سوال …: غسل کے کتنے فرض ہیں ؟ اور ان سے کیا مراد ہے؟
جواب …: غسل کے تین فرض ہیں :
(۱)… کلی کرنا: منہ میں تھوڑا سا پانی لے کر پچ کر کے ڈال دینے کا نام کلی نہیں بلکہ منہ کے ہر پرزے ، گوشے، ہونٹ سے حلق کی جڑ تک ہر جگہ پانی بہ جائے۔)[1](
(۲)… ناک میں پانی چڑھانا: جلدی جلدی ناک کی نوک پر پانی لگا لینے سے کام نہیں چلے گا جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈی کے شروع تک دھلنا لازمی ہے)[2](
(۳)… تمام ظاہری بدن پر پانی بہانا:سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے تلووں تک جسم کے ہر پرزے اور ہر ہر رونگٹے پر پانی بہ جانا ضروری ہے، جسم کی بعض جگہیں ایسی ہیں کہ اگر احتیاط نہ کی تو وہ سوکھی رہ جائیں گی اور غسل نہ ہوگا۔)[3](
٭… بغیر زبان ہلائے دل میں اس طرح نیت کیجئے کہ میں پاکی حاصل کرنے کے لئے غسل کرتا ہوں ۔
٭… پہلے دونوں ہاتھ پہنچوں تک تین تین بار دھوئیے۔
٭… پھر استنجے کی جگہ دھوئیے خواہ نجاست ہو یا نہ ہو۔
٭… پھر جسم پر اگر کہیں نجاست ہو تو اس کو دور کیجئے۔
٭… پھر نماز کا سا وضوکیجئے مگر پاؤں نہ دھوئیے، ہاں اگر چوکی وغیرہ پر غسل کر رہے ہیں یا ایسی جگہ پر ہیں جہاں پانی ٹھہرتا نہیں تو پاؤں بھی دھو لیجئے۔
٭… پھر بدن پر تیل کی طرح پانی چپڑ لیجئے، خصوصاً سردیوں میں (اس دوران صابن بھی لگا سکتے ہیں )
٭… پھر تین بار سیدھے کندھے پر پانی بہائیے۔ پھر تین بار الٹے کندھے پر، پھر سر پر اور تمام بدن پر تین بار۔
٭… پھر غسل کی جگہ سے الگ ہو جائیے، اگر وضو کرنے میں پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لیجئے۔
سوال …: نہانے میں کن باتوں کو پیشِ نظررکھنا چاہئے؟
جواب …: نہانے میں درج ذیل باتوں کو پیشِ نظررکھنا چاہئے:
٭… نہانے میں قبلہ رخ نہ ہوں ۔ ٭… تمام بدن پر ہاتھ پھیر کر مل کر نہائیے۔
٭… ایسی جگہ نہائیں کہ کسی کی نظر نہ پڑے اگر یہ ممکن نہ ہو تو مرد اپنا ستر (ناف سے لے کر دونوں گھٹنوں سمیت) کسی موٹے کپڑے سے چھپا لے، موٹا کپڑا نہ ہو تو حسب ضرورت دو یا تین کپڑے لے، کیونکہ باریک کپڑا ہوگا تو پانی سے بدن پر چپک جائے گا اور مَعَاذَ اللہ گھٹنوں یا رانوں وغیرہ کی رنگت ظاہر ہوگی۔ عورت کو تو اور بھی زیادہ احتیاط کی حاجت ہے۔
٭… دورانِ غسل کسی قسم کی گفتگو مت کیجئے۔ ٭… کوئی دعا بھی نہ پڑھئے۔
٭… نہانے کے بعد تولیے وغیرہ سے بدن پونچھنے میں حرج نہیں ۔
٭… نہانے کے بعد فوراً کپڑے پہن لیجئے۔ اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رکعت نفل ادا کرنا مستحب ہے۔ )[4](
سوال …: ناپاکی کی حالت میں کون کون سے کام نہیں کر سکتے؟
جواب …: ناپاکی کی حالت میں یہ کام کرنا منع ہیں :
(1)… جس پر غسل فرض ہو اس پر درج ذیل کام کرنا حرام ہیں :
٭… مسجد میں جانا ٭… طواف کرنا ٭… قرآنِ پاک چھونا
٭… بے چھوئے زبانی پڑھنا ٭… کسی آیت کا لکھنا ٭… آیت کا تعویذ لکھنا
٭… ایسا تعویذ یا انگوٹھی چھونا یا پہننا جس پر آیت یا حروف مقطعات لکھے ہوں حرام ہے۔ )[5](
(موم جامے والے یا پلاسٹک میں لپیٹ کر کپڑے یا چمڑے وغیرہ میں سلے ہوئے تعویذ کو پہننے یا چھونے میں مضائقہ نہیں )
(2) … جو بے وضو ہو اس پر درج ذیل کام کرنا حرام ہیں :
٭… جس برتن یا کٹورے پر کوئی سورت یا آیتِ مبارکہ لکھی ہو بے وضو اور بے غسل دونوں کو اس کا چھونا حرام ہے۔)[6](
٭… قرآنِ پاک کا ترجمہ فارسی یا اردو یا کسی دوسری زبان میں ہو اس کو بھی پڑھنے یا چھونے میں قرآن پاک ہی کا سا حکم ہے۔)[7](
سوال …: ناپاکی کی حالت میں کون کون سے کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ؟
جواب …: ناپاکی کی حالت میں درج ذیل کام کرنے میں کوئی حرج نہیں :
(1)… جو بے وضو ہو وہ درج ذیل کام کر سکتا ہے:
(1)… اگر قرآنِ پاک جزدان (یعنی غلاف) میں ہو تو بے وضو یا بے غسل جزدان پر ہاتھ لگانے میں حرج نہیں ۔ )[8](
(2)… کسی ایسے کپڑے یا رومال وغیرہ سے قرآن پاک پکڑنا جائز ہے جو نہ اپنے تابع ہو نہ قرآنِ پاک کے۔)[9](
(3)… بے وُضو کو قرآنِ مجید یا اسکی کسی آیت کا چھونا حرام ہے۔ بے چھوئے زبانی یادیکھ کر پڑھے تو کوئی حَرَج نہیں ۔)[10](
(1)… قرآنِ پاک کی آیت دعا کی نیت سے یا تبرک کیلئے مثلاً بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا ادائے شکر کے لئے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱)یا کسی مسلمان کی موت یا کسی قسم کے نقصان کی خبر پر اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶)یا ثناء کی نیت سے پوری سورۂ فاتحہ یا آیۃالکرسی یا سورۂ حشر کی آخری تین آیات پڑھیں اور ان سب صورتوں میں قرآن پڑھنے کی نیت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔)[11](
(2)… آخری تینوں قل بلا لفظِ قل بہ نیت ثناء پڑھ سکتے ہیں ۔ لفظِ قل کیساتھ ثناء کی نیت سے بھی نہیں پڑھ سکتے کیوں کہ اس صورت میں ان کا قرآن ہونا متعین ہے، نیت کو کچھ دخل نہیں ۔)[12](
(3)… قرآنِ مجید دیکھنے میں کچھ حَرَج نہیں اگرچہ حروف پر نظر پڑے اور الفاظ سمجھ میں آئیں اور خیال میں پڑھتے جائیں ، کیونکہ خیال میں پڑھنے کا اعتبار نہیں ۔
(4)… درود شریف اور دعاؤں کے پڑھنے میں حَرَج نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ وُضو یا کُلی کر کے پڑھیں ۔
(5)… اذان کا جواب دینا بھی جائز ہے۔
٭…٭…٭
سوال …: تیمم کیا ہے؟
جواب …: تیمم اصل میں وُضو اور غُسل کا بدل ہے، یعنی جس کا وُضو نہ ہو یا نہانے کی ضرورت ہو اور پانی پر قدرت نہ ہو تو وہ وُضو اور غُسل کی جگہ تیمم کر سکتا ہے۔
سوال …: کیا وُضو اور غُسل کے تیمم میں کوئی فرق ہے؟
جواب …: جی نہیں ! وضو اور غُسل کے تیمم میں کوئی فرق نہیں ۔
سوال …: اگر کسی پر غُسل فرض ہو تو کیا وہ غسل کا تیمم کر کے نماز وغیرہ پڑھ سکتا ہے یا نماز کے لیے الگ سے وُضو کا تیمم کرنا ضروری ہے؟
جواب …: جی ہاں ! اگر کسی پر غسل فرض ہو تو وہ تیمم کر کے نماز وغیرہ پڑھ سکتا ہے اور اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ غُسل اور وُضو دونوں کے لیے دوتیمم کرے بلکہ ایک ہی میں دونوں کی نیت کرلے دونوں ہو جائیں گے اور اگر صرف غُسل یا وُضو کی نیت کی جب بھی کافی ہے۔
سوال …: کیا تیمم کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! تیمم کا ذکر پارہ 6سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 6میں کچھ یوں آیا ہے:
وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآىٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُؕ-ؕ (پ۶، المائدۃ: ۶)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور اگر تم بیمار یا سفر میں ہو یا تم میں کوئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمّم کرو تو اپنے منھ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو ۔
سوال …: تیمم کے کتنے فرض ہیں ؟
جواب …: تیمم کے تین فرض ہیں :
(۱)… نیت (۲)… سارے منہ پر ہاتھ پھیرنا (۳)… کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کا مسح کرنا۔
سوال …: تیمم میں نیت سے کیا مراد ہے؟
جواب …: تیمم کرتے وقت یہ نیت ہونا فرض ہے: بے وضو یا بے غسلی یا دونوں سے پاکی حاصل کرنے اور نماز وغیرہ جائز ہونے کے لئے تیمم کرتا ہوں ۔ یاد رکھئے کہ نیت اگرچہ دل کے ارادے کا نام ہے مگر زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے۔
سوال …: تیمم میں سارے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کن باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے؟
جواب …: تیمم میں سارے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے درج ذیل باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے:
٭… ہاتھ اس طرح پھیرا جائے کہ منہ کا کوئی حصہ باقی نہ رہ جائے اگر بال برابر بھی کوئی جگہ رہ گئی تیمم نہ ہوا۔
٭… داڑھی، مونچھوں اور بھوؤں کے بالوں پر ہاتھ پھر جانا ضروری ہے۔
٭… بھوؤں کے نیچے اور آنکھوں کے اوپر جو جگہ ہے اس کا اور ناک کے نچلے حصے کا خیال رکھیں کہ اگر خیال نہ رکھیں گے تو ان پر ہاتھ نہ پھرے گا اور تیمم نہ ہوگا۔
٭… زور سے آنکھیں بند کرلیں جب بھی تیمم نہ ہوگا۔
٭… ہونٹ کا وہ حصہ جو عادۃً منہ بند ہونے کی حالت میں دکھائی دیتا ہےاس پر بھی مسح ہو جانا ضروری ہے تو اگر کسی نے ہاتھ پھیرتے وقت ہونٹوں کو زور سے دبالیا کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا تیمم نہ ہوا۔
سوال …: تیمم میں کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے مسح کے دوران کیا احتیاط کرنی چاہئے؟
جواب …: تیمم میں کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے مسح کے دوران یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کوئی جگہ ذرّہ برابر باقی نہ رہے ورنہ تیمم نہ ہو گا اور اس کے لیے انگوٹھی چھلّے یا کنگن چوڑیاں وغیرہ پہنے ہوں تو انہیں اتار کر ان کے نیچے ہاتھ پھیرنا فرض ہے۔
سوال …: تیمم کی سنتیں کتنی ہیں ؟
جواب …: تیمم کی دس سنتیں ہیں :
(1)… بسم الله شریف کہنا۔ (2)… ہاتھوں کو زمین پر مارنا۔
(3)… زمین پر ہاتھ مار کر لوٹ دینا۔ )[13]( (4)… انگلیاں کھلی ہوئی رکھنا۔
(5)… ہاتھوں کو جھاڑ لینا یعنی ایک ہاتھ کے انگوٹھے کی جڑ کو دوسرے ہاتھ کے انگوٹھے کی جڑ پر مارنا مگر یہ احتیاط رہے کہ تالی کی آواز پیدا نہ ہو۔
(6)… پہلے منہ پھر ہاتھوں کا مسح کرنا۔ (7)… دونوں کا مسح پے درپے ہونا۔
(8)… پہلے سیدھے پھر الٹے ہاتھ کا مسح کرنا۔ (9)… داڑھی کا خلال کرنا۔
(10)… انگلیوں کا خلال کرنا جبکہ غبار پہنچ گیا ہو۔ اگر غبار نہ پہنچا ہو مثلاً پتھر وغیرہ کسی ایسی چیز پر ہاتھ مارا جس پر غبار نہ ہو تو خلال فرض ہے خلال کیلئے دوبارہ زمین پر ہاتھ مارنا ضروری نہیں ۔ )[14](
٭… تیمم کی نیت کیجئے۔
٭… بسم اللہ پڑھ کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کشادہ کر کے کسی ایسی پاک چیز پر جو زمین کی جنس (مثلاً پتھر، چونا، اینٹ، دیوار، مٹی وغیرہ) سے ہو مار کر لَوٹ لیجئے (یعنی آگے بڑھائیے پھر پیچھے لائیے)۔
٭… اگر زیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیجئے اور اس سے سارے منہ کا اس طرح مسح کیجئے کہ کوئی حصہ رہ نہ جائے اگر بال برابر بھی کوئی جگہ رہ گئی تو تیمم نہ ہوگا۔
٭… پھر دوسری بار اسی طرح ہاتھ زمین پر مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے لیکر کہنیوں سمیت مسح کیجئے۔
٭… اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ الٹے ہاتھ کے انگوٹھے کے علاوہ چار انگلیوں کا پیٹ سیدھے ہاتھ کی پشت پر رکھئے اور انگلیوں کے سروں سے کہنیوں تک لے جائیے اور پھر وہاں سے الٹے ہی ہاتھ کی ہتھیلی سے سیدھے ہاتھ کے پیٹ کو مس کرتے ہوئے گٹے تک لائیے اور الٹے انگوٹھے کے پیٹ سے سیدھے انگوٹھے کی پشت کا مسح کیجئے۔ اسی طرح سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کا مسح کیجئے۔
٭… اور اگر ایک دم پوری ہتھیلی اور انگلیوں سے مسح کر لیا تب بھی تیمم ہو گیا چاہے کہنی سے انگلیوں کی طرف لائے یا انگلیوں سے کہنی کی طرف لے گئے مگر سنت کے خلاف ہوا۔ تیمم میں سر اور پاؤں کا مسح نہیں ہے۔)[15](
٭…٭…٭
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی خزائن العرفان میں سورۂ تکویر کے متعلق فرماتے ہیں: سورۂ کوّرت مکّیہ ہے، اس میں ایک رکوع ، 29 آیتیں ، 104 کلمے، 530 حرف ہیں۔ حدیث شریف میں ہے سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جسے پسند ہو کہ روزِ قیامت کو ایسا دیکھے گویا کہ وہ نظر کے سامنے ہے تو چاہئے کہ سورۂ اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ اور سورۂ سورۂ اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ اور اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ پڑھے۔ (ترمذی)
سوال …: اذان سے کیا مراد ہے؟
جواب …: اذان سے مراد وہ مخصوص اعلان ہے جو پنج وقتہ نماز سے پہلے مخصوص الفاظ میں کیا جاتا ہے تا کہ نمازی مسجد میں آ کر باجماعت اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہو سکیں ۔
سوال …: اذان دینے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: اذان دینے کا طریقہ یہ ہے:
٭… اذان کہنے والا باوضو قبلہ کی طرف منہ کرے۔
٭… مسجد کے باہر بلند جگہ پر کھڑا ہو۔
٭… کانوں کے سوراخوں میں شہادت کی انگلیاں ڈالے ۔
٭… اذان کے کلمات بلند آواز سے ٹھہر ٹھہر کر کہے تاکہ دوسروں کو خوب سنائی دے۔
٭… اور حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة داہنی طرف منہ کرکے اور حَیَّ عَلَی الْـفَلَاح بائیں طرف منہ کر کے کہے۔
سوال …: اذان کہنے والے کو کیا کہتے ہیں ؟
جواب …: اذان کہنے والے کو مؤذِّن کہتے ہیں ۔
سوال …: اذان سننے والاکیا کرے؟
جواب …: جب اذان ہوتو اتنی دیر کے لئے سلام کلام اور سارے کام یہاں تک کہ قرآن کی تلاوت بندکردے، اذان کو غورسے سنے اور جواب دے۔
سوال …: جو شخص اذان کے وقت باتیں کرتا رہے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: جو شخص اذان کے وقت باتوں میں لگا رہے اس پر مَعَاذَ اللہ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔)[16](
سوال …: اذان کا جواب دینے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: اذان کا جواب دینے سے مراد یہ ہے :
٭… مؤذن جو کلمات کہے اس کے بعد سننے والا بھی وہی کلمات کہے۔مگر حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة ، حَیَّ عَلَی الْـفَلَاح کے جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ کہے۔
٭… جب مؤذن اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ کہے توسننے والا درود شریف پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگا لے اور کہے: قُرَّةُ عَیْنِیْ بِكَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَر۔یعنی یارسول اللہ! میری آنکھوں کی ٹھنڈک آپ سے ہے۔ یاالٰہی! مجھے سننے اور دیکھنے سے فائدہ پہنچا۔ )[17](
٭… فجر کی اذان میں جب مؤذن اَلصَّلٰوةُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم کہے تو سننے والا کہے:
صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ وَبِالْحَقِّ نَطَقْتَ)[18](
٭… جب اذان ختم ہوجائے تو مؤذن اور اذان سننے والا ہر فرد درود شریف پڑھ کر یہ دعا پڑھے:
اَللّٰہُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّآمَّۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَآئِمَۃِ اٰتِ سَیِّدَنَا مُحَمَّدَ ۨۨ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرَجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَا ۨۨالَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ وَاجْعَلْنَا فِیْ شَفَاعَتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّكَ لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ؕ )[19](
ترجمہ:اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اس دعوۃِتامہ اور صلوٰۃِ قائمہ کے مالک تو ہمارے سردار محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو وسیلہ اور فضیلت اور بہت بلند درجہ عطا فرما اور ان کو مقامِ محمود میں کھڑا کر جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن ان کی شفاعت نصیب فرما، بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔
٭…٭…٭
سوال …: اقامت کسے کہتے ہیں ؟
جواب …: جماعت قائم ہونے سے پہلے جلدی جلدی ہلکی آواز سے اذان کے الفاظ پڑھنے کو اقامت یا تکبیر کہتے ہیں ۔
سوال …: اذان واقامت میں کیا فرق ہے؟
جواب …: اذان اور اقامت میں تھوڑا سا فرق ہے اور وہ یہ ہے:
٭… اذان میں کانوں کے سوراخوں میں انگلیاں رکھتے ہیں جبکہ اقامت میں ایسا نہیں کرتے۔
٭… اذان عام طور پر بلند جگہ اور مسجد سے باہر کہی جاتی ہے جبکہ اقامت مسجد میں امام کی پچھلی صف میں دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر کہی جاتی ہے۔
٭… اذان اور نماز کے درمیان کافی وقت ہوتا ہے جبکہ اقامت کے فوراً بعد نماز شروع ہو جاتی ہے۔
٭… پانچوں وقت صرف اقامت میں حَیَّ عَلَی الْـفَلَاح کے بعد دو بار قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوةُ (یعنی نماز قائم ہو چکی) کہا جاتا ہے۔
سوال …: اقامت کا جواب کس طرح دیا جائے؟
جواب …: اس کا جواب بھی اسی طرح ہے جیسے اذان کا ، ہاں اس میں قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوةُ کے جواب میں یہ کلمہ کہے: اَقَامَھَا اللّٰهُ وَاَدَامَھَا مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۔ یعنی اللہ اس کو قائم اور ہمیشہ رکھے جب تک کہ آسمان و زمین ہیں ۔
٭…٭…٭
پانچوں نمازوں میں اقامت سے قبل درود و سلام اور اعلان
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا نَبِیَّ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا نُوْرَ اللہ
اِعتکاف کی نیَّت کر لیجئے، موبائل فون ہو تو بند کردیجئے۔ حصولِ ثواب کے لیے اقامت بیٹھ کر سنئے اور جواب دیجئے، حی علي الفلاح پر کھڑا ہونا سنت ہے۔
پھراقامت کے بعد امام صاحِب یا مُکَبِّر (اقامت کہنے والے کو مُکَبِّر کہتے ہیں ) یہ اعلان کرے:
اپنی ایڑیاں ، گردنیں اور کندھے ایک سیدھ میں کر کے صَف سیدھی کر لیجئے۔ دو آدمیوں کے بیچ میں جگہ چھوڑنا گناہ ہے، کندھے سے کندھا رگڑ کھاتا ہوا رکھنا واجِب، صَف سیدھی رکھنا واجب اور جب تک اگلی صَف دونوں کونوں تک پوری نہ ہو جائے پیچھے نماز شروع کر دینا ترکِ واجب، ناجائز اور گناہ ہے۔ عَزَّ وَجَلَّ 5سال سے چھوٹے نابالغ بچوں کو صفوں میں کھڑا نہ رکھیں ، انہیں کونے میں بھی نہ بھیجیں ، چھوٹے بچوں کی صف سب سے آخر میں بنائیں ۔
٭…٭…٭
سوال …: امامت کی شرائط کتنی ہیں ؟
جواب …: جو شخص شرعی معذور نہ ہو اس کے امام کے لئے چھ شرائط ہیں : (۱)…صحیح العقیدہ مسلمان ہونا (۲)… بالغ ہونا(۳)… عاقل ہونا
(۴)… مرد ہونا (۵)… قراء ت صحیح ہونا (۶)… (شرعی) معذور)[20]( نہ ہونا )[21](
سوال …: امامت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟
جواب …: اِمامت کا سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہے جو نماز و طہارت کے احکام کو سب سے زیادہ جانتا ہو، اگرچہ باقی علوم میں پوری دستگاہ (مہارت) نہ رکھتا ہو، بشرطیکہ اتنا قرآن یاد ہو کہ بطورِ مسنون (سنت کے مطابق) پڑھے اور صحیح پڑھتا ہو یعنی حروف مخارج سے ادا کرتا ہو اور مذہب کی کچھ خرابی نہ رکھتا ہو اور فواحش (بے حیائی کے کاموں ) سے بچتا ہو۔)[22](
سوال …: جس امام کا عقیدہ درست نہ ہو کیا اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟
جواب …: وہ بد مذہب جس کی بد مذہبی حد کفر کو پہنچ گئی ہواس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اور جس کی بدمذہبی حد کفر کو نہ پہنچی ہو اس کے پیچھے نماز، مکروہِ تحریمی (واجب الاعادہ) ہے۔)[23](
(۱)… نیت۔
(۲)… اقتدا اور اس نیتِ اقتدا کا تحریمہ (نماز کی نیت باندھنے کے وقت پہلی بار ہاتھ اٹھا کر اَللهُ اَکْبَر کہنے) کے ساتھ ہونا یا تکبیرِ تحریمہ سے پہلے ہونا بشرطیکہ پہلے ہونے کی صورت میں کوئی اجنبی کام نیت و تحریمہ سے جدائی کرنے والا نہ ہو۔
(۳)… امام و مقتدی دونوں کا ایک مکان میں ہونا۔
(۴)… دونوں کی نماز ایک ہو یا امام کی نماز، نمازِ مقتدی کو اپنے ضمن میں لیے ہو۔
(۵)… امام کی نماز کا مذہب مقتدی پر صحیح ہونا اور (۶)… امام و مقتدی دونوں کا اسے صحیح سمجھنا۔
(۷)… شرائط کی موجودگی میں عورت کا محاذی (برابر) نہ ہونا۔
(۸)… مقتدی کا امام سے آگے نہ ہونا۔
(۹)… امام کے انتقالات کا علم ہونا۔
(۱۰)… امام کا مقیم یا مسافر ہونا معلوم ہونا۔
(۱۱)… ارکان کی ادائیگی میں شریک ہونا۔
(۱۲)ﯡ… ارکان کی ادائیگی میں مقتدی امام کے مثل ہو یا کم۔
(۱۳)… یونہی شرائط میں مقتدی کا امام سے زائد نہ ہونا۔)[24](
٭…٭…٭
سوال …: کیا تراویح فرض ہے؟
جواب …: جی نہیں تراویح نہ تو فرض ہے اور نہ ہی واجب بلکہ ہر عاقل و بالغ مسلمان پر تراویح پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے اور اسے چھوڑنا جائز نہیں ۔ )[25](
سوال …: کیا تراویح کی جماعت واجب ہے؟
جواب …: جی نہیں ! تراویح کی جماعت واجب نہیں بلکہ سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اساء ت کے مرتکب ہوئے (یعنی برا کیا) اور اگر چند افراد نے باجماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والاجماعت کی فضیلت سے محروم رہا۔ )[26](
سوال …: مسجد کے علاوہ گھر یا کسی دوسری جگہ با جماعت تراویح ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب …: تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔ اگر گھر میں با جماعت ادا کی تو ترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجدمیں پڑھنے کا تھا۔)[27]( عشا کے فرض مسجد میں با جماعت ادا کر کے گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِ شرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشا کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترکِ واجب کا مرتکب ہونے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔ )[28](
سوال …: کیا تراویح بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب …: جی نہیں ! تراویح بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا مکروہ (تنزیہی) ہے، بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے نزدیک تو (بلا عذر بیٹھ کر ) تراویح ہوتی ہی نہیں ۔ )[29](
سوال …: تراویح کا وقت کیا ہے؟
جواب …: تراویح کا وقت عشا کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبح صادق تک ہے۔ عشا کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہوگی۔)[30](عام طور پر تراویح وتروں سے پہلے پڑھی جاتی ہے لیکن اگر کوئی وتر پہلے پڑھ لے تو تراویح بعد میں بھی پڑھ سکتا ہے۔
سوال …: اگر تراویح فوت ہو گئی تو اس کی قضا کب کرے؟
جواب …: تراویح اگر (وقت میں نہ پڑھی اور) فوت ہو گئی تو اس کی قضا نہیں ۔ )[31](
سوال …: تراویح کی کتنی رکعتیں ہیں ؟
جواب …: تراویح کی ﯚ20ﯙ رکعتیں ہیں ۔ امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے عہد میں (20) رکعتیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔)[32](
سوال …: تراویح کی(20) رکعتوں کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: تراویح کی ﯚ20ﯙ رکعتوں کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے:
٭… بہتر یہ ہے کہ تراویح کی ﯚ20ﯙ رکعتیں دو دو کر کے ﯚ10ﯙ سلام کے ساتھ ادا کرے۔
٭… اگر کسی نے تراویح کی ﯚ20ﯙ رکعتیں پڑھ کر آخر میں سلام پھیرا تو اگر ہر دو رکعت پر قعدہ کرتا رہا تو ہو جائیں گی مگر کراہت کے ساتھ اور اگر قعدہ نہ کیا تھا تو دو رکعت کے قائم مقام ہوئیں ۔)[33](
٭… ہر دو رکعت پر قعدہ کرنا فرض ہے۔
٭… ہر قعدہ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعا بھی پڑھے۔
٭… اگر مقتدیوں پر گرانی ہوتی ہو (یعنی انہیں بوجھ محسوس ہوتا ہو) تو تشہد کے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّاٰلِهٖ پر اکتفا کرے۔
٭… طاق رکعت (یعنی پہلی، تیسری، پانچویں وغیرہ) میں ثنا پڑھے اور امام تعوذ و تسمیہ پڑھے۔
٭… جب دو دو رکعت کر کے پڑھ رہا ہے تو ہر دو رکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگربیس رکعتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے۔)[34](
سوال …: کیا نابالغ امام کے پیچھے تراویح پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب …: جی نہیں ! نابالغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔بالغ کی تراویح (بلکہ کوئی بھی نماز حتیٰ کہ نفل بھی) نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی۔
سوال …: تراویح میں پورا قرآنِ مجید پڑھنے یا سننے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: تراویح میں پورا قرآنِ مجید پڑھنا اور سننا سنتِ مؤکدہ ہے۔)[35](
سوال …: اگر تراویح میں کسی بھی وجہ سے ختمِ قرآن ممکن نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: اگر تراویح میں کسی بھی وجہ سے پورا قرآنِ مجید ختم کرنا ممکن نہ ہو تو تراویح میں کوئی سی بھی سورتیں پڑھ لیجئے، اگر چاہیں تو قرآنِ کریم کی آخری دس سورتیں اَلَمْ تَرَکَیۡفَسے وَ النَّاسِ تک دو مرتبہ پڑھ لیجئے، اس طرح 20 رکعتیں یاد رکھنا بھی آسان رہے گا۔
سوال …: تراویح میں بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿﴾لند آواز سے پڑھنا چاہئے یا آہستہ؟
جواب …: تراویح میں بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ ﴿﴾ ایک بار اونچی آواز سے پڑھنا سنت ہے اور ہر سور ۃ کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مستحب ہے۔
سوال …: اگر تراویح صرف آخری دس سورتوں کے ساتھ پڑھی جا رہی ہو تو کیا پھر بھی ایک بار بِسْمِ اللّٰه شریف اونچی آواز سے پڑھنا سنت ہے؟
جواب …: جی نہیں ! اگر تراویح صرف آخری دس سورتوں کے ساتھ پڑھی جا رہی ہو تو بِسْمِ اللّٰه شریف اونچی آواز سے پڑھنا سنت نہیں ۔
سوال …: تراویح میں ختم قرآنِ کریم کس طرح کرنا چاہئے؟
جواب …: متأخرین (یعنی بعد میں آنے والے) فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے ختم تراویح میں تین بار قُلْ ہُوَ اللہُ شریف پڑھنا مستحب کہا ہے۔ نیز بہتر یہ ہے کہ ختم کے دن آخری رکعت میں الٓـمّسے الْمُفْلِحُوۡنَ تک پڑھے۔)[36](
سوال …: ختم قرآن کے بعد کیا مہینے کے باقی دن تراویح چھوڑ دے؟
جواب …: اگر ستائیسویں کو یا اس سے قبل قرآنِ پاک ختم ہوگیا تب بھی آخر رمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنتِ مؤکدہ ہے۔ )[37](
سوال …: تراویح میں قرآنِ مجید جلدی جلدی پڑھنا چاہئے یا آہستہ آہستہ؟
جواب …: تراویح میں قرآنِ مجید جلدی جلدی نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔ چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے: فر ضو ں میں ٹھہر ٹھہر کر قِرا ء َت کرے اور تراویح میں متوسِّط (یعنی درمیانہ) انداز پر اور رات کے نوافِل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے، مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم ”مَدّ“ کا جو دَرَجہ قارِیوں نے رکھا ہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے۔ اس لئے کہ تَرتیل سے (یعنی خوب ٹھہر ٹھہر کر) قرآن پڑھنے کا حُکُم ہے ۔)[38](
سوال …: آج کل کے بہت تیز پڑھنے والے حفاظ کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: آج کل کے اکثر حفاظ اس طرح پڑھتے ہیں کہ مد کا ادا ہونا تو بڑی بات ہے یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کسی لفظ کا پتا نہیں چلتا، حروف بھی صحیح طرح ادا نہیں ہوتے، بلکہ جلدی میں لفظ کے لفظ کھا جاتے ہیں اور اس پر فخر ہوتا ہے کہ فلاں اس قدر جلد پڑھتا ہے، حالانکہ اس طرح قرآنِ مجید پڑھنا حرام و سخت حرام ہے۔
سوال …: اگرجلدی جلدی پڑھنے میں حافِظ صاحِب قرآنِ مجیدمیں سے کچھ الفاظ چبا گئے تو کیا خَتمِ قرآن کی سنّت ادا ہو گی؟
جواب …: اگرجلدی جلدی پڑھنے میں حافِظ صاحِب پورے قرآنِ مجیدمیں سے صِرف ایک حَرف بھی چبا گئے تو خَتمِ قرآن کی سنّت ادا نہ ہو گی۔
سوال …: اگر کسی آیت میں کوئی حَرف چَب گیا یا اپنے مخرج سے نہ نکلا تو اب کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: اگر کسی آیت میں کوئی حَرف چَب گیا یا اپنے مخرج سے نہ نکلا تو لوگوں سے شرمائے بِغیرپلٹ پڑیئے اور دُرُست پڑھ کر پھر آگے بڑھئے۔
سوال …: اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قرآنِ پاک ان رکعتوں میں پڑھا تھا دوبارہ پڑھیں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے۔
سوال …: اگر امام غلطی سے کوئی آیت یا سورۃ چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو کیا کرے؟
جواب …: اگر امام غلطی سے کوئی آیت یا سورۃ چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مستحب یہ ہے کہ (یاد آنے پر پہلے) اسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے۔ )[39](
سوال …: تراویح میں دو رکعت کے بعد بیٹھنا بھول گیا تو کیا کرے؟
جواب …: دو رکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو اسے درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:
٭… جب تک تیسر ی کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے آخر میں سجدۂ سَہْوْ کر لے۔
٭… اگر تیسری کا سجدہ کر لیا تو چار پوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ ہاں اگر پہلی دو کے بعد قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔
٭… تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا، اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رکعتیں دو بارہ پڑھے۔
سوال …: تراویح میں اگر کوئی رکعات کی تعداد بھول جائے تو کیا کرے؟
جواب …: تراویح میں اگر رکعات کی تعداد بھول جائے تو درج ذیل صورتوں پر عمل کرے:
٭… سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں ، کوئی کہتا ہے تین، تو ا مام کو جو یاد ہو اس کا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اس کی بات مان لے۔
٭… اگر لوگوں کو شک ہو کہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ؟ تو دو رکعت تنہا تنہا پڑھیں ۔
سوال …: ترویحہ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: ترویحہ سے مراد ہر چار رکعت کے بعد کا وہ وقفہ ہے جس میں اتنی دیر آرام کیلئے بیٹھا جاتا ہے جتنی دیر میں چار رکعت پڑھی ہیں اور یہ مستحب ہے۔
سوال …: ترویحہ کے دوران کیا کرنا یا پڑھنا چاہئے؟
جواب …: ترویحہ کے دوران اختیار ہے: چپ بیٹھا رہے یا ذکر و درود اور تلاوت کرے یا تنہا نفل پڑھے۔ )[40]( یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں :
سُبْحَانَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْھَیْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِیَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ط سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَنَامُ وَلَا یَمُوْتُ ط سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَّبُّـنَا وَرَّبُّ الْمَلٰٓـئِكَۃِ وَالرُّوْحِ ط اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ ط یَا مُجِیْرُ! یَا مُجِیْرُ! یَا مُجِیْرُ! بِرَحْمَتِكَ یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن )[41](
سوال …: تراویح پڑھانے کی اُجرت لینا کیسا ہے؟
جواب …: تراویح پڑھانے کی اُجرت لینا ناجائز و حرام ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن کی بارگاہ میں اُجرت دے کر میِّت کے ایصالِ ثواب کیلئے خَتمِ قرآن وذکرُ اللہ
کروانے سے متعلّق جب اِسْتِفتا پیش ہوا تو جواباً ارشاد فرمایا: تلاوتِ قرآن و ذکر الٰہی پر اُجرت لینا دینا دونوں حرام ہے۔ لینے دینے والے دونوں گنہگار ہوتے ہیں اور جب یہ فِعلِ حرام کے مُرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اَموات (یعنی مرنے والوں ) کو بھیجیں گے؟ گناہ پر ثواب کی اُمید اور زیادہ سخت واَشَد (یعنی شدید ترین جُرم) ہے۔ )[42](
سوال …: اگر تراویح پڑھانے کی اُجرت طے نہ کی جائے اور لوگ یا انتظامیہ کچھ خدمت وغیرہ کریں تو کیا یہ لینا جائز ہے؟
جواب …: اگر تراویح پڑھانے کی اُجرت طے نہ کی جائے اور لوگ یا انتظامیہ کچھ خدمت وغیرہ کریں تو یہ لینا جائز نہیں ، کیونکہ طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تراویح پڑھانے اِسی لئے آتے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔ (لہٰذایہ ناجائز و حرام ہے نیز) اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلّہ وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت،اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحِب اصلا حِ نیّت کے سا تھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے، نہیں دوں گا۔ پھر بعد میں حافِظ صاحِب کی خدمت کردیں تو حرج نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہے۔ )[43](
سوال …: اگر حافظ اُجرت نہ لے مگر اپنی تیزی دکھانے، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کیلئے قرآنِ پاک پڑھے تو کیا اسے ثواب ملے گا؟
جواب …: اگر حافظ اُجرت نہ لے مگر اپنی تیزی دکھانے، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کیلئے قرآنِ پاک پڑھے تو ثواب تو دُور کی بات ہے، اُلٹا حبِّ جاہ اور ریاکاری کی تباہ کاری میں جا پڑے گا، لہٰذا پڑھنے پڑھانے والوں کو اپنے اندر اِخلاص پیدا کرنا ضَروری ہے۔
سوال …: اگر کوئی الگ الگ مساجد میں تراویح پڑھے تو کیا اس کا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب …:جی ہاں ! اگر کوئی الگ الگ مساجد میں تراویح پڑھنا چاہتا ہو تو وہ ایسا کر سکتا ہے مگر اسے خیال رکھنا چاہئے کہ ختم قرآن میں نقصان نہ ہو۔ مثلاً تین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روز سوا پارہ پڑھا جاتا ہے تو تینوں میں روزانہ بار ی باری جا سکتا ہے۔
سوال …: بعض لوگ امام کے رکوع میں پہنچنے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ، ان کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …:جو لوگ امام کے رکوع میں پہنچنے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ منافقین سے مشابہت ہے۔ چنانچہ سورۃ النسآء کی آیت نمبر 142 میں ہے:
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ(۱۴۲) (پ۵، النسآء: ۱۴۲ )
ترجمۂ کنز الایمان: بے شک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دیا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہکو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا۔
لہٰذا کوئی عذر نہ ہو تو فرض کی جماعت میں بھی اگر امام رکوع سے اُٹھ گیا تو سجدوں وغیرہ میں فوراً شریک ہوجائیں ، نیز امام قعدۂ اولیٰ میں ہو تب بھی اس کے کھڑے ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدہ میں شامل ہوگئے اور امام کھڑا ہوگیا تو التحیات (شروع کر دینے کی صورت میں ) پوری کئے بغیر کھڑے نہ ہوں ۔
سوال …: کیا عشا کے فرض ایک امام کے پیچھے اور تراویح دوسرے امام کے پیچھے پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب …: جی ہاں ! نہ صرف یہ کر سکتے ہیں بلکہ ایک امام کے پیچھے فرض، دوسرے کے پیچھے تراویح اور تیسرے کے پیچھے وتر پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرض و وتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرت سیِّدُنا ابی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ تراویح پڑھاتے۔ )[44](
٭…٭…٭
سوال …: کیا وتر پڑھنا فرض ہے؟
جواب …: جی نہیں وتر پڑھنا فرض نہیں بلکہ واجب ہے۔
سوال …: کیا فرض کی طرح وتر کی بھی قضا ہے؟
جواب …: جی ہاں ! فرض کی طرح وِتر کی بھی قضا کرنا ضروری ہے۔
سوال …: وتر کس وقت پڑھے جاتے ہیں ؟
جواب …: وتر نمازِ عشا کے بعد پڑھے جاتے ہیں ؟
سوال …: اگر کوئی نمازِ عشا سے پہلے وتر پڑھ لے تو کیا ہو جائیں گے؟
جواب …: جی نہیں ! عشا اور وتر کا وقت اگرچہ ایک ہے مگر باہم ان میں ترتیب فرض ہے کہ عشا سے پہلے وتر کی نماز پڑھ لی تو ہوگی ہی نہیں ، البتہ بھول کر اگر وتر پہلے پڑھ ليے یا بعد کو معلوم ہوا کہ عشا کی نماز بے وضو پڑھی تھی اور وتر وضو کے ساتھ تو وتر ہوگئے۔ )[45](
سوال …: وتر کب تک پڑھے جا سکتے ہیں ؟
جواب …: وتر عشا کے فرضوں کے بعد سے صبح صادق تک پڑھے جا سکتے ہیں ۔
سوال …: وتر پڑھنے کا افضل وقت کونسا ہے؟
جواب …: جو سو کر اٹھنے پر قادِر ہو اُس کیلئے افضل ہے کہ پچھلی رات میں اُٹھ کر پہلے تَھَجُّد ادا کرے پھر وتِر۔)[46](
چنانچہ ایک حدیثِ پاک میں ہے: ’’جسے اندیشہ ہو کہ پچھلی رات ميں نہ اٹھے گا وہ اوّل وقت میں پڑھ لے اور جسے امید ہو کہ پچھلی رات کو اٹھے گا وہ پچھلی رات میں پڑھے کہ آخر شب کی نماز مشہود ہے (یعنی اُس میں ملائکۂ رحمت حاضر ہوتے ہیں ) اور یہ افضل ہے۔‘‘)[47](
سوال …: کیا وتر باجماعت پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب …: جی نہیں ! وتر باجماعت ادا کرنا منع ہے۔ البتہ! رمضان شریف میں جماعت کے ساتھ وتر ادا کرنے کی رخصت ہے۔
سوال …: وتر کی کتنی رکعتیں ہیں اور اس کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: نمازِ وتر تین رکعت ہے اور اس میں قعدۂ اُولیٰ واجب ہے۔
٭… وتر پڑھنے والا قعدۂ اُولیٰ میں صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہوجائے، نہ درود پڑھے نہ سلام پھیرے جیسے مغرب میں کرتے ہیں اُسی طرح کرے۔
٭… وتر کی تینو ں رکعتوں میں مطلقاً قراءت فرض ہے اور ہر ایک میں بعد فاتحہ سورت ملانا واجب اور بہتر یہ ہے کہ پہلی میں
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی یا اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُدوسری میں قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ، تیسری میں قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے۔ کبھی کبھی اور سورتیں بھی پڑھ لے۔
٭… تیسری رکعت میں قراءت سے فارغ ہو کر رکوع سے پہلے کانوں کی لو تک ہاتھ اُٹھا کر اَللّٰهُ اَکْبَر کہے جیسے تکبیر تحریمہ میں کرتے ہیں کہ یہ تکبیر کہنا بھی واجب ہے، پھر ہاتھ باندھ لے اور دُعائے قنوت پڑھے۔
٭… پھر رکوع کرے اور باقی نمازوں کی طرح آخری رکعت مکمل کر کے سلام پھیر دے۔
سوال …: کیا دُعائے قنوت پڑھنا فرض ہے؟
جواب …: جی نہیں ! دُعائے قنوت پڑھنا فرض نہیں بلکہ واجب ہے۔
سوال …: کیا دُعائے قنوت کسی خاص دعا کا نام ہے؟
جواب …: جی نہیں ! دُعائے قنوت کسی خاص دُعا کا نام نہیں اور نہ ہی وتر میں کسی خاص دُعا کا پڑھنا ضروری ہے، بلکہ ہر وہ دُعا جو سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ثابت ہے پڑھ لی جائے جب بھی حرج نہیں ، البتہ! سب میں زیادہ مشہور دُعا یہ ہے اور عام لوگ اسی دُعا کو دُعائے قنوت بھی کہتے ہیں :
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَتَوَكَّلُ عَلَیْكَ وَنُثْنِیْ عَلَیْكَ الْخَیْرَ وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ یَّفْجُرُكَ ؕاَللّٰھُمَّ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَاِلَیْكَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُوْ رَحْمَتَكَ وَنَخْشٰی عَذَابَكَ اِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ ؕ
ترجمہ: اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں اور تجھ سے بخشش مانگتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسا رکھتے ہیں اور تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور تیرا شکر کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے اور الگ کرتے ہیں اور چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے، اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی لئے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور تیری ہی طرف دوڑتے اور خدمت کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔
سوال …: کیا باقی دُعاؤں کی طرح دُعائے قنوت کے بعد دُرُودِ پاک پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب …: جی ہاں ! دُعائے قنوت کے بعد درود شریف پڑھ سکتے ہیں بلکہ یہ بہتر بھی ہے۔)[48](
سوال …: اگر کسی کو دعائے قنوت نہ آتی ہو تو وہ کیا پڑھے؟
جواب …: اگر کسی کو دُعائے قنوت نہ آتی ہو تووہ یہ پڑھ لے:
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَافی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
اے اللہ!اے ہمارے مالک! تو ہمیں دنیا میں بھلائی اورآخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اورہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔
یا یہ پڑھیں : اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ یعنی اے اللہ! میری مغفرت فرما دے۔
سوال …: اگر کوئی دُعائے قُنُوت پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے؟
جواب …: اگر کوئی دُعائے قُنُوت پڑھنا بھول جائے اور رُکوع میں چلا جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ آخر میں سجدئہ سَہْوْ کر لے۔)[49](
سواجواب …: وتر جماعت سے پڑھ رہے ہوں اور امام مقتدی کے مکمل قنوت پڑھنے سے پہلے ہی رکوع میں چلا جائے تو اب مقتدی کیا کرے؟
جواب …: رمضان المبارک میں وتر جماعت سے پڑھ رہے ہوں اور امام مقتدی کے مکمل قنوت پڑھنے سے پہلے ہی رکوع میں چلا جائے تو مقتدی کو چاہئے کہ وہ بھی امام کی اقتدا میں فوراً رکوع میں چلا جائے اور باقی دُعائے قنوت نہ پڑھے۔)[50](
٭…٭…٭
سوال …: سجدۂ سَہْوْ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: واجِباتِ نَماز میں سے اگر کوئی واجب بھولے سے رہ جائے یا فرائض و واجِباتِ نَماز میں بھولے سے تاخیر ہو جائے تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سجدۂ سَہْوْ کیا جاتا ہے۔
سوال …: اگر کسی نے جان بوجھ کر واجب ترک کیا تو کیا پھر بھی سجدۂ سَہْوْ سے تلافی ہو جائے گی؟
جواب …: جی نہیں ! اگر کسی نے جان بوجھ کر واجب ترک کیا تو سجدۂ سَہْوْ سے وہ نقصان پورا نہ ہو گا بلکہ اعادہ یعنی دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے۔
سوال …: سجدئہ سہو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: سجدئہ سہو واجِب ہے۔ )[51](
سوال …: اگر کسی نے سجدۂ سَہْوْ واجِب ہونے کے باوُجُود نہ کیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: اگر کسی نے سجدئہ سَہْوْ واجِب ہونے کے باوُجُود نہ کیا تو نَماز لوٹانا واجب ہے۔
سوال …: کیا کوئی ایسا واجب بھی ہے جس کے رہ جانے کی صورت میں سجدہ سَہْوْ واجب نہیں ہوتا؟
جواب …: جی ہاں ! کوئی ایسا واجب رہ جائے جو واجباتِ نَماز سے نہ ہو تو سجدئہ سَہْوْ واجِب نہیں ہوتا مَثَلاً ترتیب سے قرآنِ پاک پڑھنا واجِب ہے مگر اس کا تعلُّق واجباتِ نَماز سے نہیں بلکہ واجباتِ تِلاوَت سے ہے، لہٰذا اگر کسی نے نماز میں خلافِ ترتیب قرآنِ کریم پڑھا مثلاً پہلے سورۂ ناس اور بعد میں سورۂ فلق تو اس سے سجدئہ سَہْوْ واجب نہ ہو گا۔
سوال …: اگر کوئی فرض رہ جائے تو کیا سجدہ سَہْوْ سے اس کی بھی تلافی ہو جائے گی؟
جواب …: جی نہیں ! فرض ترک ہو جانے سے نَماز جاتی رَہتی ہے سجدئہ سَہْوْ سے اس کی تَلافی نہیں ہو سکتی، لہٰذا نماز دوبارہ پڑھنا ہو گی۔
سوال …: اگر سنّتیں یا مُسْتَحَبّات چھوٹ جائیں تو کیا اس صورت میں بھی سجدۂ سَہْوْ کر لینا چاہئے؟
جواب …: سنّتیں یا مُسْتَحَبّات مَثَلاً ثنا، تعوُّذ، تَسمِیہ، اٰمین، تکبیراتِ اِنْتِقالات اورتَسبیحات کے ترک سے سجدئہ سَہْوْ واجِب نہیں ہوتا، نَماز ہوجاتی ہے (لہٰذا اس صورت میں سجدۂ سَہْوْ نہ کریں )۔ )[52]( مگر دوبارہ پڑھ لینا مُسْتَحَب ہے بھول کر ترک کیا ہو یا جان بوجھ کر۔
سوال …: اگر ایک سے زائد واجبات ترک ہوئے ہوں تو کیا ہر ایک کے لیے الگ الگ سجدہ سَہْوْ کرنا ہو گا؟
جواب …: جی نہیں ! نَماز میں اگرچِہ تمام واجِب ترک ہوئے ، سَہْو کے دو ہی سَجدے سب کیلئے کافی ہیں ۔)[53](
سوال …: اگر امام سے نماز میں کوئی واجب چھوٹ گیا تو کیا مقتدی پر بھی سجدہ سَہْوْ واجب ہے؟
جواب …: جی ہاں ! اگر اِمام سے سَہْو ہوا اور سَجدئہ سَہْوْ کیا تو مُقتدی پر بھی سجدہ واجِب ہے۔)[54](
سوال …: اگرمُقتدی سے بحالتِ اقتِدا سَہْو واقع ہوا تو کیا اس پر سَجدئہ سَہْوْ واجِب ہے؟
جواب …: جی نہیں ! اگر مُقتدی سے بحالتِ اقتِدا سَہْو واقع ہوا تو اس پر سَجدئہ سَہْو واجب نہیں ۔ )[55]( اور نَماز لوٹانے کی بھی حاجت نہیں ۔
سوال …: کیا سجدہ سہو صرف فرض نماز میں واجب ہے یا دیگر نمازوں میں بھی واجب ہے؟
جواب …: سجدہ سہو کا تعلق نماز سے ہے خواہ فرض ہویا سنت، وتر ہو یا نفل۔ کسی بھی نماز میں واجب ترک ہو جائے تو سجدۂ سَہْوْ واجب ہے۔
سوال …: چند صورتیں بتائیے جن میں سجدہ سَہْوْ واجب ہوتا ہے۔
جواب …: سجدۂ سَہْوْ واجب ہونے کی چند صورتیں یہ ہیں :
٭…تَعدیلِ ارکان (مَثَلاً رُکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا یا دو سَجدوں کے درمیان ایک بار سبحٰن الله کہنے کی مقدار سیدھا بیٹھنا) بھول گئے سجدئہ سَہْو واجِب ہے۔ )[56](
٭…دعائے قُنوت یا تکبیرِ قُنوت بھول گئے سجدئہ سَہْوْ واجِب ہے۔)[57](
٭… قِراءت وغیرہ کسی موقع پر سوچنے میں تین مرتبہ سبحٰن الله کہنے کا وَقفہ گزر گیا سجدئہ سَہْو واجِب ہو گیا۔)[58](
٭… رکوع و سجود و قعدہ میں قرآن پڑھا تو سجدہ واجب ہے۔)[59](
٭… قعدۂ اُولیٰ میں تشہد کے بعد اتنا پڑھا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ تو سجدۂ سَہْوْ واجب ہے اس وجہ سے نہیں کہ درود شریف پڑھا بلکہ اس وجہ سے کہ فرض یعنی تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہوئی۔ )[60](
٭… امام نے جہری نماز میں بقدرِ جوازِ نماز یعنی ایک آیت آہستہ پڑھی یا سرّی میں جہر سے تو سجدۂ سَہْوْ واجب ہے اور ایک کلمہ آہستہ یا جہر سے پڑھا تو معاف ہے۔)[61](
٭… منفرد نے سِرّی نماز میں جہر سے پڑھا تو سجدہ واجب ہے اور جہری میں آہستہ تو نہیں ۔)[62](
سوال …: سَجدئہ سَہْو کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: سَجدئہ سَہْو کا طریقہ یہ ہے:
٭… التحیات کے بعد دہنی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے)[63](
٭… سَجدئہ سہو کے بعد بھی اَلتَّحِیَّات (اَتْ۔ تَ۔ حِیْ۔یَات) پڑھنا واجِب ہے۔ اَلتَّحِیَّات پڑھ کر سلام پھیرئیے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں قعدوں (یعنی سَجدۂ سَہْو سے پہلے اور بعد) میں دُرُود شریف بھی پڑھئے۔)[64](
٭…٭…٭
سجدۂ تلاوت
سوال …: سجدۂ تلاوت سے کیا مراد ہے؟
جواب …: قرآنِ پاک میں بعض آیاتِ مبارکہ ایسی ہیں جن کے پڑھنے یا سننے سے جو سجدہ کیا جاتا ہے اسے سجدۂ تلاوت کہتے ہیں ۔
سوال …: قرآنِ پاک میں سجدے کی کل کتنی آیات ہیں ؟
جواب …: قرآنِ پاک میں سجدے کی کل چودہ آیات ہیں ۔
سوال …: آیتِ سجدہ کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب …: آیتِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجِب ہو جاتا ہے۔)[65](
سوال …: اگر کسی نے آیتِ سجدہ کا ترجمہ پڑھا یا سنا تو کیا اس پر بھی سجدہ کرنا لازم ہے؟
جواب …: جی ہاں ! اگر کسی نے فارسی یا کسی اور زَبان میں آیت کا ترجَمہ پڑھا تو پڑھنے والے اور سننے والے پر سجدہ واجِب ہوگیا۔ )[66](
سوال …: اگر کسی نے پوری آیتِ سجدہ نہ پڑھی بلکہ کچھ حصہ ہی پڑھا یا سنا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: سجدہ واجب ہونے کے لئے پوری آیت پڑھناضَروری نہیں بلکہ وہ آیتِ مبارکہ جس میں لفظِ سجدہ کا مادَّہ پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ قبل یا بعد کا کوئی لفظ ملا کر پڑھنا کافی ہے۔)[67](
سوال …: کیا آیتِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے فوراً سجدہ کرنا ضروری ہے یا بعد میں بھی کر سکتے ہیں ؟
جواب …: اگر آیتِ سجدہ نماز میں پڑھی گئی تو سجدہ بھی نماز میں فوراً کرنا واجب ہے اور اگر آیتِ سجدہ بَیرونِ نماز (یعنی نماز کے باہَر) پڑھی تو فوراً سجدہ کر لینا واجِب نہیں ۔ ہاں بہتر ہے کہ فوراً کر لے اور وُضو ہو تو تاخیر مکروہِ تنزیہی۔ )[68]( اور اگر کسی وجہ سے فوراً سجدہ نہ کرسکے تو پڑھنے و سننے والے کو یہ کہہ لینا مُسْتَحَب ہے: سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا٭۫ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الْمَصِیۡرُ)۲۸۵((پ۳، البقرۃ:۲۸۵) ترجَمۂ کنز الایمان: ہم نے سُنا اور مانا، تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔ )[69] (
سوال …: مدارس میں طالب علم قرآنِ کریم یاد کرنے کے لیے ایک ہی آیت ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے بار بار پڑھتے ہیں تو کیا آیتِ سجدہ بار بار پڑھنے اور سننے سے بار بار سجدہ کرنا ہو گا؟
جواب …: جی نہیں ! ایک ہی مجلس میں سجدے کی ایک آیت کو بار بار پڑھا یا سنا تو ایک ہی سجدہ واجِب ہو گا، اگرچِہ چند شخصوں سے سنا ہو یونہی اگر آیت پڑھی اور وُہی آیت دوسرے سے سنی جب بھی ایک ہی سجدہ واجِب ہو گا۔)[70](
سوال …: اگر کوئی پوری سورت تلاوت کرے مگر آیتِ سجدہ نہ پڑھے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: پوری سورت پڑھنا اور آیتِ سجدہ چھوڑ دینا مکروہِ تحریمی ہے اور صرف آیتِ سجدہ کے پڑھنے میں کراہت نہیں ، مگر بہتر یہ ہے کہ دو ایک آیت پہلے یا بعد کی ملالے۔)[71](
سوال …: سجدے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
جواب …: سجدے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑے ہو کر اَللهُ اَکْبَر کہتے ہوئے سجدے میں جایئے اور کم سے کم تین بار سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہئے، پھر اَللهُ اَکْبَر کہتے ہوئے کھڑے ہو جایئے، پہلے پیچھے دونوں بار اَللهُ اَکْبَر کہنا سنّت ہے اور کھڑے ہو کر سجدے میں جانا اور سجدے کے بعد کھڑا ہونا یہ دونوں قِیام مُسْتَحَب ہیں ۔)[72]( لہٰذا بیٹھ کر بھی سجدۂ تلاوت کر سکتے ہیں ۔
سوال …: کیا سجدۂ تلاوت میں یہ نیت ہونا ضروری ہے کہ یہ سجدہ فلاں آیت کا ہے؟
جواب …: جی نہیں ! سجدۂ تلاوت کی نیّت میں یہ ضروری نہیں کہ فُلاں آیت کا سجدہ ہے بلکہ مُطلَقاً سجدۂ تلاوت کی نیّت کافی ہے۔
سوال …: کیا سجدۂ تلاوت میں اَللهُ اَکْبَر کہتے وقت کانوں کو ہاتھ لگائے جاتے ہیں ؟
جواب …: جی نہیں ! سجدۂ تلاوت میں اَللهُ اَکْبَر کہتے وقت کانوں کو ہاتھ نہیں لگائے جاتے۔)[73](
آیاتِ سجدہ کے فوائد
سوال …: اگر کوئی سجدے والی تمام آیات اکٹھی پڑھے تو اس کی کیا فضیلت ہے؟
جواب …: بہارِ شریعت میں ہے کہ جس مقصد کے لیے ایک مجلس میں سجدہ کی سب (یعنی عَزَّ وَجَلَّ 4) آیتیں پڑھ کر سجدے کرے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کا مقصد پورا فرما دے گا۔ خواہ ایک ایک آیت پڑھ کر اس کا سجدہ کرتا جائے یا سب کو پڑھ کر آخِر میں عَزَّ وَجَلَّ 4 سجدے کرلے۔)[74](
٭…٭…٭
صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی خزائن العرفان میں سورۂ اخلاص کے متعلق فرماتے ہیں: سورۂ اخلاص مکّیہ و بقولے مدنیّہ ہے، اس میں ایک رکوع ، 4 یا 5 آیتیں، 15 کلمے ، 47 حرف ہیں۔ احادیث میں اس سورت کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اس کو تہائی قرآن کے برابر فرمایا گیا ہے یعنی تین مرتبہ اس کو پڑھا جائے تو پورے قرآن کی تلاوت کا ثواب ملے۔ ایک شخص نے سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ مجھے اس سورت سے بہت محبّت ہے فرمایا اس کی محبّت تجھے جنّت میں داخل کرے گی۔ (ترمذی) شانِ نزول: کفّارِ عرب نے سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اللہ ربُّ العزّت وعزّ وعلا تبارک وتَعَالٰی کے متعلق طرح طرح کے سوال کئے کوئی کہتا تھا کہ اللہ کا نسب کیا ہے ، کوئی کہتا تھا کہ وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ہے یا لوہے کا ہے یا لکڑی کا ہے، کس چیز کا ہے ؟ کسی نے کہا وہ کیا کھاتا ہے ، کیا پیتا ہے ، ربوبیّت اس نے کس سے ورثہ میں پائی اور اس کا کون وارث ہوگا ؟ ان کے جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ سورت نازل فرمائی اور اپنے ذات و صفات کا بیان فرما کر معرفت کی راہ واضح کی اور جاہلانہ خیالات و اوہام کی تاریکیوں کو جن میں وہ لوگ گرفتار تھے اپنی ذات و صفات کے انوار کے بیان سے مضمحل کردیا۔
سوال …: آیاتِ سجدہ قرآنِ پاک کے کس پارے و سورت میں ہیں اور کونسی ہیں تفصیل بتائیے؟
جواب …: آیاتِ سجدہ کل 14ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
(1) … پارہ 9، سورۂ اعراف کی آیت نمبر 206 : ( اِنَّ الَّذِیۡنَ عِنۡدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوۡنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یُسَبِّحُوۡنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوۡنَ )۲۰۶()
(2)… پارہ13، سورۂ رعد کی آیت نمبر 15 (وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۩(۱۵))
(3) … پارہ14، سورۂ نحل کی آیت نمبر 49: (وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ(۴۹))
(4) … پارہ15، سورۂ بنی اسرآ ئیل کی آیات نمبر 107تا 109:
(اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ(۱۰۷) وَّ یَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا(۱۰۸)وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩(۱۰۹))
(5) … پارہ16، سورۂ مریم کی آیت نمبر 58:
(اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا۩(۵۸))
(6) … پارہ17، سورۂ حج میں پہلی جگہ جہاں سجدہ کا ذکر ہے یعنی سورۂ حج کی آیت نمبر 18:
(اَلَمْ
تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ
الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ
وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِؕ-وَ كَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُؕ-وَ مَنْ
یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُؕ۩(۱۸))
(7) … پارہ19، سورۂ فرقان کی آیت نمبر 60: (وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُۗ-اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا۠۩(۶۰) )
(8) … پارہ19، سورۂ نمل کی آیت نمبر 25، 26: (اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِ جُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ(۲۵)اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۩(۲۶))
(9) … پارہ21، سورۂ سجدہ کی آیت نمبر 15: (اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۩(۱۵) )
(10) … پارہ23، سورۂ ص کی آیت نمبر 24، 25: (فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَ خَرَّ رَاكِعًا وَّ اَنَابَ۩(۲۴) فَغَفَرْنَا لَهٗ ذٰلِكَؕ-وَ اِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَ حُسْنَ مَاٰبٍ(۲۵) )
(11) … پارہ24، سورۂ حم السجدۃ کی آیت نمبر ،37، 38: (وَ مِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَ النَّهَارُ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُؕ-لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۳۷)فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ یُسَبِّحُوْنَ لَهٗ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ هُمْ لَا یَسْــٴَـمُوْنَ۩(۳۸) )
(12) … پارہ27، سورۂ نجم کی آیت نمبر 62: (فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا۠۩(۶۲))
(13) … پارہ30، سورۂ انشقاق کی آیت نمبر 20، 21: (فَمَا لَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۙ(۲۰) وَ اِذَا قُرِئَ عَلَیْهِمُ الْقُرْاٰنُ لَا یَسْجُدُوْنَؕ۩(۲۱) )
(14) …پارہ30، سورۂ اقراء (یعنی سورہ عَلَق) کی آیت نمبر 19: (كَلَّاؕ-لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ۠۩(۱۹))
٭…٭…٭
ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدَقے ہمیں جُمُعۃُ المبارَک کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ افسوس! ہم ناقَدرے جُمُعہ شریف کو بھی عام دنوں کی طرح غفلت میں گزار دیتے ہیں ۔ حالانکہ
٭… جُمُعہ یومِ عید ہے۔ ٭… جُمُعہ سب دنوں کا سردار ہے۔
٭… جُمُعہ کے روز جہنَّم کی آگ نہیں سُلگائی جاتی۔
٭… جُمُعہ کی رات دوزخ کے دروازے نہیں کھلتے۔
٭… جُمُعہ کوبروزِ قِیامت دلہن کی طرح اُٹھایا جائے گا۔
٭… جُمُعہ کے روز مرنے والا خوش نصیب مسلمان شہید کا رُتبہ پاتا اور عذابِ قَبْر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
سوال …: جمعہ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: جمعہ کے متعلق بہت سے اقوال مروی ہیں ۔ چنانچہ مُفسّرِ شہیر، حکیم الامّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان جمعہ کو جمعہ کہنے کی وجوہات کچھ یوں نقل فرماتے ہیں :
٭… اس دن تکمیلِ خلق ہوئی۔
٭… حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مِٹّی اسی دن جمع ہوئی۔
٭… اس دن میں لوگ جمع ہوکرنَمازِجُمُعہ ادا کرتے ہیں ۔ اس لیے اس دن کو جُمُعہ کہتے ہیں ۔)[75](
سوال …: جمعہ کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب …: جُمُعہ فرضِ عَین ہے اور اس کی فرضیّت کے متعلق نمازِ ظہر سے زیادہ تاکید مروی ہے۔)[76](
سوال …: اگر کوئی جمعہ نہ پڑھے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: فرمانِ مُصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: جو شخص تین جُمُعہ (کی نَماز) سُستی کے سبب چھوڑ دے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے دل پر مُہر لگا دے گا۔)[77](
سوال …: اگر کوئی جمعہ کی فرضیت کا انکار کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: اگر کوئی جمعہ کی فرضیت کا انکار کرے تو وہ کافِر ہے۔)[78](
سوال …: جمعہ کا آغاز کب اور کہاں ہوا؟
جواب …: جمعہ کا آغاز سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہجرت سے پہلے مدینہ شریف میں ہوا۔
سوال …: سب سے پہلے جمعہ کس نے پڑھایا؟
جواب …: سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے سب سے پہلے جمعہ حضرت سیِّدُنا مصعب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پڑھایا۔
سوال …: کیا سب سے پہلی نمازِ جمعہ مسجد نبوی میں ادا کی گئی تھی؟
جواب …: جی نہیں ! اس وقت تک مسجد نبوی نہیں بنی تھی بلکہ یہ نماز حضرت سیِّدُنا سعد بن خَیْثَمہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے گھر پر ادا کی گئی۔
سوال …: جس مسجد میں جمعہ ہوتا ہے اسے کیا کہتے ہیں ؟
جواب …: جس مسجد میں جُمُعہ پڑھا جاتا ہے اُس کو جامع مسجِد کہتے ہیں ۔
سوال …: سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سب سے پہلا جمعہ کب اور کہاں ادا فرمایا؟
جواب …: سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب ہجرت کر کے مدینۂ طیِّبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل پیر شریف کو چاشت کے وَقت مقامِ قُباء میں اقامت فرمائی۔ پیر، منگل، بدھ اور جمعرات یہاں قِیام فرمایا اور ایک مسجِد کی بُنیاد رکھی۔ پھر جُمُعہ کے دن مدینہ شریف روانہ ہوئے، راستے میں بنی سالم ابنِ عَوف کے بَطنِ وادی میں جُمُعہ کا وقت ہوا تو اس جگہ کو لوگوں نے مسجِد بنایا اور یوں سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہاں 16ربیع الاوّل کو پہلا جُمُعہ ادا فرمایا۔)[79](
سوال …: سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کل کتنے جمعہ ادا فرمائے؟
جواب …: سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں تقریباً 500 جُمعے ادا فرمائے۔)[80](
سوال …: کیا جمعہ کا ذکر قرآن میں بھی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جُمُعہ کے نام کی ایک پوری سورت یعنی سورۃُ الجُمُعہ نازِل فرمائی ہے جو کہ قرآنِ کریم کے 28 ویں پارے میں جگمگا رہی ہے ۔ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی سورۃُ الجُمُعہ کی آیت نمبر 9میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللہِ وَ ذَرُوا الْبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمْ خَیۡرٌ لَّکُمْ اِنۡ کُنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ ﴿۹﴾(پ ۲۸، الجُمُعہ: ۹)
ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو ! جب نَماز کی اذان ہوجمعہ کے دن تو اللہ کے ذِکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: ’’جو روزِ جُمُعہ یا شبِ جُمُعہ (یعنی جمعرات اور جُمُعہ کی درمیانی شب) مرے گا عذابِ قَبر سے بچا لیا جائے گا اور قِیامت کے دن اِس طرح آئے گا کہ اُس پر شہیدوں کی مُہر ہو گی۔‘‘)[81](
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ خوشبودار ہے: ’’جُمُعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے
کہ اگر کوئی مسلمان اسے پا کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے کچھ مانگے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کو ضَرور دے گا۔‘‘ )[82](
سوال …: وہ گھڑی کونسی ہے جس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے؟
جواب …: مُفسرِ شہیر، حکیم الامّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمَنَّان فرماتے ہیں : ہر رات میں روزانہ قَبولیّتِ دعا کی ساعت آتی ہے مگر دِنوں میں صِرف جُمُعہ کے دن۔ مگر یقینی طور پر یہ نہیں معلوم کہ وہ ساعت کب ہے ۔ غالِب گمان یہ ہے کہ یہ دو خُطبوں کے درمِیان کا وقت ہے یا مغرب سے کچھ پہلے کا۔ )[83](
سوال …: اس وقت کیا دعا مانگنا چاہئے؟
جواب …: بہتر یہ ہے کہ اس ساعت میں کوئی جامِع دعا مانگے جیسے یہ قرآنی دعا:
رَبَّنَا اٰ تِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰ خِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّار (پ ۲،البقرہ ۲۰۱)
ترجَمۂ کنز الایمان: اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذابِ دوزخ سے بچا۔
مُفسّرِشہیر حکیمُ الا مت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْمَنَّان کے فرمان کے مطابِق ’’جُمُعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستَّر حج کے برابر ہے، جُمُعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستّر گُنا ہے۔‘‘ )[84]( (چُونکہ اس کاشَرَف بَہُت زِیادہ ہے، لہٰذا) جُمُعہ کے روز گُناہ کا عذاب بھی ستّر گُنا ہے۔)[85](
سوال …: جمعہ کے دن کیا کام کرنے چاہئیں ؟
جواب …: جمعہ کے دن یہ کام کرنے چاہئیں :
نمازِ جمعہ سے پہلے غسل کرنا چاہئے۔ چنانچہ مروی ہے کہ’’جمعہ کا غسل بال کی جڑوں سے خطائیں کھینچ لیتا ہے۔‘‘)[86](اور ایک روایت میں ہے: جو جُمُعہ کے دن نہائے اُس کے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور جب وہ (مسجد کی طرف) چلنا شروع کرتا ہے تو ہر قدم پر بیس سال کاعمل لکھا جاتا ہے۔‘‘ اور جب نَماز سے فارغ ہو تو اُسے دو سو برس کے عمل کا اجر ملتا ہے۔)[87](
جمعہ کے دن زینت اختیار کرنا چاہئے۔ یعنی لباس و جسم کی صفائی کے ساتھ ساتھ مسواک کرنا چاہئے، خوشبولگانی چاہئے، ناخن ترشوانے چاہئیں ، حجامت بنوانی چاہئے۔ چنانچہ،
حضرتِ سیِّدُناسَلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سلطانِ دوجہان، شَہنَشاہِ کون ومکان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص جُمُعہ کے دن نہائے اور جس طہارت (یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو مَلے، پھر نَماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نَماز اُس کے لئے لکھی گئی ہے پڑھے اور امام جَب خُطبہ پڑھے تو چُپ رہے اُس کے لئے اُن گناہوں کی جو اِس جُمُعہ اور دوسرے جُمُعہ کے درمیان ہیں مغفرت ہو جائیگی۔)[88]( مروی ہے کہ
’’جو شخص جُمُعہ کے دن اپنے ناخُن کاٹتا ہے اللہ تعالٰی اُس سے بیماری نکال کر شِفا داخِل کر دیتا ہے۔‘‘)[89](
سوال …: حجامت بنوانے اور ناخن ترشوانے کا کام جمعہ سے پہلے کرنا چاہئے یا جمعہ کے بعد؟
جواب …: حجامت بنوانے اور ناخُن تَرشوانے کا کام جمعہ سے پہلے بھی کیا جا سکتا ہے مگر جُمُعہ کے بعد یہ کام کرنا افضل ہے۔ ‘)[90](
عمامہ شریف چاہئے تو یہ کہ ہر روز باندھا جائے مگر جمعہ کے دن بالخصوص عمامہ باندھنے کی فضیلت بھی مروی ہے۔ چنانچہ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اِرشادِ رَحمت بُنیاد ہے: ’’بے شک اللہ تعالٰی اور اس کے فرِشتے جُمُعہ کے دن عمامہ باندھنے والوں پر دُرُود بھیجتے ہیں ۔‘‘)[91](
جمعہ کے دن دُرودِ پاک کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جمعہ کے دن مجھ پر دُرود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو دُرود پڑھتا ہے مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے۔ حضرت سیِّدُنا ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی اور کیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد بھی؟ ارشاد فرمایا: ہاں اسکے بعد بھی! کیونکہ اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَى الْاَرْضِ اَنْ تَاْكُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِيَآءِ فَنَبِیُّ اللّٰهِ حَیٌّ يُّرْزَقُ۔ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے زمین پر انبیا کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اللہ کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔)[92](
جس قدر ممکن ہو جامع مسجد کی طرف جلد جانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ،
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے: ’’جب جُمُعہ کا دن آتا ہے تو مسجِد کے ہر دروازے پر فِرشتے آنے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالٰی کی راہ میں ایک اونٹ صَدَقہ کرتاہے اوراس کے بعد آنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صَدَقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اُس شخص کی مِثل ہے جو مَینڈھا صَدَقہ کرے، پھر اِس کی مِثل ہے جو مُرغی صَدَقہ کرے، پھر اس کی مِثل ہے جو اَنڈا صَدَقہ کرے اور جب امام (خطبہ کے لیے) بیٹھ جاتا ہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اور آکر خُطبہ سنتے ہیں ۔‘‘ )[93](
حُجَّۃُ الاسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : ’’پہلی صَدی میں سَحَری کے وقت اور فجر کے بعد راستوں کو لوگوں سے بھرا ہوا دیکھا جاتا تھا، وہ چَراغ لیے ہوئے (نمازِ جُمُعہ کیلئے) جامِع مسجِد کی طرف جاتے گویا عید کا دن ہو،حتّٰی کہ یہ سلسلہ خَتم ہوگیا۔ پس منقول ہے کہ اسلام میں جو پہلی بِدعت ظاہِر ہوئی وہ جامِع مسجِد کی طرف جلدی جانے کو چھوڑنا ہے۔)[94](
حُجَّۃُ الْاسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : (نَمازِ جُمُعہ کے بعد) عَصر کی نَماز پڑھنے تک مسجِد ہی میں رہے اور اگر نَمازِ مغرِب تک ٹھہر ے تو افضل ہے، منقول ہے
کہ جس نے جامِع مسجِد میں (جُمُعہ ادا کرنے کے بعد وہیں رُک کر) نمازِ عَصر پڑھی اُس کیلئے حج کا ثواب ہے اور جس نے (وہیں رُک کر) مغرِب کی نَماز پڑھی اسکے لئے حج اور عمرے کا ثواب ہے۔)[95](
بہارِ شریعت میں ہے: جمعہ کے دن روحیں جمع ہوتی ہیں ، لہٰذا اس میں زیارتِ قبور کرنی چاہئے اور اس روز جہنم کو (بھی) نہیں بھڑکایا جاتا۔ )[96](
سوال …: جمعہ کے دن زیارتِ قبور کا افضل وقت کونسا ہے؟
جواب …: جمعہ کے دن زیارتِ قبور کا افضل وقت نمازِ فجر کے بعد کا ہے۔ )[97](
سوال …: اگر کسی کے ماں باپ دونوں یا کوئی ایک فوت ہو چکا ہو تو کیا جمعہ کے دن ان کی قبر کی زیارت کرنے کے متعلق کوئی روایت مروی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! اگر کسی کے ماں باپ دونوں یا کوئی ایک فوت ہو چکا ہو تو جمعہ کے دن ان کی قبر کی زیارت کرنے کے متعلق کئی روایات مروی ہیں ۔ چنانچہ ذیل میں تین روایات پیشِ خدمت ہیں :
٭… جو اپنے ماں باپ دونوں یا ایک کی قَبْر پر ہر جُمُعہ کے دن زِیارت کو حاضِر ہو، اللہ تعالٰی اُس کے گناہ بخش دیتا ہے اور اسے ماں باپ کے ساتھ اچّھا برتاؤ کرنے والا لکھ لیا جاتا ہے۔)[98](
٭… پیر اور جُمعرات کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حضُور اعمال پیش ہوتے ہیں اور انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ماں باپ
کے سامنے ہر جُمُعہ کو، وہ نیکیوں پر خُوش ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کی صفائی اور چمک دمک بڑھ جاتی ہے، لہٰذا اللہ سے ڈرو اور اپنے وفات پانے والوں کو اپنے گُناہوں سے دکھ نہ پہنچاؤ۔)[99](
٭… جو ہر جُمُعہ والِدَین یا ایک کی زیارتِ قَبْر کر کے وہاں سورۂ یٰسین پڑھے تو اس سورت میں جتنے حَرف ہیں ان سب کی گنتی کے برابر اللہ تعالٰی اس کے لئے مغفِرت فرمائے۔)[100](
معلوم ہوا جُمُعہ شریف کو فوت شدہ والِدَین یا ان میں سے ایک کی قَبْر پر حاضِر ہو کر یٰسین شریف پڑھنے والے کا تو بیڑا ہی پار ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سورۂ یٰسین میں 5 رکوع 83 آیات 729 کلمات اور 3000 حروف ہیں ، اگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک ہماری یہ گنتی دُرُست ہے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تین ہزار مغفرتوں کا ثواب ملے گا۔
حضرتِ سیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مَروی ہے کہ شفیع اُمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ با عظمت ہے: ’’جو شخص جمعہ کے روز سورۂ کہف پڑھے گا اس کے قدم سے آسمان تک نور بلند ہو گا جو قیامت کو اس کے لیے روشن ہوگا اور دو جمعوں کے درمیان جو گناہ ہوئے ہیں بخش دیئے جائیں گے۔‘‘)[101]( اور ایک روایت میں ہے: ’’جو شخص بروزجمعہ سورۂ کہف پڑھے اس کے لیے دونوں جمعوں کے درمیان نور روشن ہوگا۔‘‘)[102](
رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظم ہے: ’’پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کو جنتی لکھ دے گا: (۱)جو مریض کی عیادت کو جائے (۲)نمازِ جنازہ میں حاضر ہو (۳)روزہ رکھے
(۴)نمازِ جمعہ کو جائے اور (۵) غلام آزاد کرے۔‘‘)[103](
جُمُعہ واجب ہونے کے لئے گیارہ شرطیں ہیں ، ان میں سے ایک بھی کم ہو تو فرض نہیں ، پھر بھی اگر کوئی پڑھ لے تو ہو جائے گا بلکہ عاقِل بالِغ مرد کے لئے جُمُعہ پڑھنا افضل ہے۔ نابالِغ نے جُمُعہ پڑھا تو نَفل ہے کہ اس پر نَماز فرض ہی نہیں ۔)[104](
(۱) شَہر میں مُقیم ہونا (۲) صِحّت یعنی مریض پر جُمُعہ فرض نہیں مریض سے مُراد وہ ہے کہ جامع مسجد تک نہ جاسکتا ہو یا چلا توجائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھّاہو گا۔ شیخِ فانی)[105](مریض کے حکم میں ہے (۳)آزاد ہونا ، غلام پر جُمُعہ فرض نہیں اوراُس کاآقا مَنع کرسکتاہے (۴) مرد ہونا(۵) بالِغ ہونا (۶) عاقِل ہونا۔یہ دونوں شرطیں یعنی عاقل و بالغ ہونا خاص جُمُعہ کے لیے نہیں بلکہ ہر عبادت کے واجب ہونے میں شَرط ہیں (۷) انکھیارا ہونا (۸) چلنے پر قادِر ہونا (٭)قَید میں نہ ہونا (۱۰)بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا(۱۱) بارش یا آندھی یا اَولے یا سردی کا نہ ہونا یعنی اِس قَدَر کہ ان سے نقصان کا خوفِ صحیح ہو۔ )[106]( جن پر نَماز فرض ہے مگر کسی شَرعی عُذر کے سبب جُمُعہ فرض نہیں ، اُن کو جُمُعہ کے روز ظہر معاف نہیں ہے وہ تو پڑھنی ہی ہوگی۔
جو جُمُعہ کے دن کلام کرے جبکہ امام خُطبہ دے رہا ہو تواس کی مثال اُس گدھے جیسی ہے جو بوجھ اٹھائے ہو اوراُس وقت جوکوئی اپنے ساتھی سے یہ کہے کہ’’ چپ رہو‘‘ تواُسے جُمُعہ کا ثواب نہ ملے گا۔)[107](
جو چیزیں نَماز میں حرام ہیں مَثَلاً کھانا پینا، سلام و جواب وغیرہ یہ سب خُطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں یہاں تک کہ نیکی کی دعوت دینا بھی۔ہاں خطیب نیکی کی دعوت دے سکتا ہے۔ جب خُطبہ پڑھے تو تمام حاضِرین پر سننا اور چُپ رَہنا واجب ہے، جو لوگ امام سے دُور ہوں کہ خُطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی اُنہیں بھی چُپ رَہنا واجب ہے اگر کسی کو بُری بات کرتے دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشا ر ے سے مَنع کر سکتے ہیں زَبان سے ناجائز ہے۔)[108](
خطبہ سننے والا دُرُود شریف نہیں پڑھ سکتا
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نامِ پاک خطیب نے لیا تو دِل میں دُرُود شریف پڑھیں کیونکہ اس وقت زَبان سے پڑھنے کی اجازت نہیں ، یونہی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ذِکرِ پاک پر اُس وقت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم زَبان سے کہنے کی اجازت نہیں ۔)[109](
آج کل علمِ دین سے دوری کا دَور ہے، لوگ دیگر عبادات کی طرح خُطبہ سُننے جیسی عظیم عبادت میں بھی غلطیاں کر کے کئی گناہوں کا اِرتکِاب کرتے ہیں ، لہٰذا مَدَنی التِجا ہے کہ ڈھیروں نیکیاں کمانے کیلئے ہر جُمُعہ کوخطیب قبل ازاذانِ خُطبہ منبر پر بیٹھنے سے پہلے یہ اعلان کرے:
(1)… حدیثِ پاک میں ہے: ’’جس نے جُمُعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اُس نے جہنَّم کی طرف پُل بنایا۔‘‘ )[110]( اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ اس پر چڑھ چڑھ کر لوگ جہنَّم میں داخِل ہوں گے۔
(2)… خطیب کی طرف منہ کر کے بیٹھنا سنّتِ صَحابہ ہے۔ )[111](
(3)… بُزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن فرماتے ہیں : دوزانو بیٹھ کر خُطبہ سنے، پہلے خُطبہ میں ہاتھ باندھے، دوسرے میں زانو پر رکھے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دو رَکْعَت کا ثواب ملے گا۔ )[112](
(4)…اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں : ’’خطبے میں حُضُورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نامِ پاک سُن کر دل میں دُرُود پڑھیں کہ زَبان سے سُکوت (یعنی خاموشی) فرض ہے۔‘‘ )[113](
(5)… دُرِ مختار میں ہے: خطبہ میں کھانا پینا، کلام کرنا اگرچہ سُبْحَانَ اللہ کہنا، سلام کا جواب دینا یا نیکی کی بات بتانا حرام ہے۔ )[114](
(6)… اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں : بحالتِ خُطبہ چلنا حرام ہے۔ یہاں تک عُلَمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر ایسے وقت آیا کہ خطبہ شُروع ہو گیا تو مسجِد میں جہاں تک پہنچا وہیں رُک جائے، آگے نہ بڑھے کہ یہ عمل ہو گا اور حالِ خطبہ میں کوئی عمل رَوا (یعنی جائز) نہیں ۔ )[115](
(7)…اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں : ’’خطبہ میں کسی طرف گردن پھیر کر دیکھنا (بھی) حرام ہے۔‘‘ )[116](
اَلْـحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَ سَیِّدَنَا وَمَولٰـنَا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ جَمِیْعًا ؕ وَاَقَامَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لِلْمُذْنِبِیْنَ الْـمُتَلَوِّثِیْنَ الْـخَطَّآئِیْنَ الْھَالِكِیْنَ شَفِیْعًا ؕ فَصَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَیْهِ ؕ وَعَلٰی كُلِّ مَنْ ھُوَ مَـحْبُوْبٌ وَّمَرْضِیٌّ لَّدَیْهِ صَلٰوةً تَبْقٰی وَتَدُوْمُ بِدَوَامِ الْـمَلِكِ الْـحَیِّ الْـقَیُّوْمِؕ وَاَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَولٰـنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ؕ بِالْـھُدٰی وَدِیْنِ الْـحَقِّ اَرْسَلَهٗ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَعَلٰۤی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْنَ وَبَارَكَ وَسَلَّمَؕ اَمَّا بَعْدُ!فَیَاۤ اَیُّھَا الْـمُؤْمِنُوْنَ ؕ رَحِمَنَا وَرَحِمَكُمُ اللّٰهُ تَعَالٰیؕ اُوْصِیْكُمْ وَنَفْسِیْ بِتَقْوَی اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ فِی السِّرِ وَالْاِعْلَانِؕ فَاِنَّ التَّقْوٰی سَنَامُ ذُرَی الْاِیْمَانِ ؕ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ كُلِّ شَجَرٍوَّحَجَرٍؕ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ؕ وَاَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَؕ وَاقْتَفُوْۤا اٰثَارَ سُنَنِ سَیِّدِ الْـمُرْسَلِیْنَؕ صَلَوَاتُ اللّٰهِ تَعَالٰی وَسَلَامُهٗ عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمْ اَجْمَعِیْنَ ؕ فَاِنَّ السُّنَنَ ھِیَ الْاَنْوَارُ وَزَیِّنُوْا قُلُوْبَكُمْ بِحُبِّ ھٰذَا النَّبِیِّ الْكَرِیْمِ عَلَیْهِ وَ عَلٰۤی اٰلِهٖ اَفْضَلُ الصَّلٰوةِ وَ التَّسْلِیْمِ فَاِنَّ الْحُبَّ ھُوَ الْاِیْمَانُ كُلُّهٗ ؕ اَ لَا لَاۤ اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا مَحَبَّةَ لَهٗؕ اَلَا لَاۤ اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا مَحَبَّةَ لَهٗ ؕ اَلَا لَاۤ اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا مَحَبَّةَ لَهٗؕ رَزَقَنَا اللّٰهُ تَعَالٰی وَاِیَّاكُمْ حُبَّ حَبِیْبِهٖ ھٰذَا النَّبِیِّ الْكَرِیْمِؕ عَلَیْهِ وَ عَلٰۤی اٰلِهٖ اَكْرَمُ الصَّلٰوةِ وَالتَّسْلِیْمِ ؕ كَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضٰی ؕ وَاسْتَعْمَلَنَا وَاِیَّاكُمْ بِسُنَّتِهٖط وَحَیَّانَا وَاِیَّاكُمْ عَلٰی مَحَبَّتِهٖؕ وَتَوَفَّانَا وَاِیَّاكُمْ عَلٰی مِلَّتِهٖؕ وَحَشَرَنَا وَاِیَّاكُمْ فِیْ زُمْرَتِهٖ ؕ وَسَقَانَا وَاِیَّاكُمْ مِنْ شَرْبَتِهٖؕ شَرَابًا ھَنِیْـئًا مَّرِیْـئًا سَآئِغًا لَّانَظْمَأُ بَعْدَهٗٓ اَبَدًاؕ وَاَدْخَلَنَا وَاِیَّاكُمْ فِیْ جَنَّتِهٖؕ بِمَنِّهٖ وَرَحْمَتِهٖ
وَكَرَمِهٖ وَرَأْفَتِهٖ ؕ اِنَّهٗ ھُوَ الرَّءُوْفُ الرَّحِیْمُ ط عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ؕ اَلْبِرُّ لَایَبْلٰی وَالذَّنْبُ لَایُنْسٰی وَالدَّیَّانُ لَایَمُوْتُؕ اِعْمَلْ مَاشِئْتَ كَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ ؕ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ)فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾) بَارَكَ اللّٰهُ لَـنَا وَلَـكُمْ فِی الْـقُرْاٰنِ الْعَظِیْمِ ؕ وَنَفَعَنَا وَاِیَّاكُمْ بِالْاٰیَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِیْمِ ؕ اِنَّهٗ تَعَالٰی مَلِكٌ كَرِیْمٌؕ جَوَادٌ ۢ بَرٌّ رَّءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ؕ اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَاؕ وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ لِیْ وَلَكُمْ وَلِسَآئِرِ الْـمُؤْمِنِیْنَ وَالْـمُؤْمِنٰتِؕ اِنَّهٗ ھُوَ الْـغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ؕ
٭…٭…٭
اَلْـحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهٗ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَـتَوَكَّلُ عَلَیْهِؕ وَنَـعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا ؕ مَنْ یَّھْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهٗ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلَا ھَادِیَ لَهٗ وَنَشْھَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰـهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْكَ لَهٗ ؕ وَنَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلٰـنَا مُـحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ؕ بِالْـھُدٰی وَدِیْنِ الْـحَقِّ اَرْسَلَهٗ ؕ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَعَلٰۤی اٰلِهٖ وَاَصْحَابِهٖ اَجْمَعِیْنَ وَ بَارَكَ وَسَلَّمَ اَبَدً اؕ لَاسِیَّمَا عَلٰۤی اَوَّلِـھِمْ بِالتَّصْدِیْقِ ؕ وَاَفْضَلِھِمْ بِالتَّحْقِیْقِ ؕ اَلْـمَوْلَی الْاِمَامِ الصِّدِّیْقِ ؕ اَمِیْرِ الْـمُؤْمِنِیْنَ وَاِمَامِ الْـمُشَاھِدِیْنَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ سَیِّدِنَا وَمَوْلٰـنَا الْاِمَامِؕ اَبِیْ بَكْرِۨ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰهُ تَعَالٰی عَنْهُ ؕ وَعَلٰۤی اَعْدَلِ الْاَصْحَابِؕ مُزَیِّنِ الْمِنْبَرِ وَالْمِحْرَابِ ؕ اَلْمُوَافِقِ رَاْیُهٗ لِلْوَحْیِ وَالْكِتَابِ ؕ سَیِّدِنَا وَمَوْلٰـنَا الْاِمَامِ ؕ اَمِیْرِ الْـمُؤْمِنِیْنَ وَغَیْظِ الْمُنَافِقِیْنَ ؕ اِمَامِ الْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ؕ اَبِیْ حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰهُ تَعَالٰی عَنْهُؕ وَ عَلٰی جَامِعِ الْقُرْاٰنِ كَامِلِ الْـحَیَآءِ وَالْاِیْمَانِ ؕ مُـجَھِّزِ جَیْشِ الْعُسْرَةِ فِیْ
رِضَی الرَّحْمٰنِ ؕ سَیِّدِنَا وَمَوْلٰـنَا الْاِمَامِ ؕ اَمِیْرِ الْـمُؤْمِنِیْنَ وَاِمَامِ الْـمُتَصَدِّقِیْنَ لِرَبِّ الْعَلٰمِیْنَ ؕ اَبِیْ عَمْرٍو عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰهُ تَعَالٰی عَنْهُ ؕ وَعَلٰۤی اَسَدِ اللّٰهِ الْغَالِبِ ؕ اِمَامِ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ ؕ حَلَّالِ الْـمُشْكِلَاتِ وَالنَّوَآئِبِ ؕ دَفَّاعِ الْـمُعْضَلَاتِ وَالْـمَصَآئِبِ ؕ اَخِ الرَّسُوْلِ وَزَوْجِ الْبَتُوْلِ ؕ سَیِّدِنَا وَمَوْلٰـنَا الْاِمَامِؕ اَمِیْرِ الْـمُؤْمِنِیْنَ وَاِمَامِ الْوَاصِلِیْنَ اِلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ؕ اَبِی الْحَسَنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ كَرَّمَ اللّٰهُ تَعَالٰی وَجْھَهُ الْكَرِیْمِ ؕ وَعَلَی ابْنَیْهِ الْكَرِیْمَیْنِ السَّعِیْدَیْنِ الشَّھِیْدَیْنِ ؕ اَلْقَمَرَیْنِ الْـمُنِیْرَیْنِ الـنَّیِّرَیْنِ ؕ اَلزَّاھِرَیْنِ الْبَاھِرَیْنِ الطَّیِّبَیْنِ الطَّاھِرَیْنِ ؕ سَیِّدَیْنَا اَبِیْ مُـحَمَّدِۨ الْحَسَنِ وَاَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ الْحُسَیْنِ رَضِیَ اللّٰهُ تَعَالٰی عَنْهُمَا ؕ وَعَلٰۤی اُمِّھِمَا سَیِّدَةِ النِّسَاءِ ؕ اَلْبَتُوْلِ الزَّھْرَآءِ ؕ فِلْذَةِ كَبِدِ خَیْرِ الْاَنْبِیَآءِ ؕ صَلَوَاتُ اللّٰهِ تَعَالٰی وَسَلَامُهٗ عَلٰۤی اَبِیْھَا الْكَرِیْمِ ؕ وَعَلَیْهَا وَعَلٰی بَعْلِھَا وَابْنَیْھَا ؕ وَعَلٰی عَمَّیْهِ الشَّرِیْفَیْنِ الْمُطَھَّرَیْنِ مِنَ الْاَدْنَاسِ ؕ سَیِّدَیْنَاۤ اَبِیْ عُمَارَةَ حَمْزَةَ وَاَبِی الْفَضْلِ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللّٰهُ تَعَالٰی عَنْهُمَ اؕ وَعَلٰی سَآئِرِ فِرَقِ الْاَنْصَارِ وَالْـمُھَاجِرَةِ ؕ وَعَلَیْنَا مَعَھُمْ یَااَھْلَ التَّقْوٰی وَاَھْلَ الْمَغْفِرَةِ ؕ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَّصَرَ دِیْنَ سَیِّدِنَا وَمَولٰـنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَعَلٰۤی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْنَ وَبَارَكَ وَسَلَّمَ ؕ رَبَّنَا یَا مَوْلٰـنَا وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ سَیِّدِنَا وَمَولٰـنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَعَلٰۤی اٰلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَبَارَكَ وَسَلَّمَ ؕ رَبَّنَا یَا مَوْلٰـنَا وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ ؕ عِبَادَ اللّٰهِ رَحِمَكُمُ اللّٰهُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَائِ ذِی الْـقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْـفَحْشَآءِ وَالْـمُنْكَرِ وَالْبَغْیِ ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَؕ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ تَعَالٰی اَعْلٰی وَاَوْلٰی وَاَجَلُّ وَاَعَزُّ وَاَعْظَمُ وَ اَكْبَر ؕ
٭…٭…٭
سوال …: سال میں کتنی عیدیں ہیں ؟
جواب …: سال میں دو عیدیں ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی۔
سوال …: یہ دونوں عیدیں کب اور کن مہینوں میں منائی جاتی ہیں ؟
جواب …: عید الفطر ماہِ رمضان المبارک کے ختم ہونے کے بعد یکم شوال المکرم کو منائی جاتی ہے اور عید الاضحی ماہِ ذو الحجۃ الحرام کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔
سوال …: ان دونوں عیدوں پر مسلمان کیا کرتے ہیں ؟
جواب …: ان دونوں عیدوں پر مسلمان خوشیاں مناتے ہیں ۔ مثلاً
٭… عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہتے ہیں اس دن رنگ برنگے کھانے پکائے جاتے ہیں ، نمازِ عید پڑھنے سے پہلے غریبوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کے لیے فطرانہ دیا جاتا ہے۔
٭… عید الاضحی کو عید قربان اور بقر عید بھی کہتے ہیں ، اس موقع پر نمازِ عید کے بعد راہِ خدا میں جانوروں کی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں ۔
سوال …: کیا ان دونوں عیدوں کے علاوہ بھی کسی دن کو عید کہا گیا ہے؟
جواب …: جی ہاں ! جمعہ کے دن کو بھی عید کا دن کہا گیا ہے۔
سوال …: کیا ان عیدوں کے علاوہ بھی کوئی دن ایسا ہے جس میں مسلمان خوشیاں مناتے ہیں ؟
جواب …: جی ہاں ! ان دو عیدوں کے علاوہ ماہِ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو بھی مسلمان خوب خوشیاں مناتے ہیں ، کیونکہ اس دن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صبحِ صادِق کے وَقْت اس جہاں
میں فضل و رحمت بن کر تشریف لائے۔ لہٰذا بارہ ربیع الاوّل کا دن مسلمانوں کے لئے عیدوں کی بھی عید ہے اس لیے کہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جہاں میں شاہِ بحر وبَر بن کر جلوہ گر نہ ہوتے تو کوئی عید، عید ہوتی نہ کوئی شب، شبِ بَرَاء َت۔ بلاشبہ کون و مکان کی تمام تر رونق و شان اس جانِ جہان ، محبوبِ رَحمٰن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں کی دُھول کا صَدقہ ہے۔ ؎
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جَہان کی جان ہے تو جہان ہے )[117](
سوال …: عید میلاد کے موقع پر مسلمان کیا کرتے ہیں ؟
جواب …: عید میلاد کے موقع پر مسلمان گھروں کو ماہِ ربیع الاوّل کی آمد کے ساتھ ہی جھنڈوں اور چراغاں وغیرہ سے خوب سجاتے ہیں ، پھر بارہ تاریخ کو میلاد کی خوشی میں جلسے جلوسوں کا خوب اہتمام کرتے ہیں جن میں جھوم جھوم کر نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور در و دیوار ”سرکار کی آمد مرحبا“ کے پر کیف نعروں سے گونج اُٹھتے ہیں ۔
سوال …: کیا عیدین کی نماز پڑھنا فرض ہے؟
جواب …: جی نہیں ! عیدین کی نماز پڑھنا فرض نہیں بلکہ واجب ہے۔
سوال …: کیا عیدین کی نماز پڑھنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے؟
جواب …: جی نہیں ! عیدین کی نماز پڑھنا سب پر واجب نہیں بلکہ صرف ان لوگوں پر واجب جن پر جمعہ واجب ہے۔
سوال …: کیا نمازِ جمعہ کی ادائیگی کی طرح نمازِ عیدین کی ادائیگی کی بھی کچھ شرائط ہیں ؟
جواب …: جی ہاں ! نمازِ جمعہ کی ادائیگی کی طرح نمازِ عیدین کی ادائیگی کی بھی شرائط ہیں اور یہ وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے ليے ہیں ۔
نمازِ عیدین و نمازِ جمعہ میں فرق
سوال …: کیا نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین کی ادائیگی میں کوئی فرق ہے؟
جواب …: جی ہاں ! نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین کی ادائیگی میں بنیادی طور پر تین فرق ہیں :
٭… جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت۔ اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور عیدین میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا۔
٭… جمعہ کا خطبہ نماز سے پہلے ہوتا ہے اور عیدین کا نماز کے بعد۔ اگر پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا، مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی۔
٭… جمعہ کی نماز سے پہلے اذان و اقامت ہوتی ہے مگر عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت۔ صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے: اَلصَّلٰوةُ جَامِعَةٌؕ۔
سوال …: کیا عیدین کی نمازوں اور عام نمازوں کی ادائیگی میں بھی کوئی فرق ہے؟
جواب …: جی ہاں ! عیدین کی نمازوں اور عام نمازوں کی ادائیگی میں معمولی سا فرق ہے۔
سوال …: نمازِ عید کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: نمازِ عید کا طریقہ یہ ہے:
٭… سب سے پہلے نمازی کو چاہیے کہ اس طرح نیت کرے:
میں نیت کرتا ہوں دو رکعت نمازِ عیدالفطر (یا عیدالاضحی) کی، ساتھ چھ زائد تکبیروں کے، واسطے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے، (مقتدی یہ بھی کہے: پیچھے اس امام کے) منہ طرف قبلہ شریف۔
٭… پھر کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھائے اور اَللهُ اَکْبَر کہہ کر حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لے۔
٭… ثنا پڑھے۔
٭… پھر کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھائے اور اَللهُ اَکْبَر کہتے ہوئے لٹکا دے۔
٭… پھر کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھائے اور اَللهُ اَکْبَر کہہ کر لٹکا دے۔
٭… پھر کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھائے اور اَللهُ اَکْبَر کہہ کر حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لے۔
(یعنی پہلی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھے اس کے بعد دوسری اور تیسری تکبیر میں لٹکائے اور چوتھی میں ہاتھ باندھ لے۔ اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں قیام میں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھنے ہیں اور جہاں نہیں پڑھنا وہاں ہاتھ لٹکانے ہیں )
٭… پھر امام تعوذ اور تسمیہ آہستہ پڑھ کر الحمد شریف اور سورت بلندآواز کے ساتھ پڑھے، پھر رکوع وسجود وغیرہ کر کے پہلی رکعت مکمل کر لے۔
٭… پھر دوسری رکعت میں پہلے الحمد شریف اور سورت جہر کے ساتھ پڑھے۔
٭… پھر تین بار کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھا کر اَللهُ اَکْبَر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اَللهُ اَکْبَر کہتے ہوئے رکوع میں جائے۔
٭… باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کرے، سلام پھیرنے کے بعد امام دو خطبے پڑھے۔ پھر دعا مانگے پہلے خطبے کو شروع کرنے سے پہلے امام نو بار اور دوسرے سے پہلے سات بار اور منبر سے اترنے سے پہلے چودہ بار اَللهُ اَکْبَر آہستہ سے کہے کہ یہ سنت ہے۔
٭…٭…٭
سوال …: نمازِ جنازہ سے قبل کیا میت کے لیے کوئی خاص اہتمام کیا جاتا ہے؟
جواب …: جی ہاں ! نمازِ جنازہ سے قبل میت کی تجہیز و تکفین کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
سوال …: تجہیز و تکفین سے کیا مراد ہے؟
جواب …: تجہیز سے مراد میت کو غسل وغیرہ دینااور تکفین سے مراد میت کو کفن پہنانا ہے۔
سوال …: غسل میت کے فرائض بتائیں ؟
جواب …: ایک بار سار ے بدن پر پانی بہانا فرض ہے اور تین بار سنت۔
سوال …: غسل میت کا طریقہ بتائیں ؟
جواب …: غسل میت کا طریقہ یہ ہے:
٭… اگر بتیاں یا لوبان جلا کر تین، پانچ یا سات بار غسل کے تختے کو دھونی دیں یعنی اتنی بار تختے کے گرد پھرائیں ۔
٭… تختے پر میت کو اس طرح لٹائیں جیسے قبر میں لٹاتے ہیں ۔
٭… ناف سے گھٹنوں سمیت کپڑے سے چھپا دیں ۔ )[118](
٭… نہلانے والا اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر استنجا کروائے (یعنی پانی سے دھوئے) ۔
٭… پھر نماز جیسا وضو کروائیں یعنی تین بار منہ پھر کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ تین تین بار دھلائیں ، پھر سر کا مسح کریں ، پھر تین بار دونوں پاؤں دھلائیں ۔ )[119](
٭… پھر سر اور داڑھی کے بال ہوں تو وہ دھوئیں ۔
٭… اب بائیں (یعنی الٹی) کروٹ پر لٹا کر بیری کے پتوں کا جوش دیا ہوا (نیم گرم) پانی اور یہ نہ ہو تو خالص پانی نیم گرم سر سے پاؤں تک بہائیں کہ تختہ تک پہنچ جائے۔
٭… پھر سیدھی کروٹ لٹا کر بھی اسی طرح کریں ۔
٭… پھرٹیک لگا کر بٹھائیں اور نرمی کے ساتھ پیٹ کے نچلے حصے پر ہاتھ پھیریں اور کچھ نکلے تو دھو ڈالیں ۔ دوبارہ وضو اور غسل کی حاجت نہیں ۔
٭… پھر آخر میں سر سے پاؤں تک تین بار کافور کا پانی بہائیں ۔
٭… پھر کسی پاک کپڑے سے بدن آہستہ سے پونچھ دیں ۔
سوال …: مرد وعورت کا مسنون کفن کیا ہے؟
جواب …: مرد کے کفن میں تین کپڑے ہوتے ہیں : (1)… لفافہ (2)… ازار اور (3)… قمیص۔
اور عورت کے لیے مذکورہ تین کے علاوہ دو مزید ہوتے ہیں یعنی (4)… سینہ بند اور (5)… اوڑھنی ۔
(1)… لفافہ (یعنی چادر) میت کے قد سے اتنی بڑی ہو کہ دونوں طرف سے باندھ سکیں ۔
(2)… ازار (یعنی تہبند) چوٹی سے قدم تک ہو۔
(3)… قمیص (یعنی کفنی) گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے پیچھے دونوں طرف برابر ہو، اس میں چاک اور آستینیں نہ ہوں ۔ مرد کے لئے کفنی کندھوں پر چیریں اور عورت کے لئے سینے کی طرف۔
(4)… سینہ بند پستان سے ناف تک اور بہتر یہ ہے کہ ران تک ہو۔
(5)… اوڑھنی تین ہاتھ (یعنی ڈیڑھ گز) کی ہو۔
سوال …: مُخَنَّث (ہیجڑے) کو مردوں والا مسنون کفن دیا جائے گا یا عورتوں والا؟
جواب …: مُخَنَّث کو عورتوں والا کفن دیا جائے۔
سوال …: مردوں اور عورتوں کو کفن پہنانے کا طریقہ بتائیے؟
جواب …: مردوں اور عورتوں کو کفن پہنانے کا طریقہ درج ذیل ہے:
٭… کفن کو ایک، تین، پانچ یا سات بار دھونی دیں ۔
٭… پھر اس طرح بچھائیں کہ پہلے لفافہ یعنی بڑی چادر اس پر تہبند اور اس کے اوپر کفنی رکھیں ۔
٭… اب میت کو اس پر لٹائیں اور کفنی پہنائیں ۔
٭… اب داڑھی پر (نہ ہو توٹھوڑھی پر) اور تمام جسم پر خوشبو ملیں ۔
٭… وہ اعضاء جن پر سجدہ کیا جاتا ہے یعنی پیشانی ، ناک ، ہاتھوں اور قدموں پر کافور لگائیں ۔
٭… پھر تہبند پہلے الٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے لپیٹیں ۔
٭… اب آخر میں لفافہ بھی اسی طرح پہلے الٹی جانب سے پھر سیدھی جانب سے لپیٹیں تاکہ سیدھا اوپر رہے۔
٭… آخر میں سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دیں ۔
٭… کفنی پہناکر اس کے بالوں کے دو حصے کرکے کفنی کے اوپر سینے پر ڈال دیں ۔
٭… اوڑھنی کو آدھی پیٹھ کے نیچے بچھا کر سر پر لا کر منہ پر نقاب کی طرح ڈال دیں کہ سینے پر رہے۔ اس کا طول آدھی پشت سے نیچے تک اورعرض ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک ہو۔ بعض لوگ اوڑھنی اس طرح اوڑاھتے ہیں جس طرح عورتیں زندگی میں سر پر اوڑھتی ہیں یہ خلافِ سنت ہے۔
٭… پھر بدستور تہبند و لفافہ یعنی چادر لپیٹیں ۔
٭… پھر آخر میں سینہ بند پستان کے اوپر والے حصے سے ران تک لا کر کسی ڈوری سے باندھیں ۔
تجہیز و تکفین اور نمازِ جنازہ پڑھنے کی فضیلت
سوال …: کیا تجہیز و تکفین اور نمازِ جنازہ پڑھنے کی فضیلت بھی مروی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! تجہیز و تکفین اور نمازِ جنازہ پڑھنے کی فضیلت بہت سی روایات میں مروی ہے۔ چنانچہ،
٭… امیر المومنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو کسی میت کو نہلائے، کفن پہنائے، خوشبو لگائے، جنازہ اُٹھائے، نماز پڑھے اور (نہلاتے وقت) جو ناقص بات نظر آئے اسے چھپائے وہ گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔)[120](
٭… سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: جو شخص (ایمان کا تقاضا سمجھ کر اور حصولِ ثواب کی نیت سے) اپنے گھر سے جنازہ کے ساتھ چلے، نمازِ جنازہ پڑھے اور دفن تک جنازہ کے ساتھ رہے، اس کے لئے دو قیراط)[121](ثواب ہے جس میں ہر قیراط اُحد (پہاڑ) کے برابر ہے اور جو شخص صرف نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے (اور تدفین میں شریک نہ ہو) تو اس کے لئے ایک قیراط ثواب ہے۔)[122](
سوال …: نمازِ جنازہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے۔ یعنی اگرکسی ایک نے بھی ادا کر لیا تو سب کی طرف سے ہوگیا ورنہ جن جن کو خبر پہنچی تھی اور نہیں آئے وہ سب گناہ گار ہوں گے۔)[123](
سوال …: کیا نمازِ جنازہ کے لئے جماعت شرط ہے؟
جواب …: جی نہیں ! نمازِ جنازہ کے لئے جماعت شرط نہیں ، ایک شخص بھی پڑھ لے تو فرض ادا ہو جائے گا۔ )[124](
سوال …: اگر کوئی نمازِ جنازہ کا فرض ہونا نہ مانے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: اگر کوئی نمازِ جنازہ کا فرض ہونا نہ مانے تو وہ کافر ہے۔
سوال …: نماز جنازہ کے صحیح ہونے کی شرائط بتائیے؟
جواب …: نماز جنازہ کے صحیح ہونے کے لیے دو قسم کی شرائط ہیں : ایک تو وہ ہیں جن کا تعلق نمازی سے ہے اور دوسری وہ ہیں جن کا تعلق میت سے ہے۔
سوال …: نمازی سے متعلق کیا شرائط ہیں ؟
جواب …: نمازی سے متعلق وہی شرائط ہیں جو عام نمازی کی ہیں :
٭… بدن، جگہ اور کپڑوں کا پاک ہونا ٭… ستر عورت
٭… قبلہ رُو ہونا ٭… نیت کا ہونا ٭… اس میں وقت اور تکبیرِ تحریمہ شرط نہیں ۔
سوال …: میت سے متعلق شرائط کیا ہیں ؟
جواب …: میت سے متعلق شرائط یہ ہیں :
٭… میّت کا مسلمان ہونا۔
٭… میّت کے بدن و کفن کا پاک ہونا۔
٭… جنازہ کا وہاں موجود ہونا یعنی کُل یا اکثر یا نصف (آدھا بدن) مع سر کے موجود ہونا، لہٰذا غائب کی نماز نہیں ہو سکتی۔
٭… جنازہ نمازی کے آگے قبلہ کی طرف ہو، اگر نمازی کے پیچھے ہوگا نماز صحیح نہ ہوگی۔
٭… میّت کا وہ حصۂ بدن چُھپا ہو جس کا چھپانا فرض ہے۔
٭… میّت امام کے محاذی (یعنی اس کی سیدھ میں ) ہو یعنی اگر ایک میّت ہے تو اُس کا کوئی حصۂ بدن امام کے محاذی ہو اور چند ہوں تو کسی ایک کا حصۂ بدن امام کے محاذی ہونا کافی ہے۔
نمازِ جنازہ کے فرائض اور سنتیں
سوال …: نمازِ جنازہ کے فرائض اور سنتیں بتائیے؟
جواب …: نماز جنازہ کے دو فرض ہیں : (۱) چار بار اَللهُ اَکْبَر کہنا (۲) قیام۔
اس میں تین سنتِ مؤکدہ ہیں : (۱) ثنا (۲) درود شریف (۳) میت کیلئے دعا۔
٭… مقتدی اس طرح نیت کرے: میں نیت کرتا ہوں اس جنازہ کی نماز کی ، واسطے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے، دعا اس میت کیلئے، پیچھے اس امام کے ۔ـ
٭… اب امام و مقتدی پہلے کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھائیں اور اَللّٰهُ اَکْبَر کہتے ہوئے فوراً حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیں ۔
٭… ثنا پڑھیں ۔ اس میں وَتَعَالٰی جَدُّكَ کے بعد وَ جَلَّ ثَنَآءُكَ وَلَاۤ اِلٰـهَ غَیْرُكَ پڑھیں ۔
٭… پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اَللهُ اَکْبَر کہیں ۔
٭… پھر درودِ ابراہیمی پڑھیں ۔
٭… پھر بغیر ہاتھ اٹھائے اَللهُ اَکْبَر کہیں اور دعا پڑھیں ۔
(امام تکبیریں بلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ۔ باقی تمام اذکار امام و مقتدی سب آہستہ پڑھیں )
٭… دعا کے بعد پھر اَللهُ اَکْبَر کہیں اور ہاتھ لٹکا دیں ۔
٭… پھر دونوں طرف سلام پھیر دیں ۔)[125](
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَآئِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا ط اَللّٰہُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ)[126](
ترجمہ: اے اللہ! تو بخش دے ہمارے زندہ اور مردہ کو اور ہمارے حاضر وغائب کو اور ہمارے چھوٹے اور بڑے کو اور مرد اور عورت کو ۔ اے اللہ! ہم میں سے تو جسے زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے تو جس کووفات دے اسے ایمان پر وفات دے۔
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًاوَّمُشَفَّعًا)[127](
ترجمہ:اے اللہ! تو اس (لڑکے) کو ہمارے لیے پیش رو کر اور اس کو ہمارے لیے ذخیرہ کر اور اس کو ہماری شفاعت کرنے والا بنا اور مقبول الشفاعۃ کردے۔
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہَا لَنَااَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہَا لَنَا شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً
ترجمہ:اے اللہ! تو اس (لڑکی) کو ہمارے لیے پیش رو کر اور اس کو ہمارے لیے ذخیرہ کر اور اس کو ہماری شفاعت کرنے والی بنا اور مقبول الشفاعۃ کر دے۔
سوال …: کیا جنازے کو کندھا دینا ثواب کا کام ہے؟
جواب …: جی ہاں ! جنازے کو کندھا دینا بہت زیادہ ثواب کا کام ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جو جنازے کی چارپائی کے چاروں پایوں کو کندھا دے تو اس کے چالیس کبیرہ گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔ )[128](
سوال …: کیا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کسی جنازے کو کندھا دینا ثابت ہے؟
جواب …: جی ہاں ! سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیدنا سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے جنازے کو کندھا دیا تھا۔
سوال …: جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: جنازے کو کندھا دینے میں یہ باتیں سنت ہیں :
٭… چار شخص جنازہ اٹھائیں ، ايک ايک پایہ ایک شخص لے اور اگر صرف دوشخصوں نے جنازہ اٹھایا، ایک سرہانے
اور ایک پائنتی تو بلا ضرورت مکروہ ہے اور ضرورت سے ہو مثلاً جگہ تنگ ہے تو حرج نہیں ۔
٭… یکے بعد دیگرے چاروں پایوں کو کندھا دے اور ہر بار دس دس قدم چلے۔
٭… پہلے سیدھے سرہانے کندھا دے، پھر سیدھی پائینتی (یعنی سیدھے پاؤں کی طرف) پھر الٹے سرہانے پھر الٹی پائنتی اور دس دس قدم چلے تو کُل چالیس قدم ہوئے۔)[129](
٭… بعض لوگ جنازے کے جلوس میں اعلان کرتے رہتے ہیں ، دو دو قدم چلو! ان کو چاہئے کہ اس طرح اعلان کیا کریں ”ہر پائے کو کندھے پر لئے دس دس قدم چلئے۔“
نمازِ جنازہ کے متعلق متفرق مدنی پھول
سوال …: کیا جوتا پہن کر جنازہ پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب …: اگر جوتا پہن کر نمازِ جنازہ پڑھیں تو جوتے اور زمین دونوں کا پاک ہونا ضروری ہے اور جوتا اتار کر اس پر کھڑے ہو کر پڑھیں تو جوتے کے تلے اور زمین کا پاک ہونا ضروری نہیں ۔)[130](
سوال …: نمازِ جنازہ میں کتنی صفیں ہونی چاہئیں ؟
جواب …: نماز جنازہ میں تین صفیں ہوں تو بہتر ہے کیونکہ فرمان مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: جس کی نمازِ جنازہ تین صفوں نے پڑھی بے شک اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ )[131](
سوال …: نمازِ جنازہ میں سب سے افضل صف کونسی ہے؟
جواب …: نمازِ جنازہ میں پچھلی صف تمام صفوں سے افضل ہے۔ )[132](
بالغ کی نمازِ جنازہ سے پہلے یہ اعلان کیجئے
مرحوم کے عزیزو احباب توجہ فرمائیں ۔ مرحوم نے اگر زندگی میں کبھی آپ کی دل آزاری یا حق تلفی کی ہو تو ان کو معاف کر دیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مرحوم کا بھی بھلا ہو گا اور آپ کو بھی ثواب ملے گا اگر کوئی لین دین کا معاملہ ہو تو مرحوم کے وارثوں سے رابطہ کیجئے۔ نمازِ جنازہ کی نیت اور اس کا طریقہ بھی سن لیجئے: ’’میں نیت کرتا ہوں اس جنازہ کی نماز کی، واسطے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے، دعا اس میت کے لیے پیچھے اس امام کے۔‘‘ اگر یہ الفاظ یاد نہ رہیں تو کوئی حرج نہیں ، آپ کے دل میں یہ نیت ہونی ضروری ہے کہ ’’میں اس میت کی نمازِ جنازہ پڑھ رہا ہوں ۔‘‘ جب امام صاحب اَللهُ اَکْبَر کہیں تو کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھانے کے بعد اَللهُ اَکْبَر کہتے ہوئے فوراً حسبِ معمول ناف کے نیچے باندھ لیجئے اور ثنا پڑھئے۔ دوسری بار امام صاحب اَللهُ اَکْبَر کہیں تو آپ بغیر ہاتھ اٹھائے اَللهُ اَکْبَر کہیے پھر نماز والا درودِ ابراہیم پڑھئے تیسری بار امام صاحب اَللهُ اَکْبَر کہیں تو آپ بغیر ہاتھ اٹھائے اَللهُ اَکْبَر کہئے او ربالغ کے جنازہ کی دعا پڑھئے (اگر نابالغ یا نابالغہ ہے تو اس کی دعا پڑھنے کا اعلان کرنا ہے) جب چوتھی بار امام صاحب اَللهُ اَکْبَر کہیں تو آپ اَللهُ اَکْبَر کہہ کر دونوں ہاتھوں کو کھول کر لٹکا دیجئے اور امام صاحب کے ساتھ قاعدے کے مطابق سلام پھیر دیجئے۔
سوال …: میت کو قبر میں اتارنے کے لیے قبر کے پاس کس طرف رکھنا چاہئے؟
جواب …: میت کو قبر سے قبلہ کی جانب رکھنا مستحب ہے تاکہ میت قبلہ کی طرف سے قبر میں اتاری جائے۔
سوال …: میت کو قبر میں اتارتے وقت کتنے آدمی ہونے چاہئیں ؟
جواب …: میت قبر میں اتارتے وقت حسبِ ضرورت دو یا تین آدمی کافی ہیں ۔ بہتر ہے کہ وہ لوگ قوی اور نیک ہوں ۔
سوال …: عورت کی میت قبر میں اتارتے ہوئے کن باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے؟
جواب …: عورت کی میت قبر میں محارم )[133]( اتاریں ۔ یہ نہ ہوں تو دیگر رشتے دار، یہ بھی نہ ہوں تو پرہیزگاروں سے اتروائیں ۔ نیز میت کو اتارنے سے لے کر تختے لگانے تک کسی کپڑے سے چھپائے رکھیں ۔
سوال …: میت کو قبر میں اتارتے وقت کیا دعا پڑھنا چاہئے؟
جواب …: میت کو قبر میں اتارتے وقت یہ دعا پڑھیں :
بِسْمِ اللّٰهِ وَ بِاللّٰهِ وَعَلٰی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ
سوال …: میت کو قبر میں لٹاتے وقت کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: میت کو قبر میں لٹاتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:
٭… میت کو سیدھی کروٹ پر لٹائیں ۔
٭… اگر سیدھی کروٹ پر لٹانا ممکن نہ ہو تو س کا منہ پھیر کر قبلہ کی طرف کردیں ۔ بشرطیکہ آسانی سے ممکن ہو ورنہ زبردستی نہ کریں کہ میت کو تکلیف ہو گی۔
٭… کفن کی بندش کھول دیں کہ اب ضرورت نہیں ، نہ کھولی تو بھی حرج نہیں ۔
سوال …: قبر پر مٹی ڈالنے کا طریقہ بتائیے؟
جواب …: قبر پر مٹی ڈالنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ سرہانے کی طرف سے دونوں ہاتھوں سے تین بار مٹی ڈالیں ۔ پہلی بار کہیں : مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ ، دوسری بار: وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمْ ، تیسری بار: وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی کہیں ۔ اب باقی مٹی پھاوڑے وغیرہ سے ڈال دیں ۔
سوال …: قبر پر کس قدر مٹی ڈالنا چاہئے؟
جواب …: قبر پر صرف اسی قدر مٹی ڈالیں جس قدر قبر سے نکلی ہو، اس سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے۔
سوال …: قبرکیسی بنانی چاہئے؟
جواب …: قبر اونٹ کے کوہان کی طرح ڈھال والی بنانا چاہئے۔
سوال …: قبر زمین سے کس قدر اونچی ہونی چاہئے؟
جواب …: قبر زمین سے ایک بالشت اونچی ہو یا اس سے معمولی زیادہ۔ )[134](
سوال …: تدفین کے بعد کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: تدفین کے بعد درج ذیل کام کرنا چاہئیں :
٭… پانی چھڑکنا سنت ہے۔اس کے علاوہ بعد میں پودے وغیرہ کو پانی دینے کی غرض سے چھڑکیں تو جائز ہے۔آ ج کل جو بلا وجہ قبروں پر پانی چھڑکا جاتا ہے اس کو فتاویٰ رضویہ شریف، ج ۴ ص ۱۸۵ پر اسراف لکھا ہے۔
٭… دفن کے بعد سرہانے الٓـمّٓ تا اَلْمُفْلِحُوۡنَ اور قدموں کی طرف اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ سے ختم سورہ تک پڑھنا مستحب ہے۔
٭… تلقین کریں ۔
٭… قبر کے سرہانے قبلہ رو کھڑے ہو کر اذان دیں ۔
٭… قبر پر پھول ڈالنا بہتر ہے کہ جب تک تر رہیں گے تسبیح کریں گے اور میت کا دل بہلے گا۔ )[135](
سوال …: تلقین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: دفن کے بعد مُردہ کو تلقین کرنا شرعاً جائز ہے۔
سوال …: کیا تلقین حدیث سے ثابت ہے؟
جواب …: جی ہاں ! تلقین حدیثِ پاک سے ثابت ہے۔
سوال …: تلقین کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: تلقین کا طریقہ حدیثِ پاک میں کچھ یوں مروی ہے: جب کوئی مسلمان فوت ہو تو اسے دفن کرنے کے بعد ایک شخص اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر تین بار یہ کہے: یا فلاں بن فلانہ! (فلاں کی جگہ میت کا نام اور فلانہ کی جگہ میت کی والدہ کا نام لے) پہلی بار وہ سنے گا مگر جواب نہ دے گا۔ دوسری بار سن کر سیدھا ہو کر بیٹھ جائے گا اور تیسری بار یہ جواب دے گا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے! ہمیں ارشاد کر۔ مگر پکارنے والے کو اس کے جواب کی خبر نہیں ہوتی، لہٰذا تین بار یا فلاں بن فلانہ کہنے کے بعد یہ کہے:
ترجمہ: تو اسے یاد کر جس پر تو دنیا سے نکلا یعنی یہ گواہی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رب اور اسلام کے دین اور محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے نبی اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ )[136](
سوال …: تلقین کا کیا فائدہ ہے؟
جواب …: تلقین کا فائدہ یہ ہے کہ جب منکر نکیر سوال کرنے آتے ہیں اور لوگوں کو میت کو تلقین کرتے دیکھتے ہیں تو ان میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے: چلو! ہم اس کے پاس کیا بیٹھیں جسے لوگ اس کی حجت سکھا چکے۔
سوال …: اگر کسی کو میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو تلقین کے وقت کیا کہے؟
جواب …: اگر کسی کو میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو ماں کی جگہ حضرت سیدتنا حوا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا نام لے لے۔ )[137](
٭…٭…٭
سوال …: ایصالِ ثواب سے کیا مراد ہے؟
جواب …: ایصالِ ثواب سے مراد یہ ہے کہ زِندہ لوگ اپنے ہر نیک عمل اور ہر قسم کی عبادت خواہ مالی ہو یا بدَنی، فرض و نفل اور خیر خیرات کا ثواب مُردوں کو پہنچا سکتے ہیں ۔
سوال …: کیا ایصالِ ثواب کا ذکر کسی حدیثِ پاک میں بھی مروی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! بہت سی احادیثِ مبارکہ میں ایصالِ ثواب کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ،
سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشادِ مشکبار ہے: مُردہ کا حال قبر میں ڈوبتے ہوئے انسان کی مانند ہے کہ وہ شدّت سے اِنتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یا بھائی یاکسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا
اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا ومَافِیْھا (یعنی دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس) سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قبر والوں کو ان کے زندہ مُتَعَلِّقین کی طرف سے ہَدِیّہ کیا ہوا ثواب پہاڑوں کی مانند عطا فرماتا ہے، زندوں کا ہدیّہ (یعنی تحفہ) مُردوں کیلئے دُعائے مغفرت کرنا ہے۔ )[138]( اور طَبَرانِی شریف میں ہے: جب کوئی شخص میِّت کو اِیصال ثواب کرتا ہے تو جبرئیل امین اسے نُورانی طباق (بڑی پلیٹ) میں رکھ کر قبر کے کَنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’ اے قبر والے ! یہ ہَدِیّہ (تحفہ) تیرے گھر والوں نے بھیجا ہے قَبول کر۔‘‘ یہ سن کر وہ خوش ہوتا ہے اور اس کے پڑوسی اپنی محرومی پر غمگین ہوتے ہیں ۔)[139](
سوال …: کیا ایصالِ ثواب کے لیے دن وغیرہ مقرر کرنا جائز ہے؟مثلاً تیجہ، دَسواں ، چالیسواں اور برسی (یعنی سالانہ ختم) وغیرہ ۔
جواب …: زِندوں کے اِیصالِ ثواب سے یقیناً مُردوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ مگر شریعت نے ایصالِ ثواب کے لیے کوئی خاص دن مقرر نہیں فرمایا بلکہ جب کسی کا دل چاہے اپنی سہولت کے لیے کوئی بھی وقت اور دن مقرر کر سکتا ہے۔ چاہے وہ تیسرا دن ہو یا دَسواں یا چالیسواں یا کوئی اور دن ہو، بلکہ اِنتقال کے بعد ہی سے قرآنِ مجید کی تلاوت اور خیر خیرات کا سلسلہ بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔
سوال …: کیا ایصالِ ثواب صرف مُردوں کو ہی کیا جا سکتا ہے؟
جواب …: جی نہیں ! ایصالِ ثواب مردوں کے ساتھ ساتھ زِندوں کو بھی کیا جا سکتا ہے۔
سوال …: بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کی نیاز اور لنگر وغیرہ کھانا کیسا ہے؟
جواب …: بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کی نیاز اور لنگر وغیرہ کھانا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ باعثِ بَرَکت بھی ہے۔
سوال …: بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کی نیاز کیا مال دار بھی کھا سکتے ہیں ؟
جواب …: جی ہاں ! بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کی نیاز مال دار بھی کھا سکتے ہیں ۔ مثلاً رَجب شریف کے کونڈے، محرم کا شربت یا کھچڑا، ماہِ ربیع الآخر کی گیارہویں شریف جس میں حضرتِ سیِّدنا غَوْثِ اَعظم شیخ عَبْدُالْقَادِر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کی فاتحہ دلائی جاتی ہے، رَجب کی چَھٹی تاریخ حضور خواجہ غریب نواز حضرتِ سیِّدنا مُعِیْنُ الدِّیْن چشتی اجمیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی فاتحہ دلائی جاتی ہے، یونہی حضور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا توشہ یا حضرت ِ سیِّدناشیخ عَبْدُالْحَق رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا توشہ وغیرہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو صدیوں سے مسلمانوں کے عوام و خواص اورعلما و فضلا میں جاری ہیں اور ان میں خاص اِہتمام کیا جاتا ہے۔ اُمرا بھی اس میں ذَوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں اور لنگر وغیرہ کے کھانے سے فیض پاتے ہیں ۔
سوال …: ایصالِ ثواب کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: ایصالِ ثواب کوئی مشکل کام نہیں صرف اتنا کہدینا یادل میں نیّت کر لینا بھی کافی ہے: یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! میں نے جو قرآنِ پاک پڑھا (یافُلاں فُلاں عمل کیا) اس کا ثواب میری والِدہ ٔ مرحومہ یا میرے فلاں رشتے دار کو پہنچا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ثواب پہنچ جائے گا۔
سوال …: فاتحہ کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: آج کل مسلمانوں میں خُصُوصاً کھانے پر جو فاتِحہ کا طریقہ رائج ہے وہ بھی بہت اچّھا ہے، اس دوران تلاوت وغیرہ کا بھی ایصالِ ثواب کیا جا سکتا ہے۔ جن کھانوں کا ایصالِ ثواب کرنا ہے وہ سارے یا سب میں سے تھوڑا تھوڑاکھانا نیز ایک گلاس میں پانی بھر کر سب کچھ سامنے رکھ لیجئے۔
اب اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ کر ایک بار
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ(۱)لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَۙ(۲)وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُۚ(۳)وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْۙ(۴)وَ لَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُؕ(۵)لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ۠(۶)
تین بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱)اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲)لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ(۳)وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠(۴)
ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ(۱)مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ(۲)وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ(۳)وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ(۴)وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)
ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱)مَلِكِ النَّاسِۙ(۲)اِلٰهِ النَّاسِۙ(۳)مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ﳔ الْخَنَّاسِﭪ(۴)الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ(۵)مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ۠(۶)
ایک بار بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱)الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ(۲)مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ(۳)اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ(۴)اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۵)صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠(۷)
پڑھنے کے بعد یہ پانچ آیات پڑھیے:
(1)… وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ۠(۱۶۳) (پ۲، البقرۃ:۱۶۳)
(2)… اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیۡنَ )۵۶( (پ۸، الاعراف:۵۶)
(3)… وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ )۱۰۷( (پ۱۷، الانبیآء:۱۰۷)
(4)… مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ۲۲، الاحزاب:۴۰)
(5)… اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا)۵۶( (پ۲۲، الاحزاب:۵۶)
اب کوئی سا بھی دُرُود شریف پڑھئے:مثلاً
صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلٰوۃً وَّ سَلَاماً عَلَیْكَ يَا رَسُوْلَ الله
اس کے بعد پڑھئے:
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۸۲) (پ۲۳، الصفت: ۱۸۰ تا ۱۸۲)
اب ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھانے والابُلند آواز سے ’’ اَلفاتِحہ‘‘ کہے۔ سب لوگ آہستہ سے سورۂ فاتحہ پڑھیں ۔ اب فاتحہ پڑھانے والا اس طرح اعلان کرے: ’’آپ نے جو کچھ پڑھا ہے اُس کا ثواب مجھے دیدیجئے۔‘‘ تمام حاضِرین کہہ دیں :’’ آپ کو دیا۔‘‘اب فاتحہ پڑھانے والا ایصالِ ثواب کردے۔
اِیصال ثواب کیلئے دعا کا طریقہ
یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! جو کچھ پڑھا گیا (اگر کھانا وغیرہ ہے تو اس طرح سے بھی کہئے) اور جو کچھ کھانا وغیرہ پیش کیا گیا ہے بلکہ آج تک جو کچھ ٹوٹا پھوٹا عمل ہو سکا ہے اس کا ثواب ہمارے ناقص عمل کے لائق نہیں بلکہ اپنے کرم کے شایانِ شان مرحمت فرما اور اسے ہماری جانب سے اپنے پیارے محبوب، دانائے غُیُوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں نَذْر پہنچا۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تَوَسُّط سے تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تمام صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان تمام اولیائے عِظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کی جناب میں نَذْر پہنچا۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تَوَسُّط سے حضرت سَیِّدُ نا آدم صَفِیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر اب تک جتنے انسان و جِنّات مسلمان ہوئے یا قیامت تک ہوں گے سب کو پہنچا۔ اس دَوران جن جن بُزُرگوں کو خُصُوصاً ایصالِ ثواب کرنا ہے ان کا نام بھی لیتے جایئے۔ اپنے ماں باپ اور دیگر رشتے داروں اور اپنے پیر و مرشِد کو بھی ایصالِ ثواب کیجئے۔ (فوت شُدگَان میں سے جن جن کا نام لیتے ہیں ان کو خوشی حاصل ہوتی ہے) اب حسبِ معمول دعا ختم کر دیجئے۔ (اگر تھوڑا تھوڑا کھانا اور پانی نکالا تھا تو وہ کھانوں اور پانی میں واپس ڈال دیجئے)
ثواب اعمال کا میرے تو پہنچا ساری اُمّت کو
مجھے بھی بخش یا رب بخش اُن کی پیاری اُمّت کو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭…٭…٭
سوال …: روزہ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: روزہ سے مراد یہ ہے کہ عبادت کی نیّت سے صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک کچھ کھانے پینے وغیرہ سے باز رہیں ۔
سوال …: کیا روزہ رکھنا فرض ہے؟
جواب …: جی ہاں ! روزہ رکھنا فرض ہے اور بعض صورتوں میں واجب اور نفل بھی ہے۔
سوال …: فرض روزہ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: ماہِ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض ہے اور اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے اس ماہ میں روزے نہ رکھ سکے تو بعد میں ان روزوں کی قضا کرنا بھی فرض ہے۔ اس کے علاوہ کفارے کے روزے رکھنا بھی فرض ہیں ۔
سوال …: واجب روزے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: اگر کسی نے روزہ کی نذر مانی ہو تو نذر پوری ہونے کے بعد روزہ رکھنا واجب ہے۔
سوال …: نفلی روزے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: فرض اور واجب روزوں کے علاوہ باقی ہر طرح کا روزہ نفلی ہوتا ہے اگرچہ ان میں سے بعض روزے سنت اور مستحب بھی ہیں : مثلاً ٭… عاشورا یعنی دسویں محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی ٭… ہر مہینے میں تیرھویں ، چودھویں ، پندرھویں کا روزہ ٭… عرفہ یعنی ذو الحجۃ الحرام کی 9تاریخ کا روزہ ٭… پیر اور جمعرات کا روزہ ٭… عید الفطر کے چھ روزے ٭… ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنا۔
سوال …: کیا کسی دن روزہ رکھنا منع بھی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! عیدین کے دو دن اور ماہِ ذو الحجۃ الحرام میں ایّام تشریق )[140](کے تین دن روزہ رکھنا مکروہِ تحریمی ہے۔
سوال …: رمضان کے روزے کب اور کس پر فرض ہوئے؟
جواب …: تَوحِیدو رِسالت کا اِقْرار کرنے اور تمام ضَروریاتِ دِین پر ایمان لانے کے بعد جس طرح ہر مُسلمان پر نَماز فَرْض قرار دی گئی ہے اسی طرح رَمَضان شریف کے روزے بھی ہر مُسلمان (مَرد وعورت) عاقِل وبالِغ پر فَرض ہیں اور یہ روزے ۱۰ شعبانُ الْمُعَظَّم دو ہجری کو فرض ہوئے۔
سوال …: قرآنِ مجید میں روزوں کی فرضیت کا حکم کس آیتِ مبارکہ میں ہے؟
جواب …: قرآنِ مجید میں روزوں کی فرضیت کا حکم سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تَعَالٰی ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) (پ ۲، البقرۃ: ۱۸۳)
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
سوال …: کیا روزہ پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھا؟
جواب …: جی ہاں ! روزہ گُزَشتہ اُمَّتوں میں بھی تھا مگر اُس کی صُورت ہمارے روزوں سے مختلِف تھی۔ رِوایات سے پتا چلتا ہے کہ
٭… حضرتِ سَیِّدُنا آدَم عَلَیْہِ السَّلَام نے (ہر اسلامی ماہ کی) ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ کو روزہ رکھا۔)[141](
٭… حضرتِ سَیِّدُنا نُوح عَلَیْہِ السَّلَام ہمیشہ روزہ دار رہتے۔)[142](
٭… حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام ہمیشہ روزہ رکھتے تھے کبھی نہ چھوڑتے تھے ۔ )[143](
٭… حضرتِ سَیِّدُناداود عَلَیْہِ السَّلَام ایک دن چھوڑ کرایک دن روزہ رکھتے ۔ )[144](
٭… حضرتِ سَیِّدُنا سُلَیمان عَلَیْہِ السَّلَام تین دن مہینے کے شروع میں ، تین دن درمیان میں اور تین دن آخِر میں (یعنی مہینے میں ٭دن) روزہ رکھا کرتے۔ )[145](
روزہ تقویٰ و پرہیز گاری کی علامت ہے
سوال …: کیا روزہ تقویٰ و پرہیز گاری کی علامت ہے؟
جواب …: جی ہاں ! روزہ پرہیز گاری کی علامت ہے کیونکہ سَخْت گرمی کے دنوں میں جب پیاس سے حلْق سُوکھ رہا ہو، ہَونٹ خُشک ہو چکے ہوں اور پانی بھی موجُود ہو تو بھی روزہ دار اُس کی طرف دیکھتا تک نہیں ۔ اسی طرح بھوک کی شِدّت کے باوجود روزہ دار کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ دار کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر کِتنا پُختہ ایمان ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اِس کی حَرَکَت ساری دُنیا سے تَو چُھپ سکتی ہے مگر
اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے پَوشیدہ نہیں رَہ سکتی ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پراِس کا یہ یقینِ کامِل روزے کا عملی نتیجہ ہے کیونکہ دُوسری عِبادتیں کِسی نہ کِسی ظاہِری حَرَکت سے ادا کی جاتی ہیں مگر روزے کا تَعلُّق باطِن سے ہے۔ اِس کا حال اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سِوا کوئی نہیں جانتا اگر وہ چُھپ کر کھا پی لے تب بھی لوگ تَو یِہی سمجھتے رہیں گے کہ یہ روزہ دار ہے مگر وہ محض خوفِ خدا کے باعث کھانے پینے سے اپنے آپ کو بچا رہا ہے اور یہی تو تقویٰ و پرہیزگاری ہے۔
سوال …: کس عمر میں روزہ رکھنا شروع کر دینا چاہئے؟
جواب …: چھوٹے مدنی منوں کو بھی روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ جب وہ بالِغ ہوجائیں تو اُنہیں روزہ رکھنے میں دُشواری نہ ہو۔ چُنانچِہ،
اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں : بچہ جیسے آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے اور جب اسے گیارھواں سال شروع ہو تو ولی پر واجب ہے کہ صوم و صلوٰۃ پر مارے بشرطیکہ روزے کی طاقت ہو اور روزہ ضرر (یعنی نقصان) نہ کرے۔ )[146](
سوال …: کیا کبھی کسی نے دودھ پینے کی عمر میں روزہ رکھا ہے؟
جواب …: جی ہاں ہمارے گیارھویں والے پیر حضور غوثِ اعظم دستگیر شیخ عبد القادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی دودھ پینے کی عمر میں ماہِ رمضان میں دن کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیتے تھے گویا کہ روزے سے ہوں ۔
سوال …: کیا روزہ رکھنے سے انسان بیمار ہو جاتا ہے؟
جواب …: جی نہیں ! روزہ رکھنے سے انسان بیمار نہیں ہوتا بلکہ تندرست ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمانِ مُصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: صُوْمُوْا تَصِحُّوا یعنی روزہ رکھو صِحَّت یاب ہو جاؤ گے۔)[147](
نیّت دل کے ا رادہ کا نام ہے، زبان سے کہنا شرط نہیں مگر زبان سے کہہ لینا مستحب ہے۔ چنانچہ،
اگر رات میں (یعنی صبحِ صادق سے پہلے) روزے کی نیّت کرے تو یوں کہے:
نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرْضِ رَمَضَانَ ھٰذَا
یعنی میں نے نیّت کی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے اس رمضان کا فرض روزہ کل رکھوں گا۔
اور اگر دن میں (یعنی صبحِ صادق کے بعد) نیّت کرے تو یہ کہے:
نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ ھٰذَا الْیَوْمَ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرْضِ رَمَضَانَ
میں نے نیّت کی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے آج رمضان کا فرض روزہ رکھوں گا۔)[148](
سوال …: روزہ داروں کے اعتبار سے روزہ کی کتنی قسمیں ہیں ؟
جواب …: روزہ داروں کے اعتبار سے روزہ کی تین قسمیں ہیں :
(1)… عوام کا روزہ: روزہ کے لُغوی معنٰی ہیں : رُکنا۔ شریعت کی اِصطِلاح میں صُبحِ صادِق سے لے کر غُروبِ آفتاب تک قَصداً کھانے پینے وغیرہ سے رُکے رہنے کو روزہ کہتے ہیں اور یہی عوام یعنی عام لوگوں کا روزہ ہے۔
(2)… خواص کا روزہ: کھانے پینے وغیرہ سے رُکے رہنے کے ساتھ ساتھ جِسم کے تمام اَعْضاء کو بُرائیوں سے روکنا خَوَاص یعنی خاص لوگوں کا روزہ ہے۔
(3)… اَخص الخواص کا روزہ: اپنے آپ کو تمام تَراُمُور سے روک کر صِرف اور صِرف اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف مُتَوَجِّہ ہونا، یہ اَخَصُّ الْخوَاص یعنی خاص الخاص لوگوں کا روزہ ہے۔
سوال …: روزے کی حقیقت کیا ہے؟
جواب …: حضرتِ سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : روزے کی حقیقت رُکنا ہے اور رُکے رہنے کی بَہُت سی شَرائِط ہیں : مَثَلاً مِعْدے کو کھانے پینے سے رَوکے رکھنا، آنکھ کو شَہوانی نظر سے روکے رکھنا، کان کو غِیبت سُننے، زَبان کو فُضُول اور فِتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکْمِ الٰہی کی مخالَفَت سے روکے رکھنا روزہ ہے۔ جب بندہ اِن تمام شرائِط کی پیروی کرے گاتَب وہ حَقیقتاً روزہ دار ہوگا۔)[149](
سوال …: حضرتِ سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کے فرمان سے کیا بات معلوم ہوتی ہے؟
جواب …: حضرتِ سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کے فرمان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں بھوکا پیاسا رہنے کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر اعضاء مثلاً آنکھ، کان، زبان، ہاتھ اور پاؤں کا بھی روزہ رکھنا چاہئے۔
سوال …: آنکھ کے روزے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: آنکھ کے روزے سے مراد یہ ہے کہ آنکھ جب بھی اُٹھے تَو صِرف اورصِرف جائِز اُمُور ہی کی طرف اُٹھے۔یعنی اپنی آنکھ کو فلمیں ، ڈرامے دیکھنے، کسی پر برُی نظر ڈالنے سے بچا کر اس سے مسجد و قرآن پاک، والدین و اساتذہ، اپنے پیرومرشد وعلمائے کرام اور مزاراتِ اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام دیکھئے اور زہے نصیب، کرم بالائے کرم ہو جائے تو سبز سبز گنبد کے انوار اور کعبۃ اللہ شریف کے جلوے دیکھئے۔
سوال …: کان کے روزے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: کان کے روزے سے مراد یہ ہے کہ صِرف اور صِرف جائِز باتیں سُنئے یعنی اپنے کانوں کو غیبت، چغلی، گانے باجے و موسیقی، فحش لطیفے و بے حیائی کی باتیں اور کان لگا کر کسی کے عیب سننے سے بچا کر اذان و اقامت، تلاوتِ قرآن ونعت، سنتوں بھرابیان و دین کی پیاری پیاری باتیں سنئے۔
سوال …: زبان کے روزے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: زبان کے روزے سے مراد یہ ہے کہ زَبان صرف اور صِرف نیک وجائز باتوں کیلئے ہی حَرَکت میں آئے۔ یعنی اپنی زبان کو جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی گلوچ کرنے، بے حیائی، فضول اور کسی مسلمان کی دل آزاری والی باتیں کرنے، گانے ونغمے گانے، فحش وبےہودہ لطیفے سنانے سے بچا کر ذکر اللہ کرنے، نعتِ شریف پڑھنے، سچ بولنے، اذان واقامت کہنے، نماز پڑھنے، تلاوتِ قرآن پاک کرنے، سنتوں بھرا بیان اور اچھی اچھی باتیں کرنے میں استعمال کریں ۔
سوال …: ہاتھ کے روزے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: ہاتھ کے روزے سے مراد یہ ہے کہ جب بھی ہاتھ اُٹھیں ، صِرف نیک کاموں کے لئے اُٹھیں یعنی اپنے ہاتھوں کو کسی پر ظلم کرنے، رشوت لینے، تاش لڈو اور دیگر فضول کھیل کھیلنے، چوری کرنے اور جھوٹ لکھنے سے بچا کر قرآنِ پاک کو چھونے، مسلمان بھائی، علمائے کرام، مشائخ عظام سے مصافحہ کرنے، زکوٰۃ وصدقہ خیرات دینے، حلال کی محنت مزدوری کرنے اور دین کی پیاری پیاری باتیں لکھنے میں استعمال کریں ۔
سوال …: پاؤں کے روزے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: پاؤں کے روزے سے مراد یہ ہے کہ پاؤں صِرف نیک کاموں کیلئے اُٹھیں یعنی چلیں تو مسجد و مزاراتِ اولیا، سنتوں بھرے اجتماع ونیکی کی دعوت، مدنی قافلہ و سفر مدینہ کی طرف چلیں اور ہر گز سینما گھر، ڈرامہ گاہ، برُے دوستوں کی مجلسوں ، شطرنج، لُڈو، تاش، کرکٹ، فٹبال، ویڈیو گیمز وغیرہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی طرف نہ چلیں ۔
(1)… ہر شے کا ایک دروازہ ہوتا ہے اور عبادت کا دروازہ روزہ ہے۔)[150](
(2)… جس کا روزے کی حالت میں انتقال ہوا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کو قیامت تک کے روزوں کا ثواب عطافرماتاہے۔ )[151](
(3)… جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کی حدود کو پہچانا اور جس چیز سے بچنا چاہیے اس سے بچا تو جو (کچھ گناہ) پہلے کرچکا ہے اس کا کفارہ ہو گیا۔)[152](
(4)… جس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے چہرے کو جہنَّم سے ستّر سال کی مَسافَت دُور کردے گا۔ )[153](
(5)… قیامت کے دن روزے داروں کے لئے سونے کے دستر خوان پر کھانا رکھا جائے گا جسے وہ کھائیں گے حالانکہ لوگ (حساب وکتاب کے) منتظر ہوں گے۔)[154](
(1)… جس نے رمضان کے ایک دن کا روزہ بغیر رخصت و بغیر مرض افطار کیا (یعنی نہ رکھا) تو زمانہ بھر کا روزہ بھی اس کی قضا نہیں ہوسکتا اگرچہ بعد میں رکھ بھی لے۔)[155](
(2)… اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر رَمَضان کا مہینہ داخِل ہوا پھر اس کی مغفِرت ہونے سے قبل گُزر گیا۔)[156](
سحری سے متعلق چند بنیادی باتیں
سوال …: سَحَری سے کیا مراد ہے؟
جواب …: سَحَری سے مراد وہ کھانا ہے جو رمضان المبارک میں رات کے آخری حصے سے صبح صادق تک روزہ رکھنے کے لیے کھایا جاتا ہے۔
سوال …: سَحَری کب تک کر سکتے ہیں ؟
جواب …: سَحَری میں تاخِیر کرنا مُسْتَحَب ہے اور دیر سے سَحَری کرنے میں زیادہ ثواب مِلتا ہے مگر اتنی تاخیر بھی نہ کی جائے کہ صبحِ صادق کا شُبہ ہونے لگے۔
سوال …: سَحَری میں تاخیر سے مُراد کونسا وَقت ہے؟
جواب …: سَحَری میں تاخیر سے مُراد رات کا چھٹا حِصّہ ہے۔
سوال …: رات کا چَھٹا حِصّہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟
جواب …: غُروبِ آفتاب سے لے کر صُبح صادِق تک رات کہلاتی ہے۔ مَثَلا کسی دِن سات بجے شام کو سُورج غُروب ہوا اورپھر چار بجے صُبحِ صادِق ہوئی تو اِس طرح غروبِ آفتاب سے لے کر صُبحِ صادِق تک جو نو گھنٹے کا وَقفہ گُزرا وہ رات کہلایا۔ اب رات کے اِ ن نو گھنٹوں کے برابر برابر چھ حِصّے کئے تو ہر حِصّہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہوا۔ اب رات کے آخِری ڈیڑھ گھنٹے (یعنی اڑھائی بجے تا چار بجے) کے دوران صُبحِ صادِق سے پہلے پہلے جب بھی سَحَری کی، وہ تاخیر سے کرنا ہوا۔
سوال …: جو لوگ صُبحِ صادِق کے بعد فَجر کی اذانیں ہورہی ہوں اور کھاتے پیتے رہیں ان کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: وہ لوگ جو صُبحِ صادِق کے بعد فَجر کی اذانیں ہورہی ہوں اور کھاتے پیتے رہیں ان کا روزہ نہیں ہوتا کیونکہ روزہ بند کرنے کا تَعلُّق اَذانِ فَجر سے نہیں بلکہ صبحِ صادق کے شروع ہونے سے ہے، لہٰذا صُبحِ صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضَروری ہے۔
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں اپنی پسند کا روزہ دار بنا کر مدینے میں روزہ کی حالت میں اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں میں موت اور جنت البقیع میں مدفن نصیب فرما۔ اٰمین
٭…٭…٭
سوال …: زکوٰۃ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: زکوٰۃ شریعت کی جانب سے مقرر کردہ اس مال کو کہتے ہیں جسے اپنا ہر طرح کا نفع ختم کرنے کے بعد رضائے الٰہی کے لئے کسی ایسے مسلمان فقیر کی ملکیت میں دے دیا جائے جو نہ تو خود ہاشمی ہو اور نہ ہی کسی ہاشمی کا آزاد کردہ غلام ہو ۔)[157](
سوال …: ہاشمی سے کیا مراد ہے؟
جواب …: اس سے مراد حضرت علی وجعفر وعقیل اور حضرت عباس وحارث بن عبدا لمطلب کی اولادیں ہیں ۔ ان کے علا وہ جنہوں نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِعانت (مدد) نہ کی مثلاً ابولہب کہ اگرچہ یہ کافر بھی حضرت عبد المطلب کا بیٹا تھا مگر اس کی اولادیں بنی ہاشم میں شمار نہ ہوں گی۔)[158](
سوال …: زکوٰۃ کس پرفرض ہے؟
جواب …: زکوٰۃ دیناہر اُس عاقل، بالغ اور آزاد مسلمان پر فرض ہے جو سال بھر نصاب کا مالک ہو اور وہ نصاب اس کے قبضے میں ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی حاجتِ اصلیہ (یعنی ضروریاتِ زندگی) سے زائد بھی ہو۔ نیز اس
پر ایسا قرض بھی نہ ہو کہ اگر وہ قرض ادا کرے تو اس کا نصاب باقی نہ رہے۔)[159](
سوال …: نصاب کا مالک ہونے سے کیا مراد ہے؟
جواب …: نصاب کا مالک ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی یا اتنی مالیت کی رقم یا اتنی مالیت کا مالِ تجارت ہو ۔
سوال …: حاجتِ اصلیہ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: حاجتِ اصلیہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی عموماً انسان کو ضرورت ہوتی ہے اور ان کے بغیر گزر اوقات میں شدید تنگی ودشواری محسوس ہوتی ہے جیسے رہنے کا گھر، پہننے کے کپڑے، سواری، علمِ دین سے متعلق کتابیں اور پیشے سے متعلق اوزار وغیرہ۔ )[160](
سوال …: زکوٰۃ کے فرض ہونے کے لیے سال گزرنے میں قَمری (یعنی چاند کے) مہینوں کا اعتبار ہوگا یا شمسی مہینوں کا؟
جواب …: زکوٰۃ کے فرض ہونے کے لیے سال گزرنے میں قَمری (یعنی چاند کے) مہینوں کا اعتبار ہوگا نہ کہ شمسی مہینوں کا، بلکہ شمسی مہینوں کا اعتبار حرام ہے۔ )[161](
سوال …: کتنی زکوٰۃ دینا فرض ہے؟
جواب …: نصاب کا چالیسواں حصہ (یعنی 2.5%) زکوٰۃ کے طور پر دینا فرض ہے۔
سوال …: زکوٰۃ کب فرض ہوئی؟
جواب …: زکوٰۃ2ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔)[162](
سوال …: کیا زکوٰۃ کی فرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے؟
جواب …: جی ہاں ! زکوٰۃ کی فرضیت کتاب وسنّت سے ثابت ہے۔ چنانچہ،
٭… اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ (پ۱، البقرۃ:۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔
صدر الافاضل حضرت مولانا سیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں : اس آیت میں نمازو زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے ۔
٭… شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب حضرت سیدنا معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو یمن کی طر ف بھیجاتو ارشاد فرمایا: ان کو بتاؤ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جا ئے گی۔ )[163](
سوال …: اگر کوئی زکوٰۃ کو فرض نہ مانے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: اگر کوئی زکوٰۃ کو فرض نہ مانے تو وہ کافر ہے۔ )[164](
سوال …: کیا زکوٰۃ دینے سے مال میں کمی ہوجاتی ہے؟
جواب …: جی نہیں ! زکوٰۃ دینے سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ مال پہلے سے بھی بڑھ جاتا ہے، لہٰذا زکوٰۃ دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوشدلی سے زکوٰۃ دینی چاہیے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا۔)[165](اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت
سے خراب ہونے والی شاخیں تراشنے سے بظاہر درخت میں کمی نظر آتی ہے لیکن یہ تراشنا اس کی نشوونما کا سبب ہے ۔ مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیمُ الامَّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْحَنَّان فرماتے ہیں : زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے۔ یہ تجرِبہ ہے جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے۔ گھر کی بوریاں چوہے، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بڑھتا ہی رہے گا، کُنویں کا پانی بھرے جاؤ تو بڑھے ہی جائے گا۔ )[166](
سوال …: زکوٰۃ دینے کے فوائد کیا ہیں ؟
جواب …: زکوٰۃ دینے کے فوائد دو طرح کے ہیں کچھ وہ ہیں جو قرآنِ پاک میں بیان ہوئے ہیں اور بعض حدیثِ پاک میں مروی ہیں ۔ چنانچہ،
قرآنِ پاک میں مروی چند فوائد یہ ہیں :
(1) … زکوٰۃ دینے والے پر رحمتِ الٰہی کی چھما چھم برسات ہوتی ہے۔ سورۂ اعراف میں ہے:
وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ (پ۹، الاعراف:۱۵۶)
ترجمۂ کنز الایمان: اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں ۔
(2)… زکوٰۃ دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَۙ﴿۳﴾ (پ۱، البقرۃ:۳)
ترجمۂ کنز الایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں ۔
(3) … زکوٰۃ دینے والا کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکوٰۃ بھی گنوایا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)
(پ ۱۸، المؤمنون: ۱تا۴)
ترجمۂ کنز الایمان: بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔
(4) … اللہ عَزَّ وَجَلَّ زکوٰۃ ادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ یَّنْصُرُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ(۴۰)اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ(۴۱) (پ ۱۷، الحج: ۴۰، ۴۱)
ترجمۂ کنز الایمان: اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کرے گا بیشک ضرور اللہقدرت والا غالب ہے،وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔
(5) … زکوٰۃ ادا کرنا اللہکے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ
ترجمۂ کنز الایمان: اللہکی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہاور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور
وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸) (پ۱۰، التوبۃ: ۱۸)
زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہکے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ۔
(6) … زکوٰۃ دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهٗۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۳۹) (پ۲۲، سبا:۳۹)
ترجمۂ کنز الایمان: اور جو چیز تم اللہکی راہ میں خرچ کرو وہ اسکے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا۔
ایک مقام پر ارشادہوتا ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۶۲) (پ۳، البقرۃ:۲۶۱، ۲۶۲)
ترجمۂ کنز الایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہکی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ،ہربال میں سودانے اور اللہاس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہوسعت والا علم والا ہے ، وہ جو اپنے مال اللہکی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،پھر دیئے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔
(1) … تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔)[167](
(2)… اپنے مال کی زکوٰۃ نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے، تجھے پاک کردے گی ۔ )[168](
(3)… جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی اس سے مال کا شر دور ہو گیا ۔ )[169](
(4)…زکوٰۃ اسلام کا پُل ہے۔)[170](
(1)… جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔)[171](
(2)… خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے، وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔)[172](
(3)… جس مال کی زکوٰۃ نہیں دی گئی قیامت کے دن وہ مال گنجا سانپ بن کر مالک کو دوڑائے گا۔)[173](
٭…٭…٭
سوال …: صدقۂ فطر سے کیا مراد ہے؟
جواب …: صدقۂ فطر سے مراد وہ صدقہ ہے جو رمضان المبارک کے بعد نمازِ عید کی ادائیگی سے قبل دیا جاتا ہے ۔
سوال …: صدقۂ فطر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: صدقۂ فطر واجب ہے)[174]( صحیح بخاری میں ہے کہ سرکارِ والا تَبار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں پر صدقۂ فطر مقرر کیا۔)[175](
سوال …: صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟
جواب …: صدقہ فطر ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک ِ نصاب ہو اور اس کانصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو۔)[176](مالِکِ نِصاب مَرد اپنی طرف سے، اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل) اولاد ہے (خواہ بالِغ ہی ہو) تو اُس کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرے۔ ہاں ! اگر وہ بچّہ یامَجْنُون خود صاحِبِ نِصاب ہے تو پھراُ س کے مال میں سے فِطْرہ اداکردے۔)[177](
سوال …: صدقۂ فطر کب واجب ہوتا ہے؟
جواب …: صدقۂ فطر عیدکے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی واجب ہو جاتا ہے۔ )[178](
سوال …: صدقۂ فطر کب واجب ہوا؟
جواب …: دو ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور اسی سال عید سے دو دن پہلے صدقۂ فطرکا حکم دیا گیا۔ )[179](
سوال …: کیا صدقۂ فطر کا ذکر قرآنِ پاک میں بھی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! صدقۂ فطر کا ذکر 30ویں پارے کی سورہ اعلیٰ میں کیا گیا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس آیت کریمہ: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ
رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵) (پ۳۰، الاعلٰی: ۱۴، ۱۵) ترجمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچا جوستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: یہ آیت صدقۂ فطر کے بارے میں نازل ہوئی)[180](
سوال …: صدقہ فطر کیوں دیا جاتا ہے؟
جواب …: حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے روزوں کو لغو اور بے حیائی کی بات سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھلانے کے لیے صدقہ فطر مقرر فرمایا۔)[181](حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : فطرہ واجب کرنے میں 2حکمتیں ہیں ۔ ایک تو روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی۔ اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑ پڑتا ہے، کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں ، رب تَعَالٰی اس فطرے کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کر دے گا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ دوسرے مساکین کی روزی کا انتظام۔)[182](
سوال …: کیا صدقۂ فطر کے لئے رمضان کے روزے رکھنا شرط ہے؟
جواب …: جی نہیں ! صدقۂ فطر واجب ہونے کے لئے رمضان کے روزے رکھنا شرط نہیں ، لہٰذا بلاعذر یا کسی عذر مثلاً سفر، مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے روزے نہ رکھنے والا بھی فطرہ ادا کرے گا۔)[183](
٭…٭…٭
سوال …: حج کسے کہتے ہیں ؟
جواب …: حج نام ہے احرام باندھ کر 9 ذو الحجہ کو میدانِ عرفات)[184]( میں ٹھہرنے اورکعبہ معظمہ کے طواف کا۔ اس کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کیے جائیں تو حج ہے۔)[185](
سوال …: حج کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: حج کرنا فرض ہے۔
سوال …: کیا حج کرنا ہر ایک پر فرض ہے؟
جواب …: جی نہیں ! ہر ایک پر فرض نہیں بلکہ صرف ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمانِ باری تَعَالٰی ہے:
وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ- (پ ۴، ال عمران: ۹۷)
ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔
سوال …: اگر کوئی شخص صاحبِ استطاعت ہو تو کیا اس پر ہر سال حج کرنا فرض ہوگا؟
جواب …: جی نہیں ! حج صرف زندگی میں ایک بار فرض ہے، جب ایک بار حج کر لیا تو اب ہر سال استطاعت کے باوجود فرض نہیں ۔
سوال …: جو شخص استطاعت رکھتے ہوئے حج نہ کرے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب …: جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہ کرے اس کے متعلق سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جسے حج کرنے سے نہ حاجتِ ظاہرہ مانع ہوئی، نہ ظالم بادشاہ ، نہ کوئی ایسا مرض جو روک دے پھر بغیر حج کیے مر گیا تو چاہے یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ )[186](
سوال …: حج کس سال فرض ہوا؟
جواب …: حج ٭ ہجری میں فرض ہوا، اس کی فرضیت قطعی ہے، جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے۔
حج کے فضائل پر مبنی احادیثِ مبارکہ
(1)… حج کمزوروں کے لیے جہاد ہے۔)[187](
(2)… حج ان گناہوں کو دور کردیتا ہے جو پیشتر ہوئے ہیں ۔)[188](
(3)… جس نے حج کیا اور رفث (فحش کلام) نہ کیا اور فسق نہ کیا تو گناہوں سے پاک ہو کر ایسا لوٹا جیسے اُس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔)[189](
(4)… حج و عمرہ محتاجی اور گناہوں کو ایسے دور کرتے ہیں ، جیسے بھٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کو دور کرتی ہے
اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ )[190](
سوال …: حج کی کتنی قسمیں ہیں ؟
جواب …: حج کی تین قسمیں ہیں : (1)… حَجِّ قِرَان (2)… حَجِّ تَمَتُّع (3)… حَجِّ اِفْرَاد
سوال …: حَجِّ قِرَان سے کیا مراد ہے؟
جواب …: حَجِّ قِرَان سے یہ مراد ہے کہ حاجی عمرہ اور حج دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھے۔
سوال …: حَجِّ تَمَتُّع سے کیا مراد ہے؟
جواب …: حَجِّ تَمَتُّع سے مراد یہ ہے کہ حاجی حج کے مہینے میں عمرہ کرے پھر اسی سال حج کا احرام باندھے یا پورا عمرہ نہ کیا، صرف چار پھیرے کیے پھر حج کا احرام باندھا۔
سوال …: حَجِّ اِفْرَاد سے کیا مراد ہے؟
جواب …: حَجِّ اِفْرَاد سے مراد یہ ہے کہ حاجی حج کے مہینے میں صرف حج کرے۔
سوال …: سب سے افضل حج کونسا ہے؟
جواب …: سب سے افضل قِران ہے پھر تمتّع پھر اِفراد۔
سوال …: حج کے ایام کون سے ہیں ؟
جواب …: حج کا وقت شوال سے دسویں ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام تک یعنی دو مہینے اور دس دن ہے کہ اس سے پہلے حج کے افعال نہیں ہو سکتے۔)[191](
سوال …: حج کے دوران ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 8تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟
جواب …: حج کے دوران ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 8تاریخ کو درج ذیل کام کیے جاتے ہیں :
٭… اگر احرام)[192](کی حالت میں نہ ہوں تو سب سے پہلے حج کا احرام باندھا جاتا ہے کیونکہ احرام کے بغیر حج نہیں ہوتا۔
٭… پھر طلوعِ آفتاب کے بعد مِنٰی )[193](کو روانگی ہوتی ہے۔
٭… مِنٰی میں نمازِ ظہر تک پہنچ کر اگلی صبح نمازِ فجر تک قیام کیا جاتا ہے۔
ذو الحجۃ الحرام کی 9تاریخ کے افعال
سوال …: ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 9تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟
جواب …: ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 9تاریخ کو درج ذیل کام کیے جاتے ہیں :
٭… نمازِ فجر مِنٰی میں ادا کرنے کے بعد میدانِ عرفات کا رخ کیا جاتا ہے۔
٭… جب نمازِ ظہر کا وقت ہو جائے تو میدانِ عرفات میں نمازِ ظہر اور عصر ملا کر پڑھی جاتی ہیں )[194]( مگر اسکی بعض شرائط ہیں ۔
٭… میدانِ عرفات میں کم از کم ایک لمحہ ٹھہرنا حج کا پہلا رکن (یعنی فرض) ہے لہٰذا 9 ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام دوپہر ڈھلنے سے لے کر 10ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام صبح صادق کے درمیان جو کوئی احرام کے ساتھ ایک لمحہ کے لئے بھی میدانِ عرفات میں داخل ہو گیا وہ حاجی ہو گیا۔
٭… پھر غروبِ آفتاب کے بعد میدانِ عرفات سے مزدلفہ )[195](کے لئے روانہ ہوجائیں ۔
٭… مزدلفہ شریف میں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کریں ۔
سوال …: مزدلفہ شریف میں مغرب اور عشاء دونوں نمازیں ایک ساتھ کیسے پڑھی جاتی ہیں ؟
جواب …: مزدلفہ شریف میں ایک ہی اَذان اورایک ہی اِقامت سے نَمازِ مغرِب و عشاء وقتِ عشاء میں ادا کی جاتی ہیں ، لہٰذا اَذان واِقامت کے بعد پہلے مغرِب کے تین فَرض ادا کرلیجئے، سلام پھیرتے ہی فوراً عشاء کے فرض پڑھئے پھر مغرِب کی سُنَّتیں ، نفل (اوّابین) اِسکے بعد عشاء کی سُنَّتیں ، نفل اور وِتر و نوافل ادا کیجئے ۔ )[196](
ذو الحجۃ الحرام کی 10تاریخ کے افعال
سوال …: ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 10تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟
جواب …: ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 10تاریخ کو درج ذیل کام کیے جاتے ہیں :
٭… 10ویں رات کو مزدلفہ میں قیام کرنا سنت مؤکدہ اور کم از کم حاجی کا ایک لمحہ وہاں ٹھہرنا واجب ہے۔
٭… پھر نمازِ فجر مزدلفہ میں ادا کرنے کے بعد مِنٰی کو روانگی ہوتی ہے۔
٭… مِنٰی پہنچ کر جَمْرَةُ الْعَقَبَہ یعنی بڑے شیطان کو سات کنکریاں ماری جاتی ہیں ۔
٭… کنکریاں مارنے کے بعد قربانی کی جاتی ہے۔
٭… قربانی کرنے کے بعد مرد حلق یا قصر)[197](رواتے ہیں جبکہ عورتیں صرف قصر )[198](کرواتی ہیں ۔
٭… حلق کروانے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔
٭… اب سلے ہوئے کپڑے پہن سکتے ہیں ۔
٭… اب حج کا آخری فرض طواف الزیارت کیا جاتا ہے۔
سوال …: طواف الزیارت سے کیا مراد ہے؟
جواب …: 10ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام سے 12ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کے سورج غروب ہونے سے پہلے کعبہ مشرفہ کے طواف کو حج کا دوسرا بڑا رکن (فرض) طواف الزیارت کہا جاتا ہے، اس کے بعد حج مکمل ہوجاتا ہے۔ طواف الزیارت سلے ہوئے کپڑے پہن کر کیا جاتا ہے کیونکہ قربانی اور حلق کے بعد حاجی احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے۔
ذو الحجۃ الحرام کی 11 اور12 تاریخ کے افعال
سوال …: ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 11 اور12 تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟
جواب …: ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 11 اور12 تاریخ کو درج ذیل کام کیے جاتے ہیں :
٭… طواف الزیارت کے بعد گیارہ ،بارہ اور تیرہ ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی تین راتیں مِنٰی شریف میں گزارنا سنت ہے۔
٭… گیارہ، بارہ تاریخ کو تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ۔
سوال …: تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنے کی ترتیب کیا ہے؟
جواب …: گیارہ اور بارہ تاریخ کو زوالِ آفتاب (سورج ڈھلنے) کے بعد پہلے چھوٹے شیطان کو پھر درمیان والے کو اور آخرمیں بڑے شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں ۔
٭…٭…٭
سوال …: قربانی سے کیا مراد ہے؟
جواب …: قربانی سے مراد ہے: مخصوص جانور کو مخصوص دن میں (یعنی 10،11اور 12 ذوالحجہ کو) قربِ خداوندی کے حصول کی نیت سے ذبح کرنا۔ کبھی اُس جانور کو بھی اُضْحِیہ اور قربانی کہتے ہیں جو ذبح کیا جاتا ہے )[199](
سوال …: قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: قربانی ہر اُس بالغ مقیم مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو مالکِ نصاب ہو۔ )[200](
سوال …: قربانی کے جانور کی عمر کتنی ہونی چاہئے؟
جواب …: اُونٹ پانچ سال کا، گائے بھینس دو سال کی، بکرا (بکری، دنبہ، دنبی اور بھیڑ وغیرہ سب) ایک سال کا۔ اس
سے کم عمر ہو تو قربانی جائز نہیں ، زیادہ ہو تو جائز بلکہ افضل ہے۔ ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ مہینے کا بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ )[201](
سوال …: قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئے؟
جواب …: قربانی کا جانور بے عیب ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”چار قسم کے جانور قربانی کے لیے درست نہیں : )1(… کانا : جس کا کانا پن ظاہر ہو (2)… بیمار: جس کی بیماری ظاہر ہو (3)… لنگڑا: جس کا لنگ ظاہرہو اور)4(… ایسا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو۔“ )[202]( البتہ! اگر تھوڑا سا عیب ہو (مثلاً کان چرا ہوا ہو یا کان میں سوراخ ہو) تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہو گی اور اگر عیب زیادہ ہو تو بالکل نہیں ہو گی۔)[203](
سوال …: جانور ذبح کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب …: جانور ذبح کرنے میں سنت یہ ہے کہ ذبح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ رُو ہوں ، ہمارے علاقہ (یعنی پاک و ہند) میں قبلہ مغرب میں ہے، اس لئے سرِ ذبیحہ (جانور کا سر) جنوب کی طرف ہونا چاہئے تاکہ جانور بائیں (الٹے) پہلو لیٹا ہو اور اس کی پیٹھ مشرق کی طرف ہو، تاکہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو جائے اور ذبح کرنے والے نے اپنا یا جانور کا منہ قبلہ کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے۔)[204](پھر جانور کی گردن کے قریب پہلو پر اپنا سیدھا پاؤں رکھ کر اَللّٰھُمَّ لَـكَ وَمِنْكَ بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَكْبَرُ پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کر دیجئے۔
سوال …: قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے کونسی دعا پڑھی جاتی ہے؟
جواب …: قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھی جاتی ہے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْكَ لَہٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
سوال …: کیا ذبح کے بعد بھی کوئی دعا پڑھی جاتی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! قربانی اپنی طرف سے ہو تو ذبح کے بعد یہ دعا پڑھی جاتی ہے:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّی كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِكَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ وَحَبِیْبِكَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اور اگر دوسرے کی طرف سے ہو تو مِنِّی کے بجائے مِنْ کہہ کر اس کا نام لیا جاتا ہے۔ )[205](
قربانی کے متعلق دیگر مدنی پھول
سوال …: کیا قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہئے؟
جواب …: جی ہاں ! قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا سنت ہے اور بوقت ذبح بہ نیتِ ثوابِ آخرت وہاں حاضر رہنا بھی سنت ہے۔
سوال …: گائے، بھینس اور اونٹ میں کتنی قربانیاں ہو سکتی ہیں ؟
جواب …: گائے، بھینس اور اونٹ میں سات قربانیاں ہو سکتی ہیں ۔
سوال …: جس پر قربانی واجب ہو وہ اگر قربانی کے بجائے اتنی رقم صدقہ کر دے تو کیا اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب …: جی نہیں ! قربانی کا بکرا یا اس کی قیمت صدقہ کرد ینے سے قربانی نہیں ہوتی کیونکہ قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ )[206](
سوال …: قربانی کے وقت تماشا دیکھنا کیسا ہے؟
جواب …: قربانی کے وقت بطور تفریح ذبح ہونے والے جانور کے گرد گھیرا ڈالنا، اس کے چلانے اور تڑپنے پھڑکنے سے لطف اندو ز ہونا، ہنسنا، قہقہے بلند کرنا اور اس کا تماشا بنانا سراسر غفلت کی علامت ہے۔ ذبح کرتے وقت یا اپنی قربانی ہو رہی ہو اس کے پاس حاضر رہتے وقت ادائے سنت کی نیت ہونی چاہئے۔
سوال …: قربانی کے وقت ادائے سنت کے علاوہ اور کیا کیا نیتیں کی جا سکتی ہیں ؟
جواب …: قربانی کے وقت ادائے سنت کے علاوہ درج ذیل نیتیں بھی کی جا سکتی ہیں :
٭… میں راہِ خدا میں جس طرح آج جانور قربان کر رہا ہوں بوقتِ ضرورت اپنی جان بھی قربان کردوں گا۔
٭… جانور ذبح کر کے اپنے نفسِ امارہ کو بھی ذبح کر رہا ہوں اور آئندہ گناہوں سے بچوں گا۔
سوال …: ذبح کے وقت جانور پر رحم کھانا کیسا ہے؟
جواب …: ذبح ہونے والے جانور پر رحم کھائے اور غور کرے کہ اگر اس کی جگہ مجھے ذبح کیا جارہا ہوتا تو میری کیا کیفیت ہوتی! بوقتِ ذبح جانور پر رحم کھانا کارِ ثواب ہے جیسا کہ ایک صحابی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !مجھے بکری ذبح کرنے پر رحم آتا ہے۔ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر اس پر رحم کرو گے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھی تم پر رحم فرمائے گا۔)[207](
٭…٭…٭
[1]… خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الطھارۃ، الفصل الثالث، سنن الوضوء، الجزء الاول، ۱/ ۲۱
[2]… المرجع السابق
[3]… عالمگیری، کتاب الطھارۃ، الباب الثانی، الفصل الثانی، ۱/ ۱۴
[4]… نماز كے احكام، غسل کا طریقہ، ص۱۰۰ ملتقطاً
[5]… در مختار ، كتاب الطهارة، ۱/ ۳۴۳، ۳۴۸
[6]… بہارِ شریعت، غسل کا بیان، ۱/ ۳۲۶
[7]… عالمگيری، كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع، ۱/ ۳۹ (3)… بہارِ شریعت، غسل کا بیان، ۱/ ۳۲۷
[8]… الهداية، كتاب الطھارات، باب الحيض والاستحاضة، ۱/ ۳۳
[9]… ردالمحتار، كتاب الطهارۃ، مطلب یطلق الدعاء …الخ، ۱/ ۳۴۸
[10]… المرجع السابق
[11]… عالمگیری، كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع، ۱/ ۳۸بہارِ شریعت، غسل کا بیان، ۱/ ۳۲۶
[12]… بہارِ شریعت، غسل کا بیان، ۱/ ۳۲۶
[13]… یعنی ہاتھوں کو پہلے آگے بڑھانا پھر پیچھے لانا۔
[14]… بہارِ شریعت، تیمم کا بیان، ۱/ ۳۵۶
[15]… نماز کے احکام، ص ۱۲۸
[16]… جامع الرموز للقھستانی، کتاب الصلاۃ، فصل الاذان، ۱/ ۱۲۴
[17]… ردالمحتار، كتاب الصلاة، مطلب فی كراھة تكرار الجماعة… الخ، ۲/ ۸۴
[18]… ردالمحتار، كتاب الصلاة، مطلب فی كراھة تكرار الجماعة … الخ، ۲/ ۸۳
[19]… بہارِ شریعت، اذان کا بیان، ۱/ ۴۷۴
[20]… جامع الرموز للقھستانی، کتاب الصلاۃ، فصل الاذان، ۱/ ۱۲۴
[21]… رد المحتار، كتاب الصلاة، مطلب شروط الامامة الكبری، ۲/ ۳۳۷
[22]… بہارِ شریعت، امامت کا بیان، ۱/ ۵۶۷
[23]… در مختار ورد المحتار، كتاب الصلاة، مطلب شروط الامامة الكبری، ۲/ ۳۳۷ – ۳۴۰
[24]… بہارِ شریعت، امامت کا بیان، ۱/ ۵۶۲ ملخصاً
[25]… در مختار ورد المحتار، كتاب الصلاة، مطلب شروط الامامة الكبری، ۲/ ۳۳۷ – ۳۴۰
[26]… ھدایہ، كتاب الصلاة، باب النوافل، فصل فی قيام شهر رمضان، ۱/ ۷۰
[27]… عالمگیری، كتاب الصلاة ،فصل فی التراويح، ۱/ ۱۱۶
[28]… اس کا تفصیلی مسئلہ فیضانِ سنت جلد اوّل کے صفحہ 1116 پر ملاحظہ فرمایئے۔
[29]… در مختار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاة التراويح، ۲/ ۶۰۳
[30]… عالمگیری، كتاب الصلوة، الباب التاسع، فصل فی التراويح، ۱/ ۱۱۵
[31]… در مختار، كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاة التراويح، ۲/ ۵۹۸
[32]… معرفۃ السنن والآثار للبیھقی، كتاب الصلاة، باب قيام رمضان، ۲/ ۳۰۵، حدیث: ۱۳۶۵
[33]… بہارِ شریعت، تراویح کا بیان، ۱ / ۶۸۹
[34]… فیضانِ سنت، فیضانِ تراویح، ۱/ ۱۱۱۷
[35]… فتاویٰ رضویہ، ۷/ ۴۵۸
[36]… بہارِ شریعت، تراویح کا بیان، ۱/ ۶۹۵
[37]… عالمگیری، كتاب الصلاة، الباب التاسع، فصل فی التراويح، ۱/ ۱۱۸
[38]… در مختار و ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل فی القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ … الخ، ۲/ ۳۲
[39]… عالمگیری، كتاب الصلاة، الباب التاسع، فصل فی التراويح، ۱/ ۱۱۸
[40]… غنية المتملی، فصل فی النوافل، التراویح، ص ۴۰۴
[41]… فيضانِ سنت، فيضانِ تراويح، ۱/ ۱۱۲۲
[42]… فتاویٰ رضویہ، ۲۳/ ۵۳۷
[43]… فيضانِ سنت، فيضانِ تراويح، ۱/ ۱۰۹۹
[44]… عالمگیری، كتاب الصلاة، الباب التاسع، فصل فی التراويح، ۱/ ۱۱۶ ماخوذاً
[45]… بہارِ شریعت، نماز کے وقتوں کا بیان، ۱/ ۴۵۱
[46]… نماز کے احکام، نماز کا طریقہ، ص ۲۷۳
[47]… مسلم، کتاب صلاۃ المسافرين، باب من خاف ان لايقوم …الخ، ص۳۸۰، حديث: ۷۵۵
[48]… بہارِ شریعت، وتر کا بیان، ۱/ ۶۵۵
[49]… عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثامن، ۱/ ۱۱۱
[50]… المرجع السابق
[51]… در مختار ، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ۲/ ۶۵۵
[52]… فتح القدیر،کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ۱/ ۴۳۸
[53]… ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ۲/ ۶۵۵
[54]… در مختار ، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ۲/ ۶۵۸
[55]… عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی عشر، ۱/ ۱۲۸
[56]… عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الثانی عشر، ۱/ ۱۲۷
[57]… عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی عشر، ۱/ ۱۲۸
[58]… بہارِ شریعت، سجدہ سہو کا بیان، ۱/ ۷۱۵
[59]… ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ۲/ ۶۵۷
[60]… در مختار ، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ۲/ ۶۵۷
[61]… عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی عشر، ۱/ ۱۲۸
[62]… بہارِ شریعت، سجدہ سہو کا بیان، ۱/ ۷۱۴
[63]… شرح الوقایۃ، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، الجزء الاول، ۱/ ۲۲۰
[64]… عالمگیری،کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر، ۱/ ۱۲۵
[65]… الھدَایہ، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۱/ ۷۸
[66]… بہارِ شریعت، سجدۂ تلاوت کا بیان، ۱/ ۷۳۰
[67]… رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲/ ۶۹۴
[68]… بہارِ شریعت، سجدۂ تلاوت کا بیان، ۱/ ۷۳۳ ملتقطاً
[69]… ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲/ ۷۰۳
[70]… درمختارو رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲/ ۷۱۲
[71]… در مختار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۷۱۷
[72]… درمختار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲/ ۶۹۹
[73]… تنویر الابصار، کتاب الصلاۃ، باب سجود التلاوۃ، ۲ / ۷۰۰
[74]… بہارِ شریعت، سجدۂ تلاوت کا بیان، ۱ / ۷۳۸
[75]… مراۃ المناجیح، جمعہ کاباب، ۲/ ۳۱۷بتغیر
[76]… درمختار ، تتمۃ کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ۳/ ۵
[77]… مستدرک، کتاب الجمعۃ، التشدید علی التخلف عن الجمعۃ، ۱/ ۵۸۹ ، حدیث: ۱۱۲۰
[78]… درمختار ، تتمۃ کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ۳/ ۵
[79]… خزائن العرفان، پ۲۸، الجمعۃ، تحت الایۃ ۹، حاشیہ نمبر ۲۱
[80]… مراٰۃ المناجیح، خطبہ اور نماز، ۲/ ۳۴۶ ملخّصاً
[81]… حلیۃ الاولیاء، ۳ / ۱۸۱، حدیث: ۳۶۲۹
[82]… مسلم،کتاب الجمعۃ، باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، ص ۴۲۴، حدیث: ۱۵ - ( ۸۵۲)
[83]… مراٰۃ المناجیح، جمعہ کاباب، ۲/ ۳۱۹ بتغیر
[84]… مراٰۃ المناجیح، جمعہ کاباب، ۲/ ۳۲۵
[85]… مراٰۃ المناجیح، صفائی اور جلدی کرنا، ۲/ ۲۳۶
[86]… المعجم الکبير، ۸ / ۲۵۶، حدیث: ۷۹۹۶
[87]… المعجم الاوسط، ۲/ ۳۱۴، حدیث: ۳۳۹۷
[88]… بخاری،کتاب الجمعۃ، باب الدھن للجمعۃ، ۱ / ۳۰۶، حدیث: ۸۸۳
[89]… المصنَّف لابن ابی شیبہ، کتاب الجمعۃ، باب فی تنقیۃ الاظفار … الخ، ۲/ ۶۵، حدیث: ۲
[90]… در مختار، کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، ۹/ ۶۶۸
[91]… مجمعُ الزوائد، کتاب الصلاۃ، باب اللباس للجمعۃ، ۲ / ۳۹۴، حدیث: ۳۰۷۵
[92]… ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ و دفنہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۲۹۱، حدیث: ۱۶۳۷
[93]… بخاری، کتاب الجمعۃ، باب الاستماع … الخ، ۱/ ۳۱۹، حدیث: ۹۲۹
[95]… احیاء العلوم، کتاب اسرار الصلاۃ ومھماتھا، الباب الخامس، ۱ / ۲۴۹
[96]… بہارِ شریعت، جمعہ کا بیان، ۱ / ۷۷۷
[97]… فتاویٰ رضویہ، ۹ / ۵۲۳ بتغیر
[98]… نوا درالاصول للترمذی، ص ۲۴
[99]… نوا درالاصول للترمذی، ص ۲۱۳
[100]… اتحاف السادۃ المتقین، ۱۰ / ۳۶۳
[101]… الترغیب والترھیب، کتاب الجمعۃ، الترغیب فی قراءۃ سورۃ الکھف … الخ، ۱ / ۲۹۸، حدیث: ۲
[102]… المرجع السابق، ص ۲۹۷، حدیث: ۱
[103]… الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب صلوۃ الجمعۃ، ۴ / ۱۹۱، حدیث: ۲۷۶۰
[104]… نماز کے احکام، ص ۴۲۴
[105]… شیخِ فانی: وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا (توشیخ فانی ہے)۔ (بہارِ شریعت،اصطلاحات، ۱/ ۵۵)
[106]… درمختار وردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب فی شروط … الخ، ۳/ ۳۰ تا ۳۳
[107]… مسندِ احمد ، ۱ / ۴۹۴، حدیث: ۲۰۳۳
[108]… درمختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ۳/ ۳۹
[109]… المرجع السابق، ص ۴۰ ، ۴۱ ملتقطاً
[110]… ترمذی ،کتاب الجمعۃ، باب ما جاء فی کراھیتہ … الخ، ۲ / ۴۸، حدیث: ۵۱۳
[111]… مشکاۃ المصابیح، ص ۲۳۱ مطبوعہ باب المدینہ (کراچی)
[112]… مِراٰۃ المناجیح، ۲ / ۳۳۸
[113]… فتاویٰ رضویہ ، ۸ / ۳۶۵
[114]… در مختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ۳/ ۳۹
[115]… فتاویٰ رضویہ ، ۸ / ۳۶۵
[116]… المرجع السابق
[117]… حدائق بخشش، ص۱۷۸
[118]… آج کل غسل کے دوران سفید کپڑا اوڑاھتے ہیں، پانی لگنے سے بے پردگی ہوتی ہے، لہٰذا کتھئی یا گہرے رنگ کا اتنا موٹا کپڑا ہو کہ پانی پڑنے سے ستر نہ چمکے، کپڑے کی دو تہیں کر لیں تو زیادہ بہتر۔
[119]… میت کے وضو میں پہلے گٹّوں تک ہاتھ دھونا، کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا نہیں ہے۔ البتہ کپڑے یا روئی کے پھریرے بھگو کر دانتوں، مسوڑھوں، ہونٹوں اور نتھنوں پر پھیر دیں۔
[120]… ابن ماجہ، كتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل الميت، ۲/ ۲۰۱ ، حدیث: ۱۴۶۲
[121]… قیراط اصل میں نصف دانق یعنی درہم کے بارھویں حصے کو کہتے ہیں۔ (عمدۃ القاری ، ۱۴/ ۴۸۳)
[122]… مسلم، كتاب الجنائز، باب فضل الصلاة علی الجنازة، ص ۴۷۲، حديث: ۵۶ - (۹۴۵)
[123]… فتاویٰ تاتارخانیہ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثانی والثلاثون، ۲/ ۱۵۳
[124]… عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون، الفصل الخامس، ۱/ ۱۶۲
[125]… نماز كے احكام، ص ۳۸۲
[126]… ترمذی، كتاب الجنائز، باب ما يقول فی الصلاة علی المیت ، ۲/ ۳۱۴، حدیث: ۱۰۲۶
[127]… كنزالدقائق، كتاب الصلاة، باب الجنائز، ص ۵۲
[128]… المعجم الاوسط، ۴/ ۲۶۰ ، حدیث: ۵۹۲۰
[129]… بہارِ شریعت، جنازہ لے چلنے کا بیان، ۱/ ۸۲۲
[130]… فتاویٰ رضویہ، ۹/ ۱۸۸
[131]… ترمذی، كتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلاۃ علی المیت الشفاعۃ لہ، ۲/ ۳۱۷، حدیث: ۱۰۳۰
[132]… ترمذی، كتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلاۃ علی المیت الشفاعۃ لہ، ۲/ ۳۱۷، حدیث: ۱۰۳۰ در مختار ، كتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، ۳/ ۱۳۱
[133]… یعنی ایسے قریبی رشتے دار جن سے اس عورت کا زندگی میں نکاح حرام تھا۔
[134]… رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی دفن المیت، ۳/ ۱۶۸
[135]… ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی وضع الجرید … الخ، ۳/ ۱۸۴ ماخوذاً
[136]… المعجم الکبیر، ۸/ ۲۴۹، حدیث: ۷۹۷۹
[138]… شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان، باب فی بر الوالدین، ۶/ ۲۰۳، حدیث: ۷۹۰۵
[139]… المعجم الاوسط، ۵/ ۳۷ ، حدیث:۶۵۰۴
[140]… دس ذوالحجہ کے بعد کے تین دن(۱۱،۱۲،۱۳) کو ایام تشریق کہتے ہیں۔ (بہارِ شریعت، حصہ چہارم کی اصطلاحات، ۱/ ۵۵)
[141]… کنز العمال، کتاب الصوم، الجزء الثامن، ۴/ ۲۵۸، حدیث: ۲۴۱۸۸
[142]… ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی صیام نوح، ۲/ ۳۳۳، حدیث: ۱۷۱۴
[143]… کنز العمال، کتاب الصوم، الجزء الثامن، ۴/ ۳۰۴، حدیث: ۲۴۶۲۴
[144]… مسلم، کتاب الصیام، باب النھی عن صوم الدھر …الخ، ص۵۸۷، حدیث: ۱۸۷ - (۱۱۵۹)
[145]… کنزالعمال، کتاب الصوم، الجزء الثامن، ۴/ ۴ ۰ ۳، حدیث: ۲۴۶۲۴
[146]… فتاویٰ رضویہ، ۱۰/ ۳۴۵
[147]… المعجم الاوسط، ۶/ ۱۴۶، حدیث: ۸۳۱۲
[148]… بہارِ شریعت، ۱/ ۹۶۸
[149]… کشف المحجوب، کشف الحجاب السابع فی الصوم، ص۳۵۴،۳۵۳ ملتقطاً
[150]… الجامع الصغير، ص ۱۴۶، حديث: ۲۴۱۵
[151]… فردوس الاخبار، ۲/ ۲۷۴، حدیث: ۵۹۶۷
[152]… الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، باب فضل رمضان، الجزء الخامس، ۴/ ۱۸۲، حدیث: ۳۴۲۴
[153]… بخاری، كتاب الجهاد و السير، باب فضل الصوم في سبيل الله، ۲/ ۲۶۵، حدیث: ۲۸۴۰
[154]… كنز العمال، کتاب الصوم، الباب الاول فی صوم الفرض، الجزء الثامن، ۸ /۲۱۴، حديث : ۲۳۶۴۰
[155]… ترمزی ،کتاب الصوم ،باب ماجاءفی الافضار متعمدا،۲\۱۷۵،حدیث:۷۲۳
[156]… مسنداحمد، ۳/ ۶۱، حدیث: ۷۴۵۵
[157]… در مختار، کتاب الزکوۃ، ۳ /۲۰۳ تا ۲۰۶ ملتقطاً
[158]… بہارشریعت، مال زکوٰۃ کے مصارف، ۱/ ۹۳۱
[159]… بہارشریعت، زکوٰۃ کا بیان، ۱/ ۸۷۵ تا ۸۸۰ ملتقطاً
[160]… ھدایۃ، کتاب الزکوۃ، ۱/ ۹۶
[161]… فتاوی رضویہ، ۱۰/ ۱۵۷ ماخوذاً
[162]… در مختار، کتاب الزکوۃ، ۳/ ۲۰۲
[163]… ترمذی، کتاب الزکوۃ، باب ما جاء فی کراھیۃ اخذ خیار المال فی الصدقۃ، ۲/ ۱۲۶، حدیث:۶۲۵ ملخصاً
[164]… عالمگیری، کتاب الزکوۃ، الباب الاول،۱/ ۱۷۰
[165]… المعجم الاوسط، ۱/ ۶۱۸، حدیث: ۲۲۷۰
[166]… مراٰۃ المناجیح، ۳/ ۹۳
[167]… الترغیب والترھیب، کتاب الصدقات، باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ، ۱/ ۳۰۱ ، حدیث: ۱۲
[168]… مسنداحمد، ۴/ ۲۷۳، حدیث: ۱۲۳۹۷
[169]… المعجم الاوسط، ۱/ ۴۳۱، حدیث: ۱۵۷۹
[170]… المعجم الاوسط، ۶/ ۳۲۸، حدیث: ۸۹۳۷
[171]… المعجم الاوسط، ۳/ ۲۷۵ ، حدیث: ۴۵۷۷
[172]… الترغیب و الترھیب، کتاب الصدقات، الترھیب من منع الزکوۃ …الخ،۱/ ۳۰۸، حدیث:۱۶
[173]… مسند احمد ، ۳/ ۶۲۶، حدیث: ۱۰۸۵۷
[174]… در مختار، کتاب الزکوۃ، باب صدقۃ الفطر، ۳/ ۳۶۲
[175]… بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب فرض صدقۃ الفطر، ۱/ ۵۰۷، حديث: ۱۵۰۳ ملخصاً
[176]… در مختار، کتاب الزکوۃ،باب صدقۃ الفطر، ۳/ ۳۶۵
[177]… عالمگیری، کتاب الزکوۃ، الباب الثامن فی صدقۃ الفطر، ۱/ ۱۹۲
[178]… المرجع السابق
[179]… در مختار، کتاب الزکوۃ، باب صدقۃ الفطر، ۳/ ۳۶۲
[180]… صحیح ابن خزیمہ، ۴/ ۹۰، حدیث: ۳۹۷
[181]… ابو داود، کتاب الزکوۃ، باب زکوٰۃ الفطر، ۲/ ۱۵۷، حدیث: ۱۶۰۹
[182]… مراٰۃ المناجیح، ۳/ ۴۳
[183]… در محتار، کتاب الزکوٰۃ، باب صدقۃ الفطر، ۳/ ۳۶۷
[184]… منیٰ سے تقریباً 11 کلو میٹر دور ایک میدان ہے جہاں 9ذوالحجہ کو تمام حاجی صاحبان جمع ہوتے ہیں۔ (بہارِ شریعت، اصطلاحات، ۱/ ۶۸)
[186]… دارمی، کتاب المناسک، باب من مات ولم یحجّ، ۲/ ۴۵، حدیث: ۱۷۸۵
[187]… ابن ماجہ، کتاب الحج، باب الحج جھاد النساء، ۳/ ۴۱۴، حدیث: ۲۹۰۲
[188]… مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام یھدم ما قبلہ … الخ، ص ۷۴، حدیث: ۱۲۱
[189]… بخاری، کتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، ۱/ ۵۱۲، حدیث: ۱۵۲۱
[190]… ترمذی، کتاب الحج، باب ماجاء فی ثواب الحج و العمرۃ، ۲/ ۲۱۸، حدیث: ۸۱۰
[191]… بہارِ شریعت، حج کا بیان، ۱/ ۱۰۳۶
[192]… جب حج یا عمرہ یا دو نوں کی نیت کرکے تلبیہ پڑھتے ہیں تو بعض حلال چیز یں بھی حرام ہوجاتی ہیں اس لئے اس کو احرام کہتے ہیں اور مجازاً ان بغیر سلی چادرو ں کو بھی احرام کہا جاتا ہے جن کو احرام کی حالت میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ (بہارِ شریعت، اصطلاحات، ۱/۶۴)
[193]… مسجد الحرام سے پانچ کلو میٹر پرایک وادی ہے جہا ں حاجی صاحبان قیام کرتے ہیں۔(بہارِ شریعت، اصطلاحات، ۱/۶۸)
[194]… آپ اپنے اپنے خیموں ہی میں ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں باجماعت ادا کیجئے۔ (رفیق الحرمین، حاشیہ، ص ۱۶۰)
[195]… مِنٰی سے عرفات کی طرف تقریبا ًپانچ کلو میٹر پر واقع ایک میدان ہے جہاں عرفات سے واپسی پررات بسر کرتے ہیں۔ یہاں صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیان کم از کم ایک لمحہ وقوف واجب ہے۔ (بہارِ شریعت، اصطلاحات، ۱/۶۴)
[196]… رفیق الحرمین، ص ۱۸۲
[197]… احرام سے باہر ہونے کے لئے حدودِ حرم ہی میں پورا سر منڈوانے کو حَلْق اور چوتھائی سر کا ہر بال کم از کم انگلی کے ایک پورے کے برابر کتروانے کو قصر کہتے ہیں۔ (رفیق الحرمین، ص ۶۰)
[198]… اِسلامی بہنوں کو سَر مُنڈانا حرام ہے وہ صِرْف تَقْصِیر کروائیں۔ اِس کاآسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی چُٹیا کے سِرے کو اُنگلی کے گرد لپیٹ کر اُتنا حصّہ کاٹ لیں، لیکن یہ اِحتِیاط لازِمی ہے کہ کم ازکم چوتھائی سَر کے بال ایک پَورے کے برابر کٹ جائیں۔ (رفیق الحرمین، ص ۱۳۸)
[199]… بہارِ شریعت، اضحیہ یعنی قربانی کا بیان، ۳/ ۳۲۷
[200]… عالمگیری ، كتاب الاضحية، الباب الاوّل، ۵/ ۲۹۲
[201]… در مختار، كتاب الاضحية، ۹/ ۵۳۳
[202]… مسند احمد، ۶/ ۴۰۷، حدیث:۱۸۵۳۵
[203]… بہارِ شریعت، قربانی کے جانور کا بیان، ۳/ ۳۴۰ ملخصاً
[204]… فتاویٰ رضویہ، ۲۰/ ۲۱۶
[205]… ابلق گھوڑے سوار، ص ۱۴
[206]… بہارِ شریعت، اضحیہ یعنی قربانی کا بیان، ۳/ ۳۳۵ ماخوذاً
[207]… مسند احمد، ۵/ ۳۰۴، حديث: ۱۵۵۹۲