حدیث نمبر:137
عَنْ اَبیْ
الْمُنْذِرِ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: کَانَ رَجُلٌ لَا
اَعْلَمُ رَجُلًا اَبْعَدَ مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْہُ، وَکَانَ لَا تُخْطِئُہُ
صَلَاۃٌ فَقِیْلَ لَہُ،اَ وْ فَقُلْتُ لَہُ: لَوْ اِشْتَرَ یْتَ حِمَارًا تَرْکَبُہُ فِی الظَّلْمَاءِ؟ وَفِی الرَّمْضَاءِ؟ فَقَالَ: مَا یَسُرُّ نِی اَنَّ مَنْزِلِیْ اِلٰی جَنْبِ
الْمَسْجِدِ، اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ
یُکْتَبَ لِیْ مَمْشَایَ اِلَی الْمَسْجِدِ، وَرُجُوعِی اِذَا رَجَعْتُ اِلٰی اَہْلِیْ، فَقَالَ
رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ: قَدْ جَمَعَ اللّٰہُ لَکَ
ذَلِکَ کُلَّہُ.وَفِیْ رِوَایَۃٍ:اِنَّ لَکَ مَااِحْتَسَبْتَ.([1])
(قَالَ
النَّوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِی) اَلرَّمْضَاءُ:اَلْاَرْضُ
الَّتِی اَصَابَہَا الْحَرُّ الشَّدِیْدُ.
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو مُنْذِر اُبَیّ بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہےکہ
ایک آدمی تھا، میں نہیں جانتا کہ
اس سے زیادہ کوئی مسجد سے دُور رہتا ہو۔اس کی کوئی نماز خطا نہ ہو تی تھی۔ اسے کہا
گیا یا میں نے اسے کہا کہ ’’تم ایک گدھاکیوں نہیں خریدلیتےکہ اندھیرے اور گرمی میں
اس پر سوار ہو کر آیا کرو۔‘‘ اس نے کہا: ’’مجھےیہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد کے قریب ہو ،میں چاہتاہوں کہ مسجد کی طرف آتے ہوئےاوراپنے گھر کی طرف جاتےہوئے میرے لیے ثواب لکھا جائے۔‘‘ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد
فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّنے یہ سب تیرے لیے جمع فرمادیاہے۔‘‘ ایک اورروایت میں یوں ہےکہ ’’تجھے
تیری نیت کے مطابق ثواب ملے گا۔‘‘
(امام نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں )الرَّمْضَاءُسےمرادوہ زمین ہےجہاں سخت گرمی پڑتی ہو۔
مذکورہ حدیث پاک میں بھی مسجد کی طرف چل کر نماز کے لیے جانے اور اس کے
ثواب کا ذکر ہے، نیز اس حدیث پاک میں ایک ایسے خوش نصیب شخص کا تذکرہ ہے جس کا گھر
مسجد سے بہت دور تھا مگر اس کی کوئی نماز خطا نہ ہوئی تھی، نیز جب اسے مسجد آنے
جانے کے لیے سواری کا مشورہ دیا گیا تو اس نے حصولِ ثواب کی خاطر اس مشورے کو قبول
نہ کیا۔یقیناً بہت خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے گھر مسجد سے دور ہوتے ہیں لیکن
وہ پھر بھی پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں اور یقیناً بہت
بدنصیب ہیں وہ لوگ جن کے گھر مساجد کے بہت قریب ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بلا
وجہ شرعی اُن کی جماعت بلکہ نماز تک قضا ہوجاتی ہےمَعَاذَ اللہ ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(1)حضور نبی کریم رؤف
رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’لوگوں
میں نماز کازیادہ ثواب پانے والاوہ ہے جس کا راستہ دراز ہو، پھر وہ جس کا راستہ
دراز ہواور جو نماز کا انتظار کرے حتی کہ امام کے ساتھ پڑھے اس کا ثواب اس سے
زیادہ ہے جو نماز پڑھے پھر سوجائے۔‘‘([2])
(2)تمام نبیوں کے
سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’مشقت کے وقت کامل وضو کرنا
اورمسجد کی طرف کثرت سے آمدورفت اور ایک نَماز کے بعد دوسری نَماز کا انتظار کرنا
گناہوں کو اچھی طرح دھودیتا ہے۔‘‘([3])
(3)پیکرِ حُسن وجمال،،
دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’جومسجد کی طرف چلا یامسجد سے واپس لَوٹا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر آمد ورفت پر اس کے لیے جنت میں
ایک مہمان خانہ بنائے گا ۔‘‘([4])
(4) رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’ کیا میں تمہاری ایسے عمل کی طرف رہنمائی نہ کروں جس کے
سبب اللہ عَزَّ
وَجَلَّ گناہ مٹا تا اور درجات بلند فرماتاہے؟‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے عرض کی:’’ضرور ارشاد
فرمائیے۔‘‘فرمایا:’’دُشواری کے وقت کا مل وضو کرنا، مسجد کی طرف کثرت سے جانا اور
ایک نَماز کے بعد دوسری نَماز کا انتظارکرنا، پس یہ گناہوں سے حفاظت کےلیے قلعہ
ہے۔‘‘([5])
(5)شہنشاہ
ِمدینہ،قرارِقلب وسینہ،فیض گنجینہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا :’’جب تم میں سے
کوئی کامل وضو کرے
پھروہ نَمازکی طرف چلے تو اس کا دایاں قدم اٹھنےسےپہلےاللہ عَزَّ وَجَلَّاس
کے لیے نیکی لکھتا ہے اور بایاں قدم رکھنےسے پہلے اُس
کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔اب چاہے تم میں سے کوئی مسجدکے قریب رہے یا دُور۔پھراگروہ
مسجد میں حاضر ہو اورباجماعت نَماز ادا کرے
تواس کی مغفرت کردی جا تی ہے اور اگر وہ
مسجد میں حاضر ہواور کچھ رکعتیں نکل چکی
ہوں اور بقیہ نماز مکمل کرلی تو اس کی بھی مغفرت کردی جائے گی اوراگر وہ
مسجدمیں جماعت کی نیت سے حاضر ہوا لیکن جماعت ہوچکی تھی (پھر اس نے تنہا نَماز ادا کر لی ) تو اس کی بھی مغفرت کردی جا تی ہے۔‘‘([6])
(1)
نمازی کے لیے مسجد کی طرف پیدل جانے میں ثواب زیادہ ہے۔
(2)
نیکی کرتے ہوئے جتنی زیادہ نیّتیں ہوں گی اتنا ہی زیادہ ثواب ملےگا۔
(3)
مسجداللہ عَزَّ وَجَلَّ کا گھر ہےاوراس میں حاضر ہونے کے آداب
ہیں ہر مسلمان کواُن آداب کا خاص خیال
رکھنا چاہیے ۔
(4)
صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان بہت زیادہ تکلیف کے
باوجودباجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے ۔
(5)
نماز کے لیے مسجد آنے پر بھی ثواب ہے اور
نماز پڑھ کر واپس جانے پر بھی ثواب ۔
اللہ عَزَّ
وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پانچوں نمازیں باجماعت
پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری حتمی مغفرت
فرمائے، جنت میں بلا حساب داخلہ نصیب فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:138
کسی کواپنی نفع بخش چیز
دینے کی فضیلت
عَنْ اَبِی مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو
بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَال: قَالَ
رَسُوۡلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
اَرْبَعُوۡنَ خَصْلَةً اَعْلَاهَا مَنِيۡحَةُ الْعَنْزِ، مَامِنْ عَامِلٍ يَعْمَلُ بِخَصْلَةٍ مِنْهَارَجَاءَ
ثَوَابِهَا وَتَصْدِيۡقَ مَوْعُوۡدِهَا اِلَّا اَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهَا الْجَنَّةَ.([7])
(قَالَ
النَّوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِی:) اَلْمَنِیْحَۃُ، اَنْ
یُّعْطِیَہُ اِیَّاھَا لِیَاۡکُلَ لَبَنَھَا ثُمَّ یَرُدَّھَا اِلَیْہِ.
ترجمہ : حضرت سَیِّدُنَا ابو محمدعبد اللہ بن عَمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہےکہ رسولُ اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’40خصلتیں ہیں اور ان میں سے سب سے اعلیٰ یہ ہے کہ کسی کو
عاریۃً دودھ والی بکری دینا، جو کوئی ان خصلتوں میں سے کسی خصلت پرثواب کی امید
کرتے ہوئے اور جو اس پر وعدہ ہے اس کی تصدیق کرتے ہوئے عمل کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘
(علامہ
نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِی فرماتےہیں :)اَلْمَنِیْحَۃُ کسی
کوجانوردینا تاکہ وہ اس کا دودھ پی کر لوٹا دے ۔
عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ ذِی الْجَلَالفرما تے ہیں :’’بے شک مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ
ہمارے زمانے کے بعض علمائے کرام رَحِمَہُمُ
اللہُ السَّلَامنے احادیث
مبارکہ میں غور کیا تو چالیس سے زائد
خصلتیں پائیں ۔ان میں سے چند خصلتیں بیان
کی جاتی ہیں :(1)غلام آزاد کرنا (2)دودھ والاجانور کسی مسلمان
کوعاریتًادینا (3)بھوکے کو کھانا کھلانا (4)پیاسے کو پانی پلانا (5)کسی
مسلمان سے ملاقات کے وقت سلام کرنا (6)چھینکنے والے کو جواب دینا
(7)راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا (8) کاریگر کی مددکرنا (9) کسی کو رسی کا ٹکڑا دینا (10) کسی کو جوتے
کاتسمہ دینا (11)وَحشت زَدَہ کی وَحشت دُور کرنا۔ یعنی جووَحشت کے مقام
پرہواسے مقامِ اُنس تک پہنچانا یا اچھی بات کے ذریعے کسی کی وَحشت دُور کرنا (12)کسی کی
مصیبت کو
دور کرنا (13) اپنے مسلمان بھائی کی
حاجت روائی کرنا (14)مسلمان کی پردہ پوشی کرنا (15)اپنےمسلمان
بھائی کے لیےمجلس میں کشادگی کرنا (16)کسی مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا (17)مظلوم کی مدد کرنا (18) تعلق توڑنے والے رشتہ دارسےتعلق
جوڑنا (19)ظالم کوظلم سےروکنا (20) کسی کو بھلائی کی راہ بتانا (21)
نیکی کی دعوت دینا (22)لوگوں کے درمیان صلح کروانا (23) مسکین
سےاچھےطریقے سےبات کرنا (24) پانی کی بالٹی کسی دوسرے مسلمان کودے دینا (25)پڑوسی
کو تحفہ دینا (26) کسی مسلمان کی (جائز) سفارش کرنا (27)اُس عزَّت دار پر رحم کرناجو رُسوا ہو گیا ہو (28)اُس
غنی پر رحم کرنا جو مُفلس ہو گیا ہو (29)اُس
عالِم پررحم کرنا جوجاہلوں کے درمیان گھِر گیا ہو(30)مریض کی عیادت کرنا
(31) جو کسی مسلمان کی غیبت کرے اسے روکنا (32)مسلمان سے مصافحہ کرنا
(33)رضائے الٰہی کے لیے آپس میں محبت
کرنا (34) رضائے الٰہی کے لیے آپس
میں مل بیٹھنا (35)رضائے الٰہی کے لیے
آپس میں ملاقات کرنا (36)
رضائے الٰہی کے لیے لین دین کرنا (37)
کسی مسلمان کو اس کی سواری پر سوار کرا دینا (38)یا اس کا سامان اٹھا
کر سواری پر رکھوا دینا (39) مسلمانوں کو نصیحت کرنا ۔‘‘([8])
(1)
کسی مسلمان کو عاریتًا کوئی چیز دینا
بھی کارِ ثواب ہے۔
(2)
وحشت زدہ کی وحشت دُور کرناجنت میں داخلے کا سبب ہے۔
(3)
مسلمانوں کی آپس کی محبت، میل جول،
لین دین اوردیگر معاملات اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لیے ہوں تو دنیا وآخرت کی بھلائیوں کا باعث ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خیر وبھلائی
کے کاموں کو کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:139
عَنْ عَدِیِّ بْنِ
حَاتِم ٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ: یَقُوْلُ:اِتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ.([9])وَفِیْ رِوَایَۃٍ
لَہُمَاعَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ:مَامِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلَّاسَیُکَلِّمُہُ رَبُّہُ لَیْسَ بَیْنَہُ
وَبَیْنَہُ تَرْجُمَانٌ،فَیَنْظُرُ اَ یْمَنَ مِنْہُ فَلَا یَرَ ی اِلاَّ مَا قَدَّمَ،
وَ یَنْظُرُ اَشْاَمَ مِنْہُ فَلَا یَرَ ی اِلاَّ مَاقَدَّمَ، وَیَنْظُرُ بَیْنَ
یَدَیْہِ فَلَا یَرَ ی اِلّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْہِہِ، فَاتَّقُواالنَّارَوَلَوْبِشِقِّ
تَمْرَۃٍ،فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ.([10])
ترجمہ :حضرت
سَیِّدُنَا عَدِی بن حاتِم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے
روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے
ارشادفرمایا:’’آگ سے بچو اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے سے ہو۔‘‘صحیحین کی ایک
روایت میں انہیں سے مروی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’عنقریب اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم میں سے ہرایک سے بغیرترجمان کلام فرمائے گا۔آدمی اپنی دائیں جانب
دیکھے گا تو اسے آگے بھیجے ہوئے اَعمال نظر آئیں گے۔بائیں طرف دیکھے گاتوبھی اَعمال
نظر آئیں گے۔ اپنے سامنے دیکھے گا تو دوزخ نظر آئے گی۔ پس جہنم سے بچو!اگر چہ
کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے ہی ہو اور جسے یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی گفتگو کے ذریعے ( جہنم سے بچے )۔‘‘
دلیل
الفالحین میں ہے:’’اَعمالِ صالحہ اورصدقات کے ذریعے اپنے آپ کو عذاب سے بچاؤ۔ صدقہ
کرو اگرچہ
آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو۔آخرت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ بذات خود بغیر کسی
واسطے کے لوگوں سے کلام فرمائے گا ۔بندہ دائیں جانب اپنے وہی نیک اَعمال دیکھے
گاجو دنیا میں کر چکا ہے اوربائیں جانب اپنے وہ تمام بُرے اعمال
دیکھےگاجودنیا میں کر چکاہے۔ (پس اے لوگو!) اعمالِ صالحہ کوجہنم سےچھٹکارے کا ذریعہ بناؤ، اگر صدقہ کرنے کے لیے کوئی
چیز نہ پاؤ تواچھی بات کہہ کر کسی مسلمان کا دل خوش کرواورآگ سے نجات پاؤ۔‘‘([11])
مرقاۃالمفاتیح میں ہے:’’اچھی بات
کے ذریعے جہنم کی آ گ سے بچو۔اس سے مراد یہ ہے کہ
ذکرو دعا کرو یاسائل سے اچھی بات کہو، وعدہ پورا کرو،یااچھی اُمید کے ساتھ اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعا کرو۔‘‘([12])
مُفَسِّرشہِیرحَکِیْمُ
الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :
’’حضرت عدی(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) صحابی
ہیں ۔یہ حاتم کے بیٹے ہیں ۔یہ حاتم وہ ہے جومشہور سخی گزراہے۔آپ اپنے والدحاتم ابن
عبد ابن سعدکی وفات کے بعدشعبان ۷ھ میں ایمان لائے، بعد میں کوفہ میں رہے۔ حضرت
علی(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) کے
ساتھ تمام جنگوں میں شریک ہوئے۔جَمل کے دن آپ کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی۔ایک سو بیس
سال کی عمر پائی۔۶۷ھ میں وفات پائی، مقام فرقلیہ میں قبر ہے۔(عنقریب اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم میں سے ہرایک سے بلا ترجمان کلام
فرمائے گا۔)یعنی تم لوگ قیامت میں براہ ِراست بِلاواسطہ اپنے ربّ سے کلام
کروگے۔یہ کلام عربی زبان میں ہوگا۔قیامت کا سارا کاروبار بلکہ آج نامۂ اعمال کی
تحریر،قبرمیں منکرنکیرکےسوالات سب عربی زبان میں ہیں ۔مرتے ہی انسان کی زبان عربی
ہوجاتی ہے۔ربّ تعالٰی کے ہاں سرکاری زبان عربی ہے۔اس لیے فرمایا کہ لوگ اپنی
دنیاوی بولیاں نہ بولیں گے تاکہ ربّ کا عربی کلام انہیں سمجھانے کے لیے کوئی ترجمہ کرنے والا درمیان میں ہو۔خیال رہے کہ حضورانور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم خودتو عربی بولتے تھے مگر ساری زبانیں سمجھتے
تھے حتی کہ جانوروں کی بولیاں بھی سمجھ لیتے تھے اس لیے اونٹوں چڑیوں نے حضور صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمکے
آستانہ پر فریاد کی اورداد پائی۔اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہُ نے
کیا خوب فرمایا:شعر
ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہَرْنی
داد
اِسی دَر پر شُتَرانِ ناشاد گِلۂ رَنج وعَنا کرتے ہیں
(کَلِمَۂ طَیِّبَہ)یہاں
کلمۂ طیبہ سے مرادیا تو کلمۂ شہادت ہے یا اللہ کا
ہر ذکر ہے یا فقیر سے اچھی بات کہہ دینا، معذرت کردینا،آئندہ کے لیے وعدہ کرلینا
کہ ابھی کچھ نہیں جب کچھ ہوگا تب اِنْ شَآءَ اللہتم کو
دیں گے۔ اسی کو قرانِ مجید نے قول معروف فرمایا ہے۔‘‘([13])
(1)’’اچھی بات کے علاوہ اپنی زبان کو
روکے رکھو اس طرح تم شیطان پرغالب آجاؤگے۔‘‘([14]) (2)’’جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اورقیامت کےدن پرایمان رکھتاہواسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا پھرخاموش رہے۔‘‘([15]) (3)’’اللہ عَزَّ وَجَلَّاس بندےپررحم فرماتا ہے جس نےاچھی بات کہی اوربھلائی
کوپالیایاپھر بری بات کہنےسے خاموش رہا اورسلامتی کو پالیا۔‘‘([16]) (4)’’آدمی سے اکثرخطائیں اس کی زبان کی وجہ سے
ہوتی ہیں ۔‘‘([17])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!واقعی جو شخص
اپنی زبان کو فضول اور لغو باتوں سے بچانے میں کامیاب ہوگیا یقینا ًاس نے بڑی
کامیابی حاصل کرلی، اس نے سلامتی اور بھلائی کو پالیا ۔ اپنی زبان کو فضول اور
لایعنی باتوں سے روکنا شیطان کے خلاف بہت بڑا ہتھیار ہے، جو اس ہتھیار کو حاصل
کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے۔ مگر افسوس! آج ہماری
اکثریت فضول باتوں میں اپنے قیمتی وقت کو ضائع کرنے
میں مصروفِ عمل نظر آتی ہے، زبان کی سلامتی سے
پورا جسم سلامت رہتا ہے، بندہ جب صبح کو اٹھتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء زبان سے
درخواست کرتے ہیں کہ اگر آج کے دن تو صحیح رہی تو ہم سب بھی صحیح رہیں گے۔ کاش!
ہم سب بھی زبان کا قفلِ مدینہ لگانے والے بن جائیں یعنی اپنی زبان سے فضول اور لغو
کلام کرنے کی بجائے، اچھی بات اور ذکر اللہ کرنے والے بن جائیں ، یقیناً اس
میں دنیا وآخرت دونوں کی بے شمار بھلائیاں پوشیدہ ہیں ۔
اللہ ہمیں کر دے عطا قفل مدینہ……… ہر ایک مسلماں لے لگا قفل مدینہ
یاربّ نہ ضرورت کے سوا کچھ کبھی بولوں ……… اللہ زباں کا ہو عطا قفل مدینہ
بولوں نہ فضول اور رہیں نیچی نگاہیں ………آنکھوں کا زباں کا دے خدا قفل مدینہ
رفتار کا گفتار کا کردار کا دے دے ……… ہر عضو کا دے مجھ کو خدا قفل مدینہ
دوزخ کی کہاں تاب ہے کمزور بدن میں ………ہر عضو کا عطار
لگا قفل مدینہ
(1)
اَعمالِ صالحہ
اورصدقات وخیرات کی برکت سے اِنسان جہنم
کی آگ سے آزاد ی حاصل کر لیتا ہے ۔
(2)
اگر کوئی صدقہ
وخیرات کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو چاہیے کہ اچھی گفتگو کرے کہ یہ
بھی اس کےلیے صدقہ ہے ۔
(3)
جو شخصاللہ عَزَّ وَجَلَّ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ
وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔
(4)
آدمی کو اپنی
زبان احتیاط سے استعمال کرنی چاہیے کیونکہ
اکثر خطائیں زبان کی وجہ سے ہوتی
ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے وہ ہمیں صدقہ وخیرات کرنے، نیک اعمال
خود بھی کرنے اور دوسروں کو بھی
نیک اعمال کی ترغیب
دلانے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:140
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِنَّ اللَّهَ لَيَرْضٰى عَنِ الْعَبْدِ اَنْ يَاْكُلَ الْاَ
كْلَةَ فَيَحْمَدُهُ عَلَيْهَا اَ
وْيَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدُهُ عَلَيْهَا.([18])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ رسول اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّاس بندے سے خوش ہوتا ہےجو کھانا کھا کراس کی حمد کرے یا پانی پی کر اس کی
حمد کرے۔‘‘
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’یعنی اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ اسےپسند فرماتاہےجو کھانا کھا کریاپانی پی کراس
کی حمد کرے ۔”اَکْلَۃٌ“اگرہمزہ پرزبرپڑھیں تومعنی ہوگا: کھانا مکمل کر کےاللہ
عَزَّ
وَجَلَّ کا شکرادا کرنا۔اوراگرہمزہ پرپیش ہو”اُکْلَۃٌ“توپھر معنی ہوگا: ہرلقمےپراللہ
عَزَّ
وَجَلَّ کا شکرادا کرنااوریہ ادائے شکر کابہت اعلیٰ درجہ ہے۔ لیکن پہلامعنی زیادہ موافق
ہے۔‘‘([19])
حضرت سَیِّدُنَا ابنِ مالک عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِقفرماتےہیں
:’’سنت یہ ہےکہ کھانےکےبعدجب تک اس کے ساتھ کھانے والے فارغ نہ ہوجائیں ، بلندآواز
سے حمد نہ کرے، کیونکہ ہوسکتاہےاس کی حمد سن کروہ
کھانے
سے ہا تھ روک لیں ۔‘‘([20])
حضورنبی
کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’جو
شخص کھانے کے بعد یہ کلمات کہےتو اس
کےتمام پچھلےگناہ مُعاف کر دیے جاتے ہیں ۔(وہ کلِمات یہ ہیں :)اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
الَّذِیْ اَطْعَمَنِیْ ھٰذَا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ
وَلَاقُوَّ ۃٍ
یعنی تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کھاناکِھلایا اور میری کسی مَہارت وقُوّت کے
بِغیر مجھے یہ رِزق عطا فرمایا ۔‘‘([21])
مُفَسِّرشہِیرحَکِیْمُ
الاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :(اللہ عَزَّ وَجَلَّاس بندے سے خوش ہوتا ہےجو کھانا
کھا کراس کی حمد کرے یا پانی پی کر اس کی حمد
کرے)اس فرمانِ عالی کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :ایکیہ کہ اگر کسی وقت تھوڑا سا کھانا بھی کھائے ،ایک آدھ لقمہ،
تب بھی خدا کی حمد کرے۔ دوسرےیہ کہ کھاتے وقت ہر لقمہ پر اللہ کی
حمد کرے۔ ہم نے بعض بزرگوں کو کھانے کے ہر لقمے اور پانی کے ہر گھونٹ پر حمد کرتے
دیکھا ہے۔‘‘([22])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
کھانا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بہت لذیذ نعمت ہے ۔ اگر سنتِ
احمد ِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مطابق کھانا
کھایا جائے تو ہمیں پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ ثواب بھی حاصل ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہيے
کہ سنت کے مطابق کھانا کھانے کی عادت ڈالیں ۔ دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ
المدینہ کی مطبوعہ۱۲۲صفحات پرمشتمل کتاب ’’سنتیں اور آداب‘‘ صفحہ ۸۹سے کھانا
کھانے کی کچھ
سنتیں اور آداب ملاحظہ ہوں :(1) ہرکھانے
سے پہلے اپنے ہاتھ پہنچوں تک دھو لیں ۔(2)جب بھی کھانا کھائیں تو الٹا پاؤں
بچھا دیں اور سیدھا کھڑا رکھیں یا سرین پر بیٹھ جائیں اور دونوں گھٹنے کھڑے رکھیں ۔
(3) کھانے سے پہلے جوتے اتار لیں ۔(4) کھانے سے پہلے بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْم پڑھ لیں ۔(5)
اگر کھانے کے شروع میں بِسْمِ اللہپڑھنا بھول جائیں
تو یاد آنے پربِسْمِ اللہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہپڑھ لیں ۔(6) کھانے سے پہلے یہ دعا پڑھ لی جائے تو اگر کھانے میں زہر
بھی ہوگا تو اِنْ
شَآءَ اللہعَزَّ
وَجَلَّاثر نہیں کرے گا: ’’بِسْمِ اللہِ الَّذِیْ
لَایَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ یَاحَیُّ يَاقَیُّوْمُیعنی اللہ عَزَّ
وَجَلَّ کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کے نام کی برکت سے
زمین وآسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اے ہمیشہ سے زندہ وقائم رہنے
والے۔(7) سیدھے ہاتھ سے کھائیں ۔(8) اپنے سامنے سے کھائیں ۔ (9) کھانے
میں کسی قسم کا عیب نہ لگائیں مثلاً یہ نہ کہیں کہ مزیدار نہیں ، کچا رہ گیا ہے ،
پھیکا رہ گیا کیونکہ کھانے میں عیب نکالنامکروہ و خلافِ سنت ہے بلکہ جی چاہےتو
کھائیں ورنہ ہاتھ روک لیں ۔
فَرما نِ مصطفےٰ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:’’مسلمان کی نیّت اس کے عَمَل سے بہتر ہے۔‘‘([23])شیخ طریقت امیرِ اہلِسنّت بانی دعوت اسلامی حضرت
علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی بیان کردہ کھانے کی چالیس40 نیتیں پیش
خدمت ہیں :(۱،۲)کھانے سے قبل اور بعد کا وُضو کروں گا (یعنی ہاتھ،مُنہ کا اَگلا
حصّہ دھوؤں گا اور کُلِّیاں کروں گا) (۳)عبادت (۴) تِلاو ت (۵)والدین
کی خدمت (۶) تحصیلِ عِلمِ دین (۷)سنّتوں کی تربیّت کی خاطِر مَدَنی قافِلے
میں سفر(۸) عَلاقائی دَورہ برائے نیکی کی دعوت میں شرکت (۹)اُمورِ
آخِرت اور(۱۰) حسبِ ضَرورت کسبِ حلال کےلیے بھاگ دوڑ پر قوّت حاصِل کروں گا
(یہ نِیّتیں اُسی صورت میں مُفید ہوں گی جبکہ بھوک سے کم کھائے، خوب ڈٹ کر کھانے
سے اُلٹا عبادت میں سُستی پیدا ہوتی، گناہوں کی طرف رُجحان بڑھتا اور پیٹ کی
خرابیاں جَنَم لیتی ہیں ۔) (۱۱)زمین پر (۱۲)دستر
خوان
بچھانے کی سنّت ادا کرکے (۱۳)سنّت کے مطابِق بیٹھ کر (۱۴)کھانے سے
قبل بسم
اللہاور (۱۵) دیگردُعائیں پڑھ
کر (۱۶)تین انگلیوں سے (۱۷)چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر (۱۸) اچھی
طرح چبا کر کھاؤں گا (۱۹)ہر دو ایک لقمہ پر یا وَاجِدُ پڑھوں گا (۲۰)جو
دا نہ وغیرہ گر گیا اٹھا کر کھالوں گا (۲۱) روٹی کا ہر نوالہ سالن کے برتن
کے اوپر کرکے توڑوں گا تا کہ روٹی کے ذرّات برتن ہی میں گریں (۲۲)ہڈّی اور
گرم مصالحہ اچھی طرح صاف کرنے اور چاٹنے کے بعد پھینکوں گا (۲۳)بھوک سے کم
کھاؤں گا (۲۴) آخِرمیں سنّت کی ادائیگی کی نیّت سے برتن اور (۲۵)تین
بار انگلیاں چاٹوں گا (۲۶)کھانے کے برتن دھوکر پی کر ایک غلام آزاد کرنے کے
ثواب کا حقدار بنوں گا۔ (۲۷)جب تک دستر خوان نہ اُٹھالیا جائے اُس وقت تک
بِلا ضَرورت نہیں اُٹھوں گا (۲۸)کھانے کے بعد مسنون دعائیں پڑھوں گا (۲۹)خِلال
کروں گا۔
(۳۰)دسترخوان پر اگر کوئی عالم یا بزرگ موجود ہوئے تو اُن سے پہلے کھانا شروع
نہیں کروں گا (۳۱)مسلمانوں کے قُرب کی بَرَکتیں حاصِل کروں گا (۳۲)اُن
کو بوٹی، کدّوشریف،کُھرچن اور پانی وغیرہ پیش کرکے اُن کا دل خوش کروں گا (۳۳)اُن
کے سامنے مسکراکر صدقہ کا ثواب کماؤں گا (۳۴)کھانے کی نیّتیں اور (۳۵)سنّتیں
بتاؤں گا (۳۶)موقع ملا تو کھانے سے قبل اور(۳۷)بعد کی دعائیں پڑھاؤں
گا (۳۸)غذاکا عمدہ حصّہ مَثَلاً بوٹی وغیرہ حرص سے بچتے ہوئے دوسروں کی
خاطر اِیثار کروں گا (۳۹)اُن کو خِلال کا تحفہ پیش کروں گا (۴۰)کھانے
کے ہر ایک دو لقمہ پر ہو سکا تو اس نیّت کے ساتھ بلند آواز سے یَاوَاجِدُکہوں گا کہ دوسروں کو بھی یاد آجائے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّہمیں سنت کے مطابق کھانا کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تیری سنتوں پہ چل کر میری روح جب نکل کر
چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے
صَلُّوْا عَلَی
الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1)
ہر لقمے اور
ہر گھونٹ پر حمد الٰہی بجا لانا شکر کا
بہترین طریقہ ہے۔
(2)
کھانے کے بعد
شکرِ الٰہی بجا لانارزق میں اضافے کا سبب
ہے ۔
(3)
کھانا کھاتے
ہوئے کھانے کی سنتوں اور آداب پر عمل کرنے میں بہت فوائد ہیں ۔سنت پر عمل کی برکت
سے پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ ثواب کا خزانہ بھی ہاتھ آئے گا۔
(4)
کھانا کھاتے
وقت محفل کے آداب ملحوظ رکھنے چاہئیں ، ایک
ادب یہ بھی ہے کہ جب تک دوسرے ساتھی
کھانا نہ کھا لیں بلند آواز سے حمد نہیں کرنی چاہیے۔
(5)
بزرگوں کی
صحبت اختیار کرنی چاہیے کہ ان کی صحبت میں بہت
ساری دُنیوی واُخروی بھلائیاں ملتی ہیں ،
بہت سی سنتیں اور آداب سیکھنے کو ملتے ہیں ۔
(6)
کھانے سے قبل
اچھی اچھی نیتیں کرلیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ثواب کا خزانہ ہاتھ آئے گا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں زوالِ نعمت سےبچائےاورہرنعمت پراپنی
حمدوثنابیان کرنےکی توفیق عطافرمائے، سنت کے مطابق کھانا کھانے کی توفیق عطا
فرمائے، دنیا وآخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:141
عَنۡ اَبِی مُوۡسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ. قَالَ:
اَرَاَيْتَ اِنْ لَمْ يَجِدْ؟
قَالَ: يَعْمَلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ.
قَالَ: اَرَاَ يْتَ اِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ؟ قَالَ: يُعِيۡنُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوۡفَ.
قَالَ: اَرَاَ يْتَ اِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ؟ قَالَ: يَاۡمُرُ بِالْمَعْرُوفِ
اَوِالْخَيْرِ.قَالَ اَرَاَ يْتَ اِنْ لَمْ
يَفْعَلْ؟
قَالَ: يُمْسِكُ
عَنِ الشَّرِّ فَاِ نَّهَا صَدَقَةٌ.([24])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُنا ابو موسیٰ اَشْعَرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی
ہے کہ حضورنبی کریم، رؤف رحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔‘‘عرض کی:’’آپ کیا فرماتے ہیں
،اگر اسے(صدقہ کے لیے کوئی شے) میسر نہ آئے؟‘‘فرمایا:’’اپنے ہاتھ سے کام کرے
پھر خودبھی فائدہ اٹھائے اورصدقہ بھی کرے۔ ‘‘عرض کی: ’’اگر اس کی طاقت نہ ہو تو؟‘‘فرمایا:’’ضرورت
مند،مصیبت زدہ کی مدد کرے۔‘‘عرض کی:’’آپ کی کیا رائے ہے اگراس کی بھی طاقت نہ ہو؟‘‘
فرمایا: ’’نیکی یا بھلائی کا حکم دے۔‘‘ عرض کیا:’’ اگر وہ یہ بھی نہ کر
سکے تو؟‘‘فرمایا : ’’ بُرائی سے بچے کہ یہ بھی صدقہ ہے۔‘‘
عَلَّامَہ بَدْرُالدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’حدیث مذکورمیں تنگدست مسلمان کے لیے اس
بات پر تنبیہ ہے کہ کسی پر بوجھ نہ بنے، بلکہ اپنے ہاتھ سے کام کاج کر کے اپنے آپ پر خرچ کرے اور اسے صدقہ
سمجھے۔امیرالمومنین حضرت سَیِّدُنَا عمر بن خطابرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:اے قاریوں کی جماعت! اپنے سے پہلے لوگوں کے
طریقے پر چلو،اپنے سروں کو بلند رکھواورمسلمانوں پر بوجھ نہ بنو۔‘‘([25])
حدیثِ مذکورمیں اس بات پربھی تنبیہ ہے کہ ’’مؤمن جب کسی نیکی پر قدرت نہ پائےتو کوئی ایسی نیکی کر لے جس پر اُسے قدرت ہو
کیونکہ نیکیوں اوربھلائیوں کے دَروازےبہت زیادہ ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے راستے بھی بے شمار ہیں ۔‘‘([26])
دلیل الفالحین میں ہے:’’تنگدست و محتاج کوچاہیے کہ محنت مزدوری کرے،
اس سے جواُجرت
حاصل ہواپنی ضروریات کھانے،پینے،اُوڑھنے،پہننے
وغیرہ میں استعمال کرے تاکہ کسی سے
مانگنےکی حاجت نہ رہےاوراپنےاوپرخرچ کرکے صدقے کا ثواب پائے۔‘‘([27])
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’برائی سے رُک جانا صدقہ ہے۔اس
سے مرادیہ ہے کہ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کی خاطر برائی سے بچے تو
اس کے لیے ایسا ہی اجر ہے جیسا مال صدقہ
کرنے والے کے لیے ہوتا ہے۔‘‘([28])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ
الاُمَّتمُفتِی
احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
الْحَنَّان حدیثِ مذکور کی شرح
میں فرماتے ہیں :’’(اگرصدقےکے لیے کوئی چیز میسر نہ آئے تو؟)صحابۂ کرام یہاں صدقہ
سے مالی خیرات سمجھے تھے، اس لیے اُنہیں یہ اِشکال پیش آیا کہ بعض مسلمان مسکین مفلوکُ الْحال ہوتے ہیں جن کے پاس اپنے
کھانے کونہیں ہوتاوہ صدقہ کہاں سے کریں ؟(فرمایا:اپنے ہاتھ سے کام کرے پھر خودبھی
فائدہ اٹھائے اورصدقہ بھی کرے)سرکار(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے اس
جواب سے معلوم ہورہا ہے کہ مال کمانا بھی عبادت ہے کہ اس کی برکت سے انسان ہزار ہا
گناہوں سے بچ جاتا ہے۔جیسے بھیک، چوری وغیرہ۔ نیز نِکمّا آدمی اپنا وقت گناہوں میں
خرچ کرنے لگتا ہے۔نفس کو حلال کاموں میں لگائے رہوتاکہ تمہیں حرام میں نہ
پھنسادے۔(برائی سے بچے یہ بھی صدقہ ہے) بُرائی سے بچنے کی دو صورتیں ہیں : ایک
یہ کہ فساد کے زمانہ میں گھر میں گوشہ نشین بن جائے کہ نماز کے اوقات مسجد میں باقی
گھر یا جنگل میں گزارے۔ دوسرے یہ کہ بُری مجلسوں میں جائے مگر بُرائی کرنے
کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کو بُرائی سے روکنے کے لیے کہ یہ بڑا جہاد ہے۔ اس جملے سے
معلوم ہوا کہ جیسے نیکیاں نہ کرنا گناہ ہے، ایسے ہی گناہ نہ کرنا ثواب۔ نہ کرنے سے
مراد بچنا ہے یعنی سلبِ عدولی نہ
کہ سلبِ محض۔ لہٰذا حدیث پر یہ اِعتراض نہیں کہ ہم ہر وقت خصوصاً سونے کی حالت میں
لاکھوں گناہوں سے بچے رہتے ہیں ،توچاہیے کہ ہمیں ہر سانس میں کروڑوں نیکیاں ملا
کریں ،ربّ تعالٰی فرماتاہے:( وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ
رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) )(پ۳۰، النٰزعٰت:۴۰) (ترجمہ ٔ کنزالایمان:وہ جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے
ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔)یہ حدیث اس آیت کی تفسیر ہے۔‘‘([29])
عَلَّامَہ مُلَّا
عَلِی قَارِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’مصیبت
زدہ کی مددکرے۔ اس سے مراد وہ شخص ہےجواپنےکسی معاملے میں رنجیدہ وپریشان ہو،یاکمزورومظلوم
مدد مانگ رہاہوتوچاہیے کہ اپنے عمل، مال یا منصب کےذریعےاس کی مدد کرے یا اسے
مددگارتک پہنچا
دے یا نصیحت کر دے
یا دعا کے ذریعےمددکرےاوراگریہ نہ کرسکےتوبھلائی کاحکم دےاوربرائی سے منع کرےیاکسی
کوعلمی فائدہ پہنچا دے اور علمی نصیحت کردے۔‘‘([30])
منقول ہےکہ حضرت سیِّدُنا صالح عَلٰی
نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا ایک
جھگڑالوشخص لوگو ں کو بہت تنگ کیا کرتا تھا۔لوگوں نے تنگ آکر حضرت سیِّدُنا صالح عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے اس کی شکایت کی اور چھٹکارے کی درخواست کی۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے فرمایا: ’’جاؤ! اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ تمہیں اس
کے شَر سے خلاصی مل جائے گی ۔‘‘ چنانچہ
لوگ واپس چلے گئے۔ وہ جھگڑالوشخص جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کیا کرتا تھا۔حسب
ِمعمول وہ جنگل گیا ،اس کے پاس دو روٹیاں تھیں ایک خود کھالی اور دوسری صدقہ کردی۔
پھر لکڑیاں کاٹ کر واپس گھر چلا آیا ۔ لوگو ں نے جب اسے صحیح وسلامت دیکھا تو حضرتِ سیِّدُنا صالح عَلَیْہِ
السَّلَام کی خدمت میں عرض
کی کہ ابھی تک ہمیں اس سے چھٹکارا نہیں ملا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے اسےبلا کر فرمایا:’’اے نوجوان! آج تو نے کون سا نیک کام کیا ہے ؟‘‘ عرض
کی :’’میں نے ایک روٹی صدقہ کی ہےاس کے علاوہ تو کوئی اورنیک کام مجھے یاد نہیں ۔‘‘آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے فرمایا: ’’اپنالکڑیوں کا گٹھا کھولو۔‘‘ جب گٹھَّا کھولاتو اس میں کھجور
کے تنے جتنا موٹا اوربہت ہی زہریلا سیاہ اژدہاتھا۔آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے اس شخص سے فرمایا: ’’صدقہ کی
ہوئی روٹی نے تجھے اس خطرناک زہریلے اژدھے
سے بچالیا۔‘‘([31])
(1)
مُخَیَّرحضرات کو چاہیے کہ وہ مجبوروبے روزگارمسلمانوں کی دستگیری کریں تاکہ ان کے مسائل حل ہوں اور
بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔
(2)
انسان پراتنامال کمانا ضروری ہے جس سے وہ اوراس کے اہل وعیال
محتاجی سے بچے رہیں اور انہیں دوسروں کےسامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔
(3)
بعض نیکیاں آسانی سے ہوجاتی ہیں اوربعض میں دشواری
کا سامنا ہوتا ہے ۔پس جب انسان مشکل اَعمال کرنے سے عاجز آجائے تو نیکیوں
سے بالکل دُور ہونے کے بجائے آسان نیکیوں کی طرف منتقل ہوجائے ۔
(4)
اسلام دینِ کامل ہےجو ہمیں خودداری اور خود کفالت کا درس دیتاہے۔
(5)
کسی کی مدد کرنےکے لیے صرف مال ہی ضروری نہیں بلکہ اوربھی کئی طریقوں سے مدد
کی جاسکتی ہے۔ جیسے کسی کو اچھا مشورہ دینا ،اچھی نصیحت کرنا ، جائز سفارش
کرنا ، کسی کا کوئی کام کر دینا وغیرہ ۔
(6)
بقدرِ ضرورت حلال مال مل جانا بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بہت
بڑی نعمت ہے کیونکہ بسااوقات آدمی تنگ
دستی ومحتاجی کی وجہ
سے مختلف گناہوں میں مبتلا ہو جاتاہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہےکہ وہ ہمیں غیروں کی محتاجی سے بچائے،تنگ دستی و مُفلسی سے ہماری
حفاظت فرمائے، بقدرِضرورت حلال رزق اتنا
عطا فرمائے کہ ہم اپنے نادارمسلمان بھائیوں
کی بھی مدد کر سکیں ۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
میٹھے میٹھے
اِسلامی بھائیو! ریاض الصالحین
کے مذکورہ بالا باب میں بھلائی کے طریقوں کو بیان فرمایا گیا ، نیز مختلف اَعمال
اور اُن پر ملنے والے مخصوص ثواب کو بھی بیان فرمایا گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ
وَجَلَّ تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ
اسلامی‘‘ اور بانی دعوتِ اسلامی، شیخ طریقت، امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اس عظیم
مدنی مقصد کے تحت کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشش کرنی
ہے۔ اِنْ
شَآءَ اللہ عَزَّ
وَجَلَّ سنتوں کی تربیت کی مدنی راہ پر تیزی سے گامزن ہیں
۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ کی یہ کوشش ہے کہ پیارے آقا، مدینے والے
مصطفےٰ، حضور نبی رحمت، شفیع اُمَّت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِس دُکھیاری اُمَّت کو نیکی
کی دعوت پیش کرکے نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت دلائی جائے، یہی وجہ ہے کہ
آپ وقتاً فوقتاً اپنے آڈیو، ویڈیو بیانات، مدنی مذاکروں ، کتب ورسائل وتحریری
بیانات کے ذریعے اُمَّت مُسْلِمہ کی ثواب بڑھانے کے مختلف طریقوں اور نسخوں کی طرف
رہنمائی فرماتے رہتے ہیں ۔’’ثواب بڑھانے کے نسخے‘‘ یہ رسالہ بھی اسی سلسلے
کی ایک کڑی ہے، اس رسالے میں آپ دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مختلف کاموں میں کی جانے والی اچھی اچھی نیتوں
کو تفصیلاً بیان فرمایا ہے۔یقیناً مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ اچھی نیت
بندے کو جنت میں داخل کرے گی۔ جس نے نیکی کا ارادہ کیا پھر اسے نہ کیا تو اس کے
لیے ایک نیکی لکھی جائے گی۔ بغیر اچھی نیت کے کسی بھی نیک کام کا ثواب نہیں ملتا۔
جتنی اچھی نیتیں زیادہ، اتنا ثواب بھی زیادہ۔ شیخ طریقت، امیراہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنے
اس رسالے میں تقریبا ً72نیک
کاموں کی
مختلف نیتیں بیان فرمائی ہیں ، اُن کاموں کی تفصیل یہ ہے:
(1)صبح سویرے کی نیتیں (2)جوتے پہننے کی
نیتیں (3)جوتے اتارنے کی نیتیں (4)بیت الخلاء جانے کی نیتیں (5)وضو
کی نیتیں (6)مسجد میں جانے کی نیتیں (7)دعا مانگنے کی نیتیں (8)مؤذن
کے لیے نیتیں (9)امام کے لیے نیتیں (10)خطبے کی نیتیں (11)پانی
پینے کی نیتیں (12)کھانے کی نیتیں (13)مل کر کھانے کی مزید نیتیں (14)خلال
کی نیتیں (15)مہمان نوازی کی نیتیں (16)دعوتِ طعام پر جانے کی نیتیں
(17)چائے/دودھ پینے کی
نیتیں (18)لباس پہننے/اتارنے
کی نیتیں (19)تیل ڈالنے/کنگھی کرنے کی نیتیں (20)عمامہ شریف
باندھنے کی نیتیں (21)خوشبو لگانے کی نیتیں (22)گھر سے نکلتے وقت کی
نیتیں (23)راہ چلنے /سیڑھی
چڑھنے اترنے کی نیتیں (24)بیٹھنے کی نیتیں (25)ماں باپ کی خدمت اور
اپنے بچوں کو پیار کرنے کی نیتیں (26)اولاد ملنے کی نیتیں (27)بچے
کا نام رکھنے کی نیتیں (28)عقیقے کی نیتیں (29) صلہ رحمی کی نیتیں (30)تجارت
کی نیتیں (31)ملازمت کی نیتیں (32)قرض لینے کی نیتیں (33)
قرض دینے کی نیتیں (34) فون کرنے یا وصول کرنے کی نیتیں (35)اپنے
پاس فون رکھنے کی نیتیں (36) بجلی استعمال کرنے کی نیتیں (37)پنکھا
یا ٭.Cیا واشنگ مشین چلانے کی نیتیں (38)کمپیوٹر کے
متعلق نیتیں (39)مدنی چینل دیکھنے کی نیتیں (40)دینی کتاب پڑھنے کی
نیتیں (41)دینی مدرسے میں پڑھنے کی نیتیں (42)علم دین/قرآنِ مبین
پڑھنے کی نیتیں (43)تلاوت کرنے کی نیتیں (44)تلاوت سننے کی نیتیں (45)درود
شریف پڑھنے کی نیتیں (46)نعت شریف پڑھنے کی نیتیں (47)عالِم دین کی
خدمت میں حاضری کی نیتیں (48)مزارات پر حاضری کی نیتیں (49)نیکی کی
دعوت اور انفرادی کوشش کی نیتیں (50) برائی سے منع کرنے کی نیتیں (51)بیان
کرنے کی نیتیں (52)بیان سننے کی کی نیتیں (53)ملاقات کی نیتیں (54)مدنی
انعامات کا رسالہ پر کرنے کی نیتیں (55)قفلِ مدینہ لگانے کی نیتیں (56)مدنی
قافلے میں سفر کی نیتیں (57)لنگر رسائل کی نیتیں (58)مدنی مشورہ
کرنے اور دینے کی نیتیں (59)مدنی کاموں کی کارکردگی جمع کروانے میں نیتیں (60)دعوتِ
اسلامی کے اِجتماعی اِعتکاف کی نیتیں (61)ناخن کاٹنے کی نیتیں (62) زلفیں
کاٹنے کی نیتیں (63)سراور داڑھی کے بالوں میں مہندی لگانے کی نیتیں (64)اسلامی
بہنوں کے
لیے مہندی لگانے کی نیتیں (65)پردے کی نیتیں (اِسلامی بہنوں کے لیے)(66)سُرمہ
لگانے کی نیتیں (67) سونے کی نیتیں (68)علاج کروانے کی نیتیں (69)مریض
کی عیادت کی نیتیں (70)تعزیت کی نیتیں (71) جنازے میں شرکت کی نیتیں
(72)قبرستان جانے کی نیتیں ۔
مذکورہ بالانیک
کاموں میں اچھی اچھی نیتوں کی تفصیلی معلومات کے لیے ’’ثواب بڑھانے کے نسخے‘‘
اس رسالے کا خود بھی مطالعہ فرمائیے اور دوست اَحباب کو بھی اِس کی ترغیب دلائیے۔
اچھی اچھی نیتوں کا،
ہو خدا جذبہ عطا
بندۂ مخلص بنا، کر
عفو میری ہر خطا
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر نیک اور
جائز کام سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نیکیاں کرنے، دوسروں کو
نیکیوں کی ترغیب دلانے، گناہوں سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے،
ہمارے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے، ہماری حتمی مغفرت فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
عمل
کا ہو جذبہ عطا یاالٰہی………گناہوں سے مجھ
کو بچا یاالٰہی
میں
پانچوں نمازیں پڑھوں باجماعت………ہو توفیق ایسی
عطا یاالٰہی
میں
پڑھتا رہوں سنتیں وقت ہی پر………ہوں سارے نوافل
ادا یاالٰہی
دے
شوقِ تلاوت دے ذوقِ عبادت………رہوں باوضو میں سدا
یاالٰہی
ہمیشہ
نگاہوں کو اپنی جھکا کر………کروں خاشعانہ
دعا یاالٰہی
نہ
نیکی کی دعوت میں سستی ہو مجھ سے………بنا شائق قافلہ
یاالٰہی
میں
نیچی نگاہیں رکھوں کاش اکثر………عطا کر دے شرم
وحیا یاالٰہی
ہو
اَخلاق اچھا ہو کردار ستھرا………مجھے متقی تو
بنا یاالٰہی
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
عِبَادَت میں مِیَانَہ رَوِی کابیا ن
تمام
خوبیاں اُس خالق کائنات عَزَّ وَجَلَّکے لیے ہیں جس نے ہمیں اِنسان بنایااور سب سے بہترین اُمَّت میں پیدا فرمایا۔بے شمار درودوسلام ہوں نبی
کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پرجنہوں نے عبادات پر ہماری رہنمائی فرمائی، عبادات میں زیادتی
کے مختلف طریقے بتائے، ساتھ ہی عبادات میں میانہ روی کا بھی درس عظیم دیا۔ اسلام
میں دنیا سے اس طرح قطع تعلقی کرلینا یا رہبانیت اختیار کرلینا ممنوع ہے جس سے
دیگر فرائض وواجبات وحقوق العباد کی ادائیگی میں دشواری ہو۔ عبادات میں میانہ
روی میں فائدے ہی فائدے اور ڈھیروں بھلائیاں پوشیدہ ہیں ، میانہ روی سے کی جانے والی
عبادات میں دل جمعی اور استقامت
نصیب ہوتی ہے۔ اپنے اور متعلقین
کے حقو ق کی ادائیگی میں سہولت رہتی ہےاور بندہ آسانی سے کامیابی کی منزلوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
کیونکہ عبادات میں میانہ روی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نیک بندوں کا طریقہ اور اُن کی
سنت ہے، اس کی پیروی میں عافیت وآسانی ہے۔اورمیانہ رویکے بارے میں
ہمارے
پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے خوب ترغیب دلائی ہے۔ریاض الصالحین کایہ باب”عبادت میں میانہ روی“کے
بارے میں ہے۔ عَلَّامَہ
اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے اس باب میں 2 آیات مقدسہ اور11احادیث
مبارَکہ بیان کی ہیں ۔ اس باب میں ان آیات و احادیث
مبارکہ کی تفسیر وتوضیح نیز میانہ
روی کی اہمیت و فضیلت اور اس سے متعلق
روایات و حکایات بیان کی جائیں گی۔ پہلے آیاتِ مبارکہ اور ان کی تفسیر ملاحظہ
فرمائیے۔
فرما نِ باری تعالٰی ہے:
طٰهٰۚ(۱)
مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ
الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲) (پ۱۶، طہ: ۱۔ ۲) ترجمہ ٔ کنزالایمان:
اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔
عَلَّا
مَہ عَلَاءُ الدِّیْن عَلِی بِنْ مُحَمَّد خَازِن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’جب مشرکین
نے رحمتِ
عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کوعبادت میں بہت
زیادہ کوشش کرتے دیکھا توکہا: اے محمد!(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)تم
پر قرآن اس لیے اُتاراگیا ہے کہ تم مَشَقَّت میں پڑو۔ اس پر یہ آیت مباکہ نازل ہوئی۔‘‘([32])
تفسیرِ
کبیرمیں امام فخر الدین رازِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیفرماتے ہیں :’’
رسولِ کریم، رؤف ورحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم ساری
ساری رات اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرتے یہاں تک کہ آپ کے قدمین شریفین میں
ورم آجاتا۔اسی طرح یہ بھی مروی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجب
رات میں عبادت کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے سینہ مبارکہ پر رسّی باندھ لیتے
اور سوتے نہ تھے۔ بعض نے کہا کہ آپ
صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک ہی پاؤں مبارکہ پر کھڑے ہوکر عبادت کرتے
تھے۔بعض نے کہا کہ ساری ساری رات جاگتے
تھے۔ تو جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَامحکم اِلٰہی لے کر حاضر ہو ئے کہ اپنی جان پر رحم فرمائیے!آپ
پرآپ کی جان کا بھی حق ہے یعنی ہم نے آپ پر یہ قرآن اِس لیے نہیں اتارا کہ بہت
زیادہ عبادت کے ذریعے اپنی جان کو تکلیف
اورمشقت میں ڈالیں بلکہ ہم نےآپ کونرمی اورآسانی کےلیےبھیجاہے۔‘‘([33])
صدر الافاضل مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادیعَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی”تفسیرِخزائن العرفان“میں فرماتے ہیں :’’سیدِ
عالَم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمعبادت میں بہت جُہد(یعنی کوشش) فرماتے تھے اور تمام شب قیام میں گزارتے یہاں تک
کہ قدم مبارک ورم کر آتے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور جبریل عَلَیْہِ
السَّلَامنے حاضر ہو کر بحکم الٰہی عرض کیا کہ
اپنے نفس پاک کو کچھ راحت دیجیے اس کا بھی حق ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سیدِ عالَم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم لوگوں کے کُفر اور ان کے ایمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ
مُتَاَسِّف ومُتَحَسِّر(افسردہ)رہتے تھے اور خاطرِ مبارک پر اس سبب سے رنج و ملال رہا کرتا تھا ،اس
آیت میں فرمایا گیا کہ آپ رنج و ملال کی کوفت نہ اٹھائیں ، قرآنِ پاک آپ کی مشقت
کے لیے نازِل نہیں کیا گیا ہے۔‘‘([34])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ
لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘- (پ۲، البقرۃ: ۱۸۵)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اللہ تم پر آسانی چاہتاہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔
تفسیرِخازن میں ہے :’’اس کامعنی یہ ہے کہاللہ عَزَّ وَجَلَّاس عبادت(یعنی روزے) میں تم پرآسانی چاہتا ہے اوروہ آسانی مسافرومریض کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت
ہے۔وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے دین کے
معاملے میں تم سے تنگی و پریشانی کو دُور کردیا ہے۔ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ جب کسی شخص کو دو چیزوں
کا اختیار دیا جائے اور وہ ان میں سے آسان چیز کو اِختیار کرے۔‘‘([35])
مُفَسِّرشہِیرحَکِیْمُ
الْاُمَّتمُفتِی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے
ہیں :’’یُسْرکے
معنی ہیں سہولت یاآسانی، اسی لیے مالداری کو یَسَار کہتے
ہیں کہ اس میں آسانی ہوتی ہے، بائیں ہاتھ کو یُسریٰ کہا
جاتا ہے کہ داہنا ہاتھ مددکرکے کام کو آسان کرتا ہے۔ جنت کا نام بھی یُسْرہے کہ
وہاں ہر طرح کی آسانی ہے یعنی ربّ تم پر آسانی چاہتا ہے اس لیے اس نے بچوں ،دیوانوں
پر روزہ معاف کردیا اور بیمارومسافر کو مہلت دے دی اور اسی لیے روزوں کے واسطے
ماہ ِرمضان مقر رکیا تاکہ تمہیں حساب اور قضا میں آسانی ہو۔ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ
الْعُسْرَ،عُسْر،یُسْرکا
مقابل ہے بمعنی ٰ دشواری اور سختی ۔یعنی
تم پر سختی نہیں چاہتا، ورنہ روزے کسی اور مہینے میں فرض فرماتا۔‘‘([36])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:142
وَعَنْ عَائِشَۃَ
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَیْہَا وَعِنْدَہَا اِمْرَاَۃٌ قَالَ: مَنْ
ہٰذِہِ؟ قَالَتْ:ہٰذِہِ فُلَا نَۃٌ
تَذْکُرُ مِنْ صَلَا تِہَا، قَالَ:مَہْ عَلَیْکُمْ بِمَا تُطِیْقُوْنَ،
فَوَاللّٰہِ لَا یَمَلُّ اللّٰہُ حَتَّی
تَمَلُّوْا وَکَانَ اَحَبُّ الدِّیْنِ
اِلَیْہِ مَادَاوَمَ صَاحِبُہُ عَلَیْہِ.([37])
(قَالَ النَّوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی:) وَ”مَہْ‘‘ کَلِمَۃُ نَہْیٍ وَزَجْرٍ ، وَمَعْنَی: لَا یَمَلُّ اللّٰہُ،
اَیْ لَا یَقْطَعُ ثَوَابَہُ عَنْکُمْ وَجَزَاءَ
اَعْمَالِکُمْ،وَیُعَامِلُکُمْ مُعَامَلَۃَ الْمَالِّ حَتَّی تَمَلُّوْا
فَتَتْرُکُوْا،فَیَنْبَغِیْ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مَاتُطِیْقُوْنَ الدَّ وَامَ
عَلَیْہِ لِیَدُوْمَ ثَوَابُہُ لَکُمْ وَفَضْلُہُ عَلَیْکُمْ.
ترجمہ :اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نورِ مُجَسَّم شاہِ بنی آدم
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُن کے پاس تشریف لائے، (اُس وقت) وہاں ایک عورت بھی موجودتھی۔آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے استفسار فرمایا:’’یہ
کون ہے؟‘‘ اُمّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی: ’’یہ فلاں عورت ہے۔‘‘ اور پھر اُس کی
نماز کا ذکر کیا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’رُک جاؤ! تم پر لازم ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق عبادت کرو۔بخدا! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نہیں اُ کتاتا، تم اُ کتا جاؤ گے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ کو وہ عمل سب سے زیادہ پسند ہے جسے کرنے
والاہمیشہ کرے۔‘‘
علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی الفاظ حدیث کے
معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”مَہْ “یہ نہی اور زجر کے لیے آتا ہے۔’’لَا یَمَلُّ اللہ:یعنیاللہ عَزَّ وَجَلَّ نہیں اُ کتاتا۔‘‘اس کا مطلب ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم سے تمہارے اَعمال کا ثواب ختم نہیں کرتااور
نہ ہی تمہارے اَعمال کی جزا منقطع کرتاہےاور وہ تم سےاُ کتاہٹ والا معاملہ نہیں فرمائے گا،تم اُ کتا کر عمل چھوڑدوگے۔ لہٰذا تمہارے لیے یہی
مناسب ہے کہ وہ عمل کرو جسے ہمیشہ کر سکو تاکہ اُس کا ثواب اور فضیلت تمہارے لیے
ہمیشہ رہے۔‘‘
عَلَّامَہ بَدْرُ
الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی فرماتےہیں :حضرت
سَیِّدُنَا امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق فرماتے ہیں : ’’جب سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بتایا گیا کہ یہ
عورت ساری ساری رات عبادت کرتی ہے
سوتی نہیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےناپسندیدگی
کااظہارفرمایا یہاں تک چہرۂ اَنور پر اس کے
آثار ظاہر ہونے لگے۔ ان خاتون کا نام حضرت سَیِّدَتُنَا حولاءرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہاتھا۔ یہ بہت عبادت گزار
اور مُہَاجِرہ صحابیہ تھیں ۔‘‘([38])
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الْغَنِی فرماتےہیں :’’مَلال( اُ کتاہٹ )
کااطلاق اللہ عَزَّ وَجَلَّ پرجائز نہیں اور نہ ہی یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی صفات میں داخل ہے کیونکہ ملال کا معنی ہے:کسی چیزکی چاہت
اورحرص کے باوجود اس کے مشکل ہونے کی وجہ سے اسے نہ چاہتے ہوئے چھوڑدینااوریہ
مخلوق کی صفت ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نہیں ۔حدیث مذکورمیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ پرملال کا اطلاق مجازًا ہے۔ ‘‘([39])
عَلَّامَہ
اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ ذِی الْجَلَال فرماتے ہیں : ’’اس سےمراد یہ ہے کہ تم لوگ نیک اَعمال کر کے اُ کتا جاؤ گےاللہ عَزَّ وَجَلَّ اجر عطا فرماتے ہوئے نہیں اُ کتائے گا ۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا
اِبن فُورَکرَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :’’مطلب
یہ ہے کہ اُ کتانا
تمہاری صفت ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نہیں
، کیونکہ اکتاہٹ، طبیعت کی تبدیلی کا نام ہے
اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے پاک ہے۔‘‘حضرت سیِّدُناعلامہ خطّابیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْھَادِی فرماتے ہیں :’’اس
کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
اُس وقت تک ثواب دینا ترک نہیں کرتا جب تک
تم عمل کرنا نہ چھوڑدو۔‘‘([40])
شارحین
کرام رَحِمَہُمُ
اللہُ السَّلَام نے اس حدیث سے
کئی اہم مسائل بھی اخذ فرمائے ہیں ، چند
مسائل یہ ہیں :(1) بغیر طلب قسم
کھانا بِلاکراہت جائز ہے جبکہ معاملے کو پختہ کرنے ، کسی کونیکی پر اُبھارنے یا
ممنوعہ
چیزوں سے
نفرت دلانےکے لیے ہو۔ (2)قلیل
دائمی عمل کثیر عارضی عمل سے بہتر
ہے ۔(3) حدیثِ مذکور میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اپنی اُمَّت پر شفقت ونرمی کا بیان ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی اُمَّت کی اس
چیز کی طرف رہنمائی فرماتے تھے جو ان کے لیے زیادہ بہتر ہوتی تھی۔([41])
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے
ہیں : ’’حدیثِ مذکور میں عبادت میں میانہ
روی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اورتنگی میں پڑنے سے منع کیا گیا
ہے۔یہ حدیث نماز ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے
بلکہ تمام نیک اَعمال کو شامل
ہے۔محققین علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ ا لسَّلام ُ
فرماتے ہیں :معنی یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم سے
اکتانے والے شخص جیسا معاملہ نہیں کرتا
کہ تم سےعمل کا ثواب وجزا ختم کر دے،یہاں تک کہ تم عمل کرنا چھوڑ
دو۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فضل اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔‘‘([42])
حضرت سیِّدُنا جابربن عبد اللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُسے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمایک شخص کے پاس سے گزرے جو مکہ مکرمہ میں ایک چٹان پرنماز پڑھ رہاتھا ۔ واپسی پر بھی
اسے اسی حالت میں پایا تو ارشادفرمایا:’’اے لوگو! تم پرمیانہ روی لازم ہے،
اےلوگو! تم پر میانہ رَوِی لازم ہے، ا ے لوگو!تم پرمیانہ روی لازم ہے۔بے شک !اللہ عَزَّ وَجَلَّ (اجرعطافرمانے سے) نہیں
اکتاتابلکہ تم (عبادت سے ) اُ کتا جاتے ہو۔‘‘([43])
فقیہ
اعظم حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’مطلب
یہ ہے کہ یہ بات پسندیدہ نہیں کہ نوافل بکثرت پڑھنا شروع کردیا جائے پھر چھوڑ
دیاجائے۔ بہت زیادہ پسندیدہ وہ کام
ہے جو
آدمی پابندی کے ساتھ بلاناغہ ہمیشہ کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو ۔یہ مت وہم کرو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے خزانے میں کوئی کمی ہے یا وہ اعمال کا ثواب
دیتے دیتے تھک سکتا ہے، یا گھبراسکتا ہےوہ ملال سے مُنَزّہ (یعنی پاک )ہے۔ تم جتنا زیادہ عمل کروگے اللہ(عَزَّوَجَلَّ )اس کا
تم کو ثواب دے گا۔اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نوافل ومستحبات پر بھی پابندی اور مداومت
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو پسند ہے، اس لیے میلاد مع قیام، فاتحہ،عرس وغیرہ اُمورِ
خیراگر کوئی بِلا ناغہ پابندی سے کرتاہے تویہ پابندی اسے ناجائزوحرام نہیں کردےگی
بلکہ یہ مزید پسندیدگی کی باعث ہوگی۔‘‘([44])
شارحِ
بخاری علامہ سیدمحمود احمد رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِی فرماتے ہیں :’’مطلبِ
حدیث یہ ہے کہ آدمی خواہ کتنی ہی نیکیاں کرے، ربّ العزت جَلَّ مَجْدُہُ کو اس کی ان
نیکیوں کے ثواب عطافرمانے میں کوئی دِقّت نہ ہوگی مگر اپنی طاقت سے زیادہ عمل کرنے
والا بالآخر خود ہی گھبرا جائے گااوراس کو
جاری نہ رکھ سکے گا۔مفہوم حدیث یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ عبادت میں میانہ روی
اختیار کرے اور اتنا ہی عمل کرے جس کو آسانی کے ساتھ ہمیشہ کرسکے کیونکہ تھوڑا عمل
جو ہمیشہ کیا جائے وہ ا س عمل سے بہتر ہے جو انسان ہمیشہ نہ کرسکے کیونکہ زیادہ کے
لالچ میں تھوڑے کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔اسی کو امام غزالی
رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مثال دے کر یوں سمجھایا ہے کہ
جب پتھر پر پانی قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے تو سوراخ کردیتا ہےبر خلاف یکدم اگر پانی
گرجائے تو اثر تک بھی نہیں ہوتا۔‘‘([45])
مُفَسِّرِشَہِیْر، مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّتمفتی اَحمد
یار خان نعیمی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں : ’’خیال رہے کہ یہ تمام کلام نفلی عبادات کے
لیے ہے کہ بقدر ِطاقت شروع کرو جو نِبھا سکو، فرائض تو پورے
ہی پڑھنے ہوں گے ۔لہٰذا حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ
اگر دو وقت کی نماز ہی پڑھ سکو تو اتنی ہی پڑھ لیا کرو۔ لہٰذا حدیث صاف ہے۔ واجبات
و سنن ،فرائض کے تابع ہیں اُن کی پابندی لازم ہے ۔یعنی اگر تم خود ملال و مشقت
والے کاموں کو اپنے اوپر لازم کرلو کہ روزانہ سو رکعت پڑھنے یا ہمیشہ روزہ رکھنے
کی نذر مان لو تو تم پر یہ چیزیں واجب ہوجائیں گی پھر تم مشقت میں پڑ جاؤ گے، مگر یہ مشقت ربّ نے نہ ڈالی تم نے خود
اپنے پر ڈالی۔ یہ معنی نہیں کہ ﷲ ملال میں نہیں پڑتا حتی کہ تم ملال میں پڑو، ربّ تعالٰی ملال
کرنے سے پاک ہے۔یہ حدیث دین ودنیاکےمشاغل کوشامل ہے، درمیانی محنت کرنے والے ہمیشہ
کامیاب ہیں ۔‘‘([46])
(1)
دائمی قلیل عمل
عارضی کثیر عمل سے افضل
ہے۔
(2)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر طرح کے عجز وقباحت سے پاک ہے ۔
(3)
بندہ چاہے
کتنا ہی عمل کرلے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کی جزا دینے پر قادر ہے، کیونکہ ربّ تعالی
کے خزانے لا محدود ہیں ۔
(4)
عبادت کےساتھ
اپنےاہل وعیال کےحقوق کی پاسداری بھی ضروری ہے کہ
یہ بھی عبادت ہے ۔
(5)
جن عبادتوں میں
غلو کرنےسے منع کیا گیاہے ان سےمرادنوافل ومستحبات ہیں جبکہ فرائض و واجبات تومشقت کی حالت میں بھی ادا کرنے ضروری ہیں ۔
(6)
بلا وجہ اپنے
اوپر کسی سخت عمل کو لازم نہیں کرناچاہیے کہ بسا اوقات اس کی وجہ سے دیگر معاملات
میں مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہے کہ وہ ہمارے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے،
ہمیں دین ودنیا کی
بے شمار بھلائیاں عطا فرمائے ۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْنْ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:143
وَعَنْ اَ نَسٍ
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ:جَاءَ ثَلاَ ثَۃُ رَہْطٍ اِلَی بُیُوْتِ اَزْوَاجِ
النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَسْاَلُوْنَ عَنْ عِبَادَۃِ
النَّبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَلَمَّا اُخْبِرُوْا کَاَ نَّہُمْ
تَقَا لُّوْہَا وَقَالُوْا:اَ یْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ قدْ غُفِرَ لَہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَاَخَّرَ. قَالَ اَحَدُہُمْ:اَمَّااَنَا
فَاُصَلِّی اللَّیْلَ اَبَداً، وَ قالَ الْاٰخَرُ: وَاَنَا اَصُوْمُ الدَّہْرَ
وَلَا اُفْطِرُ، وَقَالَ الْآخَرُ: وَاَ نَا اَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ اَ
تَزَ وَّجُ اَبَداً، فَجَاءَ رَسُوْلُ
اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَیْہِمْ فَقَالَ:اَنْتُمُ
الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا؟اَمَّا وَاللّٰہِ!اِنّیِ لَاَ خْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَا
کُمْ لَہُ لٰکِنِّی اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ،وَاُصَلِّی وَاَرْقُدُ،وَاَ تَزَ وَّجُ النِّساءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ
فَلَیْسَ مِنِّی .
([47])
ترجمہ :حضرتِ
سَیِّدُنا اَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ تین صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان حضور نبی
اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عبادت کے بارے میں پوچھنے کے لیے اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُنَّکے گھر کی طرف آئے۔جب انہیں اس بارے میں بتایا گیا تو گویا
کہ انہوں نےآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عبادت کو تھوڑا سمجھا۔کہنے لگے:’’ہم کہاں اور سرکارِ
دوعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مرتبہ
کہاں ؟ آپ کے سبب تو آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہ معاف کردیے گئے۔‘‘پھر اُن میں سے
ایک نے کہا:’’میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔‘‘دوسرے نے کہا: ’’میں ہمیشہ
روزہ رکھوں گااورکبھی نہیں چھوڑوں گا۔‘‘تیسرے نے کہا: ’’میں عورتوں سے علیحدہ رہوں
گا،کبھی شادی نہیں کروں گا۔‘‘ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُن کے پاس
تشریف لائے اور ارشادفرمایا: ’’کیا تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ سن لو!خدا کی
قسم !میں تم میں سب سے زیادہ اللہ عَزَّ وَجَلَّسے ڈرنے والا ہوں اور سب سے زیادہ
پرہیزگارہوں ۔لیکن پھر بھی میں روزہ بھی
رکھتاہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ، نمازبھی پڑھتا ہوں اور سوتا
بھی ہوں اور عورتوں سے شادی بھی
کرتاہوں ۔ جس نے میری سنت سے منہ موڑاوہ
مجھ سے نہیں ۔‘‘
عَلَّامَہ مُلَّا
عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’ان تین
صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے اسما ئے گرامی
یہ ہیں :(1) امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُنَاعلی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی
وَجْہَہُ الْکَرِ یْم(2)حضرت سَیِّدُنَا عُثمان
بن مَظْعُون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور (3)
حضرت سَیِّدُنَا عبد اللہ بن رَوَاحَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔ اور ایک
قول کے مطابق حضرت سَیِّدُنَا مِقداد بن اَسْوَدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ ۔‘‘([48])
عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ
حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے
ہیں :’’حضورنبی کریم رؤف رحیمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:بے شک!میں تم سب سے زیادہ خوف
خدا رکھنے والا اورتم سب سے زیادہ متقی ہوں
۔یعنی جو عبادت میں بہت زیادہ شدت کرتے ہیں
میں ان سب سے زیادہ خوفِ خدا رکھنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں کیونکہ بسا اوقات
شدت کے ساتھ عبادت کرنے کی وجہ سے انسان اُ کتاہٹ وتھکاوٹ
میں مبتلا ہوجاتا ہےبرخلاف اس کے
جومیانہ روی سےعبادت کرےکیونکہ اس طرح وہ
ہمیشہ عبادت کرسکتا ہےاور بہترین عمل بھی وہی ہے جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے ۔‘‘([49])
حدیث
مذکور میں ہے کہ جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
جس نے میرے طریقے کو چھوڑکر میرے غیرکے
طریقے کو اختیار کیا تو وہ مجھ سے نہیں ۔ اس ارشاد میں آپ نے رہبانیت کے رد کی طرف
اشارہ فرمایا ہے ،کیونکہ عیسائی راہبوں نے اپنی طرف سے دین میں شدت ایجاد کی،جیسا
کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے قرآنِ
مجید میں ان کی مذمت بیان کی کہ جس
چیز کو انہوں نے اپنے اوپر لازم کیا تھا
اُسے پورا نہ کر سکےاورحضور نبی
کریم رؤف رحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا طریقہ معتدل ہونے کے ساتھ نرمی وآسانی
والابھی ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (نفلی ) روزے
مسلسل نہ رکھتے،بلکہ کبھی رکھتے کبھی چھوڑ دیتے تاکہ آئندہ روزے رکھنے پر طاقت حاصل ہو۔ رات کو کچھ
دیر آرام
بھی فرماتے تاکہ رات کے قیام پر قوت حاصل ہو اورآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کئی حکمتوں کے پیشِ نظر نکاح بھی فرمایا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے
فرمان”وہ مجھ سے نہیں ہے۔“ کا مطلب یہ ہے
کہ اگر کسی نے کسی تاویل سے میرے طریقے کو چھوڑا تو وہ میرے طریقۂ محمودہ پرنہیں ہے
اور اگر اس بناپرچھوڑاکہ وہ اپنےعمل کوزیادہ راجح
سمجھتاہےتو وہ میری ملت پر نہیں ہے
کیونکہ اُس کا یہ اِعتقاد کفر ہے۔‘‘([50])
(1)حدیثِ
مذکور میں نکاح کی فضیلت اوراس کی ترغیب کا بیان ہے۔(2) اپنے اکابرین کے
احوال کی خبر رکھنی چاہیے تاکہ اُن کی اِتباع
کی جاسکے۔اگرخو د اُن سے معلوم نہ ہو سکے تو اُن کے متعلقین سے پوچھ لیناچاہیے۔(3) اگرریاکاری کا
اندیشہ نہ ہو تو اپنے اچھے اعمال بیان کرنا
جا ئز ہے۔(4) لوگوں کو مسائل کی تعلیم دینے مکلفین کے اَحکام بیان
کرنے اور لوگوں کے شبہات زائل کرنے سے پہلے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمد و ثنا کرنی چاہیے۔(5)مباح کام حسنِ
نیت سے مستحب ہوجاتا ہے اور کبھی حسن نیت کے بغیر مکروہ ہوجاتا ہے۔ (6)امام
طبریعَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :اس حدیث میں اُن زاہدین کا رد ہے جو اچھے کھانوں
اور اچھے لباس سے منع کرتے ہوئے موٹے کپڑے پہنتے اور سخت غذا کھاتے ہیں ۔(7)
حضرت سَیِّدُنَاقاضی عیا ض عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّاب فرماتے ہیں : اس میں سلف وصالحین کے احوال مختلف
ہیں ، اِن میں سے بعض کا وہی نظریہ ہے جس کی طرف امام طبری (رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)نے اشارہ کیا
ہےاور بعض نےاس کےبرخلاف کہا ہے، ان کی دلیل اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ فرمان ہے: (اَذْهَبْتُمْ
طَیِّبٰتِكُمْ فِیْ حَیَاتِكُمُ الدُّنْیَا )(پ۲۶،الاحقاف:۲۰)(ترجمہ ٔ کنزالایمان: تم اپنے حصّہ کی پاک چیزیں اپنی
دنیا ہی کی زندگی میں فنا کرچکے۔)لیکن حق بات یہ ہےکہ یہ آیت کفارکے بارے میں
نازل ہوئی ہےاور حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےدونوں اُمور(نرمی ا ورسختی)پر
عمل کیا ہے۔ حق یہ ہے کہ دُنیاوی لذتوں پر ہمیشگی اختیارکرنا عیش و عشرت اور تکبر
کی طرف لے جاتا ہے اور ایساشخص شُبہات میں پڑنے سے نہیں بچ سکتا کیونکہ جوعیش وعشر
ت کاعادی ہو اگراسےکبھی مطلوبہ اشیاء میسر
نہ ہوں تو ہوسکتا ہے کہ وہ اُن کے بغیر نہ رہ سکےاور کسی گناہ میں مبتلاہوجائے اور
اسی طرح کبھی دنیاوی مباح لذتوں سے روکنا غلو کی طرف
لے جاتاہے اوراس کی ممانعت ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہعَزَّوَجَلَّ ارشادفرماتاہے:( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ
اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ- )(پ۸،لاعراف:۳۲)(ترجمہ ٔ کنزالایمان:
تم فرماؤ(اے نبی!)کس نے حرام کی اللہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق۔) اسی
طرح عبادت میں شدت اختیار کرنا ایسے ملال کی طرف
لے جاتا ہےجواصل عبادت اور فرائض میں میانہ روی کو ختم کر نے کا سبب ہے۔اورنفلی
عبادت کو چھوڑنےسے عبادت میں نشاط ختم ہوجاتاہے۔ الغرض بہترین اُموروہ ہیں جن میں میانہ روی اختیار کی
جائے ۔‘‘([51])
علامہ
شہاب الدین احمد قسطلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :حضور
نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تمام مخلوق سے زیادہ عبادت کرنے کی طا قت دی
گئی تھی لیکن آپ کا مقصد شریعت سازی اور اُمَّت کوایسے طریقے کی تعلیم دینا تھا جس سے عبادت کرنے والاملال اور
اکتاہٹ کا شکارنہ ہو۔حضرت سَیِّدُنَا
علامہ ابن مُنیر عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْزفرماتے ہیں :صحابٔہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان یہ
سمجھے کہ خوف ہی عبادت پر اُبھارتا ہے اور
عبادت عذابِ آخرت کے خوف پرمنحصر ہےاور انہیں معلوم تھا کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممغفرت یافتہ ہیں ، تو انہوں نے آپ کی عبادت کی کم مقدار کو
اس پر محمول کیا کہ آپ کو زیادہ عبادت کی ضرورت نہیں ۔ پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اُن کے اِس خیال
کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے جلال کا خوف، اُس کثیر
عبادت سے افضل وعظیم ہے جو منقطع ہونے
والی ہے کیونکہ
دائمی عمل اگرچہ تھوڑا ہو اُس کثیر عمل سے بہتر ہے جو منقطع ہوجائے۔
اور آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مقام یہ ہے کہ آپ عبادت ِالٰہی بطورِ شکر کرتے ہیں ، عاقبت کے
خوف سے نہیں کیو نکہ آپ گناہو ں سے محفوظ ہیں ۔‘‘([52])
عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ
بَطَّال عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ ذِی الْجَلَال فرماتے
ہیں : ’’حدیث مذکور میں
عبادت میں ائمہ کرام کی اقتداء کرنے،اُن
کے احوال اور اُن کے شب وروز گزارنے کے طریقے میں غور وفکر کرنے کا ذکر ہے کہ جن
ائمہ کرام کو اللہ عَزَّ وَجَلَّنے دین اور
عبادات کے معاملے میں مقتدا بنایا ہے ان کے طریقے سے تجاوز نہیں کر نا چاہیے۔جو
اُن کے طریقےسے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو وہ حد سے بڑھنے والا ہےاور عبادت میں میانہ
روی اختیار کرنا
بہتر ہے تاکہ عمل سے عاجز نہ آئے
اور عبادت بھی منقطع نہ
ہو۔حضور اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کا فرمانِ عافیت نشان ہے کہ بہترین عمل وہ ہے جسے کرنے والا ہمیشہ کرے
اگر چہ تھوڑا ہو ۔‘‘([53])
عَارِف باللّٰہ حضرت
علامہ عبد الغنی نابلسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’حدیثِ مذکور میں بیان ہواکہ بعض
صحابۂ کرام رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُنَّ سے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کی اس زائد عبادت
کی کیفیت کےبارے میں دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم اپنے گھر پر دن یارات میں بجالاتے تھے اورصحابۂ
کرام رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کواس کاعلم نہ
تھاکیونکہ غالب طورپرانسان کے پوشیدہ معاملات پراس کی زوجہ سے زیادہ کوئی اور مطلع نہیں ہوتا۔اسی لیےصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ جب
انہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کی عبادت کے بارے
میں بتایا گیاتو گویا وہ اُسے کم
سمجھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا اعتقادتھاکہ سرکارِ دوعالَم نورِمُجَسَّم
شاہِ بنی آدم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت کثرت
سےعبادت کرتے ہیں اورصحابۂ کرام اپنی رائے میں عبادت میں کثرت اور اپنی جانوں پر
سختی کرنے ہی کوکامل عبادت گمان کیاکرتےتھے۔لیکن جب انہیں حضورنبی رحمت شفیع
اُمَّت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عبادت کے بارے میں کمی کا گمان ہواتواس کی
وجہ خود ہی بیان کرتے ہوئے کہنے لگے
کہ ہم اپنے آپ کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کی معصوم ہستی
پرقیاس نہیں کرسکتے،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنےربّ کے ساتھ قربتِ خاص کاجومعاملہ ہے ہم
اس سے خالی ہیں ۔اس لیے بارگاہِ الٰہی میں ہماری اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کی عبادت کا معاملہ
جدا ہے۔آپصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شانِ عظمت تو یہ ہے کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ
کے صدقے آپ کے اگلوں ،پچھلوں کے
گناہ بخش دیے ہیں ۔‘‘([54])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماُن صحابۂ کرام رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے پاس تشریف لائے اور استفسار فرمایا:’’کیا تم لوگوں نے
ایساایساکہاہے؟‘‘پھر ان کے جواب کاانتظار
کیے بغیر بیانِ حق میں جلدی کرتے ہوئےفوراً قسم کے ساتھ
ارشادفرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !میں تم سب سے زیادہ اللہ عَزَّ وَجَلَّسے ڈرنے
والا ہوں ۔کیونکہ خوف علم کے تابع ہے (یعنی جتنا علم زیادہ اتناخوف زیادہ)۔جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کافرمان ہے:( اِنَّمَا یَخْشَى
اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ-) (پ۲۲، فاطر:۲۸)( ترجمہ ٔ کنزالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔)یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ذات کا علم و معرفت رکھنے والے ہی اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتے ہیں اوررحمت
عالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ساری مخلوق سے بڑھ
کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی معرفت رکھتے ہیں لہٰذا آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمساری مخلوق
سے زیادہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے والے ہیں ۔حضورِ اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ تقوے والا ہوں ۔یعنی
گویاکہ آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْسے فرمایا:’’جب میں سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتاہوں اورسب سے بڑا متقی ہوں تو پھرتم یہ
کیسے سمجھ سکتے ہو کہ میں اطاعت و عبادت میں کم ہوں ؟‘‘([55])
اللہ عَزَّ وَجَلَّکے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:”میں (نفلی)روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ تا بھی ہوں ۔“یعنی
جب میرے لیے یہ بات ظاہر ہوجائے کہ بغیرکسی تکلف کے روزہ رکھ لوں تورکھ لیتاہوں ۔جیسا
کہ آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اہل میں سے کسی کے پاس تشریف لے جاتے اور
استفسار فرماتے:’’کیا آج تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟‘‘ اگر وہ کہتے: ’’نہیں ۔‘‘ تو
ارشاد فرماتے:’’میں روزہ سے ہوں ۔‘‘نیز اللہ عَزَّ وَجَلَّنےآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حکم دیاکہ آپ یوں
فرمائیں :
(وَّ مَاۤ اَنَا
مِنَ الْمُتَكَلِّفِیْنَ(۸۶)) (پ۲۳،ص:۸۶)( ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور
میں بناوٹ والوں میں نہیں ) اور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’میں روزے چھوڑتا بھی ہوں ۔‘‘ آپ کے روزہ
چھوڑنے کامعاملہ بھی ایساہی تھا ۔([56])(یعنی نفلی روزہ رکھنے میں تکلف ظاہر ہوتا تو روزہ نہ رکھتے ۔)
اِمَام شَرَفُ ا
لدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّد طِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الْقَوِی حدیث پاک کے الفاظ: ” گویاصحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عبادت کو کم
جانا“ کی شرح میں فرماتے ہیں :’’صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا گمان
تھا کہ حضورنبی اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت زیادہ وظائف و
عبادت کرتے ہوں گے۔ لیکن جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عبادت کے بارے میں سنا تو وہ اُن کے اندازے
سے کم تھی تو انہوں نے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئےاُس کی نسبت کمی کی طرف نہ کی بلکہ
اسے حضور کا کمال سمجھااور حضور کے مقابلے میں اپنے آپ کو ملامت کی۔ اس حدیث میں مرید
کے لیے سبق ہے
کہ وہ اپنے شیخ کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اگر
اُن کی عبادت میں کمی پائے تواپنی طرف سے کوئی عذر بیان کرے اور اگر اپنے نفس کو
شیخ پر اِنکار کرتا ہوا پائے تو اسے سمجھائے کیونکہ جو اپنے شیخ پر اعتراض کرے وہ
کبھی فلاح نہیں پاتا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کم عبادت کرنا اُمَّت پر رحم اور شفقت کرنے
کے سبب تھاتاکہ وہ مشقت میں نہ پڑیں کیونکہ انسان کے اپنی جان پر حقوق ہیں اور اہل
وعیا ل کے حقوق ہیں ۔اسی لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے انسان کو کھانے کا محتاج بنایا
ہے تاکہ عبادت پر قوت حاصل ہو اورمَردوں کے
لیے عورتوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ نسلِ انسانی باقی رہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بندوں میں اضافہ ہو اور اپنے دین کو
محفوظ کرے، ان (بیویوں ) پر خرچ کرے تاکہ
اس پر اسے اجر دیا جائے۔‘‘([57])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
(1)
میانہ روی اِستقامت
کی کنجی ہے۔
(2)
قرآن وحدیث
کاعلم حاصل کرنے کےساتھ بزگانِ دین کےاَحوال سےبھی واقف ہوناچاہیے کیونکہ اُن کی
سیرت کی روشنی میں قرآن وحدیث پرعمل کرنا
کامیابی کی علامت ہے۔
(3)
کثرت سےنعمتوں
کا اِستعمال بھی غفلت کاسبب ہے اِس لیے اعتدال سے کام لیناچاہیے۔
(4)
انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَاماپنی عاقبت کےخوف
سے نہیں اَحکام الٰہی کی بجا آوری
اور شکر ادا کرنے کے لیے عبادت کرتے ہیں کیونکہ وہ گناہوں سےپاک ہیں اور
ان کی عاقبت اچھی ہی اچھی ہے بلکہ انہی کے صدقے دوسروں کا انجام اچھا ہو گا ۔
(5)
اگربزرگانِ
دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کےاعمال میں بظاہر
کمی محسوس ہو تو اس کمی کی نسبت ان کی
طرف نہ
کی جائے بلکہ اچھا گمان رکھا جائے۔
(6)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی محبت اوراُس کےشکرمیں کی جانے والی عبادت،عاقبت کےخوف سے کی
جانے والی عبادت سےافضل ہے۔
(7)
قرآن وحدیث
کاعلم حاصل کرنا چاہیے تاکہ اُس کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے جنت تک
پہنچ جائیں ۔
(8)
اپنی
غِذاورآرام کا بھی خیال رکھنا چاہیے تاکہ عبادتِ الٰہی پر قوت حاصل
ہو۔
(9)
اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف وَنَھْیٌ
عَنِ الْمُنْکَر کے آداب میں سے یہ
بھی ہے کہ حتی الامکان لوگوں کے شُبہات دُور
کیے جائیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہےکہ وہ ہمیں ہرمعاملے میں اعتدال
اورمیانہ روی سےکام لینےکی توفیق عطا فرمائے اورسنت کےمطابق زندگی گزارنے کی سعادت عطافرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:144
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:ہَلَکَ
الْمُتَنَطِّعُوْنَ قَالَہَا ثَلَاثًا.([58])
( قَالَ النَّوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِی:) اَ لْمُتَنَطِّعُوْنَ
:اَلْمُتَعَمِّقُوْنَ الْمُشَدِّدُوْنَ فِی غیْرِمَوْضِعِ التَّشْدِیْدِ.
ترجمہ :حضرتِ
سَیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے
روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تین مرتبہ ارشادفرمایا: ’’غلوو تکلف کرنے والے ہلاک
ہو گئے۔‘‘
(امام
نَوَوِیعَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :)اَلْمُتَنَطِّعُوْنَسے مراد وہ
لوگ ہیں جو معاملے کی گہرائی میں پڑتے ہیں
اور جہاں شدت کی حاجت نہ ہو وہاں شدت کرتےہیں ۔
اس
حدیث پاک میں اس بات کا بیان ہے کہ ہرچیز کی گہرائی میں جانے اور اور کسی معاملے
میں حد سے زیادہ بحث کرنا منع ہے یعنی میانہ روی کا درس دیا گیا ہے، یہ باب بھی
چونکہ عبادات میں میانہ روی کا ہے اس لیے علامہ نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے یہ حدیث پاک اس باب میں بیان فرمائی ہے۔
عَلّامہ مُحَمَّد
بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے
ہیں :’’غلو وتکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے ہیں ۔‘‘حضوراکرمصَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نےغلو وتکلف سے روکنے کے لیے یہ جملہ تین بارتاکیداً ارشاد
فرمایااورآپصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم کی
یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی بات کہتےتواسےتین بار ارشاد فرماتےتاکہ سامنے
والاسمجھ جائے۔‘‘مُتَنَطِّعُوْنَ،مُتَنَطِّعٌکی جمع
ہے۔حضرت سَیِّدُنَا علّامہ خطّابی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھادِیفرماتے ہیں :’’ہرچیز
کی گہرائی میں جانے والے اور کسی بارے میں حد سے زیادہ بحث کرنے والے کومُتَنَطِّعکہتے
ہیں ۔ اہل کلام کے نزدیکمُتَنَطِّع سے مراد وہ لوگ ہیں جو بے فائدہ کام میں دخل اندازی کریں اور
ایسی چیز میں غور و خوض کریں جس تک اُن کی عقلیں نہیں پہنچ سکتیں ۔‘‘([59])
اَشِعَّۃُ اللَّمْعَاتمیں ہے:’’یہاں
گفتگو میں تکلف کرنا اورعمدًافصیح بننا
مرادہےیعنی عبارت والفاظ میں بناوٹ،تصنُّع اور رِیاسے کام لینااور بناوٹی
گفتگو سے لوگوں کوجال میں پھانسنااور گفتگومیں اس بات کا خیال نہ رکھنا کہ معنیٰ
حق ہے یا نہیں ،بات درست ہے یا نہیں ۔‘‘([60])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
(1)
کسی آسان معاملے کی انتہائی گہرائی تک پہنچنا ، خواہ
مخواہ بحث و تکرارکرنا اور بلا وجہ
سختی کرنا شریعت کو پسند نہیں ہے۔
(2)
بے
مقصدگفتگودنیااورآخرت میں نقصان کاباعث ہے۔
(3)
گفتگوکرتےہوئےسامعین(سننےوالوں )کالحاظ رکھنا چاہیےاورمعتدل انداز
اختیارکرنا چاہیے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں گفتگو میں غلو وتکلف کرنے
سے محفوظ فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حدیث نمبر:145
عَنْ اَبِی
ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ قَالَ:اِنَّ الدِّیْنَ یُسْر ٌ،وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنُ اِلَّا غَلَبَہُ،فَسَدِّدُوْاوَقَارِبُوْاوَاَبْشِرُوْا،وَاسْتَعِیْنُوْابِالْغَدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْءٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ. ([61])
وَفِی رِوَایَۃٍ
لَہُ:سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْا،وَشَیْء ٌ مِنَ
الدُّلْجَۃِ،اَلْقَصْدَ اَلْقَصْدَ تَبْلُغُوْا.([62])
(قَالَ النَّوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی:) قَوْلُہُ: اَلدِّیْنُ ہُوَ مَرْفُوْعٌ عَلَی مَالَمْ
یُسَمَّ فَاعِلُہُ.
وَرُوِیَ
مَنْصُوْبًا، وَرُوِیَ: لَنْ یُشَادَّ الدِّیْنَ اَحَدٌ. وَقَوْلُہُ صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِلَّا غَلَبَہُ:اَیْ غَلَبَہُ الدِّیْنُ وَعَجَزَ ذٰلِکَ الْمُشَادُّ عَنْ مُقَاوَمَۃِ الدِّیْنِ لِکَثْرَ ۃِ
طُرُقِہٖ.
وَالْغَدْوَۃُ:سَیْرُ
اَوَّلِ النَّھَارِ. وَالرَّوْحَۃُ: آخِرُالنَّہَارِ. وَالدُّلْجَۃُ: آخِرُ
الَّیْلِ. وَہٰذَااِسْتِعَارَۃٌ وَتَمْثِیْلٌ. وَمَعْنَاہُ: اِسْتَعِیْنُوْاعَلٰی طَاعَۃِاللّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ بِالاَعْمَالِ فِیْ وَقْتِ نَشَاطِکُمْ، وَفَرَاغِ
قُلُوْبِکُمْ بِحَیْثُ تَسْتَلِذُّوْنَ
الْعِبَادَۃَ وَلَا تَسْاَ مُوْنَ، وَتَبْلُغُوْنَ مَقْصُوْدَکُمْ، کَمَا اَنَّ
الْمُسَافِرَ الْحَاذِقَ یَسِیْرُ فِی
ہٰذِہِ الْلاَوْقَاتِ وَیَسْتَرِیْحُ ہُوَ
وَدَابَّتُہُ فِیْ غَیْرِہَا،
فَیَصِلُ الْمَقْصُوْدَ بِغَیْرِ تَعَبٍ،وَللّٰہُ اَعْلَمُ.
ترجمہ :حضرتِ
سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ حضور
نبی اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی
آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’دین
آسان ہے اور جو دین میں سختی اختیار
کرتاہے دین اُس پر غالب آجاتاہے۔ پس سیدھی راہ چلو، میانہ روی اختیار کرو، خوش
رہو،صبح وشام اوررات کے کچھ حصے میں (عبادت کے ذریعے)مددچاہو۔‘‘بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت میں ہے: ’’ سیدھی راہ چلو،میانہ روی
اختیار کرو صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں (عبادت کے ذریعے)مدد طلب کرو ،میانہ روی اختیار کرو تم اپنے مقصد کو پا لو گے ۔‘‘
(امام
نوویعَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے
ہیں :) اَلدِّیْنُ نائب الفاعل ہونےکی بنا پر مرفوع ہے اور منصوب بھی
مروی ہے۔ایک روایت میں لَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ اَحَدٌ بھی آیا ہے
اورآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ’’اِلَّا غَلَبَہُ‘‘سے مرادیہ
ہے کہ دین اس پر غالب ہوجاتاہے اوریہ شدت اختیار کرنےوالااس کے مقابلے سے
عاجزآجاتاہے،کیونکہ دین کے راستے بہت زیادہ ہیں ۔اَلْغَدْوَۃُصبح
کی سیر،اَلرَّوْحَۃُ دن کے
آخری حصے اوراَلدُّلْجَۃُ رات کے آخری حصے کو
کہتے ہیں ۔ یہ اِستعارہ اور تمثیل ہے، مطلب
یہ ہے کہ جب تم نشاط محسوس
کرواورتمہارےدل فارغ ہوں توایسےاَوقات میں نیک اَعمال کے ذریعے اللہعَزَّ وَجَلَّکی اِطاعت
پر مددطلب کروتاکہ تمہیں عبادت کی لذت حاصل ہواور اُ کتاہٹ کے بغیر تم اپنے مقصد تک پہنچ جاؤ۔ جیساکہ
تجربہ کارمسافر انہی اوقات میں سفر کرتاہے اور دیگر ا وقات میں خود بھی آرام کرتا
ہے اور اپنی سواری کو بھی آرام پہنچاتا
ہےاور یوں وہ بغیر تھکاوٹ کے منزل
مقصود تک پہنچ جاتاہے۔وَاللہُ اَعْلَمُ([63])
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الْغَنِیفرماتے ہیں :’’دین آسان ہے۔ یعنی دین اسلام پچھلے تمام
اَدیان
سے آسان ہے۔ اس لیےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس اُمَّت سے ان تمام تنگیوں کو
دور کردیا جو پہلی اُمَّتُوں پر تھیں ۔جیساکہ وہ مٹی سے ( تیمم کے ذریعے) طہارت حاصل نہیں کرسکتے تھے ،کپڑے پرجس جگہ نجاست لگ جاتی
اسے کاٹنا پڑتا تھا ، توبہ کے قبول ہونے کےلیے اپنے آپ کو قتل کرنا پڑتا تھااور
اس جیسی دیگر سختیا ں بھی تھیں ۔ پس اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اپنے لطف
و کرم سے اس اُمَّت پر رحم فرماتے ہوئے اُن تمام سختیوں کو دُور فرما دیا۔
اللہعَزَّوَجَلَّارشادفرماتاہے:( وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ
حَرَجٍؕ- )(پ۱۷،الحج:۷۸)(ترجمہ ٔ کنز الایمان:اور
تم پردین میں کچھ تنگی نہ رکھی)۔‘‘ ([64])
عَلَّامَہ بَدْرُ
الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’علامہ
کرمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی الفاظ ِحدیث کے
مطالب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’سیدھی راہ چلو۔یعنی قول وفعل میں سیدھی راہ پر
رہو ،میانہ روی اختیار کرو۔یعنی تم نفلی
عبادات میں ( اپنی جانوں پر)اتنی سختی نہ کروکہ اکتا ہٹ
کاشکارہوکرنیک اعمال سے دور ہو جاؤاور حد سے بڑھنےوالوں میں شامل
ہوجاؤ۔خبردار!حد سے نہ بڑھو،درمیانی راہ اختیار کرو،تم منزلِ مقصود تک پہنچ
جاؤگے۔اپنے تمام اوقات عمل میں نہ گزاروبلکہ نشاط کے اوقات کو غنیمت جانواور وہ دن
کا پہلا اور آخری حصہ اور رات کا کچھ حصہ ہے اوراپنی جانو ں پر رحم کر و اور اِن
اوقات کے علاوہ آرام کرو تاکہ ہمیشگی سے عبادت کر سکو ۔‘‘ ([65])
عَلَّامَہ حَافِظ
اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے
ہیں :’’ جو دین میں سختی اختیار کرتا
ہے دین اس پر غالب آجا تا ہے۔یعنی جو شخص
اعمالِ دینیہ میں نرمی کو چھوڑ کر ان کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرتا ہے وہ
عاجز آکر عمل چھوڑ دیتا ہے۔ حضرت سَیِّدُنَا
ابن منیر رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’یہ
فرمانِ عالی نبوت
کی نشانیوں میں سےایک نشانی ہے۔ کیونکہ ہمارا
اور ہم سے پہلے لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ جوبھی دین میں سختی کر تے ہیں اُن کے اَعمال اُن سے منقطع ہوجاتے ہیں ۔
خیال رہے کہ حدیث مذکور میں عبادات کو
کامل طریقوں سےاَدا کرنے کی ممانعت نہیں کیونکہ
یہ تو قابل تعریف ہے۔منع تو ایسےعمل سے
کیا گیا ہے جو اُکتاہٹ یا فرائض
وواجبات کے ترک کی طرف لےجائےیا اس کی وجہ سے فرض نماز کا وقت نکل جائے۔ جیسے کوئی
شخص پوری رات نوافل پڑھتا رہے
اور رات کے آخری حصے میں نیند کاغلبہ ہو جائے اور فجر کی جماعت نکل جائے یاوقت ہی نکل جائے۔اور
خوش رہویعنی اس عمل پرثواب کی خوشخبری ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔ خوشخبری سےمرادیہ ہے کہ جوشخص کامل
طورپرنیک عمل کرنے سےعاجز ہواوروہ عجز اس کی اپنی طرف سے نہ ہوتو اس سے
ثواب میں کمی نہیں آتی۔‘‘([66])
میانہ روی اختیار کرو تم اپنے مقصد کو پا لو گے۔یعنی تم اپنے مقصودتک یااللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا والے اَعمال تک
میانہ روی ہی کے ذریعے پہنچو گےاور
اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم سے چاہتاہے کہ وہ تمہارے اَعمال قبول فرمائے،تم سے راضی ہوجائے اورتمہیں جنت
الفردوس میں داخل فرما دے۔لہٰذاتمہیں چاہیے کہ میانہ روی اختیار کرو۔‘‘([67])
مُفَسِّر شَہِیرمُحَدِّثِ
کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے
ہیں : ’’اسلام آسان دین ہے۔ اس میں یہودیت کی طرح سختیاں نہیں کہ اُن کے ہاں ترکِ
دنیاعبادت تھی ہمارے ہاں دنیاداری بھی عبادت ہے کہ سنتِ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمہے۔ ربّ
فرماتا ہے:(
یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ )(پ۲، البقرۃ:۱۸۵) ( ترجمہ ٔ کنزالایمان:
اللہ تم پرآسانی چاہتاہے۔) جو شخص
غیرضروری عبادت کو اپنے لیے ضروری بنالے وہ مغلوب ہوکر تھک کررہ جاوےگا
اورپھرگناہگارہوگا۔مثلاً کوئی عمر بھر روزے رکھنے کی
نذرما ن لے تونہ کرسکےگاپھراپنی نذرکی وجہ
سےگناہ گارہوگا۔(خوش رہو)یعنی نیک اعمال کیے جاؤ اللہ (عَزَّوَجَلَّ
) سےقرب اختیار کرواور لوگوں کودین سے ڈراؤ نہیں بلکہ
خوشخبریاں دے کراُدھرمائل کرویا خود خوش وخرم رہوکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہماری کوتاہیوں سے درگزرفرمائے گا، ہمیں اپنے
فضل سے بخش دے گا یعنی دوسروں کو خوشخبریاں دویا خودخوشخبریاں لو۔‘‘([68])
صَلُّوْا عَلَی
الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1)
دین اسلام سب
مذاہب سے آسان ہے ۔ اس میں اِفراط وتفریط
بالکل نہیں ۔
(2)
اِسلام ہمیں قول وفعل میں سیدھی اور ستھری راہ
اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
(3)
جو کسی
غیر لازم کام کو ہمیشہ کے لیے
اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے، اسے پریشانیوں اور اُ کتاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے
اور اکثر اوقات وہ اُس عمل سے دُور
ہو جاتا ہے ۔
(4)
لوگوں کو جنت
و رحمت الٰہی کی خوشخبری سنا کر اَعمالِ
صالحہ کی طرف راغب کرنا چاہیے ۔
(5)
میانہ روی
اختیار کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتےہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہےکہ وہ ہمیں میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں
دین کے اَحکا م پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے تمام گناہوں کو معاف
فرمائے، ہماری حتمی مغفرت فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:146
وَعَنْ اَنَسٍ رَضِيَ
اللهُ عَنْهُ قَالَ:دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
الْمَسْجِدَ فَاِذَا حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ فَقَالَ: مَا
هَذَا الْحَبْلُ؟ قَالُوْا: هَذَاحَبْلٌ لِزَ يْنَبَ، فَاِذَا فَتَرَتْ
تَعَلَّقَتْ بِهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حُلُّوْهُ،
لِيُصَلِّ اَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ، فَاِذَا
فَتَرَ فَلْيَرْ قُدْ. ([69])
ترجمہ :حضرت
سَیِّدُنَا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی
ہے کہ سرکارِدوعالَم نورِمُجَسَّم شاہِ
بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممسجد میں داخل ہوئےتودو۲ستونوں کےدرمیان ایک رسی بندھی ہوئی
دیکھ کر استفسار فرمایا:’’ یہ رسی کیسی ہے؟‘‘صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَاننے عرض کی: ’’یہ حضرت
سَیِّدَتُنَا زینبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی
رسی ہے جب وہ (عبادت کرتے کرتے) تھک جاتی ہیں تو اس کے ساتھ سہارا
لیتی ہیں ۔‘‘ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنے اِرشادفرمایا: ’’اِسے کھول دو!جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو خشوع خضوع کے ساتھ
پڑھےاور جب تھک جائے تو آرام کرے۔‘‘
عَلَّامَہ اَبُو
الْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللّٰہِ ذیالْجَلَالفرماتے ہیں :’’عبادت میں شدت اِختیارکرنا تھکاوٹ اور
اُ کتاہٹ کے خوف کی وجہ سے مکروہ ہے ۔حضورنبی
اکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: ’’بہترین عمل وہ ہے جسے ہمیشہ
کیا جائے اگرچہ تھوڑاہو۔‘‘ اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِرشاد فرماتا ہے:( لَا یُكَلِّفُ
اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ- )(پ۳ ،البقرہ:۲۸۶)(ترجمہ ٔ کنزالایمان: اللہکسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اُس کی طاقت بھر) ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:( وَ مَا جَعَلَ
عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ-) (پ۱۷، الحج:۷۸)( ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور
تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔)رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنے عبادت میں اِفراط( زیادتی) کوناپسند فرمایاہے تاکہ اکتاہٹ نہ ہو ۔‘‘([70])
عَلَّامَہ شَھَابُ
الدِّیْن اَحْمَد قَسْطلانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے
ہیں :’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو
خشوع خضوع کے ساتھ پڑھےاور جب تھک جائے تو آرام کرے۔ مراد یہ ہے کہ تم میں سےہرایک
اپنے نشاط کے وقت نمازپڑھے یااُس وقت نماز پڑھےجواُس نماز کے لیے نشاط کاوقت
ہےاور بعض نے فرمایا: نمازی کو چاہیے کہ
کامل اِرادے اورکامل ذوق سےنمازادا کرے کیونکہ
حالت نماز میں بندہ اپنے ربّ کے حضورمناجات کرتا ہے۔پس اُس وقت اُکتاہٹ میں مبتلاہونا درست نہیں ۔‘‘([71])
شارحِ بخاری حضرت علامہ سَیِّد
محمود اَحمد رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِیفرماتے ہیں :’’واضح رہے کہ
وہ تمام حدیثیں جن میں کثرتِ عبادت کی ممانعت آئی ہے تو یہ نہی (ممانعت ) صرف ایسے افراد کے لیےہے جو عبادت ورِیاضت میں ایسے
مشغول ومعروف ہو جائیں کہ حقوق العباد تک تلف ہوجائیں اور عبادت اُن کے لیےبار
ہوجائے۔لیکن وہ لوگ جنہیں کثرتِ عبادت میں دِقّت نہ ہو بلکہ عبادت اُن کی غذا بن
جائے تو ایسے اَفراد کے لیے کثرتِ عبادت
ممنوع نہیں ہے بلکہ محمودومطلوب ہے۔قرآن مجید میں فرمایا: (كَانُوْا
قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ(۱۷)) ( پ۲۶، الذّٰریٰت:۱۷)( ترجمہ ٔ کنزالایمان:وہ
رات میں کم سویا کرتے۔)نیز حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی عبادت ایسی
ہوتی تھی کہ آپ کے قدم مبارک مُتَوَرَّم ہوجاتے تھے۔رمضان کے آخری عشرے میں حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)ساری رات عبادت میں گزار دیتے تھے۔حضرت عثمان
غنی و حضرت عمر فاوق (رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُمَا) ساری رات
عبادت میں مشغول رہتے تھے۔غرضیکہ مطلقاً کثرت ِعبادت ممنوع نہیں ہے، بلکہ عبادت میں
ایسی کثرت جس کی طاقت نہ ہو او رطبع پر
گراں ہو اس کی ممانعت آئی ہے۔حضور عَلَیْہِ
السَّلَام کا ارشادلِیُصَلِّ اَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ یعنی جب تم میں سے
کوئی نماز پڑھے تو خشوع خضوع کے ساتھ پڑھے۔جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص
ساری رات قیام کرسکے اور ساری رات کی عبادت
گزاری اس کو دشوارنہ ہوتو
اس کی ممانعت نہیں ہے۔‘‘([72])
مُفَسِّر شہِیرمُحَدِّثِ
کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’
اگر کھڑے کھڑے نوافل پڑھتے تھک گیاہے توبیٹھ کر پڑھے۔ اس بیٹھنے میں اِنْ شَآءَاللہقیام
کا ثواب ملے گا۔ یا اگر نماز نفل سے تھک گیاہے تو کچھ دیرآرام کےلیے بیٹھ جائے۔ اس
آرام میں نفل کا ثواب ملے گا کیونکہ یہ آرام آئندہ نفل کی تیاری کے لیےہے۔جوعادت
عبادت کی تیاری کےلیے ہووہ عبادت ہے۔ اس لیے کہا جاتاہےکہ عالِم کی نیند عبادت ہے
کہ اس کے ذریعہ وہ بہت سے کام کرے گا۔‘‘([73])
(1)
جب تک دل جمعی باقی رہے،نفلی عبادت کی جائے، جب اکتاہٹ محسوس ہو تو کچھ دیر آرام کر لیا جائے اور
پھر دوبارہ نفلی عبادت کی جائے تاکہ رغبت
باقی رہے ۔
(2)
اگر کوئی کھٹرےکھڑے نوافل پڑھتے تھک گیا ہے تو
بیٹھ کر پڑھے، اس بیٹھنے میں قیام کا ثواب ملے گا، اور اگر نماز ہی سے تھک گیا ہے
تو کچھ دیر آرام کے لیے بیٹھ جائے، اس آرام میں بھی نفل کا ثواب ملے گا کیونکہ
یہ آرام آئندہ نوافل کی تیاری کے لیے ہے۔
(3)
کثرتِ
عبادت سے
انہیں منع کیا گیا ہے جو اکتاہٹ کاشکارہوجائیں اور جن کے لیے
کثرتِ عبادت سکون اور دل جمعی کا
باعث ہو
اُن کے لیے کثرتِ عبادت کی ممانعت نہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعاہے کہ وہ ہمیں خشوع
وخضوع سے عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے،
ہمارا دل
اپنی عبادات میں لگادے، ہمیں تنگی اور غفلت اور
عبادات میں اکتاہٹ سےمحفوظ فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر: 147
اُوْنْگھ کی حالت
میں نماز پڑھنے کی مُمَانَعَت
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا اَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ: اِذَا نَعَسَ اَحَدُكُمْ
وَهُوَ يُصَلِّي، فَلْيَرْقُدْ حَتَّى
يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ،
فَاِنَّ اَحَدَكُمْ اِذَا صَلَّى
وَهُوَ نَاعِسٌ لَا يَدْرِيْ لَعَلَّهُ
يَذْهَبُ يَسْتَغْفِرُ فَيَسُبَّ نَفْسَهُ.([74])
ترجمہ :اُمُّ المؤمنین حضرت سَیِّدَتُنَا عائشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسےمروی ہے، رسولِ اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو نماز کی
حالت میں اُونگھ آئے تو اُسے چاہیے کہ
سوجائے یہاں تک کہ اُس کی نیند چلی جائے کیونکہ جب تم میں سے کوئی اُونگھتے
ہوئے نماز پڑھے تو وہ نہیں جانتاکہ شایدبخشش مانگتے مانگتے وہ اپنے آپ کو گالیاں دینے
لگے۔‘‘
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں
:’’اس حدیث پاک میں ترغیب ہے کہ نماز کے لیے خشو ع وخضوع،فراغتِ قلب اور نشاط
وسرور کے ساتھ آنا چاہیےاورجس شخص پرنیند کا غلبہ ہواسےسونے کاحکم دیاگیاہےتاکہ اس
کی نیند چلی جائے اور یہ حکم فرض نمازاوردن و رات کے نوافل میں عام ہےاوریہی
ہمارااور جمہورکامذہب ہےلیکن اگرفرض نمازکا وقت جارہاہو اور اسے نیند کا غلبہ ہو
تو وہ ہر گز نہ سوئے بلکہ فرض نماز وقت میں
ادا کرے۔‘‘ حضرت سَیِّدُنَا قاضی عیاض عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَہَّابفرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِقاور ایک جماعت نے اس حکم کو رات کی نفلی عبادت پر محمول
کیا
ہےکیونکہ
نیند کا غلبہ رات ہی میں ہوتا ہے ۔‘‘([75])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’حدیث پاک میں سونے کا حکم اِستحبابی
ہے اور اس حکم پر عمل کرنے والے کو ثواب بھی ملے گااور ا ُونگھ کی حالت میں نماز
پڑھنا مکروہ ہے یہاں تک کہ نیند چلی جائے۔‘‘([76])
عَلَّامَہ شَھَابُ الدِّیْن اَحْمَدقَسْطلانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :’’حدیث پاک میں سونے کاحکم احتیاطاً
دیا گیاہےاور یہ حکم ایک احتمالی علت کی بناپر
ہے۔امام نَسائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ایک
روایت میں ہے کہ نمازمکمل کرنے کے بعدنیند پوری کرے ۔نہ یہ کےصرف اُونگھ آنے کی بناپرہی نماز توڑدے۔‘‘([77])
محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتےہیں :’’ اُونگھ ،نیند کی گرانی اور اس کی ابتدائی
حالت ہے ۔اُونگھ دراصل ایک لطیف ہوا ہوتی
ہے جو دماغ کی طرف سے آتی ہے اور آنکھوں کو ڈھانپ لیتی ہےاور دل تک نہیں پہنچتی۔
جب یہ ہوا دل تک پہنچ جاتی ہے تو اسے نیند
کہتے ہیں ۔ اُونگھ کی صورت میں اگر اُٹھ
کھڑاہواور کام کاج کرنے لگے جس سے اُونگھ دُور ہوجائے تو ایسا ہوجاتاہے۔مگر
جب نیند غالب آجائےاور اسے ہٹانادماغ کو
نقصان دے اور بدن کے بوجھل ہونے کا باعث
بنے تو یہ حالت اختلاف حالات واَوقات سے معلوم ہوجاتی ہے۔حدیث پاک کے الفاظلَا یَدْرِیْ(یعنی وہ نہیں جانتا)سے مراد یہ ہے
کہ نیند کی وجہ سے اسے معلوم نہ ہوگا کہ وہ نماز کا کونسا فعل اور نماز کے کون سے
کلمات کہہ رہا ہے۔ ہوسکتاہے کہ وہ دعاواستغفارکرے مگر اس سے غلطی واقع ہوجائے اور
اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگے۔اسی طرح بجائے
”اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ
لِیْ یا اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ“کہنے
کے یوں کہہ دے:اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے عذاب دے اور مجھ پر لعنت کر۔‘‘([78])
مُفَسِّر شہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’معلوم ہوا کہ اُونگھتے ہوئےنماز
پڑھنامکروہ وممنوع ہے کہ جس کی وجہ آگے آرہی ہے۔مثلاً اونگھتے ہوئے بجائے اِغْفِرْلِیْ کےاِعْفِرْلِیْ کہہ جائے غَفَرَ(غین کے ساتھ)کے معنی ہیں بخشنا،
عَفَرَ(عین کے ساتھ)کے معنی ہیں مٹی میں ملانا، ذلیل وخوار کرنااور بعض
ساعتیں قبولیت کی ہوتی ہیں جو زبان سے نکلے وہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے بہت احتیاط چاہیے۔ خیال رہے کہ بعض
دفعہ مقتدی امام کے پیچھے اُونگھ جاتے ہیں ، انہیں منہ دھو کر کھڑا ہونا چاہیے
مگراُس اُونگھ کی وجہ سے نمازباجماعت نہ چھوڑنی چاہیے۔‘‘([79])
(1) بیمارلیٹ کر نماز
پڑھتا تھا نیند آگئی وُضو جاتا رہا۔(2)اُونگھنے یا بیٹھے بیٹھے جھونکے لینے
سے وُضو نہیں جاتا ۔(3) جُھوم کر گر پڑا اور فوراً آنکھ کھل گئی وُضو نہ
گیا۔(4)نماز وغیرہ کے انتظار میں بعض مرتبہ نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور یہ دفع
کرنا چاہتا ہے تو بعض وقت ایسا غافل ہو جاتا ہے کہ اس وقت جو باتیں ہوئیں اُن کی اِسے
باِلکل خبر نہیں بلکہ دو تین آواز میں آنکھ کھلی اور اپنے خیال میں یہ سمجھتا ہے
کہ سویا نہ تھا، اس کے اِس خیال کا اعتبار نہیں اگر معتبر شخص کہے کہ تُو غافل
تھا، پکارا جواب نہ دیا یا باتیں پوچھی جائیں اور وہ نہ بتا سکے تو اس پر وُضو
لازم ہے۔ فائدہ: انبیاءعَلَیْہِمُ السَّلَام کا سونا ناقض وُضو نہیں ان کی آنکھیں سوتی ہیں دل
جاگتے ہیں ۔ علاوہ نیند کے اور نواقض سے انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا وُضو جاتا ہے
یا نہیں ، اس میں اختلاف ہے ، صحیح یہ ہے کہ جاتارہتا ہے بوجہ اُن کی عظمتِ شان
کے، نہ بسبب نجاست کے کہ ان کے فُضْلَاتِ شریفہ طَیِّب و طاہِر ہیں
جن کا کھانا پینا ہمیں حلال اور باعثِ برکت۔‘‘([80])
(1)
ہر عبادت احتیاط وتوجہ سے کرنی چاہیے کیونکہ ہوسکتاہے کہ بے خیالی میں
کی جانے والی عبادت سعادت مندی کے بجائے شقاوت وبدبختی کا سبب بن جائے۔
(2)
نمازاداکرنے والے کو چاہیے کہ وہ حضورِقلبی اور نِشاط کے ساتھ نماز اداکرے۔
(3)
جس شخص کونماز میں اُونگھ آئےاسےچاہیےکہ نمازکوطول نہ دے۔ بلکہ جلدی نماز مکمل
کر کے سُستی واُونگھ دُور کرے ۔
(4)
انبیائے کرام عَلَیْہِمُ
السَّلَام کا سونا ناقص وضو
نہیں ، کیونکہ اُن کی آنکھیں سوتی ہیں ، دل جاگتے ہیں ۔
اللہ عَزَّ
وَجَلَّ ہمیں دل
جمعی اور حضورِ قلبی کے ساتھ عبادت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:148
حُضُور عَلَیْہِ السَّلَام کی نماز اور خُطْبَہ کی کیفیَّت
عَنْ
اَبِيْ عَبْدِ اللهِ
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السُّوَائيِّ
رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ :كُنْتُ
اُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَوَاتِ، فَكَانَتْ
صَلَاتُهُ قَصْدًا
وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا.([81])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوعبداللہ جابر بن سَمُرہ سُوائیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں :’’میں حضور نبی اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی
آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
نمازبھی درمیانی ہوتی اور
خطبہ بھی درمیانہ ہوتا۔‘‘
عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتےہیں :’’حضرت سَیِّدُنَا جابر بن سَمُرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی کنیت
ابوعبداللہ اورایک قول کے مطابق ابوخالد ہے۔سُوائی آپ کا
لقب ہے۔آپ اورآپ کے والد محترم کو شرفِ صحابیت حاصل ہے۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے 146احادیث مروی ہیں ۔ آپ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے 66سن ہجری
میں اس دنیا سے کوچ فرمایا۔آپ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ کی قسم! میں نے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ ایک ہزارسے زیادہ نمازیں پڑھیں ، آپ عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نماز کو اس کے تمام کمالات اور سنتو ں کے ساتھ اس طرح ادا فرماتے
کہ آپ کی نماز نہ تو بہت طویل ہوتی اور نہ ہی بہت مختصر۔اسی طر ح جمعہ وغیرہ کا خطبہ بھی مُعْتَدِل ہو تا ۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجوامِعُ الْکَلِم تھے ، بہت ساری باتوں کو آسان اور کم الفاظ میں بیان فر مادیتے۔‘‘([82])
مُفَسِّر شہِیرمُحَدِّثِ
کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی
احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : ٭’’جمعہ کے لیے خطبے دو 2پڑھے جائیں
۔٭دوسرے یہ کہ خطبہ میں قرآن کریم کی آیت بھی تلاوت کی جائے۔٭ تیسرے
یہ کہ خطبے میں وعظ و نصیحت کے الفاظ بھی ہوں ۔٭چوتھےیہ کہ خطبہ نہ بہت
دراز ہو نہ بہت مختصر۔٭ پانچویں یہ کہ دو خطبوں کے درمیان منبر پر بیٹھ کر
فاصلہ کرے۔ خیال رہے کہ خلفاء اور صحابہ و اہل بیت رَضِیَ اللہُ
عَنْہُمْ کا ذکر نہ سنت رسولُ ﷲہے نہ سنت ِصحابہ، بلکہ بدعت حسنہ ہے۔ جس کی وجہ
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں یہ ضرور کی جائے، جو لوگ ہر بدعت کو حرام کہتے ہیں وہ اس کو
کیا کہیں گے؟‘‘([83])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
(1)
خطیب کوچاہیےکہ وعظ ونصیحت کادورانیہ نہ تو بہت طویل رکھے اور نہ ہی بہت مختصر
بلکہ متوسط رکھےاورحالاتِ حاضِرہ کےمطابق لوگوں کی اِصلاح کرے۔
(2)
بدعت سیئہ یعنی بُری بدعت سے بچنا چاہیے جبکہ بدعتِ حسنہ کو دین میں بڑی
اہمیت حاصل ہے اور یہ بدعت ممنوع نہیں ہے
بلکہ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اگر کی جائے تو اس پر بڑے اجروثواب کی امید ہے، جیساکہ
خطبے میں خلفاءراشدین،صحابۂ کرام اوراہل بیعترَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کاتذکرہ کرنا، یہ بھی بدعت حسنہ ہے اور باعث
اجروثواب ہے۔
(3)
صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناپنے
پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَداؤ ں پر نظر رکھتے اور اُنہیں کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہےکہ وہ ہمیں اپنی نمازوں میں میانہ روی اختیار کرنے کی
توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں کے مطابق
زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:149
عَنْ اَبِيْ جُحَيْفَةَ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ الله ِرَضِي َ الله ُ
عَنْهُ قَالَ:آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ
وَاَبِي الدَّرْدَاءِ،فَزَارَسَلْمَانُ اَبَاالدَّرْدَاءِ فَرَاَى اُمَّ
الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ: مَا شَاْنُكِ؟ قَالَتْ: اَخُوْكَ اَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ
حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا. فَجَاءَ اَبُو
الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ لَہُ: کُلْ! فَانِّیْ صَائِمٌ . قَالَ:
مَا اَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَاْ كُلَ. فَاَ كَلَ . فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ
ذَهَبَ اَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُوْمُ فقَالَ لَہُ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ
يَقُوْمُ
فَقَالَ لَہُ: نَمْ فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ
اللَّيْلِ قَالَ سَلْمَانُ:قُمِ الْآنَ، فَصَلَّيَا جَمِیْعًا،فَقَالَ لَهُ
سَلْمَانُ: اِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا،وَ اِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِاَهْلِكَ
عَلَيْكَ حَقًّا،فَاَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَاَتَى النَّبِيَّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ سَلْمَانُ.([84])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوجُحَیْفَۃ وہب بن عبداللہرَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسےروایت ہے، حضور
تاجدارِ رسالت شہنشاہِ نبوت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سَیِّدُنَا سلمان رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت
سَیِّدُنَا ابودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُکے درمیان بھائی
چارہ قائم فرمایا۔ ایک دن حضرت سَیِّدُنَاسلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت سَیِّدُنَاابودَرْدَاء
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکےہاں تشریف
لے گئےتو حضرت سَیِّدَتُنَا اُمِّ دَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو پرانے عام
سے کپڑوں میں دیکھ کرفرمایا: ’’یہ کیاحالت
ہے؟‘‘ کہا :’’آپ کے بھائی اَبُو دَرْدَاء کو دنیا کی کچھ حاجت نہیں ۔ پس جب حضرت سَیِّدُنَا ابودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُآئے تو انہوں نے حضرت سَیِّدُنَا سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے لیےکھانا تیار کیا اور فرمایا :’’کھا ئیے!
میں روزے سے ہوں ۔‘‘حضرت سَیِّدُنَاسلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا:’’جب تک تم نہیں کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں
گا۔‘‘ چنانچہ انہوں نےبھی کھایا۔ جب رات ہوئی تو
حضرت سَیِّدُنَاابودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عبادت
کے لیے جانے لگے۔فرمایا : ’’ابھی سوجاؤ۔‘‘ تو وہ سو گئے۔کچھ دیر بعدوہ دوبارہ
نماز کے لیے جانے لگے توفرمایا: ’’سوجاؤ۔‘‘
پھر جب رات کاآخری حصہ ہوا تو فرمایا: ’’اب اٹھو۔‘‘
چنانچہ دونوں نے اکٹھے نماز ادا کی۔ حضرت سَیِّدُنَاسلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا: ’’بے شک تمہارے
ربّعَزَّ وَجَلَّ کاتم پر حق ہے اور تمہارےنفس کا تم پرحق ہےاور
تمہارے گھر والوں کا تم پر حق ہے۔ لہٰذا ہر حقدار کو اس کا حق دو۔پھر جب حضرت سَیِّدُنَا ابودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ حضور نبی اکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا
واقعہ عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’سلمان (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)نے سچ کہا۔‘‘
دوعالَم
کے مالک ومختار، مکی مدنی سرکار صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سَیِّدُنَا سلمان او
رحضرت سَیِّدُنَا
ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُمَاکے درمیان بھائی چارہ
قائم فرمایا۔اہل سیرت اورمغازی ذکر کرتے ہیں کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے درمیان دومرتبہ مؤاخات(یعنی بھائی چارہ)قائم ہوا۔پہلاخاص طورپر مہاجرین کے درمیان ہجرت سے قبل
ہوایہ ایک دوسرے کی مدداوردین کے حقوق قائم کرنے پر تھا۔اوردوسری مرتبہ جب آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہجرت فرما کرمدینہ منورہ تشریف
لائے تو آپ نے مہاجرین اور انصارکے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا۔([85])
عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافَعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتےہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا ابودرداء رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سَیِّدُنَا سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عزت و
احترام کی بناپر آپ کے لیے کھانے کا
اہتمام کیا خود چونکہ روزے سے تھے، اس
لیے کھانے سے انکار کیا۔ حضرت سَیِّدُنَا سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے انہیں ساتھ کھلانے پر اِصرار کیا، غرض یہ تھی
کہ حضرت سَیِّدُنَا ابودرداء رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ عبادت میں اپنے نفس کو بہت زیادہ مشقت میں ڈالنےکی رائےبدل دیں اوریہی شکایت ان کی زوجہ کوبھی تھی۔حضرت سَیِّدُنَا ابودرداء رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت سَیِّدُنَاسلمان رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تعظیم کرتے ہوئے نفلی روزہ توڑدیا اور آپ کا یہ روزہ توڑناعذر
کی وجہ سے تھا لہٰذا آپ کو اس پر ثواب دیاجائے گا۔
حضرت سَیِّدُنَا سلمان رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سَیِّدُنَا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کومیانہ
روی اختیار کرنے کی حکمت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم پر تمہارے ربّ کا
حق ہے اور وہ حق عبادت ہے اورتم پر تمہارےنفس کابھی حق ہےاور وہ کھانا پینا
ہے جس کے ذریعےقوت حاصل ہوتی ہے
اور نیند ہے جس کے ذریعے صحت ملتی ہےاور
تم پر تمہارے گھر والوں یعنی تمہاری زوجہ کا
حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ تم
ان کے پاس آؤ اور ان کی
خواہش پوری کرو۔‘‘([86])
ضیافت مہمان اور میزبان دونوں کے
لیے نفلی روزہ توڑنے کا عذر ہے۔ شریعت
مطہرہ نے اس کی اجازت دی ہے بلکہ اپنے
مسلمان بھائی کی دِل جوئی پر ثواب بھی
رکھاہے جیسا کہ”مَرَاقِی الفَلاح شرح نُورِ الاِیضاح“میں ہے: ’’کوئی شخص نفلی روزہ رکھے اور اپنے بھائی کے گھر جائے ، وہ اسے کھانے کی دعوت دے
تو اسے روزہ توڑ نا جائز ہے۔حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اِس فرمان کی بنا پر کہ ”جس نے اپنے مسلمان
بھائی کے حق کے لیے اپنا (نفلی ) روزہ توڑ دیا
تو اس کے لیے ایک ہزار روزوں کا
ثواب لکھا جاتا ہے اور پھر جب وہ اس روزے کی قضا کرتا ہے تو اس کے لیے
دو ہزار روزوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔“([87])
صَدْرُالشَّرِیْعَہ، بَدرُالطَّرِیْقَہحضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے
ہیں :’’نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے، مہمان کے ساتھ اگرمیزبان نہ کھائے گا
تو اسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل
روزہ توڑ دینے کے لیے یہ عذر ہے، بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور
بشرطیکہ ضحوہ کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں ۔ زوال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے
سبب توڑ سکتا ہے اور اس میں بھی عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔‘‘([88])
(1) مسلمانوں کاآپس میں بھائی چارہ قائم کرنااُمَّت مسلمہ کی
دینی ودنیاوی مصلحتوں کاپیش خیمہ ہے۔
(2) اپنے دوستوں کی
تعظیم وتوقیر کرنا اور ان کی جائز خواہشات کو پوری کرناصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا طرزِعمل ہے، نیز
ا س میں اپنے مسلمان بھائی کی دلجوئی بھی ہے جو کہ کارِ ثواب ہے۔
(3) جب مہمان اپنےساتھ کھانےکی خواہش کرے تومیزبان کےلیےنفلی
روزہ توڑدینا جائزبلکہ کارِ ثواب ہے کیونکہ یہ حکم شرعی پرعمل ہےنیز بعدمیں روزہ
کی قضاء لازم ہے۔
(4) نفل روزہ بلاعذر توڑدینا ناجائز ہے، میزبان کے ساتھ کھانا
نہ کھانا مہمان کو ناگوار گزرے گا، یا میزبان کو اذیت ہوگی تو اس عذر کی وجہ سے
نفلی روزہ توڑنا جائز ہے جبکہ یہ بھروسہ ہو کہ بعد میں اس کی قضا رکھ لے گا اور یہ
توڑنا ضحویٰ کبری سے پہلے ہو۔
(5) بندےپرحقوقُ اللہ کےساتھ ساتھ حقوق
ُالعباد بھی لازم ہیں لہٰذاتمام حقوق اداکرنے چاہئیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے
حبیب، حبیب لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے عطا کردہ احکامات
کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے، دنیا وآخرت میں کامیابیاں عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
عَنْ اَ
بِيْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو
بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:اُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنّیِ اَقُوْلُ: وَاللهِ لَاَصُوْمَنَّ النَّهَارَ، وَلَا
َقُوْمَنَّ اللَّيْلَ مَاعِشْتُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَنْتَ الَّذِيْ تَقُوْلُ ذٰلِكَ؟ فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ
قُلْتُهُ بِاَبِيْ اَنْتَ
وَاُمِّي يَا رَسُوْلَ اللَّهِ. قَالَ: فَاِنَّكَ لَا تَسْتَطِيْعُ ذَلِكَ،
فَصُمْ وَاَفْطِرْ وَنَمْ وَقُمْ وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ اَ يَّامٍ
فَاِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا، وَذٰلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ
قُلْتُ: فَاِنِّي اُطِيْقُ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِكَ، قَالَ:فصُمْ يَوْمًا وَاَفْطِرْ
يَوْمَيْنِ، قُلْتُ: فَاِنِّي اُطِيْقُ اَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ:فصُمْ يَوْمًا وَاَفْطِرْ يَوْمًا، فذَ لِكَ صِيَامُ
دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، وَهُوَ اَعْدَلُ الصِّيَامِ. وَفِيْ رِوَايَةٍ: هُوَ
اَفْضَلُ الصِّيَامِ. فَقُلْتُ: فَاِنِّي اُطِيْقُ
اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِكَ.
فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: لَا اَفْضَلَ مِنْ
ذَلِكَ. وَ لِاَنْ
اَكُوْنَ
قَبِلْتُ الثَّلَاثَةَ الْاَ
يَّامَ الَّتِيْ قَالَ رَسُوْلُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ اَحَبُّ اِلَيَّ مِنْ اَهْلِي وَمَالِي.([89])
وَفِيْ رِوَايَةٍ:اَلَمْ اُخْبَرْ اَنَّكَ تَصُوْمُ النَّهَارَوَتَقُوْمُ
اللَّيْلَ ؟ قُلْتُ: بَلٰی يَا رَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ : فَلَا
تَفْعَلْ : صُمْ وَاَفْطِرْ، وَنَمْ وَ
قُمْ فَاِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا،
وَ اِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَ اِنَّ لِزَ وْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا
وَاِنَّ لِزَ وْرِکَ عَلَيْكَ حَقًّا،وَ اِنَّ بِحَسْبِكَ اَنْ تَصُوْمَ فِيْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ اَ يَّامٍ،
فَاِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ
اَمْثَالِهَا، فَاِنَّ ذٰلِكَ صِيَامُ
الدَّهْرِ. فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ ، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! اِنِّي اَجِدُ
قُوَّ ةً، قَالَ: صُمْ صِيَامَ
نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ وَلَا
تَزِدْ عَلَيْهِ. قُلْتُ:وَمَاكَانَ
صِيَامُ دَاوُدَ؟ قَالَ:نِصْفُ الدَّهْرِ .
فَكَانَ عَبْدُاللہِ يَقُوْلُ بَعْدَ مَا
كَبِرَ : يَا لَيْتَنِيْ قَبِلْتُ
رُخْصَةَ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّه ُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.([90])
وَفِيْ رِوَايَةٍ:اَلَمْ
اُخْبَرْ اَنَّكَ تَصُوْمُ الدَّهْرَ
،وَتَقْرَاُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ؟فَقُلْتُ: بَلٰی! يَا رَسُوْلَ اللَّهِ
،وَلَمْ اُرِدْ بِذٰلِكَ اِلَّا الْخَيْرَ
قَالَ:فَصُمْ صَوْمَ نَبِيِّ اللَّهِ
دَاوُدَ، فَاِنَّهُ كَانَ اَعْبَدَ النَّاسِ، وَاقْرَالْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ قُلْتُ: یَانَبِيَّ
اللَّهِ! اِنِّي اُطِيْقُ اَفْضَلَ مِنْ
ذٰلِكَ.قَالَ: فَاقْرَاْهُ فِي كُلِّ
عِشْرِيْنَ .قُلْتُ :يَا نَبِيَّ اللَّهِ
اِنِّي اُطِيْقُ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِكَ؟ قَالَ: فَاقْرَاْهُ فِي كُلِّ
عَشْرٍ.قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ اِنِّي اُطِيْقُ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِكَ؟ قَالَ: فَاقْرَاْهُ فِي كُلِّ
سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذٰلِكَ. فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ، وَقَالَ لِي
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :اِنَّكَ لَا تَدْرِي لَعَلَّكَ يَطُوْلُ بِكَ عُمُرٌ .
قَالَ: فَصِرْتُ اِلَى الَّذِي قَالَ
لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَبِرْتُ وَدِدتُّ
اَنِّي كُنْتُ قَبِلْتُ رُخْصَةَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ.([91])
وَفِيْ
رِوَايَةٍ: وَ اِنَّ لِوَلَدِكَ عَلَيْكَ
حَقًّا، وَفِيْ رِوَايَةٍ: لَاصَامَ مَنْ صَامَ الاَبَدَ، ثَلَا ثًا. وَفِيْ
رِوَايَةٍ: اَحَبُّ الصِّيَامِ اِلَى
اللَّهِ تَعَالَي صِيَامُ دَاوُدَ، وَاَحَبُّ الصَّلَاةِ اِلَى اللَّهِ تَعَالَي صَلَاةُ
دَاوُدَ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَيَقُوْمُ ثُلُثَهُ، وَيَنَامُ
سُدُسَهُ، وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا
وَيُفْطِرُ يَوْمًا،وَلَا يَفِرُّ اِذَا لَاقَى.([92]) وَفِيْ رِوَايَةٍ: قَالَ: اَنْكَحَنِي
اَبِي امْرَاَةً ذَاتَ حَسَبٍ ، فَكَانَ يَتَعَاهَدُ
كَنَّتَهُ.اَ يْ: اِمْرَاَةَ وَلَدِهِ. فَيَسْاَ لُهَا عَنْ بَعْلِهَا، فَتَقُوْلُ
لَهُ: نِعْمَ الرَّجُلُ مِنْ رَجُلٍ
لَمْ يَطَاْ لَنَا فِرَاشًا وَلَمْ
يُفَتِّشْ لَنَا كَنَفًا مُنْذُ اَ تَيْنَاهُ.فَلَمَّا طَالَ ذٰلِكَ
عَلَيْهِ ذَكَرَ ذٰلِكَ
لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: اَلْقَنِيْ بِهِ، فَلَقِيْتُهُ بَعْدَ ذٰلِكَ فَقَالَ: كَيْفَ تَصُوْمُ؟
قُلْتُ: كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: وَكَيْفَ تَخْتِمُ؟ قُلْتُ: كُلَّ لَيْلَةٍ،
وَذَكَرَ نَحْوَ مَاسَبَقَ، وَکَانَ يَقْرَاُ
عَلٰی بَعْضِ اَهْلِهِ السُّبُعَ الَّذِي
يَقْرَؤُهُ، يَعْرِضُهُ مِنَ النَّهَارِ لِيَكُونَ اَخَفَّ عَلَيْهِ
بِاللَّيْلِ، وَ اِذَا اَرَادَ اَنْ يَتَقَوَّ ى اَفْطَرَ اَ
يَّامًا وَاَحْصٰى وَصَامَ مِثْلَهُنَّ كَرَاهِيَةَ اَنْ يَتْرُكَ
شَيْئًا فَارَقَ عَلَيْهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.([93])
(قَالَ
النَّوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی:) کُلُّ ہٰذِہِ الرِّوَایَاتِ صَحِیْحَۃٌ مُعْظَمُہَا فِی
الصَّحِیْحِیْنَ وَقَلِیْلٌ مِنْہَا فِیْ اَحَدِہِمَا.
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمرو بن عاصرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہےکہ حضورنبی اکرم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو میرے بارے میں بتایا گیا کہ میں یہ کہتاہوں :’’اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ کی قسم! جب
تک میں زندہ رہوں گا، دن کوروزہ رکھوں گااور رات کوقیام (یعنی نوافل کی ادائیگی)کروں گا۔‘‘ حضور رحمت عالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’کیا تم نے یہ بات کہی ہے؟‘‘میں
نے عرض کی: ’’جی ہاں ! یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرے ماں باپ
آپ پرفدا ہوں ! میں نے یہ بات کہی
ہے۔‘‘ فرمایا:’’ تم اس کی طاقت نہ رکھو گے، پس کبھی (نفلی)روزہ
رکھو اور کبھی نہ رکھو، نیند بھی کرو اور قیام (رات کی نفلی عبادت)بھی کرو اور ہر مہینےمیں تین روزے رکھ لیا کرو ، کیونکہ بے
شک ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے اور یہ زندگی بھر کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔‘‘ میں نے
عرض کی: ’’میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔‘‘ فرمایا:’’ایک دن روزہ رکھو، دو ۲دن
چھوڑدو۔‘‘ میں نے عرض کی:’’میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔‘‘ فرمایا:’’ایک دن
روزہ رکھو ایک دن چھوڑدو،یہ داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے روزے ہیں اور یہ مُعْتَدِل ترین روزے ہیں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ ’’یہ (نفلی) روزوں کا بہترین طریقہ ہے۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’میں
اس سے افضل کی طاقت رکھتا
ہوں ۔‘‘فرمایا:’’اس سے اَفضل کچھ نہیں ۔‘‘ حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ( جب بڑی عمر کو پہنچے
تو) فرمایا کرتے: ’’کاش! میں
حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس فرمان کو قبول کرلیتا کہ ’’مہینے میں تین
روزے رکھو۔‘‘تو یہ مجھے اپنے اہل وعیال اور اپنے مال سے بھی زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
ایک روایت میں ہے آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یوں ارشادفرمایا:’’ مجھے اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ تم دن کو روزہ
رکھتے ہو اور رات کو قیام کر تے ہو؟‘‘میں نے عرض کی:’’جی ہاں !یارسول اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!‘‘فرمایا: ’’ایسا نہ کرو، روزہ رکھو بھی اور چھوڑو بھی،نیندبھی کرو اور
قیام بھی ،بے شک! تمہارے جسم کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے،
تمہاری زوجہ کا تم پر حق ہے اور تمہارے مہمان کا تم پر حق
ہے، تمہارے لیے کافی ہے کہ تم ہر ماہ تین روزے رکھوکیونکہ تمہارے لیے ہر نیکی کا
بدلہ دس گُنا ہے یہ عمر بھر کے روزے
(شمار) ہوں گے۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمروبن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ’’میں
نے خود پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی۔‘‘ میں نے عرض کی:’’یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!میں اپنے اندر زیادہ قوت پاتاہوں ۔‘‘ فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نبی حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرح روزے
رکھو، اس پر اضافہ نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کی: ’’حضرت سَیِّدُنَا داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے روزےکیسےتھے؟‘‘
فرمایا:”نصف زمانہ۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ
بن عمَرو بن عاص
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بڑھاپے
میں فرمایا کرتے تھے: ’’ کاش میں نے حضور نبی اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رُخصت
قبول کر لی ہوتی۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’ مجھے بتایاگیا ہےکہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہواور رات بھر
قرآن پڑ ھتے ہو؟‘‘میں نے عرض کی: ’’جی ہاں !یارسولَ اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!لیکن میں اس سے خیر ہی کا ارادہ
رکھتا ہوں ۔‘‘فرمایا:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکے نبی حضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح روزے
رکھو،کیونکہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے اور ہر ماہ ایک قرآن مکمل
کرو۔‘‘میں نے عرض کی:’’یارسولَ اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!مجھے
اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔‘‘
فرمایا:’’پھر بیس دنوں میں پورا پڑھ لیاکرو۔‘‘میں
نےعرض کی:’’مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔‘‘فرمایا: ’’دس دنوں میں ختم کر لیا کرو۔‘‘
میں نےعرض کی:’’مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔‘‘فرمایا:’’سات دنوں میں ختم کرواور
اس پر اضافہ نہ کرو ۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : ’’میں نے خود پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی
گئی اور مجھ سے حضورنبی اکرم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایاتھاکہ ’’تم نہیں جانتے، شاید تمہاری
عمر طویل ہو جائے۔‘‘ فرماتے ہیں :’’پس میں اس عمر کو پہنچ گیا جس کے بارے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایاتھا۔جب مجھے بڑھاپا آیاتو میں نے چاہا
کہ کاش میں نے حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رخصت قبول کرلی ہوتی۔‘‘
ایک روایت میں یوں ہےکہ سرکارِ مکہ مکرمہ سردارِ مدینہ منورہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’تیری اولاد کا تجھ پر حق ہے۔‘‘ اورایک روایت میں یوں ہے کہ تین مرتبہ یہ ارشاد
فرمایا: ’’جس نے ہمیشہ کا روزہ رکھا اس نے روزہ نہیں رکھا۔‘‘ایک روایت میں ہے
کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّکےنزدیک سب سے پسندیدہ روزہ حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کا روزہ ہے اور سب سے پسندیدہ
نماز حضرت داؤد
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نماز
ہے۔ وہ آدھی رات آرام کرتے، دوتہائی رات نماز پڑھتےپھر چھٹا حصہ آرام
فرماتے،ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہ رکھتے اور جب جنگ میں دشمن کا سامنا ہوتا
تو پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔‘‘ایک روایت میں ہے
کہ حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمروبن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ میرے والد نے ایک شریف عورت سے میرا نکاح
کیا اور اس کا بہت خیال رکھتے، اس سے میرے
بارے میں پوچھتے، تو وہ جواب دیتیں :’’وہ بہت اچھے آدمی ہیں ، جب سے میں ان
کے پاس آئی ہوں ،کبھی میرے بستر پر نہیں آئے
اور نہ ہی کبھی مجھ سے قربت کی۔‘‘جب اس بات کو کافی عرصہ گزر گیاتو انہوں تاجدارِ رسالت شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسےاس بات کا ذکر کیا۔تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’اسے میرے پاس لاؤ۔‘‘
چنانچہ جب میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملا
تو آپ نے استفسار فرمایا:’’تم (نفلی
) روزے کس طرح رکھتے ہو؟‘‘میں نے
عرض کی:’’ہر روز رکھتا ہوں ۔‘‘ فرمایا: ’’قرآن کیسے ختم کرتے ہو؟‘‘میں نے عرض کی:’’ہررات
قرآن ختم کرتا ہوں ۔‘‘ پھر سابقہ
روایت بیان
کی۔آپ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُقرآن کا وہ
ساتواں حصہ جورات کو پڑھنا ہوتا، دن میں اہل خانہ میں سے کسی کو سنادیتے تاکہ رات کو
پڑھنا آسان ہوجائے اور جب قوت حاصل کرنا چاہتے تو کئی کئی دن روزہ نہ رکھتے لیکن
ان دنوں کو شمار کرتے اور پھر اتنے دن
روزے رکھتے۔ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ اس عمل کو چھوڑ دیں جس عمل کے ساتھ
انہوں نے رسول
اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ملاقات کی تھی۔
(
امام نووی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :)یہ
تمام روایات صحیح ہیں ، اکثر روایات بخاری ومسلم میں ہیں جب کہ کچھ روایات ان میں سے
صرف ایک میں ہیں ۔
مذکورہ
تمام روایات میں حضرت سَیِّدُنَا عبد اللہ بن عَمرو بن عاص رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی عبادت میں اپنے اوپر سختی کا بیان ہے، نیز ان
روایات میں اس بات کا بھی بیان ہے کہ جب ان کی عبادت میں سختی کے بارے میں حضور
نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خبر دی گئی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نفلی
عبادات میں میانہ روی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔ یہ باب بھی چونکہ عبادات میں میانہ
روی کے بارے میں ہے اسی لیے علامہ نووی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے یہ تمام روایات اس باب میں بیان فرمائیں ۔
مذکورہ روایات میں اس بات کا بیان ہے کہ حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس بات پر
قسم کھائی کہ جب تک میں زندہ رہوں گا، دن
کوروزہ رکھوں گااور رات کوقیام (یعنی
نوافل کی ادائیگی)کروں گا۔ عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن
اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللّٰہِ ذیالْجَلَالفرماتے ہیں : ’’ایسے کام کی قسم ممنوع ہے جس کی طاقت نہ ہواور قسم
توڑےبغیردوسری راہ اختیار کرنابھی ممکن نہ ہوجیساکہ حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمرو رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ کو ساری زندگی کے روزے رکھنے اور رات بھر عبادت
کرنے کی قسم سے منع فرمایا۔اسی طرح اگر کسی شخص نے قسم کھائی کہ وہ شادی نہیں کرے
گا اور نہ کچھ کھائے گا، نہ پئے گا تواہل علم حضرات کے نزدیک یہ قسم پوری
کرنا لازم نہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےاس فرمان کی وجہ سے:( یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ
تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَۚ- )( پ۲۸، التحریم:۱) ترجمہ ٔ کنزالایمان: ’’اے غیب بتانے والے (نبی) تم
اپنے اوپر کیوں حرام کیے لیتے ہو وہ چیز جو ﷲنے تمہارے لیے حلال کی۔‘‘اور اسی طر ح جس نے قسم کھائی
کہ وہ نکاح نہیں کرے گا اس پر لازم ہے کہ وہ نکاح کرے، اسی طرح وہ تمام جائز کا م
جن کے نہ کرنے کی قسم کھالی ہو، ان کاموں کو بجا لائے اور قسم کا کفارہ دے۔اس حدیث
میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ عبادت میں غُلُو کرنا اور نفس کو مشقت میں ڈالنا
مکروہ ہےکیونکہ عبادت میں غُلُو اور جہاد بالنفس کو اپنے اوپر لازم کرنے سے بُرائی
سے بچنا مشکل ہوتاہے۔ خاص طور پر روزے جیسی عبادت کہ یہ جسم کو کمزور کرتاہے اسی لیے
اللہ عَزَّ وَجَلَّنے سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت عنایت فرمائی ہے کیونکہ سفر کی مشقت کی
وجہ سے کمزوری آجاتی ہے۔‘‘([94])
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 616صفحات پر مشتمل
کتاب ’’نیکی کی دعوت‘‘ صفحہ ۱۷۶ پر ہے:’’٭بعض قسمیں ایسی ہیں کہ اُن کا پورا کرنا
ضَروری ہے،مَثَلًا کسی ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جس کابِغیر قسم(بھی)کرنا
ضَروری تھا یا گناہ سے بچنے کی قسم کھائی(کہ گنا ہ سے بچنے کی قسم نہ بھی کھائیں ،
تب بھی گناہ سے بچنا ضَروری ہی ہے)تو اس صورت میں قسم سچّی کرنا
ضَرورہے۔مَثَلًا(کہا)خدا کی قسم ظُہرپڑھوں گا یا چوری یا زِنا نہ کروں گا۔٭ (قسم
کی)دوسری(قِسم)وہ کہ اُس کا توڑنا ضَروری ہے مَثَلًا گناہ کرنے یا فرائض و
واجِبات(پورے)نہ کرنے کی قسم کھائی،جیسے قسم کھائی کہ نَماز نہ پڑھوں گا یا چوری
کروں گا یا ماں باپ سے کلام(یعنی بات چیت)نہ کروں گا تو قسم توڑ دے۔٭تیسری وہ کہ
اُس کا توڑنا مُستَحب ہے مَثَلًا ایسے اَمر(یعنی مُعاملے یاکام)کی قسم کھائی کہ
اُس کے غیر(یعنی علاوہ)میں بہتری ہے تو ایسی قسم کو توڑ کروہ کرے جو بہتر ہے۔٭چوتھی
وہ کہ مُباح کی قسم کھائی یعنی(جس کا)کرنا اور نہ کرنا دونوں یکساں ہے اس میں قسم
کا باقی رکھنا افضل ہے۔‘‘([95])
عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفر ماتے ہیں :’’حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا کہ تم
اس کی طاقت نہ رکھ سکو گے۔ممکن ہے آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کی موجوہ حالت دیکھ کریہ ارشاد
فرمایا ہو، کیونکہ آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجانتے تھے کہ وہ اس طرح
مشکل میں پڑجائیں گے اوراپنے آپ کو مشقت میں ڈالیں گےاور اُن سے اِس
سےزیادہ اہم چیزیں چھوٹ جائیں گی۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےاُن کے بڑھاپے کے بعد کی زندگی کا اعتبار
کیاہو کہ جب بڑھاپے کو پہنچیں گے
تو اس عبادت سے عاجز آجائیں گے اور
یہ ناپسندیدہ عمل ہے کہ کوئی شخص کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم
کرے پھر عاجز آکر اسے چھوڑ دے۔‘‘([96])
حَافِظْ قَاضِی اَبُو الْفَضْل عِیَاضرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :’’حضرت داؤدعَلَیْہِ السَّلَام دشمن سے مقابلے کے وقت پیچھے نہ ہٹتے تھے۔یہ فرمان اس بات پر تنبیہ ہےکہ آپ عَلَیْہِ
السَّلَام کی طرح
روزہ رکھنے والا دشمن کےمدمقابل آنے میں ضُعف محسوس نہیں کرتاکیونکہ وہ ایک دن کاروزہ نہ رکھ کر
دوسرے دن
کے روزے پر قوت حاصل کرتا ہے، اسی وجہ سےفرمایاکہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں میں
زیادہ عبادت گزارتھےکہ آپ اپنی طاقت وقوت کی بناپرجنگ سےراہِ فرار اختیارنہیں کرتےتھے۔‘‘([97])
عَلَّامَہ اَبُو الْعَباس شَھَابُ الدِّیْن اَحْمَد قَسْطلانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :’’صومِ داؤوی روزوں میں افضل ہے۔یہ صومِ داؤدی کے مطلقاً افضل ہونے
پر دلالت کرتا ہے اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ صومِ
داؤدی سے
زیادہ روزے رکھناضرورت سے زائد ہے
۔جب سَیِّدُنَا عبداللہ بن عَمر و رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے کہا کہ
میں اس سے افضل کی طاقت رکھتا ہو ں تو حضور نبی مکرم
نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:’’اس سے افضل کوئی
روزہ نہیں ۔‘‘پس صومِ داؤدی(
ایک دن چھوڑ کر ایک دن نفلی روزہ رکھنا) صومِ دہر(یعنی مسلسل روزے رکھنے) سے افضل ہے۔اور صومِ داؤدی
کو اس اعتبار سے بھی ترجیح حاصل ہے کہ
مسلسل روزے رکھنے سے
بعض حقوق فوت ہو جاتے ہیں اور اس
وجہ سے بھی کہ جو اس کا عادی ہو اسے روزہ رکھنے میں مشقت نہیں ہوتی کیونکہ اس
کی کھانے کی خواہش کم ہوجاتی ہے اور دن بھر
کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوتی اور وہ رات میں کھانا پسند کرتا ہے گویا کہ
یہ چیز اس کی طبیعت میں شامل ہوجاتی ہے بر خلاف اس کے جوایک دن
روزہ رکھتا ہے اورایک دن چھوڑتاہے کیونکہ اس کی طبیعت بدلتی رہتی ہے کہ ایک
دن وہ روزے سے ہوتا ہے اور دوسرے دن بغیر روزے کے۔‘‘([98])
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْغَنِیفرماتے
ہیں :’’صومِ داؤدی سے افضل کوئی نفلی روزہ نہیں ۔ صو مِ دہر کے بارے میں اِختلاف
ہے،اہل ظَوَاہِر کے نزدیک ممنوع ہےکیونکہ وہ اَحادیث کے ظاہر سے دلیل پکڑتے ہیں ۔جبکہ
جمہور کے نزدیک صومِ دہر جائز ہے بشرطیکہ
جن ایام میں روزہ رکھنا منع ہے ان میں روزہ
نہ رکھے جیساکہ عِیدَین اور اَیَّامِ
تشریق کے روزے ۔ امام شافعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْکَافِی کے
نزدیک صومِ دہر مُسْتَحَب ہے۔‘‘([99])
مُفَسِّر شہِیرمُحَدِّثِ
کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتےہیں :’’یہاں
(حدیث پاک میں )نماز سے تہجد کی نماز مراد ہے اور روزے سے نفلی روزے۔ جیسا کہ اگلے
مضمون سے ظاہر ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر انبیائے کرام (عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام)بھی تہجد اور نفلی روزے ادا
کرتے تھے مگر ان کے طریقے اور
تھے۔حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کا یہ طریقہ تھا جو یہاں مذکو
رہے یعنی دو تہائی رات سوتے اور ایک تہائی رات جاگتے تھے اور اس جاگنے اور نماز کو
دو نیندوں کے درمیان کرتے، اب بھی یہی چاہیے۔اسی طرح نوافل تہجد اور نفلی روزوں کی
محبوبیت کی چند وجوہ ہیں :(1)ایک یہ کہ اس میں روح کا حق بھی ادا ہوتا ہے
اور نفس کا حق بھی،تمام رات سونے، ہمیشہ افطار کرنے سے روح کا حق رہ گیااور رات
بھر جاگنےہمیشہ روزے میں نفس کا حق مارا
گیا۔(2)دوسرے یہ کہ اس طرح تہجدوروزے نفس پر بھاری ہیں ۔ لہٰذا ربّ کو پیارے ہیں کیونکہ ہمیشہ روزے رکھنے میں روزہ عادت بن کر آسان معلوم
ہونے لگتا ہے مگر اس طرح ہر روزے میں نئی لذّت محسوس ہوتی ہے۔(3)تیسرے یہ کہ اس میں جسمانی طاقت بحال رہتی ہے، گھٹتی نہیں ۔ طاقت
ہی سے ساری عبادتیں ہوتی ہیں ۔خیال رہےکہ ہمارےحضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمنے
صرف تیرھویں ،چودھویں ،پندرھویں کےروزے رکھے۔کبھی یہ بھی کیا کچھ تاریخوں میں مسلسل
روزے، کچھ میں مسلسل افطار تا کہ اُمَّت پر آسانی ہو۔نیز حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمابوالوقت ہیں ، جو عمل کریں وہ افضل ہے۔رات کی ہر ساعت کو
حضورصَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کےنفل سے شرف حاصل
ہوا اور مہینہ کی ہر تاریخ کو حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمکے روزے سے عزت ملی۔‘‘([100])
شیخ
عبدالحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی”اشعّۃ
اللمعات “میں فرماتےہیں : ’’یہاں ایک
اشکال ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمحضرت داؤدعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکےاس
فعل پر دائماً عمل پیرا نہ تھےتوپھریہ عمل
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےنزدیک سب سےمحبوب عمل کیسےبن گیا؟ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّممحبوب ترین عمل کو کیسے ترک کرسکتےہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے
کہ فعلِ مذکور کامحبوب تر ہونا بعض اعتبارات سےہے، ہرلحاظ سے نہیں ۔وہ بعض
اعتبارات یہ ہیں :٭یہ عمل اِعتدال کےزیادہ قریب اورحفظِ صحت کےلحاظ سےزیادہ
مفیدہے۔٭ایک وجہ یہ بھی ہےکہ رات کےآخری چھٹے حصے میں سونا
تھکاوٹ و مشقت دورکرتا ہے اور رنگ
کی زردی وشکستگی کی صورت میں عبادت کااثرظاہرنہیں ہونے دیتا اور سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافعل احوال واوقات
کےتقاضوں کےمطابق مختلف ہوتاتھااوربے شمار حکمتوں اورمصلحتوں پرمبنی ہوتاجوآپ کی ذات کریم اورآپ کی اُمَّت مرحومہ
سےتعلق رکھتی ہیں کیونکہ آپ کی اُمَّت میں کمزور اورطاقتورہرقسم کےلوگ ہیں ۔‘‘([101])
شارح
بخاری حضرت علامہ مولانا سید محمود
احمد رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :’’مطلب یہ کہ نفلی عبادت انسان کی
اپنی مرضی پرمنحصر ہے، اللہ تعالٰی نےلازم وواجب نہیں فرمائی۔ مذکورہ بالااحادیث میں نفلی
روزوں کےمتعلق حضورسیدعالَمصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم کاعمل
وکرداراورآپ کی ہدایت کاخلاصہ یہ ہے،عباداتِ نفلی میں حضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم)نےاُمَّت کومیانہ روی کی تعلیم دی ہے۔نفلی روزوں اور نمازوں
میں ایسےاِنہماک سےمنع فرمایاجس کی وجہ سےبندوں کےحقوق اورخوداپنی ذات کےحق مجروح
ہوں یافرائض وواجبات کی ادائیگی میں کوتاہی ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عَمروبن
العاص (رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) پانچ ممنوعہ دنوں کےعلاوہ سال بھرمسلسل
روزےرکھتےتھےاوررات میں عبادت وریاضت میں مشغول ہو جاتے نہ دن میں افطار کرتے اور نہ
رات میں سوتے۔حضورصَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنےانہیں ایسا کرنے سےمنع فرمایا اورنہایت حکیمانہ
انداز میں انہیں بتایاکہ تم پرتمہارےجسم کابھی حق ہے۔جب مسلسل روزےرکھوگےتوکمزوری
ہوگی اوراس انہماک سےخطرہ ہوگاکہ فرائض وواجبات کی ادائیگی میں خلل پیدا ہو۔(فرمایا:تمہاری
آنکھوں کابھی تم پر حق ہے)جب ساری رات شب بیداری میں گزار دو گے تو نگاہ کمزور
ہوگی،جوانی میں نہ سہی آخری عمرمیں اس ریاضتِ شدیدہ سےتکلیف ہوگی۔(فرمایا:تم
پرتمہاری بیوی کابھی حق ہے)جب ساری رات عبادت میں اوردن
روزےسے گزرے گا تو بیوی کےحقوق تلف ہوں گے،بچےتمہاری شفقت ومحبت اورتعلیم وتربیت
سےمحروم رہ جائیں گے۔(فرمایا:تم پرتمہارے
مہمان کابھی حق ہے)جب رات دن عبادت
وریاضت،صوم وصلوٰۃوتلاوت قرآن وذکرواَذکارمیں گزارو گے تو دوست
واَحباب کےحقوق متأثر ہوں گے۔اس
لیے عبادت وریاضت میں ایساانہماک جس سے حقوقُ اللہ وحقوقُ العبادتلف ہوں بہت ہی غیر
مناسب ہے۔اسی لیے حضور صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنےفرمایا:جس
نے عمر بھر روزےرکھےاس نے روزے رکھےہی نہیں ۔صحیح طریقہ اور حضور صَلَّی اللہُ تعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکی عام تعلیم یہ ہی ہے کہ عبادت نفلیہ میں اعتدال وتوازن ضروری ولازمی ہےاوراس کی
صورت یہ ہےکہ ہر مہینہ تین روزےرکھےجائیں ساری عمرکےروزےرکھنےکاثواب ملےگا۔ایک
نیکی کاثواب دس گنا ملتا ہے توہرمہینہ تین روزوں کاثواب پورے مہینہ کےروزوں کا
ہوگا۔ واضح ہوصحابۂ کرام (عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان)کی ایک جماعت
(جن میں امیر المومنین حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق اعظم و ابن عُمروطلحہ وابواُمامہ
وجنابِ سَیِّدَہ عائشہ صدیقہ رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ
اَجْمَعِیْنبھی ہیں ان تمام)نےمسلسل روزے رکھے ہیں مگر ان حضرات کی بات
دوسری ہے،ان کاعبادت و ریاضت میں انہماک انہیں حقوق العبادات سے نہیں روکتاتھا لہذاممانعت
عام لوگوں کےلیےقرار پائےگی خواص کےلیےنہیں ۔‘‘([102])
(1)
نفلی عبادات
میں میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے، ایسا اِنہماک کہ جس سے دیگر حقوق
اللہ
وحقوق العباد کی تلفی ہو ممنوع ہے۔
(2)
ایسی قسم
کھانا منع ہے جسے توڑے بغیرکوئی چارہ نہ ہو۔
(3)
صومِ
داؤدی صومِ دہر سے افضل ہے ۔
(4)
مؤمن کفارسے
مقابلہ کے وقت سیسہ پلائی ہو ئی دیوار کی
طرح جم جاتا ہے پیٹھ پھیر کر بھاگنا مؤمن کی شان نہیں ۔
(5)
رات میں کچھ
دیر آرام کرنابہت فائدہ مندہے کیونکہ اس سے بدن کو تقویت ملتی ہے اورعبادت میں دل جمعی نصیب ہوتی ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نفلی عبادات میں میانہ روی
اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے
،ہمارےدلوں کوعبادت کی روشنی سے منور فرمائے ۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:151
عَنْ اَبِيْ رِبْعِیِّ حَنْظَلَةَ بْنِ الرَّبِيْعِ
الْاُسَيِّدِيِّ الْكَاتِبِ اَحَدِ كُتَّابِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَقِيَنِي اَبُوْ بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ: كَيْفَ
اَنْتَ يَا حَنْظَلَةُ؟ قُلْتُ:نَافَقَ حَنْظَلَةُ! قَالَ:سُبْحَانَ
اللَّهِ مَا تَقُوْلُ؟ قُلْتُ:نَكُوْنُ
عِنْدَ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذَكِّرُنَا
بِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ كَاَنَّا رَاْيَ عَيْنٍ،فَاِذَا خَرَجْنَا مِنْ
عِنْدِ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَافَسْنَا
الْاَزْوَاجَ وَالْاَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ نَسِيْنَا كَثِيْرًا.قَالَ اَبُوْ بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ
عَنْهُ:فَوَاللَّهِ اِنَّا لَنَلْقَى
مِثْلَ هَذَا،فَانْطلَقْتُ اَنَا وَاَبُوْ بَكْرٍ حَتَّى دَخَلْنَا عَلٰی رَسُوْ
لِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .فَقُلْتُ:نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا
رَسُوْ لَ اللَّهِ! فَقَالَ رَسُوْ لُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: وَمَا ذَاكَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُوْ لَ اللَّهِ نَكُوْنُ عِنْدَكَ
تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتَّى كَاَنَّا رَاْيَ العَيْنِ، فَاِذَا
خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ عَافَسْنَا الْاَزْوَاجَ وَالْاَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ
نَسِيْنَا كَثِيْرًا.فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ تَدُوْمُوْ نَ عَلَى مَا تَكُوْنُوْ نَ عَلَیْہِ
عِنْدِيْ وَفِي الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي
طُرُقِكُمْ، وَلٰكِنْ يَاحَنْظَلَةُ
سَاعَةً وَسَاعَةً. ثَلَاثَ
مَرَّاتٍ. ([103])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناحنظلہ بن ربیع اُسَیِّدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو رسول اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کاتبوں میں سے تھے، فرماتے ہیں
کہ حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے میری ملاقات
ہوئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے
فرمایا: ’’اے حنظلہ! کیسے ہو؟‘‘میں نے عرض کی: ’’حنظلہ منافق ہوگیا۔‘‘ فرمایا:’’سُبْحَان اللہ! یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘میں نے عرض کی: ’’ہم حضور
نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم سے
جنت و دوزخ کا ذکرتے ہیں تو اس وقت ہماری کیفیت ایسی ہوتی ہے گویاہم انہیں آنکھوں سے
دیکھ رہے ہوتے ہیں ، پھر جب ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےپاس
سے چلےجاتے ہیں تو بیویوں ،اولاد اور جائیداد میں مشغول ہوتے ہیں اور بہت کچھ بھول
جاتے ہیں ۔‘‘سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: ’’اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ کی قسم!ہماری بھی یہی حالت ہے۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا
حنظلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں کہ پھر میں اور سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بارگاہِ
رسالت میں حاضر ہوئے تومیں نے عرض کی:’’یارسول اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!حنظلہ منافق ہوگیا۔‘‘فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘میں نے عرض کی:’’جب ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس
ہوتےہیں آپ ہمیں جنت اور دوزخ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں تو ہماری کیفیت ایسی
ہوتی ہے گویا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں ، پھر جب ہم آپ کے پاس سے جاتے ہیں تو اپنی بیویوں ،اولاد
اور جائیدادمیں مشغول ہو کر بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔‘‘فرمایا:’’ا س ذات کی قسم جس
کے قبضہ میں میری جان ہے!تم ذکر و فکر کی جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو، اگر
ہمیشہ اسی حالت پر رہو تو فرشتے تمہارے بستروں اور راستوں پر تم سے مصافحہ کریں ،
لیکن اے حنظلہ! ایک ایک گھڑی ۔‘‘یہ بات
تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
عَلَّامَہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف
نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِیفرماتے ہیں :’’حنظلہ منافق
ہو گیا۔یعنی انہیں یہ خوف ہوا کہ وہ منافق ہو گئے ہیں کیونکہ سرکارِ دوعالَم
نورِمُجَسَّم شاہِ بنی آدم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں ان پر خوفِ خُدا کا
غلبہ ہوتاتھااور اس کے ساتھ ساتھ ان پر
مراقبہ،تفکر اورآخرت کی طرف توجہ کی کیفیت ظاہر ہوتی تھی اور جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
مجلس سے جاتے تو گھر
والوں ،بچوں اور معاش وغیرہ میں مشغول
ہوجاتے تھےتو انہیں خوف ہوا کہ کہیں یہ نفاق تونہیں ۔پس حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے انھیں بتایا کہ یہ نفاق نہیں ہے اور انہیں ہمیشہ
اس کیفیت پر رہنے کا مکلف
نہیں بنایا گیا۔‘‘([104])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِیفرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا حنظلہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے
سَیِّدُنَا صدیق اکبررَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُسےاپنی حالت بیان
کرتے ہوئےکہاکہ جب ہم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
بارگاہ میں حاضرہوتےہیں اورآپ ہمارےدرمیان وعظ فرماتے ہیں ،جہنم اور اس کے عذابات
کاتذکرہ کرتے ہیں اور کبھی ہماری ترغیب کے لیے جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ
کرتے ہیں یا ہمارے سامنے اللہ عَزَّ وَجَلَّیااس کے قُرب کایااس کی صفتِ جمالی وجلالی کے آثارکاتذکرہ کرتے ہیں تو
ہماری حالت یہ ہوتی ہے گویاکہ ہم اللہ عَزَّ
وَجَلَّ کا دیدار کررہے ہیں یا جنت ودوزخ کو اپنی آنکھوں
سے دیکھ رہے ہیں لیکن جب ہم آپصَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے دُور ہوتے ہیں تو ہماری اس حالت میں فرق آجاتا ہے اور ہم اپنی اَزواج
میں مشغول ہوجاتے ہیں اور اپنی اولاد سے کھیلتے ہیں اور اپنےمعاشی معاملات کی تگ و
دَو میں لگ جاتے ہیں ۔ پھرجب بارگاہ ِ رسالت میں حاضرہو کریہ ساری کیفیت بیان کی
توسرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’اے حنظلہ! اگر تمہاری حالت ہروقت وہی رہے جومیری بارگاہ
میں ہو تی ہے یعنی موانع بشریہ اورنفسی تقاضےتمہارے آڑے نہ آئیں اورتم حاضروغائب
ہونےکی حالت میں دائمی طور پراسی کیفیتِ کاملہ پر رہوجو تم نے بیان کی توفرشتے
تمہاری آرام گاہوں اورتمہارےراستوں میں ،تمہاری مشغولیت وفراغی کے اوقات میں ،تمہارے
دن ورات میں تم سے اعلانیہ طورپرمصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ! یہ کیفیت چندساعتوں کی
ہوتی ہےاس طرح کہ بندہ ایک ساعت میں کیفیت حضوری میں ہوتاہےاور ایک ساعت میں اس کے
اندرکمی آجاتی ہےتو جب تم کیفیت حضوری میں ہوتے ہوتواپنے ربّ کے حقوق اداکرتے
ہواورجب وہ کیفیت نہیں رہتی توتم اپنے نفس کوخوش کرتے ہواورایسی حالت میں بندہ
منافق نہیں ہوتا۔اس کاحاصل یہ ہےکہ اے حنظلہ!جو کیفیت تم نے بیان کی اس پر دوام حاصل کرنامشقت
ہےاور ہر ایک اس کی طاقت نہیں رکھتااور نہ ہی
لوگوں کو اس کا مکّلف کیا گیا ہےاکثرلوگ چند ہی ساعتیں اس کیفیت میں گزارنے کی
طاقت رکھتے ہیں اور تمہاری حالت بھی یہی
ہے۔لہٰذاتم صراطِ مستقیم پر ہو اور تمہیں جو اپنے منافق ہونے کا وہم ہواہے وہ غلط
ہےکیونکہ شیطان راہِ سلوک پرچلنے والوں کواس قسم کے توھّمات میں مبتلاکرنے کی کوشش
کرتاہےیہاں تک کہ وہ اُن کے اِعتقادات میں
تغیر پیداکردیتاہےپھر اس طرح وہ لوگ نیک اَعمال کوبالکل چھوڑدیتے ہیں ۔‘‘حدیث پاک
میں ثَلَاثَ
مَرَّاتٍکےالفاظ ہیں یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تین مرتبہ ارشادفرمایا۔اس میں تین احتمالات
ہیں : (۱) پہلایہ ہےکہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےاپناپورا قول تین بارارشادفرمایا۔(۲)دوسرایہ
کہلٰکِنْسے آخر تک کی جو گفتگوہےوہ تین بارارشادفرمائی۔(۳)تیسرایہ
کہسَاعَۃًوَسَاعَۃًکے الفاظ تین بار ارشاد فرمائے۔‘‘([105])
اِمَام شَرَفُ ا لدِّیْن حُسَیْن
بِنْ مُحَمَّد بِنْ عَبْدُاللّٰہ طِیْبِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’ثَلاثَ مَرّاتٍیعنی حضورنبی کریم رؤف
رحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بطورِ تاکید
تین مرتبہ ارشاد فرمایاتاکہ اس کا
اثر زیادہ ہواورحضرت سَیِّدُنَا حنظلہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کا وہم
زائل ہوجائےاورسَاعَۃًوَسَاعَۃًکے الفاظ میں احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنے
یہ رخصت دینے کےلیے ارشادفرمائے ہوں (یعنی ایک ساعت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرو اور ایک ساعت میں اپنے نفس کے حقوق
ادا کرو۔) یہی احتمال زیادہ ظاہرہےاور یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنے
عبادت کی مُحافظت پر اُبھارنے کےلیے ارشادفرمایا ہوتاکہ ایسا نہ ہوکہ اپنے اوپر مَشقت لازم کرنے کی وجہ سے تم تھک جاؤاورعبادت بالکل ہی چھوڑ دو۔‘‘([106])
دلیل الفالحین میں ہے :’’انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنےا وقات کو تقسیم کرلے ۔ایک وقت ی
ادِ الٰہی کےلیے، اسی
طرح محاسبہ نفس محاسبہ مخلوق
میں غورو فکر ، کھانے پینے اور
دیگر ضروریات کے لیے اَوقات مقرر کر لے
۔کمالات حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے ا ِس کے علاوہ بقیہ خیالات ہیں ۔‘‘([107])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ
کبیرحَکِیْمُ الْاُمَّتمُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے
ہیں :’’یہ حنظلہ(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)غَسیلُ
الملائکہ نہیں ہیں ، بلکہ دوسرے صحابی ہیں جو کاتبِ وحی تھے۔اُسیدابن عَمرو ابن
تمیم کی اولاد سے ہیں ۔ بڑی عمر پائی ،حضرت امیر معاویہ(رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) کے زمانہ میں
آپ کی وفات ہوئی۔(حنظلہ منافق ہوگیا) یعنی میر ی حالت منافقوں کی سی ہوئی کہ اس میں
یکسانیت نہیں ۔یہاں نِفاق سے اعتقادی نفاق مراد نہیں جیسا کہ اگلے مضمون سے معلوم
ہورہا ہے اور نہ اس کلام میں اپنے کفر یا نفاق کا اقرار ہے( بلکہ ) آپ کا یہ قول انتہائی خوفِ خدا پر مبنی ہے، اقرارِ کفر تو
کفر ہے، مگر اقرارِ گناہ جو خوفِ خدا سے ہو عین تقویٰ ہے۔حضرت یونس عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیاتھا:اِنّی کُنْتُ مِنَ
الظَّلِمِیْنَ، حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا:رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا، جیسے ان
بزرگوں کو ظالم نہیں کہا جاسکتا ایسے ہی ان صحابی کواس کلام کی بنا پر عاصی یا
منافق نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذا یہ حدیث روافض کی دلیل نہیں بن سکتی ۔( حضرت سَیِّدُنَا
حنظلہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بات سن کر سَیِّدُنَاصدیق
اکبر رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا :سُبْحَان اللہ ! یہ کیا کہہ رہے ہو؟)تم سے نفاق کو کیا نسبت ؟ تم صحابیٔ
رسول ہو، کاتب وحی ہو، اپنے کلام کا مطلب خود بیان کرو۔(بارگاہِ رسالت میں ہوتے
ہوئے گویاہم جنت ودوزخ کو آنکھوں سے دیکھ
رہےہوتے ہیں )یعنی اس وقت ہم کو خوف و اُمید اس درجہ کی ہوتی ہے گویا ہم جنت دوزخ
دیکھ کر اس سے ڈر رہے ہیں اور اسے چاہ رہے ہیں معلوم ہوا کہ صحابہ کو حضورِ انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی مجلس میں عین الیقین نصیب ہوجاتا تھا نہ معلوم حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمکے پیچھے اُن کی نمازیں کیسی ہوتی ہوں گی۔ﷲ تعالٰیان کی
تجلی کچھ ہم کو بھی نصیب کرے۔ ضَیْعَاتٌ، ضَیْعَۃٌ کی
جمع ہے ضَیْعَۃٌ وہ
چیز ہے جس سے روزی وابستہ ہو اکثر زمین، باغات کھیتی باڑی
کو ضَیْعَۃٌ کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم
پرگھر پہنچ کر کچھ غفلت طاری ہوجاتی ہے ، دل کا حال وہ نہیں رہتا جو حضورِ انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی مجلس پاک میں ہوتا ہے،دل کا یکساں حال نہ
رہنا ہی حال کی منافقت ہے۔ (حضرت سَیِّدُنَاحنظلہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بات سن کرحضرت سَیِّدُنَا صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ نے فرمایا: ہماری
بھی یہی حالت ہے) یعنی یہ اختلافِ حال صرف تمہارا ہی نہیں بلکہ ہم تمام صحابہ کا
ہے،تو کیا ہم سب منافق ہوگئے؟یہ کیسے ہوسکتا ہے؟چلو حضورِ انورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمسےپوچھیں
۔یہ حضورِ انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بیان کا معجزہ
تھا کہ آپ کے بیان سے عالَمِ غیب گویا عالَمِ شہادت بن جاتا تھا ۔بعض علماء کی
تقریر میں سامعین کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے واقعہ سامنے ہورہا ہے ، بار ہا ذکرِ
معراج ، ذکرِ ہجرت وغیرہ میں ایسا دیکھا گیا ہے، یہ بیان و اخلاص کا کمال ہے۔( حضرت سَیِّدُنَاحنظلہ
رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےعرض کی:آپ کے
پاس سے جانے کے بعد ہم بہت سی باتیں بھول
جاتے ہیں ) بھول جانے سے مراد
ہے توجہ تام نہ رہنا نہ کہ حفظ کا مقابل، لہٰذا حدیث پر اعتراض نہیں کہ جب صحابہ
کا حافظہ اتنا کمزور تھا کہ فوراً حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان بھول جاتے تھے تو اُن سے روایت حدیث کیونکر درست ہوئی۔(حضو رصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: تمہاری جو کیفیت ہماری موجودگی میں ہوتی ہےا گر ہمیشہ رہے تو فرشتے تم سے مصافہ و ملاقات کریں ) یعنی تمہارے قلب کا جو حال میر ی مجلس میں ہوتا ہے اور جو
کشف و مشاہدہ تیقظ و بیداری یہاں ہوتی ہے، اگر ایسی ہی ہر وقت رہے تو فرشتے تم سے
علانیہ طور پر ملاقاتیں مصافحے کیا کریں ورنہ صحابۂ کرام سے فرشتے مصافحے بھی
کرتے تھے اور ملاقاتیں بھی مگر دوسری شکلوں میں ۔ (حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنے فرمایا:لیکن اے
حنظلہ! ایک ایک گھڑی )یعنی زندگی کی بعض گھڑیاں دینی انہماک کے لیے رہیں اور بعض
گھڑیاں دنیاوی کاروبار کے لیے تاکہ دونوں جہاں آباد و قائم ر ہیں ۔ایک ہندی شاعر
نے کیا خوب کہا ،شعر:
تو دنیا میں ایسا ہو رہ جوں مرغابی ساگر میں
ڈگر پہ اپنے ایسے جانا جوں چت ناری گاگر میں
مرغابی دریا
میں آکر تیرنے والا جانور بن جاتی ہے اور ہوا میں پہنچ کر پرندہ، پہاڑی عورت دو
گھڑے
سر پر ایک گھڑ ابغل میں دوسرا ہاتھ میں لٹکائے
اپنی سہیلیوں سے باتیں کرتی راستہ طے کرلیتی ہے، بیک وقت راستہ پر بھی نظر رکھتی
ہے اور گھڑوں کا دھیان بھی اور سہیلی کی طرف توجہ بھی، ایسے ہی مسلمان مسجد میں پہنچ
کر فرشتہ صفت بن جائے، بازار میں جا کر اعلیٰ درجہ کا تاجر، دنیاو دین دونوں کو
سنبھالے ، خالق و مخلوق سب کے حقوق ادا کرتا ہوا زندگی کا راستہ طے کرے۔سُبْحَان ﷲ! کیا
نفیس تعلیم ہے۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کی ہر ساعت ﷲکے ذکر میں گزرتی
ہے کہ دنیاوی کاروبار انہیں ذکر ﷲ سے غافل نہیں کرتے اور بعض لوگوں کے ہاں تقسیم ہوتی ہے کہ
بعض گھڑیاں ربّ تعالٰی کے ذکر میں اور بعض گھڑیاں دنیاوی مشغلہ میں ،صحابۂ کرام (عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان) میں
بھی انہیں دو قسم کے حضرات تھے۔ حضرت ِحنظلہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)دوسری
جماعت سے تھے اس لیے ان سے یہ فرمایا گیا، اسی لیے حضرت حنظلہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ)سے خطاب فرمایا، صدیق اکبر (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)سے
خطاب نہ فرمایا کہ حضرت صدیق(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) پہلی جماعت
سے تھے۔‘‘([108])
(1)
حضورنبی پاک
صاحب لولاک صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےاصحاب میں کوئی
بھی منافق نہیں تھا، نہ ہی اعتقادی اور نہ ہی عملی، اسی لیے بعض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا اپنے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا ان کے
اعلیٰ درجے کے تقویٰ وپرہیزگاری،اخلاص وفکرِ آخرت پر دلالت کرتا ہے۔
(2)
صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاناپنی
دینی اور دنیاوی حاجات لے کر بارگاہِ
رسالت میں حاضرہوتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمان
کی حاجتیں پو ری فرمایا کرتے تھے۔
(3)
علما ئے کرام
کوچاہیے کہ اپنی صحبت میں رہنے والوں کومختلف اصلاحی موضوعات پردرس دیں ،
کبھی دوزخ سے ڈرائیں تو کبھی جنت کی نعمتوں کی رغبت دلائیں ،کبھی
خوفِ خداکا درس دیں توکبھی محبت الٰہی سے ان کے دلوں کوجگمگائیں ۔
(4)
دل کی کیفیت
کابدلتے رہنا بشری اور فطری تقاضہ ہے۔
(5)
بہت کامیاب ہے
وہ شخص جو اپنے تمام امور کو ان کے اوقات میں انجام دے۔
(6)
اگرکسی کوکوئی
بات سمجھانی ہویا ذہن نشین کروانی ہوتواس کی حکمتیں بیان کرنا نہایت مفید ہےاور اسے تین مرتبہ دہرائے اس طرح
سننےوالا صحیح طریقے سےسمجھ سکے گا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہےکہ وہ ہمارے دلوں کواپنےقُربِ
خاص کی دولت سے مالامال فرمائے ،اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عشق سے معمور
فرمائے ، فکرِ آخرت نصیب فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:152
ابو اِسرائیل رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی انوکھی
نذر
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا
قَالَ:بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ اِذَا
هُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ، فَسَاَلَ عَنْهُ فَقَالُوْا:اَبُوْ اِسْرَائِيْلَ نَذَرَ اَنْ يَّقُوْمَ فيِ الشَّمْسِ وَلَا يَقْعُدَ، وَلَا يَسْتَظِلَّ
وَلَا يَتَكَلَّمَ، وَيَصُوْمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ :مُرُوْهُ فَلْيَتَكَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَقْعُدْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ.([109])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نورِمُجَسَّم شاہِ بنی
آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخطبہ ارشاد
فرمارہےتھے اور ایک آدمی کھڑا تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں استفسار فرمایا تو صحابۂ
کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے بتایا یہ ابو اسرائیل ہے،اس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ
میں کھڑا رہے گا، بیٹھے گا نہیں ، سایے میں نہ جائے گا اور نہ ہی کسی سے گفتگو کرے گا اور(ہمیشہ)روزہ رکھے گا۔‘‘
حضور نبی اکرم رسولِ مُحْتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’اس سے کہو! گفتگو کرے، سائے سے لطف اندوز ہو، بیٹھے اور
اپنا روزہ پوراکرے۔‘‘
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں : ’’حضرت سَیِّدُنَا ابواسرائیل انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُصحابی
تھے۔اس حدیث میں بیان کیا گیا
ہے کہ مباح کاموں یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر کو چھوڑنا عبادت نہیں ۔اسی
طرح دھوپ میں بیٹھنا اورہر وہ کام جس سے انسان کو تکلیف ہو اور قرآن
و حدیث میں اس پر ثواب نہ ہو تو وہ
عبادت نہیں ۔عبادت تو وہی عمل
ہے جس کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کےرسو ل صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حکم دیا ہے۔‘‘([110])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِیفرماتے ہیں :’’حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا :اسے چاہیے کہ اپنا روزہ مکمل کرے۔
کیونکہ نیک کام کی منت پوری کرنا واجب ہے اور صیام دہر مستحسن ہےاس شخص کے لیے جو
اس کی قدرت رکھتا ہو اور اس سے وہ پانچ دن مستثنیٰ ہو ں گے جن میں شرعًا اور عرفًا
روزے رکھنا منع ہے، اگر ان ایام کے روزوں کی
بھی منت مانی تھی تو احناف کے نزدیک اس پر واجب ہے کہ ان ایام کے روزے نہ رکھے اور
کفارہ دے۔سرکارِ دوعالَم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اسے حکم دیا ہے کہ وہ کلام کرے کیونکہ کبھی کبھی بولنا واجب ہوتاہے
جیسا کہ سلام کا جواب دینا اور نماز میں قراءت کرنا اور اِن کو ترک کرنا گناہ ہے۔بہرحال ہمیشہ نہ
بیٹھنا اور سائے میں نہ جانا یہ ایسے کا م ہیں جن کی انسان طاقت نہیں رکھتا تو سرکارِ
دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت
سَیِّدُنَاابواسرائیل رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ کوقسم پوری کرنےسے پہلے ہی اسے توڑنے کاحکم
دیاتاکہ وہ نذرپوری کرکے نقصان نہ اُٹھائیں ۔اَصحاب ابوحنیفہ رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکہتے ہیں کہ اگر کسی نے عید کے دن کے روزے کی منت مانی
تو عید کے علاوہ کسی اور دن
کا روزہ رکھنا واجب ہے۔‘‘([111])
مُفَسِّرشہِیرحَکِیْمُ
الاُمَّتمُفتِی احمدیارخان عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں : ’’(دوران خطبہ ایک شخص کھڑا تھا ) اس طرح کہ سب لوگ بیٹھ کر خطبہ سن رہے تھے مگر یہ صاحب حضورِ
انورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے سامنے کھڑے ہو کر سُن رہے تھے،اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ
پڑھنا کھڑے ہو کر سنت ہےاور سننا بیٹھ کر
سنت، اسی لیے تو حضور انورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمنے ان کے کھڑے ہونے پر تعجب فرمایا۔یہ حضرت (ابو اسرائیل) بنی عامر ابن لوی کی اولاد سے تھے،قریش کے ایک خاندان سے۔ان کا نام ابواسرائیل
ہی تھا۔ انہوں نے نذر مانی یعنی نماز کے علاوہ کسی وقت نہ بیٹھے گا اور کسی انسان
سے کلام نہ کرے گا،یہ مطلب نہیں کہ التحیات میں بھی نہ بیٹھے
گا اور نماز میں تلاوت وغیرہ بھی نہ کرے گا، عادات کی نفی ہے عبادات کی نفی نہیں ۔
یعنی خاموش رہنا، سایہ میں نہ بیٹھنا کوئی عبادت نہیں بلکہ حرام ہے کیونکہ نماز میں
قراءت فرض ہے اور التحیات میں بیٹھنا واجب بھی ہے فرض بھی، اسی طرح ہمیشہ کھڑا
رہنا طاقت انسانی سے باہر ہے،یہ نذرتوڑدےمگرروزہ چونکہ عبادت ہے اس لیے اسے پورا
کرے۔ خیال رہے کہ ابواسرائیل نے ہمیشہ کھڑے رہنے، ہمیشہ خاموش رہنے، سایہ میں نہ
بیٹھنے ،ہمیشہ روزہ رکھنے کی نذر مانی تھی،حضورصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پہلی نذریں توڑنے کا حکم دیا مگر روزے کی نذر
پوری کرنے کی تاکید فرمائی جوکوئی ہمیشہ روزہ رکھنے کی نذر مانے وہ سال میں پانچ
حرام روزوں کے سوا تمام دن روزے رکھے اور ان پانچ دنوں میں روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے کفارہ دے،نذرکا کفارہ
وہ ہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے،امام شافعی (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی)کے ہاں ان
دنوں کی نذر درست ہی نہیں ۔‘‘([112])
قسم
کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو
کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا ہے۔ یعنی یہ اختیار ہے کہ
ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔مساکین کو دونوں
وقت پیٹ بھر کر کھلانا ہوگااور جن مساکین کو صبح کے وقت کھلایا انہیں کو شام کے
وقت بھی کھلائے، دوسرے دس مساکین کو
کھلانے سے ادانہ ہوگا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دسوں کو ایک ہی دن کھلادے یا ہرروزایک
ایک کو یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وقت کھلائے اور مساکین جن کو کھلایا ان میں کوئی
بچہ نہ ہو اور کھلانے میں اِباحت و تملیک دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی
ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عوض ہر مسکین کونصف صاع گیہوں یا ایک صاع جَو یا ان کی
قیمت کا مالک کردے یا دس روز تک ایک ہی
مسکین کو ہر روزبقدرِ صدقۂ فطر دے دیا کرے یا بعض کو کھلائے اور بعض کو دے دے۔‘‘([113])
(1)
مباح کاموں کوعبادت سمجھ کرترک کرنا عبادت نہیں ہے۔ عبادت صرف وہی کام کہلائے
گا جس کو شریعت مطہرہ نے عبادت کہا ہو ۔
(2)
جس نذرکوپوراکرنے میں کسی نقصان کااندیشہ ہوتواسےپورانہ کرے بلکہ کفارہ اداکردے۔
(3)
نذرسوچ سمجھ کرماننی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ بعدمیں مشکل میں پڑجائےاور
نذرپوری نہ کرسکے۔
(4)
خطبہ کھڑے ہوکر دینااور بیٹھ کر سنناسنت مبارکہ ہے۔
اللہ عَزَّ
وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عبادات میں میانہ روی
اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے تمام صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرمائے،
ہماری حتمی مغفرت فرمائے، جنت میں داخلہ نصیب فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی بھی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانےکےلیےاس پر ہمیشگی اختیار کرنا
ضروری ہے، جو کام اِستقامت وتسلسل کے ساتھ کیا جائے وہ ایک نہ ایک دن پایہ تکمیل
تک پہنچ جاتا ہے۔ منزل مقصود تک پہنچنے کےلیے ہمیشگی اور پابندی کےساتھ
اس کی طرف سفر کرنا نہایت ضروری ہے۔ مسلسل سفر کرنے والا طویل
راستے کوبھی ایک نہ ایک دن آسانی اورسہولت
کے ساتھ طے کر لیتا ہے ۔اِسی طرح اَعمالِ صالحہ پرمُحافظت
وہمیشگی اختیار کرنے والوں کے لیے
جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔
ریاض الصالحین کا یہ باب ’’اَعمال پر محافظت‘‘
کے بارے میں ہے۔عَلَّامَہ
اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے اس باب میں 4چار آیاتِ
کریمہ اور 3اَحادیثِ مبارَکہ بیان فرمائی
ہیں ۔ اس باب میں آیات کی تفسیر،احادیث کی تشریح،نیزاَعمالِ صالحہ پراستقامت کی اہمیت وفضیلت اور باب سے متعلق دیگر رِوایات
و حکایات بیان کی جائیں گی، پہلےآیات مبارکہ اور ان کی تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد
فرماتا ہے:
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ
قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ-وَ لَا یَكُوْنُوْا
كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ
فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(۱۶)
(
پ۲۷،الحدید:۱۶)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:
کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اُترا اور ان جیسے
نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر
مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں ۔
تفسیر روح البیان میں ہے :’’ کیاایمان والوں کے لیے وہ
وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر کی طرف جھک جائیں اوراس کے
ذکر سے اطمینان حاصل کریں اوربغیر کسی سستی اور کمی کے اس کے اَحکامات پرعمل کر کے اوراس کی منع کردہ
چیزوں سے اپنے آپ کو روک کراس کی
اطاعت و فرمانبرداری کی
طرف جھک جائیں ۔‘‘([114])
تفسیر خازِن میں ہے:’’اس
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کی طرح ہونے سے منع فرمایا ہے کہ جب یہود و
نصاریٰ کی طرف عرصے دراز تک کوئی نبی نہیں آئے تو ان کے دل سخت ہوگئے یعنی وہ دنیا
کی طرف مائل ہوگئے۔‘‘([115])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ
قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ﳔ وَ جَعَلْنَا
فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةًؕ- وَ رَهْبَانِیَّةَ
ﰳ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ
فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَاۚ- ( پ۲۷،الحدید : ۲۷)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور
ان کے پیچھے عیسٰی بن مریم کو بھیجا اور
اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیرووں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب
بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرّر نہ کی تھی
ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا
کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا۔
تفسیر ِخازن میں ہے: ’’حضرت سَیِّدُنَا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پیرو کاروں کے دل میں نرمی رکھی یعنی وہ آپس
میں ایک دوسرے سے محبت و شفقت رکھتے
تھے ۔پھرا نہوں نے اپنے اوپر رہبانیت لازم کر لی ۔
یعنی وہ لوگ پہاڑوں ، غاروں ،تنہا
مکانوں اور خانقاہوں میں خلوت نشین
ہوگئے،انہوں نے اپنے اوپر عبادت میں زائد مشقت کو
لازم کر لیا اور نکاح نہ کیا، سادہ غذااور موٹے کپڑے استعمال کرنے
لگے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّنے فرمایا:ہم نے ان پر رہبانیت فرض نہیں کی بلکہ
انہوں نے رضا ئے الٰہی کے
حصول کے لیے اسےخود اپنے اوپر
لازم کیا،لیکن اسےنبہا نہ سکے بلکہ اس کو ضائع کردیا اور شرک میں مبتلا ہوئے۔حضرت
سَیِّدُنَا عیسیٰعَلَیْہِ السَّلَامکے دین کا انکار کیا اور اپنے بادشاہوں کے دین
میں داخل ہوگئے، ان میں سے بعض لوگ دینِ عیسی پر قائم رہےیہاں تک کہ انہوں نے حضور
نبی اکرم شاہِ بنی آدم صَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکے دَور کو پایا اور آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لائے۔‘‘([116])
ارشاد باری تعالی ہے:
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ
بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًاؕ- ( پ۱۴،النحل:۹۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور
اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا ۔
علامہ اسماعیل حقّی
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِیاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’یعنی اے مؤمنو!
وعدہ توڑنے میں اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ کہ جواپناسوت مضبوطی سے کاتتی ہے پھراسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔کلبی اور
مُقَاتل کہتے ہیں کہ یہ عورت رَبْطَہ بِنْتِ سَعْدتھی، مکہ کی رہنے والی تھی اور انتہائی بے وقوف
اور وسوسے کے مرض میں مبتلا تھی، یہ اوراس
کی باندیاں صبح سے دوپہر تک(بہت
محنت کرکے ) سوت کاتتی رہتیں ، پھر
تمام سوت کاتنے کے بعد یہ انہیں حکم دیتی
کہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردو۔‘‘([117])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ
الْیَقِیْنُ۠(۹۹) ( پ۱۴،
الحجر:۹۹)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:
اور مرتے دم تک اپنے ربّ کی عبادت میں رہو۔
امام فخرالدین
رازی
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھادِیاس آیت کے تحت فرماتے ہیں :’’یعنی اپنی زندگی کے
زمانے
میں
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرواور زندگی کےلمحات سے
کسی بھی لمحہ کو عبادت سے خالی نہ جانے دو۔‘‘([118])
عَلَّامَہ بَیْضَاوِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاس آیت کے تحت لکھتے
ہیں :’’مرتے دم تک اپنے ربّ کی عبادت میں رہو کیونکہ موت کا آنا یقینی ہے
اور مخلوق میں سے ہر زندہ کو موت آئے گی۔ چنانچہ
جب تک زندہ رہو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرتےرہواور زندگی کا کوئی لمحہ عبادت سے خالی نہ جانےدو۔‘‘([119])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:153
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ نَامَ عَنْ حِزْ بِهِ مِنَ اللَّیْلِ اَوْعَنْ شَيْءٍ مِنْهُ
فَقَرَاَهُ مَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّهْرِ ،كُتِبَ لَهُ كَاَ نَّمَا
قَرَاَهُ مِنَ اللَّيْلِ.([120])
ترجمہ :حضرت سَیِّدُنَاعمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنْہُسےروایت ہے کہ سرکارِمدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:’’جوشخص اپنا رات کاوظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سو
جا ئے، پھر فجراورظہر کی نماز کے درمیان پڑھ لے تو اس کے لیے رات کو پڑھنے کی طرح اَجر لکھا جاتاہے ۔‘‘
حَافِظْ قَاضِی اَبُو الْفَضْل
عِیَاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہفرماتے ہیں :’’یہ محض
فضلِ خداوندی ہےکہ وہ
اسے پورا ثواب عطا فرماتا ہے ۔یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رات کے نوافل
ووظائف دن کے مقابلے میں زیادہ
فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ رات کے وقت نیند کی قربانی دینی پڑتی ہے۔‘‘حضرت سَیِّدُنَا
امام مالک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِقفرماتے ہیں :رسولِ کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’جو شخص رات میں نماز پڑھنے کا
عادی ہو پھراس پر نیند کا غلبہ ہو اور وہ اپنی رات کی نماز پڑھے بغیر سو جائےتو اس
کے لیے اس کی
نماز کا ثواب لکھا جاتا ہے اور اس کی نیند اس کے
لیے صدقہ ہے۔ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا کمال درجے کا فضل ہے اور بندے
کی نیت کا صلہ ہے اوریہ فضیلت اس کے لیے ہے جس کی رات میں عبادت کرنے کی عادت ہو۔
حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے پورا
ثواب ملے گا جیسا کہ نماز پڑھنے پر ملتا ہےکیونکہ اللہ
عَزَّوَجَلَّنےاسے اس فعل سے روکا ہے۔‘‘([121])
اِمَام شَرَفُ ا لدِّیْن حُسَیْن
بِنْ مُحَمَّد بِنْ عَبْدُاللّٰہ طِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’حدیثِ مذکور میں ظہر سے پہلے اس حکم کواس وجہ سے خاص کیا کہ ظہر
کا وقت بغیر کسی فاصلے کے رات کے آخری حصے سے ملا ہوا ہےسوائے فجر کی نماز کے۔اسی
لیے اگرنفلی روزہ رکھنے والے نے زوال سے پہلے نفلی روزے کی نیت کرلی تو اس کا
روزہ صحیح ہے، اس کے بعد اِس کی نیت درست نہیں ۔جس کا رات کا کوئی وظیفہ چھوٹ جائے اوروہ اسے
ظہر سے پہلے پڑھ لے تو اس کے نامۂ اعمال میں اسی طرح اجرلکھا جائے گا جس طرح رات میں پڑھنے والے کے
لیے لکھا جاتا ہے۔‘‘([122])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ
کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی
احمد یار خان
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے ہیں :’’بعض علماءنے فرمایا کہ اگر تہجد
رہ گئی ہو تو دوپہر سے پہلے اتنے نفل پڑھ لے تو اِنْ شَآءَاﷲ تہجد کا ثواب مل جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
رات کا خلیفہ دن ہے۔ربّ تعالٰی فرماتاہے:( جَعَلَ
الَّیْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً) (پ۱۹ ، الفرقان:۶۲ )( ترجمہ ٔ کنزالایمان:جس
نے رات اور دن کی بدلی رکھی) لہٰذا
رات کے اعمال دن میں ہوسکتے ہیں ، نیزدن کے اَوَّل حصہ پر رات کے بعض احکام جاری
ہیں ، اسی لیے نفل اور رمضان کے روزے کی نیت ضحوہ کبریٰ سے پہلے ہوسکتی ہے، گویا
اس نے رات سے ہی نیت کی۔ اسی طرح اگر دن کا وظیفہ رہ جائے تو رات میں ادا
کرلے
کیونکہ دن کا خلیفہ رات ہے۔‘‘([123])
صَلُّوْا عَلَی
الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
(1)
اللہ عَزَّ وَجَلَّاپنےبندوں کوان
کےعمل سے زیادہ اجر عطافرماتاہے۔
(2)
ممکن ہوتورات کےوقت عبادت کی کثرت کرنی چاہیے کیونکہ یہ دن کے مقابلے میں
زیادہ فضیلت والی ہے ۔
(3)
پابندی سےتہجدپڑھنےوالا اگرکسی روزتہجدادانہ کرسکےتودوپہرہونےسےپہلےاتنی تعداد
میں نوافل پڑھ لے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تہجد
کاثواب پائےگا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسےدعاہےکہ وہ ہمیں پابندی کے ساتھ ذکرواَذکارکرنے، فرائض وواجبات وسنن کے
ساتھ ساتھ کثرت سےنوافل کی ادائیگی کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
میری زبان تر رہے ذکرودرود سے
بے جا ہنسوں کبھی نہ کروں گفتگو فضول
ذکر و درود ہرگھڑی وردِ زباں رہے
میری فضول گوئی کی عادت نکال دو
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:154
تَہَجُّد پابندی سے اَداکرنی
چاہیے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ! لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلَانٍ، كَانَ يَقُوْمُ اللَّيْلَ
فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ.([124])
ترجمہ :حضرت
سَیِّدُنَاعبداللہ بن عَمرو بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنْہُسےمروی
ہےکہ سرکار ِمدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے
مجھ سے فرمایا:’’اے عبداللہ!اس
شخص کی طرح نہ ہوجانا جو رات کو قیام کیا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔‘‘
عَلَّامَہ بَدْرُ
الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِیفرماتے ہیں :’’رات
میں قیام کرنا واجب نہیں ہےکیونکہ اگر واجب ہوتا توسرکارِدوعالَم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قیامِ لیل چھوڑنے
والے کے لیے اتنی ہی بات پر اِکتفا نہ
فرماتے بلکہ اس کی مذمت بھی فرماتے۔اِفْرَاط وتَفْرِیط کے بغیر کسی نیک کام پر ہمیشگی اختیار کرنا
مستحب ہے۔حدیثِ مذکور میں اس بات کی طرف
اشارہ ہے کہ جو نفلی عبادت کا عادی ہو پھر( بلاعذر) اسے ترک کر دے تو
یہ مکروہ ہے۔‘‘([125])
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں :’’یعنی اس خصلت میں فلاں کی
طرح نہ ہوجانا کہ وہ رات کے بعض حصے میں نمازِتہجد پڑھتا تھا،
پھر بغیر کسی عُذر کے اسے چھوڑ دیا ۔پس جس چیز کو اس نے اپنے ذمے لیا
تھا وہ اس پر ثابت قدم نہ رہا۔حدیث میں اس
بات کی طرف اشارہ ہے کہ عبادت کو چھوڑنا اوراپنی
عادت کی طرف لوٹنا ایسا ہی ہے جیسے سفر سے الٹے پاؤں واپس لوٹنا اورزیادہ
کے بجائے کمی کی طرف آنا ۔‘‘([126])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ
الاُمَّتمُفتِی
احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّانفرماتے
ہیں : ’’معلوم ہواکہ تہجد گزار کو (بِلا عذر محض سستی
کی وجہ) تہجد چھوڑنا بہت بُراہے۔اشعۃاللمعات میں ہےکہ
عبداللہ ابن
عَمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تمام رات عبادت کرتے تھے، ان کے والد اس سے منع
کرتے تھے مگر نہ مانتے تھے چنانچہ ان کے والد نے بارگاہ رسالت میں ان کی شکایت کی
تب حضور انورصَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نےیہ ارشاد فرمایا۔مقصد یہ ہے کہ تم سے یہ عبادت نبھ نہ سکے
گی اور تم اصل تہجد بھی چھوڑ بیٹھو گے۔ شیخ ابن حجر(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)فرماتے
ہیں کہ بہت تلاشی کے باوجود ان صاحب کا نام نہ ملا جو یہ قیام چھوڑ بیٹھے تھے۔‘‘([127])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
(1)
اِفراط وتفریط
کے بغیر نیک کا م پر ہمیشگی اختیارکرنامستحب ہے۔نیز عبادت اگر واجب نہ ہو تب بھی
اس عبادت کوترک کرنامکروہ ہے۔
(2)
دکھاوےکےلیے
کوئی نیک عمل کرنا قابلِ مذمت ہے۔
(3)
کسی شخص کومُعَیَّن
کیے بغیراس کاعیب بیان کرناجائزہےجبکہ مقصود کسی کی اصلاح ہو۔
(4)
چندروزعبادت
کرکے پھر چھوڑدیناقابل مذمت ہے۔
(5)
کسی عذرکی
وجہ سے اگر کبھی نفلی عبادت ترک ہو
جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعاہےکہ وہ ہمیں عبادت میں خشوع
وخضوع عطافرمائےاورہماری تمام خطاؤں کو
اپنے پیارے حبیبصَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم کے صدقے معاف فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:155
تَہَجُّد کے بدلے
بارہ 12رکعتیں
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهَا قَالَتْ:کَانَ رَسُوْ لُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِذَا
فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ مِنَ اللَّيْلِ مِنْ وَجَعٍ اَوْ غَيْرِهِ،صَلَّى مِنَ
النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً. ([128])
ترجمہ :اُمُّ
المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے
مروی ہے جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکی
رات کی نماز (یعنی تہجد) کسی بیماری وغیرہ کے سبب رہ جاتی تو آپصَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم دن میں بارہ 12رکعت نماز پڑھتے۔‘‘
عَلَّامَہ اَبُو
زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الْقَوِیفرماتےہیں :’’یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ اَوْرَاد و وَظَائف
پر محافظت کرنا مستحب ہے اور اگر وظیفہ رہ جائے تو اس کی قضاء کی جائے۔‘‘([129])
عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان
شَافَعِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے
ہیں :’’رات کی نماز سے مراد تہجد کی نماز ہے،نیند کے غلبے یا کسی اور اہم کام کی
وجہ سے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنماز تہجد نہ پڑھ
پاتے تو دن میں بارہ 12رکعتیں پڑھ لیتے۔علامہ ابن حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیفرماتے ہیں :آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارہ
رکعتیں نماز تہجدکی فضیلت پانے کے لیے پڑھتے نہ کہ قضاء کے طور پر،کیونکہ تہجد کی
نماز کی رکعت
کی تعداد اتنی نہیں ہوتی اور قضاء کبھی بھی ادا
سے زائد نہیں ہوتی۔‘‘([130])
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ
کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی
احمد یار خان
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے
ہیں :’’(آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دن میں بارہ رکعتیں ادا فرماتے )یعنی زوال سے پہلے پہلے یا اس لیے
پڑھتے کہ آپ پر نمازِ تہجد فرض تھی اور فرض کی قضا ضروری ہے تب تو یہ قضا آ پ کی
خصوصیت ہے یہ اس لیے کہ جس کی تہجد رہ جائے اور وہ زَوال سے پہلے بارہ رکعتیں پڑھ
لے تو تہجد کا ثوا ب پائے گا۔‘‘([131])
(1)حضرتِ سیِّدُنا عبدالعزیزبن رواد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْجَوَّادرات کو سونے کے لیے اپنے بستر پر آتے اور اس پر
ہاتھ پھیر کر کہتے:’’ تُو نرم ہے لیکن اللہ عَزَّ
وَجَلَّ کی قسم!جنَّت میں تجھ سے زیادہ نرم بستر ملے گا
پھر ساری رات نماز پڑھتے رہتے ۔‘‘
(2)حضرتِ سَیِّدُناصِلَہ بن اَشْیَم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْاَکْرَمساری رات نَماز پڑھتے۔ جب سحری کاوقت ہوتا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کرتے:الٰہی!میرے
جیسا آدمی جنّت نہیں مانگ سکتا لیکن تو اپنی رَحمت سے مجھے جہنم سے پناہ عطا فرما۔‘‘
(3)حضرتِ سَیِّدُنَاربیع بن خُثَیم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی بیٹی نے آپرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ سے عر ض کی:’’ابّا جان! کیا وجہ ہے کہ لوگ سو جاتے ہیں اورآپ
نہیں سوتے؟ ‘‘ ارشاد فرمایا: ’’بیٹی !تمہارا باپ ناگہانی عذاب سے ڈرتا ہے جو اچانک
رات کو آجائے۔‘‘
(4)حضرتِ سیِّدُنا صَفْوان بن
سُلَیم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی پنڈلیاں نماز میں زیادہ دیر
کھڑے رہنے کی وجہ سے سوج گئی تھیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس قدر کثرت سے عبادت کیا
کرتے تھے کہ بالفرض آپ
رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِسے کہہ دیا جاتا کہ کل
قِیامت ہے تو بھی اپنی عبادت میں کچھ اضافہ نہ کر سکتے(یعنی ان کے پاس عبادت میں اضافہ کرنے کے لیے وقت کی گنجائش ہی نہ
تھی) جب سردی
کا موسم آتا تو آپرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مکان کی چھت پر سویا کرتے تاکہ
سردی آپرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو جگائے رکھے اورجب گرمیوں کا
موسم آتا تو کمرے کے اندر آرام فرماتے تاکہ گرمی اورتکلیف کے سبب سو نہ سکیں ۔سجدہ
کی حالت میں ہی آپ کا انتقال ہوا۔آپ دعا کیا کرتے تھے:’’اےاللہ عَزَّ
وَجَلَّ!
میں تیری ملاقات کو پسند کرتا ہوں توبھی میری ملاقات کو پسند فرما۔‘‘
(5) حضرتِ سَیِّدُنَاقاسم بن راشد شیبانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکہتے ہیں کہ حضرتِ سَیِّدُنَا زَمعہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِ مُحَصَّب میں ٹھہرے
ہوئے تھے،آپ
رَحْمَۃُ
اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی زوجہ اوربیٹیاں بھی ہمراہ تھیں ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِ رات کو اٹھے اوردیر تک
نَماز پڑھتے رہے۔جب سحری کا وقت ہوا تو بُلندآواز سے پکارنے لگے: ’’اے رات میں پڑاؤ
کرنے والے قافِلے کے مسافِرو !کیا ساری رات سوتے رہوگے؟ کیا اُٹھ کرسفر نہیں کرو گے؟‘‘
یہ سُن کر وہ لوگ جلدی سے اٹھ گئے (اور عبادات میں مشغول ہوگئے)اورکہیں سے رونے کی
آواز آنے لگی اورکہیں سے دعا مانگنے کی، ایک جانب سے قرآنِ پاک پڑھنے کی آواز
سنائی دی تو دوسری جانب کوئی وُضو کر رہا تھا۔پھر جب صبح ہوئی تو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی
عَلَیْہِنے بلند آواز سے پکارا : ’’لوگ
صبح کے وقت چلنے کو اچھا سمجھتے ہیں ۔‘‘([132])اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان سب پر رحمت ہو اور ان کے
صدقے ہماری مغفرت ہو۔
آمِیْنْ بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مِرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ
اِنہیں خُلد میں بسانا مدنی مدینے والے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
(1) اَورادووظائف پر محافظت اختیارکرنا مستحب ہے اور اگرکسی کےاَورادووظائف
رہ جائیں تو اسے چاہیے کہ ا نہیں بعد میں مکمل کر
لے۔
(2) اللہ عَزَّ وَجَلَّکےنیک بندےساری ساری رات عبادت کرنے کےباوجوداپنےآپ کوگناہ گارتصورکیا
کرتےتھے۔
(3) فرضوں کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے۔
(4) بعض بزرگانِ دین اس قدر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کیا کرتے کہ ان کی پنڈلیاں نماز میں زیادہ
دیر کھڑے رہنے کی وجہ سے سوج جایاکرتی تھیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّسے دعاہے کہ وہ ہمیں خوب خوب عبادات کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں بھی ان
بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ
اللہُ الْمُبِیْن کی عبادتوں میں سے
کچھ حصہ عطافرمائے، ہماری حتمی مغفرت فرمائے۔
آمِیْنْ بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
عمل
کا ہو جذبہ عطا یاالٰہی………گناہوں سے مجھ
کو بچا یاالٰہی
میں
پانچوں نمازیں پڑھوں باجماعت………ہو توفیق ایسی
عطا یاالٰہی
دے
شوق تلاوت دے ذوق عبادت………رہوں باوضو میں سدا
یاالٰہی
ہمیشہ
نگاہوں کو اپنی جھکا کر………کروں خاشعانہ
دعا یاالٰہی
ہواخلاق
اچھا ہو کردار ستھرا………مجھے متقی تو بنا یاالٰہی
میں
نیچی نگاہیں رکھوں کاش اکثر………عطا کردے شرم
وحیا یاالٰہی
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
اللہ عَزَّ وَجَلَّنے حضور نبی آخر الزمان، سرورِذِیشاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو رُشد وہدایت کاسرچشمہ بنا کر دنیا میں بھیجا
۔آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے لوگوں کا تعلق اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ سے جوڑا، دنیاوآخرت کی بھلائی اورجنت کی طرف
رہنمائی فرمائی ،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےاحکامات کواپنی مبارک سنتوں کے
ذریعے مخلوق تک پہنچایا۔ جس نے آپ کی سنتوں کی پیروی کی وہ دارَین کی سعادتیں پا
گیااورجس نے اُن سے منہ موڑا وہ خائب وخاسرہوا۔کیونکہ آپ عَلَیْہِ
السَّلَام کی
اطاعت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت ہے۔ فرمانِ خدا وندی ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ
اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاؕ(۸۰) (پ۵،النساء:۸۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ
کا حکم مانااور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے
تمہیں ان کے بچانے کو نہ بھیجا۔
ریاض الصالحین کایہ
باب”سنت اور اس کے آداب کی محافظت“کے
بارے میں ہے ۔عَلَّامَہ
اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے اس باب
میں 10آیات اور 12احادیث مبارکہ بیان فرمائی ہیں ۔ اس باب میں سنت
کی اہمیت وفضیلت اوراس سے متعلق دیگراہم روایات وحکایات بھی بیان کی جائیں گی۔
پہلےآیات مبارکہ اوران کی تفسیر ملاحظہ
فرمائیے۔
ارشادِباری تعالٰی ہے:
وَ
مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ- (پ۲۸،الحشر:۷)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اورجو کچھ تمہیں رسول
عطا فرمائیں وہ لواور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔
تفسیر روح البیان میں ہے:’’ بہتر یہ ہےکہ اس آیت کو
عموم پر محمول کیا جائے۔اوراس صورت میں معنی
یہ ہوگا کہ
رسو لُ اللہصَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں
چاہے وہ مطلق حکم ہو ، مالِ فئے ہو،اصولِ
اعتقادیہ ہوں یا فروع عملیہ، انہیں لینا
اور مضبوطی سے تھامنا تم پر لازم ہے
۔نیزآیتِ مذکورہ میں
اس بات پربھی دلیل ہے کہ حضورصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ
وَسَلَّمکا حکم اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کاحکم ہے۔علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے فرمایا :
فرائض عینیہ میں حضورصَلَّی اللہُ
تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکی
اتباع فرض عین ہے ، فرائض کفایہ میں فرض
کفایہ ،واجبات میں واجب اور سنن میں سنت اورجن افعال کا سنت ہونا معلوم
ہوانہیں اپنایا جائےاورجن افعال کے بارے میں معلوم نہ ہوکہ یہ کس درجے کے ہیں ( فرض ہیں ،واجب یاسنت؟) توادنیٰ درجہ یہ کہ انہیں مباح سمجھا جائے ۔‘‘([133])
فرمان باری تعالٰی ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴)
( پ۲۷، النجم:۳) ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور
وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی
ہے۔
تفسیر روح البیان میں ہے:’’ لفظِ”ھَوٰی“ کااستعمال
اکثر نفسانی خواہشات اورممنوعہ لذات میں ہوتا ہے۔ اسی لیےنفسانی خواہشات
کی پیروی کرنے والے کو بدعتی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دین کے معاملے میں اپنی خواہش
کی طرف مائل ہوتا ہے۔پس ھَوٰیایک مخصوص ومذموم
میلان ہے۔اسی لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کو اس سے بچنے کا حکم دیاہے۔حضرتِ
سَیِّدُناداؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوحکم
ہوا: (وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى) (پ۲۳،ص:۲۶)( ترجمہ ٔ کنزالایمان:اورخواہش
کےپیچھےنہ جانا)اورہمارے پیارے نبی
کریم رؤف رحیم صَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمسے ارشادفر مایا: (وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَهُمْۚ-)(
ترجمہ ٔ کنز
الایمان: اوران کی خواہشوں پر نہ چل)
اور کسی بھی نبی عَلَیْہِ السَّلَام نےکبھی نفسانی
خواہشات کی پیروی نہ کی ۔ جیسا کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا :کوئی بھی نبی عَلَیْہِ السَّلَامکبھی نفسانی خواہش کی طرف مائل نہ
ہوا ۔‘‘([134])
اِمَام جَلَالُ الدِّیْن سیُوْطِیْ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الْقَوِیاس آیت کے تحت فرماتے ہیں :’’یعنی
حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوئی
بات اپنی خواہش سے نہیں کہتے بلکہاللہ عَزَّ
وَجَلَّ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامکی طرف وحی فرماتا ہے اور جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَامآ پ
صَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمتک پہنچاتے ہیں ۔ حضرتِ سَیِّدُناابو ہریرہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشادفر مایا:’’میں تمہیں جوخبر دیتا ہوں وہ اللہ عَزَّ
وَجَلَّکی طرف سے ہوتی
ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہوتا۔‘‘حضرتِ سَیِّدُناابو ہریرہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ ہی سے مروی ہے کہ رحمت عالم نورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’میں
حق بات ہی کہتا ہوں ۔‘‘بعض صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ
الرِّضْوَاننے عرض کی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم!آپ تو
ہمارے ساتھ خوش طبعی بھی فرماتے ہیں ۔فرمایا:’’بے شک! میں اس وقت بھی حق کےسوا کچھ نہیں کہتا۔‘‘([135])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ
اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ- (پ ۳
،آل عمران:۳۱ )
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اے
محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہتمہیں دوست رکھے گااور تمہارے گناہ بخش دے گا۔
اِمَام ابوجَعْفرمُحَمَّدبِن جَر ِ یرطَبری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللّٰہِ الْقَوِیفرماتے ہیں :’’اس
آیت کے شانِ نزول کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہاکہ یہ آیت عہد ِنبوی میں ایک
قوم کے بارے میں نازل ہوئی جو کہتے تھے کہ
ہم اللہ عَزَّ وَجَلَّسے محبت کرتے ہیں ۔پس اللہ عَزَّ وَجَلَّنے حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے ارشاد فرمایا : ’’آپ اُن سے کہہ دیجئےاگر تم
اپنے قول میں سچے ہو تو میری اتباع کرو ،کیونکہ (میری اتباع کرنا) تمہارےسچے ہونے کی دلیل ہے۔‘‘([136])
عَلَّامَہ اِسْمَاعِیْل
حَقِّی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الْقَوِیفرماتے ہیں :’’یہ آیت اُس
وقت نازل ہوئی جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے کعب بن اَشرف اور اُس کے متبعین کو اِسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا : (نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ
اَحِبَّآؤُهٗؕ- )(پ۶، المائدۃ: ۱۸)ترجمہ ٔ کنزالایمان:’’ہم
اللہکے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ۔‘‘ پس اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے
فرمایا:’’اے محبوب(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)!ان سے
فرمادیجئےکہ میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا رسول ہوں اور میں تمہیں اس کی طرف بلاتا ہوں ،اگر تم اس سے محبت کرتے ہو تو دین کے معاملے میں میری
اتباع وفرمانبرداری کرو، اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم سےمحبت کرےگااورتم سےراضی ہوگا،تمہارے
دلوں کے پردے دور کردے گااورتمہاری کوتاہیوں سے درگزر فرمائےگا،جس سےتم اس کی جنتوں
کے قریب ہوجاؤگےاوروہ تمہیں اپنا قُرب عطا فرمائے گا۔‘‘([137])
ارشادِ باری تعالٰی
ہے :
لَقَدْ
كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا
اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ
(پ ۲۱،الاحزاب:۲۱ )
ترجمہ ٔ کنزالایمان:بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی
بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو۔
عَلَّا مَہ عَلَاءُ
الدِّیْن عَلِی
بِنْ مُحَمَّد خَازِن رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : ’’حضور پُرنور،شافعِ یومُ النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمکی زندگی تمہارے لیے
بہترین نمونہ ہے ۔ پس تم ان کی اچھے طریقے سے پیروی کرواور پیروی یہ ہے کہ تم اللہ عَزَّ وَجَلَّکے دین کی مدد کرو،دین پر مضبوطی سے قائم رہو،اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمکی مخالفت نہ کرواور مصیبت
پہنچنے پرصبر کروجیسےتمہارے نبیصَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نےصبرکیا جب ان کے سامنے کا ایک دندانِ مبارک (کا کچھ حصہ) ([138])شہیدکیاگیا،چہرہ مبارک زخمی ہو گیا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامکے چچا کوشہید کیا گیااوراس کے علاوہ طرح طرح کی
تکالیف دی گئیں لیکن آپ صَلَّی
اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
صبروتحمل سےکام لیا۔‘‘([139])
ارشادِباری تعالٰی ہے:
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ
حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ
اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۶۵) ) پ۵،النساء:۶۵ )
ترجمہ ٔ کنزالایمان:تو اے محبوب! تمہارے ربّ کی قسم! وہ مسلمان نہ ہوں
گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو
اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں ۔
اِمَام جَلَالُ الدِّیْن سُیُوْطِیْ عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الْقَوِی فرماتے ہیں کہ حضرتِ
سَیِّدُنا زُبَیر بن عَوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے
روایت ہےکہ میرا ایک بدری انصاری کے ساتھ
پانی کے چشمے کے بارے میں جھگڑا ہوا ۔انصاری نے کہا:’’پانی کو گزرنے دو۔‘‘ میں نے
انکا ر کیا، پس سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے
فرمایا :’’اے زُبَیر! اپنے باغ کو سیراب کرنے کے بعد پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ
دیا کرو۔‘‘ یہ بات انصاری پر گراں گزری اور اس کی زباں سے یہ کلمہ نکلا:’’یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمیہ فیصلہ اس لیے ہے کہ زُبَیر آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم کے پھوپھی زاد بھائی ہیں ؟‘‘ یہ سن چہرۂ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشادفرمایا :’’اے زُبَیر! پہلے اپنے باغ کو اچھی طرح سیراب کرو اور پھر پانی اپنے
پڑوسی کے لیے چھوڑدو۔‘‘ اس بار آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے حضرت زُبَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے
حق کی رعایت فرمائی جبکہ اس سے پہلے اپنی
رائے کا اظہار فرمایا تھا جس میں دونوں کی رعایت تھی۔حضرت سَیِّدُنَا زُبَیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے
ہیں : ’’میرا گمان ہے کہ یہ آیت اسی بارے
میں نازل ہوئی ۔‘‘([140])
صَدرُ
ا لا فاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مُراد آبادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللّٰہِ الْھَادِی مذکورہ آیت کے
تحت
فرماتے ہیں :’’معنیٰ یہ ہیں کہ جب تک آپ کے فیصلے اور حکم کو صدقِ دِل سے نہ مان
لیں مسلمان نہیں ہو سکتے۔سُبْحَانَ اللہ!اس سے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہِ وَسَلَّمکی شان معلوم
ہوتی ہے۔‘‘([141])
فرما
نِ باری تعالٰی
ہے:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ
وَ الرَّسُوْلِ (پ۵،
النساء:۵۹)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:پھر
اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ اور رسول کے حضور رجوع کرو ۔
اِمَام
اَبُوجَعْفَرمُحَمَّدبِن
جَرِیْر طَبری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے
ہیں :’’یعنی اے ایمان والو! اگر دین کے
کسی معاملے میں تمہارا آپس میں یا تمہارے اور حاکم و والی کے درمیان اِختلاف
ہوجائے تو اس کے حل کے لیے قرآن پاک کی
طرف رجوع کرو، جو حکم ملے اس کی
اتباع کرو۔اگر قرآن پاک میں اس سے متعلق کوئی حکم نہ پاؤ تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
طرف رجوع کرواور حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکےوصالِ ظاہری کے بعد آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں یعنی
احادیث مبارکہ کی طرف رُجُوع کرو۔‘‘([142])
فرما
نِ خداوندی ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ
اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (پ۵، النساء:۸۰)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:جس
نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ
کا حکم مانا۔
تفسیر
ِخازن میں ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمنے ارشادفرمایا:’’جس نے میری اطاعت کی اس نےاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے
محبت کی اس نےاللہ عَزَّ وَجَلَّ سے
محبت کی۔‘‘یہ سن کر بعض منافقین نے کہا:’’یہ صاحب چاہتے ہیں کہ
ہم انہیں خدا مان لیں (مَعاذَ اللہ)جیسے نصاریٰ
نے حضرت عیسیٰ بن مریم عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا مان لیا تھا۔‘‘ اس پریہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اورفرمایا گیا کہ جس نے
اَمْر و نَہی میں رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ ہی کی اطاعت کی۔ کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے ہی اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت سَیِّدُنَا
حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’اللہ
عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رسول کی
اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور اس سے مسلمانوں پر حجت قائم ہوگئی ہے۔‘‘ حضرت سَیِّدُنَا
امام شافعیعَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْکَافِی فرماتے ہیں :’’ہر فرض
عبادت جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے قرآن مجید میں فرض کیا ہے جیسے حج، نماز، زکوٰۃ وغیرہ اگر حضور
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے بارے میں بیان
نہ فرماتے تو ہم کبھی بھی یہ بات نہ جان پاتے کہ
ان عبادات کو کس طرح ادا کرنا ہے اور ہمارے لیے ان کی ادائیگی کبھی ممکن
نہ ہوتی۔پس رسول ُاللہصَلَّی اللہُ تعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکی اطاعت در حقیقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی اطاعت
ہے۔‘‘([143])
اِمَام فَخرُالدِّیْن رَازِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ
الْھَادِیفرماتےہیں :’’مطلب یہ ہے
کہ جس نے رسولُ اللہ صَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکی اِطاعت اس لیے کی کہ وہ اللہ عَزَّ
وَجَلَّکے رسول ہیں اور
اُمَّت کی طرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اَحکام پہنچانے والے ہیں تو درحقیقت اس نے اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ ہی کی اطاعت کی اوریہ توفیق الٰہی کے بغیر
ممکن نہیں ۔یہ آیت اس بات کی قوی ترین دلیل ہے کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے جو اَحکام مخلوق تک پہنچاتے ہیں ، آپ اُن میں غلطی و خطا
سے معصوم ہیں کیونکہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکسی چیز میں خطا کرتے تو آپ کی اطاعتاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت نہ ہوتی۔ اسی طرح اس آیت سے یہ بھی
معلوم ہوا کہ آپ صَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّماپنے تمام اَفعال میں معصوم ہیں ، اس لیے کہ اللہ
عَزَّ
وَجَلَّ نے
آپ کی پیروی کا حکم دیا۔‘‘([144])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
فرما
نِ باری تعالٰی
ہے:
وَ اِنَّكَ لَتَهْدِیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍۙ(۵۲) (پ۲۵،
الشوری:۵۲)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:
اور بے شک تم ضرور سیدھی راہ بتاتے ہو۔
تفسیرطبری میں ہے:’’اللہ عَزَّ وَجَلَّاپنے نبی صَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمسے فرمارہا ہے: اے محبوب! تم میرے بندوں کو سیدھی راہ کی طرف بلاتےہو کیونکہ تم انہیں میری طرف بلاتےہو اور سیدھی راہ کی پہچان
کراتےہو۔ امام سَدیّعَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللہِ الْقَوِی سے مروی ہے فرماتے ہیں :یعنی تم لوگوں کو دینِ
مستقیم کی طرف بلاتے ہو اور وہ دینِ اسلام ہے،اوریہ وہ دین ہے
جس کی طرف اللہ
عَزَّ
وَجَلَّنے اپنے بندوں کو
بلایاہے۔‘‘([145])
ارشادباری
تعالٰی
ہے:
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ
یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳) (پ۱۸،
النور:۶۳)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:تو
ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا اُن پر درد
ناک عذاب پڑے۔
تفسیر طبری میں ہے:’’جولوگ ایساکرتےہیں ( یعنی منافقین جوجمعہ کےدن
خطبہ سننے سے بچنے کےلیے چپکے سے صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان
کی آڑ لےکر مسجد سے نکل جاتے تھے)وہ ڈریں کہ کہیں انہیں کوئی فتنہ یا درد ناک عذاب نہ
پہنچے۔یہاں فتنہ سے مرادکفر ہے یا یہ معنی
ہے کہ اس نازیباحرکت اور رسولُ اللہصَلَّی
اللہُ تعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمکے حکم کی مخالفت پر انہیں دنیا ہی میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے
درد ناک عذاب پہنچنے سے ڈرنا چاہیے۔‘‘([146])
ارشادِ خدا وندی ہے:
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ
بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِؕ- (پ۲۲، الاحزاب:۳۴)
ترجمہ ٔ کنزالایمان:اور
یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں اور حکمت۔
تفسیرِخاز
ن میں ہے:’’اس آیت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّنےحضورنبی
کریم رؤف رحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَزواجِ
مُطَہَّرَات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّسےخطاب فرمایاکہ تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا
کردہ نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ایسے گھرکوتمہارامسکن بنایاجس میں اس کی آیات تلاوت
کی جاتی ہیں اورحکمت بیان ہوتی ہے، لہٰذاتم اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اس نعمت پراس کاشکراداکرواور حمدبجالاؤ۔حکمت
سے مراد اَحادیث مبارکہ ہیں ۔‘‘([147])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی
مُحَمَّد
حدیث نمبر:156
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ
رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
قَالَ:دَعُوْ نِي مَا تَرَكْتُكُمْ :اِنَّمَا
اَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ کَثْرَۃُ سُؤَالِهِمْ،
وَاخْتِلَافُهُمْ عَلَى اَنْبِيَائِهِمْ
،فَاِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوْهُ ، وَاِذَا اَمَرْتُكُمْ
بِشَیْءٍ فَاْ تُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ.([148])
ترجمہ :حضرتِ سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’تم
اس معاملے میں مجھے چھوڑ دو جس میں ، مَیں تمہیں چھوڑ دوں ۔بے شک! تم سے پہلے لوگوں
کو کثرتِ سوال اوراپنے نبیوں سے
اختلاف نےہلاک کر دیا۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اُس سےبچو
اور جب کسی بات کا حکم دوں تو اُسے اپنی
طاقت کے مطابق بجا لاؤ۔‘‘
[1]…مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد،ص۳۳۴، حدیث:۶۶۳بتغیر۔
[2]… مسلم ،کتاب المساجد،باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد،ص ۳۳۴،حدیث:۶۶۲۔
[3]…مستدرک حاکم ، کتاب الطھارۃ ، باب فضیلۃ تحیۃ الوضو، ۱/۳۴۲، حدیث:۴۶۸۔
[4]… مسلم، کتا ب المساجد ومواضع الصلوۃ، با ب المشی الی الصلوۃ۔۔۔الخ ،ص ۳۳۶،
حدیث:۶۶۹۔
[5]…مسلم ، کتا ب الطھارۃ ، با ب فضل اسباغ الوضوء ، علی مکارہ، ص۱۵۱،حدیث:۲۵۱۔
[6]…ابو داود ،کتا ب الصلوۃ، با ب ماجاء فی الھدی فی المشی الی الصلوۃ ،۱/۲۳۳، حدیث:۵۶۳۔
[7]…بخاری، کتاب الھبۃ وفضلھا التحریض، باب فضل المنیحۃ، ۲/۱۸۴، حدیث:۲۶۳۱۔
[8]…شرح بخاری لابن بطال، کتاب الھبۃ وفضلھا التحریض، باب فضل المنیحۃ ، ۷/۱۵۲۔۱۵۴ملتقطا۔
[9]…بخاری،کتاب الزکوۃ، باب اتقوالنارولوبشق تمرۃ۔۔۔الخ ،۱/۴۷۸، حدیث:۱۴۱۷۔
[10]…مسلم،کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصد قۃ ولوبشق تمرۃ۔۔۔الخ،ص۵۰۷،حدیث:۱۰۱۶
بتغیر۔
[11]…دلیل الفالحین، باب بیان کثرۃ طرق الخیر، ۱/۳۸۰۔ ۳۸۱، تحت الحدیث: ۱۳۹
ملتقطا۔
[12]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الفضائل، باب علامۃ النبوۃ،۱۰/۱۳۴، تحت الحدیث:۵۷۵۸۔
[13]…مرآۃالمناجیح،۸/۱۱۸،۱۲۰ملتقطا۔
[14]…الترغیب والترھیب ،کتاب الادب وغیرہ، باب الترغیب فی الصمت۔۔۔الخ، ۳/۳۴۱، حدیث:۲۹۔
[15]…مسلم ، کتاب الایمان ،باب الحث علی اکرام الجار۔۔۔الخ ، ص۴۴، حدیث: ۴۸۔
[16]…کشف الخفاء ،۱/۳۷۷،حدیث:۱۳۷۲۔
[17]…شعب الایمان ،باب فی حافظ اللسان ، فصل فی فضل السکوت عمالایعنیہ، ۴/۲۴۰،حدیث: ۴۹۳۳۔
[18]…مسلم، کتاب الذکر والدعا والتوبۃ، باب استحباب حمد اللہ تعالی بعد الاکل والشرب، ص۱۴۶۳، حدیث:۲۷۳۴۔
[19]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الاطعمۃ، الفصل الاول، ۸/۳۵، تحت الحدیث:۴۲۰۰۔
[20]…دلیل الفالحین ،باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر،۱/۳۸۱،تحت الحدیث:۱۴۰۔
[21]…ترمذی، کتاب الدعوات، باب مایقول اذااکل طعاما، ۵/۲۸۴، حدیث:۳۴۶۹۔
[22]…مرآۃالمناجیح،۶/۲۷۔
[23]…معجم کبیر،یحییٰ بن
قیس، ۶/۱۸۵، حدیث:۵۹۴۲۔
[24]…مسلم، کتاب الزکاۃ، باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع ۔۔۔الخ،ص ۵۰۴، حدیث: ۱۰۰۸ماخوذا۔
[25]…عمدۃ القاری، کتاب البروالصلۃ، باب کل معروف صدقۃ، ۱۵/۱۸۵، تحت الحدیث:۶۰۲۲۔
[26]…عمدۃ القاری، کتاب البروالصلۃ، باب کل معروف صدقۃ، ۱۵/۱۸۵، تحت الحدیث:۶۰۲۲۔
[27]…دلیل الفالحین ،باب فی بیان کثرۃ طرق الخیر،۱/۳۸۲،تحت الحدیث:۱۴۱۔
[28]…شرح مسلم للنووی، کتاب الزکاۃ، باب ان اسم الصدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف
،
۴/۹۴، الجزء السابع۔
[29]…مرآۃالمناجیح،۳/۹۶۔
[30]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الزکوۃ، باب فضل الصدقۃ، ۴/۳۹۷، تحت الحدیث:۱۸۹۵۔
[31]…عیون الحکایات، الحکایۃ الثالثۃ والخمسون بعدالثلاثمائۃ، ص۳۱۲۔
[32]…تفسیرخازن، پ۱۶،طہ، تحت الآیۃ:۱، ۳/۲۴۸۔
[33]…تفسیر کبیر، پ۱۶،
طه،
تحت الآیۃ:۲، ۸/ ۶۔
[34]…خزائن العرفان، پ۱۶، طہ، تحت الآیۃ: ۲۔
[35]…تفسیر خازن،پ۲،البقرۃ ، تحت الآیۃ:۱۸۵، ۱ /۱۲۲۔
[36]…تفسیرنعیمی،پ۲،البقرۃ،تحت الآیۃ : ۱۸۵، ۲ /۲۰۶۔
[37]…بخاری، کتاب الایمان، باب احب الدین الی اللہ ادومہ،۱/۲۸، حدیث:۴۳۔
[38]…عمدۃالقاری،کتاب الایمان،باب احب الدین الی اللہ ادومہ،۱/۳۷۷ ، تحت الحدیث: ۴۳ ملتقطا۔
[39]…عمدۃالقاری،کتاب الایمان،باب احب الدین الی اللہ ادومہ،۱/۳۷۸، تحت الحدیث: ۴۳۔
[41]…عمدۃالقاری،کتاب الایمان،باب احب الدین الی اللہ ادومہ،۱/۳۸۰، تحت الحدیث: ۴۳۔
[42]…شرح مسلم للنووی، کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا، باب فضیلۃ العمل
الدائم ۔۔۔الخ،۳/۷۱، الجزء السادس۔
[43]…ابن ماجۃ، کتاب الزھد، باب المداومۃ علی العمل، ۴/۴۸۷، حدیث: ۴۲۴۱۔
[44]…نزہۃ القاری ،۱/۳۵۵۔
[45]…فیوض الباری، ۱/۲۴۲۔
[46]…مرآۃالمناجیح،۲/۲۶۳ ملخصاً۔
[47]…بخاری،کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح،۳/۴۲۱،حدیث:۵۰۶۳۔
[48]…مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الایمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ۱/۳۷۲، تحت الحدیث:۱۴۵۔
[49]…فتح الباری،کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح،۱۰/۹۱،تحت الحدیث:۵۰۶۳ملخصًا۔
[50]…فتح الباری،کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح،۱۰/۹۱،تحت الحدیث:۵۰۶۳ملخصًا۔
[51]…فتح الباری،کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح،۱۰/۹۱،تحت الحدیث:۵۰۶۳ملخصًا۔
[52]…ارشادالساری ،کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح،۱۱ /۳۸۴
،تحت
الحدیث:۵۰۶۳ملخصا۔
[53]…شرح بخاری لابن بطال ،کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح،۷ /۱۶۰۔
[54]…الحدیقۃ الندیۃ، ۱/۱۹۴۔
[55]…الحدیقۃ الندیۃ، ۱/ ۱۹۵۔
[56]…الحدیقۃ الندیۃ، ۱/ ۱۹۵۔
[57]…شرح الطیبی، کتاب الایمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ۱ /۳۳۱، تحت الحدیث:۱۴۵۔
[58]…مسلم، کتاب العلم، باب ھلک المتنطعون،ص۱۴۳۴،حدیث:۲۶۷۰۔
[59]…دلیل الفالحین، باب فی الاقتصاد فی العبادۃ،۱/۳۸۸، تحت الحدیث:۱۴۴۔
[60]…اشعۃ اللمعات،کتاب الآداب، باب البیان والشعر،۴/۶۰۔
[61]…بخاری،کتاب الایمان، باب الدین یسر،۱/۲۶، حدیث:۳۹۔
[62]…بخاری،کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل،۴/۲۳۷، حدیث:۶۴۶۳۔
[63]…ریاض الصالحین، باب فی الاقتصاد فی الطاعۃ، ص۵۱، تحت الحدیث: ۱۴۵۔
[64]…عمدۃ القاری،کتاب الایمان، باب الدین یسر،۱/۳۴۸، تحت الباب۔
[65]…عمدۃ القاری،کتاب الرقاق، باب القصد والمداومۃ۔۔۔الخ،۱۵/۵۴۱،تحت الحدیث:۶۴۶۳ملتقطا۔
[66]…فتح الباری،کتاب
الایمان،
باب الدین یسر۔۔۔الخ،۲/۸۸،تحت الحدیث:۳۹۔
[67]…الحدیقۃ
الندیۃ،۱/۲۰۳۔
[68]…مرآۃالمناجیح ،۲/۲۶۴۔
[69]…بخاری، کتاب التهجد، باب مايكره من التشديد في العبادة،۱/۳۹۰،حدیث:۱۱۵۰بتغیر۔
[70]…شرح بخاری لابن بطال، کتاب الاستسقاء،باب مايكره من التشديد في العبادة،۳/۱۴۴۔
[71]…ارشاد الساری، کتاب التھجد، باب مايكره من التشديد في العبادة،۳/۲۳۱، تحت الحدیث:۱۱۵۰۔
[72]…فیوض الباری،۵/۲۸ملتقطا۔
[73]…مرآۃالمناجیح ،۲/۲۶۴۔
[74]…بخاری، کتاب الوضو ء،باب الوضو ء
من النوم ومن لم ير من النعسة ۔۔۔الخ،۱/۹۴،حدیث:۲۱۲ ۔
[75]…شرح مسلم للنووی ، کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا، باب امرمن نعس فی
صلاتہ۔۔۔الخ،۳/۷۴،الجز السادس ۔
[76]…مرقاۃ المفاتیح،کتاب الصلاۃ،باب القصد فی العمل،۳/۳۱۷، تحت الحدیث:۱۲۴۵۔
[77]…ارشاد الساری، کتاب الوضو ء، باب الوضوء من النوم، ۱/۵۱۰، تحت الحدیث:۲۱۲۔
[78]…اشعۃ اللمعات،کتاب الصلوۃ، باب القصد فی العمل،۱/۵۶۴ ۔
[79]…مرآۃالمناجیح ،۲/۲۶۴۔
[80]…بہار شریعت، ۲/۳۰۸،
[81]…مسلم، کتاب الجمعة، باب تخفيف الصلوة والخطبة،ص۴۳۰،حدیث:۸۶۶۔
[82]…دلیل الفالحین، باب فی الاقتصاد فی العبادۃ ،۱/۳۹۳،تحت الحدیث:۱۴۸۔
[83]…مرآۃ المناجیح، ۲/۳۴۳۔
[84]…بخاری، کتاب الصوم، باب
من اقسم علی اخیہ ۔۔۔الخ ،۱/۶۴۷،حدیث:۱۹۶۸۔
[85]…عمدۃ القاری، کتاب الصوم، باب
من اقسم علی اخیہ ۔۔۔الخ ،۸/۱۸۲،تحت الحدیث:۱۹۶۸ملتقطا۔
[86]…دلیل الفالحین، باب
فی الاقتصاد فی العبادۃ ،۱/۳۹۴، ۳۹۵،تحت الحدیث:۱۴۹ملخصا۔
[87]…نور الایضاح
مع مَراقی الفلاح ، کتاب الصوم
،
فصل فی العوارض ،ص
۳۴۹ ۔
[88]…بہارشریعت، ۱/۱۰۰۷، حصہ۵۔
[89]…مسلم،کتاب الصیام، باب النھی عن صوم الدھر۔۔۔الخ، ص۵۸۴،
حدیث:
۱۱۵۹ مفھوما ۔
[90]…بخاری، کتاب الصوم ، باب حق الجسم فی الصوم ،۱/۶۴۹،حدیث: ۱۹۷۵۔
[91]…مسلم، کتاب الصیام، باب النھی عن صوم الدھر۔۔۔الخ، ص۵۸۵،
حدیث:
۱۱۵۹ بتغیر۔
[92]…مسلم، کتاب الصیام، باب نھی عن صوم الدھر۔۔۔الخ،ص۵۸۶، ۵۸۷،حدیث:۱۱۵۹۔
[93]…بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فی کم یقرأ القرآن، ۳/۴۱۷، حدیث: ۵۰۵۲ بتغیر۔
[94]…شرح بخاری لابن بطال ،کتاب الصیام ، باب صوم الدهر ،۴/۱۲۱۔
[95]…المبسوط للسرخسی،۴/۱۳۳، الجزء الثامن۔
[96]…فتح الباری ،کتاب الصوم ، باب صوم الدهر ،۵/۱۹۲،تحت الحدیث:۱۹۷۶۔
[97]…اکمال المعلم ،کتاب الصیام ، باب النھی عن صوم الدهر ،۴/۱۲۶،تحت الحدیث:۱۱۵۹۔
[98]…ارشاد الساری ،کتاب الصوم ، باب صوم الدهر ،۴/۶۱۷،تحت الحدیث:۱۹۷۶۔
[99]…عمدۃ القاری ،کتاب الصوم ، باب صوم الدهر ، ۸/۱۹۶، تحت الحدیث: ۱۹۷۶۔
[100]…مرآۃالمناجیح ،۲/۲۵۷۔
[101]…اشعۃ اللمعات،کتاب الصلٰوۃ، باب التحریض علی قیام اللیل،۱/۵۵۹۔
[102]…فیوض الباری،۸/۷۴،۷۳۔
[103]…مسلم، کتاب التوبة، باب فضل دوام الذكروالفكر في امورالاخرة۔۔۔الخ،ص۱۴۷۰،حدیث:۲۷۵۰۔
[104]…شرح مسلم للنووی
،کتاب
التوبۃ،
باب فضل دوام الذکر والفکر فی امور الاخرۃ
،۹/۶۶،الجز السابع عشر۔
[105]…مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدعوات، باب ذکراللہ عزوجل والتقرب الیہ، ۵/۵۰۔۵۱، تحت الحدیث:۲۲۶۸
ملتقطا۔
[106]…شرح الطیبی، کتاب الدعوات، باب ذکراللہ عزوجل والتقرب الیہ، ۴/۴۰۴، تحت الحدیث:۲۲۶۸۔
[107]…دلیل الفالحین، باب فی الاقتصاد فی العبادۃ،۱/۴۰۴، تحت الحدیث: ۱۵۱۔
[108]…مرآۃالمناجیح ،۳/۳۱۴ ملتقطا۔
[109]…بخاری،كتاب الايمان
والنذور،باب
النذر فيما لايملك وفي معصية،۴/۳۰۳ ،حدیث:۶۷۰۴
بتغیر۔
[110]…عمدۃ القاری،كتاب الايمان والنذور، باب النذر
فيما لايملك وفي معصية ،۱۵/۷۴۶ ،تحت الحدیث:۶۷۰۴۔
[111]…مرقاۃ الفاتیح، كتاب الايمان والنذور، باب فی النذر ،۶/۶۰۲ ،تحت الحدیث:۳۴۳۰
ملتقطا۔
[112]…مرآۃالمناجیح ،۵/۲۰۴۔
[113]…بہار شریعت،۲/۳۰۵، حصہ۹ ملتقطا۔
[114]… تفسیر روح البیان، پ۲۷،
الحدید ،
تحت الآیۃ:۱۶، ۹/۳۶۳۔
[115]…تفسیر خازن، پ۲۷، الحدید، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴/۲۲۹۔
[116]…تفسیر خازن، پ۲۷، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۷ ، ۴/۲۳۳۔
[117]…تفسیر روح البیان،پ۱۴، النحل،تحت الآیۃ:۹۲ ،۵/۷۴۔
[118]…تفسیر کبیر،پ۱۴، الحجر،تحت الآیۃ:۹۹ ،۷/۱۶۶۔
[119]…تفسیر بیضاوی،پ۱۴، الحجر،تحت الآیۃ:۹۹ ،۳/۳۸۳۔
[120]…مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین، باب جامع صلوۃ اللیل ومن نام عنہ او مرض،ص۳۷۶،حدیث:۷۴۷۔
[121]…اکمال المعلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃ اللیل۔۔۔الخ، ۳/ ۹۸
،
تحت الحدیث:
۷۴۷۔
[122]…شرح الطیبی ، کتاب الصلاۃ، باب القصد فی العمل،۳/۱۴۱، تحت الحدیث: ۱۲۴۷۔
[123]…مرآۃ المناجیح، ۲/۲۶۵۔
[124]… بخاری، کتاب التهجد، باب مايكره من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ،۱/۳۹۰،حدیث:۱۱۵۲۔
[125]…عمد ۃ القاری، کتاب التهجد، باب مايكره من ترک قیام اللیل،۵/۵۰۴،تحت الحدیث:۱۱۵۲۔
[126]…مرقاۃ المفاتیح،کتاب الصلوۃ ،باب التحریض علی قیام الیل،۳/۳۱۰،تحت الحدیث:۱۲۳۴۔
[127]…مرآۃالمناجیح ،۲/۲۶۰۔
[128]…مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین ، باب جامع صلوۃ اللیل ومن نام عنہ او مرض،ص۳۷۶،حدیث:۷۴۶۔
[129]…شرح مسلم للنووی،کتاب صلاۃ المسافرین، باب
صلاۃ اللیل ومن نام عنہ،
۳/۲۷،الجزء السادس۔
[130]…دلیل الفالحین، باب فی المحافظۃ علی الاعمال، ۱/۴۱۲، تحت الحدیث:۱۵۶۔
[131]…مرآۃالمناجیح ،۲/۲۷۱۔
[132]…اِسلامی بہنوں کی نماز،ص۱۷۳۔
[133]…تفسیر روح البیان، پ۲۸،
الحشر،
تحت الآیۃ:۷، ۹/۴۲۹۔
[134]…تفسیر روح البیان، پ۲۷،
النجم ،
تحت الآیۃ:
۳، ۹/۲۱۲۔
[135]…تفسیر د ر منثور، پ۲۷،
النجم ،
تحت الآیۃ:۳ ، ۷/۶۴۲
ملتقطا۔
[136]…تفسیر طبری، پ۳،
آل عمران ،
تحت الآیۃ:
۳۱، ۳/۲۳۱۔
[137]…تفسیر روح البیان، پ۳،
آل عمران ،
تحت الآیۃ:
۳۱ ، ۲/۲۲۔
[138]…فتح الباری، کتاب المغازی، باب۲۲،
۷/۳۱۲، تحت الحدیث: ۴۰۷۰۔
[139]…تفسیر خازن، پ۲۱،
الاحزاب،
تحت الآیۃ:۲۱ ، ۳/۴۹۲۔
[140]…تفسیر د ر منثور، پ۵،النساء،تحت الآیۃ: ۶۵، ۲/۵۸۴۔
[141]…خزائن العرفان،پ۵،النساء،تحت الآیۃ:۶۵۔
[142]…تفسیر طبری، پ۵،
النساء ،
تحت الآیۃ:۵۹، ۴/۱۵۳۔
[143]…تفسیر خازن، پ۵،
النساء ،
تحت الآیۃ:۸۰، ۱/۴۰۵۔
[144]…تفسیرکبیر، پ۵،
النساء ،
تحت الآیۃ:۸۰، ۴/۱۴۹ملتقطا۔
[145]…تفسیر طبری، پ۲۵،
الشوری،
تحت الآیۃ:۵۲، ۱۱/۱۶۳۔
[146]…تفسیر طبری، پ۱۸،
النور،
تحت الآیۃ:۶۳، ۹/۳۶۱۔
[147]…تفسیر طبری، پ۲۲،
الاحزاب،
تحت الآیۃ:۳۴، ۱۰/۲۹۹۔
[148]…بخاری، کتاب الاعتصام،باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم ،۴/۵۰۲،حدیث:۷۲۸۸۔