جدید و قدیم تفاسیر اور دیگر علوم ِ اسلامیہ پر مشتمل

ذخیرہ کتب کی روشنی میں قرآن مجید کی آیات کے مطالب و معانی اور ان سے حاصل ہونے والے

درس و نکات کا موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق انتہائی سہل بیان،نیز مسلمانوں کے عقائد،دین اسلام

کے اوصاف و خصوصیات ، اہلسنت کے نظریات و معمولات،عبادات،معاملات ، اخلاقیات ، باطنی امراض اور

معاشرتی برائیوں سے متعلق قرآن و حدیث ، اقوال صحابہ و تابعین اور دیگر بزرگان دین کے ارشادات کی روشنی میں ایک جامع تفسیر

مع دو ترجموں کے

کَنْزُ الْاِیْمَان فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْآن

از: اعلیٰ حضرت ،مجددِ دین و ملت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن

 

 

اور

کَنْزُ الْعِرْفَان فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْآن

مع

صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن

 

 

 

از: شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مولانا الحاج مفتی ابو صالح محمد قاسم القادری مد ظلہ العالی

 

 

 

ناشر

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی                                                                                             


 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تفسیر’’صِرَاطُ الْجِنَان فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن‘‘ کا مطالعہ کرنے کی نیتیں

فرمانِ مصطفیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌمِنْ عَمَلِہ‘‘ مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی۶  / ۱۸۵حدیث: ۵۹۴۲)

دو مَدَنی پھول:

      (۱) بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔

(۲) جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔

          (1) ہربارتَعَوُّذو (2)  تَسْمِیَہ سے آغاز کروں گا (3) رضائے الٰہی کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخر مطالعہ کروں گا (4) باوضو اور (5) قبلہ رُو مطالعہ کروں گا (6) قراٰنی آیات کی درست مخارج کے ساتھ تلاوت کروں گا۔(7) ہرآیت کی تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھ کر قرآنِ کریم سمجھنے کی کوشش کرونگا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دوں گا۔ (8) اپنی طرف سے تفسیر کرنے کے بجائے علمائے حَقَّہ کی لکھی گئی تفاسیر پڑھ کر اپنے آپ کو ’’اپنی رائے سے تفسیر کرنے‘‘ کی وعید سے بچاؤں گا۔ (9) جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے وہ کروں گا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے دور رہوں گا۔ (10) اپنے عقائد واعمال کی اصلاح کروں گا اور بدعقیدگی سے خود بھی بچوں گا اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی بچانے کی کوشش کروں گا۔ (11) جن پر اللہ عَزَّوَجَلَّ  کا انعام ہوا ان کی پیروی کرتے ہوئے رضائے الٰہی پانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ (12) جن قوموں پر عتاب ہوا ان سے عبرت لیتے ہوئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈروں گا۔ (13) شانِ رسالت میں نازل ہونے والی آیات پڑھ کراس کا خوب چرچا کرکے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی محبت وعقیدت میں مزید اضافہ کروں گا۔ (14) جہاں جہاں ’’اللہ‘‘ کا نام پاک آئے گا وہاں عَزَّوَجَلَّ اور (15) جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پڑھوں گا۔ (16) شرعی مسائل سیکھوں گا (17) اگر کوئی بات سمجھ نہ آئی تو علمائے کرام سے پوچھ لوں گا۔ (18) دوسروں کویہ تفسیر پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔ (19) اس کے مطالعہ کا ثواب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ساری امت کو ایصال کروں گا۔ (20) کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طور پر مطلع کروں گا (ناشرین ومصنف وغیرہ کو کتابوں کی اغلاط صرف زبانی بتانا خاص مفید نہیں ہوتا)


 

اَلْحَمَدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن

 اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط

(شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت ،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کے صراط الجنان کی پہلی جلد پردئیے گئے تاثرات)

کچھ صِراطُ الجِنان کے بارے میں ۔۔۔۔۔

            ۱۴۲۲؁ھ( 2002ء) کی بات ہے جب مفتیِ دعوتِ اسلامی الحاج محمد فارو ق مَدَنی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْغَنِی ’’چل مدینہ‘‘ کے قافلے میں ہمارے ساتھ تھے اور اِس سفرِ حج میں مجھے ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ بے حد کم گو، انتہائی سنجیدہ اور کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنے والی اِس نہایت پرہیز گار شخصیت کی عَظَمت میرے دل میں گھر کر گئی۔  مکّۃُالمکرَّمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً میں ہمارا مشورہ ہوا کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے ترجمۂ کنزالایمان کی ایک آسان سی تفسیر ہونی چاہئے جس سے کم پڑھے لکھے عوام بھی فائدہ اٹھا سکیں ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مفتیِ دعوتِ اسلامی قدّس سرّہ السّامی اِس بابَرَکت خدمت کے لئے بخوشی آمادہ ہوگئے۔مُجَوَّزہ تفسیر کا نام صِراطُ الْجِنان (یعنی جنّتوں کا راستہ) طے ہوا۔ تَبَرُّکاً مکّۃُ المکرَّمہزَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً ہی میں اِس عظیم کام کا آغاز کردیا گیا، افسوس! مفتیِ دعوتِ اسلامی قدّس سرّہ السّامی کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا، 6 پاروں پر کام کرکے وہ (بروز جمعہ ۱۸ محرم الحرم ۱۴۲۷ھ) پردہ فرما گئے ۔

 اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رَحْمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

اٰمِیْن بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

            چونکہ یہ کام انتہائی اہم تھا لہٰذا مَدَنی مرکز کی درخواست پرشیخ الحدیث ِوالتَّفسیر حضرت علامہ مو لانا الحاج مفتی ابوصالح محمد قاسم قادری مدّظلہ العالی نے اس کام کا از سرِ نو آغاز کیا۔ اگرچِہ اس نئے مواد میں مفتیِ دعوتِ اسلامی کے کئے گئے کام کو شامل نہ کیا جا سکا مگر چونکہ بُنیاد انہی نے رکھی تھی اور آغاز بھی مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَااللہُ شَرَفًا وَّ تَعظِیْماً کی پُر بہارفَضاؤں میں ہوا تھا اور ’’صِراطُ الْجِنان‘‘ نام بھی وہیں طے کیا گیا تھا لہٰذا حُصُولِ بَرَکت کیلئے یِہی نام باقی رکھا گیا ہے۔کنز الایمان اگرچِہ اپنے دور کے اعتبار سے نہایت فَصیح ترجَمہ ہے تاہم اس کے بے شمار الفاظ ایسے ہیں جواب ہمارے یہاں رائج نہ رہنے کے سبب عوام کی فہم سے بالا تر ہیں لہٰذا اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ترجمۂ قراٰنکنز الایمان شریف کو مِن و عَن باقی رکھتے ہوئے اِسی سے روشنی لیکر دورِحاضر کے تقاضے کے مطابِق حضرتِ علامہ مفتی محمد قاسم صاحِب مد ظلہ نے مَاشَاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ا یک اور ترجَمے کا بھی اضافہ فرمایا، اس کانام کنزُالْعِرفان رکھا ہے۔ اِ س کام میں دعوتِ اسلامی کی میری عزیز اور پیاری مجلس،المدینۃ العلمیہ  کے مَدَنی عُلَما نے بھی حصّہ لیا بالخصوص مولانا ذُوالقَرنَین مَدَنی سلَّمہُ الغَنِینے خوب معاونت فرمائی اور اس طرح صِراطُ الجِنان کی 3 پاروں پرمشتمل پہلی جلد(دوسری، تیسری جلد کے بعد اب پارہ نمبر 10، 11 اور 12 پر مبنی چوتھی جلد)آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اللہ تعالیٰ الحاج مفتی محمد قاسم صاحِب مدظلہ سمیت اِسکَنْزُالْاِیْمَانِ فِیْ تَرْجَمَۃِ الْقُرْاٰنِ وَصِرَاطُ الْجِنَانِ فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُرْاٰنِکے مبارَک کام میں اپنا اپنا حصّہ ملانے والوں کو دنیا و آخِرت کی خوب خوب بھلائیاں عنایت فرمائے اور تمام عاشقانِ رسول کیلئے یہ تفسیرنفع بخش بنائے۔اٰمِیْن بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب !                                                                                               صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

 طالبِ غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کا پڑوس

۹ جمادَی الْاُخْرٰی ۱۴۳۴ھ

2013-04-20


 

دسواں پارہ

 

 

 

 

 

(وَ اعْلَمُوْۤا)


 

پارہ نمبر…10

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۴۱)

ترجمۂکنزالایمان: اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس پر جو ہم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں اوراللہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جان لو کہ تم جو مالِ غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ کے لئے اور رسول کے لئے اور (رسول کے) رشتے داروں کیلئے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پر فیصلہ کے دن اتارا جس دن دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی تھیں اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

{وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ:اور جان لو کہ تم جو مالِ غنیمت حاصل کرو ۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کا حکم اور اس کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمایا ہے، اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔

 غنیمت کی تعریف:

          وہ مال جسے مسلمان کفار سے جنگ میں قہر و غلبہ کے طور پر حاصل کریں اسے غنیمت کہتے ہیں اور جنگ کے بغیر جو مال کفار سے حاصل کیا جائے جیسے خَراج اور جِزیہ اس کو فَئے کہتے ہیں۔(در مختار وردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸)

مالِ غنیمت کی حِلَّت اس اُمت کی خصوصیت ہے:

            یاد رہے کہ مالِ غنیمت کا حلال ہونا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کی خصوصیات میں سے ہے، سابقہ امتوں میں سے کسی کے لئے غنیمت کا مال حلال نہیں تھا، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہم سے پہلے کسی کے لیے غنیمت حلال نہیں ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ہمارا ضُعف و عِجز دیکھ کر اسے ہمارے لیے حلال کر دیا۔(بخاری، کتاب فرض الخمس، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: احلّت لکم الغنائم، ۲ / ۳۴۹، الحدیث: ۳۱۲۴، مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب تحلیل الغنائم لہذہ الامۃ خاصۃ، ص۹۵۹، الحدیث: ۳۲(۱۷۴۷))

             اورحضرت ابوامامہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے افضل فرمایا‘‘ یا ارشاد فرمایا ’’ میری امت کو تمام امتوں سے افضل کیا اور ہمارے لیے غنیمت حلال کی۔(ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغنیمۃ، ۳ / ۱۹۶، الحدیث: ۱۵۵۸)

 مالِ غنیمت کا حکم اوراس کی تقسیم کا طریقہ:

            مالِ غنیمت کے حکم اور ا س کی تقسیم سے متعلق چند مسائل درج ذیل ہیں۔

(1)… مالِ غنیمت میں سے خُمُسْ یعنی پانچواں خاص اللہ عَزَّوَجَلَّاور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہے ، پانچواں حصہ نکال کرباقی چار حصے مجاہدین پر تقسیم کر دئیے جائیں گے اور مالِ فَئے مکمل طور پربیتُ المال میں رکھا جائے گا ۔(در مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجھاد، باب المغنم وقسمتہ، ۶ / ۲۱۸-۲۱۹ملتقطاً)  

(2)…رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد اب حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اہلِ قرابت کے حصے ساقط ہو گئے۔ اب مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ نکالا جائے تو اس کے تین حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ یتیموں کے لئے، ایک مسکینوں اور ایک مسافروں کے لئے اوراگر یہ تینوں حصے ایک ہی قسم مثلاً یتیموں یا مسکینوں پر خرچ کردئیے جب بھی جائز ہے اور مجاہدین کو حاجت ہو تو ان پر خرچ کرنا بھی جائز ہے۔(مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ص۴۱۳، درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷)

(3)…بنی ہاشم وبنی مُطَِّلب کے یتیم اور مساکین اور مسافر اگر فقیر ہوں تو یہ لوگ دوسروں کی بہ نسبت خمس کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ او فُقرا تو زکوٰۃ بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ نہیں لے سکتے اور یہ لوگ غنی ہوں تو خمس میں ان کا کچھ حق نہیں۔ (درّ مختار مع ردّ المحتار، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ، فصل فی کیفیۃ القسمۃ، ۶ / ۲۳۷-۲۳۸)

(4)…خُمُس کے علاوہ باقی چار حصے مجاہدین پر اس طرح تقسیم کئے جائیں گے کہ سوار کو پیدل کے مقابلے میں دگنا ملے گا یعنی ایک اس کا حصہ اور ایک گھوڑے کا اور گھوڑا عربی ہو یا کسی اور قسم کا سب کا ایک حکم ہے۔ لشکر کا سردار اور سپاہی دونوں برابر ہیں یعنی جتنا سپاہی کو ملے گا اتنا ہی سردار کو بھی ملے گا۔ اونٹ اور گدھے اور خچر کسی کے پاس ہوں توان کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ ملے گا یعنی اسے بھی پیدل والے کے برابر ملے گا اور اگر کسی کے پاس چند گھوڑے ہوں جب بھی اتنا ہی ملے گا جتنا ایک گھوڑے کے لیے ملتا تھا۔(عالمگیری، کتاب السیر، الباب الرابع فی الغنائم وقسمتہا، الفصل الثانی فی کیفیۃ القسمۃ، ۲ / ۲۱۲)

            نوٹ:غنیمت کے مزید مسائل جاننے کے لئے بہار شریعت حصہ 9 سے’’ غنیمت کا بیان ‘‘ مطالعہ کیجئے۔

{یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ:جس دن دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی تھیں۔} اس دن سے روز ِبدر مراد ہے اور دونوں فوجوں سے مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں مراد ہیں اور یہ واقعہ سترہ رمضان کو پیش آیا۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی تعداد تین سو دس سے کچھ زیادہ تھی اور مشرکین ہزار کے قریب تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہزیمت دی، ان میں سے ستر سے زیادہ مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۱۹۸)

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْؕ-وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِۙ-وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ﳔ لِّیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ وَّ یَحْیٰى مَنْ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ(۴۲)

ترجمۂکنزالایمان: جب تم نالے کے اس کنارے تھے اور کافر پرلے کنا رے اور قا فلہ تم سے ترائی میں اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور وقت پر برابر نہ پہنچتے لیکن یہ اس لیے کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے کہ جو ہلاک ہو دلیل سے ہلاک ہو اور جو جئے دلیل سے جئے اور بیشک اللہ ضرور سنتا جانتا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:  جب تم قریب والی جانب تھے اور وہ کافر دور والی جانب تھے اور قافلہ تم سے نیچے والی طرف تھا اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور مدت کے بارے میں تمہارا اختلاف ہوجاتا لیکن کیونکہ اللہ نے اس کام کو پورا کرنا تھا جسے ہوکر ہی رہنا تھا تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ بھی واضح دلیل سے زندہ رہے اور بیشک اللہ ضرور سننے والا جاننے والا ہے۔

{اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا:جب تم قریب والی جانب تھے۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بدر کی ا س جانب تھا جو مدینہ طیبہ سے قریب تھی اور کفار کا لشکر وادیٔ بدر کی دوسری جانب تھا جو کہ مدینہ طیبہ سے دور تھی جبکہ ابوسفیان وغیرہ کاتجارتی قافلہ وادیٔ بدر کے نچلی جانب تین میل کے فاصلے پر ساحلِ سمند ر کی طرف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پہلے سے وقت مقرر کئے بغیر کفار کے مقابلے میں لا کھڑا کیا، اس میں حکمت یہ تھی کہ اگر مسلمان اور کفار جنگ کا کوئی وقت معین کر لیتے پھر مسلمان اپنی قلیل تعداد، بے سروسامانی، کفار کی کثیر تعداد اور ان کے سامان کی کثرت دیکھتے تو ہیبت و خوف کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھتے اور میدانِ جنگ سے کترا کر نکل جاتے لیکن مدت مقرر کئے بغیر لڑائی اس لئے ہوگئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام و مسلمین کی مدد اور دشمنانِ دین کی ہلاکت کا کام پورا کرنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وقت مقرر کئے بغیر ہی جمع کردیا۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۱۹۸)

{لِیَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَیِّنَةٍ:تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ واضح دلیل سے ہلاک ہو۔}غزوۂ بدر کی ابتداء میں مسلمانوں کے لشکر کی حالت یہ تھی کہ مجاہدین اسباب کی کمی اور تیاری نہ ہونے کی وجہ سے خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا تھے، ان کی جائے قیام پانی سے دور تھی، زمین ریتلی ہونے کی وجہ سے اس میں پیر دھنس جاتے تھے، جبکہ لشکر ِکفار کا حال یہ تھا کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، کھانے پینے کا سامان اور ہتھیار ان کے پاس وافر مقدار میں موجود تھے اور وہ پانی کے قریب ٹھہرے ہوئے تھے، ان کی زمین ریتلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے چلنا آسان تھا مزید یہ کہ ان کے پیچھے ابو سفیان کا قافلہ تھا جس سے بَوقتِ ضرورت انہیں مدد حاصل ہونے کی امید تھی یوں بظاہر حالات کافروں کے موافق اور مسلمانوںکے مخالف تھے۔ جب دونوں لشکروں کی آپس میں جنگ ہوئی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے نقشہ ہی بدل دیا، اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو بہت بڑی فتح نصیب ہوئی اور کفار بد ترین شکست سے دوچار ہوئے۔ مسلمانوں کی فتح اور کفار کی شکست  تاجدارِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عظیم معجزہ اور نبوت کے دعویٰ کی صداقت پر مضبوط دلیل ہے کیونکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو فتح کی بشارت دی اور فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔ نیز مسلمانوں کو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتح کی بشارت اس وقت دی تھی کہ جب ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کی فتح کے کوئی آثار نہ تھے ،یوں بدر کی فتح سے نبیِّ آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کی سچائی ظاہر ہو گئی اور اسلام کی صداقت پر مضبوط دلیل قائم ہو گئی ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اب جو کفر اختیار کر کے ہلاکت میں پڑے گا تو دلیل قائم ہونے اور حجت پوری ہوجانے کے بعد ہلاکت میں پڑے گا اور جو اسلام قبول کر کے زندگی حاصل کرے گا تو وہ دلیل قائم ہونے کے بعد کرے گا۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۲، ۵ / ۴۸۷)

اِذْ یُرِیْكَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِكَ قَلِیْلًاؕ-وَ لَوْ اَرٰىكَهُمْ كَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۴۳)

ترجمۂکنزالایمان: جب کہ اے محبوب اللہ تمہیں کافروں کو تمہاری خواب میں تھوڑا دکھاتا تھا اور اے مسلمانو اگر وہ تمہیں بہت کرکے دکھاتا تو ضرور تم بزدلی کرتے اور معاملہ میں جھگڑا ڈالتے مگراللہ نے بچا لیا بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے حبیب! یاد کرو) جب اللہ نے یہ کافر تمہاری خواب میں تمہیں تھوڑے کر کے دکھائے اور اگر وہ ان کو زیادہ کرکے تمہیں دکھاتا تو اے مسلمانو! تم ضرور بزدل ہوجاتے اور تم ضرور معاملے میں اختلاف کرتے لیکن اللہ نے سلامت رکھا، بیشک وہ دلوں کی باتیں جانتا ہے۔

{اِذْ یُرِیْكَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِكَ قَلِیْلًا:(اے حبیب! یاد کرو) جب اللہ نے یہ کافر تمہاری خواب میں تمہیں تھوڑے کر کے دکھائے۔} یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت تھی کہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی تعداد تھوڑی دکھائی گئی اور آپ نے اپنا یہ خواب صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے بیان کیا تواس سے ان کی ہمتیں بڑھیں اور اپنے ضعف و کمزوری کا اندیشہ نہ رہا اور انہیں دشمن پر جرأت پیدا ہوئی اور دل مضبوط ہوئے۔ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا خواب حق ہوتا ہے، آپ کو کفار تھوڑے دکھائے گئے تھے اور ایسے کفار جو دنیا سے بے ایمان جائیں اور کفر ہی پر ان کا خاتمہ ہو وہ تھوڑے ہی تھے کیونکہ جو لشکر مقابلے میں آیا تھا اس میں کثیر لوگ وہ تھے جنہیں اپنی زندگی میں ایمان نصیب ہوا اور خواب میں قِلَّت کی تعبیر ضُعف سے ہے ،چنانچہ اللہتعالیٰ نے مسلمانوں کو غالب فرما کر کفار کا ضعف ظاہر کردیا۔ (صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۳، ۳ / ۷۶۸)

وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًاؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠(۴۴)

ترجمۂکنزالایمان: او ر جب لڑتے وقت تمہیں کا فر تھوڑے کرکے دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں تھو ڑا کیا کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے اور اللہ کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب لڑتے وقت اللہ تمہیں وہ کافر تمہاری نگاہوں میں تھوڑے کرکے دکھا رہا تھا اور تمہیں ان کی نگاہوں میں تھوڑا کردیا تاکہ اللہ اس کام کوپورا کرے جسے ہوکر ہی رہنا ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام کاموں کا رجوع ہے۔

{وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا: اور (اے مسلمانو! یاد کرو) جب لڑتے وقت اللہ  نے تمہیں وہ کا فر تمہاری نگاہوں میں تھوڑے کرکے دکھائے۔} بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کئی طرح کے انعامات فرمائے ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار بہت تھوڑے کر کے دکھائے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہماری نگاہوں میں اتنے کم لگے کہ میں نے اپنے برابر والے ایک شخص سے کہا کہ تمہارے گمان میں کافر ستر ہوں گے اس نے کہا کہ میرے خیال میں سو ہیں حالانکہ وہ ایک ہزار تھے۔ اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو بہت تھوڑا کر کے دکھایایہاں تک کہ ابوجہل نے کہا کہ’’ انہیں رسیوں میں باندھ لو،گویا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کو اتنا قلیل دیکھ رہا تھا کہ مقابلہ کرنے اور جنگ آزما ہونے کے لائق بھی خیال نہیں کرتا تھا ۔ مسلمانوں کو مشرکین تھوڑے دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ  رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خواب کی صداقت ظاہر ہو جائے، مسلمانوں کے دل مضبوط ہو جائیں اورکفار پر ان کی جرأت بڑھ جائے جبکہ مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دکھانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین مقابلہ پر جم جائیں ، بھاگ نہ پڑیں اور یہ بات ابتداء میں تھی، مقابلہ ہونے کے بعد انہیں مسلمان بہت زیادہ نظر آنے لگے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۴،  ۲ / ۱۹۹-۲۰۰، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۸۸، ملتقطاً)

          نوٹ:مسلمانوں اورکافروں کا بدر کے میدان میں ایک دوسرے کو کم اور زیادہ دیکھنے کا تفصیلی ذکر سورہ آلِ عمران آیت نمبر 13 میں مذکور ہے۔

{ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا:تاکہ اللہ اس کام کوپورا کرے جسے ہوکر ہی رہنا ہے۔} یعنی اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی نصرت اور شرک کا اِبطال اور مشرکین کی ذلت اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزے کا اظہار کہ جو فرمایا تھا وہ ہوا کہ قلیل جماعت بھاری لشکر پر فتح یاب ہوئی۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۴۵)

ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والوجب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو توثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یادکرو تاکہ فلاح پاؤ۔

{اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا:جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو بیان فرمایا جو ا س نے جنگِ بدر میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو عطا فرمائی تھیں اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کے دوآداب تعلیم فرمائے ہیں۔

             پہلا ادب: جنگ میں ثابت قدم رہنا۔ ابتداء ً مسلمانوں کو جنگ یاکسی بھی آزمائش کی تمنا نہیں کرنی چاہئے لیکن جب ان پر جنگ مُسلَّط ہو جائے تو اب ان پر لازم ہے کہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور بزدلی نہ دکھائیں۔ حضرت عبد اللہبن عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تم دشمنوں سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو اور جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ عَزَّوَجَلَّکو یاد کرو۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجہاد، باب کیف یصنع بالذی یغلّ، ۵ / ۱۷۰، الحدیث: ۹۵۸۱) اور جنگ میں ثابت قدم رہنے کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابو ایوب انصاری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے دشمن کے مقابلے میں صبر کیا یہاں تک کہ وہ شہید کر دیا گیا یا اس نے دشمنوں کو قتل کر دیا تو وہ فتنۂ قبر میں مبتلا نہ ہو گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ موسیٰ، ۶ / ۱۲۹، الحدیث: ۸۲۴۳)

          دوسرا ادب: لڑائی کے دوران کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔ دورانِ جنگ دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد اور زبان پہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکر ہونا چاہئے ۔ حضرت ابو مجلز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دشمن سے مقابلہ کرتے تو یوں دعا مانگتے ’’اے اللہ! تومیری طاقت اور مددگار ہے، میں تیری مدد سے پھرتا ہوں اور تیری مدد سے حملہ کرتا اور تیری مدد سے قِتال کرتا ہوں۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجہاد، باب کیف یصنع بالذی یغلّ، ۵ / ۱۶۹، الحدیث: ۹۵۸۰)

            حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو انتہائی شدید حالت میں بھی ذکر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ ہر حال میں انسان کا دل اور اس کی زبان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔ اگر ایک شخص مغرب سے مشرق تک اپنے اَموال کی سخاوت کرے اور دوسرا شخص مشرق سے مغرب تک تلوار سے جہاد کرتا جائے تب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّکا ذکر کرنے والے کا درجہ اور اجر اِن سے زیادہ ہو گا۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۵، ۵ / ۴۸۹)

            یاد رہے کہ دورانِ جنگ زیادہ تر ذکر زبان سے ہوگا کہ دل عام طور پر سامنے والے سے مقابلے میں مشغول ہوتا ہے۔

وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُكُمْ وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَۚ(۴۶)

ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں بے اتفاقی نہ کرو ورنہ تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا (قوت) اکھڑ جائے گی اور صبر کرو، بیشک اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔

{وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ:اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔}اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کا حکم ہمیشہ کیلئے ہے۔ (قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۳۰۷، الجزء السابع)

            اور اس آیت کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ تمام معاملات میں خصوصاً جہاد اور دشمن سے مقابلے کے وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کریں اور باہمی اختلافات سے بچیں جیساکہ اُحد میں بعض مسلمانوں نے بعض کی مخالفت کی، کیونکہ  باہمی تَنازع ضعف و کمزوری اور بے وقاری کا سبب ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۰۰، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۵ / ۴۸۹، ملتقطاً)

مسلمان باہمی اختلاف سے بچیں اور اتحاد کاراستہ اختیار کریں :

            اس آیت کا حکم تو جنگ کے بارے میں ہے لیکن عمومی حالات میں بھی مسلمانوں کو باہمی اختلاف سے بچنا چاہیے اور اتفاق و اتحاد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ کفار کے ممالک تو آپس میں متحد ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں باہمی اتحاد نظر نہیں آتا بلکہ ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ اگر کفار کسی مسلمان ملک پر ظلم و ستم کریں تو دوسرے ملک کے مسلمان اپنے مسلم بھائیوں کا ساتھ دینے اور ان کافروں کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی بجائے وہ بھی کافروں کا ساتھ دیتے ہیں۔

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(۴۷)

ترجمۂکنزالایمان: اور ان جیسے نہ ہونا جو اپنے گھر سے نکلے اتراتے اور لوگوں کے دکھانے کو اور اللہ کی راہ سے روکتےاور ان کے سب کام اللہ کے قابو میں ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان لوگوں جیسا نہ ہونا جو اپنے گھروں سے اِتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھاوا کرتے ہوئے نکلے اور وہ اللہ کے راستے سے روک رہے تھے اور اللہ ان کے تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے۔

{وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ:اور ان لوگوں جیسا نہ ہونا۔} شانِ نزول: یہ آیت ان کفارِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر میں بہت اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے آئے تھے۔ جب یہ لوگ آئے توسر کارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ، یہ قریش آگئے ،تکبر و غرور میں سرشار اور جنگ کے لئے تیار ہیں ، تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ یارب! عَزَّوَجَلَّ، اب وہ مدد عنایت ہو جس کا تو نے وعدہ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ قافلہ کو کوئی خطرہ نہیں رہا تو انہوں نے قریش کے پاس پیام بھیجا کہ تم قافلہ کی مدد کے لئے آئے تھے، اب اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا واپس چلے جاؤ۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ’’ خدا کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ ہم بدر میں اتریں ، تین دن قیام کریں ، اونٹ ذبح کریں ، بہت سے کھانے پکائیں ، شرابیں پئیں ، کنیزوں کا گانا بجانا سنیں ، عرب میں ہماری شہرت ہو اور ہماری ہیبت ہمیشہ باقی رہے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا جب وہ بدر میں پہنچے تو شراب کے جام کی جگہ انہیں ساغرِموت پینا پڑا اور کنیزوں کے سازو نَوا کی جگہ رونے والیاں انہیں روئیں اور اونٹوں کے ذبح کی جگہ ان کی گردنیں کٹیں۔(صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۷۷۰)

کافروں کی ریاکاری، فخر و غرور اور تکبر کے برے انجام سے مسلمان عبرت حاصل کریں :

             اللہ تعالیٰ اس آیت میں مؤمنین کو حکم فرمارہا ہے کہ وہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں اور سمجھ لیں کہ فخروریا اور غرورو تکبر کا انجام انتہائی خراب ہے بندے کو اخلاص اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کرنی چاہئے۔

وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْۚ-فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَؕ-وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠(۴۸)

ترجمۂکنزالایمان: اور جبکہ شیطان نے ان کی نگاہ میں ان کے کام بھلے کر دکھائے اور بولا آج تم پر کوئی شخص غالب آنے والا نہیں اور تم میری پناہ میں ہو تو جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے الٹے پاؤں بھاگا اور بولا میں تم سے الگ ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کا عذاب سخت ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب شیطان نے ان کی نگاہ میں ان کے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے اور شیطان نے کہا : آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور بیشک میں تمہارا مدد گار ہوں پھر جب دونوں لشکر آ منے سامنے ہوئے تو شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہنے لگا: بیشک میں تم سے بیزار ہوں۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ۔بیشک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

{وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ:اور (یاد کرو) جب شیطان نے ان کی نگاہ میں ان کے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے۔} اس آیت میں بیان کئے گئے واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان نے کفار کی نگاہ میں ان کے اعمال خوبصورت کرکے دکھائے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عداوت اور مسلمانوں کی مخالفت میں جو کچھ انہوں نے کیا تھا اس پر ان کی تعریفیں کیں اور انہیں خبیث اعمال پر قائم رہنے کی رغبت دلائی اور جب قریش نے بدر میں جانے پر اتفاق کرلیا تو انہیں یاد آیا کہ ان کے اور قبیلہ بنی بکر کے درمیان دشمنی ہے، ممکن تھا کہ وہ یہ خیال کرکے واپسی کا ارادہ کرتے اور یہ شیطان کو منظور نہ تھا، اس لئے اس نے یہ فریب کیا کہ وہ بنی کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں نمودار ہوا اور ایک لشکر اور ایک جھنڈا ساتھ لے کرمشرکین سے آملا اور ان سے کہنے لگا کہ میں تمہارا ذمہ دار ہوں آج تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں جب مسلمانوں اور کافروں کے دونوں لشکر صف آراء ہوئے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مشت خاک مشرکین کے منہ پر ماری تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام ابلیس لعین کی طرف بڑھے جوسراقہ کی شکل میں حارث بن ہشام کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تھا، ابلیس ہاتھ چھڑا کر اپنے گروہ کے ساتھ بھاگا۔ حارث پکارتا رہ گیا سراقہ !سراقہ! تم نے تو ہماری ضمانت لی تھی اب کہا ں جاتے ہو ؟ابلیس کہنے لگا : بیشک میں تم سے بیزار ہوں اور امن کی جو ذمہ داری لی تھی اس سے سبک دوش ہوتا ہوں۔ اس پر حار ث بن ہشام نے کہا کہ ہم تیرے بھروسے پر آئے تھے کیا تو اس حالت میں ہمیں رسوا کرے گا؟ کہنے لگا: میں وہ دیکھ رہاہوں جو تم نہیں دیکھ رہے،بیشک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہوں کہیں وہ مجھے ہلاک نہ کردے۔ جب کفار کو ہزیمت ہوئی اور وہ شکست کھا کر مکہ مکرمہ پہنچے تو انہوں نے یہ مشہور کر دیا کہ ہماری شکست و ہزیمت کی وجہ سراقہ بنا ہے۔ سراقہ کو جب یہ خبر پہنچی تو اسے بہت حیرت ہوئی اور اس نے کہا :یہ لوگ کیا کہتے ہیں۔نہ مجھے ان کے آنے کی خبر ، نہ جانے کی ،تو قریش نے کہا :’’ تو فلاں فلاں روز ہمارے پاس آیا تھا۔ اس نے قسم کھائی کہ یہ غلط ہے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ شیطان تھا۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۲۰۱-۲۰۲)

اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰۤؤُلَآءِ دِیْنُهُمْؕ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۹)

ترجمۂکنزالایمان: جب کہتے تھے منافق اور وہ جن کے دلوں میں آزار ہے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر مغرور ہیں اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہنے لگے کہ ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈالا ہوا ہے اور جو اللہ پر توکل کرے تو بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔

{اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ:جب منافق کہنے لگے۔} منافقین سے مراد اوس اور خزرج قبیلے کے چند افراد ہیں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے سے مراد مکہ مکرمہ کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے کلمۂ اسلام تو پڑھ لیا تھا مگر ابھی تک ان کے دلوں میں شک وتَرَدُّد باقی تھا۔ جب کفارِ قریش سید ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کے لئے نکلے تو یہ بھی ان کے ساتھ بدر میں پہنچے۔ بدر میں جب انہوں نے مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دیکھی تو ان کا شک مزید بڑھا اور وہ مرتد ہوگئے اور یہ کہنے گے کہ مسلمان اتنی کم تعداد کے باوجود اپنے سے تین گنا بڑے لشکر سے جنگ کرنے لگے ہیں ، انہیں ان کے دین اسلام نے دھوکے میں ڈالا ہوا ہے اور آخرت میں ثواب کی امید انہیں اپنی جانیں قربان کرنے پر ابھار رہی ہے۔ یہ تمام لوگ بدر میں مارے گئے تھے۔(تفسیرکبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۹، ۵ / ۴۹۳، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۰۰، ملتقطاً)

{وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ:اور جو اللہ پر توکل کرے۔} ارشاد فرمایا کہ  جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کرے  اور اپنا کام اس کے سپرد کردے اور اس کے فضل و احسان پر مطمئن ہو تو بیشک اللہ تعالیٰ اس کا حافظ و ناصر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غالب ہے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ حکمت والا ہے،وہ اپنے دشمنوں کو عذاب میں مبتلا کرتا اور اپنے اولیاء کو رحمت و ثواب عطا فرماتا ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۰۰)

صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے توکل کی تعریف :

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی تعریف فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنے تمام معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دئیے اور اس کی قضا پر راضی ہو گئے تا کہ دشمنوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ان کی حمایت فرمائے اور اس میں دیگر مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیم ہے کہ وہ بھی اپنے سب معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اس کی قضا و تقدیر پر ہر دم راضی رہیں۔

وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ یَتَوَفَّى الَّذِیْنَ كَفَرُواۙ-الْمَلٰٓىٕكَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَ اَدْبَارَهُمْۚ-وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ(۵۰)

ترجمۂکنزالایمان: اور کبھی تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں مار رہے ہیں ان کے منہ پر اور ان کی پیٹھ پر اور چکھو آ گ کا عذاب۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر آپ دیکھتے جب فرشتے کافروں کی ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے جان نکالتے ہیں اور (کہتے ہیں ) آگ کا عذاب چکھو۔

{وَ لَوْ تَرٰى:اوراگر آپ دیکھتے۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر آپ کافروں کی وہ حالت دیکھیں کہ جب موت کے وقت فرشتے کافروں کی روحیں نکالتے ہیں تو بڑا خوفناک منظر دیکھیں گے۔ فرشتے  آگ میں سرخ کئے ہوئے لوہے کے گُرز کافروں کے چہرے اور پیٹھوں پر مار تے ہوئے کہتے ہیں کہ آگ کا عذاب چکھو اور گرزوں کی ضرب و مار سے جو زخم لگتا ہے اس میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۲۰۲-۲۰۳)

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۙ(۵۱)

ترجمۂکنزالایمان: یہ بدلہ ہے اس کا جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ بدلہ ہے ان اعمال کا جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی یہ مصیبتیں اور عذاب تمہارے اپنے کئے ہوئے کفر اور گناہوں کا بدلہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی پر جرم کے بغیر عذاب نہیں کرتااور کافر پر عذاب کرنا عدل ہے۔آیت میں ’’بِظَلَّامٍ‘‘ سے مراد بہت ظلم کرنے والا نہیں بلکہ مُطْلَق ظلم کرنے والا مراد ہے اور معنی یہ ہوا کہ اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَۙ-وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۵۲)

ترجمۂکنزالایمان: جیسے فرعون والوں اور ان سے اگلوں کا دستور وہ اللہ کی آیتوں سے منکر ہوئے تو اللہنے انہیں ان کے گناہوں پر پکڑا بیشک اللہ قوت والا سخت عذاب والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:  جیسا فرعونیوں اور ان سے پہلوں کا طریقہ وہ اللہکی آیات کے ساتھ کفر کرتے تھے تو اللہ نےان کے گناہوں کے سبب انہیں پکڑلیا، بیشک اللہ بڑی قوت والا، سخت عذاب دینے والا ہے۔

{ كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ:جیسا فرعونیوں کا طریقہ۔} اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں کفار کی ذلت آمیز شکست اور آخرت میں ان کے لئے سخت عذاب تیار کرنے کا ذکر فرمایا جبکہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کفارِ قریش کو جو دنیا و آخرت میں عذاب دیا ہے وہ ان کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ تما م کفار اور سب منکروں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی طریقہ ہے۔آیت کا معنی یہ ہے کہ ان کافروں کی اپنے کفر وسرکشی میں عادت فرعون اور ان سے پہلوں کی طرح ہے تو جیسے فرعونیوں کو غرق کر کے ہلاک کیا اسی طرح یہ بھی غزوہ ٔ بدر کے دن قتل ا ور قید میں مبتلا کئے گئے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۲، ۵ / ۴۹۵)

             حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ آیت کا معنی یہ ہے کہ جس طرح فرعونیوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت کو یقین کے ساتھ جان لیا پھر بھی ان کی تکذیب کی یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کو جان پہچان کر تکذیب کرتے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۲۰۳)

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ(۵۳)

ترجمۂکنزالایمان: یہ اس لیے کہ اللہ کسی قوم سے جو نعمت انہیں دی تھی بدلتا نہیں جب تک وہ خود نہ بدل جائیں اور بیشک اللہ سنتا جانتا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ کسی نعمت کو ہرگز نہیں بدلتا جو اس نے کسی قوم کو عطا فرمائی ہو جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں اور بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

{ذٰلِكَ:یہ۔} یعنی کافروں کو عذاب دینے کا سبب یہ ہے کہ اللہتعالیٰ نے کسی قوم کو جو نعمت عطا فرمائی ہے اسے ہر گز نہیں بدلتا جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں ا ور زیادہ بدتر حال میں مبتلا نہ ہوں جیسے اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو روزی دے کر بھوک کی تکلیف دور کی، امن دے کر خوف سے نجات دی اور ان کی طرف اپنے حبیب سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نبی بنا کر مبعوث کیا ،انہوں نے ان نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے یہ سرکشی کی کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلایا اور ان کی خوں ریزی کے درپے ہوئے اور لوگوں کو راہِ حق سے روکا ۔ سُدِّی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت حضرت سیدانبیاء محمدمصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہیں۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۲۰۳)

قوموں کے عروج و زوال سے متعلق قانونِ الٰہی:

            قدرت کا یہ قانون ہے کہ کسی قوم کو نعمت دے کر اس وقت تک اس نعمت کو عذاب سے تبدیل نہیں کیا جاتا جب تک وہ قوم خود اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو اس نعمت کا نااہل ثابت نہیں کرتی۔ گزری ہوئی اور موجودہ قوموں کے عروج و زوال کیلئے یہی اٹل قانون ہے کہ نعمت کا شکر اور حق ادا کرنے پر نعمت بڑھ جاتی ہے اور ناشکری کرنے پرسزا دی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ قدرت کا یہ قانون صرف کافر قوموں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ مسلمان بھی اگر اُسی روش پر چلیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بھی اپنی دی ہوئی نعمتیں واپس لے لیتا ہے اور انہیں بھی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جیسا کہ مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب کی معرفت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک مسلمان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر اور ان کاحق ادا کرتے رہے تب تک عُروج کی ان مَنازل پر فائز رہے کہ دنیا کی بڑی بڑی سپر پاورز ان کے زیر نگیں رہیں اور کفار مسلمانوں کا نام سن کر لرزتے رہے اور جب سے مسلمانوں نے نعمت کے شکر اور ا س کے حق کی ادائیگی سے منہ موڑا تب سے ان کی طاقت اور کافروں پر تَسلُّط ختم ہونا شروع ہو گیا اور آج مسلمانوں کا دنیا بھر میں حال یہ ہے کافر انہیں برے سے برے نام سے یاد کرتے ہیں اور دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مسلم ملک ہو جو کافروں کا دست نگر نہ ہو۔

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَۙ-وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ-كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَۚ-وَ كُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ(۵۴)

ترجمۂکنزالایمان: جیسے فرعون والوں اور ان سے اگلوں کا دستور انہوں نے اپنے رب کی آیتیں جھٹلائیں تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کیا اور ہم نے فرعون والوں کو ڈبو دیا اور وہ سب ظالم تھے۔

 ترجمۂکنزُالعِرفان: جیسا فرعونیوں اور ان سے پہلوں کا طریقہ ،انہوں نے اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کردیا اور ہم نے فرعونیوں کو غرق کر دیااور وہ سب ظالم تھے۔

{وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:اور ان سے پہلوں کا طریقہ۔} یعنی جو کفار ِمکہ بدر میں قتل ہوئے ان کا اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی گئی نعمت کوبدلنا ویسا ہی ہے جیسا فرعونیوں اور ان سے پہلوں کا طریقہ تھا، انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے گناہوں کے سبب بعض کو زلزلے سے ہلاک کر دیا، بعض کو زمین میں دھنسا دیا، بعض پر پتھروں کی بارش برسائی،بعض کو تیز آندھی سے اور بعض کی شکلیں بگاڑ کر ہلاک کر دیا جبکہ فرعونیوں کو غرق کر دیا اسی طرح ہم نے کفارِ قریش کو تلوار سے ہلاک کردیا۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۲۰۳)

مردودوں اور مقبولوں کے واقعات پڑھنے کی ترغیب:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ عبرت کیلئے مردودوں کے تاریخی حالات پڑھنا ضروری ہے اسی طرح عبادت کا شوق پیدا کرنے کے لئے اولیاءِ کرام اور صالحین و مُتَّقِین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے واقعات کا مطالعہ کرنا بہت اچھا ہے۔

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵)

ترجمۂکنزالایمان: بیشک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک جانوروں میں سب سے بدتر، اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا تو وہ ایمان نہیں لاتے۔

{اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ:بیشک جانوروں میں سب سے بدتر۔} یعنی اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے فیصلے میں جانوروں سے بھی بد تر وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے کفر پر سختی سے قائم ہیں ،کسی صورت کفر چھوڑنے پر تیار نہیں اور جب بھی ان سے عہد کیا جائے تو وہ عہد توڑ دیتے ہیں۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۵، ۵ / ۴۹۷)

کافر جانوروں سے بھی بد تر ہیں :

            قرآنِ پاک میں اس کے علاوہ اور مقامات پر بھی کفار کو جانوروں سے زیادہ بھٹکے ہوئے، جانوروں سے بدتر گمراہ بلکہ تمام مخلوق سے بدتر فرمایا گیا، چنانچہ

             ایک مقام پر ارشاد ہوا: 

’’اُولٰٓىٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ‘‘ (اعراف: ۱۷۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔

            ایک جگہ ارشاد فرمایا:

’’اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا‘‘ (الفرقان:۴۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان:یہ تو صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’ اُولٰٓىٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِیَّةِ‘‘ (البینہ:۶)

ترجمۂکنزُالعِرفان:وہی تمام مخلوق میں سب سے بدتر ہیں۔

کافروں کے جانوروں سے بد تر ہونے کی وجوہات:

            کفار کو جانوروں سے بھی بدتر فرمائے جانے کی مفسرین نے کئی وجوہات بیان فرمائی ہیں ، ان کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جانور اللہتعالیٰ کی آیات سننے، سمجھنے اور دیکھنے کی قوت سے خالی ہیں ، اپنا نفع و نقصان پہچانتے ہیں اور اپنے مالک کی اطاعت کرتے ہیں جبکہ کفار اپنے اعضاء میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیات سننے، سمجھنے اور دیکھنے کی قوت رکھنے کے باوجود ان سے کام نہیں لیتے، کفر اختیار کر کے خود اپنا نقصان کرتے ہیں اور اپنے مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان ہیں اس لئے سب جانوروں سے بدتر ہیں۔

          نوٹ:اس سے متعلق مزید تفصیل کے لئے سورۂ اعراف آیت179کے تحت تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔

اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶)

ترجمۂکنزالایمان: وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر با ر اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر وہ ہر با ر اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔

{اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ:وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔} شانِ نزول: ’’اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ‘‘ اور اس کے بعد کی آیتیں بنی قریظہ کے یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئیں۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بنو قریظہ کے یہودیوں سے یہ معاہدہ تھا کہ وہ آپ سے لڑیں گے، نہ آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے۔ مشرکینِ مکہ نے جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنگ کی تو اس وقت بنو قریظہ نے یہ عہد توڑا اور ہتھیاروں سے ان مشرکین کی مدد کی، پھر انہوں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معذرت کی کہ ہم بھول گئے تھے اور ہم سے قصور ہوا اور دوبارہ عہد کیا، غزوۂ خندق کے دن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف کفار کا ساتھ دے کر انہوں نے اس عہد کو بھی توڑ دیا۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۲۰۴)

{ وَ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ:اور (اللہ سے)ڈرتے نہیں۔} یعنی وہ نہ خدا سے ڈرتے ہیں نہ عہد شکنی کے خراب نتیجے سے اور نہ اس سے شرماتے ہیں حالانکہ عہد شکنی ہر عقلمند کے نزدیک شرمناک جرم ہے اور عہد شکنی کرنے والا سب کے نزدیک بے اعتبار ہوجاتا ہے جب اس کی بے غیرتی اس درجہ تک پہنچ گئی تو یقینا وہ جانوروں سے بدتر ہیں۔

عہد شکنی کی مذمت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ خواہ بندوں سے کیا ہوا جائز عہد توڑا جائے یا اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کی جائے دونوں انتہائی مذموم ہیں اور احادیث میں بھی عہد شکنی کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ 2 اَحادیث ملاحظہ ہوں

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مدِّ مقابل ہوں گا، ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے ۔دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے ۔ تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب اثم من باع حرّاً، ۲ / ۵۲، الحدیث: ۲۲۲۷)

(2)…حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا ’’ مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے، جو کسی مسلمان کا عہد توڑے تو اس پر اللہ تعالیٰ ،فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، نہ ا س کی کوئی فرض عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفل۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، ۱ / ۶۱۶، الحدیث: ۱۸۷۰)

            اللہ تعالیٰ ہمیں عہد کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۵۷)

ترجمۂکنزالایمان: تو اگر تم کہیں انہیں لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسا قتل کرو جس سے ان کے پس ماندوں کو بھگاؤ اس امید پر کہ شاید انہیں عبرت ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اگر تم انہیں لڑائی میں پا ؤ تو انہیں ایسی مار مارو جس سے ان کے پیچھے والے (بھی) بھاگ جائیں ، اس امید پر (مارو) کہ شاید انہیں عبرت ہو۔

{فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ:تو اگر تم انہیں لڑائی میں پاؤ۔} یعنی وہ لوگ جنہوں نے عہد شکنی کی تم اگر انہیں لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی مار مارو جس سے ان کے پیچھے والے بھی بھاگ جائیں اور ان کی ہمتیں توڑ دو اور ان کی جماعتیں مُنْتَشِر کردو اور اس امید پرمارو کہ شاید انہیں عبرت ہو۔

سزاؤں کی حکمت:

            اس سے معلوم ہوا کہ جنگ میں ہر وہ جائز طریقہ استعمال کرنا درست ہے جو کفار کی ہمت توڑدے۔ سزاؤں کے پیچھے اکثر و بیشتر یہی عوامِل کار فرما ہوتے ہیں کہ دوسروں کو عبرت ہو اور وہ ایسی حرکتیں نہ کریں۔

وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآىٕنِیْنَ۠(۵۸)

ترجمۂکنزالایمان: اور اگر تم کسی قوم سے دغا کا اندیشہ کرو تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دو برابری پر بیشک دغا والے اللہ کو پسند نہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا اندیشہ ہوتو ان کا عہد ان کی طرف اس طرح پھینک دو کہ (دونوں علم میں) برابر ہوں بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

{وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً:اور اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا اندیشہ ہو۔} اس آیت میں عام مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں سے خطاب ہے اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ معاہدے کے بعد جب کسی قوم کی طرف سے عہد شکنی کی علامات ظاہر ہوں تو عہد توڑنے کیلئے مسلمانوں کے امیر پر لازم ہے کہ انہیں بتا دے کہ آج کے بعد ہمارا تم سے معاہدہ ختم ہے اور ان پر حملہ کرنے سے پہلے انہیں جنگ کی اطلاع دے دے تاکہ یہ اس قوم سے بدعہدی کرنے والا شمار نہ ہو اور اگر ان کی عہد شکنی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جائے تو عہد ختم ہونے اور جنگ کی اطلاع دینے کی ضرورت نہیں بلکہ ڈائریکٹ ان پر حملہ کر دیاجائے۔( صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۸، ۳ / ۷۷۴)

عہد سے متعلق اسلام کی عظیم تعلیم:

            اس آیت سے واضح ہو اکہ دینِ اسلام میں عہد سے متعلق دی گئی تعلیم انتہائی شاندار ہے اور کفار سے کئے ہوئے عہد کا بھی اسلام میں بہت لحاظ رکھا گیا ہے، یہاں کفار سے کئے گئے عہد کی پاسداری سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ’’حضرت سلیم بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور رومیوں کے درمیان ایک معاہدہ تھا، حضرت امیر معاویہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کے شہروں کی طرف تشریف لے گئے تاکہ جب معاہدہ ختم ہو تو ان پر حملہ کر دیں لیکن اچانک ایک آدمی کو چوپائے یا گھوڑے پر دیکھا وہ کہہ رہا تھا: اللہُ اَکْبَر! عہد پورا کرو، عہد شکنی نہ کرو۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہ شخص حضرت عمرو بن عَبْسَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ’’جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو وہ ا س معاہدے کو نہ توڑے اور نہ بدلے جب تک کہ اس کی مدت ختم نہ ہو جائے یا وہ برابری کی بنیاد پر اس کی طرف پھینک نہ دے۔ راوی فرماتے ہیں ’’یہ سن کر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ  لوگوں کو لے کر واپس لوٹ گئے۔ (ترمذی، کتاب السیر، باب ما جاء فی الغدر، ۳ / ۲۱۲، الحدیث: ۱۵۸۶)

وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَبَقُوْاؕ-اِنَّهُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ(۵۹)

ترجمۂکنزالایمان: اور ہرگز کا فر اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ وہ ہاتھ سے نکل گئے بیشک وہ عاجز نہیں کرتے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ہرگز کا فر یہ خیال نہ کریں کہ وہ ہاتھ سے نکل گئے ہیں ، بیشک وہ (اللہ کو) عاجز نہیں کرسکتے۔

{ وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا:اور ہرگز کافر یہ خیال نہ کریں۔} یعنی جو کفار جنگِ بدر سے بھاگ کر قتل ا ور قید سے بچ گئے اور مسلمانوں کے  ہاتھ سے نکل گئے وہ اپنے آپ کو ہماری قدرت اور پکڑ سے باہر نہ سمجھیں ہم ہر طرح پکڑنے پر قادر ہیں۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۲۰۵)

کوئی خود کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے باہر نہ جانے:

            اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے جو بیماری، مصیبت اور کوئی آفت آنے کی صورت میں تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی توبہ کرتے اور ساری زندگی گناہوں سے دور رہنے اور اطاعت و فرمانبرداری میں مصروف رہنے کا عہد کرتے ہیں لیکن جب تندرست ہو جاتے اور مصیبت و آفت سے باہر نکل آتے ہیں تو ان کے دوبارہ وہی پرانے لچھن شروع ہوجاتے ہیں۔ انہیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھ لینی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور پکڑ سے کسی صورت باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر حال میں اور ہر طرح سے پکڑنے پر قادر ہے۔ مسلمان ایسا اعتقاد تو یقینا نہیں رکھتا لیکن عمل کے معاملے میں بہرحال حالت بہتر نہیں۔

وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ-لَا تَعْلَمُوْنَهُمْۚ-اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(۶۰)

ترجمۂکنزالایمان: اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جواللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو تاکہ اس تیاری کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں انہیں ڈراؤ، تم انہیں نہیں جانتے اوراللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا بدلہ دیا جائے گااور تم پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔

{وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ:اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو۔} اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رَمی یعنی تیر اندازی ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۲ / ۲۰۵)

            جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ وذم من علمہ ثمّ نسیہ،  ص۱۰۶۱، الحدیث: ۱۶۷(۱۹۱۷))فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے۔

آیت’’ وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

           اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں

(1)… جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسبِ موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کے لئے وضو ضروری ہے۔

(2)… عبادت کے اَسباب جمع کرنا عبادت ہیں اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے جیسے حجِ فرض کیلئے سفر کرنا فرض ہے اور چوری کے لئے سفر کرنا حرام ہے۔

(3)…کفار کو ڈرانا دھمکانا اپنی قوت دکھانا بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں حتّٰی کہ کافروں کے دل میں رُعب ڈالنے کیلئے غازی اپنی سفید داڑھی کو سیاہ کر سکتا ہے ورنہ ویسے سیاہ خضاب ناجائز وگناہ ہے۔

فتح و نصرت کی عظیم تدبیر:

            مذکورہ بالا آیت ِ کریمہ فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اُن کے پاس پہلی کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیرہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اِسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔ اگر مسلمان مل کر اِس آیت پر عمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کرسکے۔

{وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ:اور جو اُن کے علاوہ ہیں۔} یہاں دوسرے لوگوں سے کون مراد ہیں ان کے بارے میں مفسرین کاایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد بنو قریظہ کے یہودی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد فارس کے مجوسی ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ‘‘تم انہیں نہیں جانتے کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی زبانوں سے ’’لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ‘‘ کہتے ہیں جبکہ’’اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْ‘‘ اللہ انہیں جانتا ہے کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حسن بصری  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس سے مراد کافر جنّات ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۰، ۲ / ۲۰۶)

وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۶۱)

ترجمۂکنزالایمان: اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک وہی ہے سنتا جانتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہوجاؤ اوراللہ پر بھروسہ رکھو بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے۔

{وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا:اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہوجاؤ ۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو دشمنوں کے مقابلے میں قوت کی تیاری اور انہیں خوفزدہ کرنے کا سامان کرنے کا حکم دیا اور اس آیت میں یہ حکم دیا کہ اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں اور صلح کی درخواست کریں تو ان کی صلح قبول کر لو۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۰۷)

کفار سے صلح سے متعلق 3مسائل:

            اس آیت میں کفار سے صلح کا ذکر ہواا س مناسبت سے یہاں ہم صلح سے متعلق تین مسائل ذکر کرتے ہیں :

(1)…اگر صلح مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو تو صلح کرنا جائز ہے اگرچہ کچھ مال لے کر یا دے کر صلح کی جائے اور صلح کے بعد اگر مصلحت صلح توڑنے میں ہو تو توڑ دیں مگر یہ ضروری ہے کہ پہلے انھیں اس کی اطلاع کردیں اور اطلاع کے بعد فوراً جنگ شروع نہ کریں بلکہ اتنی مہلت دیں کہ کافر بادشاہ اپنے تمام ممالک میں اس خبر کو پہنچا سکے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ صلح میں کوئی مدت مُعیَّن نہ کی گئی ہو اور اگر مدت معین کی گئی ہو تو مدت پوری ہونے پر اطلاع دینے کی کچھ حاجت نہیں۔ (درمختار وردالمحتار، کتاب الجہاد، مطلب فی بیان نسخ المثلۃ، ۶ / ۲۱۲)

(2)… جس مشرک سے معاہدہ کیا جائے وہ مشرکینِ عرب میں سے نہ ہو کیونکہ عرب کے مشرکین سے صرف اسلام قبول کیا جائے گا یا جنگ۔ (بدائع الصنائع، کتاب السیر، رکن العقد فی الامان المؤبد وشرائطہ، ۶ / ۷۸)

(3)… مرتد ہونے والوں سے صرف اسلام قبول کیا جائے یا ان سے جنگ کی جائے گی، ان سے نہ صلح جائز ہے اور نہ جِزیہ لینا جائز ہے۔

وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُؕ-هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَۙ(۶۲)

ترجمۂکنزالایمان: اور اگر وہ تمہیں فریب دیا چاہیں تو بیشک اللہ تمہیں کافی ہے وہی ہے جس نے تمہیں زور دیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (اے حبیب!) اگر وہ تمہیں دھوکہ دینا چاہیں گے تو بیشک اللہ تمہیں کافی ہے۔وہی ہے جس نے اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے تمہاری تائید فرمائی۔

{وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ:اور اگر وہ تمہیں دھوکہ دینا چاہیں گے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر کفار دھوکہ دینے کے لئے صلح کی پیش کش کریں تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے فریب سے بچائے گا کہ تمہیں کسی طریقہ سے خبر دے دے گا۔

{هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ:وہی ہے جس نے اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے تمہاری تائید فرمائی۔} بدر میں اللہ تعالیٰ کی مدد تو وہ تھی جو فرشتوں کے ذریعے آئی اور مسلمانوں کے ذریعے مدد وہ تھی جو مہاجرین و انصار کے ذریعے پہنچی۔

مددِ الٰہی کی صورتیں :

             اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد فرشتوں کے ذریعے بھی ہوتی ہے اور نیک بندوں کے ذریعے بھی، نیز ظاہری اسباب کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور ظاہری اسباب سے ہٹ کر بھی۔

وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْؕ-لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْؕ-اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۶۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور ان کے دلوں میں میل کردیا اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے ان کے دل نہ ملا سکتے لیکن اللہ نے ان کے دل ملادیئے بیشک وہی ہے غالب حکمت والا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اس نے مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہ کرسکتے تھے لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو ملادیا، بیشک وہ غالب حکمت والا ہے۔

{وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ:اور اس نے ان کے دلوں میں اُلفت پیدا کردی۔} انصار کے دو قبیلے اوس و خزرج کے درمیان شروع ہونے والی عداوت برسوں سے چلی آ رہی تھی اور ان کی باہمی عداوت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ انہیں ملادینے کے لئے تمام سامان بے کار ہوچکے تھے اور کوئی صورت باقی نہ رہی تھی، ذرا ذرا سی بات میں بگڑ جاتے اور برسہا برس تک جنگ باقی رہتی، الغرض کسی طرح دو دِل نہ مل سکتے تھے۔ جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمبعوث ہوئے اور عرب کے لوگ آپ پر ایمان لائے اور انہوں نے آپ کی اتباع کی تو یہ حالت بدل گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا فرما دی ، دلوں سے دِیرِیْنہ عداوتیں اور کینے دور ہوئے اور ایمانی محبتیں پیدا ہوئیں۔ یہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا روشن معجزہ ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۳، ۵ / ۵۰۱-۵۰۲)

مسلمانوں کی اِجتماعیت کا سب سے بڑا ذریعہ:

            یاد رہے کہ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی محبت مسلمانوں کی اِجتِماعِیَّت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دیکھ لیں کہ مشرق و مغرب کے دولوگ جن کے رنگ، زبان، نسل، معیارِ زندگی سب کچھ ایک دوسرے سے جدا ہو لیکن جب ایک کو یہ پتہ چلتا ہے کہ دوسرا شخص بھی سرورِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا غلام ہے تو فوراً دل میں نرمی و محبت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠(۶۴)

ترجمۂکنزالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے نبی! اللہ تمہیں کافی ہے اور جو مسلمان تمہارے پیروکار ہیں۔

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ:اے نبی!اللہ تمہیں کافی ہے۔}اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے دھوکہ دینے کی صورت میں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنی مدد و نصرت کا وعدہ فرمایا تھا اورا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً ہر حال میں اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مدد ونصرت اور کامیابی کا وعدہ فرمایا ہے۔ شانِ نزول: ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت غزوۂ بدر میں جنگ سے پہلے نازل ہوئی اور مومنین سے انصار صحابۂ کرام یا انصار و مہاجرین دونوں مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اسلام قبول کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ اس قول کے مطابق یہ آیت مکی ہے اوررسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے مدنی سورت میں لکھی گئی ہے۔ اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو کافی ہے اور ان مسلمانوں کو بھی کافی ہے جنہوں نے آپ ک پیروی کی۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ آپ کو کافی ہے اور آپ کی پیروی کرنے والے مسلمان آپ کو کافی ہیں۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۴، ۵ / ۵۰۳، خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۴، ۲ / ۲۰۷-۲۰۸، ملتقطاً)

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَى الْقِتَالِؕ-اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ(۶۵)اَلْـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَ عَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًاؕ-فَاِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِۚ-وَ اِنْ یَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفَیْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۶۶)

ترجمۂکنزالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو اگر تم میں کے بیس صبر والے ہوں گے دو سو پر غالب ہوں گے اور اگر تم میں کے سو ہوں تو کافروں کے ہزا ر پر غالب آئیں گے اس لیے کہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ اب اللہ نے تم پر سے تخفیف فرمادی اور اسے معلوم ہے کہ تم کمزو ر ہو تو اگر تم میں سو صبر والے ہوں د و سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں کے ہزار ہوں تو دو ہزار پر غالب ہوں گے اللہ کے حکم سے اوراللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے کیونکہ کافر سمجھ نہیں رکھتے۔اب اللہ نے تم پر سے تخفیف فرمادی اور اسے علم ہے کہ تم کمزو ر ہو تو اگر تم میں سو صبر کرنے والے ہوں تود و سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب ہوں گے اوراللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے نبی!۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بشارت ہے کہ مسلمانوں کی جماعت صابر رہےتومدد ِالٰہی سے دس گنا کافروں پر غالب رہے گی کیونکہ کفار جاہل ہیں اور ان کی جنگ سے غرض نہ حصولِ ثواب ہے نہ خوف ِعذاب، جانوروں کی طرح لڑتے بھڑتے ہیں تو وہ للہیت کے ساتھ لڑنے والوں کے مقابل کیا ٹھہر سکیں گے۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۲۰)  بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر فرض کردیا گیا کہ مسلمانوں کا ایک فرددس افراد کے مقابلہ سے نہ بھاگے، پھر آیت ’’ اَلْـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ‘‘ نازل ہوئی تو یہ لازم کیا گیا کہ ایک سو مجاہدین دو سو 200 لوگوں کے مقابلے میں قائم رہیں۔(بخاری، کتاب التفسیر، باب الآن خفّف اللہ عنکم۔۔۔ الخ،  ۳ / ۲۳۱، الحدیث: ۴۶۵۳)

            یعنی دس گنا سے مقابلہ کی فرضیت منسوخ ہوئی اور دو گنا کے مقابلہ سے بھاگنا ممنوع رکھا گیا۔

جہاد کی ترغیب:

            اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کے حکم سے معلوم ہوا کہ جہاد بہت اعلیٰ عبادت ہے جس کی رغبت دلانے کا حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حکم دیا گیا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد کی ہر جائز طریقہ سے رغبت دینا جائز ہے۔ غازی کی تنخواہ مقرر کرنا، اس کے بیوی بچوں کی پرورش کرنا، بہادروں کی قدر دانی کرنا سب اس میں داخل ہیں۔

            اس آیت کے علاوہ قرآنِ پاک کی اور کئی آیات میں کفار سے جہاد کرنے کی ترغیب بیان کی گئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰)تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ‘‘ (الصف۱۰،۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتادوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم (اپنا حقیقی نفع) جانتے ہو۔

            ایک مقام پر ارشاد فرمایا

’’اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ‘‘ (التوبہ۱۱۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو (کافروں کو) قتل کرتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں۔

            ایک جگہ ارشاد فرمایا

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِؕ-اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِۚ-فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ(۳۸)اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﳔ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘ (التوبہ۳۸،۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو ۔ کیا تم آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ؟ تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے۔ اگر تم (اللہ کی راہ میں)کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اوراللہ ہرشے پر قادرہے۔

          اسی طرح کثیر احادیث میں بھی جہاد کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 5اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)…صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بہتر اس کی زندگی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہے، جب کوئی خوفناک آواز سنتا ہے یا خوف میں اسے کوئی بلاتا ہے تو اُڑ کر (یعنی بہت جلد) پہنچ جاتا ہے۔ قتل و موت کو اس کی جگہوں میں تلاش کرتا ہے (یعنی مرنے کی جگہ سے ڈرتا نہیں ہے) یا اس کی زندگی بہتر ہے جو چند بکریاں لے کر پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی وادی میں رہتا ہے، وہاں نماز پڑھتا ہے اور زکوٰۃ دیتا ہے اور مرتے دم تک اپنے ربعَزَّوَجَلَّکی عبادت کرتا ہے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والرباط، ص۱۰۴۸، الحدیث: ۱۲۵(۱۸۸۹))

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین سے اپنے مال، جان اور زبان سے جہاد کرو۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب کراہۃ ترک الغزو، ۳ / ۱۶، الحدیث: ۲۵۰۴)

            یعنی دینِ حق کی اشاعت میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو جاؤ۔

(3)…حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو مرجائے اور نہ تو جہاد کرے اور نہ اپنے دل میں اس کا خیال کرے تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرے گا۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب ذمّ من مات ولم یغز۔۔۔ الخ، ص۱۰۵۷، الحدیث: ۱۵۸(۱۹۱۰))

(4)… حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ غازی ( مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔( ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)

(5)…حضرت زید بن خالد  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے کو سامان دیا تو اس نے جہاد کیا ـ اور جو کسی غازی کے گھر بار میں بھلائی کے ساتھ اس کا نائب بن کر رہا اس نے جہاد کیا۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)

{عَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًا:اسے علم ہے کہ تم کمزو ر ہو۔} اس سے ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ اَبدان کی کمزوری مراد ہے۔( روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۶، ۳ / ۳۷۱ ملخصاً)

             یعنی پہلے تو سو کے مقابلہ میں دس مسلمانوں کو ڈٹ جانا فرض تھا اب سو کافروں کے مقابلے میں پچاس کو ڈٹ جانا فرض رہ گیا۔

مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ﳓ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۶۷)

ترجمۂکنزالایمان: کسی نبی کو لائق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہائے تم لوگ دنیا کا مال چا ہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: کسی نبی کے لائق نہیں کہ کافروں کوزندہ قید کرلے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہالے۔ تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہواوراللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔

{حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ:جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہالے۔ } ارشاد فرمایا کہ کسی نبی کے لائق نہیں کہ اپنے ہاں کافروں کو قید رکھے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہالے اور قتلِ کفار میں مبالغہ کرکے کفر کی ذلت اور اسلام کی شوکت کا اظہار نہ کرے۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۴۲۰)

          شانِ نزول: مسلم شریف وغیرہ کی احادیث میں ہے کہ جنگِ بدر میں ستر کافر قید کرکے سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں لائے گئے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے متعلق صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ طلب فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ یہ آپ کی قوم و قبیلے کے لوگ ہیں ، میری رائے میں انہیں فِدیَہ لے کر چھوڑ دیا جائے، اس سے مسلمانوں کو قوت بھی پہنچے گی اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام نصیب کرے۔ حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تکذیب کی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو مکہ مکرمہ میں نہ رہنے دیا نیزیہ کفر کے سردار اور سرپرست ہیں ان کی گردنیں اڑا دی جائیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو فدیہ سے غنی کیا ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو عقیل پر اور مجھے میرے رشتے دار پر مقرر کیجئے کہ ان کی گردنیں مار دیں۔ لیکن بِالآخِر فدیہ ہی لینے کی رائے قرار پائی اور جب فدیہ لیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔۔ الخ، ص۹۶۹،الحدیث: ۵۸(۱۷۶۳))

{تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا:تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو۔} اس آیت میں خطاب مؤمنین سے ہے اور مال سے فدیہ مراد ہے۔ یعنی تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہواو ر اللہ تمہارے لئے آخرت کا ثواب چاہتا ہے جو کفار کے قتل اور اسلام کے غلبے کی صورت میں تمہیں ملے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ یہ حکم بدر میں تھا جبکہ مسلمان تھوڑے تھے پھر جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوئی اور وہ فضلِ الٰہی سے قوی ہوئے تو قیدیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ’’فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً‘‘ (محمد:۴)(پھر اس کے بعد احسان کرکے چھوڑ دویا فدیہ لے لو)اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور مؤمنین کو اختیار دیا کہ چاہے کافروں کو قتل کریں ، چاہے انہیں غلام بنائیں ، چاہے فدیہ لیں ،چاہے آزاد کریں۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ چالیس اوقیہ سونا فی کس تھا جس کے سولہ سو درہم ہوئے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۰۹-۲۱۰)

لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۶۸)

ترجمۂکنزالایمان: اگر اللہ پہلے ایک بات لکھ نہ چکا ہوتا تو اے مسلمانو تم نے جو کافروں سے بدلے کا مال لے لیا اسمیں تم پر بڑا عذاب آتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر اللہ کی طرف سے پہلے سے ایک حکم لکھا ہو انہ ہوتا، تو اے مسلمانو! تم نے کافروں سے جو مال لیا ہے اس کے بدلے تمہیں بڑا عذاب پکڑلیتا۔

{ لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ:اگراللہ کی طرف سے پہلے سے ایک لکھی ہوئی بات نہ ہوتی۔} اس آیت میں ’’ كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ‘‘ کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں ، ان میں سے 3درج ذیل ہیں۔

(1) …اس لکھے ہوئے سے مراد یہ ہے کہ  اِجتہاد پرعمل کرنے والے سے مُواخَذہ نہ فرمائے گا اور یہاں صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے اجتہاد ہی کیا تھا اور ان کی فکر میں یہی بات آئی تھی کہ کافروں کو زندہ چھوڑ دینے میں ان کے اسلام لانے کی امید ہے اور فدیہ لینے میں دین کو تَقْوِیَت ہوتی ہے اور اس پر نظر نہیں کی گئی کہ قتل میں اسلام کا غلبہ اور کفار کی تَہدید ہے۔ یہاں ایک مسئلہ یاد رکھیں کہ سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اس دینی معاملہ میں صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی رائے دریافت فرمانا مشروعیتِ اجتہاد کی دلیل ہے۔

 (2)…یا ’’ كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ‘‘ سے وہ مراد ہے جو اس نے لوحِ محفوظ میں لکھا کہ اہلِ بدر پر عذاب نہ کیا جائے گا۔

(3)…یا اس سے وہ مراد ہے جو اس نے لوحِ محفوظ میں لکھا کہ اللہتعالیٰ تمہارے لئے غنیمتیں حلال فرمائے گا۔

          یاد رہے کہ آیت کے اگلے حصے ’’لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ‘‘ میں ان صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  سے خطاب ہے جو فدیہ لینے پر راضی تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس خطاب میں داخل نہیں۔ جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ اگر آسمان سے عذاب نازل ہوتا تو حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بچ جاتے کیونکہ ان کی رائے عالی فدیہ لینے کے خلاف تھی۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۴۲۱، روح المعانی، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۸، ۵ / ۳۲۲، ملتقطاً)

شانِ فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ:

            اس شانِ نزول سے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عظمت و شان ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقام ایسا بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی رائے کے مطابق قرآنِ مجید کی آیات نازل فرماتا ہے ، ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے رایت ہے، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّنے عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی زبان اور دل پر حق جاری فرما دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ در پیش ہوا اور ا س کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بھی کچھ کہا تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا۔  (ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ۵ / ۳۸۳، الحدیث: ۳۷۰۲)

            مذکورہ بالا آیات کے علاوہ 20سے زائد آیات ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے کے مطابق نازل فرمایا، ان میں سے پانچ آیات درج ذیل ہیں

(1)… مقامِ ابراہیم کو نما زکی جگہ بنانے کی آیت، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کاش ہم مقامِ ابراہیم کو نما زکی جگہ بنالیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا

’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘ (بقرہ:۱۲۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان ور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔

(2)… پردے کی آیت، چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کاش آپ ازواجِ مُطَہَّرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں ، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:’’ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا‘‘(احزاب:۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رکھیں یہ اِس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اوراللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

(3)… نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ازواجِ مطہرات باہمی کسی اختلاف کے سبب سرکار ِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس جمع ہوئیں (جو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مزاج کے برخلاف تھا) تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ازواجِ مطہرات سے فرمایا کہ یا تو تم اس سے باز آجاؤ ورنہ اگر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتمہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب عَزَّوَجَلَّ انہیں تم سے اچھی بیویاں عطا فرما دے ، تو آیت بھی اسی طرح اتری اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓىٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓىٕحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبْكَارًا‘‘(تحریم:۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر وہ (حبیب)تمہیں طلاق دے دیں توقریب ہے کہ ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں بدل دے جو اطاعت والیاں ، ایمان والیاں ، ادب والیاں ، توبہ کرنے والیاں ، عبادت گزار،روزہ دار ، بیاہیاں اور کنواریاں ہوں۔

(4)…ایک موقع پرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دِل میں خیال پیدا ہوا کہ کاش غلاموں کو اجازت لے کر مکانوں میں داخل ہونے کا حکم ہوتا۔ اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی :

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍؕ-مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ۫ؕ-ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّؕ-طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ‘‘(نور:۵۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے غلام اور تم میں سے جو بالغ عمر کو نہیں پہنچے انہیں چاہیے کہ تین اوقات میں فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کے وقت جب تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور نماز عشاء کے بعد (گھرمیں داخلے سے پہلے) اجازت لیں۔ یہ تین اوقات تمہاری شرم کے ہیں۔ ان تین اوقات کے بعد تم پر اور ان پر کچھ گناہ نہیں۔ وہ تمہارے ہاں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے والے ہیں۔ اللہ تمہارے لئے یونہی آیات بیان کرتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

(5)… منافقوں کے سردار عبداللہ بن اُبی کے مرنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چاہتے تھے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اور اس کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کوشش بھی کی، جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس کی نماز جنازہ پڑھا کر واپس ہوئے تو یہ آیت نازل ہو گئی : ’’وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ‘‘ (توبہ:۸۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مرگئے۔

فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۶۹)

ترجمۂکنزالایمان: تو کھاؤ جو غنیمت تمہیں ملی حلال پاکیزہ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہبخشنے والا مہربان ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اس سے کھاؤ جوحلال پاکیزہ غنیمت تمہیں ملی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

{فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَیِّبًا:تو اس سے کھاؤ جوحلال پاکیزہ غنیمت تمہیں ملی ہے۔} جب اوپر کی آیت نازل ہوئی تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے جو فدیئے لئے تھے ان سے ہاتھ روک لئے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور بیا ن فرمایا گیا کہ تمھاری غنیمتیں حلال کی گئیں ، انھیں کھاؤ ۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۲۱۱)

            صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا جبکہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے بھی حلال نہیں کیا گیا۔ (بخاری، کتاب التیمم، باب التیمم، ۱ / ۱۳۳، الحدیث: ۳۳۵، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۵، الحدیث: ۳(۵۲۱))

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤىۙ-اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ     وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۰)

ترجمۂکنزالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں بھلائی جانی تو جو تم سے لیا گیا اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے نبی !جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ،اگر اللہ تمہارے دل میں بھلائی دیکھے گا تو جو مال تم سے لیا گیااس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے نبی۔} شانِ نزول: یہ آیت حضرت عباس بن عبد المطلب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو سید عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا ہیں۔یہ کفارِ قریش کے ان دس سرداروں میں سے تھے جنہوں نے جنگِ بدر میں لشکرِ کفار کے کھانے کی ذمہ داری لی تھی اور یہ اس خرچ کے لئے بیس اوقیہ سونا ساتھ لے کر چلے تھے لیکن ان کے ذمے جس دن کھلانا تجویز ہوا تھا خاص اسی روز جنگ کا واقعہ پیش آیا اور قِتال میں کھانے کھلانے کی فرصت ومہلت نہ ملی تو یہ بیس اوقیہ سونا ان کے پاس بچ رہا، جب وہ گرفتار ہوئے اور یہ سونا ان سے لے لیا گیا تو انہوں نے درخواست کی کہ یہ سونا ان کے فدیہ میں شمار کرلیا جائے مگر رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انکار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو چیز ہماری مخالفت میں صَرف کرنے کے لئے لائے تھے وہ نہ چھوڑی جائے گی اور حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ان کے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث کے فدیئے کا بار بھی ڈالا گیا تو حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :یا محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم مجھے اس حال میں چھوڑو گے کہ میں باقی عمر قریش سے مانگ مانگ کر بسر کیا کروں تو حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ پھر وہ سونا کہاں ہے جس کو تمہارے مکہ مکرمہ سے چلتے وقت تمہاری بیوی ام الفضل نے دفن کیا تھا اور تم ان سے کہہ کر آئے ہو کہ خبر نہیں ہے مجھے کیا حادثہ پیش آئے، اگر میں جنگ میں کام آجاؤں تو یہ تیرا ہے اور عبداللہ اور عبیداللہ کا اور فضل اور قثم کا (سب ان کے بیٹے تھے) حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ؟ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجھے میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے خبردار کیا ہے ۔اس پر حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ سچے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ میرے اس راز پراللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی مُطَّلع نہ تھا اور حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے بھتیجوں عقیل و نوفل کو حکم دیا وہ بھی اسلام لائے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۱۱)

{یُؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ:جو (مال) تم سے لیا گیااس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا۔} جب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بَحرَین کا مال آیا جس کی مقدار اسی ہزار تھی تو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نمازِ ظہر کے لئے وضو کیا اور نماز سے پہلے ہی کل مال تقسیم کردیا اور حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ اس میں سے لے لو تو جتنا ان سے اٹھ سکا، اتنا انہوں نے لے لیا۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اس سے بہتر ہے کہ جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ سے لیا اور میں اس کی مغفرت کی امید رکھتا ہوں۔ اپنے مال و دولت کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیس اوقیہ سونے کے بدلے بیس غلام عطا کئے، وہ سب کے سب تاجر تھے اور بہت سارا مال کما کر دیتے تھے، ان میں سے جو غلام سب سے کم کما کر دیتا تھا اس کی مقدار بیس ہزار درہم تھی۔( مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۲۱، بغوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۲۱، ملتقطاً)

وَ اِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ فَاَمْكَنَ مِنْهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۷۱)

ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب اگر وہ تم سے دغا چاہیں گے تو اس سے پہلے اللہ ہی کی خیانت کرچکے ہیں جس پر اس نے اتنے تمہارے قابو میں دے دیے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے حبیب! اگر وہ تم سے خیانت کرنا چاہتے ہیں تو بیشک یہ اس سے پہلے اللہ سے خیانت کرچکے ہیں جس پر اُس نے اِنہیں تمہارے قابو میں دے دیا اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔

{وَ اِنْ یُّرِیْدُوْا خِیَانَتَكَ:اور اے حبیب! اگر وہ تم سے خیانت کرنا چاہتے ہیں۔} اس آیت میں ذکر کی گئی اللہ تعالیٰاور اس کے رسول سے کفار کی خیانت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر وہ قیدی  تمہاری بیعت سے پھر کر اور کفر اختیار کرکے تم سے خیانت کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس پر غم نہ کریں کیونکہ یہ لوگ میثاق کے دن مجھ سے وعدہ کر کے دنیا میں پہنچ کر پھر گئے جس پر اللہ تعالیٰ نے اِنہیں تمہارے قابو میں دے دیا جیسا کہ وہ بدر میں دیکھ چکے ہیں کہ قتل ہوئے گرفتار ہوئے آئندہ بھی اگر ان کے اَطوار وہی رہے تو انہیں اسی کا امیدوار رہنا چاہئے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کفار کو قید سے آزاد کیا تو آپ نے ان سے دوبارہ جنگ نہ کرنے اور مشرکین سے معاہدہ نہ کرنے کا عہد لیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر انہوں نے عَہد کی خلاف ورزی کر کے آپ سے خیانت کی ہے توآپ اَفْسُردہ نہ ہوں یہ لوگ پہلے اللہ تعالیٰ سے بھی عہد کر کے اسے توڑ چکے ہیں۔ مصیبت سے نجات کے لئے شکر گزار بندہ بننے کا عہد کیا تو مصیبت دور ہونے کے بعد اپنے وعدے کے خلاف کرکے کفر و معصیت میں مبتلا ہو گئے۔ اولاد کی نعمت ملنے پر شکر گزاری کا عہد کیا اور اولاد ملنے کے بعد  انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کے شریک ٹھہرا دئیے۔ (بیضاوی، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۱۲۳، روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۱، ۳ / ۳۷۶، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۱،  ۵ / ۵۱۴، ملتقطاً)

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُهَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰى یُهَاجِرُوْاۚ-وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۷۲)

ترجمۂکنزالایمان: بیشک جو ایمان لائے اور اللہ کے لیے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے اور وہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت نہ کی تمہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا جب تک ہجرت نہ کریں اور اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے مگر ایسی قوم پر کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے اوراللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا اور وہ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہ سب ایک دوسرے کے وارث ہیں اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت نہ کی تمہارا ان سے میراث کا کوئی تعلق نہیں جب تک وہ ہجرت نہ کریں اور اگر وہ دین میں تم سے مددمانگیں تو تم پر مدد کرنا واجب ہے مگر یہ کہ ایسی قوم کے خلاف (مدد مانگیں ) کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے۔

{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔} اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ ا س میں پہلے دو گروہوں کا بیان فرمایا گیا: (1)مہاجرینِ اَوَّلِین ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے اور اسی کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی محبت میں انہوں نے اپنے گھر بار چھوڑے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا۔ (2) اَنصار۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی مدد کی اور انہیں اپنے مکانوں میں ٹھہرایا۔ پھران مہاجرین اور انصار دونوں کے لئے ارشاد فرمایا کہ مہاجر انصار کے اور انصار مہاجر کے وارث ہیں۔ یہ وراثت آیت ’’وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ‘‘ سے منسوخ ہوگئی۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۲، ص۴۲۲)

{وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ:اور اگر وہ دین میں تم سے مددمانگیں۔} یعنی جن مسلمانوں نے دارُ الحرب سے ہجرت نہیں کی وہ اگر دارُ الحرب سے رہائی حاصل کرنے کیلئے تم سے فوجی قوت یا مال سے مدد طلب کریں تو تم پر فرض ہے کہ انہیں نا مراد نہ کرو، ہاں اگر وہ کسی ایسی کافر قوم کے خلاف تم سے مدد طلب کریں جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو تو ان کے خلاف مسلمانوں کی مدد نہ کرو اور مدت پوری ہونے سے پہلے اس معاہدے کو نہ توڑو۔خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں تین مسئلے بیان ہوئے ہیں :  ایک یہ کہ غیر مہاجر مومن اگر کسی کافر قوم سے دینی وجہ سے جنگ کریں اور وہ تم سے مدد مانگیں تو مدد دو۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے مسلم بھائی کی دینی جنگ میں مدد کرے۔ دوسرا یہ کہ مدد دینا جہاد میں ضروری ہے نہ کہ محض دنیاوی جھگڑوں میں۔

تیسرا یہ کہ اگر دارالحرب کے مسلمانوں کی جنگ کسی ایسی کافر قوم سے ہے جن کا ہمارے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے تو ہم اب ان کے خلاف مدد نہیں دے سکتے کیونکہ اس میں بد عہدی ہے بلکہ اب یہ کوشش کی جائے کہ ان کفار اور ان مسلمانوں میں صلح ہو جائے، اگر صلح ناممکن ہے تو ہم غیر جانِبدار رہیں۔ (تفسیر قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۳۳۰، الجزء السابع، روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۲، ۳ / ۳۷۸، ملتقطاً)

             سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ، یہ کیسی نفیس تعلیم ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے بھی کئے ہوئے عہد کی پاسداری کی جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے عہد شکنی کی صورت نکلتی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیمات اَخلاقی اچھائیوں کی انتہا تک پہنچی ہوئی ہیں۔

وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِیْرٌؕ(۷۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور کافر آ پس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑافساد ہوگا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کافر ا ٓ پس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں اگرتم ایسانہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہوگا۔

 {وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ:اور کافر ا ٓ پس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں۔} اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ کافر نصرت اور وراثت میں ایک دوسرے کے وارث ہیں لہٰذا تمہارے اور ان کے درمیان کوئی وراثت نہیں۔ اگر مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے تَعاوُن نہ کریں اور ایک دوسرے کے مددگار ہو کر ایک قوت نہ بن جائیں تو کفار مضبوط اور مسلمان کمزور ہوجائیں گے ،اس صورت میں زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔ (جلالین، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۱۵۴، مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۴۲۲، ملتقطاً)

            اس آیت کی حقانیت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ مسلمانوں کو آپس کے عدمِ اتحاد پر فرمایا گیا تھا کہ اس سے فتنہ اورفسادِ کبیر ہوگا اور اب ہر کو ئی دیکھ سکتا ہے کہ آج مسلمانوں کے خلاف فتنہ اورفسادِ کبیر ہے یا نہیں اور اس کی وجہ بھی مسلمانوں کا عدمِ اتحاد ہے یا نہیں ؟

مسلمانوں میں باہمی تعاون اور مدد کی ضرورت:

            اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں کی دوستی اور ان کاوارث بننے سے منع کیا ہے، ان سے جدا رہنے، مسلمانوں کو آپس میں میل جول رکھنے اور ایک دوسرے کامعاون و مددگار بن کر مضبوط طاقت بننے کا حکم دیا ہے ۔ لیکن افسوس! فی زمانہ ایک گھر سے لے کر عالمی سطح تک ا س معاملے میں مسلمانوں کا حال اس کے الٹ ہی نظر آ رہا ہے کہ مسلمان اپنے گھر میں اپنے ہی بہن بھائیوں کے ساتھ میل جول رکھنے، مشکل حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے سے بیزار ہو چکے ہیں اور یہی حال پڑوسیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ ہے، اسی طرح ایک علاقے کے مسلمان دوسرے علاقے کے مسلمانوں سے ، ایک شہر کے مسلمان دوسرے شہر کے مسلمانوں سے، ایک ملک کے مسلمان دوسرے ملک کے مسلمانوں سے باہمی الفت و محبت اور تعاون و مدد کو تیار نہیں بلکہ عمومی طور پر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی بجائے کفار سے بہر صورت دوستی کرنا چاہتے ہیں اور ہر طرح کی قربانی دے کر ان سے بنائی ہوئی دوستی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی کافر ملک کی کسی مسلم ملک کے ساتھ جنگ شروع ہوجائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرنے اورکفار کے خلاف ان کی مدد کرنے کی بجائے کافروں کا ساتھ دیتے ہیں اور مسلمان بھائیوں کو تباہ وبرباد کرنے میں کافروں کو ہر طرح کی مدد دیتے اور ان کی تھپکیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی اپنی حکمرانی قائم رہے اور ان کی عیش و مستی میں کوئی کمی نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور اپنے دین و مذہب کی تعلیمات کو سمجھنے، ان پر عمل کرنے اوران کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴)

ترجمۂکنزالایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جو ایمان لائے اورمہاجر بنے اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ، ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔

{اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا:وہی سچے ایمان والے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں مہاجرین و انصار کے باہمی تَعَلُّقات اور ان میں سے ہر ایک کادوسرے کے مُعین ومددگار ہونے کا بیان تھا اور اس آیت میں ان دونوں کے ایمان کی تصدیق اور ان کے رحمتِ الٰہی کے مستحق ہونے کا ذکر ہے۔ اس آیت سے مہاجرین اور انصار کی عظمت و شان بیان کرنا مقصود ہے کہ مہاجرین نے اسلا م کی خاطر اپنے آبائی وطن کو چھوڑ دیا، اپنے عزیز، رشتہ داروں سے جدائی گوارا کی، مال و دولت، مکانات ا ور باغات کو خاطر میں نہ لائے۔ اسی طرح انصار نے بھی مہاجرین کو مدینہ منورہ میں اس طرح ٹھہرایا کہ اپنے گھر اور مال و مَتاع میں برابر کا شریک کر لیا ، یہ سچے اور کامل مومن ہیں ، ان کے لئے گناہوں سے بخشش اور جنت میں عزت کی روزی ہے۔ (مدارک، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۴۲۳، تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۴، ۵ / ۵۱۹، ملتقطاً)

 انصار کے فضائل:

            اس آیت میں مہاجرین کے ساتھ ساتھ انصار کی بھی عظمت و شان بیان کی گئی ، اسی طرح ایک اور مقام پر انصار کی عظمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

’’وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(حشر:۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جنہوں نے پہلے اس شہر کواور ایمان کو  ٹھکانا بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور وہ اپنے دلوں میں اس کے متعلق کوئی حسد نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دیا گیا اور وہ (دوسروں کو) اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود (مال کی) حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔

            اور حضرت براء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ انصار سے محبت نہ کرے گا مگر مومن اور ان سے عداوت نہ کرے گا مگر منافق، تو جس نے ان سے محبت کی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے محبت کرے اور جس نے ان سے بغض رکھا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے ناراض ہو۔ (بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب حبّ الانصار، ۲ / ۵۵۵، الحدیث: ۳۷۸۳)

             حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایمان کی نشا نی انصار سے محبت کرناہے اور منافقت کی نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔ (بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب حبّ الانصار، ۲ / ۵۵۵، الحدیث: ۳۷۸۴)

             حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کچھ بچوں اور عورتوں کو ایک شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھڑے ہوگئے اور فرمایا ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو جانتا ہے، اے انصار ! تم لوگ (مجموعی طور پر) مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے ہو۔ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو جانتا ہے، اے انصار! تم لوگ (مجموعی طور پر) مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارے ہو۔ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل الانصار، ص۱۳۶۰، الحدیث: ۱۷۴( ۲۵۰۸))

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ مِنْكُمْؕ-وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠(۷۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور جو بعد کو ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ جہاد کیا وہ بھی تمہیں میں سے ہیں اور رشتہ والے ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کی کتاب میں بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جواس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا وہ بھی تمہیں میں سے ہیں اور رشتے دار اللہ کی کتاب میں (وراثت میں ) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ:اور جواس کے بعد ایمان لائے۔ } یعنی اے مہاجرین و انصار! جو لوگ پہلی ہجرت کے بعد ایمان لائے اور انہوں نے تمہاری ہجرت کے بعد ہجرت کی اور کئی جنگوں میں انہوں نے تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا یہ بھی تمہیں میں سے ہیں ا ور تمہارے ہی حکم میں ہیں۔ (روح البیان، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۵، ۳ / ۳۸۰)

مہاجرین کے طبقات:

            مہاجرین کے کئی طبقے ہیں ایک وہ ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ مدینہ طیبہ کو ہجرت کی انہیں مہاجرینِ اولین کہتے ہیں۔ کچھ وہ حضرات ہیں جنہوں نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر مدینہ طیبہ کی طرف انہیں اصحابُ الہجرتَین کہتے ہیں۔ بعض حضرات وہ ہیں جنہوں نے صلحِ حدیبیہ کے بعد فتحِ مکہ سے قبل ہجرت کی یہ اصحابِ ہجرتِ ثانیہ کہلاتے ہیں ، پہلی آیت میں مہاجرینِ اولین کا ذکر ہے اور اس آیت میں اصحابِ ہجرتِ ثانیہ کا ذکر ہے۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۱۲)

{وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ:اور رشتے دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔} حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہجرت اور اُخُوَت کی بنا پر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے حتّٰی کہ یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہجرت اور اخوت کے مقابلے میں (نسبی ) رشتے دار وراثت میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں اور اس آیت کے ذریعے ہجرت اور اخوت کی وجہ سے وراثت میں حق داری منسوخ فرما دی گئی۔( خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۷۵، ۲ / ۲۱۳)

آیت’’وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے3 مسئلے معلوم ہوئے :

(1)… ہجرت اور اخوت کی وجہ سے وراثت منسوخ ہو چکی ہے۔

(2)… اب وراثت کا دارو مدار نسبی قرابت داری پر ہے جیسا کہ آیت’’وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ‘‘ سے واضح ہے۔ رضاعی رشتے کی وجہ سے کوئی ایک دوسرے کا وارث نہیں اور سسرالی رشتے میں بھی صرف شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے وارث ہیں۔

(3)… ذوی الارحام جیسے ماموں خالہ وغیرہ بھی وارث ہیں جیساکہ اَحناف کا مذہب ہے۔

سورۃ التوبہ

سورۂ توبہ کا تعارف

مقامِ نزول:

            سورۂ توبہ مدنیہ ہے مگر اس کی آخری آیات ’’لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ‘‘ سے آخر تک، ان کو بعض علماء مکی کہتے ہیں۔ (خازن، تفسیر سورۃ التوبۃ، ۲ / ۲۱۳)

رکوع اور آیات کی تعداد:

            اس سورت میں 16 رکوع اور 129 آیتیں ، ہیں۔

’’توبہ ‘‘نام رکھنے کی وجہ :

            اس سورت کے دس سے زیادہ نام ہیں ،ان میں سے یہ دو نام مشہور ہیں (1) توبہ۔ اس سورت میں کثرت سے توبہ کا ذکر کیا گیا اس لئے اسے ’’سورۂ توبہ‘‘ کہتے ہیں۔ (2)بَراء ت۔یہاں اس کا معنی بری الذمہ ہونا ہے، اور اس کی پہلی آیت میں کفار سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے ،اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ براء ت‘‘ کہتے ہیں۔

سورۂ توبہ کے شروع میں ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ نہ لکھے جانے کی وجہ:

            اس سورت کے شروع میں بِسْمِ اللہْ نہیں لکھی گئی، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اس سورت کے ساتھ بِسْمِ اللہْ لے کر نازل ہی نہیں ہوئے تھے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بِسْمِ اللہْ لکھنے کا حکم نہیں فرمایا۔ (جلالین مع صاوی، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۷۸۳)

             حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ بِسْمِ اللہْ امان ہے اور سورۂ توبہ تلوار کے ساتھ امن اٹھادینے کے لئے نازل ہوئی ہے۔ (مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ التوبۃ، لمَ لم تکتب فی براء ۃ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم؟، ۲ / ۶۳، الحدیث: ۳۳۲۶)

            صحیح بخاری میں حضرت براء  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ قرآنِ کریم کی سورتوں میں سب سے آخری سورت ’’سورۂ توبہ‘‘ نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۱۲، الحدیث: ۴۶۰۵)

سورۂ توبہ کے فضائل:

(1) … حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’منافق سورۂ ہود، سورۂ براء ت، سورۂ یٰس، سورۂ دُخان اور سورۂ نَباء کو یاد نہیں کر سکتا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۵ / ۳۵۰، الحدیث: ۷۵۷۰)

(2) …حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب سورۂ براء ت نازل ہوئی تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں لوگوں کی خاطر داری کے لئے بھیجا گیا ہوں۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی الحلم والتؤدۃ،  ۶ / ۳۵۱، الحدیث: ۸۴۷۵)

(3) … حضرت عطیہ ہمدانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے لکھا ’’تم خود سورۂ براء ت سیکھو اور اپنی عورتوں کو سورۂ نور سکھاؤ۔ (سنن سعید بن منصور، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ التوبۃ، ۵ / ۲۳۱، الحدیث: ۱۰۰۳)

سورۂ توبہ کے مَضامین:

            اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں مشرکین اور اہلِ کتاب کے خلاف جہاد کرنے کے احکام بیان کئے گئے اور غزوۂ تبوک سے منافقوں کو روک کر مسلمانوں اور منافقوں میں اِمتیاز کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں

(1) … ان مشرکین سے بَراء ت کا اعلان کیاگیا جن سے مسلمانوں کا معاہدہ ہوا اور وہ اپنے معاہدے پر قائم نہ رہے۔

(2) …کفارِ مکہ کے مسلمانوں سے افضل ہونے کے دعوے کارد کیا گیا۔

(3)…غزوۂ حُنَین کا واقعہ بیان کیا گیا۔

(4) …یہودیوں کا حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اور عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینے کا رد کیا گیا۔

(5) …ہجرت کے وقت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی غارِ ثور میں ہونے والیگفتگو بیان کی گئی۔

(6) …زکوٰۃ کے مَصارِف بیان کئے گئے۔

(7) …مسجدِ ضِرار کا واقعہ بیان کیا گیا اور مسجدِ قبا کی فضیلت بیان کی گئی۔

(8) …حضرت کعب بن مالک، حضرت ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جو کہ غزوہ ٔتبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ان کی توبہ کا واقعہ بیان کیا گیا۔

سورۂ اَ نفال کے ساتھ مناسبت:

            سورۂ توبہ کی اپنے سے ما قبل سورت ’’اَنفال‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں میں اسلامی ملک کے خارجی اور داخلی اصول بیان کئے گئے ،صلح اور جنگ کے احکام، سچے مومنین، کفار اور منافقین کے حالات بیان کئے گئے، دیگر ممالک کے ساتھ ہونے والے معاہدوں اور عہدو پیمان کے احکام بیان کئے گئے البتہ سورۂ اَنفال میں مسلمانوں کو معاہدے پورے کرنے کاحکم دیاگیا تھا اور سورۂ توبہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کفار کی طرف سے عہد شکنی کی ابتداء ہو تو وہ بھی ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے توڑ دیں۔ نیز دونوں سورتوں میں مشرکین کو مسجدِ حرام سے روکنے کا حکم دیا گیا، راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی، مشرکین اور اہلِ کتاب سے جہاد کرنے پر تفصیلی کلام کیا گیا اور منافقوں کی خصلتیں بیان کی گئی ہیں۔

بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ(۱)

ترجمۂکنزالایمان: بیزاری کا حکم سنانا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ قائم نہ رہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کی طرف اعلانِ براء ت ہے جن سے تمہارا معاہدہ تھا۔

{بَرَآءَةٌ:براء ت کا اعلان ہے۔} مشرکینِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان عہد تھا، ان میں سے چند کے سوا سب نےعہد شکنی کی تو ان عہد شکنوں کا عہد ساقط کردیا گیا اور حکم دیا گیا کہ چار مہینے وہ امن کے ساتھ جہاں چاہیں گزاریں ان سے کوئی تَعَرُّض نہ کیا جائے گا، اس عرصہ میں انہیں موقع ہے کہ خوب سوچ سمجھ لیں کہ ان کے لئے کیا بہتر ہے اور اپنی احتیاطیں کرلیں اور جان لیں کہ اس مدت کے بعد اسلام منظور کرنا ہوگا یا قتل۔ یہ سورت   9   ؁ ھ میں فتحِ مکہ سے ایک سال بعد نازل ہوئی، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سال حضرت ابوبکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو امیرِ حج مقرر فرمایا تھا اور ان کے بعد حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو حاجیوں کے مجمع میں یہ سورت سنانے کے لئے بھیجا ۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے دس ذی الحجہ کو جَمرہ ٔعَقبہ کے پاس کھڑے ہو کر ندا کی ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ (اے لوگو!)‘‘ میں تمہاری طرف رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بھیجا ہوا آیا ہوں۔ لوگوں نے کہا : آپ کیا پیام لائے ہیں ؟ تو آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے تیس یا چالیس آیتیں اس سورتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائیں ،پھر فرمایا :میں چار حکم لایا ہوں :

(1)… اس سال کے بعد کوئی مشرک کعبہ معظمہ کے پاس نہ آئے۔

(2)… کوئی شخص بَرَہنہ ہو کر کعبہ معظمہ کا طواف نہ کرے۔

(3)… جنت میں مؤمن کے سوا کوئی داخل نہ ہوگا۔

(4)… جس کارسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ عہدہے وہ عہد اپنی مدت تک رہے گا اور جس کی مدت مُعَیَّن نہیں ہے اس کی میعاد چار ماہ پر تمام ہوجائے گی۔ مشرکین نے یہ سن کر کہا : اے علی!کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم، اپنے چچا کے فرزند (یعنی سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)  کو خبر دے دیجئے کہ ہم نے عہد پسِ پُشت پھینک دیا ، ہمارے ان کے درمیان نیزہ بازی اور تیغ زنی کے سوا کوئی عہد نہیں ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۴۲۴-۴۲۵،ملتقطاً)

حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی طرف اشارہ:

            اس واقعہ میں حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوبکر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تو امیر حج بنایا اور حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو ان کے پیچھے سورہ ٔبرا ء ت پڑھنے کے لئے بھیجا تو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ امام ہوئے اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مقتدی، اس سے حضرت ابوبکر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تقدیم حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمپر ثابت ہوئی۔ اور خود حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی امامت و خلافت کے متعلق فرمایا ’’رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور میں وہاں حاضر تھاغائب نہیں تھا اور نہ ہی مجھے کوئی مرض تھا تو ہم نے انہیں اپنی دنیا کے لئے پسند کر لیا جنہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ہمارے دین(یعنی نماز) کے لئے پسند فرمایا تھا۔ (ابن عساکر، عبد اللہ ویقال عتیق بن عثمان بن قحافۃ۔۔۔ الخ، ۳۰ / ۲۶۵)

فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِۙ-وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ(۲)

ترجمۂکنزالایمان: تو چا ر مہینے زمین پر چلو پھرو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو (اے مشرکو!) تم چا ر مہینے تک زمین میں چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہکو تھکا نہیں سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کوذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔

{فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ:تو تم چا ر مہینے تک زمین میں چلو پھرو۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مشرکو! تم چا ر مہینے تک زمین میں امن وامان سے چلو پھرو اس کے بعد تمہارے لئے کوئی امان نہیں اور ساتھ ہی اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنا کہ تم اللہ تعالیٰ کو تھکا نہیں سکتے اور اس مہلت کے باوجود اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتے اور یہ بھی جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کودنیا میں قتل کے ساتھ اور آخرت میں عذاب کے ساتھ  رسوا کرنے والا ہے ۔ (جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۲ / ۲۱۶، ملتقطاً)

وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ﳔ وَ رَسُوْلُهٗؕ-فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳)

ترجمۂکنزالایمان: اور منادی پکار دینا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں میں بڑے حج کے دن کہ اللہ بیزار ہے مشرکوں سے اور اس کا رسول تو اگر تم توبہ کرو تو تمہا را بھلا ہے  اور اگر منہ پھیرو تو جان لو کہ تم اللہ کو نہ تھکا سکو گے اور کافروں کو خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (یہ) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام لوگوں کی طرف بڑے حج کے دن اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اس کا رسول بھی تو اگر تم توبہ کروتو تمہا رے لئے بہتر ہے اور اگر تم منہ پھیروتو جان لو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔

{یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ: بڑے حج کے دن۔} حضرت حسن  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جس سال حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حج کیا تھا تو اس میں مسلمان اور مشرکین سب جمع تھے ،اس لئے اس حج کو حجِ اکبر فرمایاگیا۔(تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۷)

            امام عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ’’یَوم سے مراد عَرفہ کا دن ہے کیونکہ وُقوف ِعرفہ حج کے اَ رکان میں سے رکنِ اعظم ہے یا اس سے مراد یومِ نَحر ہے کیونکہ حج کے زیادہ تر اَفعال جیسے طواف، قربانی، سر منڈانا اور رَمی وغیرہ اسی دن ہوتے ہیں اور اسحج کو حجِ اکبر اس لئے فرمایا گیاکہ اس زمانہ میں عمرہ کو حجِ اصغر کہا جاتا تھا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۴۲۵)

حجِ اکبر کسے کہتے ہیں ؟:

            اَحادیث اور آثارِ صحابہ میں مختلف دنوں کو حجِ اکبر کہا گیا ہے جبکہ عوام میں یہ مشہور ہے کہ جب یومِ عرفہ جمعہ کے دن تو ہو وہ حجِ اکبر ہوتا ہے، اس کے ثبوت میں اگرچہ کوئی صریح حدیث موجود نہیں تاہم یہ کہنا غلط بھی نہیں کیونکہ بکثرت روایات سے اس دن کا حجِ اکبر ہونا ثابت ہے بلکہ ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس دن کے حجِ اکبر ہونے کے ثبوت میں ’’اَلْحَظُّ الْاَوْفَرْ فِی الْحَجِّ الْاَکْبَرْ‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ تفسیر کی کتابوں میں حجِ اکبر سے متعلق امام ابنِ سیرین  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ ’’ حجِ اکبر وہ حج ہے کہ جو اس دن کے مُوافق ہو جس دن رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور تمام اَعراب نے حج کیا تھا۔ (تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۶ / ۳۱۳)

             اس کے علاوہ امام ابن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکا یہ قول تفسیر بغوی،جلد 2،صفحہ226، تفسیرقرطبی، جلد4، صفحہ9، جزء8،البحر المحیط،جلد5،صفحہ10اوردر منثور ،جلد4،صفحہ128 پر بھی مذکور ہے۔ تفسیر خازن میں ہے ’’جو حج تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حج کے موافق ہو اسے حجِ اکبر کہا گیا ہے اور یہ دن جمعہ کا دن تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۲ / ۲۱۷)

اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۴)

ترجمۂکنزالایمان: مگر وہ مشرک جن سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے عہد میں کچھ کمی نہ کی اور تمہارے مقابل کسی کو مدد نہ دی  تو ان کا عہد ٹھہری ہوئی مدت تک پورا کرو بیشک اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: مگر وہ مشرکین جن سے تمہارا معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے معاہدے میں کوئی کمی نہیں کی اور تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد نہیں کی تو ان کا معاہدہ ان کی مقررہ مدت تک پورا کرو، بیشک اللہپرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔

{ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْــٴًـا:پھر انہوں نے تمہارے معاہدے میں کوئی کمی نہیں کی۔} اس سورت کے شروع میں چونکہ یہ بیان کیا گیا تھا کہ آئندہ چار ماہ تک کافروں سے معاہدے برقرار رہیں گے اور اس کے بعد ختم ، اب یہاں فرمایا گیا کہ جن لوگوں کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اور وہ معاہدے کے پابند ہیں اور انہوں نے معاہدے کو اس کی شرطوں کے ساتھ پورا کیاہے تو تم بھی ان سے معاہدہ پورا کرو اور چار مہینے پر معاہدہ ختم ہوجانے کا حکم ان کیلئے نہیں ہے۔ یہ لوگ بنی ضمرہ تھے جو کنانہ کا ایک قبیلہ ہے اور ان کی مدت کے نو مہینے باقی رہے تھے۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴، ۳ / ۷۸۶)

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍۚ-فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵)

ترجمۂکنزالایمان: پھر جب حرمت والے مہینے نکل جائیں  تو مشرکوں کو مارو جہاں پا ؤ اور انہیں پکڑو اور قید کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو  پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تو مشرکوں کو مارو جہاں تم انہیں پا ؤاور انہیں پکڑلو اور قید کرلو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کاراستہ چھوڑ دو،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

{فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ:پھر جب حرمت والے مہینے گزرجائیں۔} یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ان کفار کی امان کے مہینے ہیں جو مسلسل چار تھے لہٰذا یہ آیت منسوخ نہیں اور جن مہینوں میں جنگ ابتدائے اسلام میں حرام تھی وہ رجب، ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم ہیں اب ان میں جہاد جائز ہے چونکہ یہاں مذکور معاہدے کی تکمیل والے چار مہینوں میں اُن کفار سے جنگ حرام تھی اس لئے انہیں اَشْہُرِ حرام فرمایا گیا۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵، ۳ / ۳۸۷)

{فَاِنْ تَابُوْا:پھر اگر وہ توبہ کریں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کفار کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کا انکار کرنے سے منع کیا گیا تھا،اگر کفار ان کاموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کر لیں ،بتوں کی پوجا چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ اللہتعالیٰ کی عبادت کریں ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا اقرار کر لیں ، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی فرضیت کو مان لیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور ان کی جان و مال کے درپے نہ ہو ۔ جو بندہ توبہ کرتا ہے ،گزشتہ گناہوں کو چھوڑ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں لگ جاتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی توبہ قبول فرماتا اور اس کے گناہ چھپا دیتا ہے ۔ توبہ سے پہلے کئے ہوئے گناہوں پر توبہ کے بعد سزا نہ دے کر اس پر رحم فرماتا ہے۔ (تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۶ / ۳۲۸،  احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۰۶، صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۷۸۸، ملتقطاً)

وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ۠(۶)

ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دو کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دو حتّٰی کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں۔

{وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ:اور اگر کوئی مشرک ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر کوئی مشرک مہلت کے مہینے گزرنے کے بعد آپ سے پناہ مانگے تاکہ آپ سے توحید کے مسائل اور قرآنِ پاک سنے جس کی آپ دعوت دیتے ہیں تو اسے پناہ دے دیں حتّٰی کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام سنے اور اسے معلوم ہو جائے کہ ایمان قبول کرنے کی صورت میں اسے کیا ثواب ملے گا اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے اس پر کیا عذاب ہو گا اور  اگر ایمان نہ لائےتوپھر اُسے اُس کی امن کی جگہ پہنچا دیں ،یہ اس لیے کہ وہ ابھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین اسلام اور اس کی حقیقت کوجانتے نہیں  تو انہیں امن دینا عین حکمت ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام سنیں اور سمجھیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ ۶، ۲ / ۲۱۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶، ۱ / ۴۸۶، ملتقطاً)

آیت’’وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ‘‘سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس آیت سے 5مسئلے معلوم ہوئے

(1) …جس کافر کو امان دی گئی وہ ذمی کافر کی طرح دارُ الاسلام میں محفوظ ہے کہ نہ اسے قتل کیا جائے گا اور نہ اس کا مال چھینا جائے گا۔

(2)… جس کافر کو امان دی گئی اسے ہمیشہ دارُ الاسلام میں رہنے کی اجازت نہیں۔

(3)…اگر وہ مومن یا ذمی نہ بنے تو امن کی مدت گزر جانے کے بعد اسے سلامتی کے ساتھ دارُ الاسلام سے نکال دیا جائے ۔

(4)… جس کافر کو امان دی گئی اسے اسلام کی تبلیغ کی جائے شاید وہ ایمان لے آئے۔

(5)… اِسی آیت سے ایک بات یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ کفار کیلئے تبلیغِ دین کے زیادہ سے زیادہ مواقع مہیا کرنا چاہئیں کہ وہ اسلام کو سنیں ، دیکھیں اور سمجھیں۔ بہت سے کفار اس لئے مسلمان نہیں ہوتے کہ انہوں نے اِسلام کی حقیقی تعلیمات کو سنا ہی نہیں ہوتا اور جب کبھی ان کو کہیں کچھ سننے کا موقع ملتا ہے تو وہ فوراً اسلام قبول کرلیتے ہیں۔ لہٰذا کتابوں ، کیسٹوں ، سی ڈیز، نیٹ اور میڈیا کے ذریعے اسلامی تعلیمات سیکھنے کے مَواقِع زیادہ سے زیادہ فراہم کرنے چاہئیں۔

كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۚ-فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۷)

ترجمۂکنزالایمان: مشرکوں کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے پاس کوئی عہد کیونکر ہوگا مگر وہ جن سے تمہارا معاہدہ مسجد حرام کے پاس ہوا تو جب تک وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں تم ان کے لیے قائم رہو  بیشک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ اور اس کے رسول کے پاس مشرکوں کے لئے کوئی عہد کیسے ہوگا؟ سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے نزدیک معاہدہ کیا تو جب تک وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں توتم ان کے لیے قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں سے محبت فرماتا ہے۔

{كَیْفَ یَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِیْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عِنْدَ رَسُوْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول کے پاس مشرکوں کے لئے کوئی عہد کیسے ہوگا؟} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکوں کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی عہد نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ کفر اور عہد شکنی کیا کرتے ہیں البتہ  بنی کنانہ اور بنی ضمرہ وغیرہ جن لوگوں سے تم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسجد ِحرام کے نزدیک معاہدہ کیا تھا اور ان سے کوئی عہد شکنی ظہور میں نہ آئی تو ان کے معاہدہ کی مدت پوری کرو اور معاہدے کی مدت کے اندر جب تک وہ اپنے عہد پر قائم رہیں ، تم بھی قائم رہو اگر وہ اس دوران میں عہد توڑ دیں تو تم بھی ان سے جنگ کرو۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ۲ / ۲۱۸، جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۱۵۵-۱۵۶، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷، ص۴۲۷، ملتقطاً)

عہد شکنی حرام ہے:

            اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار سے کئے ہوئے معاہدے بھی پورے کرنے کا حکم دیا ہے تو اس پر افسوس ہے جو مومن کے ساتھ دھوکہ بازی اوربد عہدی سے باز نہ آئے۔ عہد شکنی حرام ہے چنانچہ حدیث مبارک ہے’’جس شخص میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔(2)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ (3) جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے۔ (4)جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔( بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب اثم من عاہد ثمّ غدر، ۲ / ۳۷۰، الحدیث: ۳۱۷۸)

كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةًؕ-یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْۚ-وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ(۸)

ترجمۂکنزالایمان: بھلا کیونکر ان کا حال تو یہ ہے کہ تم پر قابو پائیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں  نہ عہد کا اپنے منہ سے تمہیں راضی کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں انکار ہے اور ان میں اکثر بے حکم ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بھلا کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی رشتے داری کا لحاظ کریں گے اور نہ ہی کسی معاہدے کا۔ وہ تمہیں اپنے منہ سے راضی کرتے ہیں اور ان کے دل انکار کرتے ہیں اور ان میں اکثر نافرمان ہیں۔

{ كَیْفَ:کیسے ہوسکتا ہے۔} یعنی مشرکین کیسے عہد پورا کریں گے اور کیسے قول پر قائم رہیں گے حالانکہ ان کا حال تو یہ ہے کہ  اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی رشتے داری کا لحاظ کریں گے اور نہ ہی کسی معاہدے کا۔ وہ تمہیں ایمان لانے اور وفائے عہد کے وعدے کرکے اپنے منہ سے راضی کردیتے ہیں اور ان کے دل ایمان اور وفائے عہد کا انکار کرتے ہیں اور ان میں اکثر نافرمان یعنی عہد شکن ،کفر میں سرکش، بے مُرَوَّت اور جھوٹ سے نہ شرمانے والے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸، ص۴۲۷)

کفار کا مسلمانوں کے ساتھ عمومی رویہ:

            کفار کا یہ حال عام طور پر رہا ہے کہ وہ مسلمان کے مقابلے میں نہ قرابت داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ معاہدے کا بلکہ جب کبھی موقع ملتا ہے تو کوئی بہانہ بنا کر عہد شکنی کردیتے ہیں جیسا کہ آج کے زمانے میں بھی کفار کی حکومتوں کا مسلمانوں کے ساتھ رویہ دیکھا جاسکتا ہے اور ان کا حال تو اپنی جگہ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ یہ سب کچھ جاننے، دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود مسلمان عبرت حاصل نہیں کرتے اور دفاعی، تجارتی اور دیگر امور میں مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرنے کے مقابلے میں کفار کے ساتھ معاہدے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ اس میں انہیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔

اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِهٖؕ -اِنَّهُمْ سَآءَمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹)

ترجمۂکنزالایمان: اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑے دام مول لیے تو اس کی راہ سے روکا بیشک وہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: انہوں نے اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لے لی اور اس کے راستے سے روکا۔ بے شک یہ بہت برے عمل کرتے ہیں۔

{اِشْتَرَوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِیْلًا:انہوں نے اللہ کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت لے لی۔} یعنی انہوں نے قرآنِ پاک کی آیات اور ان پر ایمان لانے کے بدلے دنیا کا تھوڑا سا مال لے لیا اور ان کے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مابین جو عہد تھا اسے ابو سفیان کے تھوڑے سے لالچ دینے سے توڑ دیا اور انہوں نے لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں داخل ہونے سے روکا۔ بے شک یہ شرک، عہد شکنی اور لوگوں کو دینِ اسلام میں داخل ہونے سے روک کر بہت برے عمل کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹، ۲ / ۲۱۹)

لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةًؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ(۱۰)

ترجمۂکنزالایمان: کسی مسلمان میں نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا اور وہی سرکش ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: کسی مسلمان کے بارے میں نہ رشتے داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی معاہدے کااور یہی لوگ سرکش ہیں۔

{لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ:کسی مسلمان کے بارے میں رشتے داری کا لحاظ نہیں کرتے ہیں۔} یعنی جن مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کی یہ کسی مسلمان کے بارے میں نہ رشتے داری کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی معاہدے کا بلکہ جب موقع پائیں قتل کر ڈالتے ہیں تو مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ جب ان مشرکین پر دَسْترس پائیں تو ان سے درگزر نہ کریں اور یہی مشرک لوگ عہدشکنی میں حد سے بڑھنے والے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰، ۲ / ۲۱۹)

فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِؕ-وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(۱۱)

ترجمۂکنزالایمان: پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں  اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں جاننے والوں کے لیے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں تو وہ تمہارے دین میں بھائی ہیں اور ہم جاننے والوں کے لیے تفصیل سے آیتیں بیان کرتے ہیں۔

{ فَاِنْ تَابُوْا:پھر اگر وہ توبہ کرلیں۔} یعنی اگر وہ مشرکین شرک سے ایمان کی طرف اور عہد شکنی سے وفائے عہد کی طرف لوٹ آئیں اور جو نمازیں ان پر فرض ہوں انہیں تمام شرائط و اَرکان کے ساتھ ادا کریں اور جو زکوٰۃ ان پر فرض ہو اسے خوش ہوکر دیں تو وہ تمہارے اسلامی بھائی ہیں ان کے لئے بھی وہی احکام ہیں جو تمہارے لئے ہیں ، انہیں بھی وہی چیزیں منع ہیں جو تمہیں منع ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۲ / ۲۱۹)

{وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ:اور ہم جاننے والوں کے لیے تفصیل سے آیتیں بیان کرتے ہیں۔} یعنی ہم عہد شکنی کرنے والے اور دیگر مشرکین کے احوال اور کفر و ایمان کی حالت میں ان کے احکام سے متعلق آیات ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو انہیں جانتے اور سمجھتے ہیں۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۳۹۲)

وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىٕمَّةَ الْكُفْرِۙ-اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ(۱۲)

ترجمۂکنزالایمان: اور اگر عہد کرکے اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر منہ آئیں  تو کفر کے سرغنوں سے لڑو بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں اس امید پر کہ شاید وہ باز آئیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگرمعاہدہ کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے پیشواؤں سے لڑو، بیشک ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں (ان سے لڑو) تا کہ یہ باز آئیں۔

{وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ:اور اگرمعاہدہ کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑیں۔ } یہاں حکم دیا گیا کہ اگر کفار معاہدہ توڑ دیں اور مسلمانوں کے دین میں طعن و تشنیع کریں تو پھر کوئی عہد باقی نہیں بلکہ اب ان کا فیصلہ میدانِ جنگ میں ہی ہوگا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۲ / ۲۲۰)

 دین میں طعنہ زنی سے کیا مراد ہے؟

            دین میں طعنہ زنی سے مراد یہ ہے کہ دینِ اسلام کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو دینِ اسلام کے شایانِ شان نہیں یا ضروریات ِدین میں سے کسی چیز کو ہلکا جان کر اس پر اعتراض کرنا۔اسی طرح نماز اور حج پر طعنہ زنی کرنا، قرآن اور ذکرِ رسول پر طعنہ زنی کرنا یا رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ پاک میں گستاخی کرنا سب اس میں داخل ہے۔ (تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۴ / ۱۷، الجزء الثامن، روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲، ۵ / ۳۵۳، ملتقطاً)

آیت’’وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

 (1)… جن مشرکین سے معاہدہ کیا گیا ہو تو اس معاہدے کے قائم رہنے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ ہمارے دین پر اعلانیہ طعنہ زنی نہ کریں اور اگر وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں یا قرآن سے متعلق کسیگستاخی کے مُرتَکِب ہوں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۱۰، ملخصاً)

(2)… کفار کے ساتھ جنگ کرنے سے مسلمانوں کی غرض ان کے ذاتی مفادات نہیں بلکہ انہیں کفرو بداعمالی سے روکنا ہے اور یہی اسلامی جہاد کا سب سے اہم مقصد ہے۔

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-اَتَخْشَوْنَهُمْۚ-فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳)

ترجمۂکنزالایمان: کیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ انہیں کی طرف سے پہل ہوئی ہے کیا ان سے ڈرتے ہو تو اللہاس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کونکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے ہی تم سے ابتداء کی تھی تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ پس اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

{اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا:کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے۔} ارشاد فرمایا کہ کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور صلح حدیبیہ کا عہد توڑا اور مسلمانوں کے حلیف خزاعہ کے مقابل بنی بکر کی مدد کی اور دارُالنَّدوَہ میں مشورہ کرکے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو  مکہ مکرمہ سے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے ہی تم سے لڑائی کی ابتداء کی تھی تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو اور ا س بنا پر ان سے جنگ ترک کرتے ہو؟ پس اگر تم اللہ تعالیٰ کے وعدے اور وعید پر ایمان رکھتے ہو تواللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم کافروں سے جنگ ترک کرنے کے معاملے میں اس سے ڈرو۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۲ / ۲۲۰)

            اس سے معلوم ہوا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین و ایذائ، مسلمانوں سے عہد شکنی اور شروفساد کی ابتداء کرنا کفار کی وہ غلطی ہے جس کی سزا انہیں ملنی چاہیے۔

ایمانِ کامل کا تقاضا!

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو اکہ ایمانِ کامل کا تقاضا یہ ہے کہ مومن اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی سے ڈرے اور نہ ا س کے علاوہ کسی کی پرواہ کرے۔

            ایک مقام پر اللہ تعالیٰ منصبِ رسالت پر فائز ہستیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

’’اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا‘‘ (احزاب:۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کرتے اور اللہ کافی حساب لینے والاہے۔

             اور اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے ارشاد فرماتا ہے:

’’اِنَّمَا  ذٰلِكُمُ  الشَّیْطٰنُ  یُخَوِّفُ  اَوْلِیَآءَهٗ   ۪-فَلَا  تَخَافُوْهُمْ  وَ  خَافُوْنِ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ‘‘ (ال عمران:۱۷۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک وہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔

قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَۙ(۱۴)

ترجمۂکنزالایمان: تو ان سے لڑو اللہ انہیں عذاب دے گا تمہارے ہاتھوں اور انہیں رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر مدد دے گا اور ایمان والوں کا جی ٹھنڈا کرے گا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے انہیں عذاب دے گا اور انہیں ذلیل ورسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا اور ایمان والوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردے گا۔

{قَاتِلُوْهُمْ:تم ان سے لڑو۔} ارشاد فرمایا کہ تم ان سے لڑو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہارے ہاتھوں سے قتل کے ذریعے انہیں عذاب دے گا اور انہیں  قید میں مبتلا کر کے  ذلیل ورسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا اور ان پر غلبہ عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے دلوں کو ٹھنڈا کردے گا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۴، ص۴۲۸)

             تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سارے وعدے پورے فرمائے اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دی ہوئی ساری خبریں سچ ثابت ہوئیں اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کا ثبوت واضح تر ہوگیا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار سے اپنا بدلہ لینا جس سے مسلمانوں کے دلوں کا رنج نکلے جائز ہے بلکہ بعض اوقات بدلہ لینا ضروری ہے مگر ظلم و زیادتی نہ ہو۔

وَ یُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْؕ-وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۱۵)

ترجمۂکنزالایمان: اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا اور اللہ جس کی چاہے توبہ قبول فرمائے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان کے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گا اور اللہ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت سے رجوع فرماتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

{وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ:اور اللہ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت سے رجوع فرماتا ہے۔} اس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ بعض اہلِ مکہ کفر سے باز آکر تائب ہوں گے ۔ یہ خبربھی ایسی ہی واقع ہوگئی چنانچہ حضرت ابوسفیان ،عکرمہ بن ابوجہل اور سہیل بن عمرو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایمان سے مشرف ہوئے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۵، ص۴۲۸)

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةًؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠(۱۶)

ترجمۂکنزالایمان: کیا اس گمان میں ہو کہ یونہی چھوڑ دیئے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے پہچان نہ کرائی  ان کی جو تم میں سے جہاد کریں گے اور اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا مَحرم راز نہ بنائیں گے اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا تم نے یہ گمان کرلیا کہ تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کی پہچان نہیں کروائی جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں اور وہ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے علاوہ کسی کو اپنا رازدار نہیں بنایا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

{اَمْ حَسِبْتُمْ:کیا تم نے یہ گمان کرلیا ۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! کیا تم نے یہ گمان کرلیا کہ تمہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ممتاز نہیں کیا اور لوگوں کو ان کی پہچان نہیں کروائی جو تم میں سے اخلاص کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ جنہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ایمان والوں کے علاوہ کسی کو اپنا رازدار نہیں بنایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارے تمام کاموں سے خبردار ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم جہاد کرنے میں مخلص ہو یا نہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ص۴۲۸-۴۲۹، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳ / ۳۹۶، ملتقطاً)

            اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دعویٔ ایمان کی صداقت کا امتحان بھی لیا جاتا ہے کہ بندہ مشکل حالات میں ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں ؟ اور صبر کرتا ہے یا نہیں ؟

مشرکوں سے دلی دوستی کرنے اور ان تک مسلمانوں کے راز پہنچانے کی ممانعت:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ مخلص اور غیر مخلص میں امتیاز کردیا جائے گا نیز اس آیت میں مسلمانوں کو مشرکوں سے دلی دوستی کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کے پاس مسلمانوں کے راز پہنچانے سے ممانعت کی گئی ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ‘‘(ال عمران:۲۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اوراللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اوراللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

            اور ارشاد فرماتا ہے:

’’بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ عَذَابًا اَلِیْمَا ﰳ ۙ (۱۳۸)الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ-اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا‘‘ (النساء ۱۳۸،۱۳۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: منافقوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو تمام عزتوں کا مالک اللہ ہے۔

            نیز ارشاد فرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَتَّخِذُوْا  بِطَانَةً  مِّنْ  دُوْنِكُمْ  لَا  یَاْلُوْنَكُمْ  خَبَالًاؕ-وَدُّوْا  مَا  عَنِتُّمْۚ-قَدْ  بَدَتِ  الْبَغْضَآءُ  مِنْ  اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ  مَا  تُخْفِیْ  صُدُوْرُهُمْ  اَكْبَرُؕ-قَدْ  بَیَّنَّا  لَكُمُ  الْاٰیٰتِ  اِنْ  كُنْتُمْ  تَعْقِلُوْنَ ‘‘(ال عمران:۱۱۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک (ان کا) بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔

نیت درست رکھنا ضروری ہے:

            اس آیت کے آخر میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نیتوں اور ان کے مَقاصِد سے خبردار ہے اور ان میں سےکوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیہ نہیں ، لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی نیت درست رکھنے پر خوب توجہ دے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ باطن ظاہر کے خلاف ہو۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶ / ۸)  

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۚۖ-وَ فِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۱۷)

ترجمۂکنزالایمان: مشرکوں کو نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں خود اپنے کفر کی گواہی دے کر ان کا تو سب کیا دھرا اِکا رت ہے  اور وہ ہمیشہ آگ میں رہیں گے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: مشرکوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جبکہ یہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں ، ان کے تمام اعمال برباد ہیں اور یہ ہمیشہ آگ ہی میں رہیں گے۔

{مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ:مشرکوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔}اس  آیت میں مسجدوں سے بطورِ خاص مسجدِ حرام، کعبہ معظمہ مراد ہے اور اس کو جمع کے صیغے سے اس لئے ذکر فرمایا کہ وہ تمام مسجدوں کا قبلہ اور امام ہے تو اسے آباد کرنے والا ایسا ہے جیسے تمام مسجدوں کو آباد کرنے والا، نیز مسجدِ حرام شریف کا ہر بقعہ مسجد ہے ا س لئے یہاں جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسجد سے مراد جنسِ مسجد ہے یعنی جو بھی مسجد ہو کافروں کو اسے آباد کرنے کی اجازت نہیں اور اس صورت میں کعبہ معظمہ بھی اسی میں داخل ہے کیونکہ وہ توتمام مسجدوں کا سردار ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹)  

             شانِ نزول: کفارِ قریش کے سرداروں کی ایک جماعت جو بدر میں گرفتار ہوئی اور ان میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبھی تھے ان کو صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے شرک پر عار دلائی اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے تو خاص حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں آنے پر بہت سخت سست کہا ۔ حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے کہ تم ہماری برائیاں تو بیان کرتے ہو اور ہماری خوبیاں چھپاتے ہو۔ ان سے کہا گیا: کیا آپ کی کچھ خوبیاں بھی ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہاں ،ہم تم سے افضل ہیں ، ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں ، کعبہ کی خدمت کرتے ہیں ،حاجیوں کو سیراب کرتے ہیں ، اسیروں کو رہا کراتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مسجدوں کو آباد کرنے کا کافروں کو کوئی حق نہیں کیونکہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے آباد کی جاتی ہے تو جو خدا عَزَّوَجَلَّ ہی کا منکر ہو اور اس کے ساتھ کفر کرے وہ کیا مسجد آباد کرے گا؟ ایمان کے بغیر کوئی عمل معتبر نہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۱-۲۲۲)

 مسجدیں آباد کرنے کے معنی:

          اس میں بھی کئی قول ہیں : ایک تو یہ کہ آباد کرنے سے مسجد کا تعمیر کرنا، بلند کرنا، مرمت کرنا مراد ہے۔ اس سے کافر کو منع کیا جائے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مسجد آباد کرنے سے اس میں داخل ہونا اور بیٹھنا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲)

            تنبیہ: کفار سے مسجدوں کی تعمیر کے معاملے میں مدد نہیں لینی چاہیے اگرچہ بعض صورتوں میں اس کی اجازت ہوتی ہے۔

{شٰهِدِیْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ:جبکہ یہ خود اپنے کفر کے گواہ ہیں۔} یعنی یہ دونوں باتیں کس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ آدمی کافر بھی ہو اور خاص اسلامی اور توحید کے عبادت خانہ کو آباد بھی کرے۔ نیزارشاد فرمایا کہ’’ان کے تمام اعمال برباد ہیں ‘‘ کیونکہ حالتِ کفر کے اعمال مقبول نہیں ، نہ مہمانداری، نہ حاجیوں کی خدمت، نہ قیدیوں کا رہا کرانا، اس لئے کہ کافر کا کوئی فعل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو ہوتا نہیں ، لہٰذا اس کا عمل سب اکارت ہے اور اگر وہ اسی کفر پر مرجائے تو جہنم میں اس کے لئے ہمیشگی کا عذاب ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ص۴۲۹، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۷، ۲ / ۲۲۲، ملتقطاً)

             اس سے معلوم ہوا کہ کفار کی نیکیاں جیسے مساجد کی خدمت، مسافر خانہ، کنوئیں وغیرہ بنانا سب برباد ہیں کسی پر کوئی ثواب نہیں۔

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸)

ترجمۂکنزالایمان: اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نما ز قائم رکھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔

{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ:اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں۔} اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسجدیں آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں ، مسجدوں کو آباد کرنے میں یہ اُمور بھی داخل ہیں : جھاڑو دینا، صفائی کرنا، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ، مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۲ / ۲۲۲، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۴۲۹، ملتقطاً)

مسجدِ نَبوی کی اِبتدائی تَزئین و آرائش:

            مسجدِ نبوی میں سب سے پہلے اعلیٰ فرش حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ڈالے، اس سے پہلے صرف بجری تھی۔ اس کی عالیشان عمارت سب پہلے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بنائی۔ اس میں سب سے پہلے قندیلیں حضرت تمیم داری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے روشن کیں۔ عہدِ فاروقی میں رمضان کی تراویح کے موقعہ پر حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چراغاں کیا اور حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو نور ِقبر کی دعا دی۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے بیتُ المقدس میں کِبْرِیَّتِ اَحمر کی روشنی کی جس کی روشنی بارہ مربع میل میں ہوتی تھی اور اسے چاندی سونے سے آراستہ فرمایا۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۳۹۹-۴۰۰، ملخصاً)

مسجد تعمیر کرنے کے فضائل:

            مسجد یں بنانے کا حکم اور ان کی تعمیر کے فضائل بکثرت اَحادیث میں مذکور ہیں ، ترغیب کے لئے 6 اَحادیث ملاحظہ فرمائیں۔

(1)…حضرت انس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ مسجدیں تعمیر کرو اور انہیں محفوظ بناؤ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلاۃ، فی زینۃ المساجد وما جاء فیہا، ۱ / ۳۴۴، الحدیث: ۹)

(2)…حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو اللہ تعالیٰ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب فضل بناء المساجد، ص۱۵۹۳، الحدیث: ۴۴(۲۹۸۳))

(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکے لئے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی فضل بنیان المساجد، ۱ / ۳۴۳، الحدیث: ۳۱۹)

(4)…حضرت عمر بن خطاب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے مسجد اس لئے بنائی تاکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ا س کیلئے جنت میں گھر بنائے گا۔ (ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب من بنی للّٰہ مسجداً، ۱ / ۴۰۷، الحدیث: ۷۳۵)

(5)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے حلال مال سے وہ گھر بنایا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں موتی اور یاقوت کا گھربنائے گا۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۷، الحدیث: ۵۰۵۹)

            اللہ تعالیٰ ہمیں بھی مسجد تعمیر کرنے اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔

(6)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے’’سات چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا ہے، ان میں سے ایک مسجد تعمیر کرنا ہے۔(شعب الایمان، باب الثانی والعشرین من شعب الایمان۔۔۔ الخ،  فصل فی الاختیار فی صدقۃ التطوّع، ۳ / ۲۴۸، الحدیث: ۳۴۴۹)

{وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ:اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دینی معاملات میں اللہتعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور کسی کی رضا کو رضائے الٰہی پر کسی اندیشہ سے بھی مقدم نہیں کرتے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۴۲۹) اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرنے اور غیر سے نہ ڈرنے کے یہی معنی ہیں ، نیز یاد رہے کہ جن چیزوں سے انسان فطری طور پر ڈرتا ہے جیسے اندھیرا، درندے اور زہریلے جانور وغیرہ ان سے ڈرنا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے نہ ڈرنے کے خلاف نہیں کیونکہ یہ فطری خوف ہے اور اس سے بچنا انسان کے بس کی بات نہیں۔

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۘ(۱۹)

ترجمۂکنزالایمان: تو کیا تم نے حا جیوں کی سبیل اور مسجد حرام کی خدمت اس کے برابر ٹھہرا لی  جو اللہ اور قیامت پر ایمان لایا  اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا تم نے حا جیوں کو پانی پلانے (والے) کو اور مسجدِ حرام کیخدمت کرنے (والے) کواس شخص کے برابر ٹھہرا لیا جو اللہ اور قیامت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔

{سِقَایَةَ الْحَآجِّ:حا جیوں کو پانی پلانے (والے) کو۔} اس آیت سے مراد یہ ہے کہ کفار کو مؤمنین سےکچھ نسبت نہیں اور نہ اُن کے اعمال کو اِن کے اعمال سے کوئی نسبت ہے کیونکہ کافر کے اعمال رائیگاں ہیں خواہ وہ حاجیوں کے لئے سبیل لگائیں یا مسجدِ حرام کی خدمت کریں ،ان کے اعمال کو مومن کے اعمال کے برابر قرار دینا ظلم ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۹، ص۴۳۰، ملخصاً) شانِ نزول: روزِ بدر جب حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گرفتار ہو کر آئے تو انہوں نے صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے کہا کہ تم کو اسلام اور ہجرت و جہاد میں سبقت حاصل ہے تو ہم کو بھی مسجدِ حرام کی خدمت اور حاجیوں کے لئے سبیلیں لگانے کا شرف حاصل ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور آگاہ کیا گیا کہ جو عمل ایمان کے ساتھ نہ ہوں وہ بے کار ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۹، ۲ / ۲۲۳)

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰)

ترجمۂکنزالایمان: وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مال جان سے اللہ کی راہ میں لڑے  اللہ کے یہاں ان کا درجہ بڑا ہے اور وہی مراد کو پہنچے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

{وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اورجنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔} جہاد کی تین صورتیں ہیں : (1) فقط جان سے جہاد کرنا۔ جیسے مَساکین کرتے تھے۔ (2) فقط مال سے جہاد کرنا۔ جیسا کہ معذور مالدار مومن کا عمل کہ غازی کو گھوڑا وغیرہ دے دیتے تھے۔ (3) جان و مال دونوں سے جہاد کرنا۔ جیسا کہ غنی قادر مسلمان جو کہ دوسرے مسکین غازیوں کو سامان بھی دیتے اور خود بھی میدا ن میں جاتے تھے اور ان کے اپنے جانے پر بھی خرچہ ہوتا۔ یہ آیتِ کریمہ ان تینوں مجاہدوں کو شامل ہے۔ اس سے اشارۃً معلوم ہورہا ہے کہ مہاجرین انصار سے افضل ہیں اگرچہ دونوں اللہ تعالیٰ کے پیارے اور دونوں کامیاب ہیں۔

یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ(۲۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۲۲)

ترجمۂکنزالایمان: ان کا رب انہیں خوشی سنا تا ہے  اپنی رحمت اور اپنی رضا اور ان باغوں کی جن میں انہیں دائمی نعمت ہے۔ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور باغوں کی بشارت دیتا ہے، ان کے لئے ان باغوں میں دائمی نعمتیں ہیں۔  وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔

{یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ:ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور باغوں کی بشارت دیتا ہے۔} علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : یہ اعلیٰ ترین بشارت ہے کیونکہ مالک کی رحمت و رضا بندے کا سب سے بڑا مقصد اور پیاری مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۱، ۲ / ۲۲۴)

راہِ خدا میں جہا د کرنے والے مسلمانوں کے لئے بڑی پیاری تین بشارتیں :

            اِس آیت میں ایمان قبول کرنے کے بعد ہجرت کرنے اور اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے تین بڑی پیاری بشارتیں جمع کی گئی ہیں۔

(1،2)… انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رضا نصیب ہو گی۔حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کرتا رہتا ہے، وہ اسی جُستجو میں رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام سے فرماتا ہے’’ میرا فلاں بندہ مجھے راضی کرنا چاہتا ہے ، آگاہ رہو کہ اس پر میری رحمت ہے۔ تب حضرت جبریلعَلَیْہِ السَّلَام کہتے ہیں : فلاں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، یہ ہی بات عرش اٹھانے والے فرشتے کہتے ہیں ،یہ ہی ان کے اردگرد کے فرشتے کہتے ہیں حتّٰی کہ ساتویں آسمان والے یہ کہنے لگتے ہیں ،پھر یہ رحمت اس کے لیے زمین پر نازل ہوتی ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، ومن حدیث ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ، ۸ / ۳۲۸، الحدیث: ۲۲۴۶۴)

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا’’ بے شک اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے ارشاد فرمائے گا ’’اے اہلِ جنت!وہ عرض کریں گے :اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، ہم حاضر اور مُستَعِد ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’کیا تم راضی ہو؟ جنتی عرض کریں گے :ہم کیوں نہ راضی ہوتے جبکہ تو نے ہمیں وہ عطا فرمایا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو عطا نہیں فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز عطا فرمانے والا ہوں۔ جنتی عرض کریں گے: اے ہمارے رب! عَزَّوَجَلَّ، کون سی چیز اس سے افضل ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ میں نے اپنی رضامندی کو تمہارے لئے حلال کر دیا لہٰذا اس کے بعد تم پر کبھی ناراضگی نہیں ہو گی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۰، الحدیث: ۶۵۴۹)

(3)… وہ جنت میں ہمیشہ کے لئے قیام کریں گے۔ جہنم سے بچائے جانے اور جنت میں داخل کئے جانے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ‘‘ (اٰل عمران:۱۸۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔

{خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا:وہ ہمیشہ ہمیشہ ان جنتوں میں رہیں گے ۔} یہ آیتِ کریمہ بَظاہر مہاجرین صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے لئے ہے، ان بزرگوں کا جنتی ہونا یقینی ہے۔ ان میں سے بعض کا تو نام لے کر جنتی ہونے کا اعلان فرما دیا گیا جیسے حضرات عَشرہ مُبَشَّرہ وغیرہم۔ معلوم ہوا کہ صحابہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی وہ عظمت ہے کہ ان کیلئے رحمت ، جنت ور رضائے الٰہی کی بشارتیں بطورِ خاص قرآنِ پاک میں دی گئی ہیں ، لہٰذا جو صحابہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایمان یا تقویٰ کا انکار کرے وہ اس آیت کا منکر ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳)

 ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو  اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو اگر وہ ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی کرے گا تو وہی ظالم ہیں۔

{لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ:اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ سمجھو۔} جب مسلمانوں کو مشرکین سے تَرک ِمُوالات کا حکم دیا گیا تو بعض لوگوں نے کہا: یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی اپنے باپ بھائی وغیرہ قرابت داروں سے ترک ِتعلق کرے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ کفار سے موالات یعنی قلبی محبت کا تعلق جائز نہیں چاہے ان سے کوئی بھی رشتہ ہو۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ۲ / ۲۲۴)

کافروں اور بد مذہبوں سے دور رہا جائے:

             اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں یعنی کافروں ، بے دینوں اور گمراہوں کے ساتھ میل جول ،رسم وراہ، مَوَدَّت ومحبت اُن کی ہاں میں ہاں ملانا اُن کی خوشامد میں رہنا سب ممنوع ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ  ‘‘ (ھود:۱۱۳)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ظالموں کی طرف نہ جھکوورنہ تمہیں آگ چھوئے گی ۔

            ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے

’’وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘ (انعام:۶۸)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اوراگر شیطان تمہیں بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اِیَّاکُمْ وَاِیَّاہُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ان سے الگ رہو، انہیں اپنے سے دور رکھو، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں ، وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (مسلم، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء والاحتیاط فی تحمّلہا، ص۹، الحدیث: ۷(۷))

            حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اِنْ مَرِضُوْا فَلَا تَعُوْدُوْہُمْ وَاِنْ مَاتُوْا فَلَا تَشْہَدُوْہُمْ‘‘ اگر یہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کے جنازے میں شامل نہ ہونا۔(ابو داؤد، کتاب السنّۃ،۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۴۶۹۱)

            یہی حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بھی مروی ہے، اس میں مزید یہ الفاظ بھی ہیں ’’وَاِنْ لَقِیْتُمُوْہُمْ فَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَیْہِمْ‘‘اور اگر تم ان سے ملو تو انہیں سلام نہ کرو! (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۷۰، الحدیث: ۹۲)

            حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب فرمایا ہے ، انہیں میرا ساتھی اور قریبی عزیز بنایا ہے۔ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان میں گستاخی کریں گے اور انہیں برا بھلاکہیں گے، اگر تم انہیں پاؤ تو ان کے ساتھ نکاح کرنا، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے ساتھ نماز پڑھنا اور نہ ان پر نماز پڑھنا۔( کنز العمال، کتاب الفضائل، ذکر الصحابۃ وفضلہم رضی اللہ عنہم اجمعین، ۶ / ۲۴۶، الحدیث: ۳۲۵۲۵، الجزء الحادی عشر)

            ان آیات و اَحادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ بد مذہبوں کے سائے سے بھی کوسوں دور بھاگیں چہ جائیکہ ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں ، ان کی دعوتوں میں اور ان کی شادی غمی میں شریک ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)

ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں  اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال  او ر وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں  اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیاد ہ پیاری ہوں  تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

{قُلْ:تم فرماؤ۔} یعنی اے محبوب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنہوں نے رشتہ داروں سے ترک ِتعلق کے بارے میں کلام کیا آپ ان سے فرما دیں کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، تمہارا خاندان ، تمہاری کمائی کے مال او ر وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے پسندیدہ مکانات تمہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیاد ہ محبوب ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے اور اللہ تعالیٰ مشرکین سے مُوالات کے معاملے میں نافرمانی کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۲ / ۲۲۴، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۴۰۳، ملتقطاً)

اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے زیادہ کسی کو عزیز نہ رکھا جائے:

             اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز اللہو رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے ،اسے اللہ عَزَّوَجَلَّاپنی طرف راہ نہ دے گا ،اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے، وَالْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالٰی۔ تمہارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :’’تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب حبّ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان، ۱ / ۱۷، الحدیث: ۱۵، مسلم، باب وجوب محبّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر من الاہل۔۔۔ الخ، ص۴۲، الحدیث: ۷۰(۴۴)))اس نے تو بات صاف فرما دی کہ جو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے زیادہ کسی کوعزیز رکھے ہرگز مسلمان نہیں۔(فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۳۰۹-۳۱۰)

             علامہ قاضی عیاض  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ آیتِ کریمہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی محبت کے لازم ہونے، فرض اور اہم چیز ہونے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس محبت کے اصل مستحق ہونے کے بارے میں ترغیب، تنبیہ اور دلیل و حجت ہونے کیلئے کافی ہے کیونکہ جس نے اپنی آل اولاد اور مال کی محبت کواللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی محبت سے زیادہ سمجھا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے سخت تنبیہ کی ہے اور ایسوں کو ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ‘‘تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے۔ نیز آیت کے آخر میں ایسوں کو فاسق فرمایا اور بتایا کہ یہ لوگ ان گمراہوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق نہ دی۔ (الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۸، الجزء الثانی)

            حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص میں تین باتیں ہوں گی اس نے ایمان کی حلاوت پائی (1) اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ما سوا سب سے زیادہ محبوب ہو۔ (2)اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے محبت کرے۔ (3)کفر کی طرف لوٹنے کو ایسابرا جانے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔ (بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان، ۱ / ۱۷، الحدیث: ۱۶)

            حضرت سہلرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’جو شخص رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولایت و حکومت تمام حالات میں نہیں دیکھتا اور اپنی جان کو ان کی مِلک نہیں جانتا تو وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کی شیرینی نہ چکھے گا کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ عِنْدَہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہٖ ‘‘ تم میں سے وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جس کے نزدیک میں اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوں۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عبد اللہ بن ہشام۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۰۳، الحدیث: ۱۸۰۶۹، الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۱۹، الجزء الثانی)

 تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت رکھنے کا ثواب:

            حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے محبت رکھنے کا ثواب کس قدر ہے اس کا اندازہ درج ذیل 3 اَحادیث سے لگایا جا سکتا ہے۔

(1)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں ’’ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَقیامت کب آئے گی؟ ارشاد فرمایا:’’ تو نے ا س کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے عرضکی: میرے پاس اس کے لئے نہ نمازوں کی کثرت ہے نہ روزہ اور صدقہ ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سب سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں۔تب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تو اس کے ساتھ ہے جس کو تو محبوب رکھتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب علامۃ حبّ اللہ عزّوجلّ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۴۷، الحدیث: ۶۱۷۱)

(2)…حضرت صفوان بن قدامہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف ہجرت کی۔ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی’’ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنا دستِ مبارک دیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دستِ مبارک بڑھایا۔ میں نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں آپ کو محبوب رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا ’’اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ مرد جس سے محبت رکھے اس کے ساتھ ہو تا ہے۔ (الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصل فی ثواب محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۲۰، الجزء الثانی)

(3)…حضرت ثوبان  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کمال درجے کی محبت رکھتے تھے اور انہیں جدائی کی تاب نہ تھی۔ ایک روز اس قدر غمگین اور رنجیدہ حاضر ہوئے کہ چہرے کا رنگ بدل گیا تھا تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دریافت فرمایا، آج رنگ کیوں بدلا ہوا ہے ؟عرض کیا: نہ مجھے کوئی بیماری ہے اور نہ درد سوائے اس کے کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سامنے نہیں ہوتے تو انتہا درجہ کی وحشت و پریشانی ہوجاتی ہے، جب آخر ت کو یاد کرتا ہوں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہاں میں کس طرح دیدار پاسکوں گا؟ آپ اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے جنت بھی دی تو اس مقامِ عالی تک رسائی کہاں ؟اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا ‘‘ (النساء:۶۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: ۶۹، ۱ / ۴۰۰)

 محبتِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی علامات:

            علماءِ کرام نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ،ان میں سے 8علامات درج ذیل ہیں

(1)… اقوال اور افعال میں حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنا یعنی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کام کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن سے منع کیا ان سے رک جانا نیزنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں پر عمل کرنا۔

(2)…آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس عمل کی ترغیب دی اسے اپنی نَفسانی اور شَہوانی خواہشات پر ترجیح دینا۔

(3)… بکثرت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ذکرِ جمیل کرنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر درود شریف پڑھنا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ کرنا۔

(4)… ذکرِ حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وقت تعظیم و تَوقیر بجا لانا اور اسمِ گرامی سن کر اِنکساری کا اظہار کرنا۔

(5)…جس سے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محبت رکھتے ہوں اس سے بھی محبت کرنا۔

(6)… جس چیز سے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دشمنی رکھی اس سے دشمنی رکھنا اور جس سے عداوت رکھی اس سے کنارہ کشی کرنا۔

(7)…قرآنِ مجیدسے محبت رکھنا۔

(8)… رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آنا۔ (الشفا، القسم الثانی، الباب الثانی فی لزوم محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصل فی علامۃ محبّتہ صلی اللہ علیہ وسلم، ص۲۴-۲۸، الجزء الثانی، ملخصاً)

دین کو دنیا پر ترجیح دی جائے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب ایسی صورتِ حال درپیش ہو کہ دین یا دنیا میں سے کسی ایک چیز کو اختیار کرنا پڑے تو مسلمان کوچاہئے کہ وہ دین کو ترجیح دے اور دنیا کو چھوڑ کر دین کو اختیار کرے ۔اس معاملے میں فی زمانہ مسلمانوں کا حال انتہائی افسوس ناک ہے کہ وہ اپنے دین کا نقصان برداشت کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس نہیں کرتے بلکہ بعض اَوقات اس سے انتہائی لا پرواہی برتتے ہیں جبکہ اپنی دنیا کا نقصان لمحہ بھر کے لئے بھی برداشت کرنا انہیں گوارا نہیں ، افسوس! مسلمانوں کو نماز روزے کا کہا جائے تو یہ اپنی دُنیوی مصروفیات اور کام کی زیادتی کا بہانہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر چند گھنٹوں کے لئے بھوک برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کو کاروباری اور تجارتی معاملات شرعی طریقے کے مطابق سر انجام دینے کی ترغیب دی جائے تو وہ ضروریاتِ زندگی کی زیادتی اور اپنے منافع میں کمی ہو جانے کا رونا رو کراس سے روگردانی کرتے ہیں۔ مسلمان عورتوں کو شرعی پردے کی تلقین کی جائے تو وہ اسے پرانی سوچ اور عورتوں پر بلا وجہ کی پابندی قرار دے کر اور آزادیٔ نِسواں کے خلاف سمجھ کراس پر عمل کرنے کوتیار نہیں۔ طلاق کے معاملات میں جب اسلامی قانون کی رو سے شوہر اور بیوی میں جدائی کا فیصلہ ہو جائے تو اسلامی حکم کے سامنے سرِ تسلیم خَم کرنے کی بجائے یہ طرح طرح کے حیلے بہانے تراش کر ناجائز تَعلُّقات کی زندگی گزارنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ سرِ دست یہ چند مثالیں عرض کی ہیں ورنہ زندگی کا شائد ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جس میں دین پر دنیا کو ترجیح نہ دی جا رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور دنیا کے مقابلے میں دین کی اہمیت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍۙ-وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍۙ-اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ(۲۵)

ترجمۂکنزالایمان: بیشک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ ا ٓ ئی اور زمین اتنی وسیع ہوکر تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دے کر پھرگئے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی اورحنین کے دن کو یاد کروجب تمہاری کثرت نے تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردیا تو یہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور تم پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔

{ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍ:بیشک اللہ نے بہت سے مقامات میں تمہاری مدد فرمائی ۔}یعنی رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے غزوات میں مسلمانوں کو کافرو ں پر غلبہ عطا فرمایا جیسا کہ واقعۂ بدر ، قریظہ،نضیر ، حدیبیہ ، خیبر اور فتحِ مکہ میں ہوا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ۲ / ۲۲۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۴۳۱، ملتقطاً)

{وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ:اورحنین کے دن کو یاد کرو۔} ’’حنین‘‘ مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔ تاریخِ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام ’’غزوۂ ہوازن‘‘ بھی ہے۔ اس لئے کہ اس لڑائی میں ’’بنی ہوازن‘‘ سے مقابلہ تھا۔

غزوۂ حنین کا واقعہ:

            فتحِ مکہ کے بعد عام طور سے تمام عرب کے لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے کیونکہ ان میں اکثروہ لوگ تھے جو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین رکھنے کے باوجود قریش کے ڈر سے مسلمان ہونے میں تَوَقُّف کررہے تھے اور فتحِ مکہ کا انتظار کررہے تھے۔ پھر چونکہ عرب کے دلوں میں کعبہ کا بے حد احترام تھا اور ان کا اعتقاد تھا کہ کعبہ پر کسی باطل پرست کا قبضہ نہیں ہوسکتا، اس لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جب مکہ کو فتح کرلیا تو عرب کے بچے بچے کو اسلام کی حقانیت کا پورا پورا یقین ہوگیا اور وہ سب کے سب جوق در جوق بلکہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے۔ باقی ماندہ عرب کی بھی ہمت نہ رہی کہ اب اسلام کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھا سکیں۔ لیکن مقامِ حُنَین میں ’’ہوازن‘‘ اور ’’ثقیف‘‘ نام کے دو قبیلے آباد تھے جو بہت ہی جنگجو اور فُنونِ جنگ سے واقف تھے۔ ان لوگوں پر فتحِ مکہ کا اُلٹا اثر پڑا اور ان لوگوں پر خواہ مخواہ کی جاہلیت کیغیرت سوار ہوگئی اور ان لوگوں نے یہ خیال قائم کرلیا کہ فتحِ مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لئے ان لوگوں نے یہ طے کرلیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کردیا جائے۔ چنانچہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن ابی حدرد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیا اور بتایا کہ قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کرلیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیسِ اعظم مالک بن عوف ان تمام اَفواج کا سپہ سالار ہے اور وہ سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا ہے۔ ’’درید بن الصمہ‘‘ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔ حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی شوال  8  ھ میں بارہ ہزار کا لشکر جمع فرمایا۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سےآپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتحِ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہ ’’آج بھلا ہم پر کون غالب آسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کوان حضرات کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازِش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اور ہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفارِ مکہ جو لشکرِ اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین کے بھی پاؤں اکھڑ گئے۔ حضور تاجدارِ دوعالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گنتی کے چند جاں نثاروں کے سوا سب فرار ہو چکے تھے۔ تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔بارہ ہزار کا لشکر فرار ہو چکا تھا مگر خداعَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پائے اِستقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالَمِ کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ

 اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ                     اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔

            حضرت عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ بہت ہی بلند آواز تھے ا س لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہیں حکم دیا کہ انصار و مہاجرین کو پکارو۔ انہوں نے جو ’’ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَار‘‘ اور ’’ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ‘‘ کا نعرہ مارا تو ایک دم تمام فوجیں پلٹ پڑیں اور لوگ اس قدر تیزی کے ساتھ دوڑ پڑے کہ جن لوگوں کے گھوڑے اِژْدِحام کی وجہ سے نہ مڑ سکے انہوں نے ہلکا ہونے کے لئے اپنی زرہیں پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود کود کر دوڑے اور کفار کے لشکر پر جھپٹ پڑے اور اس طرح جانبازی کے ساتھ لڑنے لگے کہ دم زَدَن میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ کفار بھاگ نکلے ،کچھ قتل ہو گئے اور جو رہ گئے گرفتار ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کی فوجیں بڑی بہادری کے ساتھ جم کر مسلما نو ں سے لڑتی رہیں یہاں تک کہ ان کے ستر بہادر کٹ گئے، لیکن جب ان کا علمبردار عثمان بن عبداللہ قتل ہو گیا تو ان کے پاؤں بھی اُکھڑ گئے۔ اور فتحِ مُبین نے حضوررَحْمَۃٌ لِلْعالَمِین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قدموں کا بوسہ لیا اور کثیر تعداد و مقدار میں مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ (سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ حنین، ۳ / ۱۵۱-۱۵۵، مدارج النبوہ، قسم سوم، باب ہشتم: ذکر وقائع سال ہشتم وغزوہ حنین، ۲ / ۳۰۸-۳۱۴، شرح الزرقانی، غزوۃ حنین، ۳ / ۵۳۱-۵۳۲، ملتقطاً)

آیت’’ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ  ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات :

            اس آیت سے 4 چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… مسلمان کا حقیقی بھروسہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مدد پر ہونا چاہیے۔

(2)… اَسباب اختیار کرنے کا حکم ہے لیکن صرف اسی پر بھروسہ کرنا مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔

(3)… بعض اوقات چند لوگوں کی غلطی کا نتیجہ سب کو دیکھنا پڑتا ہے۔

(4)… خود پسندی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے، لہٰذا اپنے ہر کمال کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنے زورِ بازو کا نتیجہ، جیسا کہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًاۙ-وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘ (نور:۲۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی پاکیزہ نہ ہوتاالبتہ اللہ پاکیزہ فرما دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج:

            خود پسندی ایک انتہائی مذموم صفت ہے اور اس صفت کے پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں جن کی معرفت ہونے کی صورت میں ہی خود پسندی سے بچا جا سکتا ہے لہٰذا ہم ذیل میں خود پسندی کے6 اَسباب اور ان کا علاج ذکر کرتے ہیں تاکہ اس مذموم وصف کو پہچان کر اس سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔

(1)… حسن و جمال،شکل و صورت، صحت، قوت، اَعضا ء میں تَناسُب اور اچھی آواز ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان جب شکل و صورت کی وجہ سے خود پسندی میں مبتلا ہو تووہ اپنی باطنی گندگیوں پر غور کرے، اپنے آغاز و انجام کے بارے میں سوچ بچار کرے اور یہ سوچے کہ کس طرح خوبصورت اور عمدہ بدن مٹی میں مل گئے اور قبروں میں یوں بدبودار ہو گئے کہ طبیعتیں ان سے متنفر ہو گئیں اور جب طاقت و قوت کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو وہ اس بات پر غور کرے کہ ایک دن کے بخار سے اس کا کیا حال ہو جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ طاقت پر اِترانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ادنیٰ سی آفت نازل کر کے اس کی طاقت ہی سَلب کر لے۔

(2)…عقل اور سمجھداری۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب عقل اور سمجھداری کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو تو انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اسے عقل عطا کی اور عقل زائل ہو جانے سے خوفزدہ ہو نیز بے وقوف لوگوں کی طرف دیکھے کہ وہ کس طرح اپنی عقلوں پر اتراتے ہیں لیکن لوگ ان پر ہنستے ہیں اور اس بات سے ڈرے کہ کہیں وہ ان میں سے نہ ہو اور اسے یہ بات معلوم بھی نہ ہو ۔

(3)…اچھا نسب۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب انسان اپنے اعلیٰ نسب اور اونچی نسبت کی وجہ سے اترائے تو وہ جان لے کہ اس کی یہ سوچ انتہائی جہالت پر مَبنی ہے کہ اخلاق اور اعمال میں اپنے آباء واَجداد کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ ان کے درجے تک پہنچ گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اور اگر وہ ان کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے تو ان میں خود پسندی کہاں تھی بلکہ ان میں تو خوف تھا اور وہ اپنے آپ کو حقیر جانتے ، دوسروں کو بڑ اسمجھتے اور اپنے نفس کی مذمت کرتے تھے ، انہوں نے نسب کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ،علم اور اچھی خصلتوں کی وجہ سے مقام و مرتبہ حاصل کیا تھا لہٰذا اسے اس عمل کے ذریعے شرف حاصل کرنا چاہئے جس کی وجہ سے وہ مُعزز و محترم ہوئے،صرف نَسب پر بھروسہ نہیں کر لینا چاہئے کیونکہ قبائل میں شرکت اور نسب میں مُساوات تو ان لوگوں کو بھی حاصل ہے جواللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔

(4)…ظالم بادشاہوں اور ان کے مددگاروں سے تعلق۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کے حقدار ہیں اور اگر وہ قیامت کے دن ان کی ذلت و رسوائی ، جہنم میں ان کی بگڑی صورتوں ،بدبو اور گندگی کو دیکھ لے تو اس کا کیا حال ہو گا،کیا اب بھی وہ ان سے تعلق پر اترائے گا یا ان سے کوئی تعلق نہ ہونے کا اظہار کرے گا اور جو کوئی اسے ان کی طرف منسوب کرے اس پر اعتراض کرے گا۔

(5)…بیٹوں ،خادموں ، رشتہ داروں ، مددگاروں اور پیروکاروں کی کثرت۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کی کمزوری کے بارے میں سوچے اور اس بات پر غور کرے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اور وہ ذاتی طور پر کسی طرح کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ،پھر وہ ان پر کس طرح اتراتا ہے حالانکہ جب وہ مر جائے گا تو وہ سب اسے چھوڑ دیں گےاور اسے قبر میں یوں دفن کیا جائے گا کہ وہ اکیلا بھی ہو گا اور رسوا بھی،اس کے اہلِ خانہ ،اولاد،قریبی رشتہ داروں اورجگری دوستوں میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہو گا،وہ اسے گلنے سڑنے کے لئے ، سانپوں ،بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں کے خوراک بننے کے لئے قبر کے حوالے کر دیں گے اور وہ ا س پر آنے والے عذاب کو دور نہیں کر سکیں گے حالانکہ اس وقت اسے ان کی زیادہ حاجت ہو گی ،اسی طرح قیامت کے دن بھی یہ بھاگ جائیں گے اور جو لوگ تجھے سخت ترین حالت میں چھوڑ کر بھاگ جائیں تو ان میں کیا بھلائی ہے اور ان پر تو کس طرح اتراتا ہے؟

(6)…مال۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مال کی آفات، اس کے حقوق، اور اس کی عظیم فتنہ سامانی کے بارے میں سوچے، فقراء کی فضیلت اور قیامت کے دن جنت میں ان کے سبقت لے جانے پر غور کرے اور یہ بھی سوچے کہ مال تو آنے جانے والی اور ناپائیدار چیز ہے اور یہ بھی دیکھے کہ کئی یہودیوں کے پاس اس سے زیادہ مال ہے تو وہ کس طرح اپنے مال پر اتراتا ہے؟ (احیاء العلوم، کتاب ذم الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۵۸-۴۶۲، ملخصاً)

ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶)

ترجمۂکنزالایمان: پھر اللہ نے اپنی تسکین اتاری اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے اور کافروں کو عذاب دیا اور منکروں کی یہی سزا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور اہلِ ایمان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے اور اس نے کافروں کو عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔

{ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ:پھر اللہ نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔} ارشاد فرمایا کہ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر تسکین نازل فرمائی کہ اطمینان کے ساتھ اپنی جگہ قائم رہے اور اہلِ ایمان پر تسکین نازل فرمائی کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پکارنے سے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں واپس آئے۔ (جلالین، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ص۱۵۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ جنگ ِحنین میں بھاگ جانے والے مسلمان مومن ہی رہے، ان کی معافی ہو گئی، ان پر رب عَزَّوَجَلَّنے سکینہ اتار۔ اب جو ان پر اعتراض کرے وہ ان آیات کامخالف ہے۔ نیز یہ بھاگ جانے والے ہی واپس ہوئے اور انہوں نے معرکہ فتح کیا لہٰذا یہ فتح گزشتہ خطاکا کفارہ ہو گئی۔آیت ِ مبارکہ میں تسکین اترنے کاتذکرہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے پہلے اور بقیہ کیلئے بعد میں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ تسکین رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی برکت سے نازل ہوئی اور پھر آپ کے فیضان سے بقیہ صحابہ پر اتری اس لئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تذکرہ پہلے ہوا ،ورنہ گھبرانے والے حضرات تو دوسرے تھے اور سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو میدانِ جنگ میں ڈٹے ہوئے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۲۲۸، ملتقطاً)

{وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا:اور اس نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔} یعنی فرشتے جنہیں کفار نے ابلق گھوڑوں پر سفید لباس پہنے عمامہ باندھے دیکھا یہ فرشتے مسلمانوں کی شوکت بڑھانے کے لئے آئے تھے۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۲ / ۳۹۷، ملخصاً)

ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۷)

ترجمۂکنزالایمان: پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

{ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ:پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے گا۔} یعنی انہیں اسلام کی توفیق عطا فرمائے گا ۔ چنانچہ ہوازن کے باقی لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور وہ مسلمان ہو کر رسول اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے اسیروںکو رہا فرما دیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲ / ۲۲۸)

ہوازن قبیلے کے لوگوں کا قبولِ اسلام:

             صحیح بخاری میں حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دس دن تک ہوازن کے وفد کا انتظار فرماتے رہے۔ جب وہ لوگ نہ آئے تو آپ نے مالِ غنیمت اور قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس کے بعد جب ہوازن کا وفد آیا اور انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کرکے یہ درخواست پیش کی کہ ہمارے مال اور قیدیوں کو واپس کر دیا جائے تو حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ مجھے سچی بات ہی پسند ہے۔ لہٰذا سن لو! کہ مال اور قیدی دونوں کو تو میں واپس نہیں کرسکتا۔ ہاں ان دونوں میں سے ایک کو تم اختیار کر لو ، مال لے لویا قیدی۔ یہ سن کر وفد نے قیدیوں کو واپس لینا منظور کیا۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فوج کے سامنے ایک خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ’’اے مسلمانو! یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں ا ور میری یہ رائے ہے کہ میں ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں تو تم میں سے جو خوشی خوشی اس کو منظور کرے وہ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دے اور جو یہ چاہے کہ ان قیدیوں کے بدلے میں دوسرے قیدیوں کو لے کر ان کو واپس کرے تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے جو غنیمت عطا فرمائے گا میں اس میں سے اس کا حصہ دوں گا۔ یہ سن کر ساری فوج نے کہہ دیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم سب نے خوشی خوشی سب قیدیوں کو واپس کر دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح پتا نہیں چلتا کہ کس نے اجازت دی اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم لوگ اپنے اپنے سرداروں کے ذریعہ مجھے خبر دو۔ چنانچہ ہر قبیلہ کے سردار نے دربارِ رسالت میں آ کر عرض کر دیا کہ ہمارے قبیلہ والوں نے خوش دلی کے ساتھ اپنے حصہ کے قیدیوں کو واپس کر دیا ہے۔ (بخاری، کتاب الہبۃ وفضلہا والتحریض علیہا، باب اذا وہب جماعۃ لقوم، ۲ / ۱۷۸، الحدیث: ۲۶۰۷-۲۶۰۸، ملخصاً)

             سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ  سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب اموالِ غنیمت کی تقسیم سے فارغ ہو چکے تو قبیلہ بنی سعد کے رئیس زہیر ابو صردچند معززین کے ساتھ بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے بارے میں درخواست پیش کی۔ اس موقع پر زہیر ابو صرد نے ایک بہت مُؤثِّر تقریر کی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محمد! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ نے ہمارے خاندان کی ایک عورت حضرت حلیمہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کا دودھ پیا ہے۔ آپ نے جن عورتوں کو ان چھپروں میں قید کر رکھا ہے ان میں سے بہت سی آپ کی (رضاعی) پھوپھیاں اور بہت سی آپ کی خالائیں ہیں۔ خدا کی قسم! اگر عرب کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ نے ہمارے خاندان کی کسی عورت کا دودھ پیا ہوتا تو ہم کو اس سے بہت زیادہ امیدیں ہوتیں اور آپ سے تو اور بھی زیادہ ہماری توقُّعات وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ ان سب قیدیوں کو رہا کر دیجئے۔ زہیر کی تقریر سن کر حضور پُرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبہت زیادہ مُتَأثِّر ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کا بہت انتظار کیا مگر آپ لوگوں نے آنے میں بڑی دیر لگا دی۔ بہر کیف میرے خاندان والوں کے حصہ میں جس قدر لونڈی غلام آئے ہیں میں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ لیکن اب عام رہائی کی صورت یہ ہے کہ نماز کے وقت جب مجمع ہو توآپ لوگ اپنی درخواست سب کے سامنے پیش کریں۔ چنانچہ نمازِ ظہر کے وقت ان لوگوں نے یہ درخواست مجمع کے سامنے پیش کی اور حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مجمع کے سامنے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو صرف اپنے خاندان والوں پر اختیار ہے لیکن میں تمام مسلمانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے ۔یہ سن کر تمام انصار و مہاجرین اور دوسرے تمام مجاہدین نے بھی عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ آپ ان لوگوں کو بھی آزاد فرما دیں۔ اس طرح دفعۃً چھ ہزار اسیرانِ جنگ کی رہائی ہو گئی۔ (سیرت ابن ہشام، امر اموال ہوازن وسبایاہا وعطایا المؤلّفۃ قلوبہم منہا۔۔۔ الخ، ص۵۰۴-۵۰۵، ملخصاً)

            نسائی شریف کی روایت میں ہے کہ جب ہوازن قبیلے کے لوگوں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اپنے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں عرض کی توآپ نے اپنے خاندان کے حصے میں آنے والے لونڈی غلاموں کو آزاد فرما دیا، اس کے بعد ان سے ارشاد فرمایا ’’فَاِذَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ فَقُوْمُوْا فَقُوْلُوْا اِنَّا نَسْتَعِیْنُ بِرَسُوْلِ اللہِ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَوْ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ نِسَائِنَا وَاَبْنَائِنَا‘‘ جب میں ظہر کی نماز پڑھوں تو تم سب کھڑے ہو کر یوں کہو: ہم اللہ کے رسول کے وسیلے سے مسلمانوں سے اپنی عورتوں اور بچوں میں مدد چاہتے ہیں۔(نسائی، کتاب الہبۃ، ہبۃ المشاع، ص۶۰۵، الحدیث: ۳۶۸۷)

            اس سے معلوم ہوا کہ اِستِعانت کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص نہیں بلکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاۚ-وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیْكُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۤ اِنْ شَآءَؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۲۸)

ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو مشرک نرے ناپاک ہیں تو اس برس کے بعد وہ مسجد حرام کے پاس نہ آنے پائیں اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ تمہیں دولت مند کردے گا اپنے فضل سے اگر چاہے بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے تو عنقریب اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے گاتوتمہیں دولت مند کردے گا بیشک اللہ علم والا حکمت والا ہے۔

{اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ:مشرک بالکل ناپاک ہیں۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مشرک بالکل ناپاک ہیں یعنی ان کو باطن کے اعتبار سے ناپاک قرار دیا ہے کہ وہ کفر و شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ حکم دیا گیا کہ  اِس سال یعنی سَن 9ہجری کے بعد وہ مسجدِ حرام کے قریب نہ آنے پائیں نہ حج کے لئے نہ عمرہ کے لئے ۔

دنیا بھر کی مَساجِد میں مشرکوں کا داخلہ ممنوع ہے:

             یہاں مشرکین کو منع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان مسجدِ حرام شریف میں آنے سے روکیں۔یہاں اصلِ حکم مسجد ِ حرام شریف میں آنے سے روکنے کا ہے اور بقیہ دنیا بھر کی مساجد میں آنے کے متعلق بھی حکم یہ ہے کہ کفار مسجدوں میں نہیں آسکتے ۔ خصوصاً کفار کو عزت و احترام اور استقبال کے ساتھ مسجد میں لانا شدید حرام ہے۔ اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ’’ یہ کہنا کہ مسجدُ الحرام شریف سے کفار کا منع ایک خاص وقت کے واسطے تھا ،اگر یہ مراد کہ اب نہ رہا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر صَریح اِفتراء ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

’’ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا‘‘

(ترجمۂکنزُالعِرفان:مشرک بالکل ناپاک ہیں تو اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔)

            یونہی یہ کہنا کہ کفار کے وُفود مسجدِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں اپنے طریقے پر عبادت کرتے تھے محض جھوٹ ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری مَعَاذَاللہبطورِاِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی ۔ (فتاویٰ رضویہ،کتاب السیر، ۱۴ / ۳۹۰-۳۹۱)

{وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً:اور اگرتمہیں محتاجی کا ڈر ہے۔} ارشاد فرمایا کہ اور اگر تمہیں محتاجی کا ڈر ہے کہ مشرکین کو حج سے روک دینے سے تجارتوں کو نقصان پہنچے گا اور اہلِ مکہ کو تنگی پیش آئے گی تو عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّاپنے فضل سے اگر چاہے گا تو تمہیں دولت مند کردے گا ۔ حضرت عکرمہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا، بارشیں خوب ہوئیں اور پیداوار کثرت سے ہوئی۔ مقاتل نے کہا کہ یمن کے لوگ مسلمان ہوئے اور انہوں نے اہلِ مکہ پر اپنی کثیر دولتیں خرچ کیں۔ ’’اگرچاہے‘‘ فرمانے میں تعلیم ہے کہ بندے کو چاہئے کہ طلب ِخیر اور دفعِ آفات کے لئے ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ رہے اور تمام اُمور کو اسی کی مَشِیَّت سے متعلق جانے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ۲ / ۲۲۹) اسی آیت پر مفتی احمد یار خاں نعیمی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یعنی یہ نہ سمجھو کہ اگر حج میں کفار شریک نہ ہوئے تو تمہاری تجارتیں نہ چلیں گی (بلکہ) اللہ (عَزَّوَجَلَّ) مسلمانوں کی جماعت میں اتنی برکت دے گا کہ مسلمان حاجیوں سے اہلِ مکہ کے تمام کاروبار چلیں گے۔ رب (عَزَّوَجَلَّ) نے اپنا یہ وعدہ پورا فرمایا جو آج تک دیکھا جا رہا ہے۔’’ اگر چاہے‘‘ اس لئے فرمایا کہ مسلمانوں کا توکل اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر رہے نہ کہ آنے والے حاجیوں پر۔ (نور العرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۳۰۴)

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠(۲۹)

ترجمۂکنزالایمان: لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے  یعنی وہ جو کتاب دیے گئے  جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں  ذلیل ہوکر ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ان میں سے جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی آخرت کے دن پر اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ وہ سچے دین پر چلتے ہیں ان سے جہاد کرتے رہو حتّٰی کہ وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں۔

{قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ:ان سے جہاد کرتے رہو جو اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے۔} اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانا یہ ہے کہ اس کی ذات اور جملہ صِفات وتنزیہات کو مانے اور جو اس کی شان کے لائق نہ ہو اس کی طرف نسبت نہ کرے اور بعض مفسرین نے رسولوں پر ایمان لانا بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے میں داخل قرار دیا ہے تو یہودی اور عیسائی اگرچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے کے دعویدار ہیں لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ یہودی تجسیم وتَشْبِیہ (اللہ عَزَّوَجَلَّکا جسم ماننا اور اسے مخلوق کے مشابہ ماننا) کے اور عیسائی حلول کے معتقد ہیں تو وہ کس طرح اللہ عَزَّوَجَلَّپر ایمان لانے والے ہوسکتے ہیں۔ ایسے ہی یہودیوں میں سے جو حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو اور عیسائی حضرت مسیح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہ ہوا۔ اسی طرح جو ایک رسول کی تکذیب کرے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والا نہیں ،یہودی اور عیسائی بہت سے انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کرتے ہیں لہٰذا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان لانے والوں میں نہیں۔ شانِ نزول : مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کہ نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو روم سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی کے نازل ہونے کے بعد غزوۂ تبوک ہوا۔ کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے قبیلہ قریظہ اور نضیر کے حق میں نازل ہوئی ،سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے صلح منظور فرمائی اور یہی پہلا جزیہ ہے جو اہلِ اسلام کو ملا اوریہی پہلی ذلت ہے جو اِن کفار کو مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچی۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)

{وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اور نہ وہ ان چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اور نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیث میں جن چیزوں کو حرام کیا ہے یہ انہیں حرام قرار نہیں دیتے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ توریت و انجیل کے مطابق عمل نہیں کرتے ان کی تحریف کرتے ہیں اور احکام اپنے دل سے گڑھتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۲۹، ۲ / ۲۲۹)

            سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں حضرت مقدام بن معدیکرب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:سن لو ! مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل ملا یعنی حدیث، دیکھو!کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر بیٹھے یہ نہ کہے کہ یہی قرآن لئے رہو جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو،جو اس میں حرام ہے اسے حرام مانو۔ (حالانکہ) ’’وَاِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللہُ‘‘جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حرام کیا وہ بھی اس کی مثل ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّنے حرام کیا۔ (ابو داؤد، کتاب السنّۃ، باب فی لزوم السنّۃ، ۴ / ۲۶۵، الحدیث: ۴۶۰۴، وابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۱ / ۱۵، الحدیث: ۱۲، مثلہ)

احکامِ شریعت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سپرد ہیں :

            اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ائمۂ محققین تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سپرد ہیں جو بات چاہیں واجب کردیں جو چاہیں ناجائز فرما دیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم سے چاہیں مُسْتَثنیٰ فرما دیں۔ (فتاویٰ رضویہ، ۳۰ / ۵۱۸)

            اس مضمون پر چند اَحادیث کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔

(1)… حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عرض کرنے پر حرم میں اِذخِر گھاس کاٹ لینا جائز فرما دیا۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الاذخر والحشیش فی القبر، ۱ / ۴۵۳، الحدیث: ۱۳۴۹)

(2)…حضرت ابو بردہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے لئے چھ مہینے کی بکری کی قربانی جائز فرما دی۔ (بخاری، کتاب الاضاحی، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی بردۃ۔۔۔ الخ، ۳ / ۵۷۵، الحدیث: ۵۵۵۷)

(3)…اکیلے حضرت خزیمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دے دیا۔ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب اذا علم الحاکم صدق الشاہد الواحد۔۔۔ الخ، ۳ / ۴۳۱، الحدیث: ۳۶۰۷)

(4)…ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اس کے روزے کا کفارہ اپنے پاس سے عطا فرما کر اسے اپنی ہی ذات اور اہلِ خانہ پر خرچ کرنے کی اجازت عطا فرما دی۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب اذا جامع فی رمضان۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۳۸، الحدیث: ۱۹۳۶)

(5)…حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکے لئے حالتِ جنابت میں مسجد میں داخل ہونا حلال فرما دیا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، ۲۰-باب، ۵ / ۴۰۸، الحدیث: ۳۷۴۸)

            مزید تفصیلی معلومات کے لئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں

{حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ:حتّٰی کہ وہ جزیہ دیں۔} اس آیت میں اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہوا ۔اسلامی سلطنت کی جانب سے ذمی کافروں پر جو (مال) مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کیلئے دو ہی صورتیں ہیں قبولِ اسلام یا جنگ۔ بقیہ دنیا بھر کے کافروں سے جزیہ پر صلح ہوسکتی ہے۔  

وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْۚ- یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُۚ-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۳۰)

ترجمۂکنزالایمان: اور یہودی بولے عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں اگلے کافروں کی سی بات بناتے ہیں اللہ انہیں مارے  کہاں اوندھے جاتے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہودیوں نے کہا: عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے ، یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔ اللہ انہیں مارے ،کہاں اوندھے جاتے ہیں ؟

{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ:اور یہودیوں نے کہا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہتعالیٰ نے اہلِ کتاب کی بے دینی کا ذکر فرمایا  اورا س آیت میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے بیٹا ہونا ثابت کیا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ رکھے تووہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا منکر ہے۔یہ بھی بیان فرمایا کہ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں اگرچہ ان کے شرک کا طریقہ مختلف ہے، مشرکین کے بتوں کو پوجنے میں اور عیسائیوں کے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پَرَسْتِش میں کوئی فرق نہیں ، دونوں شرک میں شریک ہیں بلکہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بتوں کو پوجنے والے کے کفرسے عیسائیوں کا کفر بڑا ہے کیونکہ کافر بتوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ بت عالَم کے خالق اور معبود ہیں بلکہ وہ بتوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھتا ہے جبکہ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حُلول کر آیا ہے اور ان کے ساتھ مُتَّحِد ہو گیا ہے اور یہ زیادہ قبیح کفر ہے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۶ / ۲۸)

{وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ:اور یہودیوں نے کہا: عزیراللہ کا بیٹا ہے۔} امام ابو بکر رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ عقیدہ یہودیوں کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں سے ایک خاص فرقے کا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ یہودیوں کی ایک جماعت جو کہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفی، شاس بن قیس اور مالک بن صیف پر مشتمل تھی نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئی، انہوں نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں یہ بات کہی تو ا س پر یہ آیت نازل ہوئی۔ہمارے علم میں اب اس فرقے کا کوئی وجود نہیں۔ (احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، ۳ / ۱۳۴)

{ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے۔} یعنی یہودیوں کا حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اور عیسائیوں کا حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا یہ ان کی اپنے منہ سے کہی ہوئی بات ہے، اس پر ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ بُرہان اور پھر اپنی جہالت کی وجہ سے اس صریح باطل چیز کے معتقد بھی ہیں۔ (روح المعانی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۵ / ۳۸۵، ملخصاً)

{یُضَاهِــٴُـوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ:یہ پہلے کے کافروں جیسی بات کرتے ہیں۔} اس آیت کا ایک معنی تو اوپر بیان ہوا کہ ’’ اہلِ کتاب شرک میں مشرکین کی طرح ہیں ‘‘ دوسرا معنی یہ ہے کہ عیسائیوں کی بات اپنے سے پہلے یہودیوں کے قول کے مشابہ ہے کہ جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہا اسی طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بیٹا کہہ دیا۔ حضرت حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر کو گزشتہ کافر امتوں کے کفر سے تشبیہ دی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۰، ۲ / ۲۳۲)

اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَۚ-وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًاۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ(۳۱)

ترجمۂکنزالایمان: انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا اور مسیح ابنِ مریم کو اور انہیں حکم نہ تھا مگر یہ کہ ایک اللہ کو پوجیں  اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں اسے پاکی ہے ان کے شرک سے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا اور مسیح بن مریم (کوبھی ) حالانکہ انہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ان کے شرک سے پاک ہے۔

{ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ:انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا رب بنالیا کہ حکمِ الٰہی کو چھوڑ کر ان کے حکم کے پابند ہوئے اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو خدا بنایا اور ان کی نسبت یہ باطل عقیدہ رکھا کہ وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہیں یا خدا نے ان میں حُلول کیا ہے حالانکہ انہیں ان کی کتابوں میں اور ان کے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف سے صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کریں ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوروہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۱، ۲ / ۲۳۳، ملخصاً)

            یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے پادریوں اور علماء کو معبود بنا کر ان کی کوئی باقاعدہ عبادت نہیں کی تھی بلکہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر ان کے حکم کو اپنے لئے شریعت بنالیا تھا اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے خدا بنالئے چنانچہ پادریوں اور درویشوں سے متعلق ان کی اِس روِش کے بارے میں حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں : میں حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میرے گلے میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’عدی! اس بت کو دور کر دو۔ نیز صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسورۂ براءت سے پڑھ رہے تھے’’ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘(یعنی عیسائیوں ، یہودیوں نے اپنے دریشوں اور علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے (اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد) فرمایا کہ ’’ وہ ان کو پوجتے نہیں تھے بلکہ جب وہ ان کے لئے کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ حلال سمجھتے اور جب وہ حرام قرار دیتے تو یہ حرام سمجھتے تھے۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۶)

علماء اور اَولیاء کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے:

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں جس کی دینی اطاعت کی جائے گی گویا اسے رب بنا لیا گیا جیسا کہ عیسائی اور یہودی خدا کے مقابلے میں اپنے پادریوں اور درویشوں کی بات مانتے تھے اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے پادریوں اور درویشوں کو اللہ کے سوارب بنالیا ۔ جبکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فرمان کے ماتحت علمائ، اولیاء اور صالحین کی اطاعت عین اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت ہے۔ رب تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ ‘‘ (النساء:۵۹)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔

            حضرت عطا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس ا ٓیت میں رسول کی اطاعت سے مراد قرآن اور سنت کی پیروی ہے اور ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ کی اطاعت سے علماء اور فقہاء کی اطاعت مراد ہے۔ (سنن دارمی، باب الاقتداء بالعلمائ،  ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۱۹)

             ایک جگہ ارشاد فرمایا

’’ فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ‘‘(النحل:۴۳۔)

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے لوگو!اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ۔

             ایک مقام پر ارشاد فرمایا

’’وَ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ  ‘‘ (لقمان:۱۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل۔

            اور ارشاد فرمایا: ’’وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ‘‘ (التوبہ:۱۰۰)

ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اَوّلین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں۔

            اس آیت کی تفسیر میں  ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان، طاعت اورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ص۴۵۲، ملتقطاً)

            بکثرت احادیث میں بھی علماء کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے 3 اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)… صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،کس کی خیر خواہی کریں ؟ ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی، مسلمانوں کے امام کی اور عام مومنین کی۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ص۴۷، الحدیث: ۹۵(۵۵))

             اس حدیث کی شرح میں ہے کہ یہ حدیث ان اماموں کو بھی شامل ہے جو علمائے دین ہیں ، ان کی روایت کی ہوئی احادیث کو قبول کرنا، احکام میں ان کی تقلید کرنا اور ان کے ساتھ نیک گمان رکھنا ان کی خیرخواہی سے ہے۔ (شرح نووی علی المسلم، کتاب الایمان، باب بیان انّ الدین النصیحۃ، ۱ / ۳۹، الجزء الثانی)

(2)…حضرت جبیر بن مطعمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ مومن کا دل ان پر خیانت نہیں کرتا (1) اللہ تعالیٰ کے لیے عمل خالص کرنا۔ (2) علماء کی اطاعت کرنا اور (3) (مسلمانوں کی) جماعت کو لازم پکڑنا ۔ (مسند امام احمد، مسند المدنیین، حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ، ۵ / ۶۱۵، الحدیث: ۱۶۷۳۸)

(3)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔ میں وفات پانے والا ہوں علم عنقریب اٹھ جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے حتّٰی کہ دو شخص ایک فریضہ میں جھگڑیں گے اور ایسا کوئی شخص نہ پائیں گے جو ان میں فیصلہ کردے۔ (دارمی، باب الاقتداء بالعلماء، ۱ / ۸۳، الحدیث: ۲۲۱)

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(۳۲)هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(۳۳)

ترجمۂکنزالایمان: چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ نہ مانے گا مگر اپنے نور کا پورا کرنا پڑے برا مانیں کافر۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا  کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے برا مانیں مشرک ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں حالانکہ اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہ مانے گا اگرچہ کافر ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔

{یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ:یہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ سے اللہ کا نوربجھا دیں۔} اس آیت میں نور سے مراددینِ اسلام یا سرکار ِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے دلائل ہیں اور نور بجھانے سے مراد حضورپُرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین مٹانا ہے یا قرآن کو شائع نہ ہونے دینا یا حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکر روکنا اور حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل سے چڑجانا ۔ تو فرما دیا کہ کفار کی حرکتوں سے نہ دین ختم ہوگا، نہ اسلام کی شوکت میں کمی آئے اور نہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں فرق آئے گا۔(بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۴۱-۱۴۲، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۴۱۶، ملتقطاً)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

مِٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے        نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

تو گھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے              جب  بڑھائے  تجھے   اللہ تعالیٰ  تیرا

آیت’’هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

            اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

(1)… سچا دین اور ہدایت حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایسے وابستہ ہیں جیسے آفتاب کے ساتھ روشنی کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو چھوڑ کر نہ ہدایت ملتی ہے نہ سچا دین ، اگر صرف قرآن سے ہدایت مل جاتی تو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کودنیا میں کیوں بھیجا جاتا۔

(2)… حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی ہدایت اور سچے دین سے الگ نہ ہوئے کیونکہ یہ دونوں حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جو انہیں ایک آن کے لئے بھی ہدایت سے الگ مانے وہ بے دین ہے۔

{لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ:تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے۔} قرآنِ پاک میں یہ مضمون اس آیت کے علاوہ سورۂ فتح کی آیت نمبر 28 اور سورۂ صف کی آیت نمبر 9 میں بھی بیان ہوا ہے۔ آیت میں غلبے سے دلائل اور قوت دونوں اعتبار سے غلبہ مراد ہے۔ دلائل کے اعتبار سے تو یوں کہ دینِ اسلام نے اپنی حقانیت پر جو دلائل پیش کئے ہیں اس سے مضبوط ترین دلائل کوئی بھی پیش نہ کر سکا اور جہاں تک قوت کے اعتبار سے غلبہ کاتعلق ہے تو اس مراد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک بہت بڑا عرصہ ایسا گزرا ہے کہ د نیا میں صرف دینِ اسلام ہی غالب تھا اور اب آئندہ اس کا کامل ظہور اس وقت ہو گا جب حضرت امام مہدی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دنیا میں تشریف لائیں گے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴)

ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو بیشک بہت پادری اور جوگی  لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو!بیشک بہت سے پادری اورروحانی درویش باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔

{لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ:باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں۔} پادری اور روحانی درویش اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے ہیں کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں مال و دولت کے لالچ میں تحریف وتبدیل کرتے ہیں اور سابقہ کتابوں کی جن آیات میں سردارِدو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نعت و صفت مذکور ہے مال حاصل کرنے کے لئے ان میں فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۴)

 دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے کی مذمت:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ دین کا علم اس لئے حاصل کرنا تاکہ اس کے ذریعے دنیا کا مال، دولت، عزت، منصب اور وجاہت حاصل ہو یہ انتہائی مذموم اور اپنی آخرت تباہ کردینے والا عمل ہے۔ احادیث میں بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے وہ علم حاصل کیا جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے لیکن ا س نے وہ علم (اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے) دنیا حاصل کرنے کے لئے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔(ابو داؤد، کتاب العلم، باب فی طلب العلم لغیر اللہ، ۳ / ۴۵۱، الحدیث:  ۳۶۶۴)

             حضرت کعب بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو اس لیے علم طلب کرے تاکہ علماء کا مقابلہ کرے یا جُہلاء سے جھگڑے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرے تو اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ آگ میں داخل کرے گا۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فیمن یطلب بعلمہ الدنیا، ۵ / ۲۹۷، الحدیث: ۲۶۶۳)

            حضرت جابر بن عبداللہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’علماء کے سامنے فخر کرنے، بیوقوفوں سے جھگڑنے اور مجلس آراستہ کرنے کے لئے علم نہ سیکھو کیونکہ جو ایسا کرے گا تو (اس کے لئے ) آگ ہی آگ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ، ۱ / ۱۶۵، الحدیث: ۲۵۴)

            حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس نے لوگوں کے دلوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے عمدہ گفتگو سیکھی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی فرض عبادات قبول فرمائے گا نہ نفل۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المتشدق فی الکلام، ۴ / ۳۹۱، الحدیث: ۵۰۰۶)

{وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔}اس سے مراد یہ ہے کہ وہبخل کرتے ہیں ، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہودی و عیسائی علماء و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ  ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۲ / ۲۳۵)

 کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟

            حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں (یعنی وہ اس آیت کی وعید میں داخل نہیں ) خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے گا۔ (تفسیر طبری، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۴، ۶ / ۳۵۷-۳۵۸)

کس مال کو جمع کرنا بہتر ہے؟

            حضرت ثوبان  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی کہ سونے چاندی کا تو یہ حال معلوم ہوا ،پھر کون سا مال بہتر ہے جس کو جمع کیا جائے ۔ارشاد فرمایا :ذکر کرنے والی زبان اور شکر کرنے والا دل اور نیک بیوی جو ایماندار کی اس کے ایمان پر مدد کرے (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۵، الحدیث: ۳۱۰۵) یعنی پرہیزگار ہو کہ اس کی صحبت سے طاعت و عبادت کا شوق بڑھے۔

مال جمع کرنے کا حکم اور مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے واقعات:

          یاد رہے کہ مال کا جمع کرنا مباح ہے مذموم نہیں جبکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت طلحہ وغیرہ اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُممالدار تھے ۔ اسی مناسبت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی مالداری کے چند واقعات ملاحظہ ہوں۔ حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی مالداری تو ویسے ہی بہت مشہور ہے، ان کے علاوہ چند مالدار صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمیہ ہیں

(1)…حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ :تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کثیر مال عطا فرمایا اور اپنی مالداری کے باوجود بکثرت صدقہ و خیرات بھی کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں آپ نے اپنے مال میں سے پہلے چار ہزار درہم صدقہ کئے، پھر چالیس ہزار درہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کئے ،ا س کے بعد چالیس ہزار دینار صدقہ کئے، پھر پانچ سو گھوڑے اورا س کے بعد پانچ سو اونٹ راہِ خدا میں صدقہ کئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)

            ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ آیا، ا س قافلے میں گندم، آٹے اور کھانے سے لدے ہوئے سات سو اونٹ تھے، حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے شور سنا تو اس بارے دریافت فرمایا تو انہیں بتایا گیا کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا تجارتی قافلہ واپس آیا ہے جس میں گندم، آٹے اور طعام سے لدے ہوئے سات سو اونٹ ہیں۔ حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گے۔ جب یہ بات حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی آپ نے کہا: اے میری ماں ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے یہ تمام اونٹ اپنے سازو سامان کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں صدقہ کر دیئے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۴۹۸)

             جب حضرت عبد الرحمٰن بن عوف  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کاا نتقال ہوا تو آپ کے ترکہ میں حاصل ہونے والے سونے کو کلہاڑوں سے کاٹا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے، اس کے علاوہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ترکے میں ایک ہزار اونٹ، تین ہزار بکریاں اور ایک سو گھوڑے شامل تھے جو بقیع کی چراگاہ میں چرتے تھے۔ (اسد الغابہ، باب العین والباء، عبد الرحمٰن بن عوف، ۳ / ۵۰۰)

(2)…حضرت طلحہ بن عبید اللہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت طلحہ بن عبید اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی عراقی زمینوں سے ہونے والی آمدنی چار سے پانچ لاکھ درہم تک تھی اور سُرَّاۃ کی زمینوں سے ہونے والی آمدنی دس ہزار دینار کے لگ بھگ تھی یونہی اعراض سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بنو تمیم کے ہر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا کرتے ، ان کی مدد کرتے ، ان کی بیواؤں اور غیر شادی شدہ افراد کی شادیاں کراتے اور ان کے قرض اتارا کرتے تھے نیز ہر سال زمین کی پیداوار کی آمدنی سے دس ہزار درہم حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو بھجوایا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، طلحۃ بن عبید اللہ، ۳ / ۱۶۶)

(3)…حضرت زبیر بن العوام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ: حضرت ہشام بن عروہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ترکے کی قیمت پانچ کروڑ دس لاکھ یا پانچ کروڑ بیس لاکھ درہم تھی، مصر، اسکندریہ اور کوفہ میں آپ کی رہائشگاہیں تھیں ، بصرہ میں آپ کی حویلیاں تھیں ، مدینہ منورہ کی زمینوں سے آپ کے پاس غلے کی پیداوار سے آمدنی آتی تھی۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے چار بیویاں چھوڑیں جن میں سے ہر ایک کو گیارہ گیارہ لاکھ ملے۔(الطبقات الکبری، طبقات البدریین من المہاجرین، الطبقۃ الاولی، ومن بنی اسد بن عبد العزی بن قصی، الزبیر بن العوام، ۳ / ۸۱)

            ان کے علاوہ حضرت عمرو بن العاص، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت زید بن ثابت، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی مالدار صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ خیال رہے کہ مالدار صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم در حقیقت مالدار کی تربیت کیلئے مشعلِ راہ تھے ، وہ اپنا مال شرعی مَصارِف میں خرچ کرتے تھے اور اسی لئے مال جمع رکھتے تھے ،ان کے اَموال اظہارِ فخر کے لئے نہ تھے اور نہ ہی دنیائے فانی کے مال کی محبت میں اسے جمع کرتے تھے۔

            اللہ تعالیٰ مالدار مسلمانوں کو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔

یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ(۳۵)

ترجمۂکنزالایمان: جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا (اور کہا جائے گا) یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔

{یَوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ:جس دن وہ مال جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا۔} یعنی وہ مال جس کی زکوٰۃ نہ دی تھی قیامت کے دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا  یہاں تک کہ شدت ِحرارت سے سفید ہوجائے گا پھر اس کے ساتھ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کر رکھا تھا تو دنیا میں اپنا مال جمع کر کے رکھنے اور حق داروں کو ان کا حق ادا نہ کرنے کے عذاب کا مزہ چکھو۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۵، ۲ / ۲۳۶)

زکوٰۃ نہ دینے کی وعیدیں :

            احادیث میں زکوٰۃ نہ دینے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، ان میں 4اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)… حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا اس کے لیے آگ کے پتلے ٹکڑے بنائے جائیں گے ان پر جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی اور اُن سے اُس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی، جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دئیے جائیں گے۔ یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔ اور اونٹ کے بارے میں فرمایا: جو اس کا حق نہیں ادا کرتا، قیامت کے دن ہموار میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ سب کے سب نہایت فَربہ ہو کر آئیں گے، پاؤں سے اُسے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے، جب ان کی پچھلی جماعت گزر جائے گی، پہلی لوٹے گی۔ اور گائے اور بکریوں کے بارے میں فرمایا: کہ اس شخص کو ہموار میدان میں لٹائیں گے اور وہ سب کی سب آئیں گی، نہ ان میں مُڑے ہوئے سینگ کی کوئی ہوگی، نہ بے سینگ کی، نہ ٹوٹے سینگ کی اور سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے روندیں گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ص۴۹۱، الحدیث: ۲۴(۹۸۷))

(2)…حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا۔ (معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ عبدان، ۳ / ۲۷۵، الحدیث: ۴۵۷۷)

(3)…امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خشکی و تری میں جو مال تَلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۶)

(4)…امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’فقیر ہرگز ننگے بھوکے ہونے کی تکلیف نہ اٹھائیں گے مگر مال داروں کے ہاتھوں ، سن لو! ایسے مالداروں سے اللہتعالیٰ سخت حساب لے گا اور انھیں دردناک عذاب دے گا (معجم الاوسط، باب الدال، من اسمہ دلیل، ۲ / ۳۷۴، الحدیث:  ۳۵۷۹)۔ [1]

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۳۶)

 ترجمۂکنزالایمان: بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو  اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

{اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ:بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں۔} یہاں یہ بیان فرمایاگیا کہ بکثرت احکامِ شرع کی بنا قَمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۳۴، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶، ملتقطاً)

{مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ:ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔} ان حرمت والے مہینوں میں سے تین مُتَّصل ہیں ، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور ایک جدا ہے رجب۔ عرب لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کی تعظیم کرتے تھے اور ان میں قِتال حرام جانتے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۶)

             ان مہینوں میں سے رجب کی تعظیم اس لئے کہ لوگ اس میں عمرہ کرتے تھے اور بقیہ مہینوں کی اس لئے کہ یہ مہینے حج کیلئے جانے، حج کرنے اور حج سے واپسی کے مہینے تھے۔

{مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ:یہ سیدھا دین ہے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ سال میں بارہ مہینوں کا ہونا یہ سیدھا اور صحیح حساب ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ چار مہینوں کاحرمت والا ہونا یہ وہی سیدھا دین ہے جو کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دین تھا اور اہلِ عرب ان دونوں سے اس حکم کے وارث ہوئے ہیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۶ / ۴۲، بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۴۴، ملتقطاً)

{وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً:اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔} یعنی مشرکین سے مُتَّحِد ہو کر جنگ کرو جس طرح وہ متحد ہو کر تم سے جنگ کرتے ہیں۔ معنی یہ ہے کہ مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرو اور ان کے خلاف جنگ میں بزدلی اور کم ہمتی کا مظاہرہ نہ کرو اور نہ ہی پَسپائی اختیار کرو اور اے اللہ عَزَّوَجَلَّکے بندو! اپنے دشمن مشرکین کے خلاف جنگ کرنے میں متحد اور متفق ہو جاؤ۔ بیشتر مفسرین کے نزدیک اس آیت سے حرمت والے مہینوں میں کفار سے جنگ کی ممانعت منسوخ ہو گئی ہے اب چاہے حرمت والے مہینے ہوں یا ان کے علاوہ ہر مہینے میں مشرکین سے جنگ کی جائے گی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲ / ۲۳۷)

مسلمانوں کے عروج و زوال کا ایک سبب:

            اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف متحد ہو کر جنگ کرنے اور اس میں ایک دوسرے سے مدد و تعاون کرنے کا حکم دیا گیا اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق ان کے عروج کا سبب اور ان کی بہت بڑی قوت تھی اور اسی اتحاد کی برکت سے ان کی قلیل تعداد کافروں کی کثیر تعداد پر ہر میدان میں غالب رہی اور مسلمان ہر طرف اپنی فتح کے جھنڈے لہراتے رہے، روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو اپنے قدموں تلے روند کر رکھ دیا، مصر، عراق، اسپین اور افریقی ممالک میں اسلام کا پرچم بلند کر دیا ،الغرض کفار اپنے اتحاد، عددی برتری اور جنگی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود مسلمانوں پر کسی طرح غالب نہ آ سکے اور یہ سب مسلمانوں کے ایک مرکز پر جمع ہونے اور باہمی اتحاد واتفاق کا نتیجہ تھا۔ جب کفار کسی طرح مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے تو انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے اور ان میں اِفتراق و اِنتشار پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور ا س کے لئے انہوں نے بے تحاشا مال و زر، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات خرچ کر کے مسلمانوں میں دین فروش گمراہ علماء اور غدار پیدا کئے ،مسلم وزراء ،مسلم حکمرانوں اورفوج کے سالاروں کو خریدا، یہاں تک کہ انہوں نے اس کام کے لئے اپنی عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی عزت و آبرو کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، جب وہ مسلمانوں میں مال و زر کی خواہش، سلطنت و حکومت کی ہوس ، شراب، رَباب اور شباب کی طلب اور ایک دوسرے سے حسد ،بغض اور عداوت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ختم ہو گیا اور وہ لا مرکزیت کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گئے اور مسلمانوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کفار رفتہ رفتہ ان پر غالب آتے گئے اور پھر مسلمانوں نے اندلس، قرطبہ، غرناطہ، ترکستان، ایران ، بغداد ،فلسطین اور دیگر ملکوں میں عیسائیوں اور تاتاریوں سے ایسی عبرتناک تباہی کا سامناکیا کہ اسے سن کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ مسلمانوں کے گھر اور مال و اَسباب جلا دئیے گئے ،ان کی مَساجد میں کفار نے اپنے اپنے گھوڑے باندھے اور اذان و نماز پر پابندیاں لگا دیں ، ان کے اہلِ حق علماء اور اسلام کے وفاداروں کو چن چن کر قتل کردیا گیا، ان کے علمی و روحانی مراکز تباہ و برباد کر دئیے گئے، بغداد میں مسلمانوں کے علمی ورثے کو جب دریائے نیل میں غرق کیا گیا تو اس کی سیاہی سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا، باپوں کے سامنے بیٹیوں ، شوہروں کے سامنے بیویوں ،بھائیوں کے سامنے بہنوں اور بیٹوں کے سامنے ان کی ماؤں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا اور مسلمان حسرت کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ آج کے مسلمانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ اپنی تاریخی اور عبرتناک غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے انہی غلطیوں کو از سرِنو دُہرا رہے ہیں اور ایک مرکز پر جمع ہو کر متحد ہونے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر اور کفار کا دست نگر ہو کر زندگی گزارنے کو اپنی عظیم سعادت سمجھے بیٹھے ہیں ،اپنی حکومت اور سلطنت بچانے کی خاطر کفار کے آگے ایڑیاں رگڑتے اور ان کی ناراضی کو اپنی محتاجی کا پروانہ سمجھتے ہیں ، مسلمانوں کی اخلاقی اور ملی تباہی کے لئے کفار کی طرف سے بُنے گئے جالوں میں بری طرح پھنسنے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں ، دین فروش علماء اور غداروں نے مسلمانوں کی ملی وحدت کو پار ہ پارہ کر کے کفار کے عَزائم کامیاب بنا دئیے ہیں ، کسی مسلم ملک پر کفار حملہ کریں تویہ اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اورعزت وآبرو کی حفاظت کرنے کی بجائے کفار سے ان کے سودے کرتے ہیں ، مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے ہر طرح سے کفار کا ساتھ دیتے ہیں اور کفار سے پٹنے والے مسلمانوں کا حال و انجام دیکھ کر یہ تَصَوُّر تک کرنا گوارا نہیں کرتے کہ کفار نے اپنے منظورِ نظر مسلمانوں کا جو حال کیا کل کو وہ یہی حال ان کا بھی کر سکتے ہیں۔اے کاش!

درسِ قرآن ہم نے نہ بھلایا ہوتا                        یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا

اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِــٴُـوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُؕ-زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۠(۳۷)

ترجمۂکنزالایمان: ان کا مہینے پیچھے ہٹانا نہیں مگر اور کفر میں بڑھنا اس سے کافر بہکائے جاتے ہیں  ایک برس اسے  حلال ٹھہراتے ہیں اور دوسرے برس اسے حرام مانتے ہیں کہ اس گنتی کے برابر ہوجائیں جو اللہ نے حرام فرمائی اور اللہکے حرامکیے ہوئے حلال کرلیں ان کے برے کا م ان کی آنکھوں میں بھلے لگتے ہیں اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔ 

ترجمۂکنزُالعِرفان: مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں ترقی کرنا ہے، اِس کے ذریعے اُن کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے جو ایک سال کسی حرمت والے مہینے کو حلال قرار دے دیتے ہیں اور ایک سال اسے حرام قرار دیتے ہیں تاکہ اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی گنتی پوری کردیں اور اللہ کے حرام کئے ہوئے کو حلال کرلیں۔ ان کے برے کا م ان کے لئے خوشنما بنا دئیے گئے اور اللہ کافروں کوہدایت نہیں دیتا۔

{اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ:(اِن مشرکوں کا) مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں ترقی کرنا ہے۔} نَسِیء لغت میں وقت کے مؤخر کرنے کو کہتے ہیں اور یہاں شَہْرِحرام کی حرمت کا دوسرے مہینے کی طرف ہٹا دینا مراد ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں عرب حرمت والے مہینوں (یعنی ذوالقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب) کی حرمت و عظمت کے معتقد تھے تو جب کبھی لڑائی کے زمانے میں یہ حرمت والے مہینے آجاتے تو ان کو بہت شاق گزرتے ، اس لئے انہوں نے یہ کیا کہ ایک مہینے کی حرمت دوسرے کی طرف ہٹانے لگے، محرم کی حرمت صفر کی طرف ہٹا کر محرم میں جنگ جاری رکھتے اور بجائے اس کے صفر کو ماہِ حرام بنالیتے اور جب اس سے بھی تحریم ہٹانے کی حاجت سمجھتے تو اس میں بھی جنگ حلال کرلیتے اور ربیع الاول کو ماہِ حرام قرا ر دیتے اس طرح تحریم سال کے تمام مہینوں میں گھومتی اور ان کے اس طرزِ عمل سے حرمت والے مہینوں کی تخصیص ہی باقی نہ رہی۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حجۃ الوداع میں اعلان فرمایا کہ نَسِیْء کے مہینے گئے گزرے ہوگئے، اب مہینوں کے اوقات کی حکمِ خداوندی کے مطابق حفاظت کی جائے اور کوئی مہینہ اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اور اس آیت میں نَسِیۡٓءُ کو ممنوع قرار دیا گیا اور کفر پر کفر کی زیادتی قرار دیا کہ اولًا تو ویسے ہی کافر تھے اور پھر مہینے آگے پیچھے کرکے حرام کو حلال سمجھنے کے کفر میں پڑتے تھے تو یہ مزید کفر میں اضافہ ہوا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ۲ / ۲۳۸)

{لِیُوَاطِــٴُـوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ:تاکہ اللہ کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی گنتی کے مطابق ہوجائیں۔ } یعنی ماہ ِحرام تو چار ہی رہیں اس کی تو پابندی کرتے ہیں اور ان کی تخصیص توڑ کر حکمِ الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں کہ جو مہینہ حرام تھا اسے حلال کرلیا اس کی جگہ دوسرے کو حرام قرار دیا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۷، ص۴۳۵)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِؕ-اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِۚ-فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ(۳۸)

ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو تمہیں کیا ہوا  جب تم سے کہا جائے کہ راہِ خدا میں کوچ کرو تو بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کرلی اور جیتی دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ جب تم سے کہا جائے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین کے ساتھ لگ جاتے ہو ۔ کیا تم آخرت کی بجائے دنیا کی زندگی پر راضی ہوگئے ؟تو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا سازو سامان بہت ہی تھوڑا ہے۔

{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ:اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا؟ ۔} شانِ نزول:یہ آیت غزوۂ تبوک کی ترغیب میں نازل ہوئی ۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۸، ۲ / ۲۳۹)

غزوۂ تبوک کا واقعہ:

            تبوک، ملکِ شام کے اَطراف میں مدینہ طیبہ سے کافی فاصلے پر ایک مقام ہے، اس دور میں تبوک کی طرف جانے والا جو راستہ تعمیر کیا گیا ہے، جدید حساب کی رُو سے اس کا فاصلہ نو سو کلومیٹر کے قریب ہے۔ رجب 9 ہجری میں طائف سے واپسی کے بعد جب سرکارِ دو عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر پہنچی کہ عرب کے عیسائیوں کی سازش اور بَراَنگیختہ کرنے سے ہر قل شاہِ روم نے رومیوں اور شامیوں کا ایک بھاری لشکر جمع کر لیا ہے اور وہ مسلمانوں پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے تو حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔ یہ زمانہ نہایت تنگی ،قحط سالی اور گرمی کی شدت کا تھا یہاں تک کہ دو دو آدمی ایک ایک کھجور پر گزارہ کرتے تھے۔ سفر دور کا تھا جبکہ دشمن تعداد میں زیادہ اور مضبوط تھے ان وجوہات کی بنا پر لوگوں کو گھر سے نکلنا مشکل محسوس ہو رہا تھا۔ مدینہ منورہ کے بہت سے منافقین جن کے نفاق کا راز فاش ہو چکا تھا وہ خود بھی فوج میں شامل ہونے سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے لیکن اس کے باوجود تیس ہزار کا لشکر جمع ہوگیا۔ اب ان تمام مجاہدین کے لیے سواریوں اور سامانِ جنگ کا انتظام کرنا ایک بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھاکیونکہ لوگ قحط کی وجہ سے انتہائی مَفلوک الحال اور پریشان تھے اس لیے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عرب کے تمام قَبائل سے فوجیں اور مالی امداد طلب فرمائی۔

             صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس غزوے میں دل کھول کر مال خرچ کیا ’’حضرت عبد الرحمٰن بن خباب  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں بارگاہِ رسالت میں حاضر تھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تبوک کے بارے میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّکے راستے میں پالان کے ساتھ سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھر ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دوبارہ کھڑے ہوئے اور عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں پالان سمیت دو سو اونٹ میرے ذمے ہیں۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تیسری مرتبہ ترغیب دلائی تو حضرت عثمان غنی  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پھر کھڑے ہو گئے اور عرض گزار ہوئے’’ یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں تین سو اونٹ پالانوں کے ساتھ میرے ذمے ہیں۔ حضرت عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ منبر سے نیچے تشریف لائے اور فرما رہے تھے کہ اس کے بعد عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجو بھی عمل کریں ان پر کوئی حرج نہیں۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ۵ / ۳۹۱، الحدیث: ۳۷۲۰)

             یہ تو اعلان تھا لیکن حاضر کرتے وقت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے اعلان سے کہیں زیادہ مال دیا تھا، حضرت علامہ برہان الدین حلبی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’غزوۂ تبوک کے موقع پر جتنا مال حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے خرچ کیا اتنا کسی اور نے نہیں کیا ،آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دس ہزار مجاہدین کوجہاد کاسامان دیا اور دس ہزار دینار اس غزوے پر خرچ کئے، سازو سامان کے ساتھ نو سو اونٹ اور سو گھوڑے اس کے علاوہ ہیں۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۴)

            حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، اتفاق سے اس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا اگر میں صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کسی دن سبقت لے سکتا ہوں تو آج لے جاؤں گا۔ فرماتے ہیں ’’ پھر میں نصف مال لے کر حاضر ہوا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کی: اس کے برابر اتنے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا سارا مال (جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی) لے کر حاضر ہوئے تورسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان سے فرمایا ’’ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے عرض کی’’ اَبْقَیْتُ لَہُمْ اللہَ وَرَسُولَہٗ ‘‘ گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمر  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے (دل میں ) کہا : میں ان سے کسی بات میں آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ (ابو داؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الرخصۃ فی ذلک، ۲ / ۱۷۹، الحدیث: ۱۶۷۸)

            ان کے علاوہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت عباس اور حضرت طلحہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے بھی کثیر مال خرچ کیا، اسی طرح صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس بھی جو زیور تھا انہوں نے بارگاہ ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بھیج دیا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اب تک یہ طریقہ تھا کہ غزوات کے معاملے میں بہت زیادہ رازداری کے ساتھ تیاری فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ عَساکر اسلامیہ کو عین وقت تک یہ بھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ مگر جنگ تبوک کے موقع پر سب کچھ انتظام علانیہ طور پر کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ تبوک چلنا ہے اور قیصرِ روم کی فوجوں سے جہاد کرنا ہے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تیاری کر لیں۔(سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم، غزوۃ تبوک، ۳ / ۱۸۳-۱۸۴)

            بہرحال حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتیس ہزار کا لشکر ساتھ لے کر تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور مدینہ کا نَظم و نَسق چلانے کے لئے حضرت علی کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنا خلیفہ بنایا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں غزوۂ تبوک کے موقع پررسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو مدینہ منورہ میں چھوڑ دیا تو آپ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی ’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے! البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴))جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تبوک کے قریب میں پہنچے تو ارشاد فرمایا کہ اِنْ شَآءَ اللہُ تعالٰی کل تم لوگ تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے اور سورج بلند ہونے کے بعد پہنچو گے لیکن کوئی شخص وہاں پہنچے تو پانی کو ہاتھ نہ لگائے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب وہاں پہنچے تو جوتے کے تسمے کے برابر اس میں پانی کی ایک دھار بہہ رہی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس میں سے تھوڑا سا پانی منگا کر ہاتھ منہ دھویا اور اس پانی میں کلی فرمائی۔ پھر حکم دیا کہ اس پانی کو چشمہ میں انڈیل دو۔ لوگوں نے جب اس پانی کو چشمہ میں ڈالا تو چشمہ سے زوردار پانی کی موٹی دھار بہنے لگی اور تیس ہزار کا لشکر اور تمام جانور اس چشمہ کے پانی سے سیراب ہو گئے۔ سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کافی عرصہ یہاں قیام فرمایا، ہرقل اپنے دل میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سچا نبی جانتا تھا اس لئے اسے خوف ہوا اور اس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے مقابلہ نہ کیا ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَطراف میں لشکر بھیجے، چنانچہ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو چار سو سے زائد سواروں کے ساتھ دومتہ الجندل کے حاکم اکیدر سے مقابلے کیلئے بھیجا اور فرمایا کہ تم اس کو نیل گائے کے شکار میں پکڑلو !چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ نیل گائے کے شکار کے لئے اپنے قلعے سے اتر اتو حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے گرفتار کرلیا اور اسے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمتِ اقدس میں لے آئے ، حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جزیہ مقرر فرما کر اس کو چھوڑ دیا، اسی طرح حاکمِ ایلہ پر اسلام پیش کیا اور جزیہ پرصلح فرمائی۔ (زرقانی، ثمّ غزوۃ تبوک، ۴ / ۹۰-۹۳ملتقطاً) واپسی کے وقت جب حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ کے قریب تشریف لائے تو جو لوگ جہاد میں ساتھ ہونے سے رہ گئے تھے وہ حاضر ہوئے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسے فرمایا کہ ان میں سے کسی سے کلام نہ کریں اور اپنے پاس نہ بٹھائیں جب تک ہم اجازت نہ دیں تو مسلمانوں نے ان سے اِعراض کیا یہاں تک کہ باپ اور بھائی کی طرف بھی اِلتفات نہ کیا اسی باب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ﳔ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْــٴًـاؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۳۹)

ترجمۂکنزالایمان: اگر نہ کوچ کرو گے تو تمہیں سخت سزا دے گا  اور تمہاری جگہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکوگے اور اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تم کوچ نہیں کرو گے تووہ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور تم اس کا کچھ نہیں بگا ڑ سکوگے اور اللہ ہرشے پر قادرہے۔

{اِلَّا تَنْفِرُوْا:اگر تم کوچ نہیں کرو گے۔} ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! اگر تم رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کے مطابق اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں کوچ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دردناک سزا دے گا اور تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گاجو تم سے بہتر اور فرمانبردار ہوں گے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نصرت اور ان کے دین کو عزت دینے میں خود کفالت فرمائے گا تو اگر تم فرمانِ رسول کی اطاعت میں جلد ی کرو گے تو یہ سعادت تمہیں نصیب ہوگی اور اگر تم نے سستی کی تو اللہ تعالیٰ دوسروں کو اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شرفِ خدمت سے سرفراز فرمائے گا۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۹، ۶ / ۴۸)

اللہ تعالٰی کا دین ہمارا محتاج نہیں :

             اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ دین کی تبلیغ مسلمانوں کا منصب اور ذمہ داری ہے ۔ اگر کوئی یہ سعادت حاصل کرتا ہے تو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی کرم نوازی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں ، نیز اسلام کی اشاعت ہم پر مَوقوف نہیں کیونکہ ہم سے پہلے بھی دنیا میں اسلام تھا اور ہمارے بعد بھی رہے گا۔

اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَاۚ-فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰىؕ-وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَاؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۴۰)

 ترجمۂکنزالایمان: اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو  تو بیشک اللہنے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے  انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے  جب وہ دونوں غار میں تھے  جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے  تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ اتارا اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کی بات نیچے ڈالی اللہ ہی کا بول بالا ہے  اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے تو اللہان کی مدد فرماچکا ہے جب کافروں نے انہیں (ان کے وطن سے) نکال دیا تھا جبکہ یہ دو میں سے دوسرے تھے، جب دونوں غار میں تھے، جب یہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اُس پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا اور اللہ کی بات ہی بلندو بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

{اِلَّا تَنْصُرُوْهُ:اگر تم اس (نبی) کی مدد نہیں کرو گے۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دی ہے کہ اگر تم میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی اس وقت بھی مدد فرمائی جبمکہ مکرمہ سے ہجرت کے وقت ان کے ساتھ صرف ایک شخص تھا تو یہاں بدرجہ اَولیٰ مدد فرمائے گا۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۴۹)

حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی فضیلت:

            اس آیتِ مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے عظیم توکل اور حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت کا بیان ہے بلکہ یہ آیتِ مبارکہ کئی اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہے۔

(1)…تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غارِ ثور میں اس لئے تشریف لے گئے کہ انہیں کفار کی طرف سے قتل کا اندیشہ تھا لہٰذا اگر رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے، پکے اور صدیق مومن ہونے کا یقین نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکسی طور پربھی انہیں اپنے ساتھ ہم رِکابی کا شرف عطا نہ فرماتے کیونکہ اس طرح جو اندیشہ کفار سے تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے بھی ہو سکتا تھا۔ یہ کلام اُن جاہلوںکا جواب ہے جو اِس سفر کے حوالے سے بھی سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر اعتراض کرتے ہیں۔

(2)…یہ ہجرت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں مخلص صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک پوری جماعت موجود تھی اور وہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں نسبی طور پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے زیادہ قریب بھی تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے وقت رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہنے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ اور کسی کو بھی عطا نہیں فرمایا، یہ تخصیص حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عظیم مرتبے اور بقیہ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

(3)… دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حالات کی ناسازی کی وجہ سے ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شدید خوف اور انتہائی خطرناک صورتِ حال کے باوجود بھی تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قرب نہ چھوڑا بلکہ صبر و اِستقامت کے ساتھ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہے او ر رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں مصروف رہے۔

(4)…حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سفر و حضر میں رسولِ انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر رہتے بلکہ اس کا اِلتزام فرماتے تھے، یہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سچے عشقِ رسول کی دلیل ہے۔

(5)… آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غارِ ثور میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُنسِیّت کا شرف پایا اور اپنی جان قربان کرنے کی سعادت پائی۔

(6)… اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ثانی فرمایا یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مقامات پر حضرت ابوبکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ثانی (یعنی دوسرے نمبر پر )ہونے کا شرف پایا جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پہلو میں تدفین کی وجہ سے قیامت تک ثانِیّت سے مشرف ہیں۔

(7)… حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا صحابی ہونا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ،یہ شرف آپ کے علاوہ اور کسی صحابی کو عطا نہ ہوا۔

(8)…اللہ تعالیٰ ان دونوں مقدس ہستیوں کے ساتھ تھا تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو یہ اس کے دوسروں سے افضل ہونے کی دلیل ہے۔

(9)… اللہ تعالیٰ کا خصوصیت کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر سکینہ نازل فرمانا بھی ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۶ / ۵۰، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)

 حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تمنا:

          ایک مرتبہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سامنے خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا ’’میری تمنا ہے کہ کاش ! میرے سارے اعمال حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دنوں میں سے ایک دن اور راتوں میں سے ایک رات کے عمل کے برابر ہوتے ۔ان کی رات تو وہ کہ جس میں آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ غار کی طرف سفر کیا اور جب وہ دونوں غار تک پہنچے تو حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم ! آپ سے پہلے میں غار میں جاؤں گا تاکہ اس میں کوئی تکلیف دِہ چیز ہو تو اس کی اَذِیَّت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بجائے مجھے پہنچے ۔ جب حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُغار میں داخل ہوئے تو آپ نے اس میں سوراخ دیکھے، آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی چادر کے ٹکڑے کر کے ان سوراخوں کو بند کیا، دو سوراخ باقی رہ گئے تو وہاں اپنے پاؤں رکھ دئیے، اس کے بعد تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی’’یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب تشریف لے آئیے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَغار میں تشریف لائے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں سرِ انور رکھ دیا اور آرام فرمانے لگے۔ اتنے میں سوراخ سے کسی چیز نے حضرت ابو بکر صدیق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ڈس لیا۔ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس خوف سے حرکت نہ کی کہ کہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنیند سے بیدار نہ ہو جائیں لیکن تکلیف کی شدت سے نکلنے والے چند آنسو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رُوئے اقدس پر گر گئے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے ابو بکر! کیا ہوا؟ عرض کی ! میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپہ فدا ہوں ، مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا لعابِ دہن اس جگہ پر لگا دیا تو اسی وقت ساری تکلیف ختم ہو گئی، بعد میں یہی ڈنگ آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُ  کی وفات کا سبب بنا۔ اور ان کا دن وہ کہ جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہری کے بعد عرب کے چند قبیلے مرتد ہوگئے اور زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اگر انہوں نے زکوٰۃ کے مال کی ایک رسی بھی روکی تومیں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ میں نے عرض کی ’’اے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ اُلفت اور نرمی کا برتاؤکیجئے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’وحی کا سلسلہ ختم ہو چکا اور اب دین مکمل ہو گیا ہے کیا وہ دین میں کمی کریں گے ؟حالانکہ میں ابھی زندہ ہوں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۰)

             اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :

صدیق بلکہ غار میں جان اس پہ دے چکے              اور حفظِ جاں تو جان فروضِ غرر کی ہے

{وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا:اور اُن لشکروں کے ساتھ اُس کی مدد فرمائی جو تم نے نہ دیکھے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے نازل فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدد فرمائی کہ فرشتوں نے کفار کے چہروں اور نگاہوں کو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف دیکھنے سے پھیر دیا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں رُعب ڈال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ گئے۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غار میں تھے اور شدید خوف کا عالَم تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے دشمنوں کا مکر پھیر کر ان کی مدد فرمائی اور پھر میدانِ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۴۴)

{وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى:اور اُس نے کافروں کی بات کو نیچے کردیا۔} کافروں کی بات سے مراد شرک یا دعوت ِکفر ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد توحید یا دعوتِ اسلام ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ کافروں کی بات سے مراد نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کی وہ سازش ہے جس میں کفار کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بات سے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مددفرمائے گا۔ (بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۴۶، بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۲۵۰، ملتقطاً)

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴۱)

ترجمۂکنزالایمان: کوچ کرو ہلکی جان سے چاہے بھاری دل سے اور اللہکی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر جانو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان:  تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔

{اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا:تم مشقت اور آسانی ہر حال میں کوچ کرو۔} یعنی چاہے تم اس حالت میں ہو کہ جہاد کرنا تم پر آسان ہے یا اس حالت میں ہو کہ جہادکرنا تم پر بھاری ہے بہر حال کوچ کرو۔ مفسرین نے ’’خِفَافًا ‘‘ اور ’’ثِقَالًا ‘‘ کے بہت سے معنی بیان فرمائے ہیں۔ (1)تمہارے لئے نکلنے میں آسانی ہو یا مشقت۔ (2) اہل و عیال کم ہوں یا زیادہ۔ (3) اسلحہ کم ہو یا زیادہ۔ (4) سوار ہو کر نکلو یا پیدل۔ (5) جوان ہو یا بوڑھے۔ (6) طاقتور ہو یا کمزور۔ (7) بہادر ہو یا بزدل۔ (8) صحت مند ہو یا مریض۔ (9) خوشی سے نکلو یا ناخوشی سے۔ (10) مالدار ہو یا فقیر۔ (11) فارغ ہو یا کسی کام میں مصروف، خلاصہ یہ ہے کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب اور جن مسلمانوں کو جہاد کے لئے بلائیں تو انہیں جہاد میں جانا ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی حال میں ہوں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۶ / ۵۵، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۲ / ۲۴۴، ملتقطاً)

 حضرت ابو طلحہ انصاری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا شوقِ جہاد:

          حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک مرتبہ سورۂ توبہ کی تلاوت فرمائی ،جب اس آیت ’’اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا‘‘ پر پہنچے تو اپنے بیٹوں سے فرمایا ’’ میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو، میرے لئے جہاد کا سامان تیار کرو۔ ان کے بیٹوں نے عرض کی ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ غزوات میں حاضر ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وصالِ ظاہری ہو گیا، پھر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی،پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ شریکِ جہاد رہے حتّٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا ، اب ہم آپ کی طرف سے جہاد میں شریک ہو جائیں گے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’ نہیں ، بس اب تم میرے سامانِ جہاد کی تیاری کرو ۔ اس کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے سمند ری جہاد میں شرکت کی اور سمند رہی میں آپ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات ہو گئی۔ سات دن بعد ان کے ساتھیوں کو تدفین کیلئے ایک جزیرہ ملا تو انہوں نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تدفین کی۔ ان سات دنوں میں آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بدن مبارک سلامت ہی رہا اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہ ہوئی ۔ (تفسیر قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۴ / ۶۶، الجزء الثامن)

{وَ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔} جہاد کی تین صورتیں ہیں ۔

(1)…جان اور مال دونوں کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو مال بھی رکھتا اور جہاد کے قابل تندرست و توانا جسم بھی رکھتا ہو۔

(2)…صرف جان کے ساتھ۔ یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے پاس مال نہ ہو لیکن جسمانی طور پرجہاد کے قابل ہو۔

(3)…صرف مال کے ساتھ۔ یہ حکم اس کیلئے ہے کہ جو جسمانی کمزوری، معذوری یا بیماری وغیرہ کے باعث جہاد میں شریک نہ ہو سکتا ہو لیکن مجاہدین کی مالی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۴۳۸، ملخصاً)

مجاہدین کی مالی مدد کرنے کے دو فضائل:

(1)…حضرت زید بن خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے والے کو سامان فراہم کرے تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں لڑنے والے کے گھر بار کی نیک نیتی سے خبر گیری کی تو وہ بھی خود جہاد کرنے والوں کی طرح ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب فضل من جہّز غازیاً۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۶۷، الحدیث: ۲۸۴۳)

(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ غازی (مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب ہے اور غازی کا ثواب ۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَ لٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُؕ-وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْۚ-یُهْلِكُوْنَ اَنْفُسَهُمْۚ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۠(۴۲)

ترجمۂکنزالایمان: اگر کوئی قریب مال یا متوسط سفر ہوتا تو ضرور تمہارے ساتھ جاتے مگر ان پر تو مشقت کا راستہ دور پڑ گیا  اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم سے بن پڑتا تو ضرور تمہارے ساتھ چلتے اپنی جانو ں کو ہلاک کرتے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ بیشک ضرور جھوٹے ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا اور درمیانہ سا سفر ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلتے لیکن مشقت والا سفر ان پر بہت دور پڑگیا اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ یہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ یہ بیشک جھوٹے ہیں۔

{ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا:اگر آسانی سے ملنے والا مال ہوتا۔} یعنی تبوک کا میدان اگر قریب ہوتا اور غنیمت آرام سے مل جانے کی امید ہوتی تو یہ بہانے بنانے والے منافق ضرور ان مَنافع کے حصول کے لالچ میں جہاد میں شریک ہوجاتے لیکن دور کے سفر اور رومیوں سے جنگ کو عظیم جاننے کی وجہ سے یہ پیچھے رہ گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)

آیت’’لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:

             اس سے معلوم ہوا کہ دین میں ضروری مشقت سے گھبرانا اور اگرچہ فرض و واجب ترک ہوجائے لیکن صرف آسان کام ہی اختیار کرنا منافقوں کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد میں منافقین بھی جاتے تھے مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے نہیں بلکہ مالِ غنیمت کے لالچ میں جاتے تھے ۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع وہ چاہیے جو قلبی محبت کے ساتھ ہو، دنیاوی لالچ یا سزا کے خوف سے تو منافق بھی اتباع کر لیتے تھے۔ اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ

’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ (ال عمران:۳۱)

ترجمۂکنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

            اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ اتبا ع نصیب کرے۔آمین۔

{وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اوراب اللہ کی قسم کھائیں گے۔} یعنی یہ منافقین اب اللہ تعالیٰ کی قسم کھائیں گے اور اس طرح معذرت کریں گے کہ ہمیں طاقت ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور نکلتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۲، ۲ / ۲۴۵)منافقین کی اس معذرت سے پہلے خبر دے دینا غیبی خبرہے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نبوت کی دلیل ہے چنانچہ جیسا فرمایا تھا ویسا ہی پیش آیا اور انہوں نے یہی معذرت کی اور جھوٹی قسمیں کھائیں۔

جھوٹی قسم کھانا ہلاکت کا سبب ہے:

           اس آیت کے اگلے حصے سے ثابت ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا سببِ ہلاکت ہے۔ کثیر اَحادیث میں جھوٹی قسم کھانے کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے دو اَحادیث درج ذیل ہیں :

(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر فرمائے گا۔ ایک شخص وہ جس نے کسی بیچنے کی چیز کے متعلق یہ قسم کھائی کہ جو کچھ اس کے دام مل رہے ہیں اس سے زیادہ ملتے تھے۔ (لیکن نہیں بیچا) حالانکہ یہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے ۔دوسرا وہ شخص کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مسلمان مرد کا مال لے لے اور تیسرا وہ شخص جس نے بچے ہوئے پانی کو روکا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا آج میں اپنا فضل تجھ سے روکتا ہوں جس طرح تونے بچے ہوئے پانی کو روکا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔(بخاری، کتاب المساقاۃ، باب من رأی انّ صاحب الحوض والقربۃ احقّ بمائہ، ۲ / ۱۰۰، الحدیث: ۲۳۶۹)

(2)…حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظر کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے تکلیف دِہ عذاب ہوگا۔ حضرت ابو ذررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، وہ نقصان اور خسارہ اٹھانے والے ہیں ، یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،  وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا ’’کپڑا لٹکانے والا ،دے کر احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ساتھ اپنا سودا چلا دینے والا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم اسبال الازار والمنّ بالعطیۃ۔۔۔ الخ، ص۶۷، الحدیث: (۱۰۶))

عَفَا اللّٰهُ عَنْكَۚ-لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ(۴۳)

ترجمۂکنزالایمان: اللہ تمہیں معاف کرے تم نے انہیں کیوں اِذن دے دیا جب تک نہ کھلے تھے  تم پر سچے اور ظاہر نہ ہوئے تھے جھوٹے ۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ تمہیں معاف کرے ،آپ نے انہیں اجازت کیوں دیدی؟ جب تک آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے اور آپ جھوٹوں کو نہ جان لیتے۔

{عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ:اللہ تمہیں معاف کرے ۔} عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ سے کلام کی ابتداء کرنا اور خطاب شروع فرمانا مخاطب کی تعظیم وتَوقِیر میں مُبالغہ کے لئے ہے اور زبانِ عرب میں یہ عرف شائع ہے کہ مخاطب کی تعظیم کے موقع پر ایسے کلمے استعمال کئے جاتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۲۴۶)

            حضرت فقیہ ا بو لیث سمر قندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ بعض علماء سے نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عافیت سے رکھے آپ نے انہیں اجازت کیوں دی اور اگر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کلام اس طرح شروع ہوتا کہ آپ نے ان کو اجازت کیوں دی تو اس کا اندیشہ تھا کہ اس کلام کی ہیبت سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا دل شَق ہو جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ا پنی رحمت سے حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پہلے ہی عَفْو کی خبر دے دی تاکہ آپ کا دل مطمئن اور پُرسکون رہے۔ اس کے بعد فرمایا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں جہاد میں شامل نہ ہونے کی اجازت کیوں دی حتّٰی کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پتا چل جاتا کہ اپنے عذر میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔(تفسیر سمرقندی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۳، ۲ / ۵۳)

لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ(۴۴)

ترجمۂکنزالایمان: اور وہ جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں  تم سے چھٹی نہ مانگیں گے اس سے کہ اپنے مال اور جان سے جہاد کریں اور اللہ خوب جا نتا ہے پرہیزگا روں کو۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو لوگ اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے سے بچنے کی چھٹی نہیں مانگیں گے اور اللہ پرہیزگا روں کوخوب جا نتا ہے ۔

{یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ:اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔}مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر ایمان رکھنے میں رسولُ اللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)پر ایمان رکھنا بھی داخل ہے کیونکہ ایمان سے مراد ایمانِ صحیح ہے، وہ وہی ہے جو رسول کے ساتھ ہو ورنہ اللہ  (عَزَّوَجَلَّ)کو منافق بھی مانتے تھے۔( نورالعرفان،التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ص۳۰۹ )  

حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جذبۂ شہادت:

            اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے موقع پر معذرتیں کرنا منافقت کی علامت تھی جبکہ کامل ایمان والے ہر کڑی آزمائش میں پورے اترتے ہیں اور جہاد جیسے سخت موقع پر بھی دل و جان اور مال کے ساتھ حاضر ہونے کو تیار رہتے ہیں۔ اس بارے میں ایک واقعہ تو چند آیات کے بعد آرہا ہے اور ایک واقعہ غزوۂ اُحد کے موقع پر جہاد کی رغبت کا بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرو بن جموح انصاری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ لنگڑے تھے، یہ گھرسے نکلتے وقت یہ دعا مانگ کر چلے تھے کہ یااللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اپنے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا، ان کے چار بیٹے بھی جہاد میں مصروف تھے۔ لوگوں نے ان کولنگڑا ہونے کی بنا پر جنگ کرنے سے روک دیا تو یہ حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عرض کرنے لگے کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے جنگ میں لڑنے کی اجازت عطا فرمائیے، میری تمنا ہے کہ میں بھی لنگڑاتا ہوا باغِ بہشت میں خراماں خراماں چلا جاؤں۔ ان کی بے قراری اور گریہ و زاری سے رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا قلبِ مبارک متأثِّرہو گیا اور آپ نے ان کو جنگ کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور اپنے ایک فرزند کو ساتھ لے کر کافروں کے ہجوم میں گھس گئے۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا کہ وہ میدانِ جنگ میں یہ کہتے ہوئے چل رہے تھے کہ’’ خدا کی قسم! میں جنت کا مشتاق ہوں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کو سہارا دیتے ہوئے ان کا بیٹا بھی انتہائی شجاعت کے ساتھ لڑ رہا تھا یہاں تک کہ یہ دونوں شہادت سے سرفراز ہو کر باغِ بہشت میں پہنچ گئے۔ لڑائی ختم ہو جانے کے بعد حضرت عمر و بن جموح  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ محترمہ میدانِ جنگ میں پہنچیں اور ایک اونٹ پر ان کی اور اپنے بھائی اور بیٹے کی لاش رکھ کر دفن کے لئے مدینہ منورہ لانی چاہی تو ہزاروں کوششوں کے باوجود کسی طرح بھی وہ اونٹ ایک قدم بھی مدینہ کی طرف نہیں چلا بلکہ وہ میدانِ جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ ہند نے جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ’’یہ بتاؤ! کیا عمرو بن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا؟ ہند نے کہا کہ جی ہاں !وہ یہ دعا کرکے گھر سے نکلے تھے کہ ’’یا اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے میدانِ جنگ سے اہل و عیال میں آنا نصیب نہ کرنا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چل رہا ہے۔ (مدارج النبوہ، قسم سوم، باب سوم ذکر سال سوم از ہجرت۔۔۔ الخ، ۲ / ۱۲۴)

اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ(۴۵)

ترجمۂکنزالایمان: تم سے یہ چھٹی وہی مانگتے ہیں جو اللہاور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں  تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں۔

ترجمۂکنزُالعِرفان: آپ سے چھٹی وہی لوگ مانگتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں تو وہ اپنے شک میں حیران، پریشان ہیں۔

{اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ:آپ سے چھٹی وہی لوگ مانگتے ہیں۔}یعنی جہاد کے موقعہ پر بہانہ بنا کر رہ جانے کی اجازت مانگنا منافقین کی علامت ہے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۴۴۲)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر ایمان نہ لانا اللہ تعالٰی کا انکار ہے:

             اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لانا درحقیقت رب تعالیٰ کا انکار ہے کیونکہ منافق اللہ عَزَّوَجَلَّ کو تو مانتے تھے، حضور ِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منکر تھے مگر ارشاد ہوا کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔

{وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ:اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔} اس طرح کہ اسلام کی حقانیت اور کفر کے بطلان پر انہیں یقین نہیں اور نہ اس کے عکس کا یقین ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو بولے کہ شاید اسلام برحق ہے اور اگر کفار کو فتح ہو گئی تو بولے کہ شاید یہ لو گ بر حق ہیں ورنہ انہیں فتح کیوں ہوتی۔ یا یہ مطلب ہے کہ انہیں اللہ رسول کے وعدوں پر یقین نہیں اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خبروں پر اطمینان نہیں۔ ایمان تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہر خبر میں ان کی تصدیق کی جائے۔ تردد تصدیق کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتا ہے۔



[1] حاشیہ :زکوٰۃ سے متعلق احکام و مسائل کی معلومات حاصل کرنے کیلئے کتاب’’فیضانِ زکوٰۃ‘‘ اور’’ فتاویٰ اہلسنت، زکوٰۃ کے احکام‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔