جدید و قدیم تفاسیر اور دیگر علوم ِ اسلامیہ پر مشتمل
ذخیرہ کتب کی روشنی میں قرآن مجید کی آیات کے مطالب و معانی اور ان سے حاصل ہونے والے
درس و نکات کا موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق انتہائی سہل بیان،نیز مسلمانوں کے عقائد،دین اسلام
کے اوصاف و خصوصیات ، اہلسنت کے نظریات و معمولات،عبادات،معاملات ، اخلاقیات ، باطنی امراض اور
معاشرتی برائیوں سے متعلق قرآن و حدیث ، اقوال صحابہ و تابعین اور دیگر بزرگان دین کے ارشادات کی روشنی میں ایک جامع تفسیر
مع دو ترجموں کے۔
کَنْزُ الْاِیْمَان فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْآن
از: اعلیٰ حضرت ،مجددِ دین و ملت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن
اور
کَنْزُ الْعِرْفَان فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْآن
مع
صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن
از: شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی ابو صالح محمد قاسم قادری مد ظلہ العالی
ناشر
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
فرمانِ مصطفیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌمِنْ عَمَلِہ‘‘ مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی۶ /۱۸۵حدیث: ۵۹۴۲)
دو مَدَنی پھول:
(۱) بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔
(۲) جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔
(1) ہربارتَعَوُّذو (2) تَسْمِیَہ سے آغاز کروں گا (3) رضائے الٰہی کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخر مطالعہ کروں گا (4) باوضو اور (5) قبلہ رُو مطالعہ کروں گا (6) قراٰنی آیات کی درست مخارج کے ساتھ تلاوت کروں گا۔(7) ہرآیت کی تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھ کر قرآنِ کریم سمجھنے کی کوشش کرونگا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دوں گا۔ (8) اپنی طرف سے تفسیر کرنے کے بجائے علماءے حَقَّہ کی لکھی گئی تفاسیر پڑھ کر اپنے آپ کو ’’اپنی رائے سے تفسیر کرنے‘‘ کی وعید سے بچاؤں گا۔ (9) جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے وہ کروں گا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے دور رہوں گا۔ (10) اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کروں گا اور بدعقیدگی سے خود بھی بچوں گا اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی بچانے کی کوشش کروں گا۔ (11) جن پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا انعام ہوا ان کی پیروی کرتے ہوئے رضائے الٰہی پانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ (12) جن قوموں پر عتاب ہوا ان سے عبرت لیتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈروں گا۔ (13) شانِ رسالت میں نازل ہونے والی آیات پڑھ کراس کا خوب چرچا کرکے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی محبت وعقیدت میں مزید اضافہ کروں گا۔ (14) جہاں جہاں ’’اللہ‘‘کا نام پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلََّّ اور (15) جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پڑھوں گا۔ (16) شرعی مسائل سیکھوں گا (17) اگر کوئی بات سمجھ نہ آئی تو علماءے کرام سے پوچھ لوں گا۔ (18) دوسروں کویہ تفسیر پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔ (19) اس کے مطالعہ کا ثواب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ساری امت کو ایصال کروں گا۔ (20) کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پر مطلع کروں گا (ناشرین ومصنف وغیرہ کو کتابوں کی اغلاط صرف زبانی بتانا خاص مفید نہیں ہوتا)
اَلْحَمَدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
(شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے صراط الجنان کی پہلی جلد پردئیے گئے تاثرات)
کچھ صِراطُ الجِنان کے بارے میں۔۔۔۔۔
۱۴۲۲ھ( 2002ء) کی بات ہے جب مفتیِ دعوتِ اسلامی الحاج محمد فارو ق مَدَنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْغَنِی ’’چل مدینہ‘‘ کے قافلے میں ہمارے ساتھ تھے اور اِس سفرِ حج میں مجھے ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ بے حد کم گو، انتہائی سنجیدہ اور کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنے والی اِس نہایت پرہیز گار شخصیت کی عَظَمت میرے دل میں گھر کر گئی۔ مکّۃُالمکرَّمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً میں ہمارا مشورہ ہوا کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے ترجمۂ کنزالایمان کی ایک آسان سی تفسیر ہونی چاہئے جس سے کم پڑھے لکھے عوام بھی فائدہ اٹھا سکیں ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ مفتیِ دعوتِ اسلامی قدّس سرّہ السّامی اِس بابَرَکت خدمت کے لئے بخوشی آمادہ ہوگئے۔مُجَوَّزہ تفسیر کا نام صِراطُ الْجِنان (یعنی جنّتوں کا راستہ) طے ہوا۔ تَبَرُّکاً مکّۃُ المکرَّمہزَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً ہی میں اِس عظیم کام کا آغاز کردیا گیا، افسوس! مفتیِ دعوتِ اسلامی قدّس سرّہ السّامی کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا، 6 پاروں پر کام کرکے وہ (بروز جمعہ ۱۸ محرم الحرم ۱۴۲۷ھ) پردہ فرما گئے ۔
اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
چونکہ یہ کام انتہائی اہم تھا لہٰذا مَدَنی مرکز کی درخواست پرشیخ الحدیث ِوالتَّفسیر حضرت علامہ مو لانا الحاج مفتی ابوصالح محمد قاسم قادری مدّظلہ العالی نے اس کام کا از سرِ نو آغاز کیا۔ اگرچِہ اس نئے مواد میں مفتیِ دعوتِ اسلامی کے کئے گئے کام کو شامل نہ کیا جا سکا مگر چونکہ بُنیاد انہی نے رکھی تھی اور آغاز بھی مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً کی پُر بہارفَضاؤں میں ہوا تھا اور ’’صِراطُ الْجِنان‘‘ نام بھی وہیں طے کیا گیا تھا لہٰذا حُصُولِ بَرَکت کیلئے یِہی نام باقی رکھا گیا ہے۔کنز الایمان اگرچِہ اپنے دور کے اعتبار سے نہایت فَصیح ترجَمہ ہے تاہم اس کے بے شمار الفاظ ایسے ہیں جواب ہمارے یہاں رائج نہ رہنے کے سبب عوام کی فہم سے بالا تر ہیں لہٰذا اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ترجمۂ قراٰنکنز الایمان شریف کو مِن و عَن باقی رکھتے ہوئے اِسی سے روشنی لیکر دورِحاضر کے تقاضے کے مطابِق حضرتِ علامہ مفتی محمد قاسم صاحِب مد ظلہ نے مَاشَاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ا یک اور ترجَمے کا بھی اضافہ فرمایا، اس کانام کنزُالْعِرفان رکھا ہے۔ اِ س کام میں دعوتِ اسلامی کی میری عزیز اور پیاری مجلس،المدینۃ العلمیہ کے مَدَنی عُلَما نے بھی حصّہ لیا بالخصوص مولانا ذُوالقَرنَین مَدَنی سلَّمہُ الغَنِینے خوب معاونت فرمائی اور اس طرح صِراطُ الجِنان کی 3 پاروں پرمشتمل پہلی جلدآپ کے ہاتھوں میں ہے۔اللہ تعالیٰ الحاج مفتی محمد قاسم صاحِب مدظلہ سمیت اِسکَنْزُالْاِیْمَانِ فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْاٰنِ وَصِرَاطُ الْجِنَانِ فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْاٰنِکے مبارَک کام میں اپنا اپنا حصّہ ملانے والوں کو دنیا و آخِرت کی خوب خوب بھلائیاں عنایت فرمائے اور تمام عاشقانِ رسول کیلئے یہ تفسیرنفع بخش بنائے۔اٰمِیْن بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
(لَنْ تَنَالُوا )
پارہ نمبر…4
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ(۹۲)
ترجمۂکنزالایمان: تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے ۔
ترجمۂکنزالعرفان: تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔
{لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا: تم ہرگزبھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں خرچ نہ کرو۔} اس آیت میں بھلائی سے مراد تقویٰ اور فرمانبرداری ہے اور خرچ کرنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ’’ یہاں خرچ کرنے میں واجب اور نفلی تمام صدقات داخل ہیں۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: جو مال مسلمانوں کو محبوب ہو اسے رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرنے والا اس آیت کی فضیلت میں داخل ہے خواہ وہ ایک کھجور ہی ہو۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱/۲۷۲)
اس آیتِ مبارکہ پر عمل کے سلسلے میں ہمارے اَسلاف کے 5 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)… صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ’’ حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینے میں بڑے مالدار تھے، انہیں اپنے اموال میں بَیْرُحَاء نامی ایک باغ بہت پسند تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں کھڑے ہو کر عرض کی: مجھے اپنے اموال میں ’’بَیْرُحَاء‘‘ باغ سب سے پیارا ہے، میں اسی کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور پھر حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اشارے پر وہ باغ اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردیا۔ (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الاقارب، ۱/۴۹۳، الحدیث: ۱۴۶۱، مسلم ، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین۔۔۔ الخ، ص ۵۰۰، الحدیث: ۴۲(۹۹۸))
(2)… حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو موسیٰ اَشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو لکھا کہ’’ میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو۔ جب وہ آئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بہت پسند آئی ،لیکن پھرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ آیت پڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔ (بغوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ۱/۲۵۳)
(3)… حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نے اس آیت’’لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ‘‘ کی تلاوت کی تو میں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں غور کیا (کہ کون سی نعمت مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے، جب غور کیا) تو میں نے اپنی باندی کو اپنے نزدیک سب سے زیادہ پیارا پایا، اس پر میں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جس چیز کو میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے کر دیا، اس کی طرف نہ لوٹوں گا تو میں اس باندی سے نکاح کر لیتا۔ (مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، ذکر عبد اللہ بن عمر۔۔۔ الخ، کان ابن عمر ازہد القوم واصوبہ رأیاً، ۴/۷۲۸، الحدیث: ۶۴۳۵)
(4)… حضرت عمرو بن دینار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : جب یہ آیت’’ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ‘‘ نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے (پسندیدہ) گھوڑے کو لے کر بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس گھوڑے کو صدقہ فرما دیں۔ تاجدار رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ گھوڑا ان کے بیٹے حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عطا فرما دیا تو حضرت زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: میں نے اس گھوڑے کو محض (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) صدقہ کرنے کا ارادہ کیا ہے !نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک تیرا صدقہ قبول کر لیا گیا ہے۔(ابن عساکر ، ذکر من اسمہ زید، زید بن حارثہ بن شراحیل، ۱۹/۳۶۷ )
(5)…حضرت عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شکر کی بوریاں خرید کر صدقہ کرتے تھے۔ ان سے کہا گیا: اس کی قیمت صدقہ کیوں نہیں کردیتے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: شکر مجھے محبوب ومرغوب ہے ، میں چاہتا ہوں کہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں اپنی پیاری چیز خرچ کروں۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۲، ص۱۷۲)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اپنی محبوب اور پسندیدہ چیزیں راہِ خدا میں دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین[1]
{وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ:اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔} یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم اس کی راہ میں عمدہ، نفیس اور اپنی پسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو یا ردی، ناکارہ اور اپنی ناپسندیدہ چیز خرچ کر رہے ہو، تو جیسی چیز تم خرچ کرو گے اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ تمہیں جزا عطاء فرمائے گا۔ (روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲/۶۳)
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِیْلُ عَلٰى نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُؕ- قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۹۳)
ترجمۂکنزالایمان: سب کھانے بنی اسرائیل کو حلال تھے مگر وہ جو یعقوب نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا توریت اترنے سے پہلے تم فرماؤ توریت لاکر پڑھو اگر سچے ہو۔
ترجمۂکنزالعرفان: تمام کھانے بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے سوائے ان کھانوں کے جو یعقوب نے تورات نازل کئے جانے سے پہلے اپنے اوپر حرام کرلئے تھے۔ تم فرماؤ، تورات لاؤ اور اسے پڑھو اگر تم سچے ہو۔
{كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ : تمام کھانے بنی اسرائیل کے لئے حلال تھے۔}شانِ نزول: مدینہ منورہ کے یہودیوں نے سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کیا کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے آپ کو ملّتِ ابراہیمی پر خیال کرتے ہیں حالانکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اونٹ کا گوشت اور دودھ نہیں کھاتے تھے جبکہ آپ کھاتے ہیں ، تو آپ ملّتِ ابراہیمی پر کیسے ہوئے ؟ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر حلال تھیں۔ یہودی کہنے لگے کہ یہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی حرام تھیں ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بھی حرام تھیں اور ہم تک حرام ہی چلی آئیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں بتایا گیا کہ یہودیوں کا یہ دعویٰ غلط ہے ،بلکہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل، حضرت اسحق اور حضرت یعقوبعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر حلال تھیں۔ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی سبب سے ان کو اپنے اوپر حرام فرمایا اور یہ حرمت ان کی اولاد میں باقی رہی ۔یہودیوں نے اس کا انکار کیا تو حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا کہ تورات میں یہ مضمون موجود ہے، اگر تمہیں اس سے انکار ہے تو تورات لاؤ اور اس میں سے نکال کر دکھا دو کہ یہ چیزیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر حرام تھیں۔ اس پر یہودیوں کو اپنی ذلت و رسوائی کا خوف ہوا اور وہ تورات نہ لاسکے، ان کاجھوٹا ہونا ظاہر ہوگیا اور انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۳، ۱/۲۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ احکام کا مَنسوخ ہونا ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ لہٰذا قرآن کی بعض آیات کے منسوخ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس پر تفصیلی کلام سورۂ بقرہ کی آیت 106میں گزر چکا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا علم شریف اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تورات و انجیل سے خبردار ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غیبی علوم عطا فرمائے ہیں۔
فَمَنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَؐ(۹۴)
ترجمۂکنزالایمان:تو اس کے بعد جو اللہ پر جھوٹ باندھے تو وہی ظالم ہیں ۔
ترجمۂکنزالعرفان:پھر اس کے بعد بھی جو اللہ پر جھوٹ باندھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
فَمَنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ : پھر جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔} یعنی اس بات کی وضاحت تو ہوگئی کہ بنی اسرائیل پر جو کچھ کھانے حرام ہیں یہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حرام کرنے سے ہوئے، تو جو اِس حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے اور کہے کہ’’ ملتِ ابراہیمی میں اونٹوں کے گوشت اور دودھ اللہ تعالیٰ نے حرام کئے تھے‘‘ وہ ظالم ہے۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم کے باوجود گناہ کرنا زیادہ سخت ہے نیز حلال کو اپنی طرف سے بلا دلیل حرام کہنا اللہ تعالیٰ پر اِفتراء کرنا ہے۔
قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ۫-فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۹۵)
ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ اللہسچا ہے تو ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے اور شرک والوں میں نہ تھے۔
ترجمۂکنزالعرفان:اے محبوب! تم فرماؤ ،اللہ نے سچ فرمایالہٰذا تم ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
{فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا: لہٰذا تم ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے۔} اس آیت میں دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ’’ دین محمدی کی پیروی کرو ،کیونکہ اس کی پیروی ملتِ ابراہیمی کی پیروی ہے، دین محمدی اُس ملت کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶)
ترجمۂکنزالایمان: بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما۔
ترجمۂکنزالعرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔
{اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ۔} یہودیوں نے کہا تھا کہ’’ ہمارا قبلہ یعنی بیتُ المقدس کعبہ سے افضل ہے کیونکہ یہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قبلہ رہا ہے، نیزیہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے ۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۶، ۱/۲۷۴)
اور بتا دیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’کعبہ معظمہ بیتُ المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱- باب، ۲/۴۲۷، الحدیث: ۳۳۶۶)
اور فرشتوں کا قبلہ بیتُ المعمور ہے جو آسمان میں ہے اورخانہ کعبہ کے بالکل اوپر ہے۔(کنز العمال، کتاب الفضائل، باب فی فضائل الامکنۃ، ۷/۴۹، الجزء الرابع عشر، الحدیث: ۳۸۰۸۱)
اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں کعبۂ معظمہ کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔
(1)…سب سے پہلی عبادت گاہ ہے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اس کی طرف نماز پڑھی۔
(2)…تمام لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیاجبکہ بیتُ المقدس مخصو ص وقت میں خاص لوگوں کا قبلہ رہا۔
(3)…مکہ معظمہ میں واقع ہے جہاں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ہے۔
(4) …اس کا حج فرض کیا گیا ۔
(5)…حج ہمیشہ صرف اسی کا ہوا، بیتُ المقدس قبلہ ضرور رہا ہے لیکن کبھی اس کا حج نہ ہوا۔
(6) …اسے امن کا مقام قرار دیا۔
(7)…اس میں بہت سی نشانیاں رکھی گئیں جن میں ایک
مقامِ ابراہیم ہے۔
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ
اِبْرٰهِیْمَ ﳛ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ
اٰمِنًاؕ-وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ
الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ وَ
مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ
الْعٰلَمِیْنَ(۹۷)-
ترجمۂکنزالایمان:اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔
ترجمۂکنزالعرفان:اس میں کھلی نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔
{فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ : اس میں کھلی نشانیاں ہیں۔} خانۂ کعبہ کی عظمت و شان کا بیان چل رہا ہے، اسی ضمن میں فرمایا کہ : خانۂ کعبہ میں بہت سی فضیلتیں اور نشانیاں ہیں جو اس کی عزت و حرمت اور فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرندے کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں اور جو پرندے بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں ، اسی سے انہیں شِفا ہوتی ہے اور وحشی جانور ایک دوسرے کو حرم کی حدودمیں ایذا نہیں دیتے، حتّٰی کہ اس سرزمین میں کتے ہرن کے شکار کیلئے نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے نیز لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیا ء اس کے ارد گرد حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی و بے ادبی کا ارادہ کرتا ہے برباد ہوجاتا ہے ۔انہیں آیات میں سے مقامِ ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان فرمایا گیا ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱/۲۷۶، تفسیرات احمدیہ، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۲۰۱-۲۰۲، ملتقطاً)
{مَقَامُ اِبْرٰهِیْمَ: ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔} مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکعبہ شریف کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ یہ پتھر خانۂ کعبہ کی دیواروں کی اونچائی کے مطابق خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو طویل زمانہ گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ باقی ہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ۱/۲۷۶، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآىٕرِ اللّٰهِ اور آیۃُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانی بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ (بقرہ:۱۵۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قدم پڑجانے سے شَعَائِرُاللہ بن گئے۔
{وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا: اور جو اس میں داخل ہوا امن والاہوگیا۔} خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم کرکے حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ’’ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۹۷، ص۱۷۴)
حرم سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد کئی کلومیٹر پھیلا ہوا علاقہ ہے جہاں باقاعدہ نشانات وغیرہ لگا کر اسے ممتاز کردیا گیا ہے۔ جو لوگ حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں انہیں عموما ًاس کی پہچان ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں جاکر جب لوگوں کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو عمرہ کرنے کے لئے حدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے۔
{وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔} اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ اِستِطاعت شرط ہے۔ حدیث شریف میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی تفسیر ’’ زادِ راہ ‘‘اور’’ سواری‘‘ سے فرمائی ہے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ اٰل عمران، ۵/۶، الحدیث: ۳۰۰۹)
کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہئے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے خرچے کے علاوہ ہونا چاہئے۔ راستے کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی۔مزید تفصیل فقہی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔[2]
{وَ مَنْ كَفَرَ: اور جو منکر ہو۔} ارشاد فرمایا کہ ’’حج کی فرضیت بیان کردی گئی، اب جو اس کا منکر ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے بلکہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر ہے۔
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ﳓ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ(۹۸)
ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ اے کتابیو اللہ کی آیتیں کیوں نہیں مانتے اور تمہارے کام اللہ کے سامنے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے اہلِ کتاب!تم اللہ کی آیتوں کا انکار کیوں کرتے ہو حالانکہ اللہ تمہارے اعمال پر گواہ ہے؟
{لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ :تم اللہ کی آیتوں کا انکار کیوں کرتے ہو ۔}یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں سے مراد توریت کی وہ آیات ہیں جن میں سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اوصاف کا بیان ہے اور وہ عقلی دلائل مراد ہیں جو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں۔
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَهَا
عِوَجًا وَّ اَنْتُمْ شُهَدَآءُؕ-وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۹۹)
ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ اے کتابیو کیوں اللہکی راہ سے روکتے ہو اسے جو ایمان لائے اسے ٹیڑھا کیا چاہتے ہو اور تم خود اس پر گواہ ہو اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بے خبر نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ :اے اہلِ کتاب! تم ایمان لانے والوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہو ؟تم اس میں بھی ٹیڑھا پن چاہتے ہو حالانکہ تم خود اس پر گواہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔
{قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ: تم فرماؤ :اے اہلِ کتاب!} اس آیت میں بھی اہلِ کتاب ہی سے خطاب ہے کہ’’ اے اہلِ کتاب! تم ان لوگوں کو جن کے دلوں میں ابھی ایمان مضبوط نہیں ہوا، انہیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں توریت کی آیتیں چھپا کر اور یہ کہہ کر کیوں بہکاتے ہو کہ’’ یہ وہ نبی نہیں جن کی خبر توریت و انجیل میں ہے۔یہ کہہ کرتم انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے کیوں روکتے ہو؟ حالانکہ تم خود اس بات کے گواہ ہو کہ سید ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان توریت میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں جو دین مقبول ہے وہ صرف دین اسلام ہی ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ(۱۰۰)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو اگر تم کچھ کتابیوں کے کہے پر چلے تو وہ تمہارے ایمان کے بعد تمہیں کافر کر چھوڑیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب میں سے کسی گروہ کی اطاعت کرو تو وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد کفر کی حالت میں لوٹا دیں گے۔
{اِنْ تُطِیْعُوْا: اگر تم اطاعت کرو۔} مرشاس بن قیس یہودی مسلمانوں کی مجلس کے قریب سے گزرا جس میں انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج نہایت محبت سے باتیں کر رہے تھے، اسلام سے پہلے ان کی آپس میں بہت جنگ تھی اس یہودی کوان کے اتفاق سے بڑی تکلیف ہوئی چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی سے کہا کہ تم اِن کی گزشتہ جنگیں یاد دلا کر اِنہیں لڑا دو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ قصیدے پڑھے جن میں ان کی گزشتہ جنگوں کا ذکر تھا۔ ان قصائد کو سن کر انصار کو اپنی گزشتہ جنگیں یاد آگئیں اور وہ آپس میں لڑ پڑے۔ قریب تھا کہ خون ریزی ہوجائے، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فوراً موقع پر تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا جاہلیت کی حرکتیں کرتے ہوحالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔یہ سن کر انہوں نے ہتھیار پھینک دئیے اور روتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے ۔ اس پر یہ آیت کریمہ اتری۔ (در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲/۲۷۸-۲۷۹)
اس سے معلوم ہوا کہ یہاں آیت میں کفر سے مراد کافروں والے کام ہیں یعنی اپنی’’ انا‘‘ کیلئے آپس میں جنگ کرنا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ فتنہ فساد برپا کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا یہودیوں کا کام اور آپس میں پیار محبت پیدا کرنا اور صلح کروانا سراپا رَحمت،مجسمِ شفقت، شفیعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت ہے۔
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗؕ-
وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠(۱۰۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور تم کیوں کر کفر کروگے تم پر تواللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف فرما ہے اور جس نے اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (ایمان والو! اب) تم کیوں کفر کروگے حالانکہ تمہارے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف فرما ہے اور جس نے اللہ کا سہارامضبوطی سے تھام لیا تو اسے یقینا سیدھا راستہ دکھادیا گیا۔
{وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ: او رتم کیوں کفر کرو گے؟ }یہاں ابتداء ً صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے خطاب ہے کہ اے جماعت ِصحابہ! (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم)تم کافروں کی طرح آپس میں کیسے لڑ سکتے ہوجبکہ تم حضور رحمۃللعالمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحبت یافتہ ہواور ان کی زبانِ مبارک سے قرآنِ مجید سنتے ہو۔ اس آیت میں عام مسلمانوں کو بھی اس اعتبار سے نصیحت ہے کہ ہمارے درمیان قرآن موجود ہے اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعلیمات موجود ہیں تو پھر آپس میں نفسانی لڑائی کس طرح ہوسکتی ہے؟
{وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ : اور جس نے اللہ کا سہارامضبوطی سے تھام لیا۔}جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا سہارا تھاما یعنی اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کے دین کو مضبوطی سے تھام لیا اور زندگی کے جملہ امور میں اسی کی طرف رجوع کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کرم سے وہ ضرور ہدایت پاجائے گا۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔
{اِتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو۔} ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ایسا ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بَقدرِ طاقت اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ اس کی تفسیر وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا:
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ(تغابن:۱۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔
نیز آیت کے آخری حصے میں فرمایا کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی رہنے کی کوشش کرو تاکہ جب تمہیں موت آئے تو حالت ِ اسلام پرہی آئے۔
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪-وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ-وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۱۰۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا) اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا (دشمنی تھی)اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا۔ اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔
{وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا: اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔} اس آیت میں اُن افعال و حرکات کی مُمانَعت کی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان تفریق کا سبب ہوں ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ ’’تم سب مل کراللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں فرقوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ جیسے یہود و نصاریٰ نے فرقے بنالئے ۔
یاد رہے کہ اصل راستہ اور طریقہ مذہب ِاہل سنت ہے، اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق کرنا ہے اور یہ ممنوع ہے۔ بعض لوگ یہ آیت لے کر اہلسنّت سمیت سب کو غلط قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ حکم یہ ہے کہ جس طریقے پر مسلمان چلتے آرہے ہیں ، جو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جاری ہے اور سنت سے ثابت ہے اس سے نہ ہٹو۔ اہلِ سنت و جماعت تو سنت ِ رسول اور جماعت ِ صحابہ کے طریقے پر چلتے آرہے ہیں تو سمجھایا تو ان لوگوں کو جائے گا جو اس سے ہٹے نہ کہ اصل طریقے پر چلنے والوں کو کہا جائے کہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان اتفاق و اتحاد کے ساتھ صحیح اصولوں پر زندگی گزار رہا ہو، ان میں سے ایک فرد غلط راہ اختیار کرکے اِنتشار پیدا کرے تو اُس جدا ہونے والے کو سمجھایا جائے گا نہ کہ خاندان والوں کو بھی اتحاد ختم کرکے غلط راہ چلنے کا کہنا شروع کردیا جائے۔ بِعَیْنِہٖ یہی صورتِ حال اہلسنّت اور دوسرے فرقوں کی ہے۔ اصل حقیقت کو سمجھے بغیر صلح کُلِّیَّت کی رٹ لگانا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا سراسر جہالت ہے۔
’’حَبْلُ اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر :
’’حَبْلِ اللّٰهِ‘‘ کی تفسیر میں مفسرین کے چند اقوال ہیں : بعض کہتے ہیں کہ اس سے قرآن مراد ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں ہے کہ قرآنِ پاک حَبْلُ اللہہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہے اورجس نے اُسے چھوڑا وہ گمراہی پر ہے۔ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۳، الحدیث: ۳۷(۲۴۰۸))
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ:حَبْلُ اللہ سے جماعت مراد ہے(معجم الکبیر، ۹/۲۱۲، الحدیث: ۹۰۳۳)
اور فرمایا کہ: تم جماعت کو لازم کرلو کہ وہ حَبْلُ اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا۔(معجم الکبیر، ۹/۱۹۹، الحدیث: ۸۹۷۳)
یہ یاد رہے کہ جماعت سے مراد مسلمانوں کی اکثریت ہے ، یہ نہیں کہ تین آدمی مل کر’’ جماعتُ المسلمین ‘‘نام رکھ لیں اور بولیں کہ قرآن نے ہماری ٹولی میں داخل ہونے کا کہا ہے، اگر ایسا ہی حکم ہے تو پھر کل کوئی اپنا نام ’’رسول‘‘ رکھ کر بولے گا کہ قرآن نے جہاں بھی رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس سے مراد میری ذات ہے لہٰذا میری اطاعت کرو۔ اَعُوذُ بِاللہِ مِنْ جَہْلِ الْجَاہِلِینْمیں جاہلوں کی جہالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔
{وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ: اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو۔} اس آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو جن میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ اے مسلمانو! یاد کرو کہ جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اور تمہارے درمیان طویل عرصے کی جنگیں جاری تھیں حتّٰی کہ اوس اور خَزْرَج میں ایک لڑائی ایک سو بیس سال جاری رہی اور اس کے سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی لیکن اسلام کی بدولت عداوت و دشمنی دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہاری دشمنیاں مٹادیں اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کردی اور جنگجو قبیلوں میں الفت و محبت کے جذبات پیدا کردیئے،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا ورنہ یہ لوگ اپنے کفر کی وجہ سے جہنم کے گڑھے کے کنارے پر پہنچے ہوئے تھے اور اگر اسی حال پر مرجاتے تو دوزخ میں پہنچتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے دولتِ ایمان عطا کرکے اس تباہی سے بچالیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے لئے دوزخ سے بچنے کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں ،چنانچہ حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ کچھ فرشتے حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس وقت حاضر ہوئے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سو رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا:یہ تو سوئے ہوئے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ فرشتوں نے کہا: آپ کے ان صاحب کی مثال ہے لہٰذا وہ مثال بیان کرو۔ ایک نے کہا: وہ تو سوئے ہوئے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے گھر بنایا، اس میں دستر خوان بچھایا اور بلانے والے کو بھیجا تو جس نے اس کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو ا اور دستر خوان سے کھانا کھایا اور جس نے دعوت قبول نہ کی وہ نہ گھر میں داخل ہوا اور نہ دستر خوان سے کھانا کھا سکا۔ فرشتوں میں سے ایک نے کہا: اس کا مطلب بیان کیجئے تاکہ بات سمجھ میں آجائے۔ ان میں سے ایک نے کہا :یہ تو سو رہے ہیں۔دوسرے نے کہا: ان کی آنکھ سوتی اور دل بیدار رہتا ہے۔ فرشتوں نے کہا: گھر سے مراد جنت ہے اور بلانے والے سے مراد حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں تو جس نے محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی ا س نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ۔محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاچھے اور برے لوگوں میں فرق کرنے والے ہیں۔(بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴/۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب ا س آگ نے اردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ ا س پر غالب آ کر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں ، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے ،میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر (پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح) جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۵۴، الحدیث: ۱۸(۲۲۸۴))
اور یہ بھی معلوم ہو اکہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی سب سے اعلیٰ نعمت ہیں۔ آیت کے شروع میں فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمت کو یاد کرو ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں کو یاد کرنا اور ایک دوسرے کو یاد دلانا بہت عمدہ عبادت ہے۔ لہٰذا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یاد کیلئے جو محفل منعقد کی جائے خواہ وہ میلاد شریف کی ہو یا معراج کی یا کوئی اور وہ سب بہت عمدہ ہیں اور حکمِ الٰہی پر عمل ہی کی صورتیں ہیں۔
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
{وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں۔} آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیےکہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، انہیں نیکی کی دعوت دے، اچھی بات کا حکم کرے اور بری بات سے منع کرے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا، مقررین کا تقریر کرنا، مبلغین کا بیان کرنا، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے۔ تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسااوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان۔۔۔ الخ، ص ۴۴، الحدیث: ۷۸(۴۹))
(1)…حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، تم یا تو ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تم پر عذاب بھیجے، پھر تم اس سے دعا مانگو گے مگر تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، ۴/۶۹، الحدیث: ۲۱۷۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر تم ہی میں سے برے لوگوں کو مُسلَّط کر دے گا،پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو وہ قبول نہیں کی جائے گی۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱/۳۷۷، الحدیث: ۱۳۷۹)
(3)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص کسی مقام پر کھڑے ہو کر حق بات کہہ سکتا ہے تو اس کیلئے درست نہیں کہ حق بات نہ کہے کیونکہ حق بات کہنا ا س کی موت کو مقدم کر سکتا ہے نہ اس کے لکھے ہوئے رزق سے اسے محروم کر سکتا ہے۔ (شعب الایمان، الثانی والخمسون من شعب الایمان، ۶/۹۲، الحدیث: ۷۵۷۹)
(4)… حضرت عُرس بن عمیرہ کندی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب زمین میں گناہ کیا جائے توجو وہاں موجود ہے مگر اسے برا جانتا ہے وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر راضی ہے وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔(ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب الامر والنہی، ۴/۱۶۶، الحدیث: ۴۳۴۵)
(5)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے فرمایا کہ نیکیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا بہترین جہاد ہے۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ص۱۷۸)
ہمارے معاشرے میں نیک کام کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے حوالے سے مجموعی طور پر صورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے، حکام اپنی رعایا کے اعمال سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔ عدل و انصاف کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے منصب پر فائز حضرات عدل و انصاف کی دھجیاں اڑانے اور مجرموں کی پشت پناہی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ والدین اپنی اولاد، اَساتذہ اپنے شاگردوں اور افسر اپنے نوکروں کے برے اعمال سے چشم پوشی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو،بیوی اپنے شوہر کو،بھائی بہن اور عزیز رشتہ دار ایک دوسر ے کو نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہیں نہ قدرت کے باوجود انہیں برے افعال سے روکتے ہیں اور مسلمانوں کی اسی روش کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم دنیا بھر میں جس ذلت و رسوائی کا شکار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی اوراسی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ قوم تباہی کی طرف بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اس حقیقت کو درج ذیل حدیث میں انتہائی احسن انداز کے ساتھ سمجھایا گیا ہے ،چنانچہ
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کی حدود میں مداہنت کرنے والے (یعنی خلافِ شرع چیز دیکھ کر قدرت کے باوجود منع نہ کرنے والے) اور حدودُ اللہمیں واقع ہونے والے کی مثال یہ ہے کہ ایک قوم نے جہاز کے بارے میں قرعہ ڈالا، بعض اوپر کے حصہ میں رہے بعض نیچے کے حصہ میں ، نیچے والے پانی لینے اوپر جاتے اور پانی لے کر ان کے پاس سے گزرتے توان کو تکلیف ہوتی (انہوں نے اس کی شکایت کی تو) نیچے والے نے کلہاڑی لے کر نیچے کا تختہ کاٹنا شروع کر دیا۔ اوپر والوں نے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے کہ تختہ توڑ رہے ہو؟اس نے کہا میں پانی لینے جاتا ہوں تو تم کو تکلیف ہوتی ہے اور پانی لینا مجھے ضروری ہے۔
(لہٰذا میں تختہ توڑ کر یہیں سے پانی لے لوں گا اور تم لوگوں کو تکلیف نہ دوں گا) پس اس صورت میں اگر اوپر والوں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور تختہ کاٹنے سے روک دیا تو اسے بھی نجات دیں گے اور خودکو بھی بچا لیں گے اور اگر چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کریں گے اور خود بھی ہلاک ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب القرعۃ فی المشکلات، ۲/۲۰۸، الحدیث: ۲۶۸۶) [3]
دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے
جو کچھ بھی ہے سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلا ہے
فریاد ہے اے کشتیِ امت کے نگہباں بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ(۱۰۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور ان میں پھوٹ پڑگئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو آپس میں مُتَفَرّق ہو گئے اورانہوں نے اپنے پاس روشن نشانیاں آجانے کے بعد (بھی) آپس میں اختلاف کیا اور اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔
{وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو آپس میں متفرق ہو گئے۔} ارشاد فرمایا کہ آپس میں تَفَرُّقَہ بازی اور اختلافات میں نہ پڑجانا جیسا کہ یہود ونصاریٰ آپس میں اختلافات میں پڑگئے اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ عناد اور دشمنی راسِخ ہوگئی یا آیت کا یہ معنیٰ ہے کہ آپس میں اُس طرح اختلاف و اِفتراق میں نہ پڑجانا جیسے تم زمانہ اسلام سے پہلے جاہلیت کے وقت میں متفرق تھے اورتمہارے درمیان بغض و عِناد تھا۔
اس آیت میں مسلمانوں کو آپس میں اتفاق و اجتماع کا حکم دیا گیا اور اختلاف اور اس کے اسباب پیدا کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ احادیث میں بھی اس کی بہت تاکیدیں وارد ہیں اور مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہونے کی سختی سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا دست ِرحمت جماعت پر ہے اور جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں گیا۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴/۶۸، الحدیث: ۲۱۷۳)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی،جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴/۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
آج کل جو فرقہ پیدا ہوتا ہے وہ اس حکم کی مخالفت کرکے ہی پیدا ہوتا ہے اور مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور حدیث کے مطابق وہ شیطان کا شکار ہے ۔(معجم الکبیر، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ۔۔۔ الخ، ۱/۱۸۶، الحدیث: ۴۸۹)
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ خیال رہے کہ نا اتفاقی اور پھوٹ کا مجرم وہ شخص ہوگا جو مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر نئی راہ نکالے، جو اسلام کی راہ پر قائم ہے وہ مجرم نہیں۔
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌۚ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ۫-
اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ(۱۰۶)
ترجمۂکنزالایمان: جس دن کچھ منہ اونجالے(چمکتے) ہوں گے اور کچھ منہ کالے تو وہ جن کے منہ کالے ہوئے کیا تم ایمان لاکر کافر ہوئے تو اب عذاب چکھو اپنے کفر کا بدلہ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:جس دن کئی چہرے روشن ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے تو وہ لوگ جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا کہ) کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے تھے؟ تو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔
{یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ : جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے۔} یہاں آیات میں قیامت کے دن کا منظر بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن کچھ چہرے روشن ہوں گے جو یقینا اہلِ ایمان کے ہوں گے اورکچھ چہرے سیاہ ہوں گے جو یقینا کفار کے ہوں گے اور کافروں سے کہا جائے گا کہ ’’کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے تھے؟ تو اب اپنے کفر کے بدلے میں عذاب کا مزہ چکھو۔ یہاں فرمایا کہ’’ ایمان کے بعد کافر ہوئے تھے ‘‘ اس سے اگر تمام کفار کو خطاب ہے تواس صورت میں ایمان سے روزِ میثاق کا ایمان مراد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ‘‘ توسب نے ’’ بَلٰی‘‘ یعنی ’’کیوں نہیں ‘‘کہا تھا اور ایمان لائے تھے ۔اب جو دنیا میں کافر ہوئے تو اُن سے فرمایا جاتا ہے کہ’’ روزِ میثاق ایمان لانے کے بعد تم کافر ہوگئے۔ امام حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ اس سے منافقین مراد ہیں جنہوں نے زبان سے اظہار ِایمان کیا تھا اور ان کے دل منکر تھے۔ حضرت عِکْرَمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ اس سے مراد اہلِ کتاب ہیں جورسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بعثت سے پہلے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے اور ظہور کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکا ر کرکے کافر ہوگئے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کے مخاطب مُرتَدّین ہیں جو اسلام لا کر پھر گئے اور کافر ہو گئے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱/۲۸۶)
ان سے کہا جائے گا کہ اپنے کفر کے بدلے اب عذاب کا مزہ چکھو۔
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ فَفِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۰۷)
ترجمۂکنزالایمان:اور وہ جن کے منہ اونجالے (روشن)ہوئے وہ اللہ کی رحمت میں ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
{فَفِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ: تواللہ کی رحمت میں ہوں گے۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جگہ جنت میں ہوں گے اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱/۲۸۷)
اللہ تعالیٰ اپنے اطاعت گزار اہلِ ایمان کے بارے میں ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌؕ-اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۶)(یونس:۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بھلائی کرنے والوں کے لیے بھلائی ہے اور اس سے بھی زیادہ ہے اور ان کے منہ پر نہ سیاہی چھائی ہوگی اور نہ ذلت۔یہی جنت والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اور ارشاد فرمایا:
وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ مُّسْفِرَةٌۙ(۳۸) ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ (عبس: ۳۸،۳۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں گے۔ ہنستے ہوئے خوشیاں مناتے ہوں گے۔
روشن چہرے والوں سے مراد کون لوگ ہیں ، درج ذیل روایات کی روشنی میں دیکھیں۔
تفسیر دُرمنثو ر میں ہے ،حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما اس آیتِ کریمہ ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْہُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ وَ الضَّلَالَۃِ ‘‘یعنی قیامت کے دن اہلسنّت کے چہرے چمکتے ہوں گے اور بدعتی و گمراہوں کے چہرے سیا ہ ہوں گے ‘‘ اور اسی میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے ایک حدیث شریف روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘ کے بارے میں فرمایا’’ تَبْیَضُّ وُجُوْہُ اَھْلِ السُّنَّۃِ وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ ‘‘ قیامت کے دن اہلسنّت والجماعت کے چہرے سفید چمکتے ہوں گے اور گمراہوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے جو کہ حضرت ابوسعیدخدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیتِ کریمہ’’ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ‘‘ تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا ’’تَبْیَضُّ وُجُوہُ اَھْلِ الْجَمَاعَاتِ وَالسُّنَّۃِ ، وَ تَسْوَدُّ وُجُوْہُ اَہْلِ الْبِدَعِ وَالْاَھْوَاءِ‘‘ یعنی قیامت کے دن اہلسنّت وجماعت کے چہرے سفید چمکتے ہوں گے اور بدعتی وگمراہوں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔(در منثور، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲/۲۹۱)
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّؕ-وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۸)
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠(۱۰۹)
ترجمۂکنزالایمان: یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم ٹھیک ٹھیک تم پر پڑھتے ہیں ، اور اللہ جہان والوں پر ظلم نہیں چاہتا۔ اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ ہی کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم حق کے ساتھ تمہارے سامنے پڑھتے ہیں اور اللہ جہان والوں پر ظلم نہیں چاہتا۔ اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔
{وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ: اور اللہ جہان والوں پر ظلم نہیں چاہتا۔} یعنی لوگ جہنم میں لے جانے والے اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور کسی کو بے جرم عذاب نہیں دیتا اور کسی کی نیکی کا ثواب کم نہیں کرتا۔
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-
وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۱۰)
ترجمۂکنزالایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر کتابی ایمان لاتے تو ان کا بھلا تھا ان میں کچھ مسلمان ہیں اور زیادہ کافر ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہواور اگر اہلِ کتاب (بھی) ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر تھا، ان میں کچھ مسلمان ہیں اور ان کی اکثر یت نافرمان ہیں۔
{ كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ :تم بہترین امت ہو۔} یہودیوں میں سے مالک بن صیف اور وہب بن یہودا نے حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے کہا کہ’’ ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ۱/۲۸۷)
اور اللہ تعالیٰ نے امت ِ محمدیہ کو تمام امتوں سے افضل قرار دیا۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو کسی اور نبی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا ’’رُعب کے ساتھ میری مدد کی گئی، مجھے زمین کی کنجیاں عطا کی گئیں ، میرا نام احمد رکھا گیا، میرے لئے مٹی کو پاکیزہ کرنے والی بنا دیاگیا اور میری امت کو بہترین امت بنا دیا گیا۔ (مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب، ۱/۲۱۰، الحدیث: ۷۶۳)
چونکہ یہ بہترین امت ہے ،اس لئے اس امت کا اتفاق و اتحاد بہت بڑی دلیلِ شرعی ہے۔ جو اس سے ہٹ کر چلے وہ گمراہی کے راستے پر ہے چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے:
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ یَتَّبِـعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَؕ-وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا۠(۱۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو اس کے بعد کہ اس کے لئے ہدایت بالکل واضح ہوچکی رسول کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کے راستے سے جدا راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرگیا ہے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہبن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر جمع نہ کرے گا اوراللہ تعالیٰ کا دست ِرحمت جماعت پر ہے اور جو جماعت سے جدا ہوا وہ دوزخ میں گیا۔(ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، ۴/۶۸، الحدیث: ۲۱۷۳)
اس آیت میں ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کوتمام امتوں سے افضل فرمایا گیااور بعض آیات میں بنی اسرائیل کو بھی عالَمِین یعنی تمام جہانوں سے افضل فرمایا گیاہے ،لیکن ان کاافضل ہونا ان کے زمانے کے وقت ہی تھا جبکہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کا افضل ہونا دائمی ہے۔
یاد رہے کہ نیکی کی دعوت دینا وہ عظیم منصب اور عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمایا اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرما کر نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا تو اس نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کو اس منصب سے سرفراز فرمادیا اور اس عظیم خوبی کی وجہ سے انہیں سب سے بہترین امت قرار دیا، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ بقدرِ توفیق نیکی کی دعوت دیتا اور برائی سے منع کرتا رہے۔احادیث میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ ا س سے متعلق 2 احادیث درج ذیل ہیں۔
(1)… ایک حدیث میں ہے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی گئی: لوگوں میں بہتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’اپنے ربعَزَّوَجَلَّ سے زیادہ ڈرنے والا، رشتہ داروں سے صلہ رحمی زیادہ کرنے والا، سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے والا اور سب سے زیادہ برائی سے منع کرنے والا (سب سے بہتر ہے)۔ (شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶/۲۲۰، الحدیث: ۷۹۵۰)
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں جو نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں سے ہیں نہ شہدا ء میں سے ، لیکن قیامت کے دن انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہداء اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا مقام دیکھ کر رشک کریں گے، وہ لوگ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ بنا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں اور وہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے زمین پر چلتے ہیں۔ میں نے عرض کی : وہ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ کے بندوں کا محبوب بنا دیتے ہیں (یہ بات تو سمجھ میں آ رہی ہے ) لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ کیسے بناتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں کا حکم دیتے ہیں اوراللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں سے منع کرتے ہیں تو جب لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرمانے لگتا ہے ۔[4](کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الفصل الثانی، ۲/۲۷۳، الجزء الثالث، الحدیث: ۸۴۵۵)
{وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ: اور اگر اہلِ کتاب(بھی) ایمان لے آتے۔} یعنی اگر اہلِ کتاب بھی سیدُ الانبیاء ، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرایمان لے آتے تو ان کیلئے بھی بہتر ہوتا لیکن ان میں کچھ ہی لوگ ایمان والے ہوئے ، جیسے یہودیوں میں سے حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی اور عیسائیوں میں سے حضرت نجاشی اور ان کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم۔ اس کے برعکس یہودونصاریٰ کی اکثریت نے اسلام قبول نہ کیا۔
لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًىؕ-وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ۫-ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ(۱۱۱)
ترجمۂکنزالایمان: وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے مگر یہی ستانا اور اگر تم سے لڑیں تو تمہارے سامنے سے پیٹھ پھیر جائیں گے پھر ان کی مدد نہ ہوگی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ تمہیں ستانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر تم سے لڑیں گے تو تمہارے سامنے سے پیٹھ پھیر جائیں گے پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔
{لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًى: یہ تمہیں ستانے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔} یہودیوں میں سے جو لوگ اسلام لائے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور اُن کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، یہودیوں کے سردار ان کے دشمن ہوگئے تھے اور انہیں تکلیف پہنچانے کی فکر میں لگے رہتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲/۱۳۵، الجزء الرابع)
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو مطمئن کردیا کہ زبانی طعن و تشنیع اور دھمکیوں کے علاوہ یہ اِن مسلمانوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور غلبہ مسلمانوں ہی کو حاصل ہوگا اور یہودیوں کا انجام ذلت و رسوائی ہوگا۔ اور اگر یہ اہلِ کتاب مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے اور تمہارے مقابلہ کی تاب نہ لاسکیں گے ۔ یہ غیبی خبریں ایسی ہی واقع ہوئیں۔بعد میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے شام ، روم وغیرہ تمام علاقوں میں فتح حاصل کی اور یوں یہ غیبی خبر پوری ہوئی۔
ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ
الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا
بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ
النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ
بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَۗ(۱۱۲)
ترجمۂکنزالایمان: ان پر جمادی گئی خواری جہاں ہوں امان نہ پائیں مگر اللہ کی ڈور اور آدمیوں کی ڈور سے اور غضب الٰہی کے سزاوار ہوئے اور ان پر جمادی گئی محتاجی یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے یہ اس لئے کہ نا فرماں بردار اور سرکش تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ جہاں بھی پائے جائیں ان پر ذلت مُسلَّط کردی گئی سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے۔یہ اللہ کے غضب کے مستحق ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق شہید کرتے تھے، اوراس لیے کہ وہ نافرمان اور سرکش تھے۔
{ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ: ان پر ذلت مسلط کردی گئی۔} اس آیت میں بیان فرمایا گیا کہ یہودیوں پر ذلت اور محتاجی لازم کر دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس آیت میں استثناء بھی ہے’’اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ‘‘سوائے اس کے کہ انہیں اللہ کی طرف سے سہارا مل جائے یا لوگوں کی طرف سے سہارا مل جائے۔ اِستِثناء کے آنے سے معنی یہ بن گیا کہ (یہودی) ذلت و خواری سے کسی صورت اورکسی طرح نہیں بچ سکتے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّکی رسی کے ساتھ اور لوگوں کی رسی کے ساتھ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رسی کے ساتھ یوں کہ یہودی مسلمان ہو جائیں تو خواری سے بچ سکتے ہیں اور حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رسی کی صورت یہ کہ لوگوں سے عہد و پیمان کریں ،اسلامی حکومت کے ذمی بن جائیں یا کافر حکومتوں سے بھیک مانگیں اور تعاون حاصل کریں تو دنیاوی عزت پا سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کی سلطنت بھی بن سکتی ہے۔ فی زمانہ اگر دنیا کے کسی خطے میں کفار کے تعاون سے یہودی سلطنت وجو دمیں آئی ہے تو اس حکومت کا قائم ہونا قرآنِ کریمیا اسلام کی صداقت کے خلاف نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی صداقت کی بڑی صاف اور واضح دلیل ہے کہ بحسب اِستثناء ’’وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ‘‘ صدیوں سے ذلیل و خوار یہودیوں کی ایک جماعت کو دنیاوی عزت مل گئی۔ (فتاوی نوریہ، ۵/۱۹۴، ملخصاً)
لَیْسُوْا سَوَآءًؕ-مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآىٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ(۱۱۳)
ترجمۂکنزالایمان: سب ایک سے نہیں کتابیوں میں کچھ وہ ہیں کہ حق پر قائم ہیں اللہ کی آیتیں پڑھتے ہیں رات کی گھڑیوں میں اور سجدہ کرتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ سب ایک جیسے نہیں ، اہلِ کتاب میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو حق پر قائم ہیں ، وہ رات کے لمحات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔
{لَیْسُوْا سَوَآءً: یہ سب ایک جیسے نہیں۔} جب حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی ایمان لائے تو یہودی علماء نے جل کر کہا کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہم میں سے جو ایمان لائے ہیں وہ برے لوگ ہیں ، اگر یہ برے نہ ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین نہ چھوڑتے۔ اس پر یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ (تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲/۱۳۶، الجزء الرابع)
اور بتادیا گیا کہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی میں آنے والے ہی تو کام کے آدمی ہیں بقیہ کا حال تو انتہائی بدتر ہے۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جن لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اس سے علاقہ نجران کے40 آدمی، حبشہ کے32 آدمی اور روم کے 8 آدمی مراد ہیں جو دینِ عیسوی پر تھے، پھر حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۱/۲۹۰-۲۹۱)
آیتِ مبارکہ ’’ یَتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجد بہت اعلیٰ عبادت ہے کہ یہاں رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والوں کی بطورِ خاص تعریف کی گئی ہے ، اس سے نمازِ عشاء و تہجد دونوں ہی مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے ارکانمیں سجدہ بہت افضل ہے کہ سجدے کا بھی بطورِخاص تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کی عبادت ، نماز اور تلاوت دن کی اِن عبادات سے افضل ہے کیونکہ جودل کی یکسوئی رات میں مُیَسَّر ہوتی ہے، دن میں نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارے بزرگانِ دین اپنی راتیں عبادت و تلاوت میں گزارا کرتے تھے ،چنانچہ حضرت حسین بن علی کرابیسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے کئی بار حضرت امام شافعیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ رات گزاری اور میں نے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک تہائی رات تک نماز پڑھتے اور پچاس آیات سے زیادہ تلاوت نہ کرتے ، اگر کبھی زیادہ پڑھتے تو بھی 100 آیات تک پہنچتے۔ جب کسی آیتِ رحمت کی تلاوت کرتے تو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں اپنے لئے اور تمام مومنین کے لئے رحمت ملنے کی دعا کرتے اور جب آیتِ عذاب پڑھتے تو اس سے پناہ طلب کرتے اور اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجات کی دعا کرتے۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ محمد واسم ابیہ ادریس، محمد بن ادریس بن العباس ابو عبد اللہ الشافعی،۲/۶۱)
حضرت فاطمہ بنت عبد الملک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا فرماتی ہیں ’’ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے زیادہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو لیکن میں نے لوگوں میں کوئی ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا جو حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے زیادہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّسے ڈرتا ہو۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ(رات کے وقت) جب گھر تشریف لاتے تو سجدے میں سر رکھ کر روتے اور دعا کرتے رہتے یہاں تک کہ نیند آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی آنکھوں پر غالب آجاتی اور رات میں پھر جب بیدار ہوتے تو اسی طرح کرتے۔(حلیۃ الاولیاء، عمر بن عبد العزیز، ۵/۲۹۴، رقم: ۷۱۷۴)[5]
یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۱۴)
ترجمۂکنزالایمان: اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں اور یہ لوگ لائق ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہ لوگ (اللہ کے) خاص بندوں میں سے ہیں۔
{یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ : یہ اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔} گزشتہ آیت اور اِس آیت میں مجموعی طور پر ایمان والوں کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ (1) رات کو عبادت میں قیام کرنا، (2)نماز پڑھنا، (3) رات کا ایک حصہ عبادت میں گزارنا، (4) رات کے وقت قرآن کی تلاوت کرنا، (5)اللہ تعالیٰ اور آخرت پر کامل ایمان رکھنا، (6)نیکی کا حکم دینا، (7) برائی سے منع کرنا، (8) نیکیوں میں سبقت لیجانا، (9) نیکی کو اختیار کرنا۔ ایک کامل ایمان والے کے بھی یہی اوصاف ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کاملین میں داخل فرمائے۔
وَ مَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ(۱۱۵)
ترجمۂکنزالایمان:اور وہ جو بھلائی کریں ان کا حق نہ مارا جائے گا اور اللہ کو معلوم ہیں ڈر والے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ لوگ جونیک کام کرتے ہیں ہرگز اِن کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ ڈرنے والوں کو جانتا ہے۔
{فَلَنْ یُّكْفَرُوْهُ:ہرگز اِن کی ناقدری نہیں کی جائے گی ۔} یہودیوں نے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھیوں سے کہا تھا کہ تم دین اسلام قبول کرکے خسارے میں پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ وہ تو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں بلند درجات کے مستحق ہوئے اور وہ تو اپنی نیکیوں کی جزا پائیں گے جبکہ یہودیوں کی گفتگو بے معنیٰ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱۶)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو کافر ہوئے ان کے مال اور اولاد ان کو اللہ سے کچھ نہ بچائیں گے اور وہ جہنمی ہیں ان کو ہمیشہ اس میں رہنا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ لوگ جو کافر ہوئے ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہ سکیں گے اور یہی لوگ جہنمی ہیں ، یہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
{لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا: ان کے مال اور ان کی اولاد ان کو اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہ سکیں گے۔} شانِ نزول: یہ آیت بنی قُرَیْظہ اور بنی نَضیِر کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہودی سرداروں نے مال و دولت کی خاطر سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ دشمنی کی تھی،اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشادفرمایا کہ ان کے مال و اولاد ان کے کچھ کام نہ آئیں گے، یہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دشمنی میں ناحق اپنی عاقبت برباد کررہے ہیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۱/۲۹۱)
ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکینِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ ابوجہل کو اپنی دولت پر بڑا فخر تھا، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت تمام کفار کے متعلق عام ہے ۔ (تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۳/۳۳۵-۳۳۶)
ان سب کو بتایا گیا کہ مال و اولاد میں سے کوئی بھی کام آنے والا اور عذابِ الٰہی سے بچانے والا نہیں۔صرف رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دامن سے وابستہ ہونا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔
مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُؕ-وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۷)
ترجمۂکنزالایمان: کہاوت اس کی جو اس دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو وہ ایک ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی برا کرتے تھے تو اسے بالکل مارگئی اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس دنیاوی زندگی میں جو خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا جیسی ہے جس میں شدید ٹھنڈ ہو، وہ ہوا کسی ایسی قوم کی کھیتی کو جاپہنچے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو تو وہ ہوا اس کھیتی کو ہلاک کردے اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
{مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا : اس دنیاوی زندگی میں خرچ کرنے والوں کی مثال۔}اس آیت میں کافر کے خرچ اور ریاکاری کے طور پر خرچ کرنے والے کی مثال بیان فرمائی گئی کہ ان کے خرچ کو ان کا کفر یا ریاکاری ایسے تباہ کردیتی ہے جیسے برفانی ہو اکھیتی کو برباد کردیتی ہے اور ان کے ساتھ یہ معاملہ کوئی ظلم و زیادتی نہیں بلکہ یہ ان کے کفر یا نفاق یا ریاکاری کا انجام ہے تو یہ خود اِن کا اپنی جانوں پر ظلم ہے۔ مفسرین کا قول ہے کہ اس خرچ سے یہودیوں کا وہ خرچ مراد ہے جو وہ اپنے علماء اور سرداروں پر کرتے تھے ،وہ خرچہ بے فائدہ ہے، اس کا انہیں کوئی ثواب نہ ملے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں اس سے کفار کے تمام صدقات مراد ہیں کہ ان کا کوئی ثواب نہیں اور وہ صدقات ضائع ہیں اورایک قول یہ ہے کہ یہاں ریا کارکا خرچ کرنا مراد ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱/۲۹۱-۲۹۲)
کیونکہ اس کا خرچ کرنا یا دنیاوی نفع کے لئے ہوگا یاآخرت کے نفع کے لئے۔ اگرصرف دنیاوی نفع کے لئے ہو تو آخرت میں اس سے کیا فائدہ اور ریاکار کو تو آخرت اور رضائے الٰہی مقصود ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا عمل تودکھاوے اور نمائش کے لئے ہوتا ہے ایسے عمل کا آخرت میں کیا نفع ہوگا جبکہ کافر کے تمام اعمال برباد ہیں ،وہ اگرچہ آخرت کی نیت سے بھی خرچ کرے تو نفع نہیں پاسکتا ،ان لوگوں کے لئے وہ مثال بالکل مطابق ہے جو اس آیت میں ذکر فرمائی جارہی ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا یَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاؕ-وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ- قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُؕ-قَدْ بَیَّنَّا لَكُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ(۱۱۸)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری برائی میں گئی نہیں کرتے ان کی آرزو ہے جتنی ایذا تمہیں پہنچے بیَر ان کی باتوں سے جھلک اٹھا اور وہ جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنادیں اگر تمہیں عقل ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا) بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔
{لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ:غیروں کو راز دار نہ بناؤ۔} بعض مسلمان اپنے قرابت دار اور رشتہ دار یہودیوں وغیرہ سے قرابت یا پڑوس کی بنا پر دوستی اور میل جول رکھتے تھے۔ ان کے متعلق یہ آیتِ کریمہ اتری۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۱/۳۰۶)
اس سے معلوم ہوا کہ کفار سے دوستانہ تعلقات، دلی محبت و اخلاص حرام ہے اور انہیں اپنا راز دار بنانا بھی ناجائز ہے اور تجربات سے بھی یہی ثابت ہے کہ کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے۔ نیزاس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان حکمران کافروں اور مرتدوں کو اہم ترین عہدوں پر نہ لگائے جس سے یہ لوگ غداری کرنے کا موقعہ پائیں کیونکہ یہ لوگ تمہاری برائی چاہنے میں کوئی کمی نہیں کریں گے، ان کی تو خواہش ہی یہ ہے کہ مسلمان تکلیف و مشقت میں پڑے رہیں نیز ان کی دشمنیاں ان کے الفاظ اور کردار سے ظاہر ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہتا ہے ۔ جب زبانی دشمنی بھی سامنے آتی رہتی ہے تو جو دشمنی اور مسلمانوں سے بغض و عداوت ان کے دلوں میں ہوگی وہ کس قدر ہوگی؟ یقینا ان کے دلوں میں موجود دشمنی ظاہری دشمنی سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو! اِن سے دوستی نہ کرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں کھول کر بیان فرماتا ہے۔قرآنِ پاک کی جامعیت اور حقانیت کو اگر سمجھنا ہو تو ان آیات کو سامنے رکھ کر تمام دنیا کے مسلمان اور کافر ممالک کے حالات کا جائز ہ لیں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا وہ قطعی طور پر حق اور سچ نہیں ہے؟ یقینا سچ ہے۔ تاریخِ عالم، تاریخِ اسلام اور موجودہ حالات تمام کے تمام قرآن کی ان آیات کی صداقت پر دلالت کررہے ہیں لیکن افسوس کہ ابھی بھی ہماری آنکھیں خواب ِ غفلت میں ہیں ، ہمارے لوگ ابھی بھی انہی کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا مان رہے ہیں جنہیں اپنے راز بتانے سے بھی اللہ تعالیٰ ہمیں منع فرمارہا ہے ۔
هٰۤاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَكُمْ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّهٖۚ- وَ اِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا ﳒ وَ اِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِؕ-قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۱۹)
ترجمۂکنزالایمان: سنتے ہو یہ جو تم ہو تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں نہیں چاہتے اور حال یہ کہ تم سب کتابوں پر ایمان لاتے ہو اور وہ جب تم سے ملتے ہیں کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور اکیلے ہوں تو تم پر انگلیاں چبائیں غصہ سے تم فرمادو کہ مرجاؤ اپنی گھٹن (قلبی جلن) میں اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی بات۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: خبردار: یہ تم ہی ہو جو انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے حالانکہ تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں۔ اے حبیب! تم فرمادو ،اپنے غصے میں مرجاؤ۔ بیشک اللہ دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے ۔
{تُحِبُّوْنَهُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَكُمْ: تم انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے ۔} ارشاد فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! یہ صرف تم ہو جو رشتہ داری اور دوستی وغیرہ تعلقات کی بناء پر ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تمہیں پسند نہیں کرتے اور دینی مخالفت کی بنا پر تم سے دشمنی رکھتے ہیں حالانکہ تم قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہو اور ان کی کتابوں پر بھی لیکن وہ تمہاری کتاب پر ایمان نہیں رکھتے توجب وہ اپنے کفر میں اتنے پختہ ہیں تو تم اپنے ایمان میں پختہ کیوں نہیں ہوتے اوران میں سے جو منافقین ہیں ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں۔ جب ان کا یہ حال ہے تو اے مسلمانو! تم ان سے بچو۔ان کے اِس غیض و غضب پر اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ تم مرتے دم تک اپنے غصے پر قائم رہواور اِس جلن میں جلتے رہولیکن یاد رکھو کہ اس وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کا کچھ نہیں بگڑے گاالبتہ تمہارے لئے یہ غصہ عذاب کا باعث بن جائے گا کیونکہ تمہاری یہ قلبی حالت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جودلوں کی باتیں بھی جانتا ہے ۔
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ٘-وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَاؕ-وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۠(۱۲۰)
ترجمۂکنزالایمان: تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگے اور تم کو برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوں اور اگر تم صبر اور پرہیزگاری کیے رہو تو ان کا داؤں تمہارا کچھ نہ بگاڑے گا بیشک ان کے سب کام خدا کے گھیرے میں ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبرکرو اورتقویٰ اختیار کرو تو ان کا مکروفریب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ بیشک اللہ ان کے تمام کاموں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔
{ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ: اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے۔} کفار کی عمومی حالت یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ خوش ہوتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو کافروں سے محبت و دوستی نہیں رکھنی چاہے۔ ان کے مقابلے میں مسلمان اگر صبر اور تقویٰ کو اپنا شعار بنالیں تو کافروں کا کوئی داؤ مسلمانوں پر نہ چل سکے گا۔
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ(۱۲۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور یاد کرو اے محبوب جب تم صبح کو اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مورچوں پر قائم کرتے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو اے حبیب! جب صبح کے وقت تم اپنے دولت خانہ سے نکل کر مسلمانوں کو لڑائی کے مورچوں پرمقرر کررہے تھے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
{وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ: اور یاد کرو اے حبیب! جب صبح کے وقت تم اپنے دولت خانہ سے نکلے۔} یہاں سے غزوۂ احد کا بیان ہورہا ہے اور اس کے بعد غزوۂ بدر کا تذکرہ ہے۔
یہاں رکوع کی ابتداء میں جنگ ِاُحد کا بیان ہے جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ جنگِ بدر میں شکست کھانے سے کفار کو بڑا رنج تھا، اس لئے اُنہوں نے انتقام کے ارادے سے مسلمانوں سے جنگ کیلئے ایک بڑا بھاری لشکر تیار کرلیا۔ جب سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر ملی کہ لشکرِکفار اُحد میں پہنچا ہوا ہے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ فرمایا، اس مشورے میں منافقوں کے سردار عبداللہ بن اُبی بن سلول کو بھی بلایا گیا جو اس سے پہلے کبھی کسی مشورے کے لئے نہیں بلایا گیا تھا ۔اکثر انصار کی اور عبداللہ بن ابی کی یہ رائے تھی کہ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمدینہ طیبہ میں ہی ٹھہرے رہیں اور جب کفار یہاں آئیں تب اُن سے مقابلہ کیا جائے۔ یہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی تھی لیکن بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی رائے یہ ہوئی کہ مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر لڑنا چاہئے اور اس پر انہوں نے اصرار کیا۔ سرورِ کائناتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے دولت کدہ میں تشریف لے گئے اور اسلحہ زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے ۔اب تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دیکھ کر ان صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ندامت ہوئی اور انہوں نے عرض کیا کہ’’ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو رائے دینا اور اس پر اصرار کرنا ہماری غلطی تھی، اس کو معاف فرمائیے اور جوآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارادہ ہو وہی کیجئے ، ہم حاضر ہیں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ نبی کی شان کے لائق نہیں کہ ہتھیار پہن کر جنگ سے پہلے اُتار دے۔
مشرکین دو تین دن سے اُحد میں پہنچے ہوئے تھے ۔سلطانِ عَرَبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جمعہ کے روز نمازِ جمعہ کے بعد ایک انصاری کی نمازِ جنازہ پڑھ کر روانہ ہوئے اور پندرہ شوال 3ہجری بروز اتوار اُحد میں پہنچے اور پہاڑ کا ایک درہ جو لشکرِاسلام کے پیچھے تھا، اس طرف سے اندیشہ تھا کہ کسی وقت دشمن پشت پر سے آکر حملہ کرے ،اس لئے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہبن جُبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ وہاں مقرر فرما دیا کہ اگر دشمن اس طرف سے حملہ آور ہو تو تیروں کے ذریعے ا س کا حملہ دفع کردیا جائے اور حکم دیا کہ کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا اور اس جگہ کو نہ چھوڑنا، خواہ فتح ہو یا شکست ہو ۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق جس نے مدینہ طیبہ میں رہ کر جنگ کرنے کی رائے دی تھی اپنی رائے کے خلاف کیے جانے کی وجہ سے برہم ہوا اور کہنے لگا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نو عمر لڑکوں کا کہنا تو مانا اور میری بات کی پروانہ کی۔ اس عبداللہ بن اُبی کے ساتھ تین سو منافق تھے اُن سے اِس نے کہا کہ جب دشمن لشکر ِ اسلام کے مقابل آجائے اُس وقت بھاگ جانا تاکہ لشکر اسلام میں ابتری پھیل جائے اور تمہیں دیکھ کر اور لوگ بھی بھاگ نکلیں۔ مسلمانوں کے لشکر کی کل تعداد ان منافقین سمیت ایک ہزار تھی اور مشرکین تین ہزار تھے۔ مقابلہ شروع ہوتے ہی عبداللہ بن اُبی منافق اپنے تین سو منافقوں کو لے کر بھاگ نکلا اور حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سات سو صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو ثابت قدم رکھا یہاں تک کہ مشرکین کو شکست ہوئی۔مسلمان مشرکوں کے پیچھے بھاگے تو پہاڑی درے پر موجود صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی بھاگتے ہوئے مشرکین کے پیچھے پڑ گئے اور تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جہاں قائم رہنے کے لئے فرمایا تھا وہاں قائم نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے اِنہیں یہ دکھا دیا کہ بدر میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی فرمانبرداری کی برکت سے فتح ہوئی تھی جبکہ یہاں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کی مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے دلوں سے رُعب و ہیبت دور کردی اور وہ پلٹ پڑے اور مسلمانوں کونقصان اٹھانا پڑا۔ شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ ایک جماعت رہ گئی جس میں حضرت ابوبکر ،حضرت علی ،حضرت عباس ،حضرت طلحہ اور حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ اسی جنگ میں دندانِ اقدس شہید ہوئے اور چہرئہ اقدس پر زخم آیا ۔ اسی کے متعلق یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۱/۲۹۴-۲۹۵)
اِذْ هَمَّتْ طَّآىٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَاۙ-وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَاؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۲۲)
ترجمۂکنزالایمان: جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کرجائیں اور اللہ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: جب تم میں سے دو گروہوں نے ارادہ کیا کہ بزدلی دکھائیں اور اللہ ان کو سنبھالنے والاتھااور اللہ ہی پر مسلمانوں کو بھروسہ کرناچاہئے۔
{اِذْ هَمَّتْ طَّآىٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا :جب تم میں سے دو گروہوں نے ارادہ کیا کہ بزدلی دکھائیں۔} یہ دونوں گروہ انصار میں سے تھے ایک قبیلہ بنی سلمہ جس کا تعلق خَزْرَجْ سے تھا اور ایک بنی حارثہ جس کا تعلق اَوس سے تھا۔ یہ دونوں لشکر کے بازو تھے ،جب عبداللہ بن اُبی بن سلول منافق بھاگا تو ان قبیلوں نے بھی واپسی کا ارادہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور انہیں اس سے محفوظ رکھا اور یہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ یہاں اس نعمت و احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ آیت کے آخر میں توکل کی عظمت کو بھی بیان فرمایا۔ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اپنا کام کسی کے سپرد کر کے اس پر اعتماد کرنا،اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی کارساز ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اپنے کام ا س کے سپرد کر دینا۔(احیاء العلوم، کتاب التوحید والتوکل، الشطر الثانی، بیان حال التوکل، ۴/۳۲۱، ملخصاً)
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۲۳)
ترجمۂکنزالایمان:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو اللہ سے ڈرو کہ کہیں تم شکر گزار ہو۔
ترجمۂکنزالعرفان:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
{وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ : اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے عظیم احسان کو بیان فرما رہا ہے کہ غزوۂ بدر میں جب مسلمانوں کی تعداد بھی کم تھی اوران کے پاس ہتھیاروں اور سواروں کی بھی کمی تھی جبکہ کفار تعداد اور جنگی قوت میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار پر فتح و کامرانی عطا فرمائی۔ جنگ بدر 17رمضان 2ہجری میں جمعہ کے دن ہوئی۔ مسلمان 313تھے جبکہ کفار تقریباً ایک ہزار۔ بدر ایک کنواں ہے جو ایک شخص بدر بن عامر نے کھودا تھا، اس کے نام پر اس علاقے کا نام ’’بدر‘‘ ہوگیا۔(یہ علاقہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے )(صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۱/۳۱۰)
اس آیتِ مبارکہ سے اہلسنّت کا ایک عظیم عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتے نازل ہوئے جیسا کہ اگلی آیتوں میں موجود ہے، جنگ میں فرشتے لڑے، انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی لیکن ان کی مدد کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے پیارے جب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مدد فرماتے ہیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّہی کی مدد ہوتی ہے۔ لہٰذا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْجو مدد فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد قرار پائے گی اور اسے کفر و شرک نہیں کہا جائے گا۔
اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّكْفِیَكُمْ اَنْ یُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُنْزَلِیْنَؕ(۱۲۴) بَلٰۤىۙ-اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُسَوِّمِیْنَ(۱۲۵)
ترجمۂکنزالایمان: جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر۔ہا ں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یاد کرو اے حبیب! جب تم مسلمانوں سے فرمارہے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اتار کرتمہاری مدد کرے۔ہا ں کیوں نہیں ،اگر تم صبرکرو اور تقویٰ اختیارکرو اور کافر اسی وقت تمہارے اوپر حملہ آور ہوجائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔
{اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ : جب تم مسلمانوں سے فرمارہے تھے۔} شَہَنْشاہِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو حوصلہ دیتے ہوئے اور ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’ تم اپنی ہمت بلند رکھو ، کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ۔ اس کے بعد فرمان ہے کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اگرتم صبر و تقویٰ اختیار کرو او راس وقت دشمن تم پر حملہ آور ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار ممتاز فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ ایک غیبی خبر تھی جو بعد میں پوری ہوئی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر و تقویٰ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا جنہوں نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کی۔
اس آیت اور واقعہ سے 3 باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… بدر میں شرکت کرنے والے تمام مہاجرین و انصار صابر اور متقی ہیں کیونکہاللہ تعالیٰ نے اپنی مدد اتارنے کیلئےصبر اور تقویٰ کی شرط رکھی تھی اور چونکہ فرشتے بعد میں نازل ہوئے تو اس سے معلوم ہوا کہ شرط پائی گئی تھی ،یعنی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے صبر و تقویٰ کا مظاہرہ کیا تھا، لہٰذاصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے صبر اور تقویٰ پر قرآن گواہ ہے۔
(2)… بدر میں تشریف لانے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ نے ان پر خاص نشان لگا دئیے تھے جن سے وہ دوسروں سے ممتا ز ہوگئے اور احادیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ بدر میں اترنے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔
(3)… سرورِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اور مجاہدین کی مدد اعلیٰ عبادت ہے کہ یہ فرشتے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی خدمت اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مدد کیلئے نازل ہوئے اور دوسرے فرشتوں سے افضل قرار پائے۔ لہٰذا حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمتمام مسلمانوں سے افضل ہیں کہ یہ وہ خوش نصیب حضرات ہیں جنہیں حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت نصیب ہوئی۔ حدیث میں ہے’’ اللہ تعالیٰ نے اصحابِ بدر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں فرمایا ’’تم جو چاہے عمل کرو تمہارے لئے جنت واجب ہو چکی ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدراً، ۳/۱۲، الحدیث: ۳۹۸۳)
شہداء بدر ہی کی فضیلت پر ضمناً دلالت کرنے والی یہ حدیث بھی ملاحظہ ہو۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’غزوۂ بدر کے دن حضرت حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ مجھے حارثہ کتنا پیارا تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تجھ پر افسوس ہے ،کیا تو پگلی ہو گئی ہے ؟کیا خدا کی ایک ہی جنت ہے؟ اس کی جنتیں تو بہت ساری ہیں اور بے شک حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت الفردوس میں ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدراً، ۳/۱۲، الحدیث: ۳۹۸۲)
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَىٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖؕ-وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِۙ(۱۲۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور یہ فتح اللہ نے نہ کی مگر تمہاری خوشی کے لئے اور اسی لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ نے اس امداد کو صرف تمہاری خوشی کے لئے کیا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے جو زبردست ہے حکمت والا ہے۔
{وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ: اور اللہ نے اس امداد کو صرف تمہاری خوشی کے لئے کیا۔} فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اتار کر جو تمہاری مدد فرمائی وہ صرف تمہاری خوشی کے لئے کی اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان نصیب ہواور دشمن کی کثرت اور اپنی قِلَّت سے تمہیں پریشانی او ربے قراری نہ ہو ۔ مسلمانوں کو ویسے ہی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حقیقی مدد اسباب سے نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے ہوتی ہے لہٰذا چاہئے کہ بندہ صرف اَسباب پر نہیں بلکہ مُسَبِّبُ الاسباب پر نظر رکھے اور اسی پر توکل کرے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی خوشی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ ان کی خوشی کیلئے ان کی مدد کی گئی۔
لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْ یَكْبِتَهُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآىٕبِیْنَ(۱۲۷)
ترجمۂکنزالایمان:اس لئے کہ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے یا انہیں ذلیل کرے کہ نامراد پھر جائیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اس لئے کہ وہ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے یا انہیں ذلیل و رسوا کردے تو وہ نامرادہوکر لوٹ جائیں۔
{لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اس لئے کہ وہ کافروں کا ایک حصہ کاٹ دے۔} اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد اس لئے بھی فرمائی کہ کافروں کے بڑے بڑے سردار مارے جائیں، گرفتار کئے جائیں اور اس کے ذریعے کافروں کی قوت ختم ہو، چنانچہ بدر میں ایسا ہی ہوا۔
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۲۸)وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۲۹)
ترجمۂکنزالایمان: یہ بات تمہارے ہاتھ نہیں یا انہیں توبہ کی توفیق دے یا ان پر عذاب کرے کہ وہ ظالم ہیں۔اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے حبیب! آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ، اللہ چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دیدے اور چاہے توانہیں عذاب میں ڈال دے کیونکہ یہ ظالم ہیں۔ اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے عذاب کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ : اے حبیب! آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔} ہجرت کے چوتھے سال صفر کے مہینے میں سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ستر قاری صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک جگہ بئر معونہ کی طرف بھیجا تاکہ وہاں لوگوں کو قرآنِ پاک اور دینی مسائل کی تعلیم دیں ، عامر بن طفیل نے دھوکے سے انہیں شہید کر دیا، ان کافروں کے خلاف حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بربادی کی دعا کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روک دیا، اس کے متعلق یہ آیتِ کریمہ اتری ۔(صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۱/۳۱۱-۳۱۲، مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۱۸۴، ملتقطاً)
اور فرمادیا گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے کوئی دعا نہ کریں۔ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں ، اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں توبہ کی توفیق دے اور چاہے تو عذاب دے۔ یہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی وہ مبارک تربیت ہے جو ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّنے خود فرمائی اور ہرجگہ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کامل رہنمائی فرمائی۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪-
وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰)
ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔
{ لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً: دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ۔} اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرضخواہ سود کی مقدار میں اضافہ کردیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جارہا ہے۔
سود حرامِ قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت 275،276،278 میں بھی سود کی حرمت کا بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔
(1)…حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الرباومؤکلہ، ص ۸۶۲، الحدیث: ۱۰۶(۱۵۹۹))
(2)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زناکرے۔ (مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض الرجل المسلم، ۲/۳۳۸، الحدیث: ۲۳۰۶)
(3)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴/۳۹۵، الحدیث: ۵۵۲۳)
(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، ۳/۷۱، الحدیث: ۲۲۷۳)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہِ کبیرہ کرلینے سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ یہاں سود کی حرمت بیان کرتے ہوئے لوگوں سے ’’اے ایمان والو‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔[6]
وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَۚ(۱۳۱)
ترجمۂکنزالایمان:اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار رکھی ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
{وَ اتَّقُوا النَّارَ : اور اس آگ سے بچو۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس آیت میں ایمانداروں کو تہدید (دھمکی) ہے کہ سود وغیرہ جو چیزیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حرام فرمائی ہیں ان کو حلال نہ جانیں کیونکہ حرام قطعی کو حلال جاننا کفر ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۱/۳۰۰)
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۚ(۱۳۲)
ترجمۂکنزالایمان:اور اللہ و رسول کے فرمانبردار رہو اس امید پر کہ تم رحم کیے جاؤ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اوراللہ اور رسول کی فرمانبردار ی کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ : اوراللہ اور رسول کی فرمانبردار ی کرتے رہو ۔} فرمایا گیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور یہ بات یقینی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو کہتے ہیں ،رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نافرمانی کرنے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانبردار نہیں ہوسکتا۔
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۱۳۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور ایسی جنت کی طرف جس کی چوڑان میں سب آسمان و زمین آ جائیں پرہیزگاروں کے لئے تیار رکھی ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑوجس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
{وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ : اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو۔} فرمایا گیا کہ گناہوں سے توبہ کرکے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرائض کو ادا کرکے، نیکیوں پر عمل پیرا ہوکر اور تمام اعمال میں اخلاص پید اکرکے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بخشش اور جنت کی طرف جلدی کرو۔ پھر جنت کی وسعت اس طرح بیان فرمائی کہ لوگ سمجھ سکیں کیونکہ لوگ جو سب سے وسیع چیز دیکھتے ہیں وہ آسمان و زمین ہی ہے، اس سے وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگرتمام آسمانوں اور زمینوں کوترتیب سے ایک لائن میں رکھ کرجوڑ دیا جائے تو جو وسعت بنے گی اُس سے جنت کی چوڑائی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنت کتنی وسیع ہے ۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت کیا گیا کہ جنت آسمان میں ہے یا زمین میں ؟ فرمایا: کون سی زمین اور کون سا آسمان ایسا ہے جس میں جنت سما سکے۔ عرض کیا گیا :پھر کہاں ہے؟ فرمایا: آسمانوں کے اوپر ، عرش کے نیچے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۱/۳۰۱)
جنت نہایت عظیمُ الشان جگہ ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دیدارکا مقام ہے۔ قرآنِ پاک میں جنت کی عظمت کو بکثرت بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ہمیں جنت الفردوس میں اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پڑوس نصیب فرمائے۔یہ بات بھی سامنے رکھیں کہ اس آیت اور اس سے اوپر کی آیت ’’وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ‘‘ سے ثابت ہوا کہ جنت و دوزخ پیدا ہوچکی ہیں اور دونوں موجود ہیں کیونکہ دونوں آیتوں میں ماضی کے زمانے میں جنت و دوزخ کے تیار ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴)ترجمۂکنزالایمان: وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیک لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔
{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ : وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔} آیتِ مبارکہ میں متقین کے چار اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ (1) خوشحالی اور تنگدستی دونوں حال میں اللہتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا، (2) غصہ پی جانا، (3) لوگوں کو معاف کردینا، (4) احسان کرنا۔
راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب:
راہ خدا میں خرچ کرنے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(سبا:۳۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والاہے۔
اور ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ (فاطر: ۲۹،۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی ۔تاکہ اللہ انہیں ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدر فرمانے والا ہے۔
اور بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا ۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب وکان عرشہ علی المائ، ۳/۲۴۵، الحدیث: ۴۶۸۴، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الحث علی النفقۃ وتبشیر المنفق بالخلف، ص۴۹۸، الحدیث: ۳۶(۹۹۳))
یعنی تم خدا عَزَّوَجَلَّکی راہ میں خرچ کرو ،تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے ملے گا۔
احادیث میں غصے پر قابو پانے کے کثیر فضائل مذکور ہیں ان میں سے 4فضائل درج ذیل ہیں۔
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔(بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، ۴/۱۳۰، الحدیث: ۶۱۱۴)
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی زبان کو محفوظ رکھے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّاس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے غصے کو روکے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک دے گا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عذر کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عذر کو قبول فرمائے گا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶/۳۱۵، الحدیث: ۸۳۱۱)
(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’جو اپنے غصہ میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا۔(فردوس الاخبار، باب القاف، ۲/۱۳۷، الحدیث: ۴۴۷۶)
(4)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بندے نے غصہ کا گھونٹ پیا، اس سے بڑھ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کوئی گھونٹ نہیں۔[7](شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶/س۳۱۴، الحدیث: ۸۳۰۷)
احادیث میں عفوو درگزر کے بھی کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے دو فضائل درجِ ذیل ہیں۔
(1)…حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں ) محل بنایا جائے اور ا س کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، شرح آیۃ: کنتم خیر امّۃ۔۔۔ الخ، ۳/۱۲، الحدیث: ۳۲۱۵)
(2)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک مُنادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے گا : ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں ) کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱/۵۴۲، الحدیث: ۱۹۹۸)
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آ گئی۔ وہ کہنے لگا:اللہ تعالیٰ کاجو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے،پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔(بخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعطی المؤلفۃ قلوبہم۔۔۔الخ، ۲/۳۵۹، الحدیث: ۳۱۴۹)
(2)…امام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ’’اور غصہ پینے والے‘‘ امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی: وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ’’ اور لوگوں سے در گزر کرنے والے‘‘ ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ’’ اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ارشاد فرمایا: جا ! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔(ابن عساکر، ذکر من اسمہ علی، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، ۴۱/۳۸۷)
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫- وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)اُولٰٓىٕكَ جَزَآؤُهُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَؕ(۱۳۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں۔ ایسوں کا بدلہ ان کے رب کی بخشش اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اور کامیوں (نیک لوگوں ) کا کیا اچھا نیگ (انعام، حصہ) ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تواللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے بخشش ہے اور وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (یہ لوگ) ہمیشہ ان (جنتوں ) میں رہیں گے اورنیک اعمال کرنے والوں کا کتنا اچھا بدلہ ہے۔
{ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ: اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔} پرہیزگاروں کے اوصاف کا بیان جاری ہے اوریہاں ان کا مزید ایک وصف بیان فرمایا، وہ یہ کہ اگر اُن سے کوئی کبیرہ یا صغیرہ گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فوراً اللہ عَزَّوَجَلَّ کو یاد کرکے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں ، اپنے گناہ پر شرمندہ ہوتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں اور آئندہ کیلئے اس سے باز رہنے کا پختہ عزم کرلیتے ہیں اور اپنے گناہ پر اِصرار نہیں کرتے اور یہی مقبول توبہ کی شرائط ہیں۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ’’ تیہان نامی ایک کھجور فروش کے پاس ایک حسین عورت کھجوریں خریدنے آئی۔ دکاندار نے کہا کہ یہ کھجوریں اچھی نہیں ہیں ، بہترین کھجوریں گھر میں ہیں ، یہ کہہ کراس عورت کو گھر لے گیا اور وہاں جا کر اس کا بوسہ لے لیااور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ اس عورت نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر۔ یہ سنتے ہی تیہان نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور شرمندہ ہو کر حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں سارا ماجرا عرض کیا۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ ایک روایت یہ ہے کہ’’ دو شخصوں میں بڑا پیار تھا، ان میں سے ایک جہاد کے لئے گیااور اپنا گھر بار دوسرے کے سپرد کر گیا۔ ایک روز اُس مجاہد کی بیوی نے اُس انصاری سے گوشت منگایا ، وہ آدمی گوشت لے آیا،جب اُس مجاہد کی بیوی نے گوشت لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا تواس نے ہاتھ چوم لیالیکن چومتے ہی اسے سخت شرمندگی ہوئی اور وہ جنگل میں نکل گیا اور منہ پر طمانچے مارنا اور سرپر خاک ڈالنا شروع کردی۔ جب وہ مجاہد اپنے گھر واپس آیا تو اپنی بیوی سے اپنے اُس دوست کا حال پوچھا۔ عورت بولی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسے دوست سے بچائے۔ وہ مجاہد اُس کو تلاش کرکے حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں لایا۔ اس کے حق میں یہ آیات اتریں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۱/۳۰۲)
ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں واقعے اس آیت کا شانِ نزول ہوں۔
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌۙ-فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ(۱۳۷)
ترجمۂکنزالایمان: تم سے پہلے کچھ طریقے برتاؤ میں آچکے ہیں تو زمین میں چل کر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم سے پہلے کئی طریقے گزر چکے ہیں تو زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کاکیسا انجام ہوا ؟
{قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌۙ: تم سے پہلے کئی طریقے گزر چکے ہیں۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ اے لوگو! کافروں کو شروع میں مہلت دینے اور پھر ان کی گرفت کرنے کے حوالے سے تم سے پہلے بھی کئی طریقے گزر چکے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی حرص اور اس کی لذّات کی طلب میں انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر بھی مہلتیں عطا فرمائیں۔ اس کے باوجود وہ راہ ِراست پر نہ آئے تو انہیں ان کے اعمال کے سبب مختلف عذابوں کے ذریعے ہلاک و برباد کردیا۔ تو اے لوگو! ان زمینوں کی طرف سفر کرو جہاں پہلے کفار آباد تھے جنہوں نے اپنے رسولوں کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے ان پر عذابِ الٰہی آیا اور وہ تباہ کر دئیے گئے۔ ان کی اجڑی بستیاں دیکھ کر عبرت پکڑو اور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لاؤ۔ یاد رہے کہ عبرت و نصیحت اور صحیح مقصد کیلئے سیر و سیاحت کرنے میں بہت فوائد ہیں۔ نیزیہ بھی یاد رکھیں کہ جیسے عذاب کی جگہ جاکر عبرت حاصل ہوتی ہے ایسے ہی رحمت کی جگہ جاکر برکت و نصیحت حاصل ہوتی ہے۔ جیسے کسی ولی کے مزار پر جائیں تو جاکر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی دنیا میں ہی کیسی عزت افزائی فرماتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی کیسی محبت ڈال دیتا ہے؟ اس لئے ایسی رحمت والی جگہوں پر بھی برکت و نصیحت کیلئے جانا چاہیے۔
هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸)
ترجمۂکنزالایمان: یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ لوگوں کے لئے ایک بیان اور رہنمائی ہے اور پرہیزگاروں کیلئے نصیحت ہے۔
{هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى: یہ لوگوں کے لئے ایک بیان اور رہنمائی ہے۔} قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت اور نصیحت کیلئے نازل فرمایا لہٰذا قرآن کا حق ہے کہ اس کی تلاوت کے وقت اس پہلو کو بھی سامنے رکھا جائے اور اس میں مذکور اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے والی قوموں کا انجام،قیامت کی سختیاں اور جہنم کے دردناک عذابات وغیرہ کے بارے میں پڑھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم ہمت نہ ہارو اور غم نہ کھاؤ، اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے ۔
{وَ لَا تَهِنُوْا : اور سستی نہ کرو۔} غزوۂ احد میں نقصان اٹھانے کے بعد مسلمان بہت غمزدہ تھے اور اس کی وجہ سے بعض کے دل سستی کی طرف مائل تھے۔ ان کی اصلاح کے لئے فرمایا کہ جنگ اُحد میں جو تمہارے ساتھ پیش آیاہے اس کی وجہ سے غم نہ کرو اور سستی کا مظاہرہ نہ کرو ۔ جنگ بدر میں شکست کے باوجود ان کافروں نے ہمت نہ ہاری اور تم سے مقابلہ کرنے میں سُستی سے کام نہ لیا تو تمہیں بھی سُستی اور کم ہمتی نہیں کرنی چاہئے لہٰذا تم ہمت جواں رکھو۔ اگر تم سچے ایمان والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والے ہو تو بالاخر تم ہی کامیاب ہوگے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس حکم پر عمل کر کے دکھایا اور خلفائے راشدین کے زمانہ مبارکہ میں مسلمانوں کو ہر طرف فتح و نصرت حاصل ہوئی۔
اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗؕ-وَ تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِۚ- وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَۙ(۱۴۰)
ترجمۂکنزالایمان: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لیے باریاں رکھی ہیں اور اس لئے کہ اللہ پہچان کرا دے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمادے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
{اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے۔} اس آیت کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ اے مسلمانو! یاد رکھو کہ اگر اِس وقت میدانِ احد میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف اس سے پہلے میدانِ بدر میں پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں کہ کبھی ایک کی فتح ہوتی ہے تو کبھی دوسرے کی۔ نیز یہ بھی یاد رکھو کہ کبھی کبھار جوکافروں کو غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تووہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کی پہچان کروانا چاہتا ہے کہ ان میں کون ہر حال میں صبر و استقامت کا پیکر رہتا ہے اور کون بزدل بنتا ہے نیز کافروں کی فتح کے ذریعے اللہ تعالیٰ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمانا چاہتا ہے تو کافروں کے غلبے میں بھی بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں ، لہٰذا ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رضا پر راضی رہو۔ درس: یہاں آیاتِ مبارکہ میں مسلمانوں کو بار بار بلند ہمت، باحوصلہ، چست اور ہوشیار ہونے کا فرمایا ہے اور کم ہمتی، سستی و کاہلی سے منع فرمایا ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْكٰفِرِیْنَ(۱۴۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور اس لئے کہ اللہ مسلمانوں کا نکھار کردے اور کافروں کو مٹادے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس لئے کہ اللہ مسلمانوں کو نکھاردے اور کافروں کو مٹادے۔
{وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ : اوراس لئے کہ اللہ نکھار دے۔} کافروں سے جہاد کی ایک اور حکمت بیان کی جارہی ہے کہ کافروں سے جو مسلمانوں کو تکلیفیں پہنچتی ہیں وہ تو مسلمانوں کے لئے شہادت اورپاکیزگی کا ذریعہ بنتی ہیں جبکہ مسلمان جن کفار کو قتل کرتے ہیں تو یہ کفار کی بربادی کا ذریعہ بنتا ہے۔
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۴۲)
ترجمۂکنزالایمان: کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدوں کا امتحان نہیں لیا اور نہ(ہی) صبر والوں کی آزمائش کی ہے۔
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ : کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے؟ }یہاں مسلمان پر آنے والی آزمائشوں کی حکمت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر تمہیں آزمائشیں آتی ہیں تو اس پر بے قرار اور حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں ، ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں تکلیفوں میں مبتلا فرما رہا ہے؟یاد رکھو کہ تمہارا امتحان کیا جائے گا، تمہیں ایمان کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے کیسے زخم کھاتے اور تکلیف اُٹھاتے ہو اور کتنا ثابت قدم رہتے ہو۔ تھوڑی سی تکلیف پر چِلّا اٹھنا اور دہائی دینا شروع کردینا ایمان والوں کا شیوہ نہیں۔ جنت میں داخلہ مطلوب ہے تو ان آزمائشوں پر پورا اترنا پڑے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں قربانی دینا پڑے گی اور ہر حال میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
زباں پہ شکوہِ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
اِس میں اُن لوگوں کو سرزنش (تنبیہ) ہے جو اُحد کے دن کفار کے مقابلہ سے بھاگے تھے۔نیز اس آیت کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے اعمال اور اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر ہمیں راہِ خدا میں اپنا مال یا وقت دینا پڑے تو ہم اس میں کتنا پورا اترتے ہیں ؟ افسوس کہ ہماری حالت کچھ اچھی نہیں۔ فضولیات میں خرچ کرنے کیلئے پیسہ بھی ہے اور وقت بھی لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرتے وقت نہ پیسہ باقی رہتا ہے اور نہ وقت۔
تنبیہ: آیت میں علم کا لفظ ہے ، یہاں اس سے مراد آزمائش کرنا ہے۔
وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْهُ۪-فَقَدْ رَاَیْتُمُوْهُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۠(۱۴۳)
ترجمۂکنزالایمان:اور تم تو موت کی تمنا کیا کرتے تھے اس کے ملنے سے پہلے تو اب وہ تمہیں نظر آئی آنکھوں کے سامنے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم موت کا سامنا کرنے سے پہلے تو اس کی تمنا کیا کرتے تھے ،اب تم نے اسے آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا۔
{وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ : اورتم موت کی تمنا کیا کرتے تھے۔} جب بدر کے شہداء کے درجے اور مرتبے اور ان پراللہ تعالیٰ کے انعام و احسان بیان فرمائے گئے تو جو مسلمان غزوہ بدر میں شریک نہ ہوئے تھے انہیں حسرت ہوئی اور انہوں نے آرزو کی کہ کاش کسی جہاد میں انہیں حاضری میسر آئے اور شہادت کے درجات ملیں ، اِنہی لوگوں نے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اُحد پر جانے کے لئے اِصرار کیا تھا اُن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ص۱۸۸)
کہ پہلے توشہادت کی موت کی تمنا کرتے تھے مگرجب میدانِ جنگ میں پہنچے تو بھاگنے لگے، یہ کیا ہے؟ یہ گویا ان کی تفہیم ہے یعنی انہیں سمجھایا گیا ہے۔
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْؕ-وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ-وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن(۱۴۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور محمد ایک رسول ہی ہیں ، ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں تو کیا اگر وہ وصال کر جائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم الٹے پاؤں پلٹ جاؤگے ؟اور جو الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا اور عنقریب اللہ شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا فرمائے گا۔
{وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ: اور محمد تو ایک رسول ہی ہیں۔} شانِ نزول: جنگ اُحد میں جب کافروں نے شور مچایا کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوگئے اور شیطان نے یہ جھوٹی اَفواہ مشہور کردی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بہت اِضطراب ہوا اور ان میں سے کچھ لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے لیکن پھر جب ندا کی گئی کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحیح سلامت تشریف رکھتے ہیں تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت واپس آگئی۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں یوں بھاگ جانے پر ملامت کی تواُنہوں نے عرض کیا : ہمارے ماں ، باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر فدا ہوں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہادت کی خبر سن کر ہمارے دِل ٹوٹ گئے اور ہم سے ٹھہرا نہ گیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۳/۳۷۶)
اور فرمایا گیا کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بھی امتوں پر اُن کے دین کی پیروی لازم رہتی ہے تو اگر ایسا ہوتا بھی کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَشہید ہوجاتے یا ان کا وصال ہوجاتا توبھی حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دین کی پیروی اور اس کی حمایت لازم رہتی کیونکہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں لیکن ان کے پیروکار اُن کے بعد اُن کے دین پر قائم رہے ۔ رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بعثت کا مقصد تورسالت کی تبلیغ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کاپیغام پہنچانا ہوتا ہے نہ کہ اپنی قوم کے درمیان ہمیشہ موجود رہنا،تو جیسے پہلے رسول گزر گئے اسی طرح حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی دنیا سے تشریف لے جائیں گے لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دین پر ثابت قدم رہو۔ یہ کیا بات ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے تشریف لے جانے کے بعد ان کے دین ہی سے پھرجاؤ۔ جو ایسا کرے گا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا تو کچھ نہیں بگاڑے گا بلکہ اپنا ہی نقصان کرے گا جبکہ جو دین اسلام سے نہ پھرے اور اپنے دین پر ثابت رہے وہ شکرگزاروں میں شمار کیا جائے گا کیونکہ اُنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے نعمت ِاسلام کا شکر ادا کیا، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے ثواب وجزا کے امیدوار ہیں۔
وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًاؕ-وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِهٖ مِنْهَاۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَاؕ-وَ سَنَجْزِی الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور کوئی جان بے حکم خدا مر نہیں سکتی سب کا وقت لکھا رکھا ہے اور جو دنیا کا انعام چاہے ہم اس میں سے اسے دیں اور جو آخرت کا انعام چاہے ہم اس میں سے اسے دیں اور قریب ہے کہ ہم شکر والوں کو صلہ عطا کریں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کوئی جان اللہ کے حکم کے بغیر نہیں مرسکتی ،سب کاوقت لکھا ہوا ہے اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے دنیا کا کچھ انعام دیدیں گے اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے آخرت کا انعام عطافرمائیں گے اور عنقریب ہم شکر ادا کرنے والوں کو صلہ عطا کریں گے۔
{كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا: سب کا وقت لکھا ہوا ہے۔} اس آیت میں جہاد کی ترغیب ہے اور مسلمانوں کو دُشمن کے مقابلہ پر جری بنایا جارہا ہے کہ کوئی شخص بغیر حکمِ الٰہی کے مر نہیں سکتا، چاہے وہ کتنی ہی ہلاکت خیزلڑائی میں شرکت کرے اورکتنے ہی تباہ کن میدانِ جنگ میں داخل ہوجائے ، جبکہ اس کے برعکس جب موت کا وقت آتا ہے تو کوئی تدبیر نہیں بچاسکتی خواہ وہ ہزاروں پہرے دار اور محافظ مقرر کرلے اور قلعوں میں جاچھپے کیونکہ ہر ایک کی موت کا وقت لکھا ہوا ہے ،وہ وقت آگے پیچھے نہیں ہوسکتا ۔
{وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا : اور جو دنیا کا انعام چاہتا ہے۔} یہاں سے لوگوں کے دو گروہوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ جو شخص صرف دنیاکی نعمتیں اور آسائشیں چاہتا ہے اور اس کے عمل سے صرف دنیا کا حصول مقصود ہوتا ہے ہم اسے دنیا دیدیتے ہیں یعنی اُس کے عمل پر اُسے دنیا کا فائدہ مل جاتا ہے اور چونکہ آخرت اس کا مطلوب نہیں لہٰذا آخرت کے ثواب سے وہ محروم رہتا ہے۔ جبکہ جو شخص اپنے عمل سے آخرت کا طالب ہوتا ہے اسے اُخروی ثواب عطا فرمایا جاتا ہے اور دنیا تو سب کو مل ہی جاتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا اعمال میں دارومدار نیت پر ہے جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ‘‘ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔(بخاری، کتاب بدء الوحی، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱/۵، الحدیث: ۱)
جیسے یہاں جہاد کی بات چل رہی ہے تو جس کا مقصد جہاد سے صرف شہرت ، دولت اور مالِ غنیمت ہوگا ، ہوسکتا ہے کہ اسے یہ چیزیں مل جائیں لیکن آخرت کا ثواب ہرگز نہیں ملے گا جبکہ اگر وہ آخرت کا طلبگارہو تو آخرت کا ثواب تو اسے ملے گا ، اس کے ساتھ وہ عزت و شہرت اور مالِ غنیمت سے بھی محروم نہیں رہے گا۔
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَۙ-مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌۚ-فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ(۱۴۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے تو نہ سست پڑے ان مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
{وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ:اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا۔} مسلمانوں کا حوصلہ بڑھایا جارہا ہے اور انہیں بتایا جارہا ہے کہ تم سے پہلے بہت سے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا، ان کے ساتھ ان کے صحابہ بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے جہاد کی تکالیف کے باوجود ہمت نہ ہاری اور کمزوری نہ دکھائی اور کافروں کے سامنے پَسپائی کا مظاہرہ نہ کیا بلکہ راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں ڈٹے رہے اور مردانہ وار تمام تکالیف و مصائب کو برداشت کرتے رہے اور صبر و استقامت کے پیکر بنے رہے تو اے مسلمانو! تم تو وہ ہو کہ تمہارے نبی اُن تمام نبیوں کے سردار ہیں اور تم اُن تمام امتوں سے افضل ہو تو چاہیے کہ تمہاری بہادری اور استقامت ان سے زیادہ ہو، تمہاری ہمت اور حوصلہ ان سے بڑھ کر ہو، تم میں صبر کا مادہ ان سے زیادہ ہو، لہٰذا تم بھی اپنے اندر وہی اوصاف پیدا کرو۔اس آیت کے شروع میں بیان ہوا کہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد کیا اور ان کے ساتھ رَبّانی لوگ تھے۔ دونوں چیزوں کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جہاد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شرو ع ہوا، سب سے پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جہاد فرمایا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے کسی نبی نے جہاد نہ کیا تھا۔ البتہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد بہت سے پیغمبروں کی شریعت میں جہاد تھا جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت یوشععَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام وغیرہا اور ربانی لوگوں سے مراد علماء، مشائخ اور متقی لوگ ہیں جو اللہ عَزَّوَجَلَّکو راضی کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۲/۱۰۰)
آیت’’وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:
اس آیتِ مبارکہ میں بہت سے درس ہیں ،ان میں سے 2یہ ہیں :
(1)… افضل کو افضل نیکیاں کرنی چاہئیں ، وہ تمام ماتحتوں سے عمل میں بڑھ کر ہونا چاہیے، لہٰذا سیدوں ، عالموں اور پیروں کو دوسروں سے زیادہ نیک ہونا چاہیے۔
(2)… دوسروں کے اعمال دکھا کر، سنا کرکسی کو جوش دِلانا سنت ِالٰہیہ ہے بلکہ تاریخی حالات کا جاننا اس نیت سے بہت بہتر ہے۔ اسی لئے مختلف محفلوں ، عرسوں ، بزرگانِ دین کے ایام میں ان کی عبادت و ریاضت، زہد وتقویٰ کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں تاکہ عمل کا جذبہ پیدا ہو۔
وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(۱۴۷)
ترجمۂکنزالایمان: وہ کچھ بھی نہ کہتے تھے سوا اس دعا کے کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام میں کیں اور ہمارے قدم جما دے اور ہمیں ان کافر لوگوں پر مدد دے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ اپنی اس دعا کے سوا کچھ بھی نہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔
{وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا: اور وہ اپنی اس دعا کے سوا کچھ بھی نہ کہتے تھے کہ اے ہمارے رب !۔} یعنی رسولوں کے ساتھی تکالیف پر بے صبری نہ دکھاتے اوردین کی حمایت اورجنگ کے مقامات میں اُن کی زبان پر کوئی ایسا کلمہ نہ آتا جس میں گھبراہٹ ،پریشانی اور تَزَلْزُل (ڈگمگانے) کا شائبہ بھی ہوتا بلکہ وہ ثابت قدم رہتے اور مغفرت، ثابت قدمی اورفتح و نصرت کی دُعا کرتے۔ انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحابہ کی جو دعا بیان کی گئی ہے اس میں انہوں نے اپنے آپ کو گنہگارکہا ہے، یہ عاجزی، اِنکساری اور بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے آداب میں سے ہے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ وہ خود کو گنہگار کہہ رہے ہیں اور ان کا پروردگار عَزَّوَجَلَّ انہیں رَبّانی یعنی اللہ والے فرما رہا ہے۔ اور حقیقت میں لطف کی بات یہی ہے بندہ خود کو گنہگار کہے اور اس کا رب عَزَّوَجَلَّ اسے ابرار (نیکو کار) فرمائے۔ کسی بزرگ کا فرمان ہے کہ’’ ساری دنیا مجھے مردود کہے اور ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ، میں مقبول قرار پاؤں یہ اس سے بہتر ہے کہ ساری دنیا مجھے مقبول کہے اور رب کریم عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں ، میں مردود قرار پاؤں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے سے پہلے توبہ و استغفار کرناآدابِ دعا میں سے ہے۔
فَاٰتٰىهُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَ حُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۠(۱۴۸)
ترجمۂکنزالایمان: تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی اور نیکی والے اللہ کو پیارے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام (بھی) عطا فرمایا اور آخرت کا اچھا ثواب بھی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
{فَاٰتٰىهُمُ اللّٰهُ ثَوَابَ الدُّنْیَا : تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام (بھی) عطا فرمایا۔}انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مَعِیَّت میں دینِ خدا عَزَّوَجَلَّ کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کی حسنِ نیت اور حسنِ عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دونوں جہان کی کامیابیاں عطا فرمائیں ، دنیا میں انہیں فتح و نصرت سے نواز اور دشمنوں پر غلبہ عطا فرمایا جبکہ آخرت میں ان کیلئے مغفرت، جنت اوررضائے الٰہی کا انعام رکھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کا ثواب دنیا کے انعام سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ آخرت کے ثواب پر لفظ’’ حُسْنَ‘‘ زیادہ فرمایا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ دین کی خدمت کرنے والے کو دنیا بھی ملتی ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ(۱۴۹)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو اگر تم کافروں کے کہے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں لوٹا دیں گے پھر ٹوٹا کھا کے پلٹ جاؤ گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہنے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھا کر پلٹو گے۔
{اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا: اگر تم کافروں کی اطاعت کرو گے۔} یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی یامنافق یامشرک، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی، بدعملی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی تباہ کربیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں فرمادیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کردیں گے اور آج تک کا ساری دنیامیں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات میں ، اپنے کاروبار میں ہرجگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں ، جس سے ہمارا ربّ کریم عَزَّوَجَلَّہمیں بار بار منع فرمارہا ہے۔
بَلِ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْۚ-وَ هُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ(۱۵۰)
ترجمۂکنزالایمان: بلکہ اللہ تمہارا مولا ہے اور وہ سب سے بہتر مددگار۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بلکہ اللہ ہی تمہارا مدد گارہے اور وہی سب سے بہترین مددگارہے۔
{بَلِ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ: بلکہ اللہ ہی تمہارا مدد گارہے۔} کافروں کی بات ماننے سے روکنے کے بعد فرمایا کہ یاد رکھو کہ یہ کافر تمہارے مددگار نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی تمہارا مدد گارہے اور وہی سب سے بہترین مددگار ہے، لہٰذا تم اس کی اطاعت کرو کیونکہ ہر ایک اپنے مولا کی اطاعت کرتا ہے توجب اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا مولا ہے تو تم اسی کی اطاعت کرو۔
سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَاۤ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًاۚ- وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ- وَ بِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِیْنَ(۱۵۱)
ترجمۂکنزالایمان: کوئی دم جاتا ہے کہ ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے کہ انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا جس پر اس نے کوئی سمجھ نہ اتاری اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا برا ٹھکانا ناانصافوں کا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کیونکہ انہوں نے اللہکے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرایا جس کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور ان کا ٹھکانا آگ ہے اوروہ ظالموں کا کتنا برا ٹھکانہ ہے۔
{سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ: عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔} اس آیت میں غیب کی خبر ہے، جب ابو سفیان وغیرہ جنگ احد کے بعد واپس ہوئے تو راستہ میں خیال کیا کہ کیوں لوٹ آئے، سب مسلمانوں کو ختم کیوں نہ کر دیا حالانکہ یہ اچھا موقعہ تھا۔ جب واپس ہونے پر آمادہ ہوئے تو قدرتی طور پر ان تمام کے دلوں میں مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ مکہ چلے گئے اور یہ خبر پوری ہوئی۔ (بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۱، ۲/۱۰۲)
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖۚ-حَتّٰۤى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ عَصَیْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَؕ-مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَةَۚ-ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِیَبْتَلِیَكُمْۚ-وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْؕ- وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۵۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور بیشک اللہ نے تمہیں سچ کر دکھایا اپنا وعدہ جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کرتے تھے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور حکم میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ تمہیں دکھا چکا تمہاری خوشی کی بات تم میں کوئی دنیا چاہتا تھا اور تم میں کوئی آخرت چاہتا تھا پھر تمہارا منہ ان سے پھیردیا کہ تمہیں آزمائے اور بیشک اس نے تمہیں معاف کردیا اور اللہ مسلمانوں پر فضل کرتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک اللہ نے تمہیں اپنا وعدہ سچاکر دکھایا جب تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کررہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور حکم میں آپس میں اختلاف کیا اور تم نے اس کے بعدنافرمانی کی جب اللہ تمہیں وہ کامیابی دکھا چکا تھاجو تمہیں پسند تھی۔ تم میں کوئی دنیا کا طلبگار ہے اور تم میں کوئی آخرت کا طلبگار ہے۔ پھر اس نے تمہارا منہ ان سے پھیردیا تاکہ تمہیں آزمائے اور بیشک اس نے تمہیں معاف فرمادیاہے اور اللہ مسلمانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
{وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗ: اور بیشک اللہ نے تمہیں اپنا وعدہ سچاکر دکھایا۔} یہاں غزوۂ احد کی بات ہورہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’ بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنگ اُحد میں اپنا وعدہ پورا فرمادیا کہ’’ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ‘‘ یعنی تم ہی غالب ہوگے اگر تم سچے ایمان والے ہو۔تو تم غالب تھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے کافروں کو قتل کر رہے تھے لیکن جب تم نے بزدلی دکھائی اوررسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو ایک پہاڑی درے پر جمے رہنے کا حکم دیا تھا اس میں آپس میں اختلاف کیا اوراس حکم میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت کی حالانکہاللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری پسندیدہ کامیابی دکھا چکا تھا لیکن تم میں سے بعض نے مالِ غنیمت حاصل کرنے کی خاطر دنیا طلبی کیلئے درہ چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کی شکست کے بعد حضرت عبداللہبن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ جو تیر انداز تھے وہ آپس میں کہنے لگے کہ مشرکین کو شکست ہوچکی ہے، لہٰذا اب یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے۔چلو ،کچھ مال غنیمت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ بعض حضرات نے یہ سن کر کہا کہ یہ جگہ مت چھوڑو کیونکہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تاکید کے ساتھ حکم فرمایاتھا کہ تم اپنی جگہ ٹھہرے رہنا اورکسی حال میں یہ جگہ نہ چھوڑنا، جب تک میرا حکم نہ آجائے، مگر لوگ غنیمت کے لئے چل پڑے اور حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ دس سے کم صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم رہ گئے۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۱/۳۱۱)
دنیا طلب کرنے والوں سے مرادوہ لوگ ہیں جنہوں نے وہ درہ چھوڑ دیا اورمالِ غنیمت حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے اور آخرت کے طلبگاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہے حتّٰی کہ شہید ہوگئے ۔آیت کے آخر میں فرمایا کہ غزوۂ احد میں اِس مقام پر جن لوگوں نے خطا کی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمادیا۔ لہٰذا یاد رہے کہ جو اس طرح کے واقعات کو لے کر صحابۂ کرام رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان میں گستاخی کرے وہ بدبخت ہے کہ ان کی معافی کا اعلان ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّخود فرماچکا۔
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَ لَا تَلْوٗنَ عَلٰۤى اَحَدٍ وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ فِیْۤ اُخْرٰىكُمْ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَ لَا مَاۤ اَصَابَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۵۳)
ترجمۂکنزالایمان: جب تم منہ اٹھائے چلے جاتے تھے اور پیٹھ پھیر کر کسی کو نہ دیکھتے اور دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے تو تمہیں غم کا بدلہ غم دیا اور معافی اس لئے سنائی کہ جو ہاتھ سے گیا اور جو افتاد پڑی اس کا رنج نہ کرو اور اللہ کوتمہارے کاموں کی خبر ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور تمہارے پیچھے رہ جانے والی دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے تو اللہ نے تمہیں غم کے بدلے غم دیا اور معافی اس لئے سنادی تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیانہ تو اس پر غم کرو اور نہ ہی اس تکلیف پر جو تمہیں پہنچی ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خبردار ہے۔
{فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ: تو اللہ نے تمہیں غم کے بدلے غم دیا۔} جنگ احد میں جب کفار پیچھے سے آپڑے تو مسلمان گھبرا کر بھاگ پڑے مگر سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور کچھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اپنی جگہ سے نہ ہٹے اور ثابتقدم رہے۔ ثابت قدم رہنے والی جماعت سے دوسری جماعت کو آوازیں دی جارہی تھیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو! ادھر آؤ مگر گھبراہٹ اور شور میں یہ لوگ نہ سن سکے۔ اس آیت میں اسی کا ذکر ہے اور اسی کے حوالے سے فرمایا جارہا ہے کہ اے مسلمانو!یاد کروجب تم افراتفری میں منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے اور تمہارے پیچھے ثابت قدم رہ جانے والی دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے لیکن تم سن ہی نہ رہے تھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں غم دیا اس لئے کہ تم نے اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بات نہ مان کرانہیں غم پہنچایا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمہیں معافی کی بشارت بھی سنا دی تا کہ راہِ خدا میں اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے کے باوجود جو مالِ غنیمت تمہارے ہاتھ سے نکل گیاتم اس پر غم نہ کرو اورچونکہ تمہارے بہت سے ساتھی اس جنگ میں شہید ہوئے اور تمہیں بھی بہت سے زخم آئے تواللہ تعالیٰ کے معافی کا اعلان کردینے کی وجہ سے تمہارے دلوں پر مرہم ہوجائے۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کوحضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور خوشی کس قدر عزیز ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی وجہ سے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صدمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی صدمے میں مبتلا کیا اور پھر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی جا ں نثاری اور اخلاص کی بھی کتنی قدر فرمائی کہ چونکہ ان کی خطا بری نیت سے نہ تھی بلکہ اِجْتِہادی طور پر وہاں خطا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دلجوئی کیلئے ان کی معافی کا اعلان بھی فرمادیا۔
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآىٕفَةً مِّنْكُمْۙ-وَ طَآىٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِؕ-یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍؕ-قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِؕ-یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَؕ-یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَاؕ-قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْۚ-وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۵۴)
ترجمۂکنزالایمان: پھر غم کے بعد تم پر چین کی نیند اتاری کہ تمہاری ایک جماعت کو گھیرے تھی اور ایک گروہ کو اپنی جان کی پڑی تھی اللہ پر بے جا گمان کرتے تھے جاہلیت کے سے گمان کہتے اس کام میں کچھ ہمارا بھی اختیار ہے؟ تم فرمادو کہ اختیار تو سارا اللہ کا ہے اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں کرتے کہتے ہیں ہمارا کچھ بس ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا لکھا جاچکا تھا اپنی قتل گاہوں تک نکل کرآتے اور اس لئے کہ اللہ تمہارے سینوں کی بات آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلو ں میں ہے اسے کھول دے اور اللہ دلوں کی بات جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھراس نے تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری جو تم میں سے ایک گروہ پر چھاگئی اور ایک گروہ وہ تھا جسے اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی تھی وہ اللہ پر ناحق گمان کرتے تھے ، جاہلیت کے سے گمان ۔وہ کہہ رہے تھے کہ کیااس معاملے میں کچھ ہمارا بھی اختیار ہے ؟تم فرمادو کہ اختیار تو سارا اللہہی کا ہے۔یہ اپنے دلوں میں وہ باتیں چھپاکر رکھتے ہیں جوآپ پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ، اگرہمیں بھی اس معاملے میں کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔اے حبیب! تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا لکھا جاچکا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے اور اس لئے ہوا کہ اللہ تمہارے دلوں کی بات آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلو ں میں پوشیدہ ہے اسے کھول کر رکھ دے اور اللہدلوں کی بات جانتا ہے۔
{ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا:پھراس نے تم پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری ۔} غزوہ ٔاحد میں تکالیف اٹھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلص مومنوں پر خاص کرم نوازی ہوئی، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لئے ان پر غم کے بعد چین کی نیند اتاری جو صرف مخلص صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر ہی اتری، اس کی برکت سے مسلمانوں کے دلوں میں جو رعب اور ہیبت طاری تھا وہ ختم ہوگیا اور مسلمان سکون و اطمینان کی کَیْفِیَّت میں آگئے۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ روزِ اُحد نیند ہم پر چھا گئی ہم میدان میں تھے تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ جاتی تھی پھر اُٹھاتا تھا پھر چھوٹ جاتی تھی۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب امنۃ نعاساً، ۳/۱۹۵، الحدیث: ۴۵۶۲)
دوسری طرف منافقوں کاگروہ تھا جنہیں صرف اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی تھی ،وہ اللہ تعالیٰ پر معاذ اللہبدگمانیاں کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضور سید ُالمرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ فرمائے گا یا یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شہید ہوگئے لہٰذا اب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین باقی نہ رہے گا۔ (صاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۱/۳۲۵)
یہ صرف جاہلیت کے گمان تھے۔ پھر منافقین کے بارے میں فرمایا کہ یہ اپنے دلوں میں اپنا کفر ، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر بھروسہ نہ ہونا اور جہاد میں مسلمانوں کے ساتھ آنے پر افسوس کرنا چھپائے ہوئے ہیں ، ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وعدے معاذاللہ سچے نہیں ہیں لیکن یہ باتیں مسلمانوں کے سامنے ظاہر نہیں کرسکتے۔ یہ کہتے ہیں کہ اگرہماری بھی کچھ چلتی ہوتی اور جنگ اُحدکے بارے میں ہمارا مشورہ مان لیا جاتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی بدگمانیوں اور بدکلامیوں کے رد میں فرمایا کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم فرمادو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے جب بھی جن کا مارا جانا تقدیر میں لکھا جاچکا تھا وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل کر آجاتے کیونکہ جیسے موت کا وقت مقرر ہے ایسے ہی موت کی جگہ بھی مُتَعَیَّن ہے۔ جس نے جہاں ،جیسے مرنا ہے، وہ وہاں ویسے ہی مرے گا۔ گھروں میں بیٹھ رہنا کچھ کام نہیں آتااورتقدیر کے سامنے ساری تدبیریں اور حیلے بے کار ہوجاتے ہیں۔ اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد میں پیش آنے والے واقعات کی حکمت بیان فرمائی کہ غزوہ اُحد میں جو کچھ ہواوہ اس لئے ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے دلوں کے اخلاص اورمنافقت آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اسے سب کے سامنے کھول کر رکھ دے۔
آیت’’ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا‘‘ سے حاصل ہونے والا درس:
اس آیت میں مذکور واقعے میں بہت سے درس ہیں۔
(1)…آزمائش کے وقت ہی کھرے کھوٹے کی پہچان ہوتی ہے۔
(2)… مسلمان صابر جبکہ منافق بے صبرا ہوتا ہے۔
(3)… مسلمان کو سب سے زیادہ فکر دین کی ہوتی ہے جبکہ منافق کو صرف اپنی جان کی فکر ہوتی ہے۔
(4)…مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتا ہے جبکہ منافق معمولی سی تکلیف پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
(5)…اللہ تعالیٰ کے وعدے پر کامل یقین رکھنا کامل ایمان کی نشانی ہے ۔
(6)…موت سے کوئی شخص فرار نہیں ہوسکتا، جس کی موت جہاں لکھی ہے وہاں آکر ہی رہے گی لہٰذا جہاد سے فرار مسلمان کی شان لائق نہیں۔
(7)…غزوۂ اُحد میں منافقین کے علاوہ جتنے مسلمان تھے وہ سب اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خصوصی کرم نوازی فرمائی۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِۙ-اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْاۚ وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠(۱۵۵)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک وہ جو تم میں سے پھرگئے جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں انہیں شیطان ہی نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے باعث اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرمادیا بیشک اللہ بخشنے والا حلم والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تم میں سے وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے جس دن دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا ،انہیں شیطان ہی نے ان کے بعض اعمال کی وجہ سے لغزش میں مبتلا کیا اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرمادیاہے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا حلم والا ہے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ : بیشک تم میں سے وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے۔}جنگ ِاحد میں چودہ اصحاب رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سوا جن میں حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمر فاروق ،حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی شامل ہیں جو حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہے باقی تمام اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے قدم اکھڑ گئے تھے اور خصوصاً وہ حضرات جنہیں نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پہاڑی مورچے پر مقرر کیا تھا اور ہر حال میں وہیں ڈٹے رہنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ ثابت قدم نہ رہ سکے بلکہ جب پہلے حملے ہی میں کفار کے قدم اکھڑ گئے اورمسلمان غالب آئے، تب ان دَرّے والوں نے کہا کہ چلو ہم بھی مالِ غنیمت جمع کریں۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے منع فرمایا مگر یہ لوگ سمجھے کہ فتح ہو چکی، اب ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دَرَّہ چھوڑ دیا، بھاگتے ہوئے کفار نے درہ کو خالی دیکھا تو پلٹ کر درہ کی راہ سے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا جس سے جنگ کا نقشہ بدل گیا، یہاں اسی کا ذکر ہے۔ ان حضرات سے یہ لغزش ضرور سرزد ہوئی لیکن چونکہ ان کے ایمان کامل تھے اور وہ مخلص مومن اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے غلام تھے اور آگے پیچھے کئی مواقع پر یہی حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اپنی جانیں قربان کرنے والے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی معافی کا اعلان فرمادیا تاکہ اگر ان کی لغزش سامنے آئے تورب کریم عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ان کی عظمت بھی سامنے رہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْاۚ-لِیَجْعَلَ اللّٰهُ ذٰلِكَ حَسْرَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۱۵۶)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو ان کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کی نسبت کہا جب وہ سفر یا جہاد کو گئے کہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے اس لئے کہ اللہ ان کے دلوں میں اس کا افسوس رکھے اور اللہ جِلاتا (زندہ رکھتا) اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! ان کافروں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب وہ سفر میں یا جہادمیں گئے کہ اگریہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کئے جاتے ۔( ان کی طرح یہ نہ کہو) تاکہ اللہ ان کے دلوں میں اس بات کا افسوس ڈال دے اوراللہ ہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے تمام اعمال کوخوب دیکھ رہا ہے۔
{لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا: کافروں کی طرح نہ ہونا۔}یہاں کافروں سے مراد اصلی کافر بھی بیان کئے گئے ہیں اور منافق بھی۔ ہم منافقین والا معنیٰ سامنے رکھ کر تفسیر کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! عبداللہ بن اُبی اور ان جیسے کافروں منافقوں کی طرح نہ ہونا جن کے نسبی بھائی یا منافقت میں بھائی بندسفر میں گئے اور مرگئے یا جہاد میں گئے اور مارے گئے تو یہ منافق کہتے ہیں کہ اگریہ جانے والے ہمارے پاس رہتے اور سفر و جہاد میں نہ جاتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ اس پر ایمان والوں سے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! تم ان کافروں کی طرح کی کوئی بات نہ کہنا تاکہ ان کی بات اور ان کا یہ عقیدہ کہ اگر سفروجہاد میں نہ جاتے تو نہ مرتے ان کے دلوں میں باعث ِ حسرت بن جائے۔ حقیقی مسلمان تو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ موت و حیات اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو مسافر اور غازی کو سلامت لے آئے اور محفوظ گھر میں بیٹھے ہوئے کو موت دیدے۔کیا گھروں میں بیٹھا رہنا کسی کو موت سے بچا سکتا ہے اور جہاد میں جانے سے کب موت لازم ہے اور اگر آدمی جہاد میں مارا جائے تو وہ موت گھر کی موت سے کئی درجے بہتر ہے۔ لہٰذا منافقین کا یہ قول باطل اور فریب ہے اوران کا مقصد مسلمانوں کو جہاد سے نفرت دلانا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ارشا دہوتا ہے۔
وَ لَىٕنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَحْمَةٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۱۵۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور بیشک اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہکی بخشش اور رحمت ان کے سارے دھن دولت سے بہتر ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک اگر تم اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ یا مرجاؤ تو اللہ کی بخشش اور رحمت اس دنیاسے بہتر ہے جو یہ جمع کررہے ہیں۔
{وَ لَىٕنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور بیشک اگر تم اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ۔ }آیت میں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں شہید کردیے جاؤ یا تمہیں طبعی موت ہی آئے لیکن تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں ہو تو یہ موت مغفرت اور رحمت کا سبب ہوگی اور ایسی موت دنیا کے دھن دولت سے بہتر ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں مرنا یہ ہے کہ جہاد کے راستے میں موت آئے اور اسی حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ عبادت کرتے ہوئے یا ذکر کرتے ہوئے یا علمی خدمت کرتے ہوئے یا تبلیغِ دین کرتے ہوئے موت آجائے اس حال میں موت بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں موت ہے اور اس کا نتیجہ بھی ربّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی رحمت اور مغفرت ہے ۔
وَ لَىٕنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاۡاِلَى اللّٰهِ تُحْشَرُوْنَ(۱۵۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور اگر تم مرو یا مارے جاؤ تو اللہ ہی کی طرف اٹھنا ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر تم مرجاؤ یا مارے جاؤ (بہرحال) تمہیں اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا ۔
{وَ لَىٕنْ مُّتُّمْ: اور اگر تم مرجاؤ ۔ } صدرُالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ یہاں نہایت پُر لطف تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہاں مقاماتِ عبدیت کے تینوں مقاموں کا بیان فرمایاگیا پہلا مقام تو یہ ہے کہ بندہ بخوفِ دوزخ اللہ(عَزَّوَجَلَّ) کی عبادت کرے تو اُس کو عذابِ نار سے امن دی جاتی ہے، اس کی طرف’’لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ ‘‘ میں اشارہ ہے۔ دُوسری قسم وہ بندے ہیں جو جنت کے شوق میں اللہ ( عَزَّوَجَلَّ) کی عبادت کرتے ہیں اس کی طرف ’’وَرَحْمَۃٌ‘‘ میں اشارہ ہے کیونکہ رحمت بھی جنت کا ایک نام ہے۔ تیسری قِسم وہ مخلص بندے ہیں جو عشقِ الٰہی اور ا س کی ذاتِ پاک کی محبت میں اِس کی عبادت کرتے ہیں اور اُن کا مقصود اُس کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں ہے اِنہیں حق سبحانہٗ تعالیٰ اپنے دائرئہ کرامت میں اپنی تَجلّی سے نوازے گا اِس کی طرف ’’لَاۡاِلَى اللّٰهِ تُحْشَرُوْنَ‘‘ میں اشارہ ہے ۔ (خزائن العرفان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ص۱۴۱)
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹)
ترجمۂکنزالایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لئے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ او ر ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اے حبیب! اللہکی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے توآپ ان کو معاف فرماتے رہو اوران کی مغفرت کی دعا کرتے رہو اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو پھرجب کسی بات کا پختہ ارادہ کرلو تواللہپر بھروسہ کرو بیشک اللہتوکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔
{فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ: تو اللہکی کتنی بڑی رحمت ہے۔ } اس آیت میں رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمہ کا بیان کیا جارہا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہتعالیٰ کی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نرم دل، شفیق اور رحیم و کریم بنایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزاج میں اِس درجہ لُطف و کرم اور شفقت ورحمت پیدا فرمائی کہ غزوہ اُحد جیسے موقع پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے غضب کا اظہار نہ فرمایا حالانکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس دن کس قدر اَذِیَّت و تکلیف پہنچی تھی اور اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سخت مزاج ہوتے اور میل برتاؤ میں سختی سے کام لیتے تو یہ لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دور ہوجاتے۔ تو اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَآپ ان کی غلطیوں کو معاف کردیں اور ان کیلئے دعائے مغفرت فرمادیں تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سفارش پر اللہ تعالیٰ بھی انہیں معاف فرمادے۔
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ کریمانہ کی تو کیا شان ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّنے تورات و انجیل میں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر فرمایا تھا: چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب اللہ تعالیٰ نے زید بن سعنہ کی ہدایت کا ارادہ فرمایا تو زید بن سعنہ نے کہا: میں نے جب حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے روئے انور کی زیارت کی تو اسی وقت آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لیں ،البتہ دو علامتیں ایسی تھیں جن کی مجھے خبر نہ تھی(کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں ہیں یا نہیں ) ایک یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور دوسری یہ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ میں موقع کی تلاش میں رہا تاکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم دیکھ سکوں۔ ایک دن نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے حجروں سے باہر تشریف لائے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھے کہ دیہاتی جیسا ایک شخص اپنی سواری پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: فلاں قبیلے کی بستی میں رہنے والے قحط اور خشک سالی کی مصیبت میں مبتلا ہیں ،میں نے ان سے کہا کہ اگر تم لوگ اسلام قبول کر لو تو تمہیں کثیر رزق ملے گا۔انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ، یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے ڈر ہے کہ جس طرح وہ رزق ملنے کی امید پر اسلام میں داخل ہوئے کہیں وہ رزق نہ ملنے کی وجہ سے اسلام سے نکل نہ جائیں۔ اگر ممکن ہو تو ان کی طرف کوئی ایسی چیز بھیج دیں جس سے ان کی مدد ہو جائے۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دکھایا تو انہوں نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اس میں سے کچھ باقی نہیں بچا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب ہوا اور کہا:اے محمد! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کیاآپ ایک مقررہ مدت تک فلاں قبیلے کے باغ کی معین مقدار میں کھجوریں مجھے بیچ سکتے ہیں ؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’اے یہودی !ایسے نہیں ، میں ایک مقررہ مدت تک اور مُعَیَّن مقدار میں کھجوریں تمہیں بیچوں گا لیکن کسی باغ کو خاص نہیں کروں گا۔ زید بن سعنہ کہتے ہیں : میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ میں نے ایک مقررہ مدت تک معین مقدار میں کھجوروں کے بدلے 80مثقال سونا حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دے دیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ سونا اس شخص کو دے کر فرمایا ’’یہ سونا ان لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو اورا س کے ذریعے ان کی مدد کرو ۔
زید بن سعنہ کہتے ہیں،جب وہ مدت پوری ہونے میں دویا تین دن رہ گئے تو میں نے مسجد میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا دامنِ اقدس پکڑ کر تیز نگاہ سے دیکھتے ہوئے یوں کہا: اے محمد! میرا حق ادا کرو ۔ اے عبدالمطلب کے خاندان والو! تم سب کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اورٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ اس دوران میں نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں ان کے چہرے پر گھوم رہی تھیں ،انہوں نے جلال بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے فرمایا : اے دشمن خدا ! کیا تم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ایسی بات اور ایسی حرکت کر رہے ہو!اس خدا کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ بھیجا،اگر مجھے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا لحاظ نہ ہو تا تو میں ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر سکون انداز میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی طرف دیکھنے لگے اور مسکرائے ،پھر ارشاد فرمایا’’ہم دونوں کو ا س کے علاوہ چیز کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم مجھے اچھے طریقے سے ادائیگی کا کہتے اور اسے اچھے انداز میں مطالبہ کرنے کا کہتے ۔ اے عمر ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،تم اسے اس کا حق دے دو اور بیس صاع کھجوریں ا س کے حق سے زیادہ دے دینا ۔
زید بن سعنہ کہتے ہیں :(جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھے زیادہ کھجوریں دیں ) تو میں نے کہا : اے عمر ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، مجھے زیادہ کھجوریں کیوں دی جا رہی ہیں ؟ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’مجھے رسول اللہ صَلَّیاللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حکم دیا ہے کہ جو میں نے تمہیں ڈانٹا ا س کے بدلے اتنی کھجوریں تمہیں زیادہ دے دوں۔ میں نے کہا :اے عمر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’نہیں۔ میں نے کہا :میں یہودیوں کا عالم زید بن سعنہ ہوں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’پھر تم نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کو جو باتیں کہیں اور ان کے ساتھ جو حرکت کی وہ کیوں کی؟میں نے کہا: میں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہی آپ میں نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ، البتہ ان دو علامتوں کو دیکھنا باقی تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جتنا زیادہ جہالت کا برتاؤ کیا جائے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حلم اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔ بے شک میں نے یہ علامتیں بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں پا لی ہیں ، تو اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ، آپ گواہ ہو جائیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ربّ ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوا ۔ میں بہت مالدار ہوں ،آپ گواہ ہو جائیں کہ میں نے اپنا آدھا مال تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت پر صدقہ کر دیا۔پھر حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سرکار دو عالم صَلَّیاللہُ تَعَالٰیعَلَیْہ ِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے بندے اور رسول ہیں۔(مستدرک، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، ذکر اسلام زید بن سعنۃ۔۔۔ الخ، ۴/۷۹۲، الحدیث: ۶۶۰۶)
{وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ:اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔ } یعنی اہم کاموں میں ان سے مشورہ بھی لیتے رہیں کیونکہ اِس میں اِن کی دِلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اِس سے نفع اُٹھاتی رہے گی،پھرجب مشورے کے بعد آپ کسی بات کا پختہ ارادہ کرلیں تو اپنے کام کو پورا کرنے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور ان کی مدد کرتا اور انہیں ا س چیز کی طرف ہدایت دیتا ہے جو ان کے لئے بہتر ہو ۔
مشورہ کے معنی ہیں کسی معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔ مشورہ لینے کے ساتھ اللہتعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ’’ مشورے کے بعد جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی چیز کا پختہ ارادہ کرلیں تو اسی پر عمل کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّپر توکل کریں۔ توکل کے معنی ہیں اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی پر اعتماد کرنا اور کاموں کو اُس کے سپرد کردینا۔ مقصود یہ ہے کہ بندے کا اعتماد تمام کاموں میں اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ہونا چاہئے ، صرف اسباب پر نظر نہ رکھے ۔
حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّپر بھروسہ کرے تو ہر مشکل میں اللہتعالیٰ اسے کافی ہو گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو دنیا پر بھروسہ کرے تو اللہتعالیٰ اسے دنیا کے سپرد فرما دیتا ہے ۔ (معجم الاوسط، باب الجیم، من اسمہ جعفر، ۲/۳۰۲، الحدیث: ۳۳۵۹)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ عَزَّوَجَلَّپر جیسا چاہیے ویسا توکل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب فی التوکل علی اللہ، ۴/۱۵۴، الحدیث: ۲۳۵۱)
اِنْ یَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْۚ-وَ اِنْ یَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِهٖؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۶۰)
ترجمۂکنزالایمان:اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھراس کے بعد کون تمہاری مدد کرسکتا ہے ؟ اور مسلمانوں کواللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
{اِنْ یَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ: اگر اللہ تمہاری مدد کرے۔ } ارشاد فرمایا کہ’’ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد وہی پاتا ہے جو اپنی قوت وطاقت پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و رحمت کا امیدوار رہتا ہے اور اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے چھوڑنے کے بعد کون تمہاری مدد کرسکتا ہے ؟ یقینا کوئی نہیں۔ غزوہ بَدر و حنین سے دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ غزوۂ بدر میں کفار کا لشکر تعداد، اسلحہ اور جنگی طاقت کے اعتبار سے مسلمانوں سے بڑھ کر تھالیکن مسلمانوں کا پورا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا جس کا نتیجہ مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی شکل میں ظاہر ہوا اورفرشتوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی جبکہ غزوہ حنین میں بعض مسلمانوں نے اپنی عددی کثرت پر فخر کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا ۔ پورا واقعہ سورۂ توبہ آیت 25 میں مذکور ہے ۔
وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّؕ-وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۱۶۱)
ترجمۂکنزالایمان:اور کسی نبی پر یہ گمان نہیں ہوسکتا کہ وہ کچھ چھپا رکھے اور جو چھپا رکھے وہ قیامت کے دن اپنی چھپائی چیز لے کر آئے گا پھر ہر جان کو ان کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کسی نبی کا خیانت کرنا ممکن ہی نہیں اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
{وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ: اور کسی نبی کا خیانت کرنا ممکن ہی نہیں۔ } نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا خیانت کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ شانِ نبوّت کے خلاف ہے، نیزانبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں لہٰذا اُن سے ایسا ممکن نہیں۔ وہ نہ تو وحی کے معاملے میں خیانت کرتے ہیں اور نہ کسی اور معاملے میں۔ شانِ نزول: ایک جنگ میں مالِ غنیمت میں ایک چادر گم ہو گئی ۔ بعض منافقوں نے کہا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے لئے رکھ لی ہوگی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔(جمل علی الجلالین، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶۱،۱/۵۰۵)
اس سے کئی مسئلے معلوم ہوئے ۔ ایک یہ کہ غنیمت کی تقسیم کے بغیر ناجائز طریقہ پر کچھ لینا سخت حرام ہے۔ دو سرا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَامگناہوں سے معصوم ہیں۔ گناہ اور نبوت میں وہی نسبت ہے جو اندھیرے اور اجالے میں ہے ۔تیسرا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر بد گمانی منافقوں کا کام ہے اور کفر ہے۔ چوتھا یہ کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ کے ایسے پیارے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر سے لوگوں کی تہمتیں دور فرماتا ہے ۔
اس آیت میں خیانت کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ احادیث میں بھی خیانت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جہنمیوں میں ایسے شخص کو بھی شمار فرمایا جس کی خواہش اور طمع اگرچہ کم ہی ہو مگر وہ اسے خیانت کا مرتکب کر دے۔(مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص۱۵۳۲، الحدیث: ۶۳(۲۸۶۵))
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند انس بن مالک بن النضر، ۴/۲۷۱، الحدیث: ۱۲۳۸۶)
حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹااور خیانت کرنے والانہیں ہوسکتا ۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی، ۸/۲۷۶، الحدیث: ۲۲۲۳۲)
اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰهِ كَمَنْۢ بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُؕ-
وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۱۶۲)هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(۱۶۳)
ترجمۂکنزالایمان: تو کیا جو اللہ کی مرضی پر چلاوہ اس جیسا ہوگا جس نے اللہکا غضب اوڑھا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا بری جگہ پلٹنے کی۔وہ اللہ کے یہاں درجہ درجہ ہیں اور اللہ ان کے کام دیکھتا ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا وہ شخص جو اللہ کی خوشنودی کے پیچھے چلا وہ اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے غضب کا مستحق ہوا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو؟ اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے ۔ لوگوں کے اللہ کی بارگاہ میں مختلف درجات ہیں اور اللہ ان کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔
{اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللّٰهِ:کیا وہ شخص جواللہ کی خوشنودی کے پیچھے چلا۔ }اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مستحق دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ کہاں وہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت کرنے والا، اس کی اطاعت کرنے والا ، اس کی خوشنودی کیلئے سب کچھ قربان کردینے والا جیسے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور ان کے بعد کے صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اور کہاں اللہتعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا، اس کے احکام سے منہ موڑنے والا، اس کی ناراضی کی پرواہ نہ کرنے والا اور اپنی خواہش کو رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر ترجیح دینے والاجیسے کفارو منافقین اور ان کے پیروکار نافرمان لوگ، یہ دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ان لوگوں کے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مختلف درجات ہیں ، ہر ایک کی منزلیں اور مقامات جدا گانہ ہیں۔ بروں کے الگ مقام اور اچھوں کے الگ جیسا کہ اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴)
ترجمۂکنزالایمان: بیشکاللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشکاللہنے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ:بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا۔ }عربی میں مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے ۔ پیدائشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ معراج بھی ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قبرِ انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔ آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے ، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے ، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے ، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے ،کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے ، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے ، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے ، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے ۔ اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ کی وضاحت کیلئے سورہ بقرہ آیت نمبر129کی تفسیر دیکھیں۔
اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْهَاۙ-قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَاؕ-قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۱۶۵)وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَۙ(۱۶۶)
ترجمۂکنزالایمان: کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچے کہ اس سے دونی تم پہنچا چکے ہو تو کہنے لگو کہ یہ کہاں سے آئی تم فرما دو کہ وہ تمہاری ہی طرف سے آئی بیشک اللہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔ اور وہ مصیبت جو تم پر آئی جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لئے کہ پہچان کرادے ایمان والوں کی ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا جب تمہیں کوئی ایسی تکلیف پہنچی جس سے دگنی تکلیف تم پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ اے حبیب! تم فرما دو کہ اے لوگو! یہ تمہاری اپنی ہی طرف سے آئی ہے۔بیشک اللہ ہر شے پر قادرہے ۔ اور دوگروہوں کے مقابلے کے دن تمہیں جو تکلیف پہنچی تووہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لئے (پہنچی)کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے۔
{اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةٌ:کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچی۔ }یہاں غزوہ اُحد کا بیان ہے ۔ اسی پیرائے میں یہاں بیان کیا جارہا ہے کہ تمہیں میدانِ اُحدمیں تکلیف پہنچی کہ تم میں سے ستّر شہید ہوئے جبکہ میدانِ بدر میں کفار کے ستر آدمی مارے گئے اور ستر گرفتار ہوئے تو کفار کا نقصان تو دُگنا ہوا۔ اس پر فرمایا کہ جب تمہیں میدانِ احد میں ایسی تکلیف پہنچی جس سے دگنی تکلیف تم کافروں کومیدانِ بدر میں پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ ہمیں یہ تکلیف کیسے آگئی؟ جبکہ ہم مسلمان ہیں اور ہم میں سید المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف فرما ہیں۔ اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،تم ان سے فرمادو کہ یہ تمہاری اپنی ہی طرف سے آئی ہے کہ تم نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضیکے خلاف مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے پر اِصرار کیا، پھر وہاں پہنچنے کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شدید ممانعت کے باوجود غنیمت کے لئے مرکز کوچھوڑا ۔ یہی بات تمہارے قتل اور نقصان کا سبب بنی ہے۔ مزید اگلی آیت میں فرمایا کہ میدانِ اُحد میں کافروں اور مسلمانوں کے مقابلے کے دن تمہیں جو تکلیف پہنچی تووہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے تھی اور اس لئے پہنچی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ایمان والوں کی پہچان کرادے لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلے پر راضی رہو ۔
وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا ۚۖ-وَ قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَوِ ادْفَعُوْاؕ-قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْؕ-هُمْ لِلْكُفْرِ یَوْمَىٕذٍ اَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْاِیْمَانِۚ-یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یَكْتُمُوْنَۚ(۱۶۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور اس لئے کہ پہچان کرادے ان کی جو منافق ہوئے اور ان سے کہا گیا کہ ا ٓؤ اللہکی راہ میں لڑو یا دشمن کو ہٹاؤ بولے اگر ہم لڑائی ہوتی جانتے تو ضرو ر تمہارا ساتھ دیتے اور اس دن ظاہری ایمان کی بہ نسبت کھلے کفر سے زیادہ قریب ہیں اپنے منہ سے کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں اور اللہ کو معلوم ہے جو چھپارہے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس لئے ( پہنچی) کہ اللہ منافقوں کی پہچان کرادے اور (جب ) ان سے کہا گیا کہ ا ٓؤ اللہکی راہ میں جہاد کرویا دشمنوں سے دفاع کرو تو کہنے لگے: اگر ہم اچھے طریقے سے لڑنا جانتے (یا کہنے لگے کہ اگر ہم اس لڑائی کو صحیح سمجھتے) تو ضرو ر تمہارا ساتھ دیتے ،یہ لوگ اس دن ظاہری ایمان کی نسبت کھلے کفرکے زیادہ قریب تھے ۔ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے جو باتیں یہ چھپارہے ہیں۔
{ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا: اور تاکہ منافقوں کی پہچان کروادے ۔ } غزوہ اُحد میں مسلمانوں کے نقصان اٹھانے کی حکمتوں کو متعدد مقامات پربیان فرمایا گیا ہے جس میں بہت بڑی حکمت مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنا تھا چنانچہ یہاں پر بھی فرمایا گیا کہ مسلمان لشکر کو میدانِ اُحد میں اس لئے تکلیف پہنچی تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ لوگوں کومنافقوں کی پہچان کرادے ، کیونکہ منافقوں کی حالت یہ تھی کہ جب جنگِ اُحد شروع ہونے سے پہلیعبداللہبن اُبی وغیرہ منافقوں سے کہا گیا کہ ا ٓؤ اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں جہاد کرویا صرف ہمارے ساتھ مل کر ہماری تعداد بڑھاؤ جس سے ایک قسم کا دفاع مضبوط ہوگا تو یہ منافق کہنے لگے کہ’’اگر ہم اچھے طریقے سے لڑنا جانتے ‘‘یا کہنے لگے کہ’’ اگر ہم اس لڑائی کو صحیح سمجھتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے ۔ ان منافقین کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ درحقیقت اس دن اپنے ظاہری ایمان کی نسبت کھلے کفر کے زیادہ قریب تھے۔ یہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں یعنی یہ منہ سے تو یہ کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں لیکن ہم جنگ کر نا نہیں جانتے لیکن دل میں یہ کہتے ہیں کہ’’ کفا ر کو اپنا دشمن نہ بنا ؤ،مسلمانوں کو ان کے ہاتھوں تباہ ہو جانے دو۔
اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْاؕ-قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۶۸)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا اور آپ بیٹھ رہے کہ وہ ہمارا کہنا مانتے تو نہ مارے جاتے تم فرمادو تو اپنی ہی موت ٹال دو اگر سچے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا اورخود بیٹھے رہے کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے ۔ اے حبیب! تم فرمادواگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت دور کر کے دکھادو۔
{اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ: جنہوں نے اپنے بھائیوں کے متعلق کہا ۔ }منافقین نے اُحد میں شہید ہونے والوں کے بارے میں کہا کہ اگر یہ لوگ ہماری بات مان لیتے اور ہماری طرح گھر بیٹھے رہتے تو مارے نہ جاتے ۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت کو دور کرکے تو دکھاؤ۔ یقینا موت تو بہرحال آکر ہی رہے گی خواہ آدمی گھر میں چھپ کر بیٹھ جائے ،تو یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ’’ اگر لوگ ہماری بات مان کر جہاد میں نہ جاتے تو نہ مارے جاتے۔
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ(۱۶۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور جواللہ کی راہ میں مارے گئے ہر گز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے۔
{وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا: اور جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہر گز انہیں مردہ خیال نہ کرنا ۔} شانِ نزول: اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت شہداء احد کے حق میں نازل ہوئی ۔ حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تواللہتعالیٰ نے ان کی اَرواح کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے ،وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں ، جنتی میوے کھاتے ہیں ، سونے کی اُن قندیلوں میں رہتے ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں۔جب ان شہداء کرام نے کھانے ، پینے اور رہنے کے پاکیزہ عیش پائے تو کہا کہ پیچھے دنیا میں رہ جانے والے ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ جہادسے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے بیٹھ نہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا۔ پس یہ آیت نازل فرمائی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ، ۳/۲۲، الحدیث: ۲۵۲۰)
اس سے ثابت ہوا کہ اَرواح باقی ہیں جسم کے فنا ہونے کے ساتھ فنا نہیں ہوتیں۔ یہاں آیت میں شہدا ء کی کئی شانیں بیان ہوئی ہیں : فرمایا کہ وہ کامل زندگی والے ہیں ،وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس ہیں ،انہیں رب کریم کی طرف سے روزی ملتی رہتی ہے، وہ بہت خوش باش ہیں۔ شہداء کرام زندوں کی طرح کھاتے پیتے اورعیش کرتے ہیں۔ آیتِ مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ شہیدوں کے روح اور جسم دونوں زندہ ہیں۔علماء نے فرمایا کہ شہداء کے جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں ، مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں اور اس کے بعداس بات کا بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو ان کے جسم تر و تازہ پائے گئے ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۶۹، ۱/۳۲۳)
فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۙ-وَ یَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْۙ-اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۘ(۱۷۰)
ترجمۂکنزالایمان: شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منا رہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (وہ) اس پر خوش ہیں جو اللہنے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے اور اپنے پیچھے(رہ جانے والے) اپنے بھائیوں پر بھی خوش ہیں جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔
{فَرِحِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ:اس پر خوش ہیں جو اللہنے انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ۔ } شہداء کرام کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ وہ اللہتعالیٰ کے فضل و کرم، انعام و احسان، اعزازو اکرام اور موت کے بعد اعلیٰ قسم کی زندگی دئیے جانے پر خوش ہیں نیز اس پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا مقرب بنایا، جنت کا رزق اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں اور جنت کی منزلیں حاصل کرنے کے لئے شہادت کی توفیق عطا فرمائی۔ نیز وہ اس بات پر بھی خوشی منارہے ہیں کہ ان کے بعد دنیا میں رہ جانے والے ان کے مسلمان بھائی دنیا میں ایمان اور تقویٰ پر قائم ہیں اور جب وہ بھی شہید ہوکر اِن کے ساتھ ملیں گے تو وہ بھی اِن کرم نوازیوں کو پائیں گے اور قیامت کے دن امن اور چین کے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔
یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍۙ-وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۷۱)ﮎ
ترجمۂکنزالایمان: خوشیاں مناتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل کی اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا اجر مسلمانوں کا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر خوشیاں منارہے ہیں اور اس بات پر کہ اللہ ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرمائے گا ۔
{یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ:وہ اللہ کی نعمت اور فضل پر خوشیاں منارہے ہیں۔ } شہداء اللہتعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمت پر خوشیاں مناتے ہیں اور ان کے ہر زخم کے بدلے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ان پر نازل ہوتی ہیں۔
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس کسی کے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں زخم لگا وہ روزِ قیامت ویسا ہی آئے گا جیسا زخم لگنے کے وقت تھا ، اس کے خون میں خوشبو مشک کی ہوگی اور رنگ خون کا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزوجل، ۲/۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’شہید کو قتل سے تکلیف نہیں ہوتی مگر ایسی جیسی کسی کو ایک خراش لگے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل المرابط، ۳/۲۵۲، الحدیث: ۱۶۷۴)
(3) …حضرت عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’شہید کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں سوائے قرض کے۔(مسلم ، کتاب الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ کفرت خطایاہ الا الدّین، ص۱۰۴۶، الحدیث: ۱۱۹(۱۸۸۶))
(4)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جنت میں جانے کے بعد شہید یہ تمنا کرے گا کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے اور دس بار (اللہکے راستے میں ) قتل کیا جاؤں۔(مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالی، ص۱۰۴۳، الحدیث: ۱۰۹(۱۸۷۷))
(5)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے: میری یہ تمنا ہے کہ میں اللہتعالیٰ کے راستے میں جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں ، پھر شہید کیا جاؤں ، پھر جہاد کروں پھر شہید کیا جاؤں۔(مسلم ، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
(6) …حضرت اسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ دعا مانگی ’’اللہُمَّ ارْزُقْنِی شَہَادَۃً فِی سَبِیلِکَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِی فِی بَلَدِ رَسُولِکَ‘‘اے اللہ عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور مجھے اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر میں وفات نصیب فرما۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳- باب، ۱/۶۲۲، الحدیث: ۱۸۹۰)
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ﳍ لِلَّذِیْنَ
اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ(۱۷۲)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو اللہ و رسول کے بلانے پر حاضر ہوئے بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکا تھا ان کے نکوکاروں اور پرہیزگاروں کے لئے بڑا ثواب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ لوگ جو اللہ او ررسول کے بلانے پر زخمی ہونے کے باوجود (فوراً) حاضر ہو گئے ان نیک بندوں اور پرہیزگاروں کے لئے بڑا ثواب ہے ۔
{اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ : وہ لوگ جو اللہ او ررسول کے بلانے پر حاضر ہوگئے ۔ }شانِ نزول: جنگ احد سے فارغ ہونے کے بعد جب ابوسفیان ، اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ’’رَوحائ‘‘ نامی جگہ پہنچا تو انہیں افسوس ہوا کہ وہ واپس کیوں آگئے ، مسلمانوں کا بالکل خاتمہ ہی کیوں نہ کردیا۔ یہ خیال کرکے انہوں نے پھر واپس ہونے کا ارادہ کیا توتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ابوسفیان کے تَعاقُب کے لئے روانگی کا اعلان فرمادیا ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت جن کی تعداد ستر تھی اورجو جنگ احد کے زخموں سے چور ہورہے تھے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اعلان پر حاضر ہوگئے اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس جماعت کو لے کر ابوسفیان کے تعاقب میں روانہ ہوگئے ۔ جب حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’حَمْرَاء الاَسَد‘‘ نامی جگہ پر پہنچے جو مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے تو وہاں معلوم ہواکہ مشرکین خوفزدہ ہو کر بھاگ گئے ہیں۔اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ۔ (مدارک، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ص۱۹۷)
اس آیت میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و ہمت کا بیان بھی ہے کہ زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم پر فوراً حاضر ہوگئے۔
یہ غازی یہ تیرے پُراَسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے دریا و صحرا سمٹ کر پہاڑ اِن کی ہیبت سے رائی
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا ﳓ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ(۱۷۳)فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌۙ-وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ(۱۷۴)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے جتھا جوڑا تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زائد ہوا اور بولے اللہہم کو بس ہے اور کیا اچھا کارساز۔ تو پلٹے اللہ کے احسان اور فضل سے کہ انہیں کوئی برائی نہ پہنچی اور اللہکی خوشی پر چلے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے (ایک لشکر) جمع کرلیاہے سوان سے ڈرو توان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیااور کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اورکیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پھر یہ اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے ، انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور انہوں نے اللہ کی رضا کی پیروی کی اوراللہ بڑے فضل والا ہے ۔
{اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ: یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا ۔ } شانِ نزول: جنگ اُحد سے واپس ہوتے ہوئے ابوسفیان نے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوپکار کر کہہ دیا تھا کہ اگلے سال ہماری آپ کی مقامِ بدر میں جنگ ہوگی۔ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے جواب میں فرمایا: ’’اِنْ شَآءَ اللہ‘‘ جب وہ وقت آیا اور ابوسفیان اہلِ مکہ کو لے کر جنگ کے لیے روانہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں خوف ڈالا اور انہوں نے واپس ہونے کا ارادہ کیا ۔ اس موقع پر ابوسفیان کی نُعَیْم بن مسعود سے ملاقات ہوئی جو عمرہ کرنے آیا تھا۔ ابوسفیان نے اس سے کہا کہ اے نُعَیْم ! اِس زمانہ میں میری لڑائی مقامِ بدر میں محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ طے ہوچکی ہے اور اس وقت مجھے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں جنگ میں نہ جاؤں بلکہ واپس چلاجاؤں۔ لہٰذا تم مدینے جاؤ اور حکمت و تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں جانے سے روک دو۔ اس کے عوض میں تجھے دس اونٹ دوں گا۔ نُعَیْم نے مدینہ پہنچ کر دیکھا کہ مسلمان جنگ کی تیاری کررہے ہیں ، یہ دیکھ کر اُن سے کہنے لگا کہ تم جنگ کے لئے جانا چاہتے ہو ، اہلِ مکہ نے تمہارے لئے بڑے لشکر جمع کئے ہیں۔ خدا کی قسم !تم میں سے ایک بھی سلامت واپس نہ آئے گا۔ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم، میں ضرور جاؤں گا چاہے میرے ساتھ کوئی بھی نہ ہو۔ چنانچہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ساتھ لے کر ’’ حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ‘‘ پڑھتے ہوئے روانہ ہوئے اور بدر میں پہنچے ، وہاں آٹھ دن قیام کیا، مال تجارت ساتھ تھااسے فروخت کیا اورخوب نفع ہوا اور پھر سلامتی کے ساتھ مدینہ طیبہ واپس آئے اور جنگ نہیں ہوئی۔ چونکہ ابو سفیان اور اہلِ مکہ خوف زَدہ ہو کر مکہ مکرمہ کو واپس ہوگئے تھے اس واقعہ کے متعلق یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۱/۳۲۵-۳۲۶)
اس واقعہ کو بدر ِصغریٰ کا واقعہ کہتے ہیں۔ اِس واقعہ سے بھی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت واضح ہوتی ہے کہ جب انہیں کافروں کے بڑے بڑے لشکروں سے ڈرایا جارہا ہے تو بجائے ڈرنے اور بزدلی دکھانے کے ان کی ہمت اور جوانمردی اور بڑھ جاتی ہے ، ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کی زبانوں پر ایک ہی وظیفہ جاری ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کافی ہے اور وہی سب سے اچھا کارساز ہے۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ ۪-فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۷۵)
ترجمۂکنزالایمان:وہ تو شیطان ہی ہے کہ اپنے دوستوں سے دھمکاتا ہے تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک وہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو ۔
{اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ : بیشک وہ تو شیطان ہی ہے ۔ }یہاں پچھلے واقعے ہی کا بیان ہے کہ وہ تو شیطان ہے جو مسلمانوں کو مشرکین کی کثرت سے ڈراتا ہے جیسا کہ نعیم بن مسعود نے کیا کہ وہ اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ان منافقین اور مشرکین کا خوف نہ کرو جو شیطان کے دوست ہیں ، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ ایمان کا تقاضا ہی یہ ہے کہ بندے کو خداعَزَّوَجَلَّہی کا خوف ہو اور جب یہ خوف پیدا ہوجاتا ہے تو پھر کسی دوسرے کا خوف باقی نہیں رہتا۔ اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا، مسلمانوں کے حوصلے پَست کرنا، ان کے سامنے کافروںکی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تاکہ مسلمان ہمت ہار بیٹھیں اور کفار سے مقابلے کا نام تک نہ لیں یہ سب حرکتیں کفار و منافقین کی ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمارے زمانے میں کمی نہیں جنہیں مسلمانوں کو تو ہمت وحوصلہ دینے کی توفیق نہیں لیکن وہ کفار کی طاقت کو ایسا بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے کہ مسلمان ان سے مقابلے کا نام لینے سے بھی گھبرائیں۔ اخبار وغیرہ کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں۔
وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِۚ-اِنَّهُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ اَلَّا یَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۷۶)
ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب تم ان کا کچھ غم نہ کرو جو کفر پر دوڑتے ہیں وہ اللہکا کچھ نہ بگاڑیں گے اللہچاہتا ہے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے حبیب!تم ان کا کچھ غم نہ کرو جو کفرمیں دوڑے جاتے ہیں وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے ۔
{وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ: اور اے حبیب!تم ان کا کچھ غم نہ کرو جو کفرمیں دوڑے جاتے ہیں۔} حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کیلئے یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان لوگوں کا غم نہ کریں جو کفر میں دوڑے جاتے ہیں اور اس کیلئے کوشش کرتے ہیں خواہ وہ کفارِ قریش ہوں یا منافقین یایہودیوں کے سردار یا مرتدین ، یہ سب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلہ کے لیے کتنے ہی لشکر جمع کرلیں ، کامیاب نہ ہوں گے۔ اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ملنے والے ثواب میں ان کا کوئی حصہ نہ رکھے اسی لئے اس نے انہیں ان کے کفر و سرکشی میں بھٹکتا چھوڑ دیا اور ان کے لئے اخروی ثواب سے مکمل طور پر محرومی کے ساتھ ساتھ جہنم کا بڑا عذاب بھی ہے تو اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن کے لئے ناکامی، محرومی اور دردناک عذاب مقدر ہو چکا ہے ان سے کوئی اندیشہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْــٴًـاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۷۷)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر مول لیا اللہکا کچھ نہ بگاڑیں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک وہ لوگ جنہوں نے ایمان کی بجائے کفر اختیار کیا وہ ہرگز اللہ کا کچھ نہیں بگاڑسکیں گے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْاِیْمَانِ : بے شک وہ جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر اختیار کیا۔ } ارشاد فرمایا کہ وہ منافقین جو کلمہ ایمان پڑھنے کے بعد کافر ہوئے یا وہ لوگ جو ایمان پر قادر ہونے کے باوجود کافر ہی رہے اور ایمان نہ لائے یہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے بلکہ ان کے کفر کا وبال انہی کے سَر آئے گا۔
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(۱۷۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہرگز کافر اس گمان میں نہ رہیں کہ وہ جو ہم انہیں ڈھیل دیتے ہیں کچھ ان کے لئے بھلا ہے ہم تو اسی لئے انہیں ڈھیل دیتے ہیں کہ اور گناہ میں بڑھیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں کہ ہم انہیں جومہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے ، ہم تو صرف اس لئے انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
{وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں۔ } اللہتعالیٰ عموما ًفوری طور پر کسی گناہ پر گرفت نہیں فرماتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور دنیاوی آسائشوں کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے اس سے بہت سے لوگ اس دھوکے میں پڑے رہتے ہیں کہ ان کا کفر اور ان کی حرکتیں کچھ نقصان دہ نہیں ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ کافروں کو لمبی عمر ملنا، انہیں فوری عذاب نہ ہونا اور انہیں مہلت دیا جانا ایسی چیز نہیں کہ جسے وہ اپنے حق میں بہتر سمجھیں بلکہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں یہی مہلت ان کے گناہوں میں اضافے اور ان کی تباہی و بربادی کا سبب بننے والی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اِس مہلت کو اپنے حق میں ہرگز بہتر نہ سمجھیں۔
لمبی عمر پانا اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی ۔ جیساکہ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، ایک شخص نے حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ کون شخص اچھا ہے ؟ ارشاد فرمایا ، جس کی عمر دراز ہو اور عمل اچھے ہوں۔ عرض کیا گیا: اور بدتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، جس کی عمر دراز ہو اور عمل خراب ہوں۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۲۲-باب منہ، ۴/۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)
اورحضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’قضاعہ قبیلے کے دو شخص نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے، ان میں ایک تو شہید ہو گیا اور دوسرا مزید ایک سال تک زندہ رہا، حضرت طلحہ بنعبیداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں : میں نے دیکھا کہ بعد میں مرنے والا شہید سے بھی پہلے جنت میں داخل ہو گیا،مجھے اس پر تعجب ہوا تو صبح میں نے یہ واقعہ حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیاتو ارشاد فرمایا : کیا اس نے اس کے بعد ایک رمضان کے روزے نہ رکھے تھے اور چھ ہزار رکعت نماز اور اتنی اتنی سنتیں نہ پڑھی تھیں ؟ (مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ ، ۳/۲۲۹، الحدیث: ۸۴۰۷)
مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ حَتّٰى یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَیْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ۪- فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۚ-وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۷۹)
ترجمۂکنزالایمان: اللہمسلمانوں کو اسی حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کردے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ کی یہ شان نہیں کہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑے جس پر(ابھی)تم ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کردے اور (اے عام لوگو!)اللہتمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ اپنے رسولوں کو مُنتخب فرمالیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے تو تم اللہاور اس کے رسولوں پرایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ اور متقی بنو تو تمہارے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
{مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَیْهِ: اللہ کی یہ شان نہیں کہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑے جس پر (ابھی) تم ہو ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے صحابہ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، یہ حال نہیں رہے گا کہ منافق و مومن ملے جلے رہیں بلکہ عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ذریعے مسلمانوں اور منافقوں کو جدا جدا کردے گا۔ اس آیت ِمبارکہ کا شانِ نزول کچھ اس طرح ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اورکون کفر کرے گا، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں۔اس پر حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ،پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کھڑے ہوکر عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّکی ربوبیت پر راضی ہوئے، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے، قرآن کے امام و پیشواہونے پر راضی ہوئے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معافی چاہتے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا تم باز آؤ گے؟ کیا تم باز آؤ گے؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱/۳۲۸)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ،پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا:میرا باپ کون ہے؟ارشاد فرمایا’’تمہارا باپ حُذافہ ہے۔پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا:یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرا باپ کون ہے ؟ارشاد فرمایا’’سالم مولی شیبہ ہے۔جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی:یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف توبہ کرتے ہیں۔(بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم۔۔۔ الخ، ۱/۵۱، الحدیث: ۹۲)
دوسری روایت یوں ہے : حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ سورج ڈھلنے پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لائے اور نماز ظہر پڑھی، پھر منبر پر کھڑے ہو کر قیامت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں بڑے بڑے امور ہیں۔پھر فرمایا’’جو کسی چیز کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو تو پوچھ لے اور تم مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہیں پوچھو گے مگر میں تمہیں اسی جگہ بتا دوں گا، پس لوگ بہت زیادہ روئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’تمہارا باپ حذافہ ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے:ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے،پھر فرمایا’’ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ،میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)
ان اَ حادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت تک کی تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب میں اعتراض کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ’’ اے عام لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے رسولوں کو منتخب فرمالیتا ہے اوران برگزیدہ رسولوں کو غیب کا علم دیتا ہے اور سیدُ الانبیاء ،حبیبِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رسولوں میں سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں ، انہیں سب سے بڑھ کر غیب کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ اس آیت سے اور اس کے سوا بکثرت آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو غیب کے علوم عطا فرمائے اور غیبوں کا علم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معجزہ ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ’’ اے لوگو ! تمہیں غیب کا علم نہیں دیا جاتا ، تمہارا کام یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، جس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس بات کی تصدیق کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو غیب پر مطلع کیا ہے۔
(1)… حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّکو دیکھا، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا، میرے
سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب
کچھ پہچان لیا۔(سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۶۰، الحدیث: ۳۲۴۶)
(2)…سنن ترمذی میں ہی حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ ’’جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)
(3)…حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک میرے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّنے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے ا پنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ، اس روشنی کے سبب جو اللہتعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے روشن فرمائی جیسے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے روشن کی تھی۔ (حلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب،۶/۱۰۷، الحدیث:۷۹۷۹)
(4)…حضرت حذیفہ بن اُسید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی، بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانتاہے ۔ (معجم الکبیر، حذیفہ بن اسید۔۔۔ الخ، ۳/۱۸۱، الحدیث: ۳۰۵۴)
(5)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم لوگوں میں کھڑے تھے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے بتانا شروع کیا حتّٰی کہ جنتی اپنے منازل پر جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جہنم میں پہنچ گئے ۔ جس نے اس بیان کو یاد رکھا اس نے یادرکھا جو بھول گیا سو بھول گیا۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالی: وہو الذی یبدء الخلق۔۔۔ الخ، ۲/۳۷۵، الحدیث: ۳۱۹۲ )
(6)…مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، ایک دن حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ ارشادفرمایا،بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا اس میں وہ سب کچھ ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا اور ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یکون الی قیام الساعۃ، ص ۱۵۴۶، الحدیث: ۲۵ (۹۲ ۲۸ ))
(7)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُحد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی تھے ، ناگاہ پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے فرمایا: اے احد !ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت متخذاً خلیلاً، ۲/۵۲۴، الحدیث: ۳۶۷۵)
(8)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر سے ایک دن پہلے نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں اہلِ بدر کے گرنے یعنی مرنے کی جگہیں دکھائیں اور فرمایا :کل فلاں شخص کے گرنے یعنی مرنے کی یہ جگہ ہے۔
حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : جو نشان رسول اللہصَلَّیاللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جس کے لئے لگایا تھا وہ اسی پر گرا ۔ (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۶، الحدیث: ۷۶(۲۸۷۳))
(9)…حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں کہ سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو ایسی قبروں کے پاس سے گذرے جن میں عذاب ہورہا تھا توارشاد فرمایا : ’’انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو، ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا۔(بخاری، کتاب الوضو ء، ۵۹-باب، ۱/۹۶، الحدیث: ۲۱۸)
(10)…حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : صلح حدیبیہ سے واپسی پر ایک جگہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اونٹ مُنتَشِر ہو گئے ،سب اپنے اپنے اونٹ واپس لے آئے لیکن حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اونٹنی نہ ملی ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ وہاں سے اونٹنی لے آؤ، تو میں نے اونٹنی کو اسی حال میں پکڑ لیا جیسا مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تھا ۔(معجم الکبیر، ۱۰/۲۲۵، الحدیث: ۱۰۵۴۸)
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْؕ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠(۱۸۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہنے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا اوراللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہے وہ ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ یہ بخل ان کے لئے برا ہے۔ عنقریب قیامت کے دن ان کے گلوں میں اسی مال کا طوق بنا کر ڈالا جائےگا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا اوراللہ ہی آسمانوں اور زمین کاوارث ہے اوراللہ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے۔
{اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ : وہ جو بخل کرتے ہیں۔ }اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل کرنے والوں کے بارے میں شدید وعید بیان کی گئی ہے اوراکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(۳۵) (توبہ:۳۴،۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔ جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا)یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو ۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’ جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱/۴۷۴، الحدیث: ۱۴۰۳)
بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(احیاء العلوم، کتاب ذمّ البخل وذمّ حبّ المال، بیان حدّ السخاء والبخل وحقیقتہما، ۳/۳۲۰، ملخصاً)
قرآنِ مجید اورکثیر احادیث میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ،چنانچہاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۚ-فَمِنْكُمْ مَّنْ یَّبْخَلُۚ-وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ-وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ(محمد:۳۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:ہاں ہاں یہ جو تم لوگ ہو تم بلائے جاتے ہو تاکہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’آدمی کی دو عادتیں بری ہیں (1) بخیلی جو رلانے والی ہے۔ (2) بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجرأۃ والجبن، ۳/۱۸، الحدیث: ۲۵۱۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ مالدار بخل کرنے کی و جہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین، ۱/۴۴۴، الحدیث: ۳۳۰۹)
حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : ’’کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا ۔ (معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، ۳/۱۲۵، الحدیث: ۴۰۶۶)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ بخیل اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دورہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے جبکہ جہنم سے قریب ہے۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخائ، ۳/۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۸)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب الایمان، ۷/۴۳۵، الحدیث: ۱۰۸۷۷)
بخل کا علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے ،جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے ، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یادا ور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے ۔ یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غورو فکر کرنا بھی اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا ۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم، اصل ششم، علاج بخل، ۲/۶۵۰-۶۵۱، ملخصاً)
لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآءُۘ-سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّۙ-وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ(۱۸۱)ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۚ(۱۸۲)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک اللہنے سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی اب ہم لکھ رکھیں گے ان کا کہا اور انبیاء کو ان کا ناحق شہید کرنا اور فرمائیں گے کہ چکھو آگ کا عذاب یہ بدلا ہے اس کا جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے ان کا قول سن لیا جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اب ہم ان کی کہی ہوئی بات اور ان کا انبیاء کو ناحق شہید کرنا لکھ رکھیں گے اور کہیں گے: جلادینے والے عذاب کا مزہ چکھو۔یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے اور اللہبندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
{لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ: بیشک اللہ نے سن لیا۔ }اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ کہ کون ہے جو رب تعالیٰ کو اچھا قرض دے ،تو یہود یوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگ رہا ہے تو ہم غنی ہوئے اوراللہ تعالیٰ فقیر ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ اتری ۔ (تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ۳/۴۴۶)
اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن گستاخوں کی بات سن لی ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اب ہم ان کے اعمال ناموں میں ان کی کہی ہوئی بات اور ان کے دوسرے کفریات جیسے ان کا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا لکھ رکھیں گے اورقیامت کے دن اِن کی اِن گستاخیوں کے بدلے میں کہیں گے کہ’’ اب جلا دینے والے عذاب کا مزہ چکھو ۔
یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی گستاخی اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کو ساتھ ساتھ بیان کرکے عذاب کی ایک ہی وعید بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں جرم بہت عظیم ترین ہیں اور قباحت میں برابر ہیں اور شانِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں گستاخی کرنے والا شانِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں گستاخی کرنے والے کی طرح جہنم کا مستحق ہے کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی گستاخی اللہتعالیٰ کی گستاخی ہے ۔
اَلَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَیْنَاۤ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰى یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُهُ النَّارُؕ-قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْهُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۸۳)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو کہتے ہیں اللہ نے ہم سے قرار کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک ایسی قربانی کا حکم نہ لائے جسے آ گ کھائے تم فرمادو مجھ سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور یہ حکم لے کر آئے جو تم کہتے ہو پھر تم نے انہیں کیوں شہید کیا اگر سچے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ لوگ جو کہتے ہیں (کہ) اللہ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم کسی رسول کی اس وقت تک تصدیق نہ کریں جب تک وہ ایسی قربانی پیش نہ کرے جسے آگ کھاجائے ۔ اے حبیب! تم فرمادو(کہ) بیشک مجھ سے پہلے بہت سے رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور وہی (معجزات) لے کر آئے جو تم نے کہے تھے پھر اگر تم سچے ہوتو تم نے انہیں کیوں شہید کیا؟۔
{اَلَّذِیْنَ قَالُوْا: وہ جو کہتے ہیں۔ }اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ ہم سے توریت میں عہد لیا گیا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا جو شخص ایسی قربانی پیش نہ کرسکے جسے آسمان سے سفید آگ اتر کر کھائے ،اس پر ہم ہرگز ایمان نہ لائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۳،۱/۵۲۳)
اور اُن کے اِس خالص جھوٹ اور بہتان کو باطل قرار دیا گیا کیونکہ اِس شرط کا توریت میں نام و نشان بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نبی کی تصدیق کے لیے معجزہ کافی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو، جب نبی نے کوئی معجزہ دکھادیا تواس کے سچا ہونے پر دلیل قائم ہوگئی، اب اُس کی تصدیق کرنا اور اُس کی نبوت کو ماننا لازم ہوگیا ۔ نبوت کی صداقت ثابت ہوجانے کے بعد پھر کسی خاص معجزے کا اصرارکرنا حقیقت میں نبی کی تصدیق کا انکار ہے۔پھر یہ بات بھی بیان فرمادی کہ گزشتہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبعض اوقات وہی معجزات لے کر آئے جس کا تم نے ان سے مطالبہ کیا، جیسے بعض انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قربانی لانے والا معجزہ بھی دکھا دیا لیکن اس کے باوجود تم نے انہیں نہ مانا بلکہ بہت سے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کردیا ، اگر تم سچے تھے تو ان کو کیوں شہید کیا؟ تمہارا سابقہ کردار اس بات کی گواہی دیتاہے کہ تمہارا مقصد صرف حیلے بہانے کر کے اسلام قبول کرنے سے بچنا اور اپنے جاہلوں کو ورغلانا ہے ورنہ دلیل نام کی کوئی چیز تمہارے پاس نہیں۔
اوپر کی پوری گفتگو سے ایک بہت مفید بات سامنے آتی ہے کہ جب کوئی چیز کسی معقول دلیل سے ثابت ہو جائے تو اسے مان لینا لازم ہے۔ دلیل سے ثابت ہوجانے کے بعد خواہ مخواہ مخصوص قسم کی دلیل کا مطالبہ کرنا یہودیوں کا کام ہے اور اس میں بھی ایسے لوگوں کامقصد ماننا نہیں ہوتا بلکہ مفت کی بحث کرنا ہوتا ہے۔ جیسے مسلمانوں میں رائج بہت سے معمولات ایسے ہیں جو معقول شرعی دلیل سے ثابت ہیں لیکن بعض لوگوں کا خواہ مخواہ اِصرار ہوتا ہے کہ نہیں ، اسے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے سے ثابت کرو، اسے بخاری سے ثابت کرو۔ یہ طرزِ عمل سراسر جاہلانہ ہے اور ایسے لوگوں کو سمجھانا بے فائدہ ہوتا ہے۔
فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَآءُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ الْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ(۱۸۴)
ترجمۂکنزالایمان:تو اے محبوب اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو تم سے اگلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں اور صحیفے اور چمکتی کتاب لے کر آئے تھے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:تو اے حبیب ! اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو تم سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے ۔
{فَاِنْ كَذَّبُوْكَ: تو اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں۔ } یہاں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی جارہی ہے کیونکہ جب کوئی حق پر ہو اور اس کی حقانیت سورج سے زیادہ روشن ہو لیکن پھر بھی ایک گروہ اسے جھٹلائے اور اس کی حقانیت تسلیم نہ کرے تو اسے قلبی رنج ضرور ہوتا ہے اور رسول اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں اس لئے اللہتعالیٰ قرآن میں بار بار سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتا ہے، چنانچہ یہاں بھی اِسی کا بیان ہوا اور فرمایا گیا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،اگر یہ کفار تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غمزدہ نہ ہوں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں ، صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی ان کی طرح صبر و اِستِقامت سے تبلیغِ دین فرماتے رہیں۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۱۸۵)
ترجمۂکنزالایمان: ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے ۔
{ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے ۔ } یعنی انسان ہو ں یا جن یا فرشتہ، غرض یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا ہر زندہ کو موت آنی ہے اور ہر چیز فانی ہے ۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہتعالیٰ نے ہر جاندار پر موت مقرر فرما دی ہے اوراس سے کسی کو چھٹکارا ملے گا اور نہ کوئی اس سے بھاگ کر کہیں جا سکے گا۔ موت روح کے جسم سے جدا ہونے کا نام ہے اور یہ جدائی انتہائی سخت تکلیف اور اذیت کے ساتھ ہو گی اور اس کی تکلیف دنیا میں بندے کو پہنچنے والی تمام تکلیفوں سے سخت تر ہو گی۔موت اور اس کی سختی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ (ق:۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور موت کی سختی حق کے ساتھ آگئی، (اس وقت کہا جاتا ہے)یہ وہ (موت)ہے جس سے تو بھاگتا تھا ۔
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے فرمایا’’اے کعب! رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُُ، ہمیں موت کے بارے میں بتائیے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :اے امیر المؤمنین ! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ،موت ایک ایسی کانٹے دار ٹہنی کی طرح ہے جسے کسی آدمی کے پیٹ میں داخل کیا جائے اور اس کا ہر کانٹا ایک ایک رگ میں پیوست ہو جائے ،پھر کوئی طاقتور شخص اس ٹہنی کو اپنی پوری قوت سے کھینچے تو اس ٹہنی کی زد میں آنے والی ہر چیز کٹ جائے اور جو زد میں نہ آئے وہ بچ جائے۔ (احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۱۰)
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مومن پر دنیا اور آخرت کا کوئی خوف موت سے بڑھ کر نہیں ، یہ خوف آروں سے چیرنے ،قینچیوں سے کاٹنے اور ہانڈیوں میں ابالنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔اگر کوئی میت قبر سے نکل کر دنیا والوں کو موت کی سختیاں بتا دے تو وہ نہ زندگی سے نفع اٹھا سکیں گے اور نہ نیند سے لذت حاصل کر سکیں گے۔(احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۰۹)
مروی ہے کہ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصال ہو ا تو اللہتعالیٰ نے ان سے فرمایا اے میرے خلیل! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، تم نے موت کو کیسا پایا؟ آپ نے عرض کی : جس طرح گرم سیخ کو تر روئی میں رکھا جائے پھر اسے کھینچ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’ہم نے آپ پر موت کو آسان کیا ہے۔(احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثالث فی سکرات الموت وشدتہ۔۔۔ الخ، ۵/۲۰۹)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :بے شک رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہو اتھا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے دونوں ہاتھ پانی میں داخل کرتے، پھر انہیں چہرۂ انور پر ملتے اور کہتے : بے شک موت میں تکلیف ہوتی ہے ۔پھر دستِ مبارک اٹھاکر فرماتے ’’رفیق اعلیٰ میں۔ یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی روح قبض کر لی گئی اور دستِ مبارک جھک گیا ۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴/۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۰)
حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا نے فرمایا ’’میں نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصال کے وقت جو سختی دیکھی اس کے بعد مجھے کسی کی آسان موت پر رشک نہیں ہے۔(ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی التشدید عند الموت، ۲/۲۹۵، الحدیث: ۹۸۱)
جب حضرت عمرو بن عاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے نے ان سے کہا : اے بابا جان! آپ کہا کرتے تھے کہ کوئی عقلمند انسان مجھے نَزع کے عالَم میں مل جائے تو میں اس سے موت کے حالات دریافت کروں ، تو آپ سے زیادہ عقل مند کون ہو گا ،برائے مہربانی آپ ہی مجھے موت کے حالات بتا دیجئے ۔ آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اے بیٹے ! خدا کی قسم،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے دونوں پہلو ایک تخت پر ہیں اور میں سوئی کے نکے کے برابر سوراخ سے سانس لے رہا ہوں اور ایک کانٹے دار شاخ میرے قدموں کی طرف سے سر کی جانب کھینچی جا رہی ہے ۔(التذکرہ للقرطبی، باب ما جاء انّ للموت سکرات۔۔۔ الخ، ص۲۴)
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم تو سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اورہمارے اوپر موت کی سختیوں کے علاوہ نجانے اور کتنی مصیبتیں آئیں گی اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ موت کو بکثرت یاد کیا جائے اور دنیا میں رہ کر موت اور اس کے بعد کی تیاری کی جائے ۔
حضرت شداد بن اوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۲۵-باب، ۴/۲۰۷)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ تھا کہ ایک انصاری آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام کیا اور عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، کونسا مومن افضل ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’جس کے اخلاق عمدہ ہوں۔ اس نے عرض کی : سب سے زیادہ عقلمندکون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہو اور اس کی اچھی طرح تیاری کرتا ہو تو وہی سب سے زیادہ عقلمند ہے ۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴/۴۹۶، الحدیث: ۴۲۵۹)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں وہاں موجود افراد میں سے دسواں تھا ۔ اسی دوران ایک انصاری شخص آئے اور عرض کی :یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،لوگوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور محتاط کون ہے؟نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’وہ لوگ جوموت آنے سے پہلے اسے زیادہ یاد کرتے اور اس کے لئے زیادہ تیاری کرتے ہیں وہی عقلمند ہیں ،وہ دنیا کی شرافت اور آخرت کی بزرگی لے گئے۔(معجم الکبیر، ۱۲/۳۱۸، الحدیث: ۱۳۵۳۶)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمیرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ موت کی یاد اور اس کے بعد کی تیاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب اس دار فنا سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہی ہے تو عقلمند انسان کو چاہئے کہ وہاں کی تیاری کرے جہاں ہمیشہ رہنا ہے ۔
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے فرمایا، دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر بلکہ راہ چلتا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کن فی الدنیا کانّک غریب۔۔۔ الخ، ۴/۲۲۳، الحدیث: ۶۴۱۶)
تو مسافر جس طرح ایک اجنبی شخص ہوتا ہے اور راہ گیر راستے کے کھیل تماشوں میں نہیں لگتا کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکامی ہو گی اسی طرح مسلمان کو چاہیے کہ دنیا اور اس کی رنگینیوں میں نہ پھنسے اور نہ ایسے تعلقات پیدا کرے کہ مقصود اصلی حاصل کرنے میں آڑے آئیں اور موت کو کثرت سے یاد کرے کہ دنیا اور اس کی لذتوں میں مشغول ہونے سے روکے گی، حدیث میں ہے : لذتوں کو توڑ دینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی ذکر الموت، ۴/ ۱۳۸، الحدیث: ۲۳۱۴)
مگر کسی مصیبت پر موت کی آرزو نہ کرے کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے اور ناچار کرنی ہی پڑے تو یوں کہے، یااللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میرے لئے بہتر ہو، اور موت دے جب میرے لئے بہتر ہو۔(بخاری، کتاب المرضی، باب تمنّی المریض الموت، ۴/۱۳، الحدیث: ۵۶۷۱)
یونہی مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھے اوراس کی رحمت کا امیدوار رہے ۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک نوجو ان کے پاس اس حال میں تشریف لے گئے کہ وہ مرنے کے قریب تھا۔ ارشادفرمایا: تو اپنے آپ کو کس حال میں پاتا ہے؟ عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہتعالیٰ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈر ۔ ارشاد فرمایا : ’’یہ دونوں خوف اور امیداس موقع پر جس بندے کے دل میں ہوں گے اللہ تعالیٰ اسے وہ دے گا جس کی امید رکھتا ہو اور اس سے امن میں رکھے گا جس سے خوف کرتا ہے۔ (ترمذی، کتاب الجنائز، ۱۱-باب، ۲/۲۹۶، الحدیث: ۹۸۵)
یاد رکھئے! رُوح قبض ہونے کا وقت بہت ہی سخت وقت ہے کہ اسی پر سارے اعمال کا دارومدار ہے بلکہ ایمان کے اُخْرَوی نتائج اسی پر مُرَتَّب ہوں گے کہ اعتبار خاتمہ ہی کا ہے اور شیطان لعین ایمان لینے کی فکر میں ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے مکر و فریب سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے وہ ہی مراد کو پہنچا۔ (بہار شریعت، موت آنے کا بیان، حصہ چہارم،۱/۸۰۶-۸۰۷، ملخصاً)
اللہتعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم سب کا خاتمہ اچھا فرمائے اور ہم پر موت کی سختیاں آسان فرمائے ۔[8]
{وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ:اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے۔} ارشاد فرمایا کہ تمہارے اچھے برے اعمال کی جزا قیامت کے دن تمہیں پوری پوری دی جائے گی، تو اس دن جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور اس سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیاگیا اسی نے حقیقی کامیابی حاصل کی۔ (روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۵، ۲/۱۳۸)
یاد رہے کہ برے اعمال کی وجہ سے دنیا میں جو عذاب آتا ہے یا مرنے کے بعد قبر میں جو عذاب ہوتا ہے، یونہی نیک اعما ل پر قبر میں جو راحتیں نصیب ہوتی ہیں یہ اعمال کی پوری جزا نہیں بلکہ آخرت میں ملنے والی جزا کا ایک نمونہ ہے جبکہ اعمال کی پوری جزا قیامت کے دن ہی ملے گی۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندے کو جہنم سے نجات دے کر جنت میں داخل کر دیا جائے جبکہ دنیا میں کامیابی فی نفسہ کامیابی تو ہے لیکن اگر یہ کامیابی آخرت میں نقصان پہنچانے والی ہے تو حقیقت میں یہ خسارہ ہے۔ اور خصوصا وہ لوگ کہ دنیا کی کامیابی کے لئے سب کچھ کریں اور آخرت کی کامیابی کیلئے کچھ نہ کریں وہ تو یقینا نقصان ہی میں ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اعمال کی طرف زیادہ توجہ دے اور ان کے لئے زیادہ کوشش کرے جن سے اسے حقیقی کامیابی نصیب ہو سکتی ہے اور ان اعمال سے بچے جو اس کی حقیقی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
{وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ:اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔} یعنی دنیا کی لذتیں ، اس کی خواہشات اور رعنائیاں صرف دھوکے کا سامان ہے کیونکہ ان کا ظاہر تو بہت خوبصورت نظر آتا ہے لیکن ان کا باطن فساد سے بھرپور ہے۔
دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے :
اس آیت سے معلوم ہو اکہ دنیا کی عیش و عشرت اور زیب و زینت اگرچہ کتنی ہی زیادہ ہو، یہ دھوکے کے سامان کے علاوہ کچھ نہیں ،لہٰذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں سے ہر گز دھوکہ نہ کھائے ، ذلیل دنیا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی قیمتی ترین آخرت کو ہر گز تباہ نہ کرے ،اسی کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَ اخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ٘-وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَیْــٴًـاؕ-اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ-وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ(۳۳) (لقمان:۳۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آئے گا اور نہ کوئی بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دینے والاہوگا۔ بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے تو دنیا کی زندگی ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے اور ہرگز بڑا دھوکہ دینے والا تمہیں اللہ کے علم پر دھوکے میں نہ ڈالے۔
اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ،سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنی دنیا سے محبت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیتا ہے اور شخص اپنی آخرت سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے، لہذا تم فنا ہوجانے والی (دنیا) پر باقی رہنے والی (آخرت )کو ترجیح دو۔ (مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث ابی موسی الاشعری، ۷/۱۶۵، الحدیثـ: ۱۹۷۱۷)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک بزرگ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ اے لوگو! اس فرصت کے وقت میں نیک عمل کرلو اور اللہتعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ امیدوں پر پھولے مت سماؤ اوراپنی موت کو نہ بھولو۔ دنیا کی طرف مائل نہ ہوجاؤ، بے شک یہ دھوکے باز ہے اور دھوکے کے ساتھ بن ٹھن کر تمہارے سامنے آتی ہے اور اپنی خواہشات کے ذریعے تمہیں فتنے میں ڈال دیتی ہے، دنیا اپنی پیروی کرنے والوں کے لیے اس طرح سجتی سنورتی ہے جیسے دلہن سجتی ہے۔ دنیا نے اپنے کتنے ہی عاشقوں کو ہلاک کردیا اور جنہوں نے اس سے اطمینان حاصل کرنا چاہا انہیں ذلیل ورسوا کر دیا، لہٰذا اسے حقیقت کی نگاہ سے دیکھو کیونکہ یہ مصیبتوں سے بھرپور مقام ہے، اس کے خالق نے اس کی مذمت کی، اس کا نیا پرانا ہوجاتا ہے اور اسے چاہنے والا بھی مرجاتا ہے۔ اللہتعالیٰ تم پر رحم فرمائے، غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور اس سے پہلے نیند سے آنکھیں کھول لو کہ یوں اعلان کیا جائے: فلاں شخص بیمار ہے اور اس کی بیماری نے شدت اختیار کرلی ہے،کیاکوئی دوا ہے؟ یا کسی ڈاکٹر تک جانے کی کوئی صورت ہے؟ اب تمہارے لیے حکیموں (اور ڈاکٹروں ) کو بلایاجاتا ہے، لیکن شفا کی امید ختم ہو جاتی ہے، پھر کہاجاتا ہے: فلاں نے وصیت کی اور اپنے مال کا حساب کیا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: اب اس کی زبان بھاری ہوگئی، اب وہ اپنے بھائیوں سے بات نہیں کرتا اور پڑوسیوں کو نہیں پہچانتا، اب تمہاری پیشانی پر پسینہ آگیا، رونے کی آوازیں آنے لگیں اور تمہیں موت کا یقین ہوگیا، تمہاری پلکیں بند ہونے سے موت کا گمان یقین میں بدل گیا، زبان تھر تھرا رہی ہے، تیرے بہن بھائی رو رہے ہیں ، تمہیں کہا جاتا ہے کہ یہ تمہارا فلاں بیٹا ہے، یہ فلاں بھائی ہے ،لیکن تو کلام کرنے سے روک دیا گیا ہے، پس تو بول نہیں سکتا، تمہاری زبان پر مہر لگ گئی جس کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی، پھر تمہیں موت آگئی اور تیری روح اعضاء سے پوری طرح نکل گئی، پھر اسے آسمان کی طرف لے جایا گیا، اس وقت تمہارے بھائی جمع ہوتے ہیں ، پھر تمہارا کفن لاتے ہیں اور تمہیں غسل دے کر کفن پہناتے ہیں۔ اب تمہاری عیادت کرنے والے خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور تجھ سے حسد کرنے والے بھی آرام پاتے ہیں ، گھر والے تمہارے مال کی طرف متوجہ ہوجاتے اور تمہارے اعمال گروی ہوجاتے ہیں۔(احیاء العلوم، کتاب ذمّ الدنیا، بیان المواعظ فی ذم الدنیا وصفتہا، ۳/۲۶۰ملتقطاً)
اللہتعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں دنیا کی حقیقت کو پہچاننے ،اس کے دھوکے اور فریب کاری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ-وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًاؕ-وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ(۱۸۶)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک ضرور تمہاری آزمائش ہوگی تمہارے مال اور تمہاری جانوں میں اور بیشک ضرور تم اگلے کتاب والوں اور مشرکوں سے بہت کچھ برا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور بچتے رہو تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تمہارے مالوں اور تمہاری جانوں کے بارے میں تمہیں ضرور آزمایا جائے گا اورتم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے اور اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیز گاربنو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے ۔
{لَتُبْلَوُنَّ: تم ضرور آزمائے جاؤ گے ۔} مسلمانوں سے خطاب فرمایا گیا کہ تم پر فرائض مقرر ہوں گے، تمہیں حقوق کی ادائیگی کرنا پڑے گی، زندگی میں کئی معاملات میں نقصان اٹھانا پڑے گا، جان ومال کے کئی معاملات میں تکلیفیں برداشت کرنا ہوں گی ، بیماریاں ، پریشانیاں اور بہت قسم کی مصیبتیں زندگی میں پیش آئیں گی، یہ سب تمہارے امتحان کیلئے ہوگا لہٰذا اس کیلئے تیار رہنا اوراللہ کریمعَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کے ثواب پر نظر رکھ کر ان تمام امتحانات میں کامیاب ہوجانا کیونکہ ان امتحانات کے ذریعے ہی تو کھرے اور کھوٹے میں فرق کیا جاتا ہے، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ظاہر ہوتا ہے۔ دینی معاملات میں مشرکوں ، یہودیوں اور عیسائیوں سے تمہیں بہت تکالیف پہنچیں گی ۔ ان معاملات میں اور زندگی کے دیگر تمام معاملات میں اگر تم صبر کرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتے رہو اور پرہیزگاری اختیار کئے رہو تو یہ تمہارے لئے نہایت بہتر رہے گا کیونکہ یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ٘-
فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ وَ اشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًاؕ-فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ(۱۸۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور یاد کرو جب اللہنے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے بیان کردینا اور نہ چھپانا تو انہوں نے اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے ذلیل دام حاصل کیے تو کتنی بری خریداری ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب اللہ نے ان لوگوں سے عہد لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ تم ضرور اس کتاب کو لوگوں سے بیان کرنا اوراسے چھپانا نہیں تو انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلی تو یہ کتنی بری خریداری ہے ۔
{وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ : اور جب اللہ نے عہد لیا۔ }اللہ تعالیٰ نے توریت و انجیل کے علماء پر واجب کیا تھا کہ ان دونوںکتابوں میں سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر دلالت کرنے والے جو دلائل ہیں وہ لوگوں کو خوب اچھی طرح واضح کرکے سمجھادیں اور ہر گز نہ چھپائیں لیکن انہوں نے رشوتیں لے کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُن اوصاف کو چھپایا جو توریت و انجیل میں مذکور تھے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علمِ دین کو چھپانا گناہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جس شخص سے کچھ دریافت کیا گیا جس کو وہ جانتا ہے اور اس نے اس کو چھپایا روزِ قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم، ۴/۲۹۵، الحدیث: ۲۶۵۸)
علماء پر واجب ہے کہ اپنے علم سے فائدہ پہنچائیں اور حق ظاہر کریں اور کسی غرض فاسد کے لئے اس میں سے کچھ نہ چھپائیں۔
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۸۸)
ترجمۂکنزالایمان:ہر گز نہ سمجھنا انہیں جو خوش ہوتے ہیں اپنے کیے پر اور چاہتے ہیں کہ بے کیے ان کی تعریف ہو ایسوں کو ہر گز عذاب سے دور نہ جاننا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:ہر گزگمان نہ کرو ان لوگوں کو جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں ، انہیں ہرگز عذاب سے دور نہ سمجھو اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
{لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا: ہر گزگمان نہ کرو ان لوگوں کو جو اپنے اعمال پر خوش ہوتے ہیں۔ } یہ آیت ان یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو لوگوں کو دھوکا دینے اور گمراہ کرنے پر خوش ہوتے اور نادان اورجاہل ہونے کے باوجود یہ پسند کرتے کہ انہیں عالم کہا جائے ۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۱/۳۳۴)
اس آیت میں خود پسندی کرنے والوں کے لئے وعید ہے اوران کے لئے جوحب ِجاہ یعنی عزت ، تعریف ، شہرت کے حصول کی تمنا میں مبتلا ہیں۔ جب کسی شخص کے دل میں یہ آرزو پیدا ہونے لگے کہ لوگ اس کے شیدائی ہوں ، ہر زبان اس کی تعریف میں تر ہو ، سب میرے کمال کے مُعترف ہوں ، مجھے ہر جگہ عزت سے نوازا جائے ، عالم نہیں ہوں پھر بھی علامہ صاحب کہا جائے ، ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں کی پھر بھی مِعمارِ قوم کہا جائے، نجات دہندہ سمجھا جائے، محسنِ قوم قرار دیا جائے ، میرا تعارف بہترین القابات کے ساتھ ہو،ملاقات پرتپاک انداز میں کی جائے ، سلام جھک کر کیا جائے تو اسے چاہئے کہ اپنے دل پرغور کر لے کہ کہیں وہ حبِّ جاہ کا شکار تو نہیں ہو چکا،اگر ایسا ہو تو اس آیت سے سبق حاصل کرتے ہوئے فوراً سے پیشتر اُس سے چھٹکارے کی کوشش کرے۔ یاد رکھئے خود پسندی اور حب جاہ کے مرض میں مبتلا شخص اخروی انعامات سے محرومی کا شکار ہوتا ہے اور دل میں مُنافقت کی زیادتی ، قلبی نورانیت سے محرومی ، دین کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے نیز برائی سے منع کرنے اور نیکی کی دعوت دینے سے محرومی، ذلت و رسوائی کا سامنا، اخروی لذت سے محرومی، قلبی سکون کی بربادی اور دولتِ اخلاص سے محرومی جیسے نقصانات کا سامنا کر سکتا ہے، لہٰذا اسے چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی، تعریف پسندی کی مذمت، منصب و مرتبہ کے تعلق سے اخروی معاملات اور بزرگان دین کے حالات و اقوال کا بکثرت مطالعہ کرے تا کہ ان مذموم امراض سے نجات کی کوئی صورت ہو ۔ ترغیب کے لئے ہم یہاں خودپسندی اور حب جاہ سے متعلق چند احادیث اور بزرگان دین کے احوال و اقوال ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ
حضرت جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شہرت طلب کرے گا( قیامت کے دن) اس کے عیبوں کی تشہیر ہو گی اورجو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرے گا اللہتعالیٰ اسے اس کا بدلہ دے گا۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب الریاء والسمعۃ، ۴/۲۴۷، الحدیث: ۶۴۹۹)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دو بھوکے بھیڑئیے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دِہ ہے ۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۳-باب، ۴/۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر خود پسندی انسانی شکل میں ہوتی تو وہ سب سے بد صورت انسان ہوتی ۔(الفردوس بماثور الخطاب، باب اللام، ۲/۱۹۳، الحدیث: ۵۰۶۴)
حضرت حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’خود پسند ی 70سال کے عمل کو برباد کر دیتی ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف العین، ۲/۲۰۵، الجزء الثالث، الحدیث: ۷۶۶۶)
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُخود پسندی سے بہت زیادہ ڈرتے تھے اور جب لوگ آپ کی تعریف کرتے تو آپ دعا مانگتے: یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اس سے بہتر بنا دے جو کچھ یہ کہتے ہیں اور جو کچھ یہ نہیں جانتے میرا وہ عمل بخش دے ۔
اسی طرح جب لوگ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تعریف کرتے تو وہ دعا مانگتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں اس چیز کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو کچھ یہ کہتے ہیں اور تجھ سے اس عمل کی بخشش چاہتا ہوں جس کا انہیں علم نہیں۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۴۱-۲۴۲)
حضرت عمر بن عبد العزیزرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب منبر پر خطبہ دیتے تو خود پسندی سے ڈرتے ہوئے گفتگو چھوڑ کر اس عمل کی طرف منتقل ہو جاتے جس میں خود پسندی نہ ہو اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہ خط لکھتے وقت خود پسندی کے خوف سے پھاڑ دیتے اور کہتے :یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں نفس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۳۹-۲۴۰)
حضرت بشر حافی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو شہرت کا طالب ہو اور اس کا دین برباد نہ ہوا ہو اور ا س کے حصے میں رسوائی نہ آئی ہو۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم ، اصل ہفتم، اندر علاج دوستی جاہ وحشمت، ۲/۶۵۹)
حضرت محمد بن واسع رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے زمانے کے عبادت گزاروں سے فرماتے تھے: تم پر افسوس ہے ، تمہارے اعمال کم ہونے کے باوجود ان میں خود پسندی داخل ہو گئی اور تم سے پہلے لوگ اپنے اعمال کی کثرت کے باوجود ان پر تکبر نہیں کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! پہلے لوگوں کی عبادت کو دیکھا جائے تو (اس کے مقابلے میں )تم محض کھیلنے والے ہو ۔(تنبیہ المغترین، الباب الرابع فی جملۃ اخری من الاخلاق، ومن اخلاقہم عدم العجب ۔۔۔ الخ، ص۲۴۲)
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۱۸۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
{وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ }اس آیت میں ان گستاخوں کا رد کیا گیا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فقیر ہے۔ ان کے رد میں فرمایا گیا کہ جو زمین و آسمان کے دائرے میں آنے والی ہر چیز کا مالک ہے ا س کی طرف فقر کی نسبت کس طرح کی جا سکتی ہے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۱/۳۳۵)
یہاں ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت و شان سے متعلق ایک حدیثِ قدسی ذکر کرتے ہیں جس سے ان گستاخوں کی جہالت اور اللہ تعالیٰ کی شان مزید ظاہر ہوتی ہے، چنانچہ
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔اے میرے بندو! جسے میں ہدایت دوں اس کے علاوہ تم سب گمراہ ہو،اس لئے تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں کھلاؤں اس کے سوا تم سب بھوکے ہو،تو تم مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں لباس پہناؤں اس کے علاوہ تم سب بے لباس ہو لہٰذا تم مجھ سے لبا س مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب رات دن گناہ کرتے ہو اور میں گناہ بخشتا ہوں ،تم مجھ سے بخشش طلب کرو میں تمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نفع پہنچا سکو۔ اے میرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری ،تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے ) ا س میں کمی ہوتی ہے۔اے میرے بندو!یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے جمع کر رہا ہوں ، پھر میں تمہیں ان کی پوری پوری جزا ء دوں گا تو جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جس کو خیر کے سوا کوئی چیز (جیسے آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم الظلم، ص۱۳۹۳، الحدیث: ۵۵(۲۵۷۷))
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ(۱۹۰)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لئے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم تبدیلی میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
{لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ: عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، میں حضرت میمونہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کے گھر رات میں ٹھہرا اورا س دن سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اُن کے ہاں آرام فرما تھے، جب رات کا تہائی حصہ گزرا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیدار ہو ئے پھر آسمان کی طرف نظر ا ٹھا کران آیاتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔(بخاری، کتاب الادب، باب رفع البصر الی السمائ، ۴/۱۵۹، الحدیث: ۶۲۱۵)
ایک روایت میں ہے کہ تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا:’’اس پر افسوس ہے جویہ آیت پڑھے اوراس میں غور نہ کرے۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق، باب التوبۃ، ۲/۸، الحدیث: ۶۱۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ جغرافیہ اور سائنس حاصل کرنا بھی ثواب ہے جبکہ اچھی نیت ہو جیسے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت یااللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم حاصل کرنے کیلئے، لیکن یہ شرط ہے کہ اسلامی عقائد کے خلاف نہ ہو۔ اِس آیت مبارکہ میں آسمان و زمین کی تَخلیق میں قدرت ِ الٰہی کی نشانیوں کا فرمایا گیا ہے لہٰذا اسی کے پیش نظراِس تفکر کی ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں : امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’قدرتِ الٰہی کی چھٹی نشانی آسمانوں ، ستاروں کی مملکت اور ان کے عجائب میں ہے ، کیونکہ جو کچھ زمین کے اندر اور روئے زمین پر ہے وہ سب کچھ ا س کے مقابلے میں کم ہے۔آسمان اور ستاروں کے عجائب میں تفکر کرنے کے لئے قرآنِ پاک میں تنبیہ فرمائی گئی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۚۖ-وَّ هُمْ عَنْ اٰیٰتِهَا مُعْرِضُوْنَ(۳۲) (انبیاء:۳۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ لوگ اس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۵۷)(مومن۵۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمیوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔
تو تمہیں حکم دیاگیاہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں غوروفکر کرو ۔آسمان کی نیلاہٹ اور ستاروں کی ٹمٹماہٹ کو دیکھ لینا غور نہیں کہ یہ تو جانور بھی کر لیتے ہیں بلکہ مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ تو اپنے عجائب اور اپنی ذات کو جو تیرے پاس ہیں اور وہ زمین و آسمان کے عجائب کی بہ نسبت ایک ذرہ بھی نہیں جس کو تو پہچان سکتا تو پھر زمین و آسمان کے عجائب کو کیسے پہچان سکے گا۔ تجھے بَتَدریج معرفت کے درجات پر ترقی کرنی چاہئے۔تجھے پہلے اپنی ذات کو پہچاننا چاہئے ،پھر زمین اور ا س کی تمام اَشیاء کا عرفان حاصل کرنا چاہئے،پھر ہوا ،بادل وغیرہ کے عجائب کی پہچان کرنی چاہئے،پھر آسمان اور ستاروں کی معرفت حاصل کرنی چاہئے ، پھر کرسی اور عرش کو پہچاننا چاہئے،پھر عالَمِ اَجسام سے نکل کر عالمِ ارواح کی سیر کرنی چاہئے،پھر فرشتوں ، جنوں اور شیطانوں کو جاننا چاہئے ،پھر فرشتوں کے درجات اور مقامات کاعرفان حاصل کرنا چاہئے،آسمان اور ستاروں کی گردش، ان کی حرکت اور ان کے مَشارق و مَغارب کو دیکھنا چاہئے کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ستاروں کی کثرت پر غور و فکرکرنا چاہئے۔ انہیں کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا،ان میں ہر ستارے کا رنگ مختلف ہے،کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی شکل مختلف ہے مثلاً کچھ بیل کی شکل کے ہیں اور کچھ بچھو کی شکل کے۔پھر انسان ان کی مختلف حرکات پر غور کرے ، کئی ایک ماہ میں سارے آسمان کو طے کر جاتے ہیں۔کچھ سال بھر لگاتے ہیں ،کئی انہیں طے کرنے میں بارہ سال لگاتے ہیں ،کئی ستارے تیس سالوں میں سارے آسمانوں کی گردش پوری کرتے ہیں ،اکثر ستارے 30,000 سال میں سارے آسمانوں کی مساحت طے کرتے ہیں۔ جب تو نے زمین کے کچھ عجائبات کو جان لیا تو یہ بھی سمجھ لے کہ عجائبات کا فرق ہر ایک چیز کی شکل کے اختلاف کے مطابق ہوتا ہے ، کیونکہ زمین اگرچہ اتنی وسیع ہے کہ کوئی ا س کی حد کو نہیں چھو سکتا مگر سورج زمین سے بڑا ہے۔اس سے معلوم ہو جانا چاہئے کہ آفتاب کتنا دور ہے جو اتنا چھوٹا نظر آتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کرتا ہے کہ آدھی ساعت میں آفتاب کا تمام گھیرا زمین سے نکلتا ہے ۔۔۔۔۔ یونہی آسمان پر ایک ستارہ ہے جو زمین سے سو گُنا بڑا ہے۔وہ بلندی کی وجہ سے چھوٹا نظر آتا ہے،ایک ستارہ اگر اتنا بڑا ہے تو سارے آسمان کا اندازہ لگائیں کہ وہ کتنا بڑا ہو گا۔ان سب کی عظمت و بزرگی کے باو جو د تیری نگاہوں میں چھوٹاکر دیا گیا تاکہ تو اس سے مالک ِحقیقی کی عظمت وفضیلت سے آگاہی حاصل کر سکے۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، ۲/۹۱۷-۹۱۸)
اَلَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱)
ترجمۂکنزالایمان: جواللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلؤوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے ، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔
{اَلَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ: وہ جواللہ کو یاد کرتے ہیں۔} یہاں عقلمند لوگوں کا بیان ہے کہ وہ ہیں کون؟ اور ان کے چند اہم کام بیان فرمائے گئے ہیں۔
(1)…عقلمند لوگ کھڑے، بیٹھے اور بستروں پر لیٹے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ مولیٰ کریم کی یاد ہر وقت ان کے دلوں پر چھائی رہتی ہے۔
(2)…عقلمند لوگ کائنات میں غوروفکر کرتے ہیں ، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور کائنات کے دیگر عجائبات میں غور کرتے ہیں اور ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا ہے۔
(3)…کائنات میں غور وفکر کے بعد اللہتعالیٰ کی عظمت ان پر آشکار ہوتی ہے اور ان کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّکی عظمت کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کی زبانیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کے ترانے پڑھتی ہیں۔
(4)…اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام چیزیں کاملُ الایمان لوگوں کے اوصاف ہیں ، ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہے ۔ ہمارے اَسلاف اللہ عَزَّوَجَلَّکی یاد میں بہت رَغبت رکھتے تھے، چنانچہ حضرت سری سقطی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں : میں نے حضرت جرجانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ کے پا س ستو دیکھے جس سے وہ بھوک مٹا لیتے تھے۔ میں نے کہا: آپ کھانا اور دوسری اشیا ء کیوں نہیں کھاتے ؟ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: میں نے چبانے اور یہ ستو کھا کر گزارہ کرنے میں نوے تسبیحات کا فرق پایا ہے، لہٰذا چالیس سال سے میں نے روٹی نہیں چبائی تا کہ ان تسبیحات کا وقت ضائع نہ ہو۔
حضرت جنید بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا معمول یہ تھا کہ آپ با زار جاتے اور اپنی دکان کھول کر اس کے آگےپردہ ڈال دیتے اور چار سو رکعت نفل ادا کر کے دکان بند کر کے گھر واپس آ جاتے ۔(مکاشفۃ القلوب، الباب الحادی عشر فی طاعۃ اللہ ومحبۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۳۸)
جس طرح کسی کی عظمت ، قدرت ، حکمت اور علم کی معرفت حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس کی بنائی ہوئی چیز ہوتی ہے کہ اس میں غورو فکر کرنے سے یہ سب چیزیں آشکار ہو جاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظمت، قدرت، حکمت، وحدانیت اور ا س کے علم کی پہچان حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ اس کی پیدا کی ہوئی یہ کائنات ہے،اس میں موجود تما م چیزیں اپنے خالق کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی اور ا س کے جلال و کبریائی کی مُظہِر ہیں اور ان میں تفکر اور تَدَبُّر کرنے سے خالقِ کائنات کی معرفت حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کائنات میں موجود مختلف چیزوں جیسے انسانوں کی تخلیق،زمین و آسمان کی بناوٹ ، زمین کی پیداوار،ہوا اور بارش، سمندر میں کشتیوں کی روانی، زبانوں اور رنگوں کا اختلاف وغیرہ بے شمار اَشیاء میں غور وفکر کرنے کی دعوت اورترغیب دی گئی تاکہ انسان ا ن میں غورو فکر کے ذریعے اپنے حقیقی رب عَزَّوَجَلَّ کو پہچانے ، صرف اسی کی عبادت بجا لائے اور ا س کے تمام احکام پر عمل کرے۔
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’آسمان اپنے ستاروں ،سورج، چاند، ان کی حرکت اور طلوع و غروب میں ان کی گردش کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔زمین کا مشاہدہ ا س کے پہاڑوں ،نہروں ،دریاؤں ،حیوانات،نَباتات اور ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے اورجو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں جیسے بادل،بارش،برف،گرج چمک، ٹوٹنے والے ستارے اور تیز ہوائیں۔یہ وہ اَجناس ہیں جو آسمانوں ،زمینوں اور ان کے درمیان دیکھی جاتی ہیں ،پھر ان میں سے ہر جنس کی کئی اَنواع ہیں ، ہر نوع کی کئی اقسام ہیں ،ہر قسم کی کئی شاخیں ہیں اور صفات ،ہَیئت اور ظاہری و باطنی معانی کے اختلاف کی وجہ سے اس کی تقسیم کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔زمین و آسمان کے جمادات،نباتات،حیوانات،فلک اور ستاروں میں سے ایک ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے حرکت دئیے بغیر حرکت نہیں کر سکتا اور ان کی حرکت میں ایک حکمت ہو یا دو ،دس ہوں یا ہزار ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں اور ا س کے جلال و کبریائی پر دلالت کرتی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی نشانیاں اور علامات ہیں۔(احیاء العلوم، کتاب التفکر، بیان کیفیۃ التفکر فی خلق اللہ تعالی، ۵/۱۷۵)
فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غورو فکر کرنے اور ا س کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ کےکمال وجمال اور جلال کی معرفت حاصل کرنے اور اس کے احکام کی بجا آوری کرنے سے انتہائی غفلت کاشکار ہیں اور ان کے علم کی حد صرف یہ رہ گئی ہے جب بھوک لگی تو کھانا کھا لیا، جب پیاس لگی تو پانی پی لیا، جب کام کاج سے تھک گئے تو سو کر آرام کر لیا، جب شہوت نے بے تاب کیا تو حلال یا حرام ذریعے سے اس کی بے تابی کو دور کر لیا اور جب کسی پر غصہ آیا تو ا س سے جھگڑا کر کے غصے کو ٹھنڈا کر لیا الغرض ہر کوئی اپنے تن کی آسانی میں مست نظر آرہا ہے۔
امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’اندھا وہ ہی ہے جو اللہتعالیٰ کی تمام صَنعتوں کو دیکھے لیکن انہیں پیدا کرنے والے خالق کی عظمت سے مدہوش نہ ہو اوراس کے جلال و جمال پر عاشق نہ ہو۔ ایسا بے عقل انسان حیوانوں کی طرح ہے جو فطرت کے عجائبات اور اپنے جسم میں غور و فکر نہ کرے،اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اسے ضائع کر دے اور ا س سے زیادہ علم نہ رکھے کہ جب بھوک لگے تو کھانا کھا لیا،کسی پر غصہ آئے تو جھگڑا کر لیا ۔(کیمیائے سعادت، رکن چہارم، اصل ہفتم، پیدا کردن تفکر در عجایب خلق خدای تعالی، ۲/۹۱۰)
اللہتعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔آمین۔
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۱۹۲)رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ﳓ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ كَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ(۱۹۳) رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَ لَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(۱۹۴)
ترجمۂکنزالایمان:اے رب ہمارے بیشک جسے تو دوزخ میں لے جائے اسے ضرور تو نے رسوائی دی اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اے رب ہمارے ہم نے ایک منادی کو سنا کہ ایمان کے لئے ندا فرماتا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے اے رب ہمارے تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیاں محو فرمادے اور ہماری موت اچھوں کے ساتھ کر ۔ اے رب ہمارے اور ہمیں دے وہ جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے اپنے رسولوں کی معرفت اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ کر بیشک تو وعدہ خلاف نہیں کرتا ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ہمارے رب ! بیشک جسے تو دوزخ میں داخل کرے گا اسے تو نے ضرور رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے ۔ اے ہمارے رب ! بیشک ہم نے ایک ندا دینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب ! تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما ۔ اے ہمارے رب! اورہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ کرنا۔بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔
{رَبَّنَا: اے ہمارے رب۔} رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاسے لے کر اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ تک بہت پیاری دعا ہے۔ اسے اپنے معمولات میں شامل کرلینا چاہیے۔
{رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا: اے ہمارے رب!بیشک ہم نے ایک ندادینے والے کو سنا۔ }اس منادی سے مراد سید الانبیاء، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جن کی شان میں ’’ وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ‘‘ وارد ہوا ہے یا اس سے قرآنِ کریم مراد ہے۔
{وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ:اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما۔} یہاں اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ دعا کرو کہ موت بھی نیک لوگوں کے ساتھ ہو یعنی ان کی فرمانبرداری کرتے ہوئے موت آئے اور ان کی مَعِیَّت نصیب ہوجائے۔
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ترغیب:
یاد رہے کہ نیک لوگوں کی صحبت بہت عظیم چیز ہے۔ ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّنے فرمایا:
كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (توبہ:۱۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان:سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو صحبت نے ہی عظیم ترین مرتبے پر فائز کیا۔زندگی میں نیک لوگوں کا ساتھ تو نعمت ہے ہی، مرنے کے بعد بھی نیکوں کا ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ پسندیدہ بندے کو موت کے وقت فرمایا جاتا ہے :
یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷) ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹) وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(فجر۲۷تا۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو۔ پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہوجااور میری جنت میں داخل ہوجا۔
دیکھیں ، فوت ہونے والی روح سے کہا جاتا ہے کہ میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئےکہ وہ اپنی زندگی میں نیک لوگوں کے ساتھ رہے اور انہی کے گروہ میں موت ملنے کی دعا کرے تاکہ ان کے صدقے جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں سے فیضیاب ہواور موت کے بعد نیک لوگوں کے قرب میں دفن ہونے کی وصیت کرے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’اپنے مردوں کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کرو کیونکہ میت برے پڑوسی سے اسی طرح اَذِیَّت پاتی ہے جس طرح زندہ انسان برے پڑوسی سے اذیت پاتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الموت، قسم الاقوال، الفصل السادس، ۸/۲۵۴، الجزء الخامس عشر،الحدیث: ۴۲۳۶۴)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’میں نے حضرت میاں صاحب قبلہ قُدِّسَ سِرُّہٗ کو فرماتے سنا : ایک جگہ کوئی قبر کھل گئی اور مردہ نظر آنے لگا ۔ دیکھا کہ گلاب کی دو شاخیں اس کے بد ن سے لپٹی ہیں اور گلاب کے دو پھول اس کے نتھنو ں پر رکھے ہیں۔ اس کے عزیزوں نے اِس خیال سے کہ یہاں قبر پانی کے صدمہ سے کھل گئی، دو سری جگہ قبر کھود کر اس میں رکھیں ، اب جو دیکھیں تو دو اژدہے اس کے بدن سے لپٹے اپنے پھَنوں سے اس کا منہ بھَموڑ رہے ہیں ، حیران ہوئے ۔ کسی صاحبِ دل سے یہ واقعہ بیان کیا، انہوں نے فرمایا: وہاں بھی یہ اژدہا ہی تھے مگر ایک ولیُّ اللہ کے مزار کا قرب تھا اس کی برکت سے وہ عذاب رحمت ہوگیا تھا، وہ اژدھے درخت ِگُل کی شکل ہوگئے تھے اوران کے پھَن گلاب کے پھول۔ اِس کی خیریت چاہو تو وہیں لے جاکر دفن کرو۔ وہیں لے جاکر رکھا پھروہی درختِ گل تھے اور وہی گلاب کے پھول ۔ (ملفوظات اعلی حضرت، حصہ دوم، ص۲۷۰ )
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰىۚ-بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۚ-فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ(۱۹۵)
ترجمۂکنزالایمان:تو ان کی دعا سن لی ان کے رب نے کہ میں تم میں کام والے کی محنت اَکارت نہیں کرتا مرد ہو یا عورت تم آپس میں ایک ہوتو وہ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور لڑے اور مارے گئے میں ضرور ان کے سب گناہ اتار دوں گا اور ضرور انہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں اللہ کے پاس کا ثواب اوراللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی کہ میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا وہ مرد ہو یا عورت ۔تم آپس میں ایک ہی ہو،پس جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں ستایا گیا اور انہوں نے جہاد کیا اور قتل کردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں (یہ) اللہ کی بارگاہ سے اجر ہے اور اللہہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔
{فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ: تو ان کے رب نے ان کی دعاقبول فرمالی۔}ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں وہ عطا کر دیا جو انہوں نے مانگا اور ان سے فرمایا کہ اے ایمان والوں ! میں تم میں سے کسی مرد یا عورت کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا بلکہ ا س عمل کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱/۳۳۸)
یہاں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔اس کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا ہے کہ یہاں دعا میں پانچ بار ’’رَبَّنَا‘‘ آیا ہے اور اس کے بعد دعا کی قبولیت کی بات ہورہی ہے، تو اگر دعا میں پانچ مرتبہ ’’یَا رَبَّنَا‘‘ کہہ دیا جائے تو قبولیت ِدعا کی امید ہے۔
{بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ:تم آپس میں ایک ہی ہو۔}اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم سب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرات حواء رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا کی اولاد ہی ہو ۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اطاعت پر ثواب ملنے اور نافرمانی پر سزا ملنے میں تم سب ایک ہی ہو ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱/۳۳۸)
{فَالَّذِیْنَ هَاجَرُوْا:پس جنہوں نے ہجرت کی۔ }ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت کے لئے اپنے وطنوں سے ہجرت کی اور وہ مشرکوں کی طرف سے پہنچنے والی اَذِیَّتوں کے سبب اپنے ان گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے جہاں وہ پلے بڑھے تھے اور مجھ پر ایمان لانے اور میری وحدانیت کا اقرار کرنے کی وجہ سے انہیں مشرکوں کی طرف سے ستایا گیااورانہوں نے میری راہ میں کافروں کے ساتھ جہاد کیا اور شہیدکردیے گئے تو میں ضرور ان کے سب گناہ ان سے مٹادوں گا اور ضرور انہیں ایسے باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے لئے اجر ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔ (روح البیان، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۲/۱۵۱)
ہجرت اور جہاد سے متعلق احادیث:
اس آیت میں ہجرت اور جہاد کے ثواب کابیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں ہجرت اور جہاد سے متعلق 3 احادیث ذکر کرتے ہیں ،چنانچہ
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اورہر شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ، تو جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہو تو اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہی ہے اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسی چیز کی طرف ہے جس کی جانب اس نے ہجرت کی۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب ما جاء انّ الاعمال بالنیۃ والحِسبۃ۔۔۔ الخ، ۱/۳۴، الحدیث: ۵۴)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ جسے راہِ خدا میں کوئی زخم آئے تو وہ قیامت کے دن ا س طرح آئے گا کہ ا س کے زخم سے سرخ رنگ کا خون بہہ رہا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔ (بخاری، کتاب الذبائح والصید۔۔۔ الخ، باب المسک، ۳/۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)
حضرت شداد بن ہادرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک اعرابی حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لایا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سامنے سر تسلیم خَم کیا، پھر عرض کی : میں ہجرت کر کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ رہنا چاہتاہوں۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (اسے ہجرت کی اجازت عطا فرمائی اور )اپنے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس (کے رہن سہن وغیرہ کا انتظام کرنے ) کے بارے میں کچھ حکم فرمایا۔ جب ایک غزوہ میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چند قیدی بطور غنیمت حاصل ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان قیدیوں کوتقسیم فرما دیا اور اس اعرابی کا حصہ نکال کر صحابۂ کرام رَضِی َاللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے سپرد کر دیا۔ وہ اعرابی صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُان کے پیچھے پہرہ دیاکرتے تھے(تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کر دے) ۔ جب وہ (پہرے کی جگہ سے) آیا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ا س کا حصہ اسے دیا۔اس نے عرض کی:یہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے فرمایا’’ یہ تمہارا حصہ ہے ،جو نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے عطافرمایا ہے۔وہ اعرابی اپنے حصے کو لے کر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگا ہ میں حاضرہوئے اور عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،یہ کیا ہے ؟آپ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا’’میں نے یہ تمہارا حصہ نکالا ہے ۔اس نے عرض کی ’’یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،میں نے مال کے حصول کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی نہیں کی بلکہ میں نے تو اس لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کی ہے تاکہ مجھے یہاں گلے پر تیر لگے اور میں شہید ہو کر جنت میں داخل ہوجاؤں۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اگر تم (اپنی بات میں مخلص اور) سچے ہوتو اللہتعالیٰ تمہاری یہ خواہش ضرورپوری فرمائے گا ۔اس کے بعد لوگ کچھ دیر کے لئے ٹھہرے رہے، پھر دشمن کے ساتھ جہاد کے لئے اٹھے تو(جہاد کے دوران) کچھ آدمی اُس اعرابی کو اِس حال میں سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے کہا اسے وہیں تیر لگا ہو اتھا جہاں تیر لگنے کااس نے اشارہ کیا تھا۔حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ کیا یہ وہی شخص ہے ؟عرض کیا گیا: جی ہاں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’ یہ اپنی بات میں مخلص تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری فرمادی۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے(برکت کے لئے ) اسے اپنے جبہ مبارکہ میں کفن دیا ،پھر اسے اپنے سامنے رکھا اور اس کا جنازہ پڑھایا۔اس کی نماز جنازہ میں جو دعا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمائی وہ یہ تھی:
’’اَللّٰھُمَّ ھَذَاعَبْدُکَ خَرَجَ مُھَاجِرًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَھِیْدًااَنَاشَھِیْدٌ عَلٰی ذٰلِک‘‘
اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، یہ تیرا وہی بندہ ہے جس نے تیری راہ میں ہجرت کی اور شہید ہوگیا اور میں اس چیز کا گواہ ہوں۔(نسائی، کتاب الجنائز، الصلاۃ علی الشہداء، ص۳۳۰، الحدیث: ۱۹۵۰)
[1] … صدقات کے فضائل واحکام اور ان سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’ضیائے صدقات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا فائدہ مند ہے۔
[2] … آسان انداز میں حج کے مسائل سیکھنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف رفیق الحرمین(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
[3] … تبلیغ دین کی ضرورت و اہمیت اور اس متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکاتُھُمُ الْعَالِیَہ کی تصنیف ’’نیکی کی دعوت‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ) کا مطالعہ فرمائیں۔
[4] ……نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کا جذبہ و ترغیب پانے اور اس کے فضائل حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ’’ دعوتِ اسلامی‘‘ کے ساتھ وابستہ ہو جانا ہے۔
[5] …عبادت کی لگن و شوق پانے اور اس میں یکسوئی حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے تحریر کردہ مدنی انعامات پر عمل کرنا اور دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفر کرناانتہائی مفید ہے۔
[6] … سود سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رسالہ’’سوداوراس کاعلاج‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
[7] ……غصے کی عادت ختم کرنے کے لئے امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’غصے کا علاج‘‘ پڑھنا بہت فائدہ مند ہے۔
[8] …اپنے دل میں موت کی یاد کو مضبوط کرنے کے لئے رسالہ’’موت کاتصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا مفید ہے۔