مُعْجِزہ: نبی سے بعد دعوی نبوت خلافِ عقل وعادت صادر ہونے والی چیز جس سے سب منکرین عاجز ہوجاتے ہیں اسے معجزہ کہتے ہیں ۔
اِرہاص : نبی سے جوبات خلافِ عادت اعلانِ نبوت سے پہلے ظاہرہواس کوارہا ص کہتے ہیں ۔
کرامت : ولی سے جوبات خلافِ عادت صادرہواس کوکرامت کہتے ہیں ۔
مَعُونت : عام مومنین سے جوبات خلافِ عادت صادِر ہو اس کو معونت کہتے ہیں ۔
اِسْتِدراج : بے باک فُجّاریاکفارسے جوبات ان کے موافق ظاہر ہو اس کو استدراج کہتے ہیں ۔
اِہانت : بے باک فجاریاکفارسے جوبات ان کے خلاف ظاہرہواس کواہانت کہتے ہیں ۔
بِدعت : وہ اِعْتِقَادیا وہ اَعمال جو کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانۂ حیاتِ ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے۔
بدعت سَیِّئَہ : جوبدعت اسلام کے خلاف ہو یاکسی سنت کومٹانے والی ہووہ بدعت سیئہ ہے۔
بدعت مکروہَہ : وہ نیا کام جس سے کوئی سنت چھوٹ جائے اگرسنت غیرمؤکدہ چھوٹی تویہ بدعت مکروہ تنزیہی ہے اوراگرسنت مؤکدہ چھوٹی تویہ بدعت مکروہ تحریمی ہے۔
بدعت حَرام : وہ نیاکام جس سے کوئی واجب چھوٹ جائے، یعنی واجب کومٹانے والی ہو۔
بدعت مستحبہ : وہ نیاکام جو شریعت میں منع نہ ہو اور اس کو عام مسلمان کارِ ثواب جانتے ہوں یا کوئی شخص اس کو نیت خیرسے کرے، جیسے محفل میلاد وغیرہ۔
بدعت جائِز (مُبَاح): ہروہ نیاکام جوشریعت میں منع نہ ہواوربغیرکسی نیتِ خیرکے کیاجائے جیسے مختلف قسم کے
کھانے کھاناوغیرہ۔
بدعت واجب : وہ نیاکام جوشرعاًمنع نہ ہواور اس کے چھوڑنے سے دین میں حرج واقع ہو،جیسے کہ قرآن کے اعراب اوردینی مدارس اورعلمِ نحو وغیرہ پڑھنا۔
تَقلید : کسی کے قول وفعل کواپنے اوپرلازم شرعی جاننا یہ سمجھ کرکہ اس کاکلام اوراس کاکام ہمارے لیے حجت ہے کیونکہ یہ شرعی محقق ہے،جیسے کہ ہم مسائل شرعیہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کاقول وفعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائل شرعیہ میں نظرنہیں کرتے۔
شرعی مسائل تین طرح کے ہیں : (۱)عقائد:ان میں کسی کی تقلید جائزنہیں (۲)وہ احکام جوصراحۃً قرآن پاک یا حدیث شریف سے ثابت ہوں اجتہاد کوان میں دخل نہیں ، ان میں بھی کسی کی تقلید جائز نہیں جیسے پانچ نمازیں ، نماز کی رکعتیں ، تیس روزے وغیرہ (۳) وہ احکام جو قرآن پاک یا حدیث شریف سے استنباط و اجتہاد کرکے نکالے جائیں ، ان میں غیرمجتہد پرتقلید کرنا واجب ہے۔
٭…٭…٭
فرض : جودلیل قطعی )[1](سے ثابت ہویعنی ایسی دلیل جس میں کوئی شُبہ نہ ہو۔
فرض کفایہ : وہ ہوتاہے جوکچھ لوگوں کے ادا کرنے سے سب کی جانب سے ادا ہو جاتا ہے اور کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گناہ گار ہوتے ہیں ۔ جیسے نمازِ جنازہ وغیرہ۔
واجب : وہ جس کی ضرورت دلیل ظنی)[2](سے ثابت ہو۔
سنت مؤکدہ : وہ ہے جس کوحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیشہ کیا ہوالبتہ بیانِ جواز کے لیے کبھی ترک بھی کیاہو۔
سنّتِ غیر مؤکدہ : وہ عمل جس پر حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مداومت (ہمیشگی) نہیں فرمائی اور نہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی لیکن شریعت نے اس کے ترک کو ناپسند جانا ہو اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ عمل کبھی کیا ہو۔
مُستحب : وہ کہ نظرِ شرع میں پسند ہو مگرترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو، خواہ خود حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کرام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔
مُباح : وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔
حرام قطعی : جس کی ممانعت دلیل قطعی سے لزوماً ثابت ہو،یہ فرض کا مُقابِل ہے۔
مکروہ تحریمی : جس کی ممانعت دلیل ظنی سے لزوماً ثابت ہو،یہ واجب کا مُقابِل ہے۔
اِساءَت : وہ ممنوع شرعی جس کی ممانعت کی دلیل حرام اورمکروہ تحریمی جیسی تو نہیں مگر اس کاکرنا برا ہے،یہ سنّتِ مؤکدہ کے مُقابِل ہے۔
مکروہِ تنزیھی: وہ عمل جسے شریعت ناپسندرکھے مگرعمل پرعذاب کی وعیدنہ ہو۔یہ سنّتِ غیر مؤ کدہ کے مُقابِل ہے۔
خلافِ اَولٰی : وہ عمل جس کانہ کرنابہترہو۔یہ مستحب کا مُقابِل ہے۔
٭…٭…٭
کیا آپ نے اصحابِ بدر کی نسبت سے عبادات کے متعلق چوتھے باب میں
بیان کردہ درج ذیل 313 سوالات کے جوابات جان لئے ہیں ؟
1 |
طہارت کا کیا مطلب ہے؟ |
2 |
طہارت کی کتنی قسمیں ہیں ؟ |
3 |
نجاست کی کتنی قسمیں ہیں ؟ |
4 |
نجاستِ حُکْمِیَّہ سے کیا مراد ہے؟ |
5 |
نجاستِ حُکْمِیَّہ سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ |
6 |
نجاستِ حَقِیْقِیَّہ سے کیا مراد ہے؟ |
7 |
نجاستِ حَقِیْقِیَّہ سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟ |
8 |
نجاستِ غلیظہ کا حکم کیا ہے؟ |
9 |
نَجاستِ غَلیظہ کے دِرہَم یا اس سے کم یا زیادہ ہونے سے کیا مراد ہے؟ |
10 |
کون کون سی چیزیں نجاستِ غلیظہ ہیں ؟ |
11 |
نجاستِ خفیفہ کا حکم کیا ہے؟ |
12 |
نجاستِ خفیفہ کون کون سی چیزیں ہیں ؟ |
13 |
بدن یا کپڑا نَجِس ہوجائے تو پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ |
14 |
غسل کے کتنے فرض ہیں ؟ اور ان سے کیا مراد ہے؟ |
15 |
غسل کا طریقہ بتائیے۔ |
16 |
نہانے میں کن باتوں کو پیشِ نظررکھنا چاہئے؟ |
17 |
ناپاکی کی حالت میں کون کون سے کام نہیں کر سکتے؟ |
18 |
ناپاکی کی حالت میں کون کون سے کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ؟ |
19 |
تیمم کیا ہے؟ |
20 |
کیا وُضو اور غُسل کے تیمم میں کوئی فرق ہے؟ |
21 |
اگر کسی پر غُسل فرض ہو تو کیا وہ غسل کا تیمم کر کے نماز وغیرہ پڑھ سکتا ہے یا نماز کے لیے الگ سے وُضو کا تیمم کرنا ضروری ہے؟ |
22 |
کیا تیمم کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ہے؟ |
23 |
تیمم کے کتنے فرض ہیں ؟ |
24 |
تیمم میں نیت سے کیا مراد ہے؟ |
25 |
تیمم میں سارے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کن باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے؟ |
26 |
تیمم میں کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے مسح کے دوران کیا احتیاط کرنی چاہئے؟ |
27 |
تیمم کی سنتیں کتنی ہیں ؟ |
28 |
تیمم کیسے کرتے ہیں ؟ طریقہ بتائیے۔ |
29 |
اذان سے کیا مراد ہے؟ |
30 |
اذان دینے کا طریقہ کیا ہے؟ |
31 |
اذان کہنے والے کو کیا کہتے ہیں ؟ |
32 |
اذان سننے والاکیا کرے؟ |
33 |
جو شخص اذان کے وقت باتیں کرتا رہے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
34 |
اذان کا جواب دینے سے کیا مراد ہے؟ |
35 |
اقامت کسے کہتے ہیں ؟ |
36 |
اذان واقامت میں کیا فرق ہے؟ |
37 |
اقامت کا جواب کس طرح دیا جائے؟ |
38 |
امامت کی شرائط کتنی ہیں ؟ |
39 |
امامت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ |
40 |
جس امام کا عقیدہ درست نہ ہو کیا اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟ |
41 |
اقتدا کی عَزَّ وَجَلَّ 3شرائط میں سے کوئی سات شرائط بتائیے۔ |
42 |
کیا تراویح فرض ہے؟ |
43 |
کیا تراویح کی جماعت واجب ہے؟ |
44 |
مسجد کے علاوہ گھر یا کسی دوسری جگہ با جماعت تراویح ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟ |
45 |
کیا تراویح بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں ؟ |
46 |
تراویح کا وقت کیا ہے؟ |
47 |
اگر تراویح فوت ہو گئی تو اس کی قضا کب کرے؟ |
48 |
تراویح کی کتنی رکعتیں ہیں ؟ |
49 |
تراویح کی )20( رکعتوں کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟ |
50 |
کیا نابالغ امام کے پیچھے تراویح پڑھ سکتے ہیں ؟ |
51 |
تراویح میں پورا قرآنِ مجید پڑھنے یا سننے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ |
52 |
اگر تراویح میں کسی بھی وجہ سے ختمِ قرآن ممکن نہ ہو تو کیا کرنا چاہئے؟ |
53 |
تراویح میں بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم بلند آواز سے پڑھنا چاہئے یا آہستہ؟ |
54 |
اگر تراویح صرف آخری دس سورتوں کے ساتھ پڑھی جا رہی ہو تو کیا پھر بھی ایک بار بِسْمِ اللّٰه شریف اونچی آواز سے پڑھنا سنت ہے؟ |
55 |
تراویح میں ختم قرآنِ کریم کس طرح کرنا چاہئے؟ |
56 |
ختم قرآن کے بعد کیا مہینے کے باقی دن تراویح چھوڑ دے؟ |
57 |
تراویح میں قرآنِ مجید جلدی جلدی پڑھنا چاہئے یا آہستہ آہستہ؟ |
58 |
آج کل کے بہت تیز پڑھنے والے حفاظ کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
59 |
اگرجلدی جلدی پڑھنے میں حافِظ صاحِب قرآنِ مجیدمیں سے کچھ الفاظ چبا گئے تو کیا خَتمِ قرآن کی سنّت ادا ہو گی؟ |
60 |
اگر کسی آیت میں کوئی حَرف چَب گیا یا اپنے مخرج سے نہ نکلا تو اب کیا کرنا چاہئے؟ |
61 |
اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے؟ |
62 |
اگر امام غلطی سے کوئی آیت یا سورۃ چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو کیا کرے؟ |
63 |
تراویح میں دو رکعت کے بعد بیٹھنا بھول گیا تو کیا کرے؟ |
64 |
تراویح میں اگر کوئی رکعات کی تعداد بھول جائے تو کیا کرے؟ |
65 |
ترویحہ سے کیا مراد ہے؟ |
66 |
ترویحہ کے دوران کیا کرنا یا پڑھنا چاہئے؟ |
67 |
تراویح پڑھانے کی اُجرت لینا کیسا ہے؟ |
68 |
اگر تراویح پڑھانے کی اُجرت طے نہ کی جائے اور لوگ یا انتظامیہ کچھ خدمت وغیرہ کریں تو کیا یہ لینا جائز ہے؟ |
69 |
اگر حافظ اُجرت نہ لے مگر اپنی تیزی دکھانے، خوش آوازی کی داد پانے اور نام چمکانے کیلئے قرآنِ پاک پڑھے تو کیا اسے ثواب ملے گا؟ |
70 |
اگر کوئی الگ الگ مساجد میں تراویح پڑھے تو کیا اس کا ایسا کرنا درست ہے؟ |
71 |
بعض لوگ امام کے رکوع میں پہنچنے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ، ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
72 |
کیا عشا کے فرض ایک امام کے پیچھے اور تراویح دوسرے امام کے پیچھے پڑھ سکتے ہیں ؟ |
73 |
کیا وتر پڑھنا فرض ہے؟ |
74 |
کیا فرض کی طرح وتر کی بھی قضا ہے؟ |
75 |
وتر کس وقت پڑھے جاتے ہیں ؟ |
76 |
اگر کوئی نمازِ عشا سے پہلے وتر پڑھ لے تو کیا ہو جائیں گے؟ |
77 |
وتر کب تک پڑھے جا سکتے ہیں ؟ |
78 |
وتر پڑھنے کا افضل وقت کونسا ہے؟ |
79 |
کیا وتر باجماعت پڑھ سکتے ہیں ؟ |
80 |
وتر کی کتنی رکعتیں ہیں اور اس کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ |
81 |
کیا دُعائے قنوت پڑھنا فرض ہے؟ |
82 |
کیا دُعائے قنوت کسی خاص دعا کا نام ہے؟ |
83 |
کیا باقی دُعاؤں کی طرح دُعائے قنوت کے بعد دُرُودِ پاک پڑھ سکتے ہیں ؟ |
84 |
اگر کسی کو دعائے قنوت نہ آتی ہو تو وہ کیا پڑھے؟ |
85 |
اگر کوئی دُعائے قُنُوت پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے؟ |
86 |
وتر جماعت سے پڑھ رہے ہوں اور امام مقتدی کے مکمل قنوت پڑھنے سے پہلے ہی رکوع میں چلا جائے تو اب مقتدی کیا کرے؟ |
87 |
سجدۂ سَہْوْ سے کیا مراد ہے؟ |
88 |
اگر کسی نے جان بوجھ کر واجب ترک کیا تو کیا پھر بھی سجدۂ سَہْوْ سے تلافی ہو جائے گی؟ |
89 |
سجدئہ سَہْوْ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ |
90 |
اگر کسی نے سجدۂ سَہْوْ واجِب ہونے کے باوُجُود نہ کیا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
91 |
کیا کوئی ایسا واجب بھی ہے جس کے رہ جانے کی صورت میں سجدہ سَہْوْ واجب نہیں ہوتا؟ |
92 |
اگر کوئی فرض رہ جائے تو کیا سجدہ سَہْوْ سے اس کی بھی تلافی ہو جائے گی؟ |
93 |
اگر سنّتیں یا مُسْتَحَبّات چھوٹ جائیں تو کیا اس صورت میں بھی سجدۂ سَہْوْ کر لینا چاہئے؟ |
94 |
اگر ایک سے زائد واجبات ترک ہوئے ہوں تو کیا ہر ایک کے لیے الگ الگ سجدہ سَہْوْ کرنا ہو گا؟ |
95 |
اگر امام سے نماز میں کوئی واجب چھوٹ گیا تو کیا مقتدی پر بھی سجدہ سَہْوْ واجب ہے؟ |
96 |
اگرمُقتدی سے بحالتِ اقتِدا سَہْو واقع ہوا تو کیا اس پر سَجدئہ سَہْوْ واجِب ہے؟ |
97 |
کیا سجدہ سَہْوْ صرف فرض نماز میں واجب ہے یا دیگر نمازوں میں بھی واجب ہے؟ |
98 |
چند صورتیں بتائیے جن میں سجدہ سَہْوْ واجب ہوتا ہے۔ |
99 |
سَجدئہ سَہْو کا طریقہ کیا ہے؟ |
100 |
سجدۂ تلاوت سے کیا مراد ہے؟ |
101 |
قرآنِ پاک میں سجدے کی کل کتنی آیات ہیں ؟ |
102 |
آیتِ سجدہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ |
103 |
اگر کسی نے آیتِ سجدہ کا ترجمہ پڑھا یا سنا تو کیا اس پر بھی سجدہ کرنا لازم ہے؟ |
104 |
اگر کسی نے پوری آیتِ سجدہ نہ پڑھی بلکہ کچھ حصہ ہی پڑھا یا سنا تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
105 |
کیا آیتِ سجدہ پڑھنے یا سننے سے فوراً سجدہ کرنا ضروری ہے یا بعد میں بھی کر سکتے ہیں ؟ |
106 |
مدارس میں طالب علم قرآنِ کریم یاد کرنے کے لیے ایک ہی آیت ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے بار بار پڑھتے ہیں تو کیا آیتِ سجدہ بار بار پڑھنے اور سننے سے بار بار سجدہ کرنا ہو گا؟ |
107 |
اگر کوئی پوری سورت تلاوت کرے مگر آیتِ سجدہ نہ پڑھے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
108 |
سجدے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ |
109 |
کیا سجدۂ تلاوت میں یہ نیت ہونا ضروری ہے کہ یہ سجدہ فلاں آیت کا ہے؟ |
110 |
کیا سجدۂ تلاوت میں اَللهُ اَکْبَر کہتے وقت کانوں کو ہاتھ لگائے جاتے ہیں ؟ |
111 |
اگر کوئی سجدے والی تمام آیات اکٹھی پڑھے تو اس کی کیا فضیلت ہے؟ |
112 |
آیاتِ سجدہ قرآنِ پاک کے کس پارے و سورت میں ہیں اور کونسی ہیں تفصیل بتائیے؟ |
113 |
جمعہ سے کیا مراد ہے؟ |
114 |
جمعہ کا شرعی حکم کیا ہے؟ |
115 |
اگر کوئی جمعہ نہ پڑھے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
116 |
اگر کوئی جمعہ کی فرضیت کا انکار کرے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
117 |
جمعہ کا آغاز کب اور کہاں ہوا؟ |
118 |
سب سے پہلے جمعہ کس نے پڑھایا؟ |
119 |
کیا سب سے پہلی نمازِ جمعہ مسجد نبوی میں ادا کی گئی تھی؟ |
120 |
جس مسجد میں جمعہ ہوتا ہے اسے کیا کہتے ہیں ؟ |
121 |
سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سب سے پہلا جمعہ کب اور کہاں ادا فرمایا؟ |
122 |
سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کل کتنے جمعہ ادا فرمائے؟ |
123 |
کیا جمعہ کا ذکر قرآن میں بھی ہے؟ |
124 |
جو شخص روزِ جُمُعہ یا شبِ جُمُعہ (یعنی جمعرات اور جُمُعہ کی درمیانی شب) مرے اس کے متعلق سرکارِ مدینہ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ |
125 |
کیا جمعہ کے دن ہر دعا قبول ہوتی ہے؟ |
126 |
وہ گھڑی کونسی ہے جس میں ہر دعا قبول ہوتی ہے؟ |
127 |
اس وقت کیا دعا مانگنا چاہئے؟ |
128 |
کیا یہ بات درست ہے کہ جمعہ کے دن نیکی کا ثواب اور گناہ کا عذاب ستر گنا ہو جاتا ہے؟ |
129 |
جمعہ کے دن کیا کام کرنے چاہئیں ؟ |
130 |
جمعہ کے دن غسل کی فضیلت بتائیے۔ |
131 |
کیا جمعہ کے دن سنت کے مطابق سنور کر نماز کے لیے جانے کے متعلق کوئی فضیلت مروی ہے؟ |
132 |
حجامت بنوانے اور ناخن ترشوانے کا کام جمعہ سے پہلے کرنا چاہئے یا جمعہ کے بعد؟ |
133 |
جمعہ کے دن عمامہ شریف باندھنے کی فضیلت بتائیے۔ |
134 |
جمعہ کے دن درودِ پاک کی کثرت کے متعلق کوئی روایت بیان کیجئے۔ |
135 |
کیا جمعہ کے دن جلد جامع مسجد جانے کی کوئی فضیلت مروی ہے؟ |
136 |
اگر کوئی جمعہ کے دن نمازِ عصر یا مغرب تک مسجد ہی میں رکا رہے تو اس کے لیے کس قدر اجر و ثواب ہے؟ |
137 |
جمعہ کے دن زیارتِ قبور کا افضل وقت کونسا ہے؟ |
138 |
اگر کسی کے ماں باپ دونوں یا کوئی ایک فوت ہو چکا ہو تو کیا جمعہ کے دن ان کی قبر کی زیارت کرنے کے متعلق کوئی روایت مروی ہے؟ |
139 |
جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کی فضیلت بتائیے۔ |
140 |
وہ کونسے پانچ کام ہیں جو جمعہ کے دن کرنے سے بندہ جنت کا حق دار بن سکتا ہے؟ |
141 |
جمعہ کی ادائیگی کی شرائط بیان کیجئے۔ |
142 |
جمعہ کے دن خطبہ ہو رہا ہو اور ایک شخص باتوں میں مصروف ہو تواس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
143 |
کیا خطبہ سننا واجب ہے؟ |
144 |
کیا خطبہ سننے والا دُرُود شریف پڑھ سکتاہے؟ |
145 |
خُطبہ کے 7 مَدَنی پھول بیان کیجئے۔ |
146 |
جمعہ کے خطبات سنائیے۔ |
147 |
سال میں کتنی عیدیں ہیں ؟ |
148 |
یہ دونوں عیدیں کب اور کن مہینوں میں منائی جاتی ہیں ؟ |
149 |
ان دونوں عیدوں پر مسلمان کیا کرتے ہیں ؟ |
150 |
کیا ان دونوں عیدوں کے علاوہ بھی کسی دن کو عید کہا گیا ہے؟ |
151 |
کیا ان عیدوں کے علاوہ بھی کوئی دن ایسا ہے جس میں مسلمان خوشیاں مناتے ہیں ؟ |
152 |
عید میلاد کے موقع پر مسلمان کیا کرتے ہیں ؟ |
153 |
کیا عیدین کی نماز پڑھنا فرض ہے؟ |
154 |
کیا عیدین کی نماز پڑھنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے؟ |
155 |
کیا نمازِ جمعہ کی ادائیگی کی طرح نمازِ عیدین کی ادائیگی کی بھی کچھ شرائط ہیں ؟ |
156 |
کیا نمازِ جمعہ اور نمازِ عیدین کی ادائیگی میں کوئی فرق ہے؟ |
157 |
کیا عیدین کی نمازوں اور عام نمازوں کی ادائیگی میں بھی کوئی فرق ہے؟ |
158 |
نمازِ عید کا طریقہ کیا ہے؟ |
159 |
نمازِ جنازہ سے قبل کیا میت کے لیے کوئی خاص اہتمام کیا جاتا ہے؟ |
160 |
تجہیز و تکفین سے کیا مراد ہے؟ |
161 |
غسل میت کے فرائض بتائیں ؟ |
162 |
غسل میت کا طریقہ بتائیں ؟ |
163 |
مرد وعورت کا مسنون کفن کیا ہے؟ |
164 |
مُخَنَّث (ہیجڑے) کو مردوں والا مسنون کفن دیا جائے گا یا عورتوں والا؟ |
165 |
مردوں اور عورتوں کو کفن پہنانے کا طریقہ بتائیے؟ |
166 |
کیا تجہیز و تکفین اور نمازِ جنازہ پڑھنے کی فضیلت بھی مروی ہے؟ |
167 |
نمازِ جنازہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ |
168 |
کیا نمازِ جنازہ کے لئے جماعت شرط ہے؟ |
169 |
اگر کوئی نمازِ جنازہ کا فرض ہونا نہ مانے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
170 |
نماز جنازہ کے صحیح ہونے کی شرائط بتائیے؟ |
171 |
نمازی سے متعلق کیا شرائط ہیں ؟ |
172 |
میت سے متعلق شرائط کیا ہیں ؟ |
173 |
نمازِ جنازہ کے فرائض اور سنتیں بتائیے؟ |
174 |
نمازِ جنازہ کا طریقہ بتائیے۔ |
175 |
بالغ مردوعورت کے جنازے کی دعاکیا ہے؟ |
176 |
نابالغ لڑکے کے جنازہ کی دعاسنائیے۔ |
177 |
نابالغ لڑکی کے جنازہ کی دعاسنائیے۔ |
178 |
کیا جنازے کو کندھا دینا ثواب کا کام ہے؟ |
179 |
کیا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کسی جنازے کو کندھا دینا ثابت ہے؟ |
180 |
جنازے کو کندھا دینے کا طریقہ کیا ہے؟ |
181 |
کیا جوتا پہن کر جنازہ پڑھ سکتے ہیں ؟ |
182 |
نمازِ جنازہ میں کتنی صفیں ہونی چاہئیں ؟ |
183 |
نمازِ جنازہ میں سب سے افضل صف کونسی ہے؟ |
184 |
بالغ کی نمازِ جنازہ سے پہلے کیا اعلان کرنا چاہئے؟ |
185 |
میت کو قبر میں اتارنے کے لیے قبر کے پاس کس طرف رکھنا چاہئے؟ |
186 |
میت کو قبر میں اتارتے وقت کتنے آدمی ہونے چاہئیں ؟ |
187 |
عورت کی میت قبر میں اتارتے ہوئے کن باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے؟ |
188 |
میت کو قبر میں اتارتے وقت کیا دعا پڑھنا چاہئے؟ |
189 |
میت کو قبر میں لٹاتے وقت کیا کرنا چاہئے؟ |
190 |
قبر پر مٹی ڈالنے کا طریقہ بتائیے؟ |
191 |
قبر پر کس قدر مٹی ڈالنا چاہئے؟ |
192 |
قبرکیسی بنانی چاہئے؟ |
193 |
قبر زمین سے کس قدر اونچی ہونی چاہئے؟ |
194 |
تدفین کے بعد کیا کرنا چاہئے؟ |
195 |
تلقین کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ |
196 |
کیا تلقین حدیث سے ثابت ہے؟ |
197 |
تلقین کا طریقہ کیا ہے؟ |
198 |
تلقین کا کیا فائدہ ہے؟ |
199 |
اگر کسی کو میت کی ماں کا نام معلوم نہ ہو تو تلقین کے وقت کیا کہے؟ |
200 |
ایصالِ ثواب سے کیا مراد ہے؟ |
201 |
کیا ایصالِ ثواب کا ذکر کسی حدیثِ پاک میں بھی مروی ہے؟ |
202 |
کیا ایصالِ ثواب کے لیے دن وغیرہ مقرر کرنا جائز ہے؟مثلاً تیجہ، دَسواں ، چالیسواں اور برسی (یعنی سالانہ ختم) وغیرہ ۔ |
203 |
کیا ایصالِ ثواب صرف مُردوں کو ہی کیا جا سکتا ہے؟ |
204 |
بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کی نیاز اور لنگر وغیرہ کھانا کیسا ہے؟ |
205 |
بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کی نیاز کیا مال دار بھی کھا سکتے ہیں ؟ |
206 |
ایصالِ ثواب کا طریقہ کیا ہے؟ |
207 |
فاتحہ کا طریقہ کیا ہے؟ |
208 |
اِیصال ثواب کیلئے دعا کا طریقہ بتائیے؟ |
209 |
روزہ سے کیا مراد ہے؟ |
210 |
کیا روزہ رکھنا فرض ہے؟ |
211 |
فرض روزہ سے کیا مراد ہے؟ |
212 |
واجب روزے سے کیا مراد ہے؟ |
213 |
نفلی روزے سے کیا مراد ہے؟ |
214 |
کیا کسی دن روزہ رکھنا منع بھی ہے؟ |
215 |
رمضان کے روزے کب اور کس پر فرض ہوئے؟ |
216 |
قرآنِ مجید میں روزوں کی فرضیت کا حکم کس آیتِ مبارکہ میں ہے؟ |
217 |
کیا روزہ پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھا؟ |
218 |
کیا روزہ تقویٰ و پرہیز گاری کی علامت ہے؟ |
219 |
کس عمر میں روزہ رکھنا شروع کر دینا چاہئے؟ |
220 |
کیا کبھی کسی نے دودھ پینے کی عمر میں روزہ رکھا ہے؟ |
221 |
کیا روزہ رکھنے سے انسان بیمار ہو جاتا ہے؟ |
222 |
روزہ رکھنے و کھولنے کی دعائیں سنائیے؟ |
223 |
روزہ داروں کے اعتبار سے روزہ کی کتنی قسمیں ہیں ؟ |
224 |
روزے کی حقیقت کیا ہے؟ |
225 |
حضرتِ سَیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کے فرمان سے کیا بات معلوم ہوتی ہے؟ |
226 |
آنکھ کے روزے سے کیا مراد ہے؟ |
227 |
کان کے روزے سے کیا مراد ہے؟ |
228 |
زبان کے روزے سے کیا مراد ہے؟ |
229 |
ہاتھ کے روزے سے کیا مراد ہے؟ |
230 |
پاؤں کے روزے سے کیا مراد ہے؟ |
231 |
روزہ کے چار حروف کی نسبت سے روزہ رکھنے کے فضائل پر مبنی چار روایات بیان کیجیے؟ |
232 |
روزہ نہ رکھنے کی دو وعیدیں بیان کیجئے۔ |
233 |
سَحَری سے کیا مراد ہے؟ |
234 |
سَحَری کب تک کر سکتے ہیں ؟ |
235 |
سَحَری میں تاخیر سے مُراد کونسا وَقت ہے؟ |
236 |
رات کا چَھٹا حِصّہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ |
237 |
جو لوگ صُبحِ صادِق کے بعد فَجر کی اذانیں ہورہی ہوں اور کھاتے پیتے رہیں ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
238 |
زکوٰۃ سے کیا مراد ہے؟ |
239 |
ہاشمی سے کیا مراد ہے؟ |
240 |
زکوٰۃ کس پرفرض ہے؟ |
241 |
نصاب کا مالک ہونے سے کیا مراد ہے؟ |
242 |
حاجتِ اصلیہ سے کیا مراد ہے؟ |
243 |
زکوٰۃ کے فرض ہونے کے لیے سال گزرنے میں قَمری (یعنی چاند کے) مہینوں کا اعتبار ہوگا یا شمسی مہینوں کا؟ |
244 |
کتنی زکوٰۃ دینا فرض ہے؟ |
245 |
زکوٰۃ کب فرض ہوئی؟ |
246 |
کیا زکوٰۃ کی فرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے؟ |
247 |
اگر کوئی زکوٰۃ کو فرض نہ مانے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
248 |
کیا زکوٰۃ دینے سے مال میں کمی ہوجاتی ہے؟ |
249 |
قرآن و سنت سے زکوٰۃ دینے کے فوائد اور نہ دینے کے نقصانات بیان کیجئے۔ |
250 |
صدقۂ فطر سے کیا مراد ہے؟ |
251 |
صدقۂ فطر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ |
252 |
صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟ |
253 |
صدقۂ فطر کب واجب ہوتا ہے؟ |
254 |
صدقۂ فطر کب واجب ہوا؟ |
255 |
کیا صدقۂ فطر کا ذکر قرآنِ پاک میں بھی ہے؟ |
256 |
صدقہ فطر کیوں دیا جاتا ہے؟ |
257 |
کیا صدقۂ فطر کے لئے رمضان کے روزے رکھنا شرط ہے؟ |
258 |
حج کسے کہتے ہیں ؟ |
259 |
حج کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ |
260 |
کیا حج کرنا ہر ایک پر فرض ہے؟ |
261 |
اگر کوئی شخص صاحبِ استطاعت ہو تو کیا اس پر ہر سال حج کرنا فرض ہوگا؟ |
262 |
جو شخص استطاعت رکھتے ہوئے حج نہ کرے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ |
263 |
حج کس سال فرض ہوا؟ |
264 |
حج کے فضائل پر مبنی کوئی سی تین احادیثِ مبارکہ بیان کیجئے۔ |
265 |
حج کی کتنی قسمیں ہیں ؟ |
266 |
حَجِّ قِرَان سے کیا مراد ہے؟ |
267 |
حَجِّ تَمَتُّع سے کیا مراد ہے؟ |
268 |
حَجِّ اِفْرَادسے کیا مراد ہے؟ |
269 |
سب سے افضل حج کونسا ہے؟ |
270 |
حج کے ایام کون سے ہیں ؟ |
271 |
حج کے دوران ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 8تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟ |
272 |
ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی 9تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟ |
273 |
مزدلفہ شریف میں مغرب اور عشا دونوں نمازیں ایک ساتھ کیسے پڑھی جاتی ہیں ؟ |
274 |
ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی عَزَّ وَجَلَّ 0تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟ |
275 |
طواف الزیارت سے کیا مراد ہے؟ |
276 |
ذُو الْحَجَّۃِ الْحَرام کی عَزَّ وَجَلَّ عَزَّ وَجَلَّ اور عَزَّ وَجَلَّ 2 تاریخ کو کیا کام کیے جاتے ہیں ؟ |
277 |
تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنے کی ترتیب کیا ہے؟ |
278 |
قربانی سے کیا مراد ہے؟ |
279 |
قربانی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ |
280 |
قربانی کے جانور کی عمر کتنی ہونی چاہئے؟ |
281 |
قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئے؟ |
282 |
جانور ذبح کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ |
283 |
قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے کونسی دعا پڑھی جاتی ہے؟ |
284 |
کیا ذبح کے بعد بھی کوئی دعا پڑھی جاتی ہے؟ |
285 |
کیا قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا چاہئے؟ |
286 |
گائے، بھینس اور اونٹ میں کتنی قربانیاں ہو سکتی ہیں ؟ |
287 |
جس پر قربانی واجب ہو وہ اگر قربانی کے بجائے اتنی رقم صدقہ کر دے تو کیا اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟ |
288 |
قربانی کے وقت تماشا دیکھنا کیسا ہے؟ |
289 |
قربانی کے وقت ادائے سنت کے علاوہ اور کیا کیا نیتیں کی جا سکتی ہیں ؟ |
290 |
ذبح کے وقت جانور پر رحم کھانا کیسا ہے؟ |
291 |
نبی سے جوبات خلافِ عادت اعلانِ نبوت سے پہلے ظاہرہواس کوکیا کہتے ہیں ؟ |
292 |
نبی سے جوبات خلافِ عادت نبوت کے بعد ظاہر ہو اس کو کیا کہتے ہیں ؟ |
293 |
ولی سے جوبات خلافِ عادت صادرہواس کوکیا کہتے ہیں ؟ |
294 |
عام مومنین سے جوبات خلافِ عادت صادرہواس کو کیا کہتے ہیں ؟ |
295 |
بے باک فُجّاریاکفارسے جوبات ان کے موافق ظاہر ہو اس کو کیا کہتے ہیں ؟ |
296 |
بے باک فُجّاریاکفارسے جوبات ان کے خلاف ظاہر ہو اس کو کیا کہتے ہیں ؟ |
297 |
بدعت سے کیا مراد ہے؟ |
298 |
بدعتِ سیئہ، مکروہہ اور بدعتِ حرام سے کیا مراد ہے؟ |
299 |
بدعتِ مستحبہ، مباح اور بدعتِ واجب سے کیا مراد ہے؟ |
300 |
تقلید کسے کہتے ہیں ؟ |
301 |
تقلید کی مختلف صورتیں بیان کیجئے۔ |
302 |
کسی شے کے فرض ہونے سے کیا مراد ہے؟ |
303 |
فرض کفایہ سے کیا مراد ہے؟ |
304 |
واجب کسے کہتے ہیں ؟ |
305 |
سنت مؤکدہ سے کیا مراد ہے؟ |
306 |
سنت غیر مؤکدہ سے کیا مراد ہے؟ |
307 |
مستحب کی تعریف بیان کیجئے۔ |
308 |
مباح کسے کہتے ہیں ؟ |
309 |
حرامِ قطعی سے کیا مراد ہے؟ |
310 |
مکروہِ تحریمی کیا ہوتا ہے؟ |
311 |
مکروہِ تنزیہی کسے کہتے ہیں ؟ |
312 |
اساءت سے کیا مراد ہے؟ |
313 |
خلافِ اولیٰ کسے کہتے ہیں ؟ |
٭…٭…٭
باب: 5
سنتیں اور آداب
اس باب میں آپ پڑھیں گے:
علمِ دین سیکھنے سکھانے کے فضائل، قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے و سیکھنے کے فضائل،
مختلف کاموں سے پہلے اچھی اچھی نیتوں کا بیان مثلاً کھانا کھانے، پانی و چائے پینے،
خوشبو لگانے کی نیتوں کے علاوہ مختلف کاموں کی سنتیں اور آداب
علم ایک ایسی نایاب دولت ہے جو روپے پیسے سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تو محض اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ایک خاص کرم ہے وہ جسے چاہے اس دولت سے نواز دے۔
علم دین حاصل کرنے کے بے شمار فضائل وبرکات قرآن وحدیث میں جابجا وارد ہوئے ہیں ۔ چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیْنِ (پ ۱۱، التوبۃ:۱۲۲)
ترجمۂ کنز الایمان: تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔
پیارے مدنی منو! علم دین سیکھنے والے سعادت مندوں کے کیا کہنے! ان پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لطف وکرم کی بارش رحمت بن کر چھما چھم برستی ہے۔ اس بات کا اندازہ درج ذیل روایات کو پڑھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
(1) … جو شخص حصولِ علم کے لیے کسی راستہ پر چلے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔)[3](
(2)… جو شخص طلب علم کے لئے گھر سے نکلا تو جب تک واپس نہ ہوا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں ہے۔ )[4](
(3)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ جس سے بھلائی کا ارادہ فرما تا ہے اُسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتاہے۔ )[5](
(4) … ایک گھڑی رات میں پڑھنا، پڑھانا ساری رات عبادت کرنے سے افضل ہے۔ )[6](
(5)… مومن کبھی خیر (یعنی علم) سے سَیر نہیں ہوتا اسے سنتا یعنی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔)[7](
(6)… علم کو خوب پھیلاؤ اور لوگوں میں بیٹھو تاکہ علم نہ جاننے والے علم حاصل کریں کیونکہ جب تک علم کو راز نہیں بنایا جائے گا علم نہیں اٹھے گا ۔)[8](
(7)… جو علم طلب کرے پھر اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے۔ اگر حاصل نہ کر سکے تو ایک اجر ہے ۔ )[9](
(8)… جسے موت اس حال میں آئے کہ وہ اسلام زندہ کرنے کے لیے علم سیکھ رہا ہو تو جنت میں اس کے اور انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے درمیان ایک درجہ کا فرق ہو گا۔)[10](
(9)… کیا تم جانتے ہو بڑا سخی کون ہے؟ عرض کی گئی: اَللهُ وَرَسُوْلُهٗ اَعْلَمُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم زیادہ جانتے ہیں ۔ فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ بڑا جواد ہے، پھر اولادِ آدم میں مَیں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد وہ شخص بڑا سخی ہے جو علم سیکھے اورپھر اسے پھیلائے وہ قیامت کے دن ایک جماعت ہو کر آئے گا۔ )[11](
(10)… مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ تَکَفَّلَ اللّٰهُ لَهٗ بِرِزْقِهٖ جو شخص علم کی طلب میں رہتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے رزق کا ضامن ہے۔ )[12](
(11)… تھوڑا سا علم کثیر عبادت سے اچھا ہے ۔)[13](
(12)… طالب علم کو اس حال میں موت آئی کہ وہ طلبِ علم میں مصروف تھا تو وہ شہید ہے ۔)[14](
(13)… افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان شخص علم حاصل کرے پھر اپنے مسلمان بھائی کو بھی سکھائے۔)[15](
(14)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک صحابی سے محوِ گفتگو تھے کہ وحی نازل ہوئی: اس صحابی کی زندگی کی ایک ساعت (یعنی گھنٹہ بھر) باقی رہ گئی ہے۔ یہ وقت ِ عصر تھا۔ رحمتِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب یہ بات اس صحابی کو بتائی تو انہوں نے مضطرب ہو کر التجا کی: ’’یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتائیے جو اس وقت میرے لئے سب سے بہتر ہو۔‘‘ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’علم سیکھنے میں مشغول ہو جاؤ۔‘‘ چنانچہ وہ صحابی علم سیکھنے میں مشغول ہوگئے اور مغرب سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ راوی فرماتے ہیں کہ اگر علم سے بہتر کوئی شے ہوتی تو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسی کا حکم ارشاد فرماتے۔)[16](
ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن علم دین حاصل کرنے کا بہت شوق رکھتے تھے، اس بات کا اندازہ ہم یوں
لگاسکتے ہیں کہ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا معمول تھا کہ ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضر ہوکر علمِ دین بھی حاصل کیا کرتے تھے مگر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سے 70 صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ایسے تھے جو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درِ اقدس پر پڑے رہتے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت میں رہ کر علم دین سیکھنے کے ساتھ ساتھ راہِ خدا میں سفر کر کے کافروں کو دعوتِ اسلام پیش کرتے اور عام مسلمانوں کو شرعی احکامات سکھایا کرتے۔ ان کی رہائش مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے میں تھی جس پر چھت ڈال دی گئی تھی، عربی زبان میں چونکہ چبوترے کو صُفَّہ کہتے ہیں ، لہٰذا ان پاکیزہ ہستیوں کو اصحابِ صفہ کہا جاتا۔ سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والے صحابی حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی انہی خوش نصیبوں میں شامل تھے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اصحابِ صفہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے بعد بھی کثیر مسلمان ان پاکیزہ ہستیوں کے نقش قدم پر چلتے رہے اور اپنے علاقے اور گھر وغیرہ کو چھوڑ کر کسی مدرسہ یا جامعہ میں جمع ہوکر باقاعدہ علم دین سیکھتے سکھاتے رہے اور نیکی کی دعوت عام کرتے رہے۔
پیارے مدنی منو! دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ جب روز بروز نت نئی ایجادات ہونے لگیں تو اکثر لوگ علم دین کے حصول کو چھوڑکر دنیاوی علوم وفنون سیکھنے سمجھنے اور اس کے ذریعے اپنی زندگی عیش و آرام کے ساتھ گزارنے کی جستجو میں لگ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پرفتن دور میں آج کا مسلمان علمِ دین کے حصول کے جذبے سے ناواقف اور کوسوں دور نظر آتاہے۔ اگر کچھ لوگ خوش قسمتی سے راہِ علم کے مسافر بن جاتے ہیں تو نفس و شیطان انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں کیونکہ جس طرح ہر قیمتی شے چوروں کے لئے کشش رکھتی ہے اسی طرح ہر اس شے پر شیطان کی خصوصی توجہ ہوتی ہے جو اخروی لحاظ سے قیمتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ راہِ علم پر چلنے والے مسلمان نفس وشیطان کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے ہیں ۔
راہِ علم کے مسافر یعنی طالب علم شیطان پر کس قدر بھاری ہیں اس کا اندازہ ان روایات سے لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ رسولِ اَکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! ایک عالم شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔)[17]( اور حضرت سیدنا واثلہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اس عالم سے بڑھ کر شیطان کی کمر توڑکر رکھ دینے والی کوئی شے نہیں جو اپنے قبیلہ میں ظاہر ہو۔‘‘ )[18](
پیارے مدنی منو! شیطان ہر سمت سے طالب علم پر مسلسل حملہ آور ہوتا رہتا ہے اور اسے اُخروی سعادت سے محروم کروا دینے کو اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ اس سلسلے میں شیطان کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کوئی اس راہِ عظیم کا مسافر نہ بن پائے اور اگر کوئی بننے میں کامیاب ہو بھی جائے تو یہ اس طالب علم کو نیت کی خرابی، مایوسی، خود پسندی، تکبر، سستی اور لالچ جیسی ہلاکتوں میں مبتلا کر کے اسے علمِ دین کے ثمرات سے محروم کروانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں دعاہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ فرمائے اور اپنے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کے نقش قدم پر چل کر علم دین حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
قرآنِ مجید اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا پیارا کلام ہے۔ اس کی تلاوت کرنا بہت بڑا ثواب ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ زمین والوں پر عذاب کرنے کا ارادہ فرماتا ہے لیکن جب بچّوں کو قرآنِ پاک پڑھتے سنتا ہے تو عذاب روک لیتا ہے۔ )[19](
ہو کرم اللہ! حافِظ مدنی مُنّوں کے طفیل
جگمگاتے گنبد خضرا کی کرنوں کے طفیل
پیارے مدنی منو!آپ سب بہت خوش نصیب ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاک کلام قرآنِ مجید کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ بہت سارے بچے ایسے بھی ہیں جو گلی کوچوں میں آوارہ گھومتے ہیں اور قرآنِ پاک کی تعلیم سے محروم ہیں ، ایسے بچوں کو فلمی گانے تو یاد ہوتے ہیں ، انگلش نظمیں بھی ازبر ہوتی ہیں مگر افسوس! قرآنِ پاک کی کوئی سورت یاد نہیں ہوتی۔دعا کیجئے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ انہیں بھی قرآنِ مجید کے نور سے منور فرمائے۔ اٰمین
بسا اوقات شیطان مدنی منوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم سے روکنے کے لئے کھیل کود میں لگا دیتا ہے، آپ اس کی باتوں میں نہ آئیے۔ یاد رکھئے! ہم دنیا میں کھیل تماشوں کے لئے نہیں آئے، لہٰذا کھیل کود میں وقت برباد کرنے کے بجائے بھرپور توجہ کے ساتھ قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کیجئے۔
اسی طرح شیطان مدنی منوں کا دل قرآنِ پاک کی تعلیم سے اچاٹ کرنے کے لئے دل میں یوں وسوسے ڈالتا ہے کہ یہ کیاہے کہ تم سارا دن ’’ ا ، ب ، ت ‘‘ پڑھتے رہتے ہو؟ جب کبھی آپ کو ایسے وسوسے آئیں تو ان وسوسوں کو فوراً جھٹک دیجئے کیونکہ شیطان یوں ہمیں نیکیوں سے روکنا چاہتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہمارے میٹھے میٹھے آقا، مکی مدنی مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے اس کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘ ایک حرف ہے بلکہ ’’الف‘‘ ایک حرف ’’لام‘‘ ایک حرف اور ’’میم‘‘ ایک حرف ہے۔‘‘)[20](
قرآنِ پاک کو جتنی بار بھی پڑھا جائے ثواب ہی ثواب ہے، لہٰذا مدرسہ میں پڑھنے کے علاوہ گھر میں بھی سبق یاد
کرنے اور تلاوتِ قرآن کا اہتمام فرمانا چاہیے کہ اس میں ہمارے لیے رحمت ہی رحمت ہے۔ چنانچہ،
مروی ہے کہ حضرت سیدنا اُسَید بن حُضَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک رات سورۂ بقرہ کی تلاوت فرما رہے تھے کہ یکایک قریب ہی بندھا ہوا آپ کا گھوڑا بدکنے یعنی اچھلنے کودنے لگا۔ آپ خاموش ہوئے تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا، آپ نے پھر پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا بھی دوبارہ اچھلنے کودنے لگا، آپ پھر خاموش ہو گئے، اس طرح جب آپ پڑھنے لگتے تو گھوڑے کی اچھل کود دیکھ کر پھر خاموش ہو جاتے کیونکہ آپ کے صاحبزادے حضرت یحییٰ گھوڑے کے قریب ہی سو رہے تھے، اس لئے آپ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں گھوڑا بچے کو تکلیف نہ پہنچائے۔ چنانچہ جب آپ نے صحن میں آکر آسمان کی طرف دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ بادل کی طرح کوئی چیز ہے جس میں بہت سی قندیلیں (چراغ) روشن ہیں ۔ آپ نے صبح کو بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ بیان کیا تو رحمتِ عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: یہ فرشتوں کی مقدس جماعت تھی جو تیری قراءت کی و جہ سے آسمان سے تیرے مکان کی طرف اتر پڑی تھی اگر تو صبح تک تلاوت کرتا رہتا تو یہ فرشتے زمین سے اس قدر قریب ہوجاتے کہ تمام انسانوں کو ان کا دیدارہوجاتا۔)[21](
پیارے مدنی منو! بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن تلاوتِ قرآن پاک میں بہت دلچسپی رکھتے تھے بعض بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن روزانہ چار، بعض دو اور بعض ایک قرآنِ پاک ختم فرماتے۔ اسی طرح بعض حضرات دو دن میں ایک قرآنِ پاک ختم فرماتے، بعض تین دن میں ، بعض پانچ دن میں اور بعض سات دن میں اور سات دن میں قرآنِ پاک ختم کرنا اکثر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا معمول تھا، لہٰذا آپ بھی جتنا ممکن ہو تلاوتِ قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیجئے۔ نیز اپنے سبق کی تکرار بھی کرتے رہیے مگر ایک بات ذہن نشین رکھئے کہ جلدی پڑھنے کی کوشش میں غلط نہیں پڑھنا چاہیے کہ ثواب صحیح پڑھنے میں ہے نہ کہ محض جلدی پڑھنے میں ۔
پیارے مدنی منو! جس طرح آپ خوش نصیب ہیں کہ قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اسی طرح آپ کے والدین بھی بڑے خوش قسمت ہیں کیونکہ وہ آپ کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ان کے لئے آپ ایک عظیم ثوابِ جاریہ کا سبب ہوں گے۔ چنانچہ،
منقول ہے کہ حضرت سیدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک قبر کے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ اس میت پر عذاب ہو رہا ہے۔ پھر جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کا واپسی پر وہاں سے گزر ہوا تو ملاحظہ فرمایا کہ اس قبر میں نور ہی نور ہے اور وہاں رحمتِ الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام بہت حیران ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کی کہ مجھے اس کا بھید بتایا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا: اے روحُ اللہ! یہ سخت گناہ گار اور بدکار تھا اس وجہ سے عذاب میں گرفتارتھا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا اور آج اس کو مکتب میں بھیجا گیا، استاذ نے اس کو بِسْمِ اللّٰه شریف پڑھائی۔ مجھے حیا آئی کہ میں زمین کے اندر اس شخص کو عذاب دوں جس کا بچہ زمین کے اوپر میرا نام لے رہا ہے۔ )[22](
پیارے مدنی منو! دیکھا آپ نے جس شخص کے بچے نے صرف بِسْمِ اللّٰه شریف پڑھی اور اِس کی برکت سے اُس کی بخشش ہو گئی تو جن خوش نصیب والدین کے بچوں نے پورے کلام اللہ کی تعلیم حاصل کی اور اس کے مطابق عمل کیا تو ان کی شان کس قدر بلند ہو گی۔ ایسے خوش نصیب والدین کو یقیناً کل بروزِ قیامت ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج سے بھی زیادہ ہو گی۔چنانچہ،
بروزِ قیامت حافظ کے والدین کو تاج پہنایا جائے گا
حضرت سیِّدُنا معاذ جہنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کیا، اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اس سورج سے اچھی ہو گی جو دنیا میں تمہارے گھروں کے اندر چمکتا ہے تو خود اس عمل کرنے والے کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے۔ )[23](
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ فرمائیں ، اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے کہ نیک اولاد والدین کے لئے ثوابِ جاریہ ہوتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ والدین کا بہت ادب کرتے ہیں یہ معاملہ تو والدین کی حیات میں ہے ان کی وفات کے بعد بھی یہی بچے کام آتے ہیں کہ جب تک وہ تلاوتِ قرآنِ کریم کرتے رہیں گے اور نیک اعمال کرتے رہیں گے ان کے والدین کو اجروثواب ملتا رہے گا۔ اس کو اس مثال سے سمجھئے کہ اگر کسی شخص کے دو بچے ہوں ایک بچے کو اس نے فقط دنیوی تعلیم دِلا کر ڈاکٹر کی ڈگری دلائی، دوسرے کو پہلے حافظ قرآن بنایا، پھر دوسری تعلیم دلائی۔ والدین کے انتقال کے بعد ایصالِ ثواب کے لحاظ سے کون ماں باپ کے لئے فائدہ مند ہو گا؟ کیا ڈاکٹر کی ڈگری مفید ہو گی یا حفظِ قرآنِ کریم؟ عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہے۔
پیارے مدنی منو! اے کاش! آپ قرآنِ کریم کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں اور قرآن و سنت کی تعلیم کو خوب دلجمعی کے ساتھ سیکھیں ۔ اے کاش! ایسا مدنی ماحول بن جائے کہ ہر بچے کے لئے تعلیمِ قرآن لازمی ہو جائے اور ہر ماں باپ اپنے ہر بچے کو قرآن و سنت کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے۔ ؎
یہی ہے آرزو تعلیم قرآں عام ہوجائے
ہر اک پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہوجائے
٭…٭…٭
نیک اعمال کے قبول ہونے کے لئے ہمیں اپنی نیتوں میں اخلاص پیدا کرنا ہو گا۔ آئیے جانتے ہیں کہ نیت کسے کہتے ہیں ؟اور اچھی اچھی نیتوں کے ذریعے ہم کس قدر ثوابِ آخرت کا ذخیرہ اکٹھا کر سکتے ہیں ۔
نیت لُغوی طورپردل کے پختہ اِرادے کو کہتے ہیں اور شَرْعاً عبادت کے اِرادے کو نیت کہا جاتا ہے۔ )[24](
ایک عمل میں جتنی نیّتیں ہوں گی اتنی نیکیوں کا ثواب ملے گا، مثلاً کسی محتاج رشتے دار کی مدد کرنے میں اگر نیت فقط صدقہ کی ہوگی تو ایک نیت کا ثواب ملے گا اور اگر صلۂ رحمی (یعنی خاندان والوں سے نیکی کا برتاؤ کرنے) کی نیّت بھی کریں گے تو دوگنا ثواب پائیں گے۔ )[25]( اسی طرح مسجد میں نماز کے لئے جانا بھی ایک عمل ہے اس میں بہت سی نیّتیں کی جاسکتی ہیں ، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَحْمٰن نے فتاویٰ رضویہ جلد5 صفحہ673 میں اس کے لئے چالیس نیّتیں بیان کی ہیں ، آپ مزید فرماتے ہیں : بے شک جو علمِ نیّت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لئے کئی کئی نیکیاں کرسکتا ہے۔)[26]( بلکہ مباح کاموں میں بھی اچھی نیتیں کرنے سے ثواب ملے گا مثلاً خوشبو لگانے میں اتباعِ سنت، تعظیمِ مسجد، فرحتِ دماغ اور اپنے اسلامی بھائیوں سے ناپسندیدہ بُودور کرنے کی نیّتیں ہوں تو ہر نیّت کاالگ ثواب ہوگا۔)[27](
ہر کام سے پہلے اچھی اچھی نیّتیں کر لیجئے
پیارے مدنی منو! بلاشبہ اچھی نیت کرنا ایک ایسا عمل ہے جو محنت کے اعتبار سے بے حد ہلکا لیکن اجروثواب کے
لحاظ سے بہت عظیم ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہر نیک عمل شروع کرنے سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرلیں حتی کہ کھانے، پینے، لباس پہننے اور سونے وغیرہ میں بھی اچھی نیت شامل حال ہو۔ مثلاًکھانے پینے سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اطاعت پر قوت حاصل کرنے کی نیت ہو۔ لباس پہنتے وقت یہ نیت ہو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے اپنی پوشیدہ چیز یں چھپانے کا حکم دیا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت کے اظہار کی نیت ہو۔ سونے سے یہ مقصود ہوکہ جو عبادات اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرض کی ہیں ان کو ادا کرنے میں مدد حاصل ہو۔ )[28](
(1)… مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ )[29](
(2)… سچی نیت سب سے افضل عمل ہے۔)[30](
(3)…اچھی نیت بندے کو جنت میں داخل کردیتی ہے۔)[31](
(4)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ آخرت کی نیت پر دنیا عطا فرما دیتا ہے مگر دنیا کی نیت پر آخرت نہیں عطا فرماتا ہے۔ )[32](
(5)…اچھی نیت عرش سے چمٹ جاتی ہے پس جب کوئی بندہ اپنی نیت کوسچا کر دیتا ہے تو عرش ہلنے لگ جاتا ہے، پھر اس بندے کو بخش دیا جاتا ہے۔ )[33](
٭…٭…٭
پیارے مدنی منو! دنیا وآخرت کی کامیابی کے لئے اپنی نیتوں میں اخلاص پیدا کرنا ضروری ہے آئیے چند اچھی اچھی نیتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف سنتیں اور ان کے آداب بھی سیکھ لیتے ہیں :
(از شیخِ طریقت امیرِ اہلِسنّت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ )
(1)… کھانے سے قبل اور (2)… بعد کا وُضو کروں گا۔ ﯜیعنی ہاتھ، مُنہ کا اگلا حصّہ دھوؤں گا اور کُلِّیاں کروں گاﯛ (3)… عبادت (4)… تِلاوت (5)…… والدین کی خدمت (6)… تحصیلِ عِلمِ دین (7)… سنّتوں کی تربیّت کی خاطِر مَدَنی قافِلے میں سفر (8)… عَلاقائی دَورہ برائے نیکی کی دعوت میں شرکت (9)… اُمورِ آخِرت اور (10)… حسبِ ضَرورت کسبِ حلال کیلئے بھاگ دوڑ پر قوّت حاصِل کروں گا۔
(یہ نِیّتیں اُسی صورت میں مُفید ہوں گی جبکہ بھوک سے کم کھائے، خوب ڈٹ کر کھانے سے اُلٹا عبادت میں سُستی پیدا ہوتی، گناہوں کی طرف رُجحان بڑھتا اور پیٹ کی خرابیاں جَنَم لیتی ہیں )
(11)…… زمین پر(12)……دستر خوان بچھانے کی سنّت ادا کرکے (13)…سنّت کے مطابِق بیٹھ کر (14)……کھانے سے قبل بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم اور(15)…دیگر دُعائیں پڑھ کر (16)…تین انگلیوں سے (17)… چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر (18)…اچھی طرح چبا کر کھاؤں گا۔
(19)…ہر دو ایک لقمہ پر یَاوَاجِدُ پڑھوں گا (20)… جو دا نہ وغیرہ گر گیا اٹھا کر کھا لوں گا۔
(21)… روٹی کا ہر نوالہ سالن کے برتن کے اوپر کر کے توڑوں گا تاکہ روٹی کے ذرّات برتن ہی میں گریں ۔
(22)… ہڈّی اور گرم مصالحہ اچھی طرح صاف کرنے اور چاٹنے کے بعد پھینکوں گا۔
(23)… بھوک سے کم کھاؤں گا۔
(24)… آخِر میں سنّت کی ادائیگی کی نیّت سے برتن اور (25)…تین بار انگلیاں چاٹوں گا۔
(26)… کھانے کے برتن دھو کر پی کر ایک غلام آزاد کرنے کے ثواب کا حقدار بنوں گا۔ )[34](
(27)… جب تک دستر خوان نہ اُٹھا لیا جائے اُس وقت تک بِلا ضرورت نہیں اُٹھوں گا۔
(28)… کھانے کے بعد مسنون دعائیں پڑھوں گا (29)… خِلال کروں گا۔
(30)… دسترخوان پر اگر کوئی عالم یا بزرگ موجود ہوئے تو اُن سے پہلے کھانا شروع نہیں کروں گا۔
(31)… مسلمانوں کے قرب کی بَرَکتیں حاصِل کروں گا۔
(32)… ان کو بوٹی، کدّو شریف، کُھرچن اور پانی وغیرہ پیش کر کے اُن کا دل خوش کروں گا۔
(33)… اُن کے سامنے مسکرا کر صدقہ کا ثواب کماؤں گا۔
(34)…کھانے کی نیّتیں اور (35)…سنتیں بتاؤں گا۔
(36)…موقع ملا تو کھانے سے قبل اور (37)…بعد کی دعائیں پڑھاؤں گا۔
(38)…غذا کا عمدہ حصّہ مَثَلاً بوٹی وغیرہ حرص سے بچتے ہوئے دوسروں کی خاطر ایثار کروں گا۔
(39)… ان کو خلال کا تحفہ پیش کروں گا۔ (40)… کھانے کے ہر ایک دو لقمہ پر ہو سکا تو اس نیّت کے ساتھ بلند آواز سے یَاوَاجِدُ کہوں گا کہ دوسروں کو بھی یاد آ جائے۔
٭…٭…٭
(از شیخِ طریقت امیرِ اہلِسنّت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ )
(1)… عبادت (2)… تِلاوت (3)… والدین کی خدمت (4)… تحصیلِ علمِ دین (5)…… سنّتوں کی تربیّت کی خاطِر مَدَنی قافلے میں سفر (6)… عَلاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت میں شرکت (7ﯛ… اُمورِ آخِرت اور (8)… حسبِ ضَرورت کسبِ حلال کیلئے بھاگ دوڑ پر قوّت حاصِل کروں گا۔
(یہ نیّتیں اُسی وقت مُفید ہوں گی جب کہ فریزر یا برف کاخوب ٹھنڈا پانی نہ ہو کہ ایسا پانی مزید بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ )
(9)… بیٹھ کر (10)… بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم پڑھ کر (11)…… اُجالے میں دیکھ کر(12)…… چوس کر (13)…تین سانس میں پیوں گا۔ (14)…… پی چکنے کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کہوں گا ﯜ15ﯛ…بچا ہوا پانی نہیں پھینکوں گا۔
٭…٭…٭
(1)… بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم پڑھ کر پیوں گا (2)… سُستی اُڑا کر عبادت (3)… تلاوت (4)… دینی کتابت اور (5)…… اسلامی مطالعہ پر قوت حاصل کروں گا (6)… پینے کے بعد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کہوں گا۔
٭…٭…٭
(1)…سنت ِ مصطفٰے ہے اس لئے خوشبو لگاؤں گا (2)… لگانے سے قبل بِسْمِ اللّٰه (3)… لگاتے ہوئے درود شریف اور (4)… لگانے کے بعد ادائے شکر ِ نعمت کی نیت سے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کہوں گا (5)…… ملائکہ اور (6)… مسلمانوں کو فرحت پہنچاؤں گا (7)… عقل بڑھے گی تو احکام شرعی یاد کرنے اور سنتیں سیکھنے پر قوت حاصل کروں گا (8)… لباس وغیرہ سے بدبو دور کر کے مسلمانوں کو غیبت کے گناہ سے بچاؤں گا۔
موقع کی مناسبت سے یہ نیتیں بھی کی جاسکتی ہیں :
(9)… نماز کے لئے زینت حاصل کروں گا۔
(10)… مسجد (11)…… نمازِ تہجد (12)… جمعہ (13)…پیر شریف (14)…… رمضان المبارک ﯜ15ﯛ… عید الفطر (16)…عیدالاضحی (17)… شب ِ میلاد (18)… عید میلاد (19)…جلوسِ میلاد (20)… شب ِ معراج (21)… شب ِ برأت (22)… گیارہویں شریف (23)… یومِ رضا (24)… درسِ قرآن و (25)…حدیث (26)… اوراد ووظائف (27)… تلاوت (28)… درود شریف (29)… دینی کتب کا مطالعہ (30)… تدریس عِلْمِ دین (31)… تعلیم عِلْمِ دین (32)… فتویٰ نویسی (33)… دینی کتب کی تصنیف و تالیف (34)…سنتوں بھرے اجتماع
(35)…اجتماع ذکر و (36)…نعت (37)…قرآن خوانی (38)…درسِ فیضانِ سنت (39)… علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت (40)… سنتوں بھرا بیان کرتے وقت (41)… عالم (42)…ماں (43)… باپ (44)… مؤمن صالح (45)… پیر صاحب
(46)… موئے مبارک کی زیارت اور (47)… مزار شریف کی حاضری کے مواقع پر بھی تعظیم کی نیت سے خوشبو لگائی جا سکتی ہے۔
٭…٭…٭
خوشبو لگانا نہایت پیاری اور میٹھی سنت ہے، ہمارے میٹھے میٹھے سرکار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خوشبو کو بے حد پسند فرماتے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر وقت معطر معطر رہتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خوشبو کا بہت استعمال فرمایا کرتے تاکہ غلام بھی ادائے سنت کی نیت سے خوشبو لگایا کریں ورنہ اس بات میں کس کو شک وشبہ ہوسکتاہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وجودِ مسعود تو قدرتی طور پر خود ہی مہکتا رہتا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مبارک پسینہ بذاتِ خود کائنات کی سب سے بہترین خوشبو ہے۔ ؎
مشک و عنبر کیا کروں ؟ اے دوست خوشبو کے لئے
مجھ کو سلطانِ مدینہ کا پسینہ چاہیے
حضرت سیدنا جابر بن سمرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میٹھے میٹھے سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دستِ پرانوار میرے چہرے پر پھیرا میں نے اسے ٹھنڈا اور ایسی خوشبودار ہوا کی طرح پایا جو کسی عطر فروش کے عطر دان سے نکلتی ہے۔)[35](
عمدہ قسم کی خوشبو لگانا سنت ہے
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو عمدہ اور بہترین قسم کی خوشبو بہت پسند آتی اور ناگوار بو یعنی بدبو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ناپسند فرماتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عمدہ خوشبو استعمال فرماتے اور اسی کی لوگوں کو بھی تلقین فرماتے۔
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ’’مشک‘‘ سر اقدس اور داڑھی مبارک میں لگایا کرتے۔)[36](
حضرت سیدنا انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ نبیوں کے سردار، معطر معطر سرکارِ نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت بابرکت میں جب خوشبو تحفۃً پیش کی جاتی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رد نہ فرماتے۔)[37](
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ مکی مدنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مردانہ خوشبو وہ ہے جس کی خوشبو ظاہر ہو مگر رنگ نہ ہو اور زنانہ خوشبو وہ ہے جس کا رنگ تو ظاہر ہو مگر خوشبو ظاہر نہ ہو۔)[38](
حضرت سیدنا نافع عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الرَّافِع فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کبھی کبھی خالص عود (یعنی اَگر) کی دھونی لیتے۔ یعنی عود کے ساتھ کسی دوسری چیز کی آمیزش نہیں کرتے اور کبھی عود کے ساتھ کافور ملا
کر دھونی لیتے اور فرماتے کہ میٹھے میٹھے مدنی آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی اسی طرح دھونی لیا کرتے تھے۔)[39](
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں پیارے سرکار، دو عالم کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدقے میں مدینہ منورہ کی معطر معطر فضاؤں اور معنبر معنبر ہواؤں میں سانس لینے کی سعادت نصیب فرما اور پھر انہی معطر معطر فضاؤں میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جلووں میں عافیت کے ساتھ ایمان پر موت نصیب فرما اور جنت البقیع کی مہکی مہکی سرزمین میں مدفن نصیب فرما۔ ؎
کیجئے گا نہ مایوس ماہِ مبیں آپ کے واسطے کوئی مشکل نہیں
بس بقیع مبارک میں دو گز زمیں ہم کو یا سید الانبیاء چاہیے
ٹوٹ جائے دم مدینے میں مرا یا رب بقیع کاش! ہوجائے میسر سبز گنبد دیکھ کر
٭…٭…٭
سوال …: مسواک کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب …: وضو سے پہلے مسواک شریف کرنا پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عظیم سنت ہے اور اگر منہ میں بدبو ہو تو اس وقت مسواک کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
سوال …: مسواک کتنی موٹی اور لمبی ہونی چاہئے؟
جواب …: مسواک کی موٹائی چھُنگلیا یعنی چھوٹی انگلی کے برابر ہو اور لمبائی ایک بالشت سے زیادہ نہ ہو، ورنہ اس پر شیطان بیٹھتا ہے۔
سوال …: مسواک کے ریشے کیسے ہونے چاہئیں ؟
جواب …: مسواک کے ریشے نرم ہوں کہ سخت ریشے دانتوں اور مسوڑھوں کے درمیان خلا (Gap) کا باعث بنتے ہیں اور مسواک تازہ ہو تو خوب ورنہ کچھ دیر پانی کے گلاس میں بھگو کر نرم کر لیجئے۔ اس کے ریشے روزانہ کاٹتے رہئے کہ ریشے اس وقت تک کار آمد رہتے ہیں جب تک ان کی تلخی باقی رہے۔
٭… دانتو ں کی چوڑائی میں مسواک کیجئے۔ ٭… جب بھی مسواک کرنا ہو کم از کم تین بار کیجئے۔ ٭… ہر بار دھو لیجئے۔
٭… مسواک سیدھے ہاتھ میں اس طرح لیجئے کہ چھنگلیا اسکے نیچے، بیچ کی تین انگلیاں اوپر اور انگوٹھا سرے پر ہو۔
٭… پہلے سیدھی طرف کے اوپر کے دانتوں پر پھر اُلٹی طرف کے اوپر کے دانتوں پر، پھر سیدھی طرف نیچے پھر اُلٹی طرف نیچے مسواک کیجئے۔
٭… چِت لیٹ کر مسواک کرنے سے تلی بڑھ جانے کا خطرہ ہے۔
٭… مٹھی باندھ کر مسواک کرنے سے بواسیر ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
٭… مستعمل (یعنی استعمال شدہ) مسواک کے ریشے نیز جب یہ ناقابلِ استعمال ہوجائے تو پھینک مت دیجئے کہ یہ آلۂ ادائے سنت ہے، کسی جگہ احتیاط سے رکھ دیجئے یا دفن کردیجئے یا سمندر میں ڈال دیجئے۔
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں سنت کے مطابق مسواک کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
عمامہ شریف سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بہت ہی پیاری سنت ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیشہ سرِ اقدس پر اپنی مبارک ٹوپی پر عمامہ شریف سجائے رکھا۔ چنانچہ مروی ہے کہ ایک بار آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عمامہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’فرشتوں کے تاج ایسے ہی ہوتے ہیں ۔‘‘ )[40]( اسی لیے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں : عمامہ سنت ِ متواترہ و دائمہ ہے۔)[41](
عمامہ شریف کی فضیلت کے متعلق سات فرامینِ مصطفٰے
(1)… عمامہ کے ساتھ دو رکعتیں بغیر عمامہ کے 70رکعتوں سے افضل ہیں ۔)[42](
(2)… عمامہ کے ساتھ باجماعت نماز دس ہزار نیکیوں کے برابر ہے۔)[43](
(3)… بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے فرشتے جُمُعَه كے دن عمامه والوں پر درود بھیجتے ہیں ۔)[44](
(4)… ٹوپی پر عمامہ ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق ہے۔ بروزِ قیامت عمامہ کے ہر پیچ کے بدلے مسلمان کو ایک نور عطا کیا جائے گا۔ )[45](
(5)…… عمامہ باندھو تمہارا حلم بڑھے گا۔)[46](
(6)… عمامہ مسلمانوں کا وقار اور عربوں کی عزت ہے، جب عرب عمامہ اتار دیں گے تو اپنی عزت بھی اتار دیں گے۔)[47](
(7)… عمامہ کے ساتھ ایک جمعہ بغیر عمامہ کے 70جمعہ کے برابر ہے۔)[48](
عمامہ کے آداب
(1)… عمامہ سات ہاتھ یعنی ساڑھے تین گز سے چھوٹا نہ ہو اور بارہ ہاتھ یعنی چھ گز سے بڑا نہ ہو۔ )[49](
(2)… عمامہ کے شملے کی مقدار کم از کم چار انگل اور زیادہ سے زیادہ اتنا ہو کہ بیٹھنے میں نہ دبے۔)[50](
(3)… عمامہ قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے کھڑے باندھنا چاہیے۔
(4)… عمامہ اتارتے وقت بھی ایک ایک پیچ کھولنا چاہیے۔
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں عمامہ کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
مہمان نوازی بڑی ہی پیاری سنت ہے۔چنانچہ،
٭… حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:
’’جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر وبرکت اس طرح دوڑتی ہے جیسے چھری اونٹ کی کوہان پر، بلکہ اس سے بھی تیز۔‘‘)[51](
٭… مہمان آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جاتا ہے تو میزبان کے لئے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتاہے ۔ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتاہے تو اپنا رزق لے کر آتاہے اور جب اس کے یہاں سے جاتاہے تو صاحب ِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتاہے۔‘‘ )[52](
٭… 10فرشتے سال بھر گھرمیں رحمت لٹاتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سیدنا براء بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ارشاد فرمایا: اے براء! آدمی جب اپنے بھائی کی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے مہمانی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے ہیں اور اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذائیں جَنَّۃُ الْخُلْد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔)[53](
٭… مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔‘‘)[54](
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں مہمان کی خوش دِلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں میٹھے میٹھے مدنی آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مہمان بننے کی سعادت بھی نصیب فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حیاتِ طیبہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ چنانچہ مسلمان کی چال بھی امتیازی ہونی چاہیے۔ گر یبان کھول کر ، گلے میں زنجیر سجائے، سینہ تان کر، قدم پچھاڑتے ہوئے چلنا احمقوں اور مغروروں کی چال ہے۔ مسلمانوں کو درمیانہ اور پُر وقار طریقے پر چلنا چاہیے۔چنانچہ،
٭… لفنگوں کی طرح گریبان کھول کر اکڑتے ہوئے ہرگز نہ چلیں کہ یہ احمقوں اور مغروروں کی چال ہے بلکہ نیچی نظریں کئے پروقار طریقے پر چلیں ۔ حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ جب شہنشاہِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تو جھکے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ )[55](
٭… راہ چلنے میں پریشان نظری سے بچیں اور سڑک عبور کرتے وقت گاڑیوں والی سمت دیکھ کر سڑک عبور کریں ۔ اگر گاڑی آرہی ہو تو بے تحاشا بھاگ نہ پڑیں بلکہ رُک جائیں کہ اس میں حفاظت کا زیادہ امکان ہے۔
٭… راستے میں اِدھر اُدھرنہ جھانکیں بلکہ سرجھکاکرشریفانہ چلیں ۔
٭…٭…٭
سورۃ النجم مکّیہ ہے ، اس میں 3 رکوع ، 62 آیتیں، 360 کلمے، 1405 حرف ہیں ۔ یہ وہ پہلی سورت ہے جس کا رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اعلان فرمایا اور حرم شریف میں مشرکین کے رُوبرو پڑھی۔ (خزائن العرفان، پ۱۱، ھود، حاشیہ نمبر ۱)
پیارے مدنی منو! اکثر و بیشتر ہمیں سفر کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، لہٰذا ہم کوشش کرکے سفر کی بھی کچھ نہ کچھ سنتیں وآداب سیکھ لیں تاکہ ان پر عمل کرکے ہم اپنے سفر کو بھی حصولِ ثواب کا ذریعہ بناسکیں ۔چنانچہ،
سوال …: سفر در پیش ہو تو اس کی ابتدا کس دن شروع کرنا چاہئے؟
جواب …: ممکن ہو تو جمعرات کو سفر شروع کیا جائے کہ جمعرات کو سفر کی ابتدا کرنا سنت ہے)[56](
سوال …: سفر عام طور پر کس وقت کرنا چاہئے، رات کو یا دن کو؟
جواب …: اگر سہولت ہو تو رات کو سفر کیا جائے کہ رات کو سفر جلد طے ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: رات کو سفر کیا کرو کیونکہ رات کو زمین لپیٹ دی جاتی ہے۔)[57](
سوال …: اگر چند اسلامی بھائی مل کر قافلہ کی صورت میں سفر کریں تو انہیں کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: اگر چند اسلامی بھائی مل کر قافلہ کی صورت میں سفر کریں تو کسی ایک کو امیر بنا لیں کہ امیر بنانا سنت ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تین آدمی سفر پر روانہ ہوں تو وہ اپنے میں سے ایک کو امیر بنا لیں ۔)[58](
سوال …: کیا سفر پر روانہ ہوتے وقت عزیزوں ، دوستوں سے قصور مُعاف کروانا چاہئیں ؟
جواب …: جی ہاں ! چلتے وقت عزیزوں ، دوستوں سے قصور مُعاف کروا لینا چائیں اور جن سے مُعافی طَلَب کی جائے ان پر لازِم ہے کہ دِل سے مُعاف کر دیں ۔ چنانچہ مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس اس کا بھائی مَعْذِرَت کے لئے آئے تو وہ اس کا عذر قبول کر لے خواہ حق پر ہو یا باطل پر۔ جو ایسا نہیں کرے گا وہ میرے حوض پر نہیں آئے گا۔)[59](
سوال …: سفر پر روانہ ہوتے وقت گھر والوں کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: سفر پر روانہ ہوتے وقت گھر والوں کی حفاظت کے لیے درج ذیل دو کام کرنا چاہئیں :
٭… لباسِ سفر پہن کر اگر وقت ِ مکروہ نہ ہو تو گھر میں چار رکعت نَفْل پڑھ کر باہَر نکلیں اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک بار قل شریف پڑھیں ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ وہ رکعتیں واپسی تک اہل ومال کی نگہبانی کریں گی ۔
٭… جب بھی سفر پر روانہ ہوں تو اپنے اہل خانہ کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سپرد کر کے جائیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے بلکہ ہوسکے تو اپنے گھر والوں کو یہ کلمات کہہ کر سفر پر روانہ ہوں : اَسْتَوْدِعُكَ اللّٰهَ الَّذِیْ لَایُضِیْعُ وَدَآئِعَهٗ۔ یعنی میں تم کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حوالے کرتا ہوں جو امانتوں کو ضائع نہیں کرتا۔)[60](
سوال …: سواری پر اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد کونسی دعا پڑھی جاتی ہے؟
جواب …: سواری پر اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد کونسی دعا پڑھی جاتی ہے؟
٭… سواری پراطمینان سے بیٹھنے کے بعد کونسی دعا پڑھی جاتی ہے: اَلْـحَمْدُ لِلّٰهِ سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَـنَا ھٰذَا وَمَاکُـنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّـا ۤ اِلٰی رَبِّنَا لَـمُنْقَلِبُوْنَ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ہے، پاکی ہے اسے جس نے اس سواری کوہمارے بس میں کردیا اوریہ ہمارے بوتے (طاقت) کی نہ تھی اوربیشک ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ )[61](
سوال …: دورانِ سفر کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: دورانِ سفر درج ذیل امور پر عمل کرنا چاہئے:
٭… دورانِ سفر ذکر اللہ کرتے رہیں ، ریل یا بس وغیرہ میں بِسْمِ اللّٰه، اَللّٰهُ اَکْبَر اور سُبْحَانَ الله تین تین بار اور لَاۤ اِلٰـهَ اِلَّا الله ایک بار پڑھیں ۔
٭… مسافر کو چاہیے کہ وہ دعا سے غفلت نہ کرے کہ جب تک یہ سفر میں ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ جب تک گھر نہیں پہنچتا اس وقت تک دعا مقبول ہے۔ مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: تین قسم کی دعائیں مُسْتَجَاب (یعنی مقبول) ہیں ۔ ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں : (۱)مظلوم کی دعا (۲) مسافر کی دعا (۳) باپ کی اپنے بیٹے کے لئے دعا۔ )[62](
٭… دورانِ سفر اگر کوئی حاجت مند مل جائے تو اس کی حاجت روائي کرنی چاہیے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس میں ثواب زیادہ ہوگا۔
٭… جب سیڑھیوں پرچڑھیں یا اونچی جگہ کی طرف چلیں یا بس وغیرہ کسی ایسی سڑک سے گزریں جو اونچائی کی طرف جارہی ہوتو اَللهُ اَکْبَر کہنا سنت ہے اور جب سیڑھیوں سے اُتریں یا ڈھلان کی طرف چلیں تو سُبْحَانَ الله کہنا سنت ہے۔
٭… جب کسی منزل پر ٹھہریں تو وقتاً فوقتاً یہ دعا پڑھیں : اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر نقصان سے بچیں گے:
اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّآمَّاتِ مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ
یعنی میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے کلماتِ تامہ کی پناہ مانگتاہوں اس کے شرسے جسے اس نے پیدا کیا۔)[63](
٭… جب دشمن کا خوف ہو تو سورۂ قریش پڑھ لیں ، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر بلا سے امان ملے گی۔)[64](
٭… جب کسی مشکل میں مدد کی ضرورت پڑے تو حدیث ِ پاک میں ہے کہ اس طرح تین بار پکاریں :
یَا عِبَادَ اللّٰهِ!اَعِیْنُوْنِیْ۔ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بندو! میری مدد کرو۔)[65](
سوال …: سفر سے واپسی پر کیا کرنا چاہئے؟
جواب …: سفر سے واپسی پر درج ذیل امور پر عمل کرنا چاہئے:
٭… سفر سے واپسی پر گھر والوں کے لئے کوئی تحفہ لے آئیں کہ یہ سنتِ مبارکہ ہے۔ سر کارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: جب سفر سے کوئی واپس آئے تو گھر والوں کے لئے کچھ نہ کچھ ہدیہ لائے، اگرچہ اپنی جھولی میں پتھر ہی ڈال لائے۔)[66](
٭… سفر سے واپسی پر اپنی مسجد میں دوگانہ (یعنی دوركعت نفل) پڑھنا سنت ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضور سَیِّد عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب سفرسے واپس تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (نماز نفل) ادا فرماتے۔)[67](
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں جب بھی سفر درپیش ہو تو پورا سفر سنت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں باربار حرمین طیبین کا مبارک سفر، نیز عاشقانِ رسول کے مدنی قافلوں میں سفر نصیب فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
پیارے مدنی منو! ہمیں اکثر بات چیت کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے بلکہ ہم لوگ بلا ضرورت بھی اکثر بولتے رہتے ہیں حالانکہ یہ بلا ضرورت بولنا بہت ہی نقصان دہ ہے، غیر ضروری گفتگو کرنے سے خاموش رہنا افضل ہے، لہٰذا پیارے پیارے مدنی آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن کے فرامین سے ماخوذ بات چیت کے سلسلے میں سنتیں اور آداب اور خاموشی کے فضائل وغیرہ بیان کیے جاتے ہیں :
سوال …: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اندازِ گفتگو کے متعلق کچھ بتائیے۔
جواب …: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گفتگو اس طرح دل نشین انداز میں ٹھہر ٹھہر کر فرماتے کہ سننے والا آسانی سے یاد کر لیتا۔ جیسا کہ اُم المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صاف صاف اور ٹھہر ٹھہر کر کلام فرماتے اور ہر سننے والا اسے یاد کر لیتا تھا۔)[68](
سوال …: بات چیت کے دوران کن امور کا خیال رکھنا چاہئے؟
جواب …: بات چیت کے دوران درج ذیل مدنی پھولوں کا خیال رکھنا چاہئے:
٭… مسکراکراور خندہ پیشانی سے بات چیت كيجئے۔
٭… چھوٹوں کے ساتھ مشفقانہ اور بڑوں کے ساتھ مؤدبانہ لہجہ رکھئے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دونوں کے نزدیک آپ معزز رہیں گے۔
٭… سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اسے کم گوئی اور دنیا سے بے رغبتی کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کے پاس ضرور بیٹھو کیونکہ اس پر حکمت کا نزول ہوتاہے۔)[69](
٭… حدیث ِ پاک میں ہے’’جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔‘‘)[70](
٭… کسی سے جب بات چیت کی جائے تو اس کا کوئی صحیح مقصد بھی ہونا چاہیے اور ہمیشہ مخاطب کے ظرف اور اس کی نفسیات کے مطابق بات کی جائے جیسا کہ کہا جاتا ہے: کَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ۔ یعنی لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کرو۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسی باتیں نہ کی جائیں جو دوسروں کی سمجھ میں نہ آئیں ۔ الفاظ بھی سادہ صاف صاف ہوں ، مشکل ترین الفاظ بھی استعمال نہ کیے جائیں کہ اس طرح اگلے پر آپ کی علمیت کی دھاک تو بیٹھ جائے گی مگر اسے یہ سمجھ میں نہ آئے گا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔
سوال …: بات چیت کے دوران کن امور سے بچنا چاہئے؟
جواب …: بات چیت کے دوران درج ذیل امور سے بچنا چاہئے:
٭… چلّاچلّاکر بات کرنا جیسا کہ آج کل بے تکلفی میں دوست آپس میں کرتے ہیں معيوب ہے ۔
٭… دورانِ گفتگو ایک دوسرے کے ہاتھ پر تالی دینا ٹھیک نہیں ۔
٭… دوسرے کے سامنے بار بار ناک یا کان میں انگلی ڈالنا، تھوکتے رہنا اچھی بات نہیں ۔ اس سے دوسروں کو گھن آتی ہے۔
٭… جب تک دوسرا بات کررہا ہو، اطمینان سے سنیں ، اس کی بات کاٹ کر اپنی بات نہ شروع کر دیں ۔
٭… کوئی ہکلا کر بات کرتا ہو تو اس کی نقل نہ اتاریں کہ اس سے اس کی دل آزاری ہوسکتی ہے۔
٭… زیادہ باتیں کرنے اور باربار قہقہہ لگانے سے وقار مجروح ہوتا ہے۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا۔)[71](
٭… زبان کو ہمیشہ بُری باتوں سے روکے رکھیں کیونکہ زبان کے صحیح یا غلط استعمال کا جو کچھ فائدہ و نقصان ہوتا ہے وہ سارے جسم کو ہوتا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے اعضاء جھک کر زبان سے کہتے
ہیں : ہمارے بارے میں اللہ تعالٰی سے ڈر! اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔)[72](
٭… آپس میں ہنسی مذاق کی عادت کبھی مہنگی بھی پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْعَزِیز فرماتے ہیں کہ آپس میں ٹھٹھا مذاق مت کیا کرو اس طرح (ہنسی ہنسی میں ) دلوں میں نفرت بیٹھ جاتی ہے اور برے افعال کی بنیادیں دلوں میں استوار ہو جاتی ہیں)[73](
٭… بدزبانی اور بے حیائی کی باتوں سے ہر وقت پرہیز کریں ، گالی گلوچ سے اجتناب کرتے رہیں اور یاد رکھیں کہ اپنے بھائی کو گالی دینا حرام ہے )[74](اور بے حیائی کی بات کرنے والے بدنصیب پر جنت حرام ہے حضور تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔‘‘)[75](
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں گفتگو کرنے کی سنتوں اور آداب پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
سوال …: زلفیں رکھنے میں سنت کیا ہے؟
جواب …: سرکارِ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت کریمہ ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سرمبارک
کے بال شریف کبھی نصف کان مبارک تک تو کبھی کان مبارک کی لو تک رہتے اور بعض اوقات آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گیسو بڑھ جاتے تو مبارک شانوں کو جھوم جھوم کر چومنے لگتے۔ بال چونکہ بڑھنے والی چیز ہے۔اس لئے جس صحابی نے جیسا دیکھا وہی روایت کردیا۔ چنانچہ ،
آدھے کانوں کی لو تک: حضرت سیدنا انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بال مبارک آدھے کانوں کی لو تک تھے۔)[76](
کانوں کی لو تک: حضرت سیدنا براء بن عازب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ سلطانِ مدینہ، راحت ِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گیسو مبارک مقدس کانوں کی لو کو چومتے تھے۔)[77](
شانوں تک: ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میرے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سراقدس پر جو بال مبارک ہوتے وہ کان مبارک کی لو سے ذرا نیچے اور مبارک شانوں سے ذرا اوپر ہوتے تھے۔)[78](
سوال …: کیا سر کے بیچ میں سے مانگ نکالنا سنت ہے؟
جواب …: جی ہاں ! سر کے بیچ میں سے مانگ نکالنا سنت ہے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے: بعض لوگ داہنے یا بائیں جانب مانگ نکالتے ہیں یہ سنت کے خلاف ہے۔ سنت یہ ہے کہ اگر سر پر بال ہوں تو بیچ میں مانگ نکالی جائے اور بعض لوگ مانگ نہیں نکالتے بلکہ بالوں کو سیدھا رکھتے ہیں یہ سنت ِ منسوخہ اور یہودونصاریٰ کا طریقہ ہے۔)[79](
ان تمام احادیث ِمبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیشہ اپنے سراقدس
پر پورے ہی بال رکھے، آج کل جو چھوٹے چھوٹے بال رکھے جاتے ہیں اس طرح کے بال رکھنا سنت نہیں ہے، لہٰذا طرح طرح کے تراش خراش والے بال رکھنے کے بجائے ہمیں چاہیے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت میں اپنے سر پر آدھے کانوں کی لو تک، کانوں کی لو تک یا اتنی بڑی زلفیں رکھیں کہ شانوں کو چھو لیں ۔)[80](
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہم سب مسلمانوں کو خلافِ سنت بال رکھنے اور رکھوانے کی سوچ سے نجات دے کر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری پیاری، میٹھی میٹھی زلفیں رکھنے والی ’’مدنی سوچ‘‘ عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
جب ہمارا کوئی مسلمان بھائی بیمار ہو جائے تو ہمیں وقت نکال کر اس اسلامی بھائی کی عیادت کے لئے ضرور جانا چاہیے کہ کسی مسلمان کی عیادت کرنا بھی بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ سلطانِ بحروبر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی ایسے مریض کی عیادت کی جس کی موت کا وقت قریب نہ آیا ہو اور سات مرتبہ یہ الفاظ کہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے اس مرض سے عافیت عطا فرمائے گا: اَسْئَلُ اللّٰهَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَكَ۔ یعنی میں عظمت والے، عرش کے مالک اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے تیرے لئے شفا کا سوال کرتا ہوں ۔)[81](
شیخِ طریقت، امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مدنی پنج سورہ میں عیادت کرتے وقت کی یہ دعا بھی نقل فرمائی ہے: لَا بَاْسَ طَھُوْرٌ اِنْ شَآءَ اللّٰهُؕ )[82]( یعنی کوئی حرج کی بات نہیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ یہ
مرض گناہوں سے پاک کر نے والا ہے۔
(1)… جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتاہے تو آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے: ’’خوش ہو جا کہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تونے جنت میں اپنا ٹھکانا بنا لیا ہے۔‘‘ )[83](
(2)… مریضوں کی عیادت کیا کرو اور جنازوں میں شرکت کیا کرو یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتے رہیں گے۔)[84](
(3)… جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا اور ثواب کی امید پر اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کی اسے جہنم سے ستر سال کے فاصلے تک دور کردیا جائے گا۔)[85](
(4)… مریض جب تک تندرست نہ ہوجائے اس کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔)[86](
(5)… جب تم کسی مریض کے پاس آؤ تواس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرو کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہوتی ہے۔)[87](
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں عیادت کی سنت پر بھی عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
٭…٭…٭
”اللہ بچوں کے قرآنِ مجید پڑھنے کی وجہ سے اہلِ زمین سے عذاب دور فرماتا ہے“
کیا آپ نے ا س جملہ کے چون حروف کی نسبت سے پانچویں باب میں بیان کردہ درج ذیل 54 سوالات کے جوابات جان لئے ہیں ؟
1 قرآن و سنت سے علم دین سیکھنے سکھانے کی فضیلت بیان کیجئے۔
2 کیا علم سے بہتر بھی کوئی شے ہو سکتی ہے؟ اگر نہیں تو حدیثِ پاک سے ثابت کیجئے۔
3 کیا ہمارے بزرگانِ دین بالخصوص صحابہ کرام بھی علم حاصل کرنے کا شوق رکھتے تھے؟
4 اس پرفتن دور میں آج کا مسلمان علمِ دین کے حصول کے جذبے سے ناواقف کیوں ہے؟
5 کیا یہ درست ہے کہ راہِ علم کے مسافر یعنی طالب علم شیطان پر بھاری ہیں ؟
6 کیا یہ بات درست ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بچوں کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے زمین والوں سے عذاب روک لیتا ہے؟
7 شیطان بچوں کو قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کیا کیا طریقے استعمال کرتا ہے؟ چند طریقے بتایئے۔
8 کیا مدرسے کے علاوہ گھر میں بھی تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنا ہمارے لیے ہمارے لیے رحمت کا باعث ہے؟
9 ہمارے بزرگانِ دین روزانہ کس قدر تلاوتِ قرآنِ کریم کا اہتمام فرمایا کرتے تھے؟
10 کیا واقعی بچوں کا قرآن پڑھنا ان کے والدین کی بخشش کا باعث بن سکتا ہے؟
11 کیا یہ درست ہے کہ حافظِ قرآن کے والدین کو بروزِ قیامت تاج پہنایا جائے گا؟
12 کیا نیک اولاد واقعی صدقہ جاریہ ہے؟
13 نیت کسے کہتے ہیں ؟
14 اگر کسی عمل کی ادائیگی میں ایک سے زائد نیتیں کر لی جائیں تو کیا ہر نیت کا ثواب ملے گا؟
15 نیتوں کے فضائل پر مبنی تین روایات سنائیے۔
16 اکیلے کھانا کھائیں تو کس قدر اچھی اچھی نیتیں کر سکتے ہیں ؟
17 اگر مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو کتنی اچھی اچھی نیتیں کر سکتے ہیں ؟
18 پانی پینے سے پہلے کونسی اچھی اچھی نیتیں کی جا سکتی ہیں ؟
19 چائے پینے کی نیتیں بتائیے۔
20 خوشبو لگاتے وقت کس قدر اچھی اچھی نیتیں کر سکتے ہیں ؟
21 ہمارے میٹھے میٹھے سرکار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیوں خوشبو کو بے حد پسند فرماتے تھے؟
22 کیا عمدہ قسم کی خوشبو لگانا سنت ہے؟
23 کیا سر میں خوشبو لگانا بھی سنت ہے؟
24 اگر کوئی خوشبو کا تحفہ دے تو کیا کرنا چاہئے؟
25 کس کو کیسی خوشبو استعمال کرنی چاہئے؟
26 کیا خوشبو کی دھونی لینا سنت ہے؟
27 مسواک کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
28 مسواک کتنی موٹی اور لمبی ہونی چاہئے؟
29 مسواک کے ریشے کیسے ہونے چاہئیں ؟
30 مسواک کرنے اور پکڑنے کا طریقہ بتائیے۔
31 مسواک کرتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟
32 عمامہ شریف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
33 عمامہ شریف کی فضیلت کے متعلق چار فرامینِ مصطفٰےسنائیے۔
34 عمامہ باندھتے وقت کن آداب کو مد نظر رکھنا چاہئے؟
35 کیا مہمان کی آمد سے گھر میں خیر و برکت نازل ہوتی ہے؟
36 کیا یہ درست ہے کہ مہمان آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جاتا ہے تو میزبان کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے؟
37 وہ حدیثِ پاک سنائیے جس میں ہے کہ عَزَّ وَجَلَّ 0فرشتے سال بھر میزبان کے گھرمیں رحمت لٹاتے رہتے ہیں ؟
38 کیا مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے؟
39 چلنے کی سنتیں اور آداب بیان کیجئے۔
40 سفر در پیش ہو تو اس کا آغاز کس دن سے کرنا چاہئے؟
41 سفر عام طور پر کس وقت کرنا چاہئے، رات کو یا دن کو؟
42 اگر چند اسلامی بھائی مل کر قافلہ کی صورت میں سفر کریں تو انہیں کیا کرنا چاہئے؟
43 کیا سفر پر روانہ ہوتے وقت عزیزوں ، دوستوں سے قصور مُعاف کروانا چاہئیں ؟
44 سفر پر روانہ ہوتے وقت گھر والوں کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہئے؟
45 سواری پر اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد کونسی دعا پڑھی جاتی ہے؟
46 دورانِ سفر کیا کرنا چاہئے؟
47 سفر سے واپسی پر کیا کرنا چاہئے؟
48 سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اندازِ گفتگو کے متعلق کچھ بتائیے۔
49 بات چیت کے دوران کن امور کا خیال رکھنا چاہئے؟
50 بات چیت کے دوران کن امور سے بچنا چاہئے؟
51 زلفیں رکھنے میں سنت کیا ہے؟
52 کیا سر کے بیچ میں مانگ نکالنا سنت ہے؟
53 جب ہمارا کوئی مسلمان بھائی بیمار ہو جائے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
54 عیادت کی فضیلت کے متعلق کوئی تین روایات سنائیے۔
٭…٭…٭
اس باب میں آپ پڑھیں گے:
احترامِ مسلم میں والدین، بڑے بھائیوں ، رشتے داروں ، پڑوسیوں اور دوستوں کا احترام،
دوسروں کی دل آزاری و ریاکاری سے بچنے ، اخلاص اپنانے، جھوٹ، غیبت، چغلی
حسد اور بغض و کینہ کی نحوستوں سے دور رہنے کے متعلق بنیادی باتیں
سوال …: احتِرامِ مسلم کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
ل…: پہلے کے بزرگوں میں احتِرامِ مسلم کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا تھا۔ کسی اَنجانے مسلمان بھائی کو اِتِّفاقی نقصان سے بچانے کیلئے بھی اپنا خَسارہ گوارا کر لیا جاتا تھا جبکہ آج تو بھائی بھائی کو ہی لوٹنے میں مصروف ہے۔ تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی دورِ اَسلاف کی یاد تازہ کرنا چاہتی ہے۔ ’’ دعوتِ اسلامی‘‘ نفرتیں مٹاتی اور محبتوں کے جام پلاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مَدَنی ماحول میں رنگ جائیں ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بطفیلِ مصطفے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِحتِرامِ مُسلم کا جذبہ بیدار ہوگا۔ اگر ایسا ہوگیا تو ہمارا مُعَاشَرہ ایک بار پھر مدینۂ منوَّرہ کے دلکش و خوشگوار، خوشبودار وسدا بہار رنگ برنگے پھولوں سے لدا ہوا حسین گلزار بن جائے گا۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
طیبہ کے سوا سب باغ پامالِ فَنا ہونگے
دیکھو گے چمن والو جب عَہدِ خَزاں آیا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
والدین کو ستانے والاجنّت سے محروم
سوال …: والدین کا احترام کرنے کے بجائے انہیں ستانا کیسا ہے؟
جواب …: والِدَین و دیگر ذَوِ الْاَرْحام (یعنی جن کے ساتھ خونی رشتہ ہو دَرَجہ بدَرجہ) مُعاشَرہ میں سب سے زیادہ احتِرام و حُسنِ سلوک کے حقدار ہوتے ہیں ، مگر افسو س کہ اس کی طرف اب دھیان کم دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ عوام کے سامنے اگرچِہ انتِہائی مُنْکَسِرُ المزاج وملنسار گردانے جاتے ہیں مگر اپنے گھر میں بالخصوص والِدَین کے حق میں نہایت ہی تُندمزاج و بداَخلاق ہوتے ہیں ۔ ایسوں کی توجُّہ کیلئے عرض ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک حدیث پاک میں جن تین اشخاص کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ جَنّت میں نہیں جائیں گے ان
میں سے ایک ماں باپ کو ستانے والا بھی ہے۔)[88](
سوال …: کیا ہم پر بڑے بھائی کا احترام کرنا ضروری ہے؟
جواب …: جی ہاں ! والِدَین کے ساتھ ساتھ دیگر اہلِ خاندان مَثَلاً بھائی بہنوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔والِد صاحِب کے بعد دادا جان اور بڑے بھائی کا رُتبہ ہے کہ بڑا بھائی والِد کی جگہ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ایسا ہے جیسے والِد کا حق اولاد پر۔ )[89](
سوال …: رشتے داروں کے ساتھ ہمیں کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟
جواب …: تمام رِشتہ داروں کے ساتھ ہمیں اچھّا برتاؤ کرنا چاہئے۔چنانچہ مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جسے یہ پسند ہو کہ عُمر میں درازی اور رِزْق میں فَرَاخی ہو اور بُری موت دَفْع ہو وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرتا رہے اور رِشتہ داروں سے حُسنِ سُلوک کرے۔‘‘ )[90](
سوال …: پڑوسیوں کے ساتھ ہمیں کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟
جواب …: ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچّھا برتاؤ کرے اور بِلامَصْلِحَتِ شَرْعی ان کے احتِرام میں کمی نہ کرے۔ افسوس! آج کل پڑوسیوں کو کوئی خاطِر میں نہیں لاتا۔ حالانکہ پڑوسیوں کی اَہَمِیَّت کے لیے یہی کافی ہے کہ بندہ اگر یہ جاننا چاہتا ہو کہ اس نے فلاں کام اچھا کیا یا براتو دیکھے کہ اس کام کے متعلق اس کے پڑوسی کیا کہتے ہیں ؟ چنانچہ ایک شخص نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ عالیشان میں
عرض کی: یارسُول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے یہ کیوں کر معلوم ہو کہ میں نے اچھّا کیا یا بُرا؟ تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سُنو کہ تم نے اچّھا کیا تو بیشک تم نے اچّھا کیا اور جب یہ کہتے سُنو کہ تم نے بُرا کیا تو بے شک تم نے بُرا کیاہے۔‘‘ )[91](
سوال …: دوستوں اور ہم سفروں کے ساتھ ہمیں کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟
جواب …: ٹرین یا بس وغیرہ میں اگر نِشَسْتَیں کم ہوں تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بعض بیٹھے ہی رہیں اور بعض کھڑے کھڑے ہی سفر کریں ۔ بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ سارے باری باری بیٹھیں اور تکلیفیں اُٹھا کر ثواب کمائیں ۔ چُنانچِہ حضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ غزوۂِ بدر میں فی اونٹ تین افراد تھے۔ چُنانچِہ حضرتِ ابولُبابہ اور حضرتِ علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سُواری میں شریک تھے۔ دونوں حضرات کا بیان ہے کہ جب سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیدل چلنے کی باری آتی تو ہم دونوں عَرْض کرتے کہ سرکار! آپ سُوار ہی رہئے، حضور کے بدلے ہم پیدل چلیں گے۔ ارشاد فرماتے: ’’تم مجھ سے زِیادہ طاقتور نہیں ہو اور تمہاری طرح میں بھی ثواب سے بے نیاز نہیں ہوں ۔‘‘ )[92]( (یعنی مجھے بھی ثواب چاہئے پھر میں کیوں پیدل نہ چلوں )
٭…٭…٭
سوال …: بطورِ مسلمان کیا ہمیں دوسروں کے دکھ درد کو ان کی مدد کرنی چاہئے؟
جواب …: جی ہاں ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دامن کرم عطا فرمایا۔ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم
اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف تصور کریں اور اپنے اسلامی بھائی کی مدد کریں ۔ چنانچہ،
سرکارِ مدینہ، راحت ِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: ’’جو آدمی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کر دے میں اس کے میزان کے پاس کھڑا ہو جاؤں گا اگر زیادہ وزن ہوگیا تو ٹھیک، ورنہ میں اس کے حق میں سفارش کروں گا۔‘‘)[93]( ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت میں چل پڑا اس کے ہر ایک قدم پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ 70 نیکیاں درج کرے گا اور 70 برائیاں دور کر دے گا اور اگر اُس ضرورت مند مسلمان کی ضرورت اِس کے ذریعے سے پوری ہو گئی تو وہ گناہوں سے یوں پاک ہو گیا جیسے اس دن تھا کہ جس دن اس کی ماں نے اسے جنا، اگر وہ اس دوران وفات پاگیا تو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہو گا۔)[94](
پیارے مدنی منو! اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرنے والا کتنا خوش نصیب ہے کہ وہ بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوگا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے اسلامی بھائی کی مدد کیا کریں ۔
٭…٭…٭
سوال …: بطورِ مسلمان کیا ہمیں دوسروں کی دِل آزاری کرنی چاہئے؟
جواب …: جی نہیں ! ہرگز ہرگز ہمیں اپنے کسی اسلامی بھائی کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے کیونکہ کامل مسلمان وہی ہوتا ہے جس کی زبان و ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ۔ جیسا کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان وہ ہوتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ۔ )[95](
سوال …: کیا دوسروں کی دِل آزاری جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! دوسروں کی دِل آزاری جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا مجاہد عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَاحِد فرماتے ہیں : ’’اہل دوزخ پر خارش کو مسلط کر دیا جائے گا، وہ اتنی خارش کرتے ہوں گے کہ ان کے چمڑے اتر جانے کے باعث ہڈیاں نمودار ہوجائیں گی، تووہ کہیں گے: یا اللہ! کس وجہ سے ہم اس مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ توان کو جواب دیا جائے گا: تم مسلمانوں کو ایذا دیتےتھے۔‘‘)[96](
سوال …: کیا دوسروں کو تکلیف سے بچانا ہمیں جنت کا حق دار بنا سکتا ہے؟
جواب …: جی ہاں ! دوسروں کو تکلیف سے بچانا ہمیں جنت کا حق دار بنا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو زبان یا ہاتھ کسی طرح سے بھی ایذا یعنی تکلیف نہ دیں بلکہ اسے ہر تکلیف سے بچانے کی کوشش کریں ۔ جیساکہ سرکارِ ابد قرار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے ایک ایسے شخص کو جنت میں چلتے پھرتے دیکھا جس نے راستے سے ایک ایسے درخت کو کاٹ دیا تھا جو مسلمانوں کی ایذا کا باعث بنا رہتا تھا۔‘‘ )[97]( ایک روایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے مسلمانوں کے راستے سے کسی تکلیف پہنچانے والی چیز کو دور کردیا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے حق میں نیکی لکھ دے گا اور جس كي نيكي قبول هوگئي وه جنت ميں داخل هو گاـ۔)[98](
سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اپنے مسلمان بھائی کے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے کی کتنی فضیلت ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے حق میں نیکی درج فرما دیتا ہے اور اس کے لئے جنت كا داخلہ آسان كر دیتا ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے اسلامی بھائیوں کو بھی تکلیف سے بچانے کی کوشش کریں تا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم سے راضی ہو جائیں اور اگر کوئی ہمیں ایذا دے یعنی تکلیف پہنچائے تو ہمیں اسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے معاف کر دینا چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کو معاف کرنے کی بھی بہت فضیلت مروی ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’معاف کردینے سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ آدمی کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے۔‘‘)[99](
پیارے مدنی منو! ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائی کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے معاف کردینا چاہیے، ہوسکتاہے کہ ہمارا یہی عمل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہوجائے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کل بروزِ قیامت ہماری خطائیں بھی معاف فرماکر ہمیں جنت میں داخلہ عطا فرما دے۔
٭…٭…٭
سوال …: ریا سے کیا مراد ہے؟
جواب …: ریا سے مراد دکھاوا ہے یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت یا نیک اعمال کے ذریعے لوگوں سے اپنی عزت و شہرت کی خواہش رکھنا کہ میرے اس عمل پر لوگوں میں میری واہ واہ ہولوگ مجھے اچھا و نیک سمجھیں ۔ ریا کرنے والے کو ’’ریاکار‘‘ کہتے ہیں ۔
سوال …: کیا ریاکاری کا شمار جہنم میں لے جانے والے اعمال میں ہوتا ہے؟
جواب …: جی ہاں ! ریاکاری کا شمار جہنم میں لے جانے والے اعمال میں ہوتا ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت میں لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے اور اس کے محلات اور اہل جنت کے لئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی: انہیں لَوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں ۔ تو وہ ایسی حسرت لے کر لوٹیں گے جیسی اوّلین وآخرین نے نہ پائی ہو گی، پھر وہ عرض کریں گے: یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اگر تو وہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا جو تو نے اپنے محبوب بندوں کے لیے تیار کی ہیں تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: بدبختو! میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے جب تم تنہائی میں ہوتے تو میرے ساتھ
اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں کے سامنے ہوتے تو میری بارگاہ میں دوغلے پن سے حاضر ہوتے، نیز لوگوں کے دِکھلاوے کے لئے عمل کرتے جبکہ تمہارے دلوں میں میری خاطر اس کے بالکل برعکس صورت ہوتی، لوگوں سے محبت کرتے اور مجھ سے محبت نہ کرتے، لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے، لوگوں کے لئے عمل چھوڑ دیتے مگر میرے لئے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذابِ الیم کامزہ بھی چکھاؤں گا۔)[100](
دِکھاوے کے لئے عِبادَت کرنے والے کاعَمَل ضائع ہوجاتا ہے ۔ قرآن مجید میں اِرشاد ہوا :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبْطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالْمَنِّ وَالۡاَذٰیۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ (پ۳، البقرۃ: ۲۶۴)
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھ کر اور ایذا دے کر، اس کی طرح جواپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے ليے خرچ کرے۔
دُنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والے نادانوں کے اعمال برباد ہونے کے متعلق ارشادِ باری تَعَالٰی ہے:
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵)اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۶) (پ۱۲، ھود:۱۶،۱۵)
ترجمۂ کنز الایمان: جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہوہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے اور اس میں کمی نہ دیں گے، یہ ہیں وہ جن کے لیے آخرت میں کچھ نہیں مگر آگ اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے تھے اور نابود ہوئے جو ان کے عمل تھے۔
حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ ریاکاروں کے حق میں نازل ہوئی۔ )[101](
شیطان کے دوست
لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے مال خرچ کرنے والے ریاکاروں کو شیطان کے دوست قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ پارہ 5سورۃ النساء میں ارشاد ہوا :
وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا(۳۸)(پ۵، النسآء: ۳۸)
ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کو خرچتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے ﷲ اور نہ قیامت پر اور جس کا مصاحب شیطان ہوا تو کتنا برا مصاحب ہے۔
ریا کاروں کا ٹھکانا
دکھاوے کی نمازیں پڑھنے والے بدنصیبوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
فَوَیۡلٌ لِّلْمُصَلِّیۡنَ ۙ(۴) الَّذِیۡنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ(۵) الَّذِیۡنَ ہُمْ یُرَآءُوۡنَ ۙ(۶)وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۠(۷) (پ۳۰، الماعون: ۴ تا ۷)
ترجمۂ کنز الایمان: تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جواپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں ،وہ جو دکھاوا کرتے ہیں اور برتنے کی چیز مانگے نہیں دیتے۔
(1)… مجھے تم پر سب سے زیادہ شرکِ اصغر یعنی دکھاوے میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دیتے وقت ارشاد فرمائے گا: ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کے لئے دنیا میں تم دکھاوا کرتے تھے اور دیکھو کہ کیا تم ان کے پاس کوئی جزا پاتے ہو۔ )[102](
(2)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس عمل کو قبول نہيں کرتا جس ميں رائی کے دانے کے برابر بھی رِيا ہو۔)[103](
(3)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہر رِیاکار پر جنت کو حرام کردیا ہے۔)[104](
(4)… جس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ غیرِ خدا کے لئے دکھلاوا کیا تحقیق وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمۂ کرم سے بَری ہو گیا۔)[105]( (5)… قیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہوگا جب اسے لایا جائے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔‘‘ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے تونے جہاد اس لئے کیا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے بارے میں جہنم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اُس شخص کو لایا جائے گا جس نے علم سیکھا، سکھایا اور قرآنِ کریم پڑھا، وہ آئے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے دریافت فرمائے گا: ’’تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’میں نے علم سیکھا سکھایا اور تیرے لئے قرآن کریم پڑھا۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹاہے، تو نے علم اس لئے سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآنِ کریم اس لئے پڑھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔‘‘ پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے کثرت سے مال عطا فرمایا تھا، اسے لاکر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے دریافت فرمائے گا: ’’تونے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’میں
نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔‘‘ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے، تونے ایسا اس لئے کیا تھا کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔‘‘ پھر اسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہوگا تو اسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔)[106](
پیارے مدنی منو! انسان کے پاس تین اہم اور قیمتی چیزیں ہوتی ہیں جس سے وہ زیادہ محبت کرتا ہے: [۱] جان [۲] وقت (یعنی زندگی) اور [۳]مال۔ اس حدیثِ پاک میں ان تینوں چیزوں کو قربان کیا گیا یعنی شہید نے اپنی جان قربان کی، عالم و قاری نے اپنی ساری زندگی علم وقرآن سیکھنے سکھانے میں قربان کی اور سخی نے اپنا مال قربان کیا مگر بروزِ قیامت ریا کاری کے سبب بارگاہِ خداوندی میں ان کے یہ اعمال قبول نہ ہوں گے بلکہ انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
حُجَّۃُ الْاِسْلَام حضرت سیدنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کیمیائے سعادت میں نقل فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ نے ارشاد فرمایا: میں نے تیس برس کی نمازیں قضا کیں جو میں نے ہمیشہ پہلی صف میں ادا کی تھیں ۔ اس کا باعث یہ ہواکہ ایک دن مجھے کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی تو آخری صف میں جگہ ملی ۔ میں نے اپنے دل میں اِس بات سے شرم محسوس کی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ آج اتنی دیرسے آیا ہے؟ اُس وقت میں سمجھا کہ یہ سب لوگوں کے دِکھانے کے لیے تھا کہ وہ مجھے پہلی صف میں دیکھیں۔ چنانچہ میں نے یہ تمام نمازیں دوبارہ پڑھیں ۔ )[107](
٭…٭…٭
ہر مسلمان کوچاہیے کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت ونیک اعمال میں ریا کاری جیسے گناہ کو شامل نہ ہونے دے بلکہ جو بھی نیک اعمال کرے خاص اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو راضی کرنے کے لئے کرے کہ اس کو اخلاص کہتے ہیں اور یاد رکھے کہ اخلاص والی نیکی ہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔
قرآنِ پاک میں مخلص مومن کی مثال ان الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے:
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) (پ۳، البقرۃ:۲۶۵)
ترجمۂ کنز الایمان: اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ (ریتلی زمین) پر ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دونے میوے لایا پھر اگر زور کا مینھ اسے نہ پہنچے تو اوس کافی ہے اور اللہ تمہارے کا م دیکھ رہا ہے۔
صدر الافاضِل حضرت مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی خَزائنُ العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں : یہ مومن مخلص کے اعمال کی ایک مثال ہے کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ! ایسے ہی با اخلاص مومن کا صدقہ اور انفاق (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنا) خواہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالٰی اس کو بڑھا تاہے اور وہ تمہاری نیت اور اخلاص کو جانتا ہے ۔
(1)… جو دنیاسے اس حال میں گیاکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے اپنے تمام اعمال میں مخلص تھا اور نماز، روزے کا پابند تھا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے راضی ہے۔)[108](
(2)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ وہی عمل پسند فرماتاہے جو اخلاص کے ساتھ اس کی رضا چاہنے کے لئے کیا جاتاہے۔)[109](
(3)… اے لوگو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے اخلاص کے ساتھ عمل کرو کیونکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ وہی اعمال قبول فرماتا ہے جو اس کے لئے اخلاص کے ساتھ کیے جاتے هیں اور یہ مت کہا کرو کہ میں نے یہ کام اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور رشتہ داري کی وجہ سے کیا۔)[110](
(4)…اپنے دین میں مخلص ہوجاؤ، تھوڑا عمل بھی تمہارے لئے کافی ہوگا۔ )[111](
(5)… جب آخر ی زمانہ آئے گا تو میری امّت تین گروہ میں بٹ جائے گی ۔ایک گروہ خالصًا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرے گا دوسرا گروہ دِکھاوے کے لیے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرے گا اور تیسرا گروہ اس لیے عبادت کرے گا کہ وہ لوگوں کا مال ہڑپ کرجائے۔ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ بروزِ قیامت ان کو اٹھائے گا تو لوگوں کا مال کھا جانے والے سے فرمائے گا: میری عزت اور میرے جلال کی قسم! میری عبادت سے تو کیا چاہتا تھا؟ تو وہ عرض کرے گا: تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم! میں تو بس لوگوں کا مال کھانا چاہتا تھا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: تو نے جو کچھ جمع کیا اس نے تجھے کچھ فائدہ نہ دیا۔ اسے دوزخ میں ڈال دو۔ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ دِکھاوے کے لیے عبادت کرنے والے سے فرمائے گا: میری عزت اور میرے جلال کی قسم! میری عبادت سے تیرا کیا ارادہ تھا؟ وہ عرض کرے گا: تیری عزت و جلال کی قسم! لوگوں کو دکھانا۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرما ئے گا: اس کی کوئی نیکی میری بارگاہ میں مقبول نہیں ، اسے دوزخ میں ڈال دو۔ پھر خالصًا اپنی عبادت کرنے والے سے
فرمائے گا: میری عزّت اور میرے جلال کی قسم ! میری عبادت سے تیرا کیا مقصود تھا؟ وہ عرض کرے گا: تیری عزت و جلال کی قسم !میرے اِرادے کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، میں تیری رضا چاہتا تھا۔ ارشاد فرمائے گا: میرے بندے نے سچ کہا، اسے جنت کی طر ف لے جاؤ۔ )[112](
٭…٭…٭
سوال …: جھوٹ سے کیا مراد ہے؟
جواب …: خلافِ واقع بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں ۔ )[113](
سوال …: سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا؟
جواب …: سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا کہ جھوٹ بول کر حضرت سیدنا آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو گندم کا دانہ کھلایا۔
سوال …: کیا جھوٹ بولنے کی طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہ ہے؟
جواب …: جی ہاں ! جھوٹ لکھنا بھی گناہ ہے۔
سوال …: اپریل فول مناناکیسا ہے؟
جواب …: اپریل فول منانا گناہ ہے اور یہ احمقوں اور بے وقوفوں کا طریقہ ہے۔ یکم اپریل کو لوگوں کو جھوٹی باتیں بتاکر یا جھوٹی خبریں لکھ کر مذاق کیاجاتاہے جو کہ ناجائز وگناہ ہے، لہٰذا اس ناجائز و برے طریقے سے بچنا بہت ضروری ہے۔
سوال …: بعض بچے بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں ، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب …: بات بات پر قسمیں کھانا بری عادت ہے کیونکہ زیادہ قسمیں کھانا جھوٹا ہونے کي علامت ہے۔
سوال …: جھوٹی قسم کھانا کیسا ہے؟
جواب …: جھوٹی قسم کھانا ناجائز و گناہ اور شیطانی کام ہے، ہمیں اس گناہ سے بچنا چاہیے۔
سوال …: لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹے لطیفے سنانا کیسا ہے؟
جواب …: لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹے لطیفے سنانا بھی ناجائز وگناہ ہے، ان باتوں سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوتاہے۔جیسا کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ہلاکت ہے اس کے لئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے۔‘‘)[114](ایک روایت میں ہے کہ جو بندہ محض اس لئے بات کرتاہے کہ لوگوں کو ہنسائے تو اس کی وجہ سے آسمان وزمین کے درمیان موجود فاصلے سے بھی زیادہ دور (جہنم میں ) جا گرتا ہے۔‘‘ )[115](
سوال …: بعض بچے لطیفے اور جھوٹی کہانی والی کتابیں پڑھتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب …: ایسی کتابیں پڑھنا صحیح نہیں کہ ایسی باتیں بچوں میں غفلت پیدا کرتی ہیں ۔
سوال …: کیا مذاق میں جھوٹ بول سکتے ہیں ؟
جواب …: جی نہیں !مذاق میں بھی جھوٹ بولناحرام ہے۔
سوال …: بعض والدین بچوں کو ڈرانے کے لئے جھوٹی باتیں کرتے ہیں کہ فلاں چیز آرہی ہے یا بہلانے کے لئے کہتے ہیں کہ ادھر آؤ ہم تمہیں چیز دیں گے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس کاکیاحکم ہے؟
جواب …: یہ بھی جھوٹ میں شامل ہے اور حرام و گناہ ہے۔
سوال …: بعض بچے من گھڑت خواب سناتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب …: جھوٹا خواب بیان کرنا سخت حرام و گناہ ہے ایسے جھوٹوں کو قیامت کے دن ’’ جَو‘‘ کے دو دانوں میں گِرہ لگانے کی تکلیف دی جائے گی اور وہ کبھی بھی گِرہ نہ لگاسکیں گے اور یوں عذاب پاتے رہیں گے۔)[116](
سوال …: کیا یہ بات درست ہے کہ جھوٹ بولنے والے کے منہ سے بدبو نکلتی ہے؟
جواب …: جی ہاں ! جھوٹ بولنے والے کے منہ سے ایسی سخت بو نکلتی ہے کہ فرشتہ ایک میل دور ہوجاتاہے۔)[117](
سوال …: کیا جھوٹ بولنے کا اثر دل پر بھی ہوتاہے؟
جواب …: جی ہاں ! جھوٹ بولنے سے دل کالا سیاہ ہو جاتا ہے، لہٰذا جھوٹ بولنے سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے۔
سوال …: جھوٹ بولنے والے کو آخرت میں کیا سزا ملے گی؟
جواب …: ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خواب میں جھوٹ بولنے والے کی یہ سزا دکھائی گئی کہ اس کو گدّی کے بل (یعنی چت) لٹایا ہواتھا اور ایک شخص لوہے کا چمٹا لیے اس پر کھڑا تھا اور وہ ایک طرف سے اس کی بانچھ (گال) چمٹے سے پکڑ کر گدّی تک چیرتا ہوا لے جاتا، اس طرح آنکھ اور ناک کے نتھنے میں چمٹا گھونپ کر چیرتا ہوا گدّی تک لے جاتا۔ جب ایک طرف یہ عمل کرلیتا تو دوسری جانب آجاتا اور یہی عمل کرتا، اتنی دیر میں پہلی جگہ اصلی حالت میں آ جاتی پھر پہلی جگہ کو اسی طرح چیر پھاڑ ڈالتا۔ جھوٹ بولنے والے کو یہ سزا قیامت تک ملتی رہے گی۔)[118](
سوال …: بچوں کے جھوٹ بولنے کی چند ایک مثالیں بیان کیجئے۔
جواب …: بچوں کے جھوٹ بولنے کی چند مثالیں یہ ہیں :
٭… اگر امی جان صبح مدرسہ میں جانے کے لئے اٹھاتی ہیں تو جھوٹا بہانہ کردیتے ہیں کہ میری طبیعت صحیح نہیں ، میرے سرمیں درد ہے، میرے پیٹ میں تکلیف ہے۔
٭… اسی طرح جب انہیں مدرسے کا سبق یاد کرنے کا کہا جائے تو جھوٹا عذر پیش کردیتے ہیں کہ مجھے نیند آرہی ہے، مجھے فلاں تکلیف ہے۔
٭… ایسے ہی جب ایک بچہ دوسرے بچے سے لڑائی جھگڑا کرلے یا کسی کومارے تو دریافت کرنے پر جھوٹ بول دیتاہے کہ میں نے تو نہیں مارا۔
٭… عموماً والدین اپنے بچے کو صحت کے لئے نقصان دہ چیزیں کھانے سے منع کرتے ہیں اور محلہ کے برُے لڑکوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بھی منع کرتے ہیں مگر بچے باز نہیں آتے اور والدین جب پوچھتے ہیں تو جھوٹ بول دیتے ہیں ۔
سوال …: جھوٹ بولنے کے چند نقصان بیان کیجیے؟
جواب …: جھوٹ بولنے کے چند نقصان یہ ہیں :
٭… جھوٹ کبیرہ گناہ ہے۔ ٭… جھوٹ منافق کی علامت ہے۔ ٭… جھوٹ جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔
٭… جھوٹ سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں ۔ ٭… جھوٹ سے گناہوں میں اضافہ ہوتاہے۔
٭… جھوٹ سے رزق میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ٭… اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے۔
٭… جھوٹ سے دل کالا ہوجاتاہے۔ ٭… جھوٹ بولنا کافروں ، منافقوں اور فاسقوں کا طریقہ ہے۔
٭… جھوٹ بولنے والے کو آخرت میں ہولناک عذاب دیا جائے گا کہ چمٹے سے اس کے گال، آنکھیں اور ناک چیرپھاڑ دیئے جائیں گے۔
٭… جھوٹ بولنے والوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اسکے پیارے رسو ل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بالکل بھی پسند نہیں فرماتے۔
پیارے مدنی منو! سچے دل سے توبہ کرلیجئے کہ آئندہ کبھی بھی کسی سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ نہ ہی جھوٹی قسمیں کھائیں گے، نہ جھوٹے لطیفے سنیں سنائیں گے، نہ ہی جھوٹے لطیفے اور جھوٹے خواب بیان کریں گے اور نہ ہی مذاق میں جھوٹ بولیں گے۔ بس ہمیشہ سچ بولیں گے کیونکہ سچائی جنت کا راستہ ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے۔
اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں جھوٹ کے گناہ سے محفوظ و مامون فرما، ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق مرحمت فرمااور ہمیں زبان کی جملہ آفتوں سے بچنے کے لئے زبان کا قفل مدینہ لگانے کی توفیق عطا فرما۔
بولوں نہ فضول اور رہیں نیچی نگاہیں
آنکھوں کا زبان کا دے خدا قفل مدینہ
٭…٭…٭
سوال …: غیبت سے کیا مراد ہے؟
جواب …: غیبت ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اس کی مراد درج ذیل تین اقوال سے سمجھئے:
٭… ایک بار ہمارے پیارے پیارے اور میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے دریافت فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟‘‘ عرض کی گئی: اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں ۔ فرمایا: (غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کی گئی: اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو؟ فرمایا: ’’جو با ت تم کہہ رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں موجود نہ ہوتو تم نے اس پر بہتان باندھا۔‘‘)[119](
٭… بہارِ شریعت میں ہے:غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔ )[120](
٭… عُلَمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام فرماتے ہیں : انسان کے کسی ايسے عیب کا ذکر کرنا جو اس ميں موجود ہو غيبت کہلاتا
ہے، اب وہ عیب چاہے اُس کے دين، دنيا، ذات، اَخلاق، مال، اولاد، بيوی، خادِم، غلام، عِمامہ، لباس، حرکات وسکنات، مسکراہٹ، ديوانگی، تُرش رُوئی اور خوش روئی وغیرہ کسی بھی ایسی چیز میں ہو جو اس کے مُتَعَلِّق ہو۔
جسم میں غیبت کی مثالیں : اندھا ، لنگڑا، گنجا، ٹِھگنا، لمبا، کالا اور زرد وغيرہ کہنا۔
دین میں غیبت کی مثالیں : فاسِق، چور، خائن، ظالم، نَماز ميں سُستی کرنے والا اور والِدَين کا نافرمان وغيرہ کہنا۔ کہا جاتا ہے کہ غيبت ميں کھجور کی سی مٹھاس اور شراب جيسی تیزی اور سرور ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس آفت سے ہماری حفاظت فرمائے۔)[121](
سوال …: کیا کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھا سکتا ہے؟
جواب …: جی نہیں ! ایسا کوئی بھی نہیں جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے۔البتہ! بعض ناعاقبت اندیش (وہ لوگ جنہیں اپنی آخرت کی فکر نہیں ) غیبت جیسے گھناؤنے گناہ میں مبتلا ہو کر گویا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے لگتے ہیں ۔چنانچہ فرمانِ باری تَعَالٰی ہے:
وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ (پ ۲۶، الحجرات: ۱۲)
ترجمۂ کنز الایمان: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے
تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا۔
غیبت کے بے شمار نقصانات میں سے چند درج ذیل ہیں :
٭… غیبت اور چغلی ایمان کو اس طرح جھاڑ دیتی ہیں جس طرح چرواہا درخت (سے پتے) جھاڑتا ہے۔ )[122](
٭… غیبت کرنے والا جہنم میں بندر کی شکل میں بدل جائے گا۔ )[123](
٭… شبِ معراج سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جو اپنے چہروں اور سِینوں کو تانبے کے ناخُنوں سے نوچ رہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ لوگوں کا گوشت کھاتے (یعنی غیبت کرتے) تھے۔)[124](
سوال …: کیا کوئی ایسا واقعہ مروی ہے جس سے ثابت ہو کہ غیبت کرنے والے نے واقعی مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہو؟
جواب …: جی ہاں ! حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سلطانِ دوجہان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صَحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو ایک دِن روزہ رکھنے کا حُکم دیا اور ارشاد فرمایا: جب تک میں اِجازت نہ دوں ، تم میں سے کوئی بھی اِفطار نہ کرے۔ لوگوں نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو تمام صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ایک ایک کرکے حاضِرِ خدمتِ بابَرَکت ہوکر عَرض کرتے رہے: یَارَسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں روزے سے رہا ، اب مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں روزہ کھول دُوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُسے اِجازت مَرحمت فرما دیتے۔ ایک صَحابی نے حاضِر ہوکر عَرض کی: آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! دو عورتوں نے روزہ رکھا اور وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ بابَرَکت میں آنے سے حیا محسوس کرتی ہیں ، اُنہیں اجازت دیجئے تاکہ وہ بھی روزہ کھول لیں ۔ اللہ کے مَحبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اُن سے رُخِ انور پھیرلیا،اُنہوں نے پھرعَرض کی، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پھر چِہرئہ انور پَھیرلیا۔ اُنہوں نے پھریہی بات دُہرا ئی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پھر چِہرئہ انور پَھیر لیا وہ پھر یہی با ت دُہرانے لگے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پھر رُخِ انورپھیرلیا، پھر غیب دان
رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (غَیب کی خبر دیتے ہوئے) ارشاد فرمایا: اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا وہ کیسی روزہ دار ہیں وہ تَو سارا دن لوگوں کا گوشت کھاتی رہیں ! جاؤ، ان دونوں کو حُکْم دو کہ وہ اگر روزہ دار ہیں تَو قَے کردیں ۔ وہ صَحابی اُن کے پاس تشریف لائے اور انہیں فرمانِ شاہی سُنایا۔ اِن دونوں نے قَے کی تَو قَے سے جما ہوا خُون نِکلا۔ اُن صَحابی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدمتِ بابَرَکت میں واپَس حاضِر ہو کر صُورتِ حال عَرض کی۔ مَدَنی آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اُس ذات کی قَسم !جس کے قَبضۂ قُدرت میں میری جان ہے! اگر یہ اُن کے پیٹوں میں باقی رہتا تَو اُن دونوں کوآگ کھاتی۔ (کیوں کہ انہوں نے غِیبت کی تھی))[125] (
ایک رِوایَت میں ہے کہ جب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان صَحابی سے مُنہ پھیرا تَو وہ سامنے آئے اور عَرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !وہ دونوں پیاس کی شدت سے مَرنے کے قریب ہیں ۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حُکم فرمایا:اُن دونوں کو میرے پاس لاؤ۔ وہ دونوں حاضِر ہوئیں ۔ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک پِیالہ منگوایا اور اُن میں سے ایک کو حُکْم فرمایا: اِس میں قَے کرو! اُس نے خون، پِیپ اور گوشت کی قَے کی، حتّٰی کہ آدھاپیالہ بھر گیا۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دُوسری کو حُکْم دیا کہ تم بھی اِس میں قَے کرو! اُس نے بھی اِسی طرح کی قَے کی،یہاں تک کہ پیالہ بھر گیا اللہ کے پیارے رسولصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اِن دونوں نے اللہ کی حَلال کردہ چیزوں (یعنی کھانے، پینے وغیرہ) سے تَو روزہ رکھا مگر جن چیزوں کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے (عِلاوہ روزے کے بھی) حرام رکھا ہے ان (حرام چیزوں ) سے روزہ اِفطار کر ڈالا! ہُوا یُوں کہ ایک دُوسری کے پاس بیٹھ گئی اور دونوں مِل کر لوگوں کا گوشت کھانے (یعنی غیبت کرنے) لگیں ۔)[126](
٭…٭…٭
لوگوں میں فساد ڈالنے کیلئے ایک کی بات دوسرے کو بتانا چغلی ہے۔ چغلی کرنا حرام ہے۔)[127]( چنانچہ چغل خور ی کی مذمت بیان کرتے ہوئے رب تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِیْنٍۙ(۱۰)هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍۙ(۱۱) (پ۲۹، القلم:۱۰، ۱۱)
ترجمۂ کنز الایمان: اورہرایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل بہت طعنے دینے والا بہت ادھر کی ادھر لگاتا پھر نے والا۔
(1)… چغل خور اور دوستوں میں جدائی ڈالنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک سب سے بد ترین لوگ ہیں ۔)[128](
(2)… میرے نزدیک سب سے ناپسند یدہ لوگ چغل خور ہیں جو دوستو ں کے درمیان جدائی ڈالتے اور پاکدامن لوگو ں میں عیب ڈھونڈتے ہیں ۔)[129](
(3)… لَایَدْخُلُ الْـجَنَّةَ قَتَّات ۔یعنی چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔)[130](
(4)…غیبت کرنے والوں ، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں پر عیب لگانے والوں کا حشر کتوں کی صورت میں ہوگا۔)[131](
(5)… جو لوگوں میں چغل خوری کرتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے لیے آگ کے جوتے بنائے گا جن سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔)[132](
٭…٭…٭
یہ تمنا کرنا کہ کسی کی نعمت اس سے زائل ہوکر مجھے مل جائے حسد کہلاتاہے۔ )[133](یعنی کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر تمنّا کرنا کہ کاش ! اِس سے یہ نعمت چِھن کر مجھے حاصِل ہو جائے حسد ہے۔ مَثَلاً کسی کی شہرت یا عزّت سے نفرت کا جذبہ رکھتے ہوئے خواہِش کرنا کہ یہ کسی طرح ذلیل ہو جائے اوراس کی جگہ مجھے عزّت کا مقام حاصِل ہو جائے، نیز کسی مالدار سے جَل کر یہ تمنّا کرنا کہ اِس کا کسی طرح نقصان ہو جائے اور یہ غریب ہو جائے اور میں اس کی جگہ پر دولت مند بن جاؤں ۔اس طرح کی تمنا کرنا حَسَد ہے۔
حسد کرنا بالاتفاق حرام ہے۔ )[134]( لیکن اگر یہ تمنا ہے کہ وہ خوبی مجھے بھی مل جائے اور اسے بھی حاصل رہے رشک کہلاتا ہے اور یہ جائز ہے ۔
جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوّت کے وسیلہ سے اہلِ ایمان کو نصرت و غلبہ و عزت وغیرہ نعمتوں سے سرفراز فرمایا تو یہودی ان سےحسد کرنےلگے۔ چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پارہ 5 سورۃ النساء کی آیت نمبر 54میں یہودیوں کے متعلق ارشاد فرمایا:
یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ- (پ۵، النسآء:۵۴)
ترجمۂ کنز الایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا۔
پارہ 30 سورۃ الفلق کی آیت نمبر 5میں ہے:
وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵) (پ۳۰، الفلق:۵)
ترجمۂ کنز الایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔
(1)… حسد ایمان کو اس طرح خراب کردیتاہے جس طرح ایلوا (یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔)[135](
(2)… حسد سے بچتے رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کوکھا جاتی ہے۔)[136](
(3)… حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا ان سے کوئی تعلق ہے ۔)[137](
(4)… لوگ جب تک آپس میں حسد نہ کريں گے ہمیشہ بھلائی پررہیں گے۔)[138](
(5)… ابلیس (اپنے چيلوں سے) کہتا ہے: انسانوں سے ظلم اور حسد کے اعمال کراؤ کیونکہ یہ دونوں عمل اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نزدیک شرک کے برابر ہیں ۔)[139](
(6)… اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں ۔ عرض کی گئی: وہ کون ہیں ؟ ارشاد فرمایا: وہ جو لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے فضل وکرم سے اُن کو نعمتیں عطا فرمائی ہيں ۔)[140](
حضرتِ سیِّدُنا فُضَیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے ایک شاگِرد کی نَزع کے وَقت تشریف لائے اور اُس کے پاس بیٹھ کر سورہ یٰس شریف پڑھنے لگے۔ تو اُس شاگِرد نے کہا: سورہ یٰس پڑھنا بند کر دو۔ پھر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے کلمہ شریف کی تلقین فرمائی۔ وہ بولا: میں ہرگزیہ کلمہ نہیں پڑھوں گا میں اِس سے بَیزار ہوں ۔ بس انہیں الفاظ پر اس کی موت واقِع ہوگئی۔ حضرتِ سیِّدُنافُضَیل رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے شاگِرد کے بُرے خاتِمے کا سخت صدمہ ہوا۔ چالیس روز تک اپنے گھر میں بیٹھے روتے رہے۔ چالیس دن کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے خواب میں دیکھا کہ فِرِشتے اُس شاگرد کو جہنَّم میں گھسیٹ رہے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اُس سے اِستِفسار فرمایا: کس سبب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تیری مَعرِفَت سَلب فرما لی؟ میرے شاگردوں میں تیرا مقام تو بَہُت اونچا تھا! اُس نے جواب دیا: تین عُیُوب کے سبب سے: (۱) چُغلی کہ میں اپنے ساتھیوں کو کچھ بتاتا تھا اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو کچھ اور (۲) حَسَد کہ میں اپنے ساتھیوں سے حَسَد کرتا تھا (۳) شراب نَوشی کہ ایک بیماری سے شِفاپانے کی غَرَض سے طبیب کے مشورہ پر ہر سال شراب کا ایک گلاس پِیتا تھا)[141](
٭…٭…٭
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدنی پنج سورہ میں سورۂ کہف کی فضیلت میں نقل فرماتے ہیں: (1) جو سورۂ کہف کی اوّل اور آخر سے تلاوت کرے گا اس کے سر تا پا نور ہی نور ہوگا اور جو اس کی مکمل تلاوت کرے گا، اس کے لیے آسمان اور زمین کے درمیان نُور ہوگا۔ (مسند احمد، حدیث معاذ بن انس، ۵/ ۳۱۱، حدیث:۱۵۶۲۶)(2) جو جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھے اس کے لئے دو جمعوں کے درمیان ایک نُور روشن کردیا جاتاہے۔ایک روایت میں ہے:جو شبِ جمعہ کو پڑھے اس کے اور بیتُ العتیق (یعنی کعبۃ اللہ شریف) کے درمیان ایک نُور روشن کردیا جاتا ہے۔ (شعب الایمان، ۲/ ۴۷۴، حدیث:۲۴۴۴)(3) جو سورۂ کہف کی پہلی دس آیتیں یاد کرے گا دَجّال سے محفوظ رہے گا اور ایک روایت میں ہے: جو سورۂ کہف کی آخری دس آیتیں یاد کرے گا دَجّال سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم، ص۴۰۴، حدیث:۸۰۹)
جب انسان کو غصہ آئے اور وہ اسے نافذ کرنے پر قدرت نہ پانے کی وجہ سے پی لے تو وہ غصہ دل میں بیٹھ کر بغض یعنی نفرت اور کینہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اس بغض و کینہ کے نتائج یہ مرتب ہوتے ہيں کہ بندہ اپنے مغضوب (یعنی جس پر غصہ آیا اس) سے حسد کرنے لگتا ہے یعنی اس سے نعمت کے زوال کی تمنا کر کے اس نعمت سے خود نفع اٹھانا چاہتا ہے یا اس کی پریشانی پر خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ اس سے اپنا تعلق ختم کر لیتا ہے۔ اگر وہ اِس کے پاس کسی ضرورت کے تحت آ جائے تو اِس کی زبان اس کے بارے میں حرام کی مرتکب ہوتی ہے اور وہ اُس کا مذاق اڑاتا، مسخری کرتا اور دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔ یہ تمام کام سخت گناہ اور حرام ہیں ۔
بچوں کو چونکہ دلی خیالات کے اچھے یا برُے ہونے کا علم نہیں ہوتا اس لئے دل میں جو آتا ہے کرتے چلے جاتے ہیں اور دوسرے پر اپنے دلی جذبات کا اظہار بھی کر دیتے ہیں ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ان کے دل میں کسی کا بغض یعنی کسی کی نفرت پائی جائے۔ مگر بغض و کینہ چونکہ اچھی چیز نہیں اس لئے بچوں کو اس سے متعلق بھی معلومات ہونا ضروری ہیں ۔ چنانچہ مَحبوبِ رَبُّ العزت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: مومن کینہ پرور نہیں ہوتا۔)[142](
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: بندوں کے اعمال ہر ہفتہ میں دو مرتبہ (بارگاہِ خداوندی میں ) پیش کئے جاتے ہیں ، پیر اور جمعرات کو۔ پس ہر بندے کی مغفرت ہو جاتی ہے سوائے اس کے جو اپنے کسی مسلمان بھائی سے بغض وکینہ رکھتا ہے، اس کے متعلق حکم دیا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑے رہو (یعنی فرشتے ان کے گناہوں کو نہ مٹائیں ) یہاں تک کہ وہ آپس کی عداوت سے باز آجائیں ۔)[143](
٭…٭…٭
”تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی“
کے 45 حروف کی نسبت سے کیا آپ نے چھٹے باب میں بیان کردہ
درج ذیل 45 سوالات کے جوابات جان لئے ہیں ؟
1 احتِرامِ مسلم کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
2 والدین کا احترام کرنے کے بجائے انہیں ستانا کیسا ہے؟
3 کیا ہم پر بڑے بھائی کا احترام کرنا ضروری ہے؟
4 رشتے داروں کے ساتھ ہمیں کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟
5 پڑوسیوں کے ساتھ ہمیں کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟
6 دوستوں اور ہم سفروں کے ساتھ ہمیں کیسا برتاؤ کرنا چاہئے؟
7 بطورِ مسلمان کیا ہمیں دوسروں کے دکھ درد کو ان کی مدد کرنی چاہئے؟
8 بطورِ مسلمان کیا ہمیں دوسروں کی دِل آزاری کرنی چاہئے؟
9 کیا دوسروں کی دِل آزاری جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتی ہے؟
10 کیا دوسروں کو تکلیف سے بچانا ہمیں جنت کا حق دار بنا سکتا ہے؟
11 ریا سے کیا مراد ہے؟
12 کیا ریاکاری کا شمار جہنم میں لے جانے والے اعمال میں ہوتا ہے؟
13 ریاکاری و ریاکار کے متعلق کم از کم دو فرامینِ باری تَعَالٰی مع ترجمۂ کنز الایمان سنائیے۔
14 ریاکاری و ریاکار کے متعلق کم از کم دو فرامینِ مصطفٰے بیان کیجیے۔
15 ریا کے متعلق وہ حدیثِ پاک مکمل سنائیے جس میں بروزِ قیامت ایک شہید، قاری اور مال دار شخص کو ریاکاری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا؟ نیز اس حدیثِ پاک سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے وہ بھی بتائیے۔
16 ریاکاری سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟
17 قرآنِ پاک میں مذخور مخلص مومن کی مثال مع ترجمۂ کنز الایمان و تفسیر خزائن العرفان بیان کیجئے۔
18 اخلاص کی فضیلت کے متعلق کم از کم تین فرامینِ مصطفٰے سنائیے۔
19 جھوٹ سے کیا مراد ہے؟
20 سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا؟
21 کیا جھوٹ بولنے کی طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہ ہے؟
22 اپریل فول مناناکیسا ہے؟
23 بعض بچے بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں ، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
24 جھوٹی قسم کھانا کیسا ہے؟
25 لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹے لطیفے سنانا کیسا ہے؟
26 بعض بچے لطیفے اور جھوٹی کہانی والی کتابیں پڑھتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
27 کیا مذاق میں جھوٹ بول سکتے ہیں ؟
28 بعض والدین بچوں کو ڈرانے کے لئے جھوٹی باتیں کرتے ہیں کہ فلاں چیز آرہی ہے یا بہلانے کے لئے کہتے ہیں کہ ادھر آؤ ہم تمہیں چیز دیں گے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس کاکیاحکم ہے؟
29 بعض بچے من گھڑت خواب سناتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
30 کیا یہ بات درست ہے کہ جھوٹ بولنے والے کے منہ سے بدبو نکلتی ہے؟
31 کیا جھوٹ بولنے کا اثر دل پر بھی ہوتاہے؟
32 جھوٹ بولنے والے کو آخرت میں کیا سزا ملے گی؟
33 بچوں کے جھوٹ بولنے کی چند ایک مثالیں بیان کیجئے۔
34 جھوٹ بولنے کے چند نقصان بیان کیجیے؟
35 غیبت سے کیا مراد ہے؟
36 کیا کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھا سکتا ہے؟
37 غیبت کے چند نقصان بیان کیجئے۔
38 کیا کوئی ایسا واقعہ مروی ہے جس سے ثابت ہو کہ غیبت کرنے والے نے واقعی مردہ بھائی کا گوشت کھایا ہو؟
39 چغلی سے کیا مراد ہے؟ اس کا شرعی حکم بیان کیجئے۔
40 چغلی کی مذمت کے متعلق تین فرامینِ مصطفٰے بیان کیجئے۔
41 حسد کسے کہتے ہیں ؟
42 حسد کا شرعی حکم بیان کیجئے۔
43 حسد کی مذمت قرآن و حدیث (کم از کم ایک آیت اور تین احادیث) کی روشنی میں بیان کیجئے۔
44 کیا یہ درست ہے کہ حسد برے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے؟
45 بغض و کینہ سے کیا مراد ہے؟
٭…٭…٭
امیر المومنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ میںنے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر،سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ہر نماز کے بعد آیَةُ الکرسی پڑھے اسے جنت میں داخل ہونے سے موت کے سوا کوئی چیز نہیں روکتی اورجوکوئی رات کو سوتے وقت اسے پڑھے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّاسے، اس کے گھر کو اور آس پاس کے گھر وںکو محفوظ فرما دے گا۔(شُعَبُ الْاِیْمَان، ۲ /۴۵۸ ، حدیث ۲۳۹۵)
باب: 7
دعوتِ اسلامی
اس باب میں آپ پڑھیں گے:
نیکی کی دعوت، دعوتِ اسلامی کی مدنی بہاریں ، فیضانِ سنت سے درس دینے کا طریقہ
بلحاظِ موصوعاتی ترتیب 40مدنی انعامات اور دعوتِ اسلامی کی اصطلاحات
فرمانِ باری تَعَالٰی ہے:
خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ- (پ ۳، ال عمران:۱۱۰ )
ترجمۂ کنز الایمان: تم بہتر ہو اُن سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
پیارے مدنی منو! دیکھا آپ نے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں سابقہ تمام امتوں میں بہتر امت ارشاد فرمایا ہے مگر یاد رکھیں ہمیں بہتر امت اس لئے نہیں کہا کہ اس امت میں بڑے بڑے انجینئر، ڈاکٹرز، دانشور اور دولت مند ہوں گے۔ نہیں نہیں بلکہ ہم کو تو بہتر امت اس لئے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ امت آپس میں نیکی کی دعوت دیتی ہے یعنی اچھی بات کا حکم کرتی اور بری بات سے منع کرتی ہے۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر دور میں ایک ایسا بندہ پیدا فرماتا ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے نیکی کی دعوت کی دھوم مچاتا ہے، انہیں نیک بندوں میں ایک نام شیخ طریقت، امیر اہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا بھی ہے۔ آپ نے ذوالقعدۃ الحرام ۱۴۰۱ھ بمطابق ستمبر عَزَّ وَجَلَّ 981ء میں نیکی کی دعوت کی دھوم مچانے کے عظیم مقصد کے تحت غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیکی کی دعوت کی یہ عظیم تحریک دنیا کے عَزَّ وَجَلَّ 72سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔
اس مدنی تحریک نے ہر خاص و عام کے سینے میں یہ عظیم جذبہ بیدار کر دیا ہے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ چنانچہ اس مقصد کی تکمیل اور نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے تحت بے شمار مدنی قافلے راہِ خدا میں گھرگھر، شہر بہ شہر، گاؤں بہ گاؤں، ملک بہ ملک سفر کرکے بے نمازیوں کو نماز کی، غافلوں کو بیداری کی، جاہلوں کو علم و معرفت کی، فاسقوں کو تقویٰ کی، بروں کو بھلائی کی اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے میں مصروفِ عمل ہيں۔
سُبْحَانَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں ۔ ان خوش نصیبوں کے لئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:
وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الْمُسْلِمِیۡنَ)۳۳( (پ ۲۴، حم السجدۃ: ۳۳)
ترجمۂ کنز الایمان: اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں ۔
جب کوئی مسلمان نیکی کی دعوت دیتاہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے ۔ چنانچہ امام غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! جو اپنے بھائی کو بلائے اسے نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرے اس کی جزا کیا ہے؟ فرمایا: میں اس کی ہر بات کے بدلے ایک سال کی عبادت کا ثواب لکھتا ہوں اور اسے جہنم کی سزا دیتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔)[144](
نیکی کی دعوت عام کرنے کے اس سچے جذبے کے تحت امیر اہلسنت نے اپنے مریدین، محبین، متعلقین اور اپنی پیاری تحریک دعوت اسلامی کو ایک مدنی مقصد عطا فرمایا ہے:
مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
آئیے ہم سب دعوت اسلامی کے ساتھ مل کر ساری دنیا میں نیکی کی دعوت پہنچانے کا عزم کریں ۔
٭…٭…٭
دعوت اسلامی کی مدنی بہاریں
(1) دعائے مدینہ کی برکت
مرکز الاولیاء (لاہور، پاکستان) کے مقیم ایک اسلامی بھائی اپنی توبہ کا تذکرہ کرتے ہیں کہ میں دعوتِ اسلامی کے مُشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے قبل بہت بگڑا ہوا انسان تھا۔ لڑائی جھگڑا مول لینا، دوسروں کو بلاوجہ تنگ کرنا میرا پسندیدہ کام تھا۔ میری بری عادتوں کی وجہ سے میرے گھر والے اور اہل محلّہ سب ہی پریشان تھے مگر مجھے کسی کی کوئی پروا نہ تھی یہاں تک کہ والدین کی بات بھی نہ سنتا تھا۔ آج کے اس پر فتن دور کے آوارہ لڑکوں کی طرح قبر وآخرت سے غافل ہوکر بس اپنی موج مستی میں مگن انمول زندگی کو بے مقصد ضائع کر رہا تھا کہ ایک دن مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے پیاس کی شدت مجھے مسجد میں لے گئی۔ میرا مسجد میں جانا میری زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا کر گیا، میری پیاس کی شدت تو ختم ہو گئی مگر میں رحمتِ خداوندی کی چھماچھم برسات میں بھیگ کر ہمیشہ کے لیے کرمِ خداوندی کا پیاسا ہو گیا، ہوا کچھ یوں کہ پانی پیتے ہوئے اچانک ایک پرسوز آواز میرے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی کوئی بارگاہِ خداوندی میں یوں دعا کر رہا تھا: اللہ مجھے حافظِ قرآن بنادے۔ یہ الفاظ تھے یا ترکش سے نکلے ہوئے تیر جو میرے سینے میں پیوست ہوتے گئے، عالم شعور میں اک محشر برپا ہوگیا، مجھے اپنی بری عادات کی وجہ سے گویا عذابِ خداوندی آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگا، بالآخر ندامت کے آنسوؤں کی برسات نے دل کی سیاہی دھونا شروع کی تو ضمیر کی وادیوں سے یہ صدا بلند ہوئی اب مجھے اپنی بری عادات سے جان چھڑا لینا چاہئے۔ میں نے وہیں پختہ ارادہ کر لیا کہ مجھے بھی حافظِ قرآن بننا ہے۔ چنانچہ یہ نیک جذبات لیے گھر پہنچا اور والدین کی خدمت میں اپنی اس نیک آرزو کا اظہار کیا توانہیں یقین نہ آیا ، شاید اسی وجہ سے بخوشی اجازت دینے کے بجائے صاف صاف انکا ر کر دیا۔ مجھے بے حد افسوس ہوا لیکن میں نے کوشش جاری رکھی اور بالآخر بڑی مشکل سے مان گئے اور مجھے تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدرسۃ المدینہ میں داخلہ دلا دیا۔ اب میں روزانہ ذوق وشوق سے پڑھنے لگا۔ یہاں آکر اصل زندگی کا احساس ہوا طلباء کے
اَخلاق وکردار اور اساتذہ کی سنّتوں بھری تربیت کی برکت سے میرے معمولاتِ زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ۔ اخلاق وکردار میں ایک نکھار آگیا، نمازوں کا پابند بن گیا، والدین کی پہلے ایک نہ سنتا تھا اور اب والدین کی قدم بوسی کی سعادت پانے والے خوش نصیبوں میں شامل ہوگیا۔ کل تک والدین اور اہل محلہ میری بری خصلتوں کی وجہ سے بیزار نظر آتے تھے آج میرے اخلاق وکردار کی تعریفیں کرنے لگے۔ یہ سب مدرسۃ المدینہ میں ہونے والی تربیت کی برکت تھی کہ میں کچھ ہی دنوں میں گھر اور محلہ والوں کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ تادمِ تحریر حلقہ مشاورت ذمہ دارکی حیثیت سے سنتوں کی خدمت کے لیے کوشاں ہوں ۔
مدینۃ الاولیا (ملتان شریف پنجاب پاکستان) کی بستی ہائے والا کے ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ مَیں بچپن میں بُری صحبت کی وجہ سے گناہوں کی تاریک وادیوں میں بھٹک رہا تھا، بُرے دوستوں کی سنگت نے میرے اخلاق وکردار کو تباہ کردیا تھا، فلم بینی کا اس قدر شائق تھا کہ فلم دیکھے بغیر چَین آتا نہ وَقْت گزرتا۔ میرے اعمال کی وجہ سے دوسروں کی دل آزاری ہو یا مال کی بربادی مجھے کچھ پروا نہ تھی، اس گناہوں بھری زندگی پر کوئی ندامت تھی نہ کوئی افسوس۔ نفس وشیطان کے اشاروں پر زندگی کے شب و روز پَر لگائے گزر رہے تھے۔ شاید غفلت، کھیل کود اور ہنسی مذاق میں دوسروں کی کھانے پینے والی اشیاء پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے زندگی یونہی تمام ہوجاتی کہ ایک دن مجھ پر میرے رب کا خاص کرم ہوگیا سبب کچھ یوں بنا کہ دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ایک اسلامی بھائی نے والد صاحب پر انفردی کوشش کی کہ آپ اپنے صاحبزادے کو مدرسۃ المدینہ میں داخل کروا دیں ۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے اخلاق وکردار بہتر ہوجائیں گے۔ والد محترم ہاتھوں ہاتھ تیار ہوگئے اور میری اصلاح کے جذبے کے تحت مجھے مدرسۃ المدینہ میں داخل کروا دیا۔ میرے لیے یہ ایک انوکھا ماحول تھا، بالخصوص مدنی منوں کے عمدہ اخلاق اور اچھی عادات سے میں متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ الغرض یہاں کے سنّتوں بھرے مدنی ماحول کی خوشبوؤں سے میرا ظاہر
وباطن معطر ومعنبر ہونے لگا۔ مدرسۃ المدینہ کی پر نور فضاؤں میں آنے سے قبل میری زندگی کے شب روز برے دوستوں کے ساتھ مختلف شرارتیں کرتے گزرتے اور اب قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے بسر ہونے لگے، کھیل کود اور برے دوستوں سے دل اُچاٹ ہوگیا، دِل میں خوفِ خدا و عِشْقِ مصطفٰے کی شمع کیا فروزاں ہوئی مجھے علم دین سے پیار ہوگیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ دل میں ایک سوز وگداز کی کیفیت محسوس کرنے لگا، میری وجہ سے ہمیشہ دوسروں کی آنکھوں میں پانی رہتا مگر کبھی میری آنکھوں نے آنسوؤں کا ذائقہ نہ چکھا تھا اب یہی آنکھیں خوفِ خدا کے باعث اشکباری کی چاشنی سے ایسی آشنا ہوئیں کہ بس اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کب انہیں برسنے کا کوئی موقع ملے، روزانہ فکرِ مدینہ کا کارڈ پر کرنے سے میری بے ہودہ فکریں دور ہو گئیں ، میری آوارہ سوچ کو ٹھکانا مل گیا اور میں سنّتوں کا عامل بن گیا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ یہ سب مدرسۃ المدینہ کے سنّتوں بھرے مدنی ماحول کا فیضان ہے کہ جس نے مجھے قبر وآخرت کی تیاری کرنے والے خوش نصیب عاشقانِ رسول کی فہرست میں شامل کر دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ تادم تحریر جامعۃالمدینہ میں درسِ نظامی (عالم کورس) کی سعادت پارہاہوں ۔
باب المدینہ (کراچی) کے علاقے لانڈھی کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا لب لباب ہے کہ مدنی ماحول سے وابستگی سے قبل میں ہر روز نت نئے فیشن اپنانے اور بدنگاہی و بے حیائی کے ریکارڈ بنانے میں مصروف رہتا۔ نمازوں کی پابندی کا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا، یونہی دن رات گناہوں کی دلدل میں دھنستا جارہا تھا کہ میری سعادتوں کا سفر شروع ہوا اور میں مدنی ماحول سے وابستہ اپنے ایک ہم جماعت دوست کی ترغیب پر گاہے گاہے نماز پڑھنے لگا، مزید انفرادی کوشش پر میں مدرسۃ المدینہ میں داخلہ لے کر نورِ قرآن سے منور ہونے والے خوش نصیب طلباء میں شامل ہوگیا۔ یہاں کے روح پرور سنّتوں بھرے مدنی ماحول کا مدنی رنگ مجھ پر چڑھنے لگا، عمامہ شریف کا تاج اور سفید مدنی لباس گویا کہ میرے بدن کا حصہ بن گیا، نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ تہجد کی سعادت بھی پانے لگا اور سب سے بڑھ کر
یہ انقلاب میری زندگی میں رونما ہوا کہ بدنگاہی کی مرتکب میری آنکھوں پر حیا کا قفلِ مدینہ لگ گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اساتذہ کی شفقت و تربیت کی برکت سے میں دل جمعی کے ساتھ قرآنِ پاک حفظ کرنے میں مشغول ہوگیا، آخر شب روز کی کوششیں رنگ لائیں اور میں عَزَّ وَجَلَّ 5ماہ کے قلیل عر صے میں مکمل حافظِ قرآن بن گیا ۔
ضلع گجرات (پنجاب پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی کی تحریر کا خلاصہ ہے کہ ہمارا گھرانہ بد عملی کا شکا رتھا، کوئی فرد نماز نہ پڑھتا جس کی نحوست سے ایک عجب ماحول رہتا، ہر وقت فلموں ڈراموں کا شور وغل تھمنے کا نام نہ لیتا، کسی کو اپنی آخرت کی فکر تھی نہ یہ پروا کہ اسے مرنا اور اندھیری قبر میں اتر کر اپنی بد اعمالیوں کا خمیازہ بھگتنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب گھر کے بڑے ہی نمازوں اور نیکی کے کاموں سے دور ہوں تو چھوٹوں کی اصلاح بہت بعید ہے، میری قسمت اچھی تھی کہ دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ایک اسلامی بھائی کی ترغیب پر میں نے مدرسۃ المدینہ میں داخلہ لے لیا۔ اساتذہ کی اصلاح پر مبنی تربیت اور باعمل طلباء کی صحبت کی برکت سے سنّتوں پر عمل کرنے کا جذبہ میرے دل میں پیدا ہوا اور میں نے نمازوں کی پابندی شروع کردی، اس کی برکت سے سب گھر والے میرے اخلاق وکردار سے متاثر ہونے لگے اور میری دیکھا دیکھی باقی گھر والوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی۔ والد صاحب نے داڑھی شریف سجالی، گھر کا گناہوں بھرا ماحول رخصت ہوگیا اور اب فلموں ڈراموں کی جگہ نعتِ مصطفٰے اور امیر اہلسنّت کے بیانات نے لے لی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ یوں مدرسۃ المدینہ میں ہونے والی میری اخلاقی تربیت کی برکت سے میرا پورا گھرانہ سنّتوں کا گہوارہ بن گیا اور سب لوگ دامنِ عطا ر سے بھی وابستہ ہو گئے۔
با ب المدینہ (کراچی) کے علاقہ رنچھوڑ لائن کے ایک اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں بدمذہبوں کے ایک ادارے میں پڑھتا تھا ان سے نجات کی صورت کچھ یوں بنی کہ ایک مرتبہ ماہِ ربیع الاول کی مبارک ساعتوں میں جب
ہر سو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادتِ با سعادت کے چرچے ہو رہے تھے، گلی کوچوں کو سجایا جارہا تھا، گھروں میں چراغاں کا اہتمام ہو رہا تھا، جگہ جگہ محافل ذکر و نعت منعقد ہو رہی تھیں ، مگر میرے مدرسے والے تھے کہ نہ وہاں در و دیوار کو سجایا گیا نہ کسی قسم کے چراغاں کا اہتمام ہوا، مزید یہ کہ جب بارہ ربیع الاول کے مبارک دن انہوں نے بچوں کو میلاد کے جلوس میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے چھٹی نہ دی تو میرے والد محترم کو تشویش ہوئی کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو نہ تو خود سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے یومِ ولادت کی خوشی مناتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو منانے دیتے ہیں ۔ لہٰذا فوراً مجھے اس ادارے سے نکال کر میلاد شریف منانے والے عاشقانِ رسول کے ادارے یعنی مدرسۃ المدینہ میں داخل کروا دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مدرسۃ المدینہ میں ہونے والی اخلاقی تربیت کی برکت سے میری زندگی میں بہار آگئی اور میں سنتوں کا شیدائی بن گیا۔ تادمِ تحریر تنظیمی ترکیب سے ذیلی مشاورت کے خادم کی حیثیت سے دینِ متین کی خدمت میں مصروفِ عمل ہوں ۔
لانڈھی (باب المدینہ کراچی) میں مقیم اسلامی بھائی کے مکتوب کاخلاصہ ہے:یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں چوتھی جماعت کاطالب علم تھا۔ہماری کلاس میں ایک طالب علم ایسابھی تھاجوفارغ اوقات میں ہمیں اچھی اچھی باتیں بتاتااوران پرعمل کی ترغیب بھی دلاتاتھا۔ ایک روزمیں نے اس سے پوچھا: آپ یہ پیاری پیاری باتیں کہاں سے سیکھتے ہیں ؟ اِس پر اُس کم سن مبلغ نے بتایا کہ میں اپنے علاقے کی مسجدمیں نمازپڑھنے جاتا ہوں ، وہاں ہرروز نمازِ مغرب کے بعد ’’فیضانِ سنّت‘‘ کا درس ہوتا ہے ، میں اسے بغور سنتا ہوں اور یہ پیاری پیاری باتیں وہیں سے سیکھتا ہوں ۔یہ جواب سن کرمیں بیحد متاثر ہوا اور میں نے بھی اپنے محلے کی مسجد میں جانا شروع کردیا، مغرب کی نمازکے بعدوہاں بھی درسِ فیضانِ سنّت ہوتا تھا، میں اس میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ َسنّتوں بھرے درس کی برکت سے میری زندگی میں مدنی انقلاب برپا ہو گیا اور میں مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ہو کر امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ
کا مرید ہوگیا، جب سے دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مدنی ماحول سے وابستگی نصیب ہوئی میں نہ صرف نمازوں کا پابند بن گیا بلکہ میرے سب کام سنور گئے۔مدنی ماحول میں آنے سے قبل میں تعلیمی سرگرمیوں میں نہایت کمزور تھا لیکن مدنی ماحول سے کیا وابستہ ہوا تعلیمی میدان میں پوزیشن ہولڈر بن گیا۔ اس وقت میں ایک پرائیویٹ فرم میں ڈپٹی منیجر کے فرائض سرانجام دے رہاہوں اوراپنے دفتری اوقات میں (وقفے کے دوران) اپنے ملازمین اسلامی بھائیوں کوبھی درسِ فیضانِ سنّت دینے کی کوشش کرتاہوں ۔
حیدر آباد (سندھ پاکستان) کے ایک اسلامی بھائی اپنے بچپن کے متعلق کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ عَزَّ وَجَلَّ 2سال کی عمر میں مجھ پر اچھے کام کرنے کا جنون سوار تھا مگر علمِ دین سے دوری کی بنا پر یہ نہ جانتا تھا کہ اچھے کام ہیں کون کون سے۔ حسنِ اتفاق سے میرے ماموں جان نے حفظِ قرآن کی نیت سے اپنے بچوں کے ساتھ مجھے بھی مدرسۃ المدینہ میں داخل کروا دیا۔ یہاں دینی معلومات کا انمول خزانہ، نمازوں کا ذوق اور سنّتوں کی برکتیں حاصل ہوئیں ۔ سر پر سبز عمامے شریف کا تاج سجا تو بدن پر سفید لباس۔یوں سنّتوں بھری زندگی گزارنے لگا۔ بدقسمتی سے گھر والوں اور دوست احباب کی طنزیہ گفتگو کی وجہ سے میرا دل ٹوٹ گیا، ایسے میں شیطان نے اپنا بھر پور وار کیا اور مجھے دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے دور برے دوستوں کی صحبت میں پھینک دیا، ایک عرصہ تک بھٹکتا رہا اپنے نامۂ اعمال کو گناہوں سے سیاہ کرتا رہا۔ ایک دن اچانک اس بات کا احساس ہوا کہ مجھ سے اتنا پیارا نیکیوں بھرا مدنی ماحول کیوں چھوٹ گیا۔ پھر کچھ اسلامی بھائیوں نے بھی انفرادی کوشش کی۔ یوں میں دوبارہ مدرسۃ المدینہ میں داخل ہوگیا اور دل جمعی سے قرآن پاک حفظ کرنے میں مشغول ہوگیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ حفظ مکمل کرنے کے بعد ایک عر صے تک مدرسۃ المدینہ میں مدرس کے فرائض سرانجام دینے کی سعادت حاصل کی اور تادمِ تحریر مدرسۃ المدینہ میں ناظم کے منصب پر فائز ہوں اور ایک حلقے کا ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ امامت کی بھی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔
مرکز الاولیاء (لاہور) کے علاقے نیونیشنل ٹاؤن میں مقیم اسلامی بھائی کے مکتوب کا لُبِّ لُباب ہے کہ میں ایک ورکشاپ میں ملازم تھا۔ ایک روز میری ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی تو اسے دیکھ کر حیرت کے مارے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ میرا وہ دوست جو کل تک نت نئے فیشن کا شوقین اور ٹھٹھہ مسخری کرنے والا تھا، بالکل ہی بدل چکا ہے۔ ان کے سر پر سبز سبز عمامے کا تاج سجا ہوا تھا اور جسم پر سنّت کے مطابق آدھی پنڈلی تک سفید کرتا، چہرے پرایک مُشت داڑھی شریف نے مزید ان کی شخصیت کو نکھار دیا تھا۔ میرے چہرے پر حیرانی کے آثار دیکھ کر انہوں نے اپنی اس تبدیلی کا راز یوں آشکار کیا کہ کچھ عرصہ قبل میری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے ہوئی جو دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ تھے۔ ان کا انداز کچھ ایسا دل موہ لینے والا تھا کہ میں ان سے وقتاً فوقتاً ملنے لگا۔ اس عاشقِ رسول کی صحبت میں مجھے اصلاح کے پیارے پیارے مدنی پھول ملتے۔ کئی بار انہوں نے دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے اجتماع کی دعوت بھی پیش کی۔ آخر ایک روز مجھے شرکت کی سعادت مل ہی گئی۔ ان دنوں مرکز الاولیاء (لاہور) میں ہفتہ وار اجتماع ہر جمعرات کو جامع مسجد حنفیہ (سوڈیوال ملتان روڈ) میں ہوتا تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اجتماع میں شرکت، مدنی قافلوں میں سفر اور عاشقانِ رسول کی صحبت نے میری زندگی میں مدنی انقلاب برپا کردیا۔ جسے دیکھ کر آپ حیرت زدہ ہیں ۔ میرا تو آپ کی خدمت میں مدنی مشورہ ہے کہ آپ بھی دعوتِ اسلامی کے سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کر کے دیکھیں ، کیسی بہاریں نصیب ہوتی ہیں ۔ اس اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں نے نیت تو کی مگر بدقسمتی سے جا نہ سکا۔ میرے چھوٹے بھائی نے دعوتِ اسلامی کے قائم کردہ مدرستہ المدینہ میں قرآنِ پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ ان کو پڑھانے والے استاد صاحب کے عَزَّ وَجَلَّ 2 سالہ بیٹے جو میرے بھائی سے ملاقات کے لیے آتے رہتے تھے۔ وہ جمعرات کو جب کبھی ہمارے گھر آتے تو بڑی اپنائیت سے اجتماع کی دعوت پیش فرماتے۔ میں ٹال مٹول کر دیتا مگروہ جمعرات کو آپہنچتے اور اصرار کرتے۔ آخرکار ایک روز وہ کامیاب ہو ہی گئے اور میں ان کے ہمراہ دعوتِ اسلامی کے
سنّتوں بھرے اجتماع میں جا پہنچا۔ میں نے پہلی بار اتنے نوجوان سنتوں بھرے لباس میں ملبوس سبز عمامہ سجائے دیکھے تھے۔ ان کی مسکراہٹ و ملاقات کا پیار بھرا انداز میں بھلا نہ سکا پھر جب سنّتوں بھرا بیان سنا اور رِقَّت انگیز دُعا میں شرکت کی تو میرے تاریک دل میں عشقِ رسول کی ایسی شمع روشن ہوئی کہ کچھ ہی عرصہ میں نہ صرف چہرے پر سنّت کے مطابق داڑھی سجالی بلکہ سبز عمامے کا تاج بھی سر پر سج گیا۔ میں سلسلۂ نقشبندیہ میں مرید تھا مزید فیوض و برکات کے حصول کے لیے شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت حضرت علاّمہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ذریعے سلسلۂ قادریہ رضویہ میں طالب بھی ہوگیا ہوں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول کی برکتوں کو دنیا بھر میں عام کرے کہ جس نے مجھ سے گنہگار انسان کوعمل کاجذبہ عطافرمایا اور میں اپنے دوست اور اپنے بھائی کے دوست مَدَنی منے کا بہت شکرگزار ہوں جن کی انفرادی کوشش سے میں ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شریک ہوا اور میری زندگی اعمالِ صالحہ کے نور سے منور ہو گئی۔
باب المدینہ (کراچی) کے علاقے کھوکھرا پار ملیر توسیعی کالونیکے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے : مجھ پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا بڑا فضل و کرم تھا کیونکہ مجھے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسر تھا اور میں شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علاّمہ مولاناابو بلال محمد الیاس عطّارقادری رَضَوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا مرید بھی تھا یہی وجہ تھی کہ میں نماز روزوں کا پابند ،باعمامہ ،باریش، سفید لباس میں ملبوس، سنّتوں سے نہ صرف محبت کرنے والا بلکہ سنّتیں اپنانے والا معاشرے کا ایک باکردار مسلمان بن چکاتھا۔ دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں پابندی سے شرکت کیا کرتا تھا اور صرف یہی نہیں بلکہ فیضانِ سنّت سے درس دینا اور سننا میرے روز مرّہ کے معمولات کا ایک حصہ تھا، علاقے میں کتنے ہی لوگ تھے جومیری انفرادی کوشش سے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو کر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیاری پیاری سنّتوں کی چلتی پھرتی تصویر بن چکے تھے، لیکن اس کے باوجود جب
میں اپنے بڑے بھائی کو دیکھتا تو بہت کڑھتا کیوں کہ وہ یادِ الٰہی سے غافل دنیا کی رنگینیوں میں مست زندگی گزار رہے تھے، نماز روزوں کی ادائیگی تو دور کی بات وہ تو عید کی نماز پڑھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتے تھے، بلکہ فلموں ، ڈراموں اور گانے باجوں میں ہی دلچسپی رکھتے تھے، میں نے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے عطاکردہ عظیم مدنی مقصد ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘ کے تحت بارہا ان کی اصلاح کے لئے انفرادی کوشش کی مگر ان پر میری باتوں کا کوئی خاص اثر نہ ہوا ایک مرتبہ ہمارے گھر میں امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے بیان کی کیسٹ ’’قبر کی پکار‘‘ چل رہی تھی، اس دن بڑے بھائی بھی اپنے کمرے میں بیٹھے بیان سن رہے تھے ایک ولیٔ کامل کے درد مندانہ اور پر تاثیر الفاظ ان کے دل پراثر کر گئے، انہوں نے اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی اور نماز روزوں کا اہتمام شروع کر دیا میں نے ان کے اندر یہ تبدیلی دیکھی توموقع غنیمت جانتے ہوئے انہیں دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کے لئے اپنے ساتھ لے جانے لگا اور یوں آہستہ آہستہ وہ دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوگئے ، سر پر عمامہ شریف کا تاج، چہرے پر سنّت کے مطابق ایک مٹھی داڑھی شریف سجالی، سفید مدنی لباس بھی اپنا لیا اور یوں امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ایک بیان کی برکت سے دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا سارا گھر مدنی رنگ میں رنگ گیا، تادمِ تحریر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ان کے تین بیٹے حفظ قرآنِ کریم کی سعادت حاصل کر چکے ہیں اور ان میں سے ایک تو یکے بعد دیگرے تین بار12ماہ کے مدنی قافلے میں بھی سفر کرچکے ہیں اور بڑی بیٹی علاقائی سطح پر اسلامی بہنوں کی ذمہ دار ہیں ۔
٭…٭…٭
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدنی پنج سورہ میں سورۂ دخان کی فضیلت میں نقل فرماتے ہیں: (1) جو کسی رات میں سورۂ دُخَان پڑھے گا تو صبح ہونے تک ستر ہزار فرشتے اُس کے لیے دُعائے مغفرت کرتے رہیں گے۔ (ترمذی، ۴/ ۴۰۶، حدیث:۲۸۹۷) (2) جوجمعہ کے دن یا رات میں سورۂ دُخَان پڑھے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ جنت میں اس کے لیے ایک گھر بنائے گا۔ (المعجم الکبیر، ۸/ ۲۶۴، حدیث:۸۰۲۶)
تین بارا س طرح اعلان فرمایئے: قریب قریب تشریف لائیے۔
پھر پردے میں پردہ کئے دو زانو بیٹھ کر اس طرح ابتِدا کیجئے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
اس کے بعد اِس طرح دُرودو سلام پڑھایئے:
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ
اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا نَبِیَّ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا نُو رَاللہ
اگر مسجِد میں ہیں تو اس طرح اعتکا ف کی نیت کروایئے:
نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَاف ترجمہ: میں نے سنّتِ اعتکاف کی نیت کی۔
پھر اس طرح کہئے! میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قریب قریب آ کر درس کی تَعظِیم کی نیّت سے ہو سکے تو دوزانو بیٹھ جائیے اگر تھک جائیں تو جس طرح آپ کو آسانی ہو اُسی طرح بیٹھ کر نگاہیں نیچی کیے توجُّہ کے ساتھ فیضانِ سُنَّت کا دَرس سنئے کہ لاپرواہی کیساتھ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے، زمین پر اُنگلی سے کھیلتے ہوئے، لباس بدن یا بالوں وغیرہ کو سَہْلاتے ہوئے سُننے سے اس کی بَرَکتیں زائل ہونے کا اندیشہ ہے۔ (بیان کے آغازمیں بھی اِسی انداز میں ترغیب دِلایئے) یہ کہنے کے بعد فیضانِ سنَّت سے دیکھ کر دُرُود شریف کی ایک فضیلت بیان کیجئے ۔
پھر کہئے: صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جو کچھ لکھا ہوا ہے وُہی پڑھ کر سنایئے۔آیات و عَرَبی عبارات کا صِرْف ترجَمہ پڑھئے۔ کسی بھی آیت یا حدیث کا اپنی رائے سے ہر گزخُلاصہ مت کیجئے۔
(ہر مُبلّغ كو چاہیےكہ زَبانی یاد كر لے اور درس وبیان كے آخر میں بِلا كمی و بیشی اِسی طرح ترغیب دلایا كرے)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ! تبلیغ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مَدَنی ماحول میں بکثرت سنتیں سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں ۔ (اپنے یہاں کے ہفتہ وار اجتِماع کا اعلان اس طرح کیجئے مثلاً بابُ المدینہ کراچی والے کہیں ) ہر جُمعرات کو فیضانِ مدینہ مَحَلّہ سوداگران پُرانی سبزی منڈی میں مغرِب کی نَماز کے بعد ہونے والے سنتوں بھرے اجتِماع میں ساری رات گزارنے کی مَدَنی التجا ہے۔ عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافِلوں میں سنتوں کی تربیّت کیلئے سفر اور روزانہ فکر مدینہ کے ذَرِیْعے مَدَنی اِنعامات کا رسالہ پُر کر کے ہر مَدَنی ماہ کے ابتِدائی دس دن کے اندر اندر اپنے یہاں کے ذمّہ دار کو جَمع کروانے کا معمول بنا لیجئے۔ اِس کی بَرَکت سے پابندِ سنّت بننے، گناہوں سے نفرت کرنے اور ایمان کی حفاظت کیلئے کُڑھنے کا ذِہن بنے گا۔ ہر اسلامی بھائی اپنا یہ مَدَنی ذِہن بنا ئے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشِش کرنی ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنی اِصلاح کی کوشِش کیلئے مَدَنی اِنعامات پر عمل اور ساری دنیا کے لوگوں کی اِصلاح کی کوشِش کیلئے مَدَنی قافِلوں میں سفر کرنا ہے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو!
آخِر میں خشوع وخُضُوع (یعنی بدن کی عاجِزی و انکساری اور دل ودماغ کی حاضری) کے ساتھ دُعا میں ہاتھ اُٹھانے کے آداب بجالاتے ہوئے بلا کمی و بیشی اس طرح دعا مانگئے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
یاربِّ مصطَفٰے ! بطفیل مصطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری، ہمارے ماں باپ کی اور ساری اُمّت کی مغفِرت فرما۔ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! درس کی غلَطیاں اور تمام گناہ مُعاف فرما، عمل کا جذبہ دے، ہمیں پرہیزگار اور ماں باپ کا فرماں
بردار بنا۔ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں اپنا اور اپنے مَدَنی حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کامُخلِص عاشِق بنا۔ ہمیں گناہوں کی بیماریوں سے شِفا عطا فرما۔ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں مَدَنی انعامات پر عمل کرنے، مَدَنی قافِلوں میں سفر کرنے اور اِنفِرادی کوشِش کے ذَرِیعے دوسروں کو بھی مَدَنی کاموں کی ترغیب دلوانے کا جذبہ عطا فرما۔ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مسلمانوں کو بیماریوں ، قرض داریوں ، بے رُوزگاریوں ، بے اولادیوں ، بے جا مقدّمہ بازیوں اور طرح طرح کی پریشانیوں سے نَجات عطا فرما۔ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! اسلام کا بول بالا کر ا ور دُشمنانِ اسلام کا منہ کالا کر۔ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں استِقامت عطا فرما۔ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! ہمیں زَیرِگنبدِخَضرا جلوۂ محبوب میں شہادت، جنَّتُ الْبقیع میں مدفن اور جنَّتُ الفردوس میں اپنے مدنی حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پڑوس نصیب فرما۔
یااللہ عَزَّ وَجَلَّ ! مدینے کی خوشبو دار ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا واسِطہ ہماری جائز دُعائیں قبول فرما۔
کہتے رہتے ہیں دعا کے واسطے بندے تیرے
کر دے پوری آرزو ہر بے کس و مجبور کی
اٰمِین بِجَاہِ النَّبی الْاَمِینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
شعر کے بعد یہ آیت ِدُرُود اور دُعا کی اختتامی آیات پڑھئے:
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ۲۲، الاحزاب:۵۶)
ترجمۂ کنز الایمان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
سب دُرُودشریف پڑھ لیں پھر پڑھئے:
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ(۱۸۰)وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ(۱۸۱)وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠(۱۸۲) (پ ۲۳، الصفت:۱۸۰ تا ۱۸۲)
ترجمۂ کنز الایمان: پاکی ہے تمہارے رب کو عزت والے رب کو ان کی باتوں سے۔ اور سلام ہے پیغمبروں پر۔ اور سب خوبیاں اللہ کو جو سارے جہان کا رب ہے۔
٭…٭…٭
[1]… دلیل قطعی وہ ہے جس کاثبوت قرآن پاک یاحدیث متواترہ سے ہو۔ (فتاوی فقیہ ملت، ۱/ ۲۰۴)
[2]… دلیل ظنی وہ ہے جس کاثبوت قرآن پاک یاحدیث متواترہ سے نہ ہو،بلکہ احادیث احاد یامحض اقوال ائمہ سے ہو۔ (فتاوی فقیہ ملت ،ج۱،ص۲۰۴)
[3]… مسلم،کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الاجتماع …الخ، ص۱۴۴۷، حدیث:۳۸ - (۲۶۹۹)
[4]… ترمذی،کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴/ ۲۹۴، حدیث:۲۶۵۶
[5]… المرجع السابق، باب اذا اراد اللہ …الخ، حدیث:۲۶۵۴
[6]… دارمی، باب مذاکرۃ العلم، ۱/ ۱۵۷، حدیث: ۶۱۴
[7]… ترمذی،کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴/ ۳۱۴، حدیث: ۲۶۹۵
[8]… بخاری، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، ۱/ ۵۴
[9]… دارمی، باب فی فضل العلم والعالم، ۱/ ۱۰۸، حدیث:۳۳۵
[10]… دارمی، باب فی فضل العلم والعالم، ۱/ ۱۱۲، حدیث:۳۵۴
[12]… تاریخ بغداد، ۳/ ۳۹۷، حدیث:۱۵۳۵
[13]… الترغیب والترھیب، کتاب العلم، باب الترغیب فی العلم...الخ، ۱/ ۵۰، حدیث:۵
[14]… جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی فضل العلم، ص۶۴، حدیث:۱۹۴
[15]… ابن ماجہ،کتاب السنۃ، باب ثواب معلم الناس الخیر، ۱/ ۱۵۸، حدیث:۲۴۳
[16]… تفسیر کبیر، پ۱، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۱/ ۴۱۰
[17]… کنزالعمال، کتاب العلم، الجزء العاشر، ۵/ ۷۶، حدیث: ۲۸۹۰۴
[18]… کنزالعمال، کتاب العلم، الجزء العاشر، ۵/ ۶۴، حدیث: ۲۸۷۵۱
[19]… دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی تعاھد القرآن، ۲/ ۵۳۰ ، حدیث: ۳۳۴۵
[20]… ترمذی، كتاب فضائل القران، باب ماجاء فی من قرا حرفا...الخ ، ۴/ ۴۱۷، حديث: ۲۹۱۹
[21]… مشکاۃ المصابيح، كتاب فضائل القرآن، ۱/ ۳۹۸، حديث: ۲۱۱۶ ملخصاً
[22]… تفسير كبير، الباب الحادی العشر، النکت المستخرجۃ من البسملۃ، ۱/۱۵۵
[24]… ماخوذ از نزھۃالقاری شرح صحیح البخاری، باب بدء الوحی، ۱/ ۲۲۴
[25]… اشعۃ اللمعات، ۱/ ۳۶
[26]… فتاویٰ رضویہ، ۵/ ۶۷۳
[27]… اشعۃاللمعات، ۱/ ۳۷ ملخصاً
[28]… اچھی اچھی نیّتوں سے متعلق رَہنمائی کیلئے شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا سنّتوں بھرا کیسٹ بیان نیّت کا پھل اورنیتوں سے متعلق آپ کے مُرتّب کردہ کارڈ یا پمفلٹ مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ہدیّۃً حاصِل فرمائیں۔
[29]… المعجم الکبير، ۶/ ۱۸۵، حديث: ۵۹۴۲
[30]… جامع الاحادیث، ۲/ ۱۹، حدیث:۳۵۵۴
[31]… کنزالعمال،کتاب الاخلاق،باب النیۃ، ۳/ ۱۶۹، حدیث:۷۲۴۵
[32]… کنزالعمال،کتاب الاخلاق، باب الزھد، ۳/ ۷۵، حدیث:۶۰۵۳
[33]… تاریخ بغداد، ۲/ ۴۴۳، حدیث:۶۹۲۶
[34]… احیا ء العلوم، ۲/ ۸ ماخوذاً
[36]… وسائل الوصول، الباب الثانی، الفصل الخامس، ص۸۷
[37]… شمائل محمدية، باب ماجاء فی تعطر رسول الله صلی الله تعالی عليه واله وسلم ،ص ۱۳۰، حدیث: ۲۰۸
[38]… ترمذی ،کتاب الادب ،باب ما جآء فی طیب الرجال والنسآء، ۴/ ۳۶۱، حدیث: ۲۷۹۶
[39]… مسلم،کتاب الالفاظ من الادب وغیرہ، باباستعمال المسک …الخ، ص۱۲۳۷، حدیث: ۲۱ - (۲۲۵۴)
[40]… كنزالعمال، كتاب المعيشة والعادات، الجزء الخامس عشر، ۸/ ۲۰۵، حديث:۴۱۹۰۶
[41]… فتاویٰ رضویہ، ۶/ ۲۰۹ ملتقطاً
[42]… فردوس الاخبار، ۱/ ۴۱۰، حديث : ۳۰۵۴
[43]… فردوس الاخبار، ۲/ ۳۱، حديث :۳۶۶۱
[44]… الجامع الصغير، ص ۳۱۱، حديث :۱۸۱۷
[46]… مستدرك، كتاب اللباس، باب اعتموا تزدادوا حلما، ۵/ ۲۷۲، حديث:۷۴۸۸
[47]… فردوس الاخبار، ۲/ ۹۱، حديث :۴۱۱۱
[48]… فردوس الاخبار، ۱/ ۳۲۸، حديث : ۲۳۹۳
[49]… مرقاة، کتاب اللباس، الفصل الثانی، ۸/ ۱۴۸، تحت الحديث:۴۳۴۰
[51]… ابن ماجه، كتاب الاطعمة، باب الضيافة، ۴/ ۵۱، حديث : ۳۳۵۶
[52]… فردوس الاخبار، ۲/ ۴۱، حدیث: ۳۷۱۱
[53]… كنزالعمال، كتاب الضيافة، الجزء التاسع، ۵/ ۱۱۹، حديث:۲۵۹۷۲
[54]… ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ ، باب الضیافۃ، ۴/ ۵۲، حدیث: ۳۳۵۸
[55]… ابو داود،کتاب الادب،باب فی ھدی الرجل، ۴/ ۳۴۹، حدیث: ۴۸۶۳
[56]… اشعۃاللمعات، ۳/ ۳۸۹
[57]… ابو داود، کتاب الجھاد،باب فی الدلجۃ، ۳/ ۴۰، حدیث: ۷۱ ۲۵
[59]… مستدرک ،کتاب البر والصلۃ،باب برّو ا آباءکم تبرکم ابناؤکم، ۵/ ۲۱۳، حدیث: ۷۳۴۰
[60]… ابن ماجہ ،کتاب الجھاد ،باب تشییع الغزاۃ ووداعھم، ۳/ ۳۷۲، حدیث: ۲۸۲۵ ماخوذاً
[61]… ابو داود ،کتاب الجھاد، باب ما يقول الرجل اذا ركب، ۳/ ۴۹، حدیث :۲۶۰۲
[62]… ترمذی،کتاب الدعوات،باب ماذکر فی دعوۃ المسافر، ۵/ ۲۸۰، حدیث: ۳۴۵۹
[64]… الحصن الحصین، ادعیۃ السفر ،ص۸۰
[65]… الحصن الحصین، ادعیۃ السفر،ص۸۲
[66]… کنز العمال ،کتاب السفر ،الفصل الثانی فی آداب السفر، الجزء السادس، ۳/ ۳۰۱، حدیث: ۱۷۵۰۸
[67]… بخاری ،کتاب الجھاد، باب الصلاۃ اذا قدم من سفر، ۲/ ۳۳۶، حدیث: ۳۰۸۸
[68]… مسند احمد، ۱۰/ ۱۱۵، حدیث: ۲۶۲۶۹
[69]… ابن ماجہ،کتاب الزھد ،باب الزھد فی الدنیا، ۴/ ۴۲۲، حدیث: ۴۱۰۱
[70]… ترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ، باب ۵۰، ۴/ ۲۲۵، حدیث: ۲۵۰۹
[71]… وسائل الوصول، الباب الثانی، الفصل الثامن، ص ۹۳
[72]… مسند احمد، ۴/ ۱۹۰، حدیث: ۱۱۹۰۸
[73]… کیمیائے سعادت ،رکن سوم مہلکات ،باب پیداکردن ثواب خاموشی، ۲/ ۵۶۳
[74]… فتاوی رضویہ، ۲۱/ ۱۲۷ ماخوذاً
[75]… موسوعة الامام ابن ابی الدنيا، کتاب الصمت وآداب اللسان، ۷/ ۲۰۴، حديث: ۳۲۵
[76]… شمائل محمدیۃ، باب ماجاء فی شعر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، ص ۳۷، حدیث: ۲۸
[77]… المرجع السابق، ص ۳۵، حدیث: ۲۵
[78]… المرجع السابق، ص ۳۴، حدیث: ۲۴
[79]… بهار ِشريعت، حجامت بنوانا اور ناخن ترشوانا، ۳/ ۵۸۷ ماخوذاً
[80]… مدنی مشورہ: چھوٹے مدنی منوں کا حَلْق کرواتے (یعنی سر مُنڈواتے) رَہنا بھی مناسِب ہے اور اگر سنّت کی نیّت سے زلفیں رکھنی ہوں تو آدھے کان سے زائد نہ رکھیں۔
[81]… ابو داود ، کتاب الجنائز ، باب الدعاء للمريض عند العیادۃ ، ۳ / ۲۵۱، حدیث:۳۱۰۶
[83]… ابن ماجہ ،کتاب الجنائز ،باب ماجاء فی ثواب من عا د مریضاً،۲/ ۱۹۲، حدیث: ۱۴۴۳
[84]… مسند احمد، ۴/ ۴۷، حدیث: ۱۱۱۸۰
[85]… ابو داود ،کتاب الجنائز ، باب فی فضل العیادۃ …الخ، ۳/ ۲۴۸، حدیث: ۳۰۹۷
[86]… الترغیب والتر ھیب ،کتاب الجنائز ، باب الترغیب فی عیادۃ المرضی …الخ، ۴/ ۱۶۶، حدیث: ۱۹
[87]… ابن ماجہ، کتاب الجنائز ، باب ماجاء فی عیادۃ المریض، ۲/ ۱۹۱، حدیث: ۱۴۴۱
[88]… مسند احمد، ۲/ ۳۵۱، حدیث: ۵۳۷۲ ملخصاً
[89]… شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان، فصل فی حفظ حق … الخ، ۶/ ۲۱۰، حدیث: ۷۹۲۹
[90]… مستدرک، کتاب البر والصلۃ، باب من سرہ ان یدفع … الخ، ۵/ ۲۲۲، حدیث: ۷۳۶۲
[91]… ابن ماجہ، کتاب الزھد، الثناء الحسن، ۴/ ۴۷۹، حدیث: ۴۲۲۳
[92]… شرح السنۃ، کتاب السیر والجھاد، باب العقبۃ، ۵/ ۵۶۵، حدیث: ۲۶۸۰
[93]… حلیۃ الاولیاء، ۶/ ۳۸۹، حدیث: ۹۰۳۸
[94]… الترغيب والترھيب ،كتاب البروالصلة،باب الترغيب فی قصاء حوائج المسلمين، ۳/ ۲۶۴، حديث :۱۳
[95]… مسلم ،كتاب الايمان ،باب بيان تفاضل الاسلام … الخ، ص۴۱، حديث: ۶۵ - (۴۱)
[96]… در منثور، پ۲۲، الاحزاب، ۶/ ۶۵۷، تحت الآیۃ: ۵۸
[97]… مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل ازالۃ الاذی عن الطریق، ص ۱۴۱۰، حدیث: ۱۲۷ - (۱۹۱۴)
[98]… الادب المفرد للبخاری، باب البغی، ص ۱۵۵، حديث :۵۹۳
[99]… مسلم ،كتاب البروالصلة والآداب،باب استحباب العفووالتواضع، ص ۱۳۹۷، حديث: ۶۹ - (۲۵۸۸)
[100]… المعجم الاوسط، ۴/ ۱۳۵، حدیث:۵۴۷۸
[101]… تفسیر روح البیان، پ۱۲، ھود، ۴/ ۱۰۸، تحت الآیۃ:۱۵
[103]… الترغیب والترھیب،کتاب الاخلاص، ۱/ ۴۷، حدیث: ۵۴
[104]… جامع الاحادیث، ۲/ ۴۷۶، حدیث:۶۷۲۵
[105]… المعجم الکبیر، ۲۲/ ۳۱۹، حدیث : ۸۰۵
[106]… مسلم،کتاب الامارۃ،باب من قاتل للریاء … الخ، ص۱۰۵۵، حدیث:۱۵۲ - (۱۹۰۵)
[107]… کیمیائے سعادت، رکب چہارم، اصل پنجم، حقیقت اخلاص، ۲/ ۸۷۶
[108]… مستدرک ، کتاب التفسیر، باب خطبۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم …الخ ، ۳/ ۶۵، حدیث: ۳۳۳۰ ملتقطاً
[109]… نسائی، کتاب الجھاد، باب من غزا يلتمس الاجر والذكر، ص ۵۱۰، حدیث:۳۱۳۷
[110]… دار قطنی، کتاب الطھار ت ، باب النیۃ، ۱/ ۷۳، حدیث:۱۳۰ ملخصاً
[111]… مستدرک ،کتاب الرقاق، ۵/ ۴۳۵، حدیث: ۷۹۱۴
[112]… المعجم الاوسط، ۴/ ۳۰، حدیث: ۵۱۰۵
[113]… حدیقہ ندیہ، ۲/ ۲۰۰
[114]… ترمذی، كتاب الزھد، باب ما جاء من تکلم … الخ، ۴/ ۱۴۲، حديث:۲۳۲۲
[115]… شعب الايمان، الباب الرابع والثلاثون من شعب الایمان، باب في حفظ اللسان، ۴/ ۲۱۳، حديث:۴۸۳۲
[116]… ترمذی، کتاب الرؤیا، باب فی الذی یکذب فی حلمہ، ۴/ ۱۲۵، حدیث: ۲۲۹۰
[117]… ترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، ۳/ ۴۰۰، حدیث:۲۰۰۰
[118]… بخاری، كتاب الجنائز، باب ۹۳، ۱/ ۴۶۷، حديث:۱۳۸۶ ملخصاً
[119]… مسلم،كتاب البروالصلة والآداب ،باب تحريم الغيبة، ص۱۳۹۷ ، حدیث: ۷۰ - (۲۵۸۹)
[120]… بہارِ شریعت، زبان کو روکنا اور گالی گلوج غیبت اور چغلی سے پرہیز کرنا، ۳/ ۵۳۲
[121]… الزواجر عن اقتراف الکبائر، الکبیرۃ الثامنۃ والتاسعۃ والاربعون بعد المأتین …الخ، ۲/ ۲۴، ۲۵ ملخصاً
[122]… الترغیب والترھیب، کتاب الادب وغیرہ، باب الترھیب من الغیبۃ …الخ، ۳/ ۳۳۲، حدیث: ۲۸
[123]… تنبیہ المغترین، ومنھا سر باب الغیبۃ … الخ، ص ۱۹۴
[124]… ابوداود، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴/ ۳۵۳، حدیث: ۴۸۷۸ ملخصاً
[125]… ذم الغیبۃلابن ابی الدنیا، ص۷۲، الحدیث: ۳۱
[126]… مسند احمد، ۹/ ۱۶۵، الحدیث: ۲۳۷۱۴
[127]… حدیقہ ندیہ، ۲/ ۴۲۷
[128]… مسند احمد، ۶/ ۲۹۱، حدیث: ۱۸۰۲۰
[129]… مجمع الزوائد ،کتاب الادب،باب ماجاء فی حسن الخلق، ۸/ ۴۷، حدیث: ۱۲۶۶۸
[130]… بخاری ، کتاب الادب ، باب مایکرہ من النمیمۃ ، ۴/ ۱۱۵، حدیث: ۶۰۵۶
[131]… الترغیب والترھیب ، کتاب الادب وغیرہ، باب الترھیب من النمیمۃ، ۳/ ۳۲۵، حدیث: ۱۰
[133]… بہارِ شریعت، بغض و حسد کا بیان، ۱/ ۵۴۲ ماخوذاً
[134]… المرجع السابق
[135]… کنزالعمال، کتاب الاخلاق، الجزء الثالث، ۲/ ۱۸۶، حدیث:۷۴۳۷
[136]… ابو داود، کتاب الادب، باب فی حسد، ۴/ ۳۶۰، حدیث:۴۹۰۳
[137]… مجمع الزوائد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الغیبۃ والنمیمۃ، ۸/ ۱۷۲، حدیث:۱۳۱۲۶
[138]… المعجم الکبیر، ۸/ ۳۰۹، حدیث:۸۱۵۷
[139]… جامع الاحادیث، ۳/ ۶۰، حدیث:۷۲۶۹
[140]… شعب الایمان ، باب فی الحث علی ترک الغل والحسد، الحدیث تحت الباب، ۵/ ۲۶۳
[141]… مِنھاجُ العابِدین، ص۱۶۵
[142]… کشف الخفاء، ۲/ ۲۶۲، حدیث:۲۶۸۴
[143]… مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھی عن الشحناء والتھاجر، ص۱۳۸۷ ، حدیث: ۳۶ - (۲۵۶۵)
[144]… مكاشفة القلوب، الباب الخامس عشر فی الامر بالمعروف …الخ، ص۴۸