نفل کی جماعت کا حکم:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نوافل کی جماعت میں اگر امام کے سوا تین آدمی ہوں تو بلا اختلاف جائز ہے ا ورتین سے زیادہ ہوں تو مکروہ تنزیہی ،خلاف اولیٰ ہے یعنی نہ کرنا بہتر ہے لیکن کی جائے تو کوئی ناجائز و گناہ نہیں اور بعض کے نزدیک مطلقاً جائز ہے بلکہ بہت سے اَ کابرِ دین سے نوافل کی جماعت ثابت ہے اور متأخرین فقہاء نے لوگوں کی نیکیوں کی طرف رغبت کم ہونے کی وجہ سے نوافل کی جماعت کے جواز ہی کا فتویٰ دیا ہے کہ عوام کو نمازسے دُورکرنے سے زیادہ بہتریہ ہے کہ انہیں نمازکی طرف راغب رکھاجائے اور اس سے بالکل منع نہ کیا جائے ۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰنارشاد فرماتے ہیں :’’نفل غیرتراویح میں امام کے سواتین آدمیوں تک تواجازت ہے ہی چارکی نسبت کتب فقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں یعنی کراہت تنزیہ جس کاحاصل خلاف اولیٰ ہے نہ کہ گناہ حرام۔ کَمَابَیَّنَّاہُ فِیْ فَتَاوَانَا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاویٰ میں بیان کیا) مگر مسئلہ مختلف فیہ ہے اوربہت اکابردین سے جماعت نوافل بِالتَّدَاعِی ثابت ہے اورعوام فعلِ خیرسے منع نہ کیے جائیں گے۔ علمائے اُمَّت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایاہے درمختارمیں ہے: بحرعوام کو تکبیرات اورنوافل سے کبھی بھی منع نہ کیاجائے کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں ان کی رغبت کم ہوتی ہے۔حدیقہ ندیہ میں ہے:اسی قبیل سے نمازغائب کاجماعت کے ساتھ اداکرنااورلیلۃ القدر کے موقع پر نمازوغیرہ بھی ہیں اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے مگر عوام میں یہ فتویٰ نہ دیاجائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو،علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیاہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جوازپرلکھا ہے ،عوام کونمازکی طرف راغب رکھناانہیں نفرت دلانے سے کہیں بہترہوتاہے۔‘‘([1])

خلافِ ترتیب قراءت کا مسئلہ:

مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےپہلے سورۂ بقرہ پڑھی پھر سورۂ نساء پڑھی اس کے بعد سورۂ آلِ عمران پڑھی جبکہ قرانی ترتیب کے لحاظ سے سورۂ آلِ عمران، سورۂ نساء سے  پہلے آتی ہے،اسی وجہ سے فقہائے کرام کے مابین یہ اختلاف واقع ہوا کہ آیا نماز میں خلافِ ترتیب قرآن پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟شوافع کے نزدیک کسی بھی مقام پر خلافِ ترتیب قرآن پڑھنا مطلقاً جائز ہےکیونکہ اس سے کسی بھی حدیث میں منع نہیں فرمایا گیا، نیز یہ ترتیب توقیفی نہیں بلکہ اجتہادی یعنی بعد میں کی گئی ہے۔([2])جبکہ احناف کے نزدیک فرض نماز میں خلافِ ترتیب پڑھنا مکروہ تحریمی اورنفل میں جائز ہے۔نیز احناف کے نزدیک سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے اورحضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے ہے،مصحفِ عثمانی کو اُسی ترتیب پر مرتب کیا گیا جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیان فرمائی ۔ ([3])

صدر الشریعہ، بدرالطریقہ حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’ترتیب کے ساتھ قران مجید پڑھنا واجب ہے اور خلاف ترتیب پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یہ حکم فرائض کا ہے اور نوافل میں خلاف ترتیب پڑھنے کی اجازت ہے ۔‘‘([4]) نماز میں خلاف ترتیب پڑھنا مکروہ تحریمی ہے مگر کسی نے بھول کر خلاف ترتیب پڑھ لیا تو اس سے سجدہ سہو واجب نہ ہوگا اور نہ ہی نماز کا اعادہ لازم ہے کہ یہ


 

 واجباتِ قراءت میں سے ہے واجباتِ نماز میں سے نہیں ۔البتہ کسی نے جان بوجھ کر خلافِ ترتیب پڑھا تو گنہگار ضرور ہوگا  اور اگر بعدوالی سورت پڑھنے کا اِرادہ تھا لیکن غیر اِرادی طور پر پہلے والی سورت شروع کردی تو اب خلافِ ترتیب ہونے کے باوجود گنہگار نہ ہوگا کہ غیر اِرادی طور پر خلاف ہوا، البتہ اب یہی سورت پڑھنا ہوگی کہ اس کو شروع کرنے سے اس کا حق ہوگیا اور اب اسے چھوڑنا قصداً چھوڑنا ہوگا۔ چھوٹے بچوں کو ضرورت تعلیم کی وجہ سے خلافِ ترتیب پڑھانا جائز ہے۔‘‘([5])

دورانِ نماز تسبیح، تحمید اور تَعَوُّذ کا حکم:

          حدیث پاک میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ’’جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی ایسی آیت کی تلاوت فرماتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی تسبیح بیان کرتے ،سوال ہوتا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے سوال کرتے اورتَعَوُّذ ہوتا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے پناہ مانگتے ۔ ‘‘اسی طرح بعض احادیث میں اس بات کا بھی بیان ہے کہ ’’جس آیت میں جنت یا دیگر نعمتوں کا تذکرہ ہوتاتو آپ بارگاہ الٰہی سےجنت اور نعمت کا سوال کرتے اور جب آیت عذاب پڑھتے یا جہنم کا ذکر ہویا پھر وعید کا ذکر ہوتا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے پناہ طلب کرتے۔‘‘

واضح رہے کہ امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے نزدیک فرائض ونوافل میں دورانِ تلاوت تسبیح، تحمید اور تَعَوُّذ کرنا مطلق جائز ہے جبکہ اَحناف اور مالکیہ کے نزدیک نوافل میں مطلق جائزہے اور فرض میں خلافِ اَولیٰ، نیز حدیث پاک میں جس نماز کا ذکر ہے وہ بھی نفل نماز تھی۔چنانچہ مُفَسِّرشَہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’یہاں نفل نماز مراد ہے فرائض میں دَورانِ قراءت ٹھہرنا اور مانگنا مستحب کے خلاف ہے اگرچہ جائز ہے۔‘‘([6])

عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ حدیث پاک نفل نماز پر محمول ہے۔ صاحب محیط فرماتے ہیں کہ انفرادی طورپر نفل پڑھنے والے کے لیے جائز ہے کہ جب وہ ایسی


 

 آیت پڑھے جس میں جہنم کا ذکر ہو تووہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے پناہ مانگے اور جس آیت میں جنت کا ذکر ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ  سے جنت کا سوال کرےاور صاحب محیط اس حدیث پاک کی بناء پر اس عمل کو مستحب کہتے ہیں ۔ اور اگر نفل جماعت کے ساتھ ادا کیے جارہے ہیں تو امام و مقتدی دونوں کے لیےایسا کرنا مکروہ ہے۔ امام کے لیے اس وجہ سے مکروہ ہے کہ اس سے نماز طویل ہوگی اور نمازیوں پر یہ شاق ہوگا اور مقتدی کے لیے اس بناء پر مکروہ ہے کہ اسے تو امام کی قراءت سننے اور تلاوت کےوقت خاموش رہنے کا حکم ہے ۔ نیز اگر کوئی شخص اِنفرادی طورپر فرض نماز ادا کررہا ہے تواس کے لیے بھی قراءت کے درمیان میں تسبیح، تحمید اور تعوذ کرنا مکروہ ِ(تنزیہی وخلافِ اَولیٰ)ہے کیونکہ اس سےتلاوت قرآن پاک کا تسلسل منقطع ہوگا اور یہ مکروہ ہے۔ نفل نماز میں یہ نص سے ثابت ہے اس لیے وہاں یہ حکم نہ ہوگا۔([7])

تسبیحاتِ رکوع و سجودکی قرآن سے مُوافقت:

حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجب رکوع میں جاتے تو”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ“پڑھتے اور جب سجدے میں جاتے تو”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی“ پڑھتے۔ رکوع و سجود کی یہ تسبیحات بھی قرآنِ کریم کی موافقت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی اُمَّت کو عطا فرمائیں ۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنَا عُقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،فرماتے ہیں :’’جب یہ آیت نازل ہوئی:(فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِیْمِ۠(۷۴)) (پ۲۷، الواقعہ: ۷۴) تو رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اسے اپنے رکوع میں شامل کرلو اور جب یہ آیت نازل ہوئی:(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَىۙ(۱))(پ۳۰، اعلی: ۱)نازل ہوئی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اسے اپنے سجدے میں شامل کر لو۔‘‘([8])

مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْحَنَّان اس کے تحت فرماتے ہیں :’’(رکوع یا سجدے میں شامل کرنے سے مراد یہ ہے) یعنی رکوع میں کہو:سُبْحٰنَ رَبِّیَ


 

الْعَظِیْماور سجدے میں کہو: سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔‘‘([9])

ایک لطیف نکتہ:

یہاں ایک لطیف نکتہ قابل ذکر ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم رکوع کے ساتھ اور سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی  کو سجدے کے ساتھ خاص فرمایا اس کا عکس نہ فرمایا۔ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیاس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’لفظ ’’اعلیٰ‘‘ لفظ’’عظیم‘‘سے زیادہ بلیغ ہے اور رکوع کے مقابلے میں سجدے میں زیادہ تواضع و انکساری ہے۔ اس ‏لیے عاجزی میں جو لفظ زیادہ بلیغ ہے اُسے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےسجدے کے ‏لیے مُعَیَّن فرمادیا اور سجدے میں بندہ اپنے ربّ کا زیادہ قرب پاتا ہے اس لیے اس میں اعلیٰ تسبیح پڑھنا مستحب ہے۔‘‘([10])

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے رکوع و سجود کے اَذکار کوئی اور تھے ۔چنانچہ مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’معلوم ہوتا ہے کہ ان آیتوں کے نزول سے پہلےمسلمان رکوع وسجدوں میں کوئی اور ذکر کرتے تھے۔‘‘([11])

ایک اہم وضاحت:

مذکورہ حدیث مبارکہ میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے طویل رکوع وسجود کا ذکر ہے جبکہ بعض احادیث میں اس بات کا بیان ہے کہ آپ کے رکوع وسجود طویل نہ ہوتے تھے۔دونوں طرح کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ جن احادیث میں رکوع وسجود کی طوالت کابیان ہے ان میں نوافل کی نماز مراد ہے اور جن میں طویل نہ ہونے کا بیان ہے ان میں فرض نماز مراد ہے۔ چنانچہ مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ


 

رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’ان کے سوا باقی اَرکان رکوع سجدہ وغیرہ برابر ہوتے تھے نہ بہت دراز نہ بہت مختصر بلکہ درمیانے،یہ عام (یعنی فرض)نمازوں کا ذکر ہے، (جبکہ)سورج گرہن کی (نفل)نماز میں رکوع سجدہ، قیام کے برابر تھے۔‘‘([12])

مدنی گلدستہ

’’چل مدینہ‘‘کے7حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے7مدنی پھول

(1)       حضرت سَیِّدُنَا حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو یہ عظیم سعادت حاصل تھی کہ منافقین کے متعلق آپ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراز تھے۔

(2)       نماز تہجد کی ادائیگی حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عظیم سنت ہے۔

(3)       نوافل میں اقتداء کرنا اور نماز تہجد کو طویل کرنا دونوں سنت سے ثابت ہیں ۔

(4)       قرآنی سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے اس لیے فرض نماز میں خلاف ترتیب سورتوں کی تلاوت کرنا مکروہ تحریمی ہے البتہ سجدۂ سہو کا حکم نہ ہوگا کہ یہ قراءت کے واجبات میں سے ہے نماز کے نہیں ۔

(5)       نوافل میں خلافِ ترتیب قراءت کرنا جائز ہے کہ یہ نص سے ثابت ہے۔

(6)       چھوٹے بچوں کو ضرورتِ تعلیم کی وجہ سے خلافِ ترتیب پڑھانا جائز ہے۔

(7)       رکوع میں سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سجدے میں سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھنا سنت ہے۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل کی کثرت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے، ہمیں نماز تہجد کی ادائیگی جیسی عظیم سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

حدیث نمبر :103                            

نَمَازِ تَہَجُّد  میں طویل قِیام کرنا

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: صَلَّیْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃً،فَاَطَالَ الْقِیَامَ حَتّٰی ہَمَمْتُ بِاَمْرِسُوْ ءٍ، قِیْلَ  وَمَا ہَمَمْتَ بِہٖ؟ قَالَ: ہَمَمْتُ اَنْ اَجْلِسَ وَاَدَعَہُ. ([13])

ترجمہ  : حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بہت ہی طویل قیام فرمایا یہاں تک کہ میرے دل میں ایک بُرا خیال آیا۔‘‘ پوچھا گیا  کہ کیا بُرا  خیال آیا؟ تو فرمایا:’’میں نے ارادہ کیا کہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قیام میں چھوڑ کر بیٹھ جاؤں ۔‘‘

بیٹھ جانے کے اِرادے کی وجہ:

فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تندرست قوی جوان تھے اور حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دیوانے اور اتباع کے شوقین تھے۔ پھر انہوں نے بیٹھنے کا ارادہ اسی وقت کیا ہوگا جبکہ وہ بہت تھک گئے ہوں گے اتنا کہ کھڑا رہنا دشوار ہوگیا ہوگا۔اوریہ اسی وقت ہوگا جبکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قیام بہت طویل ہو۔‘‘([14])

عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’یہ نمازِتہجدتھی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عام طورپر جتنا قیام فرماتے اُس سے بہت زیادہ طویل قیام آپ نے  اس نمازِتہجد میں فرمایا۔‘‘([15])

قلبی اِرادے کو بُرا سمجھنے کی وجوہات:

حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُجب تھک گئے تو بیٹھنے کا اِرادہ کیا لیکن بیٹھے نہیں


 

 اور اپنے اِس اِرادے کو بُرا خیال کیا جبکہ آپ نے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اقتداء میں جو نماز پڑھی وہ نفل نماز یعنی نمازِتہجدتھی اور نفل میں بیٹھنا جائز ہے تو پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک جائز کام کے اِرادے کو بُراخیال کیوں کہا؟ شارِحینِ حدیث نے اس کی کئی وُجُوہات بیان فرمائی ہیں ۔چنانچہ،

عَلَّامَہ اَبُو الْعَبَّاس شَھَابُ الدِّیْن اَحْمَد اَلْقُسْطُلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں : ’’ہر چند کہ نفلی نماز میں بیٹھنا جائز ہے اس کے باوجودحضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا نماز میں بیٹھنے کو بُرا خیال قرار دینا محض اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے محبوب دانائے غیوبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَدَب کے پیش نظرتھا کیوں کہ آپ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھڑے رہیں اورعبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیٹھ جائیں یہ امر اَدب کے خلاف تھا اور اِس میں ظاہری اِعتبار سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مخالفت بھی تھی۔‘‘([16])

عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں :’’اس حدیث پاک میں اس بات پر دلیل ہے کہ امام کی مخالفت بہت بری بات ہے جبھی تو حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے امام کی مخالفت میں آنے والے خیال کو بُرا فرمایا (اور اگر امام حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہوں تو یہ اور بھی زیادہ برا ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی مخالفت کرنے سے ربّ عَزَّ  وَجَلَّنے منع فرمایا ہے اور اس پر وعید ہے۔ چنانچہ) اللہ عَزَّ  وَجَلَّارشاد فرماتا ہے:

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳)

                                                                                                                                        (پ:۱۸،النور: ۶۳)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان: تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پر دردناک عذاب پڑے۔([17])

عَلَّامَہ اَبُوْ زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ محض رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ادب کے پیش نظر نماز میں نہیں بیٹھے۔‘‘([18])


 

عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا نماز میں بیٹھنے کو بری بات قرار دینا اس وجہ سے تھا کہ یہ بات ادب کے خلاف تھی۔‘‘([19])

طویل قیام افضل یا کثرت رکوع و سجود؟

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نوافل میں طویل قیام افضل ہے یارکوع وسجود کی کثرت؟ اس سلسلے میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بعض علماء کے نزدیک طویل قیام افضل ہے کہ بندہ اگرچہ کم رکعتیں پڑھے مگر ان میں لمبی قراءت کرے، طویل قیام کرے اور بعض علماء کے نزدیک کثرت رکوع وسجوداَفضل کہ بندہ اگرچہ قراءت مختصر کرے مگر زیادہ سے زیادہ رکعات پڑھے کہ جتنی رکعتیں زیادہ ہوں گی اتنے  رکوع وسجدے زیادہ ہوں گے۔

کثرتِ رکوع وسجود کی اَفضلیت پر تین اَحادیث:

(1)حضرت سَیِّدُنَا ثوبان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ’’اَعمال میں سب سے افضل عمل رکوع و سجود کی کثرت کرنا ہے۔‘‘([20])

(2)حضرت سَیِّدُنَامخارق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سَیِّدُنَا ابو ذَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ آپ طویل قیام نہ کرتے بلکہ رکوع وسجود کی کثرت کرتے تھے۔ وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو فرماتے سنا  کہ ’’جس نے اچھی طرح رکوع کیا اور اچھی طرح سجدہ کیا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّاُس کا ایک درجہ بلند فرماتا اور اُس کا ایک گناہ مٹادیتا ہے۔‘‘([21])

(3)حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک نوجوان کو نماز میں طویل قیام کرتے  ہوئے دیکھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوکر پلٹا تو آپ نے فرمایا :’’اِسے کون جانتا ہے؟ ‘‘


 

ایک شخص نے کہا :’’میں جانتا ہوں ۔‘‘آپ نے فرمایا:’’اگر میں اسے جانتا تو ضرور رکوع و سجود کو طویل کرنے کا حکم دیتاکیونکہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب بندہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر اور کندھوں پر آجاتے ہیں اور وہ جب بھی رکوع و سجدہ کرتا ہے تو اس کے گناہ گِر جاتے ہیں ۔‘‘([22])

طویل قیام کی افضلیت پر تین احادیث:

(1)حضرت سَیِّدُنَا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے سوال کیا گیا کہ ’’کونسی نماز افضل ہے؟‘‘ فرمایا: ’’جس میں قیام لمبا ہو۔‘‘([23])

(2)حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بِنْ حُبْشِی خَثْعَمِیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صاحب لَولَاکصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دریافت کیا گیاکہ ’’کونسی نماز افضل ہے؟‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’طویل قیام والی نماز۔‘‘([24])

(3)حضرت سَیِّدُنَا حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہےکہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیچھے نماز ادا کی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک رکعت میں سورۂ بقرہ،سورۂ نساء اور سورۂ آل عمران تلاوت فرمائی۔([25])

                                      عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَرعَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیاس حدیث پاک کے متعلق فرماتے ہیں ’’رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےیہ سب کچھ دو یا دو سے زائد گھنٹوں میں ادا فرمایا ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے ساری رات شب بیداری فرمائی ہو۔بہر حال حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام عادتًا  جو عبادت فرماتے تھے وہ اس کے برعکس تھی کیونکہ حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی شب


 

بیداری کے متعلق جو روایات مروی ہیں ان میں تہائی رات کا ذکر ہے اور اس بات کی بھی وضاحت موجود ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام گیارہ 11 رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے تو تہائی رات میں گیارہ رکعت ادا کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم طویل قیام فرماتے تھے۔‘‘([26])

ایک اہم مسئلے کی وضاحت:

واضح رہے کہ جماعت میں قراءت مسنونہ پر زیادتی نہ کرنے کا حکم ہے، خصوصاً اس صورت میں جبکہ مقتدیوں پر زیادت گراں اور شاق ہو۔ چنانچہ صَدْرُالشَّرِیْعَہ، بَدرُالطَّرِیْقَہ، حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’(امام کو چاہیے کہ)قراء ت مسنونہ پر زیادت نہ کرے، جب کہ مقتدیوں پر گراں ہو اور شاق نہ ہو تو زیادتِ قلیلہ (یعنی تھوڑا سا زیادہ کرنے )میں حرج نہیں ۔‘‘([27])

دونوں اقسام کی احادیث میں تطبیق:

امام ابو جعفر احمد بن سلامہ طحاوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنَا ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی حدیث حضرت سَیِّدُنَا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ‏لیے رکوع و سجدہ کرے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کا ایک درجہ بلند کرے اور اس کا ایک گناہ مٹادے اور اگر رکوع و سجود کے ساتھ ساتھ وہ لمبا قیام بھی کرے تو یہ زیادہ افضل ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُسے اُس لمبے قیام کی وجہ سے اور زیادہ ثواب عطا فرمائے۔ حضرت سَیِّدُنَا ابو ذَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی حدیث کو اس معنی پر محمول کرنا زیادہ اَولیٰ ہے تاکہ وہ دوسری اَحادیث سے مُتَضَاد نہ ہو ۔([28])

عَلَّامَہ اَبُو الْعَبَّاس شَھَابُ الدِّیْن اَحْمَد اَلْقُسْطُلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :’’اس تمام بحث کا حاصل یہ ظاہر ہوا کہ یہ فضیلت اَشخاص و اَحوال کے مختلف ہونے سے بدل جاتی ہے۔‘‘([29]) (یعنی  کبھی طولِ


 

قیام اور کبھی کثرتِ رکوع و سجود افضل ہے اور آدمی کا ذوق و شوق جس جانب زیادہ مائل ہو وہ چیز اس کے لیے افضل ہے۔)

حدیث پاک سے ماخوذ چند مدنی پھول

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ حدیث پاک کے تحت شارحین نے جہاں فقہی اِعتبار سے بحث کی ہے، وہیں  اس حدیث سے کئی مدنی پھول بھی اخذ فرمائے ہیں ، چند مدنی پھول پیش خدمت ہیں :

٭……علماء واکابرین کا ادب واحترام: عَلَّامَہ اَبُوْ زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ علماء و اکابرین کا ادب کرنا چاہیے اور جب تک وہ خلافِ شرع کام نہ کریں قولی اور فعلی طور پر ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

٭……نفل کی جماعت اور نماز طویل کرنے کا جواز: اس حدیث پاک میں فرض نمازوں کے علاوہ دیگر نمازوں میں جماعت کے جائز ہونے اور رات میں نماز کو طویل کرنے کے مستحب ہونے کا ثبوت ہے۔([30])

٭……فقط غلط وسوسے پر پکڑ نہیں : علامہ سید محموداحمدرضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجد میں حضور قیام کو لمبا کرتے تھے ، (نیز یہ  بھی پتا چلاکہ) جو غلط وسوسہ پیدا ہو اور وہ عملی جامہ نہ پہنے تو آدمی گناہ گار نہیں ہوتا، حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہوامگر اللہنے انہیں بچالیا۔([31])

٭……اِمام کی مخالفت بُری ہے: عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں امام کے کسی فعل کے خلاف کرنا بُرا کام ہے۔

٭……اِبہام کی وضاحت طلب کرنے کا جواز: یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کے قول یا فعل میں کچھ ابہام ہو تو اس کے بارے میں دریافت کرنا جائز ہے، اسی لیے حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ


 

 سے آپ کے اصحاب نے پوچھا کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟اور پھر انہوں نے آپ کی بات کو سمجھ لیا، نیز سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی انہیں سوال کرنے سے منع نہ کیا۔([32])

نماز میں رسول اللہکا خیال اور ادب واحترام

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ حدیث پاک میں راویٔ حدیث یعنی حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے حوالے سے درج ذیل دو باتیں نہایت ہی ایمان افروز ہیں :

(۱)پہلی بات تو یہ کہ حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنماز ادا کررہے ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہیں ، اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی عبادت کررہے ہیں ،مگر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کاخیال اور توجہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذاتِ مبارکہ کی طرف لگے ہوئے تھے کہ ہوسکتا ہے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمابھی رکوع میں تشریف لے جائیں یہاں تک کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُتھک گئے اور آپ کے دل میں قیام چھوڑ کر بیٹھنے کا خیال آیا۔

(۲) دوسری بات یہ کہ طویل قیام اور تھکاوٹ کے سبب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دل میں قیام چھوڑ کر بیٹھ جانے کا خیال پیدا ہوا جسے آپ نے بُرا خیال تصور کیا مگر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ادب واحترام اور تعظیم کی خاطراُسے عملی جامہ نہ پہنایا۔

علم وحکمت کے مدنی پھول:

مذکورہ بالا دونوں ایمان افروز باتوں سے علم وحکمت کے درج ذیل مدنی پھول حاصل ہوئے:

(۱) نماز میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا خیال دل میں آنے اور اپنی توجہ کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف لگادینے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آتا۔

(۲) صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننماز میں بھی اپنی توجہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات مبارکہ کی طرف لگائے رکھتے تھے۔


 

(۳) صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکا یہ مبارک عقیدہ تھا کہ نماز میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا خیال آنے سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، جبھی تو سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی توجہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات مبارکہ کی طرف لگی ہوئی تھی۔

(۴)نماز میں حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات مبارکہ کی طرف  توجہ کرنا کوئی معیوب بات نہیں بلکہ نماز کی معراج اور عینِ ایمان ہے، کیونکہ اگر یہ کوئی معیوب بات ہوتی تو سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جیسے جلیل القدر صحابی کبھی بھی ایسا نہ فرماتے۔

(۵) جس طرح بیرونِ نماز رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ادب واحترام اور تعظیم وتکریم ضروری ہے ویسے ہی دورانِ نماز بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ادب واحترام اورتعظیم وتکریم بہت ضروری ہے۔

(۶) نماز میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی تعظیم وتکریم کرنے سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی بارگاہ سے ہمیں یہ عظیم تحفہ نماز بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے طفیل ملا ہے، نیز اگر اس سے کوئی خلل واقع ہوتا تو سَیِّدُنَا عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکبھی بھی ایسا نہ فرماتے۔

(۷) صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان، تابعین، تبع تابعین، اولیائے کرام، محدثین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام سب کا یہ مبارک عقیدہ ہے کہ نماز میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا خیال آنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ادب واحترام اورتعظیم وتکریم کرنا عینِ ایمان اور شریعت کے مطابق ہے۔ کیونکہ حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شمار بڑے فقہاء صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانمیں ہوتاہے، کئی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانآپ کے شاگرد تھے، پھر ان کے بھی کئی شاگرد تھے، سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اس حدیث مبارکہ کو ہزاروں محدثینِ کرام نے بیان کیا لیکن کسی ایک نے بھی یہ نہ کہا کہ نماز میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا خیال آنا یا ان کا ادب واحترام اور تعظیم وتکریم کرناغلط ہے، بلکہ اس بات کی صراحت کی کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا یہ فعل رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ادب کی وجہ سے تھا۔


 

تین ایمان افروز احادیث مبارکہ

واضح رہے کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی ایک کثیر تعداد ہے جنہوں نے اپنی حیاتِ طیبہ کی کئی نمازیں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اقتداء میں ادا کیں ، اور یہ تمام حضرات نماز میں اپنی توجہ اور خیال رسولِ اکرم، نورِمُجَسَّم، شاہِ بنی آدَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہی کی طرف رکھا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آج ہم تک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نمازوں کا ایک ایک مبارک فعل بعینہ ویسا ہی پہنچا ہے جیسا آپ نے ادا فرمایا کیونکہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آپ کی ہرہرادا کو بغور دیکھا کرتے تھے اور اسے یاد رکھا کرتے تھے، نیز دیگر نئے مسلمانوں کو اس کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ ذخیرۂ احادیث میں ایسی کثیر احادیث موجود ہیں جن میں اس بات کا بیان ہے کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا خیال نماز میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی مبارک ذات کی طرف ہوتا تھا اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننماز میں بھی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ادب واحترام وتعظیم وتکریم کیا کرتے تھے۔تین احادیث مبارکہ پیشِ خدمت ہیں :

پہلی حدیث مبارکہ:

حضرت سَیِّدُنَا سہل بن ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبنی عَمرو بن عوف کے درمیان صلح کروانے کے لیے تشریف لے گئے، جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے پاس آیا اور عرض کی کہ ’’حضور! میں اقامت کہوں تو آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ ‘‘فرمایا:’’جی ہاں ۔‘‘چنانچہ سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جماعت کروائی، دورانِ نماز رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتشریف لے آئے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمصفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آکر کھڑے ہوگئے، صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے ہاتھ پر ہاتھ مار کر سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو مُتَوَجِّہ کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتشریف لاچکے ہیں لیکن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنماز میں ایسے منہمک ہوتے تھے کہ اِدھر اُدھر توجہ ہی نہ فرماتے۔ پس جب صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے زیادہ آواز پیدا کی تو انہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھ لیااور اپنی جگہ چھوڑنے لگے لیکن رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے انہیں اِشارے سے منع فرمایاکہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہلیں ، وہیں کھڑے رہیں ۔ اس پر انہوں نے ہاتھ بلند کیے اور ربّ عَزَّ  وَجَلَّکی بارگاہ میں شکر ادا کیا۔ پھر آپ پیچھے ہٹے یہاں تک کہ صف کے برابر کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآگے تشریف لے گئے اورنماز پڑھائی۔ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز سے فارغ ہوئے تو سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے استفسار فرمایا: ’’اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے کا حکم دیا تھا تو تم پیچھے کیوں ہٹے؟‘‘ عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ رَوا نہیں کہ وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے آگے نماز پڑھائے۔‘‘([33])

اس حدیث پاک سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں موجود تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکا خیال اور توجہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف گئی اور انہوں نے آپ کی تعظیم کی خاطر جگہ چھوڑی، بعد اَزاں سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی بھی توجہ اور خیال رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف گیا اور انہوں نے بھی اپنی جگہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی تعظیم کی خاطر چھوڑدی۔

دوسری حدیث مبارکہ:

حضرت سَیِّدُنَا مُغِیرہ بن شُعبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر ایک جگہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتشریف لائے تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان حضرت سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی اِقتداء میں نمازِ فجر ادا کررہے تھے، ایک رکعت مکمل ہوچکی تھی۔ جب سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی موجودگی کو محسوس کیا تو پیچھے ہٹنے لگے لیکن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اشارے سے منع فرمادیا۔ سَیِّدُنَا  عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نماز جاری رکھی اور دوسری رکعت مکمل کرکے سلام پھیر دیا، سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کھڑے ہوگئے اور اپنی نماز کو مکمل فرمایا۔([34])


 

اس حدیث پاک سے بھی صراحتاً معلوم ہوا کہ نماز میں موجود صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکا خیال اور توجہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف تھی اور سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی تعظیم کرتے ہوئے اپنی جگہ سے ہٹنے کا ارادہ کیا۔

تیسری حدیث مبارکہ:

اُمّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے کہ دو عالم کے مالِک و مختار، مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طبیعت زیادہ ناساز ہوگئی تو حضرت سَیِّدُنَا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز کی اطلاع دینے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے، توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا : ’’ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں ۔‘‘ حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں :’’میں نے عرض کیا:’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ابوبکر بڑے رقیق القلب(نرم دل) ہیں آپ کی جگہ کھڑے ہوتے ہی ان پر رقت طاری ہو جائے گی اور لوگوں کوکچھ سنائی نہ دے گا۔بہترہے کہ آپ حضرت سَیِّدُنَا عمربن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کونماز پڑھانے کاحکم فرمائیں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پھر ارشاد فرمایا:’’جاؤ ا بوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں ۔‘‘ بہرحال بعدازاں امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نماز پڑھائی، اسی دوران آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مرض کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئی تو آپ دو اَصحاب کے ساتھ اپنے حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لائے، سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے جیسے ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھا تو اپنی جگہ چھوڑ کر پیچھے ہٹنے لگے لیکن آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اشارے سے منع فرمادیا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمان کے پہلو میں تشریف فرماہوگئے۔([35])

اس حدیث پاک سے بھی صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں موجود صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناور خود سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا خیال اور توجہ نماز میں ہی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف تھی اور انہوں نے نماز میں ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی تعظیم وتکریم کرتے ہوئے جگہ چھوڑی۔


 

مدنی گلدستہ

”عَشَرَۂ مُبَشَّرَہ“ کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے10مدنی پھول

(1)       نماز ِتہجد اداکرنا حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت ہے۔

(2)       سركار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتہجد کی نماز میں طویل قیام فرماتے تھے۔

(3)       نماز میں امام کی مخالفت کرنا بُرا فعل ہے اور بسا اَوقات اس سے نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے۔

(4)       صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نماز وغیرنماز دونوں حالتوں میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا حد درجہ ادب واحترام وتعظیم وتکریم کیا کرتے تھے۔

(5)       علمائے کرام واکابرینِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کا ادب واحترام کرنا چاہیے۔

(6)       نماز میں اگر قیام کرنا دشوار ہوجائے تو بیٹھنا جائز ہے۔

(7)       فرض نمازوں کے علاوہ دیگر نفل نمازوں کی جماعت بھی جائز ہے۔

(8)       دل میں بُرا وسوسہ آنے سے انسان گناہ گار نہیں ہوتا جب تک کہ اسے عملی جامہ نہ پہنائے۔

(9)       اپنے دینی اور مسلمان بھائی سے اس کے متعلق ایسی بات پوچھنے میں کوئی حرج نہیں جس سے اس کے متعلق کوئی اِبہام دُور ہوجائے۔

(10) نماز میں حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا خیال آنا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاادب واحترام کرنا،تعظیم وتکریم کرنا عینِ ایمان اور نماز کی معراج ہے، ان دونوں باتوں سے نماز میں کسی بھی قسم کا کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، یہ مبارک عقیدہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان، تابعین، تبع تابعین، اولیائے عظام اور تمام اُمَّت مسلمہ کا ہے۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں تہجد کی نماز پڑھنے اور عبادت کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،ہمیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی حقیقی محبت عطا فرمائے،نماز وغیرنماز دونوں میں آپ صَلَّی اللہُ


 

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی تعظیم وتکریم اور ادب واحترام نصیب فرمائے، عاشقانِ رسول کی صحبت عطا فرمائے، گستاخانِ رسول کی صحبت سے محفوظ فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حدیث نمبر :104

                              مَیِّت کے ساتھ قبر تک جانے والی تین چیزیں

عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ: اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ، فَیَرْجِعُ اِثْنَانِ وَیَبْقٰی وَاحِدٌ،یَرْجِعُ اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ. ([36])

          ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا:’’میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ، گھر والے ،  مال اور اس کاعمل، پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا  عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔‘‘

دو بے وفا اور ایک وفادار ساتھی:

مذکورہ حدیث پاک میں اُن تین چیزوں کو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق انسان کے ساتھ اس کی زندگی میں ہوتا ہے لیکن ان تینوں میں سے دو یعنی مال اور گھر والے بے وفا اورساتھ چھوڑ جانے والےاور فقط ایک یعنی عمل وفادار اور قبر میں ساتھ جانے والا ہے۔ مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’بعد مرنے قبر تک تین چیزیں ساتھ جاتی ہیں ۔ دو بے وفا جو مردے کو چھوڑ کر لوٹ آتی ہیں ایک وفادار جو ساتھ رہتی ہے۔‘‘([37])

گھر والوں میں کون شامل ہے؟

حدیث پاک میں سب سے پہلے گھروالوں کا ذکر ہے کہ وہ بھی قبر تک میت کے ساتھ جاتے ہیں ۔


 

 گھروالوں میں کون کون لوگ شامل ہیں ؟ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیفرماتے ہیں : ’’ گھر کے لوگوں سے مراد بال  بچے ،عزیز و اَقارب اور دوست و آشنا ہیں ۔‘‘([38])

ایک اِشکال اور اُس کی وضاحت:

یہاں ایک اشکال ہے کہ بعض میتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے ساتھ ان کے گھر والے نہیں ہوتے، جبکہ حدیث پاک سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر میت کے ساتھ اس کے گھر والے بھی ہوتے ہیں ۔ اس اشکا ل کا جواب دیتے ہوئے عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَرعَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتےہیں :’’حدیث پاک میں غالب یعنی اکثریت کا لحاظ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کے ساتھ ان کے گھروالے جاتے ہیں ، اگرچہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ صرف ان کا عمل جاتا ہے، گھروالے نہیں جاتے۔‘‘([39])

میت کے ساتھ مال جانے سے کیا مراد ہے؟

حدیث پاک میں گھروالوں کے بعد میت کے مال کا ذکر ہے کہ وہ بھی قبر تک اس کے ساتھ جاتا ہے۔ مال سے کیا مراد ہے؟ اور اس مال کے میت کے ساتھ جانے کا کیا مطلب ہے؟ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیاس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’مال سے مرادغلام، باندیاں ، جانور اور گھر وغیرہ ہیں لیکن یہاں میت کے ساتھ جانے والے مال سے مراد خاص قسم کا مال ہے جس کا تعلق مرنے کے بعد اور دفن ہونے سے پہلے میت کےساتھ رہتا ہے یعنی تجہیز و تکفین، غسل اور تدفین وغیرہ کے اَخراجات اور جب اُسے دفن کردیا جاتا ہے تو اب مکمل طور پر اُس کا تعلق مال سے بھی ختم ہوجاتا ہے۔‘‘([40])

 عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَرعَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :’’عرب میں یہ بات رائج تھی کہ


 

میت کے ساتھ اُس کے جانوروں کوبھی قبرستان تک لے جاتے تھے۔‘‘([41]) (تو میت کی ملکیت میں جو جانور وغیرہ ہیں ان کا قبر تک جانا گویا اس کے مال کا اس کے ساتھ جانا ہے۔)

اِنسان کا مال تین3طرح کاہے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دنیا کی ہر شے فانی یعنی ختم ہونے والی ہے۔ چاہے گھر ہو یا مال و دولت، آل اَولاد ہوں یا رشتہ دار، ہر شے ایک مخصوص وقت تک ہمارے ساتھ ہے اور اُن تمام چیزوں سے حاصل ہونے والا نفع بھی معینہ مدت تک ہی ہے۔ جیسے ہی آدمی موت کا شکار ہوتا ہے یہ تمام چیزیں بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہیں ،انسان زندگی بھر اپنی دولت پر گھمنڈ کرتا ہے لیکن موت اس کے غرور کو خاک میں ملادیتی ہے، جس مال کو یہ اپنا سمجھتا ہے اس کے مرنے کے بعد اس کے رشتہ دار وغیرہ اس پر قبضہ جمالیتے ہیں ، انسان کا مال تو فقط وہی ہے جو اس نے استعمال کرلیا یا راہِ خدامیں خرچ کرکے آخرت کے لیے جمع کرلیا۔چنانچہ،

حضرت سَیِّدُنَا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’بندہ کہتا ہے :میرا مال ،میرا مال۔ حالانکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں : جو اس نے کھا کر ختم کردیا، یا پہن کر بوسیدہ کردیا یا کسی کو (راہ خدا میں )دے کر (آخرت کے لیے)جمع کردیا اور جو ان تین کے علاوہ ہے وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔‘‘([42])

قبرمیں اعمال کی مختلف شکلیں :

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مردے کے ساتھ اس کی قبر میں صرف اور صرف اس  کے اعمال جاتے ہیں ، اب اگر اس کے اعمال اچھے ہیں تو وہ قبر میں ان سے اُنس حاصل کرےگا اور اگر اعمال بُرے ہیں تو وہ اس کے لیے عذابِ قبر کا باعث ہوں گے۔ عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’مذکورہ حدیث میں جوفرمایا گیاہے کہ میت کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتا ہے تو باقی رہنے کا معنی یہ ہے کہ اگر میت


 

 نیک و صالح ہوتو اس کا عمل خوبصورت چہرہ ، اچھے لباس اور بہترین خوشبو کے ساتھ قبر میں اس کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے:”تجھے اس بات کی خوشخبری ہو کہ تیرا معاملہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آسان فرما دیاہے۔ “مُردہ پوچھتاہے:’’ تو کون ہے؟‘‘ تو وہ کہتا ہے:’’میں تیرا نیک عمل ہوں ۔‘‘ایک اور حدیث پاک میں حضور نبی کریم  رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کافرکے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’اس کے پاس ایک بد صورت آدمی آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیر ا خبیث (یعنی بُرا)عمل ہوں ۔‘‘([43])

قبر عمل کا صندوق ہے:

عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’عمل سے مراد میت کے وہ اَفعال و اَقوال ہیں جن پر ثواب و عذاب مُرَتَّب ہوتا ہے،اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ’’قبر عمل کا صندوق ہے۔‘‘ اور حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’قبر یاتو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔‘‘([44])

مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں : ’’اَعمال سے مراد سارے اچھے بُرے عمل ہیں جو میت نے اپنی زندگی میں کیے ۔اَعمال کے ساتھ جانے سے مراد ا ُن کا میت کے ساتھ تعلق ہے جو مرنے کے بعد قائم رہتا ہے۔نیک اَعمال جو قبول ہوگئے ہمیشہ اُس کے ساتھ رہتے ہیں ، بُرے اَعمال شفاعت، بخشش یا سزا بھگتنے تک چمٹے رہتے ہیں ،اِن چیزوں کے بعد پیچھا چھوڑتے ہیں ، جس پر مولیٰ رحم کرے،حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)جسے سنبھال لیں اُس کا بیڑا پار ہے،قبر اَعمال کا صندوق ہے یا دوزخ کی بھٹی ہے یا جنت کی کیاری، اِس لیے بزرگوں کی قبر کو روضہ کہتے ہیں یعنی جنت کا باغ۔‘‘([45])

مُردے کے صدمے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ حدیث پاک میں جہاں علم وحکمت کے کئی مدنی پھول چننے کو ملتے


 

 ہیں وہیں ہمیں قبر وآخرت کی تیاری کا بھی مدنی ذہن ملتا ہے۔ بہت خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنی دُنیوی زندگی کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّاور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا والے کاموں میں گزارنے کی کوشش کرتا ہے، دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ ایمان وعافیت کے ساتھ قبر میں چلا جاتا ہے اور بہت بدنصیب ہے وہ شخص جو دنیا کی عیش کوشیوں میں اپنا قیمتی وقت برباد کرتا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ناراضی والے کاموں میں لگا رہتا ہے، حتی کہ اندھیری قبر میں اُتار دیا جاتا ہے۔شیخ طریقت،امیر اہلسنت اپنے رسالے ”مُردے کے صدمے“صفحہ7 پر فرماتے ہیں : افسوس ! ہم صدموں سے بھر پور موت کی تیاری سے یکسر غافل ہیں ۔دنیا کی ہر وہ چیز جس سے زندگی میں آدمی کو محبت ہوتی ہے مرنے کے بعد اس کی یاد تڑپاتی ہے اور صدمہ مُردے کے لیے نا قابل برداشت ہوتا ہے ۔اس بات کو یوں سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ جب کسی کا پھول جیسا اکلوتا بچہ گم ہو جائے تووہ کس قدر پریشان ہوتا ہے اور اگر ساتھ ہی اس کا کا روبار وغیرہ بھی تباہ ہو جائے تو اس کے صدمے کا کیا عالَم ہوگا ؟نیز اگر وہ افسر بھی ہو اور مصیبت با لائے مصیبت اس کا وہ عہدہ بھی جاتا رہے تو اس پر جو کچھ صدمے کے پہاڑ ٹوٹیں گے اس کو وہی سمجھے گا۔اب چونکہ آدمی کے مر جانے کے باوجود اس کی عقل سلامت رہتی ہے ،لہٰذ ا اس کو والدین ،بیوی بچوں ،بھائی بہنوں ،اور دوستوں کا فِراق (جدائی) نیز گاڑی ،لباس، مکان ،دکان،فیکٹری، عمدہ پلنگ ،فرنیچر ،کھیل کود کا سامان ،کھانے پینے کی چیزوں کا ذخیرہ ،خون پسینے کی کمائی، عُہدہ وغیرہ ہر ہر چیز کی جُدائی کا صدمہ ہوتا ہے اور جو جتنا زیادہ راحتوں میں زندگی گزارتاہے مرنے کے بعد اُن آسائشوں کے چھوٹنے کا صدمہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ جس کے پاس مال ودولت کم ہو اُس کو اُس کے چھوٹنے کا غم بھی کم اور جس کے پاس زیادہ ہو اس کو چھوٹنے کا غم بھی زیادہ  ۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سَیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی   فرماتے ہیں :’’یہ اِنکشاف جان نکلتے ہی تدفین سے پہلے ہو جاتا ہے اور وہ فانی دنیا کی جن جن نعمتوں  پر مطمئن تھا اُن کی جدائی کی آگ اُس کے اَندر شُعْلَہ زَن ہوتی ہے۔‘‘([46])


 

قبر کی کہانی، قبر کی زبانی:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  ذرا سوچئے، قبر کی اندھیری رات کیسی ہوگی؟ جب قبر میں مُردے کو لٹایا جاتا ہے تو وہ اس کے ساتھ کیا حشر کرتی ہے؟ آئیے قبر کی کہانی قبر کی زبانی سنتے ہیں ،تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۶۴۷صفحات پر مشتمل کتاب ’’حکایتیں اور نصیحتیں ‘‘ صفحہ۲۰۶ پر ہے: امیرالمؤمنین حضرتِ سَیِّدُناعمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک جنازے کے ساتھ قبرِستان تشریف لے گئے، جب لوگوں نے صفیں بنالیں توآپ سب سے پیچھے چلے گئے، وہاں ایک قَبْرکے پاس بیٹھ کر غور وفکر میں ڈوب گئے، آپ کے دوستوں نے استفسار کیا:’’اے امیرالمؤمنین! آپ تو میت کے ولی ہیں اور آپ ہی پیچھے چلے گئے۔‘‘ کسی نے عرض کی:’’یا امیرَالمومنین! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہاں تنہا کیسے تشریف فرما ہیں ؟‘‘ فرمایا:ابھی ابھی ایک قَبْر نے مجھے پُکار کربلایا اور بولی: اے عمر بن عبد العزیز! مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں اپنے اندر آنے والوں کے ساتھ کیا برتاؤکرتی ہوں ؟میں نے اُس قبر سے کہا : مجھے ضَرور بتا۔ وہ کہنے لگی: ’’جب کوئی میرے اندر آتا ہے تو میں اس کا کفن پھاڑ کرجِسْم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہوں اوراس کا گوشت کھا جاتی ہوں ،کيا آپ مجھ سے يہ نہيں پوچھیں گے کہ میں اس کے جوڑوں کے ساتھ کيا کرتی ہوں ؟‘‘میں نے کہا: ضَرور بتا۔ تو کہنے لگی:’’ ہتھيلیوں کو کلائيوں سے ،گُھٹنوں کوپِنڈليوں سے اور پِنڈليوں کو قدموں سے جُداکرديتی ہوں ۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہچکیاں لے کر رونے لگے۔جب اِفاقہ ہوا تو کچھ اس طرح عبرت کے مَدَ نی پھول لٹانے لگے:’’اے لوگو! اِس دنیا میں ہمیں بہت تھوڑ ا عرصہ رہنا ہے ،جو اِس دنیا میں سخت گنہگار ہونے کے باوُجُود صاحِب اقتدارہے وہ  آخِرت میں انتہائی ذلیل و خوا ر ہے۔ جو اس جہاں ميں مالدار ہے وہ  آخرت ميں فقير ہوگا۔اِس کا جوان بوڑھا ہوجائے گا اور جو زندہ ہے وہ مرجائے گا۔ دنیا کا تمہاری طرف آنا تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے،کيونکہ تم جانتے ہو کہ يہ بہت جلد رخصت ہوجاتی ہے ۔ کہاں گئے تلاوتِ قرآن کرنے والے؟ کہاں گئے بيتُ اللہ کا حج کرنے والے ؟کہاں گئے ماہِ رَمَضان کے روزے رکھنے والے ؟خاک


 

نے ان کے جسموں کا کيا حال کرديا ؟قبر کے کيڑوں نے اُن کے گوشت کا کيا اَنجام کرديا ؟ان کی ہڈِّيوں اور جوڑوں کے ساتھ کيا ہوا ؟ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!دُنيا ميں یہ آرام دِہ نرْم نرْم بستر پر ہوتے تھے ليکن اب وہ اپنے گھر والوں اور وطن کو چھوڑ کر راحت کے بعد تنگی میں ہيں ،اُن کی بيواؤں نے دوسرے نکاح کرکے دوبارہ گھر بسا‏لیے، اُن کی اَولاد گليوں میں دربدر ہے، اُن کے رشتہ داروں نے اُن کے مکانا ت وميراث آپَس میں بانٹ لی۔ وَاللہ!ان میں کچھ خوش نصيب ہيں جو قبروں میں مزے لوٹ رہے ہيں اوروَاللہ! بعض قبر میں عذاب میں گرفتار ہيں ۔  

 افسوس صد ہزار افسوس، اے نادان! جو آج مرتے وَقت کبھی اپنے والِد کی ، کبھی اپنے بیٹے کی توکبھی سگے بھائی کی آنکھیں بند کر رہا ہے، ان میں سے کسی کو نہلا رہا ہے ، کسی کو کفن پہنا رہا ہے، کسی کے جنازے کو کندھے پر اُٹھارہا ہے ، کسی کے جنازے کے ساتھ جا رہا ہے، کسی کو قبر کے گڑھے میں اُتارکردفنا رہا ہے۔ یاد رکھ! کل یہ سبھی کچھ تیرے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ کاش! مجھے علْم ہوتا! کون سا گال  قبر میں پہلے خراب ہوگا۔‘‘پھر حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزيز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رونے لگے اور روتے روتے بے ہوش ہوگئے اور ايک ہفتے کے بعد اس دنيا سے تشريف لے گئے۔

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم!ہماری بوئی ہوئی فصل کی کٹائی کا وقت قریب آگیا ہے، ہم کب تک اس غفلت کا شکار رہیں گے؟ قیامت کی ہولناکیاں ہمارےسامنے ہیں کہ جس دن باپ اپنی اولاد سے بھاگے گا، ماں کی مامتا بھی اس دن کسی کام نہ آئے گی، اس وقت انتہائی افسوس ہوگاجب ہمارے اعمال کا حساب ہوگا، ہم سوکھی ہوئی اس گھاس کی مانند ہو جائیں گے جس کو ہوائیں اِدھر سے اُدھر پھینک رہی ہوتی ہیں ۔ ہم کب تک اس غفلت میں مبتلا رہیں گے؟ حالانکہ توبہ کی قبولیت کا علم تو ظاہر ہو چکا ہے۔اے خواہشات کے سمندر میں غرق ہونے والو! نجات کی کشتی پرسوارہوجاؤاور اپنے اعمال سے برائیوں کا خاتمہ کردو،اپنے نفس کو ندامت کے ساحل پر ڈال دو، پھر تم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو بہت زیادہ کرَم فرمانے والاپاؤ گے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگا ہ میں ذِلّت اور عاجزی کے ساتھ اپنے ہاتھ پھیلاؤ اور اس گھڑی گریہ وزاری کرتے ہوئے


 

 پکارو!اے وہ ذات جس کی نافرمانی کرنااس کو نقصان نہیں دیتی اور نہ ہی جس کی اطاعت کرنااس کو کوئی فائدہ دیتی ہے! یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْن! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہماری خرابیوں کے بدلے درستی عطا فرما اور خسارے کے عوض نفع عطا فرما۔ اے وہ ذات جس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق جس میں چراغ ہے! اپنی رحمت سے ہمارے معاملے میں درگزرفرما، ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے موت سے قبل آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرما، تاکہ ہماری قبر اچھی ہو، ہمارا حشر اچھا ہو، کل بروزِ قیامت ہم تیری رحمت کے سائے میں ہوں ، اے ربّ کریم! ہمیں دُنیوی سوچوں سے نجات دلاکر اُخروی مدنی سوچ عطا فرما۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

جگہ   جی   لگانے   کی دنیا نہیں ہے    یہ عبرت کی جا ہے تماشا  نہیں ہے

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے    مگر تجھ  کو  اندھا   کیا رنگ وبو نے

کبھی غور سے  بھی یہ دیکھا ہے  تو نے  جو آباد تھے وہ محل اب ہیں سُونے

جگہ جی   لگانے   کی  دنیا  نہیں ہے    یہ عبرت کی جا ہے  تماشا نہیں ہے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مدنی گلدستہ

اللہ کے ولی ’’بشر حافی‘‘ کے7حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے7مدنی پھول

(1)       مرنے کے بعد بندے کا تعلق ہرچیزسے منقطع ہوجاتا ہے سوائے اعمال کے کہ وہ بندے کے ساتھ اس کی قبر میں جاتے ہیں ۔

(2)       انسان کا اصل مال جو آخرت میں اس کے کام آئے گا وہی ہے جو اس نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی راہ میں خرچ کرکے اپنی آخرت کے لیے جمع کرلیا۔

(3)        نیک اعمال اچھی صورت میں آکر نیک مؤمن کا دل بہلاتے ہیں ، اسے خوشخبری دیتے ہیں جبکہ بُرے


 

 اعمال بُری صورت میں آکر اسے ڈراتے ہیں ۔

(4)       نیک اعمال کے سبب بعض قبور جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بن جاتی ہیں اور بُرے اعمال کے سبب بعض قبور جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔

(5)       دنیا میں جو شخص جتنی زیادہ آسائشوں اور راحتوں میں زندگی گزارتا ہے موت کے بعد اسے ان چیزوں کی جدائی کا افسوس بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔

(6)       احادیث میں بندے کو نیک اعمال کرنے پر ابھاراگیا ہے کیونکہ جس وقت لوگ اسے قبر میں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے تو بندہ اپنے نیک اَعمال سے ہی اُنسیت حاصل کرے گا۔

(7)       یقیناً سمجھدار وہی ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کرے، نیک اور اچھے اعمال بجالائے، بُرے اور گناہوں والے اعمال سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطافرمائے، بُرے اعمال سے بچنے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے، دنیا میں رہتے ہوئے قبر وحشر کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حدیث نمبر :105                                                          

جَنَّت و جَہَنَّم  تَسْمُوں سے زیادہ قریب

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَال: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :اَلْجَنَّۃُ اَقْرَبُ اِلٰی اَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِکَ.([47])

ترجمہ  : حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سےروایت ہے کہ حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرما یا :’’جنت تم میں سے ہر ایک کی جوتیوں کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے اور اسی طرح جہنم بھی ۔‘‘


 

جوتے کے تسمے سے تشبیہ کی وجہ:

مذکورہ حدیث پاک میں بندے سے جنت و دوزخ کے قُرب کو جوتیوں کے تسمے سے تشبیہ دے کر بیان کیا گیا ہے۔حدیث پاک میں جس تسمے کا ذکر ہے وہ در اصل وہ تسمہ نہیں جو ہمارے یہاں مُراد لیا جاتا ہے بلکہ اس سے مُراد جوتیوں کے اگلے حصے میں بنی ہوئی وہ جگہ ہے جس میں آدمی اپنی انگلیاں داخل کرتا ہے (جیساکہ فی زمانہ انگوٹھے والی چپلوں میں یہ تسمہ بناہوا ہوتا ہے جس میں آدمی اپنا انگوٹھا ڈالتا ہے) جوتے میں اگر یہ تسمہ نہ بنایا جائے تو آدمی کے لیے چلنا دشوار ہوجائے۔([48])

جنت وجہنم کے قرب کی وجوہات:

جس طرح جوتیوں کا تسمہ بندے سے بہت قریب ہوتا ہے اسی طرح جنت ودوزخ بھی بندے سے بہت قریب ہیں اور جس طرح اس تسمے میں انگوٹھا داخل کرنا انسان کے لیے بہت آسان ہے یوں ہی جنت و دوزخ میں داخلہ بھی بہت سہل، اِسی قُرب و سَہل کو شارِحین نے مختلف انداز سے بیان کیاہے۔ چنانچہ اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد بِنْ عَبْدُاللّٰہ طَیِّبِیْ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’حدیث میں جنت و دوزخ کی قُرْبَتْ کو جوتے کے تسمے کی قُرْبَتْ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ ثواب وعذاب کا حصول بندے کی اپنی کوشش سے ہوتا ہے اور کوشش قدموں کے ذریعے ہوتی ہے۔ توجو شخص کوئی نیک کام کرے گاوہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے وعدے کی وجہ سے جنت کا مستحق ہوگااور جو بُرا عمل کرےگا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی وعید کی وجہ سے جہنم کا مستحق ہوگا ۔‘‘([49])

عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَرعَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی علامہ ابن جوزی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’اس حدیث پاک کا معنی یہ ہے کہ اچھی نیت اور نیک اَعمال کے ساتھ جنت کا حصول نہایت آسان ہے اور اسی طرح خواہشاتِ نفس کی پیروی اور بُرے اعمال کے ذریعے جہنم کا


 

داخلہ بھی۔‘‘([50]) (یعنی اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ دائمی طورپر نیک اَعمال کرنے سے جنت میں داخل ہونا آسان ہوجاتا ہے اور اسی طرح نفس کی اتباع کرنے سے جہنم میں داخل ہونے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوجاتے ہیں ۔)

فکر آخرت کی ترغیب:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حدیث مذکور میں اس بات کو بیان کیا جارہا ہے کہ آدمی کو اپنی آخرت کے حوالے سے بہت محتاط رہنا چاہیے اور ہر اُس فعل سے اِجتناب کرنا چاہیے کہ جو آخرت کے لیے نقصان دہ ہو کیونکہ آتشِ دوزخ کے بندے سے  قریب ہونے کے بارے میں حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ہمیں آگاہ فرمادیا ہے اور اب اس صورت حال میں تھوڑی سی بھی لا پرواہی خسارے کا باعث بن سکتی ہے۔عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَفَّار فرماتے ہیں :’’اس حدیث پاک میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی اطاعت جنت تک لے جاتی ہے اور نافرمانی دوزخ کے قریب کرتی ہے اور یہ جنت و دوزخ سے قریب ہونا کبھی کسی چھوٹے عمل کی وجہ سے بھی ہوتا ہے (یعنی عمل تو بظاہر بہت چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس عمل میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا یا ناراضی ہوتی ہے۔)حضور نبی اَکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ’’بعض اوقات اِنسان اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضاوالا ایسا کلام کرتاہے کہ جس کو وہ خود بھی  کوئی اَہمیت نہیں دیتا لیکن اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُس کلام کے سبب اِس بندے کے حق میں قیامت تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے اور بعض اوقات انسان اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ناراضی والا ایسا کلام کرتا ہے جس کی یہ کوئی پرواہ نہیں کرتا لیکن اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُس بات کی وجہ سے قیامت تک اِس بندے سے ناراض ہوجاتا ہے۔‘‘([51])

ایک لفظ میں جنت ودوزخ ہے:

مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’کبھی منہ سے ایک بُری بات نکل جاتی ہے تو ساری عمر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں اور بندہ دوزخی ہوجاتا ہے


 

 اور کبھی منہ سے ایک بات اچھی نکل جاتی ہے جو ربّ کو پسند ہو اس سے بندہ کے عمر بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ جنتی ہوجاتا ہے۔ غرضیکہ ایک لفظ میں جنت و دوزخ ہے،چونکہ جنت ودوزخ اپنے عمل سے ملتی ہیں اور اُن کے راستے عمل کے قدموں سے طے ہوتے ہیں اِس لیے نبی کریم صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اس قُرب کو جوتے کے تسمے سے تشبیہ دی یعنی ایک قدم میں جنت ہے اور ایک قدم میں دوزخ۔‘‘([52])

معمولی عمل سے دُخولِ جنت وجہنم:

مذکورہ حدیث پاک میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ جنت و دوزخ میں داخل ہونا اَعمالِ صالحہ اور گناہوں کی کثرت پر موقوف نہیں بلکہ معمولی نظر آنے والی بُرائی بھی جہنم میں داخلے کا سبب بن سکتی ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہونے والی چھوٹی سی نیکی بھی بندے کو جنت میں داخل کرواسکتی ہے۔ خداوندِ کریم کے یہاں اگر ایک نیکی بھی مقبول ہوجائے تو وہ بندے کی نجات کا سبب بن جاتی ہے۔ امام حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’جس بندے کی کوئی ایک بھی نیکی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘([53])

کسی بھی عمل کو معمولی نہ سمجھو:

عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’ مذکورہ حدیث میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اعمالِ صالحہ بندے کو بہشت تک  پہنچا دیتے ہیں اور مَعَاصی کے اِرتکاب سے بندہ آتش دوزخ کے قریب تر ہوجاتا ہے اور بسا اوقات یہ بہشت و دوزخ کی نزدیکی بہت آسان دکھائی دینے والے عمل سے وقوع پزیر ہو جاتی ہے لہٰذا مؤمن کو چاہیے کہ وہ کسی بھی نیک عمل کو چھوٹا سمجھ کر نہ چھوڑے اور کسی بھی بُرائی کو معمولی سمجھ کر نہ کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جس گناہ کو وہ چھوٹا گمان کر رہا ہو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے نزدیک وہ بہت بڑا گناہ ہو۔بےشک مؤمن اس نیکی کو نہیں جانتا جس کی وجہ سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُس پر رحم فرمادے اور


 

 اُس گناہ کو بھی نہیں جانتا جس کی وجہ سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس سے ناراض ہوجائے۔ (لہٰذا بندے کو چاہیے کہ ہر قسم کے نیک اَعمال بجالائے اور ہر طرح کے گناہوں سے اجتناب کرے۔)‘‘([54])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بسا اوقات اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہونے والی چھوٹی سی نیکی بڑے بڑے گناہوں پر غالب آجاتی ہے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضاکے لیے زبان سے نکلے ہوئے چند کلمات بارگاہِ ربُّ الْعِزَّت میں بندے کی نجات کا سبب بن جاتے ہیں ۔اسی ضمن میں ایک حکایت ملاحظہ فرمائیے:

اللہ اکبرکہنے کی برکت:

ابو بکر محمد  بن ابراہیم کلاباذی نے ” بحر الفوائد“ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ابو قلابہ کہتے ہیں کہ  میرا ایک بھتیجا شراب پینے کا عادی تھا ،وہ بیمار ہوا تو اس نے مجھے ملاقات کے لیے پیغام بھیجا ، میں اس کے گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو سیاہ رنگ کے فرشتے اس کے پاس بیٹھے ہیں ۔میں نے کہا :”اِنَّالِلّٰہِ (یعنی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) میرا بھتیجا ہلاک ہو گیا۔‘‘اتنے میں گھر کے روشن دان سے دو سفید فرشتوں نے اندر جھانکا۔ایک نے   دوسرے سے کہا : ’’نیچے اترو اور اس نوجوان کے پاس جاؤ۔‘‘جب وہ نیچے آیا تو دونوں سیاہ فرشتے وہاں سے چلے گئے ،اس سفید فام فرشتے نے آ کر نوجوان کے منہ کو سونگھا اور کہا:’’ میں نے اس میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا کوئی ذکر نہیں پایا ۔‘‘پھر پیٹ کو سونگھا اور کہا: ’’میں نے اس میں روزے کی خوشبو نہیں پائی اور پاؤں کو سونگھالیکن اس میں بھی نماز کی خوشبو نہیں پائی۔‘‘پھر وہ فرشتہ اپنے ساتھی سے  جا کرافسوس کرتے ہوئے  کہنے لگا:”اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یہ شخص اُمَّت ِ محمد یہ میں سے ہے لیکن میں نے اس میں کوئی  بھلا ئی نہیں پائی۔‘‘ اس کے ساتھی فرشتے نے اس سے کہا :’’افسوس ہے تجھ پر!تو کیسی بات کہتا ہے، تو دوبارہ اس کے پاس جا اور غور سے جائزہ لے۔‘‘وہ فرشتہ دوبارہ اس نوجوان کے پاس آیا اور اس نے پھر اس کے منہ کو سونگھا اور کہا:’’میں نے اس میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا کوئی ذکر نہیں پایا ۔‘‘پھر پیٹ کو سونگھا اور کہا:’’ میں نے اس میں روزے کی خوشبو نہیں پائی۔‘‘پھر پاؤں کوسونگھااور کہا:’’ اس میں بھی نماز کی خو شبو نہیں پاتا۔‘‘ یہ سن کر دوسرا فرشتہ


 

کہنے لگا: ’’یہ شخص اُمَّت محمد یہ میں سے ہے اور اس کے پاس ایک بھی نیکی اور بھلائی کی بات نہ ہو ،یہ کیسے ہوسکتا ہے؟بس تم اُوپر چڑھو میں خود جا کر دیکھتا ہوں ۔‘‘چنانچہ اس دوسرے فرشتے نے آ کر اس کے منہ، پیٹ اور قدموں کو سونگھا مگر اُن میں قرآن پڑھنے اور نماز روزے کی خوشبو نہ پائی تو پھر دوبارہ اُسے سونگھنا شروع کیا اور اس شرابی کی زبان کا کنارہ نکال کر سونگھا تو فوراً بول اُٹھا:’’اللہ اکبر! میں نے دیکھا کہ اس نے مقامِ انتا کیہ میں جہاد کے دوران اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رِضا کے لیے نعرہ تکبیر بلند کیا تھا۔‘‘پھر اس نوجوان کی روح پرواز کر گئی اور میں نے اس کے گھر کو کستوری کی خو شبو میں بسا ہوا پایا ۔اگلی صبح جب میں نماز فجر   سے فارغ ہوا تو نمازیوں سے کہا:’’کیامیں  تمہیں  تم ہی میں سے ایک جنتی شخص کے بارے میں بتاؤں ؟‘‘ پھر میں نے اہل مسجد کو اپنے بھتیجے کا واقعہ سنا یا۔([55])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے  فقط ایک بار اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لیے  اَللہُ اَکْبَر کہنا ہی اس شرابی کے کام آگیا۔ اِس حکایت سےمعلوم ہوا کہ کسی بھی نیکی کو چھوٹا اور معمولی سمجھتے ہوئے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے بظاہر چھوٹی نظر آنے والی اُس نیکی میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضاہو اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُس کے سبب جنت میں داخل فرمادے ۔اِسی طرح کسی بُرائی وگناہ کو ہلکا ومعمولی یا چھوٹا وصغیرہ سمجھ کر نہ کیا جائے، ہو سکتا ہے کہ بظاہر چھوٹے نظر آنے والے اِس گناہ میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ناراضی ہو اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُس کے سبب جہنم میں داخل کردے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

مدنی گلدستہ

”اَحمد“کے4حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے4مدنی پھول

(1)       جنت و دوزخ انسان کے بہت قریب ہیں پس اگر وہ نیکی کرےگا تو جنت میں داخل ہوجائے گا اور اگر گناہ کرے گا تو دوزخ میں داخل ہوجائے گا۔


 

(2)       انسان کو اپنی گفتگو میں بہت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ایک ایسا لفظ منہ سے نکل گیا جس سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  ناراض ہو گیا تو وہ اسے جہنم میں داخل کردے گا۔

(3)       چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے، ہوسکتا ہے کہ وہی نیکی جنت میں داخلے کا سبب بن جائے ، اسی طرح چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہی گناہ جہنم میں داخلے کا سبب بن جائے۔

(4)       یہ ضروری نہیں کہ نیک اعمال کی کثرت سے جنت میں داخلہ ملے  بلکہ معمولی نظر آنے والی نیکی بھی جنت میں داخلے کا سبب بن سکتی ہے، اسی طرح دوزخ میں داخل ہونا گناہوں کی کثرت پر موقوف نہیں بلکہ بظاہر معمولی نظر آنے والا گناہ بھی جہنم میں داخلے کا سبب بن سکتا ہے۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیکیاں کرنے، نیکیوں کی ترغیب دینے، گناہوں سے بچنے اور دیگر لوگوں کو گناہوں سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اپنی رحمت کاملہ سے جنت میں داخلہ عطا فرمائے، جنت الفردوس میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا پڑوس نصیب فرمائے۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حدیث نمبر :106                                            

جَنَّت میں رسُولُ اللہ کی رَفَاقَت

عَنْ اَبِیْ فِرَاسٍ رَبِیْعَۃَ بْنِ کَعْبٍ اَلْاََسْلَمِیِّ خَادِمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمِنْ اَھْلِ الصُّفَّۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:کُنْتُ اَبِیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاٰتِیْہِ بِوَضُوْئِہِ وَحَاجَتِہِ فَقَالَ: سَلْنِیْ، فَقُلْتُ: اَسْاَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِیْ الْجَنَّۃِ، فَقَالَ:اَوْ غَیْرَ ذٰلِکَ؟ قُلْتُ ہُوَ ذَاکَ قَالَ: فَاَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ.([56])

ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا ابو فِرَاس رَبیعہ بن کَعْب اَسْلَمِی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

 وَسَلَّمکے خادِم اور اہل صُفَّہ میں سے تھے،فرماتے ہیں کہ میں رات کو  حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر رہا کرتا تھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے وضو اور دیگر حاجات کے لیے پانی لایا کرتا تھا، ایک دن آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (کے جودوکرم کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور آپ)نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’(اے ربیعہ!) مانگ کیا مانگتا ہے؟‘‘میں نے عرض کی:”یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں ۔“آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:’’اس کے علاوہ اور کچھ؟‘‘ میں نے عرض کی:’’بس یہی۔‘‘ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:”تو پھر سجدوں کی کثرت کر کے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔‘‘

سَیِّدُنَا ربیعہ بن کعب کامختصرتعارف:

آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی کنیت ابوفراس ہے،اسلمی ہیں ،اصحاب صفّہ میں سے تھے،قدیم الاسلام صحابی ہیں ،حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سفر وحضر کے خاص خادم ہیں ،سن ۶۳ ہجری میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکاوصال ہوا۔([57])

رسول اللہ کی کرم نوازی کی وجوہات:

مذکورہ حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سَیِّدُنَا ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا : ’’مانگو! کیا مانگتے ہو؟“شارحین نے اس کی کئی وجوہات بیان فرمائی ہیں ۔ چنانچہ،

عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نے سَیِّدُنَا ربیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا:”مانگوکیا مانگتے ہو؟یعنی مجھ سے اپنی حاجت بیان کرو۔ ‘‘

علامہ ابن حجر ہیتمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :”یعنی تم نے جو میری خدمت کی ہے اُس خدمت کے صلے میں ، میں تمہیں تحفہ دوں ۔ کیونکہ کریموں کی یہ شان ہوتی ہے کہ جو اُن کی خدمت کرتا ہے اُسے


 

 اِنعامات سے نوازتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے زیادہ کریم کوئی نہیں ۔‘‘([58])

رسول اللہ کے اِختیارات کی وُسعت:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ حدیث پاک میں اس بات کا صراحتاً بیان ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مطلقاً فرمایا کہ ”مانگو جو مانگنا ہے۔“اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کو زمین وآسمان ودنیا وآخرت کے تمام خزانوں پر ایسا اختیار عطا فرمایا ہے کہ آپ جسے چاہیں جو چاہیں عطا فرمادیں اسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خصوصیات میں اس بات کو شمار فرمایا ہےکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس بات کا اختیار ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی بھی حکم کے ساتھ چاہیں تو خاص فرمادیں ۔چنانچہ حضرت سَیِّدُنَا خزیمۃ بن ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دوشخصوں کی گواہی کے برابر فرمایا۔حضرت سَیِّدَتُنَا  اُمِّ عطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو ایک خاص خاندان کے لیے نوحے کی اجازت عطا فرمائی۔علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’شارِع یعنی حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عام حکم سے جس کو چاہیں خاص فرمادیں ۔ جیسے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سَیِّدُنَا ابوبُردہ بن نیار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور اُن کے علاوہ بعض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے لیے چھ ماہ کے بکرے کی قربانی کو جائز فرمایا۔ علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خصوصیات میں اس بات کو بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو جنت کی زمین کا مالک کردیا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس میں سے جو چاہیں جسے چاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں ۔‘‘([59])

فضل و کرم وکمال کے دریا:

لمعات التنقیح میں ہے:آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا مطلقاً فرمانا کہ ”مجھ سےمانگو۔“اس سے معلوم


 

 ہوتاہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنے خزانوں میں سے ہر اس چیز کے عطاکرنے کا اختیار دیا ہے جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمعطا کرنا چاہیں اور یہ بھی اختیار دیا کہ آپ مانگنے والوں میں سے جس کو چاہیں جس چیز کے ساتھ چاہیں خاص فرمادیں ، کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فضل و کرم اور کمال کے ایسے دریا ہیں جس کا کوئی ساحل نہیں ہے۔‘‘([60])

تمام کام رسول اللہ کے دست اقدس میں :

شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مطلقاً فرمایا: ”مانگو“اور  کسی مطلوبِ خاص کی قید نہ لگائی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کام رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دستِ ہمت و کرامت  میں ہیں جو کچھ چاہتے ہیں جس کے لیے چاہتے ہیں اپنے پروردگار کے اِذْن سے عطا فرماتے ہیں ۔‘‘([61])

                       جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کردیں

                       نبی مختارِ کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کردیں

مُرَافَقَت سے مراد قریبی مَرتبہ ہے:

مذکورہ حدیث میں ہے کہ حضرت سَیِّدُنَا ربیعہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رفاقت کا سوال کیاتو کیا حضرت سَیِّدُنَا ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنت میں حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی برابری کا درجہ مانگا تھا ؟چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’یہاں پر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مقام تو مقامِ وسیلہ ہے جو کہ صرف آپ کے ساتھ خاص ہے وہاں تو کوئی نبی بھی نہیں پہنچ سکتے چہ جائیکہ کوئی دوسرا وہاں پہنچے؟ کیونکہ حضرت سَیِّدُنَا ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مراد یہ تھی کہ آپ


 

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے قریبی مراتب میں سے کوئی ایک مرتبہ مل جائے۔انہوں نے اس مرتبے کو مُرَافَقَت سے تعبیر فرمایا۔‘‘([62])

مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کبیر حَکِیْمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانمرافقت کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’یعنی مجھے آپ جنت میں اپنے ساتھ رکھیں ،جیسے بادشاہ شاہی قلعہ میں اپنے خاص خادموں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔‘‘([63])

حضور کے مُسَاوِی کسی کا مقام نہ ہوگا:

حَافِظْ قَاضِی اَبُو الْفَضْل عِیَاض عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْجَوَّاد فرماتے ہیں کہ جب حضرت سَیِّدُنَا ربیعہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رفاقت کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا:”اس کے علاوہ اور کچھ مانگ۔“ تو حضرت سَیِّدُنَا ربیعہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ ’’بس یہی چاہیے۔‘‘ تو آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:” تو پھر سجدوں کی کثرت کر کے میری مدد کرو۔“ تاکہ کثرت سجود سے  میرے قُرب اور تمہارے درجات کی بلندی میں اضافہ ہویہاں تک کہ تم جنت میں میرے درجے کے قریب آجاؤ لیکن وہ میرے درجے کے مُسَاوی نہ ہوگا۔ بے شک سجدہ قُرب حاصل کرنے اور دَرَجات کی بلندی  کا ذریعہ ہے۔فرمان باری تعالی ہے:( وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ۠۩(۱۹) )(پ۳۰، العلق: ۱۹)ترجمہ ٔ کنزالایمان: ’’سجدہ کرو اور ہم سے قریب ہوجاؤ۔‘‘ اور حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ہے: ”بندہ جب  سجدہ کرتا ہے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کا ایک درجہ بلندفرما دیتاہے۔“([64])

قُربِ خدا اور قُربِ حبیب خدالازم ومَلْزوم:

حدیث پاک میں ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیِّدُنَا ربیعہ


 

رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ ’’اگر تم جنت میں میری رَفاقت چاہتے ہو تو پھر کثرت سجود کے ذریعے میری مدد کرو اور نفسانی خواہشات کی مخالفت کرو۔‘‘آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یہ شرط کیوں بیان فرمائی؟ علامہ طیبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے اس کی بہت پیاری توجیہ بیان فرمائی ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ’’اے غورو فکر کرنے والے! اس شرط پر غور کر، ان  دونوں باتوں (حضور کی رفاقت اور کثرت سجود) کو باہم مربو ط کرنے سے تُو ایک دقیق راز سے آگاہ ہوگا، وہ یہ  کہ اگر کوئی شخص رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رفاقت چاہتا ہے تو وہ اس رفاقت کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے قُرب(کثرت سجود) کے بغیر حاصل نہیں کرسکتااور جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا قُرب پانا چاہتا ہے وہ اس کے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قُرب کے بغیر نہیں پا سکتا کیونکہ خود  اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے پاک کلام قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ۳، آل عمران: ۳۱)                      

ترجمہ ٔ کنزالایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ۔ اللہ تمہیں دوست رکھے گا۔

پس اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اتباع کو دو محبتوں (بندے کی ربّعَزَّ  وَجَلَّسے محبت اور ربّعَزَّ  وَجَلَّ کی بندے سے محبت)کے درمیان رکھ دیا ہے وہ اس طرح کہ بندے کی ربّ عَزَّوَجَلَّ سے محبت حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِتباع سے مشروط ہے اور ربعَزَّوَجَلَّ کی بندے سے محبت بھی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیروی پر موقوف ہے۔‘‘([65])

جنتی رفاقت کا سبب:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیِّدُنَا ربیعہ اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ فرمایا کہ’’سجدوں کی کثرت کر کے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔‘‘یہ نہ فرمایا کہ ’’سجدوں کی کثرت کرو تمہیں جنت میں میری رفاقت مل جائے گی۔ ‘‘معلوم


 

ہوا جنت اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے فضل وکرم اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نظر عنایت سے ہی ملے گی البتہ نیک اعمال اور کثرت سجود وغیرہ اس میں مُعاون ہیں ۔ چنانچہ مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں : ’’یعنی جنت میں تمہیں اعلیٰ مقام پرپہنچانا میرے کرم سے ہے نہ کہ محض تمہارے سجدوں سے،تم اپنے سجدوں سے مجھے اس کام میں اِمداد دو۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’کثرتِ سجود سے بتایا گیاکہ فقط نمازِ پنجگانہ پر کفایت نہ کرو بلکہ نوافل کثرت سے پڑھو تاکہ میرے قُرب کے لائق ہوجاؤ۔ جیسے بادشاہ کہے کہ ’’میرے پاس آناہے تو اچھا لباس پہنو۔حاضری بادشاہ کے کرم سے ہے اور اچھا لباس دربار کے آداب میں سے۔‘‘

مالک ہیں خزانۂ قدرت کے جو جس کو چاہیں دے ڈالیں                                           

دی خلد جناب ربیعہ کو بگڑی لاکھوں کی بنائی ہے ([66])

سَیِّدُنَا ربیعہ پر بارگاہِ رسالت کی عطائیں :

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سَیِّدُنَا ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ مانگو تو انہوں نے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فقط ایک ہی چیز مانگی اور وہ ہے:’’جنت میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رفاقت۔‘‘لیکن اس ایک چیز کے ضمن میں سَیِّدُنَا ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو بارگاہ رسالت سے بہت سی چیزیں عطا ہوئیں ۔ چنانچہ مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’خیال رہے کہ حضرت سَیِّدُنَا ربیعہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس جگہ حضور تاجدار کائنات، فخر موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے حسب ذیل چیزیں مانگیں : ٭ ٭زندگی میں ایمان پر استقامت٭٭ نیکیوں کی توفیق،٭٭ گناہوں سے کنارہ کشی، ٭٭مرتے وقت ایمان پر خاتمہ،٭٭ قبر کے حساب میں کامیابی،٭٭حشرمیں اعمال کی قبولیت،٭٭پل صراط سے بخیریت گزر،٭٭جنت میں ربّ کا فضل و بلندیٔ مراتب۔یہ سب چیزیں صحابی نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مانگیں اور حضور نے صحابی کو


 

بخشیں ، لہذا ہم بھی حضورسے ایمان، مال، اولاد، عزت،جنت،سب کچھ مانگ سکتے ہیں ،یہ مانگنا سنت صحابہ ہے۔حضور کےلنگر سے یہ سب کچھ قیامت تک بٹتا رہے گا اور ہم بھکاری لیتے رہیں گے۔صوفیاءفرماتےہیں کہ حضرت ربیعہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)نے حضور سے حضور ہی کو مانگا مگر چونکہ حضور جنت میں ہی ملیں گے،لہذا جنت کا بھی ذکر کردیا۔‘‘([67])

اختیاراتِ مصطفےٰپر تین اَحادیث مبارکہ

(1)زمین کے خزانوں کی کنجیاں :

حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے جوامع الکلم  بنا کر مبعوث فرمایا گیا ہے اور رُعب کے ساتھ میری مدد فرمائی گئی ہے ایک روز جبکہ میں سو رہا تھا تو میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں دے دی گئیں ۔ ‘‘([68])

(2)صحابی رسول اور روزے کا کفارہ:

حضرتِ سَیِّدُنا  ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اور اس نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:’’ یارسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں ہلاک ہوگیا۔‘‘رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اس سے استفسار فرمایا: ’’ كس چیز نے تمہیں ہلاک کیا ؟ ‘‘اس نے عرض کی:’’میں نے روزے کی حالت میں اپنی زوجہ سے صحبت کرلی ہے۔‘‘آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’ کیا تمہارے پاس ایک غلام ہے کہ جسے تم کفارہ کے طور پر آزاد کردو؟‘‘ اس نےعرض کی :’’نہیں ۔‘‘ فرمایا : ’’کیا تم لگاتار دو مہینے کے روزے  رکھ سکتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کی: ’’نہیں ۔‘‘ پھر فرمایا  : ’’ کیا تم ساٹھ 60مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو ؟‘‘اس نے عرض کی:’’ نہیں ۔‘‘


 

  پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف فرما ہوگئے۔  کچھ دیر بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی بار گاہ میں ایک کھجوروں سے بھرا ہوا ٹوکرا پیش کیا گیا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے  اس شخص  سے فرمایا :’’ یہ ٹوکرا اٹھالو اور اس کی تمام کھجوریں صدقہ کردو۔‘‘ اس نے عرض  کی:’’  کیا مجھ سے بھی بڑھ کر کوئی فقیر ہے؟ مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کوئی گھر والامجھ سے زیادہ محتاج نہیں ۔‘‘ یہ سن کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اتنا مسکرائے کہ آپ کی مبارک ونورانی داڑھیں ظاہر ہوگئیں ۔ ارشاد فرمایا: ’’جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلادو۔‘‘ ([69])

(3)صحابی رسول اور قربانی کا جانور:

حضرتِ سَیِّدُنا  بَراء بن عازِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ حضرت سَیِّدُنَا ابو بُردَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عید کی نماز سے پہلے  اپنی قربانی کرلی تو حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اُن سے ارشادفرمایا:’’ اس کے بدلے میں دوسری قربانی کرو۔‘‘ وہ عرض گزار ہوئے:’’ یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرے پاس تو چھ مہینے کا بکری کا بچہ ہے۔‘‘ حضرت سَیِّدُنَا شعبہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتےہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ایک سال کی بکری سے بہتر ہے۔ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’اسی کی قربانی دے دو لیکن تمہارے بعد کسی اور کے لیے ایسا کرنا کافی نہ ہوگا۔‘‘([70])

اِختیاراتِ مصطفےٰ کا تفصیلی عقیدہ:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!خلاصہ یہ کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے اپنے حبیب، ہم گناہگاروں کے طبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو ہر طرح کے اِختیارات سے نوازا ہے۔صدرالشریعہ، بدرالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اِختیاراتِ مصطفےٰ کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’حضورِ اَقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے نائب مطلق ہیں ، تمام جہان حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے


 

 تحت تصرف کردیا گیا، جو چاہیں کریں ، جسے جو چاہیں دیں ، جس سے جو چاہیں واپس لیں ، تمام جہان میں اُن کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں ، تمام جہان اُن کا محکوم ہے اور وہ اپنے ربّ کے سوا کسی کے محکوم نہیں ، تمام آدمیوں کے مالک ہیں ، جو اُنھیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنّت سے محروم رہے، تمام زمین اُن کی مِلک ہے، تمام جنت اُن کی جاگیر ہے، ملکوت السمٰواتِ والارض حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے زیرِ فرمان،جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دے دی گئیں ، رزق وخیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں ، دنیا و آخرت حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی عطا کا ایک حصہ ہے، اَحکامِ تشریْعیَّہ حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے قبضہ میں کر دیئے گئے کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کر دیں اور جو فرض چاہیں معاف فرما دیں ۔‘‘([71])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مدنی گلدستہ

سَیِّدُنَا’’حسن بن علی‘‘کے8حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے8مدنی پھول

(1)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنے تمام خزانوں پر ایسی قدرت عطا فرمائی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جسے چاہیں ، جو چاہیں ، جتنا چاہیں عطا فرمادیں ۔

(2)       آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی عطا سے ایسے مالک ومختار ہیں کہ احکامِ شرعیہ میں بھی جس کے لیے جو چاہیں خاص فرمادیں ۔

(3)       دنیا وآخرت دونوں میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بادشاہی ہے،جنت اور اس کی تمام نعمتیں تو حضور سرورِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عطا کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں ۔

(4)       آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجنت میں جس مقام پر فائز ہوں گے اس مرتبے پر کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام


 

 بھی نہیں پہنچ سکتا چہ جائیکہ کوئی غیر نبی اور اُمَّتی  اُس تک پہنچے۔

(5)       جنت اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے فضل وکرم اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رحمت سے ہی ملے گی، البتہ عبادات اور کثرت سجود قرب حاصل کرنے اور درجات کی بلندی میں اضافے کا ذریعہ ہیں ۔

(6)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا قُرب اورحضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا قُرب دونوں لازم و ملزوم ہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں پائے جاسکتے۔

(7)       بندے کی ربّ سے محبت اور ربّ کی بندے سے محبت دونوں رسولِ خدا، حبیب کبریاء، احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِتباع پر موقوف ہیں ۔

(8)       حضور سید المرسلین، رحمۃ اللعالمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے ایمان، مال اولاد ، جنت اور عزت سب کچھ مانگ سکتے ہیں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے آپ کو یہ تمام چیزیں عطا فرمائی ہیں اور آپ کو اِن کا مالک بنا دیاہے اب آپ جسے چاہیں عطا فرمادیں ۔صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بڑی بڑی نعمتیں مانگا کرتے تھے۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں جنت میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قُرب عطا فرمائے اور دنیا میں ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس قُرب کو حاصل کرنے میں مُعاوِن ہوں ۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حدیث نمبر : 107                                                   

ایک سجدہ کرنے کی فضیلت

عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ ، وَیُقَالُ اَبُوْ عَبْدِ الرَّحْمٰن ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ،رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ:عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ، فَاِنَّکَ لَنْ  تَسْجُدَلِلّٰہِ سَجْدَۃً اِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً،وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیْئَۃً. ([72])


 

ترجمہ :حضور نبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےآزادکردہ غلام حضرت سَیِّدُنَا ابوعبداللہ یا ابوعبدالرحمٰن ثوبانرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکوفرماتے ہوئے سنا: ’’تم پر سجدوں کی کثرت کرنا لازم ہے کیونکہ تم اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے لیے جب بھی سجدہ کروگے تو اللہ عَزَّوَجَلَّاس سجدے کے بدلے تمہارا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور تمہارا ایک گناہ مٹادےگا۔‘‘

 حدیث پاک کا پس منظر:

حضرت سَیِّدُنَا مَعْدَان بن طَلحہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں حضور رحمتِ عالم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے غلام حضرت سَیِّدُنَا ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملا اور ان سے پوچھا: ’’مجھے ایسا عمل بتائیے جس کو کرنے سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ مجھے جنت میں داخل کردے یا وہ عمل جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو سب سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘یہ سن کر حضرت سَیِّدُنَا ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔میں نے پھر پوچھا تو بھی آپ خاموش رہے،جب  میں نے تیسری بار پوچھا تو فرمایا: ’’میں نے اس بارے میں حضورنبی رحمت، شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے پوچھا تھا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’تم پر سجدوں کی کثرت کرنا لازم ہے کیونکہ تم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لیے جب بھی سجدہ کروگے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس سجدے کے بدلے تمہارا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور تمہارا ایک گناہ مٹادےگا۔‘‘([73])

سَیِّدُنَاثوبان کے دو مرتبہ خاموش رہنے کی وجہ:

حضرت سَیِّدُنَا مَعدان بن طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب حضرت سَیِّدُنَا ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے سوال کیا تو آپ دو2 مرتبہ خاموش رہے اور تیسری بار پوچھنے پر جواب دیا۔ مُفَسِّر شہِیر، مُحَدِّثِ کَبِیر،حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان نےاس کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ حضرت سَیِّدُنَا ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے تین بار یہ سوال کیا تھا، دو2بارسرکار خاموش رہے تھے اور تیسری بار میں جواب دیا تھا۔ اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی


 

 دو2بار خاموش رہے۔ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یہ خاموشی سائل کا شوق بڑھانے کے لیے اور حضرت سَیِّدُنَا ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خاموشی سنت پر عمل کرنے کے لیے تھی۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی یہ عادت تھی کہ وہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَداؤں کی نقل کرتے تھے۔‘‘([74])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کثرتِ سجود کے حکم کی حکمتیں

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ حدیث پاک میں نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَروَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کثرت سے سجدے کرنے کا حکم اِرشاد فرمایا۔ شارِحین حدیث نے اس کی کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں ۔چند حکمتیں پیش خدمت ہیں :

سجدوں کی کثرت قُربِ الٰہی کا سبب:

علامہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’(سجدوں کی کثرت قُربِ الٰہی کا سبب ہے۔) اِس کی تائید شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ایک دوسرے فرمان سے بھی ملتی ہے جس میں اِرشاد فرمایا: ’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے ربّ کے سب سے قریب ہوتا ہے ۔‘‘ اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرمان کی موافقت اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے اس فرمانِ عالیشان سے بھی ہوتی ہے: (وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ۠۩(۱۹)) (پ۳۰،العلق:۱۹)ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’اور سجدہ کرو اور ہم سے قریب ہو جاؤ۔‘‘([75])

سجدے میں عجزواِنکساری ہے:

حَافِظْ قَاضِی اَبُو الْفَضْل عِیَاض  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَھَّابفرماتے ہیں :’’سجدے میں انتہا درجے کی تواضع اور


 

 اِنکساری پائی جاتی ہے اور سجدے میں بندہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے لیے اپنی عبودیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ سجدے میں آدمی اپنے جسم کے سب سے زیادہ قابل احترام حصے یعنی اپنے چہرے کو ایک ادنیٰ سی چیز جسے لوگ اپنے پیروں اور جوتوں تلے روندتے ہیں یعنی مٹی سے آلودہ کرکے ربّ تعالٰی کی بارگاہ میں اپنی حقارت اور پنی ذات کے اَدنیٰ ہونے کا اِظہار کرتا ہے۔‘‘([76])

سجدہ نماز کے علاوہ بھی عبادت:

سجدوں کی کثرت کے حکم کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ سجدہ بذاتِ خود ایک عبادت ہے جبکہ قیام اور رکوع نماز میں تو عبادت ہیں لیکن نمازکے علاوہ عبادت نہیں ۔مُفَسِّرشہِیر، مُحَدِّثِ کَبِیْر، حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’خیال رہے کہ صرف سجدہ بھی عبادت ہے مگر صرف رکوع اور قیام عبادت نہیں بلکہ یہ نماز میں عبادت ہے۔‘‘([77])

سجدوں کی کثرت کا معنی:

مذکورہ حدیث پاک میں حضور نبی پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سجدوں کی کثرت کا حکم دیاہے اور یہ وہ سجدے ہیں جو اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا حاصل کرنےکے لیے کیے جائیں اور ان سجدوں کی ادئیگی نمازوں کی کثرت، سجدۂ تلاوت اور سجدۂ شکر ادا کرکے ہوگی۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’اِن سجدوں کی ادائیگی اِس طرح ہوگی کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے کثرت سے نماز ادا کی جائے۔‘‘([78])

عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی نقل فرماتے ہیں :’’ سجدوں کی کثرت کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز میں کثرت سے سجدے کرو، سجدۂ تلاوت کرو اور سجدۂ شکر بجالایا کرو۔‘‘([79])


 

سجدوں کی کثرت عظیم مَراتب کا سبب:

شیخ عبدالحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ان سجدوں کی کثرت سے بندے کو عظیم مرتبہ عطا فرمائے گا اور درگاہِ قُرب و عظمت میں اعلیٰ مقام پر فائز فرمائے گا۔ یہ سجدہ معاصی یعنی گناہوں اور سیئات یعنی بُرے اَعمال کی معافی کا سبب بھی ہے، رفع درجات یعنی درجات کی بلندی اور زیادتِ حسنات یعنی نیکیوں میں زیادتی کا موجب بھی اور یہ سجدہ ان دونوں طریقوں کے ذریعے بندے سے ضرر و نقصان کو دور کرکے اسے نفع سے ہمکنار کرتا اور فلاح و نجات سے بہر ور کرتا ہے۔‘‘([80])

سجدے کے سبب گناہوں کی معافی:

حدیث پاک میں سجدہ کرنے کی فضیلت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سجدہ کرنے والے کا ایک گناہ معاف کردیا جاتاہے۔یہاں کونسا گناہ مراد ہے؟ مُفَسِّرشہِیر، مُحَدِّثِ کَبِیر، حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’ معلوم ہوا کہ سجدہ گناہوں کاکفارہ ہے مگر گناہوں سے مرادحقوق ﷲ کے گناہ صغیرہ ہیں ،حقوق العباد ادا کرنے سے اور گناہ کبیرہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں ۔‘‘([81])

سجدے سے متعلق بزرگانِ دین کے اَحوال و اَقوال

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سجدہ ایک عظیم عبادت ہے، بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْنسجدوں کی کثرت فرمایا کرتے تھے۔ چند بزرگانِ دین کے احوال پیش خدمت ہیں :

روزانہ ایک ہزار 1000سجدے:

حضرت سیِّدُنا علی بن عبد اللہ  بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے متعلق منقول ہے کہ آپ ہر روز ایک ہزار1000 سجدے کرتے تھے اور لوگ انہیں ”سجَّاد“ یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا کہتے تھے۔([82])


 

جوانی کے سجدے قابل رشک:

حضرت سیِّدُنا یوسف بن اَسباطرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ (بڑھاپے میں ) فرمایاکرتے تھے:’’اے نوجوانوں کے گروہ! مرض سے پہلے صحت میں جلدی کرو، میں صرف اس شخص پر رشک کرتا ہوں جورکوع وسجود کوپورا کرتا ہے جبکہ میرے اور سجدے کے درمیان رُکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔‘‘([83])(یعنی میں بوڑھا ہوگیا ہوں ۔)

کسی چیز پر افسوس نہیں ہوتا:

حضرت سَیِّدُنَا مَسروق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہفرماتے ہیں :’’مجھے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے لیے سجدہ کرنے کے سوا دنیا کی کسی چیز کے چھوٹنے پر افسوس نہیں ہوتا۔‘‘([84])

سجدے میں قرب الٰہی کی زیادتی:

حضرت سیِّدُنا عُقبہ بن مسلم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہفرماتے ہیں :’’بندے کی کوئی خصلت اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو اس سے زیادہ پسند نہیں کہ وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّسےملاقات کو پسند کرے اوربندہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدہ کرنے کے علاوہ کسی گھڑی میں اس کا زیادہ قرب نہیں پاتا۔‘‘([85])

سجدے میں دعائیں زیادہ مانگو:

حضرت سَیِّدُنَاابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ’’بندہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب سجدے کرتا ہے، لہٰذا اس میں دعائیں زیادہ مانگو۔‘‘([86])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

مدنی گلدستہ

”جنت البقيع“کے9حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے9مدنی پھول

(1)       سجدہ صرف وہی مقبول ہے جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لیے اخلاص کے ساتھ کیا جائے۔

(2)       حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کثرت سے سجدے کرنے کا حکم دیا ہے، اب بندے کی مرضی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کرے چاہے زیادہ رکعتیں ادا کرکے یا سجدۂ شکر کی کثرت کرکے یا سجدۂ تلاوت کرکے۔

(3)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں سجدہ کرنے سے ایک درجہ بلند ہوتا اور ایک صغیرہ گناہ معاف ہوتا ہے۔

(4)       سجدہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا قُرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

(5)       سجدے کے ذریعے بندہ ربّ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی عاجزی اور اِنکساری کا اظہار کرتا ہے اور ربّ کو اپنے بندے کا یہ فعل بہت پسند ہےکہ وہ  اس کے سامنے اپنی محتاجی کا اعتراف کرے۔

(6)       سجدہ،نماز وغیر نماز دونوں میں عبادت ہے جبکہ قیام و رکوع، بغیر نماز کے عبادت نہیں ۔

(7)       مبلغین وواعظین ودرس دینے والوں کو چاہیے کہ نیک اعمال کا حکم دیتے ہوئے ان کے فضائل بھی ذکر کریں کہ اُن فضائل کو سن کر اُن  اعمال کی طرف رغبت زیادہ ہوگی۔

(8)       صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانحضور رحمت عالَم، نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہر ہر ادا کو ادا کرتے تھے جیساکہ حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کیا۔

(9)       سجدے کی حالت میں بندے کو ربّعَزَّ  وَجَلَّ کا قُرب زیادہ حاصل ہوتا ہے لہٰذا اس میں دعائیں بھی زیادہ مقبول ہوتی ہیں ۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی بارگاہ میں سجدوں کی  کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، سجدوں کی برکت سے ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔


 

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حدیث نمبر :108                   

بہترین شخص کون ہے؟

عَنْ اَبِیْ صَفْوَانَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ اَلْاَسْلَمِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : خَیْرُ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ. ([87])

ترجمہ  : حضرت سَیِّدُنَا ابو صَفْوَان عبداللہ بن بُسْر اَسْلَمِی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو۔‘‘

سَیِّدُنَاعبد اللہ بن  بُسْر کا مختصر تعارف:

آپ کا نام عبد اللہ بن بُسْر المَازِنی ہے، آپ کی کنیت ابو بِشْر اور ایک قول کے مطابق ابو صَفْوَان ہے۔ آپ نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی۔ دو عالَم کے مالک ومختار، مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے آپ کے سر پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر آپ کو دعا دی۔ آپ کے والد، والدہ، بھائی عطیہ اور بہن صماء (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ )سب کے سب شرفِ صحابیت سے سرفراز ہوئے۔  آپ سے شامیوں نے روایات بیان کی ہیں ۔ ۹۴ سال کی عمر میں سن  88ہجری میں آپ کا وصال ہوا ۔ ایک قول کے مطابق آپ کا وصال ۹۶ہجری میں سو 100سال کی عمر میں ہوا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آخری صحابی ہیں جو ملکِ شام میں فوت ہوئے۔([88])

لوگوں میں سب سے بہترین شخص:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عمر کا طویل ہونا بندے کے اختیار میں نہیں ،لیکن نیک اعمال کرنا بندے


 

 کے اختیار میں ہے تو انسان کو چاہیے کہ اپنی عمر اور اپنے وقت کو غنیمت جانے اور اِنہیں اُن کاموں میں صرف کرے جس سے اُخروی فائدہ ہو۔اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد طِیْبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیمذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں :’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو کیونکہ انسان کی مثال اِس دنیا میں نیک اَعمال کے ساتھ اُس تاجر کی سی ہے جو سامانِ تجارت کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تاکہ تجارت کر کے منافع کمائے اور اپنے وطن  سلامتی کے ساتھ اور خوب نفع کماکر لوٹے تو وہ بھلائی کو پالیتا ہے۔ اسی طرح انسان کی عمر اس کا سرمایہ ہے، اس کی سانسیں اور اَعضاء و جَوارِح کا کام کرنا اس کا نقد ہے اور نیک اعمال اس کا منافع ہیں ، پس جتنا اس کا سرمایہ یعنی عمر زیادہ ہوگی،نفع  یعنی نیک اَعمال بھی اتنے زیادہ ہوں گے اور آخرت اس کا وطن ہے۔ پس جب وہ اپنے وطن لوٹے گا تو اپنے منافع یعنی نیک اعمال کا پورا پورا ثواب پائے گا۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّاپنے پاک کلام قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) (پ۲۲، فاطر: ۲۹)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان:بیشک وہ جو اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں اور نماز قائم رکھتے اور ہمارے دیئے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں پوشیدہ اور ظاہر وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں   جس میں ہرگز ٹوٹا (نقصان)نہیں ۔

اورجس نے اس بات کو نہیں سمجھا اور اپنے سرمایہ یعنی عمرکو ضائع کردیا تو وہ نفع یعنی عمل کی توفیق نہیں پاتا۔قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى۪-فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(۱۶)                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     (پ۱، البقرۃ: ۱۶)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان:یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی  تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے۔([89])

مُفَسِّرشہِیر، مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’جس


 

 کی عمر درازہو اور اس کی نیکیاں زیادہ ہوں ہر دن اس کی نیکیاں بڑھائے، ایسا شخص بہت ہی خوش نصیب ہےاور جس کی نیکیاں گناہوں کے برابر ہوں وہ نمبر دوم کا خوش نصیب ہے۔ایسا شخص مشکل سے ملے گا جو زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کرے،یہ شان حضراتِ انبیاء کرام کی ہے یا خاص اولیاء اللہ کی،یہاں وہ ہی معنی مراد ہیں جو ہم نے عرض کیے۔‘‘([90])

عمل کے اچھا ہونے کے معنی:

حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’بہترین شخص وہ ہے جس کی عمر لمبی اور عمل اچھا ہو ۔‘‘ کیونکہ جس کی عمر لمبی ہو اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی اطاعت میں گزرے وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے زیادہ قریب ہوگا اور آخرت میں اس کے درجے بھی بلند ہوں گےکیونکہ جب بندہ نیک اعمال کرتا چلا جائے گا وہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے اتنا قریب ہوتا چلا جائے گا لیکن یہ اسی صورت میں ہوگا جبکہ وہ تمام اعمال کو اخلاص اور اچھے طریقے سے ادا کرے۔چنانچہ علّامہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’اپنی لمبی عمر میں انسان وہ کام کرے جو اُسے ربّ تعالٰی کے قریب کر نے والے اور  اس کی رِضا تک پہنچا نے والے ہوں اور عمل کے اچھا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کو تمام شرائط و اَرکان کے ساتھ مکمل طور پر ادا کرے۔‘‘([91])

لمبی عمر نیک اَعمال میں اِضافے کا باعث:

حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ عمر طویل ہونے کے ساتھ ساتھ نیک اَعمال کا ہونا بھی ضروری ہے تاکہ جیسے جیسے عمر بڑھتی جائے نیک اَعمال میں بھی اضافہ ہوتا جائے ۔کیونکہ جیسے جیسے عمر طویل ہوتی جائے گی نیک اعمال کے سبب اس کے اجر وثواب اور درجات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ عَلَّامَہْ  عَبْدُالرَّءُوْفْ مَنَاوِیْ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی مذکورہ حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’جس کے عمل کثیر ہوں گے تو جب جب اس کی عمر بڑھے گی  اس کا اجر بھی بڑھے گا اور اس کے درجات بھی بڑھیں گے کیونکہ زندگی


 

 میں اُجور کی زیادتی اعمال کی زیادتی کا سبب ہے اور اگریہ (اعمال کی زیاد تی ) نہ بھی ہو پھر بھی ایمان پر استقامت تو حاصل ہے ہی اور اس سے بڑھ کر اور کیاسعادت ہوگی؟ یہاں پر یہ اعتراض کرنا درست نہیں ہے کہ کبھی کبھی ایمان سلب بھی تو کرلیا جاتا ہے؟ کیونکہ اگرعلمِ الٰہی میں اس کا برا خاتمہ لکھا جاچکا ہے تو وہ تو ہوکر ہی رہے گا ،عمر کے کم یا زیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پس (ایمان کی سلامتی کے ساتھ) اگر عمر طویل ہوگی تو نیک اعمال اور درجات میں اضافہ ہوگا اور اگر عمر کم ہوگی تو نیک اعمال بھی کم ہوں گے۔‘‘([92])

زندگی کے لمحات اَنمول ہیرے ہیں :

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالے” اَ نمول ہیرے“ صفحہ 3پر شیخ طریقت امیر اہلسنت  ، بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَۃ فرماتے ہیں :ہماری زندگی کے لمحات انمول ہیرے ہیں اگران کو ہم نے بے کار ضائع کردیا تو حسرت و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

              دن بھر کھیلوں میں خاک اُڑائی

              لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے انسان کو ایک مُقرَّرہ وَقت کے لیے خاص مقصد کے تحت اِس دنیا میں بھیجا ہے۔ چنانچِہ ارشاد ہوتا ہے:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) (پ۱۸، مؤمنون:۱۱۵)                                    ترجمہ ٔ کنزالایمان: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں ۔

”خزائن العرفان“ میں اس آیتِ مقدّسہ کے تحت لکھا ہے: ’’اور (کیا تمہیں )آخِرت میں جزا کے لیے اٹھنا  نہیں بلکہ تمہیں عبادت کے لیے پیدا کیا کہ تم پر عبادت لازم کریں اور آخِرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دیں ۔‘‘موت وحیات کی پیدائش کا سبب بیان کرتے ہوئے پارہ ۲۹


 

سورۃُالملک میں ارشاد ہوتا ہے:

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ- (پ۲۹، الملک:۲)

ترجمہ ٔ کنزالایمان:وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔

زندگی بہت مختصر ہے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ دو آیات کے علاوہ بھی قرآنِ پاک میں دیگر مقامات پر تخلیقِ انسانی یعنی انسان کی پیدائش کا مقصد بیان کیاگیا ہے۔ یقینا زندگی بہت مختصر ہے، جو شخص اس مختصر سی زندگی میں اچھے اور نیک اعمال کرنے میں کامیاب ہوگیا، اپنے قیمتی وقت کو فضول برباد اور ضائع کرنے کی بجائے اللہ عَزَّوَجَلَّاور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا والے کاموں میں خرچ کیا،  یقیناً ایسا شخص دنیا  و آخرت دونوں میں خوش وخرم رہے گا، لیکن جس نے اپنا قیمتی وقت اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رضا والے کاموں کی بجائے گناہوں میں برباد کردیا تو اسےمرنے کے بعد پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ بہت خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے موت سے پہلے پہلے آخرت کی تیاری کرلی۔

یہ سانس کی مالا اب بس ٹوٹنے والی ہے:

حضرتِ سَیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’جلدی کرو! جلدی کرو!!تمہاری زندگی کیا ہے ؟ یہی سانس تو ہیں کہ اگر رُک جائیں تو تمہارے ان اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہوجائے جن سے تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قُرب حاصل کرتے ہو۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّاس شخص پر رحم فرمائے جس نے اپنا محاسبہ کیا اور اپنے گناہوں پر چند آنسو بہائے۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے پارہ16سورہ مریم کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:

اِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّاۚ(۸۴) (پ۱۶، مریم: ۸۴)

ترجمہ ٔ کنزالایمان:ہم تو ان کی گنتی پوری کرتے ہیں ۔

حُجَّۃُ الْاِسلامحضرتِ سَیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوالِی فرماتے ہیں :’’یہاں گنتی سے سانسوں کی گنتی مُراد ہے۔‘‘([93])


 

    یہ سانس کی مالا اب بس ٹوٹنے والی ہے

    غفلت سے مگر دل کیوں بیدار نہیں ہوتا

    دل ہائے گناہوں سے بیزار نہیں ہوتا

    مغلوب شہا نفس بدکار نہیں ہوتا

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مدنی گلدستہ

سَیِّدُنَا ’’ابو بکر‘‘کے6حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے6مدنی پھول

(1)       عمر کا طویل ہونا بندے کے اِختیار میں نہیں لیکن زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنا بندے کے اختیار میں ہے لہٰذا زندگی کے قیمتی لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کیجئے۔

(2)       جس طرح ایک تاجر اپنا سرمایہ ایسی جگہ لگاتا ہے جہاں اُسے زیادہ سے زیادہ منافع ہو اسی طرح بندے کو اپنی زندگی اُن اعمال میں صَرف کرنی چاہیے جن سے آخرت میں زیادہ فائدہ ہو۔

(3)       طویل عمر بھی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ایک نعمت ہے لہذا اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کیے جائیں ۔

(4)       عمر کا طویل ہونا مؤمن کے لیے اس لیے بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ اگرچہ وہ زندگی میں نیک اعمال پر استقامت نہ پا سکے مگر اس کا ایمان تو سلامت ہے اور یہ خود بڑی نعمت ہے۔

(5)       نامۂ اَعمال میں فقط نیکیاں ہی نیکیاں ہوں کوئی گناہ نہ ہو یہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَامکا خاصہ ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہیں یا اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے ان نیک بندوں کی صفت ہوسکتی ہے جنہیں وہ اپنی رحمت سے گناہوں سے محفوظ فرمالے، جس کی نیکیاں اور گناہ دونوں برابر ہوں وہ بھی خوش نصیب ہے لیکن ان معنی میں کہ اس کے نامۂ اعمال میں کچھ نہ کچھ تو نیکیاں ہیں ۔


 

(6)       زندگی بے حد مختصر ہے، یقیناً سمجھدار وہی ہے جو اس مختصر زندگی کی قدر کرتے ہوئے موت سے قبل آخرت کی تیاری میں مشغول ہوجائے کہ موت کے بعد پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیکیوں بھری زندگی گزارنے کی توفیق فرمائے، گناہوں سے بچنے اور دوسرے کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے، ایمان وعافیت کے ساتھ شہادت کی موت عطا فرمائے۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حدیث نمبر: 109          

سَیِّدُنَا اَنَس بِنْ نَضْر کی عَظِیْمُ الشَّان  شَہَادَت

عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَال غَابَ عَمِّیْ اَنَسُ بْنُ النَّضْرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! غِبْتُ عَنْ اَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلْتَ الْمُشْرِکِیْنَ  لَئِنِ اللّٰہُ اَشْہَدَنِیْ قِتَالَ الْمُشْرِکِینَ لَیَرَیَنَّ اللّٰہُ مَا اَصْنَعُ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ اُحُدٍ وَانْکَشَفَ الْمُسْلِمُوْنَ،فَقَالَ اللّٰہُمَّ اَعْتَذِرُ اِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلَاءِ،یَعْنِیْ اَصْحَابَہُ،وَاَبْرَاُ اِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ ہٰؤُلَاءِ، یَعْنِیْ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَاسْتَقْبَلَہُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ: یَا سَعْدُ بْنَ مُعَاذٍ!اَلْجَنَّۃُ وَرَبِّ النَّضْرِ، اِنِّی اَجِدُ رِیْحَہَا مِنْ دُوْنِ اُحُدٍ،قَالَ سَعْدٌ:فَمَا اسْتَطَعْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا صَنَعَ ،قَالَ اَنَسٌ: فَوَجَدْنَا بِہِ بِضْعًا وَثَمَانِینَ ضَرْبَۃً بِالسَّیْفِ اَوْ طَعْنَۃً بِرُمْحٍ  اَوْ رَمْیَۃً بِسَہْمٍ وَوَجَدْنَاہُ قَدْ قُتِلَ وَقَدْ مَثَّلَ بِہِ الْمُشْرِکُوْنَ فَمَا عَرَفَہُ اَحَدٌ اِلَّا اُخْتُہُ بِبَنَانِہ، قَالَ اَنَسٌ: کُنَّا نَرَی اَوْ نَظُنُّ اَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِیْہِ وَفِیْ اَشْبَاہِہِ ﴿مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ (الاحزاب :۲۳ )اِلیٰ آخِرِ ھَا . ([94])

قَوْلُہُلَیُرِیَنَّ اللّٰہُرُوِیَ بِضَمِّ الْیَاءِ وَکَسْرِ الرَّائِ، اَیْ لَیُظْہِرَنَّ اللّٰہُ ذَالِکَ لِلنَّاسِ،وُرِوَیَ بِفَتْحِہِمَا وَ مَعْنَاہُ ظَاھِرٌ،  وَاللہُ اَعْلَمُ.

ترجمہ  :حضرت سَیِّدُنَا  انسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میرے چچا حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی  عَنْہُ جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اس لیے انہوں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا : ’’یا رسول


 

 اللہ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ نے مشرکین سے جو پہلا قتال کیا (یعنی جنگ بدر)میں اس میں حاضر نہ تھا لیکن اب اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے مجھے مشرکوں کے خلاف جنگ کرنے کی توفیق بخشی تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ دیکھے گا کہ میں کس طرح قتال کرتا ہوں ۔‘‘ چنانچہ جب جنگِ اُحد کا دن آیا اور مسلمان پیچھے ہٹ گئے تو حضر ت سَیِّدُنَا  انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رَبُّ الْعِزَّت میں عرض کی: ’’اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ مسلمانوں نے جو کچھ کیا میں اس کی معذرت چاہتا ہوں اور جو مشرکین نے کیامیں اس سے بیزار ہوں ۔‘‘ پھر جب وہ آگے بڑھے تو سامنے سے حضرت سَیِّدُنَا سعد بن مُعاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آرہے تھے۔سَیِّدُنَااَنس بن نَضْر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے کہا: ’’جنت اے سعد! میرے والد نضر کے ربّ کی قسم! مجھے اُحد پہاڑ کی جانب سے جنت کی خو شبو آرہی ہے۔‘‘ (یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے، بعدازاں )حضرت سَیِّدُنَا سعدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! جو حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کر دکھا یا وہ میں نہیں کرسکتا تھا۔‘‘سَیِّدُنَا  انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُبیان کرتے ہیں کہ ہم نے ان کے جسم پر اَسّی 80 سے زیادہ تلوار، نیزے اور تیر کے زخم پائے اور ہم نے دیکھا کہ انہیں شہید کردیا گیا تھا اور مشرکین نے ان کا مُثلہ کردیا تھا ۔(یعنی ان کے کان، ناک وغیرہ کاٹ ڈالے تھے) فقط ان کی ہمشیرہ نے انگلیوں کے پوروں سے پہچانا۔ہم گمان کرتے تھے کہ یہ آیت مبارکہ ان کے یا ان جیسے دیگر اصحاب کے حق میں نازل ہوئی ہے:

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ- (پ۲۱، الاحزاب: ۲۳)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان: مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچّا کردیا جو عہد اللہ سے کیا تھا۔

حدیث پاک کےبعض الفاظ کے معانی: لفظ”لَیُرِیَنَ“اور” لَیَرَیَنَّ“دونوں طرح روایت کیا گیا ہے، پہلی صورت میں اس کا معنی ہوگا:” اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ضرور لوگوں کو دکھا دےگا۔“اور دوسری صورت میں معنی ہوگا : ”اللہ عَزَّوَجَلَّ  ضرور دیکھے گا۔“

مذکورہ آیت مبارکہ کا شانِ نزول:

عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینے اس آیت مبارکہ کے دو شان نزول بیان


 

 فرمائے ہیں :

(1) یہ آیت مبارکہ حضرت سَیِّدُنَا اَنس بن نَضْررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی۔

(2) بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک ستّر ۷۰ اَصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْکے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنا وعدہ پورا کردیا اور اس میں کوئی کمی نہ کی۔([95])

سَیِّدُنَا انس بن نضر کی کرامت:

حضرت سَیِّدُنَا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے چچا حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بہت ہی بہادر اور جاں باز صحابی ہیں ،مذکورہ حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی شہادت کا علم ہوچکا تھا اور شہادت سے قبل انہیں جنت کی خوشبوآرہی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہایت ہی متقی وپرہیزگار صحابی تھے، بارگاہِ الٰہی میں بہت بلند مقام حاصل تھا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکاشمار اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے ان خاص الخاص بندوں اور ولیوں میں ہوتا تھا جو کسی بات پر قسم اٹھالیں تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّان کی قسم کو پورا فرماتا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بہن سَیِّدَتُنَا  رُبَیعرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے جھگڑا وتکرار کرتے ہوئے ایک اَنصاری لڑکی کے دو اگلے دانت توڑ ڈالے ۔ لڑکی والوں نے قصاص کا مطالبہ کیا اور حضورنبی رحمت، شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے قرآن مجید کے حکم کے مطابق یہ فیصلہ فرمادیاکہ رُبَیع بنت نضرکے دانت قصاص میں توڑ دیئے جائیں ۔ جب حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پتہ چلا تو وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:’’یارسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم! میری بہن کےدانت نہیں توڑے جائیں گے۔‘‘رحمتِ عالم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ اے انس بن نضر! تم کیا کہہ رہے ہو؟قصاص تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی کتاب کا فیصلہ ہے۔‘‘ یہ گفتگوابھی ہورہی تھی کہ لڑکی والے دربارِنبوت میں حاضر ہوئے اورکہنے لگے:’’یارسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! قصاص میں رُبَیع کا دانت توڑنے کی بجائے ہمیں دِیَت یعنی مالی مُعاوضہ دلایاجائے۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، اس طرح سَیِّدُنَا انس


 

 بن نضر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی قسم پوری ہوگئی اور آپ کی بہن حضرت سَیِّدَتُنَا رُبَیع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے دانت توڑے جانے سے بچ گئے۔رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس موقع پر ارشادفرمایا: ’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے بندوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ کسی معاملے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم کھالیں تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُن کی قسم کوپورا فرمادیتاہے ۔‘‘ شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِی فرماتے ہیں : ’’حضوراَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِرشاد گرامی کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالٰی کے بندوں میں سے کچھ ایسے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی ہیں کہ اگر کسی ایسی چیز کے بارے میں جو بظاہر ہونے والی نہ ہو ، اللہ تعالٰی کے یہ بندے قسم کھالیں کہ ہوجائے گی تو اللہ تعالٰی اُن مُقَدَّس بندوں کی قسموں کو ٹوٹنے نہیں دیتابلکہ اس نہ ہونے والی چیز کو موجود فرمادیتاہے تاکہ ان کی قسم پوری ہوجائے۔‘‘([96])

کیا جنگ بدر پہلی جنگ تھی؟

مذکورہ حدیث پاک میں اس بات کا ذکر ہوا کہ حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے تو آپ نے محبوب ربِّ داور، شفیعِ روزِ مَحشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی کہ میں مشرکین سے لڑی جانے والی پہلی جنگ میں شریک نہ ہوسکا تھا۔ یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ بدر سن ۲ہجری میں ہوئی جبکہ مسلمان اس سے پہلے بھی جنگ کرچکے تھے تو پھر سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ بدر کو پہلی جنگ کیوں کہا؟ عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَرعَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ غزوؤ بدر وہ پہلا معرکہ ہے جس میں تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنفس نفیس خود قتال کے لیے نکلے اسی وجہ سے حضرت سَیِّدُنَا انس  بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے پہلی جنگ کہا ورنہ مسلمان اس سے پہلے بھی جنگ کرچکے تھے لیکن اس جنگ میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنفس نفیس شریک نہ ہوئے تھے۔‘‘([97])


 

سَیِّدُنَا انس بن نضر کاعہد:

حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!  میں غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکا تھا لیکن اب اگر مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں ۔‘‘ علامہ قرطبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا یہ کلام اس بات کو شامل ہے کہ آپ نے خود پر  لازم کرلیا تھا کہ آپ کسی بھی حال میں جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنی قدرت کے مطابق ہمت و حوصلے سے کام لیں گے نیز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ وہ کیا کریں گے؟ کیونکہ آپ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ کسی بات کو اپنے اوپر لازم کرکے اگر آپ نہ کر پائے تو یہ اچھی بات نہیں اور اس معاملے میں آپ  اپنی قوت و ہمت پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے خاموش ہوگئے۔ اسی وجہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ ’’آپ اس سے زیادہ کچھ اور بولنے سے گھبرائے۔ ‘‘لیکن آپ کی نیت سچی تھی اورآپ اپنے ارادے میں پختہ تھے اسی وجہ سے آپ کے حق میں نازل ہونے والی آیت مبارکہ میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کے ارادے کو عہد کا نام دیا۔‘‘([98])

جنگ اُحد میں مسلمانوں کے میدان چھوڑنے کی وجہ:

حدیث پاک میں اس بات کا بیان ہےکہ جنگ اُحد میں مسلمان پیچھے ہٹ گئے اور حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں معذرت پیش کی۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے رحمتِ عالم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ سات سو 700 صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اُحد پہاڑ کو پشت پر رکھ کر صف بندی کی۔حضرت سَیِّدُنَا مُصْعَب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو جھنڈا عطا فرمایا، سَیِّدُنَا زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو بھی ایک دستے کا افسر مقرر فرمایا، سَیِّدُنَا حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بغیر زِرہ والےدستے کی کمان عطا فرمائی۔ اُحُدپہاڑ کی پشت سے حملے کا خطرہ تھا اس لیے آپ نے


 

پچاس50تیر اندازوں کا ایک دستہ وہاں متعین کیا جن پر حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن جُبَیْر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو مقررفرمایا۔اس دستے کو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یہ خصوصی ہدایات جاری فرمائی تھیں کہ وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں ۔ جنگ کی ابتداء میں ہی کفار کو سخت ذلت کا سامنا کرنا پڑا اور تمام کافر بھاگ کھڑے ہوئے،یہ دیکھ کر تیر انداز دستے والے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبھی مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔

دراصل اس دستے میں اس بات پر اختلاف ہوگیا کہ مال غنیمت جمع کیا جائے یا نہیں ، بعض نے کہا کہ نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس جگہ سے ہٹنے کو منع فرمایا ہے، لیکن بعض نے کہا کہ چونکہ کفار بھاگ گئے ہیں اور جنگ ختم ہوگئی ہے لہٰذا کوئی حرج نہیں اس لیے وہ مال غنیمت جمع کرنے لگے۔ان تیر اندازوں کا اپنی جگہ سے ہٹنا تھاکہ حضرت سَیِّدُنَا خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو اس وقت ایمان نہ لائے تھےموقع پاکر پیچھے سے حملہ کر دیا ۔اس اچانک حملے کے نتیجے میں حضرت سَیِّدُنَا مُصْعَب بن عُمیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہوگئے، چونکہ آپ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے بہت مُشابہ تھے اس لیے شور مچ گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شہید ہوگئے ہیں ، اس خبر سے مزید بدحواسی پھیل گئی، بعد اَزاں سَیِّدُنَا کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نظر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر پڑگئی اور انہوں نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبالکل خیریت سے ہیں ۔یہ سن کر ہر طرف سے جان نثار ٹوٹ پڑے، کفار بھی اسی طرف مُتَوجہ ہوگئے، صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گرد دائرہ بنالیا اور دفاع کرنے لگے، اس میں مُتَعَدَّد صحابی شہید ہوگئے ۔بالآخر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لے گئے جہاں دشمن نہ آسکتے تھے ۔

الغرض اس جنگ میں مسلمانوں کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس کی وجہ یہی ہوئی کہ سَیِّدُنَا عبداللہ بن جُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی اپنی جگہ سے ہٹ گئے۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی اس اجتہادی خطا کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے قرآن پاک کی سورۂ آلِ عمران میں تفصیل سے بیان فرمایا اور پھر ان تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی اس خطا کے لیے معافی کا بھی اعلان فرمادیا۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:


 

وَ  لَقَدْ  صَدَقَكُمُ  اللّٰهُ  وَعْدَهٗۤ  اِذْ  تَحُسُّوْنَهُمْ  بِاِذْنِهٖۚ-حَتّٰۤى  اِذَا  فَشِلْتُمْ  وَ  تَنَازَعْتُمْ  فِی  الْاَمْرِ  وَ  عَصَیْتُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  مَاۤ  اَرٰىكُمْ  مَّا  تُحِبُّوْنَؕ-مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ  الدُّنْیَا  وَ  مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ  الْاٰخِرَةَۚ-ثُمَّ  صَرَفَكُمْ  عَنْهُمْ  لِیَبْتَلِیَكُمْۚ-وَ  لَقَدْ  عَفَا  عَنْكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  ذُوْ  فَضْلٍ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۵۲) (پ۴، ال عمران: ۱۵۲)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور بے شک اللہ نے تمہیں سچ کر دکھایا  اپنا وعدہ جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کرتے تھے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور حکم میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ تمہیں دکھا چکا تمہاری خوشی کی بات تم میں کوئی دنیا چاہتا تھا اور تم میں کوئی آخرت چاہتا تھا اور پھر تمہارا منہ ان سے پھیر دیا کہ تمہیں آزمائے اور بے شک اس نے تمہیں معاف کردیا اور اللہ مسلمانوں پر فضل کرتا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں چند باتوں کا واضح بیان ہے،ایک تو شرکاء غزؤہ اُحد کی غلطی کی معافی اور ان کے مومن ہونے کی تصریح اور یہ کہ یہ معافی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا فضل ہے جو وہ مؤمنوں پر فرماتا ہے ۔بعض بدباطن اور بدعقیدہ لوگ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی اسی اجتہادی خطا کی بنا پر ان پر مَعَاذَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ سب وشتم اور طعن کرتے ہیں جبکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے ان کے لیے معافی کا پروانہ جاری فرمادیا۔اب اللہ عَزَّوَجَلَّکے معاف فرما دینے کے بعد بھی جو لوگ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان پر طعن کریں ان کا منکرِ قرآن ہونا واضح ہے۔([99]) اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے لوگوں کے شرسے تمام مسلمانوں کو محفوظ فرمائے، اور ہمیں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی سچی محبت عطا فرمائے۔ آمین  

سَیِّدُنَا انس بن نضر اور جنت کی خوشبو:

حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا سامنا جب حضر ت سَیِّدُنَا سعد بن مُعاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہوا تو انہوں نے فرمایا: ’’ اے سعد! مجھے اُحد پہاڑ کی جانب سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ شارحین حدیث نے اس کے دو 2معنی بیان کیے ہیں :(1) حَافِظْ قَاضِی اَبُو الْفَضْل عِیَاض عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَھَّاب فرماتے


 

 ہیں : ’’آپ کا یہ کلام حقیقت پر محمول کیا جاسکتا ہے وہ اس طرح کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کے لیے شہید ہونا مُقَدَّر فرمادیا تھا، اسی بناء پر آپ کو جنت کی خوشبو سونگھا دی گئی ہو اور احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ جنت کی خوشبو پانچ سو 500سال کی مَسَافت سے سُونگھی جاسکتی ہے۔‘‘([100])

(2)عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :’’ممکن ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس جنت کا تصور کیا ہو جو شہداء کے لیے تیا رکی گئی ہے اور آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ وہ جنت اسی مقام پر ہے جہاں قتال کیا جارہا ہے تو اس صورت میں آپ کے جنت کی خوشبو والے کلام کا معنی یہ ہوگا کہ بے شک میں جانتا ہوں کہ شہداء کی جنت کاحصول اسی مقام پر ہے جہاں جنگ کی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کے دل میں اس جنت کو حاصل کرنے کا اشتیاق پید اہوگیا ۔‘‘([101])

سَیِّدُنَاانس بن نضر کی جرأت وبہادری وصبر وتحمل:

حضرت سَیِّدُنَا سعد بن مُعاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے گفتگو کرنے کے بعد حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ میدانِ کارزار میں کود پڑے اور  جواں مَردِی سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ آپ کے جسم پر تلواروں ، نیزوں اور تیروں کے اسّی 80سے زائد زخم آئے حتی کہ مشرکین نے آپ کے کان اور ناک کاٹ  کر مُثلہ کردیا۔حضرت سَیِّدُنَا سعد بن مُعاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ کی یہ حالت دیکھ کر شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی:’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! جو حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کر دکھایا میں وہ نہیں کرسکتا تھا۔‘‘ عَلَّامَہ اَبُو الْعَبَّاس شَھَابُ الدِّیْن اَحْمَد اَلْقُسْطُلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :’’حضرت سَیِّدُنَا سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قول کا یہ مطلب ہے کہ جس جرأت اور بہادری سے حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پیش قدمی کی اور مشرکین سے قتال کیا، میں اس کی طاقت نہیں رکھتا باوجود یکہ میں بھی طاقتور اور بہادر ہوں لیکن جس


 

 طرح حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے دشمن کے وار اپنے جسم پر سہے اور تلواروں ، نیزوں اور تیروں کے اسّی 80 سے زائد زخم اپنے جسم پر کھاتے ہوئے بھی صبر وتحمل کا دامن نہ چھوڑا میں اس قسم کے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔‘‘([102])

جہاد میں جان کا نذرانہ پیش کرنا:

عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں : ’’جہاد میں جان کا نذرانہ پیش کرنا جائز ہے اور وعدہ پورا کرنابہت فضیلت کاکام ہے اگرچہ اسے پورا کرنا اتنا مشکل ہوکہ جان چلی جائے ۔نیز شہادت کی طلب ا ُس آیت کے خلاف نہیں جس میں اپنے آپ کو ہلاکت پر پیش کرنے سے منع کیا گیا ہے  اور اس حدیث پاک میں حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت ظاہر ہے اورآپ کے اَوصافِ حمیدہ مثلاً اِیمان کی پختگی، تقویٰ ووَرَع یعنی پرہیز گاری  کی انتہاء اور قوتِ یقین یعنی توکل بھی ظاہر ہے۔ ‘‘([103])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مدنی گلدستہ

سَیِّدُنَا ” عثمانِ غَنی“ کے8حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور  اور اس کی وضاحت سے ملنے والے8مدنی پھول

(1)       غزوۂ بدر کفار ومسلمین کے درمیان وہ پہلا معرکہ ہے جس میں رحمت عالم، نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنفس نفیس شریک ہوئے ورنہ اس سے پہلے بھی جنگ ہوچکی تھی۔

(2)       حضرت سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنہایت ہی جلیل القدر صحابی رسول تھے، آپ کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّکے ان برگزیدہ بندوں میں ہوتا تھا جو کسی بات پر قسم اٹھالیں تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّان کی قسم کو پورا فرمادیتا ہے۔


 

(3)       سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نہایت ہی صابر وشاکراورجرأت وبہادری والے صحابی تھے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا ۔

(4)       اپنے نیک اِرادے اور پختہ عزم کا اِظہار کرنا جائز ہے اور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی سنت ہے جیسا کہ سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے پختہ اِرادے کو ظاہر فرمایا۔

(5)       کوئی بھی اِرادہ یا نیت کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ کیا میں اس پر عمل بھی کرسکوں گا یا نہیں ؟جیساکہ سَیِّدُنَا انس بن نضر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فقط اپنے اس ارادے کو تو ظاہر فرمایا کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے لیکن یہ نہ فرمایا کہ وہ کیا کریں گے۔

(6)       غزوہ اُحد میں مسلمانوں کو جس وقتی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کی وجہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حکم کو سمجھنے میں اجتہادی خطا کا واقع ہونا تھا، اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اپنے دینی پیشوا کے حکم پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے ۔

(7)       صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی تمام لغزشوں کے لیے اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے معافی کا پروانہ جاری فرمادیا اور تمام صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی مغفرت فرمادی گئی ہے، لہٰذا اب ان مقدس ہستیوں پر کسی کو کسی بھی طرح کا طعن کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، ہمیشہ ان کے اچھے اوصاف ہی بیان کیے جائیں گے۔

(8)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رضا کے لیے جہاد کرتے ہوئے اپنی جان کو شہادت کے لیے پیش کرنا نہ صرف جائز ہےبلکہ بہت بڑی سعادت ہے۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان، مال ، آل اولاد سب کچھ قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے، راہِ خدا میں آنے والی تمام تکالیف پر صبر اور برداشت کی طاقت عطا فرمائے، ہمیں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی سچی پکی محبت عطا فرمائے، اُن کے اَوصافِ حمیدہ بیان کرکے اپنے ایمان کو تازگی بخشنے کی سعادت نصیب فرمائے،ہمیں گستاخانِ صحابہ کے شر سے محفوظ فرمائے۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

حدیث نمبر :110                                                                                                                                                                                                                           

صَحَابۂ کِرَام کے صدقہ کرنے کا اَنداز

عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدٍ عُقْبَۃَ بْنِ عَمْرٍ واَلْاَنْصَارِیِّ الْبَدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ:لَمَّا نَزَلَتْ اٰیَۃُ الصَّدَقَۃِ کُنَّا نُحَامِلُ عَلٰی ظُہُوْرِنَا، فَجَاءَرَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِشَیْء ٍ کَثِیْرٍ فَقَالُوْا: مُرَائٍ، وَجَاءَ رَجُلٌ اٰخَرُ فَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ فَقَالُوْا:اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنْ صَاعِ ہَذَا! فَنَزَلَتْ: (اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ ) اَلْاٰیَۃَ.([104])

ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا ابومَسْعُود عُقْبَہ بِن عَمرو اَنصارِی بَدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے روایت ہے کہ جب آیتِ صدقہ نازل ہوئی تو ہم لوگ مزدوری کیا کرتے تھے۔چنانچہ ایک شخص آیا اور اس نے کثیرمال صدقہ کیا تو منافقین بولے  :’’یہ ریا کار ہے۔‘‘ ایک دوسرا شخص آیا، اس نے ایک صاع صدقہ کیا تو منافقین نے کہا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے ایک صاع سے مستغنی یعنی بے پر واہ ہے۔‘‘ تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:

اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ (پ۱۰، التوبۃ: ۷۹)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان:وہ جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے۔

آیتِ صدقہ سے مراد کونسی آیت ہے؟

مذکورہ حدیث پاک میں ہے کہ جب’’آیت صدقہ‘‘ نازل ہوئی تو صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اپنی استطاعت کے مطابق بارگاہ رسالت میں اپنا اپنا صدقہ پیش کیا۔ یہ  آیت صدقہ سورۂ توبہ کی آیت نمبر۱۰۳ ہے، جس میں ارشاد ہوتا ہے:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ- (پ۱۱، التوبۃ: ۱۰۳)                ترجمہ ٔ کنزالایمان: اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل (وصول) کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔([105])


 

مَزدوری کرکے صدقہ کرنا:

شارح حدیث علامہ سید محمود احمدرضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’حضور سید عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زبان مبارک سے صدقہ و خیرات کی ترغیب و تلقین پاکر صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْناپنی وُسعت و ہمت کے مطابق خیرات کرتے تھے۔ بعض صحابہ امیر تھے وہ بڑی بڑی رقمیں راہِ خدا میں دیتے تھے اور جو غریب تھے وہ بھی محنت مزدوری کرکے کچھ کمالاتے اور اس میں سے راہِ خدا میں خرچ کرتے تاکہ صدقے کے ثواب سے محروم نہ رہ جائیں ۔‘‘([106])

کثیر مال خرچ کرنے والے صحابی:

حدیث مذکور میں ہے کہ حضورنبی رحمت، شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ترغیب سے ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کثیر مال صدقہ کیا۔ وہ صحابی کون تھے اور انہوں کتنا مال صدقہ کیا؟ اس کے متعلق فقیہ اَعظم حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق اَمْجَدِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں کہ ’’یہ حضرت عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے کہ چار ہزار4000 یا آٹھ ہزار8000(درہم)پیش فرمایا۔‘‘([107])

عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتے ہیں :’’ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صدقے کی ترغیب دی تو حضرت سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار ہزار درہم لے آئے جو اس دن آپ کے کل اثاثے کا نصف تھا اور اسی دن حضرت سَیِّدُنَا عاصم بن عدی بن عَجلان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سو 100 وسق (کم وبیش چھ سو پندرہ 615مَن)کھجوریں صدقہ کیں ۔‘‘([108])


 

صحابۂ کرام پر طعن کرنے والے منافقین:

جب حضرت سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنا صدقہ لے کربارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو منافقین بولے :’’یہ ریاکارہے۔‘‘ عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَرعَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :’’یہ منافقین مُعَتِّبْ بن قشیر اور عبد الرحمٰن بن نَبْتَل تھے۔‘‘([109])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکا اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی راہ میں اپنا ذاتی مال صدقہ کرنا ان مقدس ہستیوں کی اعلیٰ صفات میں سے ہے،مگر منافقین نے اسے عیب شمار کیا، معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جیسی عظیم ہستیوں میں عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے عُشَّاق اُن کے عُیُوب نہیں بلکہ اُن کی اعلیٰ صفات کو بیان کرتے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ

ایک صاع صدقہ کرنے والے صحابی:

ایک صاع صدقہ کرنے والے صحابی حضرت سَیِّدُنَا ابو عَقیل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔ حضرت سَیِّدُنَا ابن جریررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت سَیِّدُنَا ابو عَقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ایک روایت ذکر کی ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے کھجور کی شاخوں کا ایک گٹھر اپنی پیٹھ پر لاد کر دو صاع کھجوروں کے عوض ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچایا۔ پھر دو صاع میں سے ایک صاع گھروالوں کو دے دیا تاکہ وہ اپنی حاجت پوری کریں اور دوسرا صاع بارگاہ رسالت میں لایا ہوں تاکہ اس کے ذریعے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قرب حاصل کر سکوں ۔ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’ اسے صدقے پر ڈال دو۔‘‘ اس پر کچھ لوگوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس مسکین کے صدقے سے غنی ہے۔اس پر قرآن پاک کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:

اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ

ترجمہ ٔ کنزالایمان:وہ جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں


 

 فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ (پ۱۰، التوبۃ: ۷۹) کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے۔([110])

رسول اللہ کے قُرب کے لیے صدقہ کرنا :

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ حضرت سَیِّدُنَا ابو عَقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے صدقہ کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس دوسرے صاع کو راہِ خدا میں خرچ کرکے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قُرب حاصل کر سکوں ۔‘‘معلوم ہوا کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام یا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ کے کسی بھی مقبول بندےکے تقرب کے لیے کوئی عمل کرنا بالکل جائز اور باعث اجر وثواب ہے۔ اگر اس عمل میں کوئی قباحت ہوتی تو نہ ہی سَیِّدُنَا ابو عَقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ خود یہ کام کرتے اور نہ ہی کسی کے سامنے بیان فرماتے، نیز رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود اس بات سے آپ کو منع فرمادیتے۔ اسی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے جن دوستوں کے سامنے اس بات کا تذکرہ فرمایا وہ بھی آپ کو منع کردیتے کہ ایسا کرنا تو جائز نہیں ہےلیکن کسی نے بھی اِس کا اِنکار نہ فرمایا اور نہ ہی منع کیا جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ کوئی بھی عمل اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی بارگاہ کے مقبول بندوں کے تَقَرُّب کے لیے کرنا بالکل جائز ہے۔ جو لوگ اس بات پر مسلمانوں کو کافرومشرک ٹھہراتے ہیں ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ شرک تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی ذات ، صِفات یا عِبادت میں کسی کو شریک ٹھہرانے کا نام ہے جبکہ کسی نبی یا ولی کا تَقَرُّب حاصل کرنے کے لیے کچھ کرنے میں نہ تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا ہے، نہ اس کی صفات میں اور نہ ہی عبادت میں تو پھر یہ عمل شرک کیسے ہوگیا؟ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین([111])

راہِ خدا میں خرچ کرنے کےفضائل:

راہ ِخدا میں خرچ کرنے کے فضائل پر تین اَحادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں :


 

(1)حضرت سَیِّدُنَا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ارشاد فرمایا: ’’ہرروز دو2 فرشتے اُترتے ہیں ، ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ! خرچ کرنے والے کو جزا عطا فرما۔ اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ! اپنا مال روک کر رکھنے والے کا مال ضائع فرما۔‘‘([112])

(2)حضرت سَیِّدُنَا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کرنے کی وجہ سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی خاطر انکساری کرتاہے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔‘‘([113])

(3)حضرت سَیِّدُنَا خُرَیْم بن فاتِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی راہ میں کچھ خرچ کرے اس کے لیے سات سو گنا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘([114])

صدقہ کرنے کے پچیس25فوائد:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!راہِ خدا میں صدقہ کرنے کے جہاں اُخروی فوائد ہیں وہیں دنیا میں بھی اس کی بے شمار برکتیں ہیں ۔اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مجدددین وملت، مولانا  شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے فتاویٰ رضویہ شریف میں راہِ خدا میں صدقہ وخیرات  کرنے، مسلمانوں کو کھانا وغیرہ کھلانے  سے متعلق ساٹھ احادیث بیان فرمائیں اور پھر ان کے درج ذیل پچیس25دُنیوی واُخروی فوائد بیان فرمائے :

(1)اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے حکم سے بُری موت سے بچیں گے، ستّر دروازے بُری موت کے بند ہوں گے۔ (2) عُمريں زیادہ ہوں گی۔ (3) صدقہ وخیرات کرنے والوں کی گنتی بڑھے گی۔ (4) رزق کی وسعت مال کی کثرت ہوگی، صدقےکی عادت سے کبھی محتاج نہ ہوں گے۔ (5) خير و برکت پائيں گے۔ (6)آفتیں بلائيں دور ہوں گی، بُری قضا ٹلے گی، ستر70دروازے برائی کے بند ہوں گے، ستر 70قسم کی بلائیں دور ہوں


 

گی۔ (7) اُن کے شہر آباد ہوں گے۔ (8) شکستہ حالی دور ہوگی۔ (9)خوف انديشہ زائل اور اطمينانِ خاطر حاصل ہوگا۔ (10)مدد الٰہی شامل ہوگی۔ (11)رحمتِ الٰہی ان کے ليے واجب ہوگی۔ (12) ملائکہ اُن پر درود بھیجیں گے۔ (13)رضائے الٰہی کے کام کريں گے۔ (14)غضبِ الٰہی ان پرسے زائل ہوگا۔ (15) ان کے گناہ بخشے جائيں گے، مغفرت ان کے لیے واجب ہوگی، اُن کےگناہوں کی آگ بجھ جائے گی۔ (16)خدمتِ اہل دين میں  صدقہ سے بڑھ کر ثواب پائيں گے۔ (17)غلام آزاد کرنے سے زيادہ اجر لیں گے۔ (18)ان کے ٹیڑھےکام درست ہوں گے۔ (19)آپس ميں محبتیں  بڑھیں گی جو ہر خير و خوبی کی متبع ہيں ۔ (20)تھوڑے خرچ میں بہت کا پیٹ بھرے گا ۔ (21) اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے حضور درجے بلند ہوں گے۔ (22)مولیٰ تبارک و تعالٰی ملائکہ سے ان کے ساتھ مباہات فرمائےگا۔ (23)روزِ قيامت دوزخ سے امان میں رہيں گے، آتش دوزخ ان پر حرام ہوگی۔ (24)آخرت میں احسانِ الٰہی سے بہرہ مند ہوں گے کہ نہايتِ مَقاصد وغايتِ مُرادات ہے۔ (25)خُدا نے چاہا تو اُس مبارک گروہ میں ہوں گے جو حضور پُر نور سيد عالَم سرورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نعل اقدس کے صدقے ميں سب سے پہلے داخل جنّت ہوگا۔‘‘([115])              

صدقے سے متعلق تین حکایات

(1)امتحان میں کامیاب ہونے والا نوجوان:

    حضرت سیِّدُنا عِکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک مالدارشخص تھا جو اپنا مال بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتا تھا، وہ اپنی بیوی اور ایک بیٹے کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گیاتو اس کی بیوی نے دل میں کہا:’’میں اپنے شوہر کے چھوڑے ہوئے مال کے ‏لیے اس سے افضل جگہ نہیں پاتی جہاں وہ خرچ کیا کرتا تھا۔‘‘لہٰذا اس نے تمام مال صدقہ کر دیا سوائے دو سو 200دِرہَموں کے جو اس نے اپنے بیٹے کے ‏لیے جمع کر رکھے تھے۔ جب بچہ بڑا ہوا تو اس نے پوچھا:’’اے میری ماں !میرا باپ کون تھا؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’تیرا باپ بنی اسرائیل کے معزَّزین میں سے تھا۔‘‘ بیٹے نے پھر پوچھا:’’ کیا اس نے کوئی مال چھوڑا ہے؟‘‘ ماں


 

 نے جواب دیا:’’کیوں نہیں ،لیکن وہ ہمیشہ بھلائی کے راستے میں خرچ کرتا تھاتو میں نے بھی اسی راستے میں خرچ کر ڈالا۔‘‘ بیٹے نے پوچھا: ’’آپ نے میرے حصے کا سارا مال کیوں صدقہ کر دیااور اس میں سے کچھ نہ بچایا؟‘‘اس کی ماں نے کہا: ’’تمہارے حصے کے دو سو 200درہم باقی ہیں ۔‘‘تو لڑکے نے عرض کی: ’’لائیں ، میرا مال مجھے دیں تاکہ اس کے ذریعے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کافضل تلاش کروں ۔‘‘چنانچہ وہ اپنی ماں سے درہم لے کر گھر سے نکل کھڑا ہوا،چلتے چلتے ایک برہنہ مُردے کے پاس سے گزرا جو زمین پرپڑا ہوا تھا۔ اس نے سوچاکہ مال خرچ کرنے کی اس سے افضل جگہ کوئی نہیں ۔اس کے ‏لیے ایک سو اَسی 180 درہم کا کفن خرید کر اس کے کفن دفن کا اہتمام کیا اور قبر پر مِٹی ڈالی اوربقیہ بیس20 درہم لے کر روانہ ہوگیا۔

 راستے میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی، اس نے پوچھا: ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا: ’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کافضل تلاش کرنے نکلا ہوں ۔‘‘ اس نے کہا :’’اگر میں ایسی چیز کی طرف تیری رہنمائی کروں جس سے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا فضل پائے تواُس میں سے نصف میرا ہو گا۔‘‘ لڑکا رضامند ہو گیا۔تو اس شخص نے کہا:’’اس شہر کی طرف چلے جاؤ، وہاں تم ایک عورت کو پاؤ گے جس کے پاس ایک بلی ہو گی، وہ اسے فروخت کر رہی ہو گی ، تم اس سے بیس20 درہم میں خرید کر ذبح کر دینا اور آگ میں جلا دینا۔ پھر اس کی راکھ جمع کر کے دوسرے شہر کی طرف روانہ ہو جانا،وہاں کے بادشاہ کی بَصَارَت زائل ہو چکی ہے۔ تم بطورِ سُرمہ اُس کی آنکھوں میں راکھ لگانا اس کی بینائی لوٹ آئے گی۔‘‘وہ لڑکا گیا اوربلی کی راکھ لے کر جب بادشاہ کے پاس آیا تو بادشاہ نے کہا:’’اِس کو اُس وادی میں لے جاؤجس میں سرمہ لگانے والے ہیں ،پھر اس کو بتانا کہ اگر اس نے مجھے ٹھیک کر دیا تو منہ مانگا انعام پائے گا اور ٹھیک نہ کر سکا تو میں اسے قتل کر دوں گا، پھر اگروہ چاہے تو علاج کے ‏لیے آگے بڑھے اور چاہے تو وہیں سے لوٹ آئے۔‘‘جب لڑکا وادی میں گیا تو وہاں سرمہ لگانے والوں کی لاشیں دیکھیں ،پھر بھی اس نے کہا:’’میں سرمہ لگاؤں گا۔‘‘چنانچہ اس نے سرمہ لگایاتو بادشاہ کہنے لگا: ’’گویا مجھے کچھ کچھ نظر آرہا ہے۔‘‘پھر دوسری مرتبہ لگایاتو بادشاہ نے کہا:’’اب میں کچھ دیکھ رہاہوں ۔‘‘ پھر جب تیسری مرتبہ سرمہ لگایاتو اس کی بینائی مکمل طور پر لوٹ آئی۔ بادشاہ نے کہا: ’’میں تجھ پر اس سے بڑھ کر احسان نہیں کر سکتا کہ تیری شادی اپنی بیٹی سے کر دوں ۔‘‘ پھر بادشاہ نے اس کی حاجت پوچھ کر اپنا سب سے


 

 پسندیدہ مال اسے دے دیا،وہ لڑکا اُس کے پاس کچھ عرصہ رہا ۔ پھر اسے اپنی ماں کی یاد ستائی تو اس نے بادشاہ سے جانے کی اجازت چاہی۔

بادشاہ نے کہا:’’ٹھیک ہے، اپنے ساتھ اپنی بیوی اور مال کو بھی لے جاؤ۔‘‘ واپسی میں وہ لڑکا اسی شخص کے پاس سے گزرا تو اس نے پوچھا: ’’کیامجھے پہچانتے ہو؟‘‘لڑکے نے نفی میں جواب دیاتواُس نے کہا:’’میں وہی ہوں جس نے تجھے فلاں فلاں بات بتائی تھی ۔‘‘پھر وہ لڑکا سواری سے اُتر آیااور جو کچھ اس کے پاس تھا دو۲ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ وہ شخص کہنے لگا: ’’ میرے حصے کی ایک چیز ابھی باقی ہے۔‘‘ لڑکے نے پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘ تو وہ بولا:’’تیری بیوی۔‘‘میں تجھے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں کہ اپنا وعدہ پوراکر۔‘‘ اس لڑکے نے کہا:’’پھر ہم اس کی تقسیم کیسے کریں ؟‘‘ اس شخص نے کہا:’’اس کو آرے سے چیر دو۔‘‘ لڑ کے نے حامی بھر لی کہ میں ایسا ہی کرتا ہوں ۔جب اس نے آرا اپنی بیوی کے سر پر رکھاتو وہ شخص کہنے لگا:’’رُک جاؤبے شک مجھے اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے تیرے پاس بھیجا ہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّاسی طرح تیری حفاظت فرمائے جیسے تُو نے اُس سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا۔‘‘ پھراس شخص نے لڑکے کاسارا مال اُسے واپس کر دیا۔([116])

(2)بیس 20سال عمر میں اضافہ:

ايک نوجوان حضرت سَیِّدُنَا داؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحبت میں تھا کہ ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو خبر دی کہ يہ شخص تين روز بعد مرجائے گا۔ اس بات نے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو غمگین  کيالیکن آپ نے اس شخص کو تين روز بعد بھی صحيح سلامت پايا۔آپ کو اس بات سے بہت تعجب ہوا۔ ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام دوبارہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے توعرض کی:’’میں اُس شخص کے پاس روح قبض کرنے گيا تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے مجھ سے ارشاد فرمايا:’’يہ شخص اپنی عمر پوری کرنے سے ايک روز قبل باہر نکلا اور ايک مسکين کو دیکھا، اس نے اسےبيس20 درہم دئیے۔اُس مسکين نے اسے دعا دی کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  تيری عمر میں برکت عطا فرمائے۔ پس اُس کی دعا قبول کرلی گئی اور میں نے ہر درہم کے بدلے اس کی عمر میں ايک ايک


 

 سال کا اضافہ فرماديا ہے۔‘‘([117])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واضح رہے کہ قضا یعنی تقدیر کی تین ۳ قسمیں ہے۔(۱)مُبْرَمِ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر مُعَلَّق نہیں ۔(۲)    اور مُعَلَّقِ مَحْض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔(۳)    اور مُعَلَّقِ شَبِیْہ بہ مُبْرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔    وہ جو مُبْرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیلی نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنہیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے   اور وہ جو ظاہر قضائے معلّق ہے، اس تک اکثر اولیا ءکی رسائی ہوتی ہے، اُن کی دُعا سے، اُن کی ہمّت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسّط حالت میں ہے، جسے صُحف ِملائکہ کے اعتبا ر سے مُبرَم بھی کہہ سکتے ہیں ، اُس تک خواص اَکابر کی رسائی ہوتی ہے۔ حضور سیّدنا غوثِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسی کو فرماتے ہیں : ’’میں قضائے مُبرَم کو رد کر دیتا ہوں ۔‘‘([118])

(3)ایک کے بدلے دس انڈے:

حضرت سَیِّدُنَا ابو جعفر بن خطاب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  جو اپنے دَور کے اَبدال یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے مقرر کردہ بہت بڑے ولی تھے،فرماتے ہیں کہ میرے دروازے پر ایک سائل نے صدا لگائی میں نے زوجہ سے پوچھا: ’’تمہارے پاس کچھ ہے؟ ‘‘اس نے جواب دیا: ’’چار4 انڈے ہیں ۔‘‘ میں نے کہا: ’’اس سائل کو دے دو۔‘‘ زوجہ نے حکم کی تعمیل کی اور سائل انڈے لے کر چلا گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میرے پاس ایک دوست نے انڈوں سے بھری ہوئی ٹوکری بھیجی۔ میں نے گھر والوں سےپوچھا: ’’اس میں کل کتنے انڈے ہیں ؟ ‘‘انہوں نے کہا: ’’تیس30۔‘‘ میں نے کہا:’’تم نے توفقیر کو چار انڈے دیئے تھے، یہ تیس کس حساب سے آئے؟‘‘ زوجہ کہنے لگی: ’’تیس انڈے سالِم ہیں اور دس ٹوٹے ہوئے۔‘‘ حضرت سَیِّدُنَا شیخ علامہ یافعی یمنی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’بعض حضرات اِس حکایت کے متعلق یہ بیان کرتے ہیں کہ سائل کو


 

 جو انڈے دیئے گئے تھے ان میں تین سالِم اور ایک ٹوٹا ہوا تھا۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ہر ایک کے بدلے دس دس عطا فرمائے۔ سالم کے عوض سالم اور ٹوٹے ہوئے کے بدلے ٹوٹےہوئے۔‘‘([119])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مدنی گلدستہ

”اَعلٰی حضرت اِمَامِ اَھلِسُنَّت“کے18حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت  سے ملنے والے18مدنی پھول

(1)       صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان راہِ خدا میں صدقہ کرنے کے لیے مزدوری تک کیا کرتے تھے، لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی حلال کمائی میں سے راہِ خدا میں دل کھول کر خرچ کریں ۔

(2)       ہر شخص کو اپنی استطاعت کے مطابق صدقہ کرنا چاہیے۔غریب اپنی غریبی کا لحاظ رکھے اور امیر اپنی امارت کو سامنے رکھتے ہوئے خرچ کرے۔

(3)       حضرت سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بہت ہی مالدار صحابی تھے اور اپنی مالداری کے حساب سے ہی صدقہ کیا کرتے تھے۔([120])

(4)       حضرت سَیِّدُنَا ابو عَقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دُنیوی اعتبار سے مالدار نہ تھے لیکن محنت کرکے راہِ خدا میں صدقہ کرنے والے تھے اور ان کا صدقہ کرنا بارگاہِ رَبُّ العزت میں ایسا مقبول ہوا کہ اس پر آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

(5)       صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان پر طعن کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔

(6)       صدقہ دینے والے یا کسی بھی نیک کام کرنے والے پر طعن نہیں کرنا چاہیے کہ کیا پتا کس کی نیکی بارگاہِ


 

رَبُّ العزت میں مقبول ہو۔

(7)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی راہ میں صدقہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ گھروالوں کے حقوق پامال نہ ہوں جیساکہ حضرت سَیِّدُنَا ابو عَقیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی کمائی کا نصف صدقہ کیا اور نصف اپنے گھروالوں پر خرچ کیا۔

(8)       انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام، صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان، اَولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام یا دیگر نیک بندوں کا قُرب پانے کے لیے کوئی بھی نیک عمل کرنا جائز ہے۔

(9)       صدقہ وخیرات کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ رزق میں مزید برکت ہوتی ہے جبکہ اِستطاعت کے باوجود راہِ خدا میں خرچ نہ کرنے والے کا مال بسا اوقات ضائع کردیا جاتا ہے۔

(10) راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کے لیے سات سو 700گنا ثواب لکھا جاتا ہے۔

(11) صدقہ کرنے سے عمر میں برکت ہوتی اور بلائیں دُور ہوتی ہیں ۔

(12) صدقہ کرنا بُری موت سے بچاتا ہے بلکہ بُری موت کے ستر70 دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔

(13) صدقہ کرنے سے آفتیں اور بلائیں دُور ہوتی ہیں ، بُرائی کے ستر 70دروازے بند ہوجاتے ہیں ، ستر 70 قسم کی بلائیں ٹال دی جاتی ہیں ۔

(14) صدقہ کرنے سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّکی رضا حاصل ہوتی ہے اور غضب الٰہی زائل ہوتا ہے۔

(15) صدقہ کرنے سے گناہ بخش دیے جاتے ہیں اور مغفرت کردی جاتی ہے۔

(16) صدقہ کرنے سے بگڑے ہوئے کام بن جاتے ہیں ۔

(17) صدقہ کرنے سے آپس میں محبتیں بڑھتی اور نفرتیں دُور ہوتی ہیں ۔

(18) صدقہ کرنے والے کل بروزِ قیامت امان میں رہیں گے، آتشِ دوزخ ان پر حرام ہوگی اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے گروہ میں شامل ہوں گے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے رزق میں برکت عطا فرمائے۔


 

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حدیث نمبر :111                                                                                                                                                                                                                        

ظُلم کی حُرمت

عَنْ سَعِیْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ یَزِیْدَ ،عَنْ اَبِیْ اِدْرِیْسَ الْخَوْلَانِی، عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ جُنْدُبِ بْنِ جُنَادَۃَ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْمَا یَرْوِیْ عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اَنَّہُ قَالَ: یَا عِبَادِی! اِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا، یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ ضَالٌّ اِلَّا مَنْ ہَدَیْتُہُ، فَاسْتَہْدُوْنِیْ اَہْدِکُمْ،یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ جَائِعٌ اِلَّا مَنْ اَطْعَمْتُہُ، فَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ،یَا عِبَادِی! کُلُّکُمْ عَارٍاِلَّا مَنْ کَسَوْتُہُ فَاسْتَکْسُوْنِیْ اَکْسُکُمْ، یَا عِبَادِی! اِنَّکُمْ تُخْطِئُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَاَنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْ لَکُمْ، یَا عِبَادِی!اِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوْا ضَرِّیْ فَتَضُرُّوْنِیْ، وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِیْ فَتَنْفَعُوْنِیْ،یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلَی اَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَالِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئًا، یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْاعَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ ذَالِکَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْاً،یَا عِبَادِیْ!لَوْ اَنَّ اَوَّلَکمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوْا فِیْ صَعِیْدٍ وَاحِدٍ،فَسَاَلُوْنِیْ فَاَعْطَیْتُ کُلَّ اِنْسَانٍ مَسْاَلَتَہُ، مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی اِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ اِذَا اُدْخِلَ الْبَحْرَ،یَا عِبَادِیْ! اِنَّمَا ہِیَ اَعْمَالُکُمْ اُحْصِیْہَا لَکُمْ، ثُمَّ اُوَفِّیْکُمۡ  اِیَّاہَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ،وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ اِلَّا نَفْسَہُ، قَالَ سَعِیْدٌ: کَانَ اَبُوْ اِدْرِیْسَ اِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیْثِ جَثَا عَلٰی رُکْبَتَیْہِ . ([121])

 وَرَويْنَا عَنِ اْلاِمَامِ اَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللهُ  قَالَ: لَيْسَ لاَِهْلِ الشَّامِ حَدِيْثٌ اَشْرَفُ مِنْ هَذَا الْحَدِيْثِ.

          ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا ابوذَرجُنْدُب بن جُنادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے روایت کرتے ہیں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّنے ارشاد فرمایا: ٭” اے میرے بندو !میں نے اپنے


 

 آپ پر ظلم کو حرام کردیا ہےاور میں نے تم پر بھی ظلم کو حرام کر دیا ہے تو تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔٭ ٭اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اُس کے جسے میں ہدایت دوں ، تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔٭ ٭ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں تو تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ ٭ ٭اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو سوائے اس کے کہ جسے میں پہناؤں تو تم مجھ سے لباس مانگو  میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔٭ ٭ اے میرے بندو! تم  دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں تو تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہاری بخشش کردوں گا۔٭ ٭ اے میرے بندو! نہ تم مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی نفع۔٭ ٭ اے میرے بندو !اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، انسان اور جن تم میں سے سب سے متقی آدمی کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہوگا۔٭ ٭ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، انسان اور جن تم میں سے سب سے بدکار آدمی کی طرح ہوجائیں پھر بھی  میری سلطنت میں کچھ کمی نہ ہوگی ۔ ٭٭ اے میرے بندو ! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، انسان اور جن کسی جگہ پر کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر شخص کا سوال پورا کردوں تو یہ میرے خزانوں کے مقابلے میں ایسے حقیر ہوگا جیسے سوئی کی تَرِی جب وہ دریا میں ڈبوئی جائے۔ ٭٭اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں تمہارے لیے جمع کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو آدمی بہتر بدلہ پائے وہ اللہ کی حمد بیان کرے اور جو اس کے علاوہ پائے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔‘‘

سب سے زیادہ شرف والی حدیث:

حضرت سَیِّدُنَا سعید رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا ابواِدریس خَولانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل جھک جاتے تھے۔‘‘حنبلیوں کے امام حضرت سَیِّدُنَا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’اہل شام کے لیے اس سے زیادہ شرف والی اور کوئی حدیث نہیں ۔‘‘

حدیثِ قُدْسی کی تعریف:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واضح رہے کہ جس حدیثِ پاک میں کلام اور اَلفاظ دونوں حضورنبی رحمت،


 

 شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ہوں اسے ’’حدیثِ نبوی ‘‘کہتے ہیں اور جس حدیث پاک میں کلام اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا ہو لیکن الفاظ حضور نبی کریم، رَ ؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہوں اسے ’’حدیثِ قدسی‘‘ کہتے ہیں ۔مذکورہ حدیث پاک بھی حدیثِ قدسی ہے کہ اس میں کلام اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا ہے اور الفاظ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ہیں ۔

ظلم کی تعریف:

عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’ظلم کے لغوی معنی  کسی چیز کو اس کے غیر مَحل میں استعمال کرنے کےہیں ۔جبکہ شرعاً کسی اور کے حق میں ناحق تَصَرُّف کرنا اورحَد سے تجاوز کرنا  ظلم کہلاتا ہے ۔([122])

مُفَسِّرشَہِیر، مُحَدِّث کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’ظلم کے معنی ہیں ددسرے کی مِلک میں زیادتی کرنا یا کسی چیز کو بے محل استعمال کرنا۔‘‘([123])

عَلَّامَہ سَیِّد مِیْر شریف جُرْجَانِیْ قُدِّسَ سِرُّہُ النُّورانیظلم کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’کسی چیز کو غیر محل میں رکھنا ظلم کہلاتا ہے۔‘‘([124])

ربّ تعالی پر ظلم کے حرام ہونے کا معنی:

مذکورہ حدیث پاک کی ابتداء میں اس بات کا بیان ہے کہ ربّعَزَّ  وَجَلَّ نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کردیا ہے۔‘‘ اس سے کیا مراد ہے؟چنانچہ مُفَسِّرشَہِیر، مُحَدِّث کَبِیْر حَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں :’’یہاں حُرمت سے مراد شرعی حُرمت نہیں ، کیونکہ حق تعالی پر نہ کوئی حاکم ہے اور نہ اس پر شرعی اَحکام جاری ہیں بلکہ اس سے مراد ہے برتر ہونا، مُنَزہ ہونا، پاک ہونا، ربّ تعالی کے لیے کوئی شے


 

 ظلم ہو سکتی ہی نہیں کیونکہ ظلم کے معنی ہیں دوسرے کی مِلک میں زیادتی کرنا، یا کسی چیز کو بے محل استعمال کرنا ان دونوں سے پروردگار پاک ہے۔ کیونکہ ہر چیز اس کی ملک ہے اور جس کے استعمال کے لیے جو جگہ مقرر فرمادے وہی اس کا صحیح مَصْرف ہے، اس کے اَفعال یا عدل ہیں یا فضل۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میں ظلم سے مُنَزہ اور پاک ہوں ، میرا کوئی کام ظلم نہیں ہوسکتا۔ بعض نے فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد بے قصور کو سزا دینا ہے۔ وَﷲُ تَعَالٰی اَعْلَمُ‘‘([125])

عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِنْ شَرَف نَوَوِیْ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں ،علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا کہ ’’اس کا معنی ہے کہ میں ظلم سے پاک ہوں اور برتر ہوں ۔‘‘ ظلم کا لفظ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے حق میں استعمال کرنا محال ہے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس سے پاک ہے اور کیسے نہ ہو کہ ظلم کا معنی ہے :حد سے تجاوز کرنا اور اللہ  عَزَّ  وَجَلَّحد سے تجاوز کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس پر کوئی حاکم نہیں جو اس کے لیے حدود قائم کرے وہ سب کا حاکم ہےاور ظلم کا معنی ہے کسی اور کی مِلک میں تصرف کرنا اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کسی کی مِلک میں تصرف کیسے کرسکتا ہے کیونکہ ہر چیز اسی کی ملکیت میں ہے وہ سارے جہان کا مالک ہے۔‘‘([126])

ظلم کی حرمت پر مَذاہب کا اِجماع:

عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’ظلم کی حرمت پر تمام مذاہب کا اجماع ہے کیونکہ جانوں کی حفاظت پر ان سب کا اتفاق ہے ۔ظلم کبھی نسب میں ہوتا ہے تو کبھی آبرو میں ، کبھی مال میں ،کبھی عقل میں ،کبھی اِن سب میں واقع ہوتا ہے اور کبھی اِن میں سے بعض میں ۔‘‘([127])

سب سے بڑا ظلم  کیا ہے؟

سب سے بڑا ظلم شرک ہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ارشادفرمایا:( اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳)) (پ۲۱،


 

 لقمن: ۱۳) ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’ بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔‘‘ اکثر آیات میں ظلم سے یہی معنی یعنی شرک ہی مراد ہے البتہ بعض آیات میں گناہوں کی مختلف انواع کو بھی ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے ۔‘‘([128])

ظلم کرنے کی ممانعت:

حدیثِ مذکور میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے بندوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے منع فرمایا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ خود اُس ظالم سے مظلوم کا بدلہ لے گا۔چنانچہ علامہ ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو یعنی بعض بعض پر ظلم نہ کریں ۔ کیونکہ میں مظلوم کے ظلم کا اُس ظالم سے خود بدلہ لوں گا۔ جیسا کہ ایک حدیثِ قدسی میں ہے،ارشاد فرمایا: ”میں مظلوم کی مدد ضرور کرتا ہوں  اگر چہ کچھ وقت کے بعد۔“(یعنی وہ انہیں چھوڑنے والا نہیں بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے۔) چنانچہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ(۴۲) (پ۱۳، ابراھیم: ۴۲)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے،  انہیں ڈِھیل نہیں دے رہا ہے مگر ایسے دن کے ‏لیے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔([129])

ظلم کی ممانعت پر تین فرامین مصطفےٰ:

(1) ’’ظلم قیامت کے دن تاریکیاں ہیں ۔‘‘([130]) (یعنی ظلم کرنے والا بروز قیامت سخت مصیبتوں اور تاریکیوں میں گِھرا ہوگا۔) (2) ’’مظلوم کی بددعا سے بچو کہ اس کے اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مابین کوئی پردہ نہیں ۔‘‘([131])(3) ’’ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم کی سزا سے زیادہ خطرناک کسی اور گناہ کی سزا نہیں ۔‘‘([132])


 

تمام لوگوں کی گمراہی سے کیا مرادہے؟

مذکورہ حدیث پاک میں فرمایا گیا: ’’ تم سب گمراہ ہو سوائے اُس کے جسے میں ہدایت دوں ۔‘‘عَلَّامَہ اَبُوْ زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِینقل فرماتے ہیں :’’اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام لوگ گمراہی پر پیدا ہوئے ہیں سوائے اس کے جسے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہدایت دے۔جبکہ مشہور حدیث میں ہے کہ ہر بچہ فطرت  یعنی دین ِاسلام پر پیدا ہوتا ہے۔تواس کا جواب یہ ہے کہ پہلی حدیث میں لوگوں کو اس گمراہی سے مُتَّصِفْ کیا گیا ہے جس پر بعثت رسول سے پہلے وہ لوگ تھےکہ اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اُنہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیتا اور وہ لوگ اُسی شہوت پرستی، راحت اور توحید میں تَدَبُّر سے غفلت میں رہتے تو گمراہ ہوجاتے۔‘‘([133])

گمراہ ہونے کے دو2 معنی:

عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے گمراہ ہونے کے دو2معنی بیان فرمائے ہیں :(۱) ’’تم رسولوں کی بعثت سے پہلے شریعت سے غافل تھے۔‘‘(۲)’’اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّتمہیں تمہارے حال پہ چھوڑ دیتا تو تم حق سے بھٹک جاتے۔‘‘اب پہلے معنی کا اعتبار کریں تو مطلب یہ ہوگا کہ ’’تم سب رسولوں کی بعثت سے پہلے شریعت سے غافل تھے ماسوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نےاس پر ایمان لانے کی توفیق دےدی جو کچھ رسول لے کر آئے۔‘‘ اور دوسرے معنی کا اعتبار کریں تو مطلب یہ ہوگا کہ ’’اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں تمہارے حال پہ چھوڑ دیتا تو تم سب حق سے بھٹک جاتے ما سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنی معرفت تک لے جانے والے امور میں غورو فکر اور جو احکامات اس کے پاس آئےاس پر عمل کی توفیق دےدے۔‘‘ دونوں معنی پر یہ حدیث اس مشہور حدیث کے منافی نہیں جس میں فرمایا کہ ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘کیونکہ اس گمراہی سے مراد وہ گمراہی ہے جو بعد میں اس فطرت پر حاوی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّ


 

 نے مخلوق کو اپنی معرفت (یعنی فطرت اسلام)پر پیدا کیا، پھر شیطان نے انہیں بہکادیا۔‘‘([134])

ہدایت طلب کرنے میں حکمت:

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے ہدایت طلب کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس بات کا اِظہار ہو کہ بندہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا محتاج ہے اور اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے  اس کا اعلان کرے۔ کیونکہ اگر اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بندے کو بغیر طلب کیے ہدایت عطا فرمادے تو بسا اوقات بندہ کہہ دیتا ہے:’’یہ ہدایت تو مجھے میرے پاس موجود علم کی بدولت ملی ہے۔‘‘اور پھر وہ اسی وجہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ لہذا جب اُس نے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے ہدایت کا سوال کرلیا تو گویا اس نے اپنی عَبُودِیَّت یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا بندہ ہونےاور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رَبُوبِیَّت یعنی اس کے ربّ ہونے کا اعتراف کرلیا۔ یہ وہ عزت والا مقام ہے جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کو توفیق ملتی ہے۔‘‘([135])

کھانے کے ساتھ پینے، لباس کے ساتھ رہائش کا ذکر:

مذکورہ حدیث پاک میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اولاً ایک اُخْرَوی نعمت یعنی ہدایت کا ذکر فرمایا، اس کے بعد دو اہم ترین دُنیوی نعمتوں یعنی کھانے اور لباس کا ذکر فرمایا ۔پینے اور رہائش کا ذکر نہ فرمایا۔چنانچہ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیاس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے بھوک کا ذکر کیا اور پیاس کا ذکر چھوڑ دیا کیونکہ عموماً کھانے کے ساتھ ساتھ پینا بھی ہوتا ہے اس ‏لیے فقط بھوک کا ذکر فرمایا پیاس کا ذکر نہ فرمایا۔ اسی طرح پہننے کا ذکر کیا اور رہائش کا ذکر چھوڑ دیا کیونکہ عموماً لباس کے ساتھ  ساتھ گھر بھی شامل  ہوتا ہے کہ لباس سِتر چھپانے کے لیے ہوتا ہے اور گھر بھی اپنے آپ کو چھپانے کے لیے ہوتا ہے اس لیے فقط لباس کا ذکر فرمایا گھر یعنی رہائش کا ذکر نہ فرمایا۔‘‘([136])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

حدیث میں خطاب عام بندوں سے ہے:

مُفَسِّرشَہِیر،مُحَدِّثِ کبیرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’خطا کے معنی ہیں غلط راستے پر چلنا بھول کر ہو یا جان بوجھ کرلہذا اس میں خطائیں ، بھول چوک، عمداً  گناہ سب داخل ہیں ۔علامہ ابن حجر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا کہ یہاں روئے سخن (یعنی خطاب)عام بندوں سے ہے۔ معصومین حضرات جیسے فرشتے، انبیاء اس حکم سے خارج ہیں ۔‘‘([137])

شرک کے سوا تمام گناہ معاف:

جب بندہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو وہ جسے چاہتا ہے اس کے گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہر گناہ معاف فرمادیتا ہے سوائے کفروشرک کے۔([138]) چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُؕ- (پ۵، النساء: ۴۸)               ترجمہ ٔ کنزالایمان: بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔

ربّ کو نفع  و ضرر پہنچانے سے کیا مراد ہے؟

حدیث میں ہے کہ تمام لوگ اگر متقی بن جائیں تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے اور اگر سب کے سب نافرمان ہوجائیں تو اسے کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو کوئی نفع و ضرر کیسے پہنچا سکتا ہے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں ۔چنانچہ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’مراد یہ ہے کہ تم میرے نفع و ضرر کے مالک نہیں ہو پس اگر تم سب سے جس قدر ممکن ہوسکے میری عبادت کروتو میری سلطنت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے اور اگر تم سب سے جس قدر ممکن ہوسکے میری نافرمانی کرو تو  مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا


 

سکتے۔ بلکہ اگر تم نیکی کروگے تواپنا ہی بھلا کروگے اوراگر بُرائی کرو گے تو اپنے لیے ہی بُرا کروگے۔‘‘([139])

مُفَسِّرشہِیر، مُحَدِّثِ کبیرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’(یعنی) تمہاری عبادتوں سے میرا نفع نہیں اور تمہارے گناہوں سے میر ا نقصان نہیں ، بلکہ ان میں نفع نقصان خود تمہارا ہے۔دنیا کے کسی بڑے پرہیز گار کو لے لو پھر سوچو کہ اگر تمام جہان کا دل اس پرہیزگار کا سا ہوجائے اور ساری دنیا اس نیک و صالح کی طرح نیکیاں ہمیشہ کیا کرے۔(تو اس میں ربّ عَزَّ  وَجَلَّ کا کیا فائدہ؟ فائدہ تو ان تمام لوگوں کا ہے جو یہ نیکیاں کریں ۔) اس ترجمے سے یہ جملہ بالکل واضح ہوگیا، اس پر کوئی اعتراض نہ رہا۔لہٰذا کوئی شخص یہ سمجھ کر عبادت نہ کرے کہ میری عبادت سے ربّ تعالٰی کے خزانے بڑھ جائیں گے بلکہ اس کا احسان مانے کہ اس نے اپنے آستانے پر بلالیا۔(سب کے نافرمان ہونے سے ربّ عَزَّ  وَجَلَّ کا کوئی نقصان نہیں ۔)اس کا مطلب بھی وہ ہی ہے جو پہلے جملے میں عرض کیا گیا کہ دنیا کے بادشاہوں کا رعایا کے بگڑ جانے سے نقصان ہوتا ہے، آمدنی میں کمی ہو جاتی ہے،خزانہ خالی رہ جاتا ہے۔ مگر ربّ تعالٰی وہ بے نیاز ہے کہ ساری خلق کی بدکاری سے اس کا کوئی نقصان نہیں ۔ خیال رہے کہ یہ مضمون(یعنی تمام لوگوں کا نافرمان ہوجانا) ایسا ہی ہے جیسے ربّ تعالٰی (آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قول نقل کرتے ہوئے ) فرماتا ہے : ’’اگر ربّ تعالٰی کے اولاد ہوتی تو پہلے میں ہی اُسے پوجتا۔ ‘‘ نہ ربّ تعالٰی کے اولاد ممکن ہے، نہ حضور انو ر صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا اسے پوجنا ممکن ۔ایسے ہی تمام بندوں کا گنہگارہوجانا غیر ممکن ہے ،فرشتے، انبیاء معصومین (کہ ان سے گناہ ہوہی نہیں سکتا) اور اولیاء محفوظین بِفَضْلِہٖ تَعَالٰی (یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے فضل وکرم سے) گناہ کرتے ہی نہیں ۔‘‘([140])

کیا اللہکےخزانے میں کمی ہوسکتی ہے؟

حدیث پاک میں ہے :”اگر میں ہر شخص کا سوال پورا کردوں تو یہ میرے خزانوں کے مقابلے میں ایسا حقیر ہوگا جیسے سوئی  کی تَری جب وہ دریا میں ڈبوئی جائے۔“ کیا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے خزانے میں بھی کمی ہوسکتی


 

ہے؟چنانچہعَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :یعنی دریا وسمندر میں جب سوئی داخل کر کے نکالی جائے تو بظاہر دیکھنے میں اس  میں کوئی کمی نہیں ہوتی، اسی طرح اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے خزانے سے ساری دنیا کو دینے سے بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اس لیے کہ یہ اس کی رحمت اور کرم ہے اور یہ دونوں قدیم صفات ہیں اور ان کی کوئی حد نہیں اور جو غیر متناہی ہوتا ہے اس میں کمی ہونا محال ہے برخلاف اُس شے کے جو متناہی ہو ،کیونکہ اس میں کمی واقع ہوسکتی ہے جیسے سمندرکہ یہ زمین کی چیزوں میں سے سب سے بڑی شے ہے۔ بسا اوقات متناہی شے کا کثیر حصہ لے لینے سے بھی اس میں کمی واقع نہیں ہوتی جیسے آگ اور علم۔ ان کو لینے سے کمی نہیں آتی بلکہ علم تو دینے سے اور بڑھتا ہے۔ لہذا یہ واضح ہوگیا کہ سوئی کی مثال کیوں دی گئی اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ یہ مخلوق کو سمجھانے کے لیے بطورِ مثال کہا گیا ہے تاکہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ اس قدر دینے سے بھی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے خزانے میں اتنی سی بھی کمی نہیں آتی۔‘‘([141])

مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کبیر حَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میری یہ عطا میرے خزانوں کو سوئی کی تری کی بقدر کم کردیں گے، وہاں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سورج ہزار ہا سال سے دنیا کو ر وشنی دے رہا ہے مگر اس کی روشنی میں مطلقاً کمی نہ ہوئی۔ جب ربّ تعالٰی کی تجلیوں کا یہ حال ہے تو اس کے خزانو ں کا کیا حال ہوگا۔ اور یہ نسبت بھی فقط سمجھانے کے لیے ہے ورنہ ربّ تعالٰی کے خزانے غیر محدود ہیں اور اس کی عطائیں محدود کیونکہ لینے والے محدود ا ور محدود کی غیر محدود سے نسبت کیسی؟‘‘([142])

عدل فضل کے خلاف نہیں :

حدیث پاک میں ہے:”میں تمہیں اَعمال کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔“اس کی شرح میں مُفَسِّر شہِیر، مُحَدِّث کبیرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں : ’’اس طرح کہ نیک کار کی جزاء


 

میں کمی نہ کروں گا اور بدکار کی سزا میں زیادتی نہ کروں گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیک کار کو زیادہ نہ دوں اور گنہگار کو معاف نہ کروں ۔ یہاں عدل کا ذکر ہے، عدل فضل کے خلاف نہیں ۔ لہٰذا حدیث واضح ہے نہ آیات قرآنی کے خلاف ہے اور نہ دیگر احادیث کے مخالف۔‘‘([143])

خیر اور شر سے کیا مراد ہے؟

عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’ جو خیر کو پائے یعنی ثواب اور نعمتیں یا خوش باش حیاتِ طیبہ تو اُسے چاہیے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی حمد بیان کرے اِس بات پر کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے اسے نیکیاں کرنے کی توفیق بخشی جن پر یہ ثواب مرتب ہوا اور یہ اس کا فضل اور رحمت  ہے۔اور جو اس کے علاوہ کوئی چیز پائے یعنی شر۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے لفظ شر کو ذکر نہیں فرمایا،ہمیں یہ بات سکھانے کے لیے کہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ جو بُرے لفظ ہوں انہیں زبان سے نہ نکالا جائے ،اسی طرح جو الفاظ اس کے مشابہ ہوں جن کو بُرا سمجھا جاتا ہو اور جن کو بولنے سے حیا کی جاتی ہو انہیں بھی زبان سے نہ نکالا جائے۔ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جس لفظ کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بولنے سے اجتناب فرمارہا ہے اس میں پڑنا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کو کتنا سخت ناپسند ہوگا۔ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ حَیٌّ یعنی زندہ ہے، کریم  یعنی کرم فرمانے والا ہے، وہ پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے اور گناہوں کو بخشتا ہے ۔وہ کسی کی گرفت کرنے میں جلدی نہیں فرماتا اور نہ ہی کسی کا پردہ فاش فرماتا ہے۔اس کے بعد فرمایا’’ جو شر کو پائے تو وہ پنے آپ ہی کو ملامت کرے۔“ کیونکہ اس نے رضائے الٰہی پر اپنی خواہشات اور لذات کو توجیح دی توعدل کے تقاضے کے مطابق وہ اسی چیز کا مستحق ہےکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے فضل وکرم سے محروم رہے ۔‘‘([144])

معاف فضل وکرم سے ہو ہر خطا یارب

ہو مغفرت پئے سلطانِ انبیاء یارب


 

بلا حساب ہو جنت میں داخلہ یارب

پڑوس خلد میں سَرور کا ہو عطا یارب

نیکیاں ربّ کی توفیق، گناہ شامت نفس:

مُفَسِّر شہِیر، مُحَدِّث کبیرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں : ’’خلاصہ یہ ہے کہ بندہ نیکیوں کو ربّ تعالی کی توفیق سے سمجھے اور گناہوں کو اپنی شامت نفس سے جانے۔ بلکہ ہر نقص کو اپنی طرف منسوب کرے اور کمال کو ربّ تعالی کی طرف۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَامنے فرمایا تھا: ’’وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ یعنی بیمار میں ہوتا ہوں شفاء وہ دیتا ہے۔ ورنہ خیر و شر کا خالق و مالک  ربّ تعالٰی ہی ہے لہذا یہ حدیث اس کے خلاف نہیں ۔وَالْقَدْرُ خِیْرُہُ وَشَرُّہُ مِنَ ﷲ تَعَالٰی۔‘‘([145])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مدنی گلدستہ

”گیارھویں “کي نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے11مدنی پھول

(1)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ظلم سے پاک و مُنَزَّہ ہےاور ظلم کو سختی سے ناپسند فرماتا ہے۔

(2)       ظلم اتنا قبیح اور بُرا فعل ہے کہ اس کی حرمت پر دنیا کے تمام مذاہب ومسالک کا اجماع اور اتفاق ہے ۔

(3)       ظلم کی بہت سی اقسام ہیں ، سب سے بڑا ظلم اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہر گناہ کو معاف فرمادے گا لیکن شرک کو معاف نہ فرمائے گا۔

(4)       ظالم بہت بدنصیب شخص ہے اور اس کی بدنصیبی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ظالم سے مظلوم کا بدلہ خود لیتا ہے۔


 

(5)       انسان دینِ فطرت یعنی اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے لیکن بعد میں شیطان اسے گمراہ  کر کے دیگر باطل مذاہب کی طرف پھیر دیتا ہے۔

(6)       بندے کو چاہیے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے ہدایت کا سوال کرتا رہے کہ جسے وہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔

(7)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مخلوق سے وہ تمام خطاب جن میں اُن کے گناہوں کا ذکر ہے، اُن سے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور فرشتے مراد نہیں ہیں کیونکہ یہ دونوں معصوم وگناہوں سے پاک ہیں ۔

(8)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّبے نیاز ہے، بندوں کے گناہ کرنے یا نیکی کرنے سے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا،نیکیاں کرنے میں اس کے بندوں ہی کا فائدہ ہے اور گناہ کرنے میں بھی اس کے بندوں ہی کا نقصان ہے۔

(9)       ربّ عَزَّ  وَجَلَّکے خزانے بہت وسیع ہیں ، اگر وہ اپنے خزانوں سے پوری دنیا کو بھی مالا مال کردے تو اس کے خزانے میں اتنی بھی کمی نہ ہوگی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈال کر نکالنے سے سمندر میں ہوتی ہے، اس لیے ربّ عَزَّ  وَجَلَّسے ہروقت اس کا فضل وکرم طلب کرتے رہنا چاہیے۔

(10) بندے کو اگر کوئی بھلائی پہنچے یا وہ کوئی نیک کام کرے تو اُسے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی توفیق سمجھے نیز اس کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

(11) اگر بندے کو کوئی بُرائی پہنچے تو اُسے چاہیے کہ اپنے آپ کو ملامت کرے ۔

اللہ عَزَّ  وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں ظلم جیسے بڑے اور بُرے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں تمام گناہوں سے بچنے، دوسروں کو بچانے، نیکیاں کرنے اور دوسروں کو ترغیب دلانے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسطے اُٹھیں

بچانا ظلم وستم سے مجھے سدا یارب

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

با ب نمبر:12      

آخری عمرمیں نیکیوں کی زیادتی کابیان

عمر  کےآخری حِصّے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے پر اُبھارنے کا باب

پیدائش سے موت تک  زندگی کا ہرہرلمحہ قیمتی ہے۔لیکن  غفلت کے اندھیروں میں بھٹکنے والے اس قیمتی متاع کو بے دریغ ضائع کر تے ہیں ۔عنفوانِ شباب میں دنیا بدلنے کا عزم تو دل و دماغ   پرحاوی ہوتا ہےلیکن یادِ الٰہی سے یکسر غافل ہوتے ہیں ۔پھرجب بڑھاپا آ کر طرح طرح  ستاتا ہے تب بھی نیکیوں کی طرف مائل نہیں ہوتے، بالآخر اسی غفلت میں دنیائے ناپائیدار سے قبر کی اندھیری کوٹھڑی میں اتار دئیے جاتے  ہیں ۔اِس کےبرعکس اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کےنیک بندےہرہرسانس کوغنیمت جانتےہوئےمرتےدم تک رضائے الٰہی کے ‏لیےکوشاں رہتے ہیں ۔اُن کالڑکپن ، جوانی اور بڑھاپا  عبادت ہی میں گزرتا ہے۔ بلکہ  جوں جوں عمر بڑھتی ہے  ان کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ وہ اس راز سے واقف ہوتے ہیں کہ   مقابلہ کرنے والا منزل کو دیکھ کر  اپنی رفتار بڑھاتا ہے ۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اَعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے۔ جس کا خاتمہ اچھا  اس کی آخرت اچھی۔ریاض الصالحین کا یہ باب’’آخری عمر میں نیکیوں کی کثرت ‘‘کے بارے میں ہے۔ عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے اس باب میں ایک1آیت مبارکہ اور پانچ 5اَحادیث مبارکہ بیان فرمائی ہیں ۔پہلےآیت کا ترجمہ  اورتفسیر ملاحظہ کیجئے۔

عمرکےبارےمیں سوال

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا یَتَذَكَّرُ فِیْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِیْرُؕ- (پ۲۲، فاطر: ۳۷)

ترجمہ ٔ کنزالایمان: کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی تھی جس میں سمجھ لیتا جسےسمجھنا ہوتا اور ڈر سنانے والا تمہارے  پاس تشریف لایا تھا۔

عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِییہ آیت نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَاابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اورمحققین علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامنے اس آیت  کا معنی بیان


 

 کرتے ہوئے فرمایا: ’’یعنی  کیا ہم نے تمہیں ساٹھ 60سال کی زندگی نہیں دی تھی؟‘‘اس معنیٰ کی تائید  وہ حدیث پاک بھی کرتی ہے جسے ہم اس باب  میں بیان کریں گے ۔ایک قول یہ ہے  کہ اس سے اٹھارہ 18سال مراد ہیں ۔ بعض نے چالیس 40سال مراد ‏لیے  ہیں اور یہ قول  حضرت حسن بصری، کلبی اور مسروق ( بن سعید) رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کا ہے۔سَیِّدُنَا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے اسی طرح کا ایک قول  منقول ہے۔ منقول  ہے کہ اہل مدینہ میں سے جب کسی کی عمر چالیس 40سال ہوجاتی تو وہ اپنے آپ کو عبادت کے ‏لیے فارغ  کر لیتا۔ بعض کے نزدیک اس سے  بلوغت کی عمر  مراد ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمان: (وَ جَآءَكُمُ النَّذِیْرُؕ- ) کے بارے میں سَیِّدُنَا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور جمہور علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :’’اس سے مراد حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ والا صفات ہے ۔‘‘ ایک قول  کے مطابق اس سے مُراد بڑھاپا ہے۔ یہ قول عکرمہ اور ابن عیینہ وغیرہ رَحِمَہُمُ اللہُ کا ہے۔   واللہُ  اَعْلَمُ ([146])

تفسیرروح البیان میں  ہے: ’’یعنی کیا ہم نے تمہیں مہلت نہ دی تھی اور تمہیں زندگی نہ بخشی تھی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حا صل کر سکتا تھا۔ بالغ ہونے کے بعد انسان کو جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی طرف سےپختہ عقل دی جا ئےتو اس پر لازم  ہے کہ مخلوق میں غور و فکر کرے  اور یہ سمجھے کہ  عبادت کے لائق  صرف اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہی کی ذات ہے، جو سب کا خالق و مالک ہے۔اوراٹھارہ  یا بیس سال کی عمر میں  تو عقل و فکر کی قوت پہلے سے   مضبوط اور اس  پر  حجت  مزید مُؤکَّد ہو جاتی ہے ۔صحابۂ کرام اور تابعین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہیں کہ جب وہ چالیس 40سال کی عمر کو پہنچتے یا بڑھاپے کے آثار پاتے تو عبادت کے ‏لیے اپنی کوششیں تیز کر دیتے ، بستر لپیٹ  دیتے، شب بیداری میں وقت گزارتے  اور لوگوں سے میل جول  کم کردیتے۔‘‘([147])اللہ عَزَّ  وَجَلَّہمیں خوابِِ غفلت سے بیدار فرمائے ۔آمین

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

حدیث نمبر:112                            

ربّ تعالٰی کس   کاعُذر قبول نہیں فرماتا    ؟

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَعْذَرَاللّٰہُ اِلَی امْرِءٍ اَخَّرَ اَجَلَہُ حَتّٰی بَلَغَ سِتِّیْنَ سَنَۃً. ([148])

ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَاابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّاس شخص  کے ‏لیے کچھ عذر باقی نہیں چھوڑ تا جس کی عمر  مُؤخر کردے یہاں تک کہ  وہ  ساٹھ 60سال تک پہنچ  جائے ۔‘‘

عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیحدیث  کامعنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’علماء کرامرَحِمَھُمُ اللّٰہُ السَّلَامفرماتے ہیں :’’یعنی جب  اُسے اتنی مدت تک مہلت دیتا ہے تو اس کے ‏لیے کوئی عذر نہیں چھوڑتا۔ اوراَعْذَرَ الرَّجُلُاس وقت کہا جاتا ہے  جب کوئی شخص عُذر کے انتہائی مرحلے پر پہنچ جائے۔‘‘([149])

عُذر باقی نہ چھوڑنے کا معنی:

عمدۃُالقاری میں ہے:’’یعنی اس عمر میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بندے کا عُذر قبول نہیں فرماتا۔اب اسے چاہیے کہ اِسْتِغْفَار کرے،طاعت وفرمانبرداری اپنائے اورمکمل طورپرآخرت کی تیاری میں مشغول ہو جائے کیونکہ اب اس کے پاس  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کوپیش کرنے کے ‏لیے کوئی عذر نہیں رہا۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نےاسے اتنی لمبی عمراور  عبادت پر قوّت دی (لیکن  وہ پھر بھی  فرمانبراری کی طرف نہ آیا ) تو اب اس کا کوئی  عذرقبول نہیں  فرمائے گا۔‘‘([150])

فتح الباری میں ہے:’’یعنی اب وہ یہ  عذر نہیں کر سکتا کہ  اگر مجھے مہلت  ملتی تو میں احکام ِالٰہی بجا  لاتا۔


 

 جب تمام عمر میں قدرت کے باوجود عبادت  ترک کر تا رہا تو اب اس عمر میں اس کے پاس کوئی عذر نہیں بچا اب اسے   چاہیے کہ اِسْتِغْفَار کرے۔‘‘([151])

بڑھاپے کے بعد فقط موت ہے:

مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتےہیں :’’اس عبارت کے دومعنی ہیں :(۱)ایک یہ( کہ)اَعْذَرَکےمعنی ہیں ’’ عذردُور کردیتاہے۔‘‘ یعنی بابِ اِفعال کا ہمزہ سلب کے ‏لیے ہے۔ تب مطلب یہ ہوگا کہ بچپن اور جوانی میں غفلت کا عذرسنا جاسکے گا مگر جو بڑھاپے میں اللہ  تعالٰیکی طرف رجوع نہ کرے اس کا عذر قبول نہ ہوگا ۔کیونکہ بچپن میں جوانی کی امید تھی جوانی میں بڑھاپے کی،اب بڑھاپے میں سوا موت کے اور کس چیز کا انتظار ہے؟اگر اب بھی عبادت نہ کرے تو سزا کے قابل ہے۔اس کا کوئی بہانہ قابل سننے کے نہیں ۔(۲)دوسرےیہ کہ اَعْذَرَکے معنی ہیں ’’معذور رکھتا ہے۔‘‘یعنی جو بوڑھا آدمی بڑھاپے کی وجہ سے زیادہ عبادت نہ کرسکے مگر جوانی میں بڑی عبادتیں کرتا رہا ہو تو اللہ تَعالٰیاسے معذورقرار دے کر اس کے نامۂ اعمال میں و ہی جوانی کی عبادت لکھتا ہے۔ساٹھ 60سال پورا بڑھاپا ہے۔بوڑھے نوکر کی پنشن ہوجاتی ہے وہ رؤف و رحیم ربّ بھی اپنے بوڑھے بندوں کی پنشن کردیتا ہے مگر پنشن اس کی ہوتی ہے جو جوانی میں خدمت کرتا رہے۔‘‘([152])

عمر کے چار حصے:

علامہ غلام رسول رضویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس حدیث  کے تحت فرماتے ہیں :’’ اَطِبّاء کہتے ہیں عمر کے چار حصے ہیں :(۱)ایک حصہ سِن طُفُولِیّت ہے، یہ تیس30 برس تک ہے۔(۲)دوسراحصہ سِن شَباب ہے،یہ چالیس40برس تک ہے۔(۳)تیسراحصہ سن کَہُولَت ہے، یہ ساٹھ60برس تک ہے۔(۴)چوتھا حصہ سن شَیْخوخت ہے، یہ ساٹھ 60سال کے بعد ہے۔ اس میں انسان کی قوت  کمزور پڑ جاتی ہے۔جس میں نقص اور


 

 اِنحطاط ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اور موت سر پر منڈلاتی پھرتی ہے۔یہ اللہ کی طرف رجوع کا وقت ہے اورجوانی میں رُجُوْعْ اِلَی اللہپیغمبری شیوہ ہے۔ ترمذی میں حضرت سَیِّدُنَاابوہريرہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)سےمرفوع روایت ہے کہ سید عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمنے فرمایا:’’میری اُمَّت کی عمریں ساٹھ60 اور ستر 70سالوں کے درمیان ہیں ۔ بہت تھو ڑے لوگ اس سے اوپر عُمر پاتے  ہیں ۔ الحا صل انسان ساٹھ 60سال تک قوی رہتا ہے اس کے بعد نقص اورہَرَم (بڑھاپا) شروع ہو جاتا ہے۔اس عمرمیں اللہ تعالٰیاس کے تمام عذرناقابلِ قبو ل کر دیتا ہے کیونکہ سن بلو غ سے ساٹھ 60سال تک  کافی وقت ہے جس میں وہ سوچ بچار کرسکتا ہے۔‘‘([153])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ابھی ہماری زندگی کی سانسیں باقی ہیں ، اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں ۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بڑے بڑے گناہ گاروں کو معاف فرمادیتا ہے۔چنانچہ،

بوڑھے شرابی کی توبہ:

عراق کے مشہورمبلغ حضرت سیِّدُنامَنصوربن عَمار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارفرماتے ہیں کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ آسمان کادروازہ کھلااورایک نورانی فرشتے نے مجھ سےآ کر کہا :’’ اے ابن عمار!خدائے جبَّار وقہَّار،دن رات کا خالق عَزَّ  وَجَلَّتمہیں سلام فرماتا ہے اور حکم  دیتا  ہے کہ کل  شراب خانے میں نصیحت بھرا بیان کرنا، اس میں ہمارے بہت سے راز پوشیدہ ہیں اورہم تمہیں اپنی عجیب نشانیاں دکھائیں گے۔‘‘

میں گھبراکربیدارہوااوراسےاپناوہم سمجھ کر ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ“ پڑھااورسوچنے لگا کہ  آیاتِ قرآنیہ  اوراَحادیثِ مبارکہ نااہلوں کے سامنے شراب  خانے میں کیسے پڑھی جاسکتی ہیں ؟چنانچہ میں نے وضو کیا اوردو رکعت نماز پڑھی اور سو گیا۔ وہی فرشتہ دوبارہ نظر آیا اور کہنے لگا : ’’اے منصور! میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہی کے حکم سے آیا ہوں ۔اٹھو اور شراب خانے میں  وعظ ونصیحت کرو ، تمہاری حفاظت ہمارے ذمۂ کرم پر ہے۔‘‘ میں گھبرا کر بیدار ہوا اور سوچنے لگا  کہ کسی کو منبر اٹھوانے کے ‏لیے بلاتا ہوں ۔اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی۔میں نے پوچھا: ’’ کون؟‘‘ کہا:’’اے محترم!میں منبر اٹھانے کے ‏لیے حاضر ہوا ہوں ۔


 

 بتائیے  آپ  کا منبر شراب خانے کے درمیان  میں رکھواؤں یا مٹکوں کے درمیان؟ ‘‘میں نے پوچھا : ’’تجھ پر یہ راز کیسے  ظاہرہوا؟‘‘ کہا:’’اُسی نے ظاہر کیا ہےجو کسی شئے کو ”کُنْ“ (یعنی ہوجا) فرماتا ہےتو وہ ہوجاتی ہے۔ جوفرشتہ آج رات آپ کے پاس آیاتھا ،وہی  میرے پاس بھی آیا اور مجھے حکم دیاکہ میں آپ کے ‏لیے شراب خانے میں منبر بچھا دوں ۔‘‘ میں نے کہا:’’اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسے تم کہہ رہے ہو تو وہی کرو جس کاتمہیں حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘پھرجب صبح خوب روشن ہو گئی۔تومیں نے دیکھا کہ تمام شرابی حلقہ بنائے انتظار میں بیٹھے ہیں ۔ میں منبر پربیٹھ گیا کچھ دیر کے ‏لیے سر جھکايا پھر یوں بیان شروع کیا:

’’سب خوبیاں اس ذات کے ‏لیے ہیں جس نے اپنے محبوب بندوں کے دلوں کواپنے قرب کی لذت عطا فرمائی اور انہیں اپنے مے خانۂ وصال میں داخل کیا اور اپنی شرابِِ طہور سے سیراب کر کے اپنے غیر سے بے خبر کر دیا۔ اور محب اپنے محبوب کے علاوہ کسی شے میں مشغول نہیں ہوتا۔ جب ربِّ جلیلعَزَّ  وَجَلَّ نے ان پر تجلِّی فرمائی تو جمالِ قدرت کے مشاہدے کے وقت اُن کے ہوش اڑ گئے۔ اے خواہشات کی شراب میں بدمست ہونے والو! تم محبتِ الٰہی کے مے خانے میں داخل ہوجاؤاورشراب کے مٹکوں کے بجائے قُرب کے گھڑوں کا مشاہدہ کرو ، بخشنے والے ربّ عَزَّ  وَجَلَّ کی بارگاہ میں صاحب ِوقارمَردوں کو دیکھوکہ ان پر خوشی و مسرت کے جام گردش کر رہے ہیں ، خالص شراب ِطہورکے پیالوں نے ان کو دنیا کی شراب سے بے پرواہ کر دیا ہے،ان کے پیالے اُن کی خوشی و مسرت، ان کی شراب ذِکْرِ الٰہی ،ان کی خوشبو اُن کا قرآن ، ان کی شمع ان کی سماعت اور ان کے نغمے توبہ و اِسْتِغْفَارہیں ۔ جب رات تاریک ہوتی ہے اور سب لوگ سو جاتے ہیں تو ربّ ِکائنات عَزَّ  وَجَلَّ ان پر تجلِّی فرماتا اورپردے اُٹھا دیتاہے۔اوراس کے محبوب بندے ایسے جہاں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جس کاتصورکسی کی عقل میں آیا، نہ کسی کے ذہن میں اس کا خیال گزرا۔ اے عقل مندو!ذرا غورتوکروکہ اَخروٹ اور اس کے چِھلکے کے درمیان کتنا فاصلہ ہوتا ہے، دلوں کی ٹہنیوں کو حرکت دینے والے اورحضرت سَیِّدُنَا  یعقوب و یوسف عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملانے والے نے مجھے یہاں بیٹھنے کا اس ‏لیے حکم فرمایا ہے تاکہ وہ تمہارے گناہوں اور نافرمانیوں کو بخش دے اور عفوورضا کی دولت کا تاج تمہارے


 

 سرپررکھ دے، ماضی کے گناہوں کو مٹادے،مجرموں سے درگزر فرمائے اور دُھتکارے ہوؤں اور نافرمانوں کی توبہ قبول فرمائے۔ ( غورکرو!) حقیقی محبوب موجود ہے۔  وہ تمہیں دیکھ رہا ہےاور مصیبت تم سے ٹال دی گئی ہے، تو کیا تم میں توبہ کا عَزْمِ مُصَمَّمْ کرنے والا کوئی نہیں ؟بے شک!صلح کے جام تمہارے اِردگرد گُھوم رہے ہیں اورتم پرسخاوت کی ہوائیں چل رہی ہیں ۔‘‘

   حضرت سیِّدُنا مَنصور بن عمار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارفرماتے ہیں کہ میرا کلام و بیان ابھی مکمل نہ ہوا تھا کہ نشے میں مدہوش ایک نوجوان ہاتھ میں شراب سے بھراپیالہ ‏لیے میرے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: ’’اے ابن عمار! بتائیے! کیا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ مجھے اس حالت میں بھی قبول فرما لے گا ؟‘‘ میں نے کہا کہ اے میرے دوست!  ضرورقبول فرمائے گا  وہ خود قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ(پ۲۵، الشوریٰٰ: ۲۵)

 ترجمہ ٔ کنزالایمان: اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا۔

یہ سن کرنوجوان نے  شراب کاجام پھینکا اورحیران وسرگرداں باہرنکل گیا۔وہ خواب غفلت سے بیدار ہو چکا تھا ۔ پھر  نشے میں چُور ایک بوڑھا شخص ہاتھ میں طنبورہ (ایک قسم کا باجا)‏لیے کھڑا ہوااور کہنے لگا: ’’اے ابن عمار! کیا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس شخص کی توبہ قبول فرمائے گا جس کی تمام عمر نافرمانی اور گناہوں میں ضائع ہو گئی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’اےمحترم! وہ ضروربخشے والا ہے۔کیونکہ وہ خود ارشاد فرماتاہے:

وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ (پ۱۶، طہ: ۸۲)                                                                                                                   ترجمہ ٔ کنزالایمان:اوربے شک میں بہت بخشنے والا ہوں ۔

 اس نے توبہ کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے اوران کے ‏لیے رحم و کرم کا دروازہ کھول دیا ہے۔‘‘ بوڑھے شرابی  نے میرا کلام سنا تو طنبورہ پھینک دیا، اور غمگین حالت میں جدھر رُخ تھا اُدھرنکل گیا، وہ بھی غفلت کی نیند سے بیدار ہو چکا تھا۔([154])

(اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔آمین)


 

آئیے!توبہ کرلیجئے:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آئیے! ہم بھی  توبہ کرلیں ،اپنے گناہوں پر رولیں ، یہ رونے کا ہی مقام ہے۔آئیے!اپنی محرومی کے بارے میں گریہ و زاری کرلیں ، شاید یہ رونا اور گریہ وزاری کرنا ہمارے کام آجائے، بالوں کی سفیدی پیغامِ اَجل دے رہی ہے، اے  جوانی سے بڑھاپے تک عبادت و ریاضت میں پیچھے رہ جانے والے! قافلہ کوچ کرچکا ہے،تیرا دن تلاشِ معاش میں اور رات خوابِ غفلت میں گزرتی ہے،تونے جوانی کی بہاریں یونہی غفلت میں گزاردیں ، نا فرمانیوں کی خزاں چھاگئی ہے،اگر تو اب بھی نادم ہوکر توبہ کرلے تو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ بڑا غفور ورحیم اور معاف فرمانے والا ہے۔اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معاف فرمائےاور ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔آمین

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مدنی گلدستہ

’’غوثِ پاک‘‘کے6حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اُس کی وضاحت سے ملنے والے6مدنی پھول

(1)       جس ربِّ کریم کی بے شمار عطاؤں اوراِحسانات  کی وجہ سے  اِنسان دنیا میں زندہ ہے اور طرح طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے ،اُس کی نافرمانی  کرنا  بہت بڑی حماقت و محرومی ہے ۔

(2)       نافرمانی کرتے جس کی عمر ساٹھ60 سال تک پہنچ جائے،اُس کے پاس بارگاہِ الٰہی میں پیش کر نے کے ‏لیے کوئی عذرنہیں بچتا۔

(3)       جوانی میں عبادت  وریاضت اختیار کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے ۔

(4)        جس کی   ساری  عمر نافرمانیوں میں گزری ہو اسے چاہیے کہ  زندگی کے بقیہ ایام  کو غنیمت جان کر خوب  توبہ  واستغفار کرے،  نیک اعمال کی طرف   متو جہ ہواور اب لمحہ بھر کے ‏لیے بھی  اپنے  ربّ کریم کی نافرمانی نہ کرے ۔


 

(5)       اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اپنے نیک بندوں کی زبان میں  ایسی تاثیر  دیتا ہے کہ ان کی باتیں سن کر بڑے بڑے گناہگاہ  بھی  تائب ہو جاتے ہیں ۔

(6)       جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کسی  کو توبہ کی توفیق دینا چاہتا ہےتو اس کے ‏لیے  توبہ کے ذرائع بھی خود ہی مہیا فرمادیتا  ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے تمام گناہوں سے توبہ کریں اور نیکیوں بھری زندگی گزاریں ۔

          اللہ عَزَّ  وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی جوانی اور بڑھاپا دونوں میں گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ایمان پر سلامتی اور ایمان پر ہی خاتمہ نصیب فرمائے۔

آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 حدیث نمبر:113      

سَیِّدُنَا ابن عَبَّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا  کا عِلْمِی مقام

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ:کَانَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُدْخِلُنِیْ مَعَ اَشْیَاخِ بَدْرٍ،فَکَاَنَّ بَعْضَہُمْ وَجَدَ فِی ْ نَفْسِہٖ فَقَالَ لِمَ یَدْخُلُ ہَذَامَعَنَا وَلَنَا اَبْنَاء ٌمِثْلُہُ؟ فَقَالَ عُمَرُ : اِنَّہُ مِنْ حَیْثُ عَلِمْتُمْ. فَدَعَانِیْ  ذَاتَ یَوْمٍ فَاَدْخَلَنِیْ مَعَہُمْ، فَمَارَاَ یْتُ اَنَّہُ دَعَانِیْ یَوْمَئِذٍ إِلَّا لِیُرِیَہُمْ قَالَ: مَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ تَعَالَی:( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱))فَقَالَ بَعْضُہُمْ: اُمِرْنَا نَحْمَدُ اللّٰہَ وَنَسْتَغْفِرُہُ اِذَا نُصِرْنَا وَفُتِحَ عَلَیْنَا. وَسَکَتَ بَعْضُہُمْ فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا. فَقَالَ لِیْ: اَکَذَالِکَ تَقُوْلُ یَا اِبْنَ عَبَّاسٍ؟ فَقُلْتُ: لَا،قَالَ: فَمَا تَقُوْلُ؟ قُلْتُ:ہُوَ  اَجَلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَعْلَمَہُ لَہُ قَال:( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱))وَذٰلِکَ عَلَامَۃُ اَجَلِکَ:( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳)) فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: مَا اَعْلَمُ مِنْہَا اِلَّا مَا تَقُوْلُ. ([155])

ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا ابن عباسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمجھے اَصحابِ بدرکے ساتھ بٹھایا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض بزرگوں کو یہ بات محسوس ہوئی تو انہوں نے کہا:’’یہ  ہمارے  ساتھ کیوں  شریک ہوتے ہیں ؟اِن کی  عمر کے تو ہمارے بیٹے ہیں ۔‘‘


 

سَیِّدُنَا فاروق اعظمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’یہ اُس مرتبے  کی وجہ  سے ہے جوآپ لوگوں کو  معلوم ہے۔‘‘ پھر ایک دن آپرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے مجھے بلا کران  بزرگوں کے ساتھ بٹھا یا تو  مجھے یہی گمان ہوا کہ آپ  انہیں میرا علمی مقام دکھانا چاہتے ہیں ۔ پس  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّکے اس  فرمان: :( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱)) (پ۳۰، النصر:۱)کے بارے میں آپ لوگ کیا  کہتے ہیں ؟‘‘بعض نے کہا : ’’اس میں حکم دیا گیا کہ جب ہماری مددکی جائے اورفتح  نصیب  تو ہم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی حمد کریں اوراس سے مغفرت چاہیں ۔ ‘‘کچھ حضرات خاموش رہے، انہوں نے کچھ جواب نہ دیا ۔ پھرآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے مجھ سے فرمایا: ’’اے ابن عباس!کیا تم بھی یہی کہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں ۔ ‘‘فرما یا:’’تم کیا کہتے ہو؟‘‘میں نے کہا:’’اس سے حضور نبی کر یم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکاوصال مبارک مرادہے،جس کی اللہ عَزَّ  وَجَلَّنےآپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم کو خبر دیتے ہوئے فرمایا: :( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱)) جب اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی فتح ونصرت آجائے تو یہ آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکے وصال کی علامت ہے۔:( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳)) پ۳۰، النصر:۳) پس  اپنے ربّ کی حمدبیان کرواوراس سے مغفرت چاہو،بے شک!وہ بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔‘‘ سَیِّدُنَا فاروق اعظمرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’میرے نزدیک بھی اس آیت  کا یہی مطلب  ہے جو  تم  نے بیان کیا ۔‘‘

بیٹوں کے ساتھ تمثیل کی وجہ:

مذکورہ حدیث پاک میں اس بات کا بیان ہے کہ جب امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو بدری صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ساتھ بٹھایا تو انہوں نے کہا کہ اِن کی مثل تو ہمارے بیٹے ہیں ۔واضح رہے کہ یہ قول حقیقت کے اظہار کے لیے تھا کہ واقعی ہمارے بیٹے اُن کی عمر کے ہیں ، نہ کہ بطورِحسد تھا۔چنانچہ عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’یہ بات کہنے والے حضرت  سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔ انہوں نے یہ بات حسد  وغیرہ کی وجہ سے نہ کی  بلکہ اظہارِ حقیقت کے ‏لیے کہا تھا کہ ان کی عمر کے برابر تو


 

ہمارے بیٹے ہیں ۔‘‘([156])

سَیِّدُنَاعبد اللہ بن عباس کی فضیلت:

فتح الباری میں ہے:’’اس حدیث پاک  سے حضرت سَیِّدُنَاابن عباسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی فضیلت اوراِس دعائے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا  ظہور ہوتا ہےکہ:’’اللہ عَزَّ  وَجَلَّابن عباس کو تاویل کا علم اور دین میں سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔“یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے اوپر نعمتِ الٰہی کےاِظہار اور  ناواقف لوگوں  کو بتانے اور  دیگر نیک مقاصد کے ‏لیےاپنی تعریف کرنا جائز ہے۔ ہاں !فخر کرنے کے‏لیے جائز نہیں ۔‘‘([157])

اِس اُمَّت کے بہت بڑے عالم:

عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے، حضور نبی اکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکے وصال مبارک  کے وقت آپ کی عمر 13سال تھی۔آپ اِس اُمَّت کے  بہت بڑے عالم ہیں ۔نبی کریم رؤف رحیم  صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنےآپ کے ‏لیے حکمت وفقہ کی دعا فرمائی تھی۔ آپ نے حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کو دو2مرتبہ دیکھا ۔آخری عمر میں آپ نابینا ہوگئے۔ اِکہتر(71) سال عمر پائی اور۶۸ھ میں طائف میں وفات پائی ۔کثیر صحابہ وتابعین کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے آپ سے روایات لی ہیں ۔‘‘([158])

 



[1]فتاوی رضویہ، ۷/۴۶۵، ۴۶۶۔

[2]اکمال المعلم، کتاب صلوۃ المسافرین ، باب استحباب تطویل القراءۃ۔۔۔ الخ ،۳ /۱۳۷، تحت الحدیث:۲۰۴ماخوذا۔

[3]اکمال المعلم، کتاب صلوۃ المسافرین ، باب استحباب تطویل القراءۃ۔۔۔ الخ ،۳ /۱۳۷، تحت الحدیث:۲۰۴ماخوذا۔

[4]فتاویٰ امجدیہ،۱/۹۶ملخصًا۔

[5]فتاویٰ رضویہ، ۷/۳۵۷ ملخصا۔

[6]مرآۃ المناجیح، ۲/۷۵۔

[7]شرح سنن ابی داود للعینی، کتاب الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ،۴/۷۸، تحت الحدیث:۸۴۸۔

[8] ابو داود، کتاب الصلاۃ، باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ،۱/۳۳۰،حدیث:۸۶۹۔

[9]مرآۃ المناجیح، ۲ /۷۴۔

[10]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلاۃ، باب الرکوع،۲/۴۰۱، تحت الحدیث:۸۷۹۔

[11]مرآۃ المناجیح، ۲ /۷۴۔

[12]مرآۃ المناجیح، ۲ /۶۹۔

[13] بخاری، کتاب التھجد، باب طول القیام فی صلوۃ الیل ، ۱/۳۸۶، حدیث:۱۱۳۵ ۔

[14]نزہۃ القاری، ۲/۶۷۹بتصرف قلیل۔

[15]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ، ۱/۳۲۱، تحت الحدیث:۱۰۳۔

[16]ارشادالساری، کتاب التھجد، باب طول القیام فی صلوۃ الیل ،۳/۲۰۷،تحت الحدیث:۱۱۳۵۔

[17]ارشادالساری، کتاب التھجد، باب طول القیام فی صلوۃ الیل ،۳/۲۰۷،تحت الحدیث:۱۱۳۵۔

[18]شرح مسلم للنووی کتاب صلوۃ المسافرین ، باب استحباب تطویل القراءۃ۔۔۔ الخ ، ۳/۶۳ ،  الجزء  السادس۔

[19]عمدۃ القاری، کتاب التھجد، باب طول القیام فی صلوۃ الیل ،۵ /۴۶۸، تحت الحدیث:۱۱۳۵۔

[20]عمدۃ القاری، کتاب التھجد، باب طول الصلاۃ فی قیام اللیل، ۵/۴۶۸، تحت الحدیث:۱۱۳۵۔

[21]شرح معانی الاثار، کتاب الصلاۃ، باب الافضل فی صلاۃ التطوع ھل طول القیام ۔۔۔الخ،۱/۶۰۹،حدیث:۲۶۶۶۔

[22]شرح معانی الاثار، کتاب الصلاۃ، باب الافضل فی صلاۃ التطوع ۔۔۔الخ،۱/۶۱۰،حدیث:۲۶۶۷۔

[23]مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین  و قصرھا، باب افضل الصلاۃ طول القنوت، ص۳۸۰، حدیث:۷۵۶۔

[24]ابو داود، کتاب التطوع، باب افتتاح صلاۃ اللیل برکعتین،۲/۵۳،حدیث:۱۳۲۵۔

[25]مسلم،کتاب صلوۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراۃ فی صلوۃ اللیل، ص۳۹۱، حدیث:۷۷۲ ملخصا۔

[26]فتح الباری، کتاب التھجد، باب طول القیام فی صلاۃ اللیل،۴ / ۱۷، تحت الحدیث:۱۱۳۵۔

5بہارشریعت، ۱/۵۴۷، حصہ۳۔

[28]شرح بخاری لابن بطال، باب طول القیام فی صلاۃ اللیل ، ۳/۱۲۵۔

[29]ارشادالساری، کتاب التھجد، باب طول القیام فی صلوۃ الیل ،۳/۲۰۸،تحت الحدیث:۱۱۳۵۔

[30]شرح مسلم للنووی کتاب صلوۃ المسافرین ، باب استحباب تطویل القراءۃ۔۔۔ الخ  ، ۳/۶۳ ،  الجزء  السادس۔

[31]فیوض الباری،۵/۱۷۔

[32]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ، ۱/۳۲۲، تحت الحدیث:۱۰۳۔

[33]بخاری، کتاب الاذان، باب من دخل لیؤم الناس۔۔۔الخ، ۱/۲۴۴، حدیث: ۶۸۴۔

[34]مسلم، کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الناصیۃ العمامۃ، ص۱۶۰، حدیث: ۲۷۴ملخصا۔

[35]بخاری، کتاب الاذان، باب الرجل یاتم باالامام۔۔۔الخ، ۱/۲۵۴، حدیث: ۷۱۳  بتغیر۔

[36]مسلم، کتاب الزھد  و الرقا ئق، ص۱۵۸۳، حدیث:۲۹۶۰ بتقدم وتاخر۔

[37]مرآۃالمناجیح،۷/۱۰۔

[38]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الرقاق،ا لفصل الاول،۹/۲۲، تحت الحدیث:۵۱۶۷۔

[39]فتح الباری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت،۱۲/ ۳۱۲، تحت الحدیث:۶۵۱۴۔

[40]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الرقاق،ا لفصل الاول،۹/۲۲، تحت الحدیث:۵۱۶۷ ملتقطا۔

[41]فتح الباری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت،۱۲/ ۳۱۲، تحت الحدیث:۶۵۱۴۔

[42]مسلم، کتاب الزھد  و الرقا ئق، ص۱۵۸۲، حدیث:۲۹۵۹۔

[43]عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت،۱۵/ ۵۸۷، تحت الحدیث:۶۵۱۴۔

[44]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الرقاق،الفصل الاول،۹/۲۲، تحت الحدیث:۵۱۶۷۔

[45]مرآۃالمناجیح،۷/۱۱۔

[46]احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت ومابعدہ،باب فی حقیقۃ الموت۔۔۔الخ،۵/۲۴۸۔

[47]بخاری، کتاب الرقاق ، باب الجنۃ اقرب۔۔۔ الخ ،۴/۲۴۳، حدیث:۶۴۸۸۔

[48]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ، ۱/۳۲۳، تحت الحدیث:۱۰۵ ملخصا۔

[49]شرح الطیبی، کتاب الدعوات ، باب سعۃ رحمۃ اللہ ،۵ /۱۳۴، تحت الحدیث:۲۳۶۸۔

[50] فتح الباری،کتاب الرقاق،باب الجنۃ اقرب۔۔۔ الخ ،۱۲/۲۷۴، تحت الحدیث:۶۴۸۸۔

[51]شرح بخاری لابن بطال، کتاب الرقاق ، باب حجبت النار باالشھوات،۱۰/۱۹۸۔

[52]مرآۃ المناجیح،٣/٣٨١ ۔

[53]شرح بخاری لابن بطال، کتاب الرقاق ، باب حجبت النار باالشھوات،۱۰/۱۹۸۔

[54]عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب الجنۃ اقرب۔۔۔ الخ ،۱۵/۵۶۱، تحت الحدیث:۶۴۸۸۔

[55]التذکرہ باحوال الموتی وامور الآخرۃ،باب منہ فی الشفعاءوذکرالجھنمیین،ص۳۳۴۔

[56]مسلم، کتاب الصلاۃ ، باب فضل السجود و الحث علیہ ، ص۲۵۲، حدیث:۴۸۹۔

[57]مرآۃ المناجیح، ۲/۸۳۔

[58]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلوۃ، باب السجود وفضلہ، ۲/۶۱۵، تحت الحدیث:۸۹۶۔

[59]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلاۃ، باب السجود وفضلہ، ۲/۶۱۵، تحت الحدیث:۸۹۶ ملخصا۔

[60]لمعات التنقیح، کتاب الصلاۃ ، باب السجود و فضلہ،۳/ ۱۷۲،تحت الحدیث:۸۹۶۔

[61]اشعۃ اللمعات،کتاب الصلوۃ ،باب السجودو فضلہ ،۱/۴۲۵۔

[62]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ،۱/ ۳۲۴، تحت الحدیث:۱۰۶۔

[63]مرآۃ المناجیح، ۲/۸۴۔

[64]اکمال المعلم، کتاب الصلاۃ ، باب فضل السجود والحث علیہ ،۲ /۴۰۳، تحت الحدیث:۴۸۹۔

[65]شرح الطیبی ، کتاب الصلاۃ، باب السجود وفضلہ، ۲ / ۴۱۳، تحت الحدیث:۸۹۶۔

[66]مرآۃ المناجیح، ۲/۸۴۔

[67]مرآۃ المناجیح، ۲/۸۴۔

[68]بخاری، کتاب الجھاد والسیر  ، باب قول النبی نصرت بالرعب۔۔۔ الخ،۲/۳۰۳، حدیث:۲۹۷۷۔

[69]مسلم، کتاب الصیام  ، باب تغلیظ تحریم الجماع فی نھار رمضان ۔۔۔الخ  ، ص۵۶۰، حدیث:۱۱۱۱۔

[70]بخاری، کتاب الاضاحی   ، باب قول النبی لابی بردۃ۔۔۔ الخ، ۳/ ۵۷۵، حدیث:۵۵۵۷۔

[71]بہارشریعت، ۱/۷۹، حصہ ۱۔

[72]مسلم، کتاب الصلاۃ ، باب فضل السجود و الحث علیہ ، ص۲۵۲، حدیث:۴۸۸۔

[73]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ، ۱/۳۲۵، تحت الحدیث:۱۰۷۔

[74] مرآۃ المناجیح،۲/۸۵ ماخوذا۔

[75]شرح مسلم للنووی، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود و الحث علیہ، ۲ /۲۰۶، الجزء الرابع ملخصا۔

[76]اکمال المعلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود و الحث علیہ،۲ /۴۰۳، تحت الحدیث:۴۸۸۔

[77]مرآۃ المناجیح،۲/۷۹۔

[78]اشعۃ اللمعات، کتاب الصلاۃ، باب السجود و فضلہ ،۱/۴۲۵۔

[79]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلاۃ، باب السجود و فضلہ،۲/۶۱۶، تحت الحدیث:۸۹۷۔

[80]اشعۃ اللمعات، کتاب الصلاۃ، باب السجود و فضلہ ،۱/۴۲۵۔

[81] مرآۃ المناجیح،۲/۸۵۔

[82] صفۃ الصفوۃ، باب علی بن عبداللہ بن عباس،۱ /۷۶، الجزء الثانی ۔

[83] المجالسہ و جواھر العلم ،الجزء الثالث ، ۱/۱۷۳،حدیث:۳۳۱  ۔

[84]شعب الایمان للبیھقی ،باب فی الصلوات، تحسین الصلاۃ والاکثار منھا۔۔۔الخ،۳/۱۵۳،حدیث:۳۱۷۸ ۔

[85] کتاب الزھد لابن المبارک، باب الذی یجزع من الموت۔۔۔الخ، ص ۹۴ ،حدیث ۲۷۹۔

[86] ابو داود ،کتاب الصلوۃ ،باب الدعا فی الرکوع و السجود،۱/۳۳۳،حدیث:۸۷۵ ۔

[87]ترمذی، کتاب الزھد ، باب ماجاء فی طول العمر،۴ / ۱۴۷، حدیث:۲۳۳۶۔

[88]اسد الغابۃ، عبد اللہ بن بسر المازنی، ۳/۱۸۶ ملتقطا۔

[89]شرح الطیبی ، کتاب الدعوات  ، باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ ، ۴/ ۴۰۶، تحت الحدیث:۲۲۷۰۔

[90]مرآۃ المناجیح، ۷/۹۷۔

[91]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ، ۱/ ۳۲۶، تحت الحدیث:۱۰۸۔

[92] فیض القدیر،حرف الخاء،۳/۶۴۰، تحت الحدیث:۴۰۳۹۔

[93]احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الباب الثانی فی طول الامل۔۔۔الخ،۵ / ۲۰۵ ۔

[94]بخاری،کتاب الجھاد والسیر ، باب قول اللہ تعالی:من المومنین رجال۔۔۔الخ، ۲/۲۵۵، حدیث:۲۸۰۵۔

[95]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ، ۱/۳۲۸، تحت الحدیث:۱۰۹۔

[96]کراماتِ صحابہ،ص۱۹۸بتصرف۔

[97]فتح الباری، کتاب الجھاد و السیر، باب قول اللہ عزوجل:من المؤمنین رجال۔۔۔الخ،۷/ ۱۹، تحت الحدیث:۲۸۰۵۔

[98] دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ ، ۱/۳۲۷، تحت الحدیث:۱۰۹۔

[99]فیوض الباری،۱۱/۱۸۷ماخوذا۔

[100]اکمال المعلم، کتاب الامارۃ، باب ثبوت الجنۃ للشھید،۶ /۳۲۶، تحت الحدیث:۱۹۰۳۔

[101]فتح الباری، کتاب الجھاد و السیر، باب قول اللہ عزوجل:من المؤمنین رجال صدقوا۔۔۔الخ،۷/۲۰،تحت الحدیث:۲۸۰۵۔

[102]ارشادالساری، کتاب الجھاد و السیر، باب قول اللہ عزوجل:من المؤمنین رجال صدقوا۔۔۔الخ،۶/۳۳۲،تحت الحدیث:۲۸۰۵۔

[103]عمدۃالقاری، کتاب الجھاد والسیر، باب قول اللہ تعالی:من المؤمنین رجال صدقوا۔۔۔الخ،۱۰/۱۱۲، تحت الحدیث :۲۸۰۵۔

[104]بخاری، کتاب الزکوۃ، باب اتقوا النار ولو  ۔۔۔الخ،۱/۴۷۸، حدیث:۱۴۱۵ بتغیر قلیل۔

[105]ارشاد الساری، کتاب الزکاۃ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ۔۔۔الخ،۳ /۶۰۰، تحت الحدیث:۱۴۱۵۔

[106]فیوض الباری،۶/۲۸۔

[107]نزہۃ القاری، ۲/۹۰۵۔

[108]عمدۃ القاری، کتاب الزکاۃ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ۔۔۔الخ،۶ /۳۷۹، تحت الحدیث:۱۴۱۵۔

[109]فتح الباری، کتاب الزکاۃ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ۔۔۔الخ،۴ /۲۴۵،تحت الحدیث:۱۴۱۵۔

[110]عمدۃ القاری، کتاب الزکاۃ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ۔۔۔الخ،۶ /۳۸۰، تحت الحدیث:۱۴۱۵۔

[111]نزہۃ القاری، ۲/۹۰۶ماخوذا۔

[112]مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فی المنفق والممسک، ص۵۰۴، حدیث: ۱۰۱۰۔

[113]مسلم، کتاب البروالصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع، ص۱۳۹۷، حدیث: ۲۵۸۸۔

[114]ترمذی، کتاب فضائل الجھاد، باب ما جاء فی فضل النفقۃ۔۔۔الخ، ۳/۲۳۳، حدیث: ۱۶۳۱۔

[115] فتاویٰ رضویہ،۲۳/۱۵۳ ملخصا۔

[116]حکایتیں اورنصیحتیں ، ص۲۳۶۔

[117]نزھۃ المجالس، باب في فضل الصدقۃ،۲/۷۔

[118]بہارشریعت، ۱/۱۲،۱۴ حصہ۱ ملتقطا۔

[119]روض الریاحین،ص۲۷۴۔

[120]حضرت سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے راہ خدا میں خرچ کرنے کے واقعات اور دیگر معلومات کے لیے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 132 صفحات پر مشتمل کتاب’’حضرت سَیِّدُنَا عبد الرحمٰن بن عَوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔

[121]مسلم، کتاب البر و الصلۃ الاداب ، باب تحریم الظلم ، ص۱۳۹۳، حدیث:۲۵۷۷۔

[122]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ، ۱/۳۳۱، تحت الحدیث:۱۱۱۔

[123]مرآۃ المناجیح ، ٣/۳۵۴۔

[124]التعریفات  للجرجانی ،ص۱۰۲۔

[125]مرآۃ المناجیح ، ٣/۳۵۴۔

[126]شرح مسلم للنووی ، کتاب البر و الصلۃ ۔الخ ، باب تحریم الظلم ،۸/۱۳۲، الجزء السادس عشر۔

[127]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ، ۱/ ۳۳۲، تحت الحدیث۱۱۱۔

[128]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ، ۱/ ۳۳۲، تحت الحدیث۱۱۱۔

[129]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبۃ ،۵/۱۵۵، تحت الحدیث:۲۳۲۶ملتقطا۔

[130]بخاری، کتاب المظالم، باب الظلم ظلمات یوم القیامۃ، ۲/۱۲۷، حدیث: ۲۴۴۷۔

[131]بخاری، کتاب المظالم، باب الاتقا والحذر من دعوۃ المظلوم، ۲/۱۲۸، حدیث: ۲۴۴۸۔

[132]الکامل فی ضعفاء الرجال، ۷/۳۱۵۔

[133] شرح مسلم للنووی ، کتاب البر و الصلۃ۔۔ ۔الخ ، باب تحریم الظلم ،۸/۱۳۲، الجز ء السادس عشر۔

[134]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ، ۱/ ۳۳۲، تحت الحدیث۱۱۱۔

[135]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ، ۱/ ۳۳۳، تحت الحدیث:۱۱۱۔

[136]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبۃ ،۵/۱۵۵، تحت الحدیث:۲۳۲۶ ماخوذا۔

[137]مرآۃ المناجیح ،۳/۳۵۵۔

[138] مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبۃ ،۵/۱۵۶، تحت الحدیث:۲۳۲۶ ملخصا۔

[139]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الدعوات، باب الاستغفار والتوبۃ ،۵/۱۵۶، تحت الحدیث:۲۳۲۶ملخصا۔

[140]مرآۃ المناجیح،۳/۳۵۵۔

[141]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ، ۱/ ۳۳۶، تحت الحدیث:۱۱۱ ملخصا۔

[142]مرآۃ المناجیح ،۳/۳۵۶۔

[143]مرآۃ المناجیح ،۳/۳۵۶۔

[144]دلیل الفالحین، باب فی المجاھدۃ، ۱/ ۳۳۷، تحت الحدیث:۱۱۱ملتقطا۔

[145]مرآۃ المناجیح ،۳/۳۵۶۔

[146]ریاض الصالحین، باب الحث علی الازدیاد من الخیر فی اواخر العمر، ص۴۱۔

[147]تفسیر روح البیان، پ۲۲، فاطر ، تحت الآیۃ:۳۷، ۷/۳۵۵ملتقطا۔

[148]بخاری، کتاب الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ ، ۴/۲۲۴، حدیث:۶۴۱۹۔

[149]ریاض الصالحین، باب الحث علی الازدیاد من الخیر فی اواخر العمر، ص۴۲، تحت الحدیث: ۱۱۲۔

[150]عمدۃ القاری، کتاب الرقاق ، باب من بلغ ستین سنۃ ، ۱۵/۵۰۳، تحت الباب۔

[151]فتح الباری ،کتاب الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ، ۱۲/۲۰۲، تحت الحدیث: ۶۴۱۹۔

[152]مرآۃالمناجیح،۷/۸۹ ملتقطا۔

[153]تفہیم البخاری،۹/۷۰۳.

[154]الروض الفائق،المجلس الخامس والعشرون فی حکایات الصالحین، ص۱۴۰۔

[155]بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ: فسبح بحمد ربک۔۔۔ الخ ، ۳/۳۹۱،  حدیث:۴۹۷۰۔

[156]عمدۃ القاری، کتاب المغازی ، باب، ۱۲/۲۷۶، تحت الحدیث:۴۲۹۴۔

[157]فتح الباری، کتاب التفسیر، باب سورۃ النصر،۹/۶۳۸، تحت الحدیث:۴۹۷۰۔

[158]مرقاۃ المفاتیح ، کتاب المناقب والفضائل، باب مناقب اھل بیت النبی۔۔۔الخ،۱۰/۵۲۶، تحت الحدیث:۶۱۴۷ملخصا۔