اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

فیضانِ داتاعلی ہجویری

دُرود شریف کی فضیلت

حضرتِ سیِّدُنا عبد اﷲ بن مسعود  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے: اللہ  عَزَّوَجَلَّکےمَحبوب، دانائے غُیوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ تقرُّب نشان ہے : بروزِ قیامت لوگوں میں میرے قریب تَروہ ہوگا، جس نے مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔([1])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!            صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

آزمائش  پر صبر و شکر کا انعام

ایک مشہور علمی گھرانے کے چشم و چراغ ، زُہدو تَقویٰ کے پیکر ،صلاحیت و قابلیت کے اعتبار سے اپنے زمانے میں ممتاز اور کئی علوم پر دسترس رکھنے والے  نوجوان عالمِ دین  کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی  مشکل پیش آتی  مزارات ِ اولیا ء پر حاضر ہوجاتے ،صاحبِ مزار کے وسیلے سے دعا کرتے  اور اپنی دلی   مراد پاتے ۔ایک مرتبہ یہی عالم صاحب ایک علمی اُلجھن کا  شکار ہوئے تو حضرت سَیِّدنا بایزید  بسطامیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مزار کا رُخ کیا  تین ماہ تک درِبایزید  بسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی


عَلَیْہ پر یوں گزارے کہ ہر وقت باوضو رہتے لیکن مسئلہ حل نہ ہوا،شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ  اس بار معنوی جواب کے بجائے تجربے اور مُشاہدے کے ذریعے جواب حاصل کریں۔آخر ِکا ر اس مشکل کے حل کے لیے انہوں نے کُھردَرا  لباس  پہنا عصا اور وضو کابرتن تھامااور خُرَاساں کی جانب رَختِ سفر باندھ لیا۔راستے میں ایک گاؤں آیا تو عالم صاحب نے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ گاؤں میں وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں دین دار نظر آنے والے دنیا داررہائش پذیر تھے  اُنہیں  وہاں ایسے کئی چہرے نظر آئے جو خوش حالی اور بے فکری سے دَمک رہے تھے۔ جیسے ہی ان لوگوں کی نظر اس اجنبی نوجوان پر پڑی تو ان میں سے ایک مُتکبرانہ چال چلتے ہوئےآگے بڑھا اور بولا: ’’تم کون ہو؟‘‘عالم صاحب نے سخت لب ولہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے  نہایت نرمی سے جواب دیا:”مسافر ہوں ،رات گزارنےکے لیے ٹھہرنا چاہتا ہوں۔“وہ سب قہقہے لگا کر ہنس پڑے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے ۔’’ لگتا تو صوفی ہی ہے لیکن ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘اس نوجوان عالم نے پُر اعتماد لہجے میں جواب دیا:” آپ  نے بالکل درست کہا ، بے شک میں آپ لوگوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘اِنہوں نے عالم صاحب   کو نچلی منزل  پر ٹھہرایا اور خود بالا خانے میں چلے گئے ،کھانے کے وقت اُن کے آگے  پھپھوندی لگی سوکھی روٹی رکھ دی اورخود بالا خانے میں مُرَغَّن غذائیں  کھاتے ہوئے اُس نوجوان عالم پر آوازے کسنے لگے ۔کھانے سے فراغت کے بعد  انہوں نے خربوزے  کھائے


اور چھلکے  اُن عالم صاحب  کے سر پر پھینکنے لگے ان نازیبا حَرَکات پر صبر کا عظیمُ الشان مُظاہرہ کرتے ہوئے اس نوجوان عالم نے اللہ  عَزَّ وَجَلَّکی بارگاہ میں یوں عرض کی :”یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ!اگر میں تیرے مَحبو بوں کا لباس  پہننے والوں سے نہ  ہوتا  تو ضرور ان سے کنا رہ کش ہوجا تا ۔“پھر اپنے دل کی جانب مُتَوَجّہ ہوئے جو طعن و تشنیع   اور نازیبا  حرکتوں کے باوجودپُر سکون  ہونے کے ساتھ ساتھ مُسرور بھی تھا ۔اس  سکون اور مسرت نے عالم صاحب پر یہ بات آشکار کردی کہ دراصل  اللہ عَزَّوَجَلَّکے نیک بندوں کو  بلندمقام ومرتبہ اَذِیَّتوں پر صبر  و شکر  کا مُظاہر ہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔([2])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!برائی کو بھلائی سے ٹال کر اپنا جواب پانے والے  یہ نوجوان عالم  کوئی اور نہیں بلکہ حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتھے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو وہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آپ  کا فیضان  آج بھی   جاری ہے۔حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اسی فیض کی جانب حضرت سیدنا خواجہ مُعِین ُالدِّین چشتی اَجمیریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یوں اشارہ فرمایا:

گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خُدا

ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما

یعنی:آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہخزانے لُٹانے والے ،عالَم کو فیض پہنچانے والے اور اللہ


عَزَّوَجَلَّ کےنور کے مظہر ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہناقصوں کے لئے پیرِ کامل اور کاملوں کے راہنما ہیں ۔

ولادت

حضرت سیِّدُنا داتا علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی   کی ولادتِ با سعادت کم و بیش  ۴۰۰  ؁ ھ میں غزنی  میں ہوئی ([3]) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے خاندان  نے غرنی کے   دومَحَلُّوں جُلَّاب و ہجویر میں رہائش  اِختیار فرمائی اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہجویری جُلَّابی کہلاتے ہیں ۔([4])

سلسلۂ نسب

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی کُنیت ابوالحسن، نام علی اور لقب داتا گنج بخش ہے۔ ماہرِ انساب  پیرغلام دستگیرنامیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالغَنِی نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا شجرۂ نسب اس طرح بیان  فرمایا ہے:’’حضرت مَخْدوم علی بن سید عثمان  بن سیّد عَبْدُالرَّحْمٰن بن سید عبداللہ(شجاع شاہ) بن سیّد ابوالحَسَن علی بن سیّد حَسَن بن سیِّد زَیْد بن حضرت امامِ حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بن علیکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم۔‘‘([5])


حُلیہ مبارک

 حضرت سیدناداتاعلی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قد درمیانہ ،جسم سُڈول (یعنی متناسب اورخوبصورت)اورگھٹاہوا(یعنی مضبوط)تھا۔جسم کی ہڈیاں مضبوط اور بڑی تھیں ۔ فَراخ(یعنی کشادہ) سینہ اور ہاتھ پاؤ ں مُناسب تھے ۔چہرہ گو ل تھا نہ لمبا ، سرخ و سفید ،چمکدار رنگت،کشادہ جَبین(یعنی پیشانی) اور بال سیاہ گھنے تھے ۔بڑی اور خوبصورت آنکھوں پر  خَمْدار گھنی اَبر و تھی،سُتْواں(پتلی) ناک ،درمیانے ہونٹ اور رُخسار بھرے ہوئے تھے ،چوڑے اور مضبوط شانوں پر اٹھتی ہوئی گردن ۔ رِیش(یعنی داڑھی) مُبارک گھنی تھی ،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بڑھے جاذِبِ نظر اور پُرکَشش تھے ۔([6])

لباس

حضرت سیدناداتاعلی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لباس کے مُعاملے میں کسی قسم کا تَکَلُّف نہ برتتے ، مَیانہ رَوی اِختیار فرماتےتھے اور جو لباس  مُیَسَّر ہوتا صبر و شُکر کرتے ہوئے زیب ِ تن فرما لیتےگو یا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا لباس نَمود و نمائش کےلیے نہ ہوتا بلکہ صرف تَن ڈھانپنے کےلیے ہوتا ۔([7])

لباس سنّتوں سے ہو آراستہ اور       عمامہ ہو سر پر سجا یاالٰہی


متقی گھرانہ

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!انسان  کو نیک اور مُتَقِّی بنانے  میں  سب  سے زیادہ  مُوثر  ”گھر کا ماحول “ ہوتا ہے   کیوں کہ  گھر ہی وہ کارخانہ ہے جہاں نیکی ،زہد و تقوی اور علم و عمل کے اوزار  سے ایک  معیاری انسان تیار ہوتا ہےاو ر  گھر یلو تَربِیَّت ہی  اخلاق و کردار کو اعلیٰ   بنانے میں  سب سے   زیادہ کا ر آمد  ثابت ہوتی ہے ۔حضرت سیدنا داتا گنج بخش   علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والد حضرت سَیِّدُنا عثمانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے وقت کے جَیَّد عَالِم اورعابدو زاہد تھے ۔ شاہان ِ غَزنیہ کے زمانے میں  دنیاکے کونے کونے سے  عُلَماء و فُضَلَاء،شُعَرَاء اورصُوْفِیَاء غزنی میں جمع ہو گئے تھے جس کی وجہ سے غزنی  عُلُوم و فُنُون کا مرکز بن چکا تھا ،حضرت سیدنا عثمان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے بھی یہاں رہائش اختیا ر فرمائی۔([8])آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ ماجدہ حُسَیْنی سادات سے تھیں، عابِدہ زاہِدہ خاتون تھیں ، گویا حضرت سیدنا داتا گنج بخش ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نَجِیبُ الطَرفَیْن سَیِّد تھے اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حَسَنی جمال اور حُسینی کمال  دونوں  ہی کے جامِع تھے ۔ حضرت سیدنا  داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ماموں کو زُہد و تقویٰ کی بناء پر تاجُ الاولیاء کے لقب سے  شہرت حاصل تھی ۔غرضیکہ آپ کا خاندان شرافت و صداقت اور علم و فضل کی وجہ سے مشہور  تھا۔([9]) علم کے مُوتیوں کی چمک دمک اور  زہد و تقوی  کے نو ر سے


 مُنَوَّر گھر انہ دراصل آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شخصیت سازی کا کارخانہ ثابت ہوا اسی کارخانے نےآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اخلاق و کردار  اور علم و عمل  کو وہ  دائمی خوشبو بخشی  جس کی  مہک آج تک دل و دماغ کو مُعَطَّر کررہی ہے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جن اسلامی گھرانوں سےفقہ،حدیث اور تصوف جیسے  دینی علوم کے ساتھ طِب(Medical)،حیاتیات (Biology) سے لےکرحسابMathametics))اورجغرافیہ(Geography) وغیرہ سینکڑوں علوم کے ماہرین پیدا ہوا کرتے تھے بلاشبہ  اس میں والدین کی اسلامی تربیت  ہی کا دخل تھا لہٰذا آپ بھی اپنے مدنی منوں اور مدنی منیوں  کی تربیت اچھے انداز میں کیجیے گھر میں مدنی  ماحول  بنانے کے لیے درسِ فیضان ِ سنّت کا آغاز کیجیے ،گھر والوں کو گناہوں  بھرے چینلزسے چھٹکارا دلا کرصرف اور صرف مدنی چینلدکھانے کی ترکیب بنائیے،ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات میں خود بھی شرکت کیجیےاور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی شرکت کروائیے تاکہ آپ کی اولاد  دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ،مُعاشرے کا بہتر ین فرداور آخرت میں  ثواب ِجاریہ کا  ذریعہ بنے ۔

آپ کے شہر کی علمی و عملی فضا

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غزنی  تَہْذِیْبُ و تَمَدُّن اور علم  و حکمت  کی وجہ ترقی یافتہ  اور  بہت اہمیت کا حامل تھا  اور اس کی اہمیت کی وجہ یہ تھی کہ بڑے بڑے علماء،صوفیاءاورتاریخ و جغرافیہ دان اس شہر میں  رہائش پذیر  تھے  یوں آپ  رَحْمَۃُ


اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دور میں غزنی حُصُولِ عِلْم  اور ظاہِری و باطِنی تَرْبِیّت کا  بے مثال مرکز بن چکا تھا۔علم  کی اس ترقی کا اثر حضرت سیدنا داتا گنج بخش ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پربھی ہوا  یہی وجہ ہے کہ جب کم عمر ی میں ایک غیر مسلم فلسفی سے آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مُکالمہ ہواتو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہزبردست دلائل اور عمدہ اندازہ ِ بیان  کے سبب کامیاب و کامران ہوئے ۔([10])  

شوقِ علم

حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تعلیم و تربیت کے بارے میں ایک کتاب میں لکھا ہے  کہ جس پاکیزہ فطرت ماں کی آغوش میں آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  پرورش پائی اس کی زبان ذکرِ الٰہی میں مصروف اور دل جلوۂ حق سے سرشار رہتا تھا ۔ اس لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ابتدائے عمر ہی سے بڑی مُحتَاط ا ور پاکیزہ زندگی گزاری۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ   کو بچپن ہی سے عبادت کا شَوق تھا۔نیک والدین کی تربیت نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اخلاق کو شروع ہی سے پاکیزگی کے سانچے میں ڈھال دیا تھا ۔ہوش  سنبھالتے ہی  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کو تعلیم کے لئے مکتب میں بٹھا دیا گیا ۔ حُرُوف شَنَاسِی کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے قرآنِ پاک  مکمل پڑھ لیا۔([11])


حضرتداتا گنج بخش علی ہجویریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے بچپن ہی سے محنت وجانفشانی کےساتھ علمِ دین حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حصولِ علم میں اتنےمشغول رہتے کہ نہ تو کھانے پینے کا خیال رہتا اور نہ ہی گر د و پیش کی خبر ۔چنانچہ حضرت خواجہ مستان شاہ کابلیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالغَنِی فرماتے ہیں:جن کا دل اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف مُتَوَجّہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔ حضرت سیدنا علی بن عثمان ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سلطان محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قائم کردہ دینی مدرسہ  میں تقریباً بارہ تیرہ سال کی عمر میں زیرِ تعلیم تھے۔حصولِ علم کے جَذبہ سے سَرشار تعلیم میں اتنا مَحَو (یعنی مشغول) ہوتےکہ صَبْح سے شام ہو جاتی مگر پانی تک پینے کی فرصت نہ ملتی ۔رِضوان نامی سفید ریش بزرگ اس مدرسہ کے مُدَرِّس  تھے ۔ وہ اپنے اس خاموش طبع طالِبِ علم کو تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔([12])

بولنے والا با رہا پچھتاتا ہے

شیخِ طریقتامیرِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنےرسالے”خاموش شہزادہ“ میں تحریر فرماتے ہیں:یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ خاموش رہنے میں نَدامت کا امکان بَہُت کم ہے جب کہ موقع بے موقع’’بول پڑنے‘‘کی عادت سے بارہا SORRY کہنا


پڑتااورمُعافی مانگنی پڑتی ہے یا پھر دل ہی دل میں پچھتاواہوتا ہے کہ میں یہاں نہ بولا ہوتا تو اچّھا تھا کیوں کہ میرے بولنے پرسامنے والے کی جِھجک اُڑ گئی، کھری کھری سننی پڑی، فُلاں ناراض ہوگیا،فُلاں کاچہرہ اُترگیا ، فُلاں کا دل دُکھ گیا ۔ اپنا وَقار بھی مَجروح ہوا وغیرہ وغیرہ۔حضرت سیِّدُنا  محمد بن نَضْر حارِثی سے مروی ہے:  زیادہ بولنے سے وَقار(دبدبہ)  جاتارہتا ہے ۔   ([13])

بولنے اور چُپ رہنے کی دو قِسمیں

فرمانِ مصطَفٰے  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے:اَلْخَیْرُ خَیْرٌ مِّنَ السُّکُوْتِ وَالسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنْ اِمْلَائِ الشَّرِّ یعنی اچّھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بُری بات کہنے سے بہتر ہے۔([14])حضرتِ سیِّدُنا علی بن عثمان ہجویری اَلْمَعروف داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کَشْفُ الْمَحْجُوبمیں فرماتے  ہیں :کلام(یعنی بولنا) دو۲ طرح کا ہوتا ہے۔ ایک کلامِ حق اور دوسرا کلامِ باطل، اِسی طرح خاموشی بھی دو۲ طرح کی ہوتی ہے: (۱)بامقصد(مَثَلاً فکرِ آخِرت یا شَرْعی اَحکام پرغوروخَوض وغیرہ کیلئے) خاموشی(یعنی چُپ رہنا) (۲)غفلت بھری(یامَعاذَاللّٰہ گندے تصوّرات یا دنیا کے بے جاخَیالات سے بھر پور)خاموشی۔ ہر شَخْص کوسُکوت (یعنی خاموشی)کی حالت میں خوب اچّھی طرح غور کر لیناچاہئے کہ اگر اِس کا بولنا حق ہے تو


بولنا اُس کی خاموشی سے بہتر ہے اور اگر اُس کا بولنا باطِل ہے تو اُس کی خاموشی اس کے بولنے سے بہتر ہے ۔حُضور داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ گفتگو کے حق یا باطِل ہونے کے متعلِّق سمجھانے کیلئے ایکحکایتنَقْل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت ِسیِّدُنا ابو بکر شبلی بغدادیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بغدادشریف کے ایک  مَحَلّے سے گزر تے ہوئے ایک شَخْص کو سنا وہ کہہ رہا تھا :  اَلسُّکُوْتُ خَیْرٌ مِّنَ الْکَلَامِ  یعنی خاموشی بولنے سے بہتر ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اسے فرمایا : ’’تیر ے بولنے سے تیرا خاموش رہنا اچّھا ہے اور میرا بولنا خاموش رہنے سے بہتر ہے۔‘‘([15])

مدرسے کی زینت

 ایک روزسلطان محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گُزر اس مَدْرَسے کے پاس  سے ہواتو وہ اس عظیم درس گاہ میں تشریف لائے۔تما م طلبا ء زیارت کے لیے دوڑے لیکن  حضرت سیدنا داتا علی ہجویری  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مطالعے میں اس قدر منہمک تھے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو سلطان کی آمد کی خبر ہی  نہ ہوئی ۔ اُستاد صاحب نے پکارا:دیکھو علی! کون آیا ہے ؟اب کیا تھا ایک طرف  سلطان محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن  طالب علم۔عجیب منظر تھا ، سلطان محمود غزنوی نے اس نوعمر طالب علم  پر ایک نظر ڈالی لیکن تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئےفوراً نظریں جھکا دیں اور مُدَرِّس سے کہا :  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم ! یہ بچہ خدا کی طرف راغب


ہے ایسے طالب علم اس مدرسہ کی زینت ہیں ۔([16])

حصول ِعلِم دین کے لیے مزیدسفر

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!پیاس پانی سے بجھ جاتی ہے لیکن علم کا پیاسا کبھی سیر اب نہیں ہوتا  کیوں کہ یہ پیا س  چشمہ ٔعلم  سے  فیضاب ہوکر بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ،حضرت سیدنا داتا گنج بخش  علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآج کل جیسی  سَہُولیات مُیَسَّر نہ ہونے کے باوُجودکئی آزمائشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی  علمی پیاس بجھانے کے لیے  جلیلُ القدر ہستیوں کی بارگا ہ میں حاضر ہوئے  اور ان سے  نہ صرف بھر پور اِسْتِفَادَہ کیا  بلکہ  باطِنی تَرْبِیَّت بھی حاصِل فرمائی  اس نوعِیَّت کا ایک واقعہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خود بیا ن فرماتے ہیں:ایک دن میں  حضرت سیدنا  ابو  القاسم عبداللہ  بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی بارگا ہ میں  حاضرتھا اور جو لطائف مجھ پر مُنَکشِف ہوئے  تھے وہ میں آپ کی بارگا ہ میں عرض کررہا تھا   تاکہ آپ  کی ہدایات کے مطابق اپنےاحوال درست کرسکوں اس لیے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ناقدِ وقت تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بہت اَدَب و اِحْتِرَام سے سُن رہے تھےمیرا لڑکپن اور جُوش  ِجوانی  اپنا  حال بیان کرنے پر حَرِیْص  بنا رہا تھا ۔عین  اسی حالت میں میرے دل میں یہ خیال گزرا  کہ جو لطائف  میرے اوپر گزرے ہیں  شاید  اس قدر لطائف اِن بزرگ (یعنی حضرت سیدنا  ابو  القاسم عبداللہ  بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی


عَلَیْہ) پر نہیں گزرے یہی وجہ ہے کہ  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نہایت توجہ  اور احترام  سے میرے اَحوال سن رہے ہیں۔ حضرت سیدنا  ابو  القاسم عبداللہ بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بذریعۂ کشف میرے اس خیال پر مطلع ہوگئے اور فرمایا:”عزیز بیٹے! میرا یہ اِحْتِرام   صرف آپ کے ساتھ خاص نہیں  بلکہ یہ تو ہر ابتدائی طالب ِعلم سے ہے جو بھی اپنا حال بیان کرتا ہے میں اِسی اِحْتِرام سے اس کے اَحْوال سُنتا ہوں۔“ میں یہ سن کر خاموش ہوگیا ۔ ([17])

سوال کرنے کی فضیلت

اَمیرُالْمُؤمنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خداکَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے : ’’علم خزانہ ہے اور سُوال کرنا اس کی چابی ہے،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تم پر رحم فرمائے سُوال کیا کرو کیونکہ اس (یعنی سوال کرنے کی صورت ) میں چار افراد کو ثواب دیا جاتا ہے۔سُوال کرنے والے کو ،جواب دینے والے کو، سننے والے اوران سے مُحَبَّت کرنے والے کو۔‘‘ ([18])  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!علم حاصل کرنے کے لیے سُوال کرنا یقیناً باعثِ فضیلت ہےلیکن اس کے لیے سُوال کرنے کے آداب کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔اگر کبھی کوئی عالم صاحب کسی وجہ سے ناراضی کا اظہار بھی فرما دیں


تب بھی ادب کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے۔اس ضمن میں امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے چنانچہآپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: مجھے دینی مسائل سیکھنے کا بہت شوق تھا ، میں بچپن سے ہی علم کا پیاسا تھا۔میرے سوال کرنے پرایک دفعہ نہ جانے کیوں، ایک مفتی صاحب نے مجھے غصے سے جھاڑ پلادی مگرمیں نے( ادب سے)عرض کیا حضورعلماسے سنا ہے کہ   

فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) (پ۱۷،الانبیاء:۷)

ترجمۂ کنزالایمان:تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔

یہ سن کروہ فوراًنرم ہوگئے اورفرمایاہاں پوچھو؟۔

کتنا علم سیکھنا فرض ہے؟

حدیثِ پاک میں ہے : علم حاصل کرنا ہر مُسَلمانپرفرض ہے۔([19]) شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی، حضرت علّامہ مَوْلانا ابو بلال محمدالیاس عطّارقادِری رَضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتےہیں:اِس حدیثِ پاک کے تحت میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت، مولانا شاہ امام احمد رضا خانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جوکچھ فرمایااس کاآسان لفظوں میں مختصراًخُلاصہ عرض کرنے کی کوشِش کرتاہوں۔ سب میں اوّلین و اہم ترین فرض یہ ہے کہ بُنیادی عقائدکاعلم


حاصِل کرے جس سے آدمی صحیح العقیدہ سُنّی بنتا ہے اورجن کے انکارومخالَفَت سے کافِر یاگُمراہ ہو جاتا ہے۔اِس کے بعدمسائلِ نَمازیعنی اِس کے فرائض وشرائط و مُفسِدات(نمازتوڑنے والی چیزیں)سیکھےتاکہ نَمازصحیح طورپراداکر سکے۔پھرجب رَمَضانُ الْمبارَک کی تشریف آوری ہوتوروزوں کے مسائل،مالِکِ نصابِ نامی(یعنی حقیقۃً یاحکماًبڑھنے والے مال کے نِصاب کامالک)ہوجائے توزکوٰۃ کے مسائل،صاحِبِ اِستِطاعت ہوتو مسائلِ حج،نِکاح کرناچاہےتواِسکے ضَروری مسائل،تاجِرہوتوخریدوفروخت کےمسائل، مزارِع یعنی کاشتکار(اورزمیندار)پرکھیتی باڑی کے مسائل،ملازِم بننے اورملازِم رکھنے والے پراجارہ کے مسائل۔وَعَلٰی ھٰذَاالْقِیاس(یعنی اوراِسی پرقِیاس کرتے ہوئے)ہرمسلمان عاقِل وبالِغ مردوعورت پراُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنافرضِ عین ہے۔اِسی طرح ہرایک کیلئے مسائلِ حلال وحرام بھی سیکھنافرض ہے۔نیزمسائلِ قلب(باطنی مسائل) یعنی فرائضِ قَلْبِیَّہ(باطنی فرائض)مَثَلاً عاجِزی واِخلاص اورتوکُّل وغیرہااوران کوحاصِل کرنے کاطریقہ اورباطِنی گناہ مَثَلاًتکبُّر،رِیاکاری، حَسَدوغیرہااوران کا عِلاج سیکھنا ہر مسلمان پراہم فرائض سے ہے۔([20])

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!مَعلوم ہوا کہ دین کا بنیادی علم نہ سیکھنا آخرت کی تباہی وبربادی کاسبب بن سکتاہے کیونکہ جب نماز،روزہ،حج زکوٰۃ نکاح تِجارت مَزدوری اور دیگر معاملات کے بارے میں دینی معلومات نہ ہوں گی تویقیناً ان کاموں میں  شرعی غلطیاں بھی سرزدہوں گی جن کی وجہ سے آخرت میں پکڑہو


سکتی ہے۔لہٰذا زندگی کی ان انمول ساعتوں کو غنیمت جانتے ہوئے حصولِ علمِ دین کے لئے کوشاں رہیے اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّاس کی برکت سے پابندِ سنّت بننے، گناہوں سے بچنے اور آخرت کےلیے کڑھنے کا ذہن بنے گا۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                        صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

تین سو مشائخ سے اکتساب ِفیض

حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جتنے بھی ممالک کا سفر  فرمایا اس  کا مقصد  عُلما ء و مَشائخ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اکتساب ِفیض کرنااور  اپنی علمی پیاس بجھانا تھا ۔ اس مَقْصد کے حصول کے لیے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے صرف خراسان کے تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے عِلم و حِکمت کے پُر بہار گلستانوں سے گُل چینی کر کے اپنا دامن بھرتے رہے۔([21])  

 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اساتذہ کی  طویل فہرست میں سےتین کاتذکرہ مُلاحظہ کیجیے  اس سے اندازہ ہوگا کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےجن اللہ والوں سے اِسْتفادہ فرمایا ان پر اللہ عَزَّ وَجَلَّکے کس قدر انعامات تھے  اورانہوں نے آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو کس کس طرح نوازا۔


(۱)حضرت  سیدناابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن قشیری

 جن بزرگوں کی بارگاہ میں حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حاضر ی دی  ان میں سے ایک  حضرت سیدنا ابو القاسم عَبْدُ الکَرِیم بن ہَوَازِن قُشَیْرِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی ہیں ۔ صاحبِ رسالۂ قشیریہ زَینُ الاسلام حضرت سیّدنا ابو القاسم عَبْدُ الکَرِیم بن ہَوَازِن قُشَیْرِی شافعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ۳۷۶ھ استواء نزد نیشاپور ضلع خراسان ایران میں ہوئی ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ علم تفسیر ،حدیث،کلام ،فلسفہ ،فقہ اور تصوف میں ماہر تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ    کی 16 تصانیف میں رسالہ قشیریہ کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ۱۷ ربیع الآخر۴۶۵ء میں وفات پائی ۔مزار مبارک نیشاپور ضلع خراسان ایران میں ہے۔    آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے اعلیٰ اَخلاقی اَوصاف کو بے پناہ شہرت حاصل ہے  لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا سب سے  خوبصورت  وصف  لغویات سے  پرہیز ہے جس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ  حضرت سیّدنا داتا گنج بخش  علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  کشف المحجوب  میں فرمایاہے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :حضرت ابو القاسم عَبْدُ الکَرِیم بن ہَوَازِن قُشَیْرِیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں جو اپنے زمانے میں یکتا اور قدر و منزلت میں اَرْفَع و اَشْرَف تھے ۔ آپ کے حالات اور گو نا گوں فضائل اہلِ زمانہ میں مشہور ہیں ہر فن میں آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے لطائف موجود ہیں،آپ کی محققانہ تصانیف بکثرت ہیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ رَحْمَۃُ


اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حال و زبان کو لغویات سے محفوظ رکھا۔([22])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ لَغْوِیَّات سے محفوظ رکھے اس  کا شمُار  پسندید ہ بندوں میں ہوتا ہے ۔اُس پر رحمت ِالٰہی  جُھْوم جُھْوم کر برستی ہے  لہٰذا رحمتِ الٰہی کا حَقْدار بننے کے لیے  خود کو فُضُولِیَّات اور لَغْوِیَّات سے بچائیے۔ اس کےلیےروزانہ اپنے مَعْمُولات کا اِحْتِسَاب کیجیے۔اَلْحَمْدُلِلّٰہعَزَّوَجَلَّ! امیر ِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  نےاسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو مدنی انعامات عطا فرمائے ہیں جن کی برکت سے  نہ صرف فرائض وو اجبات پر عمل  کی سعادت اور ناجائزوحرام کاموں سے بچنے  کاذہن  ملتاہے بلکہ فضول بولنے اور دیکھنے سے چُھٹکار ا نصیب ہوتا ہے لہٰذا  آپ بھی روزانہ  مدنی انعامات کا رسالہ پُر کرنے کا معمول بنا لیجیے   اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّاس کی برکت سےآپ  پر بھی رحمتِ الٰہی    خوب برسے گی۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حضرت سیّدُناداتاعلی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت ابوالقاسم قشیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے جوکچھ  سنا اور سیکھا ان میں سے چند باتوں کو اپنی مایہ ناز کتا ب  کشف المحجوب میں محفوظ فرمایادیا ، اس سلسلے میں دو حکایات ملاحظہ کیجیے :

(۱)مجھے موتی درکار نہ تھے

حضرت سیّدُنا داتا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :مَیں نے


حضرت سیدنا عَبْدُ الکَرِیم بن ہَوَازِن قُشَیْرِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا: مَیں نے ایک بار طائرانی(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) سے پوچھا: آپ اپنا ابتدائی حال سنا ئیے۔  ارشادفرمایا:” ایک وقت مجھ پر وہ تھا کہ ایک پتھر کی ضرورت پڑی، سرخس کی ایک نہر سےجو پتھر مَیں نے اٹھایا ،وہی جوہر(قیمتی پتھر) بن گیا۔ مَیں نے اسے پھینک دیا۔“(حضرت سیدنا  ابوالقاسم قشیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآپ کے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں )یہ اس لیے نہیں کہ ان کی نظر میں جو ہر (قیمتی پتھر) اور پتھر یکساں تھے، بلکہ اس لیے کہ انہیں پتھر کی ضرورت تھی، جو ہر (قیمتی پتھر) درکار نہ تھا۔([23])

 (۲)رب عَزَّ  وَجَلَّ كی رضا میں میری رضاہے

حضرت سیّدناداتاعلی ہجویریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :’’ مَیں نے استاد ابوالقاسم قشیری(عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی ) سے سنا کہ لوگوں نےغربت و امیری میں گفتگو کرکے اپنے لیے ایک کو پسند کرلیاہے۔ مگرمَیں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے لیے میرا جمیلِ حقیقی (اللہ عَزَّ  وَجَلَّ )جو پسند فرمائے، اس میں ہی مجھے رکھے۔اگر میرے لیے دولت مند ہوناپسند فرمائے تو مجھے اپنی یاد سے غافل نہ کرے اور اگر غربت  پسند فرمائے ،تو اس میں حرص و لالچ  سے محفوظ رکھے۔‘‘([24])


حکایتوں سے حاصل ہونے والے مدنی پھول

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ا ن دونوں حکایتوں کے ذریعے اساتذہ  اور طلبا دونوں  ہی کے لیے بے شمار مدنی پھول  اپنی  خوشبو بکھیر رہے ہیں ،مثلاً

(۱)اگر طلباء اساتذہ  سے حاصل ہونے والی  نصیحتوں کو غورسے  سن کر  ذہن میں  محفوظ کرلیں  اور انہیں اپنی  عملی زندگی میں نافذ کریں تو یہ انہیں کامیابی تک پہنچانے کے لیےبے حد معاون ثابت ہوں گی ۔

(۲)کوئی بات ذہن نشین کرانے کے لیے اگر  اُس موضوع پر حکایت  سنا دی جائے  تو وہ بات جلد ذہن نشین ہوتی ہے  اور  اس کا اثر بھی ساری زندگی باقی رہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ!امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضویدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی تحریروں ،بیانات اور مدنی مذاکروں  میں اولیاء کرام کے اس خوبصورت  انداز  کو اختیار فرماتے ہوئےعلم و حکمت  سے بھرپور حکایات بیان کرکےنصیحتوں کے مدنی پھول ارشادفرماتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ   دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی نصیحتیں دل و دماغ  میں محفوظ  ہوجاتی ہیں اور اس کا اثر سننے والے کے ظاہر پر بھی نظر آتا ہے ۔

(۳) پہلی حکایت میں قناعت  اور دوسری  حکایت میں  رضائے الٰہی  پر راضی رہنے کی تربیت ہےاوریہ دونوں وصف  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا پسندیدہ بندہ بنانے میں بے حد مُعاون ہیں ۔


(۴) اساتذہ کو چاہیے کہ اپنے طلبہ کی علمی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی تو جہ دیں۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 (۲)حضرت ابو العباس احمد بن محمد اشقانی

حضرت سیدنا ابو العباس  احمدبن محمد اشقانی  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی  بھی  حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےاساتذہ میں سے ہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نیشاپور کے قریب شقان (خراسان شمالی)ایران میں پیدا ہوئے ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  عالم ،مدرس اور شیخ المشائخ تھے ۔ساری زندگی نیشاپور کے  ایک  مدرسے میں تدریس کرتے ہوئے گزاری۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی ظاہری و باطنی علوم میں  یکساں مہارت رکھتے تھے ،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت  سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”مجھے ان سے بے حد محبت ہے ،مجھ پر وہ خُصُوصِی شَفْقَت فرماتےتھے،بعض عُلوم میں  وہ میرے اُستاد ہیں ،جب تک میں اُن کےپاس رہا  ان سے بڑھ کر تعظیم ِشریعت کرنے والا کسی کو نہیں پایا۔“([25])

(۳)حضرت ابو القاسم عبد اللہ  بن علی گرگانی

 حضرت سیّدُنا ابو القاسم عبد اللہ بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست


وَلیُّ اللہ گزرے ہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت۳۸۰ ھ میں گرگان (نزد طوس صوبہ خراسان رضوی) ایران میں ہوئی۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  عالم،صوفی اور صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے ۲۳ صفرالمظفر ۴۵۰ ھ میں وِصال فرمایا۔مزار مبارک تربت حیدریہ صوبہ خراسان رضوی ایران میں ہے۔    آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کوتمام ظاہر ی علوم  پر دسترس حاصل تھی،حسنِ اخلاق میں  بھی بے مثال تھا ،طلباء کی بات نہایت تو جہ اور اطمینان سے سماعت فرماتے  اور ان کی دِلی کیفیت  جان کر اِصلاح فرمایا کرتے ،لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر بے پناہ  اِعتماد کرتے اورہرایک کا دل  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی جانب کھنچا چلا جاتا ، انہی خصوصیات کی بِنا پر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہلِسانُ العَصْر “کے لقب سے مشہور تھے ۔حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کوبھی  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسےفیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔([26])

صحبت سے متعلق  سوال

ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت سَیِّدُناابوقاسم  بن علی گرگانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگا ہ میں عرض کی:شرطِ صحبت کیا ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےارشاد فرمایا:صحبت میں ہر قسم کی آفات موجود ہیں ،کیوں کہ (صحبت کی سب سے بڑی آفت یہ  ہے کہ)ہرایک  اَپنا مَطلب پورا کرنے  کا خواہشمند ہوتا ہے ۔ آسائِش کے


طالب کو صحبت سے تنہائی بہتر ہے ۔( صحبت کی آفتوں سے بچ کرفائد ہ حاصل کرنے کاطریقہ  یہ ہے کہ) بندہ  اپنی خوشی کو ترک کردے اور اپنی مُشکلات میں  خوشی مَحسو س کرے ( یعنی   جب بندہ اپنی خوشیوں   کو چھوڑ کر  مشکلات اور آزمائش پر صبر کرنا  سیکھ جائے  )تو ایسی صورت میں  و ہ صحبت سے فائد ہ اٹھا سکے گا ۔“([27])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی  مسلمان سے  محض ذاتی مفاد کے لیے تعلق رکھنا بہت بڑی آفت ہے اور یہ آفت اپنے ساتھ کئی طرح کی باطنی بیماریوں  کا سبب بن جاتی ہے ،مثلاً اگر آپ نے کسی  اسلامی بھائی  سے کوئی ذاتی کام کہا لیکن  وہ بَرْوقت نہ ہوسکا  تو  یہ عمل بدگمانی کی چِنگاری کو ہوا دیتا ہے جس  سے دل میں  بُغض و کینہ  کا لا وا پکنے لگتا ہے  اور یہ لاوا اِنتقام کی صورت اختیا ر کرجاتا ہے بلکہ بعض اوقات  قتل و غارت گری تک  نوبت  پہنچ جاتی ہے لہذا اگر کبھی  ایسا موقع آئے اوربدگمانی کی چِنگاری سُلگنے لگے تو اسے حُسْنِ ظن کے پانی سے فوراً بجھا دیجیے، صبر کیجیے اور عفوو درگُزر سے کام لیجیے۔ ضرورت پڑنے پر جو اسلامی بھائی آپ  کی مدد نہ کرسکے لیکن کبھی  ان پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے تو انہیں مشکل  میں مُبتلا دیکھ کر ان کی دستگیری ضرور  کیجیے،رضائے الٰہی کے خاطر خیر خواہی  کرنے سے آپ کے بھی بگڑے کا م بن جائیں گے ۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


حضرت سیّدنا خضر   علیہ السلام سے  اکتسابِ فیض

حضرت سیّدُنا  علی خوّاصرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :حضرت سیدنا خضر عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  سے ملاقات کی تین شرطیں ہیں ، جس میں یہ تین شرائط نہ ہوں   وہ  آپ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملاقات نہیں  کرسکتا اگرچہ  جن و انس سے زیادہ عبادت گزار ہو ۔(۱)وہ سنّت  کا عامل ہو، بدعتی نہ ہو۔(۲)دنیا پر  حریص نہ ہو،اگر وہ  ایک روٹی  بھی دوسرے دن کے لیے بچا کر رکھے  تب بھی حضرت سیدنا خضر  عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ملاقات نہیں   کر سکے گا۔(۳)مسلمانوں کے لیے اس کا سینہ بالکل صاف ہو، نہ تو اس کے دل میں کینہ ہو نہ  ہی حسد اورنہ ہی وہ کسی پرتکبر کرتا ہو ۔([28])

حضرت  سیّدُنا داتا گنج بخش علی  ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  عاملِ سنّت ،حرص ِ دنیا سے کوسوں دور اور مسلمانوں کے خیرخوا ہ تھے  اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سیدنا خضر عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے  نہ صر ف  ملاقات فرمائی بلکہ آپ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی صحبت میں رہ کر  ظاہر ی و باطنی علوم حاصل فرمائے  نیز  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی حضرت سیدنا خضر عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بہت ہی گہری دوستی تھی ۔([29])


 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! استاد اگر اپنے فن میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ حُسنِ اخلاق ، خوف ِخدا اور زہد و تقویٰ کا پیکر ہو اور  اس کی  صحبت فکر ِآخرت کی یاد دلائے  تویہ خُصُوصیات یقیناً    شاگرد کی تعلیمی ترقی کے ساتھ  ساتھ روحانی تربیت  کا بھی سبب بنتی ہیں اور  یہی تربیت  شاگرد  کو   وہ آفتاب بنادیتی ہے جس کی روشنی  سے جَہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اور  علم کا نور  ہر طرف پھیل جاتا ہے۔امیر اہلسنت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہفرماتے ہیں :طلبہ ملک  و ملت کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ، مُستقبِل میں قوم کی باگ دوڑ یہی سنبھالتے ہیں ، اگر ان کی شریعت و سنّت کے مطابق تربیت کردی جائے تو سارا مُعَاشَرَہ  خَوْفِ خدا اور عشق ِمُصْطفے کا گہوارہ بن جائے ۔“اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ!اس اہمیت کے پیش ِنظردعوتِ اسلامی نے ”شعبۂ تعلیم “ قائم کیا ہے جس  کے ذریعےمختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کا خصوصی اِہتمام کیا جاتا  ہے،کئی طلبہ و اساتذہ  مدنی اِنْعامات پر عمل اورسنّتوں کی دُھومیں مچانے کے لیے مدنی قافِلوں میں بھی سفر کرتے ہیں۔اگر آپ بھی استاد یا طالبِ علم ہیں اور اپنے اند ر خوف ِ خدا اور عشقِ  مُصطفے  پیدا کرنا چاہتے ہیں تو دعوت اسلامی کےمہکے مہکے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے  ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سلسلہ ٔ طریقت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بزرگا ن ِ دین کا معمول رہا ہے کہ دنیا و آخرت


میں کامیابی کے لیے کسی مُرشدِ کا مل  سے شَرَفِ بیعت ضرور حاصل فرمایا کرتے  یوں ظاہر کی  تعمیر کے ساتھ ساتھ  باطن کی ترقی  کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ۔حضرت سیدنا  داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  خواجہ ابوالفضل محمد بن حسن خُتَّلى ([30]) جنیدی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرید تھے۔

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا شجر ۂ طریقت 9 واسطوں سے حضرت سیدنا على المرتضیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تک پہنچتا ہے۔حضرت سیدنا داتاگنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے شیخِ کامل کا نام حضرت سیدنا ابوالفضل محمد بن حسن خُتَّلى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہے ان کے شیخ کا نام حضرت سیدناابو الحسن علی بن ابراہیم حُصرى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہے ان کے شیخ کا نام حضرت سیدنا ابوبکر شبلىرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہے جو مرید تھے حضرت سیدنا جنىد بغدادى  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِیکے وہ مرید تھے  حضرت سیدنا سَرِى سَقَطى  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے،ان کی بیعت حضرت سیّدُنا معروف کَرْخی سے تھی ،وہ حضرت سیدنا داؤد طائی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرید اور خلیفہ مجاز تھے ۔حضرت داؤد طائی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بیعت  سیدنا حبىب عجمى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےتھی اوروہ مرید تھےحضرت سیدناخواجہ حسن بصرى رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےجنہیں فیضانِ طریقت حضرت سیّدُنا


على المرتضی شیرِخداکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے حاصل ہوا تھا  جن کی پر ورش آغوشِ نبوت میں ہوئی اور جو فیضانِ رسالت سے فیضیاب ہوئے۔([31])

تعارف ِمرشد کامل بزبانِ مریدِ کامل

حضرت سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے مرشدِ کریم  کا مقام و مرتبہ  بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :آئمۂ متأخرین میں سے زینِ اَوتاد(یعنی اوتاد کی زینت)، شیخ عِباد(عبادت  گزار بزرگ)  ہیں ۔ طریقت میں میری ارادت انہی سےہے ۔ آپ علم ِتفسیر  و روایات کے عالم اورتصوف میں حضرت سیدنا جنید بغدادیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے ہم مشرب تھے۔حضرت  سیدنا ابوالحسن علی بن ابراہیم حُصریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مرید،حضرت سَرَّدی (رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ)کے مُصاحب اورحضرت ابوحسن بن سالبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہم عصر تھے۔ساٹھ سال کامل گوشہ نشینی اِخْتیار فرمائی ۔ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ   کی نشانیاں اور بَراہین بکثرت ہیں، لیکن آپ عام صوفیا ء کے رسم و لباس کے پابند نہ تھے ، اہلِ رسوم سے سخت بیزار تھے  میں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بڑھ کرکسی اور کا رُعب و دبدبہ نہیں دیکھا۔([32])

توکل کی برکت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مُرشد کی صحبت میں رہ کر دانا مرید سیکھتا  اور


اپنی  اِصلاح کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ پڑھ کر بھی  علم  حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن  مرشد کی ادا ؤں کو  ذہن میں محفوظ ر کھ کر موقع بہ موقع تصورِ مرشد  کرنے سے  اس علم پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اپنے  مرشد  کی اداؤں  کو بغور مُلاحظہ فرماتے اور حسبِ موقع  مُرشد کے عمل کی حکمت پوچھ کراسے ذہن نشین فرمالیتے  چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بیان فرماتے ہیں: ایک دن میرے مرشدِ بر حق نے بَیْتُ الجِن سے دمشق جانے کا ارادہ فرمایا۔ بارش  کی وجہ سے مجھے کیچڑ میں چلنے میں  دشواری ہو رہی تھی مگر جب میں نے اپنے مرشد کی طرف دیکھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے کپڑے اور جو تیاں خشک تھیں ،میں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں عرض کی(اور اس حیرت انگیر واقعے کی  حکمت دریافت کی ) تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد  فرمایا : ہاں ! جب سے میں نے تَوَکُّل کی راہ میں اپنے قصدو ارادے  کو ختم کر کے باطن کو لالچ کی وَحْشَت سے محفوظ  کیا ہے اس وقت سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے کیچڑ سے بچا لیا ہے ۔([33])  

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!حضرت  سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مُرشِد کی عبادت و ریاضت اور دنیا سے بے رغبتی  کی کیا بات ہے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے مُرشد کے احوال جس خوبصورت انداز میں بیان فرمائے ہیں اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکس طرح اپنے مُرشِد کی


اداؤں کو اپنے ذہن میں نقش فرما لیا کرتے  تھے ،پیر و مُرشد کا تصور اور تذکرہ مرید کے لیے مفید ترین ہے  کیوں کہ یہ بھی نیک بننے کا ایک ذریعہ ہے۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے  کہ جب تک مرید اپنے مرشِد کی ذات میں خودکو گم نہیں کرتا اس کے لیے کامیابی پانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ تصورِ مرشِد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنے دل میں مرشِد کی مَحبت بڑھائیےکیوں کہ جتنی مَحبت زیادہ ہوگی تصورِ مرشد  میں اتنی ہی  آسانی ہوگی۔کاش!  ہماری سوچ کا محورمرشِد کی ذات  بن جائے  ان کے ہرہر انداز، عادت اورعمل کو بغور دیکھ کر اپنانے کی کوشش کرنا ہمارا معمول بن جائے اس طرح چلنے پھرنے ،کھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے  وغیرہ میں مرشد کا انداز اپنا نے کا موقع میسر آئے گا  اور اس کی برکت سے ہماری بری عادتیں بھی نکلیں گی ،فیضانِ مرشد سے مشکلات آسان ہوں گی اورہمارا ظاہر و باطن  حسن ِ اخلاق  کے نو ر   سے  مُنَوَّر ہوگا ۔

مرشدِ کریم کے مدنی پھول

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!انسان کو جس سے جتنی مَحبت ہوتی ہے اس کا ذکر بھی اتنی ہی کثرت سے کرتا ہے۔ مرشد سے محبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مرید ان سے ظاہر ہونے والی برکتوں کا خوب تذکرہ کرے اوراُن کے مَلْفوظات کی خوب اِشاعت کرے ۔ حضرت سیّدنا داتا گنج علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی مایہ ناز کتاب کشف  المحجوب میں  مرشد کے ملفوظات نقل فرمائے ہیں،آپ بھی


مُلاحظہ کیجیے:

(۱)بیکاری کی علامت

حضرت سیّدناابوالفضل  محمد بن حسن خُتَّلىرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے مرىدوں کو کم بولنے اور کم سونے کی تاکید فرماتے  چنانچہ حضرت  سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا فرمان نقل  فرماتے ہیں :’’نیند کے غلبے کے وقت سونا چاہئے اور جب بیدار ہو جاؤ تو (بلاوجہ دوبارہ سونےکى کوشش نہ کرو، کىونکہ ىہ) مرىد کے لیےحرام ہے اور بىکارى کى نشانى ہے۔“([34])  

(۲)ایک دن کی زندگی

حضرت سیّدنا ابوالفضل محمد بن حسن خُتَّلى  دنیا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اَلدُّنیا یَوم ٌوَ لَنا فِیہَا صَومٌ یعنی دنیا ایک دن کی ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔([35])

 مرشد نے دستگیری فرمائی

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویر یرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی براہ ِراست  دستگیر ی بھی فرمائی  چنانچہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتحریر فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں وضو کرتے  وقت آپ کے ہاتھوں پر  پانی


ڈال رہا تھا ، میرے دل میں خیال گزرا کہ جب تمام کام قسمت و تقدیر پر منحصر ہیں تو آزاد لوگ کیوں کرامت (یعنی عزت) کی خواہش میں مُرشد کے غلام بنے پھرتے ہیں؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اے فرزند!جو خیالات تمہارے دل میں گزررہے ہیں میں نے جان لیے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر حکم کے لئے کوئی سبب ہوتا ہے جباللہ عَزَّ وَجَلَّکسی سپاہی کے بیٹے  کو تاج و تخت عطا فرماتا ہے تو وہ اسے توبہ کی توفیق دے کر کسی دوست و محبوب کی خدمت کی سعادت  عطا فرماتا ہے تاکہ یہ خدمت اس کی کرامت( یعنی عزت) کا سبب بنے۔([36])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ پیر و مرشد نے حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کیسی دستگیری فرمائی۔ اس حکایت سے یہ مدنی پھول بھی حاصل ہوا کہ  مرشد کی بارگاہ میں  مرید کو ہمیشہ شفقت کا   طالب رہنا چاہیے اور اگر مرید بدظن ہوکر پیر پر اعتراض کرتا پھرے تو یہ بدگمانی اور اِعتراض اُسے نعمتِ الٰہی سے محروم کردینے کے لیے کافی ہے لہذا جتنا بھی بڑا مقام و منصب  حاصل ہواُسے پیر ہی کی عطا سمجھنا چاہیے۔

سدا پیر و مرشد رہیں مجھ سے راضی

کبھی   بھی  نہ ہوں  یہ خفا یا       الٰہی

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


مرشد کی آخری نصیحت

 حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  جب بوقت ِوصال  اپنے مرشدِ کریم کی بارگاہ میں  حاضر ہوئے تو  مُرشدِ کریم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے   پُرسکون زندگی  گزارنے کا یہ مدنی پھول آپ  کی جانب بڑھایا :یاد رکھئیے! ہر جگہ اور ہر حال اللہ عَزَّ وَجَلَّکا پیدا کردہ ہے ۔ خواہ نیک ہو یا بد ، ہمیں چاہیے کہ  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی پیدا کردہ کسی بھی  چیز سے  خصومت( یعنی عدوات و دشمنی) نہ رکھیں اور نہ ہی  کسی  کی جانب سے ملنے والے رنج  و غم کو دل میں جگہ دیں۔“([37])   

 سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ!آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےكس قدر خوبصورت مدنی پھول   عطافرمایاکہ کسی  کے لیے اگر ہم اپنے دل میں نفرت کے بچھو پالتے رہیں گے  تو ان کا  زہر   بغض و کینہ ، عداوت  و دشمنی  اور  بدگمانی  کی صورت  میں دماغ پر حاوی آکر  اخلاق و کردار  میں بگاڑ پیدا کردے گا  یوں ہماری زبان  غیبت  و چغلی   وغیرہ کے شعلے اُگلے گی۔ مَعْلوم ہوا کہ کسی کے لیے  بھی دل میں  مَعمولی نفرت کو جگہ دینا کس  قدر مُہلک اور تباہ کُن ہے لہذا آپ بھی اپنے دل  میں مسلمان کے لیے محبت پیدا کیجیے اور اگر خدا نخواستہ  کسی مسلمان سے  تکلیف پہنچے  یاشکر  رنجی پیدا  ہوہی جائے توصبر کیجیے اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  خود آگے بڑھ کر  معافی مانگ لیجیے  اس کی برکت سے   ثواب کا خزانہ بھی ہاتھ آئے گا او ر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے اس اسلامی بھائی


 کے دل میں آپ کی قدر مزید بڑھ جائے گی ۔

تمہیں  معلوم  کیا بھائی خدا کا کون ہے مقبول

کسی سنی کو مت دیکھو کبھی بھی تم حقارت سے

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سیرو سیاحت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ والوں  کی زیارت اور مزاراتِ اولیا ء  سے استفادے کی غرض سے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا ایسا مجاہدہ ہے  جو مشاہدے کی دولت سے نوازتا ہے ۔ حضرت  داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ مجاہدہ بھی حدِّ  کمال کو پہنچا دیا ،قریباً تمام عالمِ اسلام کی سیاحت اور وقت کے اَعَاظِم مشائخ  و صوفیہ سے اکتسابِ فیض کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے شام ،عراق ، بغداد،آذربائیجان ،طبرستان،کرمان،خراسان ماوراء النہراور ترکستان وغیرہ کا سفر فرمایااور  بزرگوں سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ۔

سفر وسیلۂ ظفر

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ایک کامیاب مبلغ  کے لیے  وَسِیْع علم ، فکرونظر کی پختگی  اور انسانی طبیعت  کا گہرا مُطَالْعَہ  نہایت ہی ضروری ہے  اور وُسْعَتِ علم  اور سوچ و فکر میں پختگی تو  اساتذہ کی تربیت اور ذاتی مطالعے سے حاصل کی جاسکتی ہے لیکن  انسانی طبیعت کا گہر ا مطالعہ،سفراور کثیر لوگوں سے


 ملاقات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔  اور یہ مطالعہ جہاں مُبلغ کے تجربے میں  اضافہ  کرتا ہے  وہیں  اس کی گفتگو  کو مؤثر اور پُر دلیل بھی بنا دیتا ہے اور اس سفر کی بدولت مبلغ کو اپنی ذات میں خوف ِخدا  اور تکالیف و مشکلات  برداشت کرکےصبر و شکر وغیرہ جیسے اوصاف پیدا کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ حضرت سیّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے بھی کئی ملکوں  کا سفر فرمایا  اور بہت سارے تجربات  حاصل کیے ا ٓپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے سفر کی دوحکایات ملاحظہ کیجیے :

(۱)بھوکے شیر کا ایثار

 

حضرتِ سیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:”میں نے شیخ احمد حمّادسَر خسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسے ان کی توبہ کا سبب پوچھا ، تو کہنے لگے:ایک بار میں اپنے اُونٹوں کو لے کر سَر خَس سے روانہ ہوا ۔ دورانِ سفر جنگل میں ایک بُھوکے شیرنے میرا ایک اُونٹ زخمی کر کے گرا دیا اور پھر بُلند ٹیلے پر چڑھ کر ڈَکاڑ نے لگا، اُس کی آواز سنتے ہی بَہُت سارے دَرِندے اِکٹّھے ہو گئے۔شَیر نیچے اُترا اور اُس نے اُسی زَخمی اُونٹ کوچِیرا پھاڑا مگر خود کچھ نہ کھایا بلکہ دوبارہ ٹیلے پر جا بیٹھا ، جَمْعْ شُدہ درِندے اُونٹ پر ٹوٹ پڑے اور کھا کر چلتے بنے، باقی ماندہ گوشْتْ کھانے کیلئے شَیر قریب آیا کہ ایک لنگڑی لُومڑی دُور سے آتی دِکھائی دی، شیر واپَس اپنی جگہ چلا گیا۔ لُومڑی حسبِ ضَرورت کھا کر جب جا چکی تب شیر نے اُس گوشت میں سے تھوڑا سا کھایا ۔ میں دُور سے یہ سب دیکھ رہا تھا ، اچانک شیر نے میرا رُخ کیا


اور بَزَبانِ فَصِیْح بولا:” احمد ! ایک لُقْمہ کا ایثار تو کُتّوں کا کام ہے مَردانِ راہِ حق تو اپنی جان بھی قربان کر دیا کرتے ہیں ۔ “میں نے اِس انوکھے واقِعہ سے مُتَأَثِّر (مُتَ۔ ءَ ثْ۔ ثِرْ)ہو کر اپنے تما م گناہوں سے توبہ کی اور دنیا سے کَنارہ کَش ہو کر اپنے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے لَو لگا لی۔([38])  

کھانے کیلئے جینا

امیر اہلسنّت،بانیٔ دعوتِ اسلامیدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  اپنی مایہ ناز تصنیف فیضانِ سنّت(جلد اوّل)صفحہ 736 پر فرماتے ہیں :میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! نَفْس کو مارنا بَہُت ہی مشکِل اَمْر ہے۔ بس کسی طرح اِس کو قابو کرنے کی کوشِش کرنی چاہئے اور اِس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نَفْس جو کہے اُس کا اُلَٹ کیا جائے ۔ مَثَلاً وہ اچّھے اچّھے کھانوں، چَٹپَٹے چَٹخاروں کا مشورہ دے یا ڈٹ کر کھانے کی ترغیب دلائے اُس وقت اِس کی نہ مانے، صِرْف حسبِ ضَرورت ہی کھائے ۔ حُضُور داتا صاحِب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :بھوک صدِّیقین کی غذا اور مریدوں کی راہ سلوک ہے۔ پہلے لوگ زندہ رہنے کے لئے کھاتے تھے مگر تم کھانے کیلئے زندہ ہو۔([39])  

(۲)دل کی بات جان لی

 

  شیخِ طریقت،امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فیضانِ سنّت جلد اوّل صفحہ


419 پر تحریر فرماتے ہیں:حضرت داتا گنجِ بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ہم تین اَحباب حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابنِ مَعلارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زِیارت کے لئے ”رملہ“نامی گاؤں کی طرف چلے۔ راستہ میں یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر شخص کوئی نہ کوئی مُراد اپنے دل میں رکھ لے۔ میں نے یہ مُراد رکھی ، مجھے حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابنِ مَعلا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے حُسین بن منصور حَلّاج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مُناجات اور اَشعار دَرکا ر ہیں۔ دُوسرے نے یہ مُرادطے کی کہ مجھے تلّی کی بیماری سے شِفا حاصِل ہو جائے۔ تیسرے نے کہا: مجھے حلوہ صابُونی کھانے کی خواہِش ہے۔ جب ہم لوگ حاضِرِ خدمت ہوئے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرتِ سیِّدنا حُسین بن منصور حَلّاج رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اَشعار اور مُناجات لکھوا کر میرے لئے تیّار رکھے تھے جو مجھے عطا فرما دیئے۔ دوسرے دَرویش کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اُس کی تِلّی کی تکلیف دُور ہوگئی ۔ تیسرے سے فرمایا: صابُونی حلوہ شاہی درباروں کی غذا ہے مگر آپ نے لباسِ صُوفیا پہن رکھا ہے! دو میں سے ایک چیز اختیار کیجئے۔([40])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھاآپ نے اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عطا سے اولیاءُاللہ لوگوں کے دلوں کے اَحوال جان لیتے ہیں، جبھی تو حضرتِ سیِّدُنا شَیخ ابنِ عَلا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بِغیر پوچھے حُضُور داتا گنج بَخش حضرتِ سیِّدُنا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاوران کے اَحباب کی دِلی مُراد یں بیان کر دیں اور دو کی مُراد یں


پوری فرما کر تیسرے کو اِصلاح کا مَدَنی پھول عنایت فرمایا یہ بھی معلوم ہوا کہ  جب  بھی علماء کی بارگاہ  میں حاضری ہو تو زبا ن سنبھالنی چاہیے اور جب کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ولی کی بارگاہ میں حاضری ہو تو دل  سنبھالنا چاہیے ۔اس بات کو ذہن نشین کرنے لیےحضرت داتا گنج ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نقل کردہ حکایت ملاحظہ کیجیے:

مرشد سے بداعتقادی کے سبب  چہرہ سیاہ ہوگیا

حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی  کا ایک مرید کچھ بد اعتقاد ہو گیا اور سمجھا کہ اسے بھی مَقامِ معرِفت حاصل ہوگیا ہے اب اسے مرشِد کی ضَرورت نہیں رہی۔ لہٰذا وہ خاموشی سے حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی کی بارگاہ سے منہ موڑ کر چلا گیا۔ پھر ایک دن یہ دیکھنے اور آزمانے آیا کہ کیا حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِیاس کے دل کے خیالات سے آگاہ ہیں یا نہیں؟ ادھر حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِینے بھی نورِ فراست سے اس کی حالت ملاحظہ فرما لی۔ چنانچہ جب وہ مرید آیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے ایک سوال پوچھاجس كا یہ جواب ارشاد فرمایا:” کیسا جواب چاہتا ہے،لفظوں میں یا معنوں میں؟ بولا: دونوں طرح۔ تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اگر لفظوں میں جواب چاہتا ہے تو سن! اگر مجھے آزمانے سے پہلے خود کو آزما اور پرکھ لیتا تو تجھے مجھے آزمانے کی ضرورت پیش نہ آتی اور نہ ہی تو یہاں مجھے آزمانے آتا۔ معنوی جواب یہ ہے کہ میں نے تجھے منصبِ ولایت سے معزول کیا۔ “یہ فرمانا تھا کہ اس مرید کا چہرہ سیاہ ہو


گیا۔وہ  آہ و زاری کرتےہوئے عرض گزار ہوا: حضور یقین کی راحت میرے دل سے جاتی رہی ہے۔ پھر توبہ کی اور فضول باتوں پر بھی ندامت کا اظہار کیا تو حضرت سیّدنا جنید بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: تو نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ولی والیانِ اسرارِ الٰہی ہوتے ہیں، تجھ میں ان کی ضرب کی برداشت نہیں۔([41])   

(۳)بیس سال مسلسل قیام فرمانے والے بزرگ

حضرت سيدناداتا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں :مَیں خراسان کے ایک قصبہ پہنچا جسے ’’کُمند‘‘ کہتے ہیں۔ وہاں حضرت ادیب کمندی(رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) نامی ایک  مشہور بزرگ تھے ۔ آپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)بیس سال برابر قیام میں رہے تَشَہُّدِ نماز کے سوا کبھی نہ بیٹھے۔ آپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ) سے میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)  نے ارشاد فرمایا: ابھی میرا وہ درجہ نہیں کہ حضورِ حق کا مُشاہدہ بیٹھ کر کروں۔([42])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

داتا صاحب اور حاضریٔ مزارات

    میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! اَوْلِیاءُاللہکےمزارات پرحاضری دینے کی برکت سے  دعائیں قبول ہوتی ہیں، مشکلات و مصائب  سے نجات ملتی ہے اور خاص


اس نظریے سے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی  کے مزارات پر جانا بھی ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُناداتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بھی معمول تھا کہ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کے مزارات پر حاضری دیتے ، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے مزارات پر حاضری کے مُتَعلِّق اپنے کئی واقعات اپنی مشہورو معروف کتاب”کَشفُ المَحجُوب“میں درج کیے ہیں۔  چند واقعات ملاحظہ کیجیے:

٭...چنانچہ ایک بارحضرتِ سِیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ملکِ شام میں مؤذنِ رسول، حضرتِ سَیِّدُنا   بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کےمزار پر حاضر تھے۔ وہیں آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بحالتِ خواب تاجدارِ مدینہ، قرارِقلب وسینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اوران کے ساتھ کروڑوں حنفیوں کے امام،حضرتِ سَیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زیارت کی۔([43])  

٭...مزید فرماتے ہیں :ایک بارمجھے ایک(دینی) مُشْکِل درپیش ہوئی،میں نے اس کے حل کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا، اس سے قبل بھی مجھ پر ایسی ہی مُشْکِل آئی تھی تو میں نے حضرتِ شیخ بایزیدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزار شریف پرحاضری دی تھی اور میری وہ مُشْکِل آسان ہو گئی تھی۔ اس مرتبہ بھی میں نے ارادہ کیا  کہ وہاں حاضری دوں۔اسی نیت سے تین ماہ تک مزار مبارک پر چلہ کشی


کی، تاکہ میری مُشْکِل حل ہو جائے۔([44])   

٭...حضرت ابوالعباس قاسم بن مہدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں حُضُورداتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِرْشاد فرماتے ہیں:آج تک ان کا مزار ”مَرْوَ“ میں مَوْجود ہے اور بہت مشہور و معروف ہے،لوگ وہاں مرادیں مانگنے جاتے ہیں اور بڑی بڑی مشکلات حل کرنے کےلیے ان سے طالبِ امداد ہوتے ہیں اور ان کی امداد کی جاتی ہے، یہ بات بہت مُجَرَّب (یعنی کئی بار کی آزمائی ہوئی) ہے۔([45])  

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اولیائے کرام حیات ہیں

    میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! دیکھا آپ نے !سَیِّدُنا داتا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ نہ صرف مزارات پر جانا باعثِ برکت ہے بلکہ وہاں مشکلات بھی حل ہوتی ہیں۔ اور یقیناً یہ سب صاحبِ مزار ہی کا فیضان ہوتا ہے۔ممکن ہے کسی کو یہ وسوسہ آئے کہ  اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کایہ فیض کیسے مل سکتا ہے؟ کیونکہ وہ تو وفات پا چکے ہوتے ہیں۔یاد رکھئے! اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی ربِّ کائنات  عَزَّ  وَجَلَّ کی عنایات سے مَزارات میں نہ صرف حیات ہوتے ہیں


بلکہ زائرین  کی ہدایت و اِعانت (مدد)بھی فرماتے ہیں۔

حضرت سَیِّدُناامام اسماعیل حقیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: انبیاء، اولیاء اور شہداء کے اَجسام قبروں میں بھی نہ تو مُتَغَیّر ہوتے ہیں اور نہ ہی بوسیدہ ہوتے ہیں،کیونکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ان کے جسموں کو اس خرابی سے جو گوشت کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوتی ہے ،محفوظ رکھا ہے۔([46])

مصنفِ کُتُبِ کثیرہ حضرت شیخ عبدُالحق مُحدثِ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ہمارےزمانے میں  وہ بدترین مخلوق بھی پیدا ہوچکی ہے  جودار فانی سے دَارِ بَقا کی طرف کوچ کرجانے والے اَوْلِیاءُاﷲ سے اِستمداد اور اِستِعانَت کی منکر ہے وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں  مگر لوگوں کو اس کا شعور نہیں،وہ (یعنی بدترین مخلوق)اولیاءِ کرام  کی جانب مُتَوَجّہ رہنے والوں کو مشرک سمجھ کر بُت پرستوں جیسا  قرار دیتے ہیں  اور  بہت سی خرافات بک دیتے ہیں ،انہیں اس کی حقیقت کا کچھ علم نہیں  وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔([47]) ایک  اور مقام پر فرماتے ہیں :امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: حضرت سیّدنا موسیٰ کاظمرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے مزار پر حاضری قبولیت ِ دعا کے لیے  بےحد مجرب ہے ۔حضرت سیّدنا امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: جن سے حیات میں مدد طلب کی جاسکتی ہے ان تما م سے بعدِ


وفات بھی  مد د  طلب کی جاسکتی ہے ۔مشائخ عظام  رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کا فرمان ہے : چار  بزرگ وہ ہیں جو اسی طرح تصرف فرماتے ہیں جیسے  اپنی زندگی میں تصرف فرمایا کرتے تھے (وہ وفات پانے کے بعد حیات سے ) کئی گنا زیادہ تصرف فرماتے ہیں: حضرت سیدنا مَعروف کرخی حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَااور دو ان کے علاوہ ہیں۔([48])  

حضرتِ علامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:اَوْلِیاءُاﷲ کی دونوں حالتوں(حیات وممات) میں اصلاً(کوئی ) فرق نہیں،اسی لیے کہا گیا ہے کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں تشریف لے جاتے ہیں۔([49])  

حاضریِ مزارات برکت  کا سبب

    میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو! ان جلیل القدر ائمۂ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی تصریحات سے یہ معلوم ہوا کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ،شہدائے عظام اور اولیائے ربِّ سلام رَحمَۃ ُاللّٰہُتَعَالٰی عَلَیْہم اَجمَعِین  سب اپنے اپنے مزارات میں زندہ ہوتے ہیں اور تصرف بھی فرماتے ہیں۔اسی لیے صرف عوام ہی  نہیں بلکہ بڑے بڑے علما اور فضلا  کا یہ معمول رہاہے  کہ وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کے مزارات پر حاضری دیا کرتے تھے۔ آئیے اس بارے میں


چار ایمان افروز اقوالِ بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی  ملاحظہ فرمائیے:

1.  چنانچہ اپنے زمانے میں حَنابِلہ (یعنی فقہ حنبلی کے پیروکار)شیخ امام ابو علی حسن بن ابراہیم خَلّال رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:  مجھے جب کوئی معاملہ درپیش ہوتاہےمیں امام موسیٰ کاظم بن جعفر صادق (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) کے مزار پر حاضر ہوکر آپ کا وسیلہ پیش کرتاہوں ۔ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ میری مشکل کو آسان کر کے مجھے میری مراد عطا فرمادیتاہے ۔([50])

2.  جبکہ کروڑوں شافِعِیوں کے پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امامِ شافِعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تومیں دورَکَعْت نَماز ادا کرکے امامِ اعظم ابو حنیفہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزارِ پُر انوار پر جاکر دعا مانگتا ہوں،  اللہ عَزَّ  وَجَلَّ میری حاجت  جلد پوری کردیتا ہے۔([51])  

3.  حضرت سیِّدُنایحییٰ بن سلیمانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ مجھے ایک حاجت تھی اورمیں کافی تنگدست بھی تھا۔میں نے حضرت معروف کَرخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی قبرِ اَنور پر حاضری دی، تین بارسورۂ اِخلاص کی تلاوت کی اوراس کا ثواب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاور تمام مُسلمانوں کی اَرْواح کو پہنچایا پھر اپنی حاجت بیان کی۔ جُونہی میں وہاں سے واپس آیا


میری حاجت پُوری ہو چکی تھی۔([52])   

4.  جلیل القدر محدث حضرت علامہ عبدالرحمٰن بن علی جوزی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینقل فرماتے ہیں :حضرت سیّدنا معروف کرخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزار کی حاضری تریاق اور  مجرب عمل ہے۔ حضرت سیّدنا عبدالرحمٰن بن محمد زہری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :حضرت سیّدنا معروف کرخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مزار کی حاضری قضائے حاجات کے لئے  مجرب ہے اور جو کوئی ان کے مزار کے پاس سو مرتبہ سورہ ٔاِخلاص کی تلاوت کرے  پھراللہ عَزَّ وَجَلَّ  سے  سوال کرے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ  اس کی حاجت کو پورا فرمادے گا ۔([53])

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مرکزالاولیاء لاہور تشریف آوری

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!حضر تِ داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے حصولِ معرفت کى خاطر بے حد عبادت ورىاضت کى ،رضائے الٰہى کے لئے اُونی لباس پہنا،مَحبَّتِ الٰہى مىں فقرو فاقہ اختیار کىا اور عشقِ حقىقى میں ثابت قدمی کی خاطر مصائب و مشکلات میں صبروضبط سے کام لىا اور اپنے  وقت کے جلیل القدر علما و مشائخ


سے  اکتساب ِ فیض کیابالآخراللہعَزَّ  وَجَلَّ  کے فضل سے آپ کی معرفت کی تکمىل ہوئی۔

 حضرت احمدحماد سرخسی اور حضرت ابوسعید ہجویری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کو ساتھ لے کرتىن افراد کے قافلہ کى صورت مىں (مرکزُالاولیا)لاہور کى طرف چل دىئے اور ان  کٹھن راستوں سے  ہوکریہاں تشریف لائے ۔([54]) اور بیرون بھاٹی دروازہ قیام فرمایا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  کفر  وشرک کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس شہر کو  نورِ اسلام سے روشن فرمادیا۔یہی وجہ ہے کہ  حضرت سیدنا مجدد اَلْفِ ثانی شیخ احمد سرہندیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی وجہ سے(مرکزالاولیاء) لاہور کو پاک و ہند کے تمام شہروں کا قطب قرار دیتے ہوئے فرمایا:اس شہر کی برکت پور ے ہندمیں پھیلی ہوئی ہے ۔([55]) سَیِّدُنا  داتا گنج بخش علی ہجویری  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کوششوں سے اسلام کا قلعہ بن گیا،آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےحسنِ اخلاق،حسنِ کردار اور نرم گُفْتار سے  کئی دلوں میں آپ کی مَحَبَّت راسخ ہوگئی۔لاہور میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قیام کی مدت تقریباً تیس سال سے زائد  ہے۔([56])  اس تمام عرصے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہشب و روز نیکی کی دعوت  میں مشغول رہے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بے داغ


سیرت، دلکش گفتگو، پرنور شخصیت اور دلوں میں اُتر جانے والے علم و حکمت سے بھرپور ملفوظات لوگوں کو کفر اور گمراہی کی دلدل سے نکال کر ہدایت کی راہ پر گامزن کرتے رہے۔

 مرکزالاولیاء لاہور میں مسجد کا سنگ بنیاد

میٹھے میٹھے ا سلامی بھائیو! مساجد کو دینِ اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ قرآن و سنّت کی تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہیں اور مسلمان یہاں انفرادی و اجتماعی طور پر اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت کرتے ہیں۔ چنانچہ مساجد کو آباد کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ (پ۱۰، التوبۃ:۱۸) 

ترجمۂ کنز الایمان: اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔

 مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان ’’تفسیرِ نعیمی‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’خیال رہے کہ مسجد آباد کرنے کی گیارہ صورتیں ہیں: (۱)مسجد تعمیر کرنا(۲) اس میں اضافہ کرنا(۳) اسے وسیع کرنا(۴) اس کی مرمت کرنا(۵) اس میں چٹائیاں، فرش وفروش بچھانا (۶) اس کی قلعی چونا کرنا (۷) اس میں


روشنی و زینت کرنا (۸) اس میں نمازو تلاوت قرآن کرنا(۹) اس میں دینی مدارس قائم کرنا (۱۰) وہاں داخل ہونا، وہاں اکثر جانا، آنا، رہنا (۱۱) وہاں اذان وتکبیر کہنا، امامت کرنا۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’مسجد بنانے یااسے آباد کرنے یاوہاں باجماعت نماز اداکرنے کا شو ق صحیح مومن کی علامت ہے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ایسے لوگوں کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔‘‘([57])  

مرکزالاولیاء  لاہور میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی قیام گاہ  بیرون بھاٹی دروازہ کے پاس ہی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا  اور نہ صرف مالی طور پر مدد فرمائی بلکہ اس کی تعمیر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے خود مزدوروں کی طرح کام کیا اور بڑی مَحَبَّت اور لگن سے اس کی تعمیر میں پیش پیش رہے ۔([58])  

مسجد بھرو تحریک

شیخِ طریقت،امیر اَہلسنّت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے اپنےعطا کردہ مدنی مقصد’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔‘‘ کی تکمیل کے لئے ہر وہ کام کیا جو  مخلوق کو خالقِ حقیقی سے قریب کر دے۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے انفرادی اصلاح کی کوشش کے لئے جو مَدَنی انعامات کا گلدستہ پیش کیا اس میں اچھی اچھی نیتوں کے بعد سب سے پہلے جو مَدَنی انعام ذکر کیا وہ یہ


ہے: ’’کیا آج آپ نے پانچوں نَمازیں مسجِد کی پہلی صف میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ باجماعَت ادا فرمائیں؟ نِیز ہر بار کسی ایک کو اپنے ساتھ مسجِد لے جانے کی کوشش فرمائی؟‘‘ شیخِ طریقت، امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکے اس عطا کردہ مدنی انعام سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی عبادت اور مساجد سے کس قدر محبت فرماتے ہیں۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنےاللہ عَزَّ وَجَلَّکے مذکورہ فرمان پر عمل کرتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے گھروں کو آباد کرنے کے لیے مَجْلِس خُدَّامُ الْمَسَاجِد بنائی جس کا کام شیخ طریقت، امیر اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکے اس خواب کی تکمیل ہے کہ ”اے کاش! ہماری مساجد آباد ہو جائیں، ان کی رونقیں پلٹ آئیں اور خالق و مخلوق کے درمیان نفس و شیطان کی وجہ سے جو دوری پیدا ہو چکی ہے وہ قُرْب میں بدل جائے۔“ مجلس ’’خُدَّامُ الْمَسَاجِد‘‘پرانی مساجد آباد کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ نئی مساجد کی تعمیر کے لیے بھی ہر وقت کوشش کرتی رہتی ہے یہی  وجہ ہے کہ  نہ صر ف پاکستا ن بلکہ دنیا بھر میں مساجد کی تعمیرات اور ان  کو آباد کرنے کا سلسلہ ہر وَقْتْ جاری رَہتا ہے۔

مسجدیں آباد ہوں اورسنتیں بھی عام   ہوں

 

فیض  کا دریا بہا دوسرورا  داتا      پیا

مرکزالاولیاء لاہور سے کعبہ دکھا دیا

حضرت سیّدُناداتا گنج بخش علی ہجویریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہمرکزالاولیاء لاہور تشریف لاتے ہی اپنی قیام گاہ کے ساتھ جو مسجدتعمیر کروائی اُس مسجدکی محراب


دیگر مساجدکی بہ نسبت جنوب کی طرف کچھ زیادہ مائل تھی لہٰذا مرکزالاولیا لاہور میں رہنے والے اس وقت کے علماء کو اس مسجدکی سمت کے مُعاملے میں تشویش لاحِق ہوئی چنانچہ ایک روز  آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے تمام  علماء کو اُس مسجد میں جمع کیا اور خود امامت کے فرائض انجام دیئے،نماز کی ادائیگی کے بعد حاضرین سے فرمایا:’’دیکھئے  کہ کعبہ شریف کس سمت میں ہے؟‘‘یہ کہنا تھا کہ مسجد و کعبہ شریف کے درمیان جتنے حجابات تھے سب کے سب اُٹھ گئے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کعبہ شریف محرابِ مسجدکے عین سامنے نظر آرہا ہے۔([59]) حضرت سیدنا داتا گنج بخش ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی اس کرامت کے تحت  صاحبِ فتاوی فیض الرسول حضرت مفتی  جلال الدین امجدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: اس واقعہ سے معلوم ہوا  کہ داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا  خو د اپنے بارے میں بھی یہ عقید ہ تھا کہ میں علم غیب رکھتا ہوں ۔ درمیان میں ہزاروں  حجابات ہونے کے باوجود کعبۂ معظمہ کو یہیں سے دیکھ رہا ہوں اور ضر ور ت پڑنے پر دوسروں کو بھی دکھا دیتا ہوں ۔([60])

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!           صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

نائب حاکم داتا علی ہجویری کے قدموں میں

حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دور میں


مرکزالاولیاء لاہور کا نائب حاکم رائے راجو دل میں اسلام کے خلاف بڑی عداوت رکھتا تھا ، مگر بظاہر مسلمانوں کے ساتھ نہایت نرمی سے پیش آتا ۔لوگوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں  اس کے بارے میں کچھ عرض کی تو  آپ نے اللہ  عَزَّوَجَلَّ سے اس کی سخت دلی کو نرمی  میں بدلنےکی دعا کی۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کے ولی  کی دعا قبول ہوئی  اور  اس نے آپ کی بارگاہ میں آکر  اسلام قبول کرلیا  اور ساری عمر داتا  گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے عالی شان دربار  کا ہوکر رہ گیا۔اپنی ساری زندگی  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت کرتے ہوئے گزاری۔ فیضانِ داتا اگلی نسلوں میں بھی منتقل  ہوایہاں تک کہ آج تک ان کی اولاد درگاہ اور مسجد کی دیکھ بھال اور خدمت کے فرائض میں مصروف ہے ۔داتا  گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے رائے راجو کو شیخ ہندی کا خطاب عطافرمایا جو آگے چل کر نامور بزرگ ہوئے اور آج تک عزت کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں، ان کا مزار بھی درگاہ شریف میں موجود ہے۔([61])

کا ش پھر لاہور میں نیکی کی دعوت عام  ہو

فیض  کا دریا  بہا دو   سر ورا      داتا    پیا

شب و روز کے معمولات

حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  دن میں تدریس  فرماتے  اور رات میں  حق کے مُتلاشی افراد کو تلقین فرماتے  جس کی بدولت  ہزاروں  بے علم


فیضان علم سے  سیراب ہوکر ”عالم “اورہزاروں کفار”مسلمان “ہوئے،ہزاروں گمراہ راہ راست پر آئے،ہزاروں  دیوانے دولت  ِ عقل  اور دانشواری   سے سرفراز ہوئے ، ہزاروں ناقص کامل ہوئے ۔دور دور سے علماء و مشائخ  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں  آکراپنے مَن کی مراد پاتے ۔([62])  

 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شب وروز کے مَعمُولات  دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  اپنی ذات کو نیکی کی دعوت اور اِشاعتِ علمِ دین کے لیے وقف فرمادیا تھا ،آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اخلاق  کی کشش ، اخلاص کی چاشنی  اور علم  کا نور مخلوقِ خدا کو آپ کی جانب کھینچ  لاتا۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ   میں  آنے والامَن کی مرادیں  پاتا  اور علم و حکمت کے موتی اپنے  دامن میں سمیٹ کر لے جاتا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّ  وَجَلَّ!امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو فیضانِ داتا علی ہجویر ی  کی بدولت وہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا  ہے کہ  آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی بارگاہ میں  بھی  آکر  کئی لوگوں نے اسلام  کی نعمت حاصل کی ، ہزاروں نے  گناہوں سے توبہ کی اور کئی  ایک نے  تونیکی کی دعوت  عام کرنے کےلیے اپنی زندگیاں وقف کردیں ،آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے بیانات ،مدنی مذاکروں اور تصنیفات نے معاشر ے میں  مدنی  انقلاب  برپا کردیا ہے  ۔امیر اہلسنّت


دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی دینی خدمات کا اعتراف  عوام و خواص   کے ہر  طبقے نے کیا ہے،آفتاب کی طرح روشن ان خدمات کو دیکھ کر دل بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ امیر اہلسنّت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ حضرت سیدنا داتا علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے فیضان کے مظہر ہیں ۔

باطنی اَمراض کے نام بدل  دینا دھوکہ  ہے

حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر یرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دور میں جب لوگوں نے باطنی  اَمْراض کے نام بدل کر خود کو دُھوکہ دینا شروع کیا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےاس خُود فریبی  کا تذکرہ  یوں فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّنے ہمیں اُس زمانے میں پیدا فرمایا ہے کہ جس میں  لوگوں نے حرص  کا نام شریعت ، تکبر و  حبِ جاہ  کی طلب  کا نام عزت وعلم، لڑائی جھگڑے کا نام بحث و مُبا حَثہ ، ہذیانِ طبع کا نام  معرفت ،نفسانی باتوں  اور دل کی حرکت  کانام مَحبت ، اِلحاد کا نام فقر ، بے دینی اور زَندقہ کا نام فنا اور ترک ِ شریعت کا نام  طریقت رکھ لیا ہے۔([63])

کہیں ہم اِن امراض  میں مبتلا تو نہیں ؟

 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ   جس طرح ظاہری بیماریوں کو نیا نام دینے سے ہلاکت خیز ی میں کوئی کمی نہیں آتی  اسی طرح  باطنی بیماریوں  کا نام بدل دینا بھی حماقت ہے  یقیناً جو لوگ  اپنی باطنی بیماریوں کو


چھپانے کے لیے نام  بدل دیتے ہی مثلاًکبھی تو جہالت کو علم کہہ دیتے ہیں  لڑائی جھگڑے کو  علمی تکرار کا نام دیتے ہیں یوں وہ شیطان کے ان ہتھیاروں کے ذریعے  خوش فہمی کے مرض میں مبتلا ہوجا تے ہیں اور ان کے اردگرد رہنے والے خوشامدی  ان  ناجائز و حرام  کاموں  پر ”اچھا اچھا “ کی زہریلی کیلیں  لگا کر  مزید پختہ کر دیتے ہیں  یوں حب ِ جاہ ،تکبر، ریاکاری ، خودپسندی  جیسی  کئی  بیماریاں دل میں  ناسور بن جاتی ہیں۔اگر آپ ان باطنی بیماریوں  کی پہچان([64]) اور ان سے بچنے کے طریقے جاننا چاہتے ہیں تو دعوتِ اسلامی  کےمدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیے ،ہفتہ وار سنتوں بھر ے اجتماع میں شرکت کو اپنا مَعمول بنا لیجیے ،ہر ہفتے مدنی مذاکرے میں شرکت کیجیے ،روزانہ  مدنی انعامات کا رسالہ پُر کیجیے  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اس کی برکت سے علم ِ دین کا خزانہ ہاتھ آئے گا اور علم ِ دین کا نور ہمارے ظاہر و باطن  کو روشن کردے گا اور ہمارے  لیے اپنے  عیوب پہچاننا آسان ہوجائے گا ۔

تم دعوت ِ اسلامی کو جانتے ہو کیا ہے  فیضان ِ مدینہ ہے،فیضان مدینہ ہے

آپ  کى تصانیف

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کو علومِ ظاہرى اور باطنى سےنوازا تھا اور دىنِ اسلام کے بہت سےاَسرار و رُموز کا علم بھی عطا فرمایا تھا۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی


عَلَیْہنےحصولِ علم کے لیے جوسفراختیارفرمائے ان سےآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کوکثیرمُشاہدات حاصل ہوئے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے مخلوقِ خدا کی خیر خواہی کے لىے کئی  گراں قدر(قیمتی ) کتب  تصنىف فرمائیں جن کے نام یہ ہیں: (۱)منہاج الدین([65]) (۲)دیوان([66]) (۳)اسرار الخرق والمؤنات([67]) (۴)کتاب البیان لاہل العیان([68])(۵)بحر القلوب ([69]) (۶)الرعایۃ بحقو ق اللہ (۷)کتاب فنا و بقاء (۸) شرح کلام ِ منصور حلاج(۹)ایمان([70])  مگر افسوس!فی زمانہ آپ کی کتابوں میں سےصرف کَشفُ المحجوب ہی بآسانی دستیاب ہے ۔

دیوان اپنے نام منسوب کرنےوالے کاانجام

حضرت سیّدنا داتا علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے عربی ا شعار پر مشتمل ایک  مکمل دیوان مُرتب فرمایا تھاجسے ایک شخص آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے مانگ کر لے گیا  اور اس پورے دیوان کو اپنے نام سے منسوب کرلیا،  ولی ٔ کامل کی ایسی دل آزاری کے سبب وہ بے ایمان ہوکر  مرا چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےاس کے برے خاتمے کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:وہ شخص جو میر ا دیوان لے گیا تھا 


بے ایمان دنیا سے گیا ۔“([71])  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کئی گناہ ایسے ہیں جن کی وجہ سے ایمان ضائع ہونے کا شدید خطرہ ہے۔گناہوں سے نجات پانے اور ایمان کو مضبوط بنانے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔

داتا علی ہجویری  نے دستگیری فرمائی

 اپنے مسلمان بھائی کی دلجوئی او ر خیر خواہی میں  مشغولیت دنیا و آخرت میں سعادت کا ذریعہ ہے  کیوں کہ کسی  مسلمان کی مدد کرنے والے پر رحمت الٰہی جھوم جھوم  کر برستی ہے اور جیسا کہ نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  بندہ کی مدد فرماتارہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد پر رہے۔([72]) حضرت سیدنا ابوسعید ہجویری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت سیدنا داتا علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے رفیق تھے  اور آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے حضرت سیدنا داتا علی ہجویری کی بارگا ہ میں ان  اُمورسے متعلق استفسار فرمایا:

(۱)طریقِ تصوف کی حقیقت

(۲)مقامات ِ صوفیہ کی کیفیت

(۳)صوفیہ کے عقائد کی وضاحت


(۴)صوفیہ کے رُموز و اِشارات

(۵)دلوں میں محبتِ الٰہی کے ظہور کی کیفیت

(۶)محبتِ الٰہی  کی معرفت میں رکاوٹ بننے والے عقلی اور نفسانی حجابات

(۷) ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقے

 چنانچہ حضرت سیدنا داتا  علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ان تمام باتوں کا تفصیلی جواب دینے  کے لیے” کشف المحجوب “ کے نام سے عظیم الشان کتا ب تصنیف فرمائی ۔([73])

کشف المحجوب علمی وثوق اورحیرت انگیز حافظہ کا شاہکار

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!کسی بھی موضوع پر کچھ تحریر کرنے سے قبل مصنف یا مؤلف کو   وسیع مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور دوران تصنیف بھی  مطالعے سے حاصل ہونے  والے مَدَنی پھول اپنی تصنیف یا تالیف میں  شامل کرنے کے لیے  بار بار کتب کی جانب   رجوع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ، ان دشوار گزار اور کٹھن مراحل کے بعدہی  کوئی کتاب  منظر ِعام پر آتی ہے لیکن کشف المحجوب  کے مراحل ِ تصنیف   ہی  جداگانہ  رہے  کیوں کہ  حضرت سیدنا داتا گنج  بخش علی ہجویر ی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تمام کتب غزنی میں رہ گئی تھیں اس لیے دورانِ تصنیف آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی


عَلَیْہکے پاس کوئی کتاب موجود نہ تھی۔([74]) لیکن  ان کے مضامین  آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے پیشِ نظر  تھے یہی وجہ ہے کہ  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  اپنےحافظہ  کی بنیاد پر کتابُ اللُمَع ،اَلرِّسالَۃُ القُشَیرِیَۃ  اور طَبَقاتُ الصُّوفِیَۃ وغیرہ جیسی کم و بیش ۲۲ کتب ِ تصوف کے جا بجا اقتباسات تحریر فرمائے ہیں    اس کے علاوہ ۲۳۶آیات ، ۱۳۴ احادیث  اور ۳۰۰ سے زائد اشعار  اور بزرگان دین  کے اقوال   نقل  فرمائے ہیں  اس کے  علاوہ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے تجربات اور مشاہدات  کو بھی ان صفحات میں محفوظ فرمادیا ہے ۔  ایک اندازے کے مطابق ”  کشف  المحجوب“میں کم و بیش ایک لاکھ الفاظ  ہیں  جن میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے نفس و شیطان کے  ایسے دھوکوں کی نشاندہی فرمائی ہے جن کے ذریعے نفس و شیطان  انسان کو سیدھی راہ سے ہٹا دیتے ہیں ۔ حکایات او ر  نصیحت آموز کلمات کے ذریعے  صبر و قناعت  اور صدق  واخلاص جیسے  حسین اخلاق اپنانے پر ابھارا ہے۔ کتب دستیاب نہ ہونے کے باوجود  اس قدر اہم  ،مستند اور محققانہ تصنیف کا منظر عام پر آجانا درحقیقت حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  کئی علوم پر دسترس اور  حیرت انگیز  قوتِ  حافظہ کی واضح دلیل ہے ۔

اہلِ علم کا اعتراف

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ


تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاب”کشف المحجوب“وہ لازوال تصنیف ہے جس  میں بیک وقت  کئی علوم کا خزانہ  ہے  یہی وجہ ہے کہ  یہ مبارک کتاب صدیوں سے اہل  ِعلم  کی توجہ کا مرکز رہی ہے مثلاً

(۱)حضرت سیدنا  فرید الدین عطار  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّاراپنی شہرۂ آفاق کتاب ”تذکرۃ الاولیاء “میں  حضرت سیدنا  حسن بصر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ، حضرت سیدنا ابو حازم مکی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وغیرہ جیسےآٹھ بزرگوں کا تذکرہ کے لیےکشف المحجوب سے استفادہ کیا ۔([75])

(۲)حضرت سیدنا عبد الرحمٰن جامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے ”نَفحاتُ الْاُنس“ میں اس کتا ب کے بارے میں ارشاد فرمایا:کشف المحجوب اس فن میں مشہور کتابوں میں سے ہے جس میں بہت سے لطائف و حقائق جمع ہیں۔([76])  

(۳)مخدومِ بِہارحضرت سیدنا  شرف الدین یحییٰ منیر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے  اپنے مکتوبات میں کشف المحجوب کے اقتباسات کو بطورِ سند نقل فرمایا۔

حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاسیّد محمد بخاری چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا : جسے پیر نہ ملتا ہو وہ اس کتاب (کشف المحجوب )کا مطالعہ کرے تو  پیر مل جائے گا ۔([77])


حضرت علامہ فقیر محمد جہلمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری اولیاء  متقدمین میں سے جامع علوم ظاہری و باطنی ،عابد و زاہد،متقی ، مظہر خوارق  و کرامت  اور حنفی المذہب تھے ۔([78])

اس کتاب کی اہمیت کا اعتراف  غیر مسلموں نے بھی کیا ہے ،ایک  غیرمسلم حضرت داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شہرۂ آفاق کتاب ’’کشف المحجوب‘‘کی تعریف یوں کرتاہے:’’ اس بزرگ نے عربی وفارسی میں بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں چنانچہ کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ بزبانِ فارسی تصوف کے علم میں ایسی لکھی ہے کہ اس کا ثانی روئے زمین پر نہیں ہے ‘‘ ۔([79])

جرمن مُستَشرقَہ ڈاکٹر این میری شمل كشف المحجوب کےبارے میں لکھتی ہے :”ان کی کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ ابتدائی صوفیانہ نظریات اور اعمال کا ایک اہم مآخذ ہے اور فارسی زبان میں تحریر شدہ تصوف کی اوّلین نظریاتی کتب میں سے ایک ہے ۔([80])

داتا علی ہجویری حنفی ہیں

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرت سیّدُنا داتا علی ہجویر یرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ حنفی المذہب تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حضرتِ سیدنا امام اعظم ابوحنیفہرَضِیَ


اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  سے خاص عقیدت بھی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ  انہوں نے کشف المحجوب میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کانامِ نامی اسمِ گرامی نہایت تعظیم کے ساتھ اس طرح تحریر فرمایا:’’امامِ اِما ماں و مُقتَدائےسُنِّیاں ، شرفِ فقہاء،عزّعلماء ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخزاز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ‘‘۔([81])

ایک خواب کا ذکر!

حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویریرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی امامِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے محبت و عقیدت کا اندازہ اس بات سےبھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں :’’میں اىک روز سفر کرتا ہوا ملک شام مىں مُؤَذِّنِ رسول حضرت سیدنا بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے روضے پر حاضر ہوا،وہاں میری  آنکھ لگ گئی اور میں نے اپنے آپ  کو مکہ معظمہ(زَادَ ہَا اللہُ شرفًا وَ تَعْظِیْمًا)پایا۔کیا دیکھتا ہوں کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم قبیلہ بنى شىبہ کے دروازے پر موجود ہیں اور ایک عمر رسىدہ شخص کو کسی چھوٹے بچے کی طرح اُٹھائے ہوئے ہیں،مىں فرطِ محبت سے بے قرار ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى طرف لپکا اور آپ کے مبارک قدموں کو بوسہ دىا، دل ہی دل میں اس بات پر بڑا حىران بھی تھا کہ ىہ ضعىف شخص کون ہے ؟اتنے میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمقوتِ باطنى اور علمِ غیب کے ذریعے مىری حیرت و استعجاب کی کیفیت جان گئے اور مجھے


مخاطب کرکے فرماىا :”ىہ ابوحنیفہ ہیں اور تمہارے امام ہىں۔([82])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے جہاں ہمیں اِمام ِاعظم  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کی عظمت وشان معلوم ہوئی وہیں   ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دلوں کے حالات سے بھی باخبر ہیں جبھی تو خواب میں سَیِّدُنا داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کےدل میں پیداہونے والے سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’یہ ابوحنیفہ ہیں اوریہ تمہارے امام ہیں ۔‘‘یہ تو خواب کاعالم تھا ،نبیِّ کریم،  رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے تو اللہعَزَّ  وَجَلَّ  کی عطاسے اپنی حیاتِ ظاہری میں بھی کئی غیب کی خبریں ارشاد فر مائیں۔ اللہتعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم  کو مَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کا علم عطافرمایا، یعنی جو ہوچکا ہے اور جو ہوگا وہ سب آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم علْمِ غیب کے ذریعے جانتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳) (  پ۵،النسآء: ۱۱۳)  

ترجَمۂ کنز الایمان:اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے  اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔

اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ خازن میں تین اقوال مذکور  ہیں۔

(1)شريعت كے اَحکام اوردِین کی باتیں سکھائیں۔(2) آپ کوعلْمِ غیب کی وہ باتیں


بتائیں جو آپ نہیں  جانتے تھے۔(3) آپ کو چُھپی چیزیں سکھا ئیں اور دلوں کے راز پر مُطلع فرمایا اور مُنافقین کے مکر و فریب آپ کو بتادئیے۔([83])

ایک اور مقام پر رسولوں کو علْمِ غیب عطا کئے جانے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ   ۪-  ۴، آل عمرٰن: ۱۷۹)

ترجَمۂ کنز الایمان:اوراللہکی شان یہ نہیں اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔

صَدرُ الافاضل حضرت علّامہ مولانا سَیِّد محمد نعیمُ الدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی اس آیتِ  مُبارکہ کے تحت  فرماتے ہیں:(اللہعَزَّ  وَجَلَّ   )ان برگُزیدہ رسولوں کو غَیْب کا علم دیتا ہے اور سَیِّدِ انبیا،حبیبِ خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم رسولوں میں سب سے اَفْضل اور اعلیٰ ہیں اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غُیُوب کے عُلُوم عطا فرمائے اور غُیُوب کے علم آپ کا معجزہ ہیں۔([84])

اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا

جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں دُرود

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ان آیاتِ مبارکہ کے علاوہ بے شمار ایسی


احادیثِ مبارکہ  ہیں جن میں نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے غیب کی خبریں دیتے ہوئے قیامت تک ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ مستقبل میں پیداہونے والے فتنوں سے بھی  آگاہ فرمایا او ر ہمیں ان سے بچنے کی ترغیب بھی  دلائی  ہے ،چنانچہ حدیث شریف میں ہے : ’’ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی کوئی پروا نہ ہوگی کہ اس نے(مال)کہاں سے حاصل کیا حَرام سے یا حلال سے ۔‘‘([85]) اپنے دین پر صبر کرنے والا انگارہ پکڑنے والے کی طرح ہو گا۔‘‘([86])  مساجد میں دُنیا کی باتیں ہوں گی، تم ان کے ساتھ نہ بیٹھنا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کو ان سے کچھ کام نہیں۔‘‘ ([87])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ گفتگوسے جہاں نبیِّ کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاعلم غیب    معلوم ہوا وہیں ہمیں قیامت کی نشانیوں میں سے بعض نشانیوں کے بارے میں بھی علم ہوا کہ قُربِِ قیامت میں  لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہمارا کمایا ہوا مال حلال ہے یا حرام ،اس دُور میں دین پر قائم رہنا انتہائی دشوار ہوگا، مساجد میں دُنْیوی باتیں ہوں گی ۔اگر ہم غور کریں تو جو علاماتِ قیامت ذکر کی گئیں ہیں وہ  ہمارے معاشرے میں پیداہوچکی ہیں ۔آج بد قسمتی سے لوگ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر دَھن کمانے کی دُھن میں مگن  ہیں ۔یاد رکھئے!اگر ماں باپ ، بہن


بھائی ، بیوی بچوں یا قرابت داروں کی بےجا خواہشات پوری کرنےاور ان کے طَعْنوں سے بچنے  کے لئےحرام وحلال کی پروا کئے بغیر مال و دولت جمع کرتے رہے اور علمِ دین سیکھ کر سنّتوں کے مُطابق ان کی تربیت نہ کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کل بروزِ قیامت یہی بیوی بچے ہمارے خلاف بارگاہِ الٰہی میں مُقدّمہ کرکے ہماری پکڑکا باعث بن جائیں ۔ اسی طرح دوسری نشانی کہ دین پر صبر کرنے والا انگارہ پکڑنے والے کی طرح ہوگا ۔ حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّاناس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:’’ جیسے ہاتھ میں انگارہ  رکھنا بہت ہی بڑے صابر کا کام ہے یوں ہی اس وقت مخلص، کامل مسلمان بننا سخت مُشکل ہو جاوے گا۔‘‘فی زمانہ یہ علامت بھی  ہمارے معاشرے میں پائی جانے لگی ہے کہ اگرکوئی سچا مسلمان اپنے پیارے آقا  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری سُنَّتوں پر عمل کرے،اپنے چہرے پرداڑھی شریف سجالے،یا فیشن  پرستی کو چھوڑ کر سُنَّت کے مُطابق مَدنی (اسلامی)لباس  اپنا لے تو بسا اوقات ایسے مسلمان کو مَعَاذَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ  طرح طرح سے ستایاجاتا ہے، اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے،اس پر طعن و تشنیع کے تیر برسائے جاتے ہیں ۔اگر وہ تب بھی نہ مانے تو بعض اوقات  اس بے چارے کو شدید ظُلم وسِتم کا نشانہ  بناکر خوب مارا پیٹابھی جاتا ہے ۔ ایسے افراد کوچاہیےکہ اپنے اس فعل سے توبہ کریں اور دین سے  مَحَبَّت  کا جذبہ پانے ، سُنَّتوں کی طرف رَغْبت  بڑھانے ،فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ سُنَن ونَوافل کی عادت بنانے کیلئے  دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیں۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ


شیخِ طریقت،امیرِاہلسنَّت ،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارقادری رَضَوی ضِیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اسلامی بھائیوں کوفرائض کے ساتھ ساتھ سُنَّتیں اپنانے اورتہجد، اِشْراق  وچاشت اوراَوّابین  وغیرہ نوافل کی عادت بنانے کی  ترغیب دلاتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ فرض کی پابندی کےساتھ ساتھ نوافل کے بھی بے شُمارفضائل ہیں حدیثِ پاک میں آتاہےکہ نوافل کے ذریعے بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مَحبوب ومُقرَّب بن جاتاہے ۔ چنانچہسیِّدُ المبلغین،رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ عالیشان ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتاہے : میرے کسی بندے نے میرے فرض کردہ اَحْکام کی بجاآوری سے زیادہ مَحبوب شے سے میرا قُرب حاصل نہیں کیا اور میرا بندہ نَوافل کے ذریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے مَحَبَّت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے مَحَبَّت کرنے لگتا ہوں تو مَیں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سُنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضَرور عطا فرماتا ہوں اوراگرکسی چیز سے میری پناہ چاہے تو میں اسے ضرور پناہ عطا فرماتا ہوں۔([88])

مُفَسِّرِ شہیر، حکیمُ الْاُمَّت، مُفْتی احمد یارخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیث ِ پاک کے تحت  فرماتے ہیں:اس عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالٰی وَلی میں حُلُول


کرجاتا ہے جیسے کوئلہ میں آگ یا پھول میں رنگ و بو،کہ خدا تعالیٰ حُلُول سے پاک ہے اور یہ عقیدہ (رکھنا)کفر ہے(بلکہ اس کا حدیث کامطلب یہ ہے ) کہ وہ بندہ فَنا فِی اﷲ ہوجاتا ہے جس سے خدائی طاقتیں اس کے اَعضاء میں کام کرتی ہیں اور وہ ویسے کام کرلیتا ہے جو عقل سے وَراء ہیں (جیسا کہ )حضرت سلیمان(عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)نے تین میل کے فاصلہ سے چیونٹی کی آواز سُن لی،حضرت آصف برخیا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)نے پلک جھپکنے سے پہلے یَمن سے تختِ بلقیس لاکر شام میں حاضر کردیا۔حضرت عُمر(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)نےمدینۂ منورہ سے خُطبہ پڑھتے ہوئے نَہاوند تک اپنی آواز پہنچادی۔حُضورِ اَنْور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نے قیامت تک کے واقعات بچشم مُلاحظہ فرمالیے۔یہ سب اسی طاقت کے کرشمے ہیں۔ اس حدیث سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو طاقتِ اولیاء کے منکر ہیں۔([89])  

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

باطنی طہارت کا طریقہ

حضرت سیدنا داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہظاہری  طہارت کے ساتھ باطنی طہارت کا  یہ طریقہ  بیان فرماتے ہیں :(وضو میں  ) ہاتھ دھوئے تو اس کے ساتھ ہی دل  کو دنیا کی محبت سے پاک کرلے ،جب ناک میں پانی ڈالے تو خواہشات کو بھی اپنے اوپر حرام کرلے ،جب منہ دھو ئے تو تمام نفسانی خواہشات  سے منہ پھیر لے


 اور حق کی جانب متو جہ ہو ، جب کہنیوں تک ہاتھ دھو ئے  تو اپنے نصیبوں سے علیحدہ ہوجائے ، جب سر کا مسح کرے  تو  اپنے کا م کو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حوالے کر دے، جب پاؤں دھوئے تو  تمام  ممنوعہ راستوں پر چلنے  سے باز رہنے کی نیت کرے۔([90])

جیسی صحبت ویسی خصلت

 حضرتداتا گنج بخش علی بن عُثمان ہَجْوَیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبیان فرماتے ہیں: ’’نفس کی عادت ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے راحَت پاتا ہے اور جس قِسْم کے لوگوں کی صحبت اِختِیار کی جائے وہ اُنہیں کی خَصلَت وعادَت اِختِیار کرلیتا ہے،یہاں تک کہ باز(ایک پرندہ) آدَمی کی صحبت میں رہ کر مانوس ہو جاتا ہے، طوطی آدَمی کے سکھانے سے بولنے لگتی ہے،گھوڑا اپنی خَصلَت ترک کرکے مُطِیع بن جاتا ہے۔ یہ مِثالیں بتاتی ہیں کہ صُحبت کا کتنا اَثَر وغَلَبہ ہوتا ہے اور یہ کس طرح عادَتوں کو بدل دیتی ہے یہی حال تمام صحبتوں کاہے۔‘‘ ([91])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! معلوم ہواکہ ایسے اسلامی بھائی کی صحبت اختیار کی جائے جو آخِرت کے لئے زیادہ سے زیادہ مُفِید ہو، یعنی دوستی میں دُنیوِی اَغراض نہیں بلکہ اُخرَوی اُمور پیشِ نظر ہوں۔لیکن افسوس اب ایسے دوستوں کی تلاش نہیں کی جاتی، اِلَّا مَاشَآءاللّٰہ۔اب دوست ایسے کو بنایا جاتا ہے جو خوبصورت


ہو، مال دار ہو یا پھر کوئی عُہدے دار ہو۔یا اُس کی باتوں میں لُطف آتا ہےیا وہ مَزاحِیّہ ہے۔کسی کو دوست بناتے وقت یہ نہیں سوچا جاتا کہ آخِرت کے مُعامَلات میں یہ میرے لئے کتنا مُفیدثابت ہوگا؟ جبکہ ہمارے اَسلافِ کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام ایسے دوست بنانا پسند کرتے جوعُیُوب کی نشاندہی  کریں۔

اچھی اچھی نیتوں کی ترغیب

امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی مایہ ناز تالیف ”نیکی کی دعوت“ کے صفحہ ۹۲پرنیت کی یہ تعریف نقل فرمائی ہے : نیَّت لُغوی طورپردل کے پختہ(یعنی پکّے)اِرادے کو کہتے ہیں اور شَرعًا عبادت  کے اِرادے کو نیَّت کہا جاتا ہے۔“([92]) حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویر ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اچھی اچھی نیتوں سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :ہر کا م شروع کرنے سے قبل کچھ نہ کچھ اچھی نیتیں کرلینی چاہیے اگر کام میں کچھ خلل واقع ہو  یا وہ کام بخیر و خوبی انجام تک نہ پہنچے  تو اس میں انسان مَعذور ہے لیکن نیت اس کو کرنے اور انجام تک پہنچانے کی ہونی چاہیے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے : مو من کی نیت  اس کے عمل سے بہتر ہے ۔ ([93])ایک شخص سارے دن کا بھو کا ہے مگر اس نے روزے کی نیت نہیں کی  اور ایک شخص نے روزے کی نیت سے


بھو ک برداشت کی ہے  ان دونوں میں سے آخری شخص ثواب کا مستحق ہو گا ۔([94])

تحصیلِ علم ضروری کیوں؟

علم کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  تحریر فرماتے ہیں: تصوف کی جڑ قوی اور شاخ  میوہ دار ہے  مگر اس جڑ کو علم کے چشمے سے پانی ملنا چاہیے  اس لیے کہ سب بزرگا نِ تصوف  اہل علم ہی ہوئے ہیں۔([95])

صلُّوا عَلَی الْحَبیب!                     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

داتا علی ہجویری کے ملفوظات

حضرت سَیِّدناداتاعلی ہجویریعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی تصوُّف کے اعلیٰ مرتبے پر فائز عشقِ حقیقی سے سرشار فنافیاللہ بُزرگ تھے اس لیے آپ کی گفتگو کے ہر پہلو میں رضائے الٰہی ،مسلمانوں کی خیرخواہی اور عقائد و اعمال کی اصلاح سےمتعلق مدنی پھول  نظر آتے ہیں ۔ ان میں سے چند اقوال ملاحظہ فرمائیے:

(۱)انسان کو تمام علوم کا جاننا ضروری نہیں ۔ صرف اتنا علم   حاصل کرنا لازمی ہے جسے  شریعتِ مطہرہ نے ضروری قرار دیا ہے ۔([96])

(۲)طالب علم  کے لیے  لازم ہے  باعمل بننے کے لیے علم حاصل کرے۔([97])


(۳)طالبِ حق پر لازم ہے کہ عمل کرتے ہوئے  یہ یقین کرے کہ  اللہ عَزَّ وَجَلَّ

میرے عمل کو دیکھ رہا ہے جیسا کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ہماری ہر حرکت و سکون کو دیکھنے والا ہے ۔([98])

(۴)لباسِ اولیا کو دنیا کمانےکاذریعہ بنانے والا اپنے لیے آفت مول لیتا ہے۔([99])

(۵)باطل پر رضامندی  بھی  باطل ہے ،غصے کی حالت میں حق و صداقت کا چلا جانا بھی باطل ہے اورکامل مومن کبھی بھی باطل اختیار نہیں کرتا ۔([100])

 (۶)آگ پرقدم رکھنا تو نفس گوارا کر سکتا ہے  لیکن علم پر عمل اس سے  کئی گنا دشوار ہے ۔([101])

(۷)جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ پسند فرماتا ہے عوام اسے پسند نہیں کرتے،اور جسے اپنا وجود پسند آیا  اللہ عَزَّ وَجَلَّاسے پسند نہیں کرتا۔([102])

(۸)برے لوگوں کی صحبت میں رہنے  والا شرارت ِ نفس کا شکار بن جاتا ہے،اگر بندے میں بھلائی  اور نیکی ہو تو نیکوں کی صحبت میں رہنا پسند کرے گا۔([103])

(۹)عمل کی روح اخلاص ہے،جس طرح جسم روح کے بغیر محض پتھر ہے  اسی طرح


اخلاص بغیر عمل کے محض غبار ہے۔([104])

 (۱٠)صرف علم پر قناعت کرنے والا عالم نہیں، عمل کی برکت سے علم فائدہ دیتا ہے لہٰذا کبھی   بھی علم کو عمل سے جدا نہیں کرنا چاہیئے۔([105])

(۱١)زندگی يوں گزاريں کہ  آپ کو مخلوق سے اورمخلوق کو آپ سے کوئی برائی نہ پہنچے ۔ ([106])  

 (۱٢)جو شخص فقہی معاملات میں  محتاط نہ ہو،پر ہیز گاری کے بغیرعلمِ فقہ حاصل کرےاور رخصتوں  اور تاویلوں کے پیچھے لگ کر شبہات میں پڑے ،ائمہ  کی تقلید چھوڑ کر خود مجتہد  بن بیٹھے  تو ایسا شخص جلد ہی فسق  میں مبتلا ہوجائے گا۔دراصل یہ باتیں دل کی غفلت کے سبب پیدا ہوتی ہیں ۔([107])

 (۱٣)فقیر وہ ہے کہ جس کا ضمیرنفسانی خواہشات سے محفوظ رہےنفس کی چالوں سے ہوشیار رہ کر اپنے معبودِ حقیقی کے فرائض کما حقہ ادا کرے اور اس قدر ہوشیار رہے کہ جو اسرارِ باطنی اس پر منکشف ہوں ان کو ظاہر نہ ہونے دے اور کبھی بھی اپنی باطنی کیفیات کو  زبان پر نہ آنے دے۔([108])

 (١٤)اللہ عَزَّ وَجَلَّکے محبوب  اور پسندید ہ بندوں کی صحبت  دل و جان کے عوض بھی


میسر  ہو تب بھی سستی  ہےکیوں کہ  ان کا طریقِ عمل برگزیدہ اور تمام عالم سے علیحدہ  ہے ،ان کی برکت سے انسان مقاصدِ دارین حاصل کرتا ہے۔([109])

 (۱٥)جب غافلوں پرکوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں:یہ مصیبتاَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ مال پر ٹل گئی، جان و تن اس آفت سے محفوظ رہے ، جب کوئی آزمائش  اللہ عَزَّ وَجَلَّکے پسندیدہ بندوں  پرآتی ہے تو وہ  یوں کہتے ہیں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ تن پر ٹل گئی  دل اس سے محفوظ رہا ۔([110])

 (١٦)دینی و دنیوی تمام   امورکی زینت ”ادب“ ہے ، اور مخلوقات کو ہر مقام پر ادب کی ضرورت ہے۔جس میں مروت و ادب نہیں  اس میں متابعتِ سنت نہیں  ہو سکتی  اور جس میں  متابعتِ سنت نہ ہو  وہ رعایتِ عزت نہیں کر سکتا۔([111])

(١٧)آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ادب کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرما تے ہیں :ادب کی چند اقسام ہیں :(۱)اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے معاملے میں ادب یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں اپنے آپ کو بے ادبی سے محفوظ رکھے  اور اس طرح رہے جس طرح دربارِ شاہی میں رہتے ہیں۔(۲)باہمی کاروباری معاملات میں ادب یہ  ہےکہ ہر معاملے میں اپنے حقِّ نفس کی رعایت کرے  یعنی صرف سچ بولے  جو اپنے حق میں خلاف جانے وہ زبان پر نہ لائے ، کم کھائے تاکہ قضائے حاجت کی کم ضرورت ہو ، اپنے اس عضو کو نہ دیکھے


جو غیر کو دیکھنا جائز نہ ہو ۔(۳)صحبتِ خلق میں ادب یہ ہے کہ  سفر و حضر میں خلق کے ساتھ  اچھا سلوک کیا جائے ۔([112])

(١٨)بندہ آفاتِ دنیا میں تدبر و تفکر کرے  کہ دنیا بے وفا ہے اور یہ جگہ خالص فنا ہے اس سے دل خالی کر کے یک سو ہو ، مگر یہ بغیر مجاہدے کےحاصل نہیں ہو سکتا ۔([113])

(١٩)دنیاسرائے فساق وفجار (گنہگاروں کا مقام)ہے اور صوفی کا سرمایہ زندگی محبتِ الٰہی ہے ۔([114])

(۲٠)بھوک کو بڑا شرف حاصل ہے اورتمام امتوں اور مذہبوں میں پسندیدہ ہےاس لیےکہ بھوکے کادل ذکی(ذہین)ہوتاہے،طبیعت مہذب ہوتی ہےاور تندرستی میں اضافہ ہوتا ہےاور اگر کوئی شخص کھانے کے ساتھ ساتھ پانی پینے میں بھی کمی کردے تو وہ ریاضت میں اپنے آپ کو بہت زیادہ آراستہ کرلیتا ہے ۔([115])

وفات و مدفن

حضرتِ سَیِّدُنا داتاگنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےپوری زندگی خوب مَحَبَّت ولگن سے خدمتِ دین کا کام سرانجام دیاا،دُکھی اِنْسانِیَّت کو امن و سکون کا پیغام دیا اور اپنے مریدین ومحبین  کی دینی ودنیاوی حاجتوں کو پورا فرمایا۔


آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کاوصالِ پُرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک ۲۰صفرالمظفر ۴۶۵ ؁ ھ کوہوا۔([116]) آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکامزارمنبعِ انواروتجلیات مرکزالاولیا لاہور(پاکستان)میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں ہے،اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الالیااورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے وصال کوتقریباً 900 سال کا طویل عرصہ بیت گیا آج بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے مزارِ فائض الانوار میں رہ کراپنے عقیدت مندوں کی حاجت روائی فرماتے، ان کی پریشانیاں  حل فرماتے  اوراپنے روحانی فیضان سے جسے چاہتے ہیں مالامال کرتے ہیں۔ صدیوں پہلے کی طرح آج بھی آپ کا فیضان جاری ہے اور آپ کا مزارِ فائض الانوار مرجعِ خاص و عام ہےجہاں سخی وگدا،فقیر وبادشاہ، اصفیا واولیااورحالات کے ستائے ہوئے ہزاروں پریشان حال اپنے دکھوں کا مداوا کرنے صبح وشام حاضر ہوتے ہیں۔ داتا گنج بخشرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے فیضان کا اندازہ اس بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہےکہ سُلطان الہندحضرت سَیِّدُنا خواجہغریب نوازمعین الدین سیدحسن چشتی سنجری اجمیریعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی بھی ایک عرصے تک آپ کے دربار پر مقیم رہے اور منبعِ فیض سے  گوہرِمراد حاصل کرتے رہے اور جب دربار سے رخصت ہونے لگے تو اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں فرمایا :

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا       ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنما

 


داتا دربار  حاضر ہونے والی شخصیات

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےمزار کو انوار و تجلیات کا مرکز ہونے کی وجہ  سے  خصوصی اہمیت حاصل رہی ہےاپنے وقت کے بڑے بڑے اولیاء کرام رحمہم اللہ السلام  جیسےسلطان الہند حضرت خواجہ  معین الدین چشتی اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور شیخ الاسلام بابافریدمسعود گنجِ شکر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حاضر ہوتے رہے ہیں  جب کہ متاخرین میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ([117])پیر مہر علی شاہ گولڑوی، شہزادۂ اعلی حضرت  حامد رضا خان ،صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی  اورخلیفۂ اعلی حضرت،محدثِ اعظم ہند ابوالمحامدمحمد محدث کچھوچھوی،حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی،امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیّد دیدارعلی شاہ محدث اَلوَریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہم اَجمَعیننے حاضری دی اور  آج تک ملک و بیرون ملک سے علماء و مشائخ داتا دربار پر حاضری دینے آتے ہیں اور فیضانِ داتا سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔([118])

مدینے کا ٹکٹ

 شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ غالباً1993؁ء کے موسمِ حج میں کسی وجہ سے


سفرِمدینہ نہ کرسکے تھےجس کاآپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکوبہت صدمہ تھا،اپنی حسرتوں کا اِ ظہار آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ان اشعار میں بھی کیا ہے:   

کاش! پھر مجھے حج کا اِذْن مل گیا ہوتا اور روتے روتے میں، کاش! چل پڑا ہوتا

مجھ کو پھر مدینے میں اس برس بھی بُلواتے   آپ کا بڑا احساں مجھ پہ یہ شہا ہوتا

(وسائلِ بخشش، ص۱۷۲)

پھرجب شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ12ماہ کے سفر کے دوران مرکز الاولیا(لاہور) میں تھے تویہ اِستغاثہ لکھا : 

ہو مدینے کا ٹِکَٹ مجھ کو عطا داتا پِیا آپ کو خواجہ پِیا کا واسِطہ داتا پیا

دولتِ دنیا کا سائل بن کے میں آیا نہیں     مجھ کو دیوانہ مدینے کا بنا داتا پیا

(وسائلِ بخشش، ص۵۰۶)

اورحضرت سیّدُنا داتا علی ہجویریعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِیکے مزار مبارک پر حاضر ہوکر پیش کردیا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ  کچھ ہی دن بعد ایک اسلامی بھائی نے بغیر کسی مطالبے کے شیخِ طریقت،امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مدینۂ منوَّرہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً میں حاضری کا انتظام کردیا۔([119])  

آروزو ہے موت آئے گنبد ِ خضرا تلے     ہاتھ  اٹھا  کر کیجیے حق سے دعا داتا پیا

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                          صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


مجلس مزاراتِ اولیا

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے،سنتوں کی خوشبو پھیلانے،عِلْمِ دین کی شمعیں جلانے اور لوگوں کے دلوں میں اولیاءُاللہ کی محبت و عقیدت بڑھانے میں مصروف ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ(تادمِ تحریر)دنیا کے کم وبیش 200ممالک میں اس کا مَدَنی پیغام پہنچ چکا ہے۔ساری دنیا میں مَدَنی کام کومنظم کرنے کےلئے تقریباً 97سے زیادہ مجالس قائم ہیں،انہی میں سے ایک’’مجلسِ مزاراتِ اولیا‘‘بھی ہے جودیگر مدنی کاموںکے ساتھ ساتھ درج ذیل خدمات انجام دے رہی ہے۔

1.   یہ مجلس اولیائےکرامرَحِمَہُمُاللّٰہ ُالسَّلَامکےراستےپرچلتےہوئےمزاراتِ مبارکہ پرحاضر ہونے والے اسلامی بھائیوں میں مَدَنی کاموں کی دُھومیں مچانے کیلئے کوشاں ہے۔

2.   یہ مجلس حتَّی المَقدُورصاحبِ مزارکے عُرس کے موقع پراِجتماعِ ذکرونعت کرتی ہے۔

3.   مزارات سے مُلْحِقہ مساجِد میں عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافلے سفرکرواتی اوربالخصوص عُرس کے دنوں میں مزارشریف کے اِحاطے  میں سنّتوں بھرے مَدَنی حلقے لگاتی ہے جن میں وُضو،غسل،تیمم،نمازاور ایصالِ ثواب کا طریقہ، مزارات پر حاضری کے آداب اوراس کا درست طریقہ  نیز سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہ


تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی سنّتیں سکھائی جاتی ہیں۔

4.   عاشِقانِ رسول کو حسبِ موقع اچھی اچھی نیتوں مثلاًباجماعت نمازکی ادائیگی، دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت،درسِ فیضانِ سنت دینے یا سننے،صاحبِ مزار کے اِیصالِ ثواب کیلئے ہاتھوں ہاتھ مدنی قافلوں میں سفراورفکرِ مدینہ کے ذَرِیعے روزانہ مَدَنی انعامات کارسالہ پُرکرکے ہر مَدَنی یعنی قمری ماہ کی ابتِدائی دس تاریخوں کے اندراندراپنے ذِمہ دارکوجمع کرواتے رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

5.   ’’مجلسِ مزاراتِ اولیاء‘‘ایامِ عُرس میں صاحبِ مزارکی خدمت میں ڈھیروں ڈھیرایصالِ ثواب کاتحفہ بھی پیش کرتی ہے اورصاحبِ مزاربُزرگ کے سَجادہ نشین،خُلَفَااورمَزارات کے مُتَوَلِّی صاحبان سے وقتاًفوقتاًملاقات کرکے اِنہیں دعوتِ اسلامی کی خدمات،جامعاتُ المدینہ و مدارِسُ المدینہ اور بیرونِ ملک میں ہونے والے  مَدَنی کام وغیرہ سےآگاہ رکھتی ہے۔

6.   مَزارات پرحاضری دینے والےاسلامی بھائیوں کوشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی عطاکردہ نیکی کی دعوت بھی پیش کی جاتی ہے۔

اللہعَزَّ  وَجَلَّ  ہمیں تا حیات اولیاءِکرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام کا ادب کرتے ہوئے ان کے در سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے صدقے دعوتِ اسلامی کو مزید ترقیاں عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !                            صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

مزارات اولیاء پر لگائے جانے والے تربیتی حلقوں کے موضوعات

حلقہ نمبر1:مزارات اولیاء پر حاضری کا طریقہ    

حلقہ نمبر2:وضو ،غسل اور تیمم کا طریقہ  

حلقہ نمبر 3:نماز کا سبق

        حلقہ نمبر 4:نماز کا عملی طریقہ

حلقہ نمبر5:راہِ خدا میں سفر کی اہمیت ( مدنی قافلوں کی تیاری)

حلقہ نمبر6:درست قرآن پاک پڑھنے کا طریقہ

 حلقہ نمبر 7:نیک بننے اور بنانے کا طریقہ(مدنی انعامات)

ہدایات:مدنی  حلقہ مزار کے احاطے کے قریب ہوجس میں دو خیر خواہ مقرر کیے جائیں جو دعوت دے کر زائرین کو حلقے میں شرکت کروائیں۔ہر حلقے کے اختتام پر انفرادی کوشش کی جائے اور اچھی اچھی نیتیں کروائی جائیں اور نام و نمبر زمدنی پیڈ پر تحریرکیے جائیں۔

مزاراتِ اولیاپر  مدنی حلقوں میں دی جانے والی نیکی کی دعوت

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ کو مَزار شریف پرآنا مبارک ہو ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ !تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی طرف سے


سُنَّتوں بھرے مَدَنی حلقوں کا سِلْسِلہ جاری ہے ،یقیناًزندگی بے حد مختصر ہے ،ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں ،عنقریب ہمیں اندھیری قبرمیں اُترنا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا پڑے گا،اِن اَنمول لمحات کو غنیمت جانئے اور آئیے! اَحکامِ الٰہی پر عمل کا جذبہ پانے،مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنَّتیں اور اللہ کے  نیک بندوں کے مَزارات پر حاضری کے آداب سیکھنے سکھانے کے لئے مَدَنی حلقوں میں شامل ہوجائیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کودونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے۔([120])  اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نیک بندے کی پہچان کیا ہے؟

 

سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاارشادِ حقیقت بُنیادہے،بے شک لوگوں میں سے وہ لوگ بُرے ہیں جن سے لوگ محض ان کے شر کی وجہ سے بچتے ہوں۔ (مُؤَطاامام مالک ج۲ص۴۰۳حدیث ۱۷۱۹)  مزیدسلطانِ دوجہان ، شَہَنْشاہِ کون ومکان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے، اللہ تعالٰی کے نیک بندے وہ ہیں جنہیں دیکھیں تو اللہ عَزَّوَجَلَّ یاد آجائے اور اللہ تعالٰی کے بُرے بندے وہ ہیں جو چُغل خوری کرتے ، دوستوں میں جدائی ڈالتے اور نیک لوگوں کے عیب تلاش کرتے ہیں۔(مسند امام احمدج ۶ ص ۲۹۱ حدیث ۱۸۰۲۰)

 


ماخذ ومراجع

نمبرشمار

کتاب

مطبوعہ

1

ترجمہ قرآن کنزالایمان

مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی

2

تفسیر ِخازن

دارالكتب العلميۃ  بيروت،۱۴۱۹ھ

3

خزائن العرفان

مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی

4

تفسیر ِنعیمی

ضياء القرآن ،مرکزالاولياء لاہور

5

صحيح البخارٰی

دار الفکربيروت،۱۴۱۴ھ

6

صحيح مسلم

دارالمغنی عرب شريف،۱۴۱۹ھ

7

سنن الترمذی

دار الفکربيروت،۱۴۱۴ھ

8

سنن ابن ماجة

دارالمعرفۃبيروت ،۱۴۲۰ھ

9

شعب الایمان

دار الكتب العلميہ بيروت،۱۴۲۱ھ

10

المعجم الکبیر

دار احياء التراث  العربی بيروت،۱۴۲۲ھ

11

لمعات التنقیح

دار النوادر بیروت، ۱۴۳۵ھ

12

مرقاۃ المفاتیح

دار الفکربيروت،۱۴۱۴ھ

13

المیزان الخضریہ

دار الكتب العلميہ بيروت،۱۴۲۰ھ

14

الخیرات الحسان

دار الكتب العلميہ بيروت،۱۴۰۳ھ

15

تاریخِ بغداد

دار الكتب العلميہ بيروت،۱۴۱۷ھ

16

مراٰۃالمناجیح

ضياء القرآن ،مرکزالاولياء لاہور

17

نزھۃ القاری

فرید بک اسٹال، مرکزالاولیاء لاہور2000ء

18

فوائدالفوادمترجم

مدینہ پبلشنگ کمپنی،باب المدینہ  کراچی 1978ء

19

نفحات الانس مترجم

شبیر برادرز ، مرکزالاولیاء لاہور2002ء

20

سیدِ ہجویر

علماء اکیڈمی محکمہ اوقاف پنجاب ۲۰۱۴ء

21

کشف المحجوب فارسی

نوائے وقت پرنٹر لاہور


 

22

حیات وافکار حضرت داتا گنج بخش

کرمانوالہ بک شاپ لاہور 2010ء

23

خزینۃ الاصفیاء

مکتبہ نبویہ ، مرکزالاولیاءلاہور2010ء

24

الروض الفائق

المکتبۃ العربیہ ،کوئٹہ ،۱۴۱۶ھ

25

کشف المحجوب عربی

مکتبۃ الاسکندریہ ،مصر ،۱۳۹۴ھ

26

سوانح حیات حضرت علی بن عثمان

محکمہ اوقاف ،پنجاب پاکستان

27

گنج بخش فیض ِ عالم

اویسی بک سٹال گوجرانوالہ 2012ء

28

اللہ کے خاص بندے

علم دین پبلشرز ، مرکزالاولیاء لاہور

29

اردو دائرہ معارف اسلامیہ

 دانش گاہ پنجاب مرکزالاولیاء لاہور،۱۴۰۰ھ

30

سوانح عمری حضرت داتا گنج بخش

ارادہ الاویس ،مرکزالاولیاءلاہور2013ء

31

مدینۃ الاولیاء

تصوف فاونڈیشن مرکز الاولیاء لاہور۱۴۲۲ھ

32

معارف ہجویریہ

پنجاب یونیورسٹی ،مرکزالاولیاءلاہور۱۴۳۳ھ

33

بزرگانِ لاہور

مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی

34

مزاراتِ اولیاء کی حکایات

مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی

35

بزرگوں کے عقیدے

زاویہ پبلشرز ، مرکزالاولیاءلاہور2007ء

36

حدیقۃ الاولیاء

تصوف فاؤنڈیشن ،مرکزالاولیاء لاہور ۱۴۲۰ھ

37

حدائق الحنفیہ

ادبی دنیا ،مٹیا محل دہلی 2006ء

38

تذکرہ محدثِ دکن

الممتاز پبلی کیشنز مرکزالاولیاءلاہور۱۴۱۹ھ

39

کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی

40

نیکی کی دعوت

مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی

41

وسائل بخشش

مکتبۃالمدینہ،باب المدینہ کراچی

٭٭٭٭



[1] ترمذی،کتاب الوتر،باب ماجاء في فضل الصلاۃ علی النبی ، ۲/۲۷،حدیث:۴۸۴

[2] کشف المحجوب،ص۶۵

[3] ایک قول یہ بھی ہے کہ اندازاً آپ کا زمانۂ ولادت۳۸۱ھ تا ۴۰۱ھ کے درمیان مُتَعَین کیا جاسکتا ہے ۔سید ہجویر،ص۸۱

[4] مدینۃ الاولیاء،ص۴۶۸،معارف ہجویریہ،۲/۵۰ ملخصاً،کشف المحجوب للھجویری،التعریف بغزنۃ،ص۳۹

[5] بزرگانِ لاہور،ص۲۲۲، سید ہجویر ،ص۸۰

[6] سوانح عمری  حضرت  داتا گنج بخش،ص۲۴

[7] سوانح عمری  حضرت  داتا گنج بخش،ص۲۴

[8] اردو دائرہ معارف اسلامیہ،ص۹۱،خزینۃ الاصفیاء،ص۱۷۲ماخوذاً

[9] معارف ہجویریہ، ۲/۵۰،کشف المحجوب عربی،والدہ، ص۴۳۔۴۴

[10] کشف المحجوب ، دیباچہ ،ص۱۲

[11] اللہ کے خاص بندے ،ص۴۵۹

[12] اللہ کے خاص بندے ،ص۴۵۹

[13] الموسوعۃ  لِابن ابی الدنیا ،کتاب الصمت ،باب حفظ اللسان وفضل الصحت، ۷/۶۰،رقم:۵۲

[14] شعب الایمان،الباب الرابع والثلاثون ، فصل فی فضل السکوت ۔۔الخ،۴/۲۵۶، حدیث:۴۹۹۳

[15] کشف المحجوب،باب آدابھم فی الکلام والسکوت، ص۴۰۲ماخوذاً

[16] اللہ کے خاص بندے ،ص۴۶۰ملخصاً

[17] کشف المحجوب،ص۱۷۶،سیدِ ہجویر،ص۹۲

[18] الفردوس بماثور الخطاب،باب العین،۲/۸۰،حدیث:۴۰۱۱

[19] ابن ماجۃ، کتاب السنۃ، باب فضل العلماء والحث الخ،۱/۱۴۶،حدیث:۲۲۴

[20] کفریہ کلمات کے بارے میں سُوال جواب ۳۴۲

[21] کشف المحجوب،ص۱۸۱ماخوذاً

[22] کشف المحجوب،ص۱۷۴

[23] کشف المحجوب،باب فی فرق فرقھم  فی مذاہبھم الخ،ص۲۴۴

[24] کشف المحجوب، ص ۲۵

[25] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من المتاخرین،ص۱۷۴

[26] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من المتاخرین،ص۱۷۵

[27] کشف المحجوب،باب آدابھم فی الصحبۃ ،ص۳۷۸

[28] المیزان الخضریہ ،ص۱۵

[29] کشف المحجوب،دیباچہ،ص۱۶

[30] معجم البلدان  میں  خُتَّل کی  طرف نسبت کرتےہوئے اس لفظ  کا اعراب خُتَّلی ہے جب کہ  حضرت ابوبکرمحمد بن موسىٰ حازمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ   نےاس کا اعراب خُتُّلِی   تحریر فرمایا ہے ۔ معجم البلدان ،باب الخاء  والتاء ومایلیھما،۲/۲۱۵،الاماکن  او مااتفق  لفظہ و افترق مسماہ،ص۲۹

[31] سیدِ ہجویر،ص۹۵،اللہ کے خاص بندے،ص۴۶۱

[32] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من المتاخرین،ص۱۷۳

[33] کشف المحجوب،باب فی فرق فرقھم  فی مذاہبھم الخ،ص۲۵۵

[34] کشف المحجوب،باب  نومھم فی السفر والحضر ،ص۳۹۹

[35] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من المتاخرین،ص۱۷۳

[36] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من المتاخرین،ص۱۷۳

[37] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من المتاخرین،ص۱۷۳

[38] کشف المحجوب،باب فی فرق فرقھم  فی مذاہبھم الخ،ص۲۰۴

[39] کشف المحجوب،باب  الجوع و ما یتعلق بھا،ص۳۵۹

[40] کشف المحجوب،باب آدابھم فی الصحبۃ فی الاقامۃ ،ص ۳۸۴

[41] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من تبع الخ ،ص۱۳۷

[42] کشف المحجوب،باب المشاھدہ ،کشف الحجاب الخ ،ص۳۷۱

[43] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من تبع الخ ،ص۱۰۱

[44] کشف المحجوب،باب  الملامۃ ،ص۶۵

[45] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من تبع الخ ،ص۱۶۵

[46] تفسیر روح البیان،پ۱۰،التوبۃ،تحت الایۃ:۴۱، ۳/۴۳۹

[47] لمعات التنقیح ، کتاب الجھاد،باب  حکم الاسراء،۷/۴۰،تحت الحدیث :۳۹۶۷

[48] لمعات التنقیح ، کتاب الجنائز،باب زیارۃ القبور،۴/۲۱۵،تحت  الباب:۸

[49] مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الصلوٰۃ،    باب الجمعۃ   ، فصل الثالث     ،۳ /۴۵۹،تحت الحدیث:۱۳۶۶

[50] تاریخ بغداد، مقدمۃ المصنف،باب ماذکر فی مقابر بغداد۔۔۔الخ،۱/ ۱۳۳

[51] الخیرات الحِسان ،الفصل الخامس والثلاثون ،ص ۹۴

[52] الروض الفائق،المجلس الرابع والثلاثون الخ، ص۱۸۸

[53] مناقب معروف الکرخی و اخبارہ ،الباب السابع والعشرون فی  ذکر فضیلۃ زیارۃ قبرہ الخ ،ص۲۰۰

[54] سوانحِ عمری حضرت داتا گنج بخش،ص۵۵،سوانحِ حیات حضرت علی بن عثمان،ص۴۷،سیرت حضرت داتا گنج بخش،ص۵۷،سیدِ ہجویر،ص۱۱۸

[55] سید ہجویر،ص۱

[56] اللہ کے خاص بندے، ص۴۶۸

[57] تفسیر نعیمی ،۱۰/۲۰۱تا ۲۰۴ملخصاً

[58] اللہ کےخاص بندے، ص۴۶۹ ملخصاً

[59] خزینۃ الاصفیاء مترجم،۱/ ۱۷۴، سوانح حیات حضرت علی بن عثمان،ص۵۳

[60] بزرگوں کے عقیدے،ص۱۷۶

[61] گنج بخش فیض  عالم،ص۵۷

[62] حدیقۃ الاولیاء ،ص۱۸۲

[63] کشف المحجوب ،ص۸

[64] باطنی بیماریوں کی معلومات اور ان سے بچنے کے طریقے جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب ”باطنی بیماریوں کی معلومات“ کا مطالعہ کیجئے۔

[65] کشف المحجوب، ص۲

[66] کشف المحجوب،ص۲

[67] کشف المحجوب،باب لبس المرقعات،ص۵۳

[68] کشف المحجوب ،باب فی فرق فرقہم فی مذاہبھم،ص۲۸۳

[69] کشف المحجوب ،باب فی فرق فرقہم فی مذاہبھم،ص۲۸۳

[70] حیات و افکار حضرت داتا گنج بخش،ص۵۲،سیدِ ہجویر،ص۱۵۱

[71] فوائد الفوادمترجم،پانچویں مجلس،ص۱۱۸ماخوذاً

[72] مسلم،کتاب الذکر والدعاء الخ،باب  فضل الاجتماع۔۔۔الخ، ص۱۴۴۸، حدیث:۲۶۹۹ملتقطا

[73] سید ہجویر،ص۱۶۶ماخوذا

[74] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من تبع الخ ،ص۹۶

[75] سید ہجویر ،ص۲۰۶

[76] نفحات الانس مترجم،ص۳۵۲،سیدِ ہجویر،ص۲۳۱

[77] سیدِ ہجویر،ص۲۳۱

[78] حدائق الحنفیۃ،ص۲۲۳

[79] تاریخِ لاہور، ص۲۹۲

[80]  Islam in the Indian Subcontinent,p8

[81] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من تبع الخ ،ص۹۸

[82] کشف المحجوب،باب فی ذکر ائمتھم من تبع الخ ،ص۱۰۱

[83] تفسير خازن، پ۵،النساء، تحت الآیة ۱۱۳ ،۱/۴۲۹

[84] خزائن العرفان ،ص۱۴۶

[85] بخاری، کتاب البیوع، باب من لم یبالی من حیثالخ، ۲/۷، حدیث:۲۰۵۹

[86] ترمذی، کتاب الفتن،باب ما جاء فی النھی عن سب الریاح،۴/ ۱۱۵، حدیث:۲۲۶۷

[87] شعب الایمان، باب فی الصلوات، فصل المشی الی المساجد،۳/۸۶، حدیث:۲۹۶۲

[88] بخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع،۴/۲۴۸،حدیث:۶۵۰۲

[89] مراٰۃ المناجیح ،۳/۳۳۶ملتقطا

[90] کشف المحجوب،باب فی فرق فرقھم  فی مذاہبھم الخ،ص۳۱۸

[91] کشف المحجوب،باب الصحبۃ و ما یتعلق بھا ،ص۳۷۵

[92] نزھۃ القاری ، ۱ / ۲۲۴ ملتقطا

[93] معجم کبیر ،یحیی بن قیس ،۶/۱۸۵،حدیث: ۵۹۴۲

[94] کشف المحجوب ،ص۴

[95] کشف المحجوب، ص۱۰

[96] کشف المحجوب،باب اثبات العلم ،ص۱۱

[97] کشف المحجوب،باب اثبات العلم ،ص۱۱

[98] کشف المحجوب،باب اثبات العلم ،ص۱۳

[99] کشف المحجوب، باب لبس المرقعات،ص۵۴

[100] کشف المحجوب، باب فی ذکر ائمتھم من اھل البیت،ص۷۸

[101] کشف المحجوب، باب اثبات العلم ،ص۱۸

[102] کشف المحجوب، باب الملامۃ،ص۶۰

[103] کشف المحجوب، باب فی ذکر ائمتھم من التابعین،ص۹۲

[104] کشف المحجوب، باب فی ذکر ائمتھم من تبع التابعین الی یومنا ، ص۹۵

[105] کشف المحجوب، باب فی ذکر ائمتھم من التابعین،ص۱۰۱ملخصاً

[106] کشف المحجوب، باب فی ذکر ائمتھم من التابعین،ص۱۶۱

[107] کشف المحجوب،باب اثبات العلم،ص۱۷

[108] کشف المحجوب،باب اثبات الفقر،ص۲۶

[109] کشف المحجوب، باب فی ذکر ائمتھم من التابعین،ص۹۲

[110] کشف المحجوب،، باب فی ذکر ائمتھم من التابعین،ص۹۳

[111] کشف المحجوب، باب المشاھدہ،کشف الحجاب التاسع فی الصحبۃ مع ادابھاو احکامھا،۳۷۰

[112] کشف المحجوب، باب المشاھدہ،کشف الحجاب التاسع فی الصحبۃ مع ادابھاو احکامھا،۳۷۰

[113] کشف المحجوب، باب فی فرق فرقھم فی مذاھبھم،ص ۳۱۸

[114] کشف المحجوب،باب اثبات الفقر،ص۲۱

[115] کشف المحجوب،باب الجوع ما یتعلق بھا ،ص۳۵۸

[116] سیّدِ ہجویر، ص۱۴۳

[117] تذکرۂ محدث دکن،ص۱۲۳

[118] مدینۃ الاولیاء،ص۴۷۵ماخوذاً

[119] مزارات اولیاکی حکایات،ص۳۸

[120] مزارات اولیاکی حکایات،ص۳۸