تفسیر روح البیان میں ہے:’’تابعی بزرگ حضرت سَیِّدُنَا سعید بن جبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کاوصال طائف میں ہوا۔ مجھے بھی ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت ملی۔ جنازے کے بعد ایک پرندہ آیا اوران کے کفن میں داخل ہواا ورواپس نہ آیا۔پھر جب انہیں قبر میں اتارا گیاتو ہاتفِ غیبی سے یہ آواز آئی:
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷) ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹) وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠(۳۰)
(پ ۳۰،الفجر:۲۷ تا ۳۰ )
ترجمہ ٔ کنزالایمان: اے اطمینان والی جان اپنے ربّ کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہواور میری جنت میں آ۔([1])
حضرتِ سَیِّدُنا ابن عباسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے مجھے اپنے سینے سے چمٹا یا اور پھر دعا کی: ’’یا اللہعَزَّ وَجَلَّ! اسےعلم وحکمت عطا فرما ۔‘‘([2])
حضرتِ سَیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکی مدنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تو میں نے آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکےلیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ واپسی پرآپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے پوچھا کہ ’’یہ پانی کس نے رکھا ہے؟‘‘ بتایا گیا کہ ابن عباسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے۔تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے لیے دعا کی :’’اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! اسے دین کا فقیہ بنادے۔‘‘([3])
حضرتِ سَیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکی بارگاہ ِاقدس میں حاضر ہوا ،سَیِّدُنَاجبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَامبھی حاضر خدمت تھے۔
سَیِّدُنَا جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمسے عرض کی:’’بے شک یہ (ابن عباس) اِس اُمَّت کے حِبْر( یعنی بڑے عالم )ہوں گے۔آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمانہیں خیر وبھلائی کی وصیت فرمائیے۔‘‘([4])
حضرتِ سَیِّدُنا ابن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سےمروی ہے کہ ایک مرتبہ دوعالم کے مختار مکی مدنی سرکار صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے حضرت ابن عباسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکےلیے یوں دعا فرمائی:’’یااللہعَزَّ وَجَلَّ! اس کے علم میں برکت عطا فرما اور اس سے علم پھیلا۔‘‘([5])
ایک مرتبہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عباسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے سرپر دستِ شفقت رکھ کر یوں دعاکی:’’یااللہعَزَّ وَجَلَّ!اسےعلم وحکمت عطا فرمااور تاویل کے علم سے نواز ۔‘‘ پھر آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے اپنا دست اَقدس اُن کے سینے پر رکھا جس کی ٹھنڈک آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنی پشت میں محسوس کی ،پھر فرمایا:’’یااللہعَزَّ وَجَلَّ! علم وحکمت سے اس کا سینہ بھر دے۔‘‘ اِس دعا کے بعدانہیں لوگوں کے کسی مسئلے میں گھبراہٹ محسوس نہ ہوئی۔جب تک حیات رہے اِس اُمَّت کے سب سے بڑے عالم رہے۔([6]) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین
لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) علم کی وجہ سے انسان کو بہت بلندمقام ملتا ہے ،دین ودنیا کی بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں ۔
(2) ہمارے اَسلافِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام اہل علم حضرات کو اپنی محافل میں بٹھا تے اور اَہم اُمور میں اُن سے مشاورت کیاکرتے تھے ۔
(3) بزرگوں کی خدمت کی بدولت انسان دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے اور اُن کا سردار بن جاتا ہے ۔
(4) جب کوئی ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت کرتا توآ پ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماُسے اپنی مُسْتَجَاب دعاؤں سے نوازتے۔ہمیں بھی چاہیے کہ جو ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے، اسے اچھی دعائیں دیں ۔
(5) دعائے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی برکت سےحضرت سَیِّدُنَا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو ایسا علم و حکمت عطا ہوا کہ وہ حِبْرُ الاُمَّۃ(اِس اُمَّت کے بڑے عالم )کہلائے۔
(6) بوقت ِضرورت اچھی نیت کے ساتھ اپنا مقام ومرتبہ لوگوں کےسامنے بیان کرنا جائز ہے ۔
(7) آخری عمر میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خوب خوب تسبیح کرنی چاہیے اور کثرت سے اِسْتِغْفَار پڑھنا چاہیے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فیضانِ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان عطا فرمائے، اپنی مختصر زندگی کو سنتوں کے سانچے میں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ایمان کی سلامتی اور اس پر استقامت عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:114
ذِکرُاللہ کی کثرت
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ:مَا صَلَّی رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃً بَعْدَ اَنْ نَزَ لَتْ
عَلَیْہِ:( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱))اِلَّا یَقُوْلُ فِیْہَا:سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہمَّ اغْفِرْلِیْ.([7])
وَفِیْ رِوَایَۃٍ فِیْ الصَّحِیْحَیْنِ عَنْہَا: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ اَنْ یَقُوْلَ فِیْ رُکُوْعِہِ وَسُجُوْدِہِ: سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ ،اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ یَتَاَوَّلُ الْقُرْاٰنَ.([8])
وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمٍ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ اَنْ یَّقُوْلَ قَبْلَ اَنْ یَّمُوْتَ:سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ. قَالَتْ عَائِشَۃُ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہ! مَاہَذِہِ الْکَلِمَاتُ الَّتِی اَرَاکَ اَحْدَثْتَہَا تَقُوْلُہَا؟ قَالَ:جُعِلَتْ لِیْ عَلَامَۃٌ فِیْ اُمَّتِیْ اِذَا رَاَیْتُہَا قُلْتُہَا: ( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱)) اِلٰی آخِرِ السُّوْرَۃِ. ([9])
وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہُ:کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُکْثِرُ مِنْ قَوْلِ:’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ‘‘ قَالَتْ: قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرَاکَ تُکْثِرُ مِنْ قَوْلِ: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ؟ فَقَالَ: اَخْبَرَ نِیْ رَبِّی اَنِّیْ سَاَرٰی عَلَامَۃً فِیْ اُمَّتِیْ فَاِذَارَاَیْتُہَا اَکْثَرْتُ مِنْ قَوْلِ:سُبْحَانَ اللّٰہَ وَبِحَمْدِہٖ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ، فَقَدْ رَاَیْتُہَا: ( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱)) فَتْحُ مَکَّۃَ،( وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ(۲) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳)).([10])
ترجمہ :اُمّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے مروی ہے کہ( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱)) (یعنی سورۂ نصر) نازل ہونے کے بعد حضورنبی کریم،رؤف ورحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں یہ کلمات نہ پڑھے ہوں :’’سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ یعنی اے ہمارے ربّ !تجھے پاکی ہے اور حمد تیرے لیے ہی ہے،اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!تومیری مغفرت فرما۔‘‘
صحیحین کی ایک اور روایت میں اُم المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمقرآنِ پاک پرعمل کرتے ہوئے اپنے رکوع وسجود میں کثرت سےیہ کلمات پڑھا کرتے تھے:’’سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اے ہمارے ربّ !تجھے پاکی ہے اور حمد تیرے لیے ہی ہے،اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ!تومیری مغفرت فرما۔‘‘
مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وصالِ ظاہری سے قبل یہ کلمات کثرت سے پڑھا کرتے تھے: ’’سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَیعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!تجھے پاکی ہے! اور حمد تیرے لیے ہی ہے،میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اورتیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔‘‘ اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :’’میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ کلمات کیا ہیں ؟ میں دیکھتی ہوں آپ اب یہ پڑھنے لگے ہیں ۔‘‘فرمایا: ’’میرے لیے میری اُمَّت کے بارے میں ایک نشانی قائم کی گئی ہے کہ جب میں وہ نشانی دیکھوں تو یہ کلمات کہوں ۔ (اور وہ نشانی یہ سورت ہے:) ( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱))...الخ۔
مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ تاجدار رسالت، شہنشاہ نبوتصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم کثرت سے یہ کلمات پڑھتے تھے:’’سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِیعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ پاک ہےاور میں اُس کی حمد کرتا ہوں ، اُس سےمغفرت چاہتا ہوں اوراُس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ۔‘‘اُمَّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں :’’میں نے عرض کی:’’یارسول اللہصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم!میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ کثرت سے یہ کلمات پڑھتے ہیں :’’سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ؟‘‘ فرمایا:’’مجھے میرے ربّ نے خبر دی ہے کہ عنقریب میں اپنی اُمَّت میں ایک نشانی دیکھوں گا، جب وہ نشانی دیکھوں تو ان کلمات کی کثرت کروں :’’سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُاللہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہپس میں وہ نشانی دیکھ چکا ہوں ہے۔(اور وہ نشانی یہ سورت ہے:)
( اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱) وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ(۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: جب اللہ کی مدد اور فتح آئے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج فوج داخل
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳)(پ۳۰، سورۃ النصر)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: جب اللہ کی مدد اور فتح آئے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیں تو اپنے ربّ کی ثنا کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
عمدۃُالقاری میں ہے:حضورنبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حالت ِنما ز اور وہ بھی رکوع وسجود میں یہ کلمات اس لیے پڑھتے تاکہ حکم قرآنی کو اَحسن انداز سے بجا لا ئیں کیونکہ حالتِ نماز دیگر حالتوں سے افضل ہے اور رکوع وسجود میں دیگر اَرکان کی نسبت زیادہ عجزوانکساری ہے ۔‘‘([11])
مِرآۃ المناجیح میں ہے:’’وفات شریف کے قریب جب یہ آیت کریمہ اتری:( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-)تو آپ نوافل خصوصاً تہجد کے رکوع،سجدے میں یہ پڑھا کرتے تھے، ظاہر یہی ہے کہ یہ دعائیں نوافل میں تھیں ، کیونکہ حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)فرائض مسجد میں پڑھاتے تھے، اس وقت عائشہ صدیقہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا)آپ سے بہت دور ہوتی تھیں ۔ ہاں !تہجد وغیرہ نوافل گھر میں پڑھتے تھے اس لیے آپ بخوبی یہ سب کچھ سن لیتی تھیں ۔‘‘([12])
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمام انبیائے کرام عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں اور اُن سے گناہ کا صدورمُتَصَوَّرنہیں ۔ تو پھرحضورِ اَکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جوتمام نبیوں کے سرداراور سَیِّدُ الْمَعْصُوْمِیْن ہیں ، اِسْتِغْفَار کیوں فرماتے تھے؟علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’سرکارِ دوعالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اِسْتِغْفَارفرمانا اِظہارِ بندگی
اور بارگاہِ خداوندی میں عاجزی وانکساری کے لیے تھا۔‘‘([13])
مرآۃ المناجیح میں ہے:’’حضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کا اپنے لیے دعائے بخشش کرنا تعلیم ِاُمَّت کے لیے تھا، یا اس لیے کہ اِسْتِغْفَاربھی عبادت ہے اور بلندی درجات کا ذریعہ۔ورنہ آپ گناہوں سے معصوم ہیں ۔‘‘([14])
دلیل الفالحین میں ہے:’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْیعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میری مغفرت فرما۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اعلیٰ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے جو کام خلافِ اَولیٰ ہیں ، انہیں معاف فرما ،اگر چہ حقیقت میں وہ گناہ نہیں ۔ کیونکہ انبیائے کرام گناہوں سے مطلقاً پاک ہیں ۔‘‘([15])
نوٹ:سرکارِ دوعالم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِسْتِغْفَارفرمانے کی مزید توجیہات جاننے کے لیے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ۶۵۶صفحات پر مشتمل کتاب ’’فیضان ریاضُ الصَّالحین“ جلد اول صفحہ 167کا مطالعہ فرمائیے۔
تفسیرِکبیر میں ہے:’’جب کسی مسافر کی روانگی کا وقت قریب آتاہے تو وہ اپنے سفر کی تیاری کرتاہے ۔ اس آیت میں تنبیہ کی گئی ہے کہ جب عقل مند شخص کی موت کا وقت قریب آتا ہےتو وہ کثرت سے توبہ کرتاہے۔‘‘([16])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! چونکہ اس حدیث پاک میں تسبیح و استغفار کا بیان ہے اس لیے ان سے متعلق چند احادیث ِمبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
حضرت سَیِّدُنا نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ خاتمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین، جنابِ صادق و امین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:”بے شک!اللہ عَزَّ وَجَلَّکے جلال کو یاد کرنے کے لیے تم جوتسبیح(سُبْحَانَ اللہِ)وتہلیل(لَا اِلٰہَ اِلَّااللہُ)اور تحمید(اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ) کرتے ہو وہ عرش کے گرد گھومتی ہیں ، ان کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طر ح ہوتی ہے اوریہ اپنے پڑھنے والوں کا تذکرہ کرتی ہیں ۔“(پھر فرمایا:)’’کیا تم پسند نہیں کرتے کہ تمہارا تذکرہ ہمیشہ ہوتا رہے ؟“([17])
حضرتِ سَیِّدُنا عمران بن حَصِینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ سَیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’کیا تم میں سے کوئی روزانہ اُحُد پہاڑ کے برابر عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟ ‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی:’’یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! روزانہ اُحد پہاڑ کے برابر عمل کرنے کی طاقت کون رکھ سکتاہے؟‘‘فرمایا:’’تم میں سے ہر ایک اس کی طاقت رکھتا ہے۔‘‘ عرض کی:’’وہ کیسے؟‘‘فرمایا:’’سُبْحَانَ ﷲ، لَااِلٰہ اِلَّاﷲ،اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اوراَللہُ اَکْبَرُکہنا اُحُد پہاڑسے زیاد ہ عظمت والا ہے۔‘‘([18])
حضرتِ سَیِّدُنا مُصْعَب بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی کریم، رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’کیا تم میں سے کوئی رو زانہ ایک ہزار نیکیا ں کرنے سے عا جز ہے؟‘‘ ایک شخص نے عرض کی:’’ کوئی ایک ہزار نیکیا ں کیسے کما سکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’اگروہ سو مرتبہ
سُبْحَا نَ اللہِ کہے تو اس کے لیے ایک ہزار نیکیا ں لکھی جا تی ہیں یا ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جا تے ہیں ۔‘‘([19])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تسبیح و تحمید کو اپنا معمول بنالیجئے،ایسا نہ ہو اچانک موت آجائے اور پھر نیکیاں کرنے کی مہلت نہ ملے۔ ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی اُمَّت کو موت سے پہلے موت کی تیاری کا حکم دیا اور اَعمالِ صالحہ کی ترغیب دلائی ۔چنانچہ،
منقول ہے کہ حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! یقیناً دنیا تمہارے لیے جائے عمل ہے تواپنے اعمال کوبخوبی پوراکرو۔اور تمہارا ایک انجام (موت) ہےتو اپنے انجام کی تیاری کرو۔مسلمان دو 2خوفوں کے درمیان رہتاہے:(۱)اُس مدت کاخوف جو گزر چکی،وہ نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس کے بارے کیافیصلہ فرمایاہے۔(۲)اوراس مدت کاخوف جو ابھی باقی ہے ،وہ نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کے ساتھ کیامعاملہ فرما ئے گا۔ پس بندے کوچاہیے کہ اپنی دنیا سے آخرت کے لیے زادِ راہ اکٹھا کرلے۔ جوانی میں بڑھاپا آنے سے پہلے اور تندرستی میں بیماری سے پہلے۔کیونکہ تم آخرت کے لیے پیداکیے گئے ہواور دنیا تمہارے لیے بنائی گئی ہے۔قسم ہے اس ذات کی! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! موت کے بعد(عبادت کے لیے)تھکنے کاکوئی موقع نہیں اوردنیا کے بعد جنت اوردوزخ کے علاوہ کوئی گھرنہیں ۔ میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اپنے اورتمہارے لیے اِسْتِغْفَار کرتا ہوں ۔‘‘([20])
(1) اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اَحکامات کو سب سے بہتر انداز میں پورا کرنے والے ہمارے پیارے پیارے آقا
مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہیں ۔
(2) بڑھاپے میں مزید عمر کی امید نہیں ہوتی۔لہٰذااب انسان کو استغفار کی کثرت کرنی چاہیے کہ اب موت بالکل قریب ہے۔
(3) نماز میں پڑھے جانے والے اَذکار اُن اَذکار سے افضل ہیں جو نماز کے علاوہ ہوں ۔
(4) حضور سید عالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے وصالِ ظاہری سے پہلے اِسلام اکثر خطۂ عرب میں پہنچ چکا تھا ۔ لوگ دور دراز سے فوج در فوج آکر دائرۂ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے۔
(5) اُمہات المؤمنین اور دیگر صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنحضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شب و روز کی عبادت کوپیش نظر رکھتے۔ جب بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کوئی نیا عمل کرتے ہوئے پاتے، اس کےمتعلق ضرور پوچھتے اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے کی حتی الامکان کوشش کرتے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:115
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ تَابَعَ الْوَحْیَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبْلَ وَفَاتِہِ حَتّٰی تُوُفِّیَ وَاَکْثَرُ مَا کَانَ الْوَحْیُ. ([21])(یَوْمَ تُوُفیِّ َرَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّنےرسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےوصال سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم پرلگاتار وحی نازل فرمائی یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال ہوگیا اور جس دن آپ کا وصال ہوا اس دن بہت مرتبہ وحی نازل ہوئی تھی۔‘‘
علامہ ابن حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ کے وصال کے زمانے میں نزولِ وحی کا سلسلہ بڑھادیا۔اس میں جو راز پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد کثرت سے مختلف قبیلوں سے وفود آنا شروع ہوگئے تھے اور وہ لوگ اَحکامِ شریعت کے بارے میں بہت سےسوالات کرتے تھے اس لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے کثرت سے وحی نازل فرمائی۔‘‘([22])
دلیل الفالحین میں ہے:’’تمام عالَم کے دُنیوی اور اُخروی نظام سے متعلق جواَحکام نازل ہونے تھے جب وہ نازل ہو گئے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّنے یہ آیت مبارَکہ نازل فرمائی:(اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ ) (پ۶، المائدۃ: ۳)(ترجمہ ٔ کنزالایمان: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا۔ )اس کے چند ماہ بعد ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمدنیا سے ظاہری پردہ فرماگئے۔‘‘([23])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حدیث مذکور میں بیان کیا گیا کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر آخری عمر میں بکثرت وحی نازل ہوئی اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآخری عمر میں بکثرت دین کے احکام لوگوں تک پہنچاتے رہےیہاں تک کہ آپ نے دنیا سے پردہ فرما لیا ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ نیک کاموں میں صَرف کریں ۔ ہمیں اپنی موت کا علم نہیں کیا خبر آج اور ابھی موت آجائے اور پھر نیکیاں کرنے کا موقع ہی نہ ملے ۔اسی لیے جو وقت مل رہا ہے اسے غنیمت جانتے ہوئے خوب خوب نیکیوں کی کثرت کرنی چاہیے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اپنی حفظ وامان میں رکھے اور مرتے دم تک نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے، ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔آمین
مٹادے ساری خطائیں مری مٹا یاربّ………بنا دے نیک بنا نیک دے بنا یاربّ
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے آخری عمر میں بہت زیادہ اَحکامِ شَرْعِیَّہ لوگوں کو سکھائے۔
(2) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے وصالِ ظاہری سے پہلے عرب قبائل کے وُفُود بکثرت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر دین اِسلام کے اَحکام سیکھنے لگے، اُن کی رہنمائی کے لیےقرآن نازل ہوتا رہا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُنہیں اَحکامِ شرعِیَّہ سکھاتے رہے ۔
(3) قرآنِ کریم میں دینا وآخرت میں کامیابی کے بہترین اُصول موجود ہیں ، اُن پر عمل کرنے والا دونوں جہاں میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔
(4) اللہ عَزَّ وَجَلَّکےمقبول بندے جب عمر کے آخرے حصے میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کی عبادات و ریاضات مزید بڑھ جاتی ہیں ۔
(5) سمجھ دار اورکامیاب شخص وہی ہےجو آنے والے وقت سے پہلے اس کی تیاری کر لے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے موت سے قبل آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری حتمی مغفرت فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یا خدا میری مغفرت فرما………باغِ فردوس مرحمت فرما
دین اسلام پر مجھے یاربّ………استقامت تو مرحمت فرما
تو گناہوں کو کر معاف اللہ………میری مقبول معذرت فرما
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عَنْ جَابِرٍ رَضِیِ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَا مَاتَ عَلَیْہِ.([24])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا جابررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےمروی ہے کہ حضور تاجدارِ رسالت شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’ہر شخص اُسی حالت پر اُٹھا یا جائے گا جس پر وہ مرا ۔‘‘
عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’ہر شخص اُسی حالت پر اُٹھا یا جائے گا جس پر وہ مرا۔یہا ں تک کہ بانسری بجانے والا اِس حالت میں اٹھایا جائےگا کہ اُس کے ہاتھ میں بانسری ہوگی۔حدیث مذکور میں اِنسان کو اَعمالِ صالحہ کی پابندی ، تمام اَحوال میں سنتِ رسول کی پیروی اور تمام اَفعال واَقوال میں اِخلاص کو مدّنظر رکھنے پر اُبھارا گیاہے،تاکہ اچھی حالت میں موت آئے اور بروزِ قیامت اچھی حالت میں اٹھا یا جائے۔ مصنف یعنی علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا اِس باب کو اِس حدیث پر ختم کرنا کمالِ حسن ہے کیونکہ یہ حدیث اَعمال صالحہ اور زندگی کے تمام اوقات میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے پر ابھارتی ہے کیونکہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہےاورآخری عمر،بڑھاپے اور حالتِ مرض میں تو موت کا اِمکان مزید بڑھ جاتا ہے ۔‘‘([25])
میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےاس حدیث پاک میں فرمایاکہ جس حالت میں انسان مرے گااسی حالت میں قیامت والے دن اٹھایا جائے گا۔اس حدیث کی شرح سنن ابو داود کی اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:
’’جس کا آخری کلام لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ ہو گاوہ جنت میں جائے گا۔‘‘([26])
علاّمہ عبد الرؤف مَناوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’ہر شخص اسی حالت پر اُٹھا یا جائے گا جس پر وہ مرا۔یعنی اچھی یا بری جس حالت پر آدمی مرے گا اسی حالت میں اُٹھایا جائے گا ۔ باگاہِ رسالت میں عرض کی گئی:’’یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم! مجھے جہاداور غزوہ کے بارے میں بتائیے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’اگر تم اس حال میں قتل کیے جاؤکہ تم صبر کرنے والےاور اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر بھروسہ کرنے والے ہو تو تمہیں صابر ومُتَوَکِّل اٹھا یا جائے گا۔اوراگر اس حال میں قتل کیے جاؤ کہ تم ریا کارومتکبر ہوتو تمہیں ریا کارومتکبر اٹھا یا جائے گا ،الغرض جس حالت پر مروگے اسی حالت میں اٹھائے جاؤ گے۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا انَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ’’جو نشے کی حالت میں مرے گا تو حضر ت سَیِّدُنَا مَلَکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام کی تشریف آوری کے وقت اس پر نشے کی کیفیت طاری ہو گی۔ جب منکر نکیر آئیں گے تب بھی نشے میں ہوگا اور بروزِ قیامت نشے کی حالت میں ہی اٹھایا جائے گا۔پھر اسی حالت میں جہنم کے درمیان’’سُکران‘‘ نامی ایک خندق میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘([27])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’اعتبار خاتمےکا ہے ۔اگر کوئی کفر پر مرے تو کفر پر ہی اٹھے گا اگرچہ زندگی میں مؤمن رہا ہو اوراگر ایمان پر مرے تو ایمان پر اٹھے گا اگرچہ زندگی میں کافر رہا ہو۔ صوفیاء فرماتے ہیں کہ انسان جو مشغلہ زندگی میں کرے گا اسی پر اِنْ شَآءَ اللہ مرے گااور جس پر مرے گا اُسی پر اٹھے گا۔اِنْ شَآءَ اللہ ذاکرین ذکر الٰہی کرتے ہوئے اٹھیں گے، شاغلین یار کے شغل میں ، واصلین وصال میں ، کاملین کمال میں حتی کہ بلال اذان دیتے
ہوئے اٹھیں گے۔ اللہ تعالٰی زندگی میں اچھا شغل عطا کرے اسی پر موت دے۔‘‘([28])آمین
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ عَزَّ وَجَلَّجس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے موت سے پہلے نیک اعمال کی توفیق دے کر ان پراستقامت عطا فرما دیتا ہے۔پھراسی حالت میں ا سے موت آجاتی ہے اورجس سے بُرائی کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ مرنے سے پہلے راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور پھر اسی حالت میں مر جاتا ہے۔چنانچہ اس ضمن میں ایک حدیثِ مبارکہ اور دو عبرتناک واقعات ملاحظہ فرمائیے:
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے مروی ہے کہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے مرنے سے ایک سال پہلے ایک فِرِشتہ مقرَّر فرما دیتا ہے جو اُسے راہِ راست پر لگاتا رہتا ہے۔پھر جب اس خوش نصیب کی موت قریب آجاتی ہے تو جان نکلنے میں جلدی کرتی ہے۔ اُس وقت وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّسے ملاقات کوپسند کرتا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔اور جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی کے ساتھ بُرائی کا ارادہ کرتا ہے تو مرنے سے ایک سال قبل ایک شیطان اُس پر مُسلَّط کر دیتا ہے جو اُسے بہکا تا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بدترین حالت میں مرتا ہے ۔پھرجب موت آتی ہے تو اُس کی جان اٹکنے لگتی ہے۔اس وقت یہ شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ملنے کو پسند نہیں فرماتا ۔‘‘([29])
حضرتِ سَیِّدُنَااما م ابومحمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ تین زاہد حج کےاِرادے سےبیتُ اللہ شریف کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں عیسائیوں کی ایک بستی کے قریب قیام ہو ا۔ وہاں ایک زاہد کی نظر ایک عیسائی عورت پر پڑی تو دل اس طرف مائل ہوگیا۔ جب سفرکا وقت آیا تو اس نے حیلے بہانے سے اپنے
دونوں ساتھیوں کوٹا ل دیااور خود وہیں رک گیا۔ پھر عیسائی عورت کے والد کے پاس گیا اور اس سے شادی کی بات کی۔اس نے کہا: ’’اس کا مہر تجھ پر بہت بھا ر ی ہے۔‘‘پوچھا:’’کیا مہر ہے ؟‘‘کہا: ’’تو دینِ اسلا م چھوڑ کر عیسائی ہو جا ۔‘‘چنانچہ اس نے عیسائی مذہب اختیار کر کے اس عورت سے نکاح کر لیا۔ اس کے دو بچے بھی ہوئے پھر وہ بد نصیب انہیں یتیم چھوڑ کر عیسائی مذہب پر مر گیا ۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے ساتھیوں کا وہاں گز ر ہوا تو دریافت کرنے پر بتایا گیا وہ عیسائی ہو گیا تھا، عیسائیت پر ہی مرا اور اسے عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ وہ اس کی قبر کے پاس گئے تو وہاں ایک عورت اور دو بچوں کو قبر پر روتے ہوئے پایا۔وہ دونوں بھی رونے لگے۔عورت نے ان سے پوچھا:’’آپ کیوں رو رہے ہیں ؟‘‘ انہوں نے اس کی عبادت، نماز، اور زہد کا تذکرہ کیا۔ جب عورت نے یہ سنا تو اس کا دل اسلا م کی طرف مائل ہوگیا اور وہ اپنے دونوں بچوں سمیت اسلا م لے آئی۔
حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابومحمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’سُبْحَانَ اللہ! کتنے تعجب کی بات ہے کہ جومسلما ن تھا وہ کا فر ہو کر مرا اور جو عورت کافر ہ تھی وہ اپنے بچوں سمیت اسلام لے آئی۔ پس ہرمسلما ن کو چا ہیے کہ اپنے انجام سے ڈر تا رہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے حُسنِ خا تمہ کا سوال کرتا رہے۔‘‘([30])
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ ہمارے زمانے اور ہمارے علاقے میں ایک نہایت غمگین شخص تھا جسے ’’قَضِیْبُ البَان‘‘ کہا جاتا تھا۔ احترام اور رُعب ودبدبہ کے باعث کوئی اس سے کلام کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ وہ بہت زیادہ رویا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس کے پاس گیا اور پوچھا: ’’اے میرے محترم! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو اپنی ذات کے سوا ہر چیز سے بے نیاز کر دیا ہے! آپ کے غم اور تنہائی کاسبب کیاہے؟‘‘ اس نے مجھے دیکھا اور بہت زیادہ رویا پھر اس کارنگ متغیر ہو گیا۔ کچھ
اضطراب کے بعد اس پر غشی طاری ہو گئی۔ مجھے گما ن ہوا کہ وہ انتقال کرگیا ہے۔پھراسے ہوش آگیا تومیں نے کچھ باتیں کر کے اسے مانوس کرلیا اور قسم دے کر اس کا حا ل دریافت کیا۔ چنانچہ اس نے روتے ہوتے اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کیا :
میں اپنے شیخ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بہت نیک شخص تھااور لوگوں میں ولی مشہور تھا۔میں نے چالیس سا ل اس کی خدمت کی۔ وفات سے تین دن پہلے اس نے مجھ سے کہا: ’’میرے بیٹے ! میراتجھ پر اور تیرا مجھ پر حق ہے،میری بات غور سے سن، میں جو وصیت کروں اس کا پورا کرنا تجھ پر لازم ہے۔‘‘میں نے کہا:’’محبت اور عزت سے وصیت پوری کروں گا۔‘‘کہا:’’میری عمر کے تین دن باقی ہیں اور میرا خاتمہ کفرپر ہوگا۔‘‘ جب میں مر جاؤں تو مجھے میرے کپڑوں سمیت رات کی تاریکی میں ایک تابوت میں رکھ کر شہر سے باہر فلاں جگہ لے جا نا اورطلوعِ آفتاب تک وہیں ٹھہرنا، وہاں ایک قافلہ آئے گا جن کے پا س ایک تابوت ہوگاوہ اس کو میرے تابوت کے پہلو میں رکھ دیں گے اور میرا تابوت لے جائیں گے تم وہ دوسراتابوت لے کر واپس آجانا۔ پھراس تابوت کوکھول کر اس میں موجود شخص کو نکالنا اور عزت واحترام سے اس کی تجہیز وتکفین کرنا ۔‘‘یہ سن کر میں بہت غمزدہ ہوا اور روتے ہوئے اس افسوس ناک معاملے کی وجہ دریافت کی ۔ اس شیخ نے کہا: ’’میرے بیٹے!یہ سب کچھ لوحِ محفوظ میں لکھا ہواہے۔جو ہو چکا اور جوکچھ ہو گا سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم سے ہے۔(لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ ) (پ ۱۷،الانبیاء:۲۳) ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’اس سے نہیں پو چھا جا تا جو وہ کر ے ۔‘‘ جب تین دن گزر گئے تو میرا شیخ مضطرب ہوگیا، رنگ متغیر ہو گیا اوراس کا چہرہ سیاہ ہو کرمشرق کی طرف گھوم گیا اور وہ اوندھے منہ گر کر مر گیا۔ میں بہت رویا اور مجھے ایسا غم لاحق ہوا جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھرمیں حسب وصیت اس کاتابوت لے کر اس مقام پر پہنچ گیا جو اس نے بیان کیا تھا ۔
صبح ہوئی تو کچھ لوگ وہاں گریہ وزاری کرتے ہوئے آئے، ان کے پاس ایک تابوت تھا، انہوں نے اپنا تابوت شیخ کے تابوت کے پاس رکھ دیا۔پھرایک شخص آگے بڑھا اور شیخ کاتابوت اٹھا کر جانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا:’’جب تک مجھے اپنے متعلق نہ بتاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔‘‘اس نےبتایا: ’’اس تابوت میں ایک عیسائی پادری کی لاش ہے ۔ میں چا لیس سال تک اس کا خا دم رہا ہوں ۔ اس نے
موت سے تین دن قبل مجھے بلا کر کہا:’’ میرے بچے ! میراتجھ پر اور تیرا مجھ پر حق ہے۔میں تین دن بعد مر جاؤں گا، تو مجھے ایک تابوت میں رکھ کرفلاں جگہ لے جانا، وہا ں بھی ایک تابوت ہوگا ۔ میرا تابوت وہاں رکھ دینا اور وہ تابوت گرجے میں لے جا نا۔ اور اس میں موجود لاش کو عیسائیوں کے طریقے پر دفن کردینا۔‘‘ جب تین دن گزر گئے تو عیسائی پادری کا چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا، اس نے کلمہ شہا دت پڑھا اور مسلمان ہو کرانتقال کر گیا۔ پھر میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا اور اُن کا تابوت یہا ں لے آیا۔ یہ سارا واقعہ ہے ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لوگ شیخ کا تابوت لے کر چلے گئے اور میں اس خوش نصیب کا تابوت لے کر گھر آگیا جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے موت سے پہلے ایمان کی دولت سے نواز دیا تھا۔ جب میں نے تابوت کھولا تو اس میں ایک ایسے بزرگ تھے، جن پرانوار کی برسات ہو رہی تھی ۔ ان کے سارے بال سفید نورانی تھے ۔ میں نے کچھ نیک بندوں کے ساتھ مل کر تجہیز وتکفین کا انتظام کیا اور نمازِ جنا زہ پڑھ کرانہیں دفن کر دیا ۔ وہ دن گواہ ہے کہ میں جب بھی باہر نکلتا ہوں تو میرے چہرے پربُرے خاتمے کے خوف سے غم کے بادل چھا جاتے ہیں ۔ اس لیے میں لوگوں سے دُور اور غمگین رہتا ہوں ۔([31]) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین
مرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو………کر اخلاص ایسا عطا یاالٰہی
ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ………میں تھر تھر رہوں کانپتا یاالٰہی
مسلماں ہے عَطاَّر تیری عطا سے………ہو ایمان پر خاتمہ یاالٰہی
(1) جو جس حالت میں مرے گا اسے اسی حالت میں اٹھایا جائے گا ۔
(2) بندے کو اعمال صالحہ پر استقامت اختیار کرنی چاہیے تاکہ اچھی حالت میں دنیاسے جائے ۔
(3) اگرساری زندگی نیکیوں میں گزرے اورمعاذَاللہ خاتمہ کفرکی حالت میں ہو تو یہ سراسر خسارہ ہی خسارہ ہے، لہذا ایمان پر خاتمے کی دعا ضرور مانگنی چاہیے۔
(4) ویسے تو عمر کے تمام حصوں میں نیکیاں ضروری ہیں لیکن آخری عمر میں بالخصوص بڑھاپے میں تو بہت زیادہ توبہ واستغفار اور نیکیاں کرنی چاہیے کیونکہ اب اس کے بعد تو موت ہی ہے ۔
(5) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بے نیازی سے ڈرتے رہنا چاہیے اور خاتمہ بالخیر کی دعا ضرور کرنی چاہیے۔
(6) بعض اوقات گناہوں کی نحوست ایمان کی بربادی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ لہٰذا ایمان کی حفاظت کے لیے گناہوں سے ہر دم بچنا چاہیے۔
(7) بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن جب کسی کو کفر پر مرتا دیکھتے ہیں تو انہیں اپنی فکر لگ جاتی ہے ،خوف خدا مزیدبڑھ جاتا ہے،گریہ وزاری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
(8) اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس کا ایمان سلامت رکھے اسے ایمان والی موت نصیب ہوتی ہے ۔
(9) بعض اوقات لوگوں کا برا خاتمہ ظاہر کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور اپنے ایمان کی فکر کریں ۔
(10) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بعض نیک بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں دنیا میں ہی ان کی ایمان افروز موت سے آگاہ کردیا جاتا ہے۔
(11) جو ایمان کی حفاظت کے لیے کڑھتا رہے،اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعا کرتا رہے، نیک لوگوں کی صحبت سے فیضیاب ہوتا رہے تواللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ذات سے امید ہے کہ اس کا خاتمہ بالخیر ہوگا ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین و دنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے، حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صدقے ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے، ہماری حتمی مغفرت فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بھلائی کے طریقوں کی کثرت کابیان
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دینِ اسلام دینِ فطرت ہے۔یہ سارے کا سارا حق وصداقت پر مبنی ہے۔ تمام نبیوں کے سالار،نبیِ احمدمختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے زند گی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی ایسی رہنمائی فرمائی کہ دین اسلامپر عمل کر کےبارگاہِ الٰہی سے بے پایاں رحمتیں حاصل کرنا اِنتہا ئی آسان ہوگیا۔ اسلام میں بھلائی کے طریقے ا تنے کثیر ہیں کہ اگر ان پر چلا جائے تو روز مرہ کا کوئی بھی عمل نیکیوں سے خالی نہیں رہ سکتا ۔ کُتُبِ احادیث میں بھلائی کے یہ طریقے جا بجا روشن ستاروں کی طرح جگمگارہے ہیں ۔ریاض الصالحین کا یہ باب’’بھلائی کے طریقوں کی کثرت‘‘کے بارے میں ہے۔ اس باب میں عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے4آیاتِ مقدسہ اور 25احادیثِ مُبارَکہ بیان فرمائی ہیں ۔ پہلے آیات مبارکہ اور ان کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔
فرمانِ باری تعالٰی ہے:
وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ(۲۱۵) (پ۲، البقرۃ :۲۱۵)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: اورجو بھلائی کرو بیشک اللہ اسے جانتا ہے۔
یہ آیت مبارکہ کا آخری جزء ہے، پوری آیت مبارکہ یوں ہے:
یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ-قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ(۲۱۵) (پ۲، البقرۃ :۲۱۵)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لیے ہے اور جو بھلائی کرو بیشک اللہ اسے جانتا ہے۔
تفسیر ِ خازن میں ہے:’’اور تم اپنے والدین،قرابت داروں ،یتیموں ،مسکینوں ،راہ گیروں اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں سےجو بھی بھلائی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا و خوشنودی کے لیے کرو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے باخبر
ہے اور وہ تم کو اس کی جزا ءدے گا۔‘‘([32])
تفسیر نعیمی میں ہے:’’خیر سے ہر نیک کام مراد ہے۔ صدقات، خیرات،نماز، روزے، حج، مسافر خانےاورمسجدیں بنانا وغیرہ یعنی اورجو کچھ بھلائی کروگے اللہ اس کو جانتاہے بے خبر نہیں ۔ بقدرِاخلاص ثواب عطافرمائے گا۔اے نبیصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم! آپ سے خرچ کرنے کے متعلق پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں ؟ تو اِنہیں دونوں سوالوں کا جواب دے دو کہ اپنی ضرورت سے بچاہوا مال راہِ الٰہی میں خرچ کرو،صحیح جگہ خرچ کرو،غلط مَصْرَف پر خرچ کرنا فضول یا نقصان دہ ہے ۔لہٰذااپنے ماں باپ کو دو کیونکہ انہیں کے دم سے تم دنیا میں آئے ۔اپنے قرابت داروں کودوکیونکہ ہرشخص کواپنے قرابت داروں کے حال کی زیادہ خبر ہوتی ہے۔اگر تمہارے قرابت داردوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں تو اس میں تمہاری بھی ذلت ہے، بہتر ہے کہ تمہاری ضرورتیں آپس میں ہی پوری ہوجایاکریں ۔لاوارث ،غریب، یتیموں کو بھی دو، کیونکہ ان کاوالی وارث کوئی نہیں ، جو ان کی حاجتیں پوری کرےاور نہ وہ خودکمانے پرقادر ہیں اور مسکینوں اور راہ گیروں کو بھی دوتاکہ اُن کی فوری ضرورتیں پوری ہوجائیں ،اس پر ہی کیا موقوف ہے۔جہاں تک ہوسکے ہر بھلائی کی کوشش کرو تمہارے کسی کام سے ربّ غافل نہیں ،وہ تمہیں ضرور جزادےگا۔‘‘([33])
ارشادِباری تعالٰی ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷) ( پ۳۰، الزلزال :۷)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا۔
تفسیر دُرِّ منثور میں ہے:اس آیت مبارکہ کے نزول کے وقت امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہ ِ رسالت میں حاضر تھے اور کھانا تناول فرمارہے تھے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے انہیں کھانے سےروکااورفرمایا:’’تم میں سے جس نے دنیا میں نیک عمل کیا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے آخرت میں جزا عطافرمائے گا۔اور جس نے دنیا میں کوئی برا کام کیا وہ اس کا صلہ دنیا ہی میں مرض و مصیبت کی صورت میں پائے گااور جس کے پاس ذرہ برابر بھی نیکی ہوگی وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘([34])
تفسیرِ روحُ البیان میں ہے:حضرت سَیِّدُنَا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ ’’مؤمن اور کافر کواُن کی ہربھلائی اور بُرائی دکھائی جائے گی، پھر مؤمن کی خطائیں معاف کردی جائیں گی اور نیکیوں پر اسے اَجر دیا جائے گا۔ جبکہ کافر پراس کی بھلائیاں رَد کردی جائیں گی اور وہ حسرت میں مبتلا ہو گا ۔ کافر دنیا میں جو بھی اچھا کام کرتا ہے، چاہے وہ ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو،اسے اس کی جز ا دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے۔‘‘([35])
ارشادِ باری تعالٰی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖۚ- ( پ۲۵، الجاثیۃ :۱۵)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: جو بھلائی کا کام کرے تو اپنے لیے۔
تفسیرِ طبری میں ہے : ’’جو بندۂ خدااحکام ِالٰہی کی پیروی کرے اوراس کےمنع کردہ اُمور سے بچےتو اِس میں اُس کااپنا فائدہ ہے۔ کیونکہ وہ نیک عمل کے ذریعےعذابِ الٰہی سے خلاصی چاہتا ہے۔ نیک عمل کر کے اس نے اپنے ربّ کی اطاعت کی کسی غیر کی نہیں کی اوراس عمل سے اسے ہی فائدہ پہنچے گا کسی اور کو نہیں ۔ کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہرعامل کے عمل سے بے نیاز ہے۔‘‘([36])
تفسیر ِروح البیان میں ہے:’’عَمِلَ صَالِحًاسے مرادوہ اعمال ہیں جن کے ذریعے رِضائے الٰہی طلب کی جائے۔اورفَلِنَفْسِہٖسےمرادیہ ہے کہ اس نیک عمل کافائدہ اورثواب،عمل کرنے والے کی اپنی ذات ہی کے لیے ہے۔‘‘([37])
اِرشادِخداوندی ہے:
وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ﳳ- ( پ۲، البقرۃ :۱۹۷)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے۔
تفسیر روحُ البیان میں ہے :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّبندے کے ہر کام کوجانتا ہےاوریہ بندے کابھلائیوں پر ثابت قدمی سے کِنایہ ہےاور اس بات کی ترغیب ہے کہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیا جائے۔ قبیح بات کے جواب میں اچھی بات،فِسْق وفُجُور کے بدلےتقویٰ وپرہیزگاری اور لڑائی جھگڑے کے وقت صلح جوئی وحُسن اَخلاق سے کام لیاجائے۔‘‘([38])
اس باب میں علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے یہی مذکورہ بالا چار 4 آیات مبارکہ بیان فرمائی ہیں ، نیز اِن آیات کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’ اس باب سے متعلق اور بھی بہت ساری آیات ہیں ۔‘‘ چنانچہ علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی بیان کردہ چار4آیات کی نسبت سے مزید چار4آیات پیش خدمت ہیں :
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۱۱۰) (پ۱، البقرۃ: ۱۱۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو اور اپنی جانوں کے لیے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے یہاں پاؤ گے، بے شک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
لَیْسَ عَلَیْكَ هُدٰىهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللّٰهِؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۲) (پ۳، البقرۃ: ۲۷۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:انہیں راہ دینا تمہارے ذمہ لازم نہیں ہاں اللہ راہ دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تم جو اچھی چیز دو تو تمہارا ہی بھلا ہے اور تمہیں خرچ کرنا مناسب نہیں مگر اللہ کی مرضی چاہنے کے لیے اور جو مال دو تمہیں پورا ملے گا اور نقصان نہ دیے جاؤ گے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِؕ-قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّۙ-وَ مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَى النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِۙ-وَ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰى بِالْقِسْطِؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًا(۱۲۷) (پ۵،النساء: ۱۲۷)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور تم سے عورتوں کے بارے میں فتوی پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ اللہ تمہیں ان کا فتوی دیتا ہے اور وہ جو تم پر قرآن میں پڑھاجاتا ہے ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں کہ تم انہیں نہیں دیتے جو ان کا مقرر ہے اور انہیں نکاح میں بھی لانے سے منہ پھیرتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور یہ کہ یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھلائی کرو تو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ رَبَّكَ یَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآىٕفَةٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَكَؕ-وَ اللّٰهُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَؕ-عَلِمَ
ترجمہ ٔ کنزالایمان:بے شک تمہارا ربّ جانتا ہے کہ تم قیام کرتے ہو کبھی دو تہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات کبھی تہائی اور ایک جماعت تمہارے ساتھ والی
اَنْ لَّنْ تُحْصُوْهُ فَتَابَ عَلَیْكُمْ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِؕ-عَلِمَ اَنْ سَیَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰىۙ-وَ اٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِۙ-وَ اٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﳲ فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُۙ-وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًاؕ-وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرًاؕ-وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۲۰) (پ۲۹، المزمل: ۲۰)
اور اللہ رات اور دن کا اندازہ فرماتا ہے اسے معلوم ہے کہ اے مسلمانو تم سے رات کا شمار نہ ہوسکے گا تو اس نے اپنی مہر سے تم پر رجوع فرمائی اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو اسے معلوم ہے کہ عنقریب کچھ تم میں بیمار ہوں گے اور کچھ زمین میں سفر کریں گے اللہ کا فضل تلاش کرنے اور کچھ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوں گے تو جتنا قرآن میسر ہو پڑھو اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دو اور اپنے لیے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب کی پاؤ گے اور اللہ سے بخشش مانگو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر: 117
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ جُنْدُبِ بْنِ جُنَادَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!اَیُّ الاَعْمَالِ اَفْضَلُ؟ قَالَ: اَلاِْیْمَانُ بِاللّٰہِ وَالْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِہِ.قَالَ: قُلْتُ: اَیُّ الرِّقَابِ اَفْضَلُ؟ قَالَ: اَنْفَسُہَا عِنْدَ اَہْلِہَا وَاَکْثَرُہَا ثَمَنًا. قَالَ: قُلْتُ: فَاِنْ لَمْ اَفْعَلْ؟ قَالَ:تُعِیْنُ صَانِعًا اَوْتَصْنَعُ لِاَخْرَقَ. قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَرَاَ یْتَ اِنْ ضَعُفْتُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ؟ قَالَ: تَکُفُّ شَرَّکَ عَنِ النَّاسِ فَاِنَّہَا صَدَقَۃٌ مِنْکَ عَلَی نَفْسِکَ.([39])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو ذرجُندب بن جُناد ہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں ،میں نے عرض کیا: ’’یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم!اَعما ل میں سے کو نسا عمل افضل ہے؟‘‘فرمایا:’’اللہ عَزَّوَجَلَّپر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’کونسا غلام (آزاد کرنا )بہتر ہے ؟‘‘ فرمایا:
’’جو اپنے مالک کے نزدیک سب سےعُمدہ اور سب سے زیادہ قیمتی ہو۔ ‘‘میں نے عرض کی:’’ اگر میں اس طرح نہ کر سکوں تو؟‘‘ فرمایا: ’’کسی شخص کے کام میں اس کی مددکرویا کسی بے ہنر وصحیح طرح کام نہ کر سکنے والے شخص کے لیے کام کرو ۔‘‘ میں نے عرض کی:’’یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ کا کیاخیال ہے اگر میں اُن میں سے بعض کام نہ کرسکوں تو؟ ‘‘فرمایا: ’’لوگوں کواپنے شر سے محفوظ رکھویہ بھی تمہاری طرف سے تمہاری اپنی ذات پرصد قہ ہے۔‘‘
دلیل الفالحین میں ہے :جب حضرت سَیِّدُنَاابوذَررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی کہ سب سے افضل عمل کونساہے؟یعنیاللہ عَزَّ وَجَلَّکے نزدیک کس عمل کاسب سےزیادہ ثواب ہے؟ توارشاد فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّپرایمان لانااور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔‘‘ کیونکہایمان بِاللّٰہکی جزاءجنت میں داخلہ اور رضائےالٰہی کاحصول ہےاوراس سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ۔اورراہِ خدامیں جہادکامقصداللہ عَزَّوَجَلََّ کے دین کی سربلندی ہے۔ارشادِباری تعالٰی ہے:
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ- (پ۱۱، التوبۃ:۱۱۱)
ترجمہ ٔ کنزالایمان: بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔([40])
شیخ عبدالحق مُحَدِّ ث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’یعنی اعمال میں سے افضل ترین دو چیزیں ہیں :(1) اِیمان جو تمام اَعمال کی جڑ ہے اور اُس کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہے،یہ دل کا عمل ہے اور دل انسان کے وجود کا خلاصہ ہے، اگر کامل ایمان مراد ہو تو وہ خود تمام اَعمال کو شامل ہے اور سب سے بڑا کمال ہے۔(2) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں دشمنانِ دین سے جنگ کرنا۔ کیونکہ یہ دینِ اسلام کی قوت اور مسلمانوں کے غلبے کا سبب ہے ،اس اعتبار سے جہاد افضل ترین عمل ہے اگر چہ دیگر وجوہ کے اِعتبار سے
نماز اور روزہ افضل ہیں ۔‘‘([41])
مرآۃ المناجیح میں ہے:’’کون سا عمل افضل ہے؟ یعنی دل و دماغ جسم وغیرہ ظاہری باطنی اَعضاء کے اَعمال ِصالحہ میں سے کون سا عمل افضل ہے؟اسی لیے سرکار(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )نے جواب میں دلی عمل یعنی ایمان کا ذکربھی فرمایا۔ایمان وہ افضل جس پر خاتمہ نصیب ہوجائے ورنہ محض بے کار ہے۔ جیسے ابلیس کا بَرباد شدہ ایمان۔اورجہاد میں کفار سے جہاد بھی شامل ہے اور مجاہدات، رِیاضات بھی داخل ہیں ۔ ربّ تعالٰی فرماتا ہے: (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا ) (پ۲۴، حم السجدۃ:۳۰)(ترجمہ ٔ کنزالایمان: بیشک وہ جنہوں نے کہا :ہمارا ربّ اللہ ہےپھراس پرقائم رہے۔)اورفرماتا ہے:(وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ- )(پ۲۱، العنکبوت، الایۃ۶۹)(ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے۔)کسی کام والے کی مددکرویا جو اچھی طرح کام نہ کر سکتا ہو اس کے لیے کام کرو۔یعنی جومحنتی کاروباری آدمی کہ اس کی کمائی اسے کافی نہ ہو،غریب رہتاہواس کی بھی مدد کرواور جو کام کاج کے لائق نہ ہو اس کی بھی دستگیری کرو۔ لوگوں کواپنے شر سے محفوظ رکھویہ تمہاری طرف سے تمہاری اپنی ذات پرصد قہ ہے۔یعنی کوشش کرو کہ تم سے کسی کونقصان نہ پہنچے۔ اس صورت میں تم اپنے کو گناہ سے بچاتے ہویہ بھی خود اپنے پر احسان ومہربانی ہے کسی پر ظلم کرنا اس پر وقتی طور پر ہوتاہےخود اپنے پر دائمی ظلم ہے۔‘‘([42])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے ساتھیوں کا خیال رکھتی ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتی ہے وہاں خوشحالی اور امن وسکون رہتا ہے۔ محبت کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ معاشرہ سُدھر جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک ایمان افروزحکایت ملاحظہ فرمائیے!
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُناموسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے انتقال کے بعد بنی اسرائیل نے دین میں باطل چیزوں کی آمیزش کی تو ایک گروہ اُن سے جدا ہو گیا۔ انہو ں نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کی کہ’’ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!ہمیں دین میں ملاوٹ کرنے والوں سے دُور کر دے۔‘‘ چنانچہ زمین کے نیچے ایک سوراخ ظاہر ہوا، اس میں چلتے ہوئے ایک کشادہ وسیع میدان میں پڑاؤ ڈال دیا۔ اُن کی اولاد سب نسلیں مستقل طور پر وہیں مقیم ہو گئیں ۔ ایک مرتبہ حضرت سیِّدُنا ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سیرکرتےہوئےجب وہاں پہنچےتو دیکھا کہ یہاں لوگوں کی عمریں دراز ہیں ، کوئی فقیر نہیں ، قبریں گھر وں کے دروازوں کے قریب اور عبادت گاہیں دُور ہیں ۔ گھروں پر دروازےنہیں ، نہ اُن پر کوئی حاکم و امیر۔ آپ نے پوچھا کہ ان سب باتوں کا راز کیا ہے؟ لوگوں نےعرض کی :’’اے بادشاہ!ہماری عمر یں لمبی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان میں ہمارے لیے برکت رکھی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انصاف کرنے والے ہیں تو ہماری لمبی عمریں ہمارے انصاف کرنے کی وجہ سے ہیں ۔ ہم میں سے جب کوئی محتاج ہو جاتاہے تو ہم مل کر اس کی محتاجی دُور کرتے ہیں ، اس طرح ہم سب مالدار ہیں ۔ ہمارا قبرستان گھروں سے قریب ہے۔ کیونکہ ہم نے اپنے علماء کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامسے سنا ہے کہ قبر زندوں کو موت کی یاد دلاتی ہے۔اور عبادت گاہوں کے دُور ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہمیں انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اور علماء کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامنے بتایا کہ عبادت گاہ کی طرف جتنے زیادہ قدم چلیں گے اتنی ہی زیادہ نیکیاں ملیں گی۔ ہمارے گھروں کے دروازے اس لیے نہیں ہیں کہ ہم میں سے نہ تو کوئی چور بنتا ہے اور نہ ہی کوئی چوری کرتا ہے، اس لیے ہمیں دروازوں کی حاجت ہی نہیں ہے۔اور ہم پر کوئی حاکم یا امیر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرتے ،بلکہ ہم باہم عدل وانصاف سے کام لیتے ہیں لہٰذاہمیں امیروحاکم کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘ حضر ت سیِّدُنا ذوالقرنین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ارشاد فرمایا: ’’میں نے تمہاری مثل کوئی قوم نہیں دیکھی اور اگر میں نے کسی شہر کو وطن بنانے کا اِرادہ کیا تو تمہارے حُسنِ معاشرت اور اَخلاقِ جمیلہ کی وجہ سے اِس شہر کو وطن بناؤں گا۔‘‘([43])
(1) ایمان تمام اعمالِ صالحہ کی بنیادہےاس کے بغیرکوئی بھی نیک عمل قابل قبول نہیں ۔
(2) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں وہ چیز صدقہ کرنی چاہیےکہ جوعُمدہ اور قیمتی ہو۔
(3) اَعمال کی افضیلت حالاتِ زمانہ اور لوگوں کی حالت کے اِعتبار سےمختلف ہوتی ہے ۔
(4) انسان کو جو نیکی میسر آئے اُسے فوراً کر لے ،سستی کی وجہ سےہر گز ترک نہ کرے ۔
(5) کسی بے ہنر محتاج کی بہترین اور مستقل مدد یہ ہے کہ اسے کوئی اچھاہنر سکھا دیا جائے تاکہ کام کاج کرکے خود بھی محتا جی سے بچے اور عیال دار ہو تواپنے عیال کو بھی محتاجی سے بچائے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اَعمال صالحہ کرنے اور صالحین کی صحبت اختیارکرنے کی توفیق عطا فرمائے،ہم سب کاخاتمہ اِیمان پر فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:118
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّاَیْضًارَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یُصْبِحُ عَلَی کُلِّ سُلَامَی مِنْ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ، فَکُلُّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃٌ، وَکُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃٌ، وَکُلُّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃٌ، وَکُلُّ تَکْبِیْرۃٍصَدَقَۃٌ، وَاَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَۃٌ، وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ، وَیُجْزِءُ مِنْ ذَلِکَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُہُمَا مِنَ الضُّحَی.([44])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو ذَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےہی مروی ہے کہ رسول ِاکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’تم میں سے جو شخص صُبح کرتا ہے اس کے ہر جوڑ پر صدقہ لازم ہے۔ تو ہر سُبْحَانَ اللہ
صدقہ ہے اور ہراَلْحَمْدُ لِلّٰہِ صدقہ ہے اورہر لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ صدقہ ہے اور ہر تکبیر اَللہُ اَکبَرصدقہ ہے اور نیکی کاحکم دینا اور برائی سے منع کرنابھی صدقہ ہےاوران سب کی طرف سے چاشت کی دو۲رکعتیں کفایت کرتی ہیں ۔‘‘
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حدیث پاک میں بھی نیکیاں کمانے کا کتنا آسان طریقہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہسُبْحَانَ اللہ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ،لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ،اَللہُ اَکْبَر کہتے رہیں اور خوب ثواب کماتے رہیں اور چاشت کےوقت کی دو2 رکعتیں اِن تمام اَذکار کے برابر ہیں ۔سُبْحَان اللہ!دین ِاسلام میں نیکیاں کمانا کتنا آسان ہے۔اللہعَزَّ وَجَلَّہمیں نیکیوں سے محبت عطا فرمائے، خوب نیکیاں کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
دلیل الفالحین میں ہے :حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرما یا :’’ تم میں سے جو صبح کرے، اس کے ہرعضو یعنی ہر ہڈی اور جوڑ پرصدقہ ہے۔‘‘ جب وہ آفات سے سلامتی کے ساتھ صبح کرے اور ایسی حالت میں ہو کہ اپنے تمام اَفعال و منافع مکمل کر سکے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےبندے کو آفات و بلیّات سے محفوظ رکھا،اُس کے اِس عظیم اِحسان کا شکر ادا کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ وہ ہر جوڑ کا صدقہ ادا کرے اور اذکارِ مذکورہ بھی ہر جوڑ کاصدقہ ہیں اورچاشت کے وقت کی دو رکعتیں تمام جوڑوں کا صدقہ ہیں ۔ حضرت سَیِّدُنَا بُرَیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ دو جہاں کے تاجْوَر،سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا : ”آدمی کے تین سو ساٹھ 360جوڑ ہوتے ہیں ،اسے ہر جو ڑ کا صدقہ ادا کرنالازم ہے۔‘‘ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی: ’’یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اس کی طاقت کون رکھ سکتا ہے؟‘‘ فرمایا :’’مسجد میں پڑی ہوئی گندگی دُورکرنا اور راستے سے تکلیف دہ چیزہٹادینابھی صدقہ ہے۔اگر تم اس پر قدرت نہ رکھو توچاشت کی دورکعتیں تمہاری طرف سے کفایت کریں گی۔“ اسی طرحسُبْحَانَ اللہ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ،لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ،اَللہُ اَکْبَر کہنا بھی صدقہ ہے اور اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف یعنی اچھی بات کا حکم دینا
اور نَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَریعنی بُری بات سے منع کرنابھی صدقہ ہے ۔‘‘([45])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان مرآۃ المناجیح میں فرماتے ہیں :’’یعنی ان سب میں صدقۂ نفلی کا ثواب ہے اور یہ بدن کے جوڑوں کی سلامتی کا شکریہ بھی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی انسان روزانہ تین سو ساٹھ360 نفلی نیکیاں کرے تو محض جوڑوں کا شکریہ ادا کرے گاباقی نعمتیں بہت دور ہیں ۔ یہاں چاشت سے مراد اشراق ہی ہے اس نماز کے بڑے فضائل ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ نمازِ فجر پڑھ کر مصلّے پر ہی بیٹھا رہے، تلاوت یاذکرِخیرہی کرتارہے، یہ رکعتیں پڑھ کرمسجدسےنکلے اِنْ شَآءَﷲ عمرہ کاثواب پائے گا۔‘‘([46])
صدقے سے بلائیں ٹلتی اور رحمتیں اترتی ہیں ،بعض مرتبہ اخلاص سے دیا گیا تھوڑا سا صدقہ بھی بہت بڑی مصیبت سے نجات کا باعث بن جاتا ہے۔ اس ضمن میں ایک ایمان افروز حکایت ملاحظہ فرمائیے۔چنانچہ،
حضرتِ سیِّدُنا ثابت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے منقول ہےکہ ایک عورت کھانا کھا رہی تھی آخری لقمہ کھانے کے لیے اس نے جیسے ہی منہ کھولا، سائل نے یوں صدا لگائی: ”مجھے کھانا کھلاؤ۔“چنانچہ اس نے وہ لقمہ سائل کو دے دیا ۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے ننھے بچے کوشیر چھین کر لے گیا۔ ابھی شیر تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوااوراس نے شیر کے دونوں جبڑے پھاڑ کر بچہ ا س کے منہ سے نکالااورعورت کو دیتے ہوئے کہا :’’لقمے کے بدلے لقمہ۔‘‘([47])( یعنی تو نے سائل کو ایک لقمہ کھلایا اس کی بر کت سے تیرا بچہ شیر کا لقمہ بننے سے بچ گیا ۔)
مرآۃ المناجیح میں ہے :’’اچھی باتوں کا حکم ا ور بُری باتوں سے ممانعت زبانی بھی ہوتی ہے ، دلی بھی اور عملی بھی ۔ عالم کا دینی وعظ زبانی تبلیغ ہے۔ دینی کتاب لکھ جانا قلمی تبلیغ کہ جب تک اس کتاب کا فیض جاری ہے اس کا ثواب باقی اور لوگوں کے سامنے اچھے اَعمال کرنا ، بُرے اَعمال سے بچنا،عملی تبلیغ کہ جتنےلوگ اُسے دیکھ کر نیک بنیں گے اُن سب کا ثواب اسے ملے گا بلکہ روزانہ ملتا رہے گا اور اُس کے جوڑوں کا شکریہ اَدا ہوتا رہے گا۔‘‘([48])
(1) صدقہ صرف مال ودولت ہی سےادانہیں کیاجاتا بلکہ دیگراعمالِ صالحہ بھی صدقہ ہیں ۔ جیسےذکر و اذکار، مسلمانوں سے خیر خواہی، مسجد کی صفائی اوراچھی باتوں کا حکم دینا اوربُری بات سے منع کرنا۔
(2) صدقے کےلیے بہت سارا مال واسباب ضروری نہیں بلکہ اخلاص سےدیاہوا ایک لقمہ بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔
(3) چاشت کی دورکعتیں جسم کے تمام جوڑوں کی طرف سے صدقہ بن جاتی ہیں ۔
(4) صدقے کی جزاءآخرت کے ساتھ ساتھ دنیامیں بھی دے دی جاتی ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کثرت کے ساتھ صدقہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:119
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّقَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: قَالَ: عُرِضَتْ عَلَیَّ اَعْمَالُ اُمَّتِیْ حَسَنُہَا وَسَیِّئُہَا، فَوَجَدْتُ فِیْ مَحَاسِنِ اَعْمَالِہَا الْاَذَی یُمَاطُ عَنِ الطَّرِیْق، وَوَجَدْتُ فِیْ مَسَاوِیءِ اَعْمَالِہَا النُّخَاعَۃَ تَکُوْنُ فِیْ الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ.([49])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوذَررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےمروی ہےکہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنےارشادفرمایا: ’’میری اُمَّت کے اچھے اوربُرے اعمال مجھ پر پیش کیے گئےتو میں نےان کے اچھےاعمال میں راستےسے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا بھی پایااوران کے بُرے اعمال میں سےاس تھوک کوبھی پایا جو مسجد میں ہواور اسے دُور نہ کیاگیا ہو۔‘‘
دلیل الفالحین میں ہے:’’میں نےان کے اچھےاعمال میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو بھی پایا۔ جیسے پتھراور کانٹے وغیرہ ہٹاناتاکہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ اس فرمان ِ عالی سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور ان سے تکالیف دور کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔‘‘ابنِ رسلان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’میں نے بعض مشائخ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامسے سنا کہ جو راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹائے تو اسے چاہیے کہ لَااِلٰہَ اَلّااللہُ بھی پڑھ لے تاکہ ایمان کا ادنیٰ اور اعلیٰ شعبہ اورقول وفعل جمع ہوجائیں ۔‘‘([50])(ایما ن کا اعلیٰ شعبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُاورادنیٰ شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا نا ہےجو کہ فعل اور کلمہ طیبہ قول ہے۔)
شرح مسلم للنووی میں ہے:’’اس سےظاہر ہوا کہ اس قباحت اور مذمت میں تھوکنے والے کے ساتھ ہر وہ شخص بھی شامل ہے جواس تھوک کو دیکھے اوردفن یا صاف کرکے زائل نہ کرے۔‘‘([51])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان مِرا ۃُ المَناجیح میں فرماتے ہیں :’’یعنی تا قیامت میراجواُمَّتی کوئی بھی اچھا برا عمل کرے گا مجھے سب دکھادیے گئے۔اس سے معلوم ہوا کہ نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّماپنے ہر اُمَّتی اور اس کے ہر عمل سے خبردار ہیں ۔ حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی نگاہیں اندھیرے، اُجیالے کھلی چھپی، موجودو معدوم ہر چیز کو دیکھ لیتی ہیں ۔جس کی آنکھ میں مَازَاغَ کاسرمہ ہواس کی نگاہ ہمارے خواب وخیال سے زیادہ تیز ہے۔ہم خواب وخیال میں ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں ۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمنگاہ سے ہر چیز کا مشاہدہ کرلیتے ہیں ۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ یہاں اعمال میں دل کے اعمال بھی داخل ہیں لہٰذا حضور عَلَیْہِ السَّلَام ہمارے دلوں کی ہر کیفیت سے خبردار ہیں ۔‘‘ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا۔راستے سے مسلمانوں کا راستہ مراد ہے یعنی جس راستے سے مسلمان گزرتے یا گزر سکتے ہوں وہاں سےکانٹا،اینٹ، پتھر دُور کردینا ثواب ہے۔ جانوروں ،جنات، حربی کُفّار کاراستہ مُراد نہیں ۔ اِن کافروں کے راستے میں کانٹے ،بارودبچھانا، اِن کے پل توڑنا، ڈائنامیٹ لگا کر راستے اُڑا دینا سب کچھ عبادت ہے کیونکہ جہاد میں یہ سب کچھ ہوتاہے۔‘‘([52])
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں : ’’ہر وہ تکلیف دہ چیز مثلاً کانٹا، شیشہ، ٹھوکر کی چیزیں جس سے چلنے والوں کوایذا پہنچنے کا اندیشہ ہو اس کو راستوں سے ہٹا دینا بہت معمولی کام ہے لیکن یہ عمل اللہ تعالٰی کو اِس قدر پسند ہے کہ وہ اس کی جزا میں اپنے فضل و کرم سے جنت عطا فرما دیتا ہے۔آج کل کے مسلمان اس عملِ صالح کی عظمت اوراِس کے اجروثواب سے بالکل ہی غافل ہیں ۔بلکہ اُلٹے راستوں میں تکلیف کی چیزیں ڈال دیاکرتے ہیں ۔ مثلاًعام طورپرلوگ کیلاکھاکراُس کاچھلکاریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پرپھینک دیا کرتے ہیں ۔گاڑی آنے پرمسافربدحواس ہوکرٹرین میں چڑھنے کے لیے دوڑتے او ر کیلے کے چھلکوں پرپاؤں پڑجانے سے پھسل کرگرجاتے ہیں اوربعض شدیدزخمی ہوجاتے ہیں ،
اسی طرح ہڈیاں اورشیشے کے ٹکڑے عام طورپرلوگ راستوں میں ڈال دیاکرتے ہیں ۔اِن حرکتوں سے مسلمان کو بچنا چاہیے بلکہ راستوں میں کوئی تکلیف دہ چیزپر اگر نظر پڑجائے تو اس کو راستوں سے ہٹا دینا چاہیے۔اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰیاگر یہ عمل مقبول ہوگیا تو جنت ملے گی۔ واللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ([53])
راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے سے متعلق3 فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپیش خدمت ہیں :(1)’’جس نے مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادی اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور جس کے لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے پاس ایک نیکی لکھی جائے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس نیکی کے سبب اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘([54]) (2)حضرتِ سَیِّدُنا ابوبرزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: ’’یارسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!مجھے ایسی چیز کی تعلیم دیجیے جو میرے لیے فائدہ مند ہو۔‘‘آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:’’مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دہ چیز دور کر دو۔‘‘ ([55]) (3)حضرتِ سَیِّدُنا اَنَسْ بن مَالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’راستے میں پڑاہواایک درخت لوگوں کوتکلیف دیتا تھا۔ ایک شخص نے اسے ہٹادیا تو مکی مدنی سلطان ،رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’میں نے اُسے جَنّت میں اُس دَرَخْتْ کے سائے میں لیٹے ہوئے دیکھا ہے ۔‘‘([56])
(1) حضورنبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں ہمارے اچھے بُرے اَعمال پیش کیے
جاتے ہیں ، اس لیے ہمیں اَعمال صالحہ کی کثرت اور بر ائیوں سے دُور رہنا چاہیے تاکہ بروزِ قیامت شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
(2) ہروہ کام باعث ِفضیلت ہے جومسلمانوں کے لیے فائدہ مند اوران سے تکلیف دور کرنے والا ہواور اسے کرنا شرعا ًبھی جائز ہو ۔
(3) مسجد میں تھوکنا، ناک صاف کرنا یا کسی بھی طریقے سے گندگی پھیلانا ناجائز وگناہ ہے۔ بلکہ جو مسجد میں ایسی گندگی دیکھے اور باوجود قدرت اسے دُور نہ کرے وہ بھی قابلِ مذمت ہے۔
(4) جہاں موقع ملے نیکیوں کی کثرت کرنی چاہیے کہ نیکیاں جتنی زیادہ ہوں گی آخرت کے حساب وکتاب اور اس کی مختلف منزلوں میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی ، نیکیوں کی کثرت اور تمام برائیوں سے دُور رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:120
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ: اَنَّ نَاسًا قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!ذَہَبَ اَہْلُ الدُّثُوْرِ بِالاُجُوْرِ،یُصَلُّوْنَ کَمَانُصَلِّیْ، وَیَصُوْمُوْنَ کَمَانَصُوْمُ، وَیَتَصَدَّقُوْنَ بِفُضُوْلِ اَمْوَالِہِم، قَالَ: اَوَلَیْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مَا تَصَدَّقُوْنَ بِہ؟ اِنَّ بِکُلِّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃً، وَکُلِّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃً، وَکُلِّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃً، وَکُلِّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃً، وَاَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف ِصَدَقَۃٌ، وَنَہْیٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَۃٌ، وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَ قَۃٌ.قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیَاتِیْ اَحَدُنَاشَہْوَتَہُ وَیَکُوْنُ لَہُ فِیْہَا اَجْرٌ ؟ قَالَ:اَرَاَیْتُمْ لَوْ وَضَعَہَا فِیْ حَرَامٍ اَ کَانَ عَلَیْہِ فِیْہَا وِزْرٌ ؟ فَکَذٰلِکَ اِذَا وَضَعَہَا فِی الْحَلَالِ کَانَ لَہُ اَجْرٌ. ([57])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوذررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ لوگوں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:
’’یا رسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ثواب تو سارا مالدار لے گئے، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں ، ہماری ہی طرح روزہ رکھتے ہیں اوراپنے زائدمال سے صدقہ بھی کرتے ہیں ۔‘‘(جبکہ ہمارے پاس مال نہیں جس سے ہم صدقہ کریں )ارشادفرمایا: ’’کیااللہعَزَّ وَجَلَّنے تمہارے لیے وہ چیز نہیں بنائی جس کے ذریعے تم صدقہ کرو! (سنو!)بے شک!ہر تسبیح (سُبْحَانَ اللہکہنا) صدقہ ہےاور ہرتکبیر (اَللہُ اَکْبَر کہنا)صدقہ ہے، ہرتحمید (اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنا)صدقہ ہے اور ہرتہلیل (لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنا) صدقہ ہے ، نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہےاوراپنی زوجہ سےصحبت کرنابھی صدقہ ہے۔‘‘ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننےعرض کی: ’’یا رسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہم میں سے کوئی اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے تو کیا اس پر بھی اس کے لیے اجر ہے؟‘‘ ارشادفرمایا:’’تمہاراکیا خیال ہے اگر وہ حرام جگہ اپنی خواہش پوری کرتا تو اسےگناہ نہ ملتا؟اسی طرح جب وہ حلال جگہ اپنی خواہش پوری کرےگاتو اسے اس پر اَجر ملےگا۔‘‘
شرح صحیح مسلم للنووی میں ہے:’’ان تمام امور کو صدقہ سے موسوم کیا گیا ہے ۔ایک احتمال تو یہ ہے کہ اِن اُمور میں حقیقتاً صدقہ کرنے کا ثواب ہےاوربطورِ مقابلہ اُنہیں صدقہ کا نام دیا گیا ۔ دوسرا یہ ہے کہ یہ اُمور نفس پر صدقہ ہیں ۔‘‘([58])
نیکی کاحکم دینا اور برائی سے منع کرنا یہ بھی صدقہ ہے۔ اسی طرح سُبْحَانَ اللہ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ،اَللہُ اَکْبَرُاورلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنا بھی صدقہ ہے۔ اَذکارِمذکورہ کے مقابلے میں ’’اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَرْیعنی نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سےمنع کرنے‘‘ کا ثواب زیادہ ہےکیونکہ یہ فرض کفایہ ہے۔ جبکہ تسبیح ،تحمیداور تہلیل کا شمار نوافل میں ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ فرض کاثواب نفل سے زیادہ ہے۔ جیسا کہ حدیثِ قدسی ہےکہ ”میرا بندہ کسی چیزکےذریعےبھی میرا اتنا قرب حاصل نہیں کرتا جتنا قرب
فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔“ اسی طرح حضرت سَیِّدُنَا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہےکہ ’’فرض کا ثواب نوافل سےستر 70گنازیادہ ہے۔‘‘([59])
اپنی زوجہ سےصحبت کرنا بھی صدقہ ہے۔اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ مباح چیزیں بھی اچھی نیت سے عبادت بن جاتی ہیں ۔پس حقِ زوجیت کی ادا ئیگی،اچھےسلو ک،نیک اولادکی طلب،خوداپنی یا زوجہ کی پاک دامنی ،حرام اشیاء کی طرف نظر اوران میں غور وفکر سے بچنےیا اور کسی نیک کام کی نیت سےاپنی زوجہ سے صحبت کرنا بھی ثواب ہے۔([60])
حدیثِ مذکور میں تسبیح اور دیگراذکا راوراَمْرٌبِالْمَعْرُوف وَنَھْیٌ عَنْ المُنْکَرکی فضیلت اور مُباحات میں اچھی نیت پر ثواب کا بیان ہے ۔عالِم یا مفتی کو چاہیے کہ حسبِ موقع بعض پیچیدہ مسائل کے دلائل بیان کر دے۔ سائل پر جس مسئلے کی دلیل مَخْفِی ہواورمعلوم ہو کہ دلیل پوچھنا عالِم کو نا گوار نہ ہوگاتو دلیل پوچھنے میں کوئی حرج و بے ادبی نہیں ۔([61])
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’(حلال جگہ اپنی خواہش پوری کرنے پراجر ملتا ہے)فی نفسہ قضائے شہوت پر اَجر نہیں بلکہ اجر اسی وقت ہے جب جائز طریقے سےہو ۔جیساکہ عید کے دن جلدی کھانا اورسحری کا کھانا۔ اسی طرح دیگرخواہشات جو اُمورِشرعیَّہ کے موافق ہوں ۔اسی لیے کہا گیا کہ جب خواہش ہدایت کے موافق ہو جائے تو اس طرح ہے جیسے مکھن شہد کے ساتھ مل جائے اور اس کی طرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اس فرمان عالی سے
بھی اشارہ ملتا ہے:( وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِؕ-) (پ۲۰، القصص:۵۰) ترجمہ ٔ کنزالایمان: ’’ اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اپنی خواہش کی پیروی کرے اللہ کی ہدایت سےجدا۔‘‘([62])
(ہرتسبیح وتحمید وتکبیر وتہلیل صدقہ ہے) ”مرآۃ المناجیح“میں ہے:’’اس فرمانِ عالی شان سے معلوم ہوا کہ جو کوئی سُبْحَانَ اللہ یا اَللہُ اَکْبَر یا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ یا لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ کسی طرح بھی کہے صدقہ نفلی کاثواب پائے گا۔خواہ ذِکرُاللہ کی نیت سے کہے یاکسی حاجت کے لیے بطورِ وظیفہ یہ الفاظ پڑھے یا عجیب بات سن کر سُبْحانَ ﷲ وغیرہ کہےیاخوشخبری پا کر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ پڑھے،بہرحال ثواب ملے گا۔ کیونکہ اللہ(عَزَّ وَجَلَّ ) کا نام لینا بہرحال عبادت ہے۔ اگر کوئی شخص ٹھنڈک کے لیے اَعضائے وضو دھوئے تب بھی وضو ہوجائے گا کہ اس سے نمازجائز ہوگی۔اللہ(عَزَّ وَجَلَّ)کانام زبان کاوضو ہے۔(نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے)یعنی ہر تبلیغ میں خیرات کا ثواب ہے۔ بلکہ اس کا ثواب پہلے ثوابوں سے زیادہ کہ اس میں ذِکرُ ﷲبھی ہے اور لوگوں کو فیض پہنچنا بھی۔قلمی تبلیغ صدقۂ جاریہ ہے کہ جب تک لوگ اس کی کتاب سے دینی فائدہ اٹھائیں گے، تب تک اسے ثواب ملتا رہے گا۔ یہ ایک کلمہ بہت جامع ہے۔‘‘([63])
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیرغیر سیاسی تحریک”دعوتِ اسلامی“کے مہکے مہکے مدنی ماحول میں بکثرت سنتیں سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں ، دعوتِ اسلامی کا مدنی مقصد یہ ہے کہ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش کرنی ہے ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ“اپنی اصلاح کی کوشش کے لیے مدنی انعامات پر عمل اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کے لیے مدنی قافلوں میں سفر کرنا ہے۔ نیز اسی مُقَدَّس جذبے کے تحت دنیا بھر میں ہر جمعرات کو بعد نمازِ مغرب”دعوتِ اسلامی“کے ہفتہ وار سنتوں بھرے
اجتماعات منعقد ہوتے ہیں ۔ سنتوں کی تبلیغ کے لیے عاشقانِ رسول راہِ خدامیں سفر کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ ’’دعوتِ اسلامی“کے مدنی ماحول میں رہ کر اَمْرٌ بَالْمَعْرُوْف وَ نَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَر کا خوب موقع ملتا ہے۔ آپ بھی”دعوتِ اسلامی“ کے مدنی ماحول سے وابستہ جائیے، خود بھی نیک بنیے اور دوسروں کو بھی نیک بنانے کی اس مدنی مہم میں شریک ہوجائیے، خوب خوب سنتیں پھیلا کر دینِ اسلام کی خدمت کیجئے۔
سنتیں عام کریں دین کا ہم کام کریں ………نیک ہو جائیں مسلمان مدینے والے!
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں ………اے دعوت اسلامی تری دھوم مچی ہو
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) نیک اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت کی خواہش رکھنا صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا طریقہ ہے۔
(2) مباح چیزیں اچھی نیت کی برکت سے عبادت بن جاتی ہیں ۔
(3) ’’اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف وَنَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَر‘‘(یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا) فرض کفایہ ہے۔
(4) زوجہ کے حقوق ادا کرنااوراس کے ذریعے سے نفس کو گناہوں سےمحفوظ رکھنا باعث ِ ثواب ہے۔
(5) تبلیغ دین یعنی نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کا ثواب ذکر واذکار سے زیادہ ہےکیونکہ یہ فرض کفایہ ہے، اس میں ذکربھی ہے اور لوگوں کی اصلاح وخیر خواہی بھی ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کرنے، دوسروں کو ترغیب دلانے کی توفیق عطا فرمائے، نیکی کی دعوت دینے، برائی سے منع کرنے، گناہوں سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:121
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ: قَالَ لِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوۡفِ شَیْئًاوَلَوْ اَنْ تَلْقَی اَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلِیْقٍ.([64])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابو ذَررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےمروی ہے کہ حضورنبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مجھ سے ارشاد فرمایا:”تم کسی نیکی کو حقیر نہ جانو اگر چہ وہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرنا ہی ہو ۔‘‘
حَافِظْ قَاضِی اَبُو الْفَضْل عِیَاض عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّابفرماتے ہیں :’’حدیث ِ مذکور میں بھلائی کے کاموں پر اُبھارا گیا ہے،خواہ وہ کم ہوں یا زیادہ ۔اوراس بات پر بھی کہ کسی چھوٹی نیکی کو بھی حقیر جان کرنہ چھوڑو۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتاہے:( فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷)) (پ:۳۰، الزلزال:۷)(ترجمہ ٔ کنزالایمان: تو جو ایک ذرہ بھربھلائی کرے اسے دیکھے گا۔) یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں سے خندہ پیشانی سے ملنا شریعت میں محمود ہے اور اس پر اجر دیا جائے گا ۔‘‘([65])
دلیل الفالحین میں ہے: یعنی کسی بھی نیکی کو چھوٹی سمجھ کر نہ چھوڑو کیونکہ بسا اوقات چھوٹی نیکی رضائے الٰہی کا سبب بن جاتی ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَا لٰی عَنْہُ سے مروی ہے: ”بے شک! بندہ بعض اوقات ایسا کلمہ کہہ دیتا ہے جو اس کی نظر میں اہم نہیں ہوتا لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی وجہ سے اس کے درجات بلند فرمادیتا ہے۔“ اپنے مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرنا بھی نیکی ہے ، کیونکہ اس میں مسلمان بھائی کے لیے اُنسیت اور خوف و وحشت سے دُور ی ہے اور
اِس سے آپس میں وہ اُلفت حاصل ہوتی ہے جو( شریعت کو )مطلوب ہے۔([66])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :”مسلمانوں سے خوشی و مسرت کے ساتھ ملنا بھی نیکی ہے کیونکہ یہ سامنے والے کے دل میں خوشی پیدا کرتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان کے دل کو خوشی پہنچانا نیکی ہے۔‘‘([67])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں : ’’صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ کوئی نیکی حقیر جان کر چھوڑ نہ دو کہ کبھی ایک گھونٹ پانی جان بچا لیتا ہے اور کوئی گناہ حقیر سمجھ کر کر نہ لو کہ کبھی چھوٹی چنگاری گھر پھونک دیتی ہے۔اِن کا ماخذ یہ حدیث ہے،مسلمان بھائی سے خوش ہو کر ملنا، اس کے دل کی خوشی کا باعث ہے اور مؤمن کو خوش کرنا بھی عبادت ہے۔‘‘([68])
حضرتِ سَیِّدُنَا حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:’’تمہارا لوگوں کو گرم جوشی سے سلام کرنا بھی صدقہ ہے۔‘‘([69])
آقائے دو جہاں ،سرورِ کون ومکاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا :’’اپنےبھائی سے مسکرا کرملنا تمہارے لیے صَدَقہ ہے اور نیکی کی دعوت دینا اور بُرائی سے منع کرنا صَدَقہ ہے۔‘‘([70])
شیخ طریقت،امیرِاہلسنت،بانی دعوتِ اسلامی،حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطارقادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہفرماتے ہیں :’’بیان کردہ حدیثِ مبارکہ میں مُسکر ا کر ملنے،نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے کو صَدَقہ کہا گیا۔سُبْحٰنَ اللہ ! مُسکرا کر ملنے کی تو کیا بات ہے! مسکر اکرملنا،مسکرا کر کسی کو سمجھانا عُمُومًا نیکی کی دعوت کے مدنی کام کو نہایت سَہل و آسان بنا دیتا اور حیرت انگیز نتائج کا سبب بنتا ہے۔جی ہاں !آپ کی معمولی سی مُسکراہٹ کسی کا دل جیت کر اُس کی گناہوں بھری زندَگی میں مدنی انقلاب برپا کر سکتی ہے اور ملتے وَقت بے رُخی اور لاپرواہی سے اِدھر اُدھردیکھتے ہوئے ہاتھ ملانا کسی کا دل توڑ کر اُس کو مَعاذَاللہ گمراہی کے گہرے گڑھے میں گر اسکتا ہے۔لہٰذا جب بھی کسی سے ملیں ،گفتگو کریں اُس وَقت حتی الامکان مُسکراتے رہیے۔اگر خُشک مزاجی یا بے توجُّہی سے ملنے کی خصلت ہے تو مِلنساری اورمُسکرا کر ملنے کی عادت بنانے کےلیے خوب کوشش کیجئے، بلکہ مُسکرانے کی عادت پکی کرنے کےلیے ضَرورتًا کسی کی ذِمّے داری بھی لگایئے کہ وہ دوسروں سے بات کرتے ہوئے آپ کا منہ پھولا ہوا یا سَپاٹ مَحسوس کرے تو گاہے بہ گا ہے یاد دِہانی کرواتے ہوئے کہتا رہے یا آپ کو اِس طرح کی تحریر دکھا دیاکرے:’’بات کرتے ہوئے مُسکرانا سنَّت ہے۔‘‘ جی ہاں واقعی یہ سنَّت ہے۔
چنانچِہ منقول ہے کہ حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ دَرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا، حضرتِ سیِّدُناابو دَرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے مُتَعَلِّق فرماتی ہیں کہ وہ ہر بات مُسکرا کر کیا کرتے،جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا:’’میں نے حُسن اخلاق کےپیکر،ملنساروں کے رہبر،غمزدوں کے یاوَر،محبوبِ ربِّ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دَورانِ گفتگو مسکراتے رہتے تھے۔‘‘([71])
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں
اُس تبسُّم کی عادت پہ لاکھوں سلام
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) مسلمانوں کا آپس میں خندہ پیشانی سے ملنا شریعت کومحبوب ہے،اس پر اَجر دیا جاتا ہے اور یہ آپس میں اُنسیت،محبت اور اُخوَّت کا پیش خیمہ ہے۔
(2) کسی بھی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ ہوسکتا ہے وہ نیکی رضائے الٰہی کا سبب بن جائے اور کل بروزِ قیامت اس کی وجہ سے مغفرت کا پروانہ جاری ہوجائے۔
(3) ہر چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا چاہیےکہ ہوسکتا ہے وہی چھوٹاگناہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ناراضی کا سبب بن جائے اور کل بروزِ قیامت اسی پر پکڑ ہوجائے۔
(4) رضائے الٰہی کے طلب گار نیکیوں کے ثواب سے زیادہ رضائے الٰہی کو پیش نظر رکھتے ہیں وہ کسی بھی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر نہیں چھوڑتے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے طفیل اَعمالِ صالحہ بجالانےاور گناہوں سے بچنےکی توفیق عطافرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر :122
عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوۡلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيۡهِ الشَّمْسُ،تَعْدِلُ بَيْنَ الِاثْنَيْنِ صَدَقَةٌ وَتُعِيۡنُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِهِ فَتَحْمِلُهُ عَلَيْهَا اَوْ تَرْفَعُ لَهُ عَلَيْهَامَتَاعَهُ صَدَقَةٌ،وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ وَبِكُلِّ خَطْوَةٍ تَمْشِيۡهَا اِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ وَتُمِيۡطُ الْاَذَى
عَنِ الطَّرِيۡقِ صَدَقَةٌ. ([72])
رَوَاہُ مُسْلِمٌ اَیْضًامِنْ رِوَایَۃِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّهُ خُلِقَ كُلُّ اِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ عَلَى سِتِّيۡنَ وَثَلَاثِ مِائَةِ مَفْصِلٍ فَمَنْ كَبَّرَ اللَّهَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَهَلَّلَ اللَّهَ وَسَبَّحَ اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ اللَّهَ وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ اَوْشَوْكَةً اَوْ عَظْمًاعَنْ طَرِيقِ النَّاسِ اَوْاَمَرَ بِمَعْرُوۡفٍ اَوْ نَهَى عَنْ مُنْكَرٍ عَدَدَ السِّتِّيۡنَ وَالثَّلَاثِ مِائَةٍ ، فَاِنَّهُ يُمْسِي يَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنِ النَّارِ.([73])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’انسان کے ہرجوڑ کے عوض ہر دن جس میں سورج چمکے اس پر صدقہ ہے، دو شخصوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا صدقہ ہے،کسی کو اس کی سواری پر سوار ہونے میں مدد کرنا یا اس کا سامان اٹھا کرسواری پررکھ دینا صدقہ ہے،اچھی بات کہنا صدقہ ہے،نماز کے لیے جانے والا ہر قدم صدقہ ہے، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔‘‘
امام مسلم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس حدیث پاک کواُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکی روایت سے بھی بیان کیا ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’بنی آدم کو تین سو ساٹھ360 ہڈیوں پر بنایا گیا۔پس جس نے اللہ اکبر کہا ، یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمد بیان کی ،یا لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا،یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پاکی بیان کی،یا اِسْتِغْفَارپڑھا،یا راستے سے پتھر ہٹایا،یاکسی کانٹے یا ہڈی کو راستے سے ہٹایا،یا نیکی کی دعوت دی یا بُرائی سے منع کیااور یہ تعدادتین سو ساٹھ تک پہنچ گئی تو اس دن ایسا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دوزخ سے بچالیا۔‘‘
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’حدیث کا معنی یہ ہے کہ انسان کے جوڑ اس
کے وجود کی اصل ہیں اور ان سے منافع حاصل ہوتے ہیں کیونکہ انہیں کے ذریعے انسان حرکت کرتا ہے ۔ یہ انسان پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بہت عظیم نعمتیں ہیں ۔ پس جسے نعمت ملے اس پر لازم ہے کہ ہر ہر نعمت کا شکرادا کرےاور صدقہ دے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اپنے بندوں پر لطف و کرم فرمایا کہ لوگوں کے درمیان عدل کرنے کو صدقہ قرار دیا۔‘‘([74])
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’علماءکرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :’’انسان پر صدقہ کرنا واجب یا لازم نہیں بلکہ مستحب ہے اور یہ فرمان عالیِ ترغیب کے لیے ہے۔‘‘([75])
مرآۃ المناجیح میں ہے:’’(انسان کے ہرجوڑ کے عوض اس پر صدقہ ہے )انسان کی اس لیے قید لگائی تاکہ اس سے فرشتے اور جنات نکل جائیں کہ نہ ان کے جسموں میں اتنے جوڑ ہیں نہ ان کے یہ احکام۔ ہمارے یہ جوڑ، انگلی کے پوروں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک ہیں اگر ان میں سے ایک جوڑ خراب ہوجائے تو زندگی دشوار ہوجائے۔ قدرت نے ہڈی کو ہڈی میں اس طرح پیوست کیا ہے کہ کواڑ کی چول کی طرح ہڈی گھومتی، ہلتی ہے اس کے باوجود نہ گھستی ہے نہ خراب ہوتی ہے۔سُلَامٰیسین کے پیش سے ہے، جس کے لغوی معنی ہیں :عضو ، ہڈی اور جوڑ۔ یہاں تیسرے معنی مراد ہیں ۔انسان کے بدن میں 360جوڑ ہیں ۔اگر چہ ہمارا ہر رونگٹا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت ہے لیکن ہر جوڑ اس کی بے شمار نعمتوں کا مَظْہَر ہے۔ اس لیے خصوصیت سے اس کا شکریہ ضروری ہوا۔ صدقہ سے مراد نیک عمل ہے جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص پر اَخلاقاً دیانۃً لازم ہے کہ روزانہ ہر جوڑ کے عوض کم از کم ایک نفل نیکی کیا کرے۔ اس حساب سے روزانہ تین سو ساٹھ360 نیکیاں کرنی چاہیئں تاکہ ا س دن جوڑوں کا شکریہ ادا ہو۔ سورج چمکنے کا
ذکر اس لیے فرمایا کہ سورج تو ہر شخص پر چمکتا ہے تو شکریہ بھی ہر شخص پر ہے۔تہذیبِ اَخلاق، تدبیرِ منزل، سیاستِ مدنی، لوگوں سے اچھے برتاؤ صدقہ ہیں بشرطیکہ رضائے الٰہی کے لیے ہوں ۔ہر معمولی سے معمولی کام جب ادائے سنت کی نیت سے کیا جائے گا تو وہ بڑا ہوجائے گا، کیونکہ منسوب اگر چہ چھوٹا ہے مگر منسوب الیہ جن کی طرف نسبت ہے(یعنی حضور نبی کریم رؤف رحیم) صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وہ تو بڑے ہیں ۔ (نماز کے لیے جانے والا ہر قدم صدقہ ہے) نماز کا ذکر مثالاً ہے ورنہ طواف، بیمار پرسی، جنازہ میں شرکت، علم دین کی طلب غرضکہ ہر نیکی کے لیے قدم ڈالنا صدقہ ہے۔ رستہ سے کانٹا، ہڈی، اینٹ، پتھر، گندگی غرض جس سے کسی مسلمان راہ گیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو اس کو ہٹا دینا بھی نیکی ہے جس پر صدقہ کا ثواب اور جوڑ کا شکریہ ہے۔‘‘([76])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حُسْنِ نیت اوراِخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کےلیےجوبھی نیک عمل کیاجائے وہ عبادت ہے ان میں سے بعض فرض وواجب ہیں جن کوادا کرناانسان پر لازم ہے جیسے نماز، روزہ اور زکوٰۃوغیرہ کہ ان کی ادائیگی پر بندے کواجروثواب سے نوازاجاتاہےاور ان کے ترک کرنے پر عذاب وعتاب کی وعیدہے۔اور بعض عبادتیں نفل ومستحب ہیں کہ ان کی ادائیگی پر ثواب ہے لیکن ان کے ترک پر عذاب نہیں ۔جیساکہ دومسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرنا، کسی کوسواری پر سوار کرنا،اچھی بات کہنا اور مسجد کی طرف قدم اٹھانا وغیرہ۔ان تمام کے ذریعہ ربّ عَزَّوَجَلَّکی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے۔لہٰذا عقل مند کو چاہیے کہ فرائض وواجبات کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات بھی بجالائے۔
(1) بظاہرمعمولی سےمعمولی کام بھی جب اَدائے سنت کی نیت سے کیا جائے گا تو اس پر اَجر دیاجاتاہے۔
(2) انسان کے اپنے جسم میں اس پر اتنے اِنعاماتِ اِلٰہیہ ہیں کہ جن کا شکر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ سر سے لے کر پاؤں تک ہر آن ،ہر گھڑی وہ اپنے ربّ کی نعمتوں کے حِصار میں رہتا ہے ۔
(3) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ہم پر یہ بہت کرم واِحسان اور اس کا فضلِ عظیم ہے کہ وہ بظاہر چھوٹے چھوٹے اُمور پر بھی صدقے کا عظیم اجر وثواب عطا فرماتا ہے۔
(4) نماز،طواف، بیمار پرسی، جنازہ میں شرکت، طلبِ علم دین، مسلمانوں کی خیر خواہی ،الغرض ہر نیکی کی طرف اٹھنے والا قدم صدقہ ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے اپنا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر: 123
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ غَدَا اِلَی الْمَسْجِدِ اَوْ رَاحَ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ فِیْ الْجَنَّۃِ نُزُلًا کُلَّمَا غَدَا اَوْ رَاحَ.([77])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضورنبی اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمسے روایت کرتے ہیں کہ ’’جو شخص صبح یا شام کے وقت مسجد گیا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّجنت میں اس کے لیے ہر صبح وشام مہمانی تیار فرمائےگا۔‘‘
عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :’’حدیث مذکور کے ظاہر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کوئی شخص کسی بھی وقت مسجد آئےتو مطلقاًاسے فضیلت حاصل ہوگی لیکن یہ فضیلت اسی
کے ساتھ خاص ہے کہ جو عبادت کی غرض سے مسجد میں آئے۔‘‘([78])
مرآۃ المناجیح میں ہے:’’صبح شام سے مراد ہمیشگی ہے یعنی جو ہمیشہ نماز کے لیے مسجد جانے کا عادی ہوگااسے ہمیشہ جنتی رزق ملے گا۔نُزُلٌاس کھانے کو کہتے ہیں جو مہمان کی خاطر پکایا جائے چونکہ وہ پُر تکلف ہوتا ہے اور میزبان کی شان کے لائق، اس لیے جنتی کھانے کو نُزُلٌفرمایا گیا، ورنہ جنتی لوگ وہاں مہمان نہ ہوں گے، مالک ہوں گے۔‘‘([79])
(1)’’مسجدہر پرہیز گا ر کا گھر ہے اور جس کا گھر مسجد ہو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے اپنی رحمت ، رضا اور پل صِرا ط سے باحفاظت گزار کراپنی رضا والے گھر جنت کی ضمانت دیتا ہے۔‘‘([80]) (2)’’جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد کی خدمت کرتا اور اسے آباد کرتا ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو کیونکہاللہ عَزَّ وَجَلَّفرماتا ہے:( اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ )(پ ۱۰، التوبۃ: ۱۸)ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’اللہ کی مسجدیں وہی آبا د کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایما ن لاتے۔‘‘([81]) (3)’’ جب کوئی بندہ ذکر ونَماز کے لیے مسجد کو ٹھکانا بنالیتاہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ایسے خوش ہوتا ہے جیسے لوگ اپنے ہاں اپنے ہی گمشدہ شخص کی آمد پر خوش ہوتے ہیں ۔‘‘([82]) (4)’’رات کی تاریکیوں میں مسجد کی طرف آمدورفت رکھنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت میں غوطے لگاتے ہیں ۔‘‘([83])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
زمانے کے مشہور ولی حضرت سَیِّدُنَا والان بن عیسیٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :ایک مرتبہ میں تہجد کے لیے مسجد میں گیا۔اللہ عَزَّ وَجَلَّنے جتنی تو فیق دی اتنی دیر میں نے نماز پڑھی ، پھر میں سو گیا۔میں نے خواب دیکھا کہ نہایت حسین وجمیل اور نورانی چہروں والے بزرگوں کا ایک قافلہ مسجد میں آیا ۔میں سمجھ گیا کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق ہیں ۔ ان کے ہاتھوں میں تھال تھے جن میں عمدہ آٹے کی برف کی طرح سفیدروٹیاں تھیں ،ہر رو ٹی پر انگوروں کی طر ح چھوٹے چھوٹے قیمتی موتی تھے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’یہ رو ٹیاں کھالو۔‘‘ میں نے کہا: ’’میرا تو رو زہ ہے۔‘‘ کہنے لگے:’’ مسجد جس کا گھر ہے اس نے حکم دیا ہے کہ تم یہ کھانا کھالو۔‘‘پس میں کھا نے لگا۔کھانے کے بعد میں نے وہ موتی اٹھانا چاہے تو کہا گیا کہ:’’یہ چھوڑ دو،ہم تمہارے لیے اِن کے بدلے ایسے درخت لگائیں گے جن کے پھل اِن موتیوں سے بہتر ہوں گے ۔ ‘‘
میں نے کہا :’’وہ درخت کہاں ہوں گے؟‘‘جواب ملا :’’ایسے گھر میں جو کبھی بر باد نہ ہوگااور وہاں ہمیشہ پھل اُگتے رہیں گے، نہ کبھی ختم ہو ں گے نہ خراب ۔ وہ ایسی سلطنت ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی۔ وہاں ایسے کپڑے ہوں گے جو کبھی پرانے نہ ہوں گے۔اس گھر (یعنی جنت )میں خوشی ہی خوشی ہے، میٹھے پانی کے چشمے ہیں ،سکون وآرام ہے اور ایسی پاکبازبیویاں ہیں جو فرمانبر دار، ہمیشہ خوش رہنے والی اوردل کو بھانے والی ہیں ۔وہ نہ تو کبھی ناراض ہوں گی اور نہ ہی ناراض کریں گی۔لہٰذا دنیا میں جتنا ہوسکے نیک اَعمال کی کثرت کرو۔ یہ دنیا تو نیند کی مانند ہے کہ آنکھ کھلتے ہی رخصت ہوجائے گی ۔ لہٰذا اس میں جتنا ہوسکے عمل کرواور جلدی سے جنت کی طر ف آجاؤ جہاں دائمی نعمتیں ہیں ۔‘‘ پھر میری آنکھ کھل گئی لیکن ابھی تک میرے ذہن میں وہ خواب سمایا ہوا تھا اور میں جلد اَز جلد اس گھر (یعنی جنت) میں پہنچنا چاہتا تھاجس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا۔راوی کہتے ہیں کہ اس واقعے کے تقریباً پندرہ دن بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا انتقال ہوگیا ۔ انتقال کے بعد میں نے اسی رات اُنہیں خواب میں دیکھا تو پوچھا : ’’آپ کے لیےکیسے درخت لگائے گئے ہیں ؟‘‘فرمایا : ’’وہ تو ایسے ہیں کہ جن کی تعریف بیان نہیں کی جاسکتی۔خدا عَزَّ وَجَلَّکی قسم! جب کوئی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مہمان بنتا ہے تو وہ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ اُسےایسی ایسی نعمتیں عطا فرماتا ہے جن کے اَوصاف بیان نہیں ہوسکتے، اس کے کرم کی کوئی انتہا
نہیں ،وہ اپنے بندو ں پر بے انتہا کرم فرماتا ہے۔‘‘([84]) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ آمین
(1) جنت میں دی جانے والی نعمتوں کے اَوصاف بیان کرنا ممکن نہیں ۔
(2) اپنا اکثر وقت مسجد میں گزارنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ہیں اور اُس کی رحمت میں غوطہ زن رہنے والے ہیں ۔
(3) بسا اوقات انسان کو ایسے نیک خواب دکھائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے عبادت وریاضت میں رغبت اور جنت کی طلب مزید بڑھ جاتی ہے ۔ مؤمن کے لیے ایسے خواب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بہت بڑا انعام ہیں ۔
(4) ہم سب اللہ عَزَّ وَجَلَّکی مخلوق و مملوک ہیں ۔ اس نے ہمیں انسان بنایا، ایمان دیا، حضور نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دامنِ کرم دیا، یہ ہم پر اس کا بہت بڑا کرم واِحسان ہے ۔ اِن تمام نعمتوں کے باوجود وہ ہمیں جنت کی طرف راغب کرنے کے لیے طرح طرح کی نعمتیں بیان فرماکر ہم پر مزید اِحسان فرماتا ہے ۔ یقینا ًاس کا جتنا شکر ادا کیاجائے اتنا ہی کم ہے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خوب خوب نیکیاں کرنے اور کثرت سے مسجد کی طرف جانے، نمازادا کرنے اورقرآنِ پاک کی تلاوت کرنے کی سعادت عطافرمائے۔پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ جنت الفردوس میں بے حساب داخلہ عطافرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:124
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ!لاَ تَحْقِرَنَّ جَارَۃٌ لِجَارَتِہَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاۃٍ. ([85])
قَالَ الْجَوْھَرِیُّ:اَلْفِرْسِنُ مِنَ الْبَعِیْرِ:کَا الْحَافِرِ مِنَ الدَّابَّۃِ،قَالَ:وَرُبَّمَا اُسْتُعِیْرَ فِیْ الشَّاۃِ.
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےمروی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب دانائے غیوب مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوْب صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا :’’اے مسلمان عورتو!کوئی عورت اپنی پڑوسن کی بھیجی ہوئی چیز کو حقیر نہ جانے ،اگرچہ وہ بکری کا کُھر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
علّامہ جوہری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینےفرمایا:’’فِرْسِناُونٹ کے کُھرکوکہتے ہیں جیسے حَافِردوسرے جانوروں کے کھُر کو کہا جاتا ہے ۔البتہ بسا اوقات بطورِ استعارہ بکری کے کُھر کوبھی فِرسِنکہا جاتا ہے ۔
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’بکری کے کُھر سے حقیقتاً بکری کا کُھر مراد نہیں کیونکہ عام طور پر بکری کا کُھرایک دوسرے کو تحفے میں نہیں دیا جاتا بلکہ اس سے معمولی سی شے مراد ہے۔ مقصودِحدیث یہ ہے کہ پڑوسی کو ہدیہ دینے کے لیے اگر عورت کے پاس معمولی شے کے علاوہ کچھ نہ ہو تو ہدیہ سے نہ رُکے بلکہ حسبِ حال جو میسر ہو دے دیا کرے کیونکہ ہدیہ اپنے پاس موجود شے کے اعتبار سے دیا جاتا ہے اور کسی شے کاپاس ہونا یہ اس شے کے نہ ہونے سے بہتر ہے۔حدیث کی ایک توجیہہ یہ ہےکہ اگر تمہیں کم قیمت معمولی سی شے بھی تحفے میں دی جائے تو اسے حقیر سمجھ کر قبول کرنے سے انکار نہ کرو۔‘‘([86])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں : ’’چونکہ چیزوں میں عیب نکالنے کی عادت زیادہ عورتوں میں ہوتی ہے اس لیے انہی سے خطاب کیاگیا۔ یہ حدیث ہم
غریبوں کے لیے بڑی ہمت افزاہے کیونکہ اس سے معلوم ہورہاہے کہ خود نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّممسکینوں کے معمولی ہدیہ ثواب وغیرہ کو بھی رَد نہیں فرماتے۔‘‘([87])
حُجَّۃُ الْاِسلامحضرتِ سَیِّدُنا امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’جسے تحفہ دے رہاہے اس کی فضیلت کومد ِنظررکھے، وہ تحفہ قبول کرلے توخوشی ومسرت کااظہار کرے۔ اس سے ملاقات ہو تو اس کا شکریہ اداکرے، اور اسے کلی اختیارات دے اگرچہ تحفہ بڑا ہو۔‘‘([88])
’’تحفہ ملنے پرخوشی کا اِظہارکرے اگرچہ کم قیمت ہو، تحفہ بھیجنے والے کی غیرموجودگی میں اس کے لیے دعائے خیر کرے۔ملاقات ہو تو خَندہ پیشانی کا مظاہرہ کرے۔ جب موقع ملے تو اسے بھی تحفہ دے۔ حسب موقع اس کی جائز تعریف کرے۔دوبارہ تحفہ وغیرہ لینے کی حرص وطمع نہ کرے۔‘‘([89])
(1) تحفہ دینے سے محبت بڑھتی اور بغض وکینہ دُور ہوتاہے۔(2) تحفہ دینے میں ایک دوسرے کی مالی مُعاوَنت ہے۔(3)جب تحفہ معمولی ہوتو یہ محبت پر زیادہ دلالت کرتا اور باہم تَکَلُّف و تنگی کو دور کرتا ہے۔ (4)قیمتی تحائف کاتبادلہ ہر وقت ممکن بھی نہیں جبکہ معمولی تحائف کا باہم تبادلہ قیمتی تحفہ دینے کی طرح ہی ہے۔‘‘ ([90])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1)’’ایک دوسرے کو تحفہ دوکیونکہ یہ سینہ کے کینہ کودورکرتاہے۔‘‘([91]) (2)’’ایک دوسرے کو تحفہ دو اس سے محبت پیداہوگی۔‘‘([92]) (3)’’ایک دوسرے سے مصافحہ کرو اس سے کینہ ختم ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو ہدیہ دو اس سے محبت بڑھتی ہے اوربخل ختم ہوتاہے۔‘‘([93]) (4)’’اگرمجھے بکری کےایک پائے کا ہدیہ دیا جائے تو میں اسے قبول کرلوں گااور اگر مجھے بکری کے پائے کی دعوت دی جائے تو میں اس دعوت میں جاؤں گا۔‘‘([94])
(1) کم قیمت والی شے کا تحفہ دیناتحفہ نہ دینےسےبہترہے۔
(2) تحفہ دینے سے محبت بڑھتی، بغض وکینہ دور ہوتااور مالی معاونت بھی ہوتی ہے۔
(3) احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممسکینوں کے ہدیۂ ثواب کو بھی رد نہیں فرماتے ۔
(4) تحفہ لینے کے آداب میں سے ہے کہ تحفہ ملنے پرخوشی ومَسَرَّت کا اِظہارکرے اگرچہ تحفہ کم قیمت ہو نیزتحفہ دینےوالےکاشکریہ بھی اداکرے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں خصوصاً تحفہ دینے کی سنتوں اور آداب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:125
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ اَوْبِضْعٌ وَ سِتُّوْنَ شُعْبَۃً،فَاَفْضَلُہَا قَوْلُ لَا اِلَہَ اِلَّااللّٰہُ،وَاَدْنَاہَااِمَاطَۃُالْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ،وَالْحَیَاءُشُعْبَۃٌمِنَ الْاِیْمَانِ.([95])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورنبّی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ایمان کی ستّرسے کچھ زائد شاخیں ہیں یا ایمان کی ساٹھ سے کچھ زائد شاخیں ہیں ،اوراُن میں سب سے افضل ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘کہنا ہے اور ان میں سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز دُور کرنا ہے۔اور حیا (بھی)اِیمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
حدیثِ مذکور میں فرمایا گیا کہ ایمان کی70 یا اس سے کچھ زائد شاخیں ہیں ۔عَلَّامَہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی نے77شاخوں کو بالتفصیل ذکر فرمایا ہے،آپ بھی ملاحظہ کیجئے:(1)اللہعَزَّ وَجَلَّپر،اس کی ذات وصفات اوراس کی وحدانیت پر ایمان لاناکہ اس کی مثل کوئی نہیں ہے۔(2)اللہعَزَّ وَجَلَّکےعلاوہ سب کوحادِث ماننا(3)اس کےفرشتوں پرایمان لانا(4)اس کی کتابوں پر ایمان لانا (5)اس کے رسولوں پر ایمان لانا(6)اچھی اور بُری تقدیر پر ایمان لانا(7)قیامت، قبر کے سوال وعذاب ، میزان عدل قائم ہونے اور پلِ صراط سے گزرنےپرایمان لانا (8)اللہ عَزَّ وَجَلَّکےجنت کے وعدےاوراس میں ہمیشہ رہنے پریقین رکھنا(9)دوزخ کی وعیدوعذاب اوراس کی ہمیشگی پرایمان لانا(10)اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے محبت کرنا (11) رضائے الٰہی کےلیےمحبت وعداوت رکھنااسی طرح تمام مہاجرین وانصارصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناور آلِ رسول صَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمسےمحبت رکھنارِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن(12)حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمسےمحبت کرنااورآپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم پردرودِپاک پڑھنااورآپ کی سنت کی پیروی کرنا (13)اخلاص اختیار کرنا، ریاکاری ومنافقت ترک کر دینا(14)توبہ وندامت(15)خوفِ خدا(16) امید (17) مایوس نہ ہونا(18)شکراداکرنا(19)وعدہ پورا کرنا(20)صبر کرنا(21) تواضع و انکساری کرنا، بڑوں کی تعظیم کرنا(22)چھوٹوں پرشفقت کرنا(23)تقدیرپرراضی رہنا(24)اللہ عَزَّ وَجَلَّپرتوکل وبھرو سہ کرنا (25)فخروغرورترک کرنا،اپنی تعریف کرنے سےبچنا،اپنے آپ کوگناہوں سےپاک وصاف نہ سمجھنا (26)حسدنہ کرنا(27)بِلاوجہ کسی سےدشمنی نہ کرنا(28)غصہ ترک کرنا(29)خیانت اورکسی کے متعلق بدگمانی ومکروفریب سے بچنا (30)دنیا کی محبت ترک کرنا، مال ودولت جاہ ومرتبہ کی محبت دل سے نکال دینا (31)اللہ عَزَّ وَجَلَّکی وحدانیت کازبان سےاقرار کرنا(32)قرآن پاک کی تلاوت کرنا(33)علم سیکھنا (34)علم سکھانا(35)دعا کرنا(36)ذکرواستغفار کرنا(37)فضول گوئی سے بچنا(38)پاکیزگی یعنی بدن کو حَدَث وجَنَابَت اورحَیْض ونِفَاس سے وُضو اورغُسل کے ذریعے پاک رکھنا، کپڑے اور مکان پاک رکھنا (39) نمازقائم کرنا،اس میں فرائض ونوافل اورقضانمازیں بھی داخل ہیں ۔(40)زکوٰۃ وصدقہ فِطر ادا کرنا،سخاوت کرنا، کھانا کھلانااورمہمان نوازی کرنا(41)فرض و نفل روزے رکھنا(42) حج وعمرہ کرنا(43) اعتکاف کرنا اور لیلۃُالقدرکی جستجو کرنا(44)دین کی حفاظت کے لیے بُرے اُمور سےدُور بھاگنااورمشرکوں کےعلاقے سےہجرت کرنا(45)مانی ہوئی نذرپوری کرنا (46)قسم پوری کرنا(47)کفارہ ادا کرنا (48)نمازاور بیرونِ نمازسِترچھپانا(49)قربانی کرنا(50)مسلما نوں کےجنازوں کے ساتھ جانا(51)قرض ادا کرنا (52) معاملات میں سچّائی برتنا اور ریا کاری سے بچنا(53)سچی گواہی دینا اور سچ نہ چھپانا(54)نکاح کے ذریعے پاک دامنی حاصل کرنا(55)اہل وعیال کے حقوق پورے کرنا اور خادموں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا (56) والدین کے ساتھ اچھا برتاؤکرنا اور ان کی نافرمانی سے بچنا(57)اولاد کی اچھی تربیت کرنا(58)صلہ رحمی کرنا (59) بڑوں کی اطاعت کرنا(60)عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنا(61)جماعت کی پیروی کرنا
(62) حکمرانوں کی اطاعت کرنا(63)لوگوں کی اِصلاح کرنااورخوارج وباغیوں سےجنگ کرنا(64)نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا(65)نیکی کا حکم دینا اوربرائی سےمنع کرنا(66)حدودقائم کرنا (67) جہادکرنااوراس کے لیے ہر وقت تیاررہنا(68)امانت اور مال غنیمت کا خُمس ادا کرنا(69)وعدے کے مطابق قرضہ ادا کرنا(70)پڑوسیوں کااحترام کرنا(71)معاملات میں اچھائی برتنا اورحلال روزی کمانا (72)اچھی جگہ مال خرچ کرنافضول خرچی اور اِسراف سے بچنا(73)سلام کا جواب دینا (74) چھینکنے والے کوجواب دینا (75) لوگوں سےنقصان کودورکرنا(76) لہو ولعب سے بچنا(77) راستے سے تکلیف دہ شے ہٹانا۔‘‘([96])
عَلَّامَہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’حیاکوایمان کاحصہ اس لیے کہاگیاہےکہ حیا اچھے اعمال کی طرف اُبھارتی اوربُرائیوں سے روکتی ہے۔ حیا اگرچہ فطرت میں شامل ہوتی ہے۔مگر بسا اوقات تکلفاً جد وجہد سے حیا اختیار کی جاتی ہے لیکن اسےشریعت کے مطابق استعمال کرنے کے لیے جدوجہداورنیت کی حاجت ہوتی ہے ۔اسی لیےیہ ایمان کا حصہ ہے ۔ایمان کی شاخوں کواجمالاًذکر کرنے کے بعدحضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے خصوصی طور پر حیا کو ذکر کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ حیا ایمان کے تمام شعبوں کی طرف بلاتی ہے کہ حیا دار بندہ دنیا کی رسوائی اورآخرت کے خوف سے اپنےآپ کوگناہوں سے بچاتا اوراَحکامِ الٰہی بجا لاتا ہے۔‘‘([97])
حیا اُن اخلاق کا نام ہے جو بُرے کاموں سے بچنے پر اُبھاریں اورحقدارکے حق میں کمی کرنے سے روکیں ۔ سب سے بہترین حیا اللہ عَزَّ وَجَلَّسے حیا کرنا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تجھے وہاں نہ دیکھے جہاں
سے اس نے تجھے منع کیا ہے۔ اور یہ معرفت و مراقبہ ہی کی بدولت ممکن ہے ۔اورحضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درج ذیل فرمان سے یہی مراد ہے۔آپ نے فرمایا: ’’ تُو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تُو اُسے دیکھ رہا ہے پس اگر تُو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ تجھے ضرور دیکھ رہا ہے ۔‘‘ اسی طرح امام ترمذی نے روایت کیا کہ سرکار مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اللہ عَزَّوَجَلَّسےاس طر ح حیا کروجس طرح حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں ،ہم نے عرض کی:’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ہم حیا کرتے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمد کرتے ہیں ۔‘‘فرمایا :’’یہ حیا نہیں ہے بلکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّسے حیا کا حق یہ ہے کہ سراورجو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو، پیٹ اور جو کچھ پیٹ میں ہے اس کی حفاظت کرو، موت اور موت کے بعد گلنے سڑنے کو یاد کرو ۔ پس جس نے یہ کر لیااس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّسے حیا کرنے کا حق ادا کردیا۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا جُنَیدبغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْھَادِیفرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے ملنے والی نعمتوں اور اپنی کوتاہیوں کی طرف نظر کرنےسےدل میں جوکیفیت پیداہوتی ہےاسے حیاکہتے ہیں ۔‘‘([98])
حیاکےمعنی ہیں :’’عیب لگائےجانے کے خوف سےبُرے اعمال ترک کردینا۔‘‘حضرتِ سیِّدُنا شَہابُ الدّین سُہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عظمت و جلال کی تعظیم کے لیے روح کو جُھکانا حیا ہےاور اِسی قَبِیل سے حضرتِ سیِّدُنا اِسرافیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی حیاہے جیسا کہ بیان ہوا کہ وہاللہ عَزَّوَجَلَّسے حیا کی وجہ سے اپنے پَروں سے خود کو چُھپائے ہوئے ہیں ۔‘‘ عُلَما ءِکرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : ’’حیاایک ایسا خُلق ہے جو بُرے کام چھوڑنےپر اُبھارتا اور حق دار کے حق میں کمی کرنے سے روکتا ہے۔‘‘([99])
شرم وحیااِیمان کا رُکن اعلیٰ ہے۔دنیا والوں سے حیادُنیاوی بُرائیوں سے روک دیتی ہے، دین والوں
سے حیادینی بُرائیوں سے روک دیتی ہے۔ اللہرسول سے شرم و حیاتمام بدعقیدگیوں ،بدعملیوں سے بچالیتی ہے۔ایمان کی عمارت اسی شرم و حیا پر قائم ہے۔درختِ ایمان کی جڑ مؤمن کے دل میں رہتی ہے اس کی شاخیں جنت میں ہیں ۔جوشخص زبان کابےباک ہوکہ ہر بُری بھلی بات بےدھڑک منہ سے نکال دےتو سمجھ لو کہ اس کا دل سخت ہے اور اس میں حیانہیں ۔سختی وہ درخت ہے جس کی جڑ انسان کے دل میں ہے اور اس کی شاخ دوزخ میں ۔جو حیا گناہوں سے روک دے وہ تقویٰ کی اصل ہے اور جو غیرت و حیا اللہ کے مقبول بندوں کی ہیبت دل میں پیدا کردے وہ ایمان کا رُکن اعلیٰ ہےاورجوحیانیک اَعمال سے روک دے وہ بُری ہے۔‘‘([100])
سَیِّدُنَا فقیہ اَبُواللَّیْث سَمَرقَنْدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :حیا کی دو قسمیں ہیں :(1) لوگوں کے مُعامَلے میں حیا(2)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مُعامَلے میں حیا۔ لوگوں کے مُعامَلےمیں حیا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تُو اپنی نَظَر کو حرام اشیاء سے بچا ئے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّکے مُعامَلے میں حیا کرنے سے مُراد یہ ہے کہ تو اُس کی نعمت کوپہچانے اور اُس کی نافرمانی کرنے سے حیا کرے۔‘‘([101])
حیاکبھی فرض وواجِب ہوتی ہےجیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حَیا کرنا۔کبھی مُستَحب جیسے مکروہِ تنزیہی سے بچنے میں حیاکرنا اورکبھی مُباح جیسےکسی مُباحِ شَرْعی کےکرنےسےحیا۔([102])
(1)’’حیااور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں اوربدکلامی اور فضول گوئی نفا ق کی دوشاخیں ہیں ۔‘‘([103])
(2)’’بے شک !ہر دین کا ایک خُلق ہوتا ہے اوراسلام کا خُلق حیا ہے ۔‘‘([104]) یعنی ہر اُمَّت کی کوئی نہ کوئی خاص خَصْلت ہوتی ہے جودیگرخصلتوں پر غالِب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت حیاہے۔ اس لیے کہ حیاایسا خُلْق ہے جو اَخلاقی اچھّائیوں کی تکمیل،ایمان کی مضبوطی کاباعِث اور اس کی عَلامات میں سے ہے۔ (3)’’بے شک! حیااورایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں ،جب ایک اُٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔‘‘([105])
(1) ایمان کی ستر 70سے زائد شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
(2) حیااَعمالِ خیرکی طرف لےجاتی اور گناہوں سے بچاتی ہے۔
(3) حیاایک ایساخلق ہےکہ جس پراسلام کامدارہے۔
(4) ایمان وہ درخت ہے کہ جس کی جڑمؤمن کے دل میں ہےاور اس کی شاخیں جنت میں ۔
(5) سختی وہ درخت ہے کہ جس کی جڑانسان کے دل میں اور شاخیں دوزخ میں ہیں ۔
(6) بدکلامی اورفضول گوئی نفاق کی دو شاخیں ہیں ۔
(7) حیا اسلام کا خلق، اِس اُمَّت کی خصلت، اَخلاقی اچھائیوں کی تکمیل اوراِیمان کی مضبوطی کا باعث ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں ہمیشہ شرم وحیا جیسی دولت سے مالامال رکھے، ہمارے تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں کومعاف فرمائے، ہماری حتمی مغفرت فرمائے اور بلا حساب جنت میں داخلہ نصیب فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:126
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:بَیْنَمَارَجُلٌ یَمْشِیْ بِطَرِیۡقٍ اِشْتَدَّ عَلَیْہِ الْعَطَشُ،فَوَجَدَ بِئْرًافَنَزَلَ فِیْہَا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ، فَاِذَا کَلۡبٌ یَلْہَثُ یَاْکُلُ الثَّرٰی مِنَ الْعَطَشِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: لَقَدْ بَلَغَ ہٰذَاالۡکَلۡبَ مِنَ الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِیْ کَانَ قَدْ بَلَغَ مِنِّیْ، فَنَزَلَ البِئْرَ فَمَلَاَخُفَّہُ مَاءً ثُمَّ اَمْسَکَہُ بِفِیْہِ، حَتّٰی رَقِیَ فَسَقَی الْکَلْبَ، فَشَکرََ اللّٰہُ لَہُ فَغَفَرَ لَہُ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!وَاِنَّ لَنَا فِیْ الْبَہَائِمِ اَجْرًا ؟ فَقَالَ:فِیْ کُلِّ کَبِدٍرَطْبَۃٍ اَجْرٌ.([106]) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ: فَشَکَرَ اللّٰہُ لَہُ فَغَفَرَ لَہُ ،فَاَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ.([107]) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہُمَا:بَیْنَمَاکَلْبٌ یُطِیْفُ بِرَکِیَّۃٍ قَدْ کَادَ یَقْتُلُہُ الْعَطَشُ اِذاَ رَاتْہُ بَغِیٌّ مِنْ بَغَایَا بَنِیْ اِسرَائِیْلَ فَنَزَعَتْ مُوْقَہَا فَاسْتَقَتْ لَہُ بِہِ فَسَقَتْہُ فَغُفِرَ لَھَا بِہِ.([108])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’ایک دفعہ ایک آدمی کہیں جارہا تھا کہ اسے شدید پیاس لگی،اسے ایک کنواں ملا ،ا سں نے کنویں میں اترکر پانی پیا ،جب باہر آیا تو ایک کتا پیاس کی وجہ سے زبان باہر نکالے کھڑا تھا اور کیچڑ چاٹ رہاتھا ۔اس شخص نے کہا:اس کتے کو بھی اُسی طرح پیاس لگی ہے جس طرح مجھے لگی تھی۔ پس وہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، پھر اسےمنہ میں پکڑ کر کنویں سے باہر آگیا اور کتےکو پانی پلایا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس کے عمل کا اسے صلہ دیا اور اسے بخش دیا۔‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:’’یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!کیا جانوروں (کے ساتھ اچھا سلوک کرنے) میں بھی ہمارے لیے اجر ہے؟‘‘ارشادفرمایا:’’ہرترجگرمیں اجر ہے۔‘‘اور بخاری کی ایک روایت میں یوں ہےکہ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے
اسے ثواب دیا اور اس کی مغفرت فرماکر جنت میں داخل کردیا۔‘‘بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ’’ایک کتا کنویں کے گرد چکر لگارہا تھا، قریب تھا کہ پیاس کی شدت اسے ہلاک کردیتی اسی اثنامیں بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ عورت نےاسے دیکھ لیا اس نے اپنا موزہ اُتارااوراس سے پانی کھینچ کراس کتے کو پلادیا پس اسی وجہ سے اس کی مغفرت کردی گئی۔‘‘
عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ ذِی الْجَلَالفرماتے ہیں :’’اس حدیث پاک میں تمام مخلوق، مؤمن، کافر،جانور وں اورپرندوں پر رحم و نرمی کرنے پر ابھارا گیا ہےاوریہ اُن اَعمال میں سے ہے جن کی وجہ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ بندے کے گناہوں کو معاف کرتااورخطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ پس ہر عقل مند مسلمان کو چاہیے کہ وہ انسانوں اور تمام حیوانات کے ساتھ رحم دلی ونرمی سے پیش آئے کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی اورہرشخص سے اس کی ملکیت اور رَعِیَّت(ماتحتوں )کے بارے میں پوچھا جائے گا خواہ وہ انسان ہویاجانور، اگرچہ اپنا نہ ہو کیونکہ وہ اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے۔کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس کتے کو اس شخص نے جنگل میں پانی پلایا تھا وہ اس کا اپنا نہیں تھا مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس کی مغفرت فرمادی۔‘‘([109])
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’ہر جاندارکے ساتھ بھلائی کرنے پرثواب ہے خواہ پانی پلا کر ہو یا کسی اور طرح ۔حدیث میں زندہ جانور کو تر جگر والا کہا گیا ہے کیونکہ مردار کا جسم اور جگر خشک ہوجاتا ہے۔ پس اس حدیث میں ہر اس جانور کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر اُبھارا گیا ہے جسے مارنے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ہاں !جن کے قتل کا حکم دیا گیا ہے انہیں قتل کرنا ہی شریعت کی پیروی ہے۔حربی کافر،مرتداور فاسق جانور(یعنی،چوہا،کوا،بچھو،چیل،کاٹنےوالاکتا)اُنہیں قتل
کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔‘‘([110])
مُفَسِّرشَہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں : ’’ترکلیجے والے سے مراد ہر جاندار ہے مگر اِس سے مُوذی جانورمستثنیٰ ہیں ۔ لہٰذا سانپ،بچھو، شیروغیرہ کو ماردینا ثواب ہے۔اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے: (1)ایک یہ کہ (کبھی)گناہ کبیرہ بغیر توبہ (بھی)معاف ہوسکتے ہیں ۔ (2) دوسرے یہ کہ کبھی معمولی نیکی بڑے سے بڑے گناہوں کے بخشے جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ (3)تیسرے یہ کہ بعض صُوفیاء اپنے ہاں انسانوں کے لنگر کے ساتھ جانوروں کے دانے پانی کا بھی انتظام کرتے ہیں ، اُن کا ماخذ یہ حدیث ہے۔‘‘([111])
(1) مخلوق پر رحم کرنےکی وجہ سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ گناہوں کو بخش دیتاہے۔
(2) ہر جاندار سےبھلائی کرنےپرثواب ہے۔
(3) رحمتِ خدا وندی کی برکت سے بڑے بڑے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔
(4) بسا اوقات کوئی چھوٹی سی نیکی بھی بڑےگناہوں کو بخشوادیتی ہے۔
(5) ہرانسان سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
(6) رضا ئے الٰہی کے لیے جو بھی نیک کام کیا جائے وہ کبھی رائیگا ں نہیں جاتا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہےکہ وہ ہمیں اپنےمسلمان بھائیوں پرخوب شفقت کرنے اور ان کے ساتھ نرمی
سے پیش آنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے، نیز ہمیں جانوروں پر بھی رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
127راستےسےتکلیف دہ چیزہٹانےکی فضیلت
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَن النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَقَدْرَاَیْتُ رَجُلًا یَتَقَلَّبُ فِیْ الْجَنَّۃِ فِیْ شَجَرَۃٍ قَطَعَہَا مِنْ ظَہْرِ الطَّرِیْقِ کَانَتْ تُؤْذِی الْمُسْلِمِیْنَ.وَفِیْ رِوَایَۃٍ:مَرَّ رَجُلٌ بِغُصْنِ شَجَرَۃٍ عَلٰی ظَہْرِطَرِیْقٍ فَقَالَ: وَاللّٰہِ لَاُنَحِّیَنَّ ہَذَا عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ لَا یُؤْذِیْہِمْ فَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ.([112]) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہُمَا:بَیْنَمَارَجُلٌ یَمْشِیْ بِطَرِیْقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْکٍ عَلَی الطَّرِیْقِ، فَاَخَّرَہُ فَشَکَرَ اللّٰہُ لَہُ فَغَفَرَ لَہُ.([113])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مکہ مکرمہ، سردارِ مدینہ منورہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’بے شک!میں نےایک ایسے آدمی کوجنت میں سیرکرتے دیکھا جس نے اس درخت کو کاٹا تھا جو کہ راستے میں تھا اور مسلمانوں کی تکلیف کاباعث تھا ۔‘‘اورایک روایت میں یوں ہے:’’ایک آدمی ایسے راستے سے گزراجس پر ایک خار دار شاخ تھی۔ وہ کہنے لگا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم میں اسے مسلمانوں کے راستے سے ہٹا دوں گا تاکہ مسلمانوں کو تکلیف نہ دے۔پس(اسی وجہ سے) اسے جنت میں داخل کر دیا گیا۔‘‘ بخاری ومسلم کی ایک روایت میں یوں ہے: ’’ایک آدمی کہیں جا رہا تھا ، راستے میں اسے ایک کانٹےدار شاخ ملی تو اس نے اس شاخ کو راستے سے ہٹا دیا، پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاسے اس کا اجر عطا فرمایا اوراس کی مغفرت فرما دی۔‘‘
عَلَّامَہ مُلَّاعَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’یعنی اس شخص کو جنت میں بڑے ناز سےچلتے
ہوئےاورجنت کی نعمتوں سے لطف اندوزہوتے ہوئے دیکھاکیونکہ اس نے اس درخت کو کاٹ دیا تھا جولوگوں کےلیےتکلیف کاباعث تھا۔اس حدیث میں مُوذِی جانوروں کےقتل کرنے اورتکلیف دہ اشیا کو دور کرنے کی بھر پور ترغیب ہےخواہ وہ تکلیف کسی بھی وجہ سے ہو۔‘‘([114])
اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد بِنْ عَبْدُاللّٰہ طِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’وہ درخت بیچ راستے میں تھاکنارے پر نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ اس شخص کو اچھی نیت کی وجہ سے ہی جنت میں داخل کر دیا گیا ہواور اس نے درخت کاٹا نہ ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ کاٹ دیا ہو ۔ اس درخت کو تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے کاٹا گیا جیسا کہ لَا یُؤْذِیْھِمْسے معلوم ہو رہاہے۔‘‘([115])
علّامہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتےہیں :’’اس حدیث میں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کی فضیلت ہےاوریہ ایمان کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔اوراس حدیث میں ہر اس کام کی فضیلت ہے جو مسلمانوں کو نفع پہنچائے اوران سے تکلیف دور کرے۔‘‘([116])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’یعنی وہ درخت خاردارتھا یا بے خار۔ اس کی جڑ راستہ کے کنارہ پر تھی مگر شاخیں راستہ پر پھیلی ہوئی تھیں ، اس نے تکلیف دور کرنے کے لیے اسے جڑ سے ہی اکھیڑ دیا تاکہ آئندہ بھی شاخیں نہ پھیل سکیں اگر یہ درخت اس کی اپنی ملکیت تھا یا خود روتھا تب تو اس کے کاٹ دینے اور اس کی لکڑی گھر لے جانے پر کچھ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اگر کسی غیر کی ملکیت تھا تو اس نے فقط دفع ایذا ء کے لیے کاٹ دیا ہوگا اس کی لکڑی پر قبضہ نہ کیا ہو گا۔ اس صورت میں اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوگا کہ مُوذی(ایذاء دینے والی) چیز کو ختم کردینا جائز ہے اگرچہ دوسرے کی ملکیت ہو۔دیوانہ کتا جو کسی کا پالتو تھا،سرکس والوں کا بھاگا ہوا شیر، سپیروں کا چھوٹا ہوا
سانپ ماردیئے جائیں ۔راستے میں کھودا ہواکنواں پاٹ دیا جائے،اس میں مالک کی اجازت کی ضرورت نہیں ۔ حضورِانور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نے اسے جنت میں یا شب معراج میں دیکھا یا نماز ِکسوف میں جب آپ پر جنت پیش کی گئی یا عام حالت میں ۔‘‘([117])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقیناًسمجھدار وہی ہے جو اپنی مختصر سی زندگی میں جنت میں لے جانے والے اعمال کو بجالائے اور جہنم میں لے جانے والے اعمال سے بچے۔جنت میں لے جانے والے اعمال اور جہنم میں لے جانے والے اعمال کی تفصیلی معلومات کے لیے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ان دو کتب ’’جنت میں لےجانے والے اعمال‘‘ اور ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ کا مطالعہ فرمائیے۔
اللہ کی رحمت سے تو جنت ہی ملے گی
اے کاش محلے میں جگہ اُن کے ملی ہو
(1) اچھی نیت جنت میں داخلے کاسبب ہے۔
(2) کامل مسلمان تکلیف دہ اشیا کو دور کرنے کی بھر کوشش کرتا ہے۔
(3) راستے سے تکلیف دہ چیزہٹانابھی ایمان کاحصہ ہے۔
(4) راستے کی موذی چیز کو ہٹادینا جائز ہے اگرچہ کسی اور کی ملکیت ہو۔
(5) حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے جنتی احوال بھی ملاحظہ فرماتے ہیں ۔
(6) آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نہ صرف جنتیوں کے احوال کو ملاحظہ فرماتے ہیں بلکہ بعطائے الٰہی جنتیوں کے جنت میں جانے کے اَسباب کو بھی جانتے ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جنت میں لے جانے والے اَعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جہنمیوں والے اَعمال سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری حتمی مغفرت فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:128
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَوَضَّاَ فاَحْسَنَ الْوُضُوۡ ءَ، ثُمَّ اَتَی الْجُمُعَۃَ، فَاسْتَمَعَ وَاَنْصَتَ، غُفِرَ لَہُ مَابَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ وَزِیَادَۃُ ثَلَاثَۃِ اَیَّام، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَا فَقَدْ لَغَا.([118])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’جووضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے آئے اور خطبہ سنے اور خاموش رہے تو اس کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور مزید تین دن کے گناہ بھی اور جو کنکریوں کو چھوئے تو اس نے لغو کام کیا۔‘‘
مرآۃ المناجیح میں ہے:’’چونکہ اس( جمعہ کے )دن میں تمام مخلوقات وجودمیں مجتمع ہوئی کہ تکمیلِ خلق اِسی دن ہوئی۔نیز حضرت آدم(عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)کی مٹی اسی دن جمع ہوئی،نیز اس دن میں لوگ نمازِ جمعہ جمع ہوکر ادا کرتے ہیں اِن وجوہ سے اسے جُمُعہ کہتے ہیں ۔اسلام سے پہلے اہل عرب اسےعَرُوْبَہکہتے تھے۔نماز جمعہ فرض ہے۔شعار اسلام میں سے ہے۔اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے مگر اس کی فرضیت
کے لیے کچھ شرائط ہیں ۔چنانچہ یہ نماز مسلمان، مرد، عاقل، بالغ، آزاد، تندرست، شہری پر فرض ہے، اس کی ادا کے لیے جماعت،آزاد،جگہ،شہراور خطبہ شرط ہیں ۔ گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہیں ہے۔‘‘([119])
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’حدیثِ مذکورمیں اشارہ ہے کہ ( جمعہ ) کے دن غسل کرنا سنت ہے واجب نہیں اور وضو کرنے سے مراد سنن و مستحبات کا لحاظ رکھتے ہوئے کامل وضوکرنا ہے۔‘‘([120])
شرح مسلم میں ہے:’’جس نے کسی کنکری کوچھوا تو اس نے لغو کام کیا ۔‘‘اس فرمان عالی میں خطبہ سننے کی حالت میں کنکریاں اورہر بیکار و بے فائدہ چیز کو چھو نے سے منع کیاگیا ہےاور اس طرف اشارہ ہے کہ دل اور تمام اَعضاءکی توجہ خطبہ کی طرف ہونی چاہیے۔یہاں لغو سے مراد باطل مذموم اور مَردُود چیزیں ہیں ۔‘‘([121])
شیخ عبد الحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’دورانِ خطبہ کنکریوں سے کھیلنا لغو و باطل ہے کیونکہ ان کی وجہ سے بندہ خطبہ سننے سے غافل ہو جاتا ہے جیسا کہ گفتگو غفلت کا باعث بنتی ہے۔ کنکریاں چھو نے سےمراد ان سے کھیلنا یا بِلا ضرورت انہیں زمین پر ہموار کرناہے۔بعض نے کہا کہ اس سے مرادکنکریوں کو گھمانا اوربطور ِتسبیح استعمال کرنا ہے۔‘‘([122])
مُفَسِّر شہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’(ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں )دوسرے جمعہ سے مراد آئندہ جمعہ ہے یا گذشتہ ۔دوسرے معنیٰ زیادہ قوی ہیں جیسا کہ ابن خُزیمہ بلکہ ابو داؤد کی روایا ت میں ہے۔معلوم ہو اکہ بعض نیکیاں گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں ۔ ربّ تعالٰی فرماتا ہے:( اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِؕ-)بعض
علماءفرماتے ہیں کہ غسل جمعہ نماز کے لیے مسنون ہے نہ کہ دنِ جمعہ کے لیے۔ لہٰذاجس پر جمعہ کی نمازنہیں ان کے لیے غسل سنت نہیں ،ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔بعض فرماتے ہیں کہ جمعہ کا غسل نمازِ جمعہ سے قریب کرو حتی کہ اس کے وضو سے جمعہ پڑھو۔مگر حق یہ ہے کہ غسلِ جمعہ کا وقت طلوعِ فجر سے شروع ہوجاتا ہے۔(اور مزید تین دن کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں )یعنی دس دن کے گناہ کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔جتنا خشوع زیادہ، اتنا ثواب زیادہ یا اولًا آٹھ دن کی بخشش کا وعدہ تھا پھر دس دن کا وعدہ ہوا۔‘‘([123])
(1)’’جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک سب سے بڑا ہے۔ اوروہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک عیدالاضحیٰ وعیدالفطر سے بڑاہے،اس میں پانچ خصلتیں ہیں :٭اللہ عَزَّوَجَلَّ نےاسی میں حضرت سَیِّدُنَاآدم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پيدا کیا۔٭اور اسی میں زمین پر انہيں اتارا۔٭اور اسی میں انہيں وفات دی۔٭اور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا سوال کرے وہ اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔ ٭اور اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مقرب فرشتہ، آسمان و زمین اور ہوا اور پہاڑ اور دریا ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن سے نہ ڈرتا ہو۔‘‘([124])(2)’’جمعہ کے دن جس ساعت کی خواہش کی جاتی ہے اسے عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔‘‘([125])(3)’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کسی مسلمان کو جمعہ کے دن بے مغفرت کیے نہ چھوڑے گا۔‘‘([126]) (4)’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا، عذاب قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی۔‘‘([127])(5)’’جو مسلمان مرد یا مسلمان عورت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے،عذابِ قبراورفتنۂ
قبر سے بچا لیا جائے گااورخدا عَزَّ وَجَلَّسے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کچھ حساب نہ ہوگااور اس کے ساتھ گواہ ہوں گے یا مُہر ہوگی۔‘‘([128]) (6) ’’جمعہ کی رات روشن رات ہے اور جمعہ کا دن چمکدار دن۔‘‘([129])(7)”جو جمعہ کے دن نہائے اور جلدی آئے اور شروع خطبہ میں شریک ہو اور پیدل آئے، سواری پر نہ آئے اور امام سے قریب ہو اور کان لگا کر خطبہ سُنے اور لغو کام نہ کرے، اس کے ليے ہر قدم کے بدلے سال بھر کا عمل اورایک سال کے دنوں کے روزے اور راتوں کے قیام کا اجر ہے۔‘‘([130])(8)’’جو جمعہ کے دن نہائے اس کے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور جب چلنا شروع کرے تو ہر قدم پر بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔‘‘اور دوسری روایت میں ہے:’’ہر قدم پر بیس سال کاعمل لکھا جاتا ہے اورجب نمازسے فارغ ہوتو اسےدوسو برس کے عمل کا اجر ملتا ہے۔‘‘([131])
(1) نمازِ جمعہ فرض ہے،شعارِ اسلام میں سے ہےاوراس کی فرضیت کاانکارکرنےوالا کافر ہے۔
(2) دورانِ خطبہ بات چیت کرناحرام ہے۔
(3) غسل جمعہ نمازِ جمعہ کے لیے مسنون ہے، نہ کہ جمعہ کے دن کے لیے۔
(4) جوشخص جمعہ کے دن غسل کرتاہے اس کے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں ۔
(5) جمعہ تمام دنوں کاسردار ہے۔
(6) جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو انتقال کرے گا اسے عذاب قبر سے بچالیا جائے گا۔
(7) جمعہ کے روز مرنےوالابغیرحساب جنت میں داخل ہوگا۔
(8) جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت بھی ہے کہ بندہ اس ساعت میں جو مانگے اسے عطا کیا جاتا ہے بشرطیکہ حرام کا سوال نہ کرے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خشوع وخضوع کے ساتھ نماز جمعہ اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:129
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرۃََ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِذَا تَوَضَّاَالْعَبْدُالْمُسْلِمُ اَوِ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْہَہُ خَرَجَ مِنْ وَجْہِہِ کُلُّ خَطِیْئَۃٍ نَظَرَ اِلَیْہَا بِعَیْنِہِ مَعَ الْمَاءِ،اَ وْمَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، فَاِذَا غَسَلَ یَدَیْہِ خَرَجَ مِنْ یَدَیْہِ کُلُّ خَطِیْئَۃٍ کَانَ بَطَشَتْہَا یَدَاہُ مَعَ الْمَاءِ،اَوْمَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ، فَاِذَا غَسَلَ رِجْلَیْہِ خَرَجَتْ کُلُّ خَطِیْئَۃٍ مَشَتْہَارِجْلَاہُ مَعَ الْمَاء ِ اَ وْمَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاء ِ حَتّٰی یَخْرُجَ نَقِیًّا مِنَ الذُّنُوْبِ.([132])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:’’جب کوئی مسلمان یا مؤمن بندہ وضو کرتا ہے اوراپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے كے وہ تمام گناہ جو اس نے آنکھوں سے کیے تھے، پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں ،پھر جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کےوہ تمام گناہ جو کسی (ناجائزچیز ) کو پکڑ نے کے ذریعے کیے تھے پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں ،پھرجب وہ اپنے پاؤں دھوتاہےتوپاؤں سےجن گناہوں کی طرف چل کر گیا وہ تمام گناہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک وصاف ہو جاتا ہے۔‘‘
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’یہاں خطاء سے مراد صغیرہ گناہ ہیں نہ کہ کبیرہ،جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ(اس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں )جب تک وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ ہو۔‘‘قاضی عیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: ’’گناہ جھڑنے سے مراد گنا ہوں کا معاف ہونا ہے کہ گناہ کوئی جسم نہیں رکھتے کہ جن کا نکلنا مُتَصَوَّر ہو ،یہاں مجازاً کلام کیا گیا ہےنہ کہ حقیقتاً۔‘‘([133])
اس حدیث کو موطا امام مالک میں مزید وضاحت کے ساتھ اس طرح ذکر کیا ہےکہ’’کلی کرتے وقت منہ سے گناہ نکلیں گے، ناک صاف کرتے وقت ناک سے گناہ نکلیں گےاورچہرہ دھوتے وقت چہرے کے وہ تمام گناہ نکل جائیں گے جن کی طرف آنکھ سے دیکھا تھا،یہاں تک کہ پلکوں کے نیچےسے بھی، ہاتھ دھوتے وقت ہاتھ کے ساتھ ناخُنوں کے نیچے کے گناہ بھی نکل جائیں گے اور سر کا مسح کرتے وقت سر کےگناہ نکل جائیں گے،یہاں تک کے کانوں سے بھی اور پاؤں دھوتے وقت پاؤں کے ساتھ پاؤں کے ناخُنوں کے گناہ بھی نکل جائیں گے۔‘‘([134])
عَلَّامَہ مُلَّاعَلِی قَارِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’ابن ملکرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےفرمایا:وضو کرنے والاوضو کرتے ہی ان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہےجو اعضاء ِوضو کے ذریعے کیے تھے۔‘‘([135])
اس حدیث سے ثابت ہورہاہے کہ وضو کرنے والے کے صرف اعضائے وضو کے گناہ معاف ہوتے ہیں جبکہ حضرت سَیِّدُنَاعثمان غنیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہوالی حدیث میں سارے گناہوں کی معافی کا بیان ہے جس کے
الفاظ کچھ یوں ہیں : ’’جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا اس کے سارے جسم کے گناہ نکل جاتے ہیں ، حتی کہ ناخنوں کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں ۔‘‘([136]) ان دونوں میں مطابقت کچھ اس طرح ہو گی کہ جب بسم اللہ پڑھ کر وضو کیا جائے تو سارا بدن پاک ہو جاتا ہے اور بغیر بسم اللہ کے وضو کیا جا ئے تو صرف وہ ہی اعضاء پاک ہوں گے جو وضو میں دھلے ہوں گے۔([137])
حدیث پاک میں چہرے کے ساتھ بطور خاص فقط آنکھ کا ذکر فرمایا گیا دیگر اعضا ء کا ذکر نہیں کیا گیا، شارحین کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے اس کی چندوجوہات بیان فرمائی ہیں :(۱) اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ چونکہ آنکھ دل کی جاسوس اور رہنماہے، جب اس کا ذکر کر دیا تو اب کسی اور عضو کے ذکر کرنے کی حاجت نہ رہی ۔ (۲)دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ وہم ہو سکتا تھا کہ وضو سے آنکھ کے گناہ معاف نہیں ہوں گے کیونکہ وضومیں آنکھ کا اندورونی حصہ نہیں دھویا جاتا ، لہٰذا آنکھ کے گناہ معاف ہونے کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔(۳)تیسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ د یگر تمام اعضاء کی اپنی اپنی طہارت ہے جیسے ناک کی طہارت اس میں پانی ڈالنا ، منہ کی طہارت کلی و غرغرہ کرنا ، کانوں کی طہارت ان کا مسح کرنا وغیرہ لیکن آنکھوں کی علیحدہ سے کوئی طہارت نہیں اس لیےانہیں چہرے کے ساتھ ذکرکردیا۔([138])
د لیل الفالحین میں ہے : وضو کی وجہ سے اعضائے وضو کے گناہ نکل جاتے ہیں ۔یعنی وہ صغیرہ گناہ نکل جاتے ہیں جن کا تعلق حقوقُ اللہ سے ہے۔علامہ قرطبی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ’’یہ عبارت بطور اِستعارہ استعمال کی گئی ہے اور گناہ نکلنے سے مقصود گناہوں کو مٹانے اور ختم کرنے کا اعلان کرنا ہےورنہ گناہ
کوئی جسم نہیں رکھتے کہ ان کا جسم سے نکلنا درست ہو۔‘‘
علامہ ابن عربیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’میں کہتا ہوں :’’ظاہر یہ ہےکہ اس عبارت کوحقیقی معنیٰ پر رکھاجائے کیونکہ گناہ ظاہروباطن کوسیاہ کرنے میں اثررکھتے ہیں اوراللہ عَزَّ وَجَلَّکے نیک بندے اصحابِ کشف و احوال اس پر مطلع بھی ہو جاتے ہیں اور وضو اس اثر ( گناہوں کی سیاہی)کو زائل کر دیتا ہے۔‘‘ پھر علامہ ابن عربیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے حجرِ اسودوالی حدیث بطور دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا: ’’مشرکین کے گناہوں کے اثر سے حجر اسود کا رنگ سیاہ ہو گیا ،تو جب گناہوں کا اثر حجرِ اسود پر ہو رہا ہے تو گناہ کرنے والے پر ان کا اثر بدرجہ اولیٰ ہو گا۔ یا پھر گناہ نکلنے سے مراد یہ ہے کہ گناہوں کی سیاہی نکل جاتی ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ عالَم مثال کے اعتبار سےگناہ بذاتِ خودجسم ہے عرض([139])نہیں کیونکہ جو چیز اس عالَم میں عرض ہے اس کےلیے عالَم مثال میں جسم وصورت ہے۔‘‘([140])
اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نیک بندے وضو کے ذریعے جھڑنے والے گناہوں کو دیکھ لیتے ہیں ۔اس ضمن میں ایک ایمان افروز حکایت ملاحظہ فرمائیے۔حضر ت سَیِّدُنَاعلامہ عبد الوہاب شعرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : ’’ایک مرتبہ سَیِّدُنَا امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جامع مسجد کوفہ کے وضو خانہ میں ایک نوجوان کو وضو کرتے دیکھا۔توفرمایا :اے بیٹے! ماں با پ کی نافرمانی سے توبہ کرلے ۔اس نے فوراًعرض کی:میں نے توبہ کی۔ایک اور شخص کے وضو ( میں استعمال ہونے والے پانی )کے قطرے ٹپکتے دیکھےتو اس سےفرمایا:اے میرے بھائی! تو بدکاری سے توبہ کرلے۔ اس نے عرض کی:میں نے توبہ کی۔ایک اور شخص کے وضو کے قطرات ٹپکتے دیکھے تو فرمایا:شراب نوشی اور گانے باجے سننے سے توبہ کرلے ۔اس نے عرض کی :میں نے توبہ کی۔ چونکہ کشف کے باعث آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر لوگوں کے عیوب ظاہر ہو جاتے تھے لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہنے بارگاہِ خداوندی عَزَّ وَجَلَّ میں اس کشف کے ختم ہو جانے کی دعا مانگی جو قبول ہوئی اور پھر آپ کو وضو کرنے والوں کے گناہ جھڑ تے نظر آنا بند ہو گئے۔‘‘([141])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کبیرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’اگرچہ انسان کان ،ناک ،منہ سب سے گناہ کرتا ہے مگر زیادہ گناہ آنکھ سے ہوتے ہیں جیسے اجنبی عورت یا غیر کا مال ناجائز نگاہ سے دیکھنا، اس لیے صرف آنکھ کا ذکر فرمایا۔ ورنہ اِنْ شَآءَ اللہ(عَزَّ وَجَلَّ)چہرے کے ہر عضو کے گناہ منہ دھوتے ہی معاف ہوجاتے ہیں ۔چلنے سے مراد ناجائز مقام پر جانا ہے خیال رہے کہ یہاں صرف ان اَعضاء کے گناہوں کی ہی معافی مراد نہیں بلکہ سارے گناہ مراد ہیں حتی کہ دل و دماغ کے بھی گناہ، اِن اَعضاء کا ذکر اس لیے ہے کہ زیادہ گناہ اِنہیں سے صادر ہوتے ہیں ۔‘‘([142])
(1)”قیامت کے دن میری اُمَّت اس حالت میں بلائی جائے گی کہ ان کے منہ اور ہاتھ،پاؤں آثارِ وُضوسے چمکتے ہوں گے تو جو چمک زیادہ کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔“([143])(2)”جو مسلمان وُضو کرے اور اچھا وُضو کرے پھر کھڑا ہو اور باطن و ظاہرسے متوجہ ہو کر دو رکعت نماز پڑھے اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔“([144]) (3)”تم میں سے جو کوئی وُضو کرے اور کامل وُضو کرے پھر پڑھے:اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗتواس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جس دروازے سے چاہے داخِل ہو۔“([145]) (4)’’جو شخص وُضو پر وُضو کرے
اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔“([146]) (5)”جس نے بسم اللہ کہہ کر وُضو کیا ،سر سے پاؤں تک اس کا سارا بدن پاک ہو گیا اور جس نے بغیر بسم اللہ وُضو کیا اس کا اتنا ہی بدن پاک ہو گا جتنے پر پانی گزرا۔“([147])
(1) وضوسے ظاہری اور باطنی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔
(2) بسم اللہپڑھ کر وضوکرنے سے سارے بدن کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔
(3) اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نیک بندوں پر عام لوگوں کے مختلف احوال منکشف ہوتے ہیں ۔
(4) وضو کے استعمال شدہ پانی سے مسجد اورکپڑوں کو بچاناچاہیےکیونکہ وہ گناہ لے کر نکلتے ہیں ۔
(5) لوگوں کے عیبوں پر مطلع ہونے کی خواہش سے بچنا چاہیے۔
(6) کل بروز ِقیامت اَعضاءِ وضو چمکتے ہوں گے۔
(7) کامل وضو کے بعد جو شخص مکمل کلمہ شہادت پڑھے اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، وہ جس سے چاہے داخل ہوجائے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھی طرح وضو کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں وضو کی برکات سے مالامال فرمائے اور ہمارے تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسلَّمَ قَالَ:اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِ، وَرَمَضَانُ اِلَی رَمَضَانَ مُکَفِّرَاتٌ لِمَا بَیْنَہُنَّ اِذَا اجْتُنِبَتِ الْکَبَائِرُ. ([148])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللہصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’پانچ نمازیں اورایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اورایک رمضان دوسرے رمضان تک یہ اپنے درمیان میں ہونے والے گناہوں کو مٹانے والے ہیں جب تک کبائر سے اجتناب کیا جائے ۔ ‘‘
شیخ عبدالحق محدِّ ثِ دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں :’’یعنی مذکورہ نیک اَعمال درمیانی عرصے میں واقع ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں ، انہیں چھپالیتے ہیں اور مٹادیتے ہیں ۔جبکہ کبیرہ گناہ نہ توان نیکیوں سے چھپتے ہیں ، نہ معاف ہوتے ہیں بلکہ ان کے لیے توبہ درکارہے۔ ہاں صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں جب کہ ان سے حقوق العباد متعلق نہ ہوں ۔علمائےکرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا:ان نیکیوں پر استقامت اور باربار دہرانے سے صغیرہ گناہوں کی بخشش کے بعد کبیرہ گناہوں میں بھی تخفیف ہوجاتی ہے اور اگر بندہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بالکل محفوظ ہوتو یہ نیک اعمال اس کے لیےبلندیٔ درجات کا سبب بن جاتے ہیں ۔‘‘([149])
دلیل الفالحین میں ہے: ’’جمہورعلمائے کرامرَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامفرماتے ہیں : اَعمالِ صالحہ کبیرہ گناہوں کو نہیں مٹاتےکیونکہ کبیرہ گناہ توبہ یا فضل الٰہی سے معاف ہوتے ہیں جبکہ صغیرہ گناہ اِجتنابِِ کبائر سے معاف
ہوجاتے ہیں تو نمازوں اوردیگر نیک اعمال کے سبب کیا چیز معاف ہوگی؟اس کا جواب دیتے ہوئے امام بلقینی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں : لوگوں کی چنداقسام ہیں :(1)بعض وہ خوش نصیب ہیں جن کے گناہ ہی نہیں ہوتےتومذکورہ نیک اعمال ان کے لیے بلندیٔ درجات کا سبب ہیں ۔(2)بعض وہ ہیں جن کے صغیرہ گناہ ہیں لیکن وہ ان پراصرار نہیں کرتےتو ایسوں کے صغیرہ گناہ محض اجتنابِ کبائرہی سےمعاف ہوجاتے ہیں بشرطیکہ ایمان پر خاتمہ نصیب ہو۔(3)بعض وہ ہیں جو صغیرہ گناہوں پر اصرار کرتے ہیں توایسوں کے گناہ اعمالِ صالحہ کے سبب معاف ہوجاتے ہیں ۔(4)بعض وہ ہیں جن کےصغیرہ گناہ بھی ہیں اور کبیرہ بھی تو اَعمالِ صالحہ کی بدولت ایسوں کے صغیرہ گناہ ہی معاف ہوجاتے ہیں ۔(5)بعض وہ ہیں جن کے پاس فقط کبیرہ گناہ ہوتے ہیں تواَعمالِ صالحہ کی بدولت صغیرہ گناہوں کی مقدار کے مطابق کبیرہ گناہ معاف ہو جاتےہیں ۔‘‘([150])
مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمدیارخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :’’یعنی نماز پنجگانہ روزانہ کے صغیرہ گناہ کی معافی کاذر یعہ ہے۔اگر کوئی ان نمازوں کے ذریعہ گناہ نہ بخشوا سکا تونمازِ جمعہ ہفتہ بھر کے گناہِ صغیرہ کاکفارہ۔ اگر کوئی جمعہ کے ذریعہ بھی گناہ نہ بخشواسکاکہ اُسےاچھی طرح ادانہ کیا تورمضان سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے۔لہٰذا اس حدیث پریہ اعتراض نہیں کہ جب روزانہ کے گناہ پنجگانہ نمازوں سے معاف ہو گئےتوجمعہ اوررمضان سے کون سے گناہ معاف ہوں گے۔خیال رہے کہ گناہِ کبیرہ جیسےکفروشرک، زنا، چوری وغیرہ یوں ہی حقوقُ العبادبغیرتوبہ و اَدائے حقوق معاف نہیں ہوتے۔خیال رہے کہ جواَعمال گنہگاروں کی معافی کاذریعہ ہیں وہ نیک کاروں کی بلندئ درجات کا ذریعہ ہیں ۔ چنانچہ،معصومین اورمحفوظین نمازکی برکت سے بلند درجے پاتے ہیں ،لہٰذاحدیث پریہ اعتراض نہیں کہ پھرچاہیے کہ نیک لوگ نمازیں نہ پڑھیں کیونکہ نمازیں گناہوں کی معافی کےلیے ہیں وہ پہلے ہی سے بے گناہ ہیں ۔‘‘([151])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) کبیرہ گناہ توبہ سےیا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےفضل سےمعاف ہوتے ہیں ۔
(2) اَعمالِ صالحہ کی برکت سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔
(3) گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے نیک اَعمال بجالانا بلندئ درجات کا سبب ہے۔
(4) نیکیوں کی برکت سےگناہوں کے معاف ہونےکاتعلق اِیمان پرخاتمے کے ساتھ ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے صغیرہ وکبیرہ گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:131
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَرَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلَا اَدُلُّکُمْ عَلَی مَا یَمْحُواللّٰہُ بِہ ِالْخَطَایَا وَیَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ؟ قَالُوْا:بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!قَالَ:اِسْبَاغُ الْوُضُوْ ءِعَلَی الْمَکَارِہِ،وَکَثْرَۃُ الْخُطَا اِلَی الْمَسَاجِدِ،وَاِنْتِظَارُالصَّلَاۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ، فَذَ الِکُمُ الرِّبَاطُ.([152])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوہریرہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےروایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:’’کیامیں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جس کے ذریعے اللہ عَزَّ وَجَلَّ خطاؤں کومٹاتا اور درجات بلند فرماتا ہے؟‘‘صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننےعرض کی:’’جی ہاں ! کیوں نہیں یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !‘‘آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:’’مَشقّت کے وقت کامل وضو کرنا،مساجد کی
طرف قدموں کی کثرت کرنا، ایک نماز کے بعد دوسری نمازکا انتظار کرنااور تمہارے لیے یہی رِباط ہے۔‘‘
حضرتِ سَیِّدُناقاضی عیاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا:’’ گناہوں کا مٹنامغفرت سے کِنَایہ ہے اوریہ بھی احتمال ہےکہ اس سے مراد نامۂ اَعمال سے خطاؤں کا مٹانا ہو۔‘‘([153])
مرآۃ المناجیح میں ہے:’’خطاؤں سےمرادگناہ صغیرہ ہیں ، نہ (کہ)کبیرہ، نہ (ہی)حقوق العباد،مَحْوسے مراد ہےبخش دینایانامۂ اعمال سے ایسا مِٹادینا کہ اس کا نشان باقی نہ رہے۔درجوں سے مراد جنت کے درجے ہیں یادنیا میں ایمان کے درجے۔(مَشَقَّت کے وقت کامل وضو کرنا )اس سے مراد سردی یا بیماری یا پانی کی گِرانی کا زمانہ ہے یعنی جب وضو مکمل کرنا بھاری ہو تب مکمل کرنا۔(مساجد کی طرف قدموں کی کثرت) اس لیےکہ گھرمسجدسےدورہویاقدم قریب قریب ڈالے۔مطلب یہ ہے کہ ہروقت نماز مسجدمیں پڑھنا، نمازکہ علاوہ وعظ وغیرہ کے لیے بھی مسجد میں حاضری دینا مُوجِب ثواب ہے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ خواہ مخواہ قریب کی مسجد چھوڑ کردُورجاکرنماز پڑھے۔‘‘([154])
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:’’کثرت سے چلناعام ہے۔ چاہے مسجد سے گھر کی دوری کے سبب ہو یاپھر چھوٹے چھوٹےقدم چلنےکی وجہ سے ہواورمسجدکی طر ف جانا، چاہے نماز کےلیے ہو یا پھر دیگر عبادات کےلیے۔‘‘([155])(دونوں صورتوں میں ثواب پائے گا۔)
دلیل الفالحین میں ہے:’’(نماز کا انتظار کرنا) باجماعت یامنفردنماز ادا کرنے کے بعد اگلی نماز کے وقت کایاجماعت کاانتظارکرتارہے۔چاہےمسجد میں بیٹھ کریاگھرمیں یا بازار میں یا کسی اور کام کاج میں
مشغول رہے اور اس کا دل مسجد میں لگا ہواوراسے نماز کی فکر ہویہی دائمی حضورِ قلبی ہے۔‘‘([156])
اشعۃ اللمعات میں ہے:’’اصل میں دشمنانِ دین کو اسلامی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیےاسلامی سرحدوں کی حفاظت ونگہداشت کرنا رِباط کہلاتا ہے ۔یونہی مسلمانوں کا اسلامی سرحدات پر پہرہ دینے کی غرض سے بیٹھنا،اپنے گھوڑوں اوراپنےدلوں کو چوکس رکھنابھی رِباطکہلاتاہے۔تونمازکے انتظارمیں مسجد میں بیٹھنا سر حدِشیطان پر اور اس کے لشکر کے مقابل بیٹھنےکے مشابہ ہے تاکہ وہ دخل نہ دے سکیں اور(رِباط) کا ایک معنیٰ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرمان مذکورہ تینوں اَعمال کی طرف اشارہ ہو۔کیونکہ یہ تینوں اَعمال،شیطان کی راہ میں رُکاوٹ بنتے اورخواہشاتِ نفسانی کو مغلوب کردیتے ہیں ۔‘‘([157]) (اسی لیے انہیں رِباط کہا گیا ہو۔)
(1)تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے عشاء کی نماز کو آدھی رات تک مؤخر فرمایا، پھر نمازِ عشاء اَدا کرنے کے بعد صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکی طرف رُخِ اَنور پھیر کر فرمایا:’’لوگ نماز پڑھ کر سو گئے لیکن تم جب سے نماز کا انتظار کررہے تھے نماز ہی میں تھے۔‘‘([158])(2)حضرتِ سَیِّدُنَا عبد اللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ ہم نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَروَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ نمازِمغرب پڑھی،نماز کے بعد جانے والے چلے گئے اور جسے وہیں بیٹھنا تھا وہ دوسری نماز کا انتظار کرنے لگا۔ پھر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجلدی سے تشریف لائے اور فرمایا: ’’تمہیں خوشخبری ہو! تمہارے ربّعَزَّ وَجَلَّنے آسمانوں کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کھول دیا ہے
اورفرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے:میرے ان بندوں کودیکھوجنہوں نے ایک فرض ادا کرلیا اور دوسرے کے انتظار میں ہیں ۔‘‘([159]) (3)’’ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنے والا اس شہسوار کی طرح ہےجس نے اپنا گھوڑا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں باندھا اور یہ شخص اس گھوڑے کے پہلو سے ٹیک لگائے بیٹھا ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فرشتے اس پر سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ کلام نہ کرے یا اپنی جگہ سے نہ اُٹھے۔‘‘([160])(4)’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک نماز میں ہی ہوتاہے جب تک نماز اُسے روکے رکھتی ہے (یعنی وہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے) اور اس کے اپنی جگہ سے اٹھنے یا گفتگوکرنے تک ملائکہ عرض کرتے رہتے ہیں : ’’اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی مغفرت فرما،اس پر رحم فرما اور اس کی توبہ قبول فرما۔‘‘([161])
(1) جس نیک کام میں مشقت زیادہ ہوتی ہےاس کااجر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتاہے۔
(2) نیک اَعمال سے ایمان میں ترقی ہوتی ہےاور جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں ۔
(3) نماز کے انتظارمیں مسجد میں بیٹھنا گناہوں سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
(4) اپنے بندوں کے نیک اعمال پر ربّعَزَّ وَجَلَّ فرشتوں کے سامنے فخرفرماتا ہے۔
(5) نماز کے انتظار میں بیٹھنے والوں کے لیے فرشتے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نماز کے انتظار جیسی عظیم سعادت کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:132
عَنْ اَبِیْ مُوسَی الاَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَلَّی الْبَرْدَیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ. ([162])
(قَالَ النَّوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی) اَلْبَرْدَانِ:اَلَصُّبْحُ وَالْعَصْرُ.
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوموسیٰ اَشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےمروی ہےکہ رسول کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’جس نےدوٹھنڈی نمازیں پڑھیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
علامہ نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’دو ٹھنڈی نمازوں سے مراد فجر اورعصر کی نمازہے۔‘‘
دلیل الفالحین میں ہے:’’دو ٹھنڈی نماز وں سےمرادفجروعصر کی نمازیں ہیں ۔ جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں فجر وعصر کے الفاظ موجود ہیں ۔‘‘اما م خطابی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھادِی فرماتے ہیں :’’چونکہ یہ دونوں نمازیں دن کے ٹھنڈے اوقات میں پڑھی جاتی ہیں ۔ان اوقات میں ہوا خوشگوار ہوتی ہےاورگرمی کی شدّت ختم ہوجاتی ہےاس لیے ان نمازوں کوٹھنڈی نمازوں سےتعبیرکیا گیا۔‘‘
عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’ان دونمازوں کو بطور خاص ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ فجر کاوقت میٹھی نیند کاوقت ہےاورعصرکا وقت کام کاج وتجارت کے اختتام اور رات کےکھانے کی تیاری کا وقت ہوتا ہے۔ان تمام مشغولیت کے با وجود اس کا نماز ادا کرنا سستی سے دوری اور عبادت سے محبت پر دلیل ہے اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ دوسری نمازیں بھی پابندی سے ادا کرےگا کیونکہ جب وہ اتنی مشغولیت کے باوجود یہ نمازیں ادا کر رہا ہے تو بقیہ نمازوں کی ان سے بھی زیادہ حفاظت کرے گا ۔‘‘ایک قول یہ ہے کہ ’’دو ٹھنڈی نمازوں سے مرادفجروعشاءکی نمازہے۔ چونکہ عشاء کے وقت
بندے پراُونگھ طاری ہوتی ہے، کھانا کھا لینے کی وجہ سے بدن بوجھل ہوجاتا ہےاوراس حالت میں نماز پڑھنا نفس پربہت گراں ہو تاہےلہٰذااس حالت میں نماز پڑھنا بلا عذاب جنت میں داخلے کاسبب ہے۔‘‘([163])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مسلمانوں پرپانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔پھران دو نمازوں کو بطورِ خاص ذکر کیوں کیا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے عَلَّامَہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’ان دو نمازوں کو خاص طور پر ذکر کرنے کا مقصود ان کی عظمت کو بیان کرنااوران کی محافظت پرترغیب دلاناہےکیونکہ ان نماز وں میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔‘‘([164])
نزہۃالقاری میں ہے:’’(دو ٹھنڈی نمازوں )سےمرادنمازِ عصر وفجرہےاورمرادپابندی کے ساتھ پڑھنا ہے۔ان دونوں نمازوں کی خصوصیت کی وجہ یہ ہے کہ فجر کا وقت سونے کا اور عصر کے بعد لوگ بازاروں میں خریدوفروخت میں مشغول ہوتے ہیں یا دوسرے کاموں میں ۔نیز ملائکہ ان دونوں اوقات میں بدلتے ہیں جو ان نمازوں کاپابند ہوگااس کاآخری عمل جوخداکی بارگاہ میں پیش ہوگاوہ نماز ہوگی ۔علاوہ ازیں حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپرموقوف ایک حدیث میں ہے:نمازِصبح کےوقت مُنادِی نِدا دیتاہے: اے بنی آدم!اٹھواوراپنےاوپرجوجَلارہےہوبجھاؤ،اسی طرح نمازعصر کے بعدبھی یہ ندا دیتاہےاس پرجولوگ طہارت کرکے نمازپڑھ لیتے ہیں توجب سوتے ہیں ان پر کوئی گناہ نہیں رہتا۔‘‘([165])
میں پانچوں نمازیں پڑھوں باجماعت
ہو توفیق ایسی عطا یاالٰہی
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1) بندےکےاَعمال صبح وشام بارگاہِ الٰہی میں پیش کیے جاتے ہیں ۔
(2) اپنی مصروفیات کو چھوڑ کر عبادتِ الٰہی بجا لانا رضائے الٰہی اور جنت میں داخلے کاسبب ہے۔
(3) ہر نماز ہی عظمت و شرف والی ہے بالخصوص فجر وعصر کی بہت زیادہ ترغیب و فضیلت ہے ۔
اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہم تیری بارگاہ میں دست بستہ عرض گزار ہیں کہ تو ہمیں اپنے اُن بندوں میں شامل فرمادےجومال ودولت اورنرم وآرام دہ بستر چھوڑکراپنےنفس کو تیری بندگی پر آمادہ کرکےتیری بارگاہ میں حاضرہوتے ہیں ۔ اےپاک پروردگار عَزَّ وَجَلَّ! اپنےمخلص عبادت گزاروں کے صدقےہمیں بھی اپنی جوارِ رحمت میں جگہ عطافرما، ہماری حتمی مغفرت فرما اوربےحساب جنت میں داخلہ نصیب فرما۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:133
عَنْ اَبِیْ مُوسَی الاَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اِذَامَرِضَ الْعَبْدُ اَوْسَافَرَ کُتِبَ لَہُ مِثْلُ مَا کَانَ یَعْمَلُ مُقِیْمًا صَحِیْحًا.([166])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوموسیٰ اشعریرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ رسولِ اکرم، نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:’’جب بندہ بیماری یاسفر میں ہوتاہے تو اُس کے لیے اُسی طرح ثواب لکھا جاتاہے جس طرح تندرستی اور حالت ِ اِقامت میں عمل کرتاتھا۔‘‘
عمدۃ القاری میں ہے :’’یہ فضیلت اس شخص کے بارے میں ہے جو ہمیشہ نیک اَعمال بجالاتاہواوریہ نیت ہو کہ کوئی مانع نہ ہواتو پابندی کے ساتھ عمل کرتارہوں گا۔پھرسفر یا بیماری کی وجہ سے اگر نیک اعمال ادا کرنے سے قاصررہے تو اُس کے لیے اُن اَعمال کی مثل اَجرلکھا جائے گاجو وہ تندرستی و اِقامت کی حالت میں کیا کرتا تھااور یہی بات حدیث میں صراحتًا وارد ہوئی ہےکہ جب بندہ عبادات میں سے کسی اچھے طریقے کا عادی ہوپھر اسے کوئی مرض لاحق ہوجائےتو اس پر مقررفرشتےکوحکم دیاجاتا ہےکہ اُس کے لیے اُسی عمل کی مثل اَجر لکھو جو یہ تندرستی کی حالت میں کیا کرتاتھایہاں تک کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّاسے تندرست فرمادے یا موت آجائے ۔‘‘([167])
عَلَّامَہ اَبُوالْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ ذیالْجَلَالفرماتے ہیں :’’علامہ مُھَلَّبرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:’’اس حدیثِ پاک کی اصل قرآن کریم میں موجود ہے، چنانچہ ارشادِباری تعالٰی ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘(۴) ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَۙ(۵)
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍؕ(۶) (پ۳۰، التین: ۴ تا ۶) ترجمہ ٔ کنزالایمان: بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا،پھر اسے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیردیا،مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ انہیں بے حد ثواب ہے۔
یعنی ان کے لیے ختم نہ ہونےوالا اجر ہے۔تو اس سےمراد یہ ہےکہ بندے کو بڑھاپےاور کمزوری کی حالت میں اسی عمل کی مثل ثواب ملتارہے گا جو وہ حالتِ صحت میں کیا کرتا تھا۔اسی طرح بیماری اورسفر وغیرہ میں آنے والی آفات سے چھوٹنے والے اُن اَعمال پر بھی اُسے اجر ملے گا جن کا وہ عادی تھا ۔‘‘([168])
عَلَّامَہ اَبُوالْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ ذیالْجَلَالفرماتے ہیں :’’یہ حدیث عموم پر نہیں ہےبلکہ یہ ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جو نفلی عبادت کے عادی ہوں اورمرض یا سفر کی وجہ سے وہ نفلی عبادت نہ کر سکیں بشرطیکہ ان کی یہ نیت ہو کہ اگروہ مقیم یا تندرست ہوتے تو یہ اَعمال ضرور بجا لاتے۔پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ ایسے لوگوں پر فضل فرماتا ہے کہ ان کے لیے اس وقت سے اَجر عطا فرماتا ہے جب سے وہ بیماری کی وجہ سے یہ اَعمال بجا لانے سے قاصر رہے۔ بہر حال وہ شخص جو نوافل اور دیگراَعمالِ صالحہ کا عادی نہ ہووہ اِس حدیث کے تحت داخل نہیں ۔ کیونکہ اُس کےمرض نے اُسےکسی چیز سے نہیں روکا تو اُس کے لیے اُس عمل کا ثواب کیسے لکھاجائے گا جو اس نے کیا ہی نہیں ۔اور حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ بن عَمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سےمروی حدیث پاک بھی اِس بات پر دلالت کرتی ہےکہ حدیثِ مذکورنوافل کے بارے میں ہے۔کیونکہ اُن سے مروی حدیث پاک کے یہ الفاظ ”اِذَا كَانَ عَلَى طَرِيقَةٍ حَسَنَةٍ مِنَ الْعِبَادَةِ“ نوافل کےبارے میں بولے جاتے ہیں فرائض کے بارے میں نہیں ، کیونکہ مریض اورمسافر سے فرض نماز ساقط نہیں ہوتی بلکہ مریض بیٹھ کر نمازادا کر ے گااور مسافر قصر۔تواب مریض اور مسافر کے لیے نوافل کااجر ہی لکھا جائے گا۔ (بشرطیکہ وہ حالت اِقامت وتندرستی میں نوافل کے عادی بھی ہوں ) جیسا کہ حضور نبی اَکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشاد فرمایا:’’جورات میں نماز پڑھنے کا عادی ہواور کسی رات اس پر نیند غالب آجائے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کےلیے نماز کا ثواب لکھتا ہے اور نیند اُس کےلیے صدقہ ہوجا تی ہےاور اُس میں کوئی اِشکال نہیں ۔‘‘([169])
مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمدیارخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :’’اگر بیماری یا سفر کی وجہ سے وہ تہجد وغیرہ نوافل نہ پڑھ سکے یا جماعت میں حاضر نہ ہوسکے تو اُس کو اُن کا ثواب مل جائے گا بشرطیکہ
تندرستی میں اُن چیزوں کا پابند ہو،حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیماری یا سفر میں فرائض معاف ہوجاتے ہیں ، وہ تو ادا کرنے ہی پڑیں گے اور اگر ر ہ گئے ہوں تو اُن کی قضاء واجب ہوگی۔‘‘([170])
(1) جونیک اَعمال کا عادی ہواورپھربیماری یا سفر کی وجہ سے اُس سے نیک اعمال چھوٹ جائیں تو اُسے اللہ عَزَّوَجَلّ کے فضل وکرم سے اُن اَعمال کا ثواب دیا جائے گا۔
(2) جماعت سےنمازپڑھنے والااگرکسی عذرِشرعی کی وجہ سےجماعت میں شامل نہ ہوسکے مگر اس کی یہ نیت ہو کہ اگر عُذرِ شرعی لاحق نہ ہوتا تو جماعت میں ضرور شامل ہوتا تو رحمتِ الٰہی سے امید ہے کہ اسے بھی جماعت کاثواب ملے گا۔
(3) مریض اورمسافر سے فرض نماز ساقط نہیں ہوتی۔ اگر فرض چھوٹ جائیں تو قضاء لازم ہے ۔
(4) جو رات کو نفلی عبادت کرنے کا عادی ہواورکبھی نیند کے غلبے کی وجہ سے عبادت نہ کر سکے تو اسے اس رات بھی عبادت کا ثواب دیا جاتا ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں استقامت کے ساتھ نیک اَعمال پر کاربند رہنے کی توفیق فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:134
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ.([171])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے سرکارِ مکہ مکرمہ سردارِ مدینہ منورہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:’’ہر نیکی صدقہ ہے۔‘‘
اِمَام شَرَفُ ا لدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد بِنْ عَبْدُاللّٰہ طِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’معروف کا معنیٰ بہت وسیع ہے ، اس میں وہ تمام کام شامل ہیں جو اچھے سمجھے جاتے ہیں ۔جیسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت کرنا،اس کا قرب حاصل کرنا ،لوگوں سے اچھاسلوک کرنا،لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا جبکہ جانتا ہو کہ لوگ اس سے منع نہیں کریں گے، انصاف کرنا،اپنےاہل وعیال اوردیگرلوگوں سےاچھے تعلقات رکھنااورلوگوں سےخندہ پیشانی سے ملاقات کرنا وغیرہ ۔‘‘([172])
علامہ سیدشریف جُرجانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں :’’جس عطیہ کے ذریعے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ سے ثواب حاصل کرنا مقصود ہووہ صدقہ ہے۔‘‘([173])
عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّالعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّارفرماتے ہیں : ’’حدیثِ مذکوراس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نزدیک بندے کا ہرنیک عمل اور اچھی بات صدقہ ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ مؤمن کو اس عمل خیر پرثواب دے گا۔‘‘([174])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’معروف سے مرادہرقسم کی بھلائی ہے، چاہے وہ مال سے عطیہ کرنا ہویا حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہو یا ہر قسم کے ایسے اَقوال واَفعال جو عرفًا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضاکے لیے کیے جائیں وہ صدقہ ہیں یعنی ان کا ثواب صدقے کے ثواب کی طرح ہے۔‘‘([175])
مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمدیارخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :’’سُبحانَ ﷲ!کیا ہمت اَفزا حدیث ہے، یعنی صدقہ صرف مال ہی سے نہیں ہوتا بلکہ ہر معمولی نیکی اگر اخلاص سے کی جائے تو اس پر صدقہ کا ثواب ملتا ہے حتی کہ مسلمان بھائی سے میٹھی اور نرم باتیں کرنا بھی صدقہ ہے۔اب کوئی فقیر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں صدقہ پر قادر نہیں ۔‘‘([176])
تفسیر ابن کثیر میں ہے:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اِطاعت اور اُس کی مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہوئے مالی طورپر کمزور لوگوں کی ضرورتوں کو اپنے زائد مال سے پورا کرناصدقہ ہے۔اورصحیحین کی حدیث میں ہے کہ سات لوگ قیامت میں عر شِ ا لٰہی کے سائے میں ہوں گے جس دن عر شِ ا لٰہی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، ان سات میں ایک صدقہ کرنے والابھی ہےاورچھپا کر صدقہ کرنا بہترہے کہ حدیث پاک میں ہے:’’دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ دے کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔‘‘ایک اور حدیث میں ہے: ’’صدقہ خطاؤں کواس طرح مٹا دیتاہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔‘‘([177])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!صدقہ کامفہوم بہت وسیع ہے اور یہ صرف مال خرچ کرنے کے ساتھ ہی خاص نہیں ہےبلکہ اِس کا اطلاق دیگر نیک اَعمال پر بھی کیاجاتاہے۔ اِس ضمن میں تین اِیمان اَفروز اَحادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:
(1)’’دومسلمانوں کے درمیان عدل وانصاف کرنا صدقہ ہے،سواری پر بٹھانے میں دوسرے کی مددکرنا یااُس کے سامان کواُس کی سواری پر رکھوانا بھی صدقہ ہے، اچھی بات کہنا صدقہ ہے، اور ہروہ قدم
جومسجد کی طرف چلتے ہوئے اُٹھائے صدقہ ہے،نیز راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کردینا صدقہ ہے۔‘‘([178])
(2)’’تیرااپنے بھائی سےمسکرا کرملنا صدقہ ہے،تیرانیکی کاحکم کرناصدقہ ہےاوربرائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔پیچیدہ راستوں میں کسی کو راہ دکھانا صدقہ ہے،نابیناکی مددکرنا صدقہ ہے،راستےسے پتھر، کانٹے اور ہڈی دور کرناصدقہ ہے۔ا پنی پانی کی بالٹی اپنے بھائی کو دے دینا صدقہ ہے۔‘‘([179])
(3)’’ہرمسلمان پرصدقہ لازم ہے۔‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نےعرض کی:’’اگراس کےپاس کچھ بھی نہ ہو؟‘‘فرمایا:’’وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے، اپنے آپ کونفع دے اورصدقہ کرے۔‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننےعرض کی:’’اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھتاہویا اس طرح نہ کرے؟‘‘فرمایا: ’’توحاجت منداور مظلوم کی مددکرے۔‘‘صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:’’اگر وہ یہ کام نہ کرے؟‘‘ارشادفرمایا:’’بھلائی کاحکم دے۔‘‘عرض کی:’’اگریہ بھی نہ کرے؟‘‘فرمایا: ’’تو پھر شرپھیلانے سے رُکا رہے،اُس کے لیے وہی صدقہ ہے۔‘‘([180])
(1) نیکی کرنے والوں کے لیے نیکیوں کےبے شمار مواقع ہیں حتی کہ بسا اوقات چھوٹے چھوٹے عمل بھی بڑی بڑی نیکیوں کا سبب بن جاتے ہیں ۔
(2) معمولی نیکی بھی اگر اخلاص کےساتھ کی جائے تو صدقے کا ثواب ملتاہے۔
(3) بروز ِقیامت صرف عرشِ الٰہی کا سایہ ہوگااور صدقہ کرنے والے اس سائے کے نیچے ہوں گے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعاہے کہ وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ نیک اَعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:135
عَنْ جَابِرٍرَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ،قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَامِنْ مُسْلِمٍ یَغْرِسُ غَرْسًااِلَّا کَانَ مَا اُکِلَ مِنْہُ لَہُ صَدَقَۃً،وَمَاسُرِقَ مِنْہُ لَہُ صَدَقَۃٌ،وَلَا یَرْزَءُہُ اَحَدٌ اِلَّا کَانَ لَہُ صَدَقَۃٌ.وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہُ:فَلَا یَغْرِسُ الْمُسْلِمُ غَرْسًا،فَیَاْکُلُ مِنْہُ اِنْسَانٌ وَلَا دَابَّۃٌ وَلَاطَیْرٌ اِلَّا کَانَ لَہُ صَدَقَۃً اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.وَفِیْ رِوَایَۃٍ لَہُ: لَا یَغْرِسُ مُسْلِمٌ غَرْسًا،وَلَا یَزْرَعُ زَرْ عًا، فَیَاْکُلُ مِنْہُ اِنْسَانٌ وَلَا دَابَّۃٌ وَلَا شَیْء ٌ اِلّا کَانَتْ لَہُ صَدَقَۃً. وَرَوَیَاہُ جَمِیْعًا مِنْ رِوَایَۃِ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ.([181])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناجابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سےمروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’جوبھی مسلمان کوئی درخت لگائےتواس سے جو کھایا جائے وہ اس کےلیےصدقہ ہے اور جوچوری ہوجائے وہ بھی اس کےلیےصدقہ ہے بلکہ اگر کوئی اس میں نقصان کرے توبھی اس کے لیےصدقہ ہے۔‘‘ مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ’’مسلمان جودرخت لگائے پھر اس سے انسان،چوپائے اور پرندے کھائیں تووہ قیامت تک اس کےلیےصدقہ ہے۔‘‘مسلم ہی کی ایک اور روایت میں ہے: ’’کوئی مسلمان درخت لگاتاہےاورکاشت کاری کرتاہےتو اس سے انسان،چوپائےیا کوئی اورچیز کھائے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘امام بخاری ومسلمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا دونوں ہی نے اسےحضرتِ سَیِّدُناانس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا ہے۔
عَلَّامہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں : ’’اس حدیث پاک میں درخت لگانے اور
کاشت کاری کی فضیلت کابیان ہے۔بعض نے اِس سے استدلال کیاہے کہ کاشت کاری روزی کمانے کاافضل ذریعہ ہے۔علمائے کرام کااِس میں اختلاف ہے کہ کمائی کا کونساذریعہ افضل ہے۔امام نوویرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ کاشت کاری افضل ہے۔بعض نے کہاکہ ہاتھ کے ہنرسے روزی کمانا افضل ہے۔اورایک قول یہ ہے کہ تجار ت افضل ہے۔اوراکثر احادیث ہاتھ سے کمانے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ۔جیساکہ حضرت سَیِّدُنَا ابوبَردہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمسے سوال کیا گیا کہ کونسی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟فرمایا:آدمی کا اپنے ہاتھ سے کا م کرنااور ہرجائزبیع۔اور اس افضلیت کی وجہ یہ ہےکہ حلال ہونے کے اعتبار سےیہ زیادہ پاکیزہ ہے اورفائدہ عام ہونے کے اعتبار سے زیادہ افضل کیونکہ اس کا فائدہ دوسروں کوبھی پہنچتا ہے۔لیکن درست یہ ہےکہ لوگوں کی حاجات مختلف ہونے کے اعتبار سے سب کے اَحکام مختلف ہیں ۔ مثلاًجب لوگوں کو غذا کی زیادہ محتاجی ہوتواس وقت زراعت افضل ہے تاکہ لوگوں پروُسعت ہوجائے۔اورجب تجارتی راستے منقطع ہونے کی وجہ سے لوگوں کواَشیاء کی زیادہ محتاجی ہوتو تجارت افضل، جب صنعت کی زیادہ محتاجی ہو تو صنعت افضل ہے۔نیزنیکی کرنے پر آخرت میں ثواب مسلمانوں ہی کو ملے گا کفارکو نہیں کیونکہ قربِ الٰہی صرف مسلمانوں ہی کوحاصل ہوگا۔ کافراگر صدقہ کرے یاراہ گیروں کےلیے مسافرخانہ بنوائےیا کوئی نیکی کا کام کرے تو آخرت میں اس کے لیے کچھ ثواب نہیں ۔جیساکہ منقول ہے:’’(کافر کوئی اچھا کام کرتا ہے)تو اس کے بدلے اسے دنیاہی میں رزق دے دیا جاتاہے اور اس کی دُنیوی تکالیف دُور کر دی جاتی ہیں ،آخرت میں اُس کے لیے کچھ اَجر نہیں ۔نیز حدیث مذکور سب مسلمانوں کو شامل ہے چاہےوہ آزاد ہوں یاغلام،فرمانبردارہوں یاگناہ گار،الغرض جو بھی مسلمان اِس حدیث پرعمل کرے گا فضیلت پائے گا ۔‘‘([182])
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رَضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’افضلیت لوگوں کے حال کے اِعتبار سے ہے، جہاں لوگ خوراک کے زیادہ محتاج ہوں وہاں زَراعت اَفضل ہے تاکہ لوگ قحط زدہ نہ ہوں
اور جہاں کاروبار کی زیادہ ضرورت ہو وہاں تجارت افضل ہے اور جہاں دستکاری کی احتیاجی زیادہ ہو وہاں صنعت کاری افضل ہے، اس زمانہ میں حالات کا مقتضیٰ یہ ہے کہ سب افضل ہیں ۔‘‘([183])
اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد طِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنَا ابودَرْداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُایک مرتبہ اَخروٹ کا درخت لگا رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا :’’آپ تو بزرگی کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں ،آپ کا وصال بہت قریب ہے ،اس درخت کے پھل آپ نہیں بلکہ دوسرے کھائیں گے۔‘‘ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ’’پھل اور لوگ کھائیں گے اَجر مجھے ملے گا۔‘‘([184])
منقول ہے کہ ایک بوڑھا شخص زیتون کا درخت لگا رہا تھا۔ بادشاہ کا وہاں سے گزر ہوا تو کہا :’’زیتون کا پھل تو دیرسےآتا ہے اورتم بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکے ہو؟‘‘بوڑھے نے کہا: ’’ہم سے پہلےلوگوں نے درخت لگائے اورہم نےان کے پھل کھائےاوراب ہم لگا رہے ہیں تاکہ ہمارے بعد والے کھائیں ۔‘‘ بادشاہ نےکہا: ’’تم نے کتنی اچھی بات کہی ہے تمہیں چارہزاردرہم انعام دیے جاتے ہیں ۔‘‘بوڑھے شخص نے کہا: ’’اے بادشاہ! میرے درخت لگانے اور اس کے دیر سے پھل آنے کی وجہ سےآپ کوتعجب ہوا حالانکہ مجھے اس درخت کا بدلہ( چار ہزاردرہم کی صورت میں ) بہت جلد مل گیا۔‘‘ بادشاہ نے پھراسے چارہزار درہم دے دئیے۔ بوڑھےنے کہا:’’اے بادشاہ!ہردرخت سال میں ایک مرتبہ پھل دیتاہے، میرے درخت نے تھوڑی ہی دیر میں دو مرتبہ پھل دے دیا۔‘‘ بادشاہ نے اسے مزید چار ہزار درہم دئیے اوریہ کہتے ہوئے چل دیاکہ اگر ہم یہاں کچھ دیر اور ٹھہر گئے تو ہماراخزانہ خالی ہوجائےگا ۔([185])
دلیل الفالحین میں ہے: ’’حضرت سَیِّدُنَاعلامہ ابن عربیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نےفرمایا :’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس پر اپنے کرم کی وُسْعَت فرماتاہے اسے موت کے بعدبھی اُسی طرح ثواب عطافرماتا ہے جس طرح اس کی زندگی میں عطافرماتاہے۔اورچھ چیزوں کاثواب قیامت تک ملتا رہے گا: (1)صدقۂ جاریہ(2)ایساعلم جس سے نفع اُٹھایا جائے۔(3)نیک اولادجواس کےلیےدعاکرتی رہے۔(4)درخت لگانا(5) کاشتکاری(6) سرحد کی حفاظت کرنا۔‘‘عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’حدیث مذکور کی فضیلت صرف درخت لگانے یا کاشت کاری کرنے والے کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ اس شخص کوبھی شامل ہے جو اُجرت دے کر درخت لگوائے یاکاشت کاری کروائے،یہاں تک کہ گندم کی جن بالیوں کووہ جمع کرنے سے عاجز آگیاجو گندم کاٹتے وقت گرگئیں اور انہیں انسانوں یاجانوروں نے کھالیاتو وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہیں ۔‘‘([186])
مُفَسِّر شہِیرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمدیارخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :’’(انسان،جانوریا کوئی اورچیز کھائے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے)عرب میں دستور تھا کہ باغ والے مسافروں کو دو ایک پھل توڑ لینے سے منع نہ کرتے جیسے ہمارے ہاں بھی چنے کا سا گ کا ٹنے سے لوگ منع نہیں کرتے۔مسافر بھی اس دستور سے واقف تھے،وہ بھی چوری کی نیت سے نہیں بلکہ عُرفی اِجازت کی بنا پر دو چار دانے منہ میں ڈال لیتے تھے۔نیز کبھی جانور کھیت پر سے گزرتے ہوئے سبزے میں ایک آدھ منہ ماردیتے ہیں ۔سرکار(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نے اِن سب کو مالک کے لیے صدقہ قرار دیا۔کبھی بغیر نیت بھی ثواب مل جاتا ہے۔(اور جو پھل چوری ہوجائیں تو وہ مالک کے لیے صدقہ ہیں )صبرکرنے اوراس نقصان کو برداشت کرنے پر ضرور
ثواب ملے گا،جیسےکانٹالگ جانے پرثواب ملتاہے۔‘‘([187])
(1) دستکارکی روزی حلال ہونے کے اعتبارسےزیادہ پاکیزہ ہے۔
(2) فی زمانہ کسبِ حلال کی تمام جائزاَنواع کی بڑی فضیلت ہےکیونکہ اس دورمیں لوگوں کوہر شےکی حاجت پڑتی ہے۔
(3) آخرت کے اجروثواب کادارومدارایمان پرہے اورکافرایمان سے خالی ہے۔لہٰذاآخرت میں کافر کےلیے کوئی اجرنہیں ۔
(4) ایساعمل کرنابھی کارِ ثواب ہے جس کافائدہ بعدمیں آنےوالےلوگوں کوہو ۔
(5) اگرکسی شخص کا مال چوری ہوجائےاوروہ اس پر صبر کرےتواس کو صدقہ کا ثواب ملےگا۔
(6) شرعی اَحکام میں عرف کابھی اعتبارکیاجاتاہےلہٰذاعرف کے احکام سے بھی واقفیت ہونی چاہیے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعا ہے کہ وہ ہمیں رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطافرمائے اور دوسروں کی محتاجی سے ہم سب کومحفوظ فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:136
مسجد کی طرف اُٹھنے والے ہرقدم پرنیکی
عَنْ جَابِرٍرَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ:اَرَادَ بَنُوْ سَلِمَۃَ اَنْ یَنْتَقِلُوْا قُرْبَ الْمَسْجِدِ فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَہُمْ: اِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِیْ اَنَّکُمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَنْتَقِلُوْا قُرْبَ الْمَسْجِدِ؟ فَقَالُوْا:نَعَمْ! یَارَسُوْلَ
اللّٰہِ! قَدْاَرَدْنَاذَلِکَ.فَقَالَ:بَنِی سَلِمَۃَ!دِیَارَکُمْ، تُکْتَبْ اٰ ثَارُکُمْ، دِیَارَکُمْ،تُکْتَبْ اٰ ثَارُکُمْ. وَفِیْ رِوَایَۃٍ:اِنَّ بِکُلّ خَطْوَۃٍ دَرَجَۃً.([188])رَوَاہُ مُسْلِمٌ. وَرَوَاہُ الْبُخَارِیُّ اَیْضًا بِمَعْنَاہُ مِنْ رِوَایَۃِ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ.
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسےمروی ہےکہ قبیلہ بَنُوسَلِمَہ نے مسجد نبوی کے قریب منتقل ہونے کاارادہ کیا۔رسولِ اکرم شاہ بنی آدم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکو یہ خبر پہنچی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’مجھے خبر ملی ہے کہ تم مسجدکےقریب منتقل ہونےکاارادہ رکھتے ہو؟‘‘ عرض کی:’’جی ہاں ! یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ہم نے اس بات کا ارادہ کیا ہے۔‘‘تو آپصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنےارشادفرمایا: ’’بنوسلمہ! تم اپنے گھروں میں رہو!تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں ۔ بنوسلمہ تم اپنے گھروں میں رہو!تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں ۔‘‘ایک اورروایت میں ہے:’’ہرقدم پرایک نیکی ہے۔‘‘امام مسلم نے اسے روایت کیاہےاورامام بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی نےبھی اسی مفہوم کوحضرت سَیِّدُنَا انسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سےروایت کیا ہے۔
عَلَّامَہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’مسجد تک جانے میں قدموں کی کثرت ثواب کی کثرت پر دلالت کرتی ہے۔حضرت سَیِّدُنَاابوعبداللہ بن لُبابہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےپوچھا گیا کہ’’ایک شخص اپنی مسجد چھوڑ کربڑی جماعت پانے کے لیے جامع مسجد جاتاہے تواس کا یہ عمل کیسا؟‘‘فرمایا: ’’وہ اپنی مسجد کو نہ چھوڑے کیونکہ جامع مسجدمیں نماز پڑھنے کی فضیلت صرف جمعہ کےلیے ہے۔‘‘
حضرت سَیِّدُنَا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نئی مساجد چھوڑ کر پرانی مساجد کی طرف جاتے تھے۔سَیِّدُنَا امام حسنرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس بات کو ناپسند فرماتے کہ کوئی اپنی قریبی مسجد چھوڑ کر دوسری مسجد میں جائے۔امام قُرطبیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکا بھی یہی موقف ہے۔
جس کا گھر مسجد کے قریب ہواوروہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے مسجدجائے حتی کہ اس کے قدم اس
شخص کے قدموں کے برابر ہوجائیں جس کا گھرمسجدسے دور ہے۔تو کیا یہ دونوں فضیلت میں برابر ہوں گے؟ امام طَبریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’یہ دونوں فضیلت میں برابر ہیں ۔‘‘ اورحضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :’’میں حضرت سَیِّدُنَا زید بن ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ مسجد گیا توانہوں نے چھوٹے چھوٹے قدم رکھے اورفرمایا :میں چاہتا ہوں کہ ہمارے قدم مسجد کی طرف زیادہ ہوں ۔‘‘
علامہ بدرُالدین عینیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغنیفرماتے ہیں :’’میں کہتا ہوں ،اگرچہ یہ حدیث زیادہ قدموں کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے لیکن اس سےفضیلت میں برابری لازم نہیں آتی کیونکہ آسانی سے اُٹھائے جانے والے قدموں کا ثواب ،مشقت سے اُٹھائے جانے والے قدموں کے ثوا ب کے برابر نہیں ہو سکتا ۔اپنی قریبی مسجد کو آباد رکھنا زیادہ اَولیٰ ہےاور جب قریبی مسجد کا امام بدعتی ہو،قرا ءت میں غلطی کرتا ہویاقوم اسے ناپسند کرتی ہوتو قریبی مسجد کو چھوڑ کردُوروالی میں جانا چاہیے ۔ حدیث مذکور میں یہ بھی بیان ہوا کہ جب اَعمال میں اِخلاص ہوتواُس کے اَثرات نیکیوں کے طورپر لکھے جاتے ہیں ۔ جوکثرتِ ثواب کا اِرادا رکھتاہوتواس کےلیے مسجد سے دُور سکونت اختیارکرنا بہتر ہے۔‘‘([189])
عَلَّامَہ مُلَّاعَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’بنو سَلِمہ انصار کا ایک قبیلہ تھا۔ان کے گھر مسجد سےدورتھے۔یہ رات کے اندھیرے میں ، بارش کے وقت اور سخت سردی میں بھی باجماعت نماز کی کوشش فرماتے۔انہوں نے مسجد کے قریب منتقل ہوجانے کا ارادہ کیا تو سرکارِمدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے اس بات کو ناپسند فرمایاتاکہ مدینہ کےاردگرد کی جگہ خالی نہ ہو۔اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نزدیک ہرقدم پر جو اجر ہے اس کی آپ نے انہیں رَغبت دلائی،یعنی قدموں کی کثرت ثواب میں زیادتی کا سبب ہے۔یا یہ مراد ہےکہ تمہاراعبادت میں کوشش کرنا کتابوں میں لکھا جائے گا اور لوگوں کے لیےباعثِ
ترغیب وتحریص ہوگا۔‘‘([190])
تفہیم البخاری میں ہے:’’سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکو خبر ملی کہ مسجد نبوی کے ارد گرد جگہ خالی ہوگئی ہےاور بنوسلمہ اپنے مکان چھوڑکر مسجد کے قریب منتقل ہوناچاہتے ہیں توآپصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے ان سے فرمایا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونا چاہتے ہو؟انہوں نے کہا:جی ہاں ، یارسولَ اللہ!(صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم)ہمارایہی ارادہ ہے۔فرمایا:اے بنی سلمہ!دِیَارَکُمْ تُکْتَبُ اٰثَارُکُم، تین باریہ فرمایا۔ یعنی اپنےگھروں ہی میں رہوتمہارے قدموں کاثواب لکھا جائے گا۔اس پر وہ لوگ اپنے گھر میں ٹھہرگئے۔اس حدیث سے معلوم ہواکہ دُور سے چل کر مسجد میں آکر نماز پڑھنے میں ہرقدم پر ثواب ملتا ہےاوریہ کہ مسجد کے قریب مکان بنانا اچھا ہے کیونکہ سید عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے بنو سلمہ کو منع نہیں فرمایا تھاصرف زیادہ ثواب کی ترغیب دلائی تھی اوریہ پسند نہ فرمایا کہ مدینہ منورہ کا ایک حصہ خالی ہوجائے۔‘‘([191])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کبیرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمدیارخان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’(حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:تم اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں ۔یعنی)تمہارے نامۂ اعمال میں ثواب کے لیے۔ کیونکہ مسجد کی طرف ہرقدم عبادت ہےیاتمہاری اس مشقت کا تذکرہ حدیث کی کتب میں اور علماء کی تصانیف میں لکھا جائے گا۔ واعظین اس پر وعظ کریں گے جو تمہارے واقعے سن کر دُور سے مسجدمیں آیا کریں گے، ان سب کا ثواب تمہیں ملا کرے گا۔خیال رہے کہ گھر کا مسجدسے دُور ہونا متقی کےلیے باعثِ ثواب ہے کہ وہ دُور سے جماعت کےلیے آئے گا۔ مگر غافلوں کے لیے ثواب سے محرومی کہ وہ دوری کی وجہ سے گھر میں ہی پڑھ لیا کریں گے۔ لہٰذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ منحوس وہ گھر ہےجس میں اذان کی آواز نہ آئے یعنی غافلوں کے لیے
دُوریٔ گھرنحوست ہے۔‘‘([192])
(1) دُورکی مسجد میں جانے سے اگرقریبی مسجدخالی ہوتی ہوتوقریبی مسجد کو آباد کرناضروری ہے۔
(2) اسلامی سرحدوں کی حفاظت کےلیےمسلمانوں کوسرحد کےقریب اپنے مکانات بنانے چاہییں تاکہ کفارکی نقل وحرکت پرنظررکھی جاسکے۔
(3) رات کےاندھیرے،سخت سردی اورشدیدبارش کے وقت بھی مسجدمیں آکرنمازپڑھنا نیک لوگوں کا طریقہ ہے۔
(4) بزرگوں کے نیک اَعمال کتابوں میں اس نیت سےلکھناتاکہ بعدمیں آنےوالےاُس پرعمل کریں کارِ ثواب ہے۔
(5) نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کےلیےاپنامحلہ چھوڑنا باعث سعادت ہے ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مساجد کو عبادات کے ذریعے آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1]…تفسیر روح البیان،پ۳۰ ،الفجر، تحت الآیۃ:۲۷،۱۰/۴۳۲۔
[2]…بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ، ۲/۵۴۸، حدیث:۳۷۵۶۔
[3]…بخاری، کتاب الوضو، باب وضع الماء عند الخلاء، ۱/۷۳، حدیث:۱۴۳۔
[4]…حلیۃالاولیاء، عبد اللہ بن عباس ،۱/۳۹۱۔
[5]…حلیۃالاولیاء ، عبد اللہ بن عباس،۱/۳۹۰۔
[6]…معجم کبیر، من مناقب عبد اللہ بن عباس، ۱۰/ ۲۳۷، حدیث:۱۰۵۸۵۔
[7]…بخاری، کتاب التفسیر، باب فی تفسیر سورۃ : اذاجاء نصراللہ ،۳/۳۹۱، حدیث:۴۹۶۷۔
[8]…بخاری، کتاب التفسیر، باب فی تفسیر سورۃ : اذاجاء نصراللہ ،۳/۳۹۱، حدیث:۴۹۶۸۔
[9]…مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود،ص۲۵۰، حدیث:۴۸۴۔
[10]…مسلم ، کتاب الصلوۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود ،ص۲۵۰ ،حدیث:۴۸۴۔
[11]…عمدۃ القاری، کتاب الصلوۃ، باب الدعا فی الرکوع، ۴/۵۲۷، تحت الحدیث:۷۹۴۔
[12]…مرآۃ المناجیح،۲/۷۰۔
[13]…شرح مسلم للنووی،کتاب الصلاۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود، ۲/۲۰۲، الجزء الرابع ۔
[14]…مرآۃ المناجیح، ۲/۷۰۔
[15]…دلیل الفالحین، باب فی الحث علی الازیادمن الخیر، ۱/ ۳۴۳، تحت الحدیث: ۱۱۴۔
[16]…تفسیر کبیر، پ۳۰، النصر ، تحت الایۃ: ۳ ،۱۱/۳۴۶۔
[17]…ابن ماجۃ، کتا ب الادب، باب فضل التسبیح، ۴/ ۲۵۳، حدیث: ۳۸۰۹۔
[18]…معجم کبیر ، عبید بن مھران عن الحسن، ۱۸/ ۱۷۴، حدیث: ۳۹۸۔
[19]…مسلم، کتا ب الذکرو الدعاء، باب فضل التھلیل والتسبیح، ص ۱۴۴۷، حدیث: ۲۶۹۸۔
[20]…شعب الایمان،باب فی الزھدوقصرالامل، ۷/۳۶۰، حدیث:۱۰۵۸۱۔
[21]…مسلم ، کتاب التفسیر،ص۱۶۰۸،حدیث:۳۰۱۶۔
[22]…فتح الباری، کتاب فضائل القران ، باب کیف نزول الوحی واول ما نزل ، ۱۰/۷، تحت الحدیث:۴۹۸۲۔
[23]…دلیل الفالحین،باب فی الحث علی الازدیاد من الخیر ، ۱/۳۴۶، تحت الحدیث:۱۱۵۔
[24]…مسلم ، کتاب الجنۃ،باب الامر بحسن الظن باللہ تعالی عند الموت،ص۱۵۳۸،حدیث:۲۸۷۸۔
[25]…دلیل الفالحین، باب فی الحث علی الازیاد من الخیر، ۱/۳۴۶،تحت الحدیث:۱۱۶۔
[26]…ابوداود،کتاب الجنائز، باب فی التلقین،۳/۲۵۵،حدیث:۳۱۱۶۔
[27]…فیض القدیر،حرف الیاء،۶/ ۵۹۱،۵۹۲ ،حدیث:۹۹۹۴۔
[28]…مرآۃالمناجیح،۷/۱۵۳۔
[29]…مصنف عبد الرزاق، کتاب الجنائز، باب فتنۃ القبر، ۳/۳۹۳، حدیث: ۶۷۷۸۔
[30]…الروض الفائق، المجلس الثاني، ص۱۶۔
[31]…الروض الفائق، المجلس الثاني، ص۱۸۔
[32]…تفسیر خازن، پ۲، البقرۃ ، تحت الایۃ:۲۱۵ ،۱/۱۵۲۔
[33]…تفسیرنعیمی،پ۲،البقرہ، تحت الایۃ:۲۱۵، ۲/۳۴۲۔
[34]…تفسیر درمنثور،پ۳۰، الزلزال ، تحت الایۃ:۷،۸/۵۹۴۔
[35]…تفسیرروح البیان،پ۳۰، الزلزال، تحت الایۃ:۷ ،۱۰/۴۹۴۔
[36]…تفسیرطبری،پ۲۵، الجاثیۃ ، تحت الایۃ: ۱۵ ،۱۱/۲۵۷۔
[37]…تفسیرروح البیان،پ۲۵، الجاثیۃ ، تحت الایۃ:۱۵ ،۸/۴۴۲۔
[38]…تفسیرروح البیان،پ۲، البقرۃ ، تحت الایۃ:۱۹۷ ،۱/۳۱۴ملخصا۔
[39]… مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون الایمان باللہ تعالی افضل الاعمال ، ص۵۷، حدیث:۸۴ بتغیر قلیل۔
[40]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر،۱/ ۳۴۷، تحت الحدیث:۱۱۷۔
[41]…اشعۃ المعات ،کتاب العتق ،الفصل الاول، ۳/۲۰۲۔
[42]…مرآۃالمناجیح،۵/۱۸۱ ملتقطا۔
[43]… الروض الفائق،المجلس الثانی والعشرون، ص۱۲۳۔
[44]…مسلم،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا،باب استحباب صلوۃ الضحی۔۔۔الخ،ص۳۶۳،حدیث:۷۲۰۔
[45]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر، ۱/ ۳۵۰، ۳۵۱، تحت الحدیث:۱۱۸ ملخصا۔
[46]…مرآۃالمناجیح،۲/۲۹۶۔
[47]…عیون الحکایات، الحکایۃ الثالثۃ والعشرون بعد المائتین،ص ۲۱۷۔
[48]… مرآۃ المناجیح ،۳/۹۸۔
[49]…مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ ، باب النھی عن البصاق۔۔۔ الخ ، ص۲۷۹، حدیث:۵۵۳۔
[50]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر،۱/۳۵۳، تحت الحدیث:۱۱۹ملتقطا۔
[51]…شرح مسلم للنووی، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ ، باب النھی عن البصاق ۔۔۔الخ، ۳/۴۲، الجزءالخامس۔
[52]…مرآۃالمناجیح،۱/۴۳۹ ملتقطا۔
[53]…بہشت کی کنجیاں ،ص۲۰۹۔
[54]…المجعم الاوسط، باب الالف من اسمہ احمد ،۱/۱۹،حدیث: ۳۲ ۔
[55]…مشکوۃالمصابیح، کتاب الزکوۃ، باب فضل الصدقۃ،۱/۳۶۲، حدیث:۱۹۰۶۔
[56]…مسند امام احمد،مسند انس بن مالک ، ۴/۳۰۹،حدیث:۱۲۵۷۲ؕ۔
[57]…مسلم، کتاب الزکاۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃ ۔۔۔الخ ، ص۵۰۳،حدیث:۱۰۰۶۔
[58]…شرح مسلم للنووی،کتاب الزکوۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃیقع۔ ۔۔الخ،۴/۹۱، الجزءالسابع ملخصا۔
[59]…شرح مسلم للنووی،کتاب الزکوۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃیقع۔ ۔۔الخ،۴/۹۲، الجزءالسابع ۔
[60]…شرح مسلم للنووی،کتاب الزکوۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃیقع۔ ۔۔الخ،۴/۹۲، الجزءالسابع ۔
[61]…شرح مسلم للنووی،کتاب الزکوۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃیقع۔ ۔۔الخ،۴/۹۳، الجزءالسابع ۔
[62]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الزکوۃ، باب فضل الصدقۃ، ۴/۴۰۰، تحت الحدیث:۱۸۹۸۔
[63]…مرآۃالمناجیح،۳/۹۸۔
[64]…مسلم، کتاب البر والصلۃ ، باب استحباب طلاقۃالوجہ۔۔۔ الخ، ص۱۴۱۳، حدیث:۲۶۲۶۔
[65]…اکمال المعلم، کتاب البر والصلۃ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء، ۸/۱۰۶، تحت الحدیث:۲۶۲۶۔
[66]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر، ۱/۳۵۶، تحت الحدیث: ۱۲۱۔
[67]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، ۴/۳۹۶، تحت الحدیث:۱۸۹۴۔
[68]…مرآۃالمناجیح،۳/۹۶۔
[69]…جامع العلوم والحکم،ص۲۹۶، تحت الحدیث الخامس والعشرون۔
[70]…ترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ما جاء فی صنانع المعروف،۳/۳۸۴ ،حدیث:۱۹۶۳۔
[71]…مکارم الاخلاق للطبرانی،ص۳۱۹،حدیث:۲۱،نیکی کی دعوت،ص۲۴۵۔
[72]…مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب بیان ان اسم الصدقۃیقع۔۔۔الخ ،ص ۵۰۴، حدیث: ۱۰۰۹۔
[73]…مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب بیان ان اسم الصدقۃیقع۔۔۔الخ ،ص ۵۰۳، حدیث: ۱۰۰۷۔
[74]…عمدۃ القاری، کتاب الصلح، باب فضل الاصلاح بین الناس والعدل بینھم، ۹/۶۰۲، تحت الحدیث:۲۷۰۷۔
[75]…شرح مسلم للنووی، کتاب الزکاۃ ، باب بیان ان اسم الصدقۃیقع علی کل نوع ، ۴/۹۵، الجزء السابع۔
[76]…مرآۃالمناجیح،۳/۹۷ ملتقطا۔
[77]…مسلم،کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ ، باب المشی الی الصلوۃ۔۔۔ الخ ، ص۳۳۶، حدیث:۶۶۹۔
[78]…فتح الباری، کتاب الاذان ، باب فضل من غدا الی المسجد، ۳/۱۲۹، تحت الحدیث:۶۶۲۔
[79]…مرآۃالمناجیح،۱/۴۳۳۔
[80]…مجمع الزوائد ، کتا ب الصلوۃ ، با ب لزوم المسجد، ۲/۱۳۴، تحت الحدیث:۲۰۲۶۔
[81]…ترمذی ، کتا ب الایمان ، با ب ماجا ء فی حرمۃ الصلوۃ،۴/۲۸۰، تحت الحدیث:۲۶۲۶ ۔
[82]…ابن ماجۃ، کتاب المساجد والجماعات،با ب لزوم المساجد،۱/۴۳۸، تحت الحدیث: ۸۰۰ ۔
[83]…ابن ماجۃ، کتا ب المساجد والجماعات ، با ب المشی الی الصلوۃ،۱/۴۲۹، تحت الحدیث:۷۷۹ ۔
[84]…عیون الحکایات،الحکایۃ التاسعۃ والثماثون، ص۱۰۷۔
[85]…بخاری، کتاب الادب،باب لاتحقرن جارۃ لجارتھا،۴/۱۰۴، حدیث:۶۰۱۷۔
[86]…عمدۃ القاری، کتاب الھبۃ، باب الھبۃ و فضلھا۔۔۔ الخ،۹/۳۷۸، تحت الحدیث:۲۵۶۶۔
[87]…مرآۃالمناجیح،۳/۹۵۔
[88]…مجموعۃ رسائل امام غزالی ،الادب فی الدین ،ص ۴۱۰ ۔
[89]…مجموعۃ رسائل امام غزالی ،الادب فی الدین ،ص ۴۱۰ ۔
[90]…عمدۃ القاری،کتاب الھبۃ، باب الھبۃ و فضلھا۔۔۔ الخ،۹/۳۷۹، تحت الحدیث:۲۵۶۶۔
[91]…ترمذی،کتاب الولاءو الھبۃ، باب فی حث النبی علی التھادی،۴/۴۹، حدیث:۲۱۳۷۔
[92]…الادب المفرد، باب قبول الھدیۃ،ص۱۶۸، تحت الحدیث:۶۰۷۔
[93]…موطاامام مالک ، کتاب حسن الخلق، باب ماجاء فی المھاجرۃ ،۲/۴۰۷، حدیث:۱۷۳۱۔
[94]…ترمذی،کتاب الاحکام، باب ماجاءفی قبول الھدیۃ،۳/۶۶،حدیث:۱۳۴۳۔
[95]…مسلم، کتاب الایمان، باب بیان عدد شعب الایمان ۔۔۔الخ، ص۳۹، حدیث:۳۵۔
[96]…عمدۃ القاری، کتاب الایمان ، باب امور الایمان، ۱/۲۰۰، تحت الحدیث: ۹ ملتقطا۔
[97]… عمدۃ القاری، کتاب الایمان ، باب امور الایمان، ۱/۲۰۲ ، تحت الحدیث: ۹ ملتقطا۔
[98]… عمدۃ القاری، کتاب الایمان ، باب امور الایمان، ۱/۲۰۲،تحت الحدیث:۹۔
[99]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الاداب، باب الرفق والحیاءوحسن الخلق، ۸/۸۰۰۔۸۰۲، تحت الحدیث:۵۰۷۰،۵۰۷۱ ملتقطا۔
[100]…مرآۃالمناجیح،۶/۶۳۷۔۶۴۱ملتقطا۔
[101]…تنبیہ الغافلین، باب الحیاء، ص۲۵۸۔
[102]…نزہۃ القاری ،۱/۳۳۴ملخصا۔
[103]…تر مذی، کتاب البر والصلۃ ،باب ماجاء فی العی۳/۴۱۴، حدیث: ۲۰۳۴۔
[104]…ابن ماجۃ،کتاب الزھد ، باب الحیاء ،۴/۴۶۰، حدیث:۴۱۸۲۔
[105]…مستدرک حاکم،کتاب الایمان، اذا زنی العبد خرج منہ الایمان، ۱/۱۷۶، حدیث:۶۶۔
[106]…مسلم، کتاب السلام، باب فضل ساقی البھائم۔۔۔الخ، ص۱۲۳۲، حدیث:۲۲۴۴۔
[107]… بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم، ۴/۱۰۳، حدیث:۶۰۰۹۔
بخاری، کتاب الوضوء، باب اذاشرب الکلب۔۔۔الخ، ۱/۸۳، حدیث:۱۷۳۔
[108]…بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب۵۶، ۲/۴۶۶، حدیث:۳۴۶۷۔
مسلم، کتاب السلام، باب فضل ساقی البہائم۔۔الخ، ص۱۲۳۲، حدیث: ۲۲۴۵، ماخوذاً۔
[109]…شرح بخاری لابن بطال، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس والبھائم، ۹/۲۱۹۔
[110]…شرح مسلم للنووی، کتاب قتل الحیات ونحوھا، باب فضل ساقی البھائم ، ۷/۲۴۱، الجزء الرابع عشر۔
[111]…مرآۃالمناجیح،۳/۱۰۰۔
[112]…مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل ازالۃ الاذی عن الطریق، ص،۱۴۱۰ ،حدیث:۱۹۱۴۔
[113]…بخاری، کتاب الاذان ، باب فضل التھجیر الی الظھر،۱/۲۳۴، حدیث:۶۵۲۔
[114]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، ۴/۴۰۳، تحت الحدیث:۱۹۰۵۔
[115]…شرح الطیبی، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ ، ۴/۱۲۵، تحت الحدیث:۱۹۰۵۔
[116]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر، ۱/۳۶۸، تحت الحدیث:۱۲۷۔
[117]…مرآۃالمناجیح،۳/۱۰۱۔
[118]…مسلم،کتاب الجمعۃ،باب فضل من استمع۔۔۔الخ،ص۴۲۷، حدیث:۸۵۷۔
[119]…مرآۃالمناجیح،۲/۳۱۷ ملخصا۔
[120]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلاۃ ، باب التنظیف والتکبیر،۳/ ۴۷۵، تحت الحدیث:۱۳۸۳۔
[121]…شرح مسلم للنووی،کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع و انصت للخطبۃ ،۳/۱۴۷، الجزء السادس۔
[122]…اشعۃ اللمعات ، کتاب الصلاۃ ، باب التنظیف والتکبیر ، ۱/۶۲۰۔
[123]…مرآۃالمناجیح،۲/۳۳۴ملخصا۔
[124]… ابن ماجہ، ابواب اقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا، باب في فضل الجمعۃ، ۲/۸، حدیث:۱۰۸۴۔
[125]…جامع الترمذي، کتاب الجمعۃ، باب ماجاء في الساعۃ۔۔۔الخ، ۲/۳۰، حدیث: ۴۸۹۔
[126]…المعجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبد الملک، ۳/۳۵۱، حدیث:۴۸۱۷۔
[127]…حلیۃ الاولیاء، محمد بن منکدر، ۳/۱۸۱۔
[128]…شرح الصدور للسيوطی، باب من لا يسئل فی القبر، ص۱۵۱۔
[129]…مشکاۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ،۱/۲۶۶، حدیث:۱۳۶۹۔
[130]…مسندامام احمد ،حدیث اوس بن ابي اوس الثقفی،۵/۴۶۵، حدیث:۱۶۱۷۳۔
[131]…معجم کبير، ابو نصرۃ عن ابی رجاء عن عمران،۱۸/۱۳۹،حدیث:۲۹۲،المعجم الاوسط، باب الجیم، ۲/۳۱۴، حدیث:۳۳۹۷۔
[132]…مسلم، کتاب الطھارۃ ، باب خروج الخطایامع ماء الوضوء ، ص۱۴۹، حدیث:۲۴۴۔
[133]… شرح مسلم للنووی،کتاب الطھارۃ، باب خروج الخطایا مع ماء الوضوء ، ۲/۱۳۳، الجزءالثالث۔
[134]…اکمال المعلم، کتاب الطھارۃ، باب خروج الخطایا مع ماء الوضوء ، ۲/ ۴۱، تحت الحدیث۲۴۴۔
[135]…مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطھارۃ، الفصل الاول، ۲/۱۳، تحت الحدیث: ۲۸۵۔
[136]…مسلم، کتاب الطھارۃ، باب خروج الخطایا مع ماء الوضوء، ص۱۴۹، حدیث: ۲۴۵۔
[137]…مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطھارۃ، الفصل الاول، ۲/۱۳، تحت الحدیث: ۲۸۵۔
[138]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الطھارۃ، الفصل الاول ، ۲/۱۳،تحت الحدیث:۲۸۵۔
[139]…وہ چیز جو کسی دوسری چیز کی وجہ سے قائم ہو جیسے سیاہی ، سفیدی اور دیگر رنگ وغیرہ ۔
[140]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر ،۱/۳۶۹، تحت الحدیث:۱۲۹۔
[141]…المیزان الکبری ، الجزء الاول ، ص ۱۳۰ ۔
[142]…مرآۃالمناجیح،۱/۲۳۴۔
[143]…بخاری، کتاب الوضوء، باب فضل الوضوء۔۔۔ الخ، ۱/۷۱، حدیث: ۱۳۶۔
[144]…مسلم،کتاب الطھارۃ،باب الذکر المستحب عقب الوضوء،ص ۱۴۴،حدیث:۲۳۴۔
[145]… مسلم، کتاب الطھارۃ با ب الذکر المستحب عقب الوضوء، ص۱۴۴، حدیث: ۲۳۴۔
[146]…ترمذی،ابواب الطھارۃ، باب ماجا ءانہ یصلی الصلوات بو ضوء واحد، ۱/ ۱۲۴،حدیث:۶۱۔
[147]…دار قطني، کتاب الطھارۃ، باب التسمیۃ علی الوضوء،۱/۱۰۸،حدیث:۲۲۸۔
[148]…مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ۔۔۔الخ،ص۱۴۴،حدیث:۲۳۳۔
[149]…اشعۃ اللمعات،کتاب الصلوۃ، الفصل الاول،۱/۲۹۸۔
[150]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر، ۱/۳۷۰، تحت الحدیث:۱۳۰۔
[151]…مرآۃالمناجیح،۱/۳۶۰۔
[152]…مسلم، کتاب الطھارۃ ، باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ، ص۱۵۱، حدیث:۲۵۱۔
[153]…شرح مسلم للنووی،کتاب الطھارۃ ، باب فضل اسباغ الوضوء علی المکارہ،۲/۱۴۱، الجزء الثالث۔
[154]…مرآۃالمناجیح،۱/۲۳۳۔
[155]…مرقاۃ المفاتیح،کتاب الطھارۃ ،الفصل الاول،۲/۱۱،تحت الحدیث:۲۸۲۔
[156]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر، ۱/۳۷۲، تحت الحدیث:۱۳۱۔
[157]…اشعۃ اللمعات،کتاب الطھارت، الفصل الاول،۱/۱۹۶۔
[158]…بخاری ، کتا ب الاذان ،باب من جلس فی المسجد ینتظرالصلوۃ،۱/۲۳۶، حدیث:۶۶۱۔
[159]…ابن ماجہ ، کتاب المساجد والجماعات،باب لزوم المساجد ، ۱/۴۳۸، حدیث:۸۰۱۔
[160]…مسند امام احمد،مسند ابی ھریرۃ ،۳/۲۶۷، حدیث:۸۶۳۳۔
[161]…مسلم ،کتا ب المساجد ، باب فضل صلوۃ الجماعۃ وانتظار الصلاۃ،۱/۳۳۳،حدیث:۶۴۹۔
[162]…بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃالفجر، ۱/۲۱۰، حدیث:۵۷۴۔
[163]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر ، ۱/۳۷۳، تحت الحدیث:۱۳۲ ملتقطا۔
[164]…عمدۃ القاری، کتاب مواقیت الصلوۃ، باب فضل صلاۃالفجر، ۴/۱۰۰، تحت الحدیث:۵۷۴۔
[165]…نزہۃالقاری،۲/۲۵۷۔
[166]…بخاری،کتاب الجھاد والسیر، باب یکتب للمسافرمثل ۔۔۔الخ ،۲/۳۰۸، حدیث:۲۹۹۶۔
[167]…عمدۃ القاری،کتاب الجھاد والسیر،باب یکتب للمسافرمثل ۔۔۔الخ، ۱۰/۳۰۹، تحت الحدیث:۲۹۹۶۔
[168]…شرح بخاری لابن بطال، کتاب الجھاد، باب یکتب للمسافر ماکا یعمل، ۵/۱۵۴۔
[169]…شرح بخاری لابن بطال، کتاب الجھاد، باب یکتب للمسافر ماکا یعمل، ۵/۱۵۴۔
[170]…مرآۃالمناجیح،۲/۴۱۳۔
[171]…بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقۃ،۴/۱۰۵، حدیث:۶۰۲۱۔
[172]…شرح طیبی ،کتاب الزکاۃ ،باب فضل الصدقۃ،۴/۱۱۷،تحت الحدیث:۱۸۹۳۔
[173]…التعریفات للجرجانی،ص۹۵ ۔
[174]…شرح بخاری لابن بطال، کتاب الادب، باب کل معروف صدقۃ، ۹/۲۲۳۔
[175]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الزکوۃ ، باب فضل الصدقۃ، ۴/۳۹۶، تحت الحدیث:۱۸۹۳۔
[176]…مرآۃالمناجیح،۳/۹۵۔
[177]…تفسیرابن کثیر، پ۲۲، الاحزاب ، تحت الایۃ:۳۵، ۶/۳۷۳۔
[178]…بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب من اخذ بالرکاب ونحوہ، ۲/۳۰۶، حدیث:۲۹۸۹۔
[179]…ترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ماجاءفی صنائع المعروف، ۳/۳۸۴، حدیث:۱۹۶۳۔
[180]…بخاری، کتاب الادب، باب کل معروف صدقۃ،۴/۱۰۵، حدیث:۶۰۲۲۔
[181]…مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب فضل الغرس والزرع،ص۸۳۹، حدیث:۱۵۵۲ماخوذاً۔
[182]…عمدۃ القاری، کتاب المزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اکل منہ، ۹/۵، تحت الحدیث:۲۳۲۰۔
[183]…تفہیم البخاری ۳/۵۵۶۔
[184]…شرح الطیبی، کتاب الزکوۃ، باب فضل الصدقۃ، ۴/۱۲۲، تحت الحدیث:۱۹۰۰۔
[185]…شرح الطیبی، کتاب الزکوۃ، باب فضل الصدقۃ، ۴/۱۲۲، تحت الحدیث:۱۹۰۰۔
[186]…دلیل الفالحین، باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر، ۱/۳۷۵، تحت الحدیث:۱۳۵۔
[187]…مرآۃالمناجیح،۳/۹۹۔
[188]…مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد،ص۳۳۵، حدیث: ۶۶۴،۶۶۵ ماخوذا۔
[189]…عمدۃ القاری، کتاب الاذان ، باب احتساب الاثار، ۴/۲۴۳، تحت الحدیث:۶۵۶ماخوذا۔
[190]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصلوۃ، باب المساجد ومواضع الصلاۃ، ۲/۴۰۴، تحت الحدیث:۷۰۰ ۔
[191]…تفہیم البخاری ۱/۱۰۰۵۔
[192]…مرآۃالمناجیح،۱/۴۳۴۔