حَقِیْقٌ عَلٰۤى اَنْ لَّاۤ اَقُوْلَ عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّؕ-قَدْ جِئْتُكُمْ بِبَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَؕ(۱۰۵)
ترجمۂکنزالایمان: مجھے سزاوار ہے کہ اللہ پر نہ کہوں مگر سچی بات میں تم سب کے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں تو تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: میری شان کے لائق یہی ہے کہ اللہ کے بارے میں سچ کے سوا کچھ نہ کہوں۔ بیشک میں تم سب کے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کرآیا ہوں تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے۔
{ حَقِیْقٌ:میری شان کے لائق یہی ہے ۔} حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا کلام سن کر فرعون نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا : ’’میری شان کے لائق یہی ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں سچ کے سوا کچھ نہ کہوں کیونکہ رسول کی یہی شان ہے کہ وہ کبھی غلط بات نہیں کہتے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ص۳۷۸)اور میں تمہارے پاس تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نشانیاں یعنی معجزات لے کرآیا ہوں۔
{ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ:تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ چھوڑ دے۔} جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی رسالت کی تبلیغ سے فارغ ہوئے تو چونکہ آپ کا رسول ہونا ثابت ہو چکا تھا اور فرعون پر آپ کی اطاعت فرض ہو گئی تھی اس لئے آپ نے فرعون کوحکم فرمایا: ’’ تو بنی اسرائیل کواپنی غلامی سے آزاد کردے تاکہ وہ میرے ساتھ ارضِ مُقَدَّسہ میں چلے جائیں جو اُن کا وطن ہے۔ بنی اسرائیل کی غلامی کا سبب یہ ہو اتھا کہ حضرت یعقوبعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وجہ سے اپنے وطن فلسطین سے ہجرت کر کے مصر میں آباد ہو گئی، مصر میں ان کی نسل کافی بڑھی، جب فرعون کی حکومت آئی تو اس نے انہیں اپنا غلام بنا لیا اور ان سے جبری مشقت لینا شروع کر دی ۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں ا س غلامی سے نجات دلانا چاہی اور فرعون سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے تاکہ یہ اپنے آبائی وطن میں آباد ہوں۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۶۹۷)
قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۰۶)فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۱۰۷)
ترجمۂکنزالایمان: بولا اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو لاؤ اگر سچے ہو۔تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا ہوگیا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کہا:اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو اگرتم سچے ہو۔ تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔
{ قَالَ اِنْ كُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَةٍ فَاْتِ بِهَا:کہا:اگر تم کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو۔}اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی رسالت کی تبلیغ مکمل فرمائی تو فرعون نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اگرآپ کے پاس اپنی صداقت کی کوئی نشانی ہے تومیرے سامنے اسے ظاہر کریں تاکہ پتا چل جائے کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں یا نہیں تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنا عصا زمین پرڈال دیا ،وہ فورا ً ایک ظاہر اژدہا بن گیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۶-۱۰۷، ۲ / ۱۲۴)
تفسیر صاوی میں ہے ’’جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے لاٹھی پھینکی تو وہ زرد رنگ کا ایک بال دار اژدہا بن گئی، اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان تقریباً ایک سو بیس فٹ کا فاصلہ تھا ،وہ اپنی دم پر کھڑا ہو گیا ،اس کا ایک جبڑا زمینپر تھاا ور دوسرا جبڑا فرعون کے محل کی دیوار پر تھا، وہ اژدہا فرعون کو پکڑنے کے لئے دوڑا تو فرعون اپنا تخت چھوڑ کربھاگ گیا۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۶۹۷)
وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۱۰۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا۔
{وَنَزَعَ یَدَهٗ:اور اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا۔} اس آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دوسرے معجزے کا ذکر ہے کہ آپ نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ دیکھنے والوں کے سامنے جگمگانے لگا اور اس کی روشنی اور چمک نورِ آفتاب پر غالب ہوگئی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرعون کو اپنا ہاتھ دکھا کر پوچھا کہ’’ یہ کیا ہے؟ فرعون نے جواب دیا :آپ کا ہاتھ ہے۔ پھر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا پنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکا لا تو وہ جگمگانے لگا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۳۷۸)
یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے مبارک ہاتھ کا کمال تھا ،اب سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس کا کمال ملاحظہ فرمائیے، چنانچہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ہر خطِ کف ہے یہاں اے دستِ بیضائے کلیم موجزن دریائے نورِ بے مثالی ہاتھ میں
یعنی اے پیارے موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے چمکتے ہوئے نورانی ہاتھ! تیری بڑی شان ہے لیکن ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے دستِ کرم کی ہر لکیر سے نور کا ایک بے مثال دریا موجزن ہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہر لکیر کی یہ شان ہے تو پورے دستِ اقدس کی عظمت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌۙ(۱۰۹)
ترجمۂکنزالایمان: قومِ فرعون کے سردار بولے یہ تو ایک علم والا جادوگر ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: قومِ فرعون کے سردار بولے : بیشک یہ توبڑے علم والا جادوگر ہے۔
{ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ:قومِ فرعون کے سردار بولے۔ } جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی صداقت ظاہر کرنے کیلئے دو معجزات دکھائے تو قومِ فرعون کے سردار بولے: بیشک یہ توبڑے علم والا جادوگر ہے جس نے جادو سے نظر بندی کر دی اور لوگوں کو عصا اژدہا نظر آنے لگا اور گندمی رنگ کا ہاتھ آفتاب سے زیادہ روشن معلوم ہونے لگا۔ انہوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے متعلق یہ بات اس لئے کہی کہ اس زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا، جادو کی بہت سی قسمیں تھیں اور بعض قسمیں بڑی حیران کن تھیں ،اسی لئے فرعون کی قوم نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں خیال کیا کہ یہ جادو میں بڑے ماہر ہیں ، پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ انہوں نے اتنا بڑا جادو اس لئے پیش کیا ہے کہ یہ شائد ملک و ریاست کے طلبگار ہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۲ / ۱۲۵، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ۵ / ۳۳۰، ملتقطاً)
یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَكُمْ مِّنْ اَرْضِكُمْۚ-فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ(۱۱۰)قَالُوْۤا اَرْجِهْ وَ اَخَاهُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآىٕنِ حٰشِرِیْنَۙ(۱۱۱) یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ(۱۱۲)وَ جَآءَ السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالُوْۤا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ(۱۱۳)قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(۱۱۴)قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ(۱۱۵)قَالَ اَلْقُوْاۚ-فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ(۱۱۶)وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَۚ-فَاِذَا هِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِكُوْنَۚ(۱۱۷) فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَۚ(۱۱۸) فَغُلِبُوْا هُنَالِكَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَۚ(۱۱۹) وَ اُلْقِیَ السَّحَرَةُ سٰجِدِیْنَۚۖ(۱۲۰) قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۲۱) رَبِّ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۲)
ترجمۂکنزالایمان: تمہیں تمہارے ملک سے نکا لا چاہتا ہے تو تمہارا کیا مشورہ ہے۔ بولے انہیں اور ان کے بھائی کو ٹھہرا اور شہروں میں لوگ جمع کرنے والے بھیج دے۔کہ ہر علم والے جادوگر کو تیرے پاس لے آئیں۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے بولے کچھ ہمیں انعام ملے گا اگر ہم غالب آئیں۔بولا ہاں اور اس وقت تم مقرب ہوجا ؤ گے۔ بولے اے موسیٰ یا تو آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں۔ کہاتمہیں ڈالو جب انہوں نے ڈالا لوگوں کی نگاہوں پر جادو کردیا اور انہیں ڈرادیا اور بڑا جادو لائے۔اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ اپنا عصا ڈال تو ناگاہ وہ ان کی بناوٹوں کو نگلنے لگا۔ تو حق ثابت ہوا اور ان کا کام باطل ہوا۔تو یہاں وہ مغلوب پڑے اور ذلیل ہوکر پلٹے۔اور جادوگر سجدے میں گرادئیے گئے۔بولے ہم ایمان لائے جہان کے رب پر۔جو رب ہے موسیٰ اور ہارون کا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ تمہیں تمہارے ملک سے نکا لنا چاہتا ہے توتم کیا مشورہ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: انہیں اور ان کے بھائی کو کچھ مہلت دواور شہروں میں جمع کرنے والوں کو بھیج دو۔ وہ تمہارے پاس ہر علم والے جادوگرکولے آئیں گے۔ اور (پھر) جادوگر فرعون کے پاس آگئے تو کہنے لگے :اگر ہم غالب آگئے تو (کیا) ہمارے لئے یقینی طور پر کوئی انعام ہوگا۔(فرعون نے) کہا: ہاں اور بیشک تم تو (میرے) قریبی لوگوں میں سے ہوجا ؤ گے۔(جادوگروں نے) کہا: اے موسیٰ! یا تو آپ (اپنا عصا) ڈالیں یا ہم (کچھ) ڈالتے ہیں۔فرمایا: تم ہی ڈالو ۔ جب انہوں نے ڈالیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں خوف زدہ کردیا اور وہ بہت بڑا جادولے کر آئے۔ اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا ڈال دو تو اچانک وہ عصا ان کی بناوٹی چیزوں کو نگلنے لگا۔تو حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ وہ کررہے تھے سب باطل ہوگیا۔تو وہ وہیں مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر پلٹے۔اور جادوگر سجدے میں گرادئیے گئے۔ وہ کہنے لگے:ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے ۔جو موسیٰ اور ہارون کارب ہے۔
{ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنَ:تو تمہارا کیا مشورہ ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 12 آیات میں مذکور واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ درباریوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات دیکھ کر انہیں بہت ماہر جادوگر سمجھا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے جادو کے زور سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا کر مملکت پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں تو فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا: تم اس کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ انہوں نے کہا: تم حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے بھائی حضرت ہارونعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چند روز کی مہلت دو اور شہروں میں اپنے خاص آدمی بھیج دو تاکہ وہ ایسے جادو گر جمع کر کے لائیں جو جادو میں ماہر ہوں اور سب پر فائق ہوں تا کہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے مقابلہ کر کے انہیں شکست دیں۔ چنانچہ فرعون نے اپنی مملکت کے تمام ماہر جادو گروں کو جمع کر لیا۔ ان جادو گروں کو علم تھا کہ جس مقصد کے لئے انہیں طلب کیا گیا ہے وہ بڑا اہم ہے چنانچہ انہوں نے فرعون سے کہا: اگر ہم غالب آگئے اور حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شکست دے دی تو کیا ہمیں یقینی طور پر کوئی شاہانہ انعام ملے گا۔ فرعون یہ تسلی آمیز الفاظ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: بے شک تمہیں انعام واکرام سے نوازا جائے گا اور صرف یہی نہیں بلکہ تمہیں میرے خاص قریبی لوگوں میں داخل کر لیا جائے گا۔ یہ جادوگر کل ستر ہزار تھے جن میں چند سردار تھے، جب مقابلے کا دن آیا تو سب مقررہ جگہ پر جمع ہوئے، مقابلے کا آغاز ہوا توجادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کہا: اے موسیٰ! یا تو آپ پہلے اپنا عصا زمین پرڈالیں یا ہم اپنے پاس موجود چیزیں ڈالتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: تم ہی پہلے ڈالو۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اس لئے تھا کہ آپ کو ان کی کچھ پرواہ نہ تھی اور آپ کو کامل اعتماد تھا کہ ان کے معجزے کے سامنے سحر ناکام و مغلوب ہوگا۔ جب انہوں نے اپنا سامان ڈالا جس میں بڑے بڑے رسے اور لکڑیاں تھیں تو وہ اژدہے نظر آنے لگے اور میدان ان سے بھرا ہوا معلوم ہونے لگا۔ لوگ یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا ڈال دو۔ جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ایک عظیم الشان اژدہا بن گیا۔ وہ جادو گروں کی سحر کاریوں کو ایک ایک کرکے نگل گیا اور تمام رسے اور لٹھے جو اُنہوں نے جمع کئے تھے جو تین سو اونٹ کا بار تھے سب کا خاتمہ کردیا جب موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کو دستِ مبارک میں لیا تو پہلے کی طرح عصا ہوگیا اور اس کا حجم اور وزن اپنے حال پر رہا یہ دیکھ کر جادو گروں نے پہچان لیا کہ عصائے موسیٰ سحر نہیں اور قدرتِ بشری ایسا کرشمہ نہیں دکھا سکتی ضرور یہ امرِسَماوی ہے چنانچہ یہ معجزہ دیکھ کران پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار ’’ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یعنی ہم تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائے ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں گر گئے اور ان کا حال ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے پیشانیاں پکڑ کر زمین پر لگادیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۰-۱۱۷، ۲ / ۱۲۵-۱۲۷، قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۰-۱۲۱، ۵ / ۳۸، ملخصاً)
{ قَالُوْا یٰمُوْسٰى:بولے اے موسیٰ۔} جادوگروں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ادب کیا کہ آپ کو مقدم کیا اور آپ کی اجازت کے بغیر اپنے عمل میں مشغول نہ ہوئے، اس ادب کا عوض انہیں یہ ملا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان و ہدایت کی دولت سے سرفراز فرما دیا ۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۴ / ۱۸۶، الجزء السابع)
{ سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ: لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔} اس آیت میں جادو گروں کے جادو کے اثر کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے پھینکے ہوئے رسوں اور لاٹھیوں کی حقیقت نہ بدلی بلکہ لوگوں کی نگاہوں پر اثر ڈال دیا کہ لوگوں کو رینگتے دوڑتے سانپ محسوس ہوئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے جادوگروں کے جادو کی صورت یہ تھی یعنی حقیقت نہ بدلی تھی۔
{ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ:اور وہ بہت بڑا جادولے کر آئے۔} جب جادو گروں نے موٹے رسے اور لمبی لاٹھیاں ڈالیں تو وہ پہاڑوں کی مانند اژدہے بن گئے جس سے میدان بھر گیا اور اژدہے ایک دوسرے پر چڑھنے لگے۔ ایک قول یہ ہے کہ جادو گروں نے رسیوں پر پارہ مل دیا اور لاٹھیوں میں بھی پارہ ڈال دیا پھر انہیں زمین پر پھینک دیا، جب ان پر سورج کی روشنی پڑی تو ایسے محسوس ہونے لگا کہ یہ دوڑتے ہوئے سانپ ہیں۔ وہ میدان ایک میل لمبا تھا اور پورا میدان سانپوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱۶، ۲ / ۱۲۷)
قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْۚ-اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَاۚ-فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۱۲۳)لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ(۱۲۴)قَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَۚ(۱۲۵) وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَاؕ-رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠(۱۲۶)
ترجمۂکنزالایمان: فرعون بولا تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں یہ تو بڑا جعل ہے جو تم سب نے شہر میں پھیلایا ہے کہ شہر والوں کو اس سے نکال دو تو اب جان جاؤ گے۔ قسم ہے کہ میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا پھر تم سب کو سُو لی دوں گا۔ بولے ہم اپنے رب کی طرف پھرنے والے ہیں۔ اور تجھے ہمارا کیا برا لگا یہی نہ کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لائے جب وہ ہمارے پاس آئیں اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں مسلمان اٹھا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: فرعون نے کہا: تم اس پر ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔ یہ تو بہت بڑا دھوکہ ہے جو تم نے اس شہر میں کیا ہے تاکہ تم شہر کے لوگوں کو اس سے نکال دو تو اب تم جان جاؤ گے۔میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا پھر تم سب کو پھانسی دے دوں گا۔ (جادوگر) کہنے لگے : بیشک ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اور تجھے ہماری طرف سے یہی بات بری لگی ہے کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لے آئے جب وہ ہمارے پاس آئیں۔ اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔
{ قَالَ فِرْعَوْنُ:فرعون بولا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی 3آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادو گر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لے آئے تو یہ دیکھ کر فرعون بولا: میری اجازت کے بغیر تم ایمان کیوں لے آئے؟ یہ تو بہت بڑا دھوکہ ہے جو تم اور حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سب نے متفق ہو کر اس شہر میں کیا ہے ۔تم سب شاگرد ہو اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمہارے استاد ہیں ، تم نے خفیہ ساز باز کر کے یہ مقابلہ کیا اور تم جان بوجھ کر ہار گئے تاکہ تم شہر کے لوگوں کو اس سے نکال دو اور خود اس پر مُسلَّط ہوجاؤ تو اب تم جان جاؤ گے کہ میں تمہارے ساتھ کس طرح پیش آتا ہوں اور میں تمہیں کیا سزا دوں گا۔ میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا پھر تم سب کو دریائے نیل کے کنارے پھانسی دے دوں گا۔ فرعون کی اس گفتگو پر جادو گروں نے یہ جواب دیا: بیشک ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف پلٹنے والے ہیں ،تو ہمیں موت کا کیا غم ؟ کیونکہ مرنے کے بعد ہمیں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی لِقاء اور اس کی رحمت نصیب ہوگی اور جب سب کو اسی کی طرف رجوع کرنا ہے تو وہ خود ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ اس کے بعد ان جادو گروں نے صبر کی دعا کی کہ’’ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ‘‘ اے ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔
{ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ:پھر تم سب کو سُو لی دوں گا۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ دنیامیں پہلا سولی دینے والا اور پہلا ہاتھ پاؤں کاٹنے والا فرعون ہے۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۳، ۴ / ۱۸۷، الجزء السابع)
{ قَالُوْا:(جادوگر) کہنے لگے ۔} اس سے معلوم ہوا کہ مومن کے دل میں جذبۂ ایمانی کے غلبے کے وقت غیرُاللہ کا خوف نہیں ہوتا۔ حق قبول کرنے کے بعد ان جادو گروں کا حال یہ ہوا کہ فرعون کی ایسی ہوش رُبا سزا سن کر بھی ان کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ انہوں نے مجمعِ عام میں فرعون کے منہ پر اس کی دھمکی کا بڑی جرأت کے ساتھ جواب دیا اور اپنے ایمان کو کسی تَقیہ کے غلاف میں نہ لپیٹا۔
{ وَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ:اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا یہ لوگ دن کے اوّل وقت میں جادوگر تھے اور اسی روز آخر وقت میں شہید۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۶، ۲ / ۱۲۸)
معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحبت نے پرانے کافروں کو ایک دن میں ایمان، صحابیت ، شہادت تمام مَدارج طے کر ا دئیے، صحبت کا فیض سب سے زیادہ ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فرعون انہیں شہید نہ کرسکا تھا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۴، ۵ / ۳۳۹)
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَؕ-قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْۚ-وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ(۱۲۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور قومِ فرعون کے سردار بولے کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑتا ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور موسیٰ تجھے اور تیرے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کو چھوڑ دے بولا اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیاں زندہ رکھیں گے اور ہم بیشک ان پر غالب ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور قومِ فرعون کے سردار بولے: کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑ دے گا تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اوروہ موسیٰ تجھے اور تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کو چھوڑے رکھے۔ (فرعون نے ) کہا :اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیاں زندہ رکھیں گے اور بیشک ہم ان پر غالب ہیں۔
{ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ:اور قومِ فرعون کے سردار بولے۔} اے فرعون! کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اس لیے چھوڑ دے گا تاکہ وہ اس طرح فساد پھیلائیں کہ مصر کی سر زمین میں تیری مخالفت کریں اور وہاں کے باشندوں کا دین بدل دیں۔سرداروں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ جادو گروں کے ساتھ چھ لاکھ آدمی بھی ایمان لے آئے تھے۔ سرداروں نے فرعون سے دوسری بات یہ کہی کہ ’’اور وہ موسیٰ تجھے اور تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کو چھوڑے رکھے‘‘ یعنی نہ تیری عبادت کریں اورنہ تیرے مقرر کئے ہوئے معبودوں کی پوجا کریں۔
مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بُت بنوا دیئے تھے اور ان کی عبادت کرنے کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا کہ’’ میں تمہارا بھی رب ہوں اور ان بُتوں کا بھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون دَہری تھا یعنی صانعِ عالَم کے وجود کا منکر، اس کا خیال تھا کہ عالَمِ سِفْلِی کی تدبیر ستارے کرتے ہیں اسی لئے اُس نے ستاروں کی صورتوں پر بت بنوائے تھے، ان کی خود بھی عبادت کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور اپنے آپ کوزمین کا مُطاع و مخدوم کہتا تھا اسی لئے وہ ’’ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ‘‘ (میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ) کہتا تھا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ص۳۸۱، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، ملتقطاً)
{ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ:(فرعون نے ) کہا :اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے۔} فرعون کی قوم کے سرداروں نے فرعون سے جویہ کہا تھا کہ’’ کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑدے گا تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں ‘‘ اس سے ان کا مطلب فرعون کو حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کی قوم کے قتل پر ابھارنا تھا ۔ جب اُنہوں نے ایسا کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کو نُزولِ عذاب کا خوف دلایا ۔ فرعون اپنی قوم کی خواہش پوری کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزے کی قوت سے مرعوب ہوچکا تھا اسی لئے اس نے اپنی قوم سے یہ کہا کہ’’ ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے اور لڑکیوں کو چھوڑ دیں گے۔ اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس طرح حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی تعداد گھٹا کر اُن کی قوت کم کریں گے۔ مزید یہ کہ عوام میں اپنا بھرم رکھنے کے لئے یہ بھی کہہ دیا کہ’’ ہم بے شک اُن پر غالب ہیں۔ اس سے اس کا مقصود یہ تھا کہ عوام کو پتا چل جائے کہ اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو کسی عجز یا خوف کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ وہ جب چاہے انہیں پکڑ سکتا ہے۔یہ بات وہ اپنے منہ سے کہتا تھا جبکہ فرعون کا حال یہ تھا کہ اس کا دل حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے رعب میں بھرا پڑا تھا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۲ / ۱۲۸، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۵ / ۳۴۲، تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۷، ۴ / ۱۸۹، الجزء السابع، ملتقطاً)
قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَ اصْبِرُوْاۚ-اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ﳜ یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ(۱۲۸)
ترجمۂکنزالایمان: موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ کی مدد چاہو اور صبر کرو بیشک زمین کا مالک اللہ ہے اپنے بندوں میں جسے چاہے وارث بنائے اور آخر میدان پرہیزگاروں کے ہاتھ ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اللہ سے مدد طلب کرو اور صبر کرو ۔بیشک زمین کا مالک اللہ ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے وارث بنادیتا ہے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔
{ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ:موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا۔} فرعون کے اس قول کہ ’’ہم بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کریں گے‘‘ کی وجہ سے بنی اسرائیل میں کچھ پریشانی پیدا ہوگئی اور اُنہوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کی شکایت کی، اس کے جواب میں حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ سے مدد طلب کرو، وہ تمہیں کافی ہے اور آنے والی مصیبتوں اور بلاؤں سے گھبراؤ نہیں بلکہ ان پرصبر کرو، بیشک زمین کا مالک اللہ عَزَّوَجَلَّ ہے اور زمینِ مصر بھی اس میں داخل ہے، وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے وارث بنادیتا ہے۔ یہ فرما کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو تَوَقُّع دلائی کہ فرعون اور اس کی قوم ہلاک ہوگی اور بنی اسرائیل اُن کی زمینوں اور شہروں کے مالک ہوں گے اور انہیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا ’’ اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ۲ / ۱۲۹، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲۸، ص۳۸۱، ملتقطاً)
قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَاؕ-قَالَ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۠(۱۲۹)
ترجمۂکنزالایمان: بولے ہم ستائے گئے آپ کے آنے سے پہلے اور آپ کے تشریف لانے کے بعد کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور اس کی جگہ زمین کا مالک تمہیں بنائے پھر دیکھے کیسے کام کرتے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (قوم نے) کہا: ہمیں آپ کے تشریف لانے سے پہلے بھی اور تشریف آوری کے بعد بھی ستایا گیا ہے۔ (موسیٰ نے) فرمایا: عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔
{ قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا:بولے ہم ستائے گئے ۔} حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی قوم نے فرعون کی دھمکی سے خوفزدہ ہو کر دوسری مرتبہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے عرض کی کہ’’ ہمیں آپ کے تشریف لانے سے پہلے بھی ستایا گیا کہ فرعون اور فرعونیوں نے طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کر رکھا تھا اور لڑکوں کو بہت زیادہ قتل کیا تھا اور آپ کے تشریف لانے کے بعد اب پھر ستایا جائے گا کہ اب وہ دوبارہ ہماری اولاد کے قتل کا ارادہ رکھتا ہے تو ہماری مدد کب ہوگی اور یہ مصیبتیں کب دور کی جائیں گی۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: عنقریب تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گاپھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو اور کس طرح شکر ِنعمت بجالاتے ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غیب کا علم دیا تھا کہ آئندہ پیش آنے والے واقعات بلاکم و کاست بیان فرما دئیے اور جیسا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کر دیاگیا اور بنی اسرائیل ملکِ مصر کے مالک ہوئے۔
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۳۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور بیشک ہم نے فرعون والوں کو برسوں کے قحط اور پھلوں کے گھٹانے سے پکڑا کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط اور پھلوں کی کمی میں گرفتار کردیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
{ وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ :اور بیشک ہم نے فرعون والوں کو پکڑا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں کو جھٹلانے کے سبب فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے ابتدائی واقعات کو بیان فرمایا گیا ہے۔ سب سے پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط ،پھلوں کی کمی اور فقر وفاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’دیہات میں رہنے والے فرعونی قحط کی مصیبت میں گرفتار ہوئے اور شہروں میں رہنے والے (آفات کی وجہ سے) پھلوں کی کمی کی مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ان لوگوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور اگتی تھی۔(صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۷۰۱، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۱۲۹، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۲ / ۲۸۸، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سختیاں اس لئے نازل فرمائیں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے وہ سرکشی اور عناد کا راستہ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ سختی و مصیبت دل کو نرم کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو بھلائی ہے اس کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدت میں وہ کبھی درد ،بخار یا بھوک میں مبتلا ہی نہیں ہوا۔ اگر اس کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کبھی رَبُوبِیَّت کا دعویٰ نہ کرتا۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ۵ / ۳۴۴، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۰، ص۳۸۱، ملتقطاً)
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی ہوئی آفتوں اور مصیبتوں میں بھی بہت ساری حکمتیں ہوتی ہیں اور ایک حکمت یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے انسان غفلت سے بیدار ہو اور اللہ تعالیٰ کا اطاعت گزار اور فرماں بردار بندہ بن جائے لہٰذا زلزلہ ،طوفان ، سیلاب یا کسی اور مصیبت کا سامنا ہو تو اس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)
ترجمۂکنزالایمان: تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو جب انہیں بھلائی ملتی توکہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے۔ سن لو! ان کی نحوست اللہ ہی کے پاس ہے لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔
{ فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ:تو جب انہیں بھلائی ملتی۔} فرعونی کفر میں اس قدر راسِخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی بڑھتی ہی رہی، جب انہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رزق میں وسعت ، صحت ،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے یہ توہمیں ملنا ہی تھا کیونکہ ہم اس کے اہل اور اس کے مستحق ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل جانتے او ر نہ ہی اس کے انعامات پر شکر اد اکرتے اور جب انہیں ،قحط، خشک سالی، مرض ،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی برائی پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں ، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۲ / ۱۳۰، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۱، ۵ / ۳۴۴، ملتقطاً)
مشرک قوموں میں مختلف چیزوں سے برا شگون لینے کی رسم بہت پرانی ہے اوران کے تَوَہُّم پرست مزاج ہر چیز سے اثر قبول کرلیتے ، جیسے کوئی شخص کسی کام کو نکلتا اور راستے میں کوئی جانور سامنے سے گزر گیا یاکسی مخصوص پرندے کی آواز کان میں پڑجاتی تو فوراً گھر واپس لوٹ آتا، اسی طرح کسی کے آنے کو، بعض دنوں اور مہینوں کو منحوس سمجھنا ان کے ہاں عام تھا۔ اسی طرح کے تَصَوُّرات اور خیالات ہمارے معاشرے میں بھی بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلام اس طرح کی توہم پرستی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسلام نے جہاں دیگر مشرکانہ رسموں کی جڑیں ختم کیں وہیں اس نے بد فالی کا بھی خاتمہ کر دیا۔ چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’ شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، ہم میں سے ہر ایک کو ایسا خیال آ جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہٹا کر توکل پر قائم فرما دیتا ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جسے کسی چیز کی بد فالی نے اس کے مقصد سے لوٹا دیا اُس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی :یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، ایسا شخص کیا کفارہ دے ؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ کہے ’’اَللّٰہُمَّ لَا طَیْرَ اِلاَّ طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلاَّ خَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘اے اللہ تیری فال کے علاوہ اور کوئی فال نہیں ،تیری بھلائی کے سوا اور کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔(یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے۔) (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاصرضی اللہ تعالی عنہما، ۱ / ۶۸۳، الحدیث: ۷۰۶۶)
احادیث میں بدشگونی کو شرک قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص بدشگونی کے افعال کو مؤثِّرِ حقیقی جانے تو شرک ہے اور یا مشرکوں کا فعل ہونے کی وجہ سے زجر اور سختی سے سمجھانے کے طور پر شرک قرار دیا گیاہے۔[1]
وَ قَالُوْا مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَاۙ-فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۳۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور بولے تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (فرعونیوں نے) کہا: (اے موسیٰ! )تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی بھی نشانی لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں۔
{ وَ قَالُوْا:اور بولے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کی ایک جہالت اور گمراہی بیان فرمائی کہ انہوں نے قحط، خشک سالی اور پھلوں کی کمی کوحضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے ساتھ والوں کی نحوست قرار دیا اور وہ یہ نہ جان سکے کہ بارش کا نہ ہونا نیز غلہ اور پھلوں کا کم یا زیادہ ہونا یہ سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت سے ہے اور ان سب چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے کسی مخلوق کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ اب اس آیت میں ان کی ایک اور جہالت بیان فرمائی کہ یہ لوگ معجزہ اور سِحر میں فرق نہیں کرتے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا عصا جو اژدہا بن گیا تھا اسے سحر کہتے تھے حالانکہ ان کے تما م بڑے بڑے جادوگر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے معجزے کے سامنے عاجز ہو چکے تھے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۲، ۵ / ۳۴۵)
جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے صاف صاف کہہ دیا ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ ،ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن کے خلاف دعا کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامچونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)
ترجمۂکنزالایمان: تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹیٹری اور گھن (یا کلنی یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اورپِسُو(یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔
{فَاَرْسَلْنَا:تو ہم نے بھیجا ۔} جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانیاں پے درپے وارد ہونے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تھی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، فرعون زمین میں بہت سرکش ہوگیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، تواللہ تعالیٰ نے طوفان بھیجا ، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی۔ قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیا، اُن میں سے جوبیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے اور باوجود اس کے کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے متصل تھے اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔ جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے ۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے ’’یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ تعالیٰ نے ٹڈی بھیجی وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں ،تختے، سامان، حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔ اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہد و پیمان کیا ۔سات روز یعنی ہفتہ سے ہفتہ تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے،پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے انہیں دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے اعمالِ خبیثہ میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،پھراللہ تعالیٰ نے قُمَّل بھیجے، اس میں مفسرین کا اختلاف ہے’’ بعض کہتے ہیں کہقُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں جوں ،بعض کہتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا ،اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ۔یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے ،ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ ان کیڑوں نے اُن کا سونا دشوار کردیا تھا۔ اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں ، آپ اس بلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے۔ چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا سے دور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد شکنی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کر دئیے۔ ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک ، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی، لیٹتے تھے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگاکہ ’’ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ’’ قبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔ لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا ،قبطی نکالتے تو اسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی کہ’’ تو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا۔فرعون خود پیاس سے مُضْطَر ہوا تواس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی ، وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔( بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۳، ۲ / ۱۵۹-۱۶۱)
وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَۚ-لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَۚ(۱۳۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے بیشک اگر تم ہم پر سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا توکہتے، اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے ۔بیشک اگر آپ ہم سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور ضرور ہم بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے۔
{ وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیْهِمُ الرِّجْزُ:اور جب ان پر عذاب واقع ہوتا۔} اس آیت میں مذکور لفظ ’’رِجْز‘‘ کا معنی عذاب ہے۔ اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ قسموں کا عذاب ہے جو طوفان ،ٹڈیوں ، قمل، مینڈک اور خون کی صورت میں ان پر مُسلَّط کیا گیا۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد طاعون ہے اور یہ پہلے پانچ عذابوں کے بعد چھٹا عذاب ہے۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۴، ۲ / ۱۳۲)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون ا ور اس کی قوم پر جب طوفان ،ٹڈیوں ، قمَّل،مینڈک اور خون یا طاعون کی صورت میں عذاب نازل ہوتا تو اس وقت حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہتے : اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے ربعَزَّوَجَلَّسے اس عہد کے سبب دعا کرو جو اس کا تمہارے پاس ہے کہ ہمارے ایمان لانے کی صورت میں وہ ہمیں عذاب نہ دے گا۔ اگر آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ہم ضرور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ روانہ کردیں گے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کام اس کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں اور مشکلات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، جیسے عذاب دور کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے جبکہ فرعون اور اس کی قوم نے عذاب دور کرنے کی نسبت حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف کرتے ہوئے عرض کی کہ ’’ لَىٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ‘‘ بے شک اگر آپ نے ہم سے یہ عذاب دور کر دیا۔ اس نسبت پر نہ تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کوئی اعتراض کیا نہ اللہ تعالیٰ نے کوئی عتاب فرمایا۔
اسی طرح بیٹا دینا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے جبکہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامنے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے فرمایا:
’’ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا‘‘ (مریم: ۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: میں توتیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔
یونہی پرندوں کو پیدا کرنا ،مادر زاد اندھوں کو آنکھیں دینا، کوڑھیوں کو شفا یاب کرنا، مردوں کو زندہ کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کام ہے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘ (آل عمران: ۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں۔سرِ دست قرآنِ مجید سے یہ تین مقامات ذکر کئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی طرف منسوب کیا گیا، اب صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی سیرت سے چند واقعات ملاحظہ ہوں کہ جب کبھی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو کوئی مشکل یا مصیبت پیش آتی یا انہیں کوئی ضرورت یا حاجت درپیش ہوتی تو وہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی طرف رجوع کرتے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے اپنی مصیبتوں کی خلاصی اور اپنی حاجت روائی کے لئے عرض کرتے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کی مشکلات دور کر دیتے اور حاجتیں پوری فرما دیتے تھے ، چنانچہ جنگِ بدر میں حضرت عکاشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی تو وہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے انہیں ایک چھڑی دی جو ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی تلوار بن گئی۔( جامع الاصول فی احادیث الرسول، الرکن الثالث، الفن الثانی، الباب الرابع، حرف العین، الفصل الاول فی الاسمائ، القسم الاول، الفرع الاول، عکاشہ بن محصن، ۱۳ / ۳۲۴)
جنگ ِاحد کے موقع پر حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ تیر لگنے سے نکل گئی تو وہ ڈھیلا لے کر سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے اور آنکھ مانگی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے انہیں آنکھ عطا کر دی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، فی فضل الانصار، ۷ / ۵۴۲، الحدیث: ۱۵)
غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت سلمہ بن اکوع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنی ٹوٹی ہوئی پنڈلی لے کر بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَمیں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسی وقت ان کی پنڈلی کو درست کر دیا۔( بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ۳ / ۸۳، الحدیث: ۴۲۰۶)
قحط سے نجات پانے کیلئے ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے دعا کی درخواست کی، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی تو ایسی بارش برسی کہ ہفتہ بھر رکنے کا نام نہ لیا۔ (بخاری، کتاب الاستسقائ، باب الاستسقاء علی المنبر، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۰۱۵)
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایک مرتبہ سفر میں پیاس سے جاں بَلَب ہوئے تو بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہو کر اپنی پیا س کے بارے میں عرض کی ،سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے انگلیوں سے پانی کے چشمے بہا کر انہیں سیراب کر دیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲ / ۴۹۵، الحدیث: ۳۵۷۹)
اور حضرت ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنت مانگی تو انہیں جنت عطا کر دی۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ، ص۲۵۲، الحدیث: ۲۲۶(۴۸۹))
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ(۱۳۵)فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ(۱۳۶)وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ كَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَاؕ-وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ بِمَا صَبَرُوْاؕ-وَ دَمَّرْنَا مَا كَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُهٗ وَ مَا كَانُوْا یَعْرِشُوْنَ(۱۳۷)
ترجمۂکنزالایمان: پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھالیتے ایک مدت کے لیے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے۔ تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا اس لیے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے۔اور ہم نے اس قوم کو جو دبا لی گئی تھی اس زمین کے پورب پچھم کا وارث کیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور تیرے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل پر پورا ہوا بدلہ ان کے صبر کا اور ہم نے برباد کردیا جو کچھ فرعون اور اس کی قوم بناتی اور جو چنائیاں اٹھاتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب ہم ان سے اس مدت تک کے لئے عذاب اٹھالیتے جس تک انہیں پہنچنا تھا تو وہ فوراً (اپنا عہد) توڑ دیتے۔ تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کوجھٹلایا اور ان سے بالکل غافل رہے۔اور ہم نے اس قوم کو جسے دبایا گیا تھا اُس زمین کے مشرقوں اور مغربوں کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی اور بنی اسرائیل پر ان کے صبر کے بدلے میں تیرے رب کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا اور ہم نے وہ سب تعمیرات برباد کردیں جو فرعون اور اس کی قوم بناتی تھی اور وہ عمارتیں جنہیں وہ بلند کرتے تھے۔
{ فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ:تو ہم نے ان سے بدلہ لیا۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب بار بار فرعونیوں کو عذابوں سے نجات دی گئی اور وہ کسی عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے اور کفر نہ چھوڑا تو جو میعاداُن کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی وہ پوری ہونے کے بعد اُنہیں اللہ تعالیٰ نے دریائے نیل میں غرق کرکے ہلاک کردیا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۶، ۲ / ۱۳۲)
{وَاَوْرَثْنَا:اور ہم نے مالک بنا دیا۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بنی اسرائیل کو غیبی خبر دی تھی کہ ’’ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا‘‘ جیساآپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کر کے ہلاک کر دیا، اس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پورے مصرو شام کا مالک بنا دیا، اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۷، ۵ / ۳۴۸، ملتقطاً)
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون کے غرق ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرعون کے مَظالِم کا شکار بنی اسرائیل کو سرزمین کے مشرق و مغرب یعنی مصر و شام کا مالک بنا دیا۔ اس سر زمین میں اللہ تعالیٰ نے نہروں ، درختوں ، پھلوں ، کھیتیوں اور پیداوار کی کثرت سے برکت رکھی تھی اس طرح بنی اسرائیل پر ان کے صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا اچھا وعدہ پورا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے اُن تمام عمارتوں ، ایوانوں اور باغوں کوبرباد کر دیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنائے تھے۔ اس آیت میں صبر کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے صبر کی وجہ سے عزت، غلبہ، خوشحالی اور حکمرانی نصیب ہوئی۔
وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰى قَوْمٍ یَّعْكُفُوْنَ عَلٰۤى اَصْنَامٍ لَّهُمْۚ-قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ-قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ(۱۳۸)اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِیْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۳۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا پار اتارا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا کہ اپنے بتوں کے آگے آسن مارے تھے بولے اے موسیٰ ہمیں ایک خدا بنا دے جیسا ان کے لیے اتنے خدا ہیں بولا تم ضرور جا ہل لوگ ہو۔ یہ حال تو بربادی کا ہے جس میں یہ لوگ ہیں اور جو کچھ کررہے ہیں نرا باطل ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہواجو اپنے بتوں کے آگے جم کر بیٹھے ہوئے تھے۔(بنی اسرائیل نے) کہا: اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو جیسے ان کے لئے کئی معبود ہیں۔ (موسیٰ نے) فرمایا: تم یقینا جا ہل لوگ ہو۔ بیشک یہ لوگ جس کام میں پڑے ہوئے ہیں وہ سب برباد ہونے والا ہے اور جو کچھ یہ کررہے ہیں وہ سب باطل ہے۔
{وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ:اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا۔} اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے نعمت کی جو ناشکریاں ہوئیں اور جن برے افعال میں وہ مبتلا ہوئے ان کا اور دیگر واقعات کا بیان شروع فرمایا اورا س سے مقصود نبیِّ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو تسلی دینا اور آپ کی امت کو نصیحت کرنا ہے کہ وہ کسی حال میں بھی اپنے نفس کے محاسبہ سے غافل نہ ہوں اور اپنے احوال میں غورو فکر کرتے رہیں۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۲ / ۲۹۱)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دسویں محرم کے دن فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہواجو اپنے بتوں کے آگے جم کر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کی عبادت کرتے تھے۔ ابن جُرَیج نے کہا کہ یہ بُت گائے کی شکل کے تھے۔ یہاں سے بنی اسرائیل کے دل میں بچھڑا پوجنے کا شوق پیدا ہوا جس کا نتیجہ بعد میں گائے پرستی کی شکل میں نمودار ہوا۔ اُن کو دیکھ کر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے موسیٰ! جس طرح ان کے لئے کئی معبود ہیں جن کی یہ عبادت اور تعظیم کرتے ہیں ہمارے لئے بھی ایسا ہی ایک معبود بنادو تاکہ ہم بھی ا س کی عبادت کریں اور تعظیم بجا لائیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے مطالبے کو رد کرتے ہوئے فرمایا: بیشک تم جا ہل لوگ ہوکہ اتنی نشانیاں دیکھ کر بھی نہ سمجھے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۲ / ۱۳۳، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۳۸، ۵ / ۳۴۹، ملتقطاً)
نوٹ: یاد رہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ عرض سارے بنی اسرائیل نے نہ کی تھی کیونکہ ان میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور دیگر بزرگ اولیاءُ اللہرَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی تھے ،بلکہ اُن لوگوں نے کی تھی جو ابھی تک راسخُ الایمان نہ ہوئے تھے۔
{ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ:بیشک یہ لوگ۔} یعنی عنقریب یہ بت پرست اور ان کے بت ہمارے ہاتھوں ہلاک کئے جائیں گے جبکہ تم بت پرست نہیں بلکہ بت شکن ہو۔ اس میں غیب کی خبر ہے اور بعد میں وہی ہوا جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا۔
قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۱۴۰)وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِۚ-یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْؕ-وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۠(۱۴۱)
ترجمۂکنزالایمان: کہا کیا اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں زمانے بھر پر فضیلت دی۔ اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات بخشی کہ تمہیں بری مار دیتے تمہارے بیٹے ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں باقی رکھتے اور اس میں تمہارے رب کا بڑا فضل ہوا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: ( موسیٰ نے) فرمایا: کیا تمہارے لئے اللہکے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں سارے جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بہت بری سزا دیتے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔
{ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا:کہا کیا اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں۔} جب بنی اسرائیل نے معبود بنا کر دینے کا مطالبہ کیا تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کی جہالت کو واضح کیا اور فرمایا ’’کیا میں تمہارے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں سارے جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ یعنی خدا وہ نہیں ہوتا جو تراش کر بنالیا جائے بلکہ خدا وہ ہے جس نے تمہیں فضیلت دی کیونکہ وہ فضل واحسان پر قادر ہے تو وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے فضل و احسان کا تقاضا ہے کہ اس کا شکر اور حق ادا کیا جائے نہ کہ ناشکری اور شرک کیا جائے۔
{ وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ:اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں نجات دی۔} اس آیت کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت 49میں گزر چکی ہے۔ اس مقام پر یہ آیت ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وہی ہے جس نے تم پر یہ عظیم انعام فرمایا تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی عبادت میں مشغول ہونا کیسے روا ہو گا؟ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۱، ۵ / ۳۵۱)
وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةًۚ-وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِـعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ(۱۴۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس اور بڑھا کر پوری کیں تو اس کے رب کا وعدہ پوری چالیس رات کا ہوا اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میری قوم پر میرے نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کی راہ کو دخل نہ دینا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس (راتوں ) کا اضافہ کر کے پورا کردیا تو اس کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کاپورا ہوگیا اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا:تم میری قوم میں میرا نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کے راستے پر نہ چلنا۔
{ وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى:اور ہم نے موسیٰ سے وعدہ فرمایا۔} اس آیت میں تورات نازل ہونے کی کیفیت کا بیان ہے ۔
نُزولِ تورات کا واقعہ :
اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مصر میں بنی اسرائیل سے وعدہ فرمایا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ اُن کے دشمن فرعون کو ہلاک فرما دے گا تو وہ اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک کتاب لائیں گے جس میں حلال و حرام کا بیان ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر دیاتو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ سےاُس کتاب کو نازل فرمانے کی درخواست کی، انہیں حکم ملا کہ تیس روزے رکھیں ،یہ ذوالقعدہ کا مہینہ تھا۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روزے پورے کرچکے تو آپ کو اپنے دہن مبارک میں ایک طرح کی بو معلوم ہوئی ، اس وجہ سے آپ نے مسواک کر لی۔ فرشتوں نے ان سے عرض کی: ’’ ہمیں آپ کے دہن مبارک سے بڑی محبوب خوشبو آیا کرتی تھی، آپ نے مسواک کرکے اس کو ختم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ ماہ ذی الحجہ میں دس روزے اور رکھیں اور ارشاد فرمایا کہ ’’ اے موسیٰ !کیا تمہیں معلوم نہیں کہ روزے دار کے منہ کی خوشبو میرے نزدیک مشک کی خوشبوسے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۳ / ۵۶، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ص۳۸۴، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۵ / ۳۵۱-۳۵۲، ملتقطاً)
{ وَ قَالَ مُوْسٰى لِاَخِیْهِ هٰرُوْنَ:اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نیپہاڑ پر مناجات کے لئے جاتے وقت اپنے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’تم میرے واپس آنے تک میری قوم میں میرے نائب بن کر رہو اور بنی اسرائیل کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کے ساتھ بھلائی کرنا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ابھارنا اور بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے طریقے پر نہ چلنا جو زمین میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی کر کے اور گناہگاروں کی ان کے گناہ پر مدد کر کے فساد برپا کرتے ہیں بلکہ جو لوگ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے اطاعت گزار بندے ہیں ان کے طریقے کو اختیار کرنا۔(بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۲ / ۱۶۳، تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۶ / ۴۹)
یاد رہے کہ یہاں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو اصلاح اور صحیح راستے پر چلنے کا فرمایا وہ حقیقت میں آپ کے واسطے سے بنی اسرائیل کو فرمایا تھا ورنہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامتو فسادیوں کے راستے پر چلنے سے معصوم ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ فرمانا بطورِ تاکید و اِستقامت کے ہو۔
وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِیْقَاتِنَا وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ-قَالَ رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَؕ-قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْۚ-فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰى صَعِقًاۚ-فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَكَ تُبْتُ اِلَیْكَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۴۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب موسیٰ ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا عرض کی اے رب میرے مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں فرمایا تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نو ر چمکایا اسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ گرا بے ہوش پھر جب ہوش ہوا بولا پاکی ہے تجھے میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب موسیٰ ہمارے وعدے کے وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا،تو اس نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں۔(اللہ نے) فرمایا: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا، البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا تواسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ بے ہوش ہوکر گر گئے پھر جب ہوش آیا تو عرض کی: تو پاک ہے ، میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔
{وَ كَلَّمَهٗ رَبُّهٗۙ:اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا۔} اسآیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کلام فرمایا اس پر ہمارا ایمان ہے اور ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم اس کلام کی حقیقت سے بحث کرسکیں۔ کتابوں میں مذکور ہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کلام سننے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی اور پاکیزہ لباس پہنا اور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے ۔اللہ تعالیٰ نے ایک بادل نازل فرمایا جس نے پہاڑ کو ہر طرف سے چار فرسنگ (یعنی12میل) کی مقدار ڈھک لیا۔ شیاطین اور زمین کے جانور حتّٰی کہ ساتھ رہنے والے فرشتے تک وہاں سے علیحدہ کردیئے گئے۔ آپ کے لئے آسمان کھول دیا گیا تو آپ نے ملائکہ کو ملاحظہ فرمایا کہ ہوا میں کھڑے ہیں اور آپ نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ اَلواح پر قلموں کی آواز سنی اوراللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام فرمایا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کی بارگاہ میں اپنے معروضات پیش کئے، اُس نے اپنا کلام کریم سنا کر نوازا۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آپ کے ساتھ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو کچھ فرمایا وہ اُنہوں نے کچھ نہ سنا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلامِ ربانی کی لذت نے اس کے دیدار کا آرزو مند بنایا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۱۳۶، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۲۲۹-۲۳۰)
{قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ:فرمایا:تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔} جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا تو کلامِ ربانی کی لذت نے انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیدار کا مشتاق بنا دیا چنانچہ بارگاہِ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّمیں عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں ‘‘ یعنی صرف دل یا خیال کا دیدار نہیں مانگتا بلکہ آنکھ کا دیدار چاہتا ہوں کہ جیسے تو نے میرے کان سے حجاب اٹھا دیا تو میں نے تیرا کلامِ قدیم سن لیا ایسے ہی میری آنکھ سے پردہ ہٹا دے تاکہ تیرا جمال دیکھ لوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: تم دنیا میں میرا دیدار کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۷۰۷)
اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن نہیں :
اس آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں بلکہ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہونے پر کئی دلائل ہیں۔
پہلی دلیل: اگر دیدارِ الٰہی ناممکن تھا تو اس کی دعا کرنا ناجائز ہوتا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامجو کہ نبوت کے علوم و معارف اور اس کے اَسرار کے حامل ہیں وہ ہر گز یوں دعا نہ کرتے ’’رَبِّ اَرِنِیْۤ اَنْظُرْ اِلَیْكَ‘‘اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیرا دیدار کرلوں۔ اور اگر بالفرض یہ دعا ناجائز ہوتی تو اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسی دعا کرنے سے منع فرما دیتا۔
دوسری دلیل : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے فرمایا:’’لَنْ تَرٰىنِیْ: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھنے کی نفی کی ہے، یہ نہیں فرمایا کہ میرا دیکھنا ممکن نہیں۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَ لٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوْفَ تَرٰىنِیْ‘‘ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے دیکھنے کو پہاڑ کے اپنی جگہ برقرار رہنے پر مُعلَّق کیا اور پہاڑ کا اپنی جگہ پر برقرار رہنا فی نفسہ ممکن ہے اور جو ممکن پر موقوف ہوتا ہے وہ بھی ممکن ہوتا ہے ، لہٰذاثابت ہوا کہ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ممکن تھا۔ سرِ دست یہ تین دلائل عرض کئے ہیں ، ان کے علاوہ قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے اور قیامت کے دن ایمان والے اس سعادت سے بہرہ مند ہوں گے ۔ صحیح بخاری میں ہے ،حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا رب عَزَّوَجَلَّ کلام فرمائے گا اس شخص کے اورا س کے رب عَزَّوَجَلَّکے درمیان کوئی ترجمان ہو گا اور نہ کوئی حجاب ہو گا جو اس کے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھنے سے مانع ہو۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۵۶، الحدیث: ۷۴۴۳)
نوٹ: آخرت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہونے سے متعلق تفصیلی دلائل سورۂ انعام کی آیت نمبر 103 کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۴)
ترجمۂکنزالایمان: فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے تو لے جو میں نے تجھے عطا فرمایا اور شکر والوں میں ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اللہ نے) فرمایا: اے موسیٰ! میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا تو جو میں نے تمہیں عطا فرمایا ہے اسے لے لو اور شکر گزاروں میں سے ہوجاؤ۔
{قَالَ یٰمُوْسٰى:فرمایا اے موسیٰ۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیدار کے مطالبے پر منع فرما دیا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر کئے گئے انعامات کو گِنوا کر انہیں تسلی دیتے ہوئے شکر کرنے کا حکم دے رہا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’اے موسیٰ! دیدار کا مطالبہ کرنے پر اگرچہ تجھے منع کر دیا گیا لیکن میں نے تمہیں فلاں فلاں عظیم نعمتیں تو عطا فرمائی ہیں لہٰذا دیدار سے منع کرنے پر اپنا سینہ تنگ نہ کرو، تم ان نعمتوں کی طرف دیکھو جن کے ساتھ میں نے تمہیں خاص کیا کہ میں نے اپنی رسالتوں کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلیا اور تمہیں مجھ سے بلا واسطہ ہم کلامی کا شرف عطا ہوا جبکہ دیگر انبیاء و مرسَلینعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرشتے کے واسطے سے کلام ہوا۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸)
یاد رہے کہ آیت میں جو بیان ہو ا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ لوگوں پر منتخب کرلیا ‘‘ اس میں لوگوں سے مراد اُن کے زمانے کے لوگ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ عزت و مرتبے والے ، شرافت ووجاہت والے تھے کیونکہ آپ صاحبِ شریعت تھے اور آپ پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب تورات بھی نازل ہوئی۔ لہٰذا اس سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تاجدارِ رسا لت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۱۳۸، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۴، ۲ / ۷۰۸، ملتقطاً)
وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْعِظَةً وَّ تَفْصِیْلًا لِّكُلِّ شَیْءٍۚ-فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَّ اْمُرْ قَوْمَكَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِهَاؕ-سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ(۱۴۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں لکھ دی ہر چیز کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل اور فرمایا اے موسیٰ اسے مضبوطی سے لے اور اپنی قوم کو حکم دے کہ اس کی اچھی باتیں اختیار کریں عنقریب میں تمہیں دکھاؤں گا بے حکموں کا گھر۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے اس کے لیے (تورات کی) تختیوں میں ہر چیز کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی (اور فرمایا) اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ اس کی اچھی باتیں اختیار کریں۔ عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔
{وَ كَتَبْنَا لَهٗ فِی الْاَلْوَاحِ:اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں لکھ دی۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’الْاَلْوَاحِ‘‘ یعنی تختیوں سے مراد تورات کی تختیاں ہیں اور آیت کامعنی یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیلئے تورات کو تختیوں میں لکھ دیا، جن تختیوں میں تورات کو لکھا گیا وہ زبر جد یا زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد سات یا دس تھی۔ تورات عید الاضحی کے دن حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئی۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۱۳۸، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰، ملتقطاً)
نیزاس آیت میں مزید یہ چیزیں بیان ہوئی ہیں :
(1)…ہر چیز کی نصیحت، اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کو اپنے دین میں حلال حرام اور اچھی بری چیزوں سے متعلق جن احکام کی ضرورت تھی وہ سب تورات میں لکھی ہوئی تھیں۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰)
(2)… ہر چیز کی تفصیل، اس کا معنی یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو جتنے احکامِ شرعیہ دئیے گئے تھے تورات میں ان تمام احکام کی تفصیل لکھ دی تھی۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۴ / ۲۰۳، الجزء السابع)
(3)… تورات کو مضبوطی سے پکڑنا۔ قوت اور مضبوطی سے پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑی کوشش، چستی، ہوشیاری اور شوق سے اس میں موجود احکام پر عمل کرنے کا عزم کر کے اس کو ہاتھ میں لو۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۴ / ۲۰۳، الجزء السابع، بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۳ / ۵۸، ملتقطاً)
نوٹ:یاد رہے کہ ا س میں خطاب اگرچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے ہے لیکن اس سے مراد آپ کے ساتھ آپ کی قوم بھی ہے۔
(4)…تورات کی اچھی باتیں اختیار کرنے کا حکم دینا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ تورات میں جو احکام مذکور ہیں ان میں جو زیادہ بہتر ہو اسے اختیار کرنے کا حکم دو کیونکہ تورات میں عزیمت اور رخصت،جائز اور مُستحب اُمور کا بھی ذکر ہے۔ عزیمت پر عمل کرنا رخصت پر عمل کے مقابلے میں بہترہے (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۷۰۹)
ایک قول یہ ہے کہ تورات میں اَمر و نہی کا بیان ہے ، تو جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسے کرنے اور جس سے منع کیا گیا ہے اس سے رک جانے کا حکم دو۔ (تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۶ / ۵۹)
اور ایک قول یہ ہے کہ تورات میں فرائض ،نوافل اور مباح کاموں کے احکام ہیں۔ فرائض و نوافل پر عمل کرنا بہترین عمل ہے اور صرف فرائض پر عمل کرنا ا س سے کم درجے کا ہے اور مباح پر عمل کرنا اس سے بھی کم درجے کا ہے۔ تو جو عمل بہترین ہے اس کے کرنے کا حکم دو۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۵ / ۳۶۰)
{سَاُورِیْكُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ:عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔} مفسرین نے اس آیت کے کئی معنی بیان کئے ہیں۔حضرت حسن اور عطا رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمانے کہا کہ بے حکموں کے گھر سے جہنم مراد ہے۔ اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہ کا قول ہے کہ’’ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں شام میں داخل کروں گا اور گزری ہوئی اُمتوں کے منازل دکھاؤں گا جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخالفت کی تاکہ تمہیں اس سے عبرت حاصل ہو ۔ اور عطیہ عوفی کا قول ہے کہ دَارَ الْفٰسِقِیْنَسے فرعون اور اس کی قوم کے مکانات مراد ہیں جومصر میں ہیں۔ اور مفسر سدی کا قو ل ہے کہ اس سے منازلِ کفار مراد ہیں۔ کلبی نے کہا کہ اس سے عاد وثمود اور ہلاک شدہ اُمتوں کے منازل مراد ہیں جن پر عرب کے لوگ اپنے سفروں میں ہو کر گزرا کرتے تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۵، ۲ / ۱۴۰)
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاۚ-وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ(۱۴۶)وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْؕ-هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠(۱۴۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیردوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑا ئی چاہتے ہیں اور اگر سب نشانیاں دیکھیں ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر ہدایت کی راہ دیکھیں اس میں چلنا پسند نہ کریں اور گمراہی کا راستہ نظر پڑے تو اس میں چلنے کو موجود ہوجائیں یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان سے بے خبر بنے۔ اور جنہوں نے ہماری آیتیں اور آخرت کے دربار کو جھٹلایا ان کا سب کیا دھرا اَکارت گیا انہیں کیا بدلہ ملے گا مگر وہی جو کرتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور میں اپنی آیتوں سے ان لوگوں کوپھیردوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑا ئی چاہتے ہیں اور اگر وہ سب نشانیاں دیکھ لیں تو بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تواسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنالیتے ہیں۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے غافل رہے۔اور جنہوں نے ہماری آیتوں اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا تو ان کے تمام اعمال برباد ہوئے، انہیں ان کے اعمال ی کا بدلہ دیا جائے گا۔
{ سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ:اور میں اپنی آیتوں سے پھیردوں گا۔} مفسرین نے اس آیت کے مختلف معنی بیان کئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :اس کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ میرے بندوں پر غرور کرتے ہیں اور میرے اولیاء سے لڑتے ہیں میں انہیں اپنی آیتیں قبول کرنے اور ان کی تصدیق کرنے سے پھیردوں گا تاکہ وہ مجھ پر ایمان نہ لائیں۔یہ اُن کے عناد کی سزا ہے کہ انہیں ہدایت سے محروم کیا گیا۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۲ / ۱۶۷)
اس آیت میں ناحق تکبر کرنے والوں کے لئے بڑی عبرت ہے۔ تکبر کی تعریف یہ ہے کہ دوسروں کو حقیر جاننا ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ‘‘تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص۶۰، الحدیث: ۱۴۷(۹۱))
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : تکبر کی تین قسمیں ہیں
(1)…وہ تکبر جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہو جیسے ابلیس، نمرود اور فرعون کا تکبر یا ایسے لوگوں کا تکبر جو خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں سے نفرت کے طور پر منہ پھیرتے ہیں۔
(2)…وہ تکبر جو اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلے میں ہو ،جس طرح کفارِ مکہ نے کیا اور کہا کہ ہم آپ جیسے بشر کی اطاعت نہیں کریں گے ،ہماری ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی فرشتہ یا سردار کیوں نہیں بھیجا، آپ تو ایک یتیم شخص ہیں۔
(3)…وہ تکبر جو آدمی عام انسانوں پر کرے، جیسے انہیں حقارت سے دیکھے ،حق کو نہ مانے اور خود کو بہتر اور بڑا جانے۔(کیمیائے سعادت، رکن سوم: مہلکات، اصل نہم، پیدا کردن درجات کبر، ۲ / ۷۰۷-۷۰۸)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جناب میں تکبر کرنا کفر ہے جبکہ عام بندوں پر تکبر کرنا کفر نہیں لیکن اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔
اس آیت میں نا حق تکبر کا ثمرہ اور تکبر کرنے والوں کا جو انجام بیان ہوا کہ ناحق تکبر کرنے والے اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں تو بھی وہ ایمان نہیں لاتے اور اگر وہ ہدایت کی راہ دیکھ لیں تو وہ اسے اپنا راستہ نہیں بناتے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھ لیں تو اسے اپنا راستہ بنا لیتے ہیں ‘‘اس سے معلوم ہوا کہ غرور وہ آگ ہے جو دل کی تمام قابلیتوں کو جلا کر برباد کر دیتی ہے خصوصاً جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبولوں کے مقابلے میں تکبر ہو۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ۔ قرآن و حدیث سے ہر کوئی ہدایت نہیں لے سکتا، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا‘‘ (بقرہ:۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے۔
تکبر ہی نے ابلیس کے دل میں حسد کی آگ بھڑکائی، اور اس کی تمام عبادات برباد کر کے رکھ دیں۔[2]
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌؕ-اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًاۘ-اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ(۱۴۸)وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ وَ رَاَوْا اَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّوْاۙ-قَالُوْا لَىٕنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْ لَنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۱۴۹)وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰۤى اِلٰى قَوْمِهٖ غَضْبَانَ اَسِفًاۙ-قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْۢ بَعْدِیْۚ-اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّكُمْۚ-وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْهِ یَجُرُّهٗۤ اِلَیْهِؕ-قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ كَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ﳲ فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۱۵۰)قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ﳲ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠(۱۵۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور موسیٰ کے بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا بیٹھی بے جان کا دھڑ گائے کی طرح آواز کرتا کیا نہ دیکھا کہ وہ ان سے نہ بات کرتا ہے اور نہ انہیں کچھ راہ بتائے اسے لیا اور وہ ظالم تھے۔ اور جب پچتائے اور سمجھے کہ ہم بہکے بولے اگر ہمارا رب ہم پر مہر نہ کرے اور ہمیں نہ بخشے تو ہم تباہ ہوئے۔اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف پلٹا غصہ میں بھرا جھنجلایا ہوا کہا تم نے کیا بری میری جانشینی کی میرے بعد کیا تم نے اپنے رب کے حکم سے جلدی کی اور تختیاں ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا کہا اے میرے ماں جائے قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالیں تو مجھ پر دشمنوں کو نہ ہنسا اور مجھے ظالموں میں نہ ملا۔عرض کی اے رب میرے مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت کے اندر لے لے اور تو سب مہر والوں سے بڑھ کر مہر والا ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بے جان بچھڑے کو(معبود) بنالیا جس کی گائے جیسی آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ (بچھڑا) ان سے نہ کلام کرتا ہے اور نہ انہیں کوئی ہدایت دیتا ہے؟ انہوں نے اسے (معبود) بنالیا اور وہ ظالم تھے۔ اور جب شرمندہ ہوئے اور سمجھ گئے کہ وہ یقینا گمراہ ہوگئے تھے تو کہنے لگے: اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے۔ اور جب موسیٰ اپنی قوم کی طرف بہت زیادہ غم و غصے میں بھرے ہوئے لوٹے تو فرمایا: تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا، کیا تم نے اپنے رب کے حکم میں جلدی کی؟ اور موسیٰ نے تختیاں (زمین پر) ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے۔ ( ہارون نے) کہا: اے میری ماں کے بیٹے! بیشک قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو اور مجھے ظالموں کے ساتھ نہ ملا۔عرض کی: اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔
{وَ اتَّخَذَ:اور بنالیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی 3آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّسے کلام کرنے کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو ان کے جانے کے تیس دن بعد سامری نے بنی اسرائیل سے وہ تمام زیوارت جمع کر لئے جو انہوں نے اپنی عید کے دن قبطیوں سے استعمال کی خاطر لئے تھے ۔
فرعون چونکہ اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہو چکا تھا، اس لئے یہ زیورات بنی اسرائیل کے پاس تھے اور سامری کی حیثیت بنی اسرائیل میں ایسی تھی کہ لوگ اس کی بات کواہمیت دیتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ سامری چونکہ سونے کو ڈھالنے کا کام کرتا تھا اس لئے اس نے تمام سونے چاندی کو ڈھال کر اس سے ایک بے جان بچھڑا بنایا۔ پھر سامری نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کے سُم کے نیچے سے لی ہوئی خاک اس بچھڑے میں ڈالی تو اس کے اثر سے وہ گوشت اور خون میں تبدیل ہو گیا (اور بقولِ دیگر وہ سونے ہی کا بچھڑا تھا) اور گائے کی طرح ڈکارنے لگا۔ سامری کے بہکانے پر بنی اسرائیل کے بارہ ہزار لوگوں کے علاوہ بقیہ سب نے اس بچھڑے کی پوجا کی۔ یہ لوگ اتنے بے وقوف اور کم عقل تھے کہ اتنی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ بچھڑا نہ تو ان سے سوال جواب کی صورت میں کلام کر سکتا ہے، نہ انہیں رشد و ہدایت کی راہ دکھا سکتا ہے تو یہ معبود کس طرح ہو سکتا ہے۔ حالانکہ بنی اسرائیل جانتے تھے کہ رب وہ ہے جو قادرِ مُطْلَق، علیم، خبیر اور ہادی ہو اور نبی کے واسطے سے مخلوق سے کلام فرمائے۔ بچھڑا چونکہ راہ ِہدایت نہ دکھا سکتا تھا اس اعتبار سے وہ جماد کی طرح تھا۔ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے اِعراض کر کے ایسے عاجز و ناقص بچھڑے کو پوجا تو وہ ظالم ٹھہرے۔ پھر جب اپنے اس کرتوت پرشرمندہ ہوئے اور سمجھ گئے کہ وہ یقینا گمراہ ہوگئے تھے تو کہنے لگے: اگر ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ نے ہم پر رحم نہ فرمایا اور ہماری مغفرت نہ فرمائی تو ہم ضرور تباہ ہوجائیں گے۔ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی مناجات سے مشرف ہو کر کوہ ِطور سے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے تو بہت زیادہ غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خبر دے دی تھی کہ سامری نے اُن کی قوم کو گمراہ کردیا ہے۔ آپ کو جھنجلاہٹ اور غصہ سامری پر تھا نہ کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ انہیں سامری نے گمراہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے (قوم سے فرمایا کہ تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ شرک کرنے لگے اور میرے تورات لے کر آنے کا انتظار بھی نہ کیا۔ دوسرے قول کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اپنی قوم کے ان لوگوں سے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی فرمایا: تم نے میرے بعد کتنا برا کام کیا کہ لوگوں کو بچھڑا پوجنے سے نہ روکا ۔کیا تم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حکم میں جلدی کی اور میرے توریت لے کر آنے کا انتظار نہ کیا؟ اس کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے کیونکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی قوم کا ایسی بدترین معصیت میں مبتلا ہونا نہایت شاق اور گراں ہوا تب حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میں نے قوم کو روکنے اور ان کو وعظ و نصیحت کرنے میں کمی نہیں کی لیکن قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو اور میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرو جس سے وہ خوش ہوں اور مجھے ظالموں کے ساتھ شمار نہ کرو۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کا عذر قبول کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب! اگر ہم میں سے کسی سے کوئی اِفراط یا تفریط ہوگئی تومجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی خاص رحمت میں داخل فرما اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔یہ دعا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس لئے مانگی کہ دوسرے لوگ یہ سن کر خوش نہ ہوں کہ بھائیوں میں چل گئی اور اس کے ساتھ یہ وجہ بھی تھی کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا غم غلط ہو جائے۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۰، ۲ / ۱۴۰-۱۴۲، ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۴۸-۱۵۱، ۲ / ۲۹۷ -۲۹۹، ملتقطاً)
نوٹ:یہ واقعہ اجمالی طور پر سورۂ بقرہ آیت 51تا54میں گزر چکا ہے، مزید تفصیل کے ساتھ ا س کے علاوہ سورہ طٰہٰ میں بھی مذکور ہے ۔
{وَ اَلْقَى الْاَلْوَاحَ:اور تختیاں ڈال دیں۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب اپنی قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھا تو دینی حمیت اور اللہ ربُّ الْعالمین کے ساتھ شرک پر غیرت کی وجہ سے شدید غضبناک ہوئے اور عُجلَت میں تورات کی تختیاں زمین پر رکھ دیں تاکہ ان کا ہاتھ جلدی فارغ ہو جائے اور وہ اپنے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا سر پکڑ سکیں۔ اسے قرآنِ پاک میں ڈالنے سے تعبیر کیا گیا۔ اس ڈالنے میں کسی بھی طرح تورات کی تختیوں کی بے حرمتی مقصود نہ تھی اور وہ جو منقول ہے کہ بعض تختیاں ٹوٹ گئیں تواگر وہ درست ہے تو وہ عجلت میں زمین پر رکھنے کی وجہ سے ٹوٹی ہوں گی ، نہ یہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی غرض تھی اور نہ ہی ان کو یہ گمان تھا کہ ایساہو جائے گا ۔یہاں پر صرف دینی حمیت اور فَرطِ غضب کی وجہ سے جلدی میں ان تختیوں کو زمین پر رکھنا مراد ہے۔ (روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۵ / ۹۰-۹۱)
{فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ:تو تم مجھ پر دشمنوں کو ہنسنے کا موقع نہ دو۔} شَمَاتت کا معنی ہے کسی کی تکلیف پر خوش ہونا۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۰، ۲ / ۱۴۲)
فی زمانہ دینی اور دنیوی دونوں شعبوں میں شَمَاتت کے نظارے بہت عام ہیں ، مذہبی لوگ اور اسی طرح کاریگر، دوکاندار، کارخانے ،فیکٹری یا مل میں ملازمت کرنے والے، یونہی کسی کمپنی، ادارے یابینک میں جاب کرنے والے، ان کی اکثریت بھی شَمَاتت یعنی اپنے مسلمان بھائی پر آنے والی مصیبت پر خوش ہونے کے مذموم فعل میں مبتلا نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ اگر آپس میں کسی وجہ سے ناراضی ہو جائے تو پھر جس سے ناراضی ہو تی ہے اگر وہ یا اس کے گھر میں سے کوئی بیمار ہو جائے، اُس کے یہاں ڈاکہ پڑ جائے یا اس کا مال چوری ہوجائے ،یاکسی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوجائے، یاحادِثہ ہو جائے ، یامُقَدَّمہ قائم ہوجائے یا پولیس گرفتار کر لے، یاگاڑی کا نقصان یا چالان ہو جائے، الغرض وہ کسی طرح کی بھی مصیبت میں پھنس جائے تو ناراض ہونے والے صاحب بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ بعض حضرات جو کہ ضرورت سے زیادہ باتونی اور بے عمل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ تو یہاں تک بول پڑتے ہیں کہ دیکھا !ہم کو ستایا تھا نا تو اُس کے ساتھ ’’ ایسا‘‘ ہو گیا ! گویا وہ چھپی باتوں اور سَربَستہ ( یعنی خفیہ ) رازوں کے جاننے والے ہیں اور آں بدولت (یعنی اِن) کو اپنے مخالف پر آنے والی مصیبت کے اسباب معلوم ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ ذیل میں مذکور روایت اور امام غزالی کے فرمان سے عبرت حاصل کریں ، چنانچہ
حضرت واثلہ بن اسقع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’لَا تُظْہِرِ الشَّمَاتَۃَ لِاَخِیْکَ فَیَرْحَمُہُ اللہُ وَیَبْتَلِیْکَ‘‘ اپنے بھائی کی شَماتَت نہ کر (یعنی اس کی مصیبت پر اظہار ِمَسَرَّت نہ کر) کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتَلا کردے گا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۵۴-باب، ۴ / ۲۲۷، الحدیث: ۲۵۱۴)
حضرت امام محمدبن محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کہا گیا ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن کی سزا’’ برا خاتمہ‘‘ ہے ہم اس سے اللہ عَزَّوَجَلَّکی پناہ چاہتے ہیں۔ یہ گناہ’’ ولایت اور کرامت کاجھوٹا دعویٰ کرنا ہے۔ (احیاء العلوم، کتاب قواعد العقائد، الفصل الرابع من قواعد العقائد فی الایمان والاسلام۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۷۱)
یاد رہے کہ اگرکسی مسلمان کی مصیبت پر دل میں خود بخود خوشی پیدا ہوئی تو اِس کا قصور نہیں تا ہم اِس خوشی کو دل سے نکالنے کی بھر پور سَعی کرے، اگر خوشی کا اظہار کرے گا تو شماتت کا مُرتکب ہو گا ۔لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسرے مسلمان کی تکلیف پر خوشی کے اظہار سے بچے اور شیطان کے دھوکے میں آ کر خود کو’’بڑا پہنچا ہوا‘‘ نہ سمجھے اور اس سے بچنے کی دعا بھی کرتا رہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سخت مصیبت، بد بختی کے آنے، بری تقدیر اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب التعوّذ من جہد البلاء، ۴ / ۲۰۲، الحدیث: ۶۳۴۷)
{قَالَ:عرض کی۔} یہ دعا ئے مغفرت امت کی تعلیم کے لئے ہے، ورنہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اس لئے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بھائی کو اس دعا میں شامل فرمایا حالانکہ ان سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی تھی۔ نیز اس دعا میں حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی دلجوئی اور قوم کے سامنے ان کے اکرام کا اظہار بھی مقصودتھا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ(۱۵۲)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک وہ جو بچھڑا لے بیٹھے عنقریب انہیں ان کے رب کا غضب اور ذلت پہنچناہے دنیا کی زندگی میں اور ہم ایسا ہی بدلا دیتے ہیں بہتان ہایوں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود) بنالیا عنقریب انہیں دنیا کی زندگی میں ان کے رب کا غضب اور ذلت پہنچے گی اور ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ:بیشک وہ لوگ جنہوں نے بچھڑے کو (معبود)بنالیا ۔} اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ بچھڑا پوجنے والے لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے کوہِ طور سے واپس آنے سے پہلے ہی مر گئے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ یہودی ہیں کہ جنہوں نے بچھڑے کو پوجااور بعد میں توبہ نہ کی۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۴ / ۳۹۵) تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قتل ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کی۔ اس صورت میں غضب سے مراد قتل ہونا اور ذلت سے مراد گمراہی کا اعتراف کرنا اور قتل ہونے کاحکم تسلیم کرنا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے کے یہودی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور سیدُ المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پایا اور اُن کے آباء و اَجداد بچھڑے کی پوجا کرتے تھے اور غضب سے مراد آخرت کا عذا ب اور دنیا میں ذلت سے مراد جزیہ دینا ہے۔ عطیہ عوفی کا قول ہے کہ’’ غضب سے مراد بنو نضیر اور بنو قریظہ کا مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونا اور ذلت سے مراد انہیں حجاز سے جلا وطن کرنا ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)
{وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ:اور ہم بہتان باندھنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔} یعنی جس طرح ہم نے ان بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو بدلہ دیا اسی طرح ہم ہر اس شخص کو بدلہ دیں گے جو اللہ عَزَّوَجَلَّپر جھوٹ باندھے اور غیرِ خدا کی عبادت کرے۔ ابو قلابہ کہتے ہیں ’’اللہ کی قسم! یہ قیامت تک ہر بہتان باندھنے والے کی جزاء ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے گا۔ حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ سزا قیامت تک آنے والے ہر بدعتی کے بارے میں ہے۔حضرت مالک بن انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ ہر بدعتی اپنے سر کے اوپر سے ذلت پائے گاپھر یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۲، ۲ / ۱۴۳)
بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں وہ عقائد یا وہ اعمال جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات کے زمانہ میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے ہوں۔(جاء الحق، حصہ اول، پہلا باب: بدعت کے معنی اور اس کے اقسام واحکام میں، ص۱۷۷)
بدعت کی اقسام:
بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں (1) بدعتِ حَسنہ (2) بدعتِ سَیّئہ۔ بدعتِ حسنہ یہ ہے کہ وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو۔ اور بدعتِ سیئہ یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا کہ جس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو اورا س کی وجہ سے شریعت کا کوئی حکم تبدیل ہو رہا ہو۔
وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِهَا وَ اٰمَنُوْۤا٘-اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۵۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور جنہوں نے برائیاں کیں اور ان کے بعد توبہ کی اور ایمان لائے تو اس کے بعد تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ لوگ جنہوں نے برے اعمال کئے پھر ان کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو بیشک اس توبہ وایمان کے بعد تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
{وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ:اور وہ لوگ جنہوں نے برے اعمال کئے۔} اس آیت میں گناہ کے بعد توبہ کرنے والوں کیلئے بہت بڑی بشارت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ِبے پایاں کا ذکر ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے گناہ کا کوئی پہلو نہ چھوڑا یعنی کفر تک کا اِرتِکاب کیا، پھر اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں اپنے تمام گناہوں سے سچی توبہ کر لی اور ایمان لایا اورا س توبہ پر قائم رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے سب گناہ بخش دے گا اور اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۳، ۲ / ۱۴۳)
اس آیت سے ثابت ہوا کہ گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ جب بندہ اُن سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اپنے فضل و رحمت سے اُن سب کو معاف فرماتا ہے۔
کثیر احادیث میں بھی گناہوں سے سچی توبہ کی قبولیت اور ا س کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ترغیب کے لئے ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں۔
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر تم اتنے گناہ کرو کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں اور پھر تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری توبہ قبول فرما لے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۰، الحدیث: ۴۲۴۸)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے تم میں سے کسی کا اونٹ جنگل میں گم ہو نے کے بعد دوبارہ اسے مل جائے (بخاری، کتاب الدعوات، ۴ / ۱۹۱، الحدیث: ۶۳۰۹)[3]۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کے بیان پر مشتمل ایک حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں۔ ان میں سے ایک رحمت اس نے جن و اِنس، حیوانات اور حشراتُ الارض میں نازل کی جس سے وہ ایک دوسرے پر شفقت اور رحم کرتے ہیں ، اسی سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ننانوے رحمتیں بچا رکھی ہیں ،ان سے قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔( مسلم، کتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالی وانّہا سبقت غضبہ، ص۱۴۷۲، الحدیث: ۱۹(۲۷۵۲))
وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ ۚۖ-وَ فِیْ نُسْخَتِهَا هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ(۱۵۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب موسیٰ کا غصہ تھما تختیاں اٹھالیں اور ان کی تحریر میں ہدایت اور رحمت ہے ان کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب موسیٰ کا غصہ تھم گیا تو اس نے تختیاں اٹھالیں اور ان کی تحریر میں ہدایت اور رحمت ہے ان کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
{وَ لَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ:اور جب موسیٰ کا غصہ تھما۔} اس سے پہلی آیت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے حالتِ غضب میں جو کچھ صادر ہوا اس کا ذکر کیا گیا اب اس آیت میں غصہ تھم جانے کے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے جو واقع ہوا اسے بیان کیا گیا ہے، چنانچہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپرقوم میں آکر تحقیق کرنے سے بھی یہ ظاہر ہو گیا کہ ا ن کے بھائی حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی تھی اور انہوں نے جو عذر بیان کیا وہ درست تھا توآپ کا غصہ جاتا رہا اور آپ نے تورات کی تختیاں زمین سے اٹھا لیں۔ یاد رہے کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو غصہ آیا تو آپ نے دو کام کئے تھے (1) تورات کی تختیاں زمین پر ڈال دیں (2) حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو سر سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس کی تلافی میں بھی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دو کام کئے (1) تورات کی تختیاں زمین سے اٹھا لیں۔ (2) اپنے بھائی کے لئے دعا کی۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۴، ۵ / ۳۷۴)
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَاۚ-فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَؕ-اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّاۚ-اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَؕ-تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُؕ-اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(۱۵۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور موسیٰ نے اپنی قوم سے ستر مرد ہمارے وعدے کے لیے چنے پھر جب انہیں زلزلہ نے لیا موسیٰ نے عرض کی اے رب میرے تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا وہ نہیں مگر تیرا آزمانا تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولیٰ ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مہر کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور موسیٰ نے ہمارے وعدے کے لیے اپنی قوم سے ستر مرد منتخب کرلیے پھر جب انہیں زلزلہ نے پکڑلیا توموسیٰ نے عرض کی: اے میرے رب! اگر تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا ۔کیا تو ہمیں اس کام کی وجہ سے ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا۔ یہ تو نہیں ہے مگر تیری طرف سے آزمانا تو اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔
{وَ اخْتَارَ مُوْسٰى:اور موسیٰ نے منتخب کرلیے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پہلی بار رب عَزَّوَجَلَّسے مناجات کرنے اور تورات لینے تشریف لے گئے تھے۔ اور اس بار گائے کی پوجا کرنے والوں کو معافی دلوانے کیلئے ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر تشریف لے گئے، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ہر گروہ سے 6 افراد منتخب کر لئے ،چونکہ بنی اسرائیل کے بارہ گروہ تھے اور جب ہر گروہ میں سے 6 آدمی چنے تودوبڑھ گئے اور جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ مجھے ستر آدمی لانے کا حکم ہوا ہے اور تم 72ہو گئے اس لئے تم میں سے دو آدمی یہیں رہ جائیں تو وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا: رہ جانے والے کو جانے والے کی طرح ہی ثواب ملے گا، یہ سن کرحضرت کالب اور حضرت یوشع عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہ گئے اور کل ستر آدمی آپ کے ہمراہ گئے۔ یہ ستر افراد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہ کی تھی۔ (جمل مع جلالین، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۳ / ۱۱۹) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں روزہ رکھنے، بدن اور کپڑے پاک کرنے کا حکم دیا پھر ان کے ساتھ طورِ سَینا کی طرف نکلے، جب پہاڑ کے قریب پہنچے تو انہیں ایک بادل نے ڈھانپ لیا۔ حضرت موسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے ساتھ اس میں داخل ہو گئے اور سب نے سجدہ کیا۔ پھر قوم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا جو اس نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیلکے بارے جو حکم دیا وہ توبہ کیلئے اپنی جان دینا تھا ۔ جب کلام کا سلسلہ ختم ہو نے کے بعد بادل اٹھا لیا گیا تو یہ لوگ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے’’ توبہ میں اپنی جانوں کو قتل کرنے کا جو حکم ہم نے سنا اس کی تصدیق ہم اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو اعلانیہ دیکھ نہ لیں۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دیکھتے ہی دیکھتے انہیں شدید زلزلے نے آ لیا اور وہ تمام افراد ہلاک ہو گئے۔(ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۳۰۱، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۵، ۲ / ۷۱۵، ملتقطاً) یہ دیکھ کرحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے گڑگڑا کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ’’ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو چاہتا تو یہاں حاضر ہونے سے پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کردیتا تاکہ بنی اسرائیل ان سب کی ہلاکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور انہیں مجھ پر قتل کی تہمت لگانے کا موقع نہ ملتا۔ اب جو میں اکیلا واپس جاؤں گا تو بنی اسرائیل کہیں گے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان سب کو مروا آئے ہیں۔ اے مولا! میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔ کیا تو ہمیں اس کام کی وجہ سے ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا۔ انہوں نے جو کیا یہ تو تیری ہی طرف سے آزمائش ہے تو اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔ تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم فرمااور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ شفاعت ِنبی برحق ہے جس سے دنیا ودین کی آفتیں ٹل جاتی ہیں۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سب کی شفاعت فرمائی جو اُن کے کام آئی۔
وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ-قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ(۱۵۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ اور آخرت میں بیشک ہم تیری طرف رجوع لائے فرمایا میرا عذاب میں جسے چاہوں دوں اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے ، بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ فرمایا: میں جسے چاہتا ہوں اپنا عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے تو عنقریب میں اپنی رحمت ان کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیز گار ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
{وَ اكْتُبْ لَنَا:اور ہمارے لیے لکھ دے۔} حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے زلزلے کے وقت جودعا مانگی اس آیت میں اس کا بقیہ حصہ ہے۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی :اے اللہ! ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ دنیا کی بھلائی سے پاکیزہ زندگی اور نیک اعمال مراد ہیں اور آخرت کی بھلائی سے جنت، اللہ تعالیٰ کا دیدار اور دنیا کی نیکیوں پر ثواب مراد ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ دنیا کی بھلائی سے مراد نعمت اور عبادت ہے اور آخرت کی بھلائی سے مراد جنت ہے اور اس کے علاوہ اور کیا بھلائی ہو سکتی ہے۔ اللہتعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کے بعد فرمایا کہ:’’میری شان یہ ہے کہ میں جسے چاہتا ہوں اپنا عذاب پہنچاتا ہوں کوئی اور اس میں دخل اندازی کر ہی نہیں سکتا اور میری رحمت کی شان یہ ہے کہ میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ،دنیا میں ہر مسلمان،کافر، اطاعت گزار اور نافرمان میری نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۴ / ۳۹۹، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۵ / ۳۷۸، روح المعانی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۵ / ۱۰۳، ملتقطاً)
{فَسَاَكْتُبُهَا:عنقریب میں آخرت کی نعمتوں کو لکھ دوں گا۔} جب یہ آیت نازل ہوئی ’’وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ‘‘ تو ابلیس بہت خوش ہوا اور کہنے لگا میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت میں داخل ہو گیا، اور جب آیت کا یہ حصہ ’’ فَسَاَكْتُبُهَا‘‘ نازل ہوا تو ابلیس مایوس ہو گیا۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۲ / ۷۱۵-۷۱۶)
یہودیوں نے جب اس آیت کو سنا تو کہنے لگے ہم متقی ہیں اور ہم زکوٰۃ دیتے ہیں اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تواگلی آیت نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ یہ فضائل امتِ محمدیہ کے ساتھ خاص ہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۲ / ۱۴۶)
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فرمائے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے پھندے جو ان پر تھے اتا رے گا تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی بامراد ہوئے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جواس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں ،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، جسے یہ (اہلِ کتاب) اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور انہیں برائی سے منع کرتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
{اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ:وہ جو رسول کی غلامی کرتے ہیں۔} مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت میں رسول سے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَمراد ہیں۔ آیت میں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ذکر وصف ِرسالت سے فرمایا گیا کیونکہ آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں ، رسالت کے فرائض ادا فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کے اَوامرو نَواہی ، شرائع و احکام اس کے بندوں کو پہنچاتے ہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)
اس کے بعد آپ کی توصیف میں ’’نبی ‘‘فرمایا گیا، اس کا ترجمہ سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’غیب کی خبریں دینے والے‘‘ کیا ہے اور یہ نہایت ہی صحیح ترجمہ ہے کیونکہ نَبَاْ ’’ خبر‘‘ کے معنیٰ میں ہے اور نبی کی منفرد خبر بطورِ خاص غیب ہی کی خبر ہوتی ہے تو اس سے مراد غیب کی خبر لینا بالکل درست ہے۔ قرآنِ کریم میں یہ لفظ خبر کے معنیٰ میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا:
’’قُلْ هُوَ نَبَؤٌا عَظِیْمٌ‘‘ (ص:۶۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ وہ (قرآن) ایک عظیم خبر ہے۔
ایک جگہ فرمایا:
’’تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَ‘‘(ہود:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں۔
ایک جگہ فرمایا:
’’ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْ‘‘(البقرہ:۳۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تو جب آدم نے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے۔
ان کے علاوہ بکثرت آیات میں یہ لفظ اس معنیٰ میں مذکور ہے۔
پھر یہ لفظ یا فاعل کے معنی میں ہوگا یا مفعول کے معنی میں۔ پہلی صورت میں اس کے معنی ہیں ’’غیب کی خبریں دینے والے ‘‘اور دوسری صورت میں اس کے معنی ہوں گے’’ غیب کی خبریں دیئے ہوئے ‘‘ اور ان دونوں معنی کی تائید قرآنِ کریم سے ہوتی ہے ۔پہلے معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:
’’ نَبِّئْ عِبَادِیْ‘‘ (حجر:۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: میرے بندوں کو خبردو۔
دوسری آیت میں فرمایا:
’’ قُلْ اَؤُنَبِّئُكُمْ‘‘ (ال عمران :۱۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:(اے حبیب!)تم فرماؤ ،کیا میں تمہیں بتادوں ؟
اورحضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشاد جو قرآنِ کریم میں وارد ہوا:
’’ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْ‘‘ (آل عمران:۴۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہیں غیب کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو۔
اس کا تعلق بھی اسی قسم سے ہے ۔اور دوسری صورت کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے:
’’نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ‘‘(التحریم:۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:مجھے علم والے خبردار (اللہ) نے بتایا۔
اور حقیقت میں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامغیب کی خبریں دینے والے ہی ہوتے ہیں۔ تفسیر خازن میں ہے کہ ’’ آپ کے وصف میں ’’نبی‘‘ فرمایا، کیونکہ نبی ہونا اعلیٰ اور اشرف مَراتب میں سے ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک بہت بلند درجے رکھنے والے اور اس کی طرف سے خبر دینے والے ہیں۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۶)
اُمّی کا ترجمہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے ’’بے پڑھے ‘‘ فرمایا۔ یہ ترجمہ بالکل حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ارشاد کے مطابق ہے اور یقیناً اُمّی ہونا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی سے پڑھا نہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اَوّلین و آخرین اور غیبوں کے علوم ہیں۔( خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۷) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں۔
ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں
{یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ:اسے یہ (اہلِ کتاب )اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔} یعنی اپنے پاس توریت و انجیل میں آپ کی نعت و صفت او رنبوت لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
صحیح بخاری میں ہے، حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وہ اوصاف دریافت کئے جو توریت میں مذکور ہیں تو انہوں نے فرمایا : ’’خدا کی قسم! حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے جو اوصاف قرآنِ کریم میں آئے ہیں انہیں میں سے بعض اوصاف توریت میں مذکور ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے پڑھنا شروع کیا: اے نبی! ہم نے تمہیں شاہد و مُبَشِّر اور نذیر اور اُمِّیُّوں کا نگہبان بنا کر بھیجا، تم میرے بندے اور میرے رسول ہو، میں نے تمہارا نام متوکل رکھا،نہ بدخلق ہو نہ سخت مزاج، نہ بازاروں میں آواز بلند کرنے والے ہو نہ برائی سے برائی کو دفع کرنے والے بلکہ خطا کاروں کو معاف کرتے ہو اور ان پر احسان فرماتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں نہ اٹھائے گا جب تک کہ تمہاری برکت سے غیر مستقیم ملت کو اس طرح راست نہ فرمادے کہ لوگ صدق و یقین کے ساتھ ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رسول اللہِ‘‘ پکارنے لگیں اور تمہاری بدولت اندھی آنکھیں بینا اور بہرے کان شنوا (سننے والے) اور پردوں میں لپٹے ہوئے دل کشادہ ہوجائیں۔(بخاری، کتاب البیوع، باب کراہیۃ السخب فی السوق، ۲ / ۲۵، الحدیث: ۲۱۲۵)
اور حضرت کعب احبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صفات میں توریت شریف کا یہ مضمون بھی منقول ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صفت میں فرمایا کہ’’ میں اُنہیں ہر خوبی کے قابل کروں گا، اور ہر خُلقِ کریم عطا فرماؤں گا، اطمینانِ قلب اور وقار کو اُن کا لباس بناؤں گا اور طاعات وا حسان کو ان کا شعار کروں گا۔ تقویٰ کو ان کا ضمیر، حکمت کو ان کا راز، صدق و وفا کو اُن کی طبیعت ،عفوو کرم کو اُن کی عادت ، عدل کو ان کی سیرت، اظہارِ حق کو اُن کی شریعت، ہدایت کو اُن کا امام اور اسلام کو اُن کی ملت بناؤں گا۔ احمد اُن کا نام ہے، مخلوق کو اُن کے صدقے میں گمراہی کے بعد ہدایت اور جہالت کے بعد علم و معرفت اور گمنامی کے بعد رفعت و منزلت عطا کروں گا۔ اُنہیں کی برکت سے قلت کے بعد کثرت اور فقر کے بعد دولت اور تَفَرُّقے کے بعد محبت عنایت کروں گا، اُنہیں کی بدولت مختلف قبائل، غیر مجتمع خواہشوں اور اختلاف رکھنے والے دلوں میں اُلفت پیدا کروں گا اور اُن کی اُمت کو تمام اُمتوں سے بہتر کروں گا۔ (الشفاء، القسم الاول فی تعظیم اللہ تعالی لہ، الباب الاول فی ثناء اللہ تعالی علیہ، الفصل الثانی، ص۲۵-۲۶)
ایک اور حدیث میں توریت شریف سے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے یہ اوصاف منقول ہیں ’’میرے بندے احمد مختار، ان کی جائے ولادت مکہ مکرمہ اور جائے ہجرت مدینہ طیبہ ہے،اُن کی اُمت ہر حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کثیر حمد کرنے والی ہے۔ (ابن عساکر، باب ما جاء من انّ الشام یکون ملک اہل الاسلام، ۱ / ۱۸۶-۱۸۷)
حضرت علامہ مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اہلِ کتاب ہر زمانے میں اپنی کتابوں میں تراش خراش کرتے رہے اور اُن کی بڑی کوشِش اس پر مُسلَّط رہی کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا ذکر اپنی کتابوں میں نام کو نہ چھوڑیں۔توریت انجیل وغیرہ اُن کے ہاتھ میں تھیں اس لئے انہیں اس میں کچھ دشواری نہ تھی لیکن ہزاروں تبدیلیاں کرنے بعد بھی موجودہ زمانے کی بائیبل میں حضور سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بشارت کا کچھ نہ کچھ نشان باقی رہ ہی گیا۔ چنانچہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور ۱۹۳۱ء کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنا کی انجیل کے باب چودہ کی سولہویں آیت میں ہے: ’’ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دُوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘ لفظ مددگار پر حاشیہ ہے، اس میں اس کے معنی’’ وکیل یا شفیع‘‘ لکھے ہیں تو اب حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد ایسا آنے والا جو شفیع ہو اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہوبجز سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے کون ہے ؟پھر اُنتیسویں تیسویں آیت میں ہے:’’ اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہوجائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ کیسی صاف بشارت ہے اور حضرت ِ عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اُمت کو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی ولادت کا کیسا مُنتظر بنایا اور شوق دلایا ہے اور دُنیا کا سردار خاص سیّدِ عالم کا ترجمہ ہے اور یہ فرمانا کہ ’’ مجھ میں اس کا کچھ نہیں ‘‘ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی عظمت کا اظہار، اُس کے حضور اپنا کمالِ ادب و انکسار ہے۔
پھر اسی کتاب کے باب سولہ کی ساتویں آیت ہے’’ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر جاؤں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔‘‘ اس میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی بشارت کے ساتھ اس کا بھی صاف اظہار ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ خاتَم الانبیاء ہیں۔آپ کا ظہور جب ہی ہوگا جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامبھی تشریف لے جائیں۔ اس کی تیرہویں آیت ہے’’ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ اس آیت میں بتایا گیا کہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد پر دینِ الٰہی کی تکمیل ہوجائے گی اور آپ سچائی کی راہ یعنی دینِ حق کو مکمل کردیں گے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اُن کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور یہ کلمے کہ’’ اپنی طرف سے نہ کہے گا جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘ خاص ’’ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘(نجم:۳،۴) کا ترجمہ ہے اور یہ جملہ کہ’’ تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا‘‘ اس میں صاف بیان ہے کہ وہ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیبی علوم تعلیم فرمائیں گے ،جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا ’’ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ‘‘(بقرہ:۱۵۱)(تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جوتمہیں معلوم نہیں تھا۔) اور ’’وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ (التکویر:۲۴) ( یہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔)‘‘(خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۲۱)
{وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ:اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں۔} یعنی جو حلال و طیب چیزیں بنی اسرائیل پر ان کی نافرمانی کی وجہ سے حرام ہو گئی تھیں نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ انہیں حلال فرما دیں گے اور بہت سی خبیث و گندی چیزوں کو حرام کریں گے۔
{وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْ:اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں۔} بوجھ سے مراد سخت تکلیفیں ہیں جیسا کہ توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنا اور جن اعضاء سے گناہ صادر ہوں ان کو کاٹ ڈالنا اور قید سے مراد مشقت والے احکام ہیں جیسا کہ بدن اور کپڑے کے جس مقام کو نجاست لگے اس کو قینچی سے کاٹ ڈالنا اور غنیمتوں کو جلانا اور گناہوں کا مکانوں کے دروازوں پر ظاہر ہونا وغیرہ۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ص۳۹۰)
{وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ:اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی تعظیم اعتقادی، عملی، قولی، فعلی، ظاہری، باطنی ہر طرح لازم ہے بلکہ رکنِ ایمان ہے ۔
{وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ:اور نور کی پیروی کریں۔} اس نور سے قرآن شریف مراد ہے جس سے مومن کا دِل روشن ہوتا ہے اور شک و جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور علم و یقین کی ضیاء پھیلتی ہے۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۷، ۲ / ۱۴۸)
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ:تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔} اس سے معلوم ہوا کہ حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دنیا و آخرت میں بھلائی لکھ دینے کی دعا اپنی امت کے لئے فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شان امتِ محمدی کی ہے ، سُبْحَانَ اللہ اور ساتھ ہی اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے فضائل اور امتِ مرحومہ کے مناقب انہیں سنا دئیے گئے، اس سے معلوم ہوا کہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت پہلے بھی عالَم میں مشہور تھی مگر اس امت کی نیکیاں شائع کر دی گئی تھیں اور ان کے گناہوں کا ذکر نہ کیا تھا بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی مشہور کر دئیے گئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ‘‘ (الفتح: ۲۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ ان کی صفت توریت میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔
قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۱۵۸)
ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہکا رسول ہوں کہ آسمان و زمین کی بادشاہی اسی کو ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہکا رسول ہوں جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ،اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔
{قُلْ:تم فرماؤ ۔} یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ لوگوں سے فرما دیجئے کہ میں تم سب کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں ،ایسا نہیں کہ بعض کا تو رسول ہوں ا ور بعض کا نہیں۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۴۸)
یہ آیت سَرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے عمومِ رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام مخلوق کیلئے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی اُمت ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ہے، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا :پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں (1) ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سُرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔ (2) میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے نہیں ہوئی تھیں۔(3) میرے لئے زمین پاک اور پاک کرنے والی (یعنی تیمم کے قابل) اور مسجد کی گئی جس کسی کو کہیں نماز کا وقت آئے وہیں پڑھ لے۔(4) دشمن پر ایک ماہ کی مسافت تک میرا رعب ڈال کر میری مدد فرمائی گئی۔ (5) اور مجھے شفاعت عنایت کی گئی۔ (بخاری، کتاب الصلاۃ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: جعلت لی الارض مسجداً وطہوراً، ۱ / ۱۶۸، الحدیث: ۴۳۸، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۵، الحدیث: ۳ (۵۲۱)) اور مسلم شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ’’ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵ (۵۲۳))
{اَلَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔} اس آیت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حکم دیاکہ آپ لوگوں سے فرما دیں کہ میں تم سب کی طرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کا رسول ہوں ، اور اب ان کے دعویٰ کے درست ہونے کی دلیل بیان کی جارہی ہے کہ جس خدا کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور وہ ان کی تدبیر فرمانے والا اور ان کے تمام امور کامالک ہے اسی نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے اور مجھے حکم دیاہے کہ میں تم سے کہوں :میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ اپنی مخلوق کو زندہ کرنے اور انہیں موت دینے پر قدرت رکھتا ہے اور جس کی ایسی شان ہو تو وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی طرف کسی رسول کو بھیج دے تو تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر ایمان لاؤ جن کی شان یہ ہے کہ وہ نبی ہیں ،کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اے لوگو!تم ان کی غلامی اختیار کر لو اور وہ تمہیں جس کام کا حکم دیں اسے کرو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آ جاؤ تاکہ تم ان کی پیروی کر کے ہدایت پاجاؤ۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۸، ۲ / ۱۴۸-۱۴۹)
وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ(۱۵۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ ہے کہ حق کی راہ بتا تا اور اسی سے انصاف کرتا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ وہ ہے جوحق کی راہ بتا تا ہے اور اسی کے مطابق انصاف کرتا ہے۔
{وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰۤى اُمَّةٌ:اور موسیٰ کی قوم سے ایک گروہ۔} یعنی بنی اسرائیل کی سرکشیوں اور نافرمانیوں کے باوجود اُن میں سے ایک جماعت حق پر بھی قائم رہی۔ حق پر قائم رہنے والے گروہ سے کون لوگ مراد ہیں ، اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ حق پر قائم رہنے والوں سے مراد بنی اسرائیل کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم، کیونکہ یہ پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور تورات پر ایمان لائے پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَاور قرآن پر بھی ایمان لائے۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۵ / ۳۸۷)
اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنی اسرائیل کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت منسوخ ہونے سے پہلے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا، اس میں کوئی تبدیلی نہ کی اور نہ ہی انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۴ / ۴۰۴) ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں۔
وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًاؕ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اِذِ اسْتَسْقٰىهُ قَوْمُهٗۤ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَۚ-فَانْۢبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْهِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْهِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۶۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہم نے انہیں بانٹ دیا بارہ قبیلے گروہ گروہ اور ہم نے وحی بھیجی موسیٰ کو جب اس سے اس کی قوم نے پانی ما نگا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا اور ہم نے ان پر اَبر سائبان کیا اور ان پر من و سلویٰ اتارا کھاؤ ہماری دی ہوئی پاک چیزیں اور انہوں نے ہمارا کچھ نقصان نہ کیا لیکن اپنی ہی جانوں کا برا کرتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے انہیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے الگ الگ جماعت بنادیا اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی جب اُس سے اس کی قوم نے پانی ما نگا کہ اس پتھر پر اپنا عصا مارو تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہوگئے، ہر گروہ نے اپنے پینے کی جگہ کو پہچان لیااور ہم نے ان پربادلوں کا سایہ کیا اور ان پر من و سلویٰ اتارا (اور فرمایا) ہماری دی ہوئی پاک چیزیں کھاؤ اور انہوں نے (ہماری نافرمانی کرکے) ہمارا کچھ نقصان نہ کیا لیکن اپنی ہی جانوں کا نقصان کرتے رہے۔
{وَ قَطَّعْنٰهُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا اُمَمًا:اور ہم نے انہیں بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے الگ الگ جماعت بنادیا۔} بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے بارہ گروہوں میں تقسیم کر دیا کیونکہ یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بارہ بیٹوں کی اولاد سے پیدا ہوئے تھے اور انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا تاکہ یہ باہم حسد نہ کریں اور ان میں لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کی نوبت نہ آئے۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۰، ۵ / ۳۸۸)
نوٹ:آیت کے بقیہ حصے کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر 57 اور 60 میں گزر چکی ہے۔
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓــٴٰـتِكُمْ ؕ-سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۶۱)فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ۠(۱۶۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور یاد کرو جب ان سے فرمایا گیا اس شہر میں بسو اور اس میں جو چاہو کھاؤ اور کہو گناہ اترے اور دروازے میں سجدہ کرتے داخل ہو ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے عنقریب نیکوں کو زیادہ عطا فرمائیں گے۔تو ان میں کے ظالموں نے بات بدل دی اس کے خلاف جس کا انہیں حکم تھا تو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا بدلہ ان کے ظلم کا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب ان سے فرمایا گیا کہ اِس شہر میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جو چاہو کھاؤ اور یوں کہو ’’ہماری بخشش ہو‘‘ اور (شہر کے) دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے (اور) نیکی کرنے والوں کو عنقریب اور زیادہ عطا فرمائیں گے۔ تو ان میں سے ظالموں نے جو بات ان سے کہی گئی تھی اسے دوسری بات سے بدل دیا تو ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا کیونکہ وہ ظلم کرتے تھے ۔
{وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ: اور یادکرو جب ان سے فرمایا گیا۔} اس کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر58کے تحت گزر چکی ہے۔
{فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ قَوْلًا:تو ان میں سے ظالموں نے بات بدل دی۔} اس کی تفسیر سورۂ بقرہ آیت نمبر 59 کے تحت گزر چکی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہیں حکم تو تھا کہ حِطَّۃُ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں ، حِطَّۃُ توبہ اور اِستغفار کا کلمہ ہے لیکن وہ بجائے اس کے براہ ِتَمَسْخُر حِنْطَۃٌ فِیْ شَعِیْرَۃٍ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ اس بنا پر ان پر عذاب نازل ہوا اوروہ عذاب طاعون کی وبا تھی جس سے ایک ساعت میں چوبیس ہزار اسرائیلی فوت ہو گئے۔
وَ سْــٴَـلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِۘ-اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَۙ-لَا تَاْتِیْهِمْۚۛ-كَذٰلِكَۚۛ-نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ(۱۶۳)وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَاۙﰳ اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًاؕ-قَالُوْامَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(۱۶۴)فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ (۱۶۵)فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ(۱۶۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان سے حال پوچھو اس بستی کا کہ دریا کنارے تھی جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھتے جب ہفتے کے دن ان کی مچھلیاں پانی پر تیرتی ان کے سامنے آتیں اور جو دن ہفتے کا نہ ہوتا نہ آتیں اس طرح ہم انہیں آزماتے تھے ان کی بے حکمی کے سبب۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کیوں نصیحت کرتے ہو ان لوگوں کو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والا بولے تمہارے رب کے حضور معذرت کو اور شاید انہیں ڈر ہو۔ پھر جب وہ بھلا بیٹھے جو نصیحت انہیں ہوئی تھی ہم نے بچالیے وہ جو برائی سے منع کرتے تھے اور ظالموں کو برے عذاب میں پکڑا بدلہ ان کی نافرمانی کا۔ پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے ان سے فرمایا ہوجاؤ بند ر دتکارے ہوئے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان سے اُس بستی کا حال پوچھو جودریاکے کنارے پرتھی، جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھنے لگے ،جب ہفتے کے دن تومچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے سامنے آتیں اور جس دن ہفتہ نہ ہوتا اس دن مچھلیاں نہ آتیں۔اسی طرح ہم ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان کی آزمائش کرتے تھے۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا: تم ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والاہے؟ انہوں نے کہا: تمہارے رب کے حضور عذر پیش کرنے کے لئے اور شاید یہ ڈریں۔ پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے برائی سے منع کرنے والوں کو نجات دی اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کے سبب برے عذاب میں گرفتار کردیا۔ پھر جب انہوں نے ممانعت کے حکم سے سرکشی کی ہم نے ان سے فرمایا: دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔
{وَ سْــٴَـلْهُمْ:اور ان سے پوچھو۔} شانِ نزول:سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ میں رہنے والے یہودیوں کو ان کے کفر پر سرزنش کرتے اور ان سے فرمایا کرتے کہ تم لوگ اپنے باپ دادا کے نقشِ قدم پر ہو کہ انہوں نے ہمیشہ پچھلے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کی ۔ (اور تم میری مخالفت کر رہے ہو۔) اس پر یہودی بولے ’’ہمارے باپ دادا اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے فرمانبردار اور اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اطاعت گزار تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ واقعی ان کے باپ دادا اپنے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مخالفت کرتے رہے ہیں مگر ان کا خیال تھا کہ ان واقعات کی کسی کو خبر نہیں ، اس لئے اپنے باپ دادوں کی معصومیت کے ڈھنڈورے پیٹتے تھے ۔تب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی جس میں ان کے پول کھول دئیے گئے اور وہ لوگ حیران رہ گئے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۷۱۹)
اس آیت میں خطاب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ہے کہ آپ اپنے قریب رہنے والے یہودیوں سے سرزنش کے طور پر اس بستی والوں کا حال دریافت فرمائیں۔اس سوال سے مقصود کفار پر یہ ظاہر کرنا تھاکہ سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اور تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے معجزات کا انکار کرنا یہ اُن کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ کفر و معصیت تو ان کا پرانا دستور ہے کہ ان کے آباؤ اَجداد بھی کفر پر قائم رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۰)
{عَنِ الْقَرْیَةِ: بستی کا حال۔} اس بستی کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی تھی۔ حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ وہ مصر و مدینہ کے درمیان ایک قریہ ہے۔ ایک قول ہے کہ مدین وطور کے درمیان ایک بستی ہے۔ امام زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایاکہ وہ قریہ، طبریۂ شام ہے۔ اور حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ وہ بستی مَدین ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بستی اِیلہ ہے۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۲ / ۱۵۱، بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۶۷، ملتقطاً)
{اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ:جب وہ ہفتے کے بارے میں حد سے بڑھنے لگے ۔} اس آیت اور اس سے بعد والی 3 آیات میں جو واقعہ بیان ہوا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس بستی میں رہنے والے بنی اسرائیل کواللہ تعالیٰ نے ہفتے کا دن عبادت کے لیے خاص کرنے اور اس دن تمام دنیاوی مشاغل ترک کرنے کا حکم دیا نیز ان پر ہفتے کے دن شکار حرام فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کا ارادہ فرمایا تو ہوا یوں کہ ہفتے کے دن دریا میں خوب مچھلیا ں آتیں اوریہ لوگ پانی کی سطح پر انہیں دیکھتے تھے، جب اتوار کا دن آتا تو مچھلیا ں نہ آتیں۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہیں مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا ہے لہٰذا تم ایسا کرو کہ دریا کے کنارے بڑے بڑے حوض بنالو اور ہفتے کے دن دریا سے ان حوضوں کی طرف نالیاں نکال لو، یوں ہفتے کو مچھلیاں حوض میں آ جائیں گی اور تم اتوار کے دن انہیں پکڑ لینا، چنانچہ ان کے ایک گروہ نے یہ کیا کہ جمعہ کو دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڑھے کھودے اور ہفتے کی صبح کو دریا سے ان گڑھوں تک نالیاں بنائیں جن کے ذریعے پانی کے ساتھ آکر مچھلیاں گڑھوں میں قید ہو گئیں اور اتوار کے دن انہیں نکال لیا اور یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے دی کہ ہم نے ہفتے کے دن تو مچھلی پانی سے نہیں نکالی ۔ ایک عرصے تک یہ لوگ اس فعل میں مبتلا رہے ۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے اس بستی میں بسنے والے افراد تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
(1)…ان میں ایک تہائی ایسے لوگ تھے جوہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے باز رہے اور شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے۔
(2)… ایک تہائی ایسے افراد تھے جو خودخاموش رہتے اوردوسروں کو منع نہ کرتے تھے جبکہ منع کرنے والوں سے کہتے تھے کہ ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّہلاک کرنے والا یاانہیں سخت عذاب دینے والا ہے ۔
(3)… اورایک گروہ وہ خطاکار لوگ تھے جنہوں نے حکمِ الٰہی کی مخالفت کی اور ہفتے کے دن شکار کیا، اسے کھایا اور بیچا۔
جب مچھلی کا شکار کرنے والے لوگ اس معصیت سے باز نہ آئے تو منع کرنے والے گروہ نے ان سے کہا کہ’’ ہم تمہارے ساتھ میل برتاؤ نہ رکھیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے گاؤں کو تقسیم کرکے درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی۔ منع کرنے والوں کا ایک دروازہ الگ تھا جس سے آتے جاتے تھے اور خطا کاروں کا دروازہ جدا تھا۔ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان خطا کاروں پر لعنت کی تو ایک روز منع کرنے والوں نے دیکھا کہ خطاکاروں میں سے کوئی باہر نہیں نکلا، تو انہوں نے خیال کیا کہ شاید آج شراب کے نشہ میں مدہوش ہوگئے ہوں گے، چنانچہ اُنہیں دیکھنے کے لئے دیوار پر چڑھے تو دیکھا کہ وہ بندروں کی صورتوں میں مسخ ہوگئے تھے۔ اب یہ لوگ دروازہ کھول کراندر داخل ہوئے تو وہ بندر اپنے رشتہ داروں کو پہچانتے اور ان کے پاس آکر اُن کے کپڑے سونگھتے تھے اور یہ لوگ ان بندر ہوجانے والوں کو نہیں پہچانتے تھے۔ اِن لوگوں نے بندر ہوجانے والوں سے کہا:’’ کیا ہم لوگوں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اُنہوں نے سرکے اشارے سے کہا: ہاں۔ اس کے تین دن بعد وہ سب ہلاک ہوگئے اور منع کرنے والے سلامت رہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے امی ہونے اور پچھلی کتابں پڑھی ہوئی نہ ہونے کے باوجود بھی اِن واقعات کی خبر دینا ایک معجزہ ہے کہ آپ نے یہودیوں کے سامنے ان کے آباء واَجداد کے اعمال اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی وجہ سے ان کا بندر و خنزیر کی شکلوں میں تبدیل ہو جانا سب بیان فرما دیا۔(خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳ و۱۶۶، ۲ / ۱۵۱-۱۵۲)
اس واقعے میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے کہ جو شرعی احکام کو باطل کرنے اورا نہیں اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کیلئے طرح طرح کے غیر شرعی حیلوں کا سہارا لیتے ہیں ، انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں ا س کی پاداش میں ان کی شکلیں بھی نہ بگاڑ دی جائیں۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جیسا یہودیوں نے کیا تم ا س طرح نہ کرنا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو طرح طرح کے حیلے کر کے حلال سمجھنے لگو ۔ (در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۳، ۳ / ۵۹۲)
یاد رہے کہ حکمِ شرعی کو باطل کرنے کیلئے حیلہ کرنا حرام ہے جیسا کہ یہاں مذکور ہوا البتہ حکمِ شرعی کو کسی دوسرے شرعی طریقے سے حاصل کرنے کیلئے حیلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ قرآنِ پاک میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اس طرح کا عمل سورۂ ص آیت44میں مذکور ہے۔ عوامُ الناس کو چاہئے کہ پہلے حیلے سے متعلق شرعی رہنمائی حاصل کریں اس کے بعد حیلہ کریں تاکہ معلومات میں کمی کی وجہ سے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔
نوٹ: اس واقعے کی بعض تفصیلات سورۂ بقرہ آیت65 میں گزر چکی ہیں۔
{وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا۔} اس آیت میں تیسرے گروہ کا ذکر ہے کہ جنہوں نے خاموشی اختیار کی تھی۔ اس سے معلو م ہوا کہ یہ لوگ مچھلی کے شکار پر بالکل راضی نہ تھے بلکہ ان سے مُتَنَفِّر تھے جبکہ انہیں سمجھاتے اس لئے نہیں تھے کہ ان کے ماننے کی امید نہ تھی۔ اس سے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ لوگ بھی نجات پا گئے تھے کیونکہ جب کسی کے ماننے کی امید نہ ہو تو امر بالمعروف کرنا فرض نہیں رہتا ، ہاں افضل ضرور ہوتا ہے نیز امر بالمعروف فرضِ کفایہ ہے لہٰذا جب ایک گروہ یہ کرہی رہا تھا تو ان پر بِعَیْنِہٖ فرض نہ رہا۔
{كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىٕیْنَ: دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔} حدیث شریف میں ہے،ــحضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ایک شخص نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، کیا بندر اور خنزیر مَسخ شدہ لوگ ہیں ؟ رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ہلاک کر کے یا کسی قوم کو عذاب دے کر ا س کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور خنزیر تو ان سے پہلے بھی ہوتے تھے۔(مسلم، کتاب القدر، باب بیان انّ الآجال والارزاق وغیرہا۔۔۔ الخ، ص۱۴۳۲، الحدیث: ۳۳ (۲۶۶۳))لہٰذا موجودہ بندر اس قوم کی اولاد میں سے نہیں کیونکہ وہ تو فنا کر دی گئی۔
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْهِمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ یَّسُوْمُهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِؕ-اِنَّ رَبَّكَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ ۚۖ-وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۶۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب تمہارے رب نے حکم سنادیا کہ ضرور قیامت کے دن تک ان پر ایسے کو بھیجتا رہوں گا جو انہیں بری مار چکھائے بیشک تمہارا رب ضرور جلد عذاب والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب تمہارے رب نے اعلان کردیا کہ وہ ضرور قیامت کے دن تک ان پر ایسوں کو بھیجتا رہے گا جو انہیں برا عذاب دیتے رہیں گے بیشک تمہارا رب ضرور جلد عذاب دینے والا ہے اور بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ:اور جب تمہارے رب نے اعلان کردیا ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی سرکشی، گناہ پر دیدہ دلیری اورا س کی سزا میں مسخ کر کے بندر بنا دینے کا ذکر فرمایا اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ قیامت تک یہودیوں کے لئے ذلت اور غلامی مقدر کر دی گئی ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۵ / ۳۹۳)
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ،آپ کے رب عَزَّوَجَلَّنے یہودیوں کے آباء واَجداد کو ان کے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی زبان سے یہ خبر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک یہودیوں پر ایسے افراد مُسلَّط کرتا رہے گا جو انہیں ذلت اور غلامی کا مزہ چکھاتے رہیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر بخت نصر، سنجاریب، اور رومی عیسائی بادشاہوں کو مسلط فرمایا جو اپنے اپنے زمانوں میں یہودیوں کو سخت ایذائیں پہنچاتے رہے۔ (خازن ، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۶۷، ۲ / ۱۵۲) پھر مسلمان سَلاطین ان پر مقرر ہوئے، پھر انگریزوں کی غلامی میں رہے،قریب کے دور میں جرمنی میں ہٹلر نے انہیں چن چن کر قتل کیا اور اپنے ملک سے نکال دیا۔ یہودیوں کی حرکتیں ہی ایسی ہیں کہ کوئی سلطنت انہیں اپنے ملک میں رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی کسی سلطنت نے اجتماعی طور پر انہیں اپنے ملک میں نہ رکھا بلکہ انہیں فلسطین میں آباد کیا اور یہیں سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کی بڑی تباہی کا آغاز ہوگا۔
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًاۚ-مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ٘-وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۱۶۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور انہیں ہم نے زمین میں متفرق کردیا گروہ گروہ ان میں کچھ نیک ہیں اور کچھ اور طرح کے اور ہم نے انہیں بھلائیوں اور برائیوں سے آزمایا کہ کہیں وہ رجوع لائیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا، ان میں کچھ صالحین ہیں اور کچھ اس کے علاوہ ہیں اور ہم نے انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا تا کہ وہ لوٹ آئیں۔
{وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا:اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کردیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، ہم نے یہودیوں کی جمعیت کو مُنْتَشِر کر دیا اور ان کا شیرازہ بکھیر دیا اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، موجودہ یہودیوں میں کچھ نیک بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور رسُول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر ایمان لائے اور دین پر ثابت رہے اور ان کے علاوہ کچھ ایسے ہیں کہجنہوں نے نافرمانی کی ، کفر کیا اور دین کو بدل ڈالا ۔ اور ہم نے انہیں خوشحالیوں اور بدحالیوں سے آزمایا اس طرح کہ کبھی ان پر اَرزانی ، تندرستی اور دنیوی عزت کے دروازے کھول دئیے اور کبھی ان پر قحط ، بیماریوں ، مصیبتوں اور ذلتوں کو مُسلَّط کر دیا تا کہ وہ اپنی نافرمانیوں سے لوٹ آئیں کیونکہ بعض تو مصیبت میں رب عَزَّوَجَلَّکی طرف رجوع کر تے ہیں اور بعض راحتوں میں۔
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَاۚ-وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُؕ-اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِؕ-وَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۱۶۹)
ترجمۂکنزالایمان: پھر ان کی جگہ ان کے بعد وہ ناخلف آئے کہ کتاب کے وارث ہوئے اس دنیا کا مال لیتے ہیں اور کہتے اب ہماری بخشش ہوگی اور اگر ویسا ہی مال ان کے پاس اور آئے تو لے لیں کیا ان پر کتاب میں عہد نہ لیا گیا کہ اللہ کی طرف نسبت نہ کریں مگر حق اور انہوں نے اسے پڑھا اور بیشک پچھلا گھر بہتر ہے پرہیزگاروں کو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر ان کے بعد ایسے برے جانشین آئے جو کتاب کے وارث ہوئے وہ اس دنیا کا مال لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری مغفرت کردی جائے گی حالانکہ اگر ویسا ہی مال ان کے پاس مزید آجائے تو اسے (بھی) لے لیں گے۔ کیا کتاب میں ان سے یہ عہد نہیں لیا گیا تھا؟ کہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہیں گے اور وہ پڑھ چکے ہیں جو اس کتاب میں ہے اور بیشک آخرت کاگھر پرہیزگاروں کے لئے بہتر ہے،تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟
{ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ:پھر ان کے بعد ایسے برے جانشین آئے۔} اس آیت میں بنی اسرائیل کے ناخلف جانشینوں کے چند عیب بیان کئے گئے ہیں :
(1)… وہ رشوت لے کر توریت کے احکام بدل دیتے۔
(2)… نافرمانی کے باوجود یہ کہتے کہ ہمارا یہ گناہ بخش دیا جائے گا ا س پر ہماری پکڑ نہ ہو گی۔
(3)… اس جرم پر قائم رہے کہ جب رشوت ملی اسے لے کر شرعی حکم بدل دیا۔
(4)…یہ سارے جرم نادانی میں نہیں بلکہ دیدہ و دانستہ کرتے رہے۔
اس آیت میں یہودیوں کی ایک سرکشی یہ بیان ہوئی کہ ’’ نافرمانیوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اورا س پر ان کی پکڑ نہ ہو گی‘‘ یہودیوں کی ا س سر کشی کی بنیاد یہ تھی کہ یہ لوگ اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہم انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی اولاد ہیں ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے ہیں اس لئے ان گناہوں پر ہم سے کچھ مُؤاخذہ نہ ہوگا۔ فی زمانہ بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اپنی بد اعمالیوں کے باوجود خود کوآخرت کے اجرو ثواب کا حق دار سمجھتے ہیں یونہی بعض سمجھدار قسم کے لوگ شیطان کے اس دھوکے میں پھنس کر گناہوں میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم اگرچہ گناہگار ہیں لیکن فلاں کامل پیر صاحب کے مرید ہیں لہٰذا ہم بخشے جائیں گے اور گناہوں پرہماری پکڑ نہ ہو گی۔ ایسے حضرات خود ہی غور کر لیں کہ ان کا یہ طرزِ عمل کن کی عکاسی کر رہا ہے، شائد یہ وہی دور ہے کہ جس کی خبر اس روایت میں دی گئی ہے، حضرت معاذ بن جبلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ عنقریب لوگوں کے سینوں میں قرآن اس طرح بوسیدہ ہو جائے گا جس طرح کپڑا بوسیدہ ہو کر جھڑنے لگتا ہے، وہ کسی شوق اور لذت کے بغیر قرآنِ پاک کی تلاوت کریں گے، ان کے اعمال صرف طمع اور حرص ہوں گے۔وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف کی وجہ سے گناہوں میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ برے کام کرنے کے باوجود تبلیغ کریں گے اور کہیں گے کہ عنقریب ہماری بخشش کر دی جائے گی کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ (دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی تعاہد القرآن، ۲ / ۵۳۱، الحدیث: ۳۳۴۶)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ہر وہ تَوَقُّع جو تو بہ یا عبادت میں سُرُور کی رغبت پیدا کرے وہ رَجاء (یعنی امید) ہے اور ہر وہ امید جو عبادت میں فُتور اور باطل کی طرف جھکاؤ پیدا کرے تو وہ دھوکہ ہے جیسے کسی شخص کے دل میں خیال پیدا ہو کہ وہ گناہ کو ترک کردے اور عمل میں مشغول ہوجائے اور شیطان اس سے کہے کہ تم اپنے آپ کو کیوں عذاب اور تکلیف میں ڈالتے ہو، تمہارا رب کریم ہے، غفور ہے، رحیم ہے اور وہ (اس وجہ سے) توبہ اور عبادت میں سستی کرنے لگے تو ایسا شخص دھوکے میں مبتلا ہے، اس صورت میں بندے پر لازم ہے کہ وہ نیک اعمال کرے اور اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے بہت بڑے عذاب سے ڈرائے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہونے کے ساتھ ساتھ سخت عذاب دینے والا بھی ہے، وہ اگرچہ کریم ہے لیکن وہ کفار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈالے گا حالانکہ ان کا کفر اس کاکچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا بلکہ وہ عذاب، مشقت، بیماریا ں ، فقر اور بھوک وغیرہ جس طرح دنیا میں بندوں پر مُسلَّط کرتا ہے اسی طرح وہ اِن چیزوں کو اُن سے دور بھی کرسکتا ہے تو جس کا اپنے بندوں کے ساتھ یہ طریقہ ہے اور اس نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا ہے تو میں اس سے کیسے نہ ڈروں اور میں کس طرح اس سے دھوکے میں رہوں۔
پس خوف اور امید دوراہنما ہیں جو لوگوں کو عمل کی ترغیب دیتے ہیں اور جو بات عمل کی رغبت پیدا نہ کرے وہ تمنا اور دھوکہ ہے اور اکثر لوگ جو امید لگائے بیٹھے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ عمل میں کوتاہی کرتے ہیں ، دنیا کی طرف متوجہ رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر تے ہیں اور آخرت کے لئے عمل نہیں کرتے تووہ دھو کے میں ہیں۔ نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے اس بات کی خبردی اور بیان فرمایا کہ’’ عنقریب اس امت کے پچھلے لوگوں کے دلوں پر دھوکہ غالب ہوجائے گا۔ آپ نے جو فرمایا وہ ہو کررہا ،جیسا کہ پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت اور نیک اعمال کرتے رہتے تھے اس کے باوجود اُن کے دلوں میں یہ خوف رہتا تھا کہ انہوں نے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں کے بارے میں خوفزدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرنے، خواہشات اور شُبہات سے بچنے کے باوجود تنہائی میں اپنے نفسوں کے لئے روتے تھے۔ لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں کو مطمئن، خوش اور بے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں پر اوندھے گرتے ہیں ، دنیا میں پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے،ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں ، اس کے عفو و درگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں گویا ان کاگمان یہ ہے کہ انہوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور پہلے بزرگوں کو حاصل نہ تھی، اگر یہ بات (یعنی عَفْو و مغفرت) محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہو جاتی تو (نیک اعمال کے باوجود) ان بزرگوں کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔ (احیاء العلوم، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۳-۴۷۴)
اس کے علاوہ ان علماء کو بھی اپنے طرزِ عمل پر غور کی حاجت ہے کہ جو خود تو عوام میں مُقتداء کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی اولاد کی اچھی دینی تعلیم وتربیت سے غفلت کا شکار ہیں ، جب ان کی اولاد جانشینی کی مسند پر جلوہ افروز ہو گی تو کہیں یہ بھی انہی خرابیوں کا شکار نہ ہو جائے جن کا بنی اسرائیل کے جانشین ہوئے۔
وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَؕ-اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ(۱۷۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور وہ جو کتاب کو مضبوط تھامتے ہیں اور انہوں نے نماز قائم رکھی اور ہم نیکوں کا نیگ نہیں گنواتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں اور انہوں نے نماز قائم رکھی، بیشک ہم اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
{وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ:اور وہ جو کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں۔} کتاب کو مضبوطی سے تھامنے سے مراد اس کے مطابق عمل کرنا، اس کے تمام احکام کو ماننا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی روا ،نہ رکھنا ہے، اور اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت اہلِ کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ ایسے اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے پہلی کتاب کی اتباع کی اور اس میں کوئی تحریف کی نہ اس کے مضامین کو چھپایا اور اس کتاب کے اتباع کی بدولت اُنہیں قرآنِ پاک پر ا یمان نصیب ہوا۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۰، ۲ / ۱۵۴)
{وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ:اور انہوں نے نماز قائم کررکھی ہے۔} نماز اگرچہ کتاب کو مضبوطی سے تھامنے میں داخل ہے البتہ اسے جداگانہ ذکر کرنے سے مقصود ا س کی عظمت کا اظہار اور یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد سب سے اہم عبادت نماز ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۰، ۲ / ۱۵۴)
کثیر احادیث میں نماز پڑھنے کی بہت اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے، ترغیب کے لئے ان میں سے 3 احادیث درجِ ذیل ہیں :
(1)…حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک صاحب نے عرض کی، یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اسلام میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا ’’وقت میں نماز پڑھنا اور جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ، نماز دین کا ستون ہے۔ (شعب الایمان، باب الحادی والعشرون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۳ / ۳۹، الحدیث: ۲۸۰۷)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ علی، ۳ / ۳۲، الحدیث: ۳۷۸۲)
(3)…حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کیں ، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں پڑھیں اور رکوع و خُشوع کو پورا کیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر عہد کر لیا ہے کہ اسے بخش دے ،اور جس نے نہ کیا اس کے لیے عہد نہیں ، چاہے بخش دے، چاہے عذاب کرے (ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المحافظۃ علی وقت الصلوات، ۱ / ۱۸۶، الحدیث: ۴۲۵) [4]۔
اس آیت میں کتاب کو مضبوطی سے تھامنے والوں کی فضیلت بیان ہوئی اسے سامنے رکھتے ہوئے قرآنِ مجید کے احکام پر عمل کے سلسلے میں ہم اپنے اَسلاف کے حال اور اپنے حال کا مُوازنہ کریں تو موجودہ دور میں مسلمانوں کی مجموعی صورتِ حال انتہائی تشویشناک نظر آتی ہے کہ فی زمانہ مسلمان قرآنِ مجید پر عمل سے انتہائی دور ہو چکے اور دنیا کی نعمتوں اور رنگینیوں پر مطمئن بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں نے 70 بدری صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دیکھا وہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں سے (تقویٰ و وَرع کی وجہ سے) اس قدر اِجتناب کرتے تھے جس قدر تم حرام چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے۔ جس قدر تم فراخی کی حالت پر خوش ہوتے ہو ا س سے زیادہ وہ آزمائشوں پر خوش ہوتے تھے۔اگر تم انہیں دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہ مجنون ہیں اور اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں کو دیکھتے تو کہتے کہ ان لوگوں کا (آخرت میں )کوئی حصہ نہیں اور اگروہ تمہارے برے لوگوں کو دیکھتے تو کہتے:ان لوگوں کا حساب کے دن پر ایمان نہیں۔ اُن میں سے کسی کے سامنے حلال مال پیش کیا جاتا تو وہ یہ کہہ کرلینے سے انکار کردیتے کہ مجھے اپنا دل خراب ہو جانے کا ڈر ہے (جبکہ تم حرام مال لینے میں بھی ذراپرواہ نہیں کرتے)۔(احیاء العلوم، کتاب الفقر والزہد، بیان تفضیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، ۴ / ۲۹۷)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم اور قرآنِ کریم پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّةٌ وَّ ظَنُّوْۤا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْۚ-خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۠(۱۷۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب ہم نے پہاڑ ان پر اٹھایا گویا وہ سائبان ہے اور سمجھے کہ وہ ان پر گر پڑے گا لو جو ہم نے تمہیں دیا زور سے اور یاد کرو جو اس میں ہے کہ کہیں تم پرہیزگار ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یاد کرو جب ہم نے پہاڑ ان کے اوپر بلند کردیا گویا وہ سائبان ہے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ ان پر گرنے ہی والا ہے (اور ہم نے کہا) جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
{وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ:اور یاد کرو، جب ہم نے پہاڑ ان کے اوپر بلند کردیا۔} جب بنی اسرائیل نے تکالیفِ شاقّہ کی وجہ سے توریت کے احکام قبول کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَامنے ایک پہاڑ جس کی مقدار ان کے لشکر کے برابر تھی یعنی تین میل لمبا اور تین میل چوڑا پہاڑ اُٹھا کر سائبان کی طرح اُن کے سروں کے قریب کردیا اور اُن سے کہا گیا کہ توریت کے احکام قبول کرو ورنہ یہ تم پر گرا دیا جائے گا۔ پہاڑ کو سروں پر دیکھ کر سب کے سب سجدے میں گر گئے۔مگر اس طرح کہ بایاں رخسارا ورابرو تو انہوں نے سجدے میں رکھ دی ا ور دائیں آنکھ سے پہاڑ کو دیکھتے رہے کہ کہیں گر ہی نہ پڑے، چنانچہ اب تک یہودیوں کے سجدے کی یہی شان ہے ۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۱، ۲ / ۷۲۳)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا 23 سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ اتر نا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خاص رحمت ہے کہ اس طرح مسلمانوں کو تمام احکامات پر عمل آسان ہو گیا۔ آزاد طبیعت ایک دم سارے احکام کی پابندی میں دِقت محسوس کرتی ہے ۔
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ-قَالُوْا بَلٰىۚۛ-شَهِدْنَاۚۛ-اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ(۱۷۲) اَوْ تَقُوْلُوْۤا اِنَّمَاۤ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّیَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْۚ-اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ(۱۷۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبو ب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔ یا کہو کہ شرک تو پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا اور ہم ان کے بعد بچے ہوئے تو کیا تو ہمیں اس پر ہلاک فرمائے گا جو اہلِ باطل نے کیا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے محبوب! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ بنایا (اور فرمایا) کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ سب نے کہا: کیوں نہیں ، ہم نے گواہی دی۔ (یہ اس لئے ہوا)تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی۔یایہ کہنے لگو کہ شرک تو پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا اور ہم ان کے بعد (ان کی) اولاد ہوئے تو کیا تو ہمیں اس پر ہلاک فرمائے گا جو اہلِ باطل نے کیا۔
{وَ اِذْ:اور اے محبوب! یاد کرو ۔} اس آیت میں فرمایا گیا کہ ’’ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، یاد کرو جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی‘‘ جبکہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت سے ان کی ذُرِّیَّت نکالی۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الاعراف ، ۵۱:۵ ، الحدیث : ۳۰۸۶)
آیت و حدیث دونوں پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذریت نکالنا اسی ترتیب کے ساتھ ہواجس طرح دنیا میں انہوں نے ایک دوسرے سے پیدا ہونا تھا یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پشت سے ان کی اولاد اور اولاد کی پشت سے ان کی اولاد اسی طرح قیامت تک پیداہونے والے لوگ ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کیلئے رَبوبیت اور وحدانیت کے دلائل قائم فرما کر اور عقل دے کر اُن سے اپنی ربوبیت کی شہادت طلب فرمائی تو سب نے کہا:کیوں نہیں ، ہم نے اپنے اوپر گواہی دی اور تیری ربوبیت اور وحدانیت کا اقرار کیا۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۲ / ۱۵۶)
{اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ:کہ تم قیامت کے دن کہو۔} اس آیت اور بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کرنے والو! یہ گواہ بنانا اس لئے تھا تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! ہم جو شرک و کفر میں مبتلا رہے ہیں اس میں ہمارا قصورنہیں ،کیونکہ ہمیں خبر تھی ہی نہیں کہ تو ہی ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ہے اور تیرے سوا کوئی بھی رب نہیں اور اے ربِّ کریم !تو بے خبر کو نہیں پکڑتا ،لہٰذا ہمیں چھوڑ دے اور عذاب نہ دے اور نہ ہی یہ کہہ سکو کہ ’’ہم کفر و شرک میں اس لئے بے قصور ہیں کہ ہمارے باپ دادا مشرک تھے ہم تو ان کی وجہ سے شرک میں مبتلاہوئے، قصور ان کاہے نہ کہ ہمارا۔ انہیں یہ باتیں کہنے کا حق اس لئے نہ ہوگاکہ جب اُن سے عہدِ میثاق لے لیا گیا اور یہ بات ان کے دلوں کی تہہ میں رکھ دی گئی اوراس عہد کی یاددہانی کیلئے اُن کے پاس رسول آئے اور انہوں نے اس عہد کو یاد دلایا، کتابیں اتریں اور ان کے سامنے حق بیان کردیا گیا تو اب یہ عذر کرنے کا ان کے پاس موقع نہ رہا۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۲، ۲ / ۱۷۸)
ان آیات سے 3احکام معلوم ہوئے
(1)… عمومی طور پرشرعی احکام میں بے خبری معتبر نہیں ، کوئی یہ عذر پیش کر کے کہ مجھے معلوم نہیں تھا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں چھوٹ سکتا۔ ہر شخص پر فرض ہے کہ ضرورت کے مطابق دینی مسائل سیکھے ۔
(2)… عقائد میں باپ دادوں کی تقلید درست نہیں ، اللہتعالیٰ نے عقل دی ہے لہٰذا خود تحقیق کر کے درست عقیدے اختیار کرنے چاہئیں۔
(3)… گناہ کی بنیاد ڈالنااگرچہ سخت تر جرم ہے مگر بعد میں دوسرے لوگ یہ گناہ کرنے والے بھی مجرم ہوں گے ،وہ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ ہم چونکہ اس گناہ کو ایجاد کرنے والے نہیں اس لئے قصور وار بھی نہیں۔
وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۱۷۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہم اسی طرح آیتیں رنگ رنگ سے بیان کرتے ہیں اور اس لیے کہ کہیں وہ پھر آئیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہم اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں اور اس لیے کہ وہ رجوع کرلیں۔
{وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ:اور ہم اسی طرح تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، جس طرح آپ کی قوم کے سامنے ہم نے اس سورت کی آیات تفصیل سے بیان کی ہیں ہم ان کے علاوہ آیات بھی اسی طرح تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ بندے تَدَبُّرو تفکر کرکے حق و ا یمان قبول کریں اور اس لیے تفصیل سے آیات بیان کرتے ہیں تا کہ وہ شرک و کفر سے توحید و ا یمان کی طرف رجوع کر لیں اور صاحبِ معجزات نبی کے بتانے سے اپنے عہدِ میثاق کو یاد کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (تفسیر طبری، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۴، ۶ / ۱۱۸، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۴، ۲ / ۱۵۸، ملتقطاً)
چونکہ قرآنِ کریم تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور لوگوں میں سے بعض ڈر سے ، بعض لالچ سے اور بعض دلائل سے مانتے ہیں ، اس لئے قرآنِ کریم میں ہر طرح کی آیات مذکور ہیں کہ جو جس چیز سے مان سکے مان لے۔
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(۱۷۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہوگیا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے محبوب! انہیں اس آدمی کا حال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیات عطا فرمائیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تووہ آدمی گمراہوں میں سے ہوگیا۔
{وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا:اور اے محبوب!انہیں اس آدمی کا حال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیات عطا فرمائیں۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود اور امام مجاہد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم فرماتے ہیں ’’یہ آیت بلعم بن باعوراء کے بارے میں نازل ہوئی۔ (تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۵ / ۴۰۳)
حضر ت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں یہ آیت امیہ بن ابو صلت کے بارے میں نازل ہوئی۔( سنن الکبری للنسائی، کتاب التفسیر، سورۃ الاعراف، ۶ / ۳۴۸، الحدیث: ۱۱۱۹۴)
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں یہ آیت ابو عامر بن صیفی کے بارے میں نازل ہوئی۔ (تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۴ / ۲۲۹، الجزء السابع)
بلعم بن باعوراء کا واقعہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جَبّارین سے جنگ کا ارادہ کیا اور سرزمینِ شام میں نزول فرمایا تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ’’ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت تیز مزاج ہیں اور اُن کے ساتھ بہت بڑا لشکر ہے ،وہ یہاں ا س لئے آئے ہیں تاکہ ہم سے جنگ کریں اور ہمیں ہمارے شہروں سے نکال کر ہماری بجائے بنی اسرائیل کو اس سرزمین میں آباد کریں ، تیرے پاس اسمِ اعظم ہے اور تم ایسے شخص ہو کہ تمہاری ہر دعا قبول ہوتی ہے، تم نکلو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اُنہیں یہاں سے بھگا دے ۔قوم کی بات سن کربلعم نے کہا :افسوس ہے تم پر! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں ، اُن کے ساتھ فرشتے اور ا یمان دار لوگ ہیں ،اس لئے میں اُن کے خلاف کیسے بد دعا کر سکتا ہوں ! مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر میں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خلاف ایسا کیا تو میری دنیا و آخرت برباد ہوجائے گی ۔ قوم نے جب گریہ و زاری کے ساتھ مسلسل اصرار کیا تو بلعم نے کہا :اچھا! میں پہلے اپنے رب کی مرضی معلوم کرلوں۔ بلعم کا یہی طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی دعا کرتا توپہلے مرضی ٔالٰہی معلوم کرلیتا اور خواب میں اس کا جواب
مل جاتا، چنانچہ اس مرتبہ اس کو یہ جواب ملا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور اُن کے ساتھیوں کے خلاف دعا نہ کرنا۔ چنانچہ اُس نے قوم سے کہہ دیا کہ ’’میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی تھی مگر میرے رب نے اُن کے خلاف بد دعا کرنے کی ممانعت فرما دی ہے۔ پھراس کی قوم نے اسے ہدیئے اور نذرانے دیئے جنہیں اُس نے قبول کر لیا ۔اس کے بعد قوم نے دوبارہ اس سے بددعا کرنے کی درخواست کی تو دوسری مرتبہ بلعم نے رب تبارک وتعالیٰ سے اجازت چاہی۔ اب کی بار اس کا کچھ جواب نہ ملا تو اُس نے قوم سے کہہ دیا کہ’’ مجھے اس مرتبہ کچھ جواب ہی نہیں ملا۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ بھی صاف منع فرما دیتا، پھر قوم نے اور بھی زیادہ اصرار کیا حتّٰی کہ وہ ان کی باتوں میں آ گیا۔ چنانچہ بلعم بن باعوراء اپنی گدھی پر سوار ہو کر ایک پہاڑ کی طرف روانہ ہوا۔ گدھی نے اسے کئی مرتبہ گرایا اور وہ پھر سوار ہو جاتا حتّٰی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے گدھی نے اس سے کلام کیا اور کہا: افسوس! اے بلعم! کہاں جا رہے ہو؟ کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فرشتے مجھے جانے سے روک رہے ہیں۔ (شرم کرو) کیا تم اللہ تعالیٰ کے نبی اور فرشتوں کے خلاف بد دعا کرنے جا رہے ہو؟بلعم پھر بھی باز نہ آیا اور آخر کار وہ بددعا کرنے کے لئے اپنی قوم کے ساتھ پہاڑ پر چڑھا۔ اب بلعم جو بددعا کرتا اللہتعالیٰ اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا تھا اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تھا توبجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اُس کی زبان پر آتا تھا۔ یہ دیکھ کراس کی قوم نے کہا: اے بلعم!تو یہ کیا کررہا ہے؟ بنی اسرائیل کیلئے دعا اور ہمارے لئے بددعا کیو ں کر رہا ہے؟ بلعم نے کہا:’’ یہ میرے اختیار کی بات نہیں ،میری زبان میرے قبضہ میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت مجھ پر غالب آ گئی ہے۔ اتنا کہنے کے بعد اس کی زبان نکل کر اس کے سینے پر لٹک گئی ۔ اس نے اپنی قوم سے کہا :میری تو دنیا و آخرت دونوں برباد ہوگئیں ،اب میں تمہیں ان کے خلاف ایک تدبیر بتاتا ہوں ’’تم حسین و جمیل عورتوں کو بنا سنوار کر ان کے لشکر میں بھیج دو، اگر ان میں سے ایک شخص نے بھی بدکاری کر لی تو تمہارا کام بن جائے گا کیونکہ جو قوم زنا کرے اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیتا، چنانچہ بلعم کی قوم نے اسی طرح کیا، جب عورتیں بن سنور کر لشکر میں پہنچیں تو ایک کنعانی عورت بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پا س سے گزری تو وہ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے اسے پسند آ گئی۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے منع کرنے کے باوجود اس سردار نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی، اس کی پاداش میں اسی وقت بنی اسرائیل پر طاعون مُسلَّط کر دیا گیا۔ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مُشیر اس وقت وہاں موجود نہ تھا جب وہ آیا تو اس نے بدکاری کا قصہ معلوم ہونے کے بعد مردوعورت دونوں کو قتل کر دیا۔ تب طاعون کا عذاب ان سے اٹھا لیا گیا ، لیکن اس دوران ستر ہزار اسرائیلی طاعون سے ہلاک ہو چکے تھے۔اس آیت میں اس کا بیان ہے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۲ / ۱۷۹-۱۸۰)
وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُۚ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِۚ-اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْهِ یَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ یَلْهَثْؕ-ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۚ-فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۱۷۶)سَآءَ مَثَلَا ﰳالْقَوْمُ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنْفُسَهُمْ كَانُوْا یَظْلِمُوْنَ(۱۷۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے اٹھالیتے مگر وہ تو زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں۔ کیا بری کہاوت ہے ان کی جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور اپنی ہی جان کا برا کرتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اوراگر ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوگیا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پرسختی کرے تو زبان نکالے اور تو اسے چھوڑ دے تو(بھی) زبان نکالے ۔یہ ان لوگوں کا حال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایاتو تم یہ واقعات بیان کرو تا کہ وہ غوروفکر کریں۔ کتنی بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کیا کرتے تھے۔
{وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا:اوراگر ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے بلند مرتبہ کردیتے۔} یعنی اگر ہم چاہتے تو نافرمانی کرنے سے پہلے ہی اسے روک دیتے پھران آیات پر عمل کی وجہ سے اسے بلند مرتبہ عطا فرما کر اَبرار کی منازل میں پہنچا دیتے ، لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہو گیا اور اس نے دنیا اور اس کی لذتوں کو آخرت اور اس کی نعمتوں پر ترجیح دینے میں اپنی خواہش کی پیروی کی۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۴ / ۲۳۰، الجزء السابع، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ص۳۹۵، ملتقطاً)
اس آیت میں بلعم بن باعوراء کا حال بیان ہوا ،یہ شخص فضل و کمال کی اس منزل پر فائز تھا کہ گزشتہ کتابوں کا عالم تھا، اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم اسے معلوم تھا، جو دعا مانگتا وہ قبول ہوتی تھی، اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے عرش کو دیکھ لیتا تھا، بارہ ہزار طلباء اس کے درس میں شریک ہو کر اس کی باتیں لکھا کرتے تھے۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۲ / ۷۲۷)
فضل و کمال کاا تنا بڑا مرتبہ پانے والا شخص جب اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا، دنیا کے مال اور اس کی نعمتوں کی طرف راغب ہو گیا، آخرت اور اس کی نعمتوں کو پسِ پشت ڈال دیا تو انجامِ کار جو کچھ اسے عطا ہوا تھا سب چھین لیا گیا،اس کا ایمان برباد ہو گیا اور دنیا و آخرت میں خائب و خاسِر ہوا۔ اس واقعے میں ان علماء کے لئے بڑی نصیحت ہے کہ جو اپنے علم کے ذریعے (یا اپنے علم کے باوجود) اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے اور دنیا کا مال اور اس کی نعمتیں طلب کرتے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۲ / ۱۶۰)
یاد رہے کہ مال اور مرتبے کی حرص دین کے لئے انتہائی نقصان دِہ ہے اور قلبی لالچ کی وجہ سے لئے گئے مال میں برکت نہیں دی جاتی ،چنانچہ حضرت کعب بن مالک انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑئے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کیلئے نقصان دہ ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۳-باب، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)
اور حضرت حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ اے حکیم! یہ مال تروتازہ اور میٹھا ہے، جو اسے اچھی نیت سے لے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے اور جو اسے قلبی لالچ سے لے گا تو اس میں ا سے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو کھائے اور شکم سیر نہ ہو اور (یاد رکھو) اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ہذا المال خضرۃ حلوۃ، ۴ / ۲۳۰، الحدیث: ۶۴۴۱)
{فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ:تو اس کا حال کتے کی طرح ہے۔} اس آیت میں دنیا کے مال و متاع کی وجہ سے دین کے احکام پسِ پشت ڈالنے والے عالم کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کتا ایک ذلیل جانور ہے اور ذلیل تر کتا وہ ہے جو تھکاوٹ، شدت کی گرمی اور پیاس ہونے یا نہ ہونے کے باوجود ہر وقت زبان باہر نکال کر ہانپتا رہتا ہو۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ علمِ دین کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائے اور اسے لوگوں کے مال سے بے نیاز کر دے ، پھر وہ کسی حاجت و ضرورت کے بغیر صرف اپنی قلبی خساست اور کمینہ پن کی وجہ سے دین کے واضح احکام سے اعراض کر کے دنیا کے مال دولت اور منصب ومرتبے کی طرف جھکے اور اس خبیث عمل پر قائم رہے تو وہ ہانپنے والے کتے کی طرح ہے کہ ہر وقت ہانپنے والا کتا کسی حاجت کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی فطرت کی وجہ سے ہانپتا رہتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۶، ۵ / ۴۰۵)
اس آیت میں ان درباری علماء کیلئے بڑی عبرت ہے جو منصب و مرتبے، مُراعات و وظائف کے حصول کی خاطر حکام کی طبیعت کے مطابق فتوے اور ان کے موافق بیان دیتے ہیں۔ اگر یہ فتوے قرآن و حدیث کی صریح نصوص سے ٹکراتے ہوں تو انہیں ڈر جانا چاہئے کہ کہیں ان کا انجام بھی بلعم کی طرح نہ ہو جائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کا گستاخ عالم اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتے کی طرح ہے کہ نہ دنیا میں عزت نصیب ہو اور نہ آخرت میں کیونکہ بلعم اللہ عَزَّوَجَلَّ کا منکر نہ تھا ، وہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مخالف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے کتے کی بدترین حالت سے تشبیہ دی ۔
مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِیْۚ-وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۱۷۸)وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ ﳲ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا٘-وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۷۹)
ترجمۂکنزالایمان:جسے اللہ راہ دکھائے تو وہی راہ پر ہے اور جسے گمراہ کرے تو وہی نقصان میں رہے۔ اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:جسے اللہ ہدایت دے تو وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور جنہیں اللہ گمراہ کردے تو وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔ اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنات اور انسان پیدا کئے ہیں ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی ایسی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ سنتے نہیں ، یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ،یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
{مَنْ یَّهْدِ اللّٰهُ:جسے اللہ ہدایت دے ۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہدایت اور گمراہی دونوں کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ ان میں سے کسی کو اختیار کرنا بندے کی طرف سے ہے ،لہٰذا بندہ اگر ہدایت اختیار کرتا ہے تو اللہتعالیٰ اس میں ہدایت پیدا فرما دیتا ہے اور اگر وہ گمراہی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں گمراہی پیدا فرما دیتا ہے۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۸، ۳ / ۲۷۹)
{وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ:اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کئے۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ بہت سے جِنّات اور انسانوں کا انجام جہنم میں داخلہ ہوگا۔ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا اصل مقصد تواللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت ہے جیسا کہ اِس آیت میں ہے :
’’ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘(الذاریات:۵۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔
لیکن ان میں سے بہت کا انجامِ کار جہنم ہے۔اس آیت کے لفظ ’’لِجَهَنَّمَ‘‘ کی ابتداء میں مذکور لام’’ لامِ عاقبت‘‘ ہے۔ عربی سے واقف حضرات اسے آسانی سے سمجھ لیں گے۔
{لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا: ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ سمجھتے نہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفارکے ہولناک انجام کی وجہ بیان فرمائی کہ یہ جہنم کا ایندھن اس لئے بنے کہ ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ حق سے اِعراض کرکے آیاتِ اِلٰہیہ میں تَدَبُّر کرنے سے محروم ہوگئے حالانکہ یہی دل کا خاص کام تھا۔ ان کی ایسی آنکھیں ہیں کہ جن کے ساتھ وہ حق و ہدایت کا راستہ، اللہتعالیٰ کی روشن نشانیاں اور توحید کے دلائل نہیں دیکھتے۔ ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ قرآن کی آیات اور اس کی نصیحتیں قبول کرنے کیلئے نہیں سنتے اور قلب و حواس رکھنے کے باوجود وہ اُمورِ ِدین میں اُن سے نفع نہیں اٹھاتے لہٰذا یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۲ / ۱۶۲)
کفار کو جانوروں سے بد تر فرمانے کی متعدد وُجوہات ہیں :
(1)…جانوروں میں اللہ تعالیٰ کی آیات سمجھنے، دیکھنے اور سننے کی قوت ہی نہیں لہٰذا اگر وہ نہ سمجھیں تو معذور ہیں لیکن کفار کے اعضا میں یہ قوت ہے، پھر بھی وہ اس سے کام نہیں لیتے لہٰذا وہ جانوروں سے بد تر ہیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۲ / ۱۶۲)
(2)…چوپایہ بھی اپنے نفع کی طرف بڑھتا ہے اور ضَرر سے بچتا اور اس سے پیچھے ہٹتا ہے لیکن کافر جہنم کی راہ پر چل کر اپنا ضرر اختیار کرتا ہے تو اس سے بدتر ہوا۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ص۳۹۶)
(3)…جانور اپنے مالک کے کہنے پر چلتے ہیں جبکہ کافر نافرمان ہیں کہ اپنے مالک ِ حقیقی خداوند ِ قُدوس کے احکام کی مخالفت کرتے ہیں ا س لئے جانوروں سے بد تر ہیں۔ امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آدمی روحانی ، شَہوانی ،سَماوی، اَرضی ہے جب اس کی روح شہوت پر غالب ہوجاتی ہے تو ملائکہ سے فائق ہوجاتا ہے اور جب شہوات روح پر غلبہ پاجاتی ہیں تو زمین کے جانوروں سے بدتر ہوجاتا ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ص۳۹۶)
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۸۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو اور انہیں چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے نکلتے ہیں وہ جلد اپنا کیا پائیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
{وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى:اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں۔} شانِ نزول: ابوجہل نے کہا تھا کہ محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) اور ان کے اصحاب (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ )کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ ایک پروردگار کی عبادت کرتے ہیں پھر وہ اللہ اور رحمٰن دو کو کیوں پکارتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۲ / ۱۶۲)
اور اس جاہل بے خِرَد کو بتایا گیا کہ معبود تو ایک ہی ہے نام اس کے بہت ہیں۔
اَحادیث میں اسماءِ حسنیٰ کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے دو احادیث درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو، جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب ما یجوز من الاشتراط والثّنیا فی الاقرار۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۲۹، الحدیث: ۲۷۳۶)
حضرت علامہ یحیٰ بن شرف نووی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے الٰہیہ ننانوے میں مُنْحَصِر نہیں ہیں ، حدیث کا مقصود صرف یہ ہے کہ اتنے ناموں کے یاد کرنے سے انسان جنتی ہو جاتا ہے۔ (نووی علی المسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ۔۔۔ الخ، باب فی اسماء اللہ تعالٰی وفضل من احصاہا، ۹ / ۵، الجزء السابع عشر)
(2)…ایک روایت میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کے ذریعے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوقبول فرمائے گا۔(جامع صغیر، حرف الہمزۃ، ص۱۴۳، الحدیث: ۲۳۷۰)
حدیثِ پاک میں اللہ تعالیٰ کے یہ ننانوے اسماء بیان کئے گئے ہیں : ’’ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ الْغَفَّارُ الْقَہَّارُ الْوَہَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَّاحُ الْعَلِیمُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْمُعِزُّ الْمُذِلُّ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ الْحَکَمُ الْعَدْلُ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ الْحَلِیمُ الْعَظِیمُ الْغَفُورُ الشَّکُورُ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ الْحَفِیظُ الْمُقِیتُ الْحَسِیبُ الْجَلِیلُ الْکَرِیمُ الرَّقِیْبُ الْمُجِیبُ الْوَاسِعُ الْحَکِیمُ الْوَدُودُ الْمَجِیدُ الْبَاعِثُ الشَّہِیدُ الْحَقُّ الْوَکِیلُ الْقَوِیُّ الْمَتِینُ الْوَلِیُّ الْحَمِیدُ الْمُحْصِی الْمُبْدِئُ الْمُعِیدُ الْمُحْیِیْ الْمُمِیتُ الْحَیُّ الْقَیُّومُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ الْاَوَّلُ الآخِرُ الظَّاہِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِی الْمُتَعَالِی الْبَرُّ التَّوَّابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُوُّ الرَّئُ وفُ مَالِکُ الْمُلْکِ ذُو الْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِیُّ الْمُغْنِی الْمَانِعُ الضَّارُّ النَّافِعُ النُّورُ الْہَادِی الْبَدِیعُ الْبَاقِی الْوَارِثُ الرَّشِیدُ الصَّبُورُ‘‘ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۸۲-باب، ۵ / ۳۰۳، الحدیث: ۳۵۱۸)
اس موقع پراسمائے باری تعالیٰ پڑھ کر دعا مانگنے کا ایک بہترین طریقہ حاضرِ خدمت ہے’’ بزرگ فرماتے ہیں : جو شخص اس طرح دعا مانگے کہ پہلے کہے ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ یَارَحْمٰنُ، یَارَحِیْمُ ‘‘ پھر ’’رحیم‘‘ کے بعد سے تمام اسمائے مبارکہ حرفِ ندا کے ساتھ پڑھے (یعنی یِامَلِکُ، یَاقُدُّوْسُ، یَاسَلَام…یونہی آخر تک) جب اسماء مکمل ہو جائیں تو یوں کہے ’’اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَاَنْ تَرْزُقَنِیْ وَجَمِیْعَ مَنْ یَّتَعَلَّقُ بِیْ بِتَمَامِ نِعْمَتِکَ وَدَوَامِ عَافِیَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن‘‘پھر دعا مانگے، ان شاءَاللہ عَزَّوَجَلَّ مراد پوری ہوگی اور کبھی دعا رد نہ ہو گی۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۳ / ۲۸۲)
{اَلَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ:جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں۔} اللہ تعالیٰ کے ناموں میں حق و اِستقامت سے دور ہونا کئی طرح سے ہے ایک تو یہ ہے کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا جیسا کہ مشرکیننے اِلٰہ کا’’ لات‘‘ اور عزیز کا’’ عُزّیٰ‘‘ اور منان کا ’’مَنات‘‘ کرکے اپنے بتوں کے نام رکھے تھے، یہ ناموں میں حق سے تَجاوُز اور ناجائز ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایسا نام مقرر کیا جائے جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو یہ بھی جائز نہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کو سخی کہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اَسماء تَوقِیفیہ ہیں۔ تیسرا یہ کہ حسنِ ادب کی رعایت نہ کرنا ۔ چوتھا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی ایسا نام مقرر کیا جائے جس کے معنی فاسد ہوں یہ بھی بہت سخت ناجائز ہے ،جیسے کہ لفظ رام اور پرماتما وغیرہ۔ پانچواں یہ کہ ایسے اسماء کا اطلاق کرنا جن کے معنی معلوم نہیں ہیں اور یہ نہیں جانا جاسکتا کہ وہ جلالِ الٰہی کے لائق ہیں یا نہیں۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۲ / ۱۶۴)
اِلْحاد فی الاسماء کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ غیرُاللہ پر اللہ تعالیٰ کے ان ناموں کا اِطلاق کیا جائے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ خاص ہیں۔ جیسے کسی کا نام رحمٰن، قدوس، خالق، قدیر رکھنا یا کہہ کر پکارنا، ہمارے زمانے میں یہ بلا بہت عام ہے کہ عبدالرحمٰن کو رحمٰن، عبدالخالق کو خالق اور عبد القدیر کو قدیر وغیرہ کہہ کر پکارتے ہیں یہ حرام ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔
وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ۠(۱۸۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور ہمارے بنائے ہوؤں میں ایک گروہ وہ ہے کہ حق بتائیں اور اس پر انصاف کریں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہماری مخلوق میں سے ایک ایسا گروہ ہے جو حق کی ہدایت دیتا ہے اور اسی کے مطابق عدل کرتے ہیں۔
{وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ:اور ہماری مخلوق میں سے ایک گروہ۔} یہ گروہ اہلِ حق علماء اور ہادیانِ دین کا ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۱، ص۳۹۷)
اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ ہر زمانہ کے اہلِ حق کا اِجماع حجت ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی زمانہ حق پرستوں اور دین کے ہادیوں سے خالی نہ ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے، حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایتہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ میری اُمت کا ایک گروہ تاقیامت دینِ حق پر قائم رہے گا اس کو کسی کی عداوت و مخالفت ضَرر نہ پہنچا سکے گی۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تزال طائفۃ من امتی۔۔۔ الخ، ص ۱۰۶۱، الحدیث: ۱۷۰(۱۹۲۰))
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ(۱۸۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں جلد ہم انہیں آہستہ آہستہ عذاب کی طرف لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر نہ ہوگی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔
{ وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ’’ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم انہیں اس طرح ہلاکت وعذاب کے قریب کر دیں گے کہ انہیں پتا بھی نہ چل سکے گا کیونکہ یہ لوگ جب کوئی جرم یا گناہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ان پر نعمت اور بھلائی کے دروازے کھول دیتا ہے، دُنیَوی نعمتوں کی فراوانی دیکھ کر یہ بہت خوش ہوتے ہیں اور سرکشی و گمراہی، گناہ اور مَعاصی کا بازار مزید گرم کر دیتے ہیں حتّٰی کہ جتنا نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی گناہ زیادہ کرتے ہیں ، پھر اچانک عین غفلت کی حالت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۲، ۵ / ۴۱۸)
اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے بھی بڑی عبرت ہے جو دن رات گناہوں میں مصروف رہنے کے باجود عیش و فراوانی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آئے دن ان کی عیش و عشرت اور مال دولت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، انہیں بھی اس بات سے ڈر جانا چاہئے کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کیلئے ڈھیل نہ ہو اور عین غفلت کی حالت اللہ تعالیٰ ان کی گرفت نہ فرما لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ‘‘ (انعام:۴۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیاجو انہیں کی گئی تھیں توہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ اس پرخوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تو ہم نے اچانک انہیں پکڑلیاپس اب وہ مایوس ہیں۔
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب تم یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے گناہوں کے باوجود ان کے سوالوں کے مطابق عطا فرما رہاہے تو یہ ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِستِدراج اور ڈھیل ہے ۔ (مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عقبۃ بن عامر الجہنی، ۶ / ۱۲۲، الحدیث: ۱۷۳۱۳)
حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں جب کسریٰ کے خزانے لائے گئے تو اس وقت انہوں نے دعا کی ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں ڈھیل دئیے جانے والوں سے ہوں کیونکہ میں نے تیرا یہ ارشاد سنا ہے:
’’سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان:عنقریب ہم انہیں آہستہ آہستہ (عذاب کی طرف) لے جائیں گے جہاں سے انہیں خبر بھی نہ ہوگی۔ (سنن الکبری للبیہقی، کتاب قسم الفیء والغنیمۃ، باب الاختیار فی التعجیل بقسمۃ مال الفیء اذا اجتمع، ۶ / ۵۸۱، الحدیث: ۱۳۰۳۳)
وَ اُمْلِیْ لَهُمْؕ-اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ(۱۸۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور میں انہیں ڈھیل دوں گا بیشک میری خفیہ تدبیر بہت پکی ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور میں انہیں ڈھیل دوں گا بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے۔
{وَ اُمْلِیْ لَهُمْ:اور میں انہیں ڈھیل دوں گا ۔} یعنی میں ان کی عمر لمبی کر دوں گا تاکہ یہ کفر اور گناہوں میں مزید آگے بڑھ جائیں اور گناہوں کی وجہ سے ان پر جلدی عذاب نازل نہیں کروں گا تاکہ ان کی توبہ اور رجوع کی کوئی صورت نہ رہے، بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط اور میری گرفت سخت ہے۔(تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۳، ۵ / ۴۱۸، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۳، ۳ / ۲۸۸، ملتقطاً)
یاد رہے کہ کفر اور گناہوں کے باوجود لمبی عمر ملنا، فوری عذاب نہ ہونا اور مَصائب و آلا م کانہ آنا ایسی چیز نہیں کہ جسے اپنے حق میں بہتر سمجھا جائے بلکہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں یہی مہلت گناہوں میں اضافے اور تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے، ارشادِ رَبّانی ہے: ’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا نُمْلِیْ لَهُمْ لِیَزْدَادُوْۤا اِثْمًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ‘‘ (آل عمران:۱۷۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور کافر ہرگز یہ گمان نہ رکھیں کہ ہم انہیں جومہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے ، ہم توصرف اس لئے انہیں مہلت دے رہے ہیں کہ ان کے گناہ اور زیادہ ہوجائیں اور ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔
حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :ایک شخص نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہوں۔ اس نے عرض کی:لوگوں میں سب سے بد تر کون ہے؟ ارشاد فرمایا ’’ جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برے ہوں۔(ترمذی، کتاب الفتن، ۲۲-باب منہ، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۷)
اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْاٚ-مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(۱۸۴)
ترجمۂکنزالایمان: کیا سوچتے نہیں کہ ان کے صاحب کوجنون سے کچھ علاقہ نہیں وہ تو صا ف ڈر سنانے والے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا وہ غوروفکر نہیں کرتے کہ ان کے صاحب کے ساتھ جنون کا کوئی تعلق نہیں ، وہ تو صا ف ڈر سنانے والے ہیں۔
{مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ:ان کے صاحب کے ساتھ جُنون کا کوئی تعلق نہیں۔} کفارِ مکہ میں سے بعض جاہل قسم کے لوگ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سیدُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے افعال کفار کے افعال سے جدا تھے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ دنیا اور اس کی لذتوں سے منہ پھیر کر آخرت کی طرف متوجہ تھے ۔ اللہتعالیٰ کی طرف دعوت دینے اور اس کا خوف دلانے میں شب و روز مشغول تھے، یوں نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا عمل ان کے طریقے کے مخالف ہوا تو انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو مجنون سمجھا۔ حضرت حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ رات کے وقت کوہِ صفا پر چڑھ کر قبیلے قبیلے کو پکارتے ہوئے فرماتے ’’اے بنی فلاں ! اے بنی فلاں ! اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈراتے تو کفار میں سے کوئی کہتا کہ تمہارے صاحب مجنون ہیں ،رات سے لے کر صبح تک چلاتے رہتے ہیں اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے معمولات میں انہیں غورو تَفکر کرنے کی دعوت دی تا کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کسی جنون کی وجہ سے نہیں بلکہ انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرانے کے لئے پکارتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وحی نازل ہوتے وقت رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر عجیب حالت طاری ہوتی، چہرہ مُتَغَیّر ہوجاتا، رنگ پیلا پڑ جاتا اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آپ پر غشی طاری ہو۔ یہ دیکھ کر جاہل لوگ آپ کی طرف جنون کی نسبت کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کا رد کرتے ہوئے اس آیت میں فرمایا کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر کسی قسم کا جنون نہیں یہ تو انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف بلاتے ہیں اور اپنے فصیح الفاظ کے ساتھ قطعی دلائل پیش کرتے ہیں ،ان کی فصاحت کا مقابلہ کرنے سے پوری دنیائے عرب عاجز آ چکی ہے۔ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اخلاق بہت عمدہ اور مُعاشرت بڑی پاکیزہ ہے،ان کی ہر عادت و خصلت انتہائی نیک ہے ہمیشہ اچھے کام کرتے ہیں اور اسی وجہ سے تمام عقلمندوں کے مُقتدا و پیشوا ہیں اور یہ بالکل بدیہی بات ہے کہ جو انسان عمدہ اور پاکیزہ شخصیت کا حامل ہو اسے مجنون قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۴، ۲ / ۱۶۵، تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۴، ۵ / ۴۲۰)
اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍۙ-وَّ اَنْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْۚ-فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۭ بَعْدَهٗ یُؤْمِنُوْنَ(۱۸۵)
ترجمۂکنزالایمان: کیا انہو ں نے نگاہ نہ کی آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں اور جو جو چیز اللہ نے بنائی اور یہ کہ شاید ان کا وعدہ نزدیک آگیا ہو تو اس کے بعد اور کونسی بات پر یقین لائیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا انہو ں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو جو چیز اللہ نے پیدا کی ہے اس میں غور نہیں کیا؟ اور اس بات میں کہ شاید ان کی مدت نزدیک آگئی ہو تو اس (قرآن) کے بعد اور کونسی بات پر ایمان لائیں گے؟
{اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا:کیا انہو ں نے غور نہیں کیا ؟} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ان کفار نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو جو چیز اللہ عَزَّوَجَلَّنے پیدا کی ہے اس میں غور نہیں کیا تاکہ وہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت پر اِستدلال کرتے کیونکہ ان سب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حکمت و قدرت کے کمال کی بے شمار روشن دلیلیں موجود ہیں اور کیا انہوں نے اس بات میں غور نہیں کیا کہ شاید ان کی موت کی مدت نزدیک آگئی ہو اور وہ کفر کی حالت میں مرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوجائیں ؟ ایسے حال میں عقل مند پر لازم ہے کہ وہ سوچے، سمجھے اور دلائل پر نظر کرے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی رسالت اور قرآنِ عظیم کے کتابِ الٰہی ہونے پر ایمان لائے کیونکہ قرآنِ پاک کے بعد اور کوئی کتاب اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے بعد اور کوئی رسول آنے والا نہیں جس کا انتظار ہو کہ قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں ،اگر ان پر ایمان نہیں لایا تو پھر کس پر ایمان لائے گا۔
مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗؕ-وَ یَذَرُهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۱۸۶)
ترجمۂکنزالایمان: جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور انہیں چھوڑتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں اور وہ انہیں چھوڑتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔
{مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِیَ لَهٗ:جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔}اس آیت کا یہ معنی نہیں ہے کہ کفار کو اللہ تعالیٰ نے گمراہ کیا ہے کیونکہ اگر یہ معنیٰ ہو تو کفار قیامت کے دن حجت پیش کریں گے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں گمراہ کر دیا تھا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟کس قانون کی بنا پر ہمیں ہماری گمراہی کی سزا دی جا رہی ہے؟ بلکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب مسلسل کفریہ عقائد پر جمے رہنے کی وجہ سے کفار کے دلوں میں گمراہی راسخ ہو گئی اور وہ اپنی سر کشی میں حد سے بڑھ گئے حتّٰی کہ انہوں نے اپنے اختیار سے اس چیز کو ضائع کر دیا جو انہیں ہدایت اور ایمان کی دعوت دیتی تو پھر ان کے دل و دماغ سے دعوت ِحق قبول کرنے کی اِستِعداد جاتی رہی اور وہ اس طرح ہو گئے گویا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہی پر پیدا کیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کو چھوڑے رکھنا اور اس کی گرفت نہ کرنا عذاب ہے یعنی یوں کہ بندہ کفر و شرک اور گناہ کرتا رہے لیکن کوئی پکڑ نہ ہو جبکہ اس کے برعکس بندے کی معمولی بات پر گرفت ہو جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہے۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے جلد ہی دنیا میں سز ادیتا ہے اور اگر کسی بندے سے برائی کا ارادہ کرتا ہے تو گناہ کے سبب اس کا بدلہ روک رکھتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پورا بدلہ دے گا۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، ۴ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۴۰۴)
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَیَّانَ مُرْسٰىهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْۚ-لَا یُجَلِّیْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ ﲪ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةًؕ-یَسْــٴَـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِیٌّ عَنْهَاؕ-قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۸۷)
ترجمۂکنزالایمان: تم سے قیامت کو پوچھتے ہیں کہ وہ کب کو ٹھہری ہے تم فرماؤ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے اسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا بھاری پڑ رہی ہے آسمانوں او رزمین میں تم پر نہ آئے گی مگر اچانک تم سے ایسا پوچھتے ہیں گویا تم نے اسے خوب تحقیق کر رکھا ہے تم فرماؤ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے لیکن بہت لوگ جانتے نہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے ؟ تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے، اسے وہی اس کے وقت پر ظاہر کرے گا ،وہ آسمانوں او رزمین میں بھاری پڑ رہی ہے، تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔ آپ سے ایسا پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی خوب تحقیق کر چکے ہیں ، تم فرماؤ :اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ:آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں۔} شانِ نزول: حضرتِ عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہودیوں نے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیے کہ قیامت کب قائم ہوگی کیونکہ ہمیں اس کا وقت معلوم ہے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲ / ۱۶۵) اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔
{قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ:تم فرماؤ: اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے۔} اس آیت میں بتادیا گیا کہ قیامت کے مُعَیَّن وقت کی خبر دینا رسول کی کوئی ذمہ داری نہیں کیونکہ یہ علمِ شریعت نہیں جس کی اشاعت کی جائے بلکہ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے اَسرار میں سے ہے جس کا چھپانا ضروری ہے ،لہٰذا اگر اس سربستہ راز کو ہر طرح سے ظاہر کر دیا جائے تو پھر قیامت کااچانک آناباقی نہ رہے گا حالانکہ اسی آیت میں تصریح ہے کہ ’’لَا تَاْتِیْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً‘‘ تم پر وہ اچانک ہی آجائے گی۔ عوام سے قیامت کا علم مخفی رکھنے کی وجہ سے متعلق علماء فرماتے ہیں ’’ بندوں سے قیامت کا علم اور اس کے وقوع کا وقت مخفی رکھنے کا سبب یہ ہے کہ لوگ قیامت سے خوف زدہ اور ڈرتے رہیں کیونکہ جب انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ قیامت کس وقت آئے گی تو وہ ا س سے بہت زیادہ ڈریں گے اور ہر وقت گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کوشاں رہیں گے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گناہوں میں مشغول ہوں اور قیامت آجائے۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۷، ۲ / ۱۶۶)
سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے بڑی تفصیل کے ساتھ قیامت سے پہلے اور اس کے قریب ترین اوقات کے بارے میں تفصیلات بیان فرمائی ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو قیامت کا علم تھا۔ ان میں سے 8اَحادیث درج ذیل ہیں :
(1)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی حتّٰی کہ زمانہ جلد جلد گزرنے لگے گا۔ سال ایک ماہ کی طرح گزرے گا۔مہینہ ہفتہ کی طرح گزرے گا۔ ہفتہ ایک دن کی طرح، ایک دن ایک گھنٹے کی طرح اور ایک گھنٹہ آگ کی چنگاری کی طرح گزر جائے گا۔ (ترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی تقارب الزمن وقصر الامل، ۴ / ۱۴۸، الحدیث: ۲۳۳۹)
(2)…حضرت سلامہ بنت حر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اہلِ مسجد امامت کرنے کیلئے ایک دوسرے سے کہیں گے اور انہیں نماز پڑھنے کے لئے کوئی امام نہ ملے گا۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فی کراہیۃ التدافع عن الامامۃ، ۱ / ۲۳۹، الحدیث: ۵۸۱)
(3)… حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھایا جائے گا اور جہل کا ظہور ہو گا، زنا عام ہو گا اور شراب پی جائے گی، مرد کم ہو جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوں گی حتّٰی کہ پچاس عورتوں کا کفیل ایک مرد ہو گا۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب یقلّ الرجال ویکثر النساء، ۳ / ۴۷۲، الحدیث: ۵۲۳۱)
(4)…حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے ،نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جب میری امت پندرہ کاموں کو کرے گی تو اس پر مَصائب کا آنا حلال ہو جائے گا۔ عرض کی گئی: یا رسول اللہ ! وہ کیا کام ہیں ؟ ارشاد فرمایا:’’ جب مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے گا، امانت کو مالِ غنیمت بنالیا جائے گا، زکوٰۃ کو جرمانہ سمجھ لیا جائے گا، جب لوگ اپنی بیوی کی اطاعت کریں گے اور اپنی ماں کی نافرمانی کریں گے، جب دوست کے ساتھ نیکی کریں گے اور باپ کے ساتھ برائی کریں گے، جب مسجدوں میں آوازیں بلند کی جائیں گی، ذلیل ترین شخص کو قوم کا سردار بنا دیا جائے گا، جب کسی شخص کے شر کے ڈر سے اس کی عزت کی جائے گی، شراب پی جائے گی، ریشم پہنا جائے گا، گانے والیاں اور ساز رکھے جائیں گے اور اس امت کے آخری لوگ پہلوں کو برا کہیں گے۔ اس وقت تم سرخ آندھیوں ، زمین کے دھنسنے اور مَسخ کا انتظار کرنا۔ (جامع الاصول، حرف القاف، الکتاب التاسع، الباب الاول، الفصل الحادی عشر، ۱۰ / ۳۸۴، الحدیث: ۷۹۲۵)
(5) …حضرت حذیفہ بن اسید غفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت ہر گز اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو،پھر آپ نے دھویں ،دجّال، دابَّۃُ الارض، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، حضرت عیسیٰ بن مریم کے نزول، یاجوج ماجوج کا اور تین مرتبہ زمین دھنسنے کا ذکر فرمایا، ایک مرتبہ مشرق میں ،ایک مرتبہ مغرب میں ، ایک مرتبہ جزیرۂ عرب میں اور سب کے آخر میں ایک آگ ظاہر ہو گی جو لوگوں کو محشر کی طرف لے جائے گی۔ (مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی الآیات التی تکون قبل الساعۃ، ص۱۵۵۱، الحدیث: ۳۹ (۲۹۰۱))
(6)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے منقول ایک طویل روایت کے آخر میں ہے کہ قیامت یومِ عاشوراء یعنی محرم کے مہینہ کی دس تاریخ کو ہو گی۔ (فضائل الاوقات للبیہقی، باب تخصیص یوم عاشوراء بالذکر، ص۱۱۹، الحدیث: ۲۸۲)
(7)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہو تا ہے وہ جمعہ کا ہے ،اسی دن حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پیدا کئے گئے، اسی دن جنت میں داخل کئے گئے اورا سی دن جنت سے باہر لائے گئے اور قیامت بھی جمعہ کے دن قائم ہو گی۔ (مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص۴۲۵، الحدیث: ۱۸ (۸۵۴))
(8)…حضرت عبداللہبن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی آخری ساعت میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پید اکیا اور اسی ساعت میں قیامت قائم ہو گی۔ (کتاب الاسماء والصفات للبیہقی، باب بدء الخلق، ۲ / ۲۵۰، رقم: ۸۱۱)
حضور سید المرسَلینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے قیامت کی اس قدر تفصیلی علامات بیان فرمائی ہیں کہ دیگر نشانیوں کے ساتھ ساتھ قیامت کا مہینہ، دن ،تاریخ اور وہ گھڑی بھی بتا دی کہ جس میں قیامت واقع ہو گی البتہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ نہیں بتایا کہ کس سن میں قیامت واقع ہو گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرسن بھی بتا دیتے تو ہمیں معلوم ہوجاتا کہ قیامت آنے میں اب کتنے سال، کتنے دن اور کتنی گھڑیاں باقی رہ گئی ہیں یوں قیامت کے اچانک آنے کا جو ذکر قرآنِ پاک میں ہے وہ ثابت نہ ہوتا لہٰذاسال نہ بتانا قرآنِ پاک کے صِدق کو قائم رکھنے کیلئے اورا س کے علاوہ بہت کچھ بتا دینا اپنا علم ظاہر کرنے کیلئے ہے۔
قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ-وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِۚۛ-وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُۚۛ-اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠(۱۸۸)
ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ میں اپنی جان کے بھلے برے کا خودمختار نہیں مگر جواللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تو یوں ہوتا کہ میں نے بہت بھلائی جمع کرلی اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچی میں تو یہی ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں انہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، میں اپنی جان کے نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں مگر جواللہ چاہے اور اگر میں غیب جان لیا کرتا تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا اور مجھے کوئی برائی نہ پہنچتی۔ میں تو ایمان والوں کو صرف ڈراور خوشخبری سنانے والا ہوں۔
{قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ:تم فرماؤ، میں اپنی جان کے نفع اور نقصان کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا اللہ چاہے ۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کمال درجے کی عاجزی، عظمت ِ الٰہی اور عقیدہ ِ توحید کے اظہار کا حکم فرمایا گیا کہ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے پاس جو قدرت و اختیار اور علم ہے خواہ اپنی ذات کے متعلق یا دوسروں کے بارے میں ، یونہی دنیاوی چیزوں کے بارے میں یا قیامت، آخرت اور جنت کے بارے میں وہ تمام کا تمام اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے ہے لہٰذا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا اَوّلِین و آخرین سے افضل ہونا، دنیا و آخرت کے اُمور میں تَصَرُّف فرمانا، صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو شفا عطا فرمانا بلکہ جنت عطا فرمانا، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کرنا وغیرہا جتنی چیزیں ہیں سب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے چاہنے سے ہیں۔
{وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ:اور اگر میں غیب جان لیا کرتا۔} اس آیتِ مبارکہ میں علمِ غیب کی نفی کی علماء ِکرام نے مختلف تَوجیہات بیان کی ہیں ، ان میں سے چار توجیہات درج ذیل ہیں جنہیں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے علوم کے بیان پر مشتمل اپنی لاجواب کتاب’’اِنْبَاءُ الْحَیْ اَنَّ کَلَامَہُ الْمَصُوْنَ تِبْیَانٌ لِّکُلِّ شَیْءٍ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کا کلام قرآنِ مجید ہر چیز کا روشن بیان ہے ۔) میں بیان فرمایا ہے۔
(1)…اس آیت میں علمِ عطائی کی نفی نہیں بلکہ علمِ ذاتی کی نفی ہے ۔
امام قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شفا شریف میں فرماتے ہیں ’’نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے معجزات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو غُیوب پر مُطّلع فرمایا اور آئندہ ہونے والے واقعات سے با خبر کیا۔ اس باب میں احادیث کا وہ بحرِ ذَخّار ہے کہ کوئی اس کی گہرائی جان ہی نہیں سکتا اور نہ ا س کا پانی ختم ہوتا ہے۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے معجزات میں سے یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو یقین اور وُثوق سے معلوم ہے اور ہم تک ا س کی خبریں مُتواتِر طریقے سے کثرت سے پہنچی ہیں اور غیب پر اطلاع ہونے پر اِن احادیث کے معانی و مطالب آپس میں متحد ہیں۔(شفاء شریف، فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ص۳۳۵-۳۳۶، الجزء الاول)
علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’یہ وضاحت ا ن قرآنی آیات کے منافی نہیں جن میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی غیب نہیں جانتا اور اس آیتِ کریمہ’’وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ‘‘ میں کسی واسطے کے بغیر (یعنی علمِ ذاتی) کی نفی کی گئی ہے البتہ اللہتعالیٰ کے بتانے سے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکا غیب پر مطلع ہونا ثابت ہے اور ا س کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔
’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘ (سورۂ جن:۲۶،۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان: غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ (نسیم الریاض، القسم الاول فی تعظیم العلی الاعظم۔۔۔ الخ، فصل فیما اطلع علیہ من الغیوب وما یکون، ۴ / ۱۴۹)
(2)…یہ کلام ادب و تواضع کے طور پر ہے۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے یہ کلام تواضع اور ادب کے طور پر فرمایا ہو اور مطلب یہ ہے کہ میں غیب نہیں جانتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس کی مجھے اطلاع دی اور جو میرے لئے مقرر فرمایا میں صرف اسی کو جانتا ہوں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)
(3)…اس آیت میں فی الحال غیب جاننے کی نفی ہے مستقبل میں نہ جاننے پر دلیل نہیں ہے۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے غیب پر مطلع ہونے سے پہلے یہ کلام فرمایا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو علمِ غیب کی اطلاع دی تو حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی خبر دی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘(سورۂ جن۲۶،۲۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)
(4)…یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ یہ کلام کفار کے سوال کے جواب میں صادر ہوا، پھر ا س کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اَشیاء کو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَپر ظاہر کیا اور حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ان کی خبر دی تاکہ یہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا معجزہ اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی نبوت صحیح ہونے پر دلیل بن جائے۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ۲ / ۱۶۷)
{لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ:تومیں بہت سی بھلائی جمع کرلیتا۔} اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت ،امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی رکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہوکیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے اس کے تمام صفات ذاتی ،تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا ۔بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے تنگی و تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا تو حاصلِ کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع و ضَرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین وکافرین ! تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی۔ (خزائن العرفان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۸، ص۳۳۰)
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْكُنَ اِلَیْهَاۚ-فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِهٖۚ-فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىٕنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ(۱۸۹)فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَاۚ-فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۱۹۰)
ترجمۂکنزالایمان: وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا کہ اس سے چین پائے پھر جب مرد اس پر چھایا اسے ایک ہلکا سا پیٹ رہ گیا تو اسے لیے پھرا کی پھر جب بوجھل پڑی دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی ضرور اگر تو ہمیں جیسا چاہیے بچہ دے گا تو بیشک ہم شکر گزار ہوں گے ۔ پھر جب اس نے انہیں جیسا چاہیے بچہ عطا فرمایا انہوں نے اس کی عطا میں اس کے ساجھی ٹھہرائے تو اللہ کو برتری ہے ان کے شرک سے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس سے سکون حاصل کرے پھر جب مرد اس عورت پر چھایا تواسے ایک ہلکے سے بوجھ کا حمل ہوگیا تو وہ اسی کو لے کر چلتی رہی پھر جب حمل کا وزن بڑھ گیا تو دونوں اپنے رب سے دعا کرنے لگے : اگر تو ہمیں صحیح سالم بچہ عطا فرما دے تو ہم یقینا شکر گزار ہوں گے۔ پھر جب اس نے انہیں صحیح سالم بچہ عطا فرمادیا تو انہوں نے اس کی عطا میں شریک ٹھہرا دئیے تو اللہ ان کے شرک سے بلندوبالا ہے۔
{هُوَ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ:وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کی مفسرین نے مختلف تفاسیر بیان کی ہیں ،ان میں سے دو تفاسیر درج ذیل ہیں۔
(1)…مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (مَعَاذَاللہ) بتوں کی عبادت کرتے تھے اور بھلائی طلب کرنے اور برائی دور ہونے کے سلسلے میں بتوں کی طرف رجوع کرتے تھے ،تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماور حضرت حواء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا واقعہ بیان فرمایا کہ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کی تھی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں صحیح سالم اور تندرست بچہ عطا فرمائے گا تو ہم ضرور تیری ا س نعمت کا شکر ادا کریں گے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح سالم بچہ عطا کر دیا تو کیا ان دونوں نے اللہتعالیٰ کی عطا میں اس کا شریک ٹھہرایا؟ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے شرک اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی طرف منسوب ان کی بات سے بری ہے۔
(2)… ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو واقعہ بیان فرمایاہے یہ بطورِ مثال ہے اور اس میں مشرکوں کی جہالت اور ان کے شرک کاحال بیان کیا گیا ہے۔ اس صورت میں آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے تم میں سے ہر ایک کو ایک جان سے پیدا کیا یعنی ماں اور باپ سے پیدا کیا اور یہ دونوں انسان ہونے میں یکساں ہیں ،پھر جب شوہر اور بیوی میں ملاپ ہوا اور حمل ظاہر ہوا تو ان دونوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں صحیح اور تندرست بچہ عطا کرے گا تو ہم ضرور تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ویسا ہی بچہ عنایت فرمایا تو اُن کا حال یہ ہو اکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کے شریک ٹھہرانے لگ گئے کیونکہ کبھی تو وہ اس بچے کو انسانی فطرت کے تقاضے کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسے دَہریوں کا حال ہے، کبھی ستاروں کی طرف نسبت کرتے ہیں جیسا کہ ستارہ پرستوں کا طریقہ ہے اورکبھی بتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسا کہ بت پرستوں کا دستور ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ’’ وہ اُن کے اِس شرک سے برتر ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۹، ۵ / ۴۲۸)
اَیُشْرِكُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْــٴًـا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَ٘ۖ(۱۹۱)
ترجمۂکنزالایمان: کیا اسے شریک کرتے ہیں جو کچھ نہ بنائے اور وہ خود بنائے ہوئے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا وہ اسے (اللہ کا) شریک بناتے ہیں جوکوئی چیز نہیں بناسکتا اور خود انہیں بنایا جاتا ہے۔
{اَیُشْرِكُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ:کیا وہ اسے(اللہ کا) شریک بناتے ہیں جوکوئی چیز نہیں بناسکتا ۔}اس آیت اور اگلی چند آیات میں بتوں کے معبود ہونے کی نفی پر کئی دلیلیں قائم فرمائی گئی ہیں۔چنانچہ ا س آیت میں فرمایا گیا کہ کیا مشرکین اُسے اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا کرنے کی اصلاً قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود بھی اپنے بنائے جانے میں کسی کا محتاج ہے حالانکہ معبود تو صرف وہ ہو سکتا ہے جس نے اپنے عبادت گزار کو پیدا کیا ہو۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۱، ۳ / ۲۹۵)
وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ(۱۹۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور نہ وہ ان کو کوئی مدد پہنچاسکیں اور نہ اپنی جانوں کی مدد کریں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نہ وہ ان کی کوئی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ اپنی جانو ں کی مدد کرسکتے ہیں۔
{وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا:اور نہ وہ ان کی کوئی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔} اس آیت میں بتوں کی بے قدری اور شرک کے بُطلان کا بیان اور مشرکین کے کمالِ جہل کا اظہار ہے اور بتایا گیا ہے کہ عبادت کا مستحق وہی ہوسکتا ہے جو عبادت کرنے والے کو نفع پہنچانے اور ا س کا ضرر دور کرنے کی قدرت رکھتا ہو، مشرکین جن بتوں کو پوجتے ہیں ان کی بے قدرتی اس درجے کی ہے کہ وہ کسی چیز کے بنانے والے نہیں ، کسی چیز کے بنانے والے تو کیا ہوتے خود اپنی ذات میں دوسرے سے بے نیاز نہیں۔ خود مخلوق ہیں اور بنانے والے کے محتاج ہیں۔ اس سے بڑھ کر بے اختیاری یہ ہے کہ وہ کسی کی مدد نہیں کرسکتے اور کسی کی کیا مدد کریں گے خود انہیں کوئی ضرر پہنچے تو اسے دور نہیں کرسکتے۔ کوئی انہیں توڑ دے، گرا دے الغرض جو چاہے کرے وہ اس سے اپنی حفاظت نہیں کرسکتے لہٰذا ایسے مجبور وبے اختیار کو پوجنا انتہا درجے کا جہل ہے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۲، ۵ / ۴۳۰-۴۳۱)
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَتَّبِعُوْكُمْؕ-سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ(۱۹۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور اگر تم انہیں راہ کی طرف بلاؤ تو تمہارے پیچھے نہ آئیں تم پر ایک سا ہے چاہے انہیں پکارو یا چپ رہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر تم انہیں رہنمائی کرنے کے لئے بلاؤ تو تمہارے پیچھے نہیں آئیں گے۔تم پر برابر ہے کہ تم انہیں پکارو یا تم خاموش رہو۔
{وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى:اور اگر تم انہیں رہنمائی کرنے کے لئے بلاؤ۔} یعنی اے مشرکو! اگر تم ان بتوں کو اس لئے بلاؤ کہ وہ تمہاری اس چیز کی طرف رہنمائی کر دیں جس سے تم اپنے مقاصد کو حاصل کر لو تو یہ تمہاری مراد کی طرف نہیں آئیں گے اور اے مشرکو! تم ان بتوں کو پکارو یا خاموش رہو تمہارے لئے دونوں صورتیں برابر ہیں کیونکہ نہ تو انہیں پکارنے کی صورت میں تمہیں کوئی فائدہ حاصل ہو گا اور نہ ہی خاموش رہنے کی صورت کچھ فائدہ ملے گا۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۳، ۳ / ۲۹۵)
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۹۴)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری طرح بندے ہیں تو تم انہیں پکارو پھراگر تم سچے ہو تو انہیں چاہیے کہ وہ تمہیں جواب دیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ:بیشک وہ (بت) جنہیں تم اللہکے سوا پوجتے ہو۔} آیت میں لفظ’’ تَدْعُوْنَ‘‘ کا معنی ہے ’’تَعْبُدُوْنَ‘‘ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ ا س آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے کافرو! صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو اور تم انہیں اپنا معبود کہتے ہو یہ بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے مملوک اور مخلوق ہیں جس طرح تم ہو اوراللہ تعالیٰ کے مملوک و مخلوق کسی طرح پوجے جانے کے قابل نہیں ، اس کے باوجود بھی اگر تم انہیں اپنا معبود کہتے ہو تو تم نفع پہچانے اور نقصان دور کرنے کے سلسلے میں انہیں پکارو ،پھر اگر تم اپنے گمان کے مطابق سچے ہو کہ یہ ا س چیز کی قدرت رکھتے ہیں جس سے تم عاجز ہو تو ان بتوں کو چاہیے کہ وہ تمہیں جواب دیں۔(بیضاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۳ / ۸۴، تفسیر قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۴ / ۲۴۴، الجزء السابع، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۴، ۳ / ۲۹۵،ملتقتاً)
یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی بھی عبادت کرنا شرک ہے، اسی طرح مخلوق میں سے کسی کو معبود مان کر اسے پکارنا یا اس سے حاجتیں اور مدد طلب کرنا بھی شرک ہے البتہ اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ مانتا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو اس کی عطا سے مشکلات دور کرنے والا، حاجتیں پوری کرنے والا اور مدد کے وقت مدد کرنے والا مانتا ہو اور اسی عقیدے کی بنیاد پر وہ بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندوں سے مشکلات کی دوری کے لئے فریاد کرتا ہو، اپنی حاجتیں پوری ہونے کے لئے دعائیں مانگتا ہو یا مصیبت کے وقت انہیں مدد کے لئے پکارتا ہو تو ا س کا یہ فریاد کرنا، مانگنا اور پکارنا ہر گز شرک نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآنِ پاک میں غورو تفکر کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کفار و مشرکین کا اپنے بتوں سے متعلق عقیدہ یہ تھا کہ وہ بتوں کو معبود مانتے اور ان کی عبادت کرتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے:
’’اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُۙ-یَسْتَكْبِرُوْنَۙ(۳۵) وَ یَقُوْلُوْنَ اَىٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ‘‘(الصافات ۳۵،۳۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تووہ تکبر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی وجہ سے اپنے معبودوں کو چھوڑدیں۔
اور اسی عقیدے کی بنیاد پر کفار بتوں سے اپنی حاجتیں طلب کرتے تھے،اور آج بھی کسی انسان یا غیر انسان، زندہ یا مردہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرنا، اسے دور یا نزدیک سے پکارنا شرک ہے لیکن اگر کوئی یہ عقیدہ نہ رکھتے ہوئے یعنی معبود نہ مان کر کسی کو پکارے یا ندا کرے تو اس کے عمل کو مشرکوں جیسا عمل قرار دیتے ہوئے اسے بھی مشرک قرار دے دینا سراسر جہالت نہیں تو اور کیا ہے ۔ جو پکارنا یا ندا کرنا شرک ہے وہ ہر حال میں شرک ہے چاہے انسان سے ہو یا غیر انسان سے ،زندہ سے ہو یا فوت شدہ سے، دور سے ہو یا نزدیک سے اور جو ندا شرک نہیں وہ کسی بھی حال میں شرک نہیں۔ ندا یا سوال کے شرک ہونے کا دارومدار پکارنے والے کے عقیدے پر ہے اگر وہ معبود اور خدا مان کر پکارتا ہے تو یہ شرک ہے اب چاہے دور سے پکارے یا نزدیک سے ،زندہ کو پکارے یا فوت شدہ کو اور اگر اس کا یہ عقیدہ نہیں توشرک ہر گز نہیں لہٰذا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پکارنا ہرگز شرک نہیں کیونکہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو معبود نہیں سمجھتا اور نہ ان کی عبادت کرتا ہے بلکہ ہر نماز میں وہ کئی بار یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرسولہْ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے اور رسول ہیں۔ یونہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو پکارنے والا، ان سے سوال کرنے والا ،انہیں معبود سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندہ سمجھ کر اور اللہ عَزَّوَجَلَّکی عطا سے پکار سننے والا جان کر پکارتا ہے لہٰذا ا س کایہ عمل بھی ہر گز شرک نہیں۔
اَلَهُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِهَاۤ٘-اَمْ لَهُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِهَاۤ٘-اَمْ لَهُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِهَاۤ٘-اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَاؕ-قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ كِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ(۱۹۵)اِنَّ وَلِیِّ ﰯ اللّٰهُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ ﳲ وَ هُوَ یَتَوَلَّى الصّٰلِحِیْنَ(۱۹۶)وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ یَنْصُرُوْنَ(۱۹۷)وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَسْمَعُوْاؕ-وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ(۱۹۸)
ترجمۂکنزالایمان: کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤں چلو اور مجھے مہلت نہ دو۔ بیشک میرا والی اللہ ہے جس نے کتاب ا تاری اور وہ نیکوں کو دوست رکھتا ہے۔ اور جنہیں اس کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے اور نہ خود اپنی مدد کریں۔ اور اگر انہیں راہ کی طرف بلاؤ تو نہ سنیں اور تو انہیں دیکھے کہ وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں اور انہیں کچھ بھی نہیں سوجھتا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے یہ چلتے ہیں ؟ یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے یہ پکڑتے ہیں ؟ یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے یہ دیکھتے ہیں ؟ یا ان کے کان ہیں جن سے یہ سنتے ہیں ؟ تم فرمادو کہ اپنے شریکوں کوبلالو پھر میرے اوپر اپنا داؤ چلاؤ اور مجھے مہلت نہ دو۔ بیشک میرامددگار اللہ ہے جس نے کتاب ا تاری اور وہ صالحین کی مدد کرتا ہے۔ اور اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔ اور اگر تم انہیں رہنمائی کرنے کے لئے بلاؤ تو وہ نہ سنیں گے اور تم انہیں دیکھو (تو یوں لگے گا) کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
{اَلَهُمْ اَرْجُلٌ:کیا ان کے پاؤں ہیں۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انسان کی قدرت کا دارومدار ان چار اعضاء پر ہے، ہاتھ پاؤں ، کان اور آنکھ کہ انسان تمام امور میں ان سے مدد لیتا ہے جبکہ بتوں کے یہ اعضاء نہیں ہیں ،لہٰذا انسان ان عاجز بتوں سے افضل ہوا کیونکہ چلنے ، پکڑنے، دیکھنے اور سننے کی طاقت رکھنے والا اس سے بہتر ہے جو ان صلاحیتوں سے محروم ہے، لہٰذا انسان ہر حال میں ان بتوں سے افضل ہے کہ بت پتھروں اور درختوں سے بنے ہوئے ہیں ، کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے تو جب ان میں وہ قوت و طاقت بھی نہیں جو تم میں ہے پھر تم ان کی پوجا کیسے کرتے ہو؟ اور اپنے سے کمتر کو پوج کر کیوں ذلیل ہوتے ہو۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۲ / ۱۶۹)
{قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ:(اے محبوب!) تم فرما دو کہ اپنے شریکوں کوبلالو۔} شانِ نزول:رسولِ خداصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جب بت پرستی کی مذمت کی اور بتوں کی عاجزی اور بے اختیاری کا بیان فرمایا تو مشرکین نے دھمکایا اورکہا کہ بتوں کو برا کہنے والے تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں اور یہ بت اُنہیں ہلاک کردیتے ہیں ،اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی اور اس آیت اور ا س کے بعدو الی تین آیات میں فرمایا گیا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ،آپ ان سے فرما دیں کہ اگرتم بتوں میں کچھ قدرت سمجھتے ہو تو انہیں پکارو اور مجھے نقصان پہنچانے میں اُن سے مدد لو اور تم بھی جو مکروفریب کرسکتے ہو وہ میرے مقابلے میں کرو اور اس میں دیر نہ کرو ،مجھے تمہاری اور تمہارے معبودوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں اور تم سب مل کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میری حفاظت کرنے والا اور میرا مددگار وہ رب تعالیٰ ہے جس نے مجھ پر قرآن نازل کر کے مجھے عظمت عطا کی اور وہ اپنے نیک بندوں کو دوست رکھتا اور ان کی مدد فرماتا ہے اور اے بت پرستو! اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ کسی کام میں تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں تو میں پھر ان کی کس طرح پرواہ کروں اور ویسے بھی یہ تمہاری مدد کیا کریں گے کیونکہ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ اگر تم انہیں اپنے مقاصد کے حصول کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے بلاؤ تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں گے اور تم انہیں دیکھوتو یوں لگے گا کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ وہ دیکھنے سے ہی عاجز ہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۵-۱۹۶، ۲ / ۱۶۹-۱۷۰، روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۵-۱۹۶، ۳ / ۲۹۶، ملتقطاً)
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے مددچاہنا اور انہیں وسیلہ بنانا توحید کے بر خلاف نہیں :
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس آیت (نمبر198) میں بتوں کا جو حال بیان ہوا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کا حال ان کے برخلاف ہے اگرچہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں کیونکہ ا س طور پر مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے مدد چاہنا، انہیں وسیلہ بنانا اور ان کی طرف (کسی چیز کی عطا وغیرہ کی) نسبت کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مظاہر، اس کے انوار کی جلوہ گاہیں ، اس کے کمالات کے آئینے اور ظاہری و باطنی امور میں اس کی بارگاہ میں سفارشی ہیں ،انتہائی اہم کام ہے اور یہ ہر گز شرک نہیں بلکہ یہ عین توحید ہے (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۳ / ۲۹۶) [5]۔
{وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ:اور تم انہیں دیکھو(تو یوں لگے گا) کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں۔}اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، آپ ان کافروں کودیکھیں کہ یہ اپنی آنکھوں سےتو آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ یہ نگاہِ بصیرت سے آپ کو نہیں دیکھ رہے تو اگرچہ فی الوقت یہ آپ کے سامنے ہیں لیکن در حقیقت یہ آپ سے غائب ہیں البتہ اگر یہ میری وحدانیت کا اقرار اور آپ کی رسالت کی تصدیق کر لیتے ہیں تو یہ حقیقی طور پر دیکھنے والے بن جائیں گے۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۳ / ۲۹۷)
اس سے معلوم ہوا کہ صرف ظاہری نگاہوں سے حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو دیکھ لینا حقیقی طور پر فائدہ مند نہیں بلکہ نگاہِ بصیرت سے دیکھنا فائدہ مند ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ابو جہل کے بیٹے حضرت عکرمہ نے نگاہِ بصیرت سے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی زیارت کی تو صحابیت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر ہمیشہ کے لئے جنت کے حق دار ٹھہرے اور خود ابو جہل صرف ظاہری نگاہوں سے دیکھتا رہا جس کی وجہ سے اسے بدبختی سے نجات نہ ملی اور ہمیشہ کے لئے جہنم کا حقدار ٹھہرا۔
ایک مرتبہ سلطان محمودغزنوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شیخ ابو الحسن خرقانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اور کچھ دیران کے پاس بیٹھ کر عرض کی:یا شیخ!آپ حضرت ابو یزید بسطامی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ حضرت ابوالحسن خرقانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا’’وہ ایسے شخص ہیں کہ جس نے ان کی زیارت کی وہ ہدایت پا گیا اور اسے واضح طور پر سعادت حاصل ہو گئی۔حضرت محمود غزنوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عرض کی:یا شیخ!یہ کس طرح ہوا کہ ابو جہل نے حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھا لیکن اس کے باوجود اسے نہ کوئی سعادت ملی اور نہ وہ شقاوت و بدبختی سے خلاصی پا سکا؟آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا’’ابو جہل نے در حقیقت رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھا ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ بدبختی سے چھٹکارا نہ پا سکا بلکہ اس نے محمد بن عبد اللہ کو دیکھا ہے، اگر وہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو دیکھ لیتا تو وہ بدبختی سے نکل کر سعادت مندی میں داخل ہو جاتا اور اس کا مِصداق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے ’’وَ تَرٰىهُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْكَ وَ هُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ‘‘ تو سر کی آنکھوں سے دیکھنے سے یہ سعادت نہیں ملتی بلکہ دل کی نگاہوں سے دیکھیں تو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے،اس لئے جس نے حضرت ابو یزید رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو دل کی نگاہوں سے دیکھا تو وہ سعادت پا گیا ۔ اس واقعے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو بھی نگاہِ بصیرت سے دیکھنا ہی فائدہ دیتا ہے۔ (روح البیان، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۹۸، ۳ / ۲۹۷)
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹)
ترجمۂکنزالایمان: اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے حبیب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔
{خُذِ الْعَفْوَ:اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو۔} اس آیت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو تین باتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے:
(1) …جو مجرم معذرت طلب کرتا ہوا آپ کے پاس آ ئے تو اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔
(2)… اچھے اور مفید کام کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے ۔
(3)…جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا کہیں تو ان سے الجھئے نہیں بلکہ حِلم کامظاہرہ فرمائیں۔
رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی پوری زندگی عفو و درگزر سے عبارت تھی ۔آپ کے بے مثال عفوودر گزر کاایک واقعہ ملاحظہ ہو، چنانچہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شہزادی حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کو ان کے شوہر ابو العاص نے غزوۂ بدر کے بعد مدینہ منورہ کے لئے روانہ کیا۔ جب قریشِ مکہ کو ان کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا پیچھا کیا حتّٰی کہ مقامِ ذی طُویٰ میں انہیں پا لیا۔ ہبار بن الاسود نے حضرت زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکو نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ اونٹ سے گر گئیں اور آپ کا حمل ساقط ہو گیا۔ (سیرت نبویہ لابن ہشام، خروج زینب الی المدینۃ، ص۲۷۱)
اتنی بڑی اَذِیّت پہنچانے والے شخص کے ساتھ نبیِّ رحمتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کاسلوک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جِعِرَّانَہ سے واپسی پر میں سیِّد عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کےپاس بیٹھا تھا کہ اچانک دروازے سے ہبار بن الاسود داخل ہوا، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، یہ ہبار بن الاسود ہے۔ ارشاد فرمایا: میں نے اسے دیکھ لیا ہے۔ ایک شخص اسے مارنے کے لئے کھڑا ہوا توتاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اسے اشارہ کیا کہ بیٹھ جائے۔ ہبار نے قریب آتے ہی کہا ’’اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی! آپ پر سلام ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں۔ یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، میں آپ سے بھاگ کر کئی شہروں میں گیا اور میں نے سوچا کہ عجم کے ملکوں میں چلا جاؤں ، پھر مجھے آپ کی نرم دلی صلہ رحمی اور دشمنوں سے آپ کا درگزر کرنا یاد آ یا۔ اے اللہ کے نبی! ہم مشرک تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب ہمیں ہدایت دی اور ہمیں ہلاکت سے نجات عطا کی۔ آپ میری جہالت سے اور میری ان تمام باتوں سے جن کی آپ تک خبر پہنچی ہے درگزر فرمائیں۔ میں اپنے تمام برے کاموں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ رحیم و کریم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہیں معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے کہ اس نے تمہیں اسلام کی ہدایت دے دی اور اسلام پچھلے تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔(الاصابہ، حرف الہاء، الہاء بعدہا الباء، ۶ / ۴۱۲-۴۱۳)
اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جن میں عظیم عفو درگزر کی جھلک نمایاں ہے جیسے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ابو سفیان کو معاف کر دیا، اپنے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو شہید کرنے والے غلام وحشی کو معاف کر دیا، حضرت حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا دانتوں سے کلیجہ چبانے والی ہند بنت عتبہ کو معاف کر دیا، یونہی صفوان بن معطل ،عمیر بن وہب اور عکرمہ بن ابو جہل کو معاف کر دیا، سراقہ بن مالک کو امان لکھ دی اور ان کے علاوہ بہت سے ظالموں اور ستم شعاروں کے ظلم و جفا سے در گزر کر کے معافی کا پروانہ عطا فرما دیا۔آیت میں مذکور حکم ہر مسلمان کیلئے ہے کہ عفوودرگزر اختیار کرے، نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے منہ پھیر لے۔[6]
وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۰۰)
ترجمۂکنزالایمان:اور اے سننے والے اگر شیطان تجھے کوئی کونچا دے تو اللہ کی پناہ مانگ بیشک وہی سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اے سننے والے! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے ابھارے تو (فوراً) اللہ کی پناہ مانگ، بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
{وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ:اور اے سننے والے! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے ابھارے۔} اس آیت میں خطاب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ہے اور مراد اور لوگ ہیں کیونکہ شیطان آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر مُسلَّط نہیں ہو سکتا،اور اس کا معنی یہ ہے کہ اے انسان! اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تجھے(اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وغیرہ پر) ابھارے تو ا س کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اور اپنے آپ سے اس وسوسے کو دور کئے جانے سے متعلق اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ا لتجا کر ،بے شک وہ تیری دعا کو سننے والا اور تیرے حال کو جاننے والا ہے ۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۷۳۷، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۰، ۲ / ۱۷۱، ملتقطاً)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :صوفیائے کرام اور مجاہدات کرنے والی بزرگ ہستیوں کے نزدیک شیطان سے جنگ کرنے اور اسے مغلوب کرنے کے دو طریقے ہیں :
(1)…شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے ،اس کے علاوہ (شیطان کے شر سے) بچنے کا اور کوئی راستہ نہیں ، کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر مسلط فرما دیا ہے ،اگر تم اس سے مقابلہ اور جنگ کرنے اور اسے دور کرنے میں مشغول ہو گئے تو تم تنگ آ جاؤ گے اور تمہارا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا اور آخر کار وہ تم پر غالب آ جائے گا اور تمہیں زخمی کر کے ناکارہ بنا دے گا، اس لئے بہر حال اس کتے کے مالک کی طرف ہی متوجہ ہونا پڑے گا اور اسی کی پناہ لینی ہو گی تاکہ وہ شیطان کو تم سے دور کر دے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا تمہارے لئے شیطان سے جنگ اور مقابلہ کرنے سے بہتر ہے۔
(2)…شیطان سے مقابلہ کرنے ،اسے دور کرنے اور اس کی تردید اور مخالفت کرنے کے لئے بندہ ہر وقت تیار رہے۔
میں (امام محمد غزالی) کہتا ہوں :میرے نزدیک اس کا جامع اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ( مذکورہ بالا)دونوں طریقوں پر عمل کیا جائے ،لہٰذا سب سے پہلے شیطان مردود کی شرارتوں سے اللہ تعا لیٰ کی پناہ لی جائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم ارشاد فرمایا ہے اوراللہ تعالیٰ ہمیں شیطان لعین کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہے ،اس کے بعد بھی اگر تم یہ محسوس کرو کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کے باوجود شیطان تم پر غالب آنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ تمہارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا امتحان لینا چاہتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ عبادت وغیرہ میں تمہاری قوت اور صبر کو ظاہر فرما دے جیساکہ کافرو ں کو ہم پر مسلط فرمایا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ کافروں کے عزائم اور ان کی شر انگیزیوں کو ہمارے جہاد کئے بغیر ملیا میٹ کر دینے پر قادر ہے لیکن وہ انہیں صفحۂ ہستی سے ختم نہیں فرماتا بلکہ ہمیں ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جہاد، صبر ،گناہوں سے چھٹکارے اور شہادت سے ہمیں بھی حصہ مل جائے اور ہم اس امتحان میں کامیاب و کامران ہو جائیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطا فرما دے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
’’ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدوں کا امتحان نہیں لیا اور نہ(ہی) صبر والوں کی آزمائش کی ہے۔
تو (جس طرح کافروں کے ساتھ جہاد کا حکم ہے )اسی طرح ہمیں شیطان سے بھی انتہائی جاں فشانی کے ساتھ مقابلہ اور اس سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،نیزعلماءِ کرام نے شیطان سے مقابلہ کرنے اور اس پر غلبہ حاصل کرنے کے (مزید) تین طریقے بیان فرمائے ہیں :
(1)…تم شیطان کے مکر و فریب اور اس کی حیلہ سازی سے ہوشیار اور باخبر ہو جاؤ کیونکہ جب تمہیں اس کی حیلہ سازیوں کاعلم ہو گا تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا،جس طرح چور کو جب معلوم ہوجاتا ہے کہ مالک ِ مکان کو میرے آنے کا علم ہو گیا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔
(2)…جب شیطان تمہیں گمراہیوں کی طرف بلائے تو تم اسے رد کر دو اور تمہارا دل اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور نہ ہی تم اس کی پیروی کرو کیونکہ شیطان ایک بھونکنے والے کتے کی طرح ہے ،اگر تم اسے چھیڑوگے تو وہ تمہاری طرف تیزی کے ساتھ لپکے گا اور (حملہ کر کے) تمہیں زخمی کر دے گا اور اگر تم اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو گے تو ممکن ہے کہ وہ خاموش رہے۔
(3)…تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے رہو اوراپنے آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رکھو۔( منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ ، العائق الثالث، ص۵۵-۵۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے وسوسوں اور ا س کے مکرو فریب سے محفوظ فرمائے اور اس کے واروں سے بچنے کے لئے مُؤثِّر اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ(۲۰۱)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہوشیار ہوجاتے ہیں اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک پرہیزگاروں کوجب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آتا ہے تو وہ (حکمِ خدا) یاد کرتے ہیں پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا:بیشک وہ جو ڈر والے ہیں۔} آیت میں مذکور لفظ’’طٰٓىٕفٌ‘‘ کے بارے میں علامہ راغب اصفہانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ انسا ن کو ورغلانے کیلئے انسان کے گرد گردش کرنے والے شیطان کوطائف کہتے ہیں۔(مفردات امام راغب، کتاب الطاء، ص۵۳۱، تحت اللفظ: طوف) اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو متقی اور پرہیز گار ہیں جب شیطان کی طرف سے انہیں گناہ کرنے یا اللہ تعالیٰ کی اطاعت چھوڑنے کا کوئی وسوسہ آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اورا س کے انعامات میں غور کرتے ہیں اور ا س کے عذاب اور ثواب کو یاد کرتے ہیں اور اسی وقت گناہ کرنے سے رک جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے گناہ سے رکنے کا حکم دیا اور گناہ کرنے سے منع کیا ہے۔ (قرطبی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۲، ۴ / ۲۵۰، الجزء السابع، صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۱، ۲ / ۷۳۸، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہو اکہ جب شیطان دل میں گناہ کرنے کا وسوسہ ڈالے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے انعامات میں غور کرنا اور اللہ تعالیٰ کی سزا اور ا س کے ثواب کو یاد کرنا ا س وسوسے کو دور کرنے اور گناہ سے رکنے میں معاون و مددگار ہے لہٰذا جب بھی شیطان گناہ کرنے پر اکسائے تو اس وقت بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی قدرت اوراس کے انعامات و احسانات کو یاد کرے اور نافرمانی کرنے پر اس کی طرف سے ملنے والی سزا اور اطاعت کرنے کی صورت میں ا س کی طرف سے ملنے والے ثواب کویاد کرے تواِنْ شَآءَ اللہ شیطان کاوسوسہ دور ہو جائے گا اور وہ گناہ کرنے سے بچ جائے گا اور اگر شامتِ نفس سے گناہ سرزد ہو جائے تو فورا ًاللہ تعالیٰ کو یاد کر کے اپنے گناہ کی معافی مانگ لے ، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ (ال عمران:۱۳۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا اِرتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تواللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اوراللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اپنے برے اعمال پر اصرار نہ کریں۔
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانہ ٔمبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیز گار وعبادت گزار تھا، حتّٰی کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے ۔وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعداپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا ۔ راستے میں ایک خوبرو عورت اسے اپنی طرف بلاتی اور چھیڑتی تھی، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دئیے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا ۔ آخر کار ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا، لیکن جب دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ تعالیٰ کا یہی فرمانِ عالیشان یاد آ گیا:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓىٕفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَ‘‘ (اعراف:۲۰۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک جب شیطان کی طرف سے پرہیزگاروں کو کوئی خیال آتا ہے تو وہ فوراًحکمِ خدا یاد کرتے ہیں پھراسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
اس آیتِ پاک کے یاد آتے ہی اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کا خوف اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔جب یہ بہت دیر تک گھر نہ پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھوا کر گھر لے آیا۔ ہوش آنے پر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا ،نوجوان نے پورا واقعہ بیان کر کے جب اس آیت ِ پاک کا ذکر کیا، تو ایک مرتبہ پھر اس پراللہ تعالیٰ کا شدید خوف غالب ہوا ،اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا۔ راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیاگیا۔ صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اُس کے باپ کے پاس تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا کہ ’’ آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی ؟(تا کہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے) ۔اس نے عرض کی ’’امیر المومنین!اس کاا نتقال رات میں ہوا تھا (اور آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانامناسب معلوم نہ ہوا)۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے اس کی قبر پر لے چلو۔‘‘ وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی’’وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ‘‘(الرحمٰن:۴۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔
تو قبر میں سے اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یا امیرَالمومنین!بیشک میرے رب نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں۔‘‘(ابن عساکر، ذکر من اسمہ عمرو، عمرو بن جامع بن عمرو بن محمد۔۔۔ الخ، ۴۵ / ۴۵۰، ذمّ الہوی، الباب الثانی والثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، ص۱۹۰-۱۹۱)
وَ اِخْوَانُهُمْ یَمُدُّوْنَهُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ(۲۰۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں شیطان انہیں گمراہی میں کھینچتے ہیں پھر گئی نہیں کرتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں شیطان انہیں گمراہی میں کھینچتے ہیں پھر وہ کمی نہیں کرتے۔
{وَ اِخْوَانُهُمْ:اور وہ جو شیطانوں کے بھائی ہیں۔} ارشاد فرمایا کہ شیطانوں کے بھائی یعنی مشرکوں کو شیطان گمراہی میں کھینچتے ہیں یہاں تک کہ وہ گمراہی پر پکے ہو جاتے ہیں ،پھر وہ نہ توگمراہی سے رکتے ہیں اور نہ گمراہی چھوڑتے ہیں۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۲، ۲ / ۱۷۱)
اس سے متقی مسلمان اور کافر کا حال واضح ہوا کہ مسلمان کو جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا حکم یاد کرتا ہے اور پہچان جاتا ہے کہ یہ شیطان کاوار ہے،پھر وہ ا س سے رک جاتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے جبکہ کافر اپنی گمراہی میں ہی پختہ ہوتا چلا جاتا ہے ، نہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم یادکرتا ہے اور نہ ہی اپنی گمراہی سے رجوع کرتا ہے۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۲، ۲ / ۱۷۱)
وَ اِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰیَةٍ قَالُوْا لَوْ لَا اجْتَبَیْتَهَاؕ-قُلْ اِنَّمَاۤ اَتَّبِـعُمَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْۚ-هٰذَا بَصَآىٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۲۰۳)وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب جب تم ان کے پاس کوئی آیت نہ لاؤ تو کہتے ہیں تم نے دل سے کیوں نہ بنائی۔ تم فرماؤ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف میرے رب سے وحی ہوتی ہے یہ تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھولنا ہے اور ہدایت اور رحمت مسلمانوں کے لیے اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے حبیب! جب تم ان کے پاس نشانی نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے خود ہی کیوں نہ بنا لی؟ تم فرما ؤ: میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف میرے رب کی طرف سے وحی بھیجی جاتی ہے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھول دینے والے دلائل ہیں اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
{وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ:اور جب قرآن پڑھا جائے۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی عظمت بیان فرمائی تھی کہ قرآنِ پاک کی آیات تو تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھول دینے والے دلائل ہیں اور ایمان لانے والے لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے اورا س آیت میں بتایا ہے کہ اس کی عظمت وشان کا تقاضا یہ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۵ / ۴۳۹)
علامہ عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارجِ نماز اُس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ (مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ص۴۰۱)
یاد رہے کہ اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں خطبہ کو بغور سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے۔اور ایک قول یہ ہے کہ اس آیت سے نماز و خطبہ دونوں میں بغور سننے اور خاموش رہنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے ۔ جبکہ جمہور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماس طرف ہیں کہ یہ آیت مقتدی کے سننے اور خاموش رہنے کے باب میں ہے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۲ / ۱۷۲، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ص۴۰۱، ملتقطاً)
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے امام کے پیچھے قرآنِ پاک پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور کثیر احادیث میں بھی یہی حکم فرمایا گیا ہے کہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کی جائے۔ چنانچہ
(1)… حضرت بشیر بن جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نماز پڑھائی تو آپ نے کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ نماز میں امام کے ساتھ قراء ت کررہے ہیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ’’ کیا ابھی تمہارے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ تم اس آیت کے معنی سمجھو۔ (تفسیر ابن جریر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۴، ۶ / ۱۶۱)
(2)…حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھنے لگو تو اپنی صفوں کو درست کرلو، پھر تم میں سے کوئی ایک امامت کروائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو۔ ایک روایت میں اتنا زائد ہے کہ اور جب وہ قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔ (مسلم، کتاب الصلاۃ، باب التشہد فی الصلاۃ، ص۲۱۴-۲۱۵، الحدیث: ۶۲-۶۳(۴۰۴))
(3)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں ، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’امام اسی لئے ہوتا ہے کہ اس کی اِقتداء کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراء ت کرے تو خاموش رہو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب اذا قرأ الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۱، الحدیث: ۸۴۶)
(4)… حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’جس نے ایک رکعت بھی بغیر سورۂ فاتحہ کے پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی مگر یہ کہ امام کے پیچھے ہو۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی ترک القراء ۃ خلف الامام۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۳۸، الحدیث: ۳۱۳)
نوٹ:یہاں ایک اور مسئلہ بھی یاد رکھیں کہ بعض لوگ ختم شریف میں مل کر زور سے تلاوت کرتے ہیں یہ بھی ممنوع ہے۔
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اور شام اور غافلوں میں نہ ہونا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کروگڑگڑاتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور بلندی سے کچھ کم آواز میں ،صبح و شام، اور غافلوں میں سے نہ ہونا۔
{وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا:اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے۔} اس آیت میں خطاب رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَسے ہے اور اس خطاب میں امتِ مصطفی بھی داخل ہے کہ یہ حکم تمام مُکَلَّفِین کو عام ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اس آیت میں ذکر سے مراد نماز میں قراء ت کرنا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ذکر میں تلاوت ِقرآن، دعا اور تسبیح و تہلیل وغیرہ تمام اَذکار شامل ہیں۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ۲ / ۱۷۳، مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ص۴۰۲، ملتقطاً)
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر دل میں کیا جائے یا درمیانی آواز میں ، حد سے زیادہ بلند آواز میں چیختے ہوئے نہ کیا جائے، نیز اللہ تعالیٰ کا ذکر عاجزی اورخوف کے ساتھ ہو۔ نیز ذِکْرُ اللہ صبح و شام کیا جائے۔ بلند آواز سے اور آہستہ آواز سے ذکر کرنا دونوں کے بارے میں احادیث موجود ہیں ، اگر ذکر کرنے والے کو ریاکاری کا اندیشہ ہو یا نمازیوں اور آرام کرنے والوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو آہستہ ذکر کیا جائے ورنہ بلند آواز سے کرنے میں حرج نہیں۔
{بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ:صبح اور شام۔} ان دونوں اوقات میں ذکر کرنا افضل ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ صبح کے وقت انسان نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اس وقت ذکر کرنے سے اس کے نامۂ اعمال میں سب سے پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرنا لکھا جائے گا اور شام کے وقت انسان سوتا ہے اور نیند ایک طرح کی موت ہے، لہٰذا اس وقت بھی ذکر کرنا مناسب ہے کہ ممکن ہے سوتے میں ہی انتقال ہو جائے، اگر ایساہوا تو قیامت کے دن اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر کرتا ہوا اٹھے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ طلوعِ فجرکے بعد طلوعِ آفتاب تک اور اسی طرح نمازِ عصر کے بعد غروب تک نفل نماز ممنوع ہے، اس لئے ان وقتوں میں ذکر کرنا مستحب ہے تاکہ بندے کے تمام اوقات قربت و طاعت میں مشغول رہیں۔ (صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۵، ۲ / ۷۴۰)
نوٹ:ذکرِ جلی اور خفی سے متعلق مزید معلومات کیلئے کتاب’’ جاء الحق‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یُسَبِّحُوْنَهٗ وَ لَهٗ یَسْجُدُوْنَ۠۩(۲۰۶)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بولتے اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔
{اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ:بیشک وہ جو تیرے رب کے پاس ہیں۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب فرشتے اپنے بے انتہا شرف، پاک اور معصوم ہونے، شہوت اور غضب سے بری ہونے، کینہ اور حسد سے مُنَزّہ ہونے کے باوجود ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور خشوع و خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں تو انسان جو کہ جسمانی ظلمتوں ، بشری کثافتوں اور شہوت و غضب کی آماجگاہ ہے، وہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت زیادہ کرے۔ (تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۲۰۶، ۵ / ۴۴۵)
یہ آیت آیاتِ سجدہ میں سب سے پہلی آیت ہے، اس مناسبت سے ہم یہاں سجدۂ تلاوت کے چند احکام بیان کرتے ہیں
(1)…آیتِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب ہو جاتا ہے پڑھنے میں یہ شرط ہے کہ اتنی آواز سے ہو کہ اگر کوئی عذرنہ ہو تو خود سن سکے ، سننے والے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بِالقصد سنی ہو بلکہ بلا قصد سننے سے بھی سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ (ہدایہ، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۱ / ۷۸، در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۶۹۵-۶۹۶)
(2)…سجدہ واجب ہونے کے لیے ایک قول کے مطابق پوری آیت پڑھنا ضروری ہے اور ایک قول کے مطابق پوری آیت پڑھنا ضروری نہیں بلکہ وہ لفظ جس میں سجدہ کا مادہ پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ پہلے یا بعد کا کوئی لفظ ملا کر پڑھنا کافی ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۶۹۴، تحت قول الدر: ای اکثرہا۔۔۔ الخ)
(3)…اگر اتنی آواز سے آیت پڑھی کہ سن سکتا تھا مگر شور و غل یا بہرے ہونے کی وجہ سے نہ سنی تو سجدہ واجب ہوگیا اور اگر محض ہونٹ ہلے آواز پیدا نہ ہوئی تو واجب نہ ہوا۔ (عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث عشر فی سجود التلاوۃ، ۱ / ۱۳۲،۱۳۳)
(4)…فارسی یا کسی اور زبان میں آیت کا ترجمہ پڑھا تو پڑھنے والے اور سننے والے پر سجدہ واجب ہوگیا۔
سجدۂ تلاوت کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جب آدمی آیت ِسجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان ہٹ جاتا ہے اور رو کر کہتا ہے: ہائے میری بربادی ! ابنِ آدم کو سجدہ کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کیا، اس کے لئے جنت ہے اور مجھے سجدہ کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کیا میرے لیے دوزخ ہے۔‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ، ص۵۶، الحدیث: ۱۳۳ (۸۱))
سجدہ ِ تلاوت کا مَسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہو کر اللہُ اَکْبَرْ کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین بار سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے، پھر اللہُ اَکْبَرْ کہتاہوا کھڑا ہو جائے، پہلے پیچھے دونوں بار اللہُ اَکْبَرْ کہنا سنت ہے اور کھڑے ہو کر سجدہ میں جانا اور سجدہ کے بعد کھڑا ہونا یہ دونوں قیام مستحب۔(عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثالث عشر فی سجود التلاوۃ، ۱ / ۱۳۵، در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۶۹۹-۷۰۰)
یاد رہے کہ سجدۂ تلاوت کے لیے اللہُ اَکْبَرْ کہتے وقت نہ ہاتھ اٹھانا ہے اور نہ اس میں تشہد ہے نہ سلام۔ (تنویر الابصار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۷۰۰)
نوٹ :سجدۂ تلاوت کے مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 4سے’’ سجدۂ تلاوت کا بیان‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔
صحیح قول کے مطابق یہ سورت مدنی ہے۔اور ایک قول یہ ہے کہ یہ سورت ان سات آیتوں کے علاوہ مدنی ہے جو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں اور وہ آیت نمبر 30 ’’وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں۔(خازن، تفسیر سورۃ الانفال، ۲ / ۱۷۴)
اس سورت میں 10 رکوع اور 75 آیتیں ہیں۔
اَنفال نَفَل کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے غنیمت کا مال، اس سورت کی پہلی آیت میں اَنفال یعنی مالِ غنیمت کے احکام کے بارے میں مسلمانوں کے سوال اور انہیں دئیے جانے والے جواب کا ذکر ہے، اس مناسبت سے اس سورت کا نام ’’سورۂ اَنفال‘‘ رکھا گیا۔
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں مالِ غنیمت کے احکام ، غزوۂ بدر کا تفصیلی واقعہ اور اس کی حکمتیں بیان کی گئیں اور مسلمانوں کو جنگ کے اصول سکھائے گئے ہیں۔اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
(1) …اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا اور خوفِ خدا کی فضیلت بیان کی گئی۔
(2)…مکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے خلاف کفار کی سازش اور اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکو کفار کی سازش سے محفوظ رکھنے کا بیان ہے۔
(3) … ہر چیز میں ضروری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم دیاگیا۔
(4) …مسلمانوں کو کفار کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے پورے کرنے اور معاہدہ توڑنے پر ان کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا گیا۔
(5) …کفار کے ساتھ جہاد کرنے کے مقاصد بیان کئے گئے۔
(6) …کفار کے دلوں میں دھاک بٹھانے کے لئے مسلمانوں کو جنگی ساز و سامان کی بھر پور تیاری کا حکم دیا گیا۔
(7) …اس سورت کے آخر میں قیدیوں کے بارے میں احکام اور مہاجرین و انصار کے مجاہدوں کے فضائل بیان کئے گئے۔
سورۂ اَنفال کی اپنے سے ماقبل سورت ’’اعراف‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ اعراف میں مشہور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے اپنی قوموں کے ساتھ حالات بیان کئے گئے تھے اور سورۂ اَنفال میں سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکے اپنی قوم کے ساتھ حالات بیان کئے گئے ہیں۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمۂکنزالایمان: اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحم والا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان، رحمت والا ہے۔
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِؕ -قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ۪-وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱)
ترجمۂکنزالایمان: اے محبوب تم سے غنیمتوں کو پوچھتے ہیں تم فرماؤ غنیمتوں کے مالک اللہ و رسول ہیں تو اللہ سے ڈرو اور اپنے آ پس میں میل رکھو اور اللہ و رسول کا حکم مانو اگر ایمان رکھتے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے محبوب! تم سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ تم فرماؤ، غنیمت کے مالوں کے مالک اللہ اور رسول ہیں تو اللہ سے ڈرتے رہو اور آ پس میں صلح صفائی رکھو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر تم مومن ہو۔
{ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ:اے حبیب! تم سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔} اَنفال، نَفَلْ کی جمع ہے اورا س سے مراد مالِ غنیمت ہے۔ (جمل، الانفال، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۱۶۴)اور نَفَلْ کوغنیمت اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بھی محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی عطا ہے۔ (بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۱، ۳ / ۸۷) شانِ نزول: اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ہیں ، ان میں سے دو روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں :
(1)…حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ، میں نے حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے آیتِ انفال کے نزول کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ’’یہ آیت ہم اہلِ بدر کے حق میں نازل ہوئی جب غنیمت کے معاملہ میں ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہوا اور بدمزگی کی نوبت آگئی تو اللہ تعالیٰ نے معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکال کر اپنے رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے سپرد کر دیا اور آپ نے وہ مال مسلمانوں میں برابر تقسیم کردیا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ، ۸ / ۴۱۰، الحدیث: ۲۲۸۱۱)
(2)… حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے غزوۂ بدر کے دن ارشاد فرمایا: ’’ جو تم میں سے یہ کام کر دکھائے اسے مالِ غنیمت میں سے یہ انعام ملے گا۔ چنانچہ نوجوان آگے بڑھ گئے اور عمر رسیدہ حضرات جھنڈوں کے پاس کھڑے رہے اور وہاں سے نہ ہٹے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کافروں پر فتح عطا فرمائی تو بوڑھوں نے فرمایا: ’’ہم تمہارے پشت پناہ تھے، اگر تمہیں شکست ہو جاتی تو تم ہماری طرف آتے لہٰذا یہ نہیں کہ غنیمت تم لے جاؤ اور ہم خالی ہاتھ رہ جائیں۔ جوانوں نے اس بات سے انکار کیا اور کہا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ہمارا یہ حق مقرر فرمایا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی النفل، ۳ / ۱۰۲، الحدیث: ۲۷۳۷)
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)
ترجمۂکنزالایمان:ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ:ایمان والے وہی ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہتعالیٰ نے ایمان کی شرط کے ساتھ اپنی اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا کیونکہ کامل ایمان، کامل اطاعت کو مستلزم ہے۔ جبکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۱۷۵-۱۷۶)
اس آیت میں اپنے ایمان میں سچے اور کامل لوگوں کا پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کاخوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ عَزَّوَجَلَّ کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیاءے کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کااللہ تعالیٰ سے جتنا زیادہ قرب ہوتاہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۴۵۰ ملتقطاً)
جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ میں تم سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معرفت رکھنے والا ہوں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: انا اعلمکم باللہ، ۱ / ۱۸، الحدیث: ۲۰)
حضرت حسن رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ درخت پر پرندے کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے پرندے! تیرے لئے کتنی بھلائی ہے کہ تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے کاش! میں بھی ایک پھل ہوتا جسے پرندے کھا لیتے۔ (کتاب الزہد لابن مبارک، باب تعظیم ذکر اللہ عزّوجل، ص۸۱، رقم: ۲۴۰)
حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو دیکھا کہ آپ نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر فرمایا: کاش! میں ایک تنکا ہوتا۔ کاش! میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ کاش! میں پیدا نہ ہوا ہوتا۔ کاش! میں بھولا بسرا ہوتا۔ (کتاب الزہد لابن مبارک، باب تعظیم ذکر اللہ عزّوجل، ص۷۹، رقم: ۲۳۴)
حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس مومن بندے کی آنکھ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف سے آنسو نکلے، خواہ وہ مچھر کے سر جتنا ہو، پھر وہ آنسو رخسار کے سامنے کے حصے کو مس کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۷، الحدیث: ۴۱۹۷)[7]۔
دوسرا وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔
تیسرا وصف یہ بیان ہو اکہ وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سپرد کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۱۷۶)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’توکل کا یہ معنی نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو مُہمَل چھوڑ دے جیساکہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اَسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ،اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسہ کرے ۔ (تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۵۹، ۳ / ۴۱۰) اس کی تائید اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ایک شخص نے عرض کی :یا رسول اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ،میں اپنے اونٹ کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ ارشاد فرمایا ’’تم اسے باندھو پھر توکل کرو۔ (ترمذی، کتاب صفۃ یوم القیامۃ، ۶۰-باب، ۴ / ۲۳۲، الحدیث: ۲۵۲۵)
اور توکل کی فضیلت کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’ میری امت میں سے ستر ہزار بغیر حساب جنت میں جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو منتر جنتر نہیں کرتے ، فال کے لیے چڑیاں نہیں اڑاتے اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ پر بھروسہ کرتے ہیں۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ، ۴ / ۲۴۰، رقم۶۴۷۲)
الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳)
ترجمۂکنزالایمان: وہ جو نماز قائم رکھیں اور ہمارے دیئے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کریں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔
{ اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ:وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں کے جو تین اوصاف بیان کئے یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر کے وقت ڈر جانا، تلاوت ِقرآن کے وقت ایمان زیادہ ہونا اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا، ان تینوں کا تعلق قلبی اعمال سے تھا جبکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے دو اوصاف ایسے بیان فرمائے ہیں کہ جن کا تعلق ظاہری اعضاء کے اعمال سے ہے، پہلا وصف یہ ارشاد فرمایا کہ’’وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں ‘‘ نماز قائم رکھنے سے مراد یہ ہے کہ فرض نمازوں کو ان کی تمام شرائط و ارکان کے ساتھ اُن کے اوقات میں ادا کرنا۔ دوسرا وصف یہ ارشاد فرمایا کہ ’’اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مال اس جگہ خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا، اس میں زکوٰۃ، حج، جہا د میں خرچ کرنا اور نیک کاموں میں خرچ کرنا سب داخل ہے (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۱۷۷) [8]۔
اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴)
ترجمۂکنزالایمان: یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہی سچے مسلمان ہیں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔
{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا:یہی سچے مسلمان ہیں۔} انہیں سچے مسلمان کا لقب اس لئے عطا ہو اکہ جہاں ان کے دل خَشیتِ الٰہی، اخلاص اور توکل جیسی صفاتِ عالیہ سے مُتَِّصف ہیں وہیں ان کے ظاہری اعضاء بھی رکوع و سجود اور راہِ خدا میں مال خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔ (بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۸۸-۸۹)
{لَهُمْ دَرَجٰتٌ: ان کے لیے درجے ہیں۔} اس آیت میں ما قبل مذکور پانچ اوصاف کے حامل مؤمنین کے لئے تین جزائیں بیان کی گئی ہیں :
(1)…ان کیلئے ان کے رب کے پاس درجات ہیں۔ یعنی جنت میں ان کے لئے مَراتب ہیں اور ان میں سے بعض بعض سے اعلیٰ ہیں کیونکہ مذکورہ بالا اوصاف کو اپنانے میں مؤمنین کے اَحوال میں تَفاوُت ہے اسی لئے جنت میں ان کے مراتب بھی جدا گانہ ہیں۔
(2)…ان کے لئے مغفرت ہے ۔یعنی ان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
(3)… اور عزت والا رزق ہے۔ یعنی وہ رزق ہے جو اللہتعالیٰ نے ان کیلئے جنت میں تیار فرمایا ہے۔ اسے عزت والا اس لئے فرمایا گیا کہ انہیں یہ رزق ہمیشہ تعظیم واکرام کے ساتھ اور محنت و مشقت کے بغیرعطا کیا جائے گا۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴، ۲ / ۱۷۸)
كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ۪-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ(۵) یُجَادِلُوْنَكَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ كَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَؕ(۶) وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآىٕفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ(۷) لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَۚ(۸)
ترجمۂکنزالایمان: جس طرح اے محبوب تمہیں تمہارے رب نے تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔ سچی بات میں تم سے جھگڑتے تھے بعد اس کے کہ ظاہر ہوچکی گویا وہ آنکھوں دیکھی موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں۔ اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں وعدہ دیا تھا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہیں اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے سچ کو سچ کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کا ٹ دے۔کہ سچ کو سچ کرے اور جھوٹ کو جھوٹا پڑے برا مانیں مجرم ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جیسے تمہیں تمہارے رب نے تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا حالانکہ یقینا مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔یہ حق بات کے بارے میں اس کے روشن ہوجانے کے بعد تم سے جھگڑتے تھے گویا انہیں آنکھوں دیکھی موت کی طرف ہانکا جارہا ہے۔اور یاد کرو جب اللہ نے تم سے وعدہ کیا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہ ہو اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے سچ کو سچ کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کا ٹ دے۔ تاکہ سچ کو سچا کردکھائے اور جھوٹ کو جھوٹاکردکھائے اگرچہ مجرم ناپسند کریں۔
{كَمَا:جس طرح۔} اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، مالِ غنیمت کا مسلمانوں کے اختیار سے نکال کر آپ کے اختیار میں دے دینا ایسے ہی حق ہے جیسے آپ کا غزوۂ بدر کے لئے اپنے گھر سے نکلنا برحق تھا اگرچہ دونوں چیزیں طبعی طور پر بعض مسلمانوں کی طبیعت پر گراں گزر رہی ہیں۔
{وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَ:حالانکہ یقینا مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔}اس گروہ کے ناخوش ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اُن کی تعداد کم ہے، ہتھیار تھوڑے ہیں جبکہ دشمن کی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ اسلحہ وغیرہ کا بڑا سامان رکھتا ہے۔ ان آیات میں مذکور واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ ملکِ شام سے ابوسفیان کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ آنے کی خبر پا کر سیّدِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ صحابۂ کرام کے ساتھ اُن سے مقابلے کیلئے روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ سے ابوجہل قریش کا ایک لشکرِ گراں لے کر اس تجارتی قافلے کی امداد کے لئے روانہ ہوا۔ ا بوسفیان تو رستے سے کترا کر اپنے قافلے کے ہمراہ ساحلِ سمندر کے راستے پر چل پڑے اور ابوجہل سے اس کے رفیقوں نے کہا کہ قافلہ تو بچ گیا اس لئے اب مکہ مکرمہ واپس چل۔ ابو جہل نے انکار کردیا اور وہ تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے جنگ کرنے کے ارادے سے بدر کی طرف چل پڑا۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے مشورہ کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کے دونوں گروہوں یعنی تجارتی قافلے یا قریش کے لشکر میں سے ایک پر مسلمانوں کوفتح عطا فرمائے گا ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس بات میں موافقت کی لیکن بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے یہ عذر پیش کیا کہ ہم اِس تیاری سے نہیں چلے تھے اور نہ ہماری تعداد اتنی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس کافی اسلحے کا سامان ہے۔ یہ عذر رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو گراں گزرا اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا : قافلہ تو ساحل کی طرف نکل گیا جبکہ ابوجہل سامنے آ رہا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے پھر عرض کی: یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، قافلے ہی کا تعاقب کیجئے اور دشمن کے لشکرکو چھوڑ دیجئے۔ یہ بات خاطرِ اقدس پہ ناگوار ہوئی تو حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے کھڑے ہو کر اپنے اخلاص و فرمانبرداری اور رضا جوئی و جاں نثاری کا اظہار کیا اور بڑی قوت و اِستحکام کے ساتھ عرض کی کہ وہ کسی طرح مرضی ٔمبارک کے خلاف سستی کرنے والے نہیں ہیں۔پھر اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی عرض کی کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو جو حکم فرمایا اس کے مطابق تشریف لے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں کبھی پیچھے نہ ہٹیں گے ، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ا یمان لائے ہیں ، ہم نے آپ کی تصدیق کی اور ہم نے آپ کی پیروی کے عہد کئے ہیں۔ہمیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَکی اتباع میں سمندر کے اندر کود جانے سے بھی کوئی عذر نہیں ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: چلو ، اللہ تعالیٰ کی برکت پر بھروسا کرو ،اُس نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ مجھے دشمنوں کے گرنے کی جگہ نظر آرہی ہے۔ اس کے بعد حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے کفار کے مرنے اور گرنے کی جگہ ہر ایک کے نام کے ساتھ بتادی اور ایک ایک کی جگہ پر نشانات لگادیئے اور یہ معجزہ دیکھا گیا کہ اُن میں سے جو مر کر گرا اُسی نشان پر گرا اور اس سے خطا نہ کی۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵-۷، ۲ / ۱۷۸-۱۸۰)
نوٹ:غزوۂ بد ر سے متعلق مزید معلومات کے لئے سورۂ آلِ عمران کی آیت 123 تا 127کی تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ(۹)وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَىٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْۚ-وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠(۱۰)
ترجمۂکنزالایمان: جب تم اپنے رب سے فریا د کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی کہ میں تمہیں مدد دینے والا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے۔اور یہ تو اللہ نے کیا مگر تمہاری خوشی کو اور اس لیے کہ تمہارے دل چین پائیں اور مدد نہیں مگر اللہ کی طرف سے بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریا د کرتے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول کی کہ میں ایک ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔ اور اللہ نے اس کوخوشخبری کیلئے ہی بنایا اور اس لیے کہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
{اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ:یاد کروجب تم اپنے رب سے فریا د کرتے تھے ۔} شانِ نزول: حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ غزوۂ بدر کے دن رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے مشرکین کو ملاحظہ فرمایا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے ساتھ تین سو اُنیس مرد تھے۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے قبلہ کی طرف منہ کیا اور اپنے بابرکت ہاتھ پھیلا کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے یہ دعا کرنے لگے ’’یا رب! عَزَّوَجَلَّ،تو نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما۔ یارب ! عَزَّوَجَلَّ، تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ عنایت فرما ۔یارب! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو اہلِ اسلام کی اس جماعت کو ہلاک کردے گا تو زمین میں تیری پرستش نہ ہوگی ۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اسی طرح دعا کرتے رہے یہاں تک کہ مبارک کندھوں سے چادر شریف اُتر گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضر ہوئے اور چادر مبارک شانۂ اقدس پر ڈال کر عرض کی: یا نَبِیَّ اللہ!اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ آپ کی مناجات کافی ہوگئی وہ بہت جلد اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔۔ الخ، ص۹۶۹، الحدیث: ۵۸ (۱۷۶۳))
{اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ: میں ایک ہزار لگاتار آنے والے فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کرنے والا ہوں۔} چنانچہ پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار پھر پانچ ہزار۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ مسلمان اس دن کافروں کا تعاقب کرتے تھے اور کافر مسلمانوں کے آگے آگے بھاگتا جاتا تھا کہ اچانک اُوپر سے کوڑے کی آواز آتی اور سوار کا یہ کلمہ سنا جاتا تھا ’’ اَقْدِمْ حَیْزومُ‘‘ یعنی آگے بڑھ اے حیزوم (حیزوم حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کا نام ہے) اور نظر آتا تھا کہ کافر گر کر مر گیا اور اس کی ناک تلوار سے اڑا دی گئی اور چہرہ زخمی ہوگیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے اپنے یہ معائنے بیان کئے تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ یہ تیسرے آسمان کی مدد ہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔۔ الخ، ص۹۶۹، الحدیث: ۵۸ (۱۷۶۳))
نوٹ:غزوۂ بدر میں فرشتوں کے نزول سے متعلق مزید معلومات کے لئے سورۂ آلِ عمران آیت 124 کے تحت تفسیر ملاحظہ کیجئے۔
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ(۱۱)
ترجمۂکنزالایمان:جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرما وے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یاد کرو جب اس نے اپنی طرف سے تمہاری تسکین کے لئے تم پر اونگھ ڈال دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے وہ تمہیں پاک کردے اور تم سے شیطان کی ناپاکی کو دور کردے اور تمہارے دلو ں کو مضبوط کردے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔
{اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ:یاد کروجب اس نے تم پر اونگھ ڈال دی۔} حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غنودگی اگر جنگ میں ہو تو امن ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ہے اور نماز میں ہو تو شیطان کی طرف سے ہے۔ جنگ میں غنودگی کا امن ہونا اس سے ظاہر ہے کہ جسے جان کا اندیشہ ہواُسے نیند اور اونگھ نہیں آتی، وہ خطرے اور اِضطراب میں رہتا ہے ۔ شدید خوف کے وقت غنودگی آنا حصولِ امن اور زوالِ خوف کی دلیل ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ’’ جب مسلمانوں کو دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت سے جانوں کا خوف ہوا اور بہت زیادہ پیاس لگی تو ان پر غنودگی ڈال دی گئی جس سے انہیں راحت حاصل ہوئی ، تھکان اور پیاس دور ہوئی اور وہ دشمن سے جنگ کرنے پر قادر ہوئے۔ یہ اونگھ اُن کے حق میں نعمت تھی ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ’’ یہ اونگھ معجزہ کے حکم میں ہے کیونکہ یکبارگی سب کواونگھ آئی اور کثیر جماعت کا شدید خوف کی حالت میں اِس طرح یکبارگی اونگھ جانا خلاف ِعادت ہے۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۱۸۲)
{وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً:اور تم پر آسمان سے پانی اتارا ۔} غزوۂ بدر کے دن مسلمان ریگستان میں اُترے تو اُن کے اور اُن کے جانوروں کے پاؤں ریت میں دھنسے جاتے تھے جبکہ مشرکین اُن سے پہلے پانی کی جگہوں پر قبضہ کر چکے تھے ۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے بعض کو وضو کی اور بعض کو غسل کی ضرورت تھی اور اس کے ساتھ پیاس کی شدت بھی تھی۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہارا گمان ہے کہ تم حق پر ہو، تم میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی ہیں اورتم اللہ والے ہو جبکہ حال یہ ہے کہ مشرکین غالب ہو کر پانی پر پہنچ گئے اور تم وضو اور غسل کئے بغیر نمازیں پڑھ رہے ہو تو تمہیں دشمن پر فتح یاب ہونے کی کس طرح امید ہے ؟شیطان کا یہ وسوسہ یوں زائل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بارش بھیجی جس سے وادی سیراب ہوگئی اور مسلمانوں نے اس سے پانی پیا، غسل اور وضو کئے، اپنی سواریوں کو پانی پلایا اور اپنے برتنوں کو پانی سے بھر لیا، بارش کی وجہ سے غبار بھی بیٹھ گیا اور زمین اس قابل ہوگئی کہ اس پر قدم جمنے لگے ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے دل خوش ہو گئے اور بارش کی نعمت کامیابی اور فتح حاصل ہونے کی دلیل ہوئی۔ (تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۱۹۷)
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىٕكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍؕ(۱۲)
ترجمۂکنزالایمان: جب اے محبوب تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت رکھو عنقریب میں کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈالوں گا تو کافروں کی گردنوں سے اوپر مارو اور ان کی ایک ایک پورپر ضرب لگاؤ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یاد کرو اے حبیب! جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت رکھو۔ عنقریب میں کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈال دوں گا تو تم کافروں کی گردنوں کے اوپر مارو اور ان کے ایک ایک جوڑ پر ضربیں لگا ؤ۔
{اَنِّیْ مَعَكُمْ:میں تمہارے ساتھ ہوں۔} آیت کے اس حصے کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جب فرشتے مسلمانوں کی مدد کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں تم ان کی مدد کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو۔ فرشتوں کے ثابت قدم رکھنےکا معنی یہ ہے کہ فرشتوں نے سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے مسلمانوں کو یہ خبر دے دی( جس سے مسلمانوں کے دل مطمئن ہو گئے اور وہ اس جنگ میں ثابت قدم رہے۔) دوسری تفسیر زیادہ قوی ہے کیونکہ اس کلام سے مقصود خوف زائل کرنا ہے کیونکہ فرشتے کفار سے نہیں ڈرتے محض مسلمان خوفزدہ تھے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۴۶۳)
{فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ:تو تم کافروں کی گردنوں کے اوپر مارو۔} ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں سے ہے اور ایک قول یہ ہے کہ خطاب فرشتوں سے ہے۔ (بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۹۷)
مفسرین کی ایک تعداد کے مطابق جنگ ِ بدر میں فرشتوں نے باقاعدہ لڑائی میں حصہ لیا تھا ،یہاں ہم دو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے بیانات تحریر کرتے ہیں جن سے مفسرین کے ا س مَوقف کی تائید ہوتی ہے۔چنانچہ
حضرت ابو داؤد مازنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تھے ،فرماتے ہیں کہ ’’میں مشرک کی گردن مارنے کے لئے اس کے درپے ہوا لیکن اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا تو میں نے جان لیا کہ اسے کسی اور نے قتل کیا ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی داود المازنی رضی اللہ عنہ، ۹ / ۲۰۲، الحدیث: ۲۳۸۳۹)
حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’غزوۂ بدر کے دن ہم میں سے کوئی تلوار سے مشرک کی طرف اشارہ کرتا تھا تو اس کی تلوار پہنچنے سے پہلے ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا۔(معرفۃ الصحابہ، سہل بن حنیف بن واہب بن العکیم، ۲ / ۴۴۱، رقم: ۳۲۹۹)
نوٹ:یاد رہے کہ غزوہ ٔبدر کا واقعہ 2 ھ 17 رمضانُ المبارک، بروز جمعہ صبح کے وقت پیش آیا تھا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۱۸۴)
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۚ-وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۱۳)
ترجمۂکنزالایمان:یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخا لفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ عذاب اس لیے ہواکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخا لفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بیشک اللہ سخت سزا دینے والاہے۔
{ذٰلِكَ:یہ عذاب۔} یعنی غزوۂ بدر کے دن کفار کے دلوں میں رعب ڈالے جانے ،قتل اور قیدی ہونے کے عذاب کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے مخا لفت کی اور غزوۂ بدر کے دن جو عذاب ان پہ نازل ہوا یہ اُس عذاب کے مقابلے میں بہت تھوڑا ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کر رکھا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۳، ۵ / ۴۶۴)
ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَ اَنَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ(۱۴)
ترجمۂکنزالایمان:یہ تو چکھو اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ کافروں کو آگ کا عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ( سزا ہے) تواس کامزہ چکھواور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ کافروں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔
{ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ:یہ تو چکھو۔} یعنی اے کفار! غزوۂ بدر میں تمہارا قتل اور قید ہونا تو دنیا کی سزا ہے ،تم اس کا مزہ چکھو اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ آخرت میں کافروں کے لئے آ گ کا عذاب ہے۔ (جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۱۴۸-۱۴۹، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۴، ۲ / ۱۸۴، ملتقتاً)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَۚ(۱۵)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو جب کافروں کے لام سے تمہارا مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جب کافروں کے لشکر سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرو۔
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:اے ایمان والو!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ میدانِ جنگ میں مسلمان کافروں کو پیٹھ نہ دکھائیں اور یہ حکم اس وقت ہے کہ جب کفار مسلمانوں سے تعداد میں ڈبل ہوں اِس سے زیادہ نہ ہوں اور اگر کفار کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں ڈبل سے زیادہ ہو تو پھر مسلمانوں کا پیٹھ پھیرکر بھاگنا ناجائز و حرام نہیں ہے۔ جمہور کے نزدیک ایک سو مسلمانوں کا دو سو کفار کے مقابلے سے بھاگنا کسی حال میں جائز نہیں ہے اور اگر کافر وں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہو تو ان کے مقابلے سے بھاگنا اگرچہ جائز ہے لیکن صبر و اِستِقامت سے ان کے مقابلے میں ڈٹے رہنا بہتر اور افضل ہے۔ (تفسیر قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۱۶، ۴ / ۲۷۲، الجزء السابع)
وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۱۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور جو اس دن انہیں پیٹھ دے گا مگر لڑائی کا ہنر کرنے یا اپنی جماعت میں جاملنے کو تو وہ اللہ کے غضب میں پلٹا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا بری جگہ ہے پلٹنے کی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اس دن لڑائی میں ہنر مندی کا مظاہرہ کرنے یا اپنے لشکر سے ملنے کے علاوہ کسی اور صورت میں انہیں پیٹھ دکھائے گا تو وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکاناجہنم ہے اور بہت بری لوٹنے کی جگہ ہے۔
{وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ دُبُرَهٗ:اور جو اس دن انہیں پیٹھ دکھائے گا۔} یعنی مسلمانوں میں سے جو جنگ میں کفار کے مقابلے سے بھاگا وہ غضبِ الٰہی میں گرفتار ہوا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے البتہ دو صورتیں ایسی ہیں جن میں وہ پیٹھ دکھا کر بھاگنے والا نہیں ہے۔
(1)… کسی جنگی حکمتِ عملی کی وجہ سے پیچھے ہٹنا مثلاً پیچھے ہٹ کر حملہ کرنا زیادہ مؤثِّر ہو یا خطرناک جگہ سے ہٹ کر محفوظ جگہ سے حملہ کرنے کا قصد ہو تو اس صورت میں وہ پیٹھ دکھا کر بھاگنے والا نہیں ہے۔
(2)… اپنی جماعت میں ملنے کے لئے پیچھے ہٹنا مثلاً مسلمان فوجیوں کا کوئی فرد یا گروہ مرکزی جماعت سے بچھڑ گیا اور وہ اپنے بچاؤ کیلئے پَسپا ہو کر مرکزی جماعت سے ملا تو یہ بھی بھاگنے والوں میں شمار نہ ہو گا۔
جنگِ احد اور جنگِ حنین میں جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے قدم اکھڑ گئے تھے وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جنگِ احد میں پسپائی اختیار کرنے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی عام معافی کا اعلان فرما دیا:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِۙ-اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْاۚ-وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ ‘‘ (آل عمران: ۱۵۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک تم میں سے وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے جس دن دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا ،انہیں شیطان ہی نے ان کے بعض اعمال کی وجہ سے لغزش میں مبتلا کیا اور بیشک اللہ نے انہیں معاف فرما دیا ہے۔
یونہی جنگِ حنین میں جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ابتداء ًپسپائی اختیار کی ان کے مومن رہنے کی گواہی خود قرآن میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے قدم جمائے اور ان پر اپنا سکینہ اتارا، ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا‘‘(التوبہ : ۲۶)
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھراللہ نے اپنے رسول پر اور اہلِ ایمان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اس نے (فرشتوں کے) ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے ۔
جو اس طرح کے واقعات کو لے کر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی شان میں گستاخی کرے اور ان پر زبانِ طعن دراز کرے وہ بڑا بدبخت ہے کہ ان کی معافی کا اعلان ربُّ العالَمین عَزَّوَجَلَّخود فرماچکا ہے۔
[1] …بد شگونی سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’بد شگونی‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) کا مطالعہ فرمائیں۔
[2] …تکبر کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’تکبر‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔
[3] …توبہ کے فضائل،شرائط اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’توبہ کی روایات و حکایات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
[4] … نماز سے متعلق ضروری احکام اورمسائل جاننے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب’’نماز کے احکام‘‘اور’’اسلامی بہنوں کی نماز‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ فرمائیں۔
[5] …اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے مدد مانگنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ ’’کرامات شیر خدا‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) صفحہ56تا95کا مطالعہ کرنا بہت مفید ہے۔
[6] …عفو و در گزر کی ترغیب اور جذبہ پانے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا رسالہ’’عفو ودرگزر کی فضیلت‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔
[7] …دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے کی ترغیب پانے اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’خوفِ خدا‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ مفید ہے۔
[8] …اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل اور احکام وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب ’’ضیائے صدقات‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔