اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنط

اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم طبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

فیضانِ حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  

دُرُودشریف کی فضیلت    

سرکارِ مدینہ ،سلطانِ باقرینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ برکت نشان ہے:مجھ پردُرود شریف پڑھ کر اپنی مجالس کو آراستہ کرو کہ تمہارا دُرُودِپاک پڑھنا بروزِ قیامت تمہارے لیے نور ہو گا۔ ([1])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                      صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 پىرِ طرىقت ،رہبر ِشریعت ،قائدِ قوم و ملَّت، مُقتدائے اہلسُنَّت ،استاذُ العلماء جلالۃُ العلم،حضور  حافظِ ملَّت حضرت علامہ مولاناشاہ عبد العزیز مُحدِّث مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی کا نام عبد العزیزاورلقب حافظِ ملت ہےجبکہ سلسلۂ نسب عبدالعزیز بن حافظ غلام نور بن مولانا عبدالرحیم رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیہے۔

ولادتِ باسعادت

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۱۳۱۲ھ بمطابق1894ء قَصْبہ بھوج پور (ضلع مراد آباد، یوپی ہند ) بروز پیر صبح کے وقت  اس عالَم رنگ وبومیں جلوہ فرما یا۔


 

دا دا حضور کی پیشن گوئی

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دادا مولانا عبد الرحیمرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے دہلی کے مشہورمحدث شاہ عبد العزیز عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْحَفِیظکی نسبت سے آپ کا نام  عبد العزیز رکھاتاکہ   میرایہ  بچہ بھی  عالم دین  بنے۔([2])

والد ماجدکی خواہش

والدماجد حضرت حافظ غلام نور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُور  کی شروع سے یہی تمنا تھی کہ آپ ایک عالمِ دین کی حیثیت سے دینِ متین کی خدمت سر انجام دیں  لہٰذا بھوجپور مىں جب بھی کوئى بڑے عالم ىا شىخ تشرىف لاتے توآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے صاحبزادے حضور حافظ ملت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو ان کے پاس لے جاتے اور عرض کرتےحضور! مىرے اس بچے کے لىے دعا فرمادىں ۔ ([3])

حافظِ ملّت کے والدین

 آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے والد ماجد احکامِ شرع کے پابند ،متَّبعِ سنت ،با عمل حافظ اور عاشقِ قرآن تھے۔  اُٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے  قرآنِ مجید کی تلاوت زبان پر جاری رہتی حِفْظ ِ قرآن اس قدر مضبوط تھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  ”بڑے حافظ جى“کے لقب سے مشہورتھے ، بچوں کی عمر سات سال ہوتے ہی انہیں نماز کى تاکىد کرتے اور


ان کامدنی ذہن بناتے۔کوئی ملنے آتا تو خُوب مہمان نوازی کیا کرتے اگرمہمان نماز کا پابندہوتا تورات ٹھہرالیتے ورنہ صرف کھانا کھلاکررخصت کردیتے، جب حج و زیارت  سے مُشرف ہوئےاور واپسی پر اَخراجات ختم ہوگئے تو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا  بلکہ محنت مزدوری کرکے اخراجات جمع کئےاور۹ ماہ بعد تشریف لائے۔ تقریباً سو سال  عمر پاکر اس دارِفانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔([4])

آپ کى والدۂ محترمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہَا نماز روزے کی بڑى پابندی فرماتیں ۔ مسلمانوں کی خَیْرخواہی اورایثار کا ایسا جذبہ عطا ہواتھا کہ  گھر میں غُربت ہونے کے باوجود  پڑوسىوں کا بہت خیال رکھا کرتیں،اکثر اپنا کھانا اىک بىوہ پڑوسن کو کھلادىتىں اور خود بھوکی رہ جاتیں ۔ ([5])

اِبتدائی تعلیم اورحفظ ِقرآن

حُضُور حافظِ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےابتدائی تعلیم ناظرہ اور  حفظِ قرآن کی تکمیل والد ِماجد حافظ غلام نور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُور  سے کی۔اس کے علاوہ اُردو کی چار جماعتیں وطنِ عزیز بھوجپور میں پڑھیں،جبکہ فارسی کی اِبتدائی کتب بھوجپوراور پیپل سانہ (ضلع مُرادآباد)سے پڑھ کر گھریلو مسائل کی وجہ سے سلسلۂ  تعلیم موقوف کیا اور پھر قَصْبہ بھوجپور میں ہی مدرسہ حفظُ القرآن میں مُدرِّس اوربڑی مسجد میں اِمامت  کے


فرائض سر انجام دئیے ۔  ([6])

سلسلہ ٔتعلیم رُک جانے پر اظہارجذبات

جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا سلسلہ ٔ تعلیم رُک گیاتوکبھی کبھار غمگین ہوکر والدۂ ماجدہ سے عرض کرتے :آپ  تودادا حُضُورکا یہ فرمان کہ ’’تم عالم بنوگے‘‘سنایا کرتی تھیں لیکن میں عالم نہ بن سکا۔یہ سن کر والدہ ماجدہ کی آنکھیں پُر نَم ہوجاتیں اوردُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیتیں ۔ ([7])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                                صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سلسلۂ تعلیم کا دوبارہ آغاز

کچھ عرصے بعد حالات بدلے اوروالدِ ماجد حافظ غلام نور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُور   کی خواہش اور دادا حضور مولانا عبد الرحیم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی پیشن گوئی پوری ہونے کا سامان یوں ہوا کہ حضرت علامہ عبد ُالحق خیر آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی کے شاگردِ رشید،  طبیبِ حاذِق مولانا حکیم محمد شریف حیدر آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی علاج مُعالَجہ کے سلسلے میں بھوجپورتشریف لانے لگے اور جب  بھی آتے تو حضور حافظ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے ۔ایک دن کہنے لگے :آپ قرآنِ  مجید تو بہت عُمدہ پڑھتے ہیں اگرعلمِ طِب پڑھنا چاہتے ہیں تو میں پڑھادوں گا،آپ نے جواب دیا : میرا


 ذریعۂ معاش اِمامت اور تدریس ہی ہےاور روزانہ مُرادآبادآنا جانا میری اِستطاعت سے باہر ہے،حکیم صاحب نے کہا:آپ ٹرین سے مُراد آباد چلے جایا کریں اورسبق پڑھ کربھوجپور سے واپس آجایا کریں،اَخراجات کی ذِمّہ داری  میں اُٹھاتا ہوں۔  والد صاحب نے اس کی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: روز کا آنا جانا مُناسب نہیں لہٰذامُراد آباد  میں  رہ کر ہی تعلیم مکمل کرو۔یوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاِمامت و تدریس چھوڑ کر مرادآباد تشریف لے گئے اورکچھ عرصہ حکیم صاحب سے  علم ِ طب پڑھا۔ ([8])

جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ

حکیم صاحب نے آپ کی ذہانت اورقابلیت کو دیکھتے ہوئے کہا:میری مصروفیات زیادہ ہیں اورآپ کو پڑھانے کے لیے مجھےمزید مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ملتا لہٰذا اب آپ تعلیم جاری رکھنے کے لئے جامعہ میں داخلہ لے لیجئے ۔ چنانچہ حافظ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ۱۳۳۹ ھ کوتقریباً ۲۷ سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ مُراد آباد میں داخلہ لے  لیااور تین سال تک تعلیم حاصل کی ۔مگر اب علم کی پیاس شدت اختیار کرچکی  تھی جسے بجھانے کے لیے کسی علمی سمندر کی تلاش تھی۔ ([9])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!تحصیلِ علم کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں، یقیناً علمِ دین حاصل کرنا خوش نصیبوں حصہ ہے  اگر ممکن ہو تو درسِ نظامی (عالم


 کورس)میں داخلہ لے کرخلوصِ نیت  کے ساتھ علمِ دین حاصل کیجئے  اور اس کی  خوب خوب برکتیں لوٹئے۔اگریہ نہ ہوسکے تو تبلیغِ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سنّتوں کی تربیّت کے  مَدَنی قافِلوں میں سفر کیجئے کہ یہ بھی عِلم دین حاصل کرنےاور بے شمار بَرَکتیں پانے کا ذریعہ ہے۔آئیے ! علم ِدین کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے ایک حدیث پاک سنئے اورحصولِ علم ِ دین میں مشغول ہوجائیے ۔

 تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان  ہے:  جو علم حاصل کرے اور اسے پَابھی لے تو اس کے لئے دوہرا ثواب ہے اور جو نہ پَا سکے اس کے لئے ایک ثواب ہے ۔ ([10])

مفسرِشہیرحکیمُ الامُّت حضرت مُفْتی احمدیارخان نعیمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  دوہرے ثواب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک علم طلب کرنے کا، دوسرا پَالینے کا کیونکہ یہ دونوں عبادتیں ہیں۔اور ایک ثواب کی وضاحت میں ارشاد فرماتے ہیں :یا تو زمانۂ طالبِ علمی میں مرجائے (کہ )تکمیل کا موقعہ نہ ملے یا اس کا ذہن کام نہ کرے مگر وہ لگا رہے تب بھی ثواب پائے گا۔([11])

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

صدرُ الشریعہ کی صحبت کیسے ملی ؟

۱۳۴۲ھ میں آل انڈیا سنی کانفرنس مُراد آبادمیں منعقد ہوئی جس میں مشہور ومعروف اورنامورعلمائے اہلسُنَّت تشریف لائے جن میں صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ مُفْتی  اَمجد علی اَعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی بھی شامل تھے۔حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے موقع دیکھ کرصدرُ الشریعہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بارگاہ میں درخواست کی توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: شوالُ المکرم  سے اجمیر شریف آجائیں مدرسہ مُعینیہ میں داخلہ دلوا کر تعلیمی سلسلہ شروع کرادوں گا۔([12])

صدرُ الشریعہ کی  شفقت

شوالُ المکرم ۱۳۴۲ھ میں حافظِ ملترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے چند ہم اَسباق  دوستوں کے ساتھ  اجمیر شریف پہنچے ان میں امام ُالنحو حضرت علامہ غلام جیلا نی میرٹھیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِیبھی شامل تھے۔چنانچہ صدر ُالشریعہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےسب کو جامعہ مُعینیہ میں داخلہ دلوادیا،تمام درسی کتابیں دیگر مُدرِّسین پر تقسیم ہوگئیں مگرحضرت صدرُ الشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ازراہِ شفقت  اپنی مصروفیات سے فارغ ہوکر تہذیب اوراُصُولُ الشَّاشی کا درس دیا کرتے۔علمِ منطق کی کتابحَمْدُ اللّٰه تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے معاشی پریشانی اور ذاتی  مصروفیت کی وجہ سے مزید تعلیم جاری نہ رکھنے کا ارادہ کیا اور دورۂ حدیث شریف پڑھنے کی خواہش


ظاہر کی تو حضرت صدرُ الشریعہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شفقت سے فرمایا:آسمان  زمین بن سکتا ہے،پہاڑ اپنی جگہ سے  ہل سکتا ہےلیکن آپ کی ایک کتاب بھی رہ جائے ایسا  ممکن نہیں ۔چنانچہ آپ نے اپنا ارادہ مُلتوی کیا اور پوری دلجمعی کے ساتھ صدرُالشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں رہ کر مَنازلِ علم طے کرتے رہے بالآخر استادِمحترم قبلہ صدرُالشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی نگاہِ فیض سے ۱۳۵۱ھ بمطابق 1932ء میں دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے دورۂ حدیث مکمل کیا اور دستار بندی ہوئی۔([13])

آپ کے اساتذۂ کرام

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد حضرت حافظ محمد غلام نور اور مولانا عبدالمجىد بھوجپورى رَحِمَھُمَا اللّٰہُتَعَالٰی  سے حاصل کی اس کے علاوہ جامعہ نعیمیہ (مراد آباد)میں حضرت مولانا عبدالعزىز خان فتح پورى،حضرت مولانا اجمل شاہ سنبھلى، حضرت مولانا وَصى احمدسہسرامى اورجامعہ  مُعىنىہ عثمانىہ( اجمىر شرىف) میں حضرت مولانا مُفْتى امتىاز احمد، حضرت مولانا حافظ سَىِّد حامد حسىن اجمىرى اورحضرت صدرُ الشرىعہ علامہ مُفْتی  امجد على اعظمى رَحِمَھُمُ اللّٰہُتَعَالٰی جیسے جلیلُ القدر اساتذہ سے  اکتسابِ علم کیا بالخصوص صدرُالشریعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی نگاہِ فیض سے آسمانِ علم کے درخشاں ستارے  بن کر چمکے ۔([14])


 

صدرُ الشریعہ کے حکم کی تعمیل

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ     فارغُ التحصیل ہونے کے بعدکچھ عرصے  بریلی شریف (یوپی ہند) میں حضور صدرُ الشریعہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں رہے۔ شوال المکرم  ۱۳۵۲ھ میں حضرت صدرُ الشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے آپ کو مبارک پور(ضلع اعظم گڑھ یوپی) میں دَرس و تدریس کا حکم دیا توآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے  عرض کی: حضور! میں ملازمت نہیں کروں گا۔ صدرُ الشریعہرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے فرمایا:میں نے ملازمت کا کب کہاہے؟میں توخدمتِ دین کے لئے بھیج رہا ہوں۔([15])

کاش ! خدمت سنتوں کی میں سدا کرتا رہوں           اہلسنت کا میں سدا بن کر رہوں خدمت گار

                                                                        (وسائل بخشش ص:۴۰۰)

مبارک پور میں آمد

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۲۹ شوال المکرم ۱۳۵۲ھ بمطابق ۱۴ جنوری 1934ء کو مبارکپور پہنچےاور مدرسہ  اشرفیہ مصباحُ العلوم(واقع محلہ پرانی بستی) میں تدریسی خد مات میں مصروف ہوگئے۔ابھی  چند ماہ ہی گزرے تھے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے طرزِ تدریس اور علم و عمل کے چرچے عام ہوگئے اور تشنگانِ علم کا ایک سیلاب اُمنڈ آیا جس کی وجہ سے مدرسے میں جگہ کم پڑنے لگی اورایک  بڑی درسگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنی  جِدّو جُہدسے ۱۳۵۳ھ میں دنیائے


 اسلام کی ایک عظیم درسگاہ (دارُالعلوم)کی تعمیرکا آغازگولہ بازارمیں فرمایا جس کا  نام سلطانُ التارکین حضرت مخدوم سَیِّد اشرف جہانگیر سمنانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی کی نسبت سے ”دارُالعُلُوم اشرفیہ مصباح ُالعلوم “ رکھاگیا ۔ ([16])

دارُالعُلُوم  اشرفیہ سے اِسْتِعفا اورپھر واپسی

حضورحافظِ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ شوال ۱۳۶۱ھ میں کچھ مسائل کی بناپر اِسْتِعْفا دے کر جامعہ عَربیہ ناگپور تشریف لے گئے،چونکہ آپ مالیات کی فَراہمی اور تعلیمی اُمور میں بڑی  مہارت رکھتے تھےلہٰذا آپ کے دارُالعلوم اَشْرفیہ سےچلے جانے کے بعدوہاں  کی تعلیمی اور معاشی حالت اِنتہائی خَستہ ہوگئی تو حضرت صدرُ الشریعہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے حکمِ خاص پر۱۳۶۲ھ میں ناگپور سے اِسْتِعْفادے کردوبارہ  مُبارکپور تشریف لے آئے اورتادم ِحیات دارُالعلوم اَشرفیہ مُبارکپور سے وابستہ رہ کر تدریسی و دینی خدمات کی انجام دہی میں مشغول رہے۔حافظِ ملت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی کوششوں سے مُفتیٔ اعظم ہند شہزادہ ٔ اعلیٰ حضرت مفتی محمد مصطفےٰ رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کے دستِ مبارک سے ۱۳۹۲ھ بمطابق 1972ء میں مبارک پور میں وسیع قطعِ اَرض پر الجامعۃُ الاشرفیہ(عربی یونیورسٹی )کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔([17])

اُستادکا ادب

حافظِ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضورصدرُالشرىعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی  بارگاہ مىں


ہمىشہ دوز انو بیٹھا کرتے ،اگرصدرُ الشرىعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ضرورتاً کمرے سے باہر  تشرىف لے جاتے تو طلبہ کھڑے ہوجاتے اوران کے جانے کے بعد بیٹھ جاتے اور جب واپس تشریف لاتے تو ادباً دوبارہ کھڑے ہوتے لیکن حافظِ ملت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس پورے وقفے میں کھڑے ہی رہتے اور حضرت صدرُ الشرىعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے مَسْندِ تدریس پر تشریف فرماہونے کے بعد ہی  بیٹھا کرتے ۔ ([18])

کتابوں کا ادب

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قىام گاہ پر ہوتے ىاد رس گاہ مىں کبھى کوئى کتاب لىٹ کر ىا  ٹىک لگا کر نہ پڑھتے  نہ پڑھاتے بلکہ تکىہ ىا تِپائی(ڈىسک)پر  رکھ لیتے، قىام گاہ سے مدرسہ  ىا مدرسے سے قىام گاہ کبھى کو ئی  کتاب لے جانی  ہوتی  تو داہنے ہاتھ مىں لے کر سىنے سے لگالىتے، کسى طالب علم کودیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں لٹکا کرچل رہا ہے تو فرماتے: کتاب جب سىنے سے لگائى جائے گى تو سىنے مىں اترے گى اور جب کتاب کو سىنے سے دوررکھا جائے گا تو کتاب بھی  سىنے سے دور ہوگی ۔([19])

قرآنِ پاک کا ادب

ایک مرتبہ چھٹى کے بعد کئى طلبہ دارُالعلوم اہلسُنَّت اَشرفىہ کی سیڑھیوں کے پاس حضور حافظ ِملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زیارت وملاقات  کے لئے منتظر کھڑے


تھے آپ تشرىف لائے تو  سب طلبہ پاسِ ادب رکھتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے چل  پڑے۔اچانک آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے ایک طالبِ علم سے فرمایا:  آپ آگے آگے چلیں ۔یہ سن کر وہ طالب علم جھجکےتو فرماىا: آپ کے پاس قرآن شرىف ہے اس لئے آگے چلنے کو  کہہ رہا ہوں۔([20])

محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے             اورمجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

                                                     (وسائل بخشش ،ص۱۹۳)

طلبہ پر شفقت

حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علمِ دین کے طلب گاروں سے بے پناہ مَحَبَّت فرمایاکرتے تھے ،طلبہ کو کسی غلطی پر مدرسہ سے نکال دینے کو سخت ناپسند کرتےاور فرماتے: مدرسے سے طلبہ کا اِخراج (یعنی نکال دینا )بالکل اىسا ہى ہے جىسے کوئى باپ اپنے کسى بىٹے کو عاق (علیحدہ )کردے ىا جسم کے کسى بىمار عضو کو کاٹ کر الگ کردے،مزید  فرماتے: انتظامى مَصالح (یعنی فوائد)کے پىش نظر اگرچہ ىہ شرعا مُباح ہے لىکن مىں اسے بھى اَبْغَض مُباحات (یعنی جائز مُعاملات میں   سخت ناپسند باتوں)سے سمجھتا ہوں۔([21])

وقت کی پابندی

حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وقت کے اِنتہائی پابند اور قدردان تھے ہر کام


اپنے وقت پرکیا کرتےمثلاً  مسجدِ محلّہ میں پابندى ِوقت کے ساتھ باجماعت نماز ادا فرماتے ، تدریس کے اَوقات میں اپنى ذِمّہ دارى کو بحسن و خُوبى انجام دیتے، چُھٹى کے بعد قىام گاہ پر لوٹتےاور  کھانا کھا کرکچھ دىر قَىْلُولہ(یعنی دوپہر کے وقت کچھ دیر کے لیے آرام ) ضرور فرماتے قىلولہ کا وقت ہمىشہ ىکساں رہتا چاہے اىک وقت کا مدرسہ ہو ىا دونوں وقت کا،ظُہر کے مُقررہ وقت پر بہرحال اُٹھ جاتے اورباجماعت نماز ادا کرنے کے بعد اگر دوسرے وقت کا مدرسہ ہوتا تو مدرسے تشریف لے  جاتے ورنہ کتابوں کا مُطالعہ فرماتےیا کسى کتاب سے  درس دىتے یا پھر حاجت مندوں کو تعوىذ عطا فرماتے ، شروع شروع مىں عَصْر کى نماز کے بعد سیر وتفرىح کے لىے آبادى سے باہر تشرىف لے جاتے مگراس وقت بھی  طلبہ آپ کے ہمراہ ہوتے جو علمى سُوالات کرتے اورتَشَفّی بھر جوابات  پاتے ، اگر کسى کى عىادت کے لىے جانا ہوتا تواکثر عَصْر کے بعد ہى جایا کرتے، قبرستان سے گزرتے ہوئے اکثر سڑک پر کھڑے ہو کر قبروں پر فاتحہ اور اىصالِ ثواب کرتے۔مغرب کى نماز کے بعد کھانا کھاتے اور پھر اپنے آنگن(صحن ) مىں چہل قدمى فرماتے، عشاء کى نماز کے بعد کتابوں کا مُطالَعہ کرتےاورساتھ ساتھ مُقىم طلبہ کى دىکھ بھال بھی  کرتے رہتے کہ وہ مُطالعہ مىں مصروف ہىں ىا نہىں۔ عُموماً  گىارہ بجے تک سوجاتے اورتَہجُّد کے لىے آخرِ شب مىں ا ُٹھتے، تَہجُّد پڑھنے کے بعد بھى کچھ دىر کے لئے سوجاتے ، رات مىں چاہے کتنی  ہى دیر جاگنا پڑتا فجر کبھى قَضا  نہ ہوتی ۔ ([22])


 

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے  وقت کی قدر کریں اور  سستی اُڑا کردن بھر کے کاموں کا ایک جَدْول بنائیں تاکہ ہر کام وقت پر کرنے کے عادی بن سکیں۔ اسی ضمن میں شیخِ طریقت، امیراہلسُنَّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ارشاد  فرماتے ہیں : کوشش کیجئے کہ صبح اُٹھنے کے بعد سے لے کر رات سونے تک سارے کاموں کے اوقات مقرَّر ہوں مَثَلاً اتنے بجے تَہجُّد،علمی مَشاغل ، مسجد میں تکبیرِ اُولیٰ کے ساتھ باجماعت  نماز،اشراق ، چاشت ،ناشتہ ، کسبِ معاش ، دوپہر کا کھانا ، گھریلو مُعاملات ، شام کے مَشاغِل ، اچھی صُحبت ( اگر یہ مُیَسَّر نہ ہو توتنہائی بدر جہابہتر ہے ) ، اسلامی بھائیوں سے دینی ضروریات کے تحت ملاقات وغیرہ کے اَوقات مُتعیَّن کر لئے جائیں جو اس کے عادی نہیں ہیں ان کے لئے ہو سکتا ہے شروع میں کچھ دُشواری پیش آئے ۔  پھر جب عادت بن جائے  گی تو اس کی برکتیں خود ہی ظاہر ہوجائیں گی۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                                صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سُنَّت سے مَحَبَّت  

حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی پوری زندگی معلمِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکى سىرتِ پاک کا نمونہ تھى چنانچہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلسُنَّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابُو بلال محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 616 صَفحات پرمشتمل کتاب نیکی کی دعوت صَفْحَہ 213پرارشادفرماتے ہیں: حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اپنے ہر عمل میں سُنَّت کابَہُت زیادہ خیال رکھتے تھے۔


ایک بار حضرت کے دائیں پاؤں میں زَخم ہوگیا ، ایک صاحِب دوا لے کر پہنچے اور کہا: حضرت !دوا حاضِر ہے۔ جاڑے(یعنی سردیوں) کا زمانہ تھا حضرت مَوزہ پہنے ہوئے تھے،آپ نے پہلے بائیں (یعنی اُلٹے )پاؤں کا مَوزہ اُتارا، وہ صاحِب بول پڑے: حضرت! زَخم تو داہنے (یعنی سیدھے) پاؤں میں ہے! آپ نے فرمایا : بائیں (یعنی اُلٹے)پاؤں کا پہلے اُتارنا سُنّت ہے۔

سُنَّت پر عمل کی برکتیں

نیکی کی دعوت کے صفحہ 214پر ایک اور واقعہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :حُضُورحافظِ ملّت کی عمر شریف ستَّر سال سے مُتجاوِز(زیادہ ) ہو چکی تھی ، ٹرین سے سفر کر رہے تھے جس بَرتھ پرتشریف فرما تھے ،ا تِّفاق سے اُس پر ایک ڈاکٹر صاحِب بھی بیٹھے تھے، ڈاکٹر صاحِب نے سِلسلۂ  کلام شُروع کیا تو آپ کی جلالتِ علمی سے بہت متاثر ہوئے اور بار بار آپ کی طرف حیرت سے دیکھتے رہے ، دورانِ گفتگو ڈاکٹر صاحِب نے تَعَجُّب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: مولانا صاحِب! میں آنکھوں کا ڈاکٹر ہوں، میں دیکھ رہا ہوں کہ اِس عمر میں بھی آپ کی بِینائی میں کوئی فَرق نہیں،بلکہ آپ کی آنکھوں میں بچّوں کی آنکھوں جیسی چمک ہے، مجھے بتایئے کہ اس کے لئے آخر کیاچیز استِعمال کرتے ہیں؟فرمایا:ڈاکٹر صاحِب! میں کوئی خاص دوا وغیرہ تو استِعمال نہیں کرتا، ہاں ایک عمل ہے جسے میں بِلا ناغہ کرتا ہوں، رات کو سونے کے وَقت سُنّت کے مطابِق سُرمہ استِعمال کرتا ہوں اورمیر ا یقین ہے کہ اِس عمل


سے بہتر آنکھوں کے لیے دُنیا کی کوئی دَوا نہیں ہو سکتی۔

 حافظِ ملّت کی سادگی اور حَیا

آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی زندگی نہایت سادہ اور پُرسُکون تھی کہ جو لباس  زىبِ تن فرماتے وہ موٹا سوتى کپڑے کا ہوتا، کُر تاکلی دار  لمبا ہوتا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر ہوتا ، سر مبارک پر ٹوپی ہوتی  جس پر عمامہ ہر موسم میں سجا ہوتا ، شىروانى بھى زىبِ تن فرمایا  کرتے، چلتے وقت ہاتھ میں عصا ہوتا ۔راستہ چلتے تو نگاہىں جُھکاکر چلتے اور فرماتے: مىں لوگوں کے عُىوب نہىں دىکھنا چاہتا۔  گھرمىں ہوتے تو بھی حَیا کو ملحوظِ خاطررکھتے، صاحبزادیاں بڑی ہوئیں توگھرکےمخصوص کمرے میں ہی آرام فرماتے، گھر مىں داخل  ہوتے وقت  چَھڑى زمىن پر زور سے مارتے تاکہ آواز پىدا ہو اورگھرکےلوگ خبردار  ہوجائىں،غىرمَحْرَم عورتوں کوکبھى سامنے نہ آنے دىتے۔([23])

صرف سوکھى روٹى کھا کر پانى پى لىا

اندرونِ خانہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکى سادگى اور قناعت  کا ىہ حال تھا کہ ایک  بار آپ کى بڑ ى صاحبزادى نے رات کے کھانے مىں آپ کے سامنے ڈَلىا مىں روٹى رکھى اوربعد میں دال کا پىالہ لا کر قریب ہی رکھ دىا، روشنى دور اورکم تھی لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دال کو نہ دىکھ سکے صرف سوکھى روٹى کھا کر پانى پى لىااور پھر  کھانے کے بعد کی دُعا پڑھنے لگے ،صاحبزادی نے عرض کی: ابّا جان! آپ نے دال نہىں


 کھائى؟ آپ  نے تعجُّب سے پوچھا: اچھا! دال بھى ہے ،مىں نے سمجھا آج صرف روٹى ہى ہے۔([24])

سُبْحٰنَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ  !صد ہزار آفریں حافظِ ملّت جیسی مُبارک ہستیوں پر جنہوں نے رِضائے الٰہیعَزَّ  وَجَلَّکی  خاطر دُنیاوی عارضی لذّتوں ٹھکرایا اورآرائش و آسائش کو چھوڑ کر سادگی وعاجزی اختیار کی۔اللہعَزَّ وَجَلَّ ان پاکیزہ ہستیوں کے صَدْقے ہمیں بھی ا عمالِ صالحہ  پر استقامت اور ہر حال میں اپنی رضا پر راضی رہنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔

ہمیشہ نگاہوں کو اپنی  جھکا کر

کروں خاشعانہ دعا یا الٰہی

میں مٹی کے سادہ سے برتن میں کھاؤں

چٹائی کا ہو بسترا یا الٰہی

 

(وسائل بخشش، ص ۸۵)

حدیث مبارکہ کی عملی تصویر

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے محبوب، دانائے غُیُوب، مُنزہٌ عن العُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے: وَاِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَى اللهِ اَدْوَمُهَا وَاِنْ قَلَّ یعنی اللہعَزَّ  وَجَلَّ  کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جو پابندی سے ہو اگرچہ کم ہو۔ ([25])

حضورحافظِ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیث مبارکہ کی عملی تصویر تھے ۔ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ بچپن ہی سے  فَرائض و سُنَن کے پابند تھے اور جب سے بالغ


 

ہوئے نمازِ تَہجُّد شروع فرمادى جس پرتاحیات عمل رہا، صلوٰةُ الاوَّابىن ودلائلُ الخىرات شرىف وغىرہ  بلاناغہ  پڑھتےیہاں تک کہ  آخرى اىام مىں دوسروں سے پڑھوا کر سنتے رہے، روزانہ صبح  سورۂ ىٰسىن و سورۂ ىوسف کى تلاوت کا التزام فرماتے جبکہ جمعہ کے دن سورہ ٔکہف کى تلاوت معمول میں شامل تھی۔آپ  فرمایاکرتے کہ عمل اتنا ہى کر و جتنا بلا ناغہ کرسکو۔ ([26])

کفایت شعارى اور سخاوت

حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنى ذات پر خرچ کرنے کے بجائے دوسروں پر خرچ کرکے خوشى محسوس کرتے تھےآپ کی سیرت ِمبارکہ  کا مُطالعہ کرنے سے  یہ حدیثِ پاک  بے اختیار زبان پر آجاتی ہے :لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِاَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ  یعنی تم میں  کامل ایمان والا وہ ہے جو اپنے بھائی کےلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔([27]) جن پر حافظِ ملّت کا ابرِ کرم برسا ان کا دائرہ بہت وسىع تھا، بعدِوصال آپ  کى ڈاک والی ایک پرانى  گٹھڑى ملى  جس مىں ملک بھر سے آئے ہوئے  خُطوط تھے۔ ان مىں مُتعدَّدسفىد پوش عُلما اور خُدّامِ دىن کى اىسى تحرىرىں اور تشکُّر نامے تھے جن کی حافظِ ملّت  مدد فرماىا کرتے تھے۔([28])


 

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضور حافظ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یقیناًایک باعمل  عالمِ دین تھےمگر یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ اگر کسی عالم کے مستحبات و نوافل وغیرہ میں بظاہرکمی نظر آئے تو اس کا یہ مطلب  نہیں ہے  کہ وہ قابلِ تعظیم اور لائقِ خدمت نہیں۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت،امام ِاہلسُنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن  عُلما ئے کرام  کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : قرآنِ عظیم نے ان  سب کو انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا وارث قرار دیا حتی کہ بے عمل یعنی فرائض و واجبات کی پابندی کریں مگر دیگر نیک کاموں ، مُسْتحبَّات و نَوافل میں سُستی کریں ایسے عُلماء کو بھی  وارث قرار دیا جبکہ وہ صحیح عقائد رکھتے ہوں اور سیدھے راستے کی طرف بلاتے ہوں یہ قیداس لئے ہے کہ جوعقائدمیں صحیح نہیں اور دوسروں کو غلط عقائد کی طرف بلانے والا ہے۔ وہ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے ایسا آدمی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا وارث نہیں شیطان کا نائب ہوتا ہے لہٰذا صرف صحیح عقائد والا اور اس کی طرف دوسروں کو بلانے والا انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا وارث ہے اگرچہ بے عمل ہو۔([29]) 

سارے سنی عالموں سے تو بناکر رکھ سدا کر ادب ہر ایک کا ،ہونا نہ تو ان سے جدا

مجھ کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے                                                       اِنْ شَآءَ اللہ دو جہاں میں میرا بیڑا پار ہے

                                                                         (وسائل بخشش ص: ۶۴۶)

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

حافظِ ملّت  کى خصوصى ادائے مَحَبَّت

جب بھی حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اعلىٰ حضرت امام احمد رضااور صدرُ الشرىعہ حضرت مولانا مُفْتی امجد علی اَعظمی رَحِمَہُمَااللہُ تَعَالٰی کا نام سنتے تو اپنى گردن جھکالیتے ، حُضور مُفتى اعظم ہند و دىگر اکابرِ اہلسُنَّت کے تذکرہ پراپنى والہانہ مسرت کا اظہار کرتے۔([30])

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اللہعَزَّ  وَجَلَّ  کے مُقرب بندوں میں سے ہیں اور یقیناً اولیاءُاللہ سے وقتا ً فوقتاً  کرامات کا صُدور ہوتا رہتا ہے آئیے! حصول برکت کے لئے حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کی کرامات سنئے۔

بغیر پیٹرول کے گاڑی چل پڑی

   ایک مرتبہ سفر سے واپسی پر گاڑی کا  پیٹرول ختم ہوگیا ڈرائیور نے عرض کی: اب گاڑی آگے نہیں جاسکتی ،یہ سن کر دیگر رُفقاء پریشان ہوگئے مگر اس وقت بھی حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پُر اعتماد انداز میں فرمایا:لے چلو! گاڑی چلے گی اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ  وَجَلَّ، یہ فرمان سنتے ہی  ڈرائیور نےچابی گُھمائی تو گاڑی چل پڑی اور ایسی چلی کہ راستے بھر کہیں نہ رکی ۔([31])


 

گرتی ہوئی چھت کو روک دیا

شیخِ طریقت، امیرِ اہلسُنَّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابُو بلال محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہمکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ  616 صَفحات پر مشتمل کتاب نیکی کی دعوت صَفْحَہ ۲۱۳پرحافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی ایک کرامت بیان کرتے ہوئے  ارشاد فرماتے ہیں: الجامِعۃالاشرفیہ کے بانی مَبانی حافظِ ملّت حضرتِ علّامہ شاہ عبدُالعزیز محدِّث مُراد آبادیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی بڑے پائے کے بُزُرگ تھے۔ سوانِح نگاروں نے آپ کی کئی کرامات بیان کی ہیں۔ان میں ایک یہ بھی ہے،جامِع مسجِد مبارَک شاہ بھی پہلے مختصر ہی تھی اور بَوسیدہ بھی ہوگئی تھی ، آبادی کی وُسعَت کے لحاظ سے مسجِد کا وسیع ہونابھی ضَروری تھا، بَہر حال پُرانی مسجِد شہید کر کے نئی بنیادیں بھری گئیں اور مسجِد کی توسیع کاکام شُروع ہو ا ۔ مبارَک پور کے مسلمانوں نے بڑی دلچسپی اور لگن کے ساتھ اس تعمیر میں بھی حصّہ لیا، حضرتِ حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اس کام کے بھی رہنما اور سربراہ تھے، حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جامِع مسجِد کے لیے پوری توجُّہ اور محنت سے چندے کی فَراہَمی کی ، مبارَک پور میں کافی جوش و خَروش تھا، غُربت کے باوُجُود مسلمان اپنی دینی حَمِیّت کاپورا پورا ثُبُوت دے رہے تھے ، مَردوں نے اپنی کمائی اور عورَتوں نے اپنے زیورات وغیرہ سے امداد کی۔ چھت پڑنے کے بعد حاجی محمد عمر نہایت پریشانی کے عالم میں دوڑے ہوئے حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے پاس آئے اورکہا : حافظ صاحِب! جامع مسجِد کی چھت


نیچے آ رہی ہے اب کیا ہو گا!حاجی صاحِب یہ کہتے کہتے رو پڑے ۔ حضرتِ حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فورا ًاُٹھے وضو کیا اور حاجی صاحِب کے ساتھ گھر سے باہَر نکلے  اور اپنے پڑوسی خان محمد صاحِب کو ہمراہ لیا، جامِع مسجِد پہنچ کر  بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم پڑھتے ہوئے لکڑی کی چند بَلّیاں لگا دیں(یعنی لمبے بانس یا لکڑی کے تھم لگا دیئے)۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ  وَجَلَّ کہ چھت نہ صر ف برابر اور دُرُست ہوگئی ، بلکہ آج دیکھئے تو یہ پتا بھی نہ لگ سکے گا کہ کس حصّے کی چھت جُھک رہی تھی۔

حافظ ملت کی دینی خدمات

حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایک بہترین مدرس ، مصنف، مناظِر اور منتظمِ اعلیٰ تھے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا سب سے عظیم کارنامہ الجامعۃُ الاشرفیہ مبارک پور (ضلع اعظم گڑھ یوپی ہند) کا قیام ہےجہاں سے فارغُ التحصیل عُلما  ہند کی سرزمین سے لے کر ایشیا، یورپ و امریکہ اورافریقہ کے مختلف ممالک میں دینِ اسلام کی سربلندی اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج واشاعت میں مصروف ِ عمل ہیں ۔([32])

حافظِ ملت شخصیت ساز تھے

آپ ایک شفیق اور مہربان باپ کی طرح طلبہ کی ضروریات اورتعلیم و تربىت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصىت کو بھی نکھارا کرتے تھے چنانچہ رئىسُ القلم حضرت علامہ ارشدُالقادرى  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں :استاد شاگرد کا تعلُّق عام طور پر حلقۂ


درس تک محدود ہوتا ہے لىکن اپنے تلامذہ کے ساتھ حافظِ ملّت کے تعلُّقات  کا دائرہ اتنا وسىع ہے کہ پورى درسگاہ اس کے اىک گوشے مىں سماجائے، ىہ انہى کے قلب و نظر کى بے اِنْتہا وُسعت اور انہى کے جگر کابے پاىا حوصلہ تھا کہ اپنے حلقہ درس مىں داخل ہونے والے طالب علم کى بےشمار ذِمّہ دارىاں وہ اپنے سَر لىتے تھے، طالبِ علم درس گاہ مىں بىٹھے تو کتاب پڑھائىں، باہر رہے تو اخلاق و کردا رکى نگرانى کرىں، مجلسِ خاص مىں شرىک ہو تو اىک عالمِ دىن کے محاسن و اوصاف سے روشناس فرمائىں،بىمار پڑے تو نقوش و تعوىذات سے اس کا علاج کرىں، تنگدستى کا شکار ہوجائے تو مالى کفالت فرمائىں، پڑھ کر فارغ ہو تو ملازمت دلوائىں اور ملازمت کے دوران کوئى مشکل پىش آئے تو اس کى بھى عُقدہ کشائى فرمائىں، طالبِ علم کى نجى زندگى ، شادى بىاہ، دُکھ سُکھ سے لے کر خاندان تک کے مسائل حل کرنے میں توجہ فرمائیں، طالب علم زىرِ درس رہے ىا فارغ ہو کر چلا جائے اىک باپ کى طرح ہر حال مىں سرپرست اور کفىل ، ىہى ہے وہ جو ہرِمُنفردجس نے حافظِ ملّت کو اپنے اَقْران و مُعاصرىن کے درمىان اىک معمارِ زندگى کى حىثىت سے مُمتاز اورنُماىاں کردىا ہے۔([33])

آپ کی تصانیف

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  تحریر وتصنیف میں بھی کامل مَہارت رکھتے تھےآپ نے مختلف مَوضوعات پر کُتب تحریر فرمائیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:


 (1)مَعارفِ حدىث  (احادىثِ کرىمہ کا ترجمہ اور اس کى عالمانہ تشرىحات کا مجموعہ )(2) اِرشادُ القرآن(3) الارشاد (ہند کی سیاست پر ایک مُسْتقل رسالہ )(4) المصبَاح ُالجدىد (بد مذہبوں کے عقائد سے مُتعلق30سوالوں کے جوابات بحوالہ کتب،یہ رسالہ  مکتبۃ المدینہ سے ”حق و باطل میں فرق “کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ )(5) العذابُ الشَّدىد (المصباحُ الجدىدکے جواب ’’مَقامعُ الحدىد‘‘کا جواب)(6)  اِنْباء ُالغىب (علمِ غىب کے عُنوان پر اىک اچھوتا رسالہ)(7)   فرقۂ ناجىہ(اىک اِسْتفتاکا جواب)(8)   فتاوىٰ عزىزىہ(ابتداءً دارُ العُلوم اشرفىہ کے دارُالافتاء سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا مجموعہ،غىرمطبوعہ)(9)حاشیہ شرح مرقات ۔([34])

آپ کے تلامذہ

ملک اور بىرون ملک حضور حافظِ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تلامذہ کى تعداد پانچ ہزار سے زائد ہى ہوگى اور ان مىں اىسے اىسے ذى علم قابلِ قدر و فخر اور قائدانہ صلاحىت کے حامل افراد ہىں جن پر مذہبى ، سىاسى ، سماجى، علمى، روحانى، اصلاحى اور تبلىغى دنىا کو فخراور ناز ہے۔ آپ کے تراشے ہوئے چند انمول و نایاب ہیروں کے اسمائے گرامی یہ ہیں:(1)عزىز ملت حضرت علامہ شاہ  عبدالحفىظ مَدَّ ظِلُّہُ الْعَالِی  خلفِ اکبر حافظِ ملت و موجودہ سربراہ ِاعلىٰ الجامعۃ الاشرفىہ مبارک پور(2)قائدِ اہلسُنَّت رئىسُ القلم حضرت علامہ ارشدالقادرى(3)بحرالعلوم حضرت مفتى عبدالمنان اعظمى


 

(4)خطیبُ البراہینحضرت علامہ صوفی محمد نظام الدىن بَسْتَوى(5)مُصْلحِ اہلسُنَّت حضرت علامہ قارى مُصْلحُ الدّىن صدیقی قادری(6)بانیِ دارُالعلوم امجدیہ حضرت علامہ مُفْتى ظفر على نعمانی(7) فقیہِ اعظم ہندحضرت علامہ مُفْتى محمد شرىفُ الحق امجدى (8) بدراہلسنت حضرت علامہ مفتی بدرُالدین احمد گورکھپوری (9)شیخ القرآن حضرت علامہ عبدُاللہ خان عزیزی (10)اشرفُ العلماء سَیِّد حامد اشرف اشرفی مِصْباحی (11)ادیب اہلسُنَّت مُفْتی مجیبُ الاسلام نسیم اَعْظمی (12)شیخ اعظم  سَیِّد محمد اظہاراشرف اشرفی کچھوچھوی(13) نائبِ حافظِ ملّت علامہ عبدالرؤف بلياوی رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ ([35])

حافظ ملت کےملفوظات

1.     بلاشبہ اىسى تعلىم جس مىں تربىت نہ ہو آزادى و خُود سرى ہى کى فضا ہو ،بے سُود ہى نہىں بلکہ نتىجہ بھی  مُضر (نُقصان دہ )ہے۔

2.     مىں نے کبھى مُخالف کو اس کى مُخالفت کا جواب نہىں دىا، بلکہ اپنے کام کى ر فتار اور تىز کردى ، جس کا نتىجہ ىہ ہوا کہ کام مکمل ہوا اور  مىرے مُخالفىن کام کى وجہ سے مىر ے مُوافق بن گئے۔

3.     انسان کو مُصىبت سے گھبرانا نہىں چاہىے، کامىاب وہ ہے جو مُصىبتىں جھىل کر کامىابى حاصل کرے مُصىبتوں سے گھبرا کر مَقْصد کو چھوڑ دىنا بُزدلى ہے۔


 

4.      جب سے لوگوں نے خُدا سے ڈرناچھوڑ دىا ہے، سارى دُنىا سے ڈرنے لگے ہىں۔

5.      کامىاب انسان کى زندگى اپنانى چاہىے، مىں نے حضرت صدرُ الشرىعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو ان کے تمام مُعاصرىن مىں کامىاب پاىا، اس  لىے خود کو انہىں کے سانچے مىں ڈھالنے کى کوشش کى۔

6.      بُزرگوں کى مجلس سے بلاوجہ اُٹھنا خلافِ ادب ہے۔

7.      جس کى نظر مَقْصد پر ہوگى اس کے عمل مىں اِخلاص ہوگا اور کامىابى اس کے قدم چومے گى۔

8.      جسم کى قُوّت کے لىے ورزش اور رُوح کى قُوّت کے لىے تَہجُّد ضرورى ہے۔

9.      کام کے آدمى بنو، کام ہى آدمى کو مُعزَّ ز بناتا ہے۔

10. ہر ذِمّہ دار کو اپنا کام  ٹھوس کرنا چاہىے، ٹھوس کام ہى پائىدارى کى ضمانت ہوتے ہىں۔

11. انسان کو دوسروں کى ذِمّہ دارىوں کے بجائے اپنے کام کى فکر کرنى چاہىے۔

12. احساسِ ذِمّہ دارى سب سے قىمتى سرماىہ ہے۔

13.     تَضْىىع ِاوقات(وقت ضائع کرنا) سب سے بڑى مَحرومى ہے۔ ([36])

اَزْواج و اَولاد

حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے دو نکاح کئے پہلی زوجہ سےکوئی اولاد زندہ نہ رہی جبکہ دوسری زوجہ سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہوئی جن میں سے ایک


لڑکے اور لڑکی کا انتقال بچپن میں  ہوگیا تھا ۔([37])

بیعت و خلافت

حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ شیخ ُالمشائخ حضرت مولانا شاہ سَیِّد علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  کے مُرید اور خلیفہ تھے۔ استادِ محترم صدرُ الشریعہ حضرت علامہ مولانا اَمجد علی اَعْظمیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِیسے بھی آپ کو خلافت و اجازت حاصل  ہوئی ۔ ([38])

جانشینِ حافظِ ملت

حافظِ ملت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے جلسۂ تعزىت کے اِخْتِتام پر مشائخِ کرام اور علمائے عظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے حافظِ ملّت کے شہزادۂ اکبر عزیزِ ملت حضرت مولانا عبد الحفیظ  مَدَّ ظِلُّہُ الْعَالِی  کو حضرت صدرُ الشرىعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا خِرقہ اور حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی   عَلَیْہ کا جُبہ ودَستار پہنایا اورحافظِ ملّت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کى مَسند پر بٹھا کر ان کى جانشىنى کا اعلان کىا ۔([39])

حافظ ملت کامقام علمائے  کرام کی نظر میں

صدرُ الشریعہ بدرُ الطریقہ مُفْتی امجد علی اَعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیفرماتے ہیں: میری


 

زندگی میں دوہی باذوق پڑھنے والے ملے ایک مولوی سرداراحمد (یعنی مُحدِّثِ اعظم پاکستانرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)اور دوسرے حافظ عبد العزیز (یعنی حافظِ ملّت مولانا شاہ عبد العزیز  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)۔ ([40])

شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتیٔ اعظم ہندعلامہ مولانا مصطفےٰ رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: اس دُنیاسے جولوگ چلےجاتے ہیں ان کی جگہ خالی رہتی ہے خصوصاً مولاناعبد العزیز جیسے جلیلُ القدر عالم ،مردِمومن ،مجاہد ،عظیمُ المرتبت  شخصیت اور ولی کی  جگہ پُر ہونا بہت مشکل ہے  ۔([41])

امینِ شریعت مفتی ٔاعظم کانپور حضرت علامہ مُفْتی رفاقت حسین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :حافظ ملت نے اپنی زندگی کو مُجاہد و مُتحرِّک اَسلاف ِکرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نقش قدم پر چلا کر اور نُمایاں  خدمات انجام دے کر مسلمانوں کو موجودہ دورمیں دینی خدمت کا جو اسلوب عطا کیا ہے وہ قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے ۔([42])

بیماری میں بھی حُقوقُ اللہ کی پاسداری

حضور حافظِ ملّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے دین ِمتین کی خدمت اور سنّیت کی آبیاری کے مُقدَّس جذبے کے تحت نہ دن دیکھا نہ رات، چنانچہ مسلسل کام اور بہت کم آرام


کی وجہ سے آپ علیل (بیمار)ہو گئے ڈاکٹروں نے آرام کی سخت تاکید کی مگر آپ نے درس و تدریس سے کنارہ نہ کیا۔ رَمَضان شریف میں اپنے مکان پر تشریف لے گئے مگربیماری کے باوجود ایک روزہ بھی تَرک نہ فرمایا، تراویح میں ختمِ قرآن فرمایا اورہر کام اپنے وقت پر ادا فرماتے  رہے۔ ([43])

وصالِ پُرملال

31مئی1976ء تقریباً شام چار بجے دیکھنے والوں کو یہ اُمید ہوچلی  کہ اب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جلد ہی صحت یاب ہوجائیں گے بلکہ رات دس بجے تک بھی آپ کی طبیعت میں کافی حد تک سُکون اور صحت یابی کے آثاردیکھے گئےمگر خلافِ اُمید آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یکم جمادی الاخری ۱۳۹۶ھ بمطابق31مئی1976ء رات گیارہ بج کر پچپن  منٹ پر داعیٔ اَجَل کو لَبَّیْک کہہ گئے اِنَّالِلّٰه وَاِنَّا اِلَیۡهِ رَاجِعُوۡنَ۔([44])آپ کی آخری آرام گاہ الجامعۃ ُالاشرفیہ مُبارکپور کے صحن  میں ”قدیم دارُالاِقامۃ “کے مغربی  جانب اور”عزیزُ المساجد“ کے شمال میں واقع ہےہر سال اسی تاریخ وفات پر آپ کے عُرس کا اِنعقاد بھی ہوتا ہے۔([45])

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہمیں ان مُقدَّس ہستیوں کے نَقْشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہواور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔


 

حیاتِ حافظِ ملت ایک نظر میں

واقعات

علاقہ

ہجرى

عىسوى

ولادت

بھوجپور

۱۳۱۲ھ

۱۸۹۴ء

تکمىل حفظ و تدریس مدرسہ حفظ ُالقرآن

بھوجپور

۱۳۳۴ھ

۱۹۱۵ء

عربى تعلىم کا آغاز بخدمت مولاناحکىم محمد شرىف مراد آبادى

مرادآباد

۱۳۳۹ھ

۱۹۲۱ء

حصولِ تعلىم کے لىے جامعہ نعىمىہ

مراد آباد

۱۳۳۹ھ

۱۹۲۱ء

دارُالعُلُوم مُعىنىہ اجمىرشرىف مىں حضرت صدرُ الشرىعہ سے اِکتسابِ عُلُوم

اجمیر شریف

۱۳۴۲ھ

۱۹۲۳ء

شىخ المشائخ حضرت اشرفى مىاںرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے بىعت وارادت

اجمیر شریف

تقرىبا ۱۳۵۰ھ

۱۹۳۱ء

دستاربندى

بریلی شریف

۱۳۵۱ھ

۱۹۳۲ء

تدریس کیلئے  مبارک پور میں تشریف  آوری

مبارکپور

۱۳۵۲ھ

۱۹۳۴ء

الجامعۃ الاشرفیہ (عربی یونیوسٹی )کا سنگ بنیاد

مبارکپور

۱۳۹۲ھ

۱۹۷۲ء

وصال پُر ملال

مبارکپور

۱۳۹۶ھ

۱۹۷۶ء

 

فہرس

عنوان

صفحہ

عنوان

صفحہ

دُرُود شریف کی فضلیت

1

طلبہ پر شفقت

12

ولادتِ باسعادت

1

وقت کی پابندی

12

دا دا حضور کی پیشن گوئی

2

سنت سے  محبت

14

والد ماجدکی خواہش

2

سنت پر عمل کی برکتیں

15

حافظِ ملّت کے والدین ماجدین

2

حافظِ ملّت کی سادگی اور حَیا

16

اِبتدائی تعلیم اورحفظ ِقرآن

3

صرف سوکھى روٹى کھا کر پانى پى لىا

16

سلسلہ ٔتعلیم رُک جانے پر اظہار جذبات

4

حدیث مبارکہ کی عملی تصویر

17

سلسلۂ تعلیم کا دوبارہ آغاز

4

کفاىت شعارى اور سخاوت

18

جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ

5

حافظِ ملّت  کى خصوصى ادائے مَحَبَّت

20

صدرُ الشریعہ کی صحبت کیسے ملی ؟

7

بغیر پیٹرول کے گاڑی چل پڑی

20

صدرُ الشریعہ کی  شفقت

7

گرتی ہوئے چھت کو روک دیا

21

آپ کے اساتذۂ کرام

8

حافظ ملت کی دینی خدمات

22

صدرُ الشریعہ کےحکم کی تعمیل

9

حافظِ ملت شخصیت ساز تھے

22

مبارک پور میں آمد

9

آپ کی تصانیف

23

دارُالعُلُوم  اشرفیہ سے اِسْتِعفیٰ اورپھر واپسی

10

آپ کے تلامذہ

24

اُستادکا ادب

10

حافظِ ملّت کےملفوظات

25

کتابوں کا ادب

11

اَزْواج و اَولاد

26

قرآنِ پاک کا ادب

11

بیعت و خلافت

27

جانشینِ حافظِ ملت

27

وصالِ پُرملال

29

حافظ ملت کامقام علمائے  کرام کی نظر میں

27

حیاتِ حافظِ ملت ایک نظر میں

30

بیماری میں بھی حقوقُ اللہ کی پاسداری

28

ماخذ و مراجع

32

ماخذ و مراجع

نمبر شمار

ماخذ ومراجع

مطبوعہ

1

صحیح البخاری

دار الکتب العلمية بیروت،۱۴۱۹ھ

2

مشکاة المصابیح

دارالکتب العلمية بیروت،۱۴۲۱ھ

3

فردوسُ الاخبار

دار الفکر بیروت،۱۴۱۸ھ

4

مراۃ المناجیح

ضیاء القرآن  مرکز الاولیاءلاہور

5

حیات حافظ ملت

المجمع الاسلامی مبارک پور ہند

6

مختصر سوانح حافظ ملت

المجمع الاسلامی مبارک پور ہند۱۴۲۸ھ

7

شریعت وطریقت

مکتبۃ  المدینہ باب المدینہ کراچی۲۰۰۳ء

8

نیکی کی دعوت

مکتبۃ  المدینہ باب المدینہ کراچی۱۴۳۲

 



[1] فردوسُ الاخبار۱/۴۲۲،حدیث:۳۱۴۹

[2] مختصر سوانح حافظ ملت ص:۱۸بتغیر ،وغیرہ

[3] حیات حافظ ملت ص:۵۳ملخصاً

[4] حیات حافظ ملت ص۵۴ملخصاً

[5] حیات حافظ ملت ص۵۵ملخصاً

[6] مختصر سوانح حافظ ملت، ص۲۲ملخصاً

[7] حافظ ملت نمبر ،ص ۲۳۸ملخصاً

[8] مختصر سوانح حافظ ملت، ص۲۳،۲۴ملخصاً

[9] مختصر سوانح حافظ ملت ص: ۲۴ملخصاًوغیرہ

[10] مشکاۃالمصابیح،کتاب العلم، الفصل الثالث ۱/۶۸،حدیث: ۲۵۳

[11] مراٰۃ المناجیح ۱/۲۱۸

[12] مختصر سوانح حافظ ملت، ص ۲۴وغیرہ

[13]  حافظ ملت نمبر، ص۲۳۲ملخصاًوغیرہ

[14] حیات حافظ ملت،ص۶۲،۶۳ملتقطاً

[15] سوانح حافظ ملت، ص۲۷ ملتقطاً

[16] سوانح حافظ ملت، ص۳۹ تا ۴۰ ،وغیرہ

[17] حیات حافظ ملت، ص۶۵۰تا ۷۰۰ ،ملتقطاََ

[18] حیات حافظ ملت،ص۷۰ ملخصاً

[19] حیات حافظ ملت، ص۶۶بتغیر

[20] حیات حافظ ملت، ص۶۶

[21] حیات حافظ ملت، ص۱۸۱

[22] حیات حافظ ملت، ص۷۹تا ۸۰ملخصاً

[23] حیات حافظ ملت ص۱۷۵،۷۹ا ،وغیرہ

[24] حیات حافظ ملت ص۷۹ملخصاً 

[25] بخاری،کتاب الرقاق،باب القصد والمداومة علی العمل، ۴ / ۲۳۷،حدیث :۶۴۶۴

[26] حیات حافظ ملت، ص۷۹ملخصاً

[27] بخاری ،کتاب الایمان ،باب من الایمان ان  یحب الخ، ۱/۱۶، حدیث :۱۳

[28] حیات حافظ ملت ص:۱۸۹ ملخصاً

[29] شریعت وطریقت ، ص ۱۴

[30] حیات حافظ ملت، ص۱۷۱ملخصاً

[31] حیات حافظ ملت، ص۲۱۲ملخصاً

[32] حیات حافظ ملت، ص۵۳۳،ملخصاً

[33] حیات حافظ ملت، ص۳۰۷،بتغیر

[34] سوانح حافظ ملت، ص۷۳ملخصاً

[35] حیات حافظ ملت ،ص۱۲۸ تا۱۳۰ ،ملتقطاً

[36] سوانح حافظ ملت ،ص۷۴ تا ۷۶ ملتقطاً

[37] حیات حافظ ملت، ص۵۶ ملخصاً

[38] سوانح حافظ ملت، ص۲۲ملخصاً

[39] حیات حافظ ملت، ص ۵۷ملخصاً

[40] حیات حافظ ملت، ص۸۲۵

[41] حیات حافظ ملت، ص۸۲۴بتغیر

[42] حیات حافظ ملت، ص۸۲۶

[43] حیات حافظ ملت، ص ۸۰۵ملخصاً

[44] حیات حافظ ملت، ص ۸۰۹ملخصاً،وغیرہ

[45] سوانح حافظ ملت، ص ۵۸ملتقطاً