اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے رِوایَت ہے، فرماتے ہیں: ”اِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْءٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ بے شک دُعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہری رہتی ہے، اس میں سے کوئی چیز اُوپر کی طرف نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرود نہ پڑھ لو۔“ ([1])
؏ کعبے کے بَدْرُ الدُّجٰی تم پہ کروروں دُرود
طیبہ کے شمس الضحی تم پہ کروروں دُرود([2])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سرزمین مکہ میں آباد قبیلہ قریش کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تجارت پر تھا کیونکہ یہ پوری وادی سنگلاخ وسخت پتھریلی چٹانوں پر مشتمل تھی جس کے چاروں
طرف دُور دُور تک بےآب وگیاہ اور لق ودَق صحرا پھیلے ہوئے تھے یہی وجہ تھی کہ یہاں زراعت اور کھیتی باڑی کے امکانات بالکل ختم ہو کر رہ گئے تھے۔ قریش کے افراد سال میں دو۲ بار تجارتی سفر اختیار کرتے تھے، سردیوں میں یمن کی طرف اور گرمیوں میں شام کی طرف۔ پارہ 30، سورۂ قریش کی آیت نمبر ایک۱ اور دو۲ میں اللہ رَبُّ الْعِزّت کا فرمان ہے:
لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍۙ(۱)اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیْفِۚ(۲) (پ۳۰، قریش:۱،۲)
ترجمهٔ کنزالایمان:اس لیے کہ قریش کو میل دِلایا۔ اُن کے جاڑے (سردی) اور گرمی دونوں کے کُوچ میں میل دِلایا (رغبت دِلائی)۔
صَدْرُ الْاَفاضِل حضرتِ علّامہ مفتی سیِّد محمد نعیمُ الدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْہَادِی ان آیات کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بےشمار ہیں ان میں سے ایک نعمتِ ظاہِرہ یہ ہے کہ اُس نے قریش کو ہر سال میں دو۲ سفروں کی طرف رغبت دِلائی، اِن کی محبت اُن میں ڈالی، جاڑے (سردی) کے موسم میں یمن کا سفر اور گرمی کے موسم میں شام کا کہ قریش تجارت کے لئے ان موسموں میں یہ سفر کرتے تھےاور ہر جگہ کے لوگ انہیں اہل حرم کہتے تھے اور ان کی عزت و حرمت کرتے تھے، یہ امن کے ساتھ تجارتیں کرتے اور فائدے اُٹھاتے اور مکہ مکرمہ میں اِقامت کرنے کے لئے سرمایہ بہم پہنچاتے جہاں نہ کھیتی ہے نہ اور اسبابِ معاش۔([3])
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا قبیلہ قریش کی ایک بہت ہی باہمت، بلند حوصلہ اور زِیْرَک (عقل مند) خاتون تھیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت بہترین اوصاف سے نوازا تھا جن کی بدولت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا جاہلیت کے دَورِ شر وفساد میں ہی طاہِرہ کے پاکیزہ لقب سے مشہور ہو چکی تھیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی اعلیٰ صفات اور اعزازات کا ذِکْر کرتے ہوئے آپ کی سہیلی حضرتِ سیِّدَتُنا نفیسہ بنتِ منیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: ”كَانَتْ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ امْرَأَةً حَازِمَةً جَلْدَةً شَرِيفَةً مَعَ مَا أَرَادَ اللّٰهُ بِهَا مِنَ الْكَرَامَةِ وَالْخَيْرِ وَهِیَ يَوْمَئِذٍ أَوْسَطُ قُرَيْشٍ نَسَبًا وَّأَعْظَمُهُمْ شَرَفًا وَّأَكْثَرُهُمْ مَالًا یعنی حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا دُور اندیش، سلیقہ شعار، پریشانیوں اورمصیبتوں کے مقابلے میں بہت بلند حوصلہ وہمت رکھنے والی اور معزز خاتون تھیں، ساتھ ہی ساتھ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو عزت وشرف اور خیر وبھلائی سے بھی خوب نوازا تھا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا قریش میں اعلیٰ نسب رکھنے والی، بہت ہی بلند رتبہ اور سب سے زیادہ مالدار خاتون تھیں۔“([4])
دو۲ مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی شادی ہو چکی تھی پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ
تمیمی سے ہوئی اِس کے فوت ہو جانے کے بعد عتیق بن عابِد مخزومی سے،§ جب یہ بھی وفات پا گیا تو کئی رؤسائے قریش نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو شادی کے لئے پیغام دیا لیکن آپ نے انکار فرما دیا اور کسی کا بھی پیغام قبول نہ کیا چنانچہ اب اکیلے ہی اپنی اولاد کے ساتھ زندگی کے روز وشب گُزَار رہی تھیں۔ حضرتِ نفیسہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: ”كُلُّ قَوْمِهَا كَانَ حَرِيصًا عَلَى نِكَاحِهَا لَوْ قَدَرَ عَلَى ذٰلِكَ قَدْ طَلَبُوهَا وَبَذَلُوا لَهَا الأَمْوَالَ قوم کے تمام اَفراد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح کی خواہش رکھتے تھے کہ کاش! وہ اس کی قدرت رکھتے، وہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو شادی کی درخواست کر چکے تھے اور اس مقصد کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو مال و زر بھی پیش کئے تھے۔“([5])
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بہت ہی زیادہ مال دار خاتون تھیں، دیگر قریشیوں کی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی تجارت کیا کرتی تھیں، عام لوگوں کی نسبت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا سامانِ تجارت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ روایت میں ہے کہ صرف آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے مالِ تجارت سے لدے اُونٹ عام قریشیوں کے اُونٹوں کے برابر ہوتے تھے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا لوگوں کو مزدور
بھی رکھتی تھیں اور مُضَارَبَت§ (Investment) کے طور پر بھی مال دیا کرتی تھیں۔([6]) چنانچہ ہر تاجر کی طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بھی ایسے ذِی شُعُور، سمجھ دار، ہوشیار، باصلاحیت اور سلیقہ مند افراد کی ضرورت رہتی ہو گی جو امین اور دیانت دار بھی ہوں۔
ادھر سرکارِ نامدار، مکے مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُسْنِ اَخلاق، راست بازی، ایمان داری اور دیانت داری کا شہرہ ہر خاص وعام کی زبان پر تھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے غیر معمولی اَخلاقی ومُعَاشَرَتی اوصاف کی بِنا پر اخلاقی پستی کے اُس دَورِ جاہلیت میں ہی امین کہہ کر پکارے جانے لگے تھے۔ حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا تک بھی اگرچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ان صفاتِ عالیہ کی شہرت پہنچ چکی تھی اور اس وجہ سے آپ، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنا سامان دے کر تجارتی قافلے کے ساتھ روانہ بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن یہ خیال کر کے کہ پتا نہیں حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسے قبول فرمائیں گے بھی یا نہیں، اپنا ارادہ ترک کر دیتیں۔§
شب وروز گزرتے رہے حتی کہ رسولِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اعلانِ نبوت سے تقریباً 15 برس پہلے کا دَور آ جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی شام کے سفر پر جانے کے لئے اہل عرب کا تجارتی قافلہ تیار ہے، تاجِر حضرات تیاریوں میں مصروف ہیں، اس سال حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابوطالب کی مالی حالت بہت کمزور ہے، غربت و مفلسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنے بھتیجے حضرتِ سیِّدنا محمد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قافلے کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہیں، مروی ہے کہ انہوں نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہا: اے بھتیجے! میں ایسا آدمی ہوں جس کے پاس مال و دولت نہیں، ہمیں سنگین حالات درپیش ہیں، خشک سالی کے بُرے سال برقرار ہیں اور ہمارے پاس سازوسامان ہے نہ مالِ تجارت۔ یہ آپ کی قوم کا قافلہ شام کی طرف روانہ ہونے والا ہے اور خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد بھی قوم کے بیشتر افراد کو قافلے میں بھیج رہی ہیں جو اس کے مال سے تجارت کریں گے اور نفع پائیں گے۔ اگر آپ ان کے پاس جائیں اور ان کا مال خود لے جانے کی پیشکش کریں تو مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کا انتخاب کرنے میں دیر نہیں کریں گی مزید یہ کہ آپ کو دوسروں پر فضیلت دیں گی کیونکہ اُنہیں آپ کی طہارت و پاکیزگی کی خبریں پہنچی ہوئی ہیں۔ اگرچہ میں،
آپ کا شام جانا پسند نہیں کرتا اور آپ کی جان پر یہودیوں کی طرف سے اندیشہ کرتا ہوں لیکن اب اس کے سِوا کوئی چارہ بھی نہیں۔([7])
جب ابوطالِب نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس جا کر خود کو تجارت کے لئے پیش کرنے کا کہا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی کے پاس سائل و طالِب بن کر جانے کو ناپسند جانا، رِوایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جواباً اِرشاد فرمایا: ”فَلَعَلَّهَا اَنْ تُرْسِلَ اِلَیَّ فِیْ ذٰلِکَ شاید کہ وہ خود ہی مجھے اس سلسلے میں بُلا بھیجے۔“ اس پر ابوطالِب نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ وہ کسی اور کو منتخب کر لیں گی اور پھر آپ ایسی چیز کو طلب کریں گے جو منہ پھیر چکی ہو گی۔ ([8])
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور ابوطالب کے درمیان ہونے والی بات چیت پہنچ گئی۔ اس سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو رسولِ امین، صاحبِ قرآنِ مُبِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی راست گوئی، عظیم امانتداری اور مَحاسِنِ اَخلاق کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا (اور اسی
باعِث آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مالِ تجارت کے ساتھ روانہ بھی کرنا چاہتی تھیں) لیکن پھر فرماتیں: پتا نہیں، حُضُور اس کا ارادہ رکھتے بھی ہیں کہ نہیں؟ (جب ابوطالِب اور حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درمیان ہونے والی بات چیت سے اُنہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آمادگی کا اِظہار دیکھا تو) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بُلا بھیجا اور عَرْض کیا: ”اِنَّهٗ قَدْ دَعَانِیْ اِلَی الْبَعْثَةِ اِلَيْكَ مَا بَلَغَنِیْ مِنْ حَدِيْثِكَ وَ عِظَمِ اَمَانَتِكَ وَكَرَمِ اَخْلَاقِكَ وَ اَنَا اُعْطِیْكَ ضِعْفَ مَا اُعْطِیْ رَجُلاً مِّنْ قَوْمِكَ آپ کو بُلا بھیجنے کی وجہ صرف وہ بات ہے جو مجھے آپ کی سچائی، امانت داری اور مَحاسِنِ اَخلاق کے بارے میں پہنچی ہے، اگر آپ میرے مال کو تجارت کے لئے لے جانے کی پیشکش قبول فرما لیں تو میں آپ کو اس کی نسبت دگنا مُعاوَضہ دوں گی جو آپ کی قوم کے دوسرے لوگوں کو دیتی ہوں۔“
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے قبول فرما لیا۔ جب اپنے چچا ابوطالِب سے اس کا ذِکْر کیا تو وہ کہنے لگے: ”اِنَّ ھٰذَا لَرِزْقٌ سَاقَہُ اللہُ اِلَیْکَ بے شک یہ رِزْق ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔“([9])
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنے غلام میسرہ کو حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ کر دیا تھا اور یہ تاکید کی کہ کسی بات میں آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نافرمانی نہ کرے اور نہ آپ کی رائے سے اِخْتِلاف کرے۔ روانگی سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچاؤں نے قافلے والوں کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر شفقت کرنے کا کہا۔بوقتِ روانگی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بادل نے سایہ کیا ہوا تھا۔([10])
سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور میسرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سفر کرتے کرتے جب شام پہنچے تو یہاں انہوں نے بُصْریٰ کے بازار میں ایک درخت کے سائے تلے پڑاؤ کیا اس کے قریب ہی ایک عیسائی راہِب نَسْطُورا کی عِبادت گاہ واقع تھی، راہِب چونکہ میسرہ کو پہلے سے ہی جانتے تھے چنانچہ جب اُنہوں نے میسرہ کو دیکھا تو کہنے لگے: ”یَامَیْسَرَۃُ! مَنْ ھٰذَا الَّذِیْ نَـزَ لَ تَحْتَ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ؟ اے میسرہ! یہ اس درخت کے نیچے پڑاؤ کرنے والے شخص کون ہیں؟“ میسرہ نے کہا: حَرَم والوں میں سے قریش کے ہی ایک فرد ہیں۔ راہِب نے کہا: اس درخت کے سائے میں نبی کے سِوا کوئی نہیں ٹھہرا۔ پھر پوچھا: ”فِیْ عَیْنَیْہِ حُمْرَۃٌ؟ اِن کی آنکھوں میں سرخی ہے؟“ میسرہ نے کہا: ہاں، ہے اور وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔اس پر راہِب کہنے لگا: ”ھُوَ ھُوَ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ یَا لَیْتَ اَنِّیْ اُدْرِکُہٗ حِیْنَ یُؤْمَرُ بِالْخُرُوْجِ یہی ہیں، یہی آخری نبی ہیں، اے کاش! میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اُس وَقْت پا سکوں جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کو اعلانِ نبوت کا حکم ہو گا۔“([11])
ایک رِوایَت میں ہے کہ جب راہِب نے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بادل کو سایہ فگن دیکھا تو گھبرا کر پوچھا: تم کون ہو؟ حضرتِ میسرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے جواب دیا: خدیجہ کا غلام میسرہ۔ پھر وہ رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سرِ اقدس اور قَدَمَیْنِ شَرِیْفَیْن کو بوسہ دیتے ہوئے کہا: ”اٰمَنْتُ بِکَ وَاَنَا اَشْھَدُ اَنَّکَ الَّذِیْ ذَکَرَہُ اللہُ فِیْ التَّوْرَاۃِ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لاتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی ہیں جن کا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تورات شریف میں ذکر فرمایا ہے۔“ پھر کہا: اے مُحَمَّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں نے آپ میں ایک علامت کے سِوا بقیہ سب علامات دیکھ لی ہیں، آپ میرے سامنے اپنے دَوْشِ مُبارَک (کندھوں) سے کپڑا ہٹائیے تا کہ میں وہ علامت بھی دیکھ لوں۔ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب اپنے دَوْشِ مُبارَک سے کپڑا ہٹایا تو وہاں مہرِ نبوت جگمگا رہی تھی۔ عیسائی راہب نے جو اسے دیکھا تو بوسے دینے لگا اور کہا: ”اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللہِ النَّبِیُّ الْاُمِّیُّ الَّذِیْ بَشَّرَ بِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ فَاِنَّہٗ قَالَ: لَا یَنْزِلُ بَعْدِیْ تَحْتَ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّا النَّبِیُّ الْاُمِّیُّ الْھَاشِمِیُّ الْعَرَبِیُّ الْمَکِّیُّ صَاحِبُ الْحَوْضِ وَ الشَّفَاعَۃِ وَ صَاحِبُ لِوَآءِ الْحَمْدِ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سِوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے وہ اُمِّی رسول و نبی ہیں جن کی حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بشارت دی تھی، اُنہوں نے فرمایا تھا: میرے بعد اس درخت کے نیچے وہ نبی ٹھہرے گا جو اُمِّی، ہاشِمِی، عَرَبی اور مکی ہیں، وہ حوضِ کوثر کے مالِک ہیں، شفاعتِ کبریٰ انہی کے حصے میں آئے گی اور بروزِ قیامت حمد کا جھنڈا انہی کے دستِ اقدس میں ہو گا۔“
عیسائی راہِب کا یہ کلام میسرہ نے اپنے ذِہْن میں محفوظ کر لیا۔([12])
بازارِ بُصْریٰ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا سامان فروخت فرمایا اور واپسی کے لئے خریداری فرمائی اس دوران کسی سامان کے سلسلے میں ایک شخص کے ساتھ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اِخْتِلاف ہو گیا، اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو لات و عُزّٰی کی قسم کھانے کا کہا۔ جس کے جواب میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: میں ہرگز ان کی قسم نہیں کھاؤں گا، میں تو جب ان کے پاس سے گزرتا ہوں تب بھی ان کی طرف تَوَجُّہ نہیں کرتا۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا: آپ کی بات حق ہے۔ پھر اس نے میسرہ کو تنہائی میں لے جا کر کہا: ”یَا مَیْسَرَۃُ! ھٰذَا نَبِیُّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اَنَّہٗ لَھُوَ تَجِدُہٗ اَحْبَارُنَا مَنْعُوْتاً فِیْ کُتُبِھِمْ اے میسرہ! یہ اِس اُمَّت کے نبی ہیں، اُس ذات کی
قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! یہی وہ ہستی ہیں جن کی صِفات ہمارے عُلَما اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔ “
میسرہ نے یہ بات بھی ذہن میں محفوظ کر لی۔([13])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے پیارے محبوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صدقے اس تجارت میں اس قدر برکت اور نفع عطا فرمایا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا چنانچہ اتنا کثیر نفع دیکھ کر حضرت سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے غلام میسرہ نے کہا: اے مُحَمَّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں نے اتنا زیادہ نفع کبھی نہیں دیکھا جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بدولت ہوا ہے۔([14])
خرید وفروخت سے فارِغ ہو کر قافلے والوں نے واپسی کے لئے سفر شروع کر دیا۔ اَثنائے راہ میسرہ نے دیکھا کہ جب دوپہر ہوتی اور گرمی شدید ہو جاتی تو دو۲ فِرِشتے سورج سے بچاؤ کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ فگن ہو جاتے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میسرہ کے دل میں رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت ڈال دی تھی لہٰذا وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے رُوبرو ایسے ہوتے کہ گویا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے غلام ہیں۔
واپسی پر جب قافلہ مَرَّ الظَّہْرَان§کے مقام پر پہنچا تو میسرہ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عَرْض کیا: ایسا ممکن ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس مجھ سے پہلے پہنچ جائیں اور انہیں تجارت میں ہونے والے نفع کی خوش خبری سنائیں؟ شاہِ آدم وبنی آدم، رسولِ محتشم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میسرہ کی یہ درخواست قبول فرمائی اور سرخ رنگ کے ایک جوان اُونٹ پر سوار ہو کر آگے بڑھ گئے۔ نِصْفُ النَّہار (دوپہر) کے وَقْت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مکہ مُعَظَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں داخِل ہوئے۔ اِس وَقْت حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اپنے مکان کے بالاخانے میں تھیں اور ان کے ساتھ چند عورتیں تھیں جن میں حضرت نفیسہ بنتِ منیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی تھیں۔ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مکہ میں داخِل ہوتے وَقْت دیکھا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اُونٹ پر سوار تھے اور دو فِرِشتے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ کئے ہوئے تھے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی ساتھی عورتوں نے اِسے دیکھ کر تَعَجُّب کیا۔([15])
جب رسولِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس پہنچے اور اِنہیں تجارت میں ہونے والے نفع کے بارے میں بتایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اس پر بہت خوش ہوئیں۔ اور آپ نے فِرِشتوں کو جو حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ فگن دیکھا تھا اس کی تصدیق کرنی چاہی کہ آیا وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ہی تھے یا کسی اور کے لئے؟ چنانچہ اس کی تدبیر آپ نے یہ کی کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے میسرہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: میں اسے کُھلے جنگل میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے درخواست کی کہ جلدی سے اس کی طرف جائیے تا کہ وہ آنے میں جلدی کرے۔
پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کی درخواست قبول فرما ئی اور جانور پر سوار ہو کر تشریف لے گئے۔ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بالاخانہ پر چڑھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھنے لگی۔ اور دوبارہ فِرِشتوں کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ فگن دیکھ کر یقین کر لیا کہ وہ آپ ہی کے لئے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد میسرہ نے آ کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اپنے مُشَاہَدات بتائے، عیسائی راہب نَسْطُورا اور اس شخص سے بات چیت کے بارے میں بھی بتایا جس کے ساتھ خرید وفروخت کے دوران آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کا اِخْتِلاف ہو گیا تھا۔جب حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے تجارت میں پچھلے برسوں کی نسبت بہت زیادہ نفع دیکھا تو طے شدہ مقدار سے بھی دُگنا مال آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔([16])
وَرَقہ بن نوفل، حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چچا زاد بھائی تھے، انہوں نے دین عیسائیت اختیار کر لیا تھا، آسمانی کُتُب کا مُطالَعَہ بھی کیا ہوا تھا اور ایک بڑے عالم تھے۔ حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے فِرِشتوں کا حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ کرنا اور نَسْطُورا راہِب اور دیگر واقعات کا تذکِرہ جب وَرَقہ بن نوفل سے کیا تو وہ کہنے لگے:”لَئِنْ کَانَ ھٰذَا حَقًّا یَا خَدِیْجَۃُ اِنَّ مُحَمَّدًا لَنَبِیُّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ قَدْ عَرَفْتُ اَنَّہٗ کَائِنٌ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ نَبِیٌّ یُنْتَظَرُ ھٰذَا زَمَانُہٗ یعنی اے خدیجہ! اگر یہ سچ ہے تو بے شک مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِس اُمَّت کے نبی ہیں، میں پہچان گیا ہے ہوں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس اُمَّت کے وہی نبی ہیں جن کا انتظار کیا جا رہا تھا، یہ آپ کا ہی زمانہ ہے۔“([17])
پیاری پیاری اسلامی بہنو! محبوبِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ حضرت سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نِکاح کا ایک سبب تو یہی
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سفرِ شام ہوا کہ جب حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے میسرہ کی زبانی پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیغمبرانہ اوصاف سماعت کئے اور خود بھی فِرِشتوں کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ کئے دیکھا تو یہ باتیں ان کے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم كے ساتھ نِکاح کرنے میں رغبت کا باعِث بنیں۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ خواتین قریش کی ایک عید ہوا کرتی تھی جس میں وہ بَیْتُ اللہ شریف میں جمع ہوتیں۔ ایک دن اسی سلسلے میں وہ یہاں جمع تھیں کہ ملکِ شام کا ایک یہودی یا عیسائی شخص آیا اور انہیں پکار کر کہا: اے گروہِ قُرَیش کی عورتو! عنقریب تم میں ایک نبی ظاہِر ہو گا جسے احمد کہا جائے گا،تم میں سے جو عورت بھی ان کی زَوْجہ بننے کا شرف حاصل کر سکتی ہو وہ ایسا ضرور کرے ۔یہ سن کر عورتوں نے اسے پتھر وکنکر مارے، بہت بُرا بھلا کہا اور نہایت سخت کلامی کی لیکن حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خاموشی اختیار فرمائی اور اس بات سے منہ نہیں موڑا جس سے دیگر عورتوں نے منہ موڑ لیا تھا بلکہ اسے اپنے ذِہْن میں محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد جب میسرہ نے آپ کو وہ نِشانیاں بتائیں جو اُنہوں نے دیکھی تھیں اور خود آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے بھی جو کچھ دیکھا تھا، اس کی وجہ سے آپ کے ذِہْن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر اُس یہودی نے سچ کہا تھا تو وہ یہی شخص ہو سکتے ہیں۔([18])
چنانچہ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیغمبرانہ اَخلاق و عادات سے متاثر ہو کرحضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنی سہیلی نفیسہ بنتِ منیہ کو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا معلوم کرنے کے لئے بھیجا، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس حاضِر ہو کر عَرْض کیا: اے مُحَمَّد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ کو شادی سے کس بات نے روکا ہوا ہے؟ فرمایا: میرے پاس کوئی مال نہیں جس کے ذریعے میں شادی کر سکوں۔ میں نے کہا: اگر مال کی طرف سے آپ کو بے پرواہ کر دیا جائے اور پھر حسین وجمیل، مال دار اور مُعَزّز عورت سے نِکاح کی دعوت دی جائے جو حسب ونسب کے اعتبار سے آپ کی کفو§ ہو تو کیا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِسے قبول نہیں فرما لیں گے؟ رسولِ مُکَرَّم، شَفیعِ مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
استفسار فرمایا: وہ کون ہیں؟ میں نے کہا: خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد۔ اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میرے لئے یہ کیونکر ممکن ہے؟ میں نے کہا: اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ فرمایا: (اگر یہ بات ہے) تو پھر میں تیار ہوں۔([19])
حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا معلوم کرنے کے بعد نفیسہ بنتِ منیہ، حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: مُبارَک ہو! محمدِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کی خواستگاری فرماتے ہیں، اس پر حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بہت خوش ہوئیں اور اِظہارِ مَسَرَّت کیا۔ پھر کسی کو اپنے چچا عمرو بن اسد کے پاس بھیجا کہ بوقتِ عَقْد وہ بھی موجود ہوں۔ اِدھر حُضُورِ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی ابوطالِب، حضرتِ حمزہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور بعض دیگر چچاؤں کے ساتھ اور حضرتِ ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور قبیلہ مُضَر کے دیگر رؤسا کے ساتھ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے مکان پر تشریف لائے اور نِکاح فرمایا۔ نِکاح کی یہ پُرسعید تقریبِ سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سفرِ شام سے واپسی کے دو۲ ماہ 25 دن بعد مُنْعَقِد ہوئی۔([20]) اور سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آکر قیامت تک کے تمام مؤمنین کی ماں یعنی اُمُّ المؤمنین ہونے کا شرف حاصِل کیا۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سرکارِ نامدار، مکے مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عَقْدِ نِکاح کے اس مُبارَک موقع پر ابوطالِب نے ایک بلیغ خطبہ پڑھا جس کا مضمون یہ ہے: ”سب تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے جس نے ہمیں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے فرزند حضرتِ اسمٰعیل عَلَیْہِ السَّلَام کی نسل سے بنایا، ہمیں مَعَدّ و مُضَر کی لڑی سے پیدا فرمایا، اپنے گھر کعبہ کا مُحافِظ اور حَرَم شریف کا متولی بنایا، ہمارے لئے ایسا گھر بنایا جس کا حج کیا جاتا ہے، ایسا حَرَم بنایا جس میں آنے والا امان میں رہتا ہے اور ہمیں لوگوں پر حاکم بنایا ۔ یقیناً میرا یہ بھتیجا مُحَمَّد بِن عَبْدُ اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ایسا جوان ہے کہ کوئی مَرد اِس کے ہم پلہ نہیں، یہ سب پر بھاری ہے، مال میں اگرچہ کم ہے لیکن مال ڈھلتی چھاؤں ہے جو ایک سے دوسرے کے پاس منتقل ہوتا رہتا ہے جبکہ میرا بھتیجا ان اعلیٰ نسب لوگوں میں سے ہے جن کی قرابت داری تم جانتے ہو۔ اس نے خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد کو نِکاح کا پیغام دیا ہے اور میرے مال میں سے اتنا اتنا مال نقد اور اُدھار بطورِ مہر دیا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! اس کے بعد میرے اس بھتیجے کے لئے بہت بڑی خبر اور بہت بزرگی والا مُعَاملہ ہے۔“([21])
ابو طالِب کے خطبہ مکمل کر لینے کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چچا زاد بھائی وَرَقَہ بن نَوْفَل نے بھی خطبہ پڑھا، انہوں نے کہا: ”سب تعریفیں اس خُدائے بزرگ وبرتر کے لئے ہیں جس نے ہمیں ایسا بنایا جیسا کہ ابوطالِب بیان کر چکے ہیں اور ہمیں وہ فضیلت بخشی جس کا اُنہوں نے ذکر کیا۔ چونکہ ہم تمام اہل عرب کے سردار اور ان کے پیشوا ہیں اور تم سب بھی ان تمام فضیلتوں کے اہل اور جامِع ہو کہ کوئی گروہ تمہاری فضیلت کا انکار نہیں کر سکتا اور کوئی ایک شخص بھی تمہارے فخر وشرف کو ردّ نہیں کر سکتا اس لئے ہماری خواہش ہے کہ تمہارے ساتھ عَقْدِ نِکاح کے ذریعہ اِتِّصال ویگانگت (یعنی قریب کی رشتہ داری) ہو جائے۔ اے گروہِ قریش! گواہ ہو جاؤ کہ میں نے 400 دینار مہر کے عِوَض خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) کو مُحَمَّد بِن عَبْدُ اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی زوجیت میں دیا۔
جب وَرَقہ بن نوفل کا خطبہ ختم ہو چکا تو ابوطالِب نے کہا: اے وَرَقہ! میں چاہتا ہوں کہ خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد بھی خطبے میں شریک ہوں، چنانچہ پھر عمرو بن اسد نے خطبہ دیتے ہوئے کہا: اے گروہِ قُرَیش! گواہ ہو جاؤ کہ میں نے اپنی بھتیجی خدیجہ بنتِ خُوَیْلد کو مُحَمَّد بن عَبْدُ اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی زوجیت میں دیا۔([22])
نِکاح کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عَرْض کیا: اپنے چچا سے فرمائیے کہ اُونٹوں میں سے ایک اُونٹ ذَبْح کر کے لوگوں کو کھانا کِھلائیں۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائیے اور اپنی اہلیہ سے باتیں کیجئے۔ چنانچہ لوگوں کو کھانا کِھلانے کے بعد رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے اور حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے باتیں فرمائیں، اس سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائی۔ ابوطالِب نے اس شادی پر بڑی مَسَرَّت کا اِظہار کیا اور کہا: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنَّا الْکَرْبَ وَ رَفَعَ عَنَّا الْھُمُوْمَ سب خوبیاں اس ذات کے لئے جس نے ہم سے مصیبتیں دُور فرمائیں اور ہم سے غموں کو اٹھایا ۔“([23])
اس طرح شادی کی یہ پُرسعید تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت کا دم بھرنے والیو! غور کرو کہ دوجہاں کے تاجور، محبوبِ ربِّ داور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِکاحِ مُبارَک کی یہ عظیمُ الشَّان و عدیمُ الْمِثَال تقریب کس
سادَگی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی، اس میں ہمارے لئے شادی ونِکاح وغیرہ خوشی کے مَوَاقِع پر سادَگی اَپنانے کی عَمَلی ترغیب ہے، اے کاش! ہم گناہوں بھری اور اَخلاقی قدروں سے گری ہوئی رُسُوم سے اجتناب کرتے ہوئے اور شبِ اسریٰ کے دولہا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سادَگی کے ساتھ تقریبات کا اِنْعِقَاد کیا کریں۔
؏ شادیوں میں مت گُنَہ نادان کر
خانہ بربادی کا مت سامان کر
سادَگی شادی میں ہو سادہ جہیز
جیسا بی بی فاطمہ کا تھا جہیز
چھوڑ دے سارے غَلَط رَسم و رواج
سنَّتوں پہ چلنے کا کر عَہْد آج([24])
نیز اس سے سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عظیم شان بھی معلوم ہوئی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے پیغمبرانہ اَخلاق اور احسن عادات کی بدولت اِعْلانِ نبوت سے پہلے ہی مشہور ہو چکے تھے، ہر خاص وعام آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دلدادہ تھا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِنہیں اَخلاق سے متاثر ہو کر سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، جنہوں نے بڑے بڑے سردارانِ عرب کے پیغامات کو ٹھکرا دیا تھا، خود آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پیغامِ نِکاح بھیجا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خاطِر شاہانہ زندگی کو ٹھکرا دیا اور ہر کٹھن سے کٹھن مرحلے میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ دیا۔
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے قدموں کی دُھول کے صدقے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی ایسا جذبہ عقیدت اور ایسی توفیق سعید عطا فرمائے کہ ہم اپنا تن من دھن سب کچھ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر قربان کرنے والیاں بن جائیں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعلیمات کو عَمَلی طور پر اَپنائیں، دِیْنِ اِسلام کی خوب خوب خدمت کرنے کی سعادت پائیں اور اس راہ میں آنے والی کسی بھی مشکل کو خاطِر میں نہ لائیں ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم.
کروں تیرے نام پہ جاں فِدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فِدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں([25])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭…٭…٭…٭…٭…٭
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آفاقِ عالَم کو اپنے جلوؤں سے چمکاتے اور خوشبوؤں سے مہکاتے عرب کے ریگزاروں وکوہساروں میں مُبارَک حَیَات کے لمحات گزارتے رہے حتی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِعْلانِ نبوت کا زمانہ قریب آ گیا، ظہورِ نبوت کے قریب خلوت نشینی کی محبت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اقدس میں ڈال دی گئی تھی لہٰذا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کچھ تھوڑا بہت طَعَام (کھانا) اپنے ساتھ لے جا کر مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقِع جبل نور کے غارِ حرا میں کئی کئی روز تک خلوت نشین ہو جاتے اور ذِکْر وفِکْر میں مشغول رہتے۔ شب وروز اسی طرح بسر ہوتے گئے کہ عامُ الفیل کے 41ویں سال، جبکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عمر مبارک 40برس ہو چکی تھی ربیع الاوّل یا رَمَضَانُ الْمُبَارَک کے مہینے میں پہلی وحی نازِل ہوئی۔([26])
اس موقعے پر حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے مثالی کِردار ادا کیا، رسولِ نامدار، شفیع روزِ شمار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آنے سے لے کرآخری دم تک رات دن قدم بہ قدم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا
ساتھ دیا۔ غارِ حرا میں پہلی وحی نازِل ہونے کے بعد جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قلبِ اقدس کانپ رہا تھا تب حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خوب حوصلہ افزائی کی، چنانچہ اس کا تفصیلی واقعہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے مروی بخاری شریف کی حدیث میں کچھ اس طرح مذکور ہے:
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ شروع شروع میں جس وحی کی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ابتدا ہوئی وہ سوتے میں سچے خواب تھے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کے ظُہُور کی طرح ظاہِر ہو جاتا پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خلوت پسند (تنہائی پسند) ہو گئے اور غارِ حرا میں خلوت فرمانے لگے، کاشانۂ اقدس (مبارک وپاکیزہ گھر) لوٹنے سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وہاں کئی کئی راتیں ٹھہر کر عِبادت کرتے اور اس کے لئے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے تھے۔ پھر حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس تشریف لاتے اور اتنی ہی چیزیں پھر لے جاتے حتی کہ وہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پہلی وحی نازِل ہوئی چنانچہ ایک دن فِرِشتے نے حاضِر ہو کر کہا: اِقْرَاْ پڑھئے۔ فرمایا: ”مَا اَنَا بِقَارِیءٍ میں نہیں پڑھنے والا۔ فِرِشتے نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پکڑا
اور گلے لگا کر خوب زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا: اِقْرَاْ پڑھئے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پھر وہی فرمایا کہ میں نہیں پڑھنے والا۔ اس نے دوبارہ گلے لگا کر خوب زور سے دبایا اور پھر چھوڑ کر کہا: اِقْرَاْ پڑھئے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں نہیں پڑھنے والا۔ اس نے تیسری بار گلے لگا کر خوب زور سے دبایا ، پھر چھوڑ دیا اور کہا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ(۳)
(پ۳۰،العلق:۱-۳)
ترجمهٔ کنزالایمان: پڑھو اپنے ربّ کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک (بوند) سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا ربّ ہی سب سے بڑا کریم۔
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وحی لے کر اس حالت میں واپس ہوئے کہ قلبِ اقدس کانپ رہا تھا، حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس پہنچ کر فرمایا: مجھے چادر اوڑھا دو۔ انہوں نے آپ کو چادر اوڑھا دی حتی کہ جب قلبِ اقدس سے رعب کی کیفیت جاتی رہی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو سارا واقعہ بتاتے ہوئے فرمایا: مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے کہا: ایسا ہرگز نہ ہو گا، بخدا! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو رُسوا نہ کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزوروں کا بوجھ اُٹھاتے، محتاجوں کے لئے کماتے، مہمان کی ضیافت کرتے اور راہِ حق میں مصائب برداشت کرتے ہیں۔
اس کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو وَرَقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ زمانۂ جاہلیت میں نصرانی (عیسائی) ہو گئے تھے، عِبْرانی زبان میں کتابت کیا کرتے تھے اور جتنا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو منظور ہوتا انجیل کو عِبْرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، اس وقت عمر رسیدہ اور بینائی سے محروم تھے۔ ان سے حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے کہا: اے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنئے۔ وَرَقہ بن نوفل نے کہا: اے بھتیجے! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جو دیکھا تھا اِنہیں بتایا۔ اس پر وَرَقہ نے کہا: یہ وہی فِرِشتہ ہے جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اتارا تھا، اے کاش! ان دنوں میں جوان ہوتا، اے کاش! اُس وقت میں زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو نِکالے گی۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دَرْیَافْت فرمایا: کیا میری قوم مجھے نِکالے گی؟ کہا: ہاں! جب بھی کوئی شخص یہ چیز لے کر آیا جیسی آپ لائے ہیں تو اس سے دشمنی کی گئی۔ اگر مجھے آپ کا وہ زمانہ نصیب ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بھرپور مدد کروں گا۔([27])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! سرکارِ رِسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اندیشہ ظاہِر فرمانے پر اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تسلی و اطمینان دِلاتے ہوئے جو کچھ عرض کیا یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی حکمت ودانائی، عِلْم اور کمالِ فِراست کی واضح دلیل ہے۔ اس سے ظاہِر ہوتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے حُضُورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِعْلان نبوت فرمانے سے پہلے ہی اپنی کمالِ فراست سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نبی ہونا جان لیا تھا اور اسی وجہ سے آپ نے عَرْض کیا تھا: ”بخدا! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کبھی آپ کو رُسوا نہ کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے، محتاجوں کے لئے کماتے، مہمان کی ضیافت کرتے اور راہِ حق میں پیش آنے والے مصائب برداشت کرتے ہیں۔“ مفسر شہیر، حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ علّامہ مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مقصد یہ ہے کہ آپ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ان علامتوں کی وجہ سے بحکم توریت آخِری نبی ہیں، آپ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کا سورج بلند ہو گا (اور) آپ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کا دین غالِب ہو گا۔ (خیال رہے کہ) حضرتِ خدیجہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) توریت کی عالمہ تھیں اور عُلَمائے (بنی) اسرائیل سے بھی آپ نے حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی یہ علامات سنی تھیں اس وجہ سے تو حُضُور
(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے نِکاح کیا۔([28])
نیز اس رِوایَت سے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی یہ فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ظُہُورِ نبوت کی سب سے پہلی خبر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ہی پہنچی۔
پیاری پیاری اسلامی بہنو! سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پہلی وحی نازِل ہونے کے موقع پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اقدس کے کانپنے کا ذکر گزرا، ایسا کیوں ہوا اور وحی نازِل ہونے کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے پہلے حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور ان کے بعد وَرَقہ بن نَوْفل کے پاس تشریف کیوں لے گئے، اس میں کیا حکمت تھی؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مفسر شہیر، مُحَدِّثِ جلیل حضرتِ علّامہ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْحَنَّان تحریر فرماتے ہیں: یہ دل کا کانپنا اس فیض ربّانی کا اثر تھا جو آج (یعنی پہلی وحی نازِل ہونے کے روز) عطا ہوا تھا۔ یہ تَوَجُّہ اگر پہاڑوں پر ڈالی جاتی تو پُھوٹ جاتا یہ تو حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کا قوت والا دل ہے جو ٹھہرا رہا۔([29])
؏ دل سمجھ سے وراء ہے مگر یوں کہوں
غنچۂ راز وحدت پہ لاکھوں سلام([30])
مزید فرماتے ہیں: بی بی خدیجہ اور وَرَقہ، مکہ بلکہ عرب میں بڑے معزز عُلَما میں سے مانے جاتے تھے، (حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سب سے پہلے ان کے پاس آنے میں) منشاءِ الٰہی یہ تھا کہ پہلے ان دونوں سے حُضُورِ انور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی نبوت کی گواہی دِلوائی جائے پھر تبلیغ اِسْلام کا حکم حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کو دیا جاوے اس لئے حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) پہلے ان دونوں کے پاس تشریف لے گئے۔ یہ تشریف لے جانا اپنے جاننے کے لئےنہ تھا بلکہ لوگوں کو بتانے سمجھانے کے لئے تھا۔([31])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جب سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، ربّ تعالیٰ کے حکم سے اِعْلانِ نبوت فرماتے ہیں اور خَلْقِ خُدا کو صرف اس ایک معبودِ حقیقی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کی طرف بلاتے ہیں جو سب کا خالِق و مالِک ہے، نہ اس کی کوئی اَوْلاد ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، وہ سب کا پالنے والا ہے، سب اُسی سے رِزْق پاتے اور اُسی کے دَرْ سے حاجتیں بَر لاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے حق کی پکار پر لبیک کہا جاتا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں،تَنِ نازنین پر پتھر برسائے جاتے ہیں، اِتِّہام و دُشْنام
طَرازی کے تیروں کی بارِش کر دی جاتی ہے اور کل تک کا سب کی آنکھوں کا تارا آج سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔
ایسے نازک، خوفناک اور کٹھن مرحلے م یں جو ہستیاں حق کی پکار پر لبیک کہتی ہوئیں سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے سرفراز ہوئیں اور ”یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اے ایمان والو!“کی پکار کی سب سے پہلے حق دار قرار پائیں، ان میں ایک نمایاں نام مجسمۂ حُسْنِ اَخلاق، پاکیزہ سیرت و بلند کِردار، فہم وفراست اور عقل ودانش سے سرشار، جُود وسخا کی پیکر، صِدْق و وفا کی خُوگر حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی ذات تھی جو پروانوں کی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نِثار ہو رہی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سب سے پہلے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لائیں، جو کچھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے لے کر آئے اس کی تصدیق کی اور ہر مشكل سے مشکل وَقْت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ دیا۔حضرتِ سیِّدنا علّامہ محمد بن اسحاق مَدَنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ سیّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب بھی کُفّار کی جانب سے اپنا ردّ اور تکذیب وغیرہ کوئی ناپسندیدہ بات سن كر غمگین ہو جاتے اس کے بعد حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس تشریف لاتے تو اِن کے ذریعے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ،
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وہ رنج وغم کی کیفیت دُور فرما دیتا۔“([32])
؏ وہ انیسِ غم مُوْنِسِ بے کساں
وہ سُکُونِ دل مالکِ اِنس و جاں
وہ شریکِ حَیَات شہِ لامکاں
سیما پہلی ماں کہفِ امن و اماں
حق گزارِ رفاقت پہ لاکھوں سلام([33])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! آپ نے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی جاں نِثاری کے بارے میں پڑھا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اتنے خطرناک اوقات میں جس عزم و استقلال کے ساتھ خطرات و مصائِب کا سینہ سِپَر ہو کر سامنا کیا یہ چیز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو دیگر اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ میں ایک ممتاز مقام پر فائز کر دیتی ہے۔ نیز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی اس حَیَاتِ طَیِّبَہ سے ہمیں ایک انمول مَدَنی پُھول بھی چننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ خواہ کیسے ہی کٹھن حالات ہو، کیسی ہی مشکلات کا سامنا ہو، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت وفرمانبرداری سے رُوگردانی ہرگز
نہیں کرنی چاہئے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لائے ہوئے پیارے دین ”اِسلام“ کی خاطِر مالی وجانی کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
؏ تیرے نام پر سر کو قربان کر کے
تیرے سر سے صدقہ اتارا کروں میں
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں
تیرے نام پر سب کو وارا کروں میں([34])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭…٭…٭…٭…٭…٭
حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے مروی ہے، رسولِ اکرم، نورِ مجسم، شہنشاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ”لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ یعنی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا۔“(صحيح البخارى، كتاب الادب، باب ما يكره من النميمة، ص۱۵۰۸، الحديث:۶۰۶۵)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ابھی آپ نے جس مُبارَک ہستی کی پاکیزہ حَیَات کے چند خوش نُما اور دل آویز لمحات ملاحظہ کئے اور ان سے پُھوٹنے والی خوشبوؤں سے اپنے ایمان کی کھیتی کو تازگی بخشی، آئیے! ان کےنام ونسب اور خاندان کے بارے میں بھی چند ابتدائی باتیں معلوم کرتی جائیے، چنانچہ
وِلادت باسعادت عامُ الْفِیْل سے 15 سال پہلے ہے۔([35]) نام خدیجہ، والِد کا نام خُوَیْلِد اور والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔ والِد کی طرف سے آپ کا نسب اس طرح ہے: ”خُوَیْلِد بن اَسَد بن عَبْدُ الْعُزّٰی بن قُصَیّ بن کِلَاب بن مُرَّة بن کَعْب بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِرّ“ اور والِدہ کی طرف سے یہ ہے: ”فاطِمہ بنتِ زَائِدة بن اَصَمّ بن ھرم بن رواحہ بن حَجَر بن عَبْد بن مَعِیْص بن عامِر بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِرّ“([36])
نسب کے حوالے سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ فضیلت حاصِل ہے کہ دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی نسبت سب سے کم واسِطوں سے آپ کا نسب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ واضح
رہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نسب کے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف کے ساتھ ملنے میں صرف تین واسطے پائے جاتے ہیں:
(۱)خُوَیْلِد (۲)اَسَد (۳)عَبْدُ الْعُزّی۔
چوتھے جدِّ امجد حضرتِ قُصَیّ میں آپ کا نسب حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نسب سے ملتا ہے جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پانچویں جدِّ محترم ہیں جبکہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیدتنا اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نسب کے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف کے ساتھ ملنے میں واسطے زیادہ (چار واسطے) پائے جاتے ہیں:
(۱)...ابو سُفْیَان (۲)...حَرْب
(۳)...اُمَیَّہ (۴)...عبدِ شَمْس
لیکن سب سے قریب عبدِ مناف میں ملتا ہے جو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چوتھے اور حضرتِ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پانچویں جد محترم ہیں۔ حضرتِ سیِّدنا علّامہ نورُ الدِّین علی بن ابراہیم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْکَرِیْم نے نسب کے حوالے سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی ایک اور خصوصیت بیان فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ قُصَیّ کی اولاد میں سے صرف آپ اور حضرت اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا ہیں جنہوں نے سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتہ اِزْدِواج میں مُنْسَلِک ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ([37])
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کُنْیَت اُمُّ الْقَاسِم([38])اور اُمِّ ھِند ہے۔([39])
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے القابات بہت ہیں جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے، چنانچہ
٭سب سے مشہور لقب ”الکبریٰ“ ہے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نام کے ساتھ بولا جاتا ہے اور اس کثرت سے بولا جاتا ہے کہ گویا نام ہی کا حصہ ہے۔
٭ایک اور مشہور لقب ”طاھِرہ“ ہے۔ مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو طاہرہ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔([40])
٭ایک لقب”سَیِّدَۃُ قُرَیْش“ بھی ہے کہ بعض روایات کے مطابق زمانۂ جاہلیت میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے لئے بولا جاتا تھا۔([41])
٭ایک لقب ”صِدِّیْقَہ“ ہے۔ روایت میں ہے کہ پیارے پیارے آقا، میٹھے میٹھے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”ھٰذِہٖ صِدِّیْقَۃُ اُمَّتِیْ یعنی یہ میری اُمَّت کی صِدِّیقہ ہیں۔“([42])
اس حوالے سے بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت بلند مرتبہ حاصل تھا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا عرب کے سب سے معزز اور مکرم قبیلے قریش کی چشم وچراغ تھیں۔ آگے چل کر قریش بہت شاخوں میں بٹ جاتے ہیں جن میں سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا تعلق بنو اَسَد بن عَبْدُ الْعُزّٰی سے تھا۔
”بنو اَسَد“ قریش کے ان ممتاز خاندانوں میں سے ہے جن کے پاس قومی اور ملکی لحاظ سے بڑے بڑے عہدے تھے، چنانچہ حضرتِ قُصَیّ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تعمیر کردہ مشہور عمارت ”دَارُ النَّدْوَہ“ جس میں قبیلہ قریش کے لوگ باہمی مشورے کے لئے جمع ہوتے تھے،([43]) عہدِ رسالت میں اسی خاندان کے ایک معزز شخص حضرتِ حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کی ملکیت میں تھی۔ ([44])
”مشورہ“ کا منصب بھی اسی خاندان کے ایک نہایت معزز شخص حضرتِ یزید بن زمعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے پاس تھا، مروی ہے کہ جب قریش کسی بات پر متفق ہو جاتے تو اسے حضرتِ یزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے سامنے پیش کرتے، اگر یہ راضی ہوتے تو ٹھیک ورنہ اُس پر عمل سے باز رہتے۔([45])
پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اعلانِ نبوت کے ساتویں سال جب کُفّارِ مکہ نے بنی ہاشِم کا مُقَاطعہ (Boycott) کیا، ان سے کھانے پینے کی چیزیں روک دیں، میل جول، سلام کلام وغیرہ ختم کر دیا اور بنی ہاشم شِعْبِ ابی طالب میں محصور ہو گئے تو وہاں غلہ وغیرہ اشیائے خورد ونوش پہنچانے میں حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عزیز واقارب نے بہت اہم کردار ادا کیا، چنانچہ
مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرتِ سیِّدُنا حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ ایک غلام کے ساتھ کچھ گیہوں لئے اپنی پھوپھی حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس جا رہے تھے اور حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا شعب ابی طالب میں رسولِ کریم ورحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھیں کہ راستے میں ابوجہل سے ملاقات ہو گئی۔ وہ گیہوں کے ساتھ چمٹ گیا اور کہنے لگا: تم یہ اناج بنی ہاشِم کے پاس لے جا رہے ہو؟ بخدا! تم اس وقت تک یہاں سے نہیں ہٹ سکتے جب تک کہ میں تمہیں مکہ میں رسوا نہ کر دوں۔ اتنے میں ابوالبختری بن ہاشِم وہاں پہنچے، پوچھا: کیا مُعَاملہ ہے؟ ابوجہل نے کہا: یہ بنی ہاشم کے پاس اناج لے جا رہا ہے۔ ابوالبختری نے کہا: یہ اناج اس کی پھوپھی کا ہے جو اِس کے پاس پڑا ہوا تھا، وہ اُس نے منگوا لیا ہے تو کیا تم اُس کا اناج اُس تک پہنچنے سے روکتے ہو...!! اس کا راستہ چھوڑ دو۔ ابوجہل نے انکار کیا۔ اس پر ابوالبختری نے اُونٹ کے جبڑے کی ہڈی پکڑ کر
ابوجہل کو مارا جس سے اس کا سر زخمی ہو گیا اور پھر خوب پاؤں سے روندا۔([46])
واضح رہے کہ حضرتِ حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور ابوالبختری دونوں حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھتیجے ہیں۔ حضرت حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھائی ”حزام“ کے بیٹے ہیں اور ابوالبختری آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چچا زاد بھائی ”ہاشم“ کے بیٹے ہیں۔
بنی ہاشم کو شعبِ ابی طالب میں محصور ہوئے جب تین برس([47]) کا عرصہ گزر چکا تو قریش کی جانِب سے ہی اس ظالمانہ مُعَاہدے کو ختم کرنے کی تحریک ہوئی، اس سلسلے میں ہشام بن عمرو پیش پیش تھے، انہوں نے سب سے پہلے زُہَیر بن ابو اُمَیَّہ، مطعم بن عدی اور حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھتیجے حضرتِ حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ اور ابوالبختری سے بات کی۔ سب نے اس کی رائے سے اتفاق کیا اور پھر یہ حضرات بنی ہاشم کی حمایت میں ظالمانہ مُعَاہدہ ختم کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔([48])
دیگر معاشی و مُعَاشرتی اور خاندانی اعزازات وکرامات کے علاوہ قبولِ اسلام
میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے خاندان کے افراد نے سبقت کی اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحابیت کا شرف پا کر دونوں جہان کی بھلائیوں کے حق دار قرار پائے۔ اختصار کے پیش نظر یہاں اُن میں سے چند کے صرف نام ذکر کئے جاتے ہیں جیسا کہ
٭دنیا میں ہی جنت کی بشارت پانے والے دس مشہور صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں سے ایک ”حضرتِ سیِّدُنا زُبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ۔“ یہ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھتیجے ہیں۔
٭حضرتِ اسود بن نوفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، یہ بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھتیجے ہیں۔
٭حضرتِ حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، یہ بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھتیجے ہیں۔
٭حضرتِ عمرو بن امیہ بن حارث بن اسد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چچا زاد بھائی ”اُمَیَّہ“ کے بیٹے ہیں۔
٭حضرتِ یزید بن زمعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے دوسرے چچا زاد بھائی ”اسود“ کے پوتے ہیں۔
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ایک شرف یہ
بھی حاصل ہے کہ سرورِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے خاندانوں میں بہت قریبی رشتے داریاں پائی جاتی ہیں، چنانچہ
٭اُمِّ حبیب بنتِ اسد: یہ امّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی پھوپھی ہیں اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی والِدہ ماجِدہ حضرتِ سیِّدَتُنا آمِنَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی نانی۔([49])
٭عوام بن خویلد: اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عَلَّاتی (باپ شریک) بھائی ہیں، ان کی ماں قبیلہ بنی مازن بن منصور میں سے تھی۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پھوپھی جان حضرتِ سیِّدَتُنا صفیہ بنتِ عَبْدُ الْمُطَّلِب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا انہی کے نِکاح میں تھیں۔ اس رشتے سے یہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پھوپھا ہوئے اور حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زَوْجہ مطہرہ حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بھابھی۔
٭حضرتِ ابوالعاص بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ: اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بھانجے اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے داماد ہیں۔ سرکارِ دوعالم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شہزادی حضرتِ سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا انہیں کے نِکاح میں تھیں۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! اس گھر کی عظمت کے کیا کہنے جہاں سرورِ کائنات، فخرِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جلوہ گر ہوں، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا یہ مُبَارک مکان رشکِ آسمان مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا کی پاک سرزمین میں جلوہ نُما تھا، آفتابِ رسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کم وبیش 25 برس تک§ حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ یہیں قیام پذیر رہے۔ مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی تمام اولاد اسی مکانِ عالیشان میں ہوئیں، اسی میں حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے دنیا سے پردہ فرمایا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پردہ فرما جانے کے بعد پیارے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرتِ مدینہ تک§ اسی مکانِ رحمت نشان کو اپنے جلوؤں سے منور فرماتے رہے۔([50])
}حُضُور صاحِبِ لولاک، سیاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہجرت فرما کر مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا تشریف لے آنے کے بعد اسے حضرتِ عقیل بن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے لے لیا۔([51])
}پھر حضرتِ سیِّدُنا امیر مُعَاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے اپنے دَورِ حکومت میں اسے خرید کر مسجد بنا دیا اور اس میں نمازیں پڑھی جانے لگیں۔ انہوں نے اس کی نئی تعمیر کی لیکن حُدود وہی رکھیں جو حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے گھر کی تھیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی البتہ حضرتِ ابوسفیان بن حرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے گھر سے اس میں ایک دروازہ کھول دیا۔([52])
}لیکن آہ! اب اس رشکِ افلاک مُبَارَک مکان کے آثار تک مِٹا دئیے گئے ہیں، شیخ شریعت وشیخ طریقت، امیرِ اہلسنت حضرتِ علّامہ ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: صد کروڑ بلکہ اربوں کھربوں افسوس! کہ اب اس کے نشان تک مِٹا دئیے گئے ہیں اور لوگوں کے چلنے کے لئے یہاں ہموار فرش بنا دیا گیا ہے۔ مَروہ کی پہاڑی کے قریب واقع باب المروہ سے نکل کر بائیں طرف (Left side) حسرت بھری نگاہوں سے صرف اس مکانِ عرش نشان کی فضاؤں کی بنگاہِ حسرت زیارت کر لیجئے۔([53])
یہ بہت ہی بابرکت مکان ہے جو ایک طویل عرصے تک پیارے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جلوؤں سے منور ہوتا رہا، رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولادِ اطہار کی وِلادت گاہ بنتا رہا اور بارہا اس مکانِ عالی شان میں حضرتِ
سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے سرورِ کائنات، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں حاضِری دی۔ ایک روایت کے مُطَابق حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ([54]) نیز دنیا میں جنت کی بشارت پانے والے ایک اور جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ([55]) نے بھی اسی مکانِ عالی شان میں آ کر مُشَرَّف بَہ اِسْلام ہونے کی سعادت حاصِل کی۔ انہیں وُجُوہات کی بِنا پر عُلَمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ ”مسجدِ حرام کے بعد مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں اس سے بڑھ کر افضل کوئی مقام نہیں۔“([56])
امام ابو ولید محمد بن عبد الله ازرقی اور امام ابو عبد الله محمد بن اسحاق فاکہی رَحِمَہُمَا اللہُ تَعَالیٰ نے اسے مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا کے ان مقامات میں شمار کیا ہے جہاں نماز پڑھنا مستحب ہے اور امام ابوزکریا محی الدین، یحییٰ بن شرف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے اُن جگہوں میں شمار کیا ہے جن کی زیارت کرنا مستحب ہے۔([57]) اس لئے اگر ہو سکے تو اس جگہ کی زیارت بھی کیجئے اور نماز بھی ادا کیجئے۔§
اُمُّ المؤمنین، زوجۂ سیِّدُ المرسلین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں۔ ایک قول کے مُطابِق حُضُورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سب سے پہلے آپ نے ہی ایمان لانے کی سعادت حاصِل کی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے فضائل و مناقِب بے شمار ہیں۔ سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ کا وِصال ہو گیا تو کثر ت سے آپ کا ذکر فرماتے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سہیلیوں کا اس قدر اِکرام فرماتے کہ جب کبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں کوئی شے حاضِر کی جاتی تو بارہا اِن کی طرف بھیج دیتے حتی کہ یہی کثرتِ ذِکْر اور پیار و محبت اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پر رشک کا باعِث بنا چنانچہ خود فرماتی ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواجِ پاک میں سے کسی پر اتنی غیرت نہیں کی جتنی جنابِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پرکی۔ حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا لیکن حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کا بہت ذِکْر فرماتے تھے۔([58])
مفسر شہیر، حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی حدیثِ مذکورہ بالا کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: یہاں غیرت بمعنی شرم و حَیَا (اور) بمعنی حَسَد نہیں بلکہ بمعنی رشک یا غبطہ ہے۔ دینی اُمُور میں رشک جائز ہے، جنابِِ عائشہ صِدِّیقہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) نے حضرتِ خدیجہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) کی محبوبیت دیکھ کر رشک فرمایا کہ میں بھی ان کی طرح حُضُورِ انور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی محبوبہ ہوتی کہ مجھے حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میری وفات کے بعد اسی طرح تعریفیں فرماتے جیسی ان کی فرماتے ہیں۔ خیال رہے کہ جنابِِ عائشہ صِدِّیقہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی بڑی ہی محبوبہ زوجہ ہیں، آپ کی محبوبیت بی بی خدیجہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) کی محبوبیت سے کسی طرح کم نہیں، رشک اس بات میں ہے جو ہم نے عَرْض کی (کہ) بعدِ وفات محبتِ مصطفےٰ کا جوش۔([59])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
محبوب سے نسبت رکھنے والی چیز بھی محبوب ہوتی ہے اور اس کا اَدَب و اِحْتِرام کیا جاتا ہے۔اس محبت کا اِظْہار سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور سیِّدہ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے درميان بھی دیکھا جا سکتا ہے،چنانچہ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنۡہَا کی وفات کے بعد حُضُورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی بلند وبالا شان ورِفْعَتِ مقام کے باوجود حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سہیلیوں کا اِکْرام فرمایا کرتے تھے، بارہا جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی، اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔([60])
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت دفعہ بکری ذبح فرماتے پھر اس کے اَعْضَا کاٹتے پھر وہ جنابِِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سہیلیوں کے پاس بھیج دیتے۔ حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں: میں کبھی حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہہ دیتی کہ گویا خدیجہ کے سِوا دنیا میں کوئی عورت ہی نہ تھی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے: وہ ایسی تھیں، وہ ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔([61])
مفسر شہیر، مُحَدِّثِ جلیل حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْحَنَّان اس حدیث شریف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ) جب میں حُضُورِ انور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی زبانِ پاک سے ان کی بہت تعریف سنتی تو جوشِ غیرت میں عَرْض کرتی کہ
یارسولَ اللہ! حُضُور تو اُن کی ایسی تعریفیں کرتے ہیں کہ گویا اُن کے سِوا کوئی بیوی آپ کو ملی ہی نہیں یا اُن کے سِوا دنیا میں کوئی بی بی ہے ہی نہیں۔ (اور حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے فرمان کہ ”وہ ایسی تھیں، وہ ایسی تھیں“ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ا س سے) جنابِِ خدیجہ کے بہت سے صِفات کی طرف اِشارہ ہے یعنی وہ بہت روزہ دار، تہجد گُزار، میری بڑی خدمت گُزار، میری تنہائی کی مُوْنِس، میری غم گُسَار، غارِ حِرا کے چِلّے (یعنی خلوت نشینی کے دوران) میں میری مددگار تھیں اور میری ساری اَوْلاد انہیں سے ہے۔([62])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک بار حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن حضرتِ ہالہ بنتِ خُوَیْلِد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سرکارِ رِسالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں حاضِر ہونے کی اجازت طلب کی، ان کی آواز حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا اجازت طلب کرنا یاد آ گیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جُھرجُھری لی۔([63])
قربان جائیے! جب شہنشاہِ ابرار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یادوں کو اپنے دل کے گلدستے میں سجانےاور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَداؤں کو اَپنانے والا بڑے بڑے مَراتِب پالیتا ہے تو جنہیں حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ياد فرمائیں، جن کے فِراق میں حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گِرْیَہ فرمائیں اور جن کے متعلقین کا حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِکْرَام فرمائیں اُن کی عظمت وشان اور رتبے کا کیا عالَم ہو گا اور کیوں نہ ان کے نصیب پر صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن رشک فرمائیں؟
؏ اللہ کا محبوب بنے جو تمہیں چاہے
اس کا بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو([64])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
محبت والفت اور ادب واحترام کا یہ رشتہ محض یک طرفہ نہ تھا بلکہ حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے متعلقین کا بہت اِکْرَام کیا کرتی تھیں، چنانچہ
رِوَایَت کا خُلاصہ ہے کہ حضرتِ حکیم بن حزام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ ملکِ شام سے ایک غلام ”حضرتِ زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ“ کو لے کر آئے۔ پھر اسے اپنی پھوپھی حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ہبہ کر دیا اور حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیارے آقا، میٹھے میٹھے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ ([65])
ایک دفعہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضاعی والِدہ حضرتِ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا مکہ شریف میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں، قحط سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کی شکایت کی۔ اُس وقت سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے شادی ہو چکی تھی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سلسلے میں حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بات کی تو انہوں نے حضرتِ حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو 40بکریاں اور ایک اُونٹ تحفۃً پیش کئے۔([66])
پیاری پیاری اسلامی بہنو! حُضُور سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا یہ باہمی رشتہ خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے بہترین نمونہ ہے کیونکہ یہ زوجین (میاں بیوی) کو آپس میں حسن اخلاق کے ساتھ پیش آنے، الفت ومحبت کے ساتھ رہنے، ایک دوسرے کا ادب واحترام کرنے اور رشتے داروں کا اکرام کرنے کا درس دیتا ہے اور یہ چیزیں خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے اور گھر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے اَسَاس (بنیاد) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں پیارے آقا، میٹھے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم.
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نِہایت اعلیٰ اخلاق واَطوار کی مالکہ تھیں، اسی کِردار کی بلندی اور عِفّت مآبی کی بدولت زمانۂ جاہلیت میں ہی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو طاہِرہ کے لقب سے پکارا جانے لگا تھا۔ سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب اِعلانِ نبوت فرمایا تو یہ بغیر کسی تَوَقُّف کے ایمان لے آئیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بھرپور نُصْرَت واِعَانَت (مدد) کی، دین اسلام کی تبلیغ و اِشاعت کی راہ میں حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کُفّار کی جانب سے ستایا جاتا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تکذیب کی جاتی جس کی وجہ سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رنجیدہ و پُرملال ہوکر واپس تشریف لاتے تو سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہی تھیں جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دل جُوئی اور تسکین قلب کا سامان کرتیں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم وتوقیر بجا لاتیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسالَت کی تصدیق کرتیں، اس طرح حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ذریعے سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ، حُضُورِ عالی وقار عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ رنج وغم کی کیفیت دُور فرما دیتا ۔حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ایمان کی پختگی اور مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شہزادےحضرتِ سیِّدُنا قاسِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کا انتقال ہوا حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عَرْض کی: یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!
قاسِم کا دودھ بہت اتر آیا ہے کاش! اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے مدتِ رضاعت مکمل ہونے تک زندہ رکھتا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اس کی رضاعت جنت میں پوری ہو گی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عَرْض کیا: یا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! اگر میں اس بات کو جانتی تو مجھ پر یہ کام سَہْل ہو جاتا۔ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کر دوں اور تم اِس کی آواز سن لو؟ اس پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عَرْض کیا: نہیں،بلکہ میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تصدیق کرتی ہوں۔([67])
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! ایک نادیدہ بات پر اس قدر پختہ ایمان کہ دیکھنے وسننے کی حاجت ہی نہ سمجھی اور بِن دیکھے وسنے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تصدیق کر دی۔یہ اس دَور کی بات ہے جب سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تصدیق کرنے والے بہت تھوڑے تھے، ہر چہار جانب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تکذیب کا شورِ بدتمیز بپا تھا لیکن قربان جائیے اُمُّ المؤمنین سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پر کہ ایسے پُرآشوب ایّام میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پایۂ ثبات میں لغزِش نہ آئی اور آپ دم بہ دم اور قدم بہ قدم رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہم سفر وہم ساز رہیں ۔ یقیناً آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا مؤمنین کی باعِثِ فخر امّی جان ہیں رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا۔
حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پختہ ایمان و اِیْقان اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم وتوقیر وغیرہ خدمات کے صلے میں بارگاہِ ربِّ ذُوْالْجلال سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو جنت میں پُرسُکُون محل عطا کئے جانے کی نویدِ سعید سنائی گئی جیساکہ بخاری شریف میں حضرتِ سیِّدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے مروی ہے کہ (ایک دفعہ) حضرتِ سیِّدنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضِر ہو کر عَرْض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ خدیجہ آ رہی ہیں، ان کے پاس برتن ہے جس میں کھانا ہے۔ جب وہ آپ کے پاس پہنچیں تو انہیں ان کے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کا اور میرا سلام کہئے اور جنت میں خول دار (اندر سے خالی) موتی سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دیجئے جس میں شور ہے نہ کوئی تکلیف۔([68])
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: ”اِنَّ اللہَ ھُوَ السَّلَامُ وَعَلٰی جِبْرِیْلَ السَّلَامُ وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سَلَام ہے اور حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سلامتی، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔“([69])
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! اس مؤمن کی عَظَمت کے کیا کہنے جسے اللہُ السَّلام عَزَّ وَجَلَّ خود ”سلام“ فرمائے مزید برآں جنّتی محل کی بشارت بھی سنائے۔
؏ مادرِ اوّلیں اہل ایمان کی
ہے یہ اس کی بزرگی و پاکیزگی
برگزیدہ ہے ربِّ مُحَمَّد کی بھی
عرش سے جس پہ تسلیم نازِل ہوئی
اُس سرائے سلامت پہ لاکھوں سلام
اُس کا جبریل ملحوظ رکھے ادب
جنتی گوہریں§ گھر اُسے بخشے ربّ
کوئی تکلیف اس میں نہ شور و شغب
مَنْزِلٌ مِّنْ قَصَبْ لَا نَصَبْ لَا صَخَبْ§
ایسے کوشک§ کی زِینت پہ لاکھوں سلام([70])
خیال رہے کہ ”یہ واقعہ حُضُورِ انور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے غارِ حرا میں تشریف فرما ہونے کا ہے۔ ایک بار حضرتِ خدیجہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا)، حُضُور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے لئے کھانا لے کر وہاں حاضر ہوئیں تب حضرتِ
جبریل (عَلَیْہِ السَّلَام) نے یہ خبر دی۔“([71])
یہ رِوایَت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی فقاہت اور فہم ودانش کی کثرت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سلام کے جواب میں اس طرح نہیں کہا: ”عَلَیْہِ السَّلَام اُس پر سلامتی ہو۔“ کیونکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنی بےمِثَال فہم وفِراست سے یہ بات جان لی تھی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سلام کا جواب اس طرح نہیں دیا جائے گا جیسے مخلوق کو دیا جاتا ہے، سَلَام تو اس کے ناموں میں سے ایک نام ہے نیز ان الفاظ کے ذریعے مخاطب کو سلامتی کی دُعا دی جاتی ہے، چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اسے مقامِ رَبُوبِیَّت کے لائق نہ جانتے ہوئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سلام کے جواب میں اس کی حمد وثنا بیان کی، پھر جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اور پھر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں جوابِ سلام عَرْض کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بھیجنے والے کے ساتھ ساتھ پہنچانے والے کو بھی سلام کا جواب دینا چاہئے۔([72])
(جب کوئی کسی کا سلام پہنچائے تو اس کا) جواب یوں دے کہ پہلے اس پہنچانے والے کو اس کے بعد اس کو جس نے سلام بھیجا ہے یعنی یہ کہے: ”وَعَلَیْکَ
وَعَلَیْہِ السَّلَام“([73])
یاد رہے کہ سلام کے جواب میں یہ الفاظ اُس وقت کہے جائیں گے جب بھیجنے والا اور پہنچانے والا دونوں مَرد ہوں اگر دونوں عورتیں ہوں تو اس طرح کہیں گے: ”وَعَلَیْکِ وَعَلَیْھَا السَّلَام“ اگر بھیجنے والا مَرد اور پہنچانے والی عورت ہو تو اس طرح کہیں گے: ”وَعَلَیْکِ وَعَلَیْہِ السَّلَام“ اور اگر اس کا الٹ ہو یعنی بھیجنے والی عورت اور پہنچانے والا مَرد ہو تو اس طرح کہیں گے: ”وَعَلَیْکَ وَعَلَیْھَا السَّلَام“
ایک مَدَنی پُھول یہ بھی چننے کو ملا کہ عورت کو اپنے شوہر کی خدمت کے لئے حتی المقدور بھرپور کوشش کرنی چاہئے، تنگی وپریشانی کے مَواقِع پر غم خواری اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کی دل جُوئی اور تسکین قلب کا سامان کرنا چاہئے کہ یہ صفت بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں بہت محبوب ہے، لیکن افسوس! آج کل عورتیں اطمینان وتسکین قلب کا سامان کرنے کے بجائے طرح طرح کی فرمائشیں اور جھگڑے کر کے الٹا پریشانی میں اِضافے کا باعث بنتی ہیں، انہیں اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی مُبارَک حَیَات سے سیکھنا چاہئے اور گھریلو جھگڑوں وناچاقیوں کا سبب بننے سے بچتے ہوئے گھر کو امن وسکون کا گہوارہ بنانا چاہئے۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ان چار خواتین میں سے ہیں جنہیں رسولُ اللہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنّتی عوتوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا سے رِوَایَت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک بار رسولِ کائنات، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زمین پر چار خُطُوط کھینچ کر فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہیں؟ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: ”اَللہُ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَمُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔“ فرمایا: جنّتی عورتوں میں سب سے زِیادہ فضیلت والی یہ عورتیں ہیں:
(۱)...خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد
(۲)...فاطِمہ بنتِ مُحَمَّد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)
(۳)...فرعون کی بیوی آسیہ بنتِ مُزَاحِم
(۴)...اور مَرْیَم بنتِِ عِمْرَان۔ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ)([74])
اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو دنیا میں رہتے ہوئے جنّتی پھل سے لطف اندوز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو جنّتی انگور کِھلائے۔([75])
؏ مالِکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں([76])
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اسلام کے دنیا میں جلوہ گر ہونے کے پہلے روز ہی نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃ ُالرَّحْمٰن فرماتے ہیں: حُضُور سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر اوّل بار جس وقت وحی اتری اور نبوتِ کریمہ ظاہِر ہوئی اسی وقت حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے بہ تعلیم جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِـیْم نماز پڑھی اور اسی دن بہ تعلیم اقدس حضرتِ اُمُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پڑھی، دوسرے دن امیر المؤمنین عَلِیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْاَسْنٰی نے حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے ساتھ پڑھی۔([77])
حضرتِ ابورافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پیر کے روز صبح کے وقت نماز پڑھی، حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیر کے دن اس کے آخری حصے میں اور حضرتِ عَلِیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْـکَرِیْم نے منگل کے دن نماز پڑھی۔([78])
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو جو کثیر فضائل و مناقِب عطا ہوئے ان میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی خصوصیات بھی ہیں، ذیل میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی چند خصوصیات بیان کی جاتی ہیں، چنانچہ
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سب سے پہلے سرورِ کائنات، فخرِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوئیں اور اُمُّ المؤمنین یعنی قیامت تک کے سب مؤمنین کی ماں ہونے کے پاکیزہ و اعلیٰ منصب پر فائز ہوئیں۔
رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی حَیَات میں کسی اور سے نِکاح نہیں فرمایا۔([79])
رسولِ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دیگر ازواجِ پاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی نسبت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے کبھی کوئی ایسی بات سرزد نہیں ہوئی جس پر سیِّدِ عالَم،
نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے غضب فرمایا ہو، حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن علی بن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں: اُمُّ المؤمنین حضرتِ سَیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہمیشہ ہر ممکن کے ذریعے سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا پانے کی حریص وخواہش مند رہیں اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے کبھی کوئی ایسی بات صادر نہیں ہوئی جس پر پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے غضب فرمایا ہو جیسے دوسری ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کے لئے فرمایا۔([80])
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اولاد سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے، آپ ہی سے ہوئی۔([81]) §
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا قیامت تک کے تمام سادات کی نانی جان ہیں کیونکہ سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آلِ پاک خاتونِ جنت حضرتِ فاطمۃ
الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے چلی ہے اور حضرتِ فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی شہزادی ہیں۔
دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی نسبت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سب سے زیادہ عرصہ کم و بیش 25 برس رسولِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رفاقت وہمراہی میں رہنے کا شرف حاصل کیا۔([82])
سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ظُہُورِ نبوت کی سب سے پہلی خبر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ہی پہنچی۔([83])
سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر (عورتوں میں) سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ہی ایمان لانے کی سعادت حاصل کی۔([84])
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد اسلام میں
سب سے پہلے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے نماز پڑھی اور حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِقْتِدا میں پڑھی۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃ ُالرَّحْمٰن فرماتے ہیں: حُضُور سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم پر اوّل بار جس وقت وحی اتری اور نبوتِ کریمہ ظاہِر ہوئی اسی وَقْت حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے بہ تعلیم جبریْلِ امین عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیْم نماز پڑھی اور اسی دن بہ تعلیم اقدس حضرتِ اُمُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پڑھی، دوسرے دن امیر المؤمنین عَلِیُّ مرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْاَسْنٰی نے حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے ساتھ پڑھی کہ ابھی سورۂ مُزَّمِّل نازِل بھی نہ ہوئی تھی تو ایمان کے بعد پہلی شریعت نماز ہے۔([85])
حضرتِ سیِّدُنا امام احمد بن علی بن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں: اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ممتاز اوصاف میں سے ایک وَصْف یہ بھی ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہمیشہ پیارے وکریم آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم کرتی رہیں اور بعثت سے پہلے اور بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی باتوں کی تصدیق کرتی رہیں۔([86])
٭…٭…٭…٭…٭…٭
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتہ اِزدِواج میں منسلک ہونے کے بعد تاحیات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں مصروف رہیں۔ بالآخر جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اعلانِ نبوت فرمائے دسواں سال شروع ہوا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے وصال شریف کا وقت بھی قریب آ گیا۔
حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا مرضِ وفات شریف میں مبتلا تھیں کہ سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے خدیجہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا)! تمہیں اس حالت میں دیکھنا مجھے گراں (ناگوار) گزرتا ہے لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس گراں گزرنے میں کثیر بھلائی رکھی ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جنت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ، مریم بنتِ عمران، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہن کلثم اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے؟ ([87])
نبوت کے دسویں سال، رَمَضَانُ الْمُبَارَک کے مہینے میں جبکہ ابوطالِب کو
وفات پائے ابھی 3 یا 5 روز ہی ہوئے تھے([88]) کہ دس تاریخ کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے بھی پیکِ اَجَل کو لبیک کہتے ہوئے آخرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔ بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی۔([89])
؏ وہ اُمُّ المسلمیں جو مادرِ گیتی کی عزت ہے
وہ اُمُّ المسلمیں قدموں کے نیچے جس کے جنت ہے
خدیجہ طاہرہ یعنی نبی کی باوفا بی بی
شریکِ راحت و اندوہ پابندِ رضا بی بی
دیارِ جاودانی کی طرف راہی ہوئیں وہ بھی
گئیں دنیا سے آخر سوئے فردوسِ بریں وہ بھی([90])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ ایمن اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی چچی حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ فضل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا نے آپ کو غسل دیا۔([91]) چونکہ جس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا وِصال ہوا اس وقت تک نمازِ جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا اس لئے
آپ پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ”فِی الْوَاقع (درحقیقت) کُتُبِ سِیَر (سیرت کی کتابوں) میں عُلَماء نے یہی لکھا ہے کہ اُمُّ المومنین خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے جنازۂ مُبَارَکہ کی نماز نہ ہوئی کہ اس وقت یہ نماز ہوئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اس کا حکم ہوا ہے۔“([92])
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں واقع حَجُوْن§ کے مقام پر دفن کیا گیا۔ حُضُور رحمتِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود بَہ نفس نفیس آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی قبر میں اترے([93])اور اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن فرمایا۔
حضرتِ سیِّدُنا جابِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ سرورِ کائنات، فخرِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے بارے میں پوچھا گیا، فرمایا: ”میں نے انہیں خول دار (اندر سے خالی) موتی سے بنے گھر میں دیکھا ہے جو جنتی نہروں میں سے ایک نہر پر واقع ہے، اس میں کوئی لغو (بےکار) شے ہے نہ کسی قسم کی تکلیف۔([94])
چونکہ حضرت سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور ابوطالِب نے زندگی کے ہر ہر موڑ پر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نُصْرَت واِعانت (مدد) کی تھی اور ہر طرح کے مشکل وکٹھن اوقات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ دیا تھا لہٰذا چند روز کے فاصلے سے یکے بعد دیگرے ان کا انتقال کر جانا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے بہت ہی جاں گُداز اور رُوْح فَرْسا حادِثہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سال کو غم واَلَم کا سال قرار دیا چنانچہ روایت میں کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے عامُ الْحُزْن (غم کا سال) کا نام دیا۔([95])
٭…٭…٭…٭…٭…٭
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا وہ خوش نصیب اور بلند رتبہ خاتون ہیں جنہوں نے کم بیش 25 برس تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اقدس میں رہنے کی سعادت حاصِل کی اور سِوائے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے کہ وہ حضرتِ ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے پیدا ہوئے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اَوْلادِ اَطہار اِنہیں سے ہوئی([96]) آپ مؤمنین کی سب سے پہلی ماں اور رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون ہیں۔ شہنشاہِ ذی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِکاح میں آنے سے پہلے دو مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح ہو چکا تھا، پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ تمیمی سے ہوا۔§ ابوہالہ سے دو فرزند ہِنْد اور ہالہ پیدا ہوئے۔([97])
صحابِیِ رسول ہیں، غزوۂ بدر اور ایک قول کے مُطَابق غزوۂ اُحُد میں شریک
ہوئے، حضرتِ سیِّدُنا امام حسن بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا آپ سے رِوَایَت کرتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: میرے ماموں نے مجھ سے بیان کیا، کیونکہ حضرتِ ہند رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے اخیافی (ماں شریک) بھائی ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بہت فصیح وبلیغ اور اوصاف بیان کرنے کے بہت ماہر تھے، فرمایا کرتے تھے کہ والِد، والِدہ، بھائی اور بہن کے اعتبار سے مجھے سب سے زیادہ بزرگی حاصِل ہے کیونکہ میرے والِد رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، بھائی حضرتِ قاسم، بہن حضرتِ فاطمہ اور والِدہ حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم ہیں۔ جنگِ جمل میں حضرتِ سیِّدُنا عَلِیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْـکَرِیْم کے ساتھ تھے اور اسی جنگ میں شہید ہوئے۔([98])
یہ بھی ایمان لا کر شرفِ صحابیت سے مُشَرَّف ہوئے۔ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ان سے بہت محبت تھی، مروی ہے کہ ایک دفعہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آرام فرما رہے تھے کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضِر ہوئے۔ حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیدار ہوئے تو انہیں سینۂ اقدس سے لگا کر بغایتِ محبت فرمایا: ”ہالہ...! ہالہ...! ہالہ...!“ ([99])
ابوہالہ کی موت کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عتیق بن عابِد مخزومی سے نِکاح فرمایا، اس سے ایک لڑکی ہِنْدہ پیدا ہوئی،([100]) یہ بھی ایمان لائیں اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحابیت کا شرف پایا۔([101])
سرکارِ نامدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تین شہزادے اور چار شہزادیاں تھیں اور سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے سب اولاد حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے ہوئی۔([102])
رسولِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سب سے پہلے فرزند ہیں، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کنیت ”ابو القاسم“ انہیں کی نسبت سے ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا قاسم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، پیارے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِعْلانِ نبوت فرمانے سے پہلے پیدا ہوئے اور وہ پہلے فرزند ہیں جنہوں نے اولادِ اطہار رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم میں سب سے پہلے انتقال فرمایا۔([103])
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں بعدِ ظُہُور اسلام پیدا ہوئے اور عہدِ طفولیت میں ہی انتقال فرما گئے۔([104]) صحیح قول کے مطابق طیب وطاہِر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے لقب ہیں۔([105])
رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شہزادیوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سب سے بڑی ہیں، مروی ہے کہ جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عمر مُبَارَک 30 برس تھی اس وقت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت ہوئی، زمانہ اسلام پایا اور مُشَرَّف بَہ اِسْلام بھی ہوئیں، غزوۂ بدر کے بعد مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا کی طرف ہجرت کی، اپنے خالہ زاد حضرتِ ابوالعاص بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں، آٹھ۸ ہجری کے شروع میں انتقال فرمایا اور دارِ فنا (دنیا) سے دارِ بقا (آخرت) کی طرف روانہ ہوئیں۔([106]) آپ کے ہاں ایک بیٹے حضرتِ علی بن ابوالعاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا اور ایک بیٹی
حضرتِ امامہ بنتِ ابوالعاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کی وِلادت ہوئی۔([107])
جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عمر مُبَارک 33 سال تھی تب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت ہوئی، حضرتِ عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے ساتھ نِکاح ہوا۔([108]) حضرتِ زيد بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ جس دن جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خوش خبری لے کر مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا پہنچے اسی دن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے 20 برس کی عمر پا کر انتقال فرمایا۔([109]) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے شکم اطہر سے حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے ایک فرزند حضرتِ عبد الله رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ پیدا ہوئے، چار ہجری میں ان کا بھی انتقال ہو گیا۔([110])
حضرتِ سیِّدَتُنا رقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے انتقال فرمانے کے بعد ربیع الاوّل تین۳ ہجری میں حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح کر دیا۔ حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنۡہُ کی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ شعبان المعظم، نو۹ ہجری میں انتقال فرمایا اور رسولِ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔([111])
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ایک قول کے مُطَابق سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے چھوٹی شہزادی ہیں، رمضان المبارک دو۲ ہجری میں حضرت علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْـکَرِیْم سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح ہوا اور ماہِ ذوالحجۃ الحرام میں رخصتی ہوئی، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ہاں تین صاحبزادگان حضرتِ حسن، حضرتِ حسین، حضرتِ محسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم اور تین صاحبزادیوں حضرتِ زینب، حضرتِ اُمِّ کلثوم اور حضرتِ رقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی وِلادت ہوئی۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیائے ظاہِر سے پردہ فرمانے کے چھ۶ ماہ بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا بھی انتقال ہو گیا۔([112]) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے فضائل آسمان کے تاروں، ریت کے ذروں اور پانی کے قطروں کی طرح بےشمار ہیں، بخاری شریف کی حدیث ہے کہ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اِنَّ فَاطِمَۃَ بَضْعَۃٌ مِّنِّیْ وَاِنِّیْ
اَکْرَہُ اَنْ یَّسُوْءَھَا بےشک فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے، مجھے یہ بات پسند نہیں کہ اسے کوئی تکلیف پہنچے۔([113])
؏ نبی کی لاڈلی، بیوی ولی کی، ماں شہیدوں کی
یہاں جلوہ نبوت کا ولایت کا شہادت کا([114])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! فُیُوضِ صحابہ وصحابیات وغیرہ اَخیارِ امت سے فیض یاب ہونے کے لئے تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ! اس مَدَنی ماحول کی برکت سے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان صالحین اُمَّت کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کا ذہن بنتا ہے، آئیے! دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو کر صحابہ وصالحین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم اَجْمَعِیْن سے فیض یاب ہونے والی ایک اسلامی بہن کی قابلِ رشک مَدَنی بہار مُلاحظہ فرمائیے اور جھومئے، چنانچہ مرکز الاولیا (لاہور) کی ایک ذِمّے دار اسلامی بہن کے بیان کا خُلاصہ ہے کہ میری والِدہ ایک عرصے سے گُردوں کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ربیع النُّور شریف کے پُرنور مہینے
میں پہلی مرتبہ ہم ماں بیٹی دعوتِ اسلامی کے اسلامی بہنوں کے اللہ اللہ اور مرحبا یامصطفےٰ کی پُرکیف صداؤں سے گونجتے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع میں شریک ہوئیں۔ شرعی پردہ کرنے کے لئے مَدَنی بُرقع پہننے، آئندہ بھی سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے اور مزید اچھی اچھی نیتیں کر کے ہم دونوں گھر لوٹ آئیں۔ رات کے وقْت امی جان کو یکایک دل کا دَورہ پڑا، سنّتوں بھرے اجتماع میں گونجنے والی اللہ اللہ کی مسحور کُن صداؤں کا نشہ گویا ابھی باقی تھا شاید اسی لئے میری امی جان اپنی زندگی کے آخری تقریباً 25 مِنَٹ اللہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا وِرْد کرتی رہیں اور پِھر ...پِھر...اُن کی رُوْح قَفَسِ عُنْصُری سے پرواز کر گئی۔
؏ عَفْوْ فرما خطائیں مری اے عَفُو!
شوق و توفیق نیکی کی دے مجھ کو تُو
جاری دل کر کہ ہر دم رہے ذکرِ ھُو
عادتِ بد بدل اور کر نیک خُو([115])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
٭…٭…٭…٭…٭…٭
دُرُود شریف کی فضیلت |
1 |
گزشتہ سالوں سے بڑھ کرنفع |
12 |
|
سفرِ شام اور واقعۂ نِکاح |
ٍ |
میسرہ کے دِل میں حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی محبت |
ٍ |
|
قریش کی ایک باکِردار خاتون |
3 |
|||
اوّلین ازدواجی زندگی |
ٍ |
رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مکہ آمد |
13 |
|
دیانت دار آدمی کی تلاش |
4 |
|
||
پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شہرت |
5 |
واقعے کی تصدیق |
14 |
|
وَرَقہ بن نوفل سے تذکرہ |
15 |
|||
رسول ِ انام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سفرِ شام |
6 |
رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح کاسبب |
ٍ |
|
ابو طالب کی درخواست |
ٍ |
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی جانِب سے نِکاح کی پیشکش |
17 |
|
سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جواب |
7 |
|||
تقریب ِنِکاح اوراس کی تاریخ |
18 |
|||
حُضُورِ اقد س صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوتجارت کی پیشکش |
ٍ |
ابوطالب کاخطبہ |
19 |
|
وَرَقہ بن نوفل کاخطبہ |
20 |
|||
سفر پر روانگی |
8 |
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے چچا عمروبن اسد کا خطبہ |
ٍ |
|
ملکِ شام آمد اورعیسائی راہب کا کلام |
9 |
|
||
لات وعزّٰ ی کی قسم کھانے سے انکار |
11 |
برات کا کھانا |
21 |
مقامِ غور |
21 |
کنیت |
36 |
|
دُعا |
23 |
القابات |
ٍ |
|
ابتدائے اسلام میں سَیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا کِردار |
24 |
خاندانی اورقبائلی شرافتیں |
37 |
|
دَارُ النَّدْوَہْ اورمنصبِ مُشَاورت |
ٍ |
|
||
بے مثال رفیقۂ حیات |
ٍ |
شِعْبِِ ابی طالب |
38 |
|
پہلی وحی کا نُزُول |
25 |
ابوجہل کی پٹائی |
ٍ |
|
وَرَقہ بن نوفل کے پاس |
27 |
ظالمانہ مُعَاہد ے کا خاتمہ |
39 |
|
بعض الفاظِ حدیث کی وضاحت |
29 |
شرف ِاسلام |
ٍ |
|
ظہور ِنبوت کے بعد کے حالات |
30 |
رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے قرابت داری |
40 |
|
قدم قدم حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ |
31 |
|||
خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا مکانِ رحمت نِشان |
42 |
|||
ایک انمول مَدَنی پھول |
32 |
|
||
تَعَارُفِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا |
34 |
وقت کی الٹ پھیر میں... |
ٍ |
|
ضروری نوٹ |
|
|||
وِلادت اورنام ونسب |
ٍ |
مُتَفَرِّق فضائل ومَنَاقِب |
45 |
|
رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کااتصال |
ٍ |
کثرتِ ذکر |
ٍ |
|
شرحِ حدیث |
46 |
حضرت سَیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سہیلی کااکرام |
46 |
اگرکوئی کسی کا سلام لائے تو...؟ |
55 |
شوہر کی دلجوئی |
56 |
||
بکری کے گوشت کاتحفہ |
47 |
چار۴ افضل جنتی خواتین |
ٍ |
شرحِ حدیث |
ٍ |
دنیا میں جنتی پھل سے لطف اندوز |
57 |
یادِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا |
48 |
نماز کی ادائیگی |
58 |
بارگاہ رسالت مآب عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں تحفہ |
49 |
خُصُوصیات |
59 |
پہلی خصوصیت |
ٍ |
||
حضرت حلیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو تحفہ |
50 |
دوسری خصوصیت |
ٍ |
خوشگوار ازدواجی زندگی کے لئے مَدَنی پھول |
ٍ |
تیسری خصوصیت |
ٍ |
چوتھی خصوصیت |
60 |
||
غیب پر ایمان |
51 |
پانچویں خصوصیت |
ٍ |
شوروغل سے پاک محل کی بشارت |
53 |
چھٹی خصوصیت |
61 |
سلام کاجواب |
ٍ |
ساتویں خصوصیت |
ٍ |
روایتِ مذکورہ بالا سے ماخوذ دو ۲ مَدَنی پھول |
55 |
آٹھویں خصوصیت |
ٍ |
نویں خصوصیت |
ٍ |
||
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی شانِ فقاہت |
ٍ |
دسویں خصوصیت |
62 |
سفرِ آخِرَت |
63 |
جنت میں زوجیت کی بشارت |
63 |
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولاد پاک |
69 |
انتقالِ پُر ملال |
ٍ |
||
غسل اورنمازِ جنازہ |
64 |
||
تدفین |
65 |
حضرتِ سَیِّدُنا قاسم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ |
ٍ |
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا جنتی محل میں |
66 |
حضرتِ سَیِّدُنا عبدالله رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ |
70 |
حضرتِ سَیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا |
ٍ |
||
غموں وپریشانیوں کاسال |
ٍ |
حضرتِ سَیِّدَتُنا رقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا |
71 |
سَیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی اولاد |
67 |
حضرتِ سَیِّدَتُنا اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا |
ٍ |
حضرتِ سَیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا |
72 |
||
حضرتِ ہند بن ابوہالہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ |
ٍ |
قابلِ رشک موت |
73 |
حضرتِ ہالہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ |
68 |
فہرست |
75 |
حضرتِ ہندہ بنت عتیق رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا |
69 |
مآخذ ومراجع |
79 |
٭…٭…٭…٭…٭…٭
٭ |
القرآن الکریم کلامِ باری تعالیٰ |
٭…٭…٭…٭ |
نمبرشمار |
کتاب مصنف/مؤلف مع سن وفات |
ناشر مع سن طباعت |
1 |
کنز الایمان فی ترجمة القرآن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفی۱۳۴۰ھ |
مکـتبة المدینه باب المدینه کراچی۱۴۳۲ھ |
2 |
خزائن العرفان مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، متوفی۱۳۶۷ھ |
مکـتبة المدینه باب المدینه کراچی۱۴۳۲ھ |
3 |
صحیح البخاری امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل بخاری، متوفی۲۵۶ھ |
دار المعرفة بیروت ۱۴۲۸ھ |
4 |
صحیح مسلم امام ابو حسین مسلم بن حجاج قشیری، متوفی۲۶۱ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت 2008ء |
5 |
سنن ابن ماجة امام ابن ماجہ محمد بن یزید قزوینی، متوفی۲۷۳ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت 2009ء |
6 |
سنن الترمذی امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی۲۹۷ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت 2008ء |
7 |
المعجم الاوسط امام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی، متوفی۳۶۰ھ |
دار الفکر، عمان ۱۴۲۰ھ |
8 |
المعجم الکبیر امام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی،متوفی۳۶۰ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت 2007ء |
9 |
السنن الکبریٰ امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، متوفی۴۵۸ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۴ھ |
10 |
السنن الکبریٰ امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی ، متوفی۳۰۳ھ |
مؤسسةالرسالة بیروت ۱۴۲۱ھ |
11 |
المسند امام ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل، متوفی۲۴۱ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۹ھ |
12 |
الادب المفرد امام ابو عبدالله محمد بن اسماعیل بخاری، متوفی۲۵۶ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۱۰ ھ |
13 |
فتح الباری حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، متوفی۸۵۲ھ |
دار السلام، الریاض ۱۴۲۱ھ |
14 |
مراٰۃ المناجیح حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ |
نعیمی کتب خانه گجرات |
15 |
الاکمال فی اسماء الرجال امام محمد بن عبداللهخطیب تبریزی ،متوفی۷۴۱ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۸ھ |
16 |
معرفة الصحابة امام احمد بن عبدالله اصبہانی،متوفی۴۳۰ھ |
دارالوطن للنشر ۱۴۱۹ھ |
17 |
الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبد البر یُوسُف بن عبدالله قرطبی، متوفی۴۶۳ھ |
دار الجیل بیروت ۱۴۱۲ھ |
18 |
الاصابة فی تمییز الصحابة حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، متوفی۸۵۶ھ |
المکتبة التوفیقیة |
19 |
اسد الغابة فی معرفة الصحابة ابن اثیر عزالدین علی بن محمد جزری ،متوفی۶۳۰ ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۹ھ |
20 |
السیرۃ النبویة ابو بكر محمد بن اسحاق مدنی،متوفی۱۵۱ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۴ھ |
21 |
السیرۃ النبوية ابو محمد جمال الدین عبد الملک بن ہشام حمیری، متوفی۲۱۳ھ |
دار الفجر للتراث القاھرہ ۱۴۲۵ھ |
22 |
دلائل النبوۃ حافظ ابو نعیم احمد بن عبد الله اصبہانی،متوفی ۴۳۰ھ |
دار النفائس ۱۴۰۶ھ |
23 |
دلائل النبوة امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، متوفی۴۵۸ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۹ھ |
24 |
شرف المصطفٰی ابو سعد عبدالملک بن ابوعثمان نیشاپوری، متوفی۴۰۶ھ |
دار البشائر الاسلامیة ۱۴۲۴ھ |
25 |
الوفا باحوال المصطفی جمال الدین عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی،متوفی۵۹۷ھ |
المکتبة العصریة بیروت ۱۴۳۲ھ |
26 |
سبل الهدی والرشاد امام محمد بن یُوسُف شامی،متوفی۹۴۲ھ |
لجنة احياءالتراث الاسلامی ۱۴۱۸ھ |
27 |
تاریخ مدينه و دمشق ابن عساکرعلی بن حسن شافعی،متوفی۵۷۱ھ |
دارالفکر للطباعة والنشر ۱۴۱۵ھ |
28 |
سیر اعلام النبلاء امام شمس الدین محمد بن احمد ذھبی ،متوفی٧۴٨ھ |
مؤسسة الرسالة بیروت ۱۴۰۲ھ |
29 |
طبقات الکبریٰ امام ابو عبد الله محمد بن سعد ہاشمی،متوفی۱۶۸ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۱۰ھ |
30 |
مواھب اللدنية شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی، متوفی۹۲۳ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت 2009ء |
31 |
شرح الزرقانی علی المواھب امام محمد بن عبد الباقی زرقانی، متوفی۱۱۲۲ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۱۷ھ |
32 |
السیرة الحلبیة امام ابو الفرج نور الدین علی بن ابراہیم، متوفی۱۰۴۴ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت 2008ء |
33 |
امتاع الاسماع تقی الدین احمد بن علی مقریزی، متوفی۸۴۵ھ |
دار الکتب العلمیة بیروت ۱۴۲۰ھ |
34 |
مدارج النبوۃ شیخ عبدالحق محدث دہلوی، متوفی۱۰۵۲ھ |
النوریة الرضویة لاهور |
35 |
تاریخ الخمیس شيخ حسین بن محمد دیاربکری، متوفی۹۶۶ھ |
مؤسسة شعبان بيروت |
36 |
نسب قریش ابو عبد الله مُصْعَب بن عبدالله زُبَیری، متوفی ۲۳۶ھ |
دار المعارف قاهرہ
|
37 |
اخبار مکة ابو وليد محمد بن عبدالله ازرقی، متوفی۲۵۰ھ |
مکتبة الاسدی ۱۴۲۴ھ |
38 |
اخبار مکة ابو عبدالله محمد بن اسحاق فاکہی،متوفی۲۷۲ھ |
دار خضر بیروت ۱۴۱۴ھ |
39 |
معجم البلدان شہاب الدین ياقوت بن عبدالله حموی،متوفی۶۲۶ھ |
دار صادر بیروت ۱۳۹۷ھ |
40 |
الایضاح فی مناسک الحج و العمرة امام محی الدین یحیی بن شرف نووی، متوفی۶۷۶ھ |
دار البشائر الاسلامیة ۱۴۱۴ھ |
41 |
بہارِ شریعت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ |
مکتبة المدینه باب المدینه کراچی۱۴۲۹ھ |
42 |
اسلامی بہنوں کی نماز امیرِ اہلسنّت حضرتِ علّامہ مولانا محمد الیاس عطاؔر قادری |
مکتبة المدینه باب المدینه کراچی ۱۴۲۹ھ |
43 |
فتاویٰ رضویہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفی۱۳۴۰ھ |
رضا فاؤنڈیشن لاھور |
44 |
حدائِقِ بخشش اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، متوفی۱۳۴۰ھ |
مکتبة المدینه باب المدینه کراچی۱۴۳۳ھ |
45 |
ذوقِ نعت شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان، متوفی۱۳۲۶ھ |
شبیر برادرز لاھور ۱۴۲۸ھ |
46 |
دیوانِ سالِک حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی،متوفی۱۳۹۱ھ |
نعیمی کتب خانه گجرات |
47 |
بہارِ عقیدت سیِّد محمد مرغوب اختر الحامدی |
|
48 |
برہان رحمت محمد عبدالقیوم طارق سلطان پوری |
رضا اکیڈمی لاهور ۱۴۲۵ھ |
49 |
وسائل بخشش امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطاؔر قادِری |
مکتبة المدینه باب المدینه کراچی۱۴۳۲ھ |
50 |
شاہنامۂ اسلام ابو الاثر حفیظ جالندھری |
الحمد پبلی کیشنز لاهور |
٭…٭…٭…٭…٭…٭
جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا اس کو حسب ذیل برکتیں نصیب ہوں گی:
(۱)...وہ مرنے کے بعد جنت میں جائے گا۔
(۲)...وہ شیطان اور جن کی تمام شرارتوں سے محفوظ رہے گا۔
(۳)...اگر محتاج ہو گا تو چند دنوں میں اس کی محتاجی اور غریبی دُور ہو جائے گی۔ (جنتی زیور، ص۵۸۹)
[1]...سنن الترمذى، ابواب الوتر، باب...فى فضل الصلاة...الخ، ص۱۴۵، الحديث:۴۸۴.
[2]...حدائِقِ بخشش، حصہ دُوُم، ص۲۶۴.
[3]... خزائن العرفان، پ ۳۰، سورۂ قریش، تحت الآیۃ ۲، ص ۱۱۲۱.
[4]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر تزويج رسول الله صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ، ۱/۱۰۵.
٭ بعض رِوایات میں ہے کہ پہلے عتیق سے ہوئی اس کی وفات کے بعد ابوہالہ سے۔ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم. دیکھئے : [المعجم الكبير للطبرانى، ۹/۳۹۲، الحديث:۱۸۵۲۲]
[5]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر تزويج رسول الله صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ، ۱/۱۰۵.
٭ یہ تجارت میں ایک قسم کی شرکت ہے کہ ایک جانب سے مال ہو اور ایک جانب سے کام، مال دینے والے کو رب المال اور کام کرنے والے کو مُضَارِب اور مالِک نے جو دیا اسے راس المال کہتے ہیں۔ [بہار شریعت، مضاربت کا بیان، حصہ۱۴، ۳/۱]
[6]...الطبقات الكبرىٰ، تسمية نساء المسلمات...الخ، ۴۰۹۶-ذكر خديجة بنت خويلد، ۸/۱۲
٭ جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
[7]...دلائل النبوة للاصبهانى، الفصل الحادى عشر، ذكر خروج النبى صلى الله عليه وسلم الى الشام ثانيا...الخ، ۱/۱۷۳.
[8]...المرجع السابق.
[9]... المرجع السابق، ملتقطاً.
[10]... سبل الھدی والرشاد،جماع ابواب بعض الامور...الخ،الباب الثالث ،۲/۲۱۵،بتقدم وتأخر.
[11]... الطبقات الكبرى، ذكر علامات النبوة...الخ، ۱/۱۲۴.
[12]... سبل الھدی والرشاد،جماع ابواب بعض الامور...الخ،الباب الثالث ،۲/۲۱۵.
[13]... سبل الھدی والرشاد،جماع ابواب بعض الامور...الخ، الباب الثالث ، ۲/۲۱۵ .
والوفاء بأحوال المصطفى،ابواب بداية نبينا، الباب الرابع والاربعون فی ذكر خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم الی الشام...الخ، ۱/۱۱۷.
[14]... شرف المصطفٰى، جامع ابواب ظهوره...الخ، فصل ذكر ابتداء قصته صلى الله عليه وسلم مع خديجة رضى الله عنها واسلامها، ۱/۴۱۰، ملتقطاً.
§ یہ مکہ و مدینہ زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کے درمیان ایک وادی ہے۔ اس کا عام نام بطنِ مَرْوْ ہے۔[سبل الهدی و الرشاد، جماع ابواب بعض الامور...الخ، الباب الثالث عشر، ۱/۲۲۰]
[15]... سبل الھدی والرشاد،جماع ابواب بعض الامور...الخ، الباب الثالث ، ۲/۲۱۶،ملتقطاً.
[16]... سبل الھدی والرشاد،جماع ابواب بعض الامور...الخ،الباب الثالث،۲/۲۱۶،بتقدم وتأخر.
[17]... السیرة النبوية لابن اسحاق، حديث بنيان الكعبة،۱/۱۶۱.
[18]... سبل الهدى و الرشاد، جماع ابواب بعض الامور .الخ، الباب الرابع عشر، ٢/٢٢٢.
والوفاء باحوال المصطفي، الباب الرابع فى بيان ذكره فى التوراة...الخ، ١/٥٦.
§ کفو کے لغوی معنی مُمَاثَلَت اور برابری کے ہیں۔ ملک العلما حضرتِ علّامہ محمد ظفر الدین بہاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”محاورۂ عام (یعنی عام بول چال) میں فقط ہم قوم کو کفو کہتے ہیں اور شرعاً وہ کفو ہے کہ نسب یا مذہب یا پیشے یا چال چلن یا کسی بات میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے نِکاح ہونا اولیاءِ زن (یعنی عورت کے باپ دادا وغیرہ) کے لئے عرفاً باعِثِ ننگ وعار (شرمندگی وبدنامی کا سبب) ہو۔
[فتاویٰ ملک العلما، کتاب النکاح، ص۲۰۶]
نوٹ: کفو کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے بہارِ شریعت، جلد دُوُم، حصہ سات۷، صفحہ 53 تا 57 اور پردے کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 361 تا 384 کا مُطَالعہ فرمائیے۔
[19]... الطبقات الکبریٰ، ذكر تزويج رسول الله صلی الله عليه وسلم...الخ، ۱/۱۰۵.
[20]... مدارج النبوۃ،باب دوم در كفالت عبد المطلب ...الخ، ۲/۲۷.
والمواهب اللدنية، المقصد الاول، ذكر حضانته صلى الله عليه وسلم، ۱/۱۰۱.
[21]... المواهب اللدنية، المقصد الاول، ذكر حضانته صلى الله عليه وسلم، ۱/۱۰۱.
[22]... شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الاول، باب تزوجه صلى الله عليه وسلم خديجة، ۱/۳۷۷
[23]... المرجع السابق، ص۳۸۹.
[24]... وسائل بخشش، ص۶۷۰.
[25]... حدائق بخشش،حصہ اوّل، ص ۱۰۹.
[26]... مواهب اللدنية، المقصد الاول، دقائق حقائق بعثته صلى الله عليه وسلم، ۱/۱۰۳، ملتقطًا.
[27]... صحيح البخاری، كتاب بدء الوحی، باب كيف بدء الوحى...الخ، الحديث:۳، ص۶۵.
[28]... مراٰۃ المناجیح،وحی کی ابتداء، پہلی فصل، ۸/۹۷.
[29]... المرجع السابق، ص۹۶، ملتقطاً.
[30]...حدائِقِ بخشش، حصہ دُوُم، ص۳۰۴.
[31]... مراۃ المناجیح، وحی کی ابتدا، پہلی فصل، ۷/٩۸.
[32]... السيرة النبوية لابن اسحاق، تحديد ليلة القدر، ۱/۱۷۶.
[33]... بہارِ عقیدت، ص۱۱.
[34]...سامانِ بخشش، ص۱۰۲.
[35]... الطبقات الكبرى، ذكر تزويج رسول الله صلى الله عليه وسلم خديجة..الخ، ١/١٠٥
[36]... المرجع السابق، تسمية نساء المسلمات...الخ، ۳۰۹۶-ذكر خديجة...الخ ، ۸/۱۱.
[37]... السيرة الحلبية، باب تزویجه صلى الله عليه وسلم...الخ، ۱/۱۹۹.
[38]... سیر اعلام النبلاء، ۱۶-خدیجة ام المؤمنین، ۲/۱۰۹.
[39]... معرفة الصحابة للاصبهانى، ذكر الصحابيات...الخ، ۳۷۴۶-خديجة...الخ، ۶/۳۲۰۰.
[40]... المعجم الكبير للطبرانى، ذكر تزويج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ۹/۳۹۱، الحديث:۱۸۵۲۲
[41]...السيرة الحلبية، باب تزوجه صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ، ۱/۱۹۹.
[42]...تاريخ دمشق، تاريخ دمشق، حرف الميم، ۹۴۲۷-مريم بنت عمران، ۷۰/۱۱۸.
[43]...معجم البلدان، باب الدال والالف وما يليها، ۲/۴۲۳.
[44]...الاستيعاب، باب حكيم، ٥٣٥-حكيم بن حزام، ۱/۳۶۲.
[45]...اسد الغابة، باب الياء والزاء، ۵۵۵۲-يزيد بن زمعة، ۵/۴۵۳.
[46]...سيرت ابن هشام، خبر الصحيفة، ۲/۵، ملتقطاً.
[47]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر حصر قريش...الخ، ۱/۱۶۳.
[48]...سيرت ابن هشام، حديث نقض صحيفة قريش، ص۱۹، ملخصاً.
[49]... نسب قريش لمصعب زبير، الجزء السادس، ولد عبد العزى بن قصى، ص۲۰۶، ماخوذاً.
§ شعبِ ابی طالب کے تین سال نِکال کر کم وبیش 22برس۔
§ کم وبیش تین برس۔
[50]...اخبار مكة للازرقى، ۲/۸۱۲.
[51]...المرجع السابق.
[52]...اخبار مكة للفاكهى، ۴/۷.
[53]...رفیق المعتمرین، ص۱۲۰.
[54]...اسد الغابة، باب العين، عبد الله بن عثمان ابو بكر الصديق، اسلامه، ۳/۳۱۸.
[55]...تاريخ مدينة دمشق، ۳۹۱۱-عبد الرحمن بن عوف، ۳۵/۲۵۲.
[56]...تاريخ الخميس، ۲/۳۰۲.
ورفیق الحرمین، ص۱۲۰.
[57]...دیکھئے: اخبار مكة للفاكهى، ۴/۷.
و اخبار مكة للازرقى، ۲/۸۱۲.
والايضاح فى مناسب الحج والعمرة، ص٤٠٤.
§ مگر آہ! اب صرف اس کی فضاؤں کی زیارت کی جا سکتی ہے اور کھلی زمین پر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
[58]...صحيح البخارى، كتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبى صلى الله عليه وسلم...الخ، ص۹۶۲، الحديث:۳۸۱۸.
[59]...مراٰۃ المناجیح، ازواج پاک کے فضائل، پہلی فصل، ۸/۴۹۶.
[60]... الادب المفرد، باب قول المعروف، ص٧٨، الحديث:٢٣٢.
[61]... صحيح البخارى، كتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبى صلى الله عليه وسلم...الخ، ص۹۶۲، الحديث۳۸۱۸.
[62]... مراٰۃ المناجیح، ازواج پاک کے فضائل، پہلی فصل، ۸/۴۹٧.
[63]... صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب تزویج النبی...الخ، ص۹۶۲، الحديث۳۸۲۱.
[64]...ذوقِ نعت، ص۱۴۷.
[65]...المعجم الكبير للطبرانى، باب الزاء، زيد بن حارثة...الخ، ۳/۲۱۵، الحديث:۴۵۱۹.
[66]...الطبقات الكبرىٰ، ذكر من ارضع رسول الله صلى الله عليه وسلم...الخ، ۱/۹۲.
[67]... سنن ابن ماجة، كتاب الجنائز، باب ماجاء فى الصلاة على ابن...الخ، ص۲۴۳، الحديث:۱۵۱۲
[68]...صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب تزویج النبی صلی الله عليه وسلم، ص۹۶۲، الحديث:۳۸۲۰، ملتقطاً.
[69]... السنن الكبرى للنسائى، كتاب المناقب، مناقب خديجة...الخ،۷/۳۸۹، الحديث:۸۳۰۱
§ موتی سے بنا ہوا جنتی گھر۔
§ یاقوت جڑے ہوئے موتی سے بنایا گیا گھر جس میں شور ہے نہ کوئی تکلیف۔
§ محل، بلند وبالا عمارت۔
[70]...برہانِ رحمت، ص۴۹.
[71]...مراٰۃ المناجیح، ازواجِ پاک کے فضائل، پہلی فصل، ۸/۴۹۵.
[72]... فتح الباری، كتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبى صلى الله عليه وسلم...الخ، ۷/۱۷۴، تحت الحديث:۳۸۲۰، ملتقطاً.
[73]...بہارِ شریعت، حصہ۱۶، ۳/۴۶۳.
[74]... مسند احمد، مسند بنى هاشم، مسند عبد الله بن العباس...الخ، ۲/۲۴۱، الحديث:۲۷۲۰.
[75]... المعجم الاوسط للطبرانى، باب الميم، من اسمه محمد، ۳/۳۱۵، الحديث:۶۰۹۸.
[76]... حدائق بخشش، حصہ اوّل، ص۱۰۳.
[77]...فتاویٰ رضویہ، ۵/۸۳.
[78]...المعجم الكبير للطبرانى، باب من اسمه ابراهيم، عبيد الله بن ابى رافع عن ابيه، ۱/۲۵۱، الحديث:۹۴۵.
[79]... صحيح مسلم، كتاب فضائل صحابة رضى الله عنهم، باب فضائل خديجة...الخ، ص۹۴۹، الحديث:۲۴۳۶.
[80]... فتح البارى، كتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبي صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ، ۷/۱۷۳، تحت الحديث:۳۸۲۰.
[81]... المواهب اللدنية، المقصد الثانى، الفصل الثانى في ذكر اولاده...الخ، ۱/۳۹۱.
§ حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ، پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی باندی حضرتِ ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے شکم سے پیدا ہوئے۔ [مواهب اللدنية، المقصد الثانى، الفصل الثانى فى ذكر اولاده الكرام عليه وعليهم الصلوة والسلام، ۱/۳۹۷]
[82]... فتح البارى، كتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبى صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ ، ۷/۱۷۲، تحت الحديث:۳۸۱۸، ماخوذاً.
[83]...مراٰۃ المناجیح، وحی کی ابتداء، پہلی فصل، ۸/۹۷، بتغیر قلیل.
[84]... السنن الكبرى للبيهقى، كتاب قسم الفىء والغنيمة، باب اعطاء الفىء...الخ، ۶/۵۹۷، الحديث:۱۳۰۸۱.
[85]... فتاویٰ رضویہ، ۵/۸۳.
[86]...الاصابة، كتاب النساء، ۱۱۰۹۲-خديجة بنت خويلد رضى الله عنها، ۸/۱۱۲.
[87]...المعجم الكبير للطبرانى، ذكر تزويج رسول الله صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ، ۹/۳۹۳، الحديث:۱۸۵۳۱.
[88]... المواهب اللدنية، المقصد الاول، هجرته صلى الله عليه وسلم، ۱/۱۳۵، بتقدم وتاخر.
[89]...امتاع الاسماع، فصل فى ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ام المؤمنين خديجة بنت خويلد، ۶/۲۸.
[90]...شاہنامہ اسلام، ۱/۱۳۵.
[91]... امتاع الاسماع، فصل فى ذكر ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم، ام المؤمنين خديجة بنت خويلد، ۶/۳۰.
[92]... فتاویٰ رضویہ، ۹/۳۶۹.
§ ”حَجُون“ مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا کے بالائی حصے میں واقع ایک پہاڑ ہے، اس کے پاس اہل مکہ کا قبرستان ہے۔ [معجم البلدان، حرف الحاء والجيم...الخ، ۲/۲۲۵] اب اسے جَنَّتُ الْمَعْلٰی کہا جاتا ہے۔ شیخ طریقت، امیر اہلسنت حضرتِ علّامہ ابو بِلال محمد الیاس عطاؔر قادِری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تحریر فرماتے ہیں: جَنَّتُ الْبَقِیْع کے بعد جَنَّتُ الْمَعْلٰی دنیا کا سب سے افضل قبرستان ہے۔ یہاں اُمُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ، حضرتِ سیّدُنا عبد الله بن عمر اور کئی صحابہ وتابعین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن اور اولیاء وصالحین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کے مزاراتِ مقدسہ ہیں۔ اب ان کے قبے (یعنی گنبد) وغیرہ شہید کر دئیے گئے ہیں، مزارات مسمار کر کے ان پر راستے نکالے گئے ہیں۔ [رفیق المعتمرین، ص۱۲۳]
[93]... شرح العلامة الزرقانی على المواهب، المقصد الاول، وفاة خديجة وابى طالب، ۲/۴۹.
[94]... المعجم الکبیر للطبرانی، مناقب خدیجة رضی الله عنها...الخ، ۹/۳۹۵، الحديث:۱۸۵۴۰.
[95]... المواهب اللدنية، المقصد الاول، هجرته صلى الله عليه وسلم، ۱/۱۳۵.
[96]... فتح البارى، كتاب مناقب الانصار، باب تزويج النبى صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ ، ۷/۱۷۲، تحت الحديث:۳۸۱۸، ملتقطًا.
§ بعض روایات میں ہے کہ پہلے عتیق بن عابد مخزومی سے ہوئی اس کی وفات کے بعد ابوہالہ بن زرارہ تمیمی سے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير للطبرانى، ذكر تزويج رسول الله صلى الله عليه وسلم خديجة...الخ، ۹/۳۹۲، الحديث:۱۸۵۲۲]
[97]... المواهب اللدنية، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه...الخ، ۱/۴۰۲.
[98]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الاول، تزويجه عليه السلام خديجة، ۱/۳۷۳، ملتقطًا
[99]... المعجم الاوسط، باب العين، من اسمه على، ۳/۳۷، الحديث:۳۷۹۴.
[100]... المواهب اللدنية، المقصد الثانى، الفصل الثالث فى ذكر ازواجه...الخ، ۱/۴۰۲.
[101]... شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الاول، تزوجه عليه السلام خديجة، ۱/۳۷۳.
[102]...المواهب اللدنيه، المقصد الثانى، الفصل الثانى فى ذكر اولاده الكرام...الخ، ۱/۳۹۱.
[103]...مدارج النبوة، قسم پنجم، باب اول در ذکر اولادِ کرام، ٢/۴۵۱، ملتقطاً.
[104]...المرجع السابق.
[105]...المواهب اللدنية، المقصد الثانى، الفصل الثانى فى ذكر اولاده الكرام...الخ، ۱/۳۹۷.
[106]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثانى فى ذكر اولاده الكرام...الخ ، ۴/۳۱۸، ملتقطًا.
[107]...المواهب اللدنية، المقصد الثانى، الفصل الثانى فى ذكر اولاده الكرام...الخ، ۱/۳۹۲، ملتقطًا
[108]...المرجع السابق.
[109]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثانى فى ذكر اولاده...الخ، ۳/۳۲۴، ملتقطًا
[110]...امتاع الاسماع، فصل فى ذكر ابناء بنات...الخ، ۵/۳۵۵، ملتقطًا.
[111]...شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثانى فى ذكر اولاده الكرام...الخ، ۴/۳۲۷ و ۳۲۷، ملتقطًا.
[112]...الاكمال فى اسماء الرجال، ۷۱۸-فاطمة الكبرىٰ، ص۸۷.
[113]...صحيح البخارى، كتاب فضائل اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، باب ذكر اصهار...الخ، ص۹۴۵، الحديث:۳۷۲۹.
[114]...دیوانِ سالِک، ص۳۴.
[115]... اسلامی بہنوں کی نماز، ص۲۷۹، ملتقطًا.