی پڑے مُتَّصِل |
……… |
تو بے شُبہ گھس جائے پتھر کی سِل |
ریاض الصالحین کا یہ باب بھی ’’اِستقامت‘‘کے بارے میں ہے۔عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے اس باب میں 3آیاتِ مقدسہ اور2اَحادیث مبارکہ بیان فرمائی ہیں ۔پہلے آیات اور اُن کی تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں اِرشاد فرماتا ہے:
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ (پ۱۲، ھود: ۱۱۲) ترجمہ ٔ کنزالایمان: تو قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے۔
تفسیرِ خازن میں ہے: ’’اِس آیت میں حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے خطاب ہے کہ آپ اپنے ربّ کے دین پر ثابت قدم رہیئے،اِس پر عمل کرتے رہیئے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی سے دعا مانگئے جیسا کہ آپ کے ربّ نے آپ کو حکم دیا ہے۔یاد رہے یہ حکم تاکید کے لیے ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تو پہلے ہی ثابت قدم تھے۔ یہ اس طرح ہے جیسے کسی کھڑے ہوئے شخص سے کہا جائے کہ میرے آنے تک کھڑے رہنا۔([90])
حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہرسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پورے قرآنِ پاک میں اِس آیت سے زیادہ دشواراور کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ ایک مرتبہ جب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی:’’یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ پر عمررسیدگی کے آثار بہت جلد نمودار ہوگئے ہیں ۔‘‘ تو فرمایا : ’’مجھے سورۃ ھوداور اُس جیسی دوسری سورتوں نے عمر رسیدہ کر دیا ہے۔‘‘([91])
مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ ایک استقامت ہزار کرامتوں سے بہتر ہے، استقامت یہ ہے کہ بندہ رنج وغم مصیبت وراحت میں اللہ کی بندگی سے منہ نہ موڑے، ہر حال میں راضی بہ رَضا رَہے، اِستقامت ہی ولایت کی جڑ ہے، جس سے حضور کی ہمراہی ملتی ہے۔‘‘([92])
اِرشاد باری تعالی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۳۰)نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ(۳۱)نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠(۳۲) (پ۲۴، حم السجدۃ: ۳۰ تا ۳۲) ترجمہ ٔ کنزالایمان: بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے اُن پر فرشتے اُترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے اس میں جو مانگو مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔
اِن آیات کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے:’’حضرتِ صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے دریافت کیا گیا:استقامت کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ حضرتِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: استقامت یہ ہے کہ اَمْرونَہْی پر قائم رہے۔ حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: اِستقامت یہ ہے کہ عمل میں اِخلاص کرے ۔ حضرتِ علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: اِستقامت یہ ہے کہ فرائض ادا کرے اور اِستقامت کے معنی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اَمر(حکم) کو بجالائے اور معاصی (نافرمانی ) سے بچے ۔‘‘([93])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ(۱۳) اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۴) (پ۲۶، الاحقاف: ۱۳، ۱۴)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے پھر ثابت قدم رہے نہ ان پر خوف نہ ان کو غم وہ جنّت والے ہیں ہمیشہ اس میں رہیں گے ان کے اعمال کا اِنعام۔
تفسیر کبیر میں ہے :’’یہ آیات اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ایمان لائے اور نیک اَعمال کیے توبروزِ قیامت انہیں کوئی غم و خوف لاحِق نہ ہوگا۔ وہ قیامت کے دن دَہشت و گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے۔ بعض نے کہا: اُنہیں گرفت کا خوف نہ ہو گا۔ البتہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ہیبت اور جلال کا خوف کسی سے زائل نہ ہوگا۔ فرشتے گناہوں سے معصوم ہیں ، بلند درجات والے ہیں ، اِس کے باوجود اُن سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف زائِل نہیں ہوتا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے: ( یَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ) (پ۱۴، النحل: ۵۰) ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’اپنے اوپر اپنے ربّ کا خوف کرتے ہیں ۔‘‘([94])
تفسیرِ طبری میں ہے:’’جنہوں نے کہا: ہمارا ربّاللہ عَزَّ وَجَلَّ ہے ،اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ، پھر اپنی اُس تصدیق پر ثابت قدم رہے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اَحکام اَوَامِر ونَوَاہی کی مخالفت نہ کی )تو بے شک اُن لوگوں پر قیامت کے دن کوئی خوف اور غم نہ ہوگا۔‘‘([95])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عَنْ اَبِیْ عَمْرٍو،وَقِیْلَ:اَبِیْ عَمْرَۃَ سُفْیَانَ بِنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قُلْ لِّی فِی الْإِسْلَامِ قَوْلًا لَاأَسْئَلُ عَنْہُ اَحَدًاغَیْرَکَ، قَالَ:قُلْ: اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ.([96])
حضرتِ سَیِّدُنا ابوعَمْرو یاابوعَمْرہ سُفیان بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: ’’یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے اِسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات ارشاد فرمائیے کہ پھر آپ کے علاوہ کسی اور سے اس کے متعلق نہ پوچھوں ۔‘‘ فرمایا : ’’ کہو:میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ایمان لایا۔پھر اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘
شَرْحُ الطِّیْبِی میں ہے:’’یعنی مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جس کے ذریعے اِسلام مکمل ہو جائے، اسلامی باتوں کی طرف رہنمائی ہو اوراُس کے حقوق کی حفاظت ہو اور آپ کے بعد کسی اور سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:’’قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ یعنی کہو:میں اللہ عَزَّ وَجَلَّپر ایمان لایا اور پھر اس پر قائم رہو۔‘‘اِسْتَقِمایسا لفظ ہے جو تمام اَحکامات پر عمل کرنے اور تمام ممنوعہ کاموں سے رُک جانے کو جامع ہے کیونکہ بندہ حکم عدولی کی وجہ سے صراطِ مستقیم سے دُور ہوجاتا ہے جب تک دوبارہ تعمیلِ حکم نہ کرے۔ اِسی طرح ممنوعہ کام کے اِرتکاب سے بھی صراطِ مستقیم
سے دُور ہوجاتا ہے جب تک توبہ نہ کرے ۔ ‘‘([97])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّوَجَلَّپر ایمان لانے سے مراد سارے عقائد اِسلَامیَّہ ماننا ہیں ۔ لہٰذا اِس میں توحید و رسالت حشر و نشر، ملائکہ جنت دوزخ سب پر اِیمان لانا داخل ہے، جیسے کسی کو اپنا باپ مان کر اُس کے سارے اَہلِ قرابت کو اپنا عزیز ماننا پڑتا ہے کہ اُس کا باپ ہمارا دادا ہے، اُس کی اولاد ہمارے بھائی بہن، اُس کے بھائی ہمارے چچا تائےاور اِستقامت سے مراد سارے اَعمالِ اِسْلَامِیَّہ پر سختی و پابندی سے عمل کرنا ہے،لہٰذا یہ حدیث اِیمان و تقویٰ کی جامع ہے اور اِس پر عامل یقیناً جنتی ہے۔‘‘([98])قاضی عیاضعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادنے فرمایا: ’’یہ حدیث پاک حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے جامع کلمات میں سے ہے۔‘‘([99])
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے فرمایا :’’رِسالہ قشیریہ میں ہے کہ اِستقامت ایسا درجہ ہے جس سے اُمور کی تکمیل اور نیکیوں کا حصول ہوتا ہے ۔جو اِسے اختیار نہ کرے اُس کی کوشش ضائع ہو جاتی ہے۔ایک قول یہ ہے کہ اِستقامت کی طاقت صرف اکابر ہی رکھتے ہیں کیونکہ اِستقامت یہ ہے کہ انسان اپنے معمولات اور رَسم و رَواج کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اَحکامات کے مطابق کرلے۔ اِسی لیے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ’’استقامت پر رہو اور تم ہر گز اُس کا اِحاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘ علامہ واسطی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’اِستقامت ایسا وصف ہے جس کے پائے جانے سے اچھائیاں مکمل ہوتی ہیں اور اس کے نہ ہونے کی وجہ سے خوبیاں
خامیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔‘‘([100])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!استقامت سے کیا جانے والا کام شریعت کو محبوب ہے ۔احادیثِ مبارَکہ میں ایسے عمل کی خوب ترغیب دلائی گئی ہے۔ چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھا گیاکہ ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک پسندیدہ عمل کونسا ہے؟‘‘فرمایا:’’وہ عمل جواستقامت کے ساتھ ہو اگر چہ تھوڑا ہو۔‘‘([101])
ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن نے اعمالِ صالحہ پر کیسی استقامت اختیار کی، اس کااندازہ اس حکایت سے لگائیے۔چنانچہ کروڑوں حنفیوں کے عظیم پیشوا، امامِ اعظم حضرت سَیِّدُنَا نعمان بن ثابت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِقنے تیس 30سال تک روزانہ ہر رات ایک رکعت میں پورا قرآن ختم کیا۔ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔ آپ رات کو خوفِ خدا کے باعث اِس قدر روتے کہ ہمسائے آپ پر رحم کرتے اور جس جگہ آپ کا وصال ہوا وہاں آپ نے سات ہزار 7000مرتبہ قرآن شریف ختم فرمایا تھا۔([102])
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین
(1) اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر ایمان لانے سے مراد سارے عقائد اِسْلَامِیَّہ پر ایمان لاناہے۔
(2) اُمور کی تکمیل کے لیے استقامت بہت ضروری ہے۔
(3) قلیل دائمی عمل ،کثیر عارضی عمل سے بہتر ہے ۔
(4) استقامت وہ طاقت ہے کہ جس کی بدولت مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتے ہیں ۔
(5) استقامت اختیار کرنا نیک بندوں کا شیوہ ہے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکےنیک بندے جو عمل خیرشروع کردیں اس پر مرتے دم تک استقامت اختیار کرتے ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی بزرگانِ دین کے صدقے استقامت کی دولت عطافرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر :86
جَنَّت رَحْمَتِ اِلٰہِی سے ملے گی
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم:قَارِبُوْا وَسَدِّدُوْا،وَاعْلَمُوْا اَنَّہُ لَنْ یَنْجُوَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ بعَمَلِہِ، قَالُوْا: وَلَا اَنتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ؟ قَالَ: وَلَا اَنَا اِلّا أنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ. ([103])
وَالْمُقَارَبَۃُ:اَلْقَصْدُالَّذِیْ لَاغُلُوَّ فِیْہِ وَلاَ تَقْصِیْرَ، وَالسَّدَادُ اَلْاِسْتِقَامَۃُ وَالْإِصَابَۃُ وَیتَغَمَّدَنِی یَلْبِسُنِیْ وَیَسْتُرُ نِیْ.قَالَ الْعُلَمَاءُ مَعْنَی الْاِسْتِقَامَۃِ لُزُوْمُ طَاعَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی، قَالُوْا وَہِیَ مِنْ جَوَامِعِ الکَلِم،وَہِیَ نِظَامُ الأُمُوْرِ؛ وبِاللّٰہِ التَّوفِیق.
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالَم نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اِرشادفرمایا: ’’میانہ رَوِی اختیار کرو، اور راہِ راست پر رہو۔ اور جان لو کہ تم میں سے کوئی بھی (محض) اپنے عمل سے نجات نہیں پاسکتا۔‘‘صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:’’ یَارَسُوْلَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا آپ بھی نہیں ؟‘‘فرمایا: ’’ہاں ،میں بھی نہیں ، مگر یہ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے اپنی رحمت اور
فضل سے ڈھانپ لے۔‘‘
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی یہ حدیث پاک نقل کرنے کے بعد اَلفاظِ حدیث کے معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اَلْمُقَارَبَۃُ:ایساعمل جس میں اِفراط وتَفْریط نہ ہویعنی میانہ رَوی اختیار کرنا۔ اَلسَّدَادُ: استقامت اختیار کرنا اور سیدھی راہ کو پہنچنا ۔یَتَغَمَّدُنِی:وہ مجھے( فضل ورحمت ) سے ڈھانپ لے۔ علما ئے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامفرماتے ہیں :’’استقامت کا معنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی فرمانبرداری پر ہمیشگی اختیار کرنا ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ فرمان عالی جامع کلمات میں سے ہے اور اِستقامت اُمور کو سرانجام دینی والی ہے ۔ ‘‘
اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّدبِنْ عَبْدُاللّٰہ طِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’سَدِّدُوْا کا مطلب ہے: درستگی کو پہنچو، کثرتِ عبادت اور نیکیوں پر استقامت کےذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرو۔ قَارِبُوْا:کا مطلب ہے کہ اپنے اُمور میں میانہ روی اختیار کرو ،اِفراط و تَفْریط سے بچو، راہِبانہ زندگی اختیار نہ کروورنہ تمہارے نفس اُکتا جائیں گےاورتمہارامعاشی نظام بگڑجائےگااورامورِ دنیا میں ضرورت سے زیادہ مشغول نہ ہوجاؤ، ورنہ نیکیوں سے بالکل دُور ہوجاؤگے۔اس حدیث پاک کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ نیک اَعمال کیے ہی نہ جائیں بلکہ اس فرمان سے مقصودبندوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنا ہے کہ تمام اَعمال اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت و فضل سے مکمل ہوتے ہیں تاکہ لوگ اپنے اَعمال پر مغرور نہ ہوں اور اپنے اَعمال ہی کو سب کچھ نہ سمجھ لیں ۔‘‘([104])
عَلَّامَہ اَبُوزَکَرِیَّایَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’اہلِ سنت کا موقف ہے کہ ثواب و عقاب اور اَحکام عقل سے ثابت نہیں ہوتے بلکہ شرع سے ثابت ہوتے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر کوئی چیز
واجب نہیں ، تمام عالَم اُسی کی ملکیت میں ہیں ۔وہ جوچاہے، جیسا چاہے،حکم دے۔اگر فرمانبرداروں کو عذاب دے تو یہ اس کا عدل ہے اورانہیں اِنعام و اِکرام سے نوازے اور جنت میں داخل کرے تو یہ اُس کا فضل ہے۔وہ مسلمانوں کو اپنے فضل سے جنت میں داخل فرمائے گا اور منافقین کو اپنے عدل سے عذاب دے گا اور ہمیشہ کے لیے انہیں جہنم میں داخل فرمائے گا۔یہ حدیث اِس بات پر دلیل ہے کہ کوئی شخص محض اپنے اَعمال کی وجہ سے جنت و ثواب کا حق دار نہیں ہو سکتا۔‘‘([105]) بلکہ رَحمت ِالٰہی شرط ہے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۳۲) (پ۱۴، النحل:۳۲) ترجمہ ٔ کنزالایمان:جنت میں جاؤ بدلہ اپنے کیے کا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْۤ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۷۲) (پ۲۵، الزخرف: ۷۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: یہ ہے وہ جنت جس کے تم وارث کیے گئے اپنے اعمال سے۔
اِن کے علاوہ اورکئی آیات سے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ اعمال کے ذریعے جنت میں داخلہ ہوگا۔ توپھرحدیثِ مذکور اور اُن آیات میں کس طرح تطبیق ہوگی؟علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے اس کے مختلف جواب دیئے ہیں ، یہاں چند بیان کیے جاتے ہیں :
عَلَّامَہ اَبُوزَکَرِیَّایَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’اِن آیات کامطلب یہ ہے کہ جن اَعمال پرجنت کی بشارت ہے وہ اَعمال بجا لانے کی توفیق وہدایت، اُن میں اِخلاص اور اُن کی قبولیت سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت اور اُس کے فضل سے ہی ہوگا۔ لہٰذا حدیث اور اُن آیات میں کوئی تضاد نہیں ۔‘‘([106])
فتح الباری میں ہے:’’عَلَّامَہ ابن جَوْ زِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے اس سوال کے چار جواب دیے ہیں :
(۱)نیک اعمال کی توفیق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت ہی سے ملتی ہے۔اگر اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تونہ ہی ایمان نصیب ہوتا، نہ نجات دلانے والے اعمال کی توفیق ملتی۔(۲)غلام کے منافع کامالک اس کامولا ہوتا ہے پس بندے کے عمل کامالک اس کا ربّ ہے۔اب بندے کواِنعام واِکرام سے نوازنا اور اسے جزا دینا اس کی رحمت ہی ہے۔(۳) بعض احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جنت میں داخلہ محض اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے ہوگا۔ہاں !اَعمالِ صالحہ کی بدولت جنت میں مختلف درجات ملیں گے۔ (۴) بندہ جو نیک عمل کرتا ہے اس کی ادائیگی میں بہت کم وقت لگتاہے لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس عمل پر نہ ختم ہونے والاثواب عطا فرماتاہے۔ پس ختم ہو جانے والے عمل کے بدلے دائمی جزا دینا ربّ کریم کی بہت بڑی رحمت ہے۔‘‘([107])
مُفَسِّرشہِیر،مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’نیک اَعمال دوزخ سے بچنے، جنت میں داخل ہونے کے اَسباب تو ہیں مگر عِلَّتِ تامہ نہیں ۔بہت سے لوگ بغیر نیک عمل جنتی ہیں جیسے مسلمانوں کے ناسمجھ بچے یادیوانے یا وہ جو مسلمان ہوتے ہی فوت ہوجائیں اور بعض لوگ نیکیوں کے باوجود دوزخی ہیں جیسے نیکیاں کرنے والے کفار یا جن کی نیکیاں مردود ہوگئیں ۔ جنت ملنے کی علتِ تامہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فضل ہے۔حض تُخْم(بیج) درخت کی علت تامہ نہیں ، بہت بار تخم ضائع ہوجاتا ہے۔ اس فر مان کا مقصد لوگوں کو نیکیوں سے روکنا نہیں ہے، بلکہ نیکوں کو اپنے اعمال پر ناز کرنے سے بچانا ہے کہ اے پرہیزگارو! اپنے اعمال پر غرور نہ کرو، ربّ تعالٰی کا فضل مانگو، شیطان کے اَعمال سے اس کے اَنجام سے سبق لو۔ ‘‘([108])
جب حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے یہ ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی بھی اپنے عمل کے ذریعے نجات نہیں پاسکتا۔‘‘تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے پوچھا کہ:’’یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کیا آپ بھی نہیں ؟‘‘
مُفَسِّرشہِیر، مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس كا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’یعنی آپ کی نیکیاں تو قبولیت کی انتہائی منزل پر ہیں ، کیا یہ بھی حصولِ جنت کے لیے کافی و افی نہیں ؟کیا آپ کو بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت درکار ہے؟صحابہ سمجھے یہ تھے کہ ایسے موقعہ پر متکلم مُسْتَثْنٰی ہوتا ہے۔ شاید حضور یہ ہمارے لیے فرمارہے ہیں ، اس لیے یہ سوال کیا۔ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ عمومی اَحکام پرحضور کو داخل نہ مانتے تھے۔ (حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ہاں ! میں بھی نہیں ! مگر یہ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔) یعنی میں بھی محض عمل سے بِلافضل الٰہی جنت کا حقدار نہیں ،ہاں ! ربّ تعالٰی کی رحمت ہر طرف سے مجھے گھیرے تو جنت میری ہے۔ خیال رہے کہ تمام دنیا کے لیے حضور انورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم رحمت ہیں ،ربّ تعالٰی فرماتا ہے:( وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷))(پ۱۷، الانبیاء: ۱۰۷)(ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے)اور رحمتِ الٰہی جنت ملنے کا ذریعہ ہے۔ توہماری جنت کا وسیلۂ عظمیٰ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہیں اورحضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم پر خود ربّ تعالٰی کا فضل ربانی ہے(وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳)) (پ۵، النساء: ۱۱۳) (ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور اللہ کاتم پر بڑا فضل ہے۔) لہٰذا ہم اَور رحمت سے جنتی ہیں ،حضور ِانور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم دوسری رحمت سے۔ سورج وچاند دونوں کو نور ربّ نے دیا مگر چاند کو سورج کے ذریعے اور سورج کو بِلا واسطہ اپنی طرف سے۔ لہٰذااس حدیث سے حضور کا ہماری مثل ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔(سَدِّدُوْا: یعنی راہِ راست پر رہو۔)اس طرح کہ عقائد درست رکھو،عبادات میں درمیانی رَوِش چلو کہ بقدرِ طاقت نوافل شروع کرو، پھر ہمیشہ نبھادو اور صرف فرائض پر کفایت نہ کرو، بلکہ نوافل بھی ادا کیا کرو،خصوصاً آخری رات میں عبادت کیا کرو کہ یہ چیزیں رحمتِ الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جنت کا ذریعہ رحمت الٰہی ہے اور رحمت کا ذریعہ نیک اعمال ہیں ، لہٰذا اَعمال سے غافل نہ ہو ، منزل قریب ہے۔‘‘([109])
(1) جنت میں داخلہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے ہوگا،بغیر رحمت الٰہی کے محض اپنے عمل سے کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔
(2) جنت کا ذریعہ رحمتِ الٰہی ہے اور رحمت الٰہی کا ذریعہ نیک اَعمال ہیں ، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ ربّ تعالی کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے نیک اعمال کرتا رہے۔
(3) جو کام اِستقامت سے کیا جائے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت شامل حال ہوتو اس کام میں ضرور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
(4) جنتی جنت میں حضورنبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدقے داخل ہوں گے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت ہی سے جنت ملے گی۔
اللہ کی رحمت سے تو جنت ہی ملے گی
اے کاش! محلے میں جگہ اُن کے ملی ہو
(5) نفلی عبادت میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے تاکہ اس پر دَوام و اِسْتِمْرَار (یعنی ہمیشگی )حاصل ہو سکے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ اپنے رحمت والے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدقے ہمیں دینی ودُنیوی معاملات میں میانہ رَوی کی توفیق عطا فرمائے،اعمال صالحہ پر استقامت اور اپنی دائمی رضا سے مالا مال فرمائے۔آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اُمُورِ کَائِنَات میں غو ر و فِکْر کا بیان
ربّ تعالی کی عظیم مخلوق، دنیا کے فنا ہونے،آخرت کی ہولناکیوں ، دنیا وآخرت کے معاملات میں نفس کی کوتاہی،
اُس کی اصلاح اوراُسے اِستقامت پراُبھارنے کے بارے میں غوروفکر کا بیان
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!قرآن وحدیث میں جابجا تَفَکُّر،تَدَبُّر اورنظروعِبرت کا حکم دیا گیاہے، ان سب کا معنی ہے:’’غور و فکر کرنا۔‘‘ ظاہر ہے جوکام جتنا زیادہ اہم ہو، اس کی تاکید بھی اتنی ہی زیادہ کی جاتی ہے۔غور و فکر بہت فضیلت والا عمل ہے۔اس کی بدولت حق کی معرفت،راہ ِہدایت کی طرف رہنمائی، حکمت ودانائی ، زندہ دلی، دنیا وآخرت کی کامیابی اوررضائے الٰہی جیسی عظیم نعمتیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن غور و فکر اُسی وقت مفید ہے جب اُس کی حقیقت ومقاصداوراُن باتوں کا علم ہو جن میں غورو فکر کرنا ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ فضیلت والا غورو فکر وہی ہے جو آخرت کی بہتری کے لیے ہو کیونکہ صرف دُنیوی سوچوں ہی میں گم رہنا جبکہ وہ آخرت کے لیے نہ ہو اس کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ یہ تو آخرت کی تیاری میں رُکاوٹ کا باعث ہے۔
ریاض الصالحین کا یہ باب ’’غور و فکر‘‘ کے بارے میں ہے ۔عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے اس باب کے تحت 4آیاتِ مبارکہ بیان کی ہیں ۔اس باب میں ان آیات کا ترجمہ و تفسیر ،غور وفکر سے متعلق مزید آیا ت ِمقدسہ و اَحادیثِ مبارکہ، اس کی حقیقت، بزرگانِ دین کی حکایات اور دیگر کئی مفید اُمور بیان کیے جائیں گے ۔ پہلے آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ اور تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالٰی ہے:
قُلْ اِنَّمَاۤ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍۚ-اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَ فُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا-(پ۲۲، سبا:۴۶) ترجمہ ٔ کنزالایمان: تم فرماؤ میں تمہیں ایک ہی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے کھڑے رہو دو دو اور اکیلے اکیلے پھر سوچو۔
تفسیر خازن میں ہے:آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’تم فرماؤ! میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں ، اگر تم اُس پر عمل کروگے تو حق کو پہنچ جاؤ گے اور نجات پالوگے، وہ نصیحت یہ ہے کہ بقدرِ استطاعت اخلاص کے ساتھ اَمرِ الٰہی پر قائم رہو۔ پھر اتباعِ نفس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انصاف کے ساتھ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اوران کے لائے ہوئے پیغام میں غور وفکر کرو ۔تو تم پر واضح ہو جائے گا کہ وہ جنون سے پاک ہیں ۔ وہ تو پورے قریش میں سب سے زیادہ عقلمند، سب سے زیادہ بُردبار، سب سے زیادہ ذہین،سب سے زیادہ پختہ رائے والے، سب سے زیادہ سچے، سب سے زیادہ پاک دامن اورتما م اَوصافِ حمیدہ کے جامع ہیں ۔ جب تم یہ باتیں جان لوگے تو تمہیں اُن کی نبوت پر اور کوئی نشانی طلب کر نے کی ضرورت نہ ہوگی۔ ایک قول کے مطابق’’ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا‘‘ کا معنی یہ ہے کہ زمین و آسمان میں غور کرو تو تم جان لوگے کہ اِن کا خالق ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں ۔‘‘([110])
تفسیر کبیر میں ہے کہ :’’مَثْنٰی وَفُرَادٰی‘‘سے انسان کی تمام حالتیں بیان کر دی گئی ہیں کیونکہ انسان یا تو اکیلا ہوتا ہےیالوگوں کے ساتھ۔گویا یوں فرمایا گیاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اَحکام کی بجاآوری کروجماعت کے ساتھ بھی اور اکیلے بھی، نہ تو جماعت تمہیں اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ذکر سے روکے، نہ تنہائی میں ذکر الٰہی کے لیے تمہیں کسی کی محتاجی ہو۔پھر تم سب جمع ہوجاؤ اورمیرے نبی محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے حال میں غور وفکر کرو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ جنون سے بالکل پاک ہیں ۔‘‘([111])
خدائے رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کافرمانِ عالیشان ہے:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ(۱۹۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: بےشک آسمانوں اور زمیں کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقل
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ (پ۴، آل عمران: ۱۹۰، ۱۹۱)
مندوں کے لیے جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں ، اے ربّ ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا، پاکی ہے تجھے۔
تفسیرِ خازن میں ہے :جب اہل مکہ نے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے نبوت پر نشانی طلب کی تو یہ آیاتِ مبارکہ نازل ہوئیں ۔ اِن کا مفہوم یہ ہے کہ زمین و آسمان میں جو چیزیں تمہارے رزق کے لیے پیدا کی گئیں ہیں ان میں غور وفکر کرو ،دن اور رات کو ایک دوسرے کے پیچھے رکھا اورچھوٹا بڑا ہونے میں اُن کو مختلف رکھا تاکہ دن میں تم طلبِ معاش کرو اور رات میں آرام کر و۔ پس اے عقل والو!عبرت حاصل کرو اور غورو فکر کرو۔ یہاں عقل والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو عبرت و تَفَکُّر کے لیے اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں ۔ وہ جانوروں کی طرح نہیں کہ زمین و آسمان کے عجائبات سے غافل رہیں ۔ ‘‘([112])
حضرتِ سَیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے عرض کی:’’ ہمیں رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کوئی عجیب بات بتائیے ۔‘‘ آ پ رونے لگیں اور فرمایا :’’حضور نبی رحمت شفیع اُمَّتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہر معاملہ ہی عجیب تھا۔ایک رات آپ میرے پاس تشریف لائے پھر کچھ دیر بعد فرمایا:اے عائشہ !کیا تم مجھے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی اجازت دیتی ہو؟ میں نے عرض کی: مجھے آپ کاقُرب پسند اور آپ کی رضا مطلوب ہے، میں نے آپ کو اجازت دی۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُٹھے، وضو فرما یا،اورنماز کے لیے کھڑے ہوگئے ،پھردورانِ تلاوت اتنا روئے کہ مبارک آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی۔حضرت بلال (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ) صبح کی اذان کے لیے آئے اورآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو روتے دیکھا تو عرض کی:یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ رو رہے ہیں حالانکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کے صدقے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرمادئیے
ہیں ۔ فرمایا :اے بلال! کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ اے بلال! میں کیوں نہ رؤوں ؟آج رات میرے ربّ نے مجھ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے: ( اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ )…الآیۃ، پھر فرمایا:ہلاکت ہے اُس کے لیے جو اِسے پڑھے اور غور و فکر نہ کرے۔‘‘([113])
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ(۱۷)وَ اِلَى السَّمَآءِ كَیْفَ رُفِعَتْٙ(۱۸)وَ اِلَى الْجِبَالِ كَیْفَ نُصِبَتْٙ(۱۹)وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْٙ(۲۰)فَذَكِّرْ۫ؕ-اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّرٌؕ(۲۱) (پ۳۰، الغاشیۃ: ۱۷ تا ۲۱)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: تو کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کیسا بنایا گیا اورآسمان کو کیسا اونچا کیا گیا اور پہاڑوں کو کیسے قائم کیے گئے، اور زمین کو کیسے بچھائی گئی، تو تم نصیحت سناؤ، تم تو یہی نصیحت سنانے والے ہو۔
دُرِّ منثور میں ہے :حضرتِ سَیِّدُنا قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:’’جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کیا تو گمراہ لوگوں نے تعجب کیاپس اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے یہ آیات نازل کیں اور فرمایا :’’ تو کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کیسا بنایا اورآسمان کو کیسا اونچا کیا اور پہاڑوں کو کیسے قائم کیااور زمین کیسے بچھائی گئی ۔‘‘ (اے انسان) تو بڑی بڑی چٹانوں پر چڑھتا ہے، اُن میں پھوٹنے والے چشموں اوردرختوں میں پھلوں کو دیکھتا ہے۔ یہ کسی انسان نے نہیں اُگائے بلکہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ایک نعمت ہے ۔ توجس خالقِ حقیقی نے یہ سب کچھ بنایا بے شک! وہ جنت میں بھی ہر وہ چیز بنانے پر قادر ہے جو وہ چاہے۔‘‘([114])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا (پ۲۶، محمد: ۱۰) ترجمہ ٔ کنزالایمان: تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے۔
تفسیر خازن میں ہے:’’( اے محبوب) یہ مشرکینِ مکہ جو آپ کو جھٹلاتے ہیں ، کیا انہوں نے زمین میں سفر نہیں کیاتا کہ دیکھتے کہ اُن سے پہلی اُمَّتوں کا کیا انجام ہوا؟ رسولوں کو جھٹلانے کے سبب انہیں ہلاک کر دیا گیا، لہٰذا اُن کے انجام سے کفا رِ مکہ کو عبرت حاصل کرنی چاہیے ۔ اگرغور و فکر کرتے اور عبرت حاصل کرتے تو ایمان لے آتے۔‘‘([115])
تفسیر طبری میں ہے:’’( اے محبوب)یہ مشرکینِ مکہ جو توحید، آپ کی نبوت اور جو چیز آپ لے کر آئے یعنی اخلاص، طاعت اور عبادت وغیرہ اُس کا انکار کرتے ہیں ۔کیا انہوں نے زمین میں سفر نہیں کیا تاکہ پہلی قوموں کا انجام دیکھیں کہ جب انہوں نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کیااور اپنے رسولوں اور پیروکاروں کو اُن سے نجات عطا فرمائی ۔ انہیں چاہیے کہ تَفَکُّر کریں اور عبرت پکڑیں ۔‘‘([116])
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تَفَکُّرسے متعلق آیات قرآنیہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’تَفَکُّر سے متعلق بہت سی احادیث مبارکہ ہیں ، ان میں سے ایک وہ ہے جسے ہم پچھلے ابواب میں بیان کر چکے ہیں ۔یعنی ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔‘‘
’’علم کو معلومات کی طرف لے جانے والی قوت کوعقل کے مطابق استعمال کرنا تَفَکُّر(غورو فکر) کہلاتا ہے۔ اور تَفَکُّر اسی چیز میں ہوتا ہے جس کی صورت دل میں ہو ، اسی لیے حکم دیا گیاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں میں غور وفکر کرو، اس کی ذات میں نہ کرو۔فکر غفلت کو دور کرتی ہے اور دل میں اس طرح خوفِ خدا بڑھاتی ہے جس طرح پانی کھیتی کو بڑھاتا ہے ، غموں سےزیادہ کوئی چیز دلوں کو ویران نہیں کرتی اور فکر سے
زیادہ کوئی چیز دلوں کو روشن نہیں کرتی۔‘‘([117])
علامہ سید شریف جرجانی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تَفَکُّر کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ مطلوب کو پانے کے لیے دل کا معنوی اشیاء میں تصرف کرنا تَفَکُّر ہے اور یہ دل کا چراغ ہے جس سے دل کی اچھائی ، برائی اور نفع و نقصان کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘([118])
(1)حضرتِ سَیِّدُناابو ہریرہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا کہے گاکہ عقلمند کہاں ہیں ؟ پوچھا جائے گا : عقل مند کون ہیں ؟ کہا جائے گا:
اَلَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱)(پ۴، آل عمران: ۱۹۱)ترجمہ ٔ کنزالایمان: جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں ، اے ربّ ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا، پاکی ہے تجھے، تُو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ پھران لوگوں کے لیے جھنڈا لگایا جائے گا اور قوم اُن کے جھنڈے کے نیچے چلے گی اور منادی اُن سے کہے گا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔([119])
(2)تَنْبِیْہُ الْغَافِلِیْنمیں ہے : ’’جو کوئی ستاروں کو دیکھ کر یہ پڑھے:رَبَّنَامَاخَلَقْتَ ھٰذَابَاطِلاً سُبْحَانَک فَقِنَاعَذَابَ النَّارِ اور اُن کے عجائبا ت اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قدرت میں غور و فکر کرے تو اس کے لیے ستاروں کی تعداد کے برابرنیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔‘‘([120])
(3)حضرت سَیِّدُنَا عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے کئی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے سنا ہے کہ’’تَفَکُّر(یعنی کائنات کے عجائبات اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قدرت میں غور وفکر کرنا ) ایمان کا نور یا ایمان کی روشنی ہے۔‘‘([121])
(4)حضرتِ سَیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’ایک گھڑی غور و فکر کرنا پوری رات کے قیام سے بہتر ہے۔‘‘([122])
(5)حضرتِ سَیِّدُنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ ’’دن رات کے بدلنے میں لمحہ بھر کا غور و فکر اَسّی 80سال کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘([123])
(6)تَفَکُّرْعبادت سے اس لیے افضل ہے کہ تفکر تجھے اللہ عَزَّ وَجَلَّ تک پہنچاتا ہے جب کہ عبادت اجر و ثواب تک پہنچاتی ہےتو جو چیز اللہ عَزَّ وَجَلَّ تک پہنچائے وہ زیادہ بہتر ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ تفکر دل کا عمل ہے اور عبادت دیگر اعضاء کا عمل۔ اور دل بقیہ تمام اعضاء میں زیادہ شرف والا ہے، لہذا اس کا عمل بھی دیگر اعضاء کے عمل سے افضل ہوگا۔([124])
(7)حضرتِ سَیِّدُنا ابو سعید خُدرِی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’اپنی آنکھوں کو عبادت میں سے حصہ دو۔‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:’’عبادت میں آنکھوں کا کیا حصہ ہے؟‘‘ فرمایا:’’قرآن پاک کو دیکھنا،اس میں غور و فکر کرنا اور اس کے عجائب سے عبرت حاصل کرنا۔‘‘([125])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
احیاء العلوم میں ہے: حضرتِ سَیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں : ’’غور وفکر سے پڑھی گئی دو رکعتیں پوری رات کے اُس قیام سے بہتر ہیں جس میں حضورِ قلبی نہ ہو ۔ ‘‘حضرتِ سَیِّدُنا فضیل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنےفرمایا:’’تَفَکُّرایک شیشہ ہے جو تجھے تیری نیکیاں اور برائیاں دکھاتا ہے۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا عبد اللہ بن مبارکرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اگر لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عظمت میں غور و فکر کریں تو وہ کبھی بھی اس کی نافرمانی نہ کریں ۔‘‘([126])
فیض القدیر میں ہے:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّنے ہر مطلوب کے لیے ایک چابی بنائی ہے جس کے ذریعے اس تک رسائی ہوتی ہے ۔پس٭نمازکی چابی طہارت،٭حج کی چابی احرام،٭ نیکی کی چابی صدقہ، ٭جنت کی چابی توحید ، ٭علم کی چابی اچھا سوال اور توجہ سے سننا ،٭کامیابی کی چابی صبر،٭نعمتوں میں اضافے کی چابی شکر،٭ولایت ومحبت کی چابی ذکرالٰہی،٭کامیابی کی چابی تقویٰ وپرہیزگاری،٭توفیق کی چابی رغبت ورہبت، ٭قبولیت کی چابی دعا،٭آخرت میں رغبت کی چابی دنیاسے بے رغبتی،٭اِیمان کی چابی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مصنوعات میں غور وفکر،٭بارگاہِ الٰہی میں حاضری کی چابی دل کی سلامتی اور صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لیے کسی سے محبت یا نفرت کرنا،٭دلوں کی زندگی کی چابی قرآن کریم میں غورو فکراور صبح کی وقت گریہ وزاری اور گناہوں کو چھوڑنا، ٭حصولِ رحمت کی چابی عبادتِ الٰہی میں حضورِ قلبی اور مخلوق کی نفع رسانی میں کوشش، ٭رزق کی چابی اس کے لیے کوشش واستغفار،٭عزت کی چابی فرمانبرداری ،٭آخرت کی تیاری کی چابی اُمید وں میں کمی،٭ ہربھلائی کی چابی آخرت میں رغبت اور٭ہر شرکی چابی دنیا کی محبت اور لمبی اُمید ہے۔‘‘([127])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
رحمتِ عالَم،نورِمُجَسَّم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا :’’شیطان انسان سے کہتا ہے کہ آسمانوں کو کس نے پیدا کیا؟ ‘‘وہ کہتا ہے :’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے۔‘‘ پھر پوچھتا ہے: ’’زمین کس نے بنائی؟‘‘ وہ کہتا ہے :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّنے۔‘‘پھرپوچھتا ہے:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟‘‘تو جب شیطان تم میں سے کسی کے دل میں یہ وسوسہ ڈالے تو وہ فوراً یوں کہے:’’اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَبِرُسُوْلِہیعنی میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ او ر اس کے رسول پر ایمان لایا۔‘‘([128])
حضرتِ سَیِّدُنا عامر بن قیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں :’’آخرت میں سب سے زیادہ خوشی اُسے ہوگی جو دنیا میں سب سے زیادہ غمزدہ تھا اور سب سے زیادہ ہنسی اسے نصیب ہوگی جو دنیا میں سب سے زیادہ رونے والا تھا اوروہاں سب سے زیادہ مخلص مؤمن وہ ہوگا جو دنیا میں سب سے زیادہ غور و فکر کرنے والا تھا۔ لمحہ بھر کا تَفَکُّر سال بھر کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔‘‘([129])
حضرتِ سَیِّدُنا فقیہ ابو لَیث ثمر قندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتےہیں :’’ جو غورو فکر کی فضیلت حاصل کرنا چاہے اُسے چاہیے کہ پانچ چیزوں میں غور و فکر کرے:(1)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نشانیوں میں غوروفکر: یعنی انسان اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قدرت میں غور و فکر کرے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو کیسی قدرت سے بنایا۔ وہی سورج کو مشرق سے نکال کر مغرب میں غروب کرتا ہے، رات اور دن کو باری باری لاتا ہے ۔ اسی طرح انسان خود اپنی ذات کے بارے میں غور کرے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالٰی ہے:
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ(۲۰) وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ- ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین
اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(۲۱) (پ۲۶، الذاریات: ۲۰۔ ۲۱) والوں کو اور خود تم میں تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں ۔
انسان جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نشانیوں میں غورو فکر کرنے لگتا ہے تو اس کے یقین اور معرفت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔(2)اس کی نعمتوں میں غور فکر: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں میں غورو فکر کرنا اللہ عَزَّ وَجَلَّسے محبت کی علامت ہے۔(3)اس کی طرف سے ملنے والے ثواب میں غور و فکر:یعنی ان اشیاء میں غور و فکر کرنا جو اللہ تعالٰی نے اپنے اولیاءکے لیے تیار کررکھی ہیں ۔ یعنی جنتی انعام واکرام وغیرہ۔ اِس غورو فکر کی بدولت اُن کی رغبت اورطلب کی کوشش میں اضافہ ہوگا اور عبادت ِالٰہی پر قوت ملے گی ۔(۴)اللہ عَزَّ وَجَلَّکے عذاب میں غورو فکر: اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اپنے دشمنوں کی ذلت ورسوائی اور سزا و عبرت کے لیے جو عذاب تیار کر رکھا ہے اس میں غور و فکر کرنا۔ اِس غور وفکر سے دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف پیدا ہوگا اور گناہوں سے بچنے کی قوت میں اضافہ ہوگا۔(5)اللہ عَزَّ وَجَلَّکے احسانات اور اپنی بے وفائی میں غورو فکر : یعنی اپنے اوپر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احسانات کو یاد کرنا۔ اس کے احسانات ہم پر بے شمار ہیں مثلاً گناہوں کوچھپا ئے رکھنا ،ان پر سزاکے بجائے توبہ کی توفیق عطافرمانا ۔ اس طرح انسان یہ سوچے کہ نافرمانیوں کے باوجود مجھے نعمتوں سے محروم نہیں کیا جاتا یہ ربِّ کریم کا کتنا بڑا کرم ہے ۔ اِس طرح غور و فکر کرنے سے شرم و حیا میں اضافہ ہوگا ۔ جومذکورہ پانچ باتوں میں غور و فکر کرے اُس کا شمار اُن لوگوں میں ہوگا جن کالمحہ بھرکا تَفَکُّر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘([130])
ایک داناکا قول ہے کہ تین ا شیاء کے بارے میں بالکل غور و فکر نہ کرنا:(1)فقر و محتاجی کے بارے میں کبھی نہ سوچنا ورنہ پریشانیوں ، غموں اور لالچ میں اضافہ ہوگا۔(2) ظالم کے ظلم کے بارے میں نہ سوچنا ورنہ دل میلا رہے گا، کینہ میں اضافہ ہوگااورہمیشہ غصہ میں رہو گے۔ (3)لمبی عمر کے بارے میں نہ سوچنا ورنہ مال کی حرص پیدا ہو گی، وقت ضائع کرنے لگو گے اورآج کا کام کل پرڈالنے کی عادت پڑ جائے گی۔([131])
منقول ہے کہ اصل پرہیزگاری یہ ہے کہ انسان فضول غوروفکر سے بچنے کا پختہ اِرادہ کر لے۔جب بھی فضول باتوں کی طرف ذہن جائے فوراً اپنے خیالات کو بامقصد باتوں کی جانب پھیر دے، یہ سب سے بڑا اور افضل جہاد ہے۔([132])
ایک
بزرگ نے فرمایا :عبادت کی تکمیل سچی نیت سے ہوتی ہے،عمل کی اصلاح عاجزی وانکساری
سے ہوتی ہے اور ان دونوں کی تکمیل دنیا سے منہ موڑنے میں ہے اوریہ سب باتیں امور
ِآخرت میں غورو فکر کرنے سے حاصل ہوتی ہیں اور غور و فکر کی تکمیل موت اور گناہوں کو
ہروقت پیشِ نظر رکھنے سے ہوتی ہے ۔
منقول ہے کہ دس10چیزیں اَبدالوں کی صفات میں سے ہیں :(1)کینۂ مسلم سے دل
کی سلامتی (2) سخاوت (3) سچائی(4)عاجزی وانکساری (5)سختی
میں صبر(6) خَلْوَت میں آہ و زاری (7) مخلوق سے خیر خواہی (8)
مسلمانوں پر رحم کرنا (9) موت کے بارے میں غوروفکر (10)مختلف اشیاء
سے عبرت حاصل کرنا۔([133])
حضرتِ سَیِّدُنا مکحول شامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :’’جب بندہ سونے لگے تواسے چاہیے کہ اپنے دن بھر کے کاموں میں غور وفکر کرے ،اچھے اعمال پر شکرِالٰہی بجا لائےاور گناہوں پرفوراًتوبہ کرے۔اگر ایسانہ کرے گا تو اُس تاجر کی مانند ہوجائے گا جوبے حساب خرچ کر تا ہے پھر اسے پتا بھی نہیں چلتا اور وہ مفلس ہو جاتا ہے۔‘‘([134])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک بزرگ نے فرمایا:’’چارچیزوں سے دانائی میں اضافہ ہوتا ہے:(1)دُنیوی مَشَاغِل سے دُوری(2) پیٹ کا خالی ہونا(3) دُنیوی ساز وسامان سے ہاتھ خالی ہونا(4) اپنی عاقبت کے بارے میں غوروفکرکرنا کہ نہ جانے اَعمال مقبو ل ہوں گے یا نہیں ۔‘‘([135])
حضرت سَیِّدُنَا امام محمدبن محمدغزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی نے اپنی مایہ ناز کتاب’’کیمیائے سعادت‘‘ میں تَفَکُّر سے متعلق جو مدنی پھول بیان فرمائے ہیں اُن کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے:
انسان کی پیدائش تاریکی و جہل میں ہوئی ہے ۔لہٰذا اسے تاریکی سے نجات ،دنیا و آخرت میں سے بہترین راہ کا تعین اور یہ بات جاننے كی حاجت ہے کہ اپنی ہی ذات میں مشغول رہنا بہتر ہے یاخدائے ذوالجلال کی یاد میں مشغول رہنا ؟اور یہ باتیں نورِ معرفت کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتیں اور نورِ معرفت غور وفکر کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذامعلوم ہوا کہ غور وفکر تمام بھلائیوں کی اصل ہے۔([136])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غور وفکر کا دائرہ کاربہت وسیع ہے چونکہ ہمارا مقصود دینی اُمور میں غوروفکر ہے لہٰذا اس سے متعلق چند باتیں بیان کی جاتی ہیں :
انسان کو چاہیے کہ ہر صبح کچھ دیر کے لیے اپنے مختلف اعضاءکے بارے میں غورو فکر کر ے۔ جن ناجائز وممنوع کاموں میں پڑنے کا اندیشہ ہو، اُن سے بچنے کے طریقے سوچے۔ اگر جھوٹ و غیبت وغیرہ میں زبان کے مبتلا ہونے کا خوف ہو تو ان سے بچنے کے طریقوں پر غور وفکر کرے ،حرام کھانے کا اندیشہ ہو تو اس
سے بچنے کی تدبیر کرے ۔([137])
اسی طرح اعمالِ صالحہ اور ان کی فضیلت میں غور وفکر کرے جتنے ممکن ہوں بجا لائے ، زبان کے بارے میں سوچے کہ اسے ذکر الٰہی اور مسلمانوں کی راحت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ لہٰذا میں اپنے ربّ کا ذکر کروں گا اور اچھی باتوں سے مسلمان بھائیوں کو راحت پہنچاؤں گا، اپنی آنکھ سے فلاں عالِمِ دین کوتعظیم کی نظر سے دیکھوں گا، اپنا مال مسلمانوں پر خرچ کروں گا اوراس معاملے میں ایثار سے کام لوں گا، روزانہ اس طرح غور وفکر کرے، ممکن ہے کسی لمحے ایسی سوچ نصیب ہوجو تمام عمر گناہوں سے باز رکھنے کا سبب بن جائے ۔ اسی لیے توایک ساعت کے غور وفکر کو سال بھر کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے کیونکہ اُس کا فائدہ تمام عمر باقی رہتا ہے۔جب ظاہری طاعات ومعاصی میں غور وفکر کرچکے تو اپنے باطن کی طرف متوجہ ہو کہ اُس میں کون کون سی برائیاں اوراچھائیاں ہیں ؟ تاکہ برائیوں سے بچ سکے اور اچھائیوں کو اپنا سکے۔اصل مُہْلِکَات( ہلاک کرنے والے ا عمال) دس ہیں :(۱)بخل(۲)تکبر(۳) عُجب(۴) رِیا(۵) حسد (۶) بدنظری (۷) کھانے کی حرص (۸)فضول گوئی (۹) مال سے محبت(۱۰) حُبِّ جاہ۔ اگر آدمی ان اُمور سے بچے تو یہ اسے کفایت کریں گے۔ مُنْجِیَات(نجات دلانے والے اعمال)بھی دس ہیں : (۱) گناہوں پر ندامت (۲)مصائب پر صبر(۳) تقدیرپرراضی رہنا(۴)شکرِنعمت (۵،۶)خوف و رِجَا کی درمیانی حالت (۷)دنیا سے بے رغبتی (۸) اعمالِ صالحہ میں اخلاص(۹) مخلوق کے ساتھ اچھا برتاؤ (۱۰)محبتِ الٰہی۔ ان صفات میں سے ہر صفت میں تَفَکُّرکی گنجائش ہے۔ انسان کو چاہیے کہ ایک رجسٹر میں یہ تمام صفات لکھ کر اُن کے حصول کے طریقوں میں غور و فکر کرے جو صفت حاصل ہو جائے اس پر نشان لگا دے پھر دوسری صفت میں مشغول ہو جائے۔ اسی طرح تمام صفات کو حاصل کرنے کی بھرپور سعی کرے ۔ اور صاحبِ علم کو تو غورو فکر کی بہت زیادہ حاجت ہے۔ مثلاً جوصاحبِ علم ظاہری برائیوں سے چھٹکارا پا چکا ہولیکن وہ اپنے علم پر غرور کرتاہو، نام ونمود کا طالب ہو، اپنی عبادات اور ظاہری حالت کو دکھاوے کی خاطر سدھارے، اپنی
تعریف پر خوش ہو، اگر کوئی کسی عیب کی نشاندہی کرے تو اس سے بغض و کینہ رکھے، اس سے انتقام لینے کے مواقع تلاش کرے۔تویہ پوشیدہ گندگیاں ہیں جوآدمی کے دین میں رُکاوٹ بن جاتی ہیں ۔توروزانہ غوروفکر کرناچاہیے تاکہ یہ برائیاں ختم ہوں ، اس کے لیے جلوت وخلوت یکساں ہو جائے اوراس کی نظر صرف اور صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف ہو۔ ([138])
زمین وآسمان کاذرہ ذرہ زبانِ حال سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پاکی، اس کی قدرتِ کاملہ اور اس کے لا محدود علم کو بیان کر رہا ہے ۔ مخلوق کے عجائب بے شمار ہیں ، اُن کی تفصیل ممکن نہیں ۔اگر سمندرروشنائی بن جائے ،تمام درخت قلم بن جائیں اور سب بندے زمانۂ دراز تک لکھتے رہیں تب بھی عجائبِ قدرت تمام نہیں ہوسکتے کہ ﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے:
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(۱۰۹) (پ۱۶، الکھف: ۱۰۹)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: تم فرمادواگر سمندر میرے ربّ کی باتوں کے لیے سیاہی ہوتوضرور سمندر ختم ہو جائے گا اور میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں گی اگرچہ ہم ویسا ہی اور اس کی مدد کو لے آئیں ۔
مخلوق کی دو قسمیں ہیں (۱) وہ مخلوق جس کی ہمیں خبر نہیں لہٰذا اس میں غور و فکر نہیں کیا جاسکتا۔ (۲)وہ مخلوق جس کے بارے میں ہمیں علم ہے، پھر یہ مخلوق بھی دو طرح کی ہے: ایک وہ جسے ہم دیکھ نہیں سکتے جیسے عرش و کرسی، ملائکہ اور جنات وغیرہ اور دوسری وہ مخلوق جسے ہم دیکھ سکتے ہیں جیسے آسمان، زمین چاند،سورج، ستارے، زمین اور اس پر موجود پہاڑ،جنگلات،سمندراور بستیاں ، جواہرات اور دوسری معدنیات ، طرح طرح کے نباتات، خشکی وسمندر میں موجود طرح طرح کے حیوانات ،بادل، بارش، برف، اولے ،بجلی، کڑک، کہکشاں اور ہوا میں موجود کئی طرح کی نشانیاں اورزمین وآسمان میں سب سے زیادہ حسین
ترین مخلوق انسان،الغرض اِن سب میں سے ہر ایک میں غور و فکر کامیدان بہت وسیع ہے۔یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کاریگری کے عجائبات ہیں ۔ ہم یہاں اِن میں کچھ عجائبات کی طرف اشارہ کریں گے ۔خدا ئے رحمٰن ورحیم نے قرآن ِکریم میں ارشاد فرمایا:
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْهَا وَ هُمْ عَنْهَا مُعْرِضُوْنَ(۱۰۵) (پ۱۳، یوسف: ۱۰۵)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور کتنی نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں کہ اکثر لوگ ان پر گزرتے ہیں اور ان سے بے خبر رہتے ہیں ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍۙ- (پ۹، الاعراف: ۱۸۵)ترجمہ ٔ کنزالایمان: کیاا نہوں نے نگاہ نہ کی آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں اور جو چیز اللہ نے بنائی۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ(۱۹۰) (پ۴، آل عمران: ۱۹۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے۔
ان کے علاوہ اوربھی کئی آیاتِ مبارکہ میں عجائب قدرت میں غور وفکر کا بیان ہے۔([139])
(اے لوگو) زمین پر تم سے زیادہ عجیب وغریب کوئی چیز نہیں مگر تم اپنے وجود سے بے خبر ہو۔ تمہیں نِد اکی جاتی ہے کہ اپنے آپ کو پہچانو تاکہ رَبِّ قدیر کی عظمت وجلالت سے آشنائی ہو، ارشاد باری تعالٰی ہے :
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ(۲۰)وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(۲۱) (پ:۲۶،الذاریات:۲۰، ۲۱)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کو اور خود تم میں تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں ۔
تم ذرا اپنی پیدائش پر غور کرو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے تمہیں پانی کے ایک قطرے ( نطفے )سے پیدا کیا ۔اسے پہلے تمہارے باپ کی پشت، پھر ماں کے بطن میں ٹھہرایا ، ماں باپ میں شہوت رکھی ، ماں کے رحم کو کھیتی اور باپ کے نطفے کو بیج بنایا۔رحمِ مادر میں نطفے کو پہلے خون کی شکل دی، پھرگوشت کا لوتھڑا بنایا،پھر اس میں جان ڈالی، پھر اس سے تمہارے اعضاء بنائے،سر کو گول بنایا، دولمبے ہاتھ اور دوپاؤں بنائے، انگلیاں بنائیں ، انگلیوں میں پورے بنائے،اعضا کو ہڈیوں ، رگوں ،پٹھوں ، گوشت اور کھال سے بنایا۔
اپنی آنکھ کو دیکھو کہ حجم میں اَخروٹ سے بڑی نہیں ،لیکن اس میں سات پردے بنائے ،ہر پردے کی صفت علیحدہ علیحدہ بنائی۔اگران میں سے ایک بھی خراب ہو جائے تو آنکھ کی روشنی میں خلل واقع ہو جائے۔ اپنی آنکھ پر غور کرو، اس کو سات طبقات سے پیدا کیا اورایسی شکل وصورت میں بنایا کہ اس سے بہتر مُتَصَوَّر نہیں ۔ سیاہ وسیدھی پلکیں بنائیں تاکہ گرد وغبار سے حفاظت ہو، خوبصورتی بڑھے اور اشیاء کومسلسل دیکھنا ممکن ہو۔کتنی عجیب بات ہے کہ آسمان وزمین اپنی وُسْعَتُوں کے باوجود آنکھ کے چھوٹے سے تِل سے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ آسمان اتنی دوری کے باوجود نظر آ جاتا ہے۔ ان کے علاوہ آنکھوں کے بے شمار عجائب ہیں جن کی تفصیل کے لیے دفتر درکار ہیں ۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1] …خزائن العرفان، پ۲۱، الاحزاب ، تحت الآیۃ: ۲۲۔
[2] …تفسیرکبیر،پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۳/۴۳۲ ملخصا۔
[3] …تفسیر روح البیان، پ۱۹، الفرقان ، تحت الآیۃ:۵۸، ۶/ ۲۳۳۔
[4] …تفسیر روح البیان، پ۱۳، ابراھیم، تحت الآیۃ:۱۱، ۴/۴۰۳۔
[5] …تفسیر خازن،پ۴،آل عمران،تحت الآیۃ:۱۵۹، ۱/ ۳۱۶۔
[6]…تفسیر بغوی،پ۲۸،الطلاق،تحت الآیۃ:۳، ۴/۳۲۸۔
[7]…تفسیر درمنثور،پ۹،الانفال،تحت الآیۃ:۲ ، ۴/۱۱۔۱۲ملتقطا۔
[8]…التعریفات، ص۱۷۹۔
[9]…خزائن العرفان، پ۴،آلِ عمران،تحت الآیۃ:۱۵۹۔
[10]…فتح الباری،کتاب الرقاق، باب یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب،۱۲/ ۳۵۰ ، تحت الحدیث:۶۵۴۱ ملخصا۔
[11]…فتح الباری،کتاب الرقاق، باب یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب،۱۲/ ۳۵۰، تحت الحدیث:۶۵۴۱ ملخصا۔
[12]…رسالۃ قشیریۃ،باب التوکل، ص۲۰۰۔
[13] …رسالۃ قشیریۃ، باب التوکل، ص۲۰۶ ملخصا۔
[14] …مسلم، کتاب الایمان ، باب الدلیل علی دخول طوائف ۔۔۔الخ، ص ۱۳۶، حدیث:۲۲۰، بدون شیئا۔
[15]…مرآۃ المناجیح ، ۷/۱۰۹۔۱۱۰ ملتقطا۔
[16] …مرآۃ المناجیح ، ۷/۱۱۰ملتقطا۔
[17] …بدشگونی کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لیے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۱۲۸صفحات پر مشتمل کتاب ’’بدشگونی‘‘ کا مطالعہ فرمائیے۔
[18] …عمدۃ القاری، کتاب الطب ،باب من اکتویٰ اوکوی غیرہ ۔ ۔۔الخ ،۱۴/۶۹۰، تحت الحدیث:۵۷۰۵ ملتقطا۔
[19] …مرآۃ المناجیح ، ۷/۱۱۰۔
[20]…عمدۃ القاری، کتاب الطب ،باب من اکتویٰ اوکوی غیرہ ۔۔ ۔الخ ،۱۴/۶۹۰، تحت الحدیث:۵۷۰۵۔
[21] …شرح مسلم للنووی،کتاب الایمان، باب الدلیل علی دخول طوائف من المسلمین۔۔۔ الخ، ۲/۸۹، الجزء الثالث۔
[22]…فتح الباری، کتاب الرقاق، باب یدخل الجنۃسبعون الفا بغیر حساب،۱۲/۳۵۲۔ ۳۵۳ ، تحت الحدیث:۶۵۴۲ ملخصا۔
[23]…تفہیم البخاری،۸/۷۷۴۔
[24]…بخاری، کتاب الطب، باب الرقی بفاتحۃ الکتاب، ۴/ ۳۰، حدیث:۵۷۳۶۔
[25]…بخاری، کتاب الطب، باب رقیۃ العین، ۴/ ۳۱، حدیث:۵۷۳۸۔
[26]……بخاری، کتاب الطب، باب رقیۃ الحیۃ والعقرب ، ۴/ ۳۲، حدیث:۵۷۴۱۔
[27]…بخاری کتاب الطب ،باب رقیۃ النبی،۴/۳۲، حدیث:۵۷۴۲۔
[28]…مسلم ،کتاب السلام ،باب الطب والمرضی والرقی،ص۱۲۰۱، حدیث:۲۱۸۵۔
[29]…مسلم ،کتاب السلام ،باب رقیۃ المریض بالمعوذات والنفث ،ص۱۲۰۵،حدیث:۲۱۹۲۔
[30]…ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی اللبس، ۹/ ۶۰۰۔
[31]…بہار شریعت، ۳/۴۱۹، حصہ۱۶۔
[32]… مسلم،کتاب الذکروالدعا،باب التعوذمن شر ما عمل ۔۔۔ الخ، ص۱۴۵۶،حدیث:۲۷۱۷۔
[33]… عمدۃ القاری،کتاب التھجد،باب التھجدباللیل،۵/۴۴۳، ۴۴۴، تحت الحدیث:۱۱۲۰ملخصا۔
[34]…مرآۃ المناجیح، ۴/۶۰۔
[35]…دلیل الفالحین، باب فی الیقین والتوکل، ۱/۲۷۱، تحت الحدیث: ۷۵۔
[36]… مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الدعوات،باب الاستعاذۃ، ۵/۳۱۹، ۳۲۰، تحت الحدیث:۲۴۶۳ملخصا۔
[37]… کیمیائے سعادت ، ۲/۹۳۱۔
[39]… عیون الحکایات،الحکایۃ الثالثۃ العشرۃ بعد المأتین،ص۲۱۰ملخصا۔
[40]…بخاری،کتاب التفسیر،سورۃ آلِ عمران،باب ان الناس قدجمعوا لکم فاخشوھم،۳/۱۹۶،حدیث:۴۵۶۳۔۴۵۶۴۔
[41]…تفسیر روح البیان، پ۱۷،الانبیاء،تحت الآیۃ: ۶۹،۵/۴۹۸ ملخصا۔
[42]…تفسیرنعیمی، پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۳، ۴/۳۵۲۔
[43]… تفسیر روح المعانی، پ۴، آل عمران ، تحت الآیۃ: ۱۷۳، الجزء الرابع، ص۴۶۳۔
[44]… تفسیرنعیمی،پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ:۱۷۳، ۴/۳۵۳۔
[45]…مسلم،کتاب الجنۃ۔۔۔الخ،باب یدخل الجنۃ اقوام۔۔۔الخ، ص۱۵۲۲، حدیث:۲۸۴۰۔
[46]…شرح مسلم للنووی،کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا ،۹/۱۷۷،الجزٰ السابع عشر۔
[47]…مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الفتن ،باب صفۃ الجنۃ واھلھا، ۹/۵۹۳، تحت الحدیث :۵۶۲۵ملتقطا۔
[48]…مرآۃالمناجیح ،۷/۴۸۸۔
[49]… طبقات کبری، سلمان فارسی،۴/۷۰ ۔
[50]…بخاری، کتاب الجھاد والسیر،باب من علق سیفہ بالشجر فی السفر۔۔۔الخ،۲/۲۸۴،حدیث:۲۹۱۰۔
[51]…بخاری، کتاب المغازی،باب غزوۃ ذات الرقاع،۳/۶۰،حدیث:۴۱۳۶۔
[52]…مسند امام احمد، مسند جابر بن عبداللہ، ۵/۲۰۱، حدیث: ۱۵۱۹۲۔
[53]…مرآۃالمناجیح،۷/۱۱۹ملتقطا۔
[54]…بخاری،کتاب الفتن ، باب قول النبی:الفتنۃ من قبل المشرق،۴/۴۴۱، حدیث:۷۰۹۴۔
[55]…مرآۃالمناجیح،۷/۱۲۰۔
[56]…زرقانی علی المواھب، کتاب المغازی، غزوۃ غطفان، ۲/۳۷۹ ۔ ۳۸۱ ملتقطا۔
[57]…عمدۃ القاری، کتاب الجھاد والسیر، باب من علق سیفہ بالشجر فی السفر۔۔۔الخ، ۱۰/۲۳۱ ، تحت الحدیث:۲۹۱۰ملتقطا۔
[58]…سیرت مصطفی، ص۲۸۶۔
[59]…مرقاۃ المفاتیح،کتاب الرقاق، باب التوکل والصبر،۹ /۱۶۸، تحت الحدیث:۵۳۰۴۔
[60]…ترمذی، کتاب الزھد، باب فی التوکل علی اللہ، ۴/۱۵۴، حدیث:۲۳۵۱ بتغیر قلیل۔
[61]…مرقاۃ المفاتیح،کتاب الرقاق ، باب التوکل والصبر،۹ /۱۵۷،تحت الحدیث:۵۲۹۹۔
[62]…مرقاۃ المفاتیح،کتاب الرقاق ، باب التوکل والصبر،۹ /۱۵۷،تحت الحدیث:۵۲۹۹ملخصا۔
[63]…مرآۃالمناجیح ، ۷/۱۱۳۔
[64]…درۃ الناصحین، المجلس السابع والعشرون فی بیان الرزق، ص۹۹ملخصا۔
[65]…درۃ الناصحین، المجلس السابع والعشرون فی بیان الرزق، ص۹۹۔
[66]…بخاری،کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی انزلہ بعلمہ والملائکۃ یشھدون، ۴/۵۷۱،حدیث:۷۴۸۸ بتغیر قلیل۔
[67]…بخاری، کتاب الدعوات، باب اذا بات طاھرا، ۴/۱۹۱،حدیث: ۶۳۱۱مفصلا۔
[68]…دلیل الفالحین، باب فی الیقین والتوکل،۱/۲۷۹،تحت الحدیث:۸۰۔
[69]…عمدۃ القاری،کتاب الوضوء، باب فضل من بات علی الوضوء،۲/۶۹۶، تحت الحدیث:۲۴۷۔
[70]…شرح مسلم للنووی،کتاب الذکروالتوبۃ والاستغفار،باب الدعاعند النوم ،۹/۳۲ ، الجزء السابع عشر ماخوذا۔
[71]…مرآۃ المناجیح ، ٤/۵۔۶ملتقطا۔
[72]…مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ، ص۱۲۹۸،حدیث:۲۳۸۱ بتقدم وتاخر۔
[73]…شرح مسلم للنووی،کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل ابی بکر الصد یق،۸/۱۴۹،الجزء الخامس عشرملخصا۔
[74]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الفضائل ، باب فی المعجزات،۱۰/۱۸۴، تحت الحدیث:۵۸۶۸۔
[75]…مرآۃ المناجیح، ٨/١٦٢۔
[76]… لباب الاحیاء،ص ۳۴۵۔
[77]…ا بوداود،کتاب الادب، باب ما یقول اذا خرج من بیتہ ،۴ /۴۲۰،حدیث:۵۰۹۴، بدون کان اذا خرج الی علی اللہ۔
[78]…شرح الطیبی، کتاب الدعوات، باب الدعوات فی الاوقات ،۵/۱۹۴،تحت الحدیث:۲۴۴۲ملخصا۔
[79]…مرآۃ المناجیح، ۴/۴۷۔
[80]…ترمذی،کتاب ا بواب الدعوات، باب ما یقول اذا خرج من بیتہ،۵/۲۷۰،حدیث:۳۴۳۷ بدون ھدیت۔
[81]…ا بوداود،کتاب الادب، باب ما یقول اذا خرج من بیتہ،۴ /۴۲۰،حدیث:۵۰۹۵۔
[82]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الدعوات، باب الدعوات فی الاوقات، ۵/۲۹۷، تحت الحدیث:۲۴۴۳ ملخصا۔
[83]…مرآۃ المناجیح، ۴/۴۸ ملتقطا۔
[84]…مرآۃ المناجیح، ۴/۴۸۔
[85]…ترمذی، کتاب الزھد، باب فی التوکل علی اللہ، ۴/۱۵۴، حدیث:۲۳۵۲ بتغیر قلیل۔
[86]…مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الرقاق،باب التوکل والصبر،۹/۱۷۰،تحت الحدیث:۵۳۰۸۔
[87]…دلیل الفالحین، باب فی الیقین والتوکل،۱/۲۸۷، تحت الحدیث:۸۴ ملخصا۔
[88]…اشعۃ اللمعات، کتاب الرقاق ، باب التوکل و الصبر،۴ /۲۶۲ ملخصا۔
[89]…مرآۃ المناجیح، ۷/۱۲۲، ۱۲۳ ملتقطا۔
[90]…تفسیر خازن،پ۱۲،ھود ،تحت الآیۃ:۱۱۲، ۲/۳۷۳۔
[91]…شرح مسلم للنووی،کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام،۱/۸، الجزء الثانی۔
[92]…نورالعرفان، پ۱۲، ھود، تحت الآیۃ: ۱۱۲۔
[93]…خزائن العرفان، پ۲۴، حم السجدۃ، تحت الآیۃ: ۳۰۔
[94]…تفسیر کبیر، پ۲۶، الاحقاف ، تحت الآیۃ:۱۳، ۱۰/۱۳۔
[95]…تفسیر طبری، پ۲۶،الاحقاف ، تحت الآیۃ:۱۳، ۱۱/۲۸۳۔
[96]…مسلم، کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام، ص۴۰،حدیث:۳۸ بتغیر قلیل۔
[97]…شرح الطیبی، کتاب الایمان، الفصل الاول،۱/۱۳۴،تحت الحدیث:۱۵۔
[98]…مرآۃ المناجیح، ۱/۳۵۔
[99]…شرح مسلم للنووی،کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام،۱/۸، الجزء الثانی۔
[100]…شرح مسلم للنووی،کتاب الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام،۱/۸، الجزء الثانی۔
[101]…بخاری، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل، ۴/۲۳۷، حدیث:۶۴۶۵۔
[102]…الخیرات الحسان، الفصل الرابع عشر،ص۵۰۔
[103]…مسلم،کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار،باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ ۔۔۔الخ، ص۱۵۱۳،حدیث:۲۸۱۶۔
[104]…شرح الطیبی، کتاب الدعوات، باب سعۃ رحمۃ اللہ،۵/۱۳۹،تحت الحدیث:۲۳۷۱ ملتقطا۔
[105]…شرح مسلم للنووی،کتاب صفۃ المنافقین،باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ،۹/۱۵۹،الجزء السابع عشر ملخصا۔
[106]…شرح مسلم للنووی،کتاب صفۃ المنافقین،باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ،۹/۱۶۰،الجزء السابع عشر ماخوذا۔
[107]…فتح الباری، کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل،۱۲/۲۵۱، تحت الحدیث:۶۴۶۳۔
[108]…مرآۃ المناجیح، ۳/۳۸۳۔
[109]…مرآۃ المناجیح، ۳/۳۸۳ ملتقطا۔
[110]…تفسیرخازن، پ۲۲، سبا، تحت الآیۃ:۴۶، ۳/۵۲۶ ملخصا۔
[111]…تفسیرکبیر ، پ۲۲،سبا،تحت الآیۃ:۴۶ ،۹/۲۱۴ملتقطا۔
[112]…تفسیرخازن، پ۴،آل عمران، تحت الآیۃ:۱۹۰، ۱/۳۳۵ ملخصا۔
[113]…تفسیرکبیر،پ۴،آل عمران، تحت الآیۃ:۱۹۰ ، ۳/۴۵۸ ملخصا۔
[114]…تفسیر در منثور، پ۳۰،الغاشیۃ، تحت الآیۃ: ۱۷ تا ۲۱ ،۸/۴۹۴ ملخصا۔
[115]…تفسیر خازن، پ۱۳، یوسف،تحت الآیۃ:۱۰۹، ۳/۴۹ ملتقطا۔
[116]…تفسیر طبری، پ۱۳، یوسف،تحت الآیۃ:۱۰۹، ۷ / ۳۱۵۔
[117]…تفسیرخازن،پ۴،آلِ عمران ،تحت الآیۃ:۱۹۰،۱۹۱، ۱ /۳۳۶ ملتقطا۔
[118]…التعریفات،ص ۴۶۔
[119]…تفسیر درمنثور، پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ:۱۹۱، ۲/۴۰۷۔
[120]…تنبیہ الغافلین، باب التفکر، ص۳۰۸۔
[121]… تفسیر د ر منثور، پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ:۱۹۱ ،۲/۴۰۹ ملتقطا۔
[122]…العظمۃ للاصبھانی، ما ذکر من الفضل فی المتفکر فی ذلک، الجزء الاول، ص۲۹۷، حدیث: ۴۲۔
[123]…تفسیر د ر منثور، پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ:۱۹۱ ،۲/۴۰۹ ملتقطا۔
[124]…تفسیر روح البیان، پ۴، آل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۱، ۲/ ۱۴۵۔
[125]…شعب الایمان،کتاب تعظیم القران، فصل فی قراۃ القران من المصحف،۲/ ۴۰۸،حدیث:۲۲۲۲۔
[126]…احیاء العلوم، کتاب التفکر، ۵/۱۶۲، ۱۶۳ملتقطا۔
[127]…فیض القدیر، حرف المیم،۵/۶۷۲، تحت الحدیث: ۸۱۹۲۔
[128]… مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ ۔۔۔الخ،ص۸۱، حدیث :۱۳۴۔
[129]…تنبیہ الغافلین ، باب التفکر، ص۳۰۸ ۔
[130]…تنبیہ الغافلین ، باب التفکر، ص۳۰۸۔۳۰۹ ملتقطا۔
[131]…تنبیہ الغافلین ، باب التفکر، ص ۳۰۹۔
[132]…تنبیہ الغافلین ، باب التفکر، ص ۳۰۹۔
[133]…تنبیہ الغافلین ، باب التفکر، ص ۳۰۹۔
[134]…تنبیہ الغافلین ، باب التفکر، ص ۳۰۹۔
[135]…تنبیہ الغافلین ، باب التفکر، ص ۳۰۹۔
[136]… کیمیائےسعادت،۲/۹۰۱ ملخصا۔
[137]… کیمیائے سعادت،۲/۹۰۳ ملخصا۔
[138]…کیمیائے سعادت ،۲/۹۰۳ ملخصا۔
[139]…کیمیائے سعادت ،۲/۹۰۶ ملخصا۔