وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۷۴)

ترجمۂکنزالایمان: اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے فرمایا، کیا تم بتوں کو (اپنا) معبود بناتے ہو۔ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔

 { وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ: اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ سے فرمایا۔} یہ آیت مشرکینِ عرب پر حجت ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قابلِ تعظیم جانتے تھے اور اُن کی فضیلت کے معترف تھے انہیں دکھایا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بت پرستی کو کتنا بڑا عیب اور گمراہی بتاتے ہیں اور اپنے چچا آزر سے فرما رہے ہیں کہ کیا تم بتوں کو اپنا معبود بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔ تو جب حضرت ابراہیم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بتوں سے اس قدر نفرت کرتے ہیں تو اے اہلِ مکہ! اگر تم ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومانتے ہو تو تم بھی بت پرستی چھوڑ دو۔

آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا چچا تھا یا باپ:

            یہاں آیت میں آزر کیلئے ’’اَبْ‘‘ کا لفظ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا ایک معنی ہے ’’باپ‘‘ اور دوسرا معنی ہے ’’چچا‘‘  اور یہاں اس سے مراد چچا ہے، جیسا کہ قاموس میں ہے : آزر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے چچا کا نام ہے۔ (القاموس المحیط، باب الراء، فصل الہمزۃ، ۱ / ۴۹۱، تحت اللفظ: الازر)

            اور امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ’’مَسَالِکُ الْحُنَفَاء ‘‘ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ نیزچچا کو باپ کہنا تمام ممالک میں معمول ہے بالخصوص عرب میں اور قرآن و حدیث میں بھی چچا کو باپ کہنے کی مثالیں موجود ہیں ، جیساکہ قرآنِ کریم میں ہے

’’ نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًا‘‘(بقرہ:۱۳۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان:ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ و اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے۔

          اس میں حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے آباء میں ذکر کیا گیا ہے حالانکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے چچا ہیں۔ اور حدیث شریف میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ رُدُّوْاعَلَیَّ اَبِیْ‘‘ میرے باپ کو میرے پاس لوٹا دو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، حدیث فتح مکۃ، ۸ / ۵۳۰، الحدیث:۳) یہاں ’’اَبِی ْ‘‘ سے حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مراد ہیں جو کہ حضورِا قدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے چچا ہیں۔

وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ(۷۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اس لیے کہ وہ عینُ الیقین والوں میں ہوجائے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی عظیم سلطنت دکھاتے ہیں اور اس لیے کہ وہ عینُ الیقین والوں میں سے ہوجائے۔

{ وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ: اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ  جس طرح حضرت ابراہیم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دین میں بینائی عطا فرمائی ایسے ہی ہم انہیں آسمانوں اور زمین کے ملک دکھاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  نے فرمایا کہ اس سے آسمانوں اور زمین کی مخلوق مراد ہے۔ حضرت مجاہد اور حضرت سیدنا سعید بن جبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ اس سے آسمانوں اور زمین کی نشانیاں مراد ہیں اور وہ اِس طرح کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکوبیتُ المقدس کے صَخرہ پر کھڑا کیا گیا اور آپ کے لئے تمام آسمانوں کا مشاہدہ کھول دیا گیا یہاں تک کہ آپ نے عرش و کرسی اور آسمانوں کے تمام عجائب اور جنت میں اپنے مقام کو معائنہ فرمایا پھر آپ کے لئے زمین کا مشاہدہ کھول دیا گیا یہاں تک کہ آپ نے سب سے نیچے کی زمین تک نظر کی اور زمینوں کے تمام عجائبات دیکھے ۔ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ رُویت باطنی نگاہ کے ساتھ تھی یا سر کی آنکھوں سے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۵، ۲ / ۲۸)

            پھر اس معراجِ ابراہیمی کا مقصد بیان فرمایا کہ ہم نے یہ نشانیاں انہیں اس لئے دکھائیں کہ وہ دیکھ کر یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں  کیونکہ ہر ظاہر و مخفی چیز اُن کے سامنے کردی گئی اور مخلوق کے اعمال میں سے کچھ بھی ان سے نہ چھپا رہا۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عظیم معراج ہوئی  مگر ہمارے آقا، حضور سیدُالعالمین، محمد رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اس سے بہت بڑھ کر معراج ہوئی حتّٰی کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  ’’ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ(۸) فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى ‘‘کے مقام پر فائز ہوگئے۔

فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ-قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ(۷۶)فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ(۷۷)فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ(۷۸)

 ترجمۂکنزالایمان: پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا ایک تارا دیکھا بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا بولے مجھے خوش نہیں آتے ڈوبنے والے۔ پھر جب چاند چمکتا دیکھا بولے اسے میرا رب بتاتے ہو پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں ہوتا۔پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا بولے اسے میرا رب کہتے ہو یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب ان پر رات کا اندھیرا چھایا تو ایک تارا دیکھا، فرمایا : کیا اسے میرا رب ٹھہراتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اگر مجھے میرے رب نے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہوتا۔ پھر جب سورج کو چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔

{ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ : تو جب ان پر رات کا اندھیرا چھایا۔} مفسرین اور مؤرخین کا بیان ہے کہ نمرود بن کنعان بڑا جابر بادشاہ تھا، سب سے پہلے اُسی نے تاج سر پر رکھا۔ یہ بادشاہ لوگوں سے اپنی پوجا کرواتا تھا، کاہن اور نجومی بڑی کثرت سے اس کے دربار میں حاضر رہتے تھے۔ نمرود نے خواب دیکھا کہ ایک ستارہ طلوع ہوا ہے اور اس کی روشنی کے سامنے آفتاب وماہتاب بالکل بے نور ہوگئے۔ اس سے وہ بہت خوف زدہ ہوااور اس نے کاہنوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس سال تیری سلطنت میں ایک فرزند پیدا ہوگا جو تیرے ملک کے زوال کا باعث ہوگا اور تیرے دین والے اس کے ہاتھ سے ہلاک ہوں گے۔ یہ خبر سن کر وہ پریشان ہوا اور اُس نے حکم دیا کہ جو بچہ پیدا ہو قتل کر ڈالا جائے اور مرد عورتوں سے علیحدہ رہیں اور اس کی نگہبانی کے لئے ایک محکمہ قائم کردیا گیا مگر تقدیرات ِالٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے ۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی والدہ ماجدہ حاملہ ہوئیں اور کاہنوں نے نمرود کو اس کی بھی خبر دی کہ وہ بچہ حمل میں آگیا لیکن چونکہ حضرت کی والدہ صاحبہ کی عمر کافی کم تھی ان کا حمل کسی طرح پہچانا ہی نہ گیا۔ جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ کی والدہ اس تہ خانے میں چلی گئیں جو آپ کے والد نے شہر سے دور کھود کر تیار کیا تھا، وہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت ہوئی اور وہیں آپ رہے۔ پتھروں سے اس تہ خانہ کا دروازہ بند کردیا جاتا تھا، روزانہ والدہ صاحبہ دودھ پلا آتی تھیں اور جب وہاں پہنچتی تھیں تو دیکھتی تھیں کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی انگلی کا کنارہ چوس رہے ہیں اور اس سے دودھ برآمد ہوتا ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت جلد بڑھتے تھے۔ اس میں اختلاف ہے کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تہ خانہ میں کتنا عرصہ رہے، بعض کہتے ہیں سات برس اور بعض نے کہا کہ تیرہ برس اور بعض نے کہا کہ سترہ برس رہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۷۶، ۲ / ۲۹-۳۰)

اسلامی عقیدہ اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ :

          یہ مسئلہ یقینی ہے کہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہرحال میں معصوم ہوتے ہیں اور وہ شروع ہی سے ہر وقت معرفت ِ الٰہی سے شناسا ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کی تفسیر سمجھنے کیلئے قرآنِ پاک میں بیان کردہ واقعے کو ذیل میں ذرا تفصیل سے پڑھئے۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ابتدا ہی سے توحید کی حمایت اور کفریہ عقائد کارد کرنا شروع فرما دیا اور پھر جب ایک سوراخ سے رات کے وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے زہرہ یا مشتری ستارہ کو دیکھا تو لوگوں کے سامنے توحید ِ باری تعالیٰ کی دلیل بیان کرنا شروع کردی کیونکہ اس زمانہ کے لوگ بت اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ایک نہایت نفیس اور دل نشیں پیرایہ میں انہیں غوروفکر کی طرف رہنمائی کی جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تمام جہان عدم سے وجود میں آنے والا ہے اور پھر ختم ہونے والا ہے تو یہ معبود نہیں ہوسکتا بلکہ تمام جہان بذات ِ خودکسی وجود میں لانے والی ذات کا محتاج ہے جس کے قدرت وا ختیار سے اس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ پہلے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ستارے کو دیکھا تو فرمایا کہ’’ کیا اسے میرا رب کہتے ہو ؟پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا کہ’’ میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔یعنی جس میں ایسے تغیر ات ہورہے ہیں وہ خدا نہیں ہوسکتا۔ پھر اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے چاند کو چمکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اگر مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّنے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہوجاتا۔ اس میں اُس قوم کو تنبیہ ہے کہ جو چاند کومعبود مانتے تھے، انہیں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے گمراہ قرار دیا اور خود کو ہدایت پر۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ باتیں ان کا رد کرنے کیلئے ہی تھیں۔ چاند کے معبود نہ ہونے پر بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے یہی دلیل بیان فرمائی کہ اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا قابلِ فنا ہونے کی دلیل ہے۔ پھر اس کے بعد آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ’’ کیا اسے میرا رب کہتے ہو ؟یہ تو ان سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّکاشریک ٹھہراتے ہو۔ یوں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ثابت کردیا کہ ستاروں میں چھوٹے سے بڑے تک کوئی بھی رب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا ،ان کا معبود ہونا باطل ہے اور قوم جس شرک میں مبتلا ہے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس سے بیزاری کا اظہار کردیا اور اس کے بعد دینِ حق کا بیان فرمایا جو اگلی آیتوں میں آرہا ہے۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ستارے، چاند اور سورج کے بارے میں فرامین لوگوں کو سمجھانے کیلئے تھے اور معاذاللہ، اپنے بارے میں نہ تھے اس کی بہت واضح دلیل یہ بھی ہے کہ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام نےستارے، چاند اور سورج کے بارے یہ فرمایا تو کیا آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس سے پہلے دن رات کے فرق کو اور سورج چاند کے غروب ہونے کو کبھی نہیں دیکھا تھا، ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ تو معلوم ہوا کہ سورج چاند ستارے کے حوالے سے آپ کا کلام صرف قوم کو سمجھانے کیلئے تھا اور اس چیز کا اس سے بھی زیادہ صراحت کے ساتھ بیان خود نیچے آیت نمبر 83 میں موجود ہے۔

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹)

ترجمۂکنزالایمان: میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنائے ایک اسی کا ہوکر اور میں مشرکوں میں نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

{ اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ :  میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے جھوٹے معبودوں سے بیزاری ظاہر کرنے کے بعد اپنا عقیدہ اور دینِ حق کا اعلان فرما دیا چنانچہ فرمایا کہ’’ میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ یعنی اسلام کے سوا باقی تمام ادیان سے جدا رہ کرمیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے جھکنے والا ہوں۔

حنیف کے معنی:

            اس آیت میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے خود کو حنیف فرمایا۔ حنیف کے معنی ہیں ’’ تمام جھوٹے دینوں سے صاف اور ہرباطل سے جدا۔ ‘‘

دینِ حق کے اِستحکام کی صورت:

             اس سے معلوم ہوا کہ دینِ حق کا قیام واستحکام جب ہی ہوسکتا ہے جب کہ تمام باطل دینوں سے بیزاری اور دینِ حق پر پختگی ہو۔ دین کے معاملے میں پلپلے پن کا مظاہرہ کرنے ، سب کو اپنی اپنی جگہ درست ماننے اور سب مذاہب میں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کرنے سے دینِ حق کا استحکام ممکن نہیں۔

 نماز سے پہلے پڑھا جانے والاوظیفہ:

            حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نماز شروع کرنے سے پہلے ایک وظیفہ پڑھا کرتے تھے ، اس کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَجب نماز شروع کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تو یہ پڑھا کرتے تھے  ’’وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا  وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ  لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمان ہوں۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ، ص۳۹۰، الحدیث: ۲۰۱(۷۷۱))

وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِؕ-وَ لَاۤ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْــٴًـاؕ-وَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًاؕ-اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ(۸۰)

ترجمۂکنزالایمان: اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی کہا کیا اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو وہ تو مجھے راہ بتا چکا اور مجھے ان کا ڈر نہیں جنہیں تم شریک بتاتے ہو ہاں جو میرا ہی رب کوئی بات چاہے میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی( ابراہیم نے) فرمایا: کیاتم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ تو مجھے ہدایت عطا فرما چکا اور مجھے ان کا (کوئی) ڈر نہیں جنہیں تم شریک بتاتے ہو البتہ یہ کہ میرا رب کوئی بات چاہے۔میرے رب کا علم ہر چیز کو محیط ہے تو کیا تم نصیحت نہیں مانتے ؟

{ وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ :اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اعلانِ حق فرمایا، جھوٹے معبودوں کا رد کیااور توحید ِ باری تعالیٰ کو بیان فرمانا شروع کیا تو قوم آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے جھگڑنے لگی اور کہنے لگی کہ’’ اے ابراہیم! بتوں سے ڈرو، اُنہیں برا کہنے سے خوف کھاؤ، کہیں آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچ جائے۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو؟ حالانکہ وہ تو مجھے اپنی توحید و معرفت کیہدایت عطا فرما چکا اور مجھے اُن بتوں کا کوئی ڈر نہیں جنہیں تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک بتاتے ہو ،کیونکہ وہ بت بے جان ہیں ، نہ نقصان دے سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچاسکتے ہیں ،اُن سے کیا ڈرنا۔ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا سوائے اس کے  کہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ کوئی بات چاہے تو وہ ہوسکتی ہے، کیونکہ میرا رب عَزَّوَجَلَّ قادرِ مُطْلَق ہے نہ یہ کہ تمہارے بتوں کے چاہنے سے کچھ ہو۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۳۱-۳۲، مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۳۳۰، ملتقطاً)

            سُبْحَانَ اللہ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ایسے خطرناک موقعہ پر بھی ایمان نہ چھپایا بلکہ اپنے ایمان کا اعلان فرما دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پیغمبرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دل میں مخلوق کی ایسی ہیبت نہیں آسکتی جو انہیں فرائض کی ادائیگی سے روک دے۔

وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ عَلَیْكُمْ سُلْطٰنًاؕ-فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِۚ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۘ(۸۱)

 ترجمۂکنزالایمان:اور میں تمہارے شریکوں سے کیونکر ڈروں اور تم نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کا شریک اس کو ٹھہرایا جس کی تم پر اس نے کوئی سند نہ اتاری تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ سزا وار کون ہے اگر تم جانتے ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں ؟ اور تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کا شریک اس کو ٹھہرایا جس کی کوئی دلیل اللہ نے تم پرنہیں اتاری تو دونوں گروہوں میں امان کا زیادہ حقدار کون ہے؟ اگر تم جانتے ہو۔

{ وَ كَیْفَ اَخَافُ مَاۤ اَشْرَكْتُمْ: اور میں تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں ؟} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مزید فرمایا کہ ’’میں  تمہارے شریکوں سے کیوں ڈروں جو بے جان، جمادات اور بالکل عاجز و بے بس ہیں اور مجھے ڈرانے کی بجائے تو تمہیں ڈرنا چاہیے کیونکہ تم نے ان بتوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرایا جن کے شریک ہونے کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اس بات کو سامنے رکھ کہ غور کرو کہ امن کا مستحق کون ہے وہ مومن جس کے پاس اپنے عقیدے کی حقانیت کے دلائل ہیں یا وہ مشرک امن کا مستحق ہے جس کے پاس اس کے عقیدے کی کوئی معقول و قابلِ قبول دلیل نہیں ہے۔

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲)

ترجمۂکنزالایمان: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں شرک کو نہ ملایا تو انہی کے لیے امان ہے اوریہی ہدایت یافتہ ہیں۔

{ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: وہ جو ایمان لائے۔}اس آیت میں ایمان سے مراد ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ماننا اور ظلم سے مراد شرک ہے۔ البتہ معتزلہ اس آیت میں ’’ظلم‘‘ سے مراد گناہ لیتے ہیں ، یہ صحیح احادیث کے خلاف ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی توصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی ’’ہم میں سے ایسا کون ہے جو اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :’’اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو حضرت لقمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہی کہ ’’ اے میرے بیٹے !اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کسی کو شریک نہ کرنا، بیشک شرک بڑا ظلم ہے۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: ولقد آتینا لقمان الحکمۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۵۱، الحدیث: ۳۴۲۹)

وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖؕ-نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُؕ-اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(۸۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور یہ ہماری دلیل ہے کہ ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم پر عطا فرمائی ہم جسے چاہیں درجوں بلند کریں بیشک تمہارا رب علم و حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ ہماری مضبوط دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں عطا فرمائی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کردیتے ہیں۔ بیشک تمہارا رب حکمت والا ،علم والا ہے۔

{ وَ تِلْكَ حُجَّتُنَا: اور یہ ہماری مضبوط دلیل ہے۔} اس رکوع میں حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی شان اور دیگر انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظمت کا بیان ہے اور اس سارے بیان کا مقصد سب انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آقا، امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تسکین و تعلیم اور تربیت ہے ،جیسا کہ رکوع کے آخر میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا کثرت سے تذکرہ کرنا اور محفلوں ، مجلسوں کو اُن کے ذِکرپاک سے آراستہ کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّکو نہایت محبوب ہے اور ایمان کی طاقت اور عقیدہ ِ توحید کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی قوم کے سامنے سورج، چاند ، ستاروں کے ذریعے اور دیگر جو دلائل بیان فرمائے وہ سب دلائل اللہ عَزَّوَجَلَّنے انہیں عطا فرمائے تھے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سورج، چاند وغیرہا کو رب کہنا معاذاللہ بطورِ شرک نہیں بلکہ قوم کے سامنے بطورِ دلیل تھا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ یہ باتیں تو ہم نے انہیں بطور ِ دلیل کے عطا فرمائی تھیں۔

{ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ: ہم درجات بلند کرتے ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ ہم جس کے چاہتے ہیں علم ،عقل ، فہم اور فضیلت کے ساتھ درجات بلند کردیتے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دنیا میں علم و حکمت اور نبوت کے ساتھ اور آخرت میں قرب و ثواب کے ساتھ درجے بلند فرمائے۔

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَۙ(۸۴) وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں۔

{ وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ : اور ہم نے انہیں عطا فرمائے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت کا تذکرہ کیا گیا اور اس کے ساتھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولادِ مبارک کا تذکرہ کیا ۔ جن کے اسماءِ کریمہ آیت میں بیان ہوئے یہ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد میں سے ہیں اور یہ سارے نبی ہوئے۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مقام:

             حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ کے بعد جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممبعوث ہوئے سب آپ ہی کی اولاد سے تھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ‘‘ (عنکبوت:۲۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔

            تفسیرِ بغوی اور تفسیرِ خازن میں ہے ’’یُقَالُ اِنَّ اللہَ  لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا بَعْدَ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ نَسْلِہٖ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو نبی مبعوث فرمایا وہ ان کی نسل سے تھا۔ (بغوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۳۹۹-۴۰۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۳ / ۴۴۹)

            تفسیرِ قرطبی میں ہے ’’لَمْ یَبْعَثِ اللہُ نَبِیًّا مِنْ بَعْدِ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ صُلْبِہٖ‘‘ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بعد تمام انبیاء ان کے صلب سے مبعوث فرمائے۔ (قرطبی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۷ / ۲۵۵، الجزء الثالث عشر)

             تفسیرِ جلالین میں ہے ’’فَکُلُّ الْانبیاءِ بَعَدَ اِبْرَاہِیْمَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ ‘‘ پس حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کی اولاد میں سے تھے۔ (جلالین مع صاوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۲۷، ۴ / ۱۵۶۱)

            یاد رہے کہ سورۂ حدید کی آیت نمبر 26میں جو مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں کی اولاد میں نبوت رکھی، اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامچونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر المحیط، الحدید، تحت الآیۃ: ۲۶، ۸ / ۲۲۶)اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ قادیانی نبی ہر گز نہیں کیونکہ اگر قادیانی نبی ہوتا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ہوتا۔

وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ(۸۶) وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۸۷)

ترجمۂکنزالایمان: اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔اور کچھ ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بعض کو اور ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔  اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے (بھی) بعض کو (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں چن لیا اور ہم نے انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔

{ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ:اور اسماعیل اوریَسَع۔} اس آیت اور اس سے اوپر والی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر فرمایا اور ان کے ذکر میں جو ترتیب آیت میں موجود ہے وہ نہ توزمانہ کے اعتبار سے ہے اور نہ فضیلت کے اعتبار سے لیکن جس شان سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اسماء ذکر فرمائے گئے اس میں ایک عجیب لطیفہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی ہر ایک جماعت کو ایک خاص طرح کی کرامت و فضیلت کے ساتھ ممتاز فرمایا ،جیسے حضرت نوح، ابراہیم ، اسحق اور یعقوب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا پہلے ذکر کیا کیونکہ یہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اصول ہیں یعنی ان کی اولاد میں بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہوئے جن کے نسب انہیں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر نبوت کے بعد عظیم مقامات و مراتب میں سے ملک و اختیار اور سلطنت واقتدار ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا بہت بڑا حصہ عطا فرمایا اور اس شعبے کا زیادہ تر تعلق مقامِ شکر سے ہے۔ پھر اس کے بعد حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ مراتبِ رفیعہ (بلند مراتب) میں سے مصیبت و بلاء پر صابر رہنا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس مرتبے کے ساتھ ممتاز فرمایا پھر ملک ا ور صبر کے دونوں مرتبے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو عنایت کئے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے شدت و بلاء پر مدتوں صبر فرمایا، پھر اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ملک مصر عطا کیا۔ پھرحضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تذکرہ ہے کیونکہ معجزات کی کثرت اور دلائل و براہین کی قوت بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونعَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کے ساتھ مشرف کیا۔ پھرزہد اور ترک ِدنیا بھی مراتبِ معتبرہ میں سے ہے اور حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت الیاس عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اس کے ساتھ مخصوص فرمایا پھر ان حضرات کے بعداللہ تعالیٰ نے ان انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر فرمایا کہ جن کے نہ پیروکار باقی رہے اورنہ ان کی شریعت جیسے حضرت اسمٰعیل، حضرت یَسع، حضرت یونس اور حضرت لوط عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)

                اس شان سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا ذکر فرمانے میں ان کی کرامتوں اور خصوصیتوں کی ایک عجیب باریکی نظر آتی ہے۔

{ وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔} اِس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ عالَم یعنی جہان میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا تمام موجودات داخل ہیں تو فرشتے بھی اس میں داخل ہیں اور جب تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو فرشتوں پر بھی فضیلت ثابت ہوگئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۳)

ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ لَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۸۸)

ترجمۂکنزالایمان: یہ اللہ کی ہدایت ہے کہ اپنے بندوں میں جسے چاہے دے اور اگر وہ شرک کرتے تو ضرور ان کا کیا اکارت جاتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اگر وہ (بھی بالفرض) شرک کرتے تو ضرور ان کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔

{ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ:یہ اللہ کی ہدایت ہے۔}یہاں ہدایت سے مراد ا س چیز کی معرفت ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد ویکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور ا س معرفت کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے دین ، اپنی طاعت اور لوگوں کی طرف سے ٹھہرائے گئے اللہ تعالیٰ کے شریکوں سے بیزاری کا اظہار کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۸، ۲ / ۳۴)

{ وَ لَوْ اَشْرَكُوْا: اور اگر وہ(بھی بالفرض) شرک کرتے۔}اس آیت میں عوام و خواص سب لوگوں کو ڈرایا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہ ہوں کیونکہ جب فضیلت اور بلند مقام رکھنے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ اگر وہ (بھی بالفرض) شرک کرتے تو ضرور ان کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔ تو ان کے مقابلے میں اور لوگوں کا حال کیا ہو گا ۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۸، ۳ / ۶۲)

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَۚ-فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَ كَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ(۸۹)

ترجمۂکنزالایمان: یہ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور حکم اور نبوت عطا کی تو اگر یہ لوگ اس سے منکر ہوں تو ہم نے اس کیلئے ایک ایسی قوم لگا رکھی ہے جو انکار والی نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تو اگر کفار اِن چیزوں کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے اس کیلئے ایسی قوم مقرر کررکھی ہے جو ان چیزوں کا انکار کرنے والی نہیں۔

{ اُولٰٓىٕكَ: یہی وہ ہستیاں ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ جن انبیا ءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کیا گیا یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب، حکمت اور نبوت عطا کی ہے تو اگر یہ کفارِ مکہ کتاب، حکمت اور نبوت کا انکار کرتے ہیں تو ہم نے ان تمام چیزوں کے حقوق ادا کرنے کیلئے ایسی قوم مقرر کررکھی ہے جو ان چیزوں کا انکار کرنے والی نہیں۔ اس قوم سے یا انصار مراد ہیں یا مہاجرین یا تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یاتاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے والے وہ تمام مسلمان  جنہیں اللہ تعالیٰ خدمت ِدین کی توفیق بخشے جیسے مبلغین، علماء ،اولیاء سلاطین وغیرہا۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نصرت فرمائے گا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دین کو قوت دے گا اور اس کو تمام اَدیان پر غالب کرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ غیبی خبر واقع ہو گئی۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۸۹، ۲ / ۳۴)

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْؕ-قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًاؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠(۹۰)

ترجمۂکنزالایمان: یہ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت کی تو تم انہیں کی راہ چلو تم فرماؤ میں قرآن پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہی وہ (مقدس) ہستیاں ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی تو تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔ تم فرماؤ: میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ یہ صرف سارے جہان والوں کے لئے نصیحت ہے۔

{ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ: تو تم ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔}جلیلُ القدر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تذکرے کے بعد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آپ ان کی اِس ہدایت کی اقتدا کریں۔ علمائے دین نے اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہسرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَتمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہیں کیونکہ جو شرف و کمال اور خصوصیات و اوصاف جدا جدا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائے گئے تھے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے سب کو جمع فرمادیا اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو حکم دیا ’’ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ‘‘ تو جب آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَتمام ا نبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اوصافِ کمالیہ کے جامع ہیں تو بے شک سب سے افضل ہوئے ۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۴)

{ ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ: سارے جہان والوں کیلئے نصیحت۔}  اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کی طرف مبعوث ہیں اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی دعوت تمام مخلوق کو عام ہے اور کل جہان آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی اُمت ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۵)

وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَیْءٍؕ-قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ الَّذِیْ جَآءَ بِهٖ مُوْسٰى نُوْرًا وَّ هُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَهَا وَ تُخْفُوْنَ كَثِیْرًاۚ-وَ عُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوْۤا اَنْتُمْ وَ لَاۤ اٰبَآؤُكُمْؕ-قُلِ اللّٰهُۙ-ثُمَّ ذَرْهُمْ فِیْ خَوْضِهِمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۱)

ترجمۂکنزالایمان: اور یہود نے اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہیے تھی جب بولے اللہ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اتارا  تم فرماؤ کس نے اُتاری وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے روشنی اور لوگوں کے لیے ہدایت جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے ظاہر کرتے ہو اور بہت سا چھپالیتے ہو اور تمہیں وہ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا نہ تمہارے باپ دادا کو اللہ کہو پھر انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگی میں کھیلتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہودیوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا جب انہوں نے کہا : اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں نازل کی۔ تم فرماؤ: وہ کتاب کس نے اتاری تھی جسے موسیٰ لے کر آئے تھے؟ نور اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی، جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے تھے، کچھ ظاہر کرتے ہواور بہت کچھ چھپالیتے ہواور تمہیں وہ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا اورنہ تمہارے باپ دادا کو۔ تم کہو: ’’اللہ ‘‘پھر انہیں ان کی بیہودگی میں کھیلتے ہوئے چھوڑ دو۔

{ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ:اور یہودیوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت اپنے حِبْرُالاحْبار یعنی سب سے بڑے عالم مالک ابنِ صیف کو لے کرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے بحث کرنے آئی۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا، میں تجھے اُس پر وردگار کی قسم دیتا ہوں جس نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر توریت نازل فرمائی ،کیا توریت میں تو نے یہ دیکھا ہے؟ ’’ اِنَّ اللہَ یُبْغِضُ الْحِبْرَ السَّمِیْنَ‘‘ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّکو موٹا عالم ناپسند ہے۔ وہ کہنے لگا، ’’ہاں ، یہ توریت میں ہے‘‘۔ حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے فرمایا:’’ تو موٹا عالم ہی تو ہے ۔اس پروہ غضبناک ہو کر کہنے لگاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی آدمی پر کچھ نہیں اُتارا۔اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اس میں فرمایا گیا : وہ کتاب کس نے اُتاری جو موسیٰ لائے تھے؟ تو وہ لاجواب ہوگیا اور یہودی اُس پر برہم ہوگئے اور اس کو جھڑکنے لگے اور اس کو اُس کے عہدے سے معزول کردیا۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۱، ۲ / ۹۴، مدارک، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۱، ص۳۳۱-۳۳۲، ملتقطاً)

            مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ خیال رہے کہ موٹے پادری سے مراد وہ پادری تھے جو حرام خوری کرکے خوب موٹے تازے ہو جاتے تھے۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ویسی قدر نہ کی جیسا اس کی قدر کرنے کا حق تھا اور اس کی معرفت سے محروم رہے اور بندوں پر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کو نہ جانا۔ انہوں نے کہا : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں نازل کی۔ اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، تم انہیں جواب دو کہ اگراللہ عَزَّوَجَلَّ نے کوئی کتاب نہیں اتاری تو وہ کتاب کس نے اتاری تھی جسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاملے کر آئے تھے؟ جو سراپا نور اور لوگوں کے لیے ہدایت تھی اور جس کے تم نے الگ الگ کاغذ بنالیے تھے اور ان میں سے کچھ کو ظاہر کرتے ہو جس کا اظہار اپنی خواہش کے مطابق سمجھتے ہو جبکہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَاور ان کے دین کے بارے میں بہت کچھ چھپالیتے ہو اور اے یہودیو! تمہیں محمد مصطفی  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تعلیم اور قرآنِ کریم کے ذریعے وہ کچھ سکھایا جاتا ہے جو نہ تم کو معلوم تھا اور نہ تمہارے باپ دادا کو۔ مزید فرمایا کہ پھر یہودی اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سوال کا جواب نہ دے سکیں توتم خود جواب دے دینا کہ تورات کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل کیا تھا اور جیسے تورات کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نازل فرمایا تھا ایسے ہی قرآن کو بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہی نازل فرمایا ہے اوریہ جواب دینے کے بعد انہیں ان کی بیہودگی میں کھیلتے ہوئے چھوڑ دو کیونکہ جب آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حجت قائم کردی اور وعظ و نصیحت کا حق ادا کردیا اور ان کے لئے کسی عذر اور بہانے کی گنجائش نہ چھوڑی اوراس پر بھی وہ باز نہ آئیں تو انہیں ان کی بے ہودگی میں چھوڑ دیں۔یہ کفار کے حق میں وعید و تہدید ہے۔

وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ(۹۲)

ترجمۂکنزالایمان:اور یہ ہے برکت والی کتاب کہ ہم نے اُتاری تصدیق فرماتی ان کتابوں کی جو آگے تھیں اور اس لیے کہ تم ڈر سناؤ سب بستیوں کے سردار کو اور جو کوئی سارے جہان میں اس کے گرد ہیں اور وہ جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ،پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس لئے (اتری) تاکہ تم اس کے ذریعے مرکزی شہر اور اس کے اردگرد والوں کو ڈر سناؤ اور جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں وہی اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔

{ وَ هٰذَا كِتٰبٌ: اور یہ کتاب ہے۔} یہاں قرآنِ پاک کے بارے میں فرمایا کہ یہ  قرآنِ پاک برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ۔ یہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور ہم نے اسے اس لئے نازل فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس کے ذریعے مرکزی شہر مکہ مکرمہ اور اس کے اردگرد والوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب کی خبریں دو۔

{ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ:اور جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں۔}ارشاد فرمایا کہ جو لوگ آخرت اور اس میں موجود انواع و اقسام کے عذابات پر ایمان لاتے ہیں وہی اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں کیونکہ وہ برے انجام سے ڈرتے ہیں اور یہی خوف انہیں غورو فکر کرنے پر ابھارتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ا س پر ایمان لے آتے ہیں اور قرآنِ مجید پر ایمان لانے والے اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔(روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۲، ۳ / ۶۴)

            یہاں نماز کو بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ ایمان کے بعد سب سے اعلیٰ عبادت ہے اور جب بندہ تمام ارکان و شرائط کے ساتھ اس کی پابندی کرتا ہے تو دیگر عبادات اور طاعات کی پابندی کرنا بھی شروع کر دیتا ہے۔ا س سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ پانچوں نمازیں ان کے تمام ارکان و شرائط کے ساتھ پابندی سے ادا کی جائیں اور ان کی ادائیگی میں کسی طرح کی سستی اور کاہلی سے کام نہ لیا جائے۔اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اس تقاضے پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔[1]

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَ لَمْ یُوْحَ اِلَیْهِ شَیْءٌ وَّ مَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُؕ-وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَاسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْۚ-اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ(۹۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا کہے مجھے وحی ہوئی اور اسے کچھ وحی نہ ہوئی اور جو کہے ابھی میں اُتارتا ہوں ایسا جیسا خدانے اُتارا اور کبھی تم دیکھو جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں خواری کا عذاب دیا جائے گا بدلہ اس کا کہ اللہ پر جھوٹ لگاتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا کہے: میری طرف وحی کی گئی حالانکہ اس کی طرف کسی شے کی وحی نہیں بھیجی گئی اور جو کہے : میں بھی ابھی ایسا اُتار دوں گا جیسا اللہ نے اتارا ہے۔ اور اگر تم دیکھو جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس کے بدلے میں جو تم اللہ پر ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔

{ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔}یہ آیت مُسَیْلِمَہ کذّاب کے بارے میں نازل ہوئی جس نے یمن کے علاقے یمامہ میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ قبیلہ بنی حنیفہ کے چند لوگ اس کے فریب میں آگئے تھے ۔یہ کذاب ،سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے زمانۂ خلافت میں حضرت وحشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۲ / ۳۷) اس کے بارے میں فرمایا کہ  اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھے یا  نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے اور کہے کہ میری طرف وحی کی گئی حالانکہ اس کی طرف کسی شے کی وحی نہیں بھیجی گئی ۔یہ آیت صراحت کے ساتھ مرزا قادیانی کا بھی رد کرتی ہے کیونکہ وہ بھی اس کا مدعی تھا کہ میری طرف وحی نازل کی جاتی ہے۔ آج کل قادیانی لوگوں کو مختلف طریقوں سے دھوکہ دیتے ہیں۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ مرزا غلام احمد نے نبوت کا نہیں بلکہ مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور ہم اسے صرف مجدد مانتے ہیں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ مرزا نے مطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ ایک خاص قسم کی نبوت کا دعویٰ کیا تھاحالانکہ مرزا قادیانی کی کتابوں میں بیسیوں جگہ مُطلق نبوت و رسالت کا دعویٰ موجود ہے اور جو ظلی و بروزی نبوت کا دعویٰ ہے وہ بھی نبوت ہی کا دعویٰ ہے اور وہ بھی قطعاً کفر ہے، نیزمرزا کے منکروں کوکافر اور ماننے والوں کو صحابی اور بیویوں کو ازواجِ مطہرات کہنا ان کی کتابوں میں عام ہے لہٰذا کسی بھی مسلمان کو ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔

{ وَمَنْ قَالَ:اور جس نے کہا۔} آیت کا یہ حصہ عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوا جو کاتب ِ وحی تھا۔ جب آیت ’’ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ‘‘ نازل ہوئی ، اس نے اس کو لکھا اور آخر تک پہنچتے پہنچتے انسانی پیدائش کی تفصیل پر مطلع ہو کر متعجب ہوا اور اس حالت میں آیت کا آخر ی حصہ ’’ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ‘‘ بے اختیار اس کی زبان پر جاری ہوگیا ۔ اس پر اس کو یہ گھمنڈ ہوا کہ مجھ پر وحی آنے لگی اور مرتد ہوگیا، یہ نہ سمجھا کہ نورِ وحی اور قوت و حسنِ کلام کی وجہ سے آیت کا آخری کلمہ خود زبان پر آگیا ہے اور اِس میں اُس کی قابلیت کا کوئی دخل نہ تھا۔ زورِ کلام بعض اوقات خود اپنا آخر بتادیا کرتا ہے جیسے کبھی کوئی شاعر نفیس مضمون پڑھے وہ مضمون خود قافیہ بتا دیتا ہے اور سننے والے شاعر سے پہلے قافیہ پڑھ دیتے ہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر گز ویسا شعر کہنے پر قادر نہیں تو قافیہ بتانا ان کی قابلیت نہیں ، کلام کی قوت ہے اور یہاں تو نورِوحی اور نورِ نبی سے سینہ میں روشنی آتی تھی چنانچہ مجلس شریف سے جدا ہونے اور مرتد ہوجانے کے بعد پھر وہ ایک جملہ بھی ایسا بنانے پر قادر نہ ہوا جو نظمِ قرآنی سے ملتا جلتا ہو۔ آخر کار زمانہ ِاقدس ہی میں فتحِ مکہ سے پہلے پھر اسلام سے مشرف ہوگیا۔ (تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۳، ۴ / ۳۰، الجزء السابع)اس کے بارے میں فرمایا کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون؟ جو کہے : عنقریب میں بھی ایسی ہی کتاب اُتار دوں گا جیسی اللہ عَزَّوَجَلَّنے نازل کی ہے۔

{ وَ لَوْ تَرٰۤى : اور اگر تم دیکھو۔} یہاں سے کافروں کی موت کے وقت کے حالات بیان ہوئے ہیں ، فرمایا کہ اگر تم کافروں کی حالت دیکھو تو بڑی خوفناک حالت دیکھو گے جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ارواح قبض کرنے کے لئے جھڑکتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اپنی جانیں نکالو۔ آج تمہیں اس کے بدلے میں ذلت کا عذاب دیا جائے گاجو تم  نبوت اور وحی کے جھوٹے دعوے کرکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے شریک اور بیوی بچے بتا کر اللہ عَزَّوَجَلَّپر ناحق باتیں کہتے تھے۔

موت کے وقت مسلمان اور کافر کے حالات :

            اس آیت میں موت کے وقت کافر کے حالات بیان ہوئے اور حدیثِ پاک میں مسلمان اور کافر دونوں کی موت کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب مسلمان کی موت قریب ہوتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑے لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں :اے روح! تو راضی خوشی حالت میں اور ا س حال میں نکل کہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہے،تُو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے رزق سے اپنے پروردگار کی طرف نکل جو ناراض نہیں ہے۔پھر روح عمدہ خوشبودار مشک کی طرح خارج ہوتی ہے اور فرشتے اسے اسی وقت اٹھا کر آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں :یہ کتنی اچھی خوشبو ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اس کے بعد اُسے مسلمانوں کی روحوں کے پاس لے کر آتے ہیں۔وہ روحیں اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتی ہیں جو کسی گئے ہوئے شخص کے واپس آنے پر خوش ہوتا ہے اور وہ روحیں ا س سے دریافت کرتی ہیں : دنیا میں پیچھے رہنے والا فلاں شخص کیسے کام کرتا ہے؟ پھر روحیں کہتی ہیں :ابھی ٹھہروا ور اسے چھوڑ دو، یہ دنیا کے غم میں ہے۔ یہ روح کہتی ہے: کیا وہ شخص تمہارے پاس نہیں تھا؟ (یعنی دنیا سے تو وہ آچکا تو کیا تمہارے پاس نہیں ہے؟) روحیں کہتی ہیں :(اگر وہ دنیا سے آچکا اور ہمارے پاس نہیں ہے تو پھر) وہ جہنم میں گیا ہو گا۔اور جب کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے بوریے کا ایک ٹکڑا ڈالے آ کر کہتے ہیں : اے روح!تو اللہتعالیٰ کے عذاب کی طرف نکل کیونکہ تو اللہتعالیٰ سے ناراض ہے اوراللہ تعالیٰ تجھ سے ناراض ہے، اس کے بعد وہ جلے ہوئے بدبودار مردار کی طرح نکلتی ہے حتّٰی کہ فرشتے اسے زمین کے دروازے پر لاتے ہیں تو فرشتے پوچھتے ہیں :یہ کیا بدبو ہے، یہاں تک کہ اسے کافروں کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔(سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب ما یلقی بہ المؤمن من الکرامۃ۔۔۔ الخ، ص۳۱۳، الحدیث: ۱۸۳۰)

وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْۚ-وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِیْكُمْ شُرَكٰٓؤُاؕ-لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۠(۹۴)

 ترجمۂکنزالایمان: اور بیشک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور پیٹھ پیچھے چھوڑ آئے جو مال متاع ہم نے تمہیں دیا تھا اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کا تم اپنے میں ساجھا بتاتے تھے بیشک تمہارے آپس کی ڈور کٹ گئی اور تم سے گئے جو دعوے کرتے تھے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک تم ہمارے پاس اکیلے آئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اورتم اپنے پیچھے وہ سب مال و متاع چھوڑ آئے جو ہم نے تمہیں دیا تھا اور (آج) ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تم میں (ہمارے) شریک ہیں۔ بیشک تمہارے درمیان جدائی ہوگئی اور تم سے وہ غائب ہوگئے جن (کے معبود ہونے) کا تم دعویٰ کرتے تھے۔

{ وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى: اور تم ہمارے پاس اکیلے آئے۔} گزشتہ آیت میں کافروں کی موت کے احوال بیان ہوئے تھے اور اس آیت میں قیامت کے احوال کا بیان ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ان کافروں سے کہا جائے گا: بیشک تم ہمارے پاس حساب و جزا کے لئے ایسے اکیلے آئے جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، نہ تمہارے ساتھ مال ہے ،نہ جاہ، نہ اولاد جن کی محبت میں تم عمر بھر گرفتار رہے اورنہ بت جنہیں پوجتے رہے۔ آج اُن میں سے کوئی تمہارے کام نہ آیابلکہ تم وہ سب مال ومتاع اپنے پیچھے چھوڑ آئے جو ہم نے تمہیں دیا تھا اور آج ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنہیں تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہارے عبادت کرنے میں ہمارے شریک ہیں۔ بیشک تمہارے درمیان جدائی ہوگئی اور تم سے وہ بت غائب ہوگئے جن کے معبود ہونے کا تم دعوی کرتے تھے۔

قبر و حشر کی تنہائی کے ساتھی بنانا عقلمندی ہے:

            یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان قبر میں اکیلا ہو گااور دنیا کے مال و متاع،اہل و عیال ،عزیز رشتہ دار اور دوست احباب میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہ جائے گا بلکہ یہ سب اسے قبر کے تاریک گڑھے میں تنہا اور اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں گے، اسی طرح میدانِ حشر میں بھی انسان اس طرح اکیلا ہو گا کہ اس وقت اس کا ساتھ دینے کی بجائے ہر ایک اس سے بے نیا ز ہو کر اپنے انجام کی فکر میں مبتلا ہو گا ، یونہی بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال کا حساب دینے بھی یہ تنہا حاضر ہو گا لہٰذا دانائی یہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے اپنے ایسے ساتھی بنا لئے جائیں جو قبر کی وحشت انگیز تنہائی میں اُنْسِیَّت اور غمخواری کا باعث ہوں اور قیامت کے دن نفسی نفسی کے ہولناک عالم میں تسکین کا سبب بنیں اور یہ ساتھی نیک اعمال ہیں جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں ، دو واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ا س کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے اہل و عیال، اس کا مال اور ا س کا عمل اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کے اہل و عیال اور ا س کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ا س کا عمل باقی رہتا ہے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت، ۴ / ۲۵۰، الحدیث: ۶۵۱۴)[2]

اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰىؕ-یُخْرِ جُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِ جُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ(۹۵)

ترجمۂ کنزالایمان: بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو چیر نے والا ہے زندہ کو مردہ سے نکالے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا یہ ہے اللہ تم کہاں اوندھے جاتے ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہدانے اور گٹھلی کو چیر نے والا ہے، زندہ کو مردہ سے نکالنے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہ اللہہے تو تم کہاں پھرے جاتے ہو؟

{ فَالِقُ الْحَبِّ : دانے کو چیرنے والا۔} توحیدو نبوت کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ قدرت ، علم اور حکمت کے دلائل ذکر فرمائے کیونکہ مقصود ِاعظم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی تمام صفات و افعال کی معرفت ہے اور یہ جاننا ہے کہ وہی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے اور جو ایسا ہو وہی مستحقِ عبادت ہوسکتا ہے نہ کہ وہ بت جنہیں مشرکین پوجتے ہیں۔ خشک دانہ اور گٹھلی کو چیر کر ان سے سبزہ اور درخت پیدا کرنا اور ایسی سنگلاخ زمینوں میں ان کے نرم ریشوں کو جاری کردینا جہاں آہنی میخ بھی کام نہ کرسکے اس کی قدرت کے کیسے عجائبات ہیں۔ وہی اللہ کریم دانے اور گٹھلی کو چیر کر سبزہ اور درخت بنادیتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے جیسے جاندار سبزہ کو بے جان دانے اور گٹھلی سے اور انسان و حیوان کو نطفہ سے اور پرندے کو انڈے سے۔ یونہی وہی رب ِ عظیمعَزَّوَجَلَّ مردہ کو زندہ سے نکالنے والاہے جیسے  جاندار درخت سے بے جان گٹھلی اور دانہ کو اور انسان و حیوان سے نطفہ کو اور پرندے سے انڈے کو ۔یہ سب اس کے عجائبِ قدرت و حکمت ہیں تو اے کافرو! یہ ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ، توتم کہاں اوندھے جاتے ہو؟ اور ایسے دلائل و براہین قائم ہونے کے بعد کیوں ایمان نہیں لاتے اور موت کے بعد اٹھنے کا یقین نہیں کرتے ؟ اور غور کرو کہ جو بے جان نطفہ سے جاندار حیوان کوپیدا کرتا ہے اس کی قدرت سے مردہ کو زندہ کرنا کیا بعید ہے۔

فَالِقُ الْاِصْبَاحِۚ-وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَكَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًاؕ-ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ(۹۶)

ترجمۂکنزالایمان: تاریکی چاک کرکے صبح نکالنے والا اور اس نے رات کو چین بنایا اور سورج اور چاند کو حساب یہ سادھا  ہے زبردست جاننے والے کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: (وہ) تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا (ہے) اور اس نے رات کوآرام (کا ذریعہ) بنایا اور اس نے سورج اور چاند کو (اوقات کے) حساب (کا ذریعہ بنایا) یہ زبردست، علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔

{ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ: تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنی مزید عظمتیں بیان فرماتا ہے چنانچہ فرمایا کہ وہ تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والا ہے چنانچہ صبح کے وقت مشرق کی طرف روشنی دھاگے کی طرح نمودار ہوتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خط نے تاریکی چاک کردی، یہ بھی اس کی قدرت ہے۔ نیز اس نے رات کوآرام کا ذریعہ بنایا کہ مخلوق اس میں چین پاتی ہے اور دن کی تھکاوٹ اور ماندگی کو استراحت سے دور کرتی ہے اور شب بیدار زاہد تنہائی میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عبادت سے چین پاتے ہیں۔نیز  اس نے سورج اور چاند کو اوقات کے حسا ب کا ذریعہ بنایا کہ اُن کے دورے اور سیر سے عبادات و معاملات کے اوقات معلوم ہوتے ہیں مثلاً چاند سے قَمری مہینے اور سورج سے شمسی مہینے بنتے ہیں۔ چاند سے اسلامی عبادات اور سورج سے موسموں اور نمازوں کا حساب لگتا ہے غرضیکہ ان میں عجیب قدرت کے کرشمے ہیں۔ یہ سب زبردست، علم والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔ آیت سے

معلوم ہوا کہ علمِ ریاضی ، علمِ نَباتات، علمِ فلکیات اور علم الحیوانات بھی بہت اعلیٰ علوم ہیں کہ ان سے رب تعالیٰ کی قدرت کاملہ ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آسمانی اور زمینی چیزوں کو اپنی قدرت کا نمونہ بنایاہے۔

فقر و محتاجی دور ہونے کی دعا:

            حضرت مسلم بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَیہ دعا مانگا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ  فَالِقَ الْاِصْبَاحِ  وَجَاعِلَ اللَّیْلِ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا، اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَاغْنِنِی مِنَ الْفَقْرِ وَمَتِّعْنِی بِسَمْعِیْ وَبَصَرِیْ وَقُوَّتِیْ فِیْ سَبِیْلِکَ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، (اے) تاریکی کو چاک کرکے صبح نکالنے والے اور رات کوآرام (کا ذریعہ) بنانے والے اور سورج و چاند کو (اوقات کے) حساب (کا ذریعہ بنانے والے ) میرے قرض کو پورا فرما دے اور محتاجی سے مجھے غنا عطا فرما اور مجھے میری سماعت، بصار ت اور قوت سے اپنی راہ میں فائدہ اٹھانے والا بنا۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، من کان یدعو بالغنی، ۷ / ۲۷، الحدیث: ۳)

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۹۷)وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ(۹۸)

ترجمۂکنزالایمان:اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تارے بنائے کہ ان سے راہ پاؤ خشکی اور تری کے اندھیروں میں ہم نے نشانیاں مفصل بیان کردیں علم والوں کے لیے۔ اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا پھر کہیں تمہیں ٹھہرنا ہے اور کہیں امانت رہنا بیشک ہم نے مفصل آیتیں بیان کردیں سمجھ والے کے لیے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ پاؤ۔ بیشک ہم نے علم والوں کے لیے تفصیل سے نشانیاں بیان کردیں۔ اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیاپھر کہیں ٹھکانہ ہے اورکہیں امانت رکھے جانے کی جگہ ہے۔ بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں تفصیل سے بیان کردیں۔

{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ: اور وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔}اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ  وہی ہے جس نے تم کو ایک جان یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے پیدا کیا پھر ماں کے رحم میں یا زمین کے اوپر تمہارا ٹھکانہ بنایا اور باپ کی پیٹھ یا زمین کے اندرتمہارے لئے امانت رکھے جانے کی جگہ بنائی ہے۔ بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانیاں تفصیل سے بیان کردیں۔

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًۚ-فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍفَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِ جُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًاۚ-وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ-اُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۹۹)

ترجمۂکنزالایمان: اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اُتارا تو ہم نے اس سے ہر اُگنے والی چیز نکالی تو ہم نے اس سے نکالی سبزی جس میں سے دانے نکالتے ہیں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے اور کھجور کے گابھے سے پاس پاس گچھے اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے اور کسی بات میں الگ اس کا پھل دیکھو جب پھلے اور اس کا پکنا بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اُتارا پھر ہم نے اس کے ذریعے ہر اُگنے والی چیز نکالی تو ہم نے اس سے سرسبز کھیتی نکالی جس میں سے ہم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے ابتدائی کچے شگوفوں سے (کھجور کے) خوشے (نکلتے ہیں جوپھلوں کی کثرت سے ) لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور انگور کے باغ اور زیتون اور انار (نکالتے ہیں جو) کسی وصف میں ایک دوسرے سے ملتے ہوتے ہیں اور کسی وصف میں جدا ہوتے ہیں۔ تم درخت کے پھل اور اس کے پکنے کی طرف دیکھو جب وہ پھل دے۔ بیشک اس میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً: اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اُتارا۔} سُبْحَانَ اللہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی قدرت کی کیسی عظیم دلیل بیان فرمائی کہ دیکھو پانی ایک ہے اور جس زمین سے سب کچھ اگ رہا ہے وہ ایک ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس سے جو چیزیں اگائیں وہ قسم قسم اور رنگارنگ کی ہیں توجو ربِ عظیم عَزَّوَجَلَّ ایک پانی سے اتنی قسم کی سبزیاں پیدا فرمانے پر قادر ہے تو وہ ایک صور کی پھونک سے سارے عالم کو مارنے اور زندہ کرنے پر بھی قادر ہے لہٰذا قیامت بر حق ہے۔

وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠(۱۰۰)

ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کا شریک ٹھہرایا جنوں کو حالانکہ اسی نے ان کو بنایا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گڑھ لیں جہالت سے پاکی اور برتری ہے اس کو ان کی باتوں سے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور لوگوں نے جنوں کواللہ کا شریک بنا لیا حالانکہ اللہ نے توان جنوں کو پیدا کیا ہے اور لوگوں نے اللہ کے لئے جہالت سے بیٹے اور بیٹیاں گڑھ لیں حالانکہ اللہ ان کی بیان کی ہوئی چیزوں سے پاک اور بلند ہے۔

{ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ: اور لوگوں نے جنوں کواللہ کا شریک گڑھ لیا۔} ارشاد فرمایا کہ سابقہ آیات میں بیان کردہ دلائلِ قدرت اور عجائبِ حکمت اور اِس انعام و اکرام اور اِن نعمتوں کے پیدا کرنے اور عطا فرمانے کاتقاضا یہ تھا کہ اس کریم کار ساز پر ایمان لاتے لیکن اِس کی بجائے بُت پرستوں نے یہ ستم کیا کہ جنوں کو خدا عَزَّوَجَلَّکا شریک قرار دیا کہ ان کی اطاعت کرکے بُت پرست ہوگئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ  کیلئے معاذاللہ بیٹے اور بیٹیاں گھڑلیں حالانکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی بیان کی ہوئی چیزوں سے پاک اور بلند ہے اور یہ چیزیں اس کی شان کے لائق ہی نہیں۔

بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-اَنّٰى یَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌؕ-وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۰۱)ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُۚ-وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ(۱۰۲)

ترجمۂکنزالایمان: بے کسی نمو نے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اس کے بچہ کہاں سے ہو حالانکہ اس کی عورت نہیں اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ ہے اللہ تمہارا رب اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں ہر چیز کا بنانے والا تو اسے پوجو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ بغیر کسی نمو نے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ اس کے لئے اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ حالانکہ اس کی بیوی (ہی) نہیں ہے اور اس نے ہر شے کو پیدا کیا ہے اور وہ ہرشے کو جاننے والا ہے۔یہ اللہ تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، ہر شے کو پیدا فرمانے والا ہے تو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر نگہبان ہے۔

{ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:وہ بغیر کسی نمو نے کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔} اِس آیت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت و شان اور اس کی پاکی کا بیان ہے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ بغیر کسی نمو نے اور مثال کے آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے۔ اس کی دوسری شان یہ ہے کہ وہ اولاد سے پاک ہے کیونکہ اس کی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟ حالانکہ اس کی بیوی ہی نہیں ہے اور عورت کے بغیر اولاد نہیں ہوتی اور زوجہ اس کی شان کے لائق نہیں کیونکہ کوئی شے اس کی مثل نہیں اور اولاد نہ ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس نے ہر شے کو پیدا کیا ہے تو جو کچھ ہے وہ سب اُس کی مخلوق ہے اور مخلوق اولاد نہیں ہوسکتی تو کسی مخلوق کو اولاد بتانا باطل ہے اور پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا رب ہے  جس کی صفات ذکر کی گئیں اور جس کی یہ صفات ہوں وہی مستحق عبادت ہے لہٰذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۰۳)

ترجمۂکنزالایمان: آنکھیں اسے احاطہ نہیں کرتیں اور سب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہی ہے نہایت باطن پورا خبردار۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ تمام آنکھوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہی ہر باریک چیز کو جاننے والا، بڑا خبردار ہے۔

{ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ: آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔} اِس آیت کا مفہوم سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ عقائد کے متعلق بہت سے مسائل کا دارومدار اِسی پر ہے۔

آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے متعلق اہلسنّت کا عقیدہ :

            یاد رکھیں کہ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ مومنوں کو آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدارہوگا۔اہلِ سنت کا یہ عقیدہ قرآن و حدیث، اجماعِ صحابہ اور اکابر بزرگانِ دین کے کثیردلائل سے ثابت ہے ۔

دیدارِ الٰہی کے قرآنِ پاک سے تین دلائل:

(1) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ(۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ‘‘ (القیامہ:۲۳،۲۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان:کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔

(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:

’’ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ ‘‘ (یونس :۲۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد۔

            صحاحِ ستہ کی بہت حدیثیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس آیت میں زیادت سے دیدارِ الٰہی مراد ہے ۔

(3)… حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عرض کی’’رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرْ اِلَیۡکَ‘‘ اے میرے رب مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں۔ اس پر انہیں جواب ملا ’’لَنْ تَرٰىنِیْ‘‘ تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ۔ (اعراف: ۱۴۳) اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیدار ناممکن ہے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام عارِف باللہ ہیں ، اگر دیدارِ الٰہی ممکن نہ ہوتا تو آپ ہر گز سوال نہ فرماتے، اس سے ثابت ہوا کہ دیدارِ الٰہی ممکن ہے۔

دیدارِ الٰہی کے احادیث سے 3دلائل:

           احادیث بھی اس بارے میں بکثرت ہیں ، ان میں سے 3 احادیث درج ذیل ہیں :

(1) مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’کیا تم چاہتے ہو کہ تم پر اور زیادہ عنایت کروں ؟ وہ عرض کریں گے: یارب! عَزَّوَجَلَّ کیا تو نے ہمارے چہرے سفید نہیں کئے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ؟ کیا تو نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ پھرپردہ اٹھا دیا جائے گا تو دیدارِ الٰہی انہیں ہر نعمت سے زیادہ پیارا ہوگا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب اثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربہم سبحانہ وتعالی، ص۱۱۰، الحدیث: ۲۹۷(۱۸۱))

(2)…حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ہم سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ رات کے وقت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’عنقریب تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھو گے جیسے اس چاندکو دیکھتے ہو اور اسے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہ کرو گے۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۴)

(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی: یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھیں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تو سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ عرض کی: نہیں۔ ارشاد فرمایا: چودھویں رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمہیں چاند دیکھنے سے کوئی تکلیف ہوتی ہے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی: نہیں ، ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمہیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے میں صرف اتنی تکلیف ہو گی جتنی تکلیف تم کو سورج یا چاند دیکھنے سے ہوتی ہے۔(مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۷، الحدیث: ۱۶(۲۹۶۸))

             ان دلائل سے ثابت ہوگیا کہ آخرت میں مؤمنین کے لئے دیدارِ الٰہی شرع میں ثابت ہے اور اس کا انکار گمراہی۔ گمراہ لوگ اِس آیت کے ذریعے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں ، ہم یہاں آیت کا مفہوم بیان کرتے ہیں اس سے سارا معاملہ واضح ہوجائے گا۔آیت کے مفہوم کو کافی آسان کیا ہے لیکن پھر بھی اسے مکمل طور پر علماء ہی سمجھ سکتے ہیں لہٰذا عوام کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ اوپر تک جو بیان ہوا وہی ان کیلئے کافی ہے اور نیچے کی بحث پر زیادہ دماغ نہ لڑائیں اور اگر ضرور ہی سمجھنا ہے تو کسی صحیح العقیدہ ، ماہرسنی عالم سے سمجھیں۔

 آیت’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ کا مفہوم:

            اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔یہی اہلِ سنت کامذہب ہے۔ خارجی اور معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقے اِدراک اور رُویت میں فرق نہیں کرتے، اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا، حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا نہیں جاسکتا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا بھی نہیں جاسکتا اور جیسے کائنات میں موجود تمام چیزوں کے برخلاف کیفیت وجہت کے بغیر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا جاسکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیَّت و جہت کے دیکھی نہیں جاسکتیں تو جانی بھی نہیں جاسکتیں۔ اس کلام کی بنیاد یہ ہے کہ دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ بصر (دیکھنے کی قوت) کسی شے کو جیسی وہ ہو ویسا جانے تو جو شے جہت والی ہوگی، اس کا دیکھا جانا جہت میں ہوگا اور جس کے لئے جہت نہ ہوگی اس کا دیکھا جانا بغیر جہت کے ہوگا۔

قَدْ جَآءَكُمْ بَصَآىٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْۚ-فَمَنْ اَبْصَرَ فَلِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ عَمِیَ فَعَلَیْهَاؕ-وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(۱۰۴)

ترجمۂکنزالایمان: تمہارے پاس آنکھیں کھولنے والی دلیلیں آئیں تمہارے رب کی طرف سے تو جس نے دیکھا تو اپنے بھلے کو اور جو اندھا ہوا تو اپنے برُے کو اور میں تم پر نگہبان نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھولنے والی دلیلیں آگئیں تو جس نے (انہیں ) دیکھ لیا تو اپنے فائدے کے لئے ہی (کیا) اور جو (دیکھنے سے) اندھا رہا تویہ بھی اسی پر ہے اور میں تم پر نگہبان نہیں۔

{ قَدْ جَآءَكُمْ: بیشک تمہارے پاس آگئیں۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں سے فرما دیں کہ تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّکی طرف سے توحید ،نبوت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور حساب و جزاء سے متعلق دل کی آنکھیں کھول دینے والی دلیلیں آگئیں تو جس نے دل کی آنکھ سے حق کو دیکھا اور ا س پر ایمان لے آیا تو اس میں اس کا اپنا فائدہ ہے اور جو حق ظاہر ہونے کے باوجود اسے دیکھنے سے اندھا رہا اور ا س پر ایمان نہ لایا تو اس میں نقصان بھی اس کا اپنا ہے اور میں تم پر نگہبان نہیں کہ تمہارے اعمال اور افعال کی نگہبانی کرتا پھروں بلکہ میں تمہاری طرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں تاکہ اس کاپیغام تم تک پہنچا دوں جبکہ اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے ،اس سے تمہارے اعمال اور احوال میں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے اور وہی تمہیں تمہارے اعمال کی جزاء دے گا۔(روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۳ / ۸۱، خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۴۴، ملتقطاً)

وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ وَ لِیَقُوْلُوْا دَرَسْتَ وَ لِنُبَیِّنَهٗ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۱۰۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور ہم اسی طرح آیتیں طرح طرح سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کہ کافر بول اٹھیں کہ تم تو پڑھے ہو اور اس لیے کہ اسے علم والوں پر واضح کردیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم اسی طرح بار بارآیتیں بیان کرتے ہیں اور اس لیے تا کہ کافر بول اٹھیں کہ تم نے پڑھ لیا ہے اور اس لیے تاکہ ہم اسے علم والوں کے لئے واضح کردیں۔

{ وَ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ:اور ہم اسی طرح بار بار آیتیں بیان کرتے ہیں۔} آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم بار بار اپنی آیتیں بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں نیزان پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حجت قائم ہوجائے لیکن کافروں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے بلکہ اِن آیات کے نازل ہونے کا نتیجہ کافروں کے حق میں یہ نکلتا ہے کہ وہ بول اٹھتے کہ اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَتم نے گزشتہ کتابوں کوپڑھ لیا ہے اور وہی پڑھ کر ہمیں بتار ہے ہو۔

اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۰۶)وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكُوْاؕ-وَ مَا جَعَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ(۱۰۷)

ترجمۂکنزالایمان: اس پر چلو جو تمہیں تمہارے رب کی طرف سے وحی ہوتی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے منہ پھیر لو۔  اور اللہ چاہتا تو وہ شریک نہیں کرتے اور ہم نے تمہیں ان پر نگہبان نہیں کیا اور تم ان پر کڑوڑے نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مشرکوں سے منہ پھیر لو۔  اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے تمہیں ان پر نگہبان نہیں بنایا اور نہ آپ ان پر نگران ہیں۔

{ اِتَّبِـعْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ:تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے۔} سلطانِ دو جہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے فرمایا گیا کہ’’ تم اس وحی کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے بھیجی گئی ہے اور کفار کی بے ہودہ گوئیوں کی طرف التفات نہ کرو ۔اس میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تسکینِ خاطر ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکفّار کی یاوہ گوئیوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔ یہ ان کی بدنصیبی ہے کہ وہ ایسی واضح دلیلوں سے فائدہ نہ اُٹھائیں۔

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-كَذٰلِكَ زَیَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ۪-ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَیُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۰۸)

ترجمۂکنزالایمان: اور انہیں گالی نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے زیادتی اور جہالت سے یونہی ہم نے ہر اُمت کی نگاہ میں اس کے عمل بھلے کردیے ہیں پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے اور وہ انہیں بتادے گا جو کرتے تھے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اُنہیں برابھلا نہ کہو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ زیادتی کرتے ہوئے جہالت کی وجہ سے اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے یونہی ہم نے ہر اُمت کی نگاہ میں اس کے عمل کو آراستہ کردیا پھر انہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے تو وہ انہیں بتادے گا جووہ کرتے تھے۔

{ وَ لَا تَسُبُّوا: اور برا نہ کہو۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ مسلمان کفار کے بتوں کی بُرائی کیا کرتے تھے تاکہ کفار کو نصیحت ہو اور وہ بت پرستی کے عیب سے باخبر ہوں مگر ان ناخدا شناس جاہلوں نے بجائے نصیحت حاصل کرنے کے شانِ الٰہی میں بے ادبی کے ساتھ زبان کھولنی شروع کی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۱۰۰)کہ اگرچہ بتوں کو برا کہنا اور ان کی حقیقت کا اظہار طاعت و ثواب ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں کفار کی بدگوئیوں کو روکنے کے لئے اس کو منع فرمایا گیا۔ ابنِ انباری کا قول ہے کہ یہ حکم اول زمانہ میں تھا جب مسلمانوں میں طاقت آگئی کہ کفار کو ربعَزَّوَجَلَّکی شان میں گستاخی سے روک سکیں تو انہیں اس کی اجازت مل گئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۴۶) ورنہ توخود قرآنِ کریم میں شیطان اور بتوں اور سردارانِ قریش کی برائیاں بکثرت بیان کی گئی ہیں۔

آیت ’’وَ لَا تَسُبُّوا‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اگر غیر ضروری عبادت ایسے فساد کا ذریعہ بن جائے جو ہم سے مٹ نہ سکے تو اس کو چھوڑ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ واعظ و عالم اس طریقے سے وعظ نہ کرے جس سے لوگوں میں ضد پیدا ہو جائے اور فساد اور مار پیٹ تک نوبت پہنچے۔ تیسرے یہ کہ اگر کسی کے متعلق یہ قوی اندیشہ ہو کہ اسے نصیحت کرنا اور زیادہ خرابی کا باعث ہو گا تو نہ کرے۔ چوتھے یہ کہ کبھی ضد سے انسان اپنا دین بھی کھو بیٹھتا ہے کیونکہ کفار ِمکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو مانتے تھے پھر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی ضد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان میں بھی بے ادبی کرتے تھے۔(نورالعرفان،الانعام،تحت الآیۃ:۱۰۸،ص:۲۲۴)

وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ لَىٕنْ جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ مَا یُشْعِرُكُمْۙ-اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۰۹)

ترجمۂکنزالایمان: اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے۔ تم فرما دو کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور تمہیں کیا خبر کہ جب وہ آئیں تو یہ ایمان نہ لائیں گے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور انہوں نے بڑی تاکید سے اللہ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے۔تم فرما دو کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور تمہیں کیا خبر کہ جب وہ (نشانیاں ) آئیں گی تو (بھی) یہ ایمان نہیں لائیں گے۔

{ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ:اور انہوں نے بڑی تاکید سے اللہکی قسم کھائی۔}کفارِ مکہ نے تاجدارِ رسالت صَلَّیاللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں عرض کیاکہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزات بیان فرماتے ہیں۔ اگر ہم کو ہماری منہ مانگی نشانیاں دکھا دیں تو ہم آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لے آئیں گے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے یا ہمارے بعض مردے جی کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی دے دیں یا فرشتے ہمارے سامنے آجائیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے فرمایا:’’ اگر ان میں سے کچھ دکھا دوں تو ایمان لے آؤ گے ۔ وہ قسمیں کھا کر بولے کہ’’ ضرور۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارادہ فرمایا کہ دعا کریں۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آکر عرض کیا کہ’’ اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَآ پ جو دعا کریں گے قبول ہوگی۔ لیکن اگر یہ لوگ ایمان نہ لائے تو ابھی ہلاک کر دئیے جائیں گے اور اگر زندہ رہے تو شاید ان میں کوئی ایمان لے آئے۔ تب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے دعا کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۱۰۰-۱۰۱)

وَ نُقَلِّبُ اَفْـٕدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ نَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ۠(۱۱۰)

ترجمۂکنزالایمان: اور ہم پھیر دیتے ہیں ان کے دلوں اور آنکھوں کو جیسا وہ پہلی بار اس پرایمان نہ لائے تھے اور انہیں چھوڑ دیتے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم ان کے دلوں اوران کی آنکھوں کوپھیردیں گے جیسا کہ یہ پہلی باراس پر ایمان نہ لائے تھے اور انہیں ان کی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے۔

{ وَ نُقَلِّبُ: اور ہم پھیر دیں گے۔}ارشاد فرمایا کہ جس طرح پہلے ان لوگوں کے سامنے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں ظاہر ہوئی تھیں جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا اور اسی طرح کے دیگر عظیم معجزات لیکن یہ ان پر ایمان نہیں لائے تھے اسی طرح یہ اب بھی ایمان نہیں لائیں گے اور ان کے ایمان لانے کے سب وعدے جھوٹے ہیں۔


 

خبیث نفس کا حال

علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’ نفس جب خبیث ہوتا ہے تو اسے حق قبول کرنے سے بہت دوری ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر سننے سے اس کی سختی اور دل کا غبار بڑھتا ہے اور جیسے سورج کی گرمی سے موم نرم ہوتا ہے اور نمک سخت ہو تا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مومنین کے دل نرم ہوتے ہیں اور کافروں کے دِلوں کی سختی اور بڑھتی ہے۔‘‘(خازن ،الزمر،تحت الآیۃ:۲۲،۴ / ۵۳)

 

زیادہ گفتگو کرنے کا نقصان

حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاو زیادہ گفتگو دل کی سختی ہے، اور لوگوں میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ دوروہ ہوتا ہے جس کا دل سخت ہو۔‘‘ (ترمذی، کتاب الزھد،۶۲۔باب منہ،۴ / ۱۸۴،الحدیث: ۲۴۱۹)

آٹھواں پارہ

 

 

وَ لَوْ اَنَّنَا


 

پارہ نمبر…8

وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَیْهِمْ كُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ یَجْهَلُوْنَ(۱۱۱)

ترجمۂکنزالایمان: اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے اٹھا لاتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا و لیکن ان میں بہت نرے جاہل ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتار دیتے اور مردے ان سے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے جمع کردیتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں اکثر لوگ جاہل ہیں۔

{ وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةَ:اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اُتار دیتے۔}پچھلی آیت میں اجمالی طور پر بیان ہوا تھا کہ نشانیاں طلب کرنے والے کفار کے مطالبات پورے کر دئیے جائیں تو بھی وہ ایمان نہ لائیں گے اور اس آیتِ مبارکہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ شانِ نزول: کفارِ مکہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے مذاق کے طور پر کہا کرتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے مردوں کو زندہ کردیجئے تاکہ ہم ان سے پوچھیں کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جو فرماتے ہیں وہ حق ہے یا نہیں اور آپ ہمیں فرشتے دکھائیے جو ہمارے سامنے آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیے۔  ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۴۷)

                اور فرمایا گیا کہ ’’ اے محبوب! اگر ہم کفارکے مطالبے کے مطابق ان کی طرف فرشتے اُتار دیں جنہیں وہ ان کی اصلی شکل میں دیکھ لیں اور وہ ان سے آپ کی رسالت کی گواہی سن لیں۔ یونہی اگر ہم ان کے مطلوبہ یا عام مردے زندہ کر کے ان کے سامنے کھڑے کر دیں تاکہ یہ ان سے معلوم کر لیں کہ آپ جو پیغام لائے ہیں وہ حق ہے یا نہیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، بلکہ اگر ہم ا ن کے مطالبات سے زائد مخلوقات میں سے ہر خشک و تر، شجرو حجر، نباتات و حیوانات ان کے سامنے جمع کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان لائیں گے اور نہ آپ کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی آپ کی پیروی کریں گے البتہ جن کی قسمت میں ایمان لکھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی جن کے ایمان کے متعلق ہوگی وہ ایمان لائیں گے۔ (تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۵ / ۳۱۱)

اللہ تعالٰی کی مشیت سے متعلق دو اہم مسائل:

            اس مقام پر دو اہم مسائل ذہن نشین رکھیں :

(1)اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور جیسا ہونے والا تھا اور جیسا کوئی کرنے والا تھا وہ سب اللہ تعالیٰ کے علمِ ازلی میں تھا اور اس نے وہی لکھ دیا، تو یہ نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا، زید کے ذمے برائی لکھی اس لئے کہ زید برائی کرنے والا تھا اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا تووہ اس کے لئے بھلائی لکھتا تو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔

(2)… یہ درست ہے کہ بندوں کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے ارادہ، اس کی مشیت اور اس کی قضاء سے وجود پذیر ہوتے ہیں لیکن قادر و قدیر رب عَزَّوَجَلَّ نے انسان کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے بس، مجبور اور بالکل بے اختیار نہیں بنا یا بلکہ اسے ایک قسم کا اختیار دیا ہے کہ کوئی کام چاہے تو کرے، چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ اپنا برا بھلا، نفع و نقصان پہچان سکے، پھر نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی میں سے جس کام کو اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قوت اس انسان میں پیدا فرما دیتا ہے اور اسی اختیار کے اعتبار سے وہ جزا و سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر انسان نیکی یا بدی، اچھائی یا برائی پر کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا تو انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہدایت کے لئے مبعوث فرمانا، انسان کو احکام کا مُکَلَّف کرنا اور اسے اس کے اعمال کی جزاء و سزا دینا سب بے معنی اور عبث ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا کوئی کام عبث نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایمان وہی لائیں گے جن کے ایمان کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور کفر وہی کریں گے جن کے کفر کا اللہ تعالیٰ ارادہ فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے کفر کا اس لئے ارادہ فرماتا ہے کہ وہ کفر کو اختیار کرتے ہیں۔

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًاؕ-وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ(۱۱۲)

ترجمۂکنزالایمان: اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن کئے ہیں آدمیوں اور جنوں میں کے شیطان کہ ان میں ایک دوسرے پر خفیہ ڈالتا ہے بناوٹ کی بات دھوکے کو اور تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو انہیں ان کی بناوٹوں پر چھوڑ دو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کا دشمن بنایا انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو ان میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے بناوٹی باتوں کے وسوسے ڈالتا ہے اور اگر تمہارا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے توتم انہیں اور ان کی بناوٹی باتوں کو چھوڑ دو۔

{ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا:اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن کئے ہیں۔} کفارِ مکہ کی مخالفت اور ایذا رسانیوں کی وجہ سے سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بہت رنجیدہ تھے، اس پر اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو تسلی دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، جس طرح یہ کفار آپ کی مخالفت اور دشمنی میں سرگرم ہیں اسی طرح آپ سے پہلے جتنے ا نبیاء اور رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گزرے ہیں سب کی قوم کے کافر چاہے انسان ہوں یا جن ان کے دشمن تھے ۔ کفار کی انبیاء ورسل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عداوت اور مخالفت ہماری طرف سے ایک آزمائش ہے تاکہ انبیاء و مرسَلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس پر صبر کر کے اجرِ عظیم حاصل کریں لہٰذا آپ اپنی قوم کی مخالفت اور عداوت سے رنجیدہ خاطرنہ ہوں ، یہ ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھنے کیلئے نت نئی باتیں گھڑتے ہیں ، چالیں چلتے ہیں ، فریب کاریاں کرتے ہیں اور وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ دوسروں کو گمراہ کریں اور جو گمراہ ہیں وہ گمراہی سے نکل نہ سکیں۔ نیز یہاں بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو وہ ایسانہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے نظامِ کائنات چلارہا ہے اور کفر وایمان، خیر و شر دونوں کے مدِّمقابل رہنے میں اس کی حکمتیں ہیں لہٰذا آپ انہیں اور ان کی دھوکے اور فریب کی خوشنما باتوں کو چھوڑ دیں اور صبر کریں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بدلہ دے گا، رسوا کرے گا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائے گا۔ آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے دشمن ضرور ہوئے ہیں ایسے ہی علماء اور اولیاء کے دشمن بھی ضرور ہی ہوتے ہیں۔

{ شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ:انسانوں اور جنوں کے شیطان۔} اس کی تفسیر میں علما ء کے دو قول ہیں (1) جنوں میںبھی شیطان ہوتے ہیں اور انسانوں میں بھی کیونکہ شیطان ہر سرکش و نافرمان کو کہتے ہیں چاہے وہ انسان ہو یا جن۔ (2) جنوں اور انسانوں کے شیطان سے مراد ابلیس کی اولاد ہے۔ ابلیس نے اپنی اولاد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک گروہ انسانوں کو وسوسہ ڈالتا ہے اور ایک گروہ جنوں کو وسوسہ ڈالتا ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۴۸) خفیہ بات سے مراد وسوسے اور فریب کی باتیں ہیں۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ انسانی شیطانوں سے بچیں:

            اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جو گمراہ کن شخص کسی کو شریعت کے خلاف کام کی ترغیب دے وہ انسانی شیطان ہے اگرچہ وہ اپنے عزیزوں میں سے ہو یا عالم کے لباس میں ہو، نیز اس میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو آزاد خیالی یا روشن خیالی کے نام پر شرعی کاموں کے خلاف پلاننگ کرتے اور منصوبے بناتے اور اس کیلئے تنظیمیں بناتے ہیں۔ سب مسلمانوں پر لاز م ہے کہ وہ ایسے انسانی شیطانوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ یہاں ایک نہایت اہم چیز کے بارے میں عرض کرنی ہے کہ ہمارے دور میں یہ وبا عام ہوتی جارہی ہے کہ بھائی ہر ایک کی سنو اور تحقیق کرو خواہ کہنے والا قرآن کے خلاف کہے یا حدیث کے یا اسلام کے۔ گویا معاذاللہ، تحقیق، مطالعہ کے نام پر ہر گمراہی سننے ، پڑھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور اس چیز کو باہمی رواداری، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش، ایک دوسرے کے نکتہ نظر پر مطلع ہونا، اپنے اپنے خیالات دوسروں سے شیئر کرنا وغیرہ وغیرہ کے بڑے دلچسپ نام دئیے جاتے ہیں لیکن کیا قرآن، حدیث، دین، ایمان، اسلام میں بھی اس چیز کی گنجائش ہے یا نہیں ، اس کی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔ لہٰذا یہاں پر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسی باطل تحقیق و مطالعہ کا حکمِ شرعی بیان کرتے ہیں اور ہمیں اُن جاہلوں کی کوئی پرواہ نہیں جو قرآن و حدیث کے ان احکام کو اپنی جہالت و کوتاہ نظر سے تنگ نظری اور نجانے کیا کیا نام دیں گے۔ چنانچہ کفار و اسلام دشمن لوگوں کے لیکچرز سننے کے حوالے سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے سوال ہوا تو آپ نے بڑے احسن انداز میں جواب ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ آج کل ہمارے عوام بھائیوں کی سخت جہالت یہ ہے کہ کسی آریہ نے اشتہار دیا کہ اسلام کے فلاں مضمون کے رَد میں فلاں وقت لیکچر دیا جائے گا، یہ سننے کیلئے دوڑ ے جاتے ہیں۔ کسی پادری نے اعلان کیا کہ نصرانیت کے فلاں مضمون کے ثبوت میں فلاں وقت ندا ہوگی، یہ سننے کیلئے دوڑے جاتے ہیں۔ بھائیو! تم اپنے نفع نقصان کو زیادہ جانتے ہو یا تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ اور تمہارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اُن کا حکم تو یہ ہے کہ شیطان تمہارے پاس وسوسہ ڈالنے آئے تو سیدھا جواب یہ دے دو کہ تو جھوٹا ہے نہ یہ کہ تم آپ دوڑ دوڑ کے اُن کے پاس جاؤ اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شان میں ملعون کلمات سنو۔ تم قرآنِ مجید کی اسی آیت کا آخری حصہ اور ا س کے مُتَّصل کی آیاتِ کریمہ تلاوت کرتے جاؤ اور دیکھو کہ قرآنِ عظیم تمہاری اس حرکت کی کیسی کیسی شناعتیں بتاتا اور اُن ناپاک لکچروں نداؤں کی نسبت تمہیں کیا کیا ہدایت فرماتا ہے، چنانچہ اس آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے:

’’ وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ‘‘(الانعام:۱۱۲)

اور تیرا رب چاہتا تو وہ یہ دھوکے بناوٹ کی باتیں نہ بناتے پھرتے تو تو انہیں اور اُن کے بہتانوں کو یک لخت چھوڑ دے۔

            دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالٰی نے اُنہیں اور اُن کی باتوں کو چھوڑنے کا حکم فرمایا یا اُن کے پاس سننے کے لئے دوڑنے کا۔ اور سنئے، اس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے:

’’ وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ ‘‘(الانعام:۱۱۳)

اور اس لئے کہ ایسے لوگوں کے دل اس کی طرف کان لگائیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں اور اُسے پسند کریں اور جو کچھ ناپاکیاں وہ کر رہے ہیں یہ بھی کرنے لگیں۔

            دیکھو اُن (کفار و نافرمان لوگوں ) کی باتوں کی طرف کان لگانا اُن (لوگوں ) کا کام بتایا جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ فرمایا کہ وہ ملعون باتیں ان پر اثر کر جائیں اور یہ بھی اُن جیسے ہوجائیں۔ لوگ اپنی جہالت سے گمان کرتے ہیں کہ ہم اپنے دل سے مسلمان ہیں ہم پر اُن کا کیا اثر ہوگا حالانکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’جو دجال کی خبر سنے اُس پر واجب ہے کہ اُس سے دور بھاگے کہ خدا کی قسم آدمی اس کے پاس جائے گا اور یہ خیال کرے گا کہ میں تومسلمان ہوں یعنی مجھے اس سے کیا نقصان پہنچے گا وہاں اس کے دھوکوں میں پڑکر اس کا پیرو ہو جائے گا۔ (ابو داؤد، اول کتاب الملاحم، باب ذکر خروج الدجال، ۴ / ۱۵۷، الحدیث: ۴۳۱۹)

            کیا دجال ایک اُسی اخبث دجال کو سمجھتے ہو جو آنے والا ہے، ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ تمام گمراہوں کے داعی منادی سب دجال ہیں اور سب سے دُور بھاگنے ہی کا حکم فرمایا اور اُس میں یہی اندیشہ بتایا ہے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں ’’آخر زمانے میں دجال کذاب لوگ ہوں گے کہ وہ باتیں تمہارے پاس لائیں گے جو نہ تم نے سنیں نہ تمہارے باپ دادا نے، توان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

اور سنئے، اس کے بعد کی آیات میں فرماتا ہے:

’’ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًاؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(۱۱۴)وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ- لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۱۵)وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۱۱۶)اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِهٖۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(۱۱۷) ‘‘ (الانعام:۱۱۴،۱۱۷)

تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا ڈھونڈوں حالانکہ اُس نے مفصل کتاب تمہاری طرف اُتاری اور اہلِ کتاب خوب جانتے ہیں کہ وہ تیرے رب کے پاس سے حق کے ساتھ اُتری تو خبردار تو شک نہ کرنا اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں کامل ہے کوئی اُس کی باتوں کا بدلنے والا نہیں اور وہ شنوا و دانا ہے اور زمین والوں میں زیادہ وہ ہیں کہ تو ان کی پیروی کرے تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں وہ تو گمان کے پیرو ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بہکے گا اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔‘‘

            یہ تمام آیاتِ کریمہ انہیں مطالب کے سلسلہ بیان میں ہیں گویا ارشاد ہوتا ہے تم جو اُن شیطان آدمیوں کی باتیں سننے جاؤ کیا تمہیں یہ تلاش ہے کہ دیکھیں اس مذہبی اختلاف میں یہ لکچرار یا یہ منادی کیا فیصلہ کرتا ہے، ارے خدا سے بہتر فیصلہ کس کا! اُس نے مفصل کتاب قرآنِ عظیم تمہیں عطا فرما دی اُس کے بعد تم کو کسی لکچر، ندا کی کیا حاجت ہے لکچر والے جو کسی دینی کتاب کا نام نہیں لیتے کس گنتی شمار میں ہیں ! یہ کتاب والے دل میں خوب جانتے ہیں کہ قرآن حق ہے (مگر) تَعَصُّب کی پٹی (ان کی) آنکھوں پر بندھی ہے کہ ہٹ دھرمی سے مکرے جاتے ہیں تو تجھے کیوں شک پیدا ہو کہ اُن کی سننا چاہے، تیرے رب کا کلام صدق وعدل میں بھرپور ہے کل تک جو اُس پر تجھے کامل یقین تھا آج کیا اُس میں فرق آیا کہ اُس پر اعتراض سننا چاہتا ہے کیا خدا کی باتیں کوئی بدل سکتا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میرا کوئی مقال (یعنی قول)، کوئی خیال خدا سے چھپ رہے گا، وہ سنتا جانتا ہے، دیکھ اگر تونے اُن کی سنی تو وہ تجھے خدا کی راہ سے بہکا دیں گے، (اے نادان!تو) کیا یہ خیال کرتا ہے کہ ان (گمراہ لوگوں ) کا علم دیکھوں (کہ) کہاں تک ہے، یہ کیا کہتے ہیں ارے اُن کے پاس علم کہاں وہ تو اپنے اوہام کے پیچھے لگے ہوئے اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں جن کا تھل نہ بیڑا ،جب اللہ واحد قہار کی گواہی ہے کہ اُن کے پاس نری مہمل اٹکلوں کے سوا کچھ نہیں تو اُن کو سننے کے کیا معنی؟ سننے سے پہلے وہی کہہ دے جو تیرے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تعلیم فرمایا کہ ’’شیطان تو جھوٹا ہے‘‘ اور اس گھمنڈ میں نہ رہنا کہ مجھ کو کیا گمراہ کریں گے میں تو راہ پر ہوں تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بہکے گا اور کون راہ پر ہے، (اگر) تُو پورا راہ پرہوتا ہے تو بے راہوں کی سننے ہی کیوں جاتا حالانکہ تیرا رب فرما چکا ’’چھوڑ دے اُنہیں اور اُن کے بہتانوں کو۔ تیرے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ فرما چکے ’’اُن سے دُور رہو اور ان کو اپنے سے دور کرو کہیں وہ تم کو بہکانہ دیں کہیں وہ تم کو فتنے میں نہ ڈال دیں۔(مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء۔۔۔ الخ، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

            بھائیو! ایک سہل بات ہے اس پر غور فرمالو۔ تم اپنے ربعَزَّوَجَلَّ، اپنے قرآن اور اپنے نبیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر سچا ایمان رکھتے ہو یا مَعَاذَاللہ اس میں کچھ شک ہے! اور جسے شک ہوا سے اسلام سے کیا علاقہ(یعنی تعلق) وہ ناحق اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر مسلمانوں کو کیوں بدنام کرے اور اگر سچا ایمان ہے تو اب یہ فرمائیے کہ ان کے لکچروں نداؤں میں آپ کے ربعَزَّوَجَلَّ، قرآن، نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَاور ایمان کی تعریف ہوگی یا مذمت۔ ظاہر ہے کہ دوسری ہی صورت ہوگی اور اسی لئے تم کو بلاتے ہیں کہ تمہارے منہ پر تمہارے خدا، نبی، قرآن اور دین کی توہین وتکذیب کریں۔اب ذرا غور کرلیجئے کہ ایک شریر نے زید کے نام اشتہار دیا کہ فلاں وقت فلاں مقام پر میں بیان کروں گا کہ تیرا باپ حرامی بچہ اور تیری ماں زانیہ تھی، خدا کے لئے انصاف، کیا کوئی غیرت والا، حمیت والا اور انسانیت والا جبکہ اُسے اس بیان سے روک دینے، باز رکھنے پر قادر نہ ہو اسے سننے جائے گا۔ خدا کی قسم !ہر گز نہیں ، کسی بھنگی چمار سے بھی یہ نہ ہوسکے گا پھر ایمان کے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھو کہ اللہ  ،رسول اور قرآنِ عظیم کی توہین، تکذیب اور مذمت سخت تر ہے یا ماں باپ کی گالی۔ ایمان رکھتے  ہو تو اُسے اِس سے کچھ نسبت نہ جانو گے۔ پھر کون سے کلیجے سے اُن جگر شگاف ، ناپاک، ملعون بہتانوں ، افتراؤں ، شیطانی اٹکلوں اور ڈھکوسلوں کو سننے جاتے ہو، بلکہ حقیقت اورـــ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ جو کچھ بکتے اور اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی تحقیر کرتے ہیں ان سب کاباعث یہ سننے والے ہیں ، اگر مسلمان اپنا ایمان سنبھالیں ، اپنے رب، قرآن اور رسول کی عزت عظمت پیشِ نظر رکھیں اور ایکا کرلیں کہ وہ خبیث لکچر ،گندی ندائیں سننے کوئی نہ جائے گا جو وہاں موجود ہو وہ بھی فوراً وہی مبارک ارشاد کا کلمہ کہہ کر کہ ’’تو جھوٹا ہے‘‘ چلا جائے گا تو کیا وہ دیواروں پتھروں سے اپنا سر پھوڑیں گے؟ تو تم سن سن کر کہلواتے ہو ،نہ تم سنو نہ وہ کہیں ، پھر انصاف کیجئے کہ اُس کہنے کا وبال کس پر ہوا۔علماء فرماتے ہیں ’’ہٹے کٹے جوان تندرست جو بھیک مانگنے کے عادی ہوتے اور اسی کو اپنا پیشہ بنالیتے ہیں اُنہیں دینا ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر شَہ دینی ہے، لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور محنت مزدوری کریں۔ بھائیو! جب اِس میں گناہ کی امداد ہے تو اُس میں تو کفر کی مدد ہے۔ قرآنِ عظیم کی نصِ قطعی نے ایسی جگہ سے فوراً ہٹ جانا فرض کردیا اور وہاں ٹھہرنا فقط حرام ہی نہ فرمایا بلکہ سنو تو کیا ارشاد کیا۔ رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’ وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ  ﳲ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْكٰفِرِیْنَ فِیْ جَهَنَّمَ جَمِیْعًا‘‘(النساء:۱۴۰)

یعنی بے شک اللہ تم پر قرآن میں حکم اتار چکا کہ جب تم سنو کہ خدا کی آیتو ں سے انکار ہوتا اور اُن کی ہنسی کی جاتی ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو جب تک وہ اور باتوں میں مشغول نہ ہوں اور تم نے نہ مانا اور جس وقت وہ اللہ کی آیات پر اعتراض کر رہے ہیں وہاں بیٹھے تو جب تم بھی انہیں جیسے ہو، بیشک اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔

            دیکھو قرآن فرماتا ہے ،ہاں تمہارا رب رحمٰن فرماتا ہے جو ایسے جلسوں میں جائے ایسی جگہ کھڑا ہو وہ بھی انہیں کافروں آریوں پادریوں کی مثل ہے۔

            آہ آہ حرام تو ہر گناہ ہے یہاں تو اللہ واحد قہار یہ فرما رہا ہے کہ وہاں ٹھہرے تو تم بھی انہیں جیسے ہو۔ مسلمانو! کیا قرآنِ عظیم کی یہ آیات تم نے منسوخ کردیں یا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس سخت وعید کو سچا نہ سمجھے یا کافروں جیسا ہونا قبول کرلیا۔ اور جب کچھ نہیں تو اُن جمگھٹوں کے کیا معنی ہیں جو آریوں پادریوں کے لکچروں نداؤں پر ہوتے ہیں اُن جلسوں میں شرکت کیوں ہے جو خدا، رسول اور قرآن پر اعتراضوں کیلئے کئے جاتے ہیں۔ بھائیو! میں نہیں کہتا قرآن فرماتا ہے کہ ’’ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ ‘‘ تم بھی ان ہی جیسے ہو۔‘‘ اُن لکچروں پر جمگھٹ والے اُن جلسوں میں شرکت والے سب اُنہیں کافروں کے مثل ہیں ، وہ علانیہ بک کر کافر ہوئے یہ زبان سے کلمہ پڑھیں اور دل میں خدا، رسول اورقرآن کی اتنی عزت نہیں کہ جہاں اُن کی توہین ہوتی ہو وہاں سے بچیں تو یہ منافق ہوئے جب تو فرمایا کہ اللہ اُنہیں اور اِنہیں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا کہ یہاں تم لکچر دو اور تم سنو۔

            مسلمان اگر قرآنِ عظیم کی اس نصیحت پر عمل کریں تو ابھی ابھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے سب بازار ٹھنڈے ہوئے جاتے ہیں ، ملک میں ان کے شور وشر کا نشان نہ رہے گا ،جہنم کے کندے شیطان کے بندے آپس ہی میں ٹکرا ٹکرا کر سر پھوڑیں گے، اللہ، رسول اور قرآنِ عظیم کی توہینوں سے مسلمانوں کا کلیجا پکانا چھوڑیں گے، اور اپنے گھر بیٹھ کر بکے بھی تو مسلمانوں کے کان تو ٹھنڈے رہیں گے۔ (فتاوی رضویہ، ۱ / ۷۸۱-۷۸۵، ملخصاً)

وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِیَرْضَوْهُ وَ لِیَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ(۱۱۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور اس لیے کہ اس کی طرف ان کے دل جھکیں جنہیں آخرت پر ایمان نہیں اور اسے پسند کریں اور گناہ کمائیں جو انہیں گناہ کمانا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تاکہ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل ان بناوٹی باتوں کی طرف مائل ہوجائیں اور تاکہ وہ ان باتوں کوپسند کرلیں اور وہ اُسی گناہ کا ارتکاب کریں جس کے یہ خودمرتکب ہیں۔

{ وَ لِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ اَفْـٕدَةُ:اور اس لیے کہ اس کی طرف دل جھکیں۔}اس سے پہلی آیت میں بیان ہوا کہ انسانوں اور جنوں میں سے جو مردود ہیں وہ  ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے بناوٹی باتوں کے وسوسے ڈالتے ہیں ، اب اس کی مزید وجوہات بیان فرمائی جا رہی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو بناوٹی باتوں کے وسوسے اس لئے ڈالتے ہیں تاکہ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل ان بناوٹی باتوں کی طرف مائل ہوجائیں ، وہ ان کی بناوٹی باتوں کو پسند کر لیں اور اسی گناہ کا ارتکاب کریں جس کے یہ خود مرتکب ہوئے ہیں۔

دل اپنے ہم جنس کی طرف جھکتا ہے:

            ا س سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کادل اپنے ہم جنس کی طرف جھکتا ہے، لہٰذا اگر کسی آدمی کا دل گناہگاروں ، گمراہوں کی طرف زیادہ جھکتا ہے تو اسے غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے دل میں بھی گمراہی اور برائی کی محبت بیٹھی ہوئی ہے۔

اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ اِلَیْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًاؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ(۱۱۴)

ترجمۂکنزالایمان: تو کیا اللہکے سوا میں کسی اور کا فیصلہ چاہوں اور وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اُتاری اور جن کو ہم نے کتاب دی وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے سچ اترا ہے تو اے سننے والے تو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا میں اللہ کے سوا کسی کو حاکم بنالوں ؟ حالانکہ وہی ہے جس نے تمہاری طرف مفصل کتاب اُتاری اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل شدہ ہے تو اے سننے والے تو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔

{ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِیْ حَكَمًا: توکیا میں اللہ کے سوا کسی کوحاکم بنالوں ؟} شانِ نزول:  کفارِ مکہ نے سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سی عرض کیا تھا کہ یہود و نصاریٰ کے پوپ پادریوں کو ہم اور آپ پنچ بنا لیں جو یہ فیصلہ کریں کہ ہم حق پر ہیں یا آپ۔ تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۳ / ۹۰)

             اس آیتِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کفار کے بارے میں بیان ہو اکہ انہوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں انہیں دکھا دی جائیں تو وہ ایمان لے آئیں گے، اس پرانہیں جواب دیا گیا کہ ان نشانیوں کو ظاہر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کر دے تو بھی وہ لوگ اپنے کفر پر قائم ہی رہیں گے۔ اب اس آیتِ مبارکہ میں بیان فرمایا جا رہا ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت پرد لالت کرنے والی نشانیاں تو مکمل طور پر ظاہر ہو چکی ہیں ، ایک نشانی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر مفصل کتاب اتاری جس میں امرونہی ،وعدہ و وعید اور حق و باطل کا فیصلہ اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے صدق کی شہادت اور کفار کے افتراء کا بیان ہے اور دوسری نشانی یہ ہے کہ تورات و انجیل میں رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے رسولِ برحق ہونے اور قرآن پاک کے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہونے پر دلالت کرنے والی نشانیاں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے  جنہیں آسمانی کتاب کی سچی سمجھ نصیب کی جیسے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ نیزعام علماء اہلِ کتاب ان دلائل کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حق جانتے ہیں اگرچہ کسی دنیاوی وجہ سے اس کا اقرار نہ کریں۔ لہٰذا اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، تم ان مشرکین سے فرما دوکہ کیا میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو حاکم و قاضی بنالوں جو میرے اور تمہارے درمیان فصلہ کرے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے حق ہونے کا فیصلہ فرما دیا ہے کہ جب اس نے عاجز کر دینے والی کتاب یعنی قرآنِ پاک مجھ پر نازل فرما دیا تو میری نبوت کے درست ہونے کا فیصلہ بھی ہو گیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فیصلے سے بڑھ کر اور کسی کا فیصلہ نہیں ، لہٰذا اب میری نبوت کا اقرار کرنا ضروری ہے۔( تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۵ / ۱۲۳-۱۲۴)

 { فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ:تو اے سننے والے تو ہر گز شک والوں میں نہ ہو۔} ایک قول یہ ہے کہ یہاں خطاب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ اس بات پر شک کرنے والوں میں نہ ہونا کہ اہلِ کتاب کے علماء جانتے ہیں کہ یہ قرآن حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ اس بات پر شک کرنے والوں میں نہ ہو نا کہ ہم نے آپ کو جو بیان کیا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ اس کا تعلق ان باتوں سے ہے جو کسی کوا بھارنے کے لئے کی جاتی ہیں ورنہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  تو شک کر ہی نہیں سکتے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ بظاہر اگرچہ خطاب   سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ہے لیکن مراد ان کا غیر ہے۔ اب معنی یہ ہوا کہ’’ اے قرآنِ پاک کوسننے والے انسان! تو اس بات میں شک نہ کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے کیونکہ یہ ایسا عاجز کر دینے والا کلام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر ہی نہیں۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۴۹)

وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّ عَدْلًاؕ-لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۱۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور پوری ہے تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی ہے سنتا جانتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور سچ اور انصاف کے اعتبار سے تیرے رب کے کلمات کامل ہیں۔ اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔

{ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ:اور پوری ہے تیرے رب کی بات۔} رب کی بات سے مراد وہ فیصلۂ الٰہی ہے جو کفار ومومن کے متعلق ہو چکایا اس سے تمام آسمانی کتابیں مراد ہیں یا قرآن شریف ، الغرض جو کچھ بھی مراد ہو مقصود بالکل ظاہر ہے۔

قرآنِ مجید کی 4شانیں :

             اس آیتِ کریمہ میں قرآنِ پاک کی چار شانیں بیان کی گئی ہیں :

(1)قرآنِ پاک مکمل ہے اس کا کوئی پہلو ناتمام نہیں۔

(2)…قرآنِ پاک میں بتائی گئی تمام باتیں حق اور سچائی پر مَبنی ہیں۔

(3)…جو شرعی احکام قرآنِ پاک میں ہیں وہ ہر اعتبار سے عدل وانصاف پر مشتمل ہیں۔

(4)…قرآنِ پاک ہمیشہ کیلئے ہر طرح کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ ہے۔

مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے 3 وظائف:

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہوا،ا س کی مناسبت سے ہم یہاں مخلوق کے شر سے بچنے کے تین وہ وظائف ذکر کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کا ذکر ہے۔

(1)حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں : تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ حضرت حسن اور حضرت حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا پر چند کلمات پڑھ کر پھونکا کرتے اور فرماتے ’’ تمہارے جدِ امجد بھی حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انہیں پڑھ کر دم کیا کرتے تھے ۔ (وہ کلمات یہ ہیں ) ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّۃٍ‘‘۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، ۱۱-باب، ۲ / ۴۲۹، الحدیث: ۳۳۷۱)

            شیطان کے شر اور نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے یہ وظیفہ انتہائی مفید ہے۔

(2)…حضرت خولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص (سفر کے دوران) کسی جگہ اترے اور یہ کلمات کہے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘ تو اس مقام سے کوچ کرنے تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء مایقول اذا نزل منزلاً، ۵ / ۲۷۵، الحدیث: ۳۴۴۸)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمفرماتے ہیں : رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسونے سے پہلے یہ کہا کرتے تھے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِوَجْہِکَ الْکَرِیْمِ وَکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ اَللہُمَّ اَنْتَ تَکْشِفُ الْمَغْرَمَ وَالْمَاْثَمَ اَللہُمَّ لاَ یُہْزَمُ جُنْدُکَ وَلاَ یُخْلَفُ وَعْدُکَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ‘‘  اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں تیری بزرگ ذات اور تیرے مکمل کلمات کی پناہ پکڑتا ہوں اس کے شر سے جسے تو پیشانی سے پکڑنے والاہے ۔اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہی قرض ادا کرواتا اور گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تیرے لشکر کو شکست نہیں ہو گی اور تیرا وعدہ غلط نہیں ہو گا، تیرے سامنے کسی زور آور کا زور نہیں چلتا۔ تو پاک ہے اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب مایقول عند النوم، ۴ / ۴۰۶، الحدیث: ۵۰۵۲)

وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۱۱۶)

ترجمۂکنزالایمان: اور اے سننے والے زمین میں اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دیں وہ صرف گمان کے پیچھے ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اے سننے والے! زمین میں اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکا دیں ، یہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور یہ صرف اندازے لگا رہے ہیں۔

{ وَ اِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ: اگر تو زمین میں موجود اکثر لوگوں کی اطاعت کرے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے شبہات کا جواب دیا پھر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے درست ہونے کودلائل کے ساتھ بیان کیا اور اب بیان فرمایا جا رہا ہے کہ جب شبہات زائل ہو گئے اور دلائل بھی واضح ہو چکے تو اب کسی عقلمند کے لئے جائز نہیں کہ وہ جاہلوں کی گفتگو کی طرف توجہ کرے اور نہ ہی ان کے فاسد کلمات کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہو، لہٰذا اے سننے والے! اگر تو زمین میں موجود اکثر لوگوں یعنی کافروں کی غلط باتوں یعنی حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے میں ان کی پیروی کرے گا تو یہ تجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۱۲۶)

            ایک قول یہ ہے کہ اس سے جاہل اور نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے لوگوں کی پیروی مراد ہے۔ (بیضاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۴۴۶)

اسلامی لبادے میں ملبوس اسلام دشمنوں سے بچا جائے:

             اس آیت میں یہ پہلو بھی داخل ہے کہ عوام ایسے لوگوں سے بھی محتاط رہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ،اسلامی تعلیمات کی اشاعت کو اپنی ڈھال بنا کر اسلام ہی کی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں ان کے بارے میں علمائے حق سے معلومات حاصل کر کے ان سے بچنے کی کوشش کریں ، دین کے مُسَلَّمہ امور میں ان کی قیاس آرائیاں ، حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرنے میں ان کی صرف کی ہوئی توانائیاں کسی کام کی نہیں ، ان کی پیروی دنیا و آخرت کے عظیم خسارے کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ دینی امور میں صر ف اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی پیروی کریں ، ان کے مقابلے میں کسی کی بھی پیروی نہ کریں۔ اہلِ حق علماء اور مجتہدین کی پیروی درحقیقت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ہی پیروی ہے کہ یہ حضرات ان ہی کے احکام سناتے ہیں۔

{ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ: یہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں۔} یعنی یہ کفار جو آپ سے آپ کے دین اور مذہب کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں انہیں تو اپنے مذہب کے درست ہونے کا بھی یقین نہیں۔ اپنے مذہب کو درست ثابت کرنے کیلئے ان کے پاس دلیل صرف اپنے جاہل اور گمراہ باپ دادا کی تقلید کرنا ہے، یہ لو گ بصیرت و حق شناسی سے محروم ہیں اور دین کے بارے میں غلط اندازے لگا رہے ہیں کہ یہ حلال ہے یہ حرام۔ اٹکل سے کوئی چیز حلال یاحرام نہیں ہوتی جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حلال کیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کیا وہ حرام ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’ظن ‘‘سے مراد کفار کا اپنے مذہب کو ثابت کرنے میں اپنے اسلاف کی تقلید کرنا ہے، مجتہد کے قیاس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔(تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۵ / ۱۲۷)

قرآن وحدیث کے مقابلے میں آباؤ اجداد کی پیروی مشرکوں کا طریقہ ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے مقابل اپنے باپ دادوں کی پیروی کرنا مشرکوں کا طریقہ ہے۔ فی زمانہ حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی کسی غلط بات پر عمل پیرا ہو اور اسے سمجھایا جائے تو جواب یہی ملتا ہے کہ ہم تو عرصۂ دراز سے یونہی کرتے چلے آ رہے ہیں ،ہم نے تو آج تک کسی کو اس بارے میں کوئی کلام کرتے نہیں سنا، ہمارے بڑے بوڑھے بھی تو یہی کرتے آئے ہیں تم نے دو لفظ کیا پڑھ لئے اب ہمیں بھی سمجھانے لگ گئے، ایسے حضرات کو چاہئے کہ اس آیتِ کریمہ کو سامنے رکھ کر خودغور کرلیں کہ وہ کن کی رَوِش اختیار کئے ہوے ہیں۔

اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ یَّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِهٖۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(۱۱۷)

ترجمۂکنزالایمان: تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون بہکا اس کی راہ سے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت والوں کو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ہدایت والوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔

{ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ:بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے ۔} یعنی کفار جو دوسروں سے فیصلہ کروانے کی بات کرتے ہیں یہ انتہائی نادان ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ لوگوں میں سے گمراہ کون ہے اور حق پر کون ہے اور یہ بھی وہی بہتر جانتا ہے کہ کفار اور مومنین میں سے گمراہی اور ہدایت پر کون ہے اور وہی ان میں سے ہر ایک کو وہ جزا دے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۱۰۳، روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۳ / ۹۲، ملتقتاً)

   یعنی مومن حق و ہدایت پر ہیں اور کفار باطل و ضلالت پر۔

فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ(۱۱۸)

ترجمۂکنزالایمان:    تو کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم ا س کی آیتیں مانتے ہو ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اس میں سے کھاؤجس پر اللہکا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو۔

{ فَكُلُوْا:تو کھاؤ۔} یعنی جو جانور اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا اسے کھاؤ اور جو اپنی موت مرا یا بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا وہ حرام ہے۔ جانور کے حلال ہونے کا تعلق اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ذبح ہونے سے ہے ۔ شانِ نزول: مشرکین مسلمانوں پر اعتراض کرتے تھے کہ تم اپنا قتل کیا ہوا تو کھاتے ہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مارا ہوا یعنی جو اپنی موت مرے اس کو حرام جانتے ہو۔ اس کے جواب میں یہ آیت اتری (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۲ / ۵۰) جس میں فرمایا گیا کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر ذبح کیا گیا وہ حلال ہے اور جو اس کے نام پر ذبح نہ ہوا وہ حرام ہے۔ اور کافروں کا اعتراض کہ ذبیحہ کو ہم مارتے ہیں اور جو خود مرے اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ مارتا ہے تو جو اللہ عَزَّوَجَلَّکا مارا ہوا ہو وہ حرام کیوں ؟ اس اعتراض کی بنیاد ہی غلط ہے کیونکہ جس جانور کو کوئی شخص مارے اور جو جانور خود مرے بہرحال دونوں کو موت دینے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے لہٰذا دونوں صورتوں میں یوں فرق کرنا ہی باطل ہے کہ ایک کو ہم نے مارا اور دوسرے کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے۔ اب رہا یہ کہ ایک حلال اور دوسرا حرام کیوں تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم ہے اور وہ خالق و مالک ہے جو چاہے حکم فرمائے اور یہ اس کے نام کی تعظیم کی ایک صورت ہے کہ اس کے نام پر ذبح کردہ جانور حلال ہے اور اس کے علاوہ حرام ہے۔

قرآنِ مجید پر ایمان لانے کا تقاضا:

            اس سے معلوم ہو اکہ قرآنِ مجید کی آیات پر ایمان لانا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حلال فرمایا اسے حلال سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور جسے حرام فرمایا اسے حرام مانا جائے اور ا س سے بچا جائے اور اللہ تعالیٰ کے حلال کئے ہوئے کو حرام قرار دینا یا حرام کئے ہوئے کو حلال سمجھنا دونوں قرآن پر ایمان کے منافی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قرآنِ کریم (اجمالی طور پر کلام کی) پانچ قسموں پر اترا: حلال، حرام، مُحکم، مُتَشابہ اور مثالیں لہٰذا حلال کو حلال جانو، حرام کو حرام مانو، محکم پر عمل کرو ، متشابہ پر ایمان لاؤ اور مثالوں سے عبرت پکڑو۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثانی، ۱ / ۵۶، الحدیث: ۱۸۲)

                حضرت صہیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اس شخص کا قرآن پر ایمان نہیں جو اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال سمجھے۔ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۰-باب، ۴ / ۴۲۱، الحدیث: ۲۹۲۷)

وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْهِؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَهْوَآىٕهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ(۱۱۹)

ترجمۂکنزالایمان: اور تمہیں کیا ہوا کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا وہ تو تم سے مفصل بیان کرچکا جو کچھ تم پر حرام ہوا مگر جب تمہیں اس سے مجبوری ہو اور بیشک بہتیرے اپنی خواہشوں سے گمراہ کرتے ہیں بے جانے بیشک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہارے لئے وہ چیزیں تفصیل سے بیان کرچکا ہے جو اس نے تم پر حرام کی ہیں سوائے ان چیزوں کے جن کی طرف تم مجبور ہوجاؤ اور بیشک بہت سے لوگ لاعلمی میں اپنی خواہشات کی وجہ سے گمراہ کرتے ہیں۔ بیشک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔

 { وَ مَا لَكُمْ اَلَّا تَاْكُلُوْا:اور تمہیں کیا ہے کہ تم نہ کھاؤ۔}یعنی اس جانور کو کھانے سے کیا چیز تمہیں روک رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح کیا گیا ہے حالانکہ جوچیزیں حرام تھیں وہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تفصیل سے بیان فرما دی ہیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام نہیں فرمایا اسے حرام سمجھنا کیسی حماقت ہے۔

حرام چیزوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ قانون یہ ہے کہ حرام چیزوں کا مفصل ذکر ہوتا ہے اور جس چیز کو حرام نہ فرمایا گیا ہو وہ حلال ہے۔ حرام چیزوں کا تفصیلی بیان متعدد سورتوں میں اور سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے فرامین میں موجود ہے۔ یونہی مجبوری کی حالت میں حرام چیز کھانے کا بیان قرآنِ پاک میں کئی جگہ موجود ہے۔

{ وَ اِنَّ كَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ:اور بیشک بہت سے لوگ گمراہ کرتے ہیں۔}کفار بحیرہ اور سائبہ بتوں پر چھوٹے ہوئے جانوروں کو تو حرام جانتے ہیں اور جو جانور غیرِ خدا کے نام پر ذبح ہوں یا خود مر جائیں انہیں حلال جانتے ہیں حالانکہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے لہٰذا ان جاہلوں کی بات نہ مانو۔

حلال چیزیں حرام قرار دینے والوں کو نصیحت:

            اس آیتِ کریمہ کو پڑھ کر وہ لوگ غور کریں جواپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے چیزوں کو حرام یا حلال قرار دے کر گمراہ کرتے ہیں ، شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اسی طرح ان حضرات کو بھی غور کرنے کی حاجت ہے جو اس جانورکو حرام کی صف میں داخل کر دیتے ہیں کہ جسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا گیا اور اس سے مقصود کسی ولی یا بزرگ کو ثواب پہنچانا تھا۔

{ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ:بیشک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جنہوں نے اس چیز کو حرام قرار دے دیا جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حلال کیا اور جسے اس نے حرام کیا اسے حلا ل کہہ دیا،اللہ تعالیٰ انہیں ان کی حرکتوں کی سزا دے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۵۰-۵۱)

            اس آیتِ مبارکہ سے ان لوگوں کو بھی ڈرنا چاہیے جو بغیر علم محض اپنی رائے سے حرام و حلال کا غلط فتویٰ دیتے ہیں۔

وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ(۱۲۰)

ترجمۂکنزالایمان: اور چھوڑ دو کھلا اور چھپا گناہ وہ جو گناہ کماتے ہیں عنقریب اپنی کمائی کی سزا پائیں گے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو بیشک جو لوگ گناہ کماتے ہیں انہیں عنقریب ان گناہوں کا بدلہ دیا جائے گا جن کا وہ اِرتکاب کرتے تھے۔

 { وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ:اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو۔} ظاہری اور باطنی گناہ کی تفسیر میں دو قول ہیں : (1) ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں کہ جن کا ارتکاب اعلانیہ اور مجمعِ عام میں ہو اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو چھپ کر کئے جائیں۔ (2)ظاہری گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو ظاہری اعضاء سے کئے جائیں اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو دل سے کئے جائیں جیسے حسد، تکبر، ریاکاری ، بغض و کینہ ،بدگمانی اور برے کاموں کو پسند کرنا وغیرہ۔( صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۶۲۳)اس کے علاوہ بھی کئی اقوال ہیں۔

             خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں ہر طرح کے گناہوں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے گناہ کا تعلق جسم سے ہو یا دل سے یا نیت و ارادہ سے، علانیہ گناہ ہو یا چھپ کر۔ ([3])

{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ: بیشک جو لوگ گناہ کماتے ہیں۔} یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے منع کئے ہوئے کام کرتے ہیں اور ان گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کئے ہیں تو انہیں عنقریب آخرت میں دنیا میں کئے ہوئے گناہوں کی سز ادی جائے گی۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۵۱)

 توبہ کرنے کی اہمیت اور اس کی ترغیب:

            یاد رہے کہ جس مسلمان نے مرنے سے پہلے پہلے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لی تو اسے آخرت میں سزا نہ ہو گی البتہ جس مسلمان نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی تو ا س کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے ، وہ چاہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا دے دے اور چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اس کے گناہ معاف کر دے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہونے کی امید باندھ کر گناہوں میں مصروف رہنا انتہائی نادانی ہے کیونکہ گناہگاروں کی ایک تعداد ضرور جہنم میں جائے گی اور کوئی گناہگار یہ نہیں جانتا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کویقینی طور پر معاف کر دے گا ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’بے شک سب گناہ گار مشیت کے خطرے میں ہیں بلکہ اطاعت گزار بھی نہیں جانتے کہ ان کا خاتمہ کیساہو گا تواے گناہگارو! تم دھوکے میں مت رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہر گناہگار کو حاصل نہ ہو گی اور نہ ہی تمہیں یہ معلوم ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں معاف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۹۴)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو انسان یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ میں مومن ہوں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے گناہ معاف کر دے گا تواسے یہ تصور کرنا چاہئے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف نہ کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب انسان اطاعت نہ کرے تو ا س کا ایمانی درخت کمزو ر و ناتواں ہو جائے اور نزع کے وقت موت کی سختیوںکے تند جھونکوں سے اکھڑ جائے کیونکہ ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی پرورش عبادت کے پانی سے ہوتی ہے اور جب اسے یہ پانی نہ ملا اور ا س نے قوت نہ پکڑی تو اس کے اکھڑ جانے کے خطرات ہر وقت ا س پر منڈلاتے رہیں گے۔ اگر وہ اپناایمان سلامت لے گیا تو یہ بھی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے عذاب میں مبتلاء کر دے، لہٰذا اس آسرے میں بیٹھے رہنا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا بہت بڑی حماقت ہے اور اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو اپنے مال و اسباب کو تباہ کر کے اور بال بچوں کو بھوکا چھوڑ کر یہ خیال کرے کہ شاید ویرانے میں خزانہ مل جائے یا اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو کسی ایسے شہر میں رہ رہا ہو جسے لوٹا جا رہا ہو اور وہ اپنے خزانے ا س امید پر نہ چھپائے کہ ہو سکتا ہے جب لوٹنے والا ہمارے گھر میں آئے تو وہ آتے ہی مر جائے گا یا اندھا ہو جائے گا یا وہ میرے گھر کو دیکھ نہ سکے گا، یہ سب باتیں اگرچہ ممکن ہیں لیکن ان پر اعتماد کرنا اور احتیاط سے ہاتھ اٹھا لینا حماقت ہے۔ (کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل اول در توبہ، ۲ / ۷۷۳-۷۷۴)

            آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں ’’گنا ہ ایمان کے لیے اس طرح ( نقصا ن دہ) ہیں جیسے مضرِ صحت کھانے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں ، وہ معدے میں جمع ہو تے رہتے ہیں حتّٰی کہ اَخلاط (یعنی صفراء ،بلغم وغیر ہ) مزاج کو بدل دیتے ہیں اور اس کو پتہ بھی نہیں چلتا یہاں تک کہ اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ اچانک بیمار ہو جا تا ہے اور پھر اچانک مر جاتا ہے تو گنا ہو ں کا معاملہ بھی یہی ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس فا نی دنیا میں ہلاکت کے خوف سے وہ زہر سے بچتا ہے اور ان کھا نو ں سے فوری طور پر بھی اور ہر حال میں بچتا ہے جو نقصان دہ ہو تے ہیں تو ابد ی ہلاکت سے ڈرنے والے پر بدرجہ اولی گنا ہوں سے اجتنا ب ضروری ہے اور جب زہر کھانے والے پرلازم ہے کہ جو ں ہی نادم ہو قے کرے اور اس کھا نے سے رجوع کرے اور اسے معدے سے نکال دے اور یہ عمل فوری طور پر کرے تاکہ اس کا جسم ہلاکت سے بچ جا ئے حالانکہ اس کا نقصان صرف دنیوی ہے جبکہ دین کے معاملے میں گناہوں کی صورت میں زہر کھانا بدر جہ اَولیٰ نقصان دہ ہے تو اسے اس سے رجو ع کرنا چا ہیے اور جس قدر ممکن ہو تَدارُک کرے جب تک اس کے لیے مہلت ہے اور وہ اس کی زند گی ہے کیوں کہ جس کو اس زہر کا خوف اس لیے ہے کہ باقی رہنے والی آخرت سے محروم ہو جا ئے گا جس میں ہمیشہ کی نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت ہے اور اس کے فوت ہو نے سے جہنم کی آگ اور ہمیشہ کے عذاب کا سامنا ہوگا اور دنیوی زندگی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کیوں کہ اُس کی کو ئی انتہا نہیں تو اس کے لئے گناہوں سے تو بہ کرنے میں جلدی کرنا ضروری ہے تاکہ گنا ہو ں کا زہر روح ایمان پر اثر انداز نہ ہو اور (اگر یہ روح ایمان پر اثرانداز ہو گیاتو) یہ ایسا اثر ہوگا جس کا ڈاکٹروںکے پاس بھی کو ئی علا ج نہیں اور نہ ہی اس کے بعد کوئی پرہیز اثر کرے گی، اس کے بعد نصیحت کرنے والوں کی نصیحت اور واعظین کا وعظ بھی فائد ہ نہیں دے گا اور اس پر یہ بات ثابت ہو جا ئے گی کہ وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے۔ (احیاء العلوم، کتاب التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ علی الفور، ۴ / ۱۰-۱۱)[4]

وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌؕ-وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْۚ-وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠(۱۲۱)

ترجمۂکنزالایمان: اور اُسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بیشک حکم عدولی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانو تو اس وقت تم مشرک ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ اور بیشک یہ نافرمانی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانوگے تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے۔

{ وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ:اور جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔} جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا اس کا کھانا حلال ہے، یہ بیان فرمانے کے بعد اب اس جانور کو کھانے سے منع کیا جا رہا ہے کہ جسے ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر اس پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ لہٰذا حکم یہ ہے کہ جس جانور پر مسلمان یا کتابی نے جان بوجھ کراللہ تعالیٰ کا نام ذکر نہ کیا وہ حرام ہے اور اگر بھول کر نام لینا رہ گیا تو حلال ہے اور مسلمان و کتابی کے علاوہ کسی دوسرے کا ذبح کیا ہوا مُطْلَقاً حرام ہے۔ یاد رہے کہ یہاں کتابی سے مراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اپنے نبی اور کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ محض نام کے عیسائی اور حقیقت میں دَہریہ مراد نہیں ہیں۔

{ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓـٕهِمْ:اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔} اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان اپنے دوستوں یعنی مشرکوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ مردار کھانے کے معاملے میں تم سے جھگڑا کریں جیسا کہ اوپر کافروں کا ایک اعتراض نقل کیا گیا ہے۔ مزید فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال کہنے میں ان کافروں کی بات مانی تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے کیونکہ دین میں حکمِ الٰہی کو چھوڑنا اور دوسرے کے حکم کو ماننا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔

علم کے بغیر دینی مسائل میں جھگڑنا شیطانی لوگوں کا کام ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ’’ بغیر علم دینی مسائل میں جھگڑنا یا محض جھگڑے کی نیت سے مناظرہ کرنا شیطانی لوگوں کا کام ہے لیکن تحقیقِ حق کے لئے مناظرہ کرنا عبادت ہے۔

اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۲)

ترجمۂکنزالایمان: اور کیا وہ کہ مردہ تھا تو ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور کردیا جس سے لوگوں میں چلتا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں یونہی کافروں کی آنکھ میں ان کے اعمال بھلے کردئیے گئے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کیا وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور ہم نے اس کے لیے ایک نور بنا دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے (کیا) وہ اس جیسا ہوجائے گا جو اندھیروں میں (پڑا ہوا) ہے(اور) ان سے نکلنے والا بھی نہیں۔ یونہی کافروں کے لئے ان کے اعمال آراستہ کردئیے گئے۔

{ اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا:اور کیا وہ جو مردہ تھا۔} اس آیت میں مردہ سے کافر اور زندہ سے مومن مراد ہے کیونکہ کفر دلوں کے لئے موت جبکہ ایمان زندگی ہے اور نور سے ایمان مراد ہے جس کی بدولت آدمی کفر کی تاریکیوں سے نجات پاتا ہے۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نور سے کتابُ اللہ یعنی قرآن مراد ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۱۰۵)

کفر اور جہالت کی مثال:

            اس آیتِ کریمہ میں کفر اور جہالت کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ مومن اور کافر کا حال یہ ہے کہ ہدایت پانے والا مومن اُس مردہ کی طرح ہے جس نے زندگی پائی اور اس کو نور ملا جس سے وہ مقصود کی طرف راہ پاتا ہے اور کافر اس کی مثل ہے جو طرح طرح کی اندھیریوں میں گرفتار ہوا اور اُن سے نکل نہ سکے، ہمیشہ حیرت میں ہی مبتلا رہے۔ یہ دونوں مثالیں ہر مومن و کافر کے لئے عام ہیں اگرچہ اس کے شانِ نزول کے بارے میں روایتیں مختلف ہیں ، ان میں سے تین روایتیں درج ذیل ہیں :

(1) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے قول کے مطابق اس آیت کا شا نِ نزول یہ ہے کہ’’ ابوجہل نے ایک روز سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر کوئی نجس چیز پھینکی ۔ اس دن حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شکار کو گئے ہوئے تھے، جس وقت وہ ہاتھ میں کمان لئے ہوئے شکار سے واپس آئے تو انہیں اِس واقعہ کی خبر دی گئی، گو ابھی تک وہ دولتِ ایمان سے مشرف نہ ہوئے تھے لیکن یہ خبر سنتے ہی طیش میں آگئے اور ابوجہل کے پاس پہنچ کر اسے کمان سے مارنے لگے ۔ ابوجہل عاجزی اور خوشامد کرتے ہوئے کہنے لگا: اے ابویعلیٰ! کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کیسا دین لائے اور اُنہوں نے ہمارے معبودوں کو برا کہا اور ہمارے باپ دادا کی مخالفت کی اور ہمیں بدعقل بتایا ہے۔ اس پر حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’تم جیسا بدعقل کون ہے کہ تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کو چھوڑ کر پتھروں کو پوجتے پھر رہے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفٰے (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) اللہ کے رسول ہیں۔اسی وقت حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسلام لے آئے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

(2)…حضرت ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔

(3)… حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’یہ آیت حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۵۲) تو حضرت امیر حمزہ یا حضرت عمر یا حضرت عمار بن یاسررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور یونہی ہر ایمان لانے والے کا حال اس کے مشابہ ہے جو مردہ تھا ایمان نہ رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو روحِ ایمان عطا فرما کر زندہ کر دیا اور باطنی نور عطا فرمایا کہ جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے اور ابوجہل اور اس جیسوں کی حالت یہی ہے کہ وہ کفر وجہل کی تاریکیوں میں گرفتار ہے اور وہ ان تاریکیوں سے نکلنے والا بھی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ گنہگار مومن اپنے گناہ کو اچھا نہیں سمجھتا اس لئے وہ مومن رہتا ہے لیکن کافر اپنی بد کرداریوں کو اچھا جانتا ہے اور ان پر ناز کرتا ہے اس لئے وہ لائقِ مغفرت نہیں۔

نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے محبت کی برکت:

            حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ والے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی محبت اور تائید و نصرت بہت خیروخوبی کا ذریعہ بنتی ہے جیسے یہاں ان کے لئے ایمان کی دولت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :کسی آدمی نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں عرض کی: قیامت کب آئے گی؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’تم نے ا س کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے؟ اس نے عرض کی: میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے ا س کے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے محبت رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’تم ان کے ساتھ ہو جن سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہمیں اتنا کسی چیزنے خوش نہیں کیا جتنا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے اس فرمان نے کیا کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے محبت کرتا ہوں لہٰذا میں امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں ان کے ساتھ رہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔(بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، باب مناقب عمر بن الخطاب۔۔۔ الخ، ۲ / ۵۲۷، الحدیث: ۳۶۸۸)

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَاؕ-وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ(۱۲۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کے سرغنہ کیے کہ اس میں داؤں کھیلیں اور داؤں نہیں کھیلتے مگر اپنی جانوں پر اور انہیں شعورنہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ویسے ہی ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کو (ان کا) سردار بنادیا تاکہ اس میں وہ اپنی سازشیں کریں اور وہ صرف اپنے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں۔

{ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا:اور اسی طرح ہم نے بنا دئیے۔} ارشاد فرمایا کہ جیسے کفارِ مکہ دیگر کافروں کے سردار ہیں ویسے ہی ہم نے ہر بستی میں اس بستی کے مجرموں کو ان کا سردار بنا دیا تاکہ اس بستی میں وہ اپنی سازشیں کریں اور طرح طرح کے حیلوں ، فریبوں اور مکاریوں سے لوگوں کو بہکانے اور باطل کو رواج دینے کی کوشش کریں۔ ان سے یہ افعال اس لئے سرزد ہوئے کہ یہ رئیس تھے اور اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ رہا ہے کہ’’ ا س نے ہر بستی میں غریب لوگوں کو رسولوں کی پیروی کرنے والا اور نافرمانوں کو بستی کا سردار بنایا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۲ / ۵۳)

پیشواؤں کے بگڑنے کا نقصان اور سنبھلنے کا فائدہ:

            ا س سے معلوم ہوا کہ قوم کے سرداروں کا بگڑنا قوم کو ہلاک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا‘‘ (بنی اسرائیل:۱۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں توہم اس کے خوشحال لوگوں کو (اپنے رسولوں کے ذریعے اپنی اطاعت کا)حکم دیتے ہیں پھر وہ لوگ اس بستی میں نافرمانی کرتے ہیں تو اس بستی پر (عذابِ الٰہی کی) بات پکی ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔

            اسی طرح پیشواؤں کا سنبھل جانا قوم کو سنبھالا دینا ہے۔

{ لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا:تاکہ اس میں وہ اپنی سازشیں کریں۔} مکہ مکرمہ آنے والے ہر راستے پر کفارِ مکہ نے چار چار افراد بٹھا دئیے تاکہ وہ لوگوں کو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر ایمان لانے سے روکیں ، چنانچہ جو شخص بھی مکہ میں حاضر ہوتا یہ لوگ اس سے کہتے کہ ’’تم اس شخص سے بچنا یہ کاہن، ساحر اور کذاب ہے۔ ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ درحقیقت یہ صرف اپنے خلاف سازشیں کررہے ہیں ، ان سازشوں کا وبال انہی پر پڑے گا اور انہیں اس کا شعور نہیں۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۲ / ۱۰۶)

            اس آیت میں سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ سردارانِ مکہ کی دشمنی سے پریشان نہ ہوں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے پہلے جو انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامگزرے وہ جس شہر میں مبعوث ہوئے وہاں کے سرداروں نے ان کی اسی طرح مخالفت کی تھی۔ (البحر المحیط، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۴ / ۲۱۷)

وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ ﲪ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا كَانُوْا یَمْكُرُوْنَ(۱۲۴)

ترجمۂکنزالایمان: اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آئے کہتے ہیں ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسا ہی نہ ملے جیسا اللہ کے رسولوں کو ملا اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے عنقریب مجرموں کو اللہ کے یہاں ذلت پہنچے گی اور سخت عذاب بدلہ ان کے مکر کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آئے تو کہتے ہیں کہ ہم ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسا ہی نہ ملے جیسا اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھے۔ عنقریب مجرموں کو ان کے مکرو فریب کے بدلے میں اللہ کے ہاں ذلت اور شدید عذاب پہنچے گا۔

{ وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰیَةٌ:اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آئے۔}  شانِ نزول: ولید بن مغیرہ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے کہا: ’’ اگر نبوت حق ہے تو میں آپ سے زیادہ اس کا مستحق ہوں کیونکہ میں عمر میں بڑا ہوں اور آپ سے زیادہ مالدار ہوں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ،ابو جہل نے کہا کہ’’ہم نے عبدِ مناف کی اولاد سے سرداری میں مزاحمت کی۔ اور اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ کی قسم! ہم اس پر ایمان لائیں گے نہ کبھی اس کی پیروی کریں گے یہاں تک کہ ہمارے پاس بھی ویسے ہی وحی آئے جیسے اس کے پاس آتی ہے۔ (تفسیر بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۱۰۶)

عقیدۂ نبوت کے بارے میں چند اہم باتیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کا چناؤ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اعمال، قومیت یا مال کی وجہ سے نبوت نہیں ملتی۔ عقیدۂ نبوت سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھنے کی ہیں :

(1)نبوت کسبی نہیں کہ آدمی عبادت و ریاضت کے ذریعے کوشش کر کے اسے حاصل کر سکے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی عطا ہے کہ جسے چاہتا ہے اسے اپنے فضل سے نبوت عطا فرماتا ہے، ہاں دیتا اسی کو ہے جسے اس عظیم منصب کے قابل بناتا ہے، جو نبوت کا منصب ملنے سے پہلے ہر طرح کے برے اور مذموم اخلاق سے پاک اور اچھے اور قابلِ تعریف تمام اخلاق سے مزین ہو کر ولایت کے جملہ مَدارج طے کر چکتا ہے، اور اپنے نسب و جسم، قول وفعل، حرکات و سکنات میں ہرایسی بات سے پاک و صاف ہوتا ہے جو باعثِ نفرت ہو، اُسے عقلِ کامل عطا کی جاتی ہے، جو اوروں کی عقل سے بدرجہا زائد ہے، کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اُس کے لاکھویں حصہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ اور جو اِسے کسبی مانے کہ آدمی اپنے کسب و ریاضت سے منصب ِنبوت تک پہنچ سکتا ہے، کافر ہے۔

(2)… جو شخص نبی سے نبوت کا زوال ممکن مانے وہ کافر ہے۔

(3)… نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور فرشتے کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔  عصمتِ انبیا کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے اللہتعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا وعدہ ہو چکا، جس کے سبب اُن سے گناہ کاصادر ہونا شرعاً محال ہے، جبکہ ائمہ و اکابر اولیا کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کا کوئی وعدہ نہیں ، ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنھیں محفوظ رکھتا ہے کہ اُن سے گناہ ہوتا نہیں اور اگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔

(4) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شرک و کفر اور ہر ایسے کام سے جو لوگوں کے لیے باعثِ نفرت ہو، جیسے جھوٹ ، خیانت اور جہل وغیرہ مذموم صفات  سے، نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مُروّت کے خلاف ہیں ، نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد بالاجماع معصوم ہیں اور کبیرہ گناہوں سے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ جان بوجھ کر صغیرہ گناہ کرنے سے بھی نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد معصوم ہیں۔(بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ نبوت، ۱ / ۳۶-۳۹، ملخصاً)

            نوٹ:مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت جلد 1کے پہلے حصے کا مطالعہ کیجئے۔

{ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ:اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔}یعنی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے کہ اسے یہ شرفِ عظیم عطا فرمائے اور اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کا مستحق نہیں ،اور اے کفارِ مکہ! تم ا س لائق ہی نہیں کہ تمہیں نبوت جیسے عظیم مرتبہ سے نوازا جائے اور نہ ہی نبوت مطالبہ کرنے پر ملتی ہے خصوصاً وہ شخص کہ جو حسد، دھوکہ، بدعہدی وغیرہ برے افعال اور گھٹیا اوصاف میں مبتلا ہو، نبوت جیسے منصبِ عالی کے لائق کیسے ہو سکتا ہے۔( خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۲ / ۵۳)

عظمتِ مصطفی اور عظمتِ صحابہ:

            حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں میں نظر فرمائی تو سب کے دلوں سے بہتر محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دل کو پایا تو انہیں اپنے لئے چن لیا اور اپنی رسالت کے ساتھ انہیں مبعوث فرمایا ۔محمدصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں میں نظر فرمائی تو ان کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دلوں کو دیگر لوگوں کے دلوں سے بہتر پایا تو انہیں اپنے نبی کا وزیر بنادیا، یہ لوگ ان کے دین کی حمایت میں جنگ کرتے ہیں۔ پس جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جسے مسلمان برا سمجھیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بھی بری ہے۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، ۲ / ۱۶، الحدیث:  ۳۶۰۰)

فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ-كَذٰلِكَ یَجْعَلُ اللّٰهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۲۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور جسے اللہ راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتا ہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اللہ یونہی عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب مسلط کردیتا ہے۔

{ فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ:اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے۔} اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہی اپنی مخلوق کی دو قسمیں بنائیں (1) شقی (2) سعید، اور ہر ایک کیلئے نشانی بنائی کہ جس سے اس کی پہچان ہو۔ سعادت کی نشانی اسلام کے لئے سینہ کھلنا اور ایمان قبول کرنا جبکہ شقاوت کی نشانی سینہ کی تنگی اور اسلام قبول نہ کرناہے۔ اور ہر گروہ کے لئے آخرت میں ایک گھر بنایا جس میں وہ لوگ رہیں گے۔ سعادت مند جنت اور اس کی نعمتوں میں رہیں گے اور شقاوت والوں کو جہنم کی آگ میں رہنا اور اس کا عذاب سہنا پڑے گا۔ حدیث میں ہے ’’اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا اور ارشاد فرمایا: یہ جنت کے لئے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ، اور ایک مخلوق کو پید افرمایا اور فرمایا: یہ جہنم کے لئے ہیں اور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی مخلوق کی نشانی بیان فرمائی ہے،لہٰذا جب اللہ تعالیٰ بندے کو شرحِ صدر کی توفیق دے اور اسے حلاوتِ ایمان سے بھر دے تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔(صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جسے جنت کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے عبادت کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور جسے جہنم کے لیے پیدا کیا گیا اس کے لیے گناہ کے اسباب آسان کردیئے جاتے ہیں اور اس کے دل میں شیطان کا حکم مُسلَّط کیا جاتا ہے کیونکہ وہ طرح طرح کی باتوں سے بیوقوف لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمت والا ہے لہٰذا تمہیں کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، تمام لوگ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے لہٰذا تم ان کی مخالفت نہ کرو، زندگی بہت طویل ہے لہٰذا انتظار کرو کل توبہ کرلینا، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْؕ-وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ‘‘(نساء :۱۲۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:شیطان انہیں وعدے دیتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انہیں صرف فریب کے وعدے دیتا ہے۔

            یعنی وہ ان کو توبہ کا وعدہ دیتا اور مغفرت کی تمنا دلاتا ہے اور ان حیلوں سے اِذنِ خداوندی سے ان کوہلاک کردیتا ہے، اس کے دل کو دھوکے کی قبولیت کے لیے کشادہ اور قبولِ حق سے تنگ کردیتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قضا اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ ہدایت و گمراہی کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہ جو چاہے کرتا ہے اور جو ارادہ فرمائے حکم دیتا ہے اس کے حکم کو کوئی رد نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اس کے فیصلے کو مؤخر کرسکتا ہے اس نے جنت اور اہلِ جنت کو پیدا کیا اور ان کو عبادت پر لگایا نیز جہنم اور اہلِ جہنم کو پید اکیا اور ان کو گناہوں پر لگادیا۔ (احیاء العلوم، کتاب شرح عجائب القلب، بیان سرعۃ تقلب القلب۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۹)

سینہ کھلنے سے کیا مراد ہے؟:

            شرح کا اصلی معنی ہے ’’وسیع کرنا‘‘ جبکہ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل میں روشنی پیدا فرماتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۵، ۲ / ۶۲۷)

             جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ا رشاد فرمایا: ’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مومن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔ عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ، (اس کی تین علامتیں ہیں ) (1)آخرت کی طرف رغبت(2) دنیا سے نفرت ، اور (3) موت سے پہلے اس کی تیاری۔(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فی الزہد، ۸ / ۱۲۶، الحدیث: ۱۴)

{ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ:اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے۔} جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا سینہ تنگ، بہت ہی تنگ کردیتا ہے کہ اس میں علم اور دلائلِ توحید و ایمان کی گنجائش نہ رہے، تو اس کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب اس کو ایمان کی دعوت دی جاتی ہے اور اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اس پر نہایت شاق ہوتا ہے اور اس کو بہت دشوار معلوم ہوتا ہیگویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔

سینے کی تنگی کی علامت:

            اس سے معلوم ہوا کہ دینی کام بھاری معلوم ہونا اور دنیاوی کام آسان محسوس ہونا، سینے کی تنگی کی علامت ہے اور  سینے کی تنگی یہ ہے کہ اسباب ِ کفرجمع ہو جائیں اور اسلام کے اسباب نہ مہیا ہو سکیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محفوظ فرمائے۔ بعض پر ایمان بھاری ہوتا ہے، بعض پر نیک اعمال بھاری اور بعض پر عشق اور وجدان بھاری ہے۔ خیال رہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ کفر کرنے پر مجبور ہے بلکہ وہ جو کفر و سرکشی کرتا ہے وہ اپنے اختیار سے کرتا ہے اور آدمی کی بد کرداریوں سے دل میں یہ حال پیدا ہوتا ہے جیسے لوہا زنگ لگ کر بیکار ہو جاتا ہے اسی طرح گناہوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو کر حق قبول کرنے سے محروم ہو جاتا ہے۔

وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًاؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ(۱۲۶)

ترجمۂکنزالایمان: اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے ہم نے آیتیں مفصل بیان کردیں نصیحت ماننے والوں کے لیے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے بیشک ہم نے نصیحت ماننے والوں کے لیے تفصیل سے آیتیں بیان کردیں۔

{ وَ هٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیْمًا:اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے۔} یعنی قرآنِ کریم یاحضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تعلیم وہ راستہ ہے جو بلا تَکَلُّف رب عَزَّوَجَلَّ تک پہنچا دیتا ہے جیسے سیدھا راستہ منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے اس لئے اسے’’ شریعت ‘‘کہتے ہیں یعنی وسیع اور سیدھا راستہ جس پر ہر شخص آسانی سے چل سکے۔ طریقت بھی رب عَزَّوَجَلَّ کا راستہ ہے مگر وہ ایسا تنگ اور پیچ دار ہے جس پر صرف واقف آدمی ہی چل سکتا ہے۔

لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ هُوَ وَلِیُّهُمْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۷)

ترجمۂکنزالایمان: ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اپنے رب کے یہاں اور وہ ان کا مولیٰ ہے یہ ان کے کاموں کا پھل ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: ان کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں ان کے رب کے حضور سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا مددگار ہے۔

{ لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ:ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے۔} دارُالسلام کے دو معنی ہیں (1) سلام اللہ تعالی کا نام ہے، تو ’’دار السلام‘‘ کا معنی ہوا وہ گھر جس کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور یہ اضافت تشریف اور عزت افزائی کے لئے ہے جیسے بَیْتُ اللہ اور نَاقَۃُ اللہ میں ہے۔ (2) اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ’’ سلام‘‘ دار کی صفت ہے یعنی یہ سلامتی کا گھر ہے اور جنت کو ’’ دارُالسلام‘‘ اس لئے فرمایا ہے کہ جنت میں ہر قسم کے عیوب، تکلیفوں اور مشقتوں سے سلامتی ہے۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵ / ۱۴۶) جنت کو دارُ السلام کہنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ جنتیوں کو جنت میں دخول کے وقت سلام کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے، فرشتوں کی طرف سے اور اہلِ اعراف کی طرف سے ان کو سلام پیش کیا جائے گا اور جنتی بھی ایک دوسرے کو سلام کریں گے ۔ (بغوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۰۷)

وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًاۚ-یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِۚ-وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَاؕ-قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(۱۲۸)

ترجمۂکنزالایمان: اور جس دن اُن سب کو اٹھائے گا اور فرمائے گا اے جن کے گروہ تم نے بہت آدمی گھیرلیے اور ان کے دوست آدمی عرض کریں گے اے ہمارے رب ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنی اس میعاد کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی فرمائے گا آگ تمہارا ٹھکانا ہے ہمیشہ اس میں رہو مگر جسے خدا چاہے اے محبوب بیشک تمہارا رب حکمت والا علم والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) وہ دن جب وہ اُن سب کواٹھائے گا (اور فرمائے گا) اے جنوں کے گروہ! تم نے بہت سے لوگوں کو اپنا تابع بنالیا اور انسانوں میں سے جو ان کے دوست ہوں گے وہ کہیں گے : اے ہمارے رب! ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنی اس مدت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی۔ اللہ فرمائے گا: آگ تمہارا ٹھکانا ہے ، تم ہمیشہ اس میں رہو گے مگر جسے خدا چاہے ۔ بیشک تمہارا رب حکمت والا، علم والا ہے۔

{ وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًاۚ-یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ:اور جس دن وہ اُن سب کواٹھائے گا اور فرمائے گا اے جنوں کے گروہ!۔} قیامت میں اولاً سب اکٹھے ہوں گے اس لئے اسے’’ حشر‘‘ کہتے ہیں ، بعد میں اچھے بروں کی چھانٹ ہو جائے گی اس لئے اسے’’ یَوْمُ الْفَصْل‘‘ کہا جاتا ہے۔ سب کو اٹھانے سے مراد یا یہ ہے کہ مومن و کافر کو اکٹھا  اٹھائے گایا انسان و جن کو اکٹھااٹھائے گایا سعید و شقی کو اکٹھا اٹھائے گا۔ اس آیت میں ان سرکش جِنّات سے خطاب ہے جنہوں نے بہت سے انسانوں کو بہکایا جبکہ مومن جنات تو اللہ تعالی ٰکی رحمت میں ہوں گے۔

{ وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ:اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے۔} انسانوں میں سے جو جنات کے دوست ہوں گے اور دونوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہو گا اس طرح کہ’’ جنات نے انسانوں کوبرے راستے دکھائے اور بدعملیوں کو ان کے لئے آسان کیا اور جنات نے انسانوں سے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ’’ انسانوں نے ان کی پوجا کی اور ان کے مطیع و فرماں بردار بنے۔ وہ حسرت سے کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اور افسوس کہ آج ہم اپنی اس مدت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمائی تھی۔ ہائے وقت گزر گیا اور قیامت کا دن آگیا اب صرف حسرت و ندامت ہی باقی رہ گئی ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرشتوں کی زبانی ان سے فرمائے گا: آگ تمہارا ٹھکانا ہے، تم ہمیشہ اس میں رہو گے۔

{ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:مگر جسے خدا چاہے۔} اِس استثناء کے دو معنی ہیں (1) وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے لیکن قبر سے حشر تک کے زمانے اور میدانِ حشر میں حساب کتاب سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک جہنم میں نہ رہیں گے۔ (2) اس سے مراد وہ اوقات ہیں جن میں انہیں ایک عذاب سے دوسرے عذاب میں منتقل کیا جائے گا، جہنمی جب دوزخ کی آگ کی شدت سے فریاد کریں گے تو انہیں زَمْھَرِیرْ یعنی سخت ٹھنڈے اور برفانی طبقے میں ڈال دیا جائے گا اور جب زَمْھَرِیرْ کی ٹھنڈک سے گھبرا کر فریاد کریں گے تو انہیں پھر نارِ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جمہور مفسرین نے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رب تعالیٰ کے علم میں ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا اور نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی تصدیق کی، تو انہیں آگ سے نکال لیا جائے گا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۵۶)

وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۠(۱۲۹)

ترجمۂکنزالایمان:اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کے سبب مسلط کردیتے ہیں۔

{ وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًا:اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے جنوں اور انسانو ں کو رسوا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا اسی طرح ہم ظالموں میں سے ایک کو دوسرے پر ان کے اعمال کی وجہ سے مسلط کردیتے ہیں اور ظالم کی ظالم کے ذریعے پکڑ فرماتے ہیں۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۳ / ۱۰۴)

ظلم کرنے والوں کو عبرت انگیز نصیحت:

             اس آیتِ مبارکہ میں ظلم کرنے والوں کے لئے بڑی نصیحت ہے، چنانچہ حضرت ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت میں ظلم کرنے والوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر وہ اپنے ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ ان پر دوسرا ظالم مسلط کر دے گا جو انہیں ذلیل و خوار اور تباہ و برباد کر دے گا۔ اس آیت میں ہر قسم کے ظالم داخل ہیں ، وہ شخص جو گناہ کر کے اپنی جان پر ظلم کرتا ہے، جو حاکم یا افسر اپنی رعایا اور ماتحت لوگوں پر ظلم کرتا ہے، جو تاجر جعلی اشیاء اور ملاوٹ والی چیزیں فروخت کر کے خریداروں پر ظلم کرتا ہے، اسی طرح جو چور اور ڈاکو مسافروں اور شہریوں سے لوٹ مار کر کے ان پر ظلم کرتے ہیں یہ سب ظالم کی صف میں شامل ہیں ، ان تمام پر اللہ تعالیٰ کوئی ان سے بڑا ظالم مسلط کر دیتا ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۶۲، الجزء السابع)

            حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم کی بھلائی چاہتا ہے تو اچھوں کو ان پر مقرر کرتا ہے اور کسی سے برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو بروں کو ان پر مقرر فرماتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جو قوم ظالم ہوتی ہے اس پر ظالم بادشاہ مقرر کیا جاتا ہے تو جو اس ظالم کے پنجۂ ظلم سے رہائی چاہیں انہیں چاہئے کہ ظلم چھوڑ دیں۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۲ / ۵۶)

            لہٰذاایسے حضرات کو چاہئے کہ درج ذیل روایات اور ایک قول کا بغور مطالعہ کر کے عبرت حاصل کریں اوراللہ ربُّ العالمین کی بارگاہ میں اپنے ظلم سے سچی توبہ کر کے مظلوموں سے معافی کی کوئی صورت بنائیں۔

(1)حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، خدا کی قسم! جو مومن دوسرے مومن پر ظلم کرے گا توقیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس ظالم سے انتقام لے گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الظلم والغضب، ۲ / ۲۰۲، الحدیث: ۷۶۲۱، الجزء الثالث)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جس نے کسی ظالم کی اس کے ظلم پر مدد کی وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۳ / ۵۸۳، الحدیث: ۵۸۲۳)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں کرتا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الظلم والغضب، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۷۵۹۴، الجزء الثالث)

(4)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو ظالم کی مدد کرے گا اللہ تعالیٰ اسی ظالم کو اس پر مسلط کر دے گا۔ (ابن عساکر، حرف البائ، ذکر من اسمہ عبد الباقی،۳۴  / ۴)

(5)… حضرت فضیل بن عیاض رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جب تو ایک ظالم کودوسرے ظالم سے انتقام لیتا ہوا دیکھے تو پھر ٹھہر جا اور تعجب سے یہ تماشا دیکھ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۴ / ۶۲، الجزء السابع)۔[5]

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ(۱۳۰)

ترجمۂکنزالایمان: اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ کیا تمہارے پاس تم میں کے رسول نہ آئے تھے تم پر میری آیتیں پڑھتے اور تمہیں یہ دن دیکھنے سے ڈراتے کہیں گے ہم نے اپنی جانوں پر گواہی دی اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا اور خود اپنی جانوں پر گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تم میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر میری آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے آج کے اس دن کی حاضری سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہم اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیتے ہیں اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور وہ خود اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافر تھے۔

{ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ:اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ!۔} اس آیتِ مبارکہ میں جنات اور انسان دونوں سے خطاب ہوا کہ اے جنوں اور آدمیوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کے سناتے تھے اور تمہیں اس دن یعنی روزِ قیامت کی حاضری اور عذابِ الٰہیسے ڈراتے تھے؟ کافر جن اور انسان اقرار کریں گے کہ رسول اُن کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے زبانی پیام پہنچایا اور اس دن کے پیش آنے والے حالات کا خوف دلایا لیکن کافروں نے اُن کی تکذیب کی اور اُن پر ایمان نہ لائے، انہیں در اصل دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا۔ کفار کا یہ اقرار اس وقت ہوگا جب کہ اُن کے اعضاء و جوارح ان کے شرک و کفر کی گواہی دیں گے۔

رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے متعلق اہم مسئلہ:

          رسول صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں جنات سے نہیں۔ چونکہ یہاں جن و انس دونوں سے خطاب ہے  اس لئے تَغْلِیْبًا یعنی جنوں کو انسانوں کے ماتحت شمار کرتے ہوئے مِنْکُمْ فرمایا گیا۔ بہرحال اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جنات میں نبی آئے، ہاں جنات کے لئے نبی آئے مگر وہ انسان تھے۔

{ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ:اوروہ خود اپنی جانوں کے خلاف گواہی دیں گے۔}قیامت کا دن بہت طویل ہوگا اور اس میں حالات بہت مختلف پیش آئیں گے جب کفار مومنین کے انعام و اکرام اور عزت و منزلت کو دیکھیں گے تو اپنے کفرو شرک سے انکار کر دیں گے اور اس خیال سے کہ شاید مکر جانے سے کچھ کام بن جائے ، یہ کہیں گے ’’وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ‘‘ یعنی خدا کی قسم !ہم مشرک نہ تھے۔ اس وقت ان کے مونہوں پر مہریں لگادی جائیں گی اور اُن کے اعضاء ان کے کفر و شرک کی گواہی دیں گے، اسی کی نسبت اس آیت میں ارشاد ہوا۔’’ وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ‘‘ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۵۷)

ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ(۱۳۱)

ترجمۂکنزالایمان: یہ اس لیے کہ تیرا رب بستیوں کو ظلم سے تباہ نہیں کرتا کہ ان کے لوگ بے خبر ہوں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ اس لیے ہے کہ تیرا رب بستیوں کوظلم سے تباہ نہیں کرتا جبکہ ان کے لوگ بے خبر ہوں۔

{ ذٰلِكَ:یہ۔} تفسیرِ خازن، بغوی، تفسیرِ کبیر، بیضاوی،البحر المحیط،تفسیرِ طبری، مدارک، جلالین، روح البیان، روح المعانی وغیرہ کتبِ تفسیر میں ’’ ذٰلِکَ‘‘کا مشارالیہ’’ رسولوں کا بھیجنا اور ان کا کفار کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا ‘‘مذکور ہے۔ تفسیرِ خازن میں اسے جمہور مفسرین کا قول قرار دیا گیا اورا سے ہی اصح کہا گیا۔ تفسیر البحر المحیط میں اس کے علاوہ دو قول اور مذکور ہیں (1) مشار الیہ پچھلی آیت میں مذکور سوال ہے۔ (2) کفار کا جھٹلانا اور گناہوں میں مبتلا ہونا۔ ان دونوں اقوال کو صاحب تفسیر البحر المحیط نے درست قرار نہیں دیا البتہ تفسیر ابو سعود میں اس کا مشار الیہ کفار کا اعتراف و اقرار مذکور ہے اور صاحب روح المعانی نے پہلے جمہور مفسرین والا قول ذکر کیا اس کے بعد قیل کہہ کے کفار کے اعتراف والا قول ذکر کیا ہے، تفسیرِ سمرقندی میں بھی یہ قول مذکور ہے۔

{ ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ اس لیے ہے کہ رب تعالیٰ بستیوں کوان کی معصیت اور ظلم کی وجہ سے تباہ نہیں کرتا جبکہ ان کے لوگ بے خبر ہوں بلکہ عذاب سے پہلے رسول بھیجے جاتے ہیں جو انہیں ہدایت فرماتے اور ان پر حجت قائم کرتے ہیں ، اس پر بھی وہ سرکشی کریں تو ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا  قیامت میں حساب کتاب، سوال جواب رب تعالیٰ کی بے علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ جیسے دنیا میں بے خبروں پر عذاب نہیں ایسے ہی آخرت میں بھی نہیں مجرموں کو بتا کر، اعمال نامہ دکھا کر عذاب دیا جائے گا۔اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ بد عملی کے بغیر عذاب نہیں بھیجتا ۔ دوسرا یہ کہ نبی کی تبلیغ پہنچے بغیر کسی کو بد عملیوں کی سزا نہیں مل سکتی۔

وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ(۱۳۲)

ترجمۂکنزالایمان: اور ہر ایک کے لیے ان کے کاموں سے درجے ہیں اور تیرا رب ان کے اعمال سے بے خبر نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہر ایک کے لیے ان کے اعمال سے درجات ہیں اور تیرا رب ان کے اعمال سے بے خبر نہیں۔

{ وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ:اور ہر ایک کے لیے درجے ہیں۔} ہر ایک کے لیے چاہے وہ نیک ہو یا گنہگار اس کے اچھے اور برے اعمال کے اعتبار سے درجے ہیں اور انہی کے مطابق ثواب ا ور عذاب ہوگا۔ جنتیوں کو جنت میں ان کے نیک اعمال کے مطابق درجے دئیے جائیں گے، ایسے ہی جہنمیوں کو جہنم میں ان کے برے اعمال کے مطابق مختلف درجوں میں سزا دی جائے گی یا یہ مطلب ہے کہ نیک اعمال کے درجے مختلف ہیں۔ ایک ہی عمل ایک شخص کے لئے زیادہ ثواب کا باعث ہے اوردوسرے کے لئے کم ثواب کا۔ حدیث شریف میں ہے کہ’’ قیامت میں اعمال کا بدلہ عقل کے بَقدر ملے گا۔ (معجم الاوسط، باب الباء، من اسمہ بشر، ۲ / ۲۱۵، الحدیث: ۳۰۵۷)

             لہٰذا اس آیت سے ہزارہا مسائل مُسْتَنْبَط ہو سکتے ہیں۔ عمل کا صلہ جگہ، وقت، موقعہ اور ضرورت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے، جیسے جہاں مسجدیں بہت زیادہ ہوں اور کنوئیں کم ہوں وہاں مسجد کی بجائے کنواں بنوانا زیادہ اچھا ہے۔ اس آیت سے علماء نے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ جنات بھی جنت میں جائیں گے کیونکہ یہاں سب کیلئے ’’دَرَجٰتٌ‘‘ فرمایا گیا ہے اور ’’کُل‘‘میں جنات بھی داخل ہیں۔(تفسیر قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۴ / ۶۳، الجزء السابع)

وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِؕ-اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ(۱۳۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب تمہارا رب بے پروا ہے رحمت والا اے لوگووہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور جسے چاہے تمہاری جگہ لائے جیسے تمہیں اوروں کی اولاد سے پیدا کیا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے حبیب! تمہارا رب بے پروا ہے، رحمت والا ہے۔ اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور جسے چاہے تمہاری جگہ لے آئے جیسے اس نے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد سے پیدا کیا۔

{ وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ:اور اے حبیب! تمہارا رب بے پروا ہے، رحمت والا ہے۔} اس آیت سے یہ درس بھی ہوسکتا ہے کہ اے لوگو! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں جو ایمان اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے اور کفر و شرک اور بد اعمالیوں سے منع فرماتا ہے تو یہ نہ سمجھو کہ اِس میں اُس کا کوئی فائدہ ہے بلکہ وہ تو غنی ہے، اسے کسی کی کوئی حاجت نہیں البتہ چونکہ وہ رحمت والا ہے اس لئے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے اور تمہیں تمہارے بھلے کی باتیں بتاتا ہے ورنہ اگروہ چاہے تو تم سب کو فنا کردے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے جیسے بہت سی قوموں کو اس نے فنا کردیا یا جیسے تم دوسروں کے بعد اس دنیا میں آئے اسی طرح تمہارے بعد دوسرے آجائیں گے تو اس دنیوی زندگی اور مال و متاع پر غرور نہ کرو۔

اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(۱۳۴)

ترجمۂکنزالایمان: بیشک جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے ضرور آنے والی ہے اور تم تھکا نہیں سکتے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (اللہ کو)عاجز نہیں کرسکتے۔

{ اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ:بیشک جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔} ارشاد فرمایا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے چاہے وہ قیامت ہو یا مرنے کے بعد اُٹھنا یا حساب یا ثواب و عذاب۔ یہ سب چیزیں ضرور آئیں گی مگر اپنے وقت پر، تم دیر سے دھوکہ مت کھاؤ بلکہ اس سے بچنے کے اسباب جمع کرو کیونکہ نہ ہم مجبور ہیں نہ جھوٹی خبر دینے والے اور نہ تم طاقت ور کہ ہم سے مقابلہ کر کے بچ سکو لہٰذا مقابلہ نہ کرو بلکہ خوف کرو۔

موت سے غافل رہنے والوں کو نصیحت:

            اس آیتِ کریمہ میں موت سے غافل رہنے والوں کے لئے بھی بہت عبرت ہے کیونکہ ہر انسان سے موت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے اور یہ بہر صورت آکر ہی رہے گی۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم موت کو بکثرت یاد کیا کرتے اور لوگوں کو اس کی یاد دلایا کرتے تھے ، چنانچہ

            حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جب میں اپنی آنکھیں جھپکتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ میری پلکیں ملنے سے پہلے میری روح قبض کر لی جائے گی۔ میں جب نظر اٹھاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ نظر نیچی کرنے سے پہلے میرا وصال ہو جائے گا،میں جب کوئی لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لقمہ گلے سے اترتے وقت میرے لئے موت کا سبب بن جائے گا۔اے آدم کی اولاد!اگر تم عقل رکھتے ہو تو اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو۔ اس ذات کی قسم !جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ’’ اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ‘‘بیشک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (اللہ عَزَّوَجَلَّ) کو عاجز نہیں کرسکتے۔(در منثور، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۴،۳ / ۳۶۱-۳۶۲، شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۵۵، الحدیث: ۱۰۵۶۴)

            حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے ’’ کہاں گئے وہ لوگ جن کے چہرے خوبصورت تھے اور چمکتے تھے اور وہ اپنی جوانیوں پر فخر کرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ بادشاہ جنہوں نے شہر تعمیر کئے اور ان کے گرد دیواریں بنا کر ان کو محفوظ کیا؟ کہاں ہیں وہ جو لڑائی کے میدان میں غالب آتے تھے؟ زمانے نے انہیں کمزور اور ذلیل کردیا اور وہ قبروں کی تاریکیوں میں چلے گئے، جلدی جلدی کرو اور نجات تلاش کرو ،نجات تلاش کرو۔(احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ، ۵ / ۲۰۱)

            حضرت سمیط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اے اپنی طویل صحت پر دھوکے میں مبتلا شخص! کیا تونے کسی کو بیماری کے بغیر مرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ اے وہ شخص! جو طویل مہلت کی وجہ سے دھوکے میں ہے! کیا تو نے کسی کو سامان کے بغیر گرفتار نہیں دیکھا؟ اگر تو اپنی عمر کی طوالت کے بارے میں سوچے تو سابقہ لذتیں بھول جائے، تم لوگ صحت کے دھوکے میں ہو یا عافیت کے دھوکے میں ، زیادہ دن گزارنے پر اکڑتے ہو یا موت سے بے خوف ہو یا موت کے فرشتے پر تمہیں جرأت ہے، بے شک جب موت کا فرشتہ آئے گا تو تمہاری مالی ثَروت اور تمہاری جماعت تمہیں نہیں بچاسکے گی، کیا تم نہیں جانتے کہ موت کی گھڑی سختیوں اور ندامت کی گھڑی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے بعد کے لیے عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے آنے سے پہلے اپنے نفس کو ترس کی نگاہ سے دیکھے۔(احیاء العلوم، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ، ۵ / ۱۹۹)

            اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی موت کو یاد رکھے اور موت کے بعد کے لئے تیاری کرتا رہے۔ اٰمین[6]

قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(۱۳۵)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ اے میری قوم تم اپنی جگہ پر کام کیے جاؤ میں اپنا کام کرتا ہوں تو اب جاننا چاہتے ہو کس کا رہتا ہے آخرت کا گھر بیشک ظالم فلاح نہیں پاتے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو، میں اپنا کام کرتا ہوں تو عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت کے گھر کا (اچھا) انجام کس کے لئے ہے؟ بیشک ظالم فلاح نہیں پاتے۔

{ اِعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ:تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ کفارِ مکہ سے فرما دیں کہ تم اپنی مرضی سے وہی اعمال کرتے رہو جو کر رہے ہو اور اپنے کفر و سرکشی پر قائم رہو جبکہ میں تمہاری طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کر کے، اسلام پر قائم رہ کر اور نیک اعمال پر ہمیشگی اختیار کر کے اپنا کام کرتا ہوں تو عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے کہ آخرت کے گھر کا اچھا انجام کس کے لئے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔ (روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۵، ۳ / ۱۰۸)

            یاد رہے کہ اس آیت میں جو فرمایا گیا کہ ’’تم اپنی جگہ پر عمل کرتے رہو‘‘ اس میں کفر یا گناہ کی اجازت نہیں بلکہ اظہارِ غضب کے لئے ا س طرح فرمایا گیا، جیسے ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ‘‘ (الکہف:۲۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان:تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔

            اور یہ جو فرمایا گیا کہ’’ عنقریب تم جان لو گے کہ آخرت کے گھر کا اچھاانجام کس کے لئے ہے؟‘‘ ا س سے مراد یہ ہے کہ اگرچہ آج بھی فیصلہ ہو چکا کہ مومن جنتی ہے اور کافر دوزخی لیکن چشم دید فیصلہ قیامت میں ہو گا یا عذاب آتے وقت ہوگا۔

وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىٕنَاۚ-فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآىٕهِمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ(۱۳۶)

ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کیے ان میں اسے ایک حصہ دار ٹھہرایا تو بولے یہ اللہکا ہے ان کے خیال میں اور یہ ہمارے شریکوں کا تو وہ جو ان کے شریکوں کا ہے وہ تو خدا کو نہیں پہنچتا اور جو خدا کا ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچتا ہے کیا ہی برا حکم لگاتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ نے جو کھیتی اور مویشی پیدا کیے ہیں یہ مشرک ان میں سے ایک حصہ اللہکے لئے قرار دیتے ہیں پھراپنے گمان سے کہتے ہیں کہ یہ حصہ تواللہ کے لئے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لئے ہے تو جو ان کے شریکوں کے لئے ہے وہ تو اللہ تک نہیں پہنچتا اور جو اللہ کے لئے ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتاہے۔ کتنا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں۔

{ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ کے لئے قرار دیتے ہیں۔}  کفارِ عرب اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بڑا معبود اور بتوں کو چھوٹا معبود سمجھ کر دونوں کی بدنی اور مالی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں ان کی مالی پوجا کا ذکر ہو رہا ہے چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں مشرکین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی کھیتیوں اور درختوں کے پھلوں اور چوپایوں اور تمام مالوں میں سے ایک حِصّہ تواللہ عَزَّوَجَلَّ کا مقرر کرتے تھے اور ایک حصہ بتوں کا، تو جو حصہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے مقرر کرتے اسے مہمانوں اور مسکینوں پر صرف کردیتے تھے اور جو بتوں کے لئے مقرر کرتے تھے وہ خاص بتوں پر اور ان کے خادموں پر صرف کرتے اور جو حصّہاللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مقرر کرتے اس میں سے اگرکچھ بتوں والے حصہ میں مل جاتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر بتوں والے حصہ میں سے کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مقرر کردہ حصے میں سے ملتا تو اس کو نکال کر پھر بتوں ہی کے حصہ میں شامل کردیتے ۔ اس آیت میں ان کی اس جہالت اور بدعقلی کا ذکر فرماکر اس پر تنبیہ فرمائی گئی۔

{ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ:کتنا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں۔} یعنی کفار انتہا درجے کی جہالت میں گرفتار ہیں کہ خالقِ حقیقی اور مُنْعِمِ حقیقی کے عزت و جلال کی انہیں ذرا بھی معرفت نہیں جبکہ ان کی عقل کا فساد اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اُنہوں نے بے جان بتوں اور پتھروں کی تصویروں کو کار سازِ عالم کے برابر کردیا اور جیسا اس خالق و مالک عَزَّوَجَلَّکے لئے حصہ مقرر کیا ایسا ہی بتوں کے لئے بھی کیا۔ بے شک یہ بہت ہی برا فعل اور انتہا کا جہل اور عظیم خطا و ضلال ہے۔ اگلی آیت میں اُن کے جہل اور ضلالت کی ایک اور حالت ذکر فرمائی گئی ہے ۔

وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ(۱۳۷)

ترجمۂکنزالایمان: اور یوں ہی بہت مشرکوں کی نگاہ میں ان کے شریکوں نے اولاد کا قتل بھلا کر دکھایا ہے کہ انہیں ہلاک کریں۔ اور ان کا دین اُن پر مشتبہ کردیں اور اللہ چاہتا تو ایسا نہ کرتے تو تم انہیں چھوڑ دو وہ ہیں اور ان کے افتراء ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یوں ہی بہت سے مشرکوں کی نگاہ میں ان کے شریکوں نے اولاد کا قتل عمدہ کر دکھایا ہے تا کہ وہ انہیں ہلاک کریں اور ان کا دین اُن پر مشتبہ کردیں اور اگراللہ چاہتا تووہ ایسا نہ کرتے تو تم انہیں او ران کے بہتانوں کو چھوڑ دو۔

{ وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ:یوں ہی عمدہ کر دکھایا۔} اس آیت میں کفار کی دوسری جہالت بیان ہوئی چنانچہ فرمایا کہ یوں ہی بہت سے مشرکوں کی نگاہ میں ان کے شریکوں نے اولاد کا قتل عمدہ کر دکھایا ہے۔ یہاں شریکوں سے مراد وہ شیاطین ہیں جن کی اطاعت کے شوق میں مشرکین اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی معصیت گوارا کرتے تھے اور ایسے قبیح اور جاہلانہ اَفعال کے مُرتکب ہوتے تھے کہ جن کو عقلِ صحیح کبھی گوار انہ کرسکے اور جن کی قباحت میں ادنیٰ سمجھ کے آدمی کو بھی تَرَدُّد نہ ہو۔ بت پرستی کی شامت سے وہ ایسے فسادِ عقل میں مبتلا ہوئے کہ حیوانوں سے بدتر ہوگئے اور اولاد جس کے ساتھ ہر جاندار کو فطرۃً محبت ہوتی ہے شیاطین کے اتباع میں اس کا بے گناہ خون کرنا اُنہوں نے گوارا کیا اور اس کو اچھا سمجھنے لگے۔ خلاصہ یہ کہ انہوں نے اولاد میں بھی ایسی ہی تقسیم کر رکھی تھی کہ لڑکے کو زندہ رکھتے اور لڑکی کو قتل کر دیتے۔ شیطانوں نے یہ سب اس لئے کیا تاکہ وہ انہیں ہلاک کریں اور ان کا دین اُن پر مشتبہ کردیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دین پر تھے شیاطین نے اُن کو اغوا کرکے ان گمراہیوں میں ڈالا تاکہ انہیں دینِ اسماعیلی سے مُنْحَرِف کرے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۲ / ۶۰)

اہلِ عرب میں شرک و بت پرستی کی ابتداء کب ہوئی؟:

            علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اہلِ عرب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے زمانہ سے لے کر عمرو بن لُحَیّ کے زمانہ تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عقائد پر ہی ثابت قدم رہے، یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے دینِ ابراہیمی کو تبدیل کیا اور اہلِ عرب کے لئے طرح طرح کی گمراہیاں شروع کیں۔(سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۸)

            شرک کے بانی عمرو بن لُحَیّ نے اہلِ عرب میں شرک اس طرح پھیلایا کہ مقامِ بلقاء سے بت لا کر مکہ میں نصب کئے اور لوگوں کو ان کی پوجا اور تعظیم کرنے کی دعوت دی۔ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص ’’لات‘‘ جب مر گیا تو عمرو نے اس کے قبیلے والوں سے کہا: یہ مرا نہیں بلکہ اس پتھر میں چلا گیا ہے پھر انہیں اس پتھر کی پوجا کرنے کی دعوت دی۔ (عمدۃ القاری، کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۱۱ / ۲۶۹-۲۷۰، تحت الحدیث: ۳۵۲۱)

            اِسی عَمرو نے سائبہ اور بحیرہ کی بدعت ایجاد کی اورتَلْبِیَہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں کو بھی شریک کیا۔ (سیرت حلبیہ، باب نسبہ الشریف صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۸)

             یہ شخص دین میں جس نئی بات کا آغاز کرتا لوگ اسے دین سمجھ لیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ موسمِ حج میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتا اور انہیں لباس پہنایا کرتا تھا اور بسااوقات وہ موسمِ حج میں دس ہزار اونٹ ذبح کرتا اور دس ہزار ناداروں کو لباس پہناتا۔ (الروض الانف، اول ما کانت عبادۃ الحجر، اصل عبادۃ الاوثان، ۱ / ۱۶۶)

            مرنے کے بعد اس کا انجام بہت دردناک ہوا، حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: میں نے عمرو بن عامر بن لحیّ خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا ہے۔ (بخاری،کتاب المناقب، باب قصۃ خزاعۃ، ۲ / ۴۸۰، الحدیث: ۳۵۲۱)

{ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ:اوراگر اللہ چاہتا ۔} یہاں چاہنا، بمعنی ارادہ کرنا ہے نہ کہ بمعنی پسند کرنا۔ پسند کرنے کو رضا کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہکے ارادے سے ہو رہا ہے یعنی جو کچھ بندہ اپنے اختیار سے کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فعل کوپیدا فرما دیتا ہے تو یوں فعل آدمی کے اختیار سے ہوتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  صرف نیکیوں سے راضی ہوتا ہے نہ کہ برائیوں سے لہٰذا آیت پر کوئی اعتراض نہیں۔

وَ قَالُوْا هٰذِهٖۤ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ ﳓ لَّا یَطْعَمُهَاۤ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِهِمْ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا وَ اَنْعَامٌ لَّا یَذْكُرُوْنَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا افْتِرَآءً عَلَیْهِؕ-سَیَجْزِیْهِمْ بِمَا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(۱۳۸)

ترجمۂکنزالایمان: اور بولے یہ مویشی اور کھیتی روکی ہوئی ہے اسے وہی کھائے جسے ہم چاہیں اپنے جھوٹے خیال سے اور کچھ مویشی ہیں جن پر چڑھنا حرام ٹھہرایا اور کچھ مویشی کے ذبح پر اللہ کا نام نہیں لیتے یہ سب اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے عنقریب وہ انہیں بدلہ دے گا ان کے افتراؤں کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مشرک اپنے خیال سے کہتے ہیں : یہ مویشی اور کھیتی ممنوع ہے، اسے وہی کھائے جسے ہم چاہیں اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن کی پیٹھوں (پر سواری) کوحرام کر دیا گیا اور کچھ مویشی وہ ہیں جن کے ذبح پر اللہ کا نام نہیں لیتے، (یہ سب)اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے (کہتے ہیں ) عنقریب وہ انہیں ان کے بہتانوں کابدلہ دے گا۔

{ وَ قَالُوْا:اور مشرک کہتے ہیں۔} مشرکین اپنے بعض مویشیوں اور کھیتیوں کو اپنے باطل معبودوں کے ساتھ نامزد کرکے اپنے زعم میں کہنے لگے کہ ان مویشیوں اور کھیتیوں سے فائدہ اٹھانا ممنوع ہے اسے وہی کھائے گا جسے ہم چاہیں گے چنانچہ وہ بتوں کے نام پر چھوڑی ہوئی پیداوار اور اپنے باطل معبودوں کے ساتھ نامزد کئے ہوئے جانوروں میں سے بت خانوں کے پجاریوں اور بتوں کے خدام کو دیتے تھے۔

{ وَ اَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُوْرُهَا:اور کچھ مویشی ایسے ہیں جن پر چڑھنا حرام ٹھہرایا۔} اس آیت میں کفار کی چند بد عملیوں کا ذکر ہے۔ ایک تو اپنے بعض کھیتوں کو بتوں کے نام پر یوں وقف کرنا کہ اس کی پیداوار صرف مرد کھائیں عورتیں نہ کھائیں اور وہ آمدنی صرف وہ کھائیں جو ان بتوں کے خدام ہیں۔ دوسری یہ کہ بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دینا جیسے بحیرہ، سائبہ وغیرہ جن سے کوئی کام نہ لیا جائے نہ کسی کھیت سے انہیں ہٹایا جائے یہ دونوں کام تو شرک ہیں مگر ان چیزوں کا کھانا حرام نہیں۔ اس لئے جہاد میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ان تمام چیزوں پر قبضہ کر کے استعمال فرماتے تھے۔ تیسری یہ کہ بتوں کے نام پر ذبح کرنا۔ یہ کام بھی شرک ہے اور اس کا کھانا بھی حرام ہے اور یہ ’’ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ‘‘ میں داخل ہے۔

وَ قَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ هٰذِهِ الْاَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُوْرِنَا وَ مُحَرَّمٌ عَلٰۤى اَزْوَاجِنَاۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مَّیْتَةً فَهُمْ فِیْهِ شُرَكَآءُؕ-سَیَجْزِیْهِمْ وَصْفَهُمْؕ-اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ(۱۳۹)

ترجمۂکنزالایمان: اور بولے جو ان مویشی کے پیٹ میں ہے وہ نرا ہمارے مردوں کا ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور مرا ہوا نکلے تو وہ سب اس میں شریک ہیں قریب ہے کہ اللہ انہیں اِن کی باتوں کا بدلہ دے گا بیشک وہ علم حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کہتے ہیں : ان مویشیوں کے پیٹ میں جو ہے وہ خالص ہمارے مردوں کیلئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے اور اگر وہ مرا ہوا ہو تو پھر سب اس میں شریک ہیں۔ عنقریب اللہ انہیں اِن کی باتوں کا بدلہ دے گا۔ بیشک وہ حکمت والا، علم والا ہے۔

{ وَ قَالُوْا:اور کہتے ہیں۔}کفارِ عرب کا عقیدہ تھا کہ بحیرہ، سائبہ، اونٹنی کا بچہ اگرزندہ پیدا ہو تو صرف مرد کھا سکتے ہیں اور عورتیں نہیں کھا سکتیں اور اگر مردہ پیدا ہو تو عورت مرد سب کھا سکتے ہیں۔ اس آیت میں ان کے اس عقیدے کا ذکر ہے اور اس پر سخت وعید ہے۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِؕ-قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ۠(۱۴۰)

ترجمۂکنزالایمان: بیشک تباہ ہوئے وہ جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں احمقانہ جہالت سے اور حرام ٹھہراتے ہیں وہ جو اللہ نے انہیں روزی دی اللہ پر جھوٹ باندھنے کو بیشک وہ بہکے اور راہ نہ پائی۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ تباہ ہوگئے جواپنی اولاد کوجہالت سے بیوقوفی کرتے ہوئے قتل کرتے ہیں اور اللہ نے جو رزق انہیں عطا فرمایا ہے اسے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام قرار دیتے ہیں۔ بیشک یہ لوگ گمراہ ہوئے اور یہ ہدایت والے نہیں ہیں۔

{ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ:بیشک وہ لوگ تباہ ہوگئے جواپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔} شا نِ نزول: یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے اُن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ قبیلہ ربیعہ اور مُضَر وغیرہ قبائل میں اس کا بہت رواج تھا اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے۔ اُن کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ ’’ وہ تباہ ہوئے‘‘ اس میں شک نہیں کہ اولا د اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی ہلاکت سے اپنی تعداد کم ہوتی ہے، اپنی نسل مٹتی ہے، یہ دنیا کا خسارہ ہے، گھر کی تباہی ہے اور آخرت میں اس پر عذابِ عظیم ہے، تو یہ عمل دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہوا اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کرلینا اور اولاد جیسی عزیز اور پیاری چیز کے ساتھ اس قسم کی سفاکی اور بے دردی گوارا کرنا انتہا درجہ کی حماقت اور جہالت ہے۔

اولاد کے قاتلوں کو نصیحت:

            دورِ جاہلیت میں اولاد کو قتل کرنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہیں تنگدستی کا خوف لاحق ہوتا اور وہ اس ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے کہ انہیں کھلائیں پلائیں گے کہا ں سے اور ان کے لباس اور دیگر ضروریات کا انتظام کیسے کریں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس حرکت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۳۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور غربت کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی، بیشک انہیں قتل کرناکبیرہ گناہ ہے۔

                افسوس! فی زمانہ بہت سے مسلمان بھی دورِ جاہلیت کے کفار کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ بھی اس ڈر سے دنیا میں آتے ہی یا ماں کے پیٹ میں ہی بچے کوقتل کروا دیتے ہیں کہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے اور یہ عمل خاص طور پر اس وقت کرتے ہیں جب انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں پلنے والی جان بچی ہے۔ افسوس کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو رازق ماننے والے بھی اس فعلِ قبیح کا اِرتِکاب کررہے ہیں۔

            یہاں ایک مسئلہ یاد رہے کہ ’’ جب حمل میں جان پڑجائے جس کی مدت علماء نے چار مہینے بیان کی ہے توحمل گرانا حرام ہے کہ یہ بھی اولاد کا قتل ہے اور اس سے پہلے اگر شرعی ضرورت ہو تو اِسقاطِ حمل جائز ہے۔ (فتاوی رضویہ، ۲۴ /  ۲۰۱،۲۰۷)

{ وَحَرَّمُوْا:حرام قرار دیتے ہیں۔} یعنی مشرکینِ عرب بحیرہ ،سائبہ اور حامی وغیرہ جن جانوروں کا اوپر ذکر ہوا انہیں  اللہ عَزَّوَجَلَّ پر جھوٹ باندھتے ہوئے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ایسے مذموم افعال کا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے ان کا یہ خیال اللہ عَزَّوَجَلَّ پرافتراء ہے۔

ہر چیز میں اصل اباحت ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز میں اصل اباحت ہے، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہر چیز ہمارے رزق کے لئے پیدا فرمائی، ان میں سے جسے حرام فرما دیا وہ حرام ہے اور جسے حلال فرمایا یا جس سے سکوت فرمایا وہ حلال ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے:

’’ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا‘‘(بقرہ:۲۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے بنایا۔

                 حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس سے خاموشی فرمائی تو وہ اس میں سے ہے جس سے معافی دی۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفراء، ۳ / ۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲) حضرت علامہ ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ ( یعنی جس چیز کی حلت و حرمت سے متعلق قرآن و حدیث میں خاموشی ہو وہ حلال ہے۔) (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الاطعمۃ، الفصل الثانی،۸ / ۵۷، تحت الحدیث: ۴۲۲۸)

وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍؕ-كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ ﳲ وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱)

ترجمۂکنزالایمان: اور وہی ہے جس نے پیدا کیے باغ کچھ زمین پر چھئے  ہوئے اور کچھ بے چھئے اور کھجور اور کھیتی جس میں رنگ رنگ کے کھانے اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے اور کسی میں الگ کھاؤ اس کا پھل جب پھل لائے اور اس کا حق دو جس دن کٹے اور بے جا نہ خرچو بیشک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے کچھ باغات زمین پر پھیلے ہوئے اور کچھ نہ پھیلے ہوئے (تنوں والے) اور کھجور اور کھیتی کو پیدا کیا جن کے کھانے مختلف ہیں اور زیتون اور انار (کو پیدا کیا، یہ سب) کسی بات میں آپس میں ملتے ہیں اور کسی میں نہیں ملتے۔ جب وہ درخت پھل لائے تو اس کے پھل سے کھاؤ اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو بیشک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

{ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ:اور وہی ہے جس نے باغ پیدا کیے۔} اللہ تعالیٰ نے کچھ باغات ایسے پیدا فرمائے جو زمین پر پھیلے ہوئے ہیں جیسے خربوزہ، تربوز اور دیگر بیل بوٹے وغیرہ اور کچھ ایسے پیدا فرمائے جو زمین پر پھیلے ہوئے نہیں بلکہ تنے والے ہیں جیسے آم، امرود اور مالٹا وغیرہ کے باغات، اسی طرح کھجور اور کھیتی، انار اور زیتون کوپیدا فرمایا اور اس میں اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی عجیب قدرت ہے کہ ان پھلوں میں تاثیر اور ذائقے کے اعتبار سے  تو فرق ہوتا ہے لیکن رنگ اور پتوں کے اعتبار سے بہت مشابہت ہوتی ہے۔

{ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ:اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو۔} یہاں فصلوں کا حق ادا کرنے کا حکم ہے، اس میں سب سے اول تو عشر یعنی پیدا وار کا دسواں حصہ یا نصف عشر یعنی پیداوار کا بیسیواں حصہ داخل ہے اور اس کے علاوہ مساکین کو کچھ پھل وغیرہ دینا بھی پیداوار کے حقوق میں آتا ہے۔

زمین کی ہر پیداوار میں زکوٰۃ ہے:

            اِس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ہر پیداوار میں زکوٰۃ ہے، چاہے پیداوار کم ہو یا زیادہ، اس کے پھل سال تک رہیں یا نہ رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کسی قید کے بغیر فرمایا ’’ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ‘‘ اور اس کی کٹائی کے دن اس کا حق دو۔ اور حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو زمین بارش، نہر اور چشموں سے سیراب ہو اس میں عشر ہے اور جو پانی کھینچ کر سیراب کی جائے اس میں نصف عشر ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب صدقۃ الزروع والثمار، ۲ / ۳۸۹، الحدیث: ۱۸۱۷)

{ وَ لَا تُسْرِفُوْا:اورفضول خرچی نہ کرو۔} مفسرین نے فضول خرچی کے مختلف مَحْمَل بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ اگر کل مال خرچ کر ڈالا اور اپنے گھروالوں کو کچھ نہ دیا اور خود فقیر بن بیٹھا تو یہ خرچ بے جا ہے اور اگر صدقہ دینے ہی سے ہاتھ روک لیا تو یہ بھی بے جا اور داخلِ اسراف ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بھی ایسا ہی قول ہے۔ حضرت سفیان ثوری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کے سوا اور کام میں جو مال خرچ کیا جائے وہ قلیل بھی ہو تو اسراف ہے۔ امام زہری  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا قول ہے کہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ معصیت میں خرچ نہ کرو۔ امام مجاہدرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کہا کہ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حق میں کوتاہی کرنا اسراف ہے اور اگر ابو قبیس پہاڑ سونا ہو اور اس تمام کو راہِ خدا میں خرچ کر دو تو اسراف نہ ہوگا اور ایک درہم معصیت میں خرچ کرو تو وہ اسراف ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۲ / ۶۲-۶۳)

وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَةً وَّ فَرْشًاؕ-كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌۙ(۱۴۲)

ترجمۂکنزالایمان: اور مویشی میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین پر بچھے کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمہیں روزی دی اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مویشیوں میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین پر بچھے ہوئے جانور (پیداکئے)۔ اللہ نے تمہیں جو رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو۔ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

{ وَ مِنَ الْاَنْعَامِ:اور مویشی میں سے کچھ ۔} چوپائے دو طرح کے ہوتے ہیں کچھ بڑے جو بو جھ لادنے اور بار برداری کے کام میں آتے ہیں جیسے اونٹ، خچر اور گھوڑے وغیرہ اور کچھ چھوٹے جیسے بکری وغیرہ کہ جو اس قابل نہیں۔ ان میں سے جواللہ تعالیٰ نے حلال کئے انہیں کھاؤ اور اہلِ جاہلیت کی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حلال فرمائی ہوئی چیزوں کو حرام نہ ٹھہراؤ۔

ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍۚ-مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِؕ-قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِؕ- نَبِّـٴُـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَۙ(۱۴۳)

ترجمۂکنزالایمان: آٹھ نر اور مادہ ایک جوڑا بھیڑ کا اور ایک جوڑا بکری کا تم فرماؤ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہیں کسی علم سے بتاؤ اگر تم سچے ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: (اللہ نے) آٹھ نر و مادہ جوڑے (پیدا کئے۔) ایک جوڑا بھیڑ سے اور ایک جوڑا بکری سے۔ تم فرماؤ، کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ جانور پیٹوں میں لئے ہوئے ہیں ؟ اگر تم سچے ہو تو علم کے ساتھ بتاؤ۔

{ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ:آٹھ نر و مادہ۔} اس آیت میں جانورں کے آٹھ جوڑے بیان کئے گئے یعنی نرومادہ اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری کے جوڑے۔ جانور تو اس کے علاوہ بھی ہیں لیکن چونکہ اہلِ عرب کے سامنے زیادہ تریہی جانور ہوتے تھے اور حرام و حلال کے جو انہوں نے قاعدے بنائے تھے وہ بھی انہی جانوروں کے بارے میں تھے اس لئے بطورِ خاص انہی جوڑوں کا بیان کیا گیا چنانچہ فرمایا کہ کیا ان جانوروں کے صرف نر حرام ہیں یا صرف مادے یا نرومادہ دونوں ؟ اللہ تعالیٰ نے نہ تو بھیڑ بکری کے نَر حرام کئے اور نہ اُن کی مادائیں حرام کیں اور نہ اُن کی اولاد ۔ تمہارا یہ فعل کہ کبھی نر حرام ٹھہراؤ کبھی مادہ کبھی اُن کے بچّے یہ سب تمہاری اپنی اِختراع ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔

{ نَبِّـٴُـوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ:اگر تم سچے ہو تو علم کے ساتھ بتاؤ۔}یعنی ان جانوروں کو تم حرام مانتے ہو،اگر اس میں تم سچے ہو تو اس حرمت کی قطعی یقینی دلیل لاؤ۔

 دلیل دینا حرمت کا دعویٰ کرنے والے پر لازم ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ حلت کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل نہ مانگی جائے گی بلکہ حرمت کا دعویٰ کرنے والے پر دلیل لانا لازم ہے۔ آج کل بدمذہب ہم سے ہر چیز کی حلت پر دلیل مانگتے ہیں اور خود حرمت کی دلیل نہیں پیش کرتے۔ یہ اصول قرآن کے صریح خلاف ہے۔ خود غور کر لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کے حرام ماننے والوں سے دلیل مانگی ہے یا حلال سمجھنے والوں سے۔

وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِؕ-قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِؕ-اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ وَصّٰىكُمُ اللّٰهُ بِهٰذَاۚ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠(۱۴۴)

ترجمۂکنزالایمان: اور ایک جوڑا اونٹ کا اور ایک جوڑا گائے کا تم فرماؤ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ پیٹ میں لیے ہیں کیا تم موجود تھے جب اللہ نے تمہیں یہ حکم دیا تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے کہ لوگوں کو اپنی جہالت سے گمراہ کرے بیشک اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (اللہ نے نر اور مادہ کا) ایک جوڑا اونٹ سے اور ایک جوڑا گائے سے (پیدا فرمایا۔) تم فرماؤ، کیا اس نے دونوں نر حرام کیے یا دونوں مادہ یا وہ جسے دونوں مادہ جانور اپنے پیٹوں میں لئے ہوئے ہیں ؟کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے تمہیں یہ حکم دیا؟ تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ تاکہ لوگوں کو اپنی جہالت سے گمراہ کرے۔ بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

{ وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ:اور ایک جوڑا اونٹ کا۔}اس آیتِ کریمہ میں دور ِجاہلیت کے ان لوگوں کا رد ہے جو اپنی طرف سے حلال چیزوں کوحرام ٹھہرا لیا کرتے تھے جن کا ذکر اُوپر کی آیات میں آچکا ہے۔ شانِ نزول جب اسلام میں احکام کا بیان ہوا تو انہوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے جھگڑا کیا اور ان کا خطیب مالک بن عوف حشمی سیّد ِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ’’ یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) ہم نے سُنا ہے آپ اُن چیزوں کو حرام کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تم نے بغیر کسی اصل کے چوپایوں کی چند قسمیں حرام کرلیں جبکہاللہ تعالیٰ نے آٹھ نرو مادہ اپنے بندوں کے کھانے اور ان کے نفع اٹھانے کے لئے پیدا کئے۔ تم نے کہاں سے انہیں حرام کیا؟ ان میں حرمت نر کی طرف سے آئی یا مادہ کی طرف سے۔ مالک بن عوف یہ سن کر ساکِت اور مُتَحیر رہ گیا اور کچھ نہ بول سکا۔ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’ بولتے کیوں نہیں ؟ کہنے لگا :آپ فرمائیے میں سنوں گا۔ سُبْحَانَ اللہ، قرآنِ پاک کی دلیل کی قوت اور زور نے اہلِ جاہلیت کے خطیب کو ساکت و حیران کردیا اور وہ بول ہی کیا سکتا تھا ؟اگر کہتا کہ نر کی طرف سے حرمت آئی تو لازم ہوتا کہ تمام نر حرام ہوں ، اگر کہتا کہ مادہ کی طرف سے تو ضروری ہوتا کہ ہر ایک مادہ حرام ہو اور اگر کہتا جو پیٹ میں ہے وہ حرام ہے تو پھر سب ہی حرام ہوجاتے کیونکہ جو پیٹ میں رہتا ہے وہ نر ہوتا ہے یا مادہ ۔ وہ جو تخصیص قائم کرتے تھے اور بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دیتے تھے اس حجت نے ان کے اس دعویٔ تحریم کو باطل کردیا۔

{ اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ:کیا تم موجود تھے۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سے براہ ِراست تو بیان فرمایا نہیں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے ذریعے ان جانوروں کی حرمت آئی نہیں تو اب ان جانوروں کے حرام ہونے کی کیا صورت باقی رہی۔ لہٰذا جب یہ بات نہیں ہے تو حرمت کے ان احکام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا جھوٹ، باطل اور خالص بہتان ہے اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر بہتان باندھے وہ سب سے بڑا ظالم ہے ، لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ ظالموں کو جب تک وہ اپنے ظلم پر قائم رہیں ہدایت نہیں دیتا۔

قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۴۵)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ میں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت کہ وہ نجاست ہے یا وہ بے حکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیرِ خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، اُس میں کسی کھانے والے پر میں کوئی کھانا حرام نہیں پاتا مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں میں بہنے والا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا وہ نافرمانی کا جانور ہو جس کے ذبح میں غیرُاللہ کا نام پکارا گیا ہو تو جو مجبور ہوجائے (اور اس حال میں کھائے کہ) نہ خواہش (سے کھانے) والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک آپ کا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

{ قُلْ لَّاۤ اَجِدُ:تم فرماؤ میں نہیں پاتا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ ان جاہل مشرکوں سے جو حلال چیزوں کو اپنی من مرضی سے حرام کرلیتے ہیں فرما دو کہ’’ جو میری طرف وحی کی جاتی ہے میں اس میں کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام نہیں پاتا سوائے ان چار کے (1) مردار۔ (2) رگوں میں بہنے والا خون۔ (3) سور کا گوشت اور (4) نافرمانی کا جانور یعنی جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ لہٰذا تمہارا اُن دیگر چیزوں کو حرام کہنا باطل ہے جن کی حرمت اللہ کی طرف سے نہ آئی۔

{ فَمَنِ اضْطُرَّ:تو جو مجبور ہوجائے۔}  یعنی مذکورہ بالا چیزیں کھانا حرام ہے لیکن اگر کوئی مجبور ہو اور ضرورت اُسے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر مجبور کر دے اور وہ اس حال میں کھائے کہ نہ خواہش سے کھانے والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک رب کریمعَزَّوَجَلَّ بخشنے والا، مہربان ہے اور وہ اِس پر کوئی مؤاخذہ نہ فرمائے گا۔

حرام جانوروں کے بیان پر مشتمل آیت سے متعلق چند احکام:

             مجموعی طور اس آیت کے متعلق چند احکام ہیں :

(1) حرمت شریعت کی جانب سے ثابت ہوتی ہے نہ کہ ہوائے نفس سے ۔

(2)… جما ہوا خون یعنی تلی کلیجی حلال ہے کیونکہ یہ بہتا ہوا خون نہیں لیکن بہتا ہوا خون نکل کر جم جائے وہ بھی حرام ہے کہ وہ بہتا ہوا ہی ہے اگرچہ عارضی طور پر جم گیا۔

(3)… ہر نجس چیز حرام ہے مگر ہر حرام چیز نجس نہیں۔

(4)… سور کی ہر چیز کھال وغیرہ سب حرام ہے کیونکہ وہ نجس ُالعین ہے ۔

(5)… سور کی کوئی چیز ذبح کرنے یا پکانے سے پاک نہیں ہو سکتی ۔

(6)… جانو رکی زندگی میں اس پر کسی کے نام پکارنے کا اعتبار نہیں ، ذبح کے وقت کا اعتبار ہے۔

(7)… بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا فسقِ اعتقادی یعنی کفر ہے اس لئے یہاں فِسْقًا ارشاد ہوا۔

(8)… مجبوری کی حالت میں مردار وغیرہ چیزیں بقدرِ ضرورت حلال ہوں گی اور مجبوری سے مراد جان جانے یا عُضْو ضائع ہوجانے کا ظنِ غالب ہونا ہے۔

(9)… اگر اندازے میں غلطی کر کے ضرورت سے زیادہ ایک آدھ لقمہ کھالیا تو پکڑ نہ ہوگی۔

وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍۚ-وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍؕ-ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ ﳲ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۱۴۶)

ترجمۂکنزالایمان: اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا ہر ناخن والا جانور اور گائے اور بکری کی چربی ان پر حرام کی مگر جو ان کی پیٹھ میں لگی ہو یا آنت میں یا ہڈی سے ملی ہو ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیا اور بیشک ہم ضرور سچے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کردیا اور ہم نے ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کردی سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ کے ساتھ یا انتڑیوں سے لگی ہو یا جو چربی ہڈی سے ملی ہوئی ہو۔ ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیااور بیشک ہم ضرور سچے ہیں۔

{ وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا:اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا۔} یہودی اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے:

(1)…ہر ناخن والا جانور۔ یہاں ناخن سے مراد انگلی ہے خواہ انگلیاں بیچ سے پھٹی ہوں جیسے کتا اور درندے یا نہ پھٹی ہوں بلکہ کھر کی صورت میں ہوں جیسے اونٹ، شترمرغ اور بطخ وغیرہ۔بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں بطورِ خاص شتر مرغ ، بطخ اور اُونٹ مراد ہیں۔

 (2)…گائے اور بکری کی چربی۔ یہودیوں پر گائے، بکری کا گوشت وغیرہ حلال تھا لیکن ان کی چربی حرام تھی البتہ جو چربی گائے بکری کی پیٹھ میں لگی ہو یاآنت یا ہڈی سے ملی ہو وہ ان کے لئے حلا ل تھی۔ یہودی چونکہ اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کئے گئے تھے لہٰذا یہ چیزیں اُن پر حرام رہیں اور ہماری شریعت میں گائے بکری کی چربی اور اونٹ، بطخ اور شتر مرغ حلال ہیں ، اسی پر صحابۂ کرام اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکا اجماع ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ص۴۰۴-۴۰۵)

سابقہ شریعتوں کے سخت احکام ہم پر جاری نہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ گزشتہ شریعتوں کے وہ احکام جو بطورِ سزا جاری کئے گئے تھے وہ ہمارے لئے لائقِ عمل نہیں اگرچہ نص میں مذکور ہو جائیں کیونکہ یہ امتِ مرحومہ ہے، پچھلی امتوں کے سخت احکام ہم پر جاری نہیں۔

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ رَّبُّكُمْ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍۚ-وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُهٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ(۱۴۷)

ترجمۂکنزالایمان: پھر اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو تم فرماؤ کہ تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرموں پر سے نہیں ٹالا جاتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو تم فرماؤ کہ تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرموں پر سے نہیں ٹالا جاتا۔

{ فَاِنْ كَذَّبُوْكَ:پھر اگر وہ تمہیں جھٹلائیں۔} یعنی اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، ہم نے یہودیوں پر جن چیزوں کے حلال و حرام ہونے کی تمہیں خبر دی، اگریہودی اسے جھٹلائیں تو آپ فرما دو کہ’’ تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ وسیع رحمت والا ہے اسی لئے وہ جھٹلانے والوں کو مہلت دیتا ہے اور عذاب میں جلدی نہیں فرماتا تاکہ انہیں ایمان لانے کا موقع ملے ورنہ بہرحال  جن پر عذاب ِ الٰہی کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو ان سے ٹالا نہیں جاتا اور پھر عذاب اپنے وقت پر آہی جاتا ہے۔

سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَاۤ اَشْرَكْنَا وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍؕ-كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰى ذَاقُوْا بَاْسَنَاؕ-قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَاؕ-اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ(۱۴۸)

ترجمۂکنزالایمان: اب کہیں گے مشرک کہ اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا نہ ہم کچھ حرام ٹھہراتے ایسا ہی ان سے اگلوں نے جھٹلایا تھا یہاں تک کہ ہمارا عذاب چکھا تم فرماؤ کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے کہ اسے ہمارے لیے نکالو تم تو نرے گمان  کے پیچھے ہو اور تم یونہی تخمینے کرتے ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اب مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اورنہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی ایسے ہی جھٹلایا تھا یہاں تک کہ ہمارا عذاب چکھا۔ تم فرماؤ، کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو اسے ہمارے لئے نکالو۔ تم توصرف جھوٹے خیال کے پیروکار ہو اور تم یونہی غلط اندازے لگا رہے ہو۔

{ سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا:اب مشرک کہیں گے۔} اس میں غیبی خبر ہے کہ مشرک جو آئندہ کہنے والے تھے ، اس سے پہلے ہی خبردار کر دیا۔ مشرکین پر جب حجت تمام ہو گئی اور ان سے کوئی دلیل نہ بن پڑی تو کہنے لگے: اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہی ہم کسی چیز بحیرہ و سائبہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے۔ ہم نے جو کچھ کیا اور کرتے ہیں یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مرضی سے ہوا یہ اس کی دلیل ہے کہ وہ اس سے راضی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا رد اس طرح فرمایا کہ اگر تمہاری یہ بات درست ہوتی کہ تمہارا شرک اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہنے کا یہ رواج سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و خوشی سے ہے تو ہونا یوں چاہئے تھا کہ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا لطف و عنایت اور بڑی کرم نوازیاں ہوتیں حالانکہ تم سے پہلے جن لوگوں نے اس گمراہی کو اپنایا توان پراللہ عَزَّوَجَلَّ کا غضب نازل ہوا اور انہیں بعد والوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا گیا، اب تم خودغور کرو کہ ایسی سنگین سزا مجرم اور نافرمان لوگوں کو دی جاتی ہے یا اطاعت گزار اور فرماں بردار افراد کو۔

قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُۚ-فَلَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ(۱۴۹)

ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے تو وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت فرماتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:تم فرماؤ تو کامل دلیل اللہہی کی ہے تواگر وہ چاہتا توتم سب کو ہدایت دیدیتا۔

{ قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ:تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایسی دلیل جو تمام تر شکوک و شبہات کو جڑ سے اکھاڑ دے وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پا س ہے، اس آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّواحد ہے اس نے رسولوں کو دلائل اور معجزات دے کر بھیجا اور ہر مُکَلَّف پر اپنے احکام کو لازم کیا ہے اور ان کو مکلف کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیاہے یعنی انہیں بااختیار بنایا ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۴۹، ۴ / ۹۳-۹۴، الجزء السابع)

            اور اللہ تعالیٰ کی حکمت یہی ہے کہ بندے اپنے اختیار سے ایمان لائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں ورنہ اگر وہ چاہتا تو جبرا ًسب انسانوں کو مومن بنا دیتا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت میں نہیں ہے ا س لئے ان کا یہ کہنا بالکل لَغْو ہے کہ اگر اللہ عَزَّوَجَلَّچاہتا تو ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا، نہ وہ بحیرہ وغیرہ کو حرام قرار دیتے کیونکہ ا س قسم کا جَبری ایمان اللہ تعالیٰ کا مطلوب نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ لوگ اپنی عقل سے کام لیں ، حق اور باطل کو جانچیں ، کھرے کھوٹے کو پرکھیں ، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعلیمات اور شیطان کے وسوسوں میں فرق محسوس کریں اور اپنے اختیار سےبرے کاموں اور بری باتوں کو ترک کریں اور شیطان کا انکار کر کے اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کو اختیار کریں ، وہ جس چیز کو اختیار کریں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی چیز کو پیدا کر دے گا، ان آیتوں میں یہ دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مجبورِ محض نہیں بنایا، مختار بنایا ہے اور اس میں جبریہ کا بھی رد ہے۔

قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمُ الَّذِیْنَ یَشْهَدُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ هٰذَاۚ-فَاِنْ شَهِدُوْا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْۚ-وَ لَا تَتَّبِـعْ اَهْوَآءَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ هُمْ بِرَبِّهِمْ یَعْدِلُوْنَ۠(۱۵۰)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ لاؤ اپنے وہ گواہ جو گواہی دیں کہ اللہ نے اسے حرام کیا پھر اگر وہ گواہی دے بیٹھیں تو تُو اے سننے والے ان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا جو ہماری آیتیں جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اپنے رب کا برابر والا ٹھہراتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، اپنے وہ گواہ لے آؤ جو گواہی دیں کہ اللہ نے اس چیز کو حرام کیا ہے (جسے تم حرام کہتے ہو) پھر اگر وہ گواہی دے بیٹھیں تو اے سننے والے! توان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں۔

{ قُلْ هَلُمَّ شُهَدَآءَكُمْ:تم فرماؤ، اپنے گواہ لے آؤ۔} جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی تمام حجتیں باطل فرما دیں تو اب بیان فرمایا کہ ان کے پاس اپنی بات پر کوئی گواہ بھی نہیں چنانچہ فرمایا: اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیجئے کہ اپنے وہ گواہ لے آؤ جو اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُسے حرام کیا جسے تم اپنے لئے حرام قرار دیتے ہو اور کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ یہ گواہی اس لئے طلب کی گئی کہ ظاہر ہوجائے کہ کفار کے پاس کوئی شاہد نہیں ہے اور جو وہ کہتے ہیں وہ ان کی اپنی تَراشیدہ باتیں ہے۔

{ فَاِنْ شَهِدُوْا:پھر اگر وہ گواہی دے بیٹھیں۔} یعنی مشرکین اگر اپنی جھوٹی بات پر کوئی گواہ لے ہی آئیں تو اے سننے والے! توان کے ساتھ گواہی نہ دینا اور ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ بتوں کواپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے برابر ٹھہراتے ہیں یعنی بتوں کو معبود مانتے ہیں اور شرک میں گرفتار ہیں۔ اس میں تنبیہ ہے کہ اگر کوئی ایسی شہادت دے بھی دے تو وہ محض خواہش کی اتباع اور کذب و باطل ہوگی۔

جھوٹی گواہی اور ا س کی تصدیق حرام ہے:

            اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی گواہی بھی حرام ہے اور اس کی تصدیق و تائید بھی اور جھوٹے آدمی کی وکالت بھی کیونکہ گناہ کے کام میں مدد کرنا بھی گنا ہ ہے اور احادیث میں اس کی سخت وعیدیں بھی بیان ہوئی ہیں ، چنانچہ

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے کسی ظالم کے باطل کام پر اس کی مدد کی تاکہ وہ اس کے باطل کام کے اِرتِکاب کی وجہ سے حق کو باطل کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذمہ سے بری ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ ابراہیم، ۲ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۹۴۴)

            حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جس نے کسی جھگڑے پر ناحق مدد کی تو وہ تب تک اللہ تعالیٰ کے شدید غضب میں رہے گا جب تک (اس مدد کو) چھوڑ نہیں دیتا۔(مستدرک، کتاب الاحکام، لا تجوز شہادۃ بدوی علی صاحب قریۃ، ۵ / ۱۳۵، الحدیث: ۷۱۳۳)

قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاۚ-وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ-وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ-وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(۱۵۱)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ آؤ میں تمہیں پڑھ سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا یہ کہ اس کا کوئی شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے اور بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو یہ تمہیں حکم فرمایا ہے کہ تمہیں عقل ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا وہ یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد قتل نہ کرو، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے اور ظاہری و باطنی بے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ اور جس جان (کے قتل) کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق نہ مارو۔ تمہیں یہ حکم فرمایا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔

{ قُلْ تَعَالَوْا:تم فرماؤ آؤ۔} یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وہ حقیقی حلت و حرمت کے متعدد احکام بیان فرمائے ہیں جو خود اُس خالقِ کائنات نے عطا فرمائے ہیں۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے 9چیزوں کی حرمت بیان فرمائی ہے (1) اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔ (2) ماں باپ کے ساتھ بھلائی نہ کرنا۔ (3) مفلسی کے باعث اپنی اولاد قتل کرنا۔ (4) بے حیائی کے کام کرنا چاہے ظاہری ہوں یا باطنی۔ (5) ناحق قتل کرنا۔ (6) یتیم کے مال میں بے جا تَصَرُّف کرنا۔ (7) ناپ تول میں کمی کرنا۔ (8) ناحق بات کہنا۔ (9)اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کئے ہوئے عہد کو پورا نہ کرنا۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ کیونکہ یہ کائنات کا بدترین جھوٹ اور صریح ناشکری و احسان فراموشی ہے۔ ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو کیونکہ تم پر ان کے بہت سے حقوق ہیں ، اُنہوں نے تمہاری پرورش کی، تمہارے ساتھ شفقت اور مہربانی کا سلوک کیا، تمہاری ہر خطرے سے نگہبانی کی، اُن کے حقوق کا لحاظ نہ کرنا اور اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کا ترک کرنا حرام ہے۔ معلوم ہوا کہ ماں باپ اگرچہ کافر ہوں ان کے ماں باپ ہونے کی حیثیت سے جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنا ضروری ہے۔ اس احسان میں والدین کے ساتھ تمام قسم کے اچھے سلوک داخل ہیں۔ ان کا ادب، لحاظ، ان پر ضرورت کے وقت مال خرچ کرنا،مسلمان ہونے کی صورت میں بعد ِ وفات ان کیلئے ایصالِ ثواب سب داخل ہیں۔

{ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ:اپنی اولاد قتل نہ کرو۔} اس میں اولاد کو زندہ درگور کرنے اور مار ڈالنے کی حرمت بیان فرمائی گئی جس کا اہلِ جاہلیت میں دستور تھا کہ وہ بارہا فقر و تنگدستی کے اندیشے سے اولاد کومار ڈالتے تھے، انہیں بتایا گیا کہ روزی دینے والا تواللہ عَزَّوَجَلَّ ہے جو تمہیں اور انہیں سب کو روزی دے گا تو پھر تم کیوں قتل جیسے شدید جُرم کا ارتکاب کرتے ہو۔

عورتوں کے حقوق سے متعلق اسلام کی حسین تعلیمات:

            اس آیت میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو غریبی کی وجہ سے لڑکے لڑکیوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور جو مالدار شرم و عار کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو قتل کرتے تھے ان کا ذکر دوسری آیات میں ہے۔ ان کے مقابلے میں اسلام کی تعلیمات کس قدر حسین ہیں اور اسلام نے بچیوں اور عورتوں کوکیسے حقوق عطا فرمائے اس کیلئے صرف درج ذیل 3 حدیثوں کا مطالعہ فرمالیں۔

(1)حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے  ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کی بیٹی ہو تو وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)

(2)…حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس کی تین بیٹیا ں یا تین بہنیں ہوں ، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے معاملے میں اللہ تعالیٰسے ڈرے تو اس کے لئے جنت ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات والاخوات، ۳ / ۳۶۷، الحدیث: ۱۹۲۳)

(3)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص تین بیٹیوں یا بہنوں کی اس طرح پرورش کرے کہ ان کو ادب سکھائے اور ان سے مہربانی کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں بے نیاز کردے (مثلاً ان کا نکاح ہو جائے ) تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت واجب فرما دیتا ہے۔ یہ ارشادِ نبوی سن کر ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: ’’اگر کوئی شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے ؟ تو ارشاد فرمایا: اس کے لئے بھی یہی اجر و ثواب ہے۔ ‘‘(راوی فرماتے ہیں ) یہاں تک کہ اگر لوگ ایک کا ذکر کرتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَاس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔( شرح السنہ، کتاب البر والصلۃ، باب ثواب کافل الیتیم، ۶ / ۴۵۲، الحدیث: ۳۳۵۱)

{ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ:اوربے حیائیوں کے پاس نہ جاؤ۔} اس آیت میں ظاہری وباطنی بے حیائیوں کے پاس جانے سے منع کیا گیا کیونکہ انسان جب کھلے اور ظاہری گناہوں سے بچے اور پوشیدہ گناہوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کا ظاہری گناہوں سے بچنا بھی لِلّٰہیت سے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے اور ان کی بدگوئی سے بچنے کے لئے ہے جبکہ گناہوں سے بچنے کا اصل سبب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کا ڈر ہونا چاہیے نیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و ثواب کا مستحق ہوتا بھی وہی ہے جو اس کے خوف سے گناہ ترک کرے۔

بظاہر نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں نیک رہنا اور چھپ کر گناہ کرنا تقویٰ نہیں بلکہ ریا کاری ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ ظاہر و باطن ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف دامن گیر ہو۔ لوگوں کے سامنے نیک اعمال کرتے نظر آنے والوں اور تنہائی میں گناہوں پر بیباک ہونے والوں کا حشر میں بہت برا حال ہو گا، چنانچہ حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے، اس کے محلات اور اس میں اہلِ جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب! عَزَّوَجَلَّ،اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔ اللہ تعالیٰ  ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے (اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے، تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۳۵، الحدیث: ۵۴۷۸)

 اللہ تعالیٰ کے خوف سے گناہ چھوڑنے کے 3 فضائل:

(1)حضر ت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی حرام کام پر قادر ہو پھر اسے صرف اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا ہی میں جلد اس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو اس حرام کام سے بہتر ہو۔ (جامع الاحادیث، ۹ / ۴۳، الحدیث: ۲۷۰۵۲)

(2)…حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص کو کسی عورت نے برائی کی دعوت دی اور وہ محض اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس سے باز رہا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا۔(معجم الکبیر، بشر بن نمیر عن القاسم، ۸ / ۲۴۰، الحدیث: ۷۹۳۵)

(3)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے’’ جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے اورا س کی رضا حاصل کرنے کی خاطر گناہ چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ اسے راضی فرمائے گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۶۳، الحدیث: ۵۹۱۱، الجزء الثالث)

 ظاہری و باطنی گناہوں سے محفوظ رہنے کی دعا:

            حدیث پاک میں ظاہری و باطنی گناہوں سے بچنے کے لئے ایک بہترین دعا تعلیم فرمائی گئی ہے، ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس دعا کو اپنے معمولات میں شامل کر لے اور بکثرت یہ دعا مانگا کرے ،چنانچہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے یہ دعا سکھائی، ارشا فرمایا: ’’ کہو ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِنْ عَلَانِیَتِیْ، وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَۃً، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَہْلِ، وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ‘‘اے اللہ! میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کر دے اور میرے ظاہر کو نیک و صالح بنادے، اے اللہ! میں تجھ سے لوگوں کو عطا کی جانے والی بہترین چیزیں یعنی مال،اچھا گھر بار اور وہ اولاد مانگتا ہوں جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ گرہو (ترمذی، احادیث شتی، ۱۲۳-باب، ۵ / ۳۳۹، الحدیث: ۳۵۹۷)۔ ([7])

{ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ:اور جس جان کی اللہ نے حرمت رکھی اسے ناحق نہ مارو۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسی کو ناحق قتل کرنے کی حرمت بیان فرمائی ہے۔

ناحق قتل کرنے یا قتل کا حکم دینے کی3 وعیدیں :

            ناحق قتل کرنے والے یا قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں احادیث میں سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 3وعیدیں درج ذیل ہیں :

(1) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن مقتول قاتل کو لے کراس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی اور سر اس کے ہاتھ میں ہوں گے اور گردن کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ عرض کرے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، حتّٰی کہ قاتل کو عرش کے قریب کھڑا کردے گا۔(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ النساء، ۵ / ۲۳، الحدیث: ۳۰۴۰)

(2)…نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: آگ کو ستر حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم دینے والے کیلئے اور ایک حصہ قاتل کیلئے ہے۔ (شعب الایمان، السادس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۴۹، الحدیث: ۵۳۶۰)

(3)…حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’قیامت کے دن مقتول بیٹھا ہو گا، جب اس کا قاتل گزرے گا تو وہ اسے پکڑ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا: ’’اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ اللہ تعالیٰ قاتل سے فرمائے گا: ’’تو نے اسے کیوں قتل کیا: قاتل عرض کرے گا: مجھے فلاں شخص نے حکم دیا تھا، چنانچہ قاتل اور قتل کا حکم دینے والے دونوں کو عذاب دیا جائے گا۔ (شعب الایمان، السادس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۴۱، الحدیث: ۵۳۲۹)

قتلِ برحق کی صورتیں اور ایک اہم تنبیہ:

            چند صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں حاکمِ اسلام کیلئے مجرم کو قتل کرنے کی اجازت ہے جیسے قاتل کو قصاص میں ، شادی شدہ زانی کو رجم میں اور مرتد کو سزا کے طور پر قتل کرنا البتہ یہ یاد رہے کہ قتلِ برحق کی جو صورتیں بیان ہوئیں ان پر عام لوگ عمل نہیں کر سکتے بلکہ اس کی اجازت صرف حاکمِ اسلام کو ہے۔

وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ  اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗۚ-وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِۚ-لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۚ-وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىۚ-وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْاؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَۙ(۱۵۲)

ترجمۂکنزالایمان: اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طریقے سے جب تک وہ اپنی جوانی کو پہنچے اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو ہم کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتے مگر اس کے مقدور بھر اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو اگرچہ تمہارے رشتہ دار کا معاملہ ہو اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو یہ تمہیں تاکید فرمائی کہ کہیں تم نصیحت مانو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر بہت اچھے طریقہ سے حتّٰی کہ وہ اپنی جوانی (کی عمر )کو پہنچ جائے اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ ہم کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتے ہیں اور جب بات کرو تو عدل کرو اگرچہ تمہارے رشتے دار کا معاملہ ہو اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو۔ (اللہ نے) تمہیں یہ تاکید فرمائی ہے تاکہ نصیحت حاصل کرو۔

{ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ:اور یتیموں کے مال کے پاس نہ جاؤ۔} یعنی یتیم کے مال کے پاس اس طریقے سے جاؤ جس سے اس کا فائدہ ہو اور جب وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اس وقت اس کا مال اس کے سپرد کردو۔ اس حکم کی تفصیل اور یتیموں سے متعلق مزید احکام سورۂ نساء کی ابتدائی چند آیات میں گزر چکے ہیں۔

{ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ:اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو۔} یعنی ناپ تول میں کمی نہ کرو کیونکہ یہ حرام ہے ۔

ناپ تول میں کمی کرنے کی 2وَعِیدیں:

            ناپ تول میں کمی کرنے پر احادیث میں سخت وعید یں بیان کی گئی ہیں ، ان میں سے 2 وعیدیں درج ذیل ہیں :

(1) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے تاجروں کے گروہ! دو ایسے کام تمہارے سپرد کئے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے، یہ ناپنا اور تولنا ہے۔ (شعب الایمان، الخامس والثلاثون من شعب الایمان، ۴ / ۳۲۸، الحدیث: ۵۲۸۸)

(2)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے مہاجرین کے گروہ! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی) اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم انہیں پاؤ۔

(۱)… جب کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی عام ہو جائے گی تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں ظاہر ہو جائیں گی جو ان سے پہلوں میں کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں (جیسے آجکل ایڈز، Aids وغیرہ)

(۲)…جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جائیں گے تو قحط سالی، شدید تنگی اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہوجائیں گے۔

(۳)… جب زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیں گے تو آسمان سے بارش روک دی جائے گی اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر کبھی بارش نہ برستی۔

(۴)… جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑنے لگیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر دشمن مسلَّط کر دے گا جو ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لے گا ۔

(۵)… جب حکمران اللہ عَزَّوَجَلَّکے قانون کو چھوڑ کر دوسرا قانون اور اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے لگ جائیں گے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ڈال دے گا۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات، ۴ / ۳۶۷، الحدیث: ۴۰۱۹)

            اس روایت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر غور کریں کہ آج ہم میں خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کا پھیلاؤ ، قحط سالی، شدید تنگی اور حکمرانوں کے ظلم کاسامنا، دشمن کا تَسَلُّط اور مال واسباب کا لٹ جانا، تَعَصُّب اور ہمارے لسانی ،قومی اختلافات یہ سب ہمارے کن اعمال کا نتیجہ ہیں۔

دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت                       شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت سے گلا ہے

جو کچھ بھی ہے سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت         سچ ہے کہ برے کام کا انجام برا ہے

اللہ تعالٰی کے خوف سے حرام کام چھوڑنے کی فضیلت:

             حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص حرام پر قادر ہو پھر اسے اللہ تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دے تواللہ تعالیٰ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی بہت جلد اُس کا ایسا بدل عطا فرماتا ہے جو حرام سے کہیں بہتر ہو۔ (تفسیر طبری، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۵، ۸ / ۷۹)

{ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا:اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو۔} یعنی خوا ہ گواہی دو یا فتویٰ دویا حاکم بن کر فیصلہ کر و کچھ بھی ہو انصاف سے ہو اس میں قرابت یا وجاہت کا لحاظ نہ ہو کیونکہ اس سے مقصود شرعی حکم کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرنا ہوتا ہے اور اس میں اجنبی اور قرابت دار کے درمیان کوئی فرق نہیں۔(روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۳ / ۱۱۹)

{ وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْا:اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو۔} یعنی صرف اللہ عَزَّوَجَلَّکے عہد پورے کرو اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کے عہد پورے نہ کرو، اگر تم نے غلطی سے کسی سے ناجائز عہد کر لیا تو فوراً توڑ دو، مثلاً اگرکسی سے وعدہ کیا بلکہ قسم کھائی کہ اس کے ساتھ شراب پئیں گے یا چوری کریں گے تو یہ وعدہ توڑ دو اور قسم کا کفارہ دے دو۔ آیت میں ’’عَہْد اللہ‘‘ سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے بندوں پر لازم فرمایا یعنی وہ احکام جو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے ذریعے ملے یا وہ عہد مراد ہے جو انسان اپنے اوپر لازم کر لے جیسے منت وغیرہ، ان سب کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۶۹)

 عہد شکنی پر وعید :

            حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ،حضورپر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن جب اللہتعالیٰ اَوّلین و آخِرین کو جمع فرمائے گاتو عہد توڑنے والے ہر شخص کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب ما یدعی الناس بآبائہم، ۴ / ۱۴۹، الحدیث: ۶۱۷۷،مسلم کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر، ص۹۵۵، الحدیث: ۹(۱۷۳۵))

            بندوں کے ساتھ کئے گئے جائز عہدوں کو پورا کرنے کا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا ہے لہٰذا ان کا پورا کرنا بھی عہد ِ الٰہی کو پورا کرنے میں داخل ہوگا۔

وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۵۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور یہ کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اور اور راہیں نہ چلو کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی یہ تمہیں حکم فرمایا کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔ تمہیں یہ حکم فرمایا ہے تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ۔

{ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا:اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے۔} یعنی یہاں مذکور آیتوں میں جو احکام تمہیں بیان کئے گئے ہیں یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا  سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو۔ احادیث میں ایک مثال کے ذریعے سیدھے راستے کے بارے میں سمجھایا گیا ہے، چنانچہ

            حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک خط کھینچا، دو اس کے دائیں اور دو بائیں جانب کھینچے، پھر اپنا ہاتھ درمیانے خط پر رکھ کر فرمایا ’’یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے۔پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب اتباع سنّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۱)

            حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک دن نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ہمارے سامنے ایک خط کھینچا ،پھر فرمایا ’’ یہ اللہ کا راستہ ہے ۔ پھر اس کے دائیں بائیں کچھ لکیریں کھینچیں اور فرمایا ’’ یہ مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان ہے جو اُدھر بلا رہا ہے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

’’ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ‘‘

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی ۔‘‘(سنن دارمی، باب فی کراہیۃ اخذ الرأی، ۱ / ۷۸، الحدیث: ۲۰۲)

سیدھا راستہ :

            اس سے معلوم ہوا کہ عقائد کی درستی، عبادت کی ادائیگی، معاملات کی صفائی اور حقوق کا ادا کرنا سیدھا راستہ ہے۔ جو ان میں سے کسی میں کوتاہی کرتاہے وہ سیدھے راستے پر نہیں۔ عقائد، عبادات اور معاملات جسم اوردو بازوؤں کی طرح ہیں جن میں سے ایک کے بغیر اڑنا ناممکن ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ دفتر تین قسم کے ہیں۔ ایک دفتر وہ ہے کہ جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نہ بخشے گا۔ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شریک ٹھہرانا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ‘‘(النساء:۴۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ نہ بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔

            اور ایک دفتر وہ ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ چھوڑے گا نہیں ، وہ بندوں کے آپس کے ظلم ہیں حتّٰی کہ ان کے بعض کا بعض سے بدلہ لے گا اور ایک دفتر وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ پروا نہیں کرتا، وہ بندوں کا اپنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان حق تلفی ہے، تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد ہے، اگر چاہے اسے سزا دے اور اگر چاہے تو اس سے در گزر فرمائے۔ (شعب الایمان، التاسع والاربعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۶ / ۵۲، الحدیث: ۷۴۷۳)

{ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ:اور دوسری راہوں پر نہ چلو۔} یہاں دوسرے راستوں سے مرادوہ راستے ہیں جو اسلام کے خلاف ہوں یہودیت ہو یا نصرانیت یا اور کوئی ملت۔ لہٰذا اگر تم اسلام کے خلاف راستے پر چلے تواللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے الگ ہوجاؤ گے ۔صوفیاءِ کرام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ فرماتے ہیں کہ معاملات کی خرابی عبادات کی خرابی تک پہنچا دیتی ہے اور عبادات کی خرابی کبھی عقائد کی خرابی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ترک ِمستحب ترک ِسنت کا اور ترک ِسنت ترک ِفرض کا ذریعہ ہے چور کو پہلے دروازے پر ہی روکو۔

ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ تَمَامًا عَلَى الَّذِیْۤ اَحْسَنَ وَ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَ۠(۱۵۴)

ترجمۂکنزالایمان: پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی پورا احسان کرنے کو اس پر جو نکوکار ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ہدایت اور رحمت کہ کہیں وہ اپنے رب سے ملنے پر ایمان لائیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو اور ہر شے کی تفصیل ہو اور ہدایت و رحمت ہو کہ کہیں وہ اپنے رب سے ملنے پر ایمان لائیں۔

{ ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ:پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔}یہاں کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔ سب سے پہلے کتابِ الٰہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ہی عطا ہوئی۔ اس سے پہلے پیغمبروں کو صحیفے ملتے تھے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’ تاکہ نیک آدمی پر احسان پورا ہو‘‘ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’بنی اسرائیل میں محسن (یعنی نیک) اور غیر محسن بھی تھے تو اللہ تعالیٰ نے محسنین یعنی نیک لوگوں پر اپنی نعمت پوری کرنے کے لئے یہ کتاب نازل فرمائی۔ اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے علم کے مطابق نیک کام کرتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر نعمت پوری کرنے کے لئے ان کو کتاب (یعنی تورات) دی۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۴ / ۱۰۴، الجزء السابع)

            پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اُس نے تورات میں دین کی کیا نعمتیں رکھی ہیں ؟ چنانچہ فرمایا کہ’’ ا س میں ہر چیز کی تفصیل ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں دین کے تمام احکام عقائد اور مسائل کی تفصیل ہے، لہٰذا اس میں ہمارے نبی سیدنا محمد مصطفیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اور رسالت کا بیان اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت کے تمام دلائل ہیں اور یہ ہدایت اور رحمت ہے تاکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی ملاقات پر ایمان لے آئیں۔ (تفسیر کبیر، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۵ / ۱۸۶)

وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اُتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، تو تم اس کی پیروی کرو اور پرہیزگار بنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

{ وَ هٰذَا كِتٰبٌ:اور یہ کتاب۔} یعنی قرآن شریف جو کثیر خیر والا، کثیر نفع والا اور کثیر برکت والا ہے اور قیامت تک رہے گا اور تحریف و تبدیل و نَسخ سے محفوظ رہے گا۔ قرآن اس لئے مبارک ہے کہ مبارک فرشتہ اسے لایا، مبارک مہینے رمضان میں لایا، مبارک ذات پر اترا، خالق و مخلوق کے درمیان وسیلہ ہے، جس کام پر اس کی آیات پڑھ دی جائیں اس میں برکت ہو جائے اور سب سے بڑھ کر اس کی تعلیمات اور ہدایت برکت والی ہیں۔

{ فَاتَّبِعُوْهُ:تو تم اس کی پیروی کرو۔} یعنی قرآنِ کریم میں مذکور احکامات پر عمل کرو، ممنوعات سے باز آجاؤ اور اس کی مخالفت کرنے سے بچو تاکہ اس اتباع اور عمل کی برکت سے تم پر رحم کیا جائے۔

 امت پر قرآنِ مجید کا حق:

            اس سے معلوم ہو اکہ امت پر قرآنِ مجید کا ایک حق یہ ہے کہ وہ ا س مبارک کتاب کی پیروی کریں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچیں۔ افسوس! فی زمانہ قرآنِ کریم پر عمل کے اعتبار سے مسلمانوں کا حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، آج مسلمانوں نے ا س کتاب کی روزانہ تلاوت کرنے کی بجائے اسے گھروں میں جزدان و غلاف کی زینت بنا کر اور دکانوں پر کاروبار میں برکت کے لئے رکھا ہوا ہے اور تلاوت کرنے والے بھی صحیح طریقے سے تلاوت کرتے ہیں اور نہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے رب عَزَّوَجَلَّنے اس کتاب میں ان کے لئے کیا فرمایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اس مقدس کتاب کو سینے سے لگا کر حِرْزِ جاں بنائے رکھا اور اس کے دستور و قوانین اور احکامات پر سختی سے عمل پیرا رہے تب تک دنیا بھر میں ان کی شوکت کا ڈنکا بجتا رہا اور غیروں کے دل مسلمانوں کا نام سن کر دہلتے رہے اور جب سے مسلمانوں نے قرآنِ عظیم کے احکام پر عمل چھوڑ رکھا ہے تب سے وہ دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہو رہے اور اغیار کے دست نگر بن کر رہ گئے ہیں۔

وہ ز مانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر                اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

            قرآنِ کریم کے احکام پر عمل نہ کرنے کا دنیوی نقصان تو اپنی جگہ، اخروی نقصان بھی انتہائی شدید ہے، چنانچہ

            حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ قرآن شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت مقبول ہے، ، جس نے (اس کے احکامات پر عمل کر کے) اسے اپنے سامنے رکھا تو یہ اسے پکڑ کر جنت کی طرف لے جائے گا اور جس نے (اس کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے) اسے اپنے پیچھے رکھا تو یہ اسے ہانک کر جہنم کی طرف لے جائے گا۔( معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۱۹۸، الحدیث: ۱۰۴۵۰، ملتقطاً)

اَنْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآىٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا۪-وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِیْنَۙ(۱۵۶)

ترجمۂکنزالایمان: کبھی کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر اُتری تھی اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی کچھ خبر نہ تھی۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: (اس لئے اترا) تاکہ تم یہ (نہ) کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر اُتری تھی اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی کچھ خبر نہ تھی۔

{ اَنْ تَقُوْلُوْا:کبھی کہو۔} یعنی یہ قرآن اس لئے نازل کیا ہے تاکہ تمہیں یہ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتابیں جیسے تورات و انجیل تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں پریعنی یہودیوں اور عیسائیوں پر اُتری تھی، ہماری عرب کی سرزمین میں تونہ کوئی رسول آیا اور نہ کوئی کتاب۔ پھر جو کتابیں توریت و انجیل آئیں وہ ہماری زبان میں نہ تھیں اور نہ ہی ہمیں کسی نے ان کے معنی بتائے  پھر ہم ہدایت پر کیسے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل فرما کر بتادیا کہ اب تمہارا کوئی عذر باقی نہ رہا اور تم یہودو نصاریٰ کے محتاج نہ رہے۔

اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّاۤ اَهْدٰى مِنْهُمْۚ-فَقَدْ جَآءَكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌۚ-فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ صَدَفَ عَنْهَاؕ-سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَاسُوْٓءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا یَصْدِفُوْنَ(۱۵۷)

ترجمۂکنزالایمان: یا کہو کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ ٹھیک راہ پر ہوتے تو تمہارے پاس تمہارے رب کی روشن دلیل اور ہدایت او ر رحمت آئی تو اس سے زیادہ ظالم کون جواللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیرے عنقریب وہ جو ہماری آیتوں سے منہ پھیرتے ہیں ہم انہیں برے عذاب کی سزا دیں گے بدلہ ان کے منہ پھیرنے کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یا (تا کہ تم یہ نہ) کہو کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے تو تمہارے پاس تمہارے رب کی روشن دلیل اور ہدایت او ر رحمت آگئی ہے تو اس سے زیادہ ظالم کون جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیرے۔ عنقریب وہ لوگ جو ہماری آیتوں سے منہ پھیرتے ہیں ہم انہیں ان کے منہ پھیرنے کی وجہ سے برے عذاب کی سزا دیں گے۔

{ اَوْ تَقُوْلُوْا:یا کہو۔} شانِ نزول: کفارِ عرب کی ایک جماعت نے کہا تھا کہ یہود و نصارٰی پر توریت و انجیل نازل ہوئیں مگر وہ بے عقل ان کتابوں سے ہدایت حاصل نہ کر سکے ہم اُن کی طرح خفیفُ العقل اور نادان نہیں ہیں ہماری عقلیں صحیح ہیں اور ہماری عقل وذہانت اور فہم و فراست تو ایسی ہے کہ اگر ہم پر کتاب اُترتی تو ہم ان سے زیادہ سیدھے راہ پر ہوتے۔ ان کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ اور اس طرح ان کا یہ عذر بھی ختم فرما دیا گیا۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۷۱)

صرف عقل پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے:

             اس سے معلوم ہوا کہ صرف اپنی عقل پر اعتماد نہ کرنا چاہیے بلکہ رب تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ شیخی مارنے والے بھی کافر ہی رہے ایمان نہ لائے اس لئے کہ انہوں نے عقل پر بھروسہ کیا۔

{ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ:تو اس سے زیادہ ظالم کون جو۔} یعنی جو نبی کے معجزات اور ان کی کتابوں کا انکار کرتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے کیونکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے کہ اسے دائمی عذاب کا مستحق بناتا ہے۔

هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًاؕ-قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ(۱۵۸)

ترجمۂکنزالایمان: کاہے کے انتظار میں ہیں مگر یہ کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا تمہارے رب کا عذاب آئے یا تمہارے رب کی ایک نشانی آئے جس دن تمہارے رب کی وہ ایک نشانی آئے گی کسی جان کو ایمان لانا کام نہ دے گا جو پہلے ایمان نہ لائی تھی یا اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ کمائی تھی تم فرماؤ رستہ دیکھو ہم بھی دیکھتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ صرف اسی چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تمہارے رب کا عذاب آجائے یا تمہارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں۔ جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں آجائیں گی اس دن کسی شخص کو اس کا ایمان قبول کرنا نفع نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی نہ حاصل کی ہوگی۔ تم فرمادو: تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی منتظر ہیں۔

{ هَلْ یَنْظُرُوْنَ:کس کے انتظار میں ہیں۔} یعنی جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی رسالت پردلائل قائم کردئیے گئے اور کفریہ اور گمراہ کُن عقائد کا باطل ہونا بھی ظاہر کردیا گیا تو اب ایمان لانے میں کیا انتظار باقی ہے؟ اب تو یہی ہے کہ وہ کفار اس چیز کا انتظار کررہے ہیں کہ ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لئے موت کے فرشتے آجائیں یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کا عذاب آجائے یا تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی قیامت کی خبر دینے والی ایک نشانی آجائے اور یوں مشاہدے کے طور پر ہرچیز ان کیلئے ظاہر ہوجائے، لیکن ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جس دن غیب کے معاملات ظاہر ہوجائیں گے یا عذاب آنکھوں کے سامنے آچکا ہوگا تواس دن کافر کو ایمان لانا نفع نہ دے گا۔ جمہور مفسرین نے فرمایا کہ آیت میں جو فرمایا گیا کہ’’ جس دن تیرے رب کی ایک نشانی آئے گی‘‘ اس نشانی سے مراد آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا ہے چنانچہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو اور جب وہ مغربسے طلوع ہو گا اور اُسے لوگ دیکھیں گے تو سب ایمان لائیں گے اور یہ ایمان نفع نہ دے گا۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب لا ینفع نفساً ایمانہا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۲۳، الحدیث: ۴۶۳۵، مسلم، کتاب الایمان، باب بیان زمن الذی لا یقبل فیہ الایمان، ص۹۲، الحدیث: ۲۴۸(۱۵۷))

{ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا:یا جس نے اپنے ایمان میں کوئی بھلائی (نہ) حاصل کی ہوگی۔} اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کی جانب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے جس گنہگار مومن نے توبہ نہ کی توا ب اُس کی توبہ مقبول نہیں۔(تفسیر طبری، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۵ / ۴۰۷، ملخصاً)

            امام ضحاک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’اس نشانی کے ظاہر ہونے سے پہلے جو مومن نیک اعمال کرتا تھا نشانی ظاہر ہونے کے بعد بھی اسی طرح اس کے نیک اعمال اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا البتہ جب یہ نشانی ظاہر ہوئی تو ا س وقت نہ کافر کا ایمان مقبول ہے نہ گنہگار کی توبہ کیونکہ یہ ایسی حالت ہے جس نے انہیں ایمان لانے اور گناہوں سے توبہ کرنے پر مجبور کر دیا لہٰذا جس طرح عذابِ الٰہی دیکھ کر کفار کا ایمان لانا بے فائدہ ہے اسی طرح قربِ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر بھی ایمان اور توبہ قبول نہیں۔(خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۷۳)

 توبہ اور نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب:

            اس آیت میں ہر مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائے۔ نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب حدیثِ پاک میں بھی دی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، دھوئیں ، دجال، دابۃُ الارض، تم میں سے کسی ایک کی موت یا سب کی موت (یعنی قیامت ) سے پہلے۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال، ص۱۵۷۹، الحدیث: ۱۲۸(۲۹۴۷))

            اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ توبہ میں تاخیر کرنا سخت نقصان دہ ہے، کیونکہ گناہ سے ابتداء ً قَساوتِ قلبی پیدا ہوتی ہے، پھر رفتہ رفتہ گناہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان کفرو گمراہی اور بد بختی میں مبتلا ہو جاتا ہے ، کیا تم ابلیس اور بلعم بن باعوراء کا واقعہ بھول گئے، ان سے ابتدا میں ایک ہی گناہ صادر ہوا تھا، آخر نتیجہ یہ ہو اکہ وہ کفر میں مبتلا ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے تباہ حال لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ان کے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے تم ڈرتے رہو اور تم پر لازم ہے کہ توبہ کے بارے میں اپنے اندر بیداری اور جانْفشانی پیدا کرو،( اگر تم نے جلد توبہ کر لی) تو عنقریب تمہارے دل سے گناہوں کے اصرار کی بیماری کا قَلع قَمع ہو جائے گا اور گناہوں کے بوجھ سے تمہاری گردن آزاد ہو جائے گی اور گناہوں کی وجہ سے دل میں جو قساوت اور سختی پیدا ہوتی ہے ا س سے ہر گز بے خوف نہ ہو بلکہ ہر وقت اپنے حال پر نظر رکھو، اپنے نفس کو گناہوں پر ٹوکتے رہو اور اس کا محاسبہ کرتے رہو اور توبہ و استغفار کی طرف سبقت و جلدی کرو اور ا س میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہ کرو کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اور دنیا کی زندگی محض دھوکہ اور فریب ہے۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ، ص۳۵-۳۶)

{ قُلِ انْتَظِرُوْا:تم فرمادو: تم انتظار کرو ۔} یعنی اے کافرو! تم موت کے فرشتوں کی آمد یا عذاب یا نشانی، ان میں سے کسی ایک کے آنے کا انتظار کرو اور ہم بھی تم پر عذاب آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کا انتظار درست تھا چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل سے کافر ہلاک اور مغلوب ہوئے جبکہ مسلمانوں کو غلبہ عطا ہوا اور قیامت کے دن بھی کفار ہلاک ہوں گے اور مومن کامیاب و کامران ہو کر سُرخرو ہوں گے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍؕ-اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۱۵۹)

ترجمۂکنزالایمان: وہ جنہوں نے اپنے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں او رکئی گروہ ہوگئے اے محبوب تمہیں ان سے کچھ علا قہ نہیں ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور خود مختلف گروہ بن گئے اے حبیب! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کیاکرتے تھے۔

{ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔} اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں ، اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ان میں سے دو قول درج ذیل ہیں :

(1) حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ان لوگوں سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی بعثت سے پہلے وہ ایک دوسرے سے ا ختلاف کرتے تھے اور بعد میں مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۱۴۳۰)

(2)… حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ان سے تمام مشرکین مراد ہیں کیونکہ ان میں سے بعض نے بتوں کی پوجا کی اور کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کریں گے۔ بعض نے فرشتوں کی عبادت کی اور کہا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور بعض نے ستاروں کی پرستش کی، تو یہ ان کی دین میں تفریق ہے۔ (خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۲ / ۷۲)

فرقہ بندی کا سبب اور حق پر کون؟:

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا ہے اور انہیں اختلاف اور فرقہ بندی سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ ان سے پہلے لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّکے دین میں جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۱۴۳۰)

            خلاصہ یہ کہ اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نظریے پر متفق ہونے، دین میں فرقہ بندی اور بِدعات اختیار کرنے سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ فی زمانہ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام میں فرقہ بندی کیوں ہے اور ان میں حق پر کون ہے؟ اس سلسلے میں چند باتیں ذہن نشین کر لیجئے،اِنْ شَآءَ اللہ! آپ پر خود ہی واضح ہو جائے گا کہ فرقہ بندی کا اصل سبب کیا ہے اور مختلف فرقوں میں سے حق پر کونسا فرقہ ہے

          پہلی بات : یہ امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَارَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی، جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم،۴ / ۳۲۷، الحدیث:۳۹۵۰)

          دوسری بات: حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے صدیوں پہلے ہی اس اختلاف اور فرقہ بندی کے بارے میں پیشین گوئی فرما دی تھی، چنانچہ حضرت عوف بن مالک سے روایت ہے، رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا: ’’وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَتَفْتَرِقَنَّ اُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَا ثٍ وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً، وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِی النَّارِ، قِیْلَیا رسول اللہ مَنْ ہُمْ قَالَ اَلْجَمَاعَۃُ‘‘اس ذات کی قسم !جس کے دستِ قدرت میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کی جان ہے، میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی (ان میں سے) ایک جنت میں جائے گا اور 72جہنم میں جائیں گے۔ عرض کی گئی: یا رسول اللہ ! (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) وہ جنتی کون ہوں گے ؟ارشاد فرمایا :وہ جماعت ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب افتراق الامم،۴ / ۳۵۲، الحدیث: ۳۹۹۲)

            واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے اختلافِ امت کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ عین حق اور صواب پر مبنی تھا۔

          تیسری بات:یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ اس دورِ اختلاف میں حق پسند اور نجات پانے والے گروہ کا پتا کیسے چلے گا، کس طرح معلوم ہو گا کہ موجودہ فرقوں میں حق پر کون ہے۔ اس کی رہنمائی بھی حدیث پاک میں کر دی گئی ہے کہ ’’اِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمْ‘‘جب تم اختلاف دیکھو تو سب سے بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم،۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)

            اس روایت میں اختلاف سے مراد اصولی اختلاف ہیں جس میں ’’کفر و ایمان‘‘ اور ’’ہدایت وضلالت ‘‘ کا فرق پایا جائے، فروعی اختلاف ہر گز مراد نہیں کیونکہ وہ تو رحمت ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے ’’اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ‘‘ میری امت کا (فروعی) اختلاف رحمت ہے۔( کنز العمال، کتاب العلم، قسم الاقوال، ۵ / ۵۹، الحدیث: ۲۸۶۸۲، الجزء العاشر)

            اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر موجودہ اسلامی فرقوں میں اس بڑے فرقے کو تلاش کیجئے جو باہم اصولوں میں مختلف نہ ہوں اور جس قدر اسلامی فرقے اس کے ساتھ اصولی اختلاف رکھتے ہوں وہ ان سب میں بڑا ہو۔ آپ کو اہلسنّت و جماعت کے سوا کوئی نہ ملے گا جس میں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، چشتی، سہروردی، نقشبندی، اشعری ، ماتریدی سب شامل ہیں یہ سب اہلسنّت ہیں اور ان کے مابین کوئی ایسا اصولی اختلاف نہیں جس میں کفر و ایمان یا ہدایت و ضَلال کا فرق پایا جائے لہٰذا اس پر فتن دور میں حدیثِ مذکور کی رُو سے سوادِ اعظم اہلسنّت و جماعت ہے اور اس کا حق پر ہونا بھی ثابت ہوا۔

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَاۚ-وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۱۶۰)

ترجمۂکنزالایمان: جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں اور جو برائی لائے تو اسے بدلہ نہ ملے گا مگر اس کے برابر اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہیں اور جو کوئی برائی لائے تو اسے صرف اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔

{ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ:جو ایک نیکی لائے۔} یعنی ایک نیکی کرنے والے کو دس نیکیوں کی جزا اور یہ کوئی انتہائی مقدار نہیں بلکہ یہ تو فضل الٰہی کی ابتدا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کے لئے جتنا چاہے اس کی نیکیوں کو بڑھائے ایک کے سات سو کرے یا بے حساب عطا فرمائے۔

ثواب کے درجات:

            اس آیت سے متعلقعلامہ عبد الرؤوف مناوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت میں جس اضافے کا وعدہ کیا ہے یہ اس کا کم ازکم حصہ ہے۔ (فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۳۱۳، تحت الحدیث: ۱۷۶۳)

            ایک اورمقام پرارشاد فرماتے ہیں : آیت سے مرادکہ ’’جو ایک نیکی لائے‘‘ کے مقابلے میں ثواب کے مراتب میں سے اَقَل مرتبے کا بیان ہے اور اس کے اکثر مرتبے کی کوئی انتہا نہیں۔ (فیض القدیر، حرف المیم، ۶ / ۱۸۸، تحت الحدیث: ۸۷۳۱)

          حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ظاہر یہ ہے کہ یہ اقل (یعنی کم از کم) اضافہ ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفضلہا، الفصل الاول، ۳ / ۱۰، تحت الحدیث: ۹۲۱)

            ایک اور مقام پر فرمایا ’’اور وہ زیادتی کا قلیل مرتبہ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں کیا گیا ہے’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ‘‘جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب فضائل القرآن، الفصل الثانی، ۴ / ۶۴۷، تحت الحدیث: ۲۱۳۷)

          حضرت علامہ عبد الرحمٰن بن شہاب الدین بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’ نیکی کا دس گنا اضافہ تمام نیکیوں کے لئے لازم ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ عالیشان ہے’’ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ‘‘ جو ایک نیکی لائے تو اس کے لئے اس جیسی دس ہیں۔‘‘(جامع العلوم والحکم، الحدیث السابع والثلاثون، ص۴۳۶)

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں جو جزا بیان ہوئی یہ اس کے لئے ہے جو نیکی یا گناہ کرے البتہ جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اسے کر نہ سکا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی اور جس نے گناہ کا ارادہ کیا لیکن گناہ کیا نہیں ، اب اگر اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے گناہ چھوڑا ہو گا تو اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی ورنہ کچھ نہ لکھا جائے گا۔ (تفسیر صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۲ / ۶۵۲)

            یاد رہے کہ ثواب کے اکثر درجات کی کوئی حد نہیں ، قرآنِ پاک میں سات سو گنا کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّجس کیلئے چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا دے اور قرآنِ پاک میں صبر پر بے حساب اجر کا وعدہ ہے اور حدیث میں مکہ سے پیدل حج کرنے پر ہر قدم پر سات کروڑ نیکیوں کی بشارت ہے۔

{ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ:اور ان پر ظلم نہیں کیاجائے گا۔} ارشاد فرمایا کہ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا خواہ اس طرح کہ اطاعت گزار اور نیک اعمال کرنے والے کے ثواب میں کمی کر دی جائے اور نافرمان اور گنہگار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا دے دی جائے یااس طرح کہ انہیں جرم کئے بغیر عذاب دیا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے چھوٹے بچے جو بچپن میں فوت ہو جائیں وہ دوزخی نہیں کیونکہ انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔

ظلم کے معنی:

            ظلم کے دو معنی ہیں :

(1) کسی غیر کی چیز میں بلا اجازت تصرف کرنا۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۲ / ۶۵۲)

(2)… بے قصور کو سزا دے دینا یا کام لے کر اس کی اجرت نہ دینا۔ (جامع العلوم والحکم، الحدیث الرابع والعشرون، ص۲۸۱، التیسیر شرح جامع صغیر، حرف العین، ۲ / ۱۳۵)

            ان جیسی آیات میں ظلم کے دوسرے معنی مراد ہیں اور حدیثِ پاک کہ اگر خدا تمام دنیا کو دوزخ میں بھیج دے تو ظالم نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر چیز اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مِلکیت ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّاپنی ملکیت میں جیسے چاہے تصرف فرمائے۔

قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﳛ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاۚ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۶۱)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ بیشک مجھے میرے رب نے سیدھی راہ دکھائی ٹھیک دینِ ابراہیم کی ملّت جو ہر باطل سے جُدا تھے اور مشرک نہ تھے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، بیشک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرمائی، (یہ) مضبوط دین ہے جوہر باطل سے جدا ابراہیم کی ملت ہے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔

{ قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْ:تم فرماؤ، بیشک مجھے میرے رب نے ہدایت فرمائی۔} اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بلاواسطہ رب تعالیٰ نے عقائد، اعمال ہر قسم کی ہدایت دی۔، دوسرے یہ کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اول سے ہدایت پر تھے ایک آن کے لئے اس سے دور نہ ہوئے۔ جو ایک آن کے لئے بھی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو ہدایت سے علیحدہ مانے وہ اس آیت کا منکر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ میرے رب نے مجھے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ، ص۲۵، الحدیث: ۳۱۰)

{ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ:اور (ابراہیم) مشرکوں میں سے نہ تھے۔} اس میں کفارِ قریش کا رد ہے جو گمان کرتے تھے کہ وہ دین ابراہیمی پر ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مشرک و بت پرست نہ تھے تو بت پرستی کرنے والے مشرکین کا یہ دعویٰ کہ وہ ابراہیمی ملت پر ہیں باطل ہے۔

عظمتِ انبیاء:

            اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں سے کفار کے الزام اٹھانا سنتِ الٰہیہ ہے، جو ان کی عزت و عظمت پر اپنی جان و مال، تحریر، تقریر صرف کرتا ہے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے نزدیک مقبول ہے۔ رب تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کفار کا یہ الزام دفع فرمایا کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَعَاذَاللہ مشرک تھے۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔

{ وَ مَحْیَایَ:اور میرا جینا۔} یہاں جو فرمایا گیا وہ حقیقتاً ایک مومن زندگی کی عکاسی ہے کہ مسلمان کا جینا، مرنا، اور عبادت و ریاضت سب کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے ہونا چاہیے۔ زندگی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے کاموں میں اور جینے کا مقصد اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین کی سربلندی ہو۔ یونہی مرنا حالت ِ ایمان میں ہو اور ہوسکے تو کلمۂ حق بلند کرنے کیلئے ہو۔ یونہی عبادت کا شرکِ جلی سے پاک ہونا تو بہرحال ایمانیات میں داخل ہے، عبادت شرک ِ خفی یعنی ریاکاری سے بھی پاک ہو اور خالصتاً اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا و خوشنودی کیلئے ہو۔

لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۶۳)

ترجمۂکنزالایمان: اس کا کوئی شریک نہیں مجھے یہی حکم ہوا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کامجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

{ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ:اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔} اوّلیت یا تو اس اعتبار سے ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اسلام اُن کی امت پر مقدم ہوتا ہے (بیضاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۴۷۲)یا اس اعتبار سے کہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اوّل مخلوقات ہیں تو ضرور اولُ المسلمین ہوئے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۴ / ۱۱۳، الجزء السابع)

سب سے پہلے مومن:

            اس سے معلوم ہوا کہ ساری مخلوق میں سب سے پہلے مومن حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں۔ حضرت جبریل اورمیکائیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے پہلے بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عابد بلکہ نبی تھے۔ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (ترجمہ:کیا میں تمہارا رب نہیں ؟)کے جواب میں سب سے پہلے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنےبَلٰى (ترجمہ:کیوں نہیں ) فرمایا تھا، (فیض القدیر، حرف الکاف، ۵ / ۶۹، تحت الحدیث: ۶۴۲۴) پھر اور انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ،پھر دوسرے لوگوں نے۔

قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍؕ-وَ لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَاۚ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ-ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(۱۶۴)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا اور رب چاہوں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور جو کوئی کچھ کمائے وہ اسی کے ذمہ ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی پھر تمہیں اپنے رب کی طرف پھرنا ہے وہ تمہیں بتادے گا جس میں اختلاف کرتے تھے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، کیا اللہکے سوا اور رب طلب کروں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور ہرشخص جو عمل کرے گا وہ اسی کے ذمہ ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے تووہ تمہیں بتادے گا جس میں اختلاف کرتے تھے۔

{ قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا:تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا اور رب چاہوں۔}شا نِ نزول: کفار نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ آپ ہمارے دین میں داخل ہوجائیں اور ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  نے فرمایا کہ ولیدبن مغیرہ کہتا تھا کہ میرا راستہ اختیار کرو ،اس میں اگر کچھ گناہ ہے تو میری گردن پر، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ وہ راستہ باطل ہے، خدا شناس کس طرح گوارا کرسکتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی اور کو خدا مانے، نیزیہ بات بھی باطل ہے کہ کسی کا گناہ دوسرا اٹھا سکے بلکہ  ہرشخص جو عمل کرے گا وہ اسی پر ہے ۔

{ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى:اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔}یعنی مجرم گناہ سے بالکل بری ہو جائے اور کسی دوسرے پر اس کے گناہ ڈال دئیے جائیں یہ نہیں ہوسکتا اور یونہی ایک آدمی کے گناہ دوسرے پر بغیر کسی سبب کے ڈال دئیے جائیں یہ بھی نہیں ہوسکتا البتہ جو آدمی گناہ کا طریقہ ایجاد کرے یا دوسرے کو گمراہ کرے یا گناہ کے راستے پر لگائے تو یہ اپنے ان افعال کی وجہ سے پکڑ میں آئے گا اور یہ اِس کے گناہ کی شدت ہوگی کہ اِس کی وجہ سے جتنے لوگوں نے جتنے گناہ کئے اُن سب کے وہ گناہ اِس پہلے آدمی پر ڈال دئیے جائیں۔ حقیقت میں یہ اِس آدمی کے اپنے ہی اعمال کا انجام ہے نہ یہ کہ بلاوجہ دوسروں کے گناہ اِس پر ڈال دئیے گئے اور یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:

’’ وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ‘‘ (عنکبوت: ۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور وہ اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ اٹھائیں گے۔‘‘

            سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے ہدایت کی طرف بلایا اور لوگوں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے ان باتوں پر عمل کیا تو بلانے والے کو پیروی کرنے والوں کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا اور ان کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی اورجس نے گمراہی کی دعوت دی اور لوگوں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے ان باتوں پر عمل کیا تو دعوت دینے والے کو پیروی کرنے والوں کے گناہ کے برابر گناہ ملے گا اور ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ (در منثور، العنکبوت، تحت الآیۃ: ۱۳، ۶ / ۴۵۴)

وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ﳲ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ (۱۶۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی بیشک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بیشک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب بنایا اور تم میں ایک کو دوسرے پر کئی درجے بلندی عطا فرمائی تاکہ وہ تمہیں اس چیز میں آزمائے جو اس نے تمہیں عطا فرمائی ہے بیشک تمہارا رب بہت جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

{ وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ:اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب بنایا۔} کیونکہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ خاتَمُ النبییّن ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُ مت سب امتوں میں آخری امت ہے، اس لئے ان کو زمین میں پہلوں کا خلیفہ کیا کہ اس کے مالک ہوں اور اس میں تصرف کریں۔ اور فرمایا: ’’اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی‘‘ یعنی شکل و صورت میں ،حسن و جمال میں ،رزق و مال میں ،علم و عقل میں اور قوت و کمال میں ایک کو دوسرے پر بلندی دی اور اس کا مقصد تمہاری آزمائش کرنا ہے کہ کون نعمتوں کے ملنے پر شکر ادا کرتا ہے اور کون ظلم و زیادتی کی راہ پر چلتا ہے؟ کون امتحان میں کامیاب ہوتا ہے اور کون ناکام ہوتا ہے؟

            قرآنِ کریم کی اور آیات میں بھی اس چیز کو بیان کیاگیا ہے ،چنانچہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ‘‘ (عنکبوت:۲)

ترجمۂکنزُالعِرفان:کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم’’ ایمان لائے ‘‘ اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟

          اور ارشاد فرمایا:

’’ وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ‘‘ (بقرہ:۱۵۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم ضرورتمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنا دو۔

اور فرمایا:

’’ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًؕ-وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ‘‘ (الانبیاء:۳۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور ہم برائی اور بھلائی کے ذریعے تمہیں آزماتے ہیں اور ہماری ہی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔

          ارشاد فرمایا :

’’ فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا٘-ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّاۙ-قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍؕ-بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ‘‘ (الزمر:۴۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب اسے ہم اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا فرمائیں توکہتا ہے یہ تو مجھے ایک علم کی بدولت ملی ہے (حالانکہ ایسا نہیں ہے) بلکہ وہ تو ایک آزمائش ہے مگر ان میں اکثر لوگ جانتے نہیں۔

          ایک اور مقام پر فرمایا:

’’ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ‘‘ (کہف:۷)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ہم نے زمین پر موجود چیزوں کو اس کیلئے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے؟

 { اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ:بیشک تمہارا رب بہت جلد عذاب دینے والا ہے۔}یعنی اللہ تعالیٰ فاسق و فاجر اور گنہگار کو بہت جلد سزا دینے والا ہے۔ اس مقام پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلیم ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، وہ اپنے نافرمان کو جلدی سزا نہیں دیتا پھر کس طرح فرمایا کہ’’بیشک تمہارا رب بہت جلد عذاب دینے والا ہے۔‘‘ اس کا جواب دیتے ہوئے ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ ہر وہ کام جویقینا ہونے والا ہے وہ قریب ہی ہے۔ (قرطبی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۴ / ۱۱۶، الجزء السابع)

            تفسیرِ صاوی میں ہے کہ ’’سَرِیْعُ الْعِقَابِ‘‘ کا معنی ہے جب عذاب کا وقت آ جائے تو اس وقت اللہ  تعالیٰ عذاب نازل کرنے میں دیر نہیں فرماتا۔ (صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۶۵، ۲ / ۶۵۳)

سورۃُ الاعراف

سورۂ اعراف کا تعارف

 مقامِ نزول:

            یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے اور ایک روایت کے مطابق پانچ آیتوں کے علاوہ یہ سورت مکیہ ہے، ان پانچ آیات میں سے پہلی آیت ’’ وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ‘‘ ہے۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)

رکوع اور آیات کی تعداد:

            اس سورت میں24 رکوع اور206 آیتیں  ہیں۔ (خازن، الاعراف، ۲ / ۷۶)

’’اَعراف‘‘نام رکھنے کی وجہ :

            اعراف کا معنی ہے بلند جگہ، اس سورت کی آیت نمبر 46میں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جگہ اعراف کا ذکر ہے جو کہ بہت بلند ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اعراف ‘‘رکھا گیا۔

سورۂ اَعراف کی فضیلت:

            حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے قرآنِ پاک کی پہلی 7 بڑی سورتوں کوحفظ کیا اور ان کی تلاوت کرتا رہا تو یہ اس کے لئے کثیر ثواب کا باعث ہے۔ (مستدرک، کتاب فضائل القرآن، من اخذ السبع الاول من القرآن فہو خیر، ۲ / ۲۷۰، الحدیث: ۲۱۱۴)ان سات سورتوں میں سے ایک سورت اعراف بھی ہے۔

سورۂ اَعراف کے مضامین:

            یہ مکی سورتوں میں سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ کہ اس میں انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حالات اور انہیں جھٹلانے والی قوموں کے انجام کے واقعات بیان کر کے اس امت کے لوگوں کو ان قوموں جیسا عذاب نازل ہونے سے ڈرانا، ایمان اور نیک اعمال کی ترغیب دینا ہے۔ نیز اس سورت میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کے وجود، وحی اور رسالت، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور اعمال کی جزاء ملنے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔

(1)قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی نعمت ہے اور قرآنِ پاک کی تعلیمات کی پیروی ضروری ہے۔

(2) …قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور کیا جائے گا۔

(3) …دوبارہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ابلیس کا واقعہ بیان کیا گیا، اس میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، فرشتوں کا انہیں سجدہ کرنا، شیطان کا سجدہ کرنے سے تکبر کرنا، شیطان کا مردود ہونا، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اس کی دشمنی اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جنت سے زمین کی طرف آمدکا بیان ہے۔

(4) … کفار ومشرکین کے اخروی انجام کو بیان کیا گیا ہے۔

(5) …قیامت کے دن ایمان والوں کے حالات، جہنمیوں اور اَعراف والوں سے ہونے والی گفتگو اور اہلِ جہنم کی آپس میں کی جانے والی گفتگو کابیان ہے۔

(6) …اللہ تعالیٰ نے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے وجود اور اپنی وحدانیت پر استدلال فرمایا ہے۔

(7) …اس سورت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے واقعے کے علاوہ مزید یہ7واقعات بیان کئے گئے: (1) حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کاواقعہ۔ (2)حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (3) حضرت صالحعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (4) حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ۔ (5) حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور ان کی قوم کا واقعہ۔ (6) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور فرعون کا واقعہ۔ (7) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور بلعم بن باعور کا واقعہ۔

(8) …اس سورت کے آخر میں شرک کا تفصیلی رد، مَکارمِ اخلاق کی تعلیم، وحی کی پیروی کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا بیان ہے۔

سورۂ اَنعام کے ساتھ مناسبت:

             سورۂ اعراف کی اپنے سے ماقبل سورت ’’اَنعام‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اَنعام میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق، سابقہ امتوں کی ہلاکت اور انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کاذکر اجمالی طور پر کیا گیا تھاجبکہ سورۂ اعراف میں ان تینوں امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الاعراف، ۸۷)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ترجمۂکنزالایمان:    اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحم والا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:     اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان، رحمت والا ہے۔

الٓمّٓصٓۚ(۱) كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۲)اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ(۳)

ترجمۂکنزالایمان: اے محبوب ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے اس لیے کہ تم اس سے ڈر سناؤ اور مسلمانوں کو نصیحت۔اے لوگواس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اُترا اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ بہت ہی کم سمجھتے ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: المص۔اے حبیب ! (یہ) ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے تا کہ آپ اس کے ذریعے ڈر سنائیں اور مومنوں کے لئے نصیحت ہے پس آپ کے دل میں اس کی طرف سے کوئی تنگی نہ ہو۔اے لوگو! تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف جونازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ۔تم بہت ہی کم سمجھتے ہو۔

{ الٓمّٓصٓ:} یہ حروفِ مُقَطّعات ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔

{ كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ:اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی۔}یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، یہ کتاب یعنی قرآنِ پاک آپ کی طرف اس لئے نازل کیا گیا تاکہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے ڈرائیں۔ پس آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے دل میں لوگوں کے سابقہ طرزِ عمل کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ لوگ نہ مانیں گے اور اس پر اعتراض کریں گے اور اسے جھٹلانے لگیں گے اس کی تبلیغ فرمانے سے کوئی تنگی نہ آئے، آپ  ان کفار کی مخالفت کی ذرہ بھر پروا نہ کریں۔

تکالیف کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے:

            اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تسکین و تسلی اور حوصلہ افزائی ہے اور اس کے ذریعے امت کے تمام مبلغین کو درس اور سبق ہے کہ لوگوں کے نہ ماننے یا تکلیفیں دینے کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ نیکی کی دعوت کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں تکالیف ضرور آتی ہیں۔ اسی لئے تمام انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بے پناہ تکلیفیں اٹھائیں اور ان کے واقعات قرآنِ پاک میں بکثرت موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، اپنے ملک سے ہجرت کرنا، لوگوں کا آپ کو تنگ کرنا یونہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہجرت کرنا، فرعون کا آپ کے مقابلے میں آنا، آپ کو جادوگر قرار دینا، آپ کو گرفتار کرنے کے منصوبے بنانا یونہی سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بے پناہ تکلیفیں اٹھانا، لوگوں کا آپ پر مَعَاذَاللہ کوڑا پھینکنا، راستے میں کانٹے بچھانا، آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنانا، آپ کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا، آپ کو جادوگر، کاہن، شاعر کہنا، آپ سے جنگ کرنا وغیرہ یہ ساری چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ راہِ تبلیغ میں تکالیف آنا ایک معمول کی چیز ہے اور انہیں برداشت کرنا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت ہے، اب یہاں آج کے مومنین و مسلمین سے بھی عرض ہے کہ ذرا اپنے احوال و اعمال پر غور کریں کہ کیا یہ قرآن سے نصیحت حاصل کررہے ہیں ؟ یا انہیں قرآن کھولنے، پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی؟

وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآىٕلُوْنَ(۴)

ترجمۂکنزالایمان: اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں تو ان پر ہمارا عذاب رات میں آیا یا جب وہ دوپہر کو سوتے تھے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا، یا (جب) وہ دوپہر کو سورہے تھے۔

{ وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا:اور کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں۔} اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیات میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو ڈر سنانے اور تبلیغ جاری رکھنے کا حکم فرمایا اور امت کو قرآنِ پاک کی پیروی کا حکم دیا، اب حکمِ الٰہی کی پیروی چھوڑ دینے اور اس سے اعراض کرنے کے نتائج پچھلی قوموں کے انجام کی صورت میں بتائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا تو ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یاجب وہ دوپہر کو سورہے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا عذاب ایسے وقت آیا جب کہ انہیں خیال بھی نہ تھا یا تو رات کا وقت تھا اور وہ آرام کی نیند سوتے تھے یا دن میں قَیلولہ کا و قت تھا اور وہ مصروفِ راحت تھے۔ نہ عذاب کے نزول کی کوئی نشانی تھی اور نہ کوئی قرینہ کہ پہلے سے آگاہ ہوتے بلکہ اچانک آگیا اور وہ بھاگنے کی کوشش بھی نہ کرسکے۔ اس سے کفار کو مُتَنَبِّہ کیا جارہا ہے کہ وہ اسباب ِامن و راحت پر مغرور نہ ہوں عذابِ الٰہی جب آتا ہے تو دفعتہً آجاتا ہے۔

فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۵)

ترجمۂکنزالایمان:    تو ان کے منہ سے کچھ نہ نکلا جب ہمارا عذاب ان پر آیا مگر یہی بولے کہ ہم ظالم تھے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو جب ان پر ہمارا عذاب آیا توان کی پکار اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم (ہی)ظالم تھے۔

{ فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ:تو ان کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔} یعنی بستی والوں پر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک آیا تو اس وقت ان کی پکار اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ بیشک ہم ہی ظالم تھے اور وہ لوگ اپنے اوپر آنے والے عذاب کو دور نہ کر سکے، خلاصہ یہ ہے کہ عذاب آنے پر اُنہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا لیکن اس وقت اعتراف بھی فائدہ نہیں دیتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عذاب دیکھ کر توبہ کرنا یا ایمان لانا قبول نہیں ہوتا۔ ایمانِ یا س قبول نہیں۔

فَلَنَسْــٴَـلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْــٴَـلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۶)

ترجمۂکنزالایمان:تو بیشک ضرور ہمیں پوچھنا ہے ان سے جن کے پاس رسول گئے اور بیشک ضرور ہمیں پوچھنا ہے رسولوں سے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو بیشک ہم ضرور ان لوگوں سے سوال کریں گے جن کی طرف (رسول) بھیجے گئے اور بیشک ہم ضرور رسولوں سے سوال کریں گے۔

{ فَلَنَسْــٴَـلَنَّ:تو بیشک ضرور ہمیں پوچھنا ہے۔} یعنی ان امتوں سے پوچھا جائے گا جن کی طرف رسول بھیجے گئے کہ تمہیں تمہارے رسولوں نے تبلیغ کی یا نہیں اور تم نے رسولوں کی د عوت کا کیا جواب دیا اور ان کے حکم کی کیا تعمیل کی۔ اور رسولوں سے دریافت کیاجائے گا کہ  کیاآپ نے اپنی اُمتوں کو ہمارے پیغام پہنچائے  اور تمہاری قوم نے تمہیں کیا جواب دیاتھا۔ یہاں علماء نے فرمایا ہے کہ یہ سوال و جواب ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے متعلق نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ وَ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ‘‘ (البقرہ:۱۱۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اورآپ سے جہنمیوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔

            اور نہ کوئی بد باطن کافر یہ کہہ سکے گا کہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے تبلیغ نہیں فرمائی۔

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا كُنَّا غَآىٕبِیْنَ(۷)

ترجمۂکنزالایمان:     تو ضرور ہم ان کو بتادیں گے اپنے علم سے اور ہم کچھ غائب نہ تھے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:      تو ضرور ہم ان کو اپنے علم سے بتادیں گے اور ہم غائب نہ تھے۔

{ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ:تو ضرور ہم ان کو بتادیں گے۔} یعنی قیامت میں ہمارا کفار سے اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پوچھ گچھ فرمانا قانونی کاروائی کیلئے ہوگا نہ کہ اس لئے کہ ہمیں اصل واقعہ کی خبر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے واقعۂ تہمت میں لوگوں سے دریافت فرمانا امت کی تعلیم کے لئے قانونی کاروائی تھی۔



[1] نماز کے ارکان و شرائط اور اس سے متعلق دیگر معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی کتاب’’نماز کے احکام‘‘ اور ’’اسلامی بہنوں کی نماز‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔

[2] قبر کے ساتھی بنانے کی اہمیت اور ترغیب سے متعلق کتاب’’قبر میں آنے والا دوست‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

[3] ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنے کی ترغیب ،جذبہ اور موقع پانے کے لئے دعوت اسلامی کے ساتھ وابستگی بہت مفید ہے۔

[4] توبہ کی اہمیت،فضائل اورشرائط وغیرہ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’ توبہ کی روایات و حکایات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔

[5] ظلم سے متعلق نصیحت انگیز معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’ظلم کا انجام‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔

[6] اپنے دل میں موت کی یاد مضبوط کرنے کے لئے کتاب’’موت کا تصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کرنا فائدہ مند ہے۔

[7] ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنے اور گناہوں سے متعلق اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے کے لئے دعوت اسلامی کے ساتھ وابستگی بہت مفید ہے۔