وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ(۴۶)
ترجمۂکنزالایمان: انہیں نکلنا منظور ہوتا تو اس کا سامان کرتے مگر خدا ہی کو ان کا اٹھنا ناپسند ہوا تو ان میں کاہلی بھردی اور فرمایا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے کچھ تو سامان تیار کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ہی ناپسندہے تو اس نے ان میں سستی پیدا کردی اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
{وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ:اور اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا۔} یعنی منافق ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم غزوۂ تبوک میں جانے کو تیار تھے لیکن اچانک بیماری، لاچاری یا کسی مجبوری کی وجہ سے رک گئے ۔یہ جھوٹے ہیں کیونکہ انہوں نے سفرِ جہاد کی پہلے سے کوئی تیاری ہی نہیں کی، اگر ان کا جہاد میں جانے کا ارادہ ہوتا تو کچھ تیاری تو کرتے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کا علم تو یقینا قطعی ہے لیکن ہمارے لئے اس میں ایک نکتہ ہے کہ بہت سی چیزوں کا اعتبار قرائن سے بھی کیا جاتا ہے جیسے یہاں منافقین کا جہاد کیلئے کوئی تیاری نہ کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ انہوں نے جہاد کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا۔
{وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ:اور کہہ دیا گیا: تم بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔} اس کا معنی یہ ہے کہ جب منافقین نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جہاد میں شریک نہ ہونے کی اجازت طلب کی تو ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھے رہنے والوں یعنی عورتوں ،بچوں ، مریضوں اور معذوروں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۶، ۲ / ۲۴۷)
لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَاۡاَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ یَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَةَۚ-وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ(۴۷)
ترجمۂکنزالایمان: اگر وہ تم میں نکلتے تو ان سے سوا نقصان کے تمہیں کچھ نہ بڑھتا اور تم میں فتنہ ڈالنے کو تمہارے بیچ میں غرابیں دوڑاتے اور تم میں ان کے جاسوس موجود ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو یہ تمہارے نقصان میں اضافہ ہی کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کرنے کے لئے دوڑتے پھرتے اور تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
{لَوْ خَرَجُوْا فِیْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا:اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو یہ تمہارے نقصان میں اضافہ ہی کرتے۔}یعنی یہ منافقین اگر تمہارے ساتھ جنگ کے لئے نکلتے تو شر اور فساد ہی پھیلا تے اس طرح کہ تمہیں کافروں سے ڈراتے، آپس میں لڑاتے، تمہارے سامنے کافروں کی تعریفیں اور مسلمانوں کی برائیاں کرتے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۲۴۷)
اس سے معلوم ہوا کہ منافق ظاہری نیکی بھی کئی مرتبہ بری نیت سے کرتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو کافروں سے ڈرانا اور آپس میں لڑانا منافقوں کا کام ہے۔ ہمارے دور میں بھی ایسے قَلمکار حضرات کی کمی نہیں جو ہر وقت غیر مسلم حکومتوں کی طاقت، اسلحہ، فوج اور وسائل کا تذکرہ کرکے مسلمانوں کو ڈرانے میں لگے رہتے ہیں۔
{وَ فِیْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ:اور تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں۔} اس آیت کاایک معنی یہ ہے کہ تمہارے اندر ان کے جاسوس موجود ہیں جوتمہاری باتیں اور تمہارے راز کفار تک پہنچا تے ہیں اور ایک معنی یہ ہے کہ تم میں سے بعض ایسے ضعیف الاعتقاد ہیں کہ جب منافقین مختلف قسم کے شُبہات ظاہر کرتے ہیں تو وہ انہیں قبول کر لیتے ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۷، ۲ / ۲۴۷)
مسلمانوں کی تاریخ سے واقف شخص پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ابتدائِ اسلام سے لے کر آج تک کفار کسی میدان میں بھی اپنی عددی برتری اور اپنے وقت کے جدید ترین ہتھیاروں کی فراوانی کے بل بوتے پر مسلمانوں پر غالب نہیں آئے بلکہ وہ ظاہری طور پرمسلمان اور باطنی طور پر منافق حضرات کی کوششوں اور کاوشوں کی بدولت مسلمانوں پر غالب ہوئے، ان حضرات نے مال و دولت اور سلطنت و حکومت کے لالچ میں اپنے اسلامی لبادے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کفار کے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے راہیں ہموار کیں ، اپنے منافقانہ طرزِ عمل سے مسلمانوں میں سرکشی و بغاوت کا بیج بویا، مسلمانوں کے اہم ترین راز کفار تک پہنچائے اور انہیں مسلمانوں کی کمزوریوں سے آگاہ کیا اور ان کی محنتوں کا نتیجہ آج سب کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَّبُوْا لَكَ الْاُمُوْرَ حَتّٰى جَآءَ الْحَقُّ وَ ظَهَرَاَمْرُ اللّٰهِ وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(۴۸)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ چاہا تھا اور اے محبوب تمہارے لیے تدبیریں الٹی پلٹیں یہاں تک کہ حق آیا اور اللہ کا حکم ظاہر ہوا اور انہیں ناگوار تھا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ و فساد چاہا تھا اور اے حبیب! انہوں نے پہلے بھی تمہارے لئے الٹی تدبیریں کی ہیں حتّٰی کہ حق آگیا اور اللہ کا دین غالب ہوگیا اگرچہ یہ ناپسند کرنے والے تھے۔
{لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ:بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ و فساد چاہا تھا۔} منافقین کے جنگ میں شریک نہ ہونے پراہلِ ایمان اور اپنے حبیبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ منافقین غزوۂ تبوک سے پہلے ہی آپ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو دین سے روکنے، کفر کی طرف لوٹا دینے اور لوگوں کوآپ کا مخالف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن اُبی سلول منافق نے جنگِ اُحد کے دن کیا کہ مسلمانوں میں اِنتشار پھیلانے کیلئے اپنے گروہ کو لے کر واپس ہوگیا۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، انہوں نے پہلے بھی آپ کے لئے الٹی تدبیریں کی ہیں اور انہوں نے آپ کا کام بگاڑنے اور دین میں فساد ڈالنے کے لئے بہت حیلے سازیاں کی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی طرف سے تائید و نصرت آگئی اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہوگیا اگرچہ یہ لوگ اسے ناپسند کرنے والے تھے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۸، ۲ / ۲۴۷-۲۴۸)
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْؕ-اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْاؕ-وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۴۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان میں کوئی تم سے یوں عرض کرتا ہے کہ مجھے رخصت دیجیے اور فتنہ میں نہ ڈالئے سن لو وہ فتنہ ہی میں پڑے اور بیشک جہنم گھیرے ہوئے ہے کافروں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان میں کوئی آپ سے یوں کہتا ہے کہ مجھے رخصت دیدیں اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیں۔ سن لو! یہ فتنے ہی میں پڑے ہوئے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ:اور ان میں کوئی یوں کہتا ہے۔} شانِ نزول: یہ آیت جد بن قیس منافق کے بارے میں نازل ہوئی، جب نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غزوئہ تبوک کے لئے تیاری فرمائی تو جد بن قیس نے کہا :’’یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بڑا شیدائی ہوں ، مجھے اندیشہ ہے کہ میں رومی عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہ ہوسکے گا اس لئے آپ مجھے یہیں ٹھہر جانے کی اجازت دیجئے اور ان عورتوں کے فتنہ میں نہ ڈالئے ، میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اپنے مال سے مدد کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ یہ اس کا حیلہ تھا اور اس میں سوائے نفاق کے اور کوئی سبب نہ تھا۔ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور اسے اجازت دے دی اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۲ / ۲۴۸)
{اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا:سن لو! یہ فتنے ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔} اس کا معنی یہ ہے کہ منافقین فتنے میں پڑ جانے کے اندیشے کی وجہ سے جہاد سے اعراض کر رہے ہیں جیسا کہ اوپر ایک منافق کا قول گزرا ہے تو فرمایا گیا کہ یہ تواِس موجودہ وقت میں بھی فتنے میں ہی مبتلا ہیں کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنا اور تکلیف قبول کرنے سے اِعراض کرنا تو سب سے بڑا فتنہ ہے۔ اور اس کے ساتھ اس فتنے میں بھی مبتلا ہیں کہ منافقین مسلمانوں کی مخالفت پر قائم ہیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۴۹، ۶ / ۶۵)
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْۚ-وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ(۵۰)
ترجمۂکنزالایمان: اگر تمہیں بھلائی پہونچے تو انہیں برا لگے اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہونچے تو کہیں ہم نے اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا اور خوشیاں مناتے پھر جائیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو انہیں برالگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں : ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا اور خوشیاں مناتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں۔
{اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ:اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر تمہیں بھلائی پہنچے اور تم دشمن پر فتح یاب ہوجاؤ اور غنیمت تمہارے ہاتھ آئے تو منافقین غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے اور کسی طرح کی شدت کا سامنا ہو تو منافقین یہ کہتے ہیں کہ ہم نے چالاکی کے ذریعے جہاد میں نہ جاکر اس مصیبت سے خود کو بچالیا تو گویا ہم نے پہلے ہی اپنا احتیاطی معاملہ اختیار کرلیا تھا پھر مزید ا س بات پر وہ خوشیاں مناتے ہیں کہ ہم جہاد کی مشقت و مصیبت سے محفوظ رہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۰، ۲ / ۲۴۸)
اس آیت سے اشارۃً معلوم ہوا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مصیبت پر خوش ہونا کافروں کا کام ہے، اسی طرح مسلمانوں کی خوشی پر غم کرنا منافقوں کی نشانی ہے۔
قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱)
ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
{ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا:تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان لوگوں سے فرما دیں جو آپ کو مصیبت و تکلیف پہنچنے پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اور ہم پر مقدر فرما دیا اور ا س نے اسے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا کیونکہ قیامت تک ہونے والا ہر اچھا برا کام لکھ کر قلم خشک ہو چکا تو اب کوئی شخص ا س بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنی جان سے ا س مصیبت کو دور کر دے جو اس پر نازل ہونی ہے اور نہ ہی کوئی ا س بات پر قادر ہے کہ وہ خود کوایسا فائدہ پہنچا سکے جو اس کے مقدر میں نہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حافظ و ناصر ہے اور وہ ہماری زندگی اور موت ہر حال میں ہماری جانوں سے زیادہ ہمارے قریب ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۲ / ۲۴۸)
یہاں تقدیر کا مسئلہ بیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں تقدیر سے متعلق دو احادیث اور دو آثار ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ
حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اگر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے تمام باشندوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دے سکتا ہے اور یہ ا س کا کوئی ظلم نہ ہو گا (کیونکہ وہ سب کا مالک ہے اور مالک کو اپنی ملکیت میں تَصَرُّف کا حق حاصل ہے) اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا یا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ ا س وقت تک ہر گز قبول نہ ہوگا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ، دیکھو! جو بات تم پر آنے والی ہے وہ جا نہیں سکتی اور جو نہیں آنے والی وہ آ نہیں سکتی، اگر اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہوئے تمہیں موت آ گئی تو سمجھ لو کہ جہنم میں جاؤ گے۔ (ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۵۹، الحدیث: ۷۷)
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اپنے ایمان کی حقیقت تک اس وقت پہنچے گا جب وہ اس بات پر یقین کرلے کہ جو مصیبت اسے پہنچی وہ ا س سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند امام احمد، مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۴۱۷، الحدیث: ۲۷۵۶۰)
حضرت مسلم بن یسار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تقدیر اور اس کے بارے میں کلام کرنا یہ دو ایسی وسیع وادیاں ہیں کہ لوگ ان میں ہلاک تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتے لہٰذا تم اس شخص کی طرح عمل کرو جسے یہ معلوم ہو کہ اس کا عمل ہی اسے نجات دے گا اور اس شخص کی طرح توکل کرو جسے یہ علم ہو کہ اسے وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۱۸۱۱-۱۸۱۲)
حضرت مطرف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ چھت پہ چڑھ کے خود کو گرا دے اور کہنے لگے کہ میری تقدیر میں ہی یوں لکھا تھا بلکہ ہمیں ڈر اور خوف ہونا چاہئے اور جب کوئی مصیبت پہنچ جائے تو یہ ذہن بنانا چاہئے کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔ (در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۱۶)
یاد رہے کہ تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے اور اس مسئلے میں الجھا کر شیطان لوگوں کا ایمان برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تقدیر کے بارے میں بحث اور غورو فکر کرنے سے بچے ۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آ سکتے اور ان میں زیادہ غورو فکر کرنا ہلاکت کا سبب ہے، صدیق و فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاا س مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں۔۔۔! اتنا سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اور ا س کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے، برے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اَسباب مہیا کر دئیے ہیں کہ بندہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مُؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے۔ (بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۸-۱۹، ملخصاً)
{وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ:اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔} اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ منافقین دنیوی اسباب ،جلد ملنے والی اور فانی لذتوں پر بھروسہ کرتے ہیں ا س لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کریں اور ا س کی رضا پر راضی رہیں۔
انسان کی زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، کبھی دکھ کبھی سکھ، کبھی رنج و غم اور کبھی راحت و آرام، کبھی عیش و عشرت سے بھرپور لمحات اور کبھی مصائب و آلام سے معمور گھڑیاں الغرض طرح طرح کے حالات کا سامنا ہر فرد ِبشر کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے، دینِ اسلام کا پیروکار ہونے کے ناطے ہر مسلمان کو چاہئے کہ غمی خوشی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی اور صابر و شاکر رہے، ترغیب کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی عظمت و فضیلت پر مشتمل چند آیات اور روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ(۲۲) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ(۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‘‘(الرعد:۲۲-۲۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔ وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالحین ہوں گے (وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے) اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس (یہ کہتے ہوئے) آئیں گے۔تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخرت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلائ، ۴ / ۳۷۴، الحدیث: ۴۰۳۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے ۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴، الحدیث: ۷۳۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! (دنیا میں ) ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹-باب، ۴ / ۱۸۰، الحدیث: ۲۴۱۰)
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامسے فرمایا، میں روئے زمین کے سب سے بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جس کے ہاتھ پاؤں جذام کی وجہ سے گل کٹ کر جدا ہو چکے تھے اور وہ زبان سے کہہ رہا تھا، ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو نے جب تک چاہا ان اَعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا لے لیا اور میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی، اے میرے پیدا کرنے والے! میرا تو مقصود بس توہی تو ہے۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، اے جبرئیل! میں نے آپ کونمازی روزہ دار (قسم کا کوئی) شخص دکھانے کاکہا تھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا، اس مصیبت میں مبتلا ہونے سے قبل یہ ایسا ہی تھا، اب مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اشارہ کیا اوراس کی آنکھیں نکل پڑیں ! مگر عابد نے زبان سے وہی بات کہی ’’یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ ،جب تک تو نے چاہا ان آنکھوں سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا انھیں واپس لے لیا۔ اے خالق! عَزَّوَجَلَّ ،میری امید گاہ صرف اپنی ذات کو رکھا، میرا تومقصود بس توہی توہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عابد سے فرمایا، آؤ ہم تم باہم ملکر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر آنکھیں اور ہاتھ پاؤں لوٹا دے اور تم پہلے ہی کی طرح عبادت کرنے لگو۔ عابد نے کہا، ہرگز نہیں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا ، آخر کیوں نہیں ؟ عابد نے جواب دیا ’’ جب میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اسی میں ہے تو مجھے صحت نہیں چاہئے ۔ حضرت یونسعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا، واقعی میں نے کسی اور کو اس سے بڑھ کر عابد نہیں دیکھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامنے کہا، یہ وہ راستہ ہے کہ رضا ئے الٰہی عَزَّوَجَلَّتک رسائی کیلئے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں۔( روض الریاحین، الحکایۃ السادسۃ والثلاثون بعد الثلاث مائۃ، ص۲۸۱)
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِؕ-وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ یُّصِیْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖۤ اَوْ بِاَیْدِیْنَا ﳲ فَتَرَبَّصُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ(۵۲)
ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ تم ہم پر کس چیز کا انتظار کرتے ہو مگر دو خوبیوں میں سے ایک کا اور ہم تم پر اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تم پر عذاب ڈالے اپنے پاس سے یا ہمارے ہاتھوں تو اب راہ دیکھو ہم بھی تمہارے ساتھ راہ دیکھ رہے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تم فرماؤ، تم ہمارے اوپر دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہو اور ہم تم پر انتظار کررہے ہیں کہ اللہ تمہیں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے عذاب دے توتم انتظار کرو اور ہم (بھی) منتظر ہیں۔
{اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ:دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا۔} اس آیت میں مسلمانوں کو پہنچنے والی مصیبتوں پر منافقوں کو ہونے والی خوشی کا ایک اور جواب دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقوں سے فرما دیں کہ اے منافقو! تم ہمارے اوپر دو اچھی خوبیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہو کہ ہمیں یا تو فتح و غنیمت ملے گی یا شہادت و مغفرت کیونکہ مسلمان جب جہاد میں جاتا ہے تو وہ اگر غالب ہو جب تو فتح و غنیمت او راجرِ عظیم پاتا ہے اور اگر راہِ خدا میں مارا جائے تو اس کو شہادت حاصل ہوتی ہے جو اس کی اعلیٰ مراد ہے اور ہم تم پر دو برائیوں میں سے ایک کا انتظار کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سابقہ اُمتوں کی طرح تمہیں بھی اپنی طرف سے عذاب دے کر ہلاک کر دے یا ہمیں تم پر کامیابی و غلبہ عطا کر کے ہمارے ہاتھوں سے تمہیں عذاب دے اور جب یہ بات ہے توتم ہمارے انجام کا انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے انجام کے منتظر ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۲ / ۲۴۸، روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۲، ۳ / ۴۴۷، ملتقطاً)
اَحادیث میں راہِ خدا میں جہاد کرنے والے مسلمان کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے دو احادیث درج ذیل ہیں:
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے کہ جو میری راہ میں نکلے اور مجھ پر ایمان یا میرے رسولوں کی تصدیق ہی وہ سبب ہے جس نے اسے گھر سے نکالا ہو تو میں اسے غنیمت کے ساتھ واپس بھیجوں گا یا جنت میں داخل کر دوں گا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان، ۱ / ۲۵، الحدیث: ۳۶)
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں نکلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا ضامن ہو جاتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ) جو شخص میرے راستے میں جہاد کے لئے اور صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے نکلتا ہو تو میں اس بات کا ضامن ہوں کہ (اگر وہ شہید ہوگیا تو) اس کو جنت میں داخل کروں گا یا اس کو اجر اور غنیمت کے ساتھ اس کے گھر لوٹاؤں گا۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْؕ-اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ(۵۳)
ترجمۂکنزالایمان: تم فرماؤ کہ دل سے خرچ کرو یا ناگواری سے تم سے ہر گز قبول نہ ہوگا بیشک تم بے حکم لوگ ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:تم فرماؤ کہ تم خوشدلی سے خرچ کرو یا ناگواری سے (بہرصورت) تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ بیشک تم نافرمان قوم ہو۔
{قُلْ:تم فرماؤ۔}شانِ نزول: یہ آیت جد بن قیس منافق کے جواب میں نازل ہوئی جس نے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرنے کے ساتھ یہ کہا تھا کہ میں اپنے مال سے مدد کروں گا، اس پر اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اپنے حبیب سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا کہ اس منافق اور اس جیسے دوسرے منافقین سے فرما دیں : تم خوشی سے دو یا ناخوشی سے ،تمہارا مال قبول نہ کیا جائے گا ، یعنی رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کو نہ لیں گے کیونکہ یہ دینا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے نہیں ہے۔ یہ آیت اگرچہ خاص منافقوں کے بارے میں ہے لیکن اس کا حکم عام ہے چنانچہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت سے خرچ نہ کرے بلکہ ریا کاری اور نام و نمود کی وجہ سے خرچ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۳، ۲ / ۲۴۹)
لوگوں کو دکھانے کے لئے مال خرچ کرنے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ‘‘ (بقرہ:۲۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اوراللہ اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی ہے تواس پر زورداربارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے ہوئے اعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کوہدایت نہیں دیتا۔
وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(۵۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور وہ جو خرچ کرتے ہیں اس کا قبول ہونا بند نہ ہوا مگر اسی لیے کہ وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور نماز کو نہیں آتے مگر جی ہارے اور خرچ نہیں کرتے مگر ناگواری سے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان کے صدقات قبول کئے جانے سے یہ بات مانع ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نماز کی طرف سستی و کاہلی سے ہی آتے ہیں اور ناگواری سے ہی مال خرچ کرتے ہیں۔
{وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى:اور وہ نماز کی طرف سستی و کاہلی سے آتے ہیں۔} منافقین کا راہِ خدا میں خرچ کرنا مردود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور وہ سستی و کاہلی کے ساتھ نماز پڑھنے آتے ہیں کیونکہ وہ نہ تونماز پڑھنے پر ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے چھوڑ دینے پر عذاب کا خوف رکھتے ہیں یونہی جو کچھ وہ خیرات کرتے ہیں وہ بھی ناگواری سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی وہ ثواب کے قائل نہیں ، صرف اپنے نفاق کو چھپانے کے لئے خیرات کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۴، ۲ / ۲۴۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سستی سے نماز پڑھنا منافقوں کا طریقہ ہے جبکہ مومن کیلئے تو نماز معراج ہے اور امامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے بلکہ بزرگانِ دین کی نماز کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ قبر میں بھی نماز پڑھنے کے متمنی تھے، جیساکہ حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لحد میں اتارنے والے ایک شخص کا بیان ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،میں نے اور میرے ساتھ ایک شخص حمید یا ان کے علاوہ کسی اور شخص نے حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لحد میں اتارا، جب ہم نے مٹی برابر کر دی تو ایک جگہ سے تھوڑی مٹی ان کی قبر میں گر گئی تو اچانک میں نے دیکھا کہ حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ قبر میں نماز ادا فرما رہے ہیں ، میں نے اپنے ساتھ والے شخص سے پوچھا کہ کیا آپ نے دیکھا؟ اس نے مجھے خاموش رہنے کا کہہ دیا، پھر جب ہم حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان کی بیٹی کے پاس آ کر ان کے عمل کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے پوچھا؟ آپ لوگوں نے کیا دیکھا؟ ہم نے جواب دیا: وہ قبر میں نماز ادا فرما رہے تھے۔ ان کی بیٹی نے کہا ’’ پچاس سال سے حضرت ثابت بنانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ساری سا ری رات نماز ادا فرماتے، جب سحری کا وقت ہوتا تو یہ دعا فرماتے ’’اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو اپنی مخلوق میں سے کسی کو قبر میں نماز کی توفیق عطا کرے تو مجھے بھی عطا فرمانا ‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمالی ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، طبقۃ التابعین، الطبقۃ الاولی، طبقۃ اہل المدینۃ، ثابت البنانی، ۲ / ۳۶۲، روایت نمبر: ۲۵۶۸)
اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے سے د ل تنگ ہونا منافقوں کا طریقہ ہے۔
لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو خوش دلی سے خرچ کیا جائے۔
فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۵۵)
ترجمۂکنزالایمان: تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد کا تعجب نہ آئے اللہ یہی چاہتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ان چیزوں سے ان پر وبال ڈالے اور کفر ہی پر ان کا دم نکل جائے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں ،اللہ یہی چاہتا ہے کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے اور کفر کی حالت میں اِن کی روح نکلے۔
{فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ:تو تمہیں ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں۔} اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے لیکن اس سے مراد مسلمان ہیں اور آیت کا معنی یہ ہے کہ تم ان منافقوں کی مالداری اور اولاد پر یہ سوچ کر حیرت نہ کرو کہ جب یہ مردود ہیں تو انہیں اتنا مال کیوں ملا ۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ ان چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں ان سے راحت و آرام دور کردے کہ محنت سے جمع کریں ، مشقت سے اس کی حفاظت کریں اور حسرت چھوڑ کر مریں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۲ / ۲۴۹)
{لِیُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا:کہ اِن چیزوں کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اِن سے راحت و آرام دور کردے۔} منافقوں پر مال کے ذریعے دُنْیَوی زندگی میں ڈالے جانے والے وبال کا کچھ ذکر اوپر ہوا ،اس کا مزید وبال یہ پڑے گا کہ مال خرچ کرنے کے معاملے میں ان کا دل تنگ ہو گا اور وہ (راہِ خدا) میں مال خرچ کرنا پسند نہ کریں گے جبکہ اولاد کے ذریعے ان پر دنیا میں یہ وبال آئے گا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں طرح طرح کی مشقتوں میں پڑیں گے، ان کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کا انتظام کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کریں گے اور وہ مر جائیں تو یہ ان کی جدائی پر انتہائی رنج وغم میں مبتلا ہوں گے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۵، ۳ / ۴۴۹)اور جب یہ مریں گے تو ان کی روح کفر کی حالت میں نکلے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں شدید عذاب دے گا۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مال اور اولاد کی وجہ سے جس محنت و مشقت ،تکلیف اور رنج و غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں کافر اور مسلمان دونوں شریک ہیں توپھر دونوں کی محنت و مشقت میں فرق کیا ہے کہ ایک جیسی محنت و مشقت ایک کے حق میں عذاب ہو اور دوسرے کے حق میں نہ ہو ؟اس کا جواب یہ ہے کہ مال اور اولاد کے معاملے میں اگرچہ مسلمان اور کافر دونوں کو ایک طرح کی محنت و مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مسلمان چونکہ ان مشقتوں پر صبر کرتا ہے اور اس پر آخرت میں اسے ثواب ملے گا اس لئے یہ اُس کے حق میں عذاب نہیں جبکہ کافر کو چونکہ آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا اس لئے اُس کے حق میں یہ مشقتیں عذاب ہیں۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ مسلمانوں کو کافروں کی مالی اور افرادی قوت پر تعجب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا دُنْیَوی عذاب ہے ۔ نیزکافروں کے مال ودولت کی کثرت سے دھوکہ نہ کھانے کا حکم اور بھی کئی جگہوں پر دیا گیا ہے ،جیسے ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
’’لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ(۱۹۶) مَتَاعٌ قَلِیْلٌ- ثُمَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ ‘‘(اٰل عمران:۱۹۶،۱۹۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے مخاطب! کافروں کا شہروں میں چلنا پھرناہرگز تجھے دھوکا نہ دے۔(یہ تو زندگی گزارنے کا) تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا: ’’مَا یُجَادِلُ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِی الْبِلَادِ‘‘(مؤمن:۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں تو اے سننے والے! ان کا شہروں میں (خوشحالی سے) چلنا پھرنا تجھے دھوکا نہ دے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو مال اور اولاد اللہ عَزَّوَجَلَّ سے غافل کرے وہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اپنے مال کی کثرت اور اولاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبات و اطاعت سے انتہائی غافل ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ مالدار کی جان بڑی مصیبت سے نکلتی ہے اور اسے دگنی تکلیف ہوتی ہے ایک تو دنیا سے جانے اور دوسری مال چھوڑنے کی جبکہ مومن کی جان آسانی سے نکلتی ہے کہ وہ اسے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ملنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْؕ-وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ(۵۶)لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَ هُمْ یَجْمَحُوْنَ(۵۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں اور تم میں سے ہیں نہیں ہاں وہ لوگ ڈرتے ہیں۔ اگر پائیں کوئی پناہ یا غار یا سما جانے کی جگہ تو رسیاں تڑاتے ادھر پھر جائیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (منافق) اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا کہیں سما جانے کی جگہ مل جاتی تو جلدی کرتے ہوئے ادھر پھر جائیں گے۔
{وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اور اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں۔} منافقین اس پر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہارے دین و ملت پر ہیں اور مسلمان ہیں لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّنے فرما دیا کہ وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ تمہیں دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ان کا نفاق ظاہر ہوجائے تو مسلمان ان کے ساتھ وہی معاملہ کریں گے جو مشرکین کے ساتھ کرتے ہیں اس لئے وہ براہ ِتَقِیَّہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ۲ / ۲۵۰، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۶، ص۴۴۰، ملتقطاً)
اس آیت سے چند مسئلے معلوم ہوئے:
(1)… تقیہ کرنا منافقوں کا کام ہے، مومن کا کام نہیں۔
(2)… جب عمل قول کے مطابق نہ ہو تو قول کا کوئی اعتبار نہیں۔ منافق قسمیں کھا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیتے تھے مگر رب تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تم مسلمانوں میں سے نہیں ہیں۔
(3)… مسلمان دو طرح کے ہیں۔ حقیقی مسلمان اور ظاہری مسلمان یعنی دنیوی احکام کے اعتبار سے مسلمان۔ منافقین قومی مسلمان تھے دینی نہ تھے اس لئے انہیں مسجدمیں نماز پڑھنے کی اجازت تھی، انہیں کفار کی طرح قتل نہ کیا گیا لیکن وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے نزدیک مومن نہ تھے۔ َمَا ہُمۡ مِّنۡکُمْکے یہ ہی معنی ہیں۔
{لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً:اگر انہیں کوئی پناہ گاہ مل جاتی۔} یعنی منافقین کا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمانوں سے انتہا درجے کے بغض کی وجہ سے حال یہ ہے کہ اگر وہ تمہارے پاس سے کسی پناہ گاہ، غار یا کہیں سما جانے کی جگہ کی طرف بھاگ جانے پر قادر ہوتے تو بہت جلد ادھر پھر جاتے کیونکہ بزدل کا کام ہی بھاگ جانا ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۷، ۲ / ۲۵۰)
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِۚ-فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ(۵۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ا ن میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں تم پراعتراض کرتا ہے تو اگر اِنہیں اُن (صدقات) میں سے کچھ دیدیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں اور اگر اِنہیں اُن میں سے کچھ نہ دیا جائے تو اس وقت ناراض ہوجاتے ہیں۔
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ:اور ان (منافقوں ) میں سے کوئی وہ ہے جو صدقات تقسیم کرنے میں تم پر اعتراض کرتا ہے۔} شانِ نزول:یہ آیت ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی اس شخص کا نام حُرْقُوْص بن زُہَیْر ہے اور یہی خوارج کی اصل وبنیاد ہے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۲ / ۲۵۰)
بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ذُوالخُوَیْصِرَہ ْ نے کہا یا رسولَ اللہ ! عدل کیجئے ۔حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تجھے خرابی ہو ،میں عدل نہ کروں گا تو عدل کون کرے گا ؟ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عر ض کی: مجھے اجازت دیجئے کہ اس (منافق) کی گردن مار دوں۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس کے اور بھی ہمراہی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے سامنے اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو حقیر دیکھو گے ، وہ قرآن پڑھیں گے اور ان کے گلوں سے نہ اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوّۃ فی الاسلام، ۲ / ۵۰۳، الحدیث: ۳۶۱۰، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب ذکر الخوارج وصفاتہم، ص۵۳۳، الحدیث: ۱۴۸(۱۰۶۴))
اس سے معلوم ہوا کہ حضوراکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے کسی فعل شریف پر اعتراض کرنا کفر ہے۔
(1)… حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مرتبہ دعا فرمائی ’’اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام میں برکت دے ۔اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمارے نجد میں۔ارشاد فرمایا :اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے شام میں برکت دے۔ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، ہم کو ہمارے یمن میں برکت دے ۔ لوگوں نے پھر عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اور ہمارے نجد میں۔ حضرت عبداللہبن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ تیسری بار میں ارشاد فرمایا ’’کہ وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطانی گروہ نکلے گا ۔ (بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبیصلی اللہ علیہ وسلم: الفتنۃ من قبل المشرق، ۴ / ۴۴۰، الحدیث: ۷۰۹۴)
(2)… حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخری زمانے میں ایک قوم نکلے گی جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی احادیث بیان کریں گے ،قرآنِ مجید کو پڑھیں گے اور وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے اسطرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے اور جب تم انہیں پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیونکہ جو( ان سے جنگ کرے گا اور) انہیں قتل کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے اجر ملے گا۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، ص۵۳۵، الحدیث: ۱۵۴(۱۰۶۶))
{فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا:تو اگر اِنہیں اُن (صدقات) میں سے کچھ دیدیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں۔} معلوم ہوا کہ دُنْیَوی نفع پر حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے راضی ہو جانا اور نفع نہ ہونے کی صورت میں ناراض ہو جانا منافق کی خاص علامت ہے، ایسا آدمی نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہیں لایا بلکہ اپنے نفس پر ایمان لایا ہے۔ اخلاص نہ ہونے کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب تک فائدہ ملتا رہے تب تک راضی، خوش ہیں اور جب فائدہ ملنا بند ہوجائے تو برائیاں بیان کرنا شروع کردی جائیں۔ آج بھی کسی آدمی کے دوسرے کے ساتھ مخلص ہونے کا یہی پیمانہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہم سے فائدہ حاصل کرتے وقت تو خوش اور راضی ہو اور تعریفیں کرے اور فائدہ ختم ہوجانے پر سلام لینا گوارا نہ کرے تو یہ مخلص نہ ہونے کی علامت ہے اور افسوس کہ فی زمانہ اسی طرح کی صورتِ حال ہے۔
وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۠(۵۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ کا رسول ہمیں اللہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (کیا اچھا ہوتا) اگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ اور اس کا رسول ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں۔
{وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ:اوراگر وہ اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں عطا فرمایا۔} ارشاد فرمایا کہ کیا اچھا ہوتا اگر تقسیم پر اعتراض کرنے والے منافق اس پر راضی ہوجاتے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں عطا فرمایا اگرچہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور وہ کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا فضل اور جتنا اس نے عطا کیا وہ کافی ہے ۔ عنقریب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں اپنے فضل سے اور زیادہ عطا فرمائیں گے ۔ بیشک ہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے فضل سے صدقہ اور اس کے علاوہ لوگوں کے اَموال سے غنی اور بے نیاز کر دے۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۳ / ۴۵۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۲۵۰)
اس سے معلوم ہوا کہ یہ کہنا جائز ہے کہ اللہرسول عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں ایمان دیا، دوزخ سے بچایا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ رسول عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیتے ہیں اور آئندہ بھی دیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ جو دیتا ہے وہ حضو ر پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے ذریعے سے دیتا ہے۔
یاد رہے کہ کسی کو نفع پہنچانے یا کسی سے نقصان دور کر دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی طرف کرنا جائز ہے، اس طرح کی نسبتیں قرآنِ پاک میں بکثرت مقامات پر مذکور ہیں
(1)…اللہ تعالیٰ نے نعمت عطا کرنے کی نسبت تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف فرمائی،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ‘‘ (احزاب:۳۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اللہ نے اسے نعمت بخشی اور اے نبی تو نے اسے نعمت بخشی۔
(2)…اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف غنی کرنے کی نسبت فرمائی، ارشاد فرمایا: ’’وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ‘‘ (توبہ:۷۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔
(3،4)…اللہ عَزَّوَجَلَّنے فرشتوں کو ہمارا محافظ اور نگہبان فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ‘‘ (الرعد :۱۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان:آدمی کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے بدل بدل کر باری باری آنے والے فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
اور ارشاد فرمایا:
’’وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً‘‘ (انعام:۶۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔
(5)…اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو ملا کر کفایت کرنے والا فرمایا
’’یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ (انفال:۶۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے نبی! اللہ تمہیں کافی ہے اور جو مسلمان تمہارے پیروکار ہیں۔
مشورہ:اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود رسالہ ’’اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاءِ‘‘(مصطفی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والاکہنے والوں کیلئے انعامات) کا مطالعہ کیجئے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۶۰)
ترجمۂکنزالایمان: زکوٰۃ تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھوڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: زکوٰۃ صرف فقیروں اور بالکل محتاجوں اور زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر کئے ہوئے لوگوں اور ان کیلئے ہے جن کے دلوں میں اسلام کی الفت ڈالی جائے اور غلام آزاد کرانے میں اور قرضداروں کیلئے اور اللہ کے راستے میں (جانے والوں کیلئے) اور مسافر کے لئے ہے۔ یہ اللہ کامقرر کیا ہوا حکم ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ:زکوٰۃ صرف ان لوگوں کے لئے ہے۔} جب منافقین نے صدقات کی تقسیم میں سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراض کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس آیت میں بیان فرما دیا کہ صدقات کے مستحق صرف یہی آٹھ قسم کے لوگ ہیں ان ہی پر صدقات صَرف کئے جائیں گے ،ان کے سوا اور کوئی مستحق نہیں نیز رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اموالِ صدقہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اور آپ کی اولاد پر صدقات حرام ہیں تو طعن کرنے والوں کو اعتراض کا کیا موقع ہے۔ اس آیت میں صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔
اس آیت میں زکوٰۃ کے مصارف بیان گئے ہیں ،ان سے متعلق چند شرعی مسائل درج ذیل ہیں
(1)… زکوٰۃ کے مستحق آٹھ قسم کے لوگ قرار دیئے گئے ہیں ان میں سے مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اِجماع کی وجہ سے ساقط ہوگئے کیونکہ جب اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا تو اب اس کی حاجت نہ رہی اور یہ اجماع حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے زمانے میں منعقد ہوا تھا۔ یہاں ایک اہم بات یاد رہے کہ مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقط کرنے میں ایسا نہیں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے قرآنِ کریم کو ہی بدل دیا کیونکہ قرآنِ مجید ایسی کتاب ہے ہی نہیں کہ مخلوق میں سے کوئی اسے تبدیل کرسکے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ا س کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے، بلکہ صحابۂ کرام کا مُؤَلَّفَۃُ الْقُلُوْبْ کے حصے کو ساقِط کرنے میں اِجماع یقینا کسی دلیل کی بنا پر تھا ، جیسا کہ علامہ کمال الدین محمد بن عبد الواحدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یقینا ان کے پاس کوئی ایسی دلیل ہو گی جس سے انہیں علم ہو گا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی وفات سے پہلے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا۔ یا، اس حکم کے آپ کی (ظاہری) حیاتِ مبارکہ تک ہونے کی قید تھی۔ یا، یہ حکم کسی علت کی وجہ سے تھا اور اب وہ علت باقی نہ رہی تھی۔ (فتح القدیر، کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لا یجوز، ۲ / ۲۰۱)
(2)…فقیر وہ ہے جس کے پاس شرعی نصاب سے کم ہو اور جب تک اس کے پاس ایک وقت کے لئے کچھ ہو اس کو سوال حلال نہیں۔ ہاں بن مانگے اگر کوئی اسے زکوٰۃ دے تو وہ لے سکتا ہے اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو اور ایسا شخص سوال بھی کرسکتا ہے۔
(3)… عامِلین وہ لوگ ہیں جن کو حاکمِ اسلام نے صدقے وصول کرنے پر مقرر کیا ہو۔
(4)… اگر عامل غنی ہو تو بھی اس کو لینا جائز ہے۔
(5)… عامل سید یا ہاشمی ہو تو وہ زکوٰۃ میں سے نہ لے۔
(6)…گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ جن غلاموں کو ان کے مالکوں نے مُکَاتَبْ کردیا ہو اور ایک مقدار مال کی مقرر کردی ہو کہ اس قدر وہ ادا کردیں تو آزاد ہیں ، وہ بھی مستحق ہیں ، ان کو آزاد کرانے کے لئے مالِ زکوٰۃ دیا جائے۔
(7)…قرضدار جو بغیر کسی گناہ کے مبتلائے قرض ہوئے ہوں اور اتنا مال نہ رکھتے ہوں جس سے قرض ادا کریں انہیں ادائے قرض میں مالِ زکوٰۃ سے مدد دی جائے۔
(8)…اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرنے سے بے سامان مجاہدین اور نادار حاجیوں پر صَرف کرنا مراد ہے۔
(9)…اِبنِ سبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کے پاس اُس وقت مال نہ ہو۔
(10)… زکوٰۃ دینے والے کو یہ بھی جائز ہے کہ وہ ان تمام اَقسام کے لوگوں کو زکوٰۃ دے اور یہ بھی جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک ہی قسم کو دے۔
(11)… زکوٰۃ انہیں لوگوں کے ساتھ خاص کی گئی لہٰذاان کے علاوہ اور دوسرے مَصرف میں خرچ نہ کی جائے گی، نہ مسجد کی تعمیر میں ،نہ مردے کے کفن میں ،نہ اس کے قرض کی ا دا ئیگی میں۔
(12)… زکوٰۃ بنی ہاشم اور غنی اور ان کے غلاموں کو نہ دی جائے اور نہ آدمی اپنی بیوی اور اولاد اور غلاموں کو دے (تفسیرات احمدیہ، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۶۶-۴۶۸، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۰، ص۴۴۱، ملتقطاً)۔[1]
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌؕ-قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْؕ- وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان میں کوئی وہ ہیں کہ ان غیب کی خبریں دینے والے کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں تم فرماؤ تمہارے بھلے کے لیے کا ن ہیں اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں اور جو تم میں مسلمان ہیں ان کے واسطے رحمت ہیں اور وہ جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں۔ تم فرماؤ: تمہاری بہتری کے لئے کان ہیں ، وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں اور تم میں جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
{وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں۔} شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سرورِ عالمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ناشائستہ باتیں کرتے تھے، ان میں سے بعضوں نے کہا کہ اگر حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر ہوگئی تو ہمارے حق میں اچھا نہ ہوگا ۔جلاس بن سوید منافق نے کہا ہم جو چاہیں کہیں ، حضورِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے مُکَرْ جائیں گے اور قسم کھالیں گے وہ تو کان ہیں ان سے جو کہہ دیا جائے سن کر مان لیتے ہیں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور ارشاد فرمایا کہ منافقوں کی جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں اور ان کی شان میں نازیبا کلمات کہتے ہیں۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دیں کہ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اگرچہ سننے والے ہیں لیکن ان کاسننا تمہارے لئے بہتر ہے۔ معنی یہ ہے کہ اگر وہ سننے والے بھی ہیں تو نیکی اور بھلائی کی بات سننے اور ماننے والے ہیں۔شر اور فساد کی بات سننے والے نہیں۔ اور ان کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں منافقوں کی بات پر یقین نہیں کرتے اور وہ تم میں سے جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جواللہ تعالیٰ کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۱، ۲ / ۲۵۵)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ایذا دینا کفر ہے کیونکہ دردناک عذاب کی وعید عموماً کفار کو ہی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر کئے جانے والے اِعتراضات کاجواب دینا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شان بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْۚ-وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ(۶۲)اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ(۶۳)
ترجمۂکنزالایمان: تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ تمہیں راضی کرلیں اور اللہ و رسول کا حق زائد تھا کہ اسے راضی کرتے اگر ایمان رکھتے تھے۔ کیا انہیں خبر نہیں کہ جو خلاف کرے اللہاور اس کے رسول کا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے گا یہی بڑی رسوائی ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے مسلمانو!) تمہارے سامنے اللہ کی قسم کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کرلیں حالانکہ اللہ اور اس کارسول اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ لوگ اسے راضی کریں ،اگر وہ ایمان والے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہی بڑی رسوائی ہے۔
{لِیُرْضُوْكُمْ:تاکہ تمہیں راضی کرلیں۔}شانِ نزول: منافقین اپنی مجلسوں میں سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اعتراضات کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کے پاس آکر اس سے مکر جاتے تھے اور قسمیں کھا کھا کراپنی بَرِیَّت ثابت کرتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مسلمانوں کو راضی کرنے کے لئے قسمیں کھانے سے زیادہ اہم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوراضی کرنا تھا اگر ایمان رکھتے تھے تو ایسی حرکتیں کیوں کیں جو خدا اور رسول عَزَّوَجَلَّو صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ناراضی کا سبب ہوں۔ آیت کے اس لفظ ’’اَنْ یُّرْضُوْهُ‘‘ میں واحد کی ضمیر اس لئے ذکر کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رضا میں کوئی فرق نہیں ، دونوں کی رضا کا ایک ہی حکم ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۲، ص۴۴۲)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عبادت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو راضی کرنے کی نیت کرنی شرک نہیں بلکہ ایمان کا کمال ہے۔نیز قرآنِ پاک میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اکٹھا ذکر کیاہے،سر دست ان میں سے 9آیات درج ذیل ہیں
(1)… ’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘(النساء:۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جواللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرے۔
(2)… ’’وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ‘‘ (النساء:۱۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جواللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔
(3)… ’’اَلَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ (المائدہ:۳۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں۔
(4)… ’’ اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ‘‘ (المائدہ:۵۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان:تمہارے دوست صرف اللہاور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں۔
(5)… ’’ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ‘‘ (احزاب:۵۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پردنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرما دی ہے۔
(6)… ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ‘‘ (حجرات:۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔
(7)… ’’ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ‘‘ (حشر:۴)
ترجمۂکنزُالعِرفان:یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔
(8)… ’’وَ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘ (حشر:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، وہی سچے ہیں۔
(9)… ’’وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ‘‘(منافقون:۸)
ترجمۂکنزُالعِرفان:عزت تو اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے۔
ذکرِ خدا جو اُن سے جدا چاہو نجدیو! واللہ ذکرِ حق نہیں کنجی سقر کی ہے
یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْؕ-قُلِ اسْتَهْزِءُوْاۚ-اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِ جٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ(۶۴)
ترجمۂکنزالایمان: منافق ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورۃ ایسی اترے جو ان کے دلوں کی چھپی جتا دے تم فرماؤ ہنسے جاؤ اللہ کو ضرور ظاہر کرنا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: منافقین اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایسی سورت نازل کردی جائے جو ان کے دلوں کی چھپی باتیں بتادے۔ تم فرماؤ: مذاق اڑالو، بیشک اللہ اس چیز کو ظاہر کرنے والاہے جس سے تم ڈرتے ہو۔
{تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ:جو ان کے دلوں کی چھپی باتیں بتادے۔} دلوں کی چھپی چیز ان کا نفاق ہے اور وہ بغض و عداوت جو وہ مسلمانوں کے ساتھ رکھتے تھے اور اس کو چھپایا کرتے تھے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات دیکھنے اور آپ کی غیبی خبریں سننے اور ان کو واقع کے مطابق پانے کے بعد منافقوں کو اندیشہ ہوگیا کہ کہیں اللہ تعالیٰ کوئی ایسی سور ت نازل نہ فرمائے جس سے ان کے اَسرار ظاہر کردیئے جائیں اور ان کی رسوائی ہو۔ ان کے اس اندیشے کاذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے ’’اے پیارے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان منافقوں سے فرما دیں کہ تم نے جو مذاق اڑانا ہے وہ اڑالو، بیشک اللہ تعالیٰ اس چیز کو ظاہر کرنے والاہے جس کے ظاہر ہونے سے تم ڈرتے ہو۔ (روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۴، ۳ / ۴۵۸-۴۵۹)
وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(۶۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے محبوب! اگرآپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے کہ ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔تم فرماؤ: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے ہو۔
{اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ:ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔} اس آیت کا ایک شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین گروپوں میں سے دو رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے میں مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے، کتنا بعید خیال ہے اور ایک گروپ بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے؟ انہوں نے کہا :ہم راستہ طے کرنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کررہے تھے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔ دوسرا شانِ نزول یہ ہے کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا او نٹنی فلاں جنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا ’’محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ کریمہ اتاری ۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۴۳، در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۲۳۰ ملتقطاً)
اس آیت سے 3 مسئلے معلوم ہوئے ۔
(1)… حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم دیا کہ جو تنہائی میں باتیں کی جائیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی خبر ہے۔
(2)… کفر کی باتیں سن کر رضا کے طور پر خاموش رہنا یا ہنسنا بھی کفر ہے۔ کیونکہ رضابِالْکُفر کفر ہے۔
(3)… حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تَوہین اللہ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین کی تھی مگر فرمایا ’’ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ‘‘ یعنی حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مذاق اڑانا اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام آیتوں کا مذاق اڑانا ہے۔ لہٰذا تاجدارِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے۔
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْؕ-اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآىٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۠(۶۶)
ترجمۂکنزالایمان: بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بہانے نہ بناؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔ اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کر دیں تو دوسروں کو عذاب دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہیں۔
{لَا تَعْتَذِرُوْا :بہانے نہ بنا ؤ۔} اللہ تعالیٰ نے منافقین کی جانب سے پیش کردہ عذر و حیلہ قبول نہ کیا اور ان کے لئے یہ فرمایا کہ بہانے نہ بنا ؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۷، ملخصاً)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ ایمان ایسی چیز نہیں کہ جو دنیا میں کبھی کسی سے ختم ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے ایمان کا ذکر فرمایا پھر ان کا ایمان ختم ہو جانے کا ذکر فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مسلمان ہونے کے بعد کوئی کافر ہو سکتاہے ۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے لہٰذا کوئی دوسرا کسی کو کافر نہیں کہہ سکتا ، یہ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ شرعی اصولوں کے مطابق جس کا کفر ثابت ہو جائے اسے کافر قرار دینے کاحکم خود شریعت کا حکم ہے اور حقیقی علماء اسی حکمِ شریعت پر عمل کرتے ہوئے ہی کسی کو کافر کہتے ہیں۔ اگر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ، اس کے حبیب رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے میں ، اس کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کے بارے میں ، اس کے پسندیدہ دین اسلام کے بارے کیسے ہی توہین آمیز کلمات کہے یا کتنے ہی برے افعال کے ذریعے ان کی توہین کرے یا دیگر ضروریاتِ دین کا انکار کرے تو اسے کافر نہ کہا جائے کیونکہ اسے کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تو پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے فیصلے سے راضی نہ ہونے والے جس منافق کاسر اڑا دیا تھا اور ا س کے بعد حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرما دیا کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکسی مومن کو قتل نہیں کرسکتے اور ان کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں آیت نازل فرما دی تو کیا یہاں اللہ تعالیٰ کا حق چھیننا پایا جا رہا ہے؟ اسی طرحصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں زکوٰۃ کا انکار کرنے والوں کو مرتد قرار دے کر ان کے خلاف جو جہاد ہوا اور مسلمان ہونے کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے جو جہاد کیا وہ کیا تھا؟ کیا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کافر قرار دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہ انہیں کافر قرار دے کر ان کے خلاف جہاد نہیں کر سکتے۔ افسوس! فی زمانہ مسلمان ہونے کادعویٰ کرنے کے باوجود دین سے بیزار طبقے کی ایسی مت ماری جا چکی ہے کہ وہ ایسا نظریہ پیش کر رہے ہیں جسے اگر درست مان لیاجائے تو پھر قرآنِ مجید اوراحادیثِ مبارکہ میں مرتد ہونے والوں کے بارے جو احکام بیان گئے اور ان کی جوتفصیلات فقہائِ کرام زمانے سے اپنی کتابوں میں لکھتے چلے آ رہے ہیں یہ سب کالْعدم ہو کر رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے ۔ ہاں یہاں اس بات کا خیال رکھنا بہت ہی ضروری ہے کہ کسی فردِ معین کو کافر قرار دینا بہت ہی سنگین معاملہ ہے ، جب تک کسی شخص سے صادر ہونے والے قول و فعل کی بنا پر اسے کافر قرار دینے کے تمام تر تقاضے پورے نہ ہوجائیں تب تک کافر قرار دینے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں یہاں تک کہ علماء نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کے کلام میں ایک سو پہلو ہوں اور ان میں سے ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور صرف ایک پہلو اسلام کا ہو تب بھی اس ایک پہلو کی رعایت کرتے ہوئے اس شخص کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا جب تک وہ اپنی مراد خود متعین نہ کردے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں اِکراہ ِشرعی کے بغیر ایسے کلمات کہے جو عرف میں توہین اور گستاخی کے لئے متعین ہوں تو وہ نیت اور عدمِ نیت کے فرق کے بغیر قضاء ً اور دیانۃً دونوں طرح کافر ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس (مذکورہ بالا) آیت کے تین فائدے حاصل ہوئے:
اول: یہ کہ جو رسول کی شان میں گستاخی کرے وہ کافر ہوجاتاہے اگر چہ کیسا ہی کلمہ پڑھتا اور ایمان کا دعویٰ رکھتا ہو، کلمہ گوئی اسے ہرگز کفرسے نہ بچائے گی۔
دوم: یہ جو بعض جاہل کہنے لگتے ہیں کہ کفر کا تودل سے تعلق ہے نہ کہ زبان سے، جب وہ کلمہ پڑھتا ہے اور اس کے دل میں کفر ہونا معلوم نہیں توہم کسی بات کے سبب اسے کیونکر کافر کہیں ، محض خبط اور نری جھوٹی بات ہے، جس طرح کفر دل سے متعلق ہے یونہی ایمان (کا) بھی (دل سے تعلق ہے تو) زبان سے کلمہ پڑھنے پر (اسے) مسلمان کیسے کہا؟ (تو جس طرح زبان سے کلمہ پڑھنے پر اسے مسلمان کہا) یونہی زبان سے گستاخی کرنے پر کافر کہا جائے گا، اور جب (اس کا گستاخی کرنا) بغیر اکراہِ شرعی کے ہے تو اللہ کے نزدیک بھی کافر ہوجائے گا اگر چہ دل میں اس گستاخی کا معتقد نہ ہو کہ بے اعتقاد (گستاخانہ کلمہ) کہنا ہزل وسُخْرِیَہْ ہے، اور اسی پر ربُّ العزت فرما چکا کہ تم کافر ہوگئے اپنے ایمان کے بعد۔
سوم :کھلے ہوئے لفظوں میں عذر تاویل مسموع نہیں ، آیت فرما چکی کہ حیلہ نہ گھڑو تم کافر ہوگئے۔ (فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۷۲)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’جو بلا اکراہ کلمۂ کفر بکے بلا فرقِ نیت مطلقاً قطعا ًیقینا اجماعاً کافر ہے ۔پھر اس پر فقہائے کرام کے جزئیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فتاویٰ امام قاضی خاں وفتاویٰ عالمگیری میں ہے ’’رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالایمان یکون کافرا و لایکون عند اﷲ تعالٰی مومنا ‘‘ ایک شخص نے زبان سے حالت ِخوشی میں کفر کا اظہار کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن نہیں ہے۔(فتاوی عالمگیری،کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، ۲ / ۲۸۳)
حاوی میں ہے ’’من کفر باللسان و قلبہ مطمئن بالایمان فھوکافر و لیس بمومن عند اﷲ تعالٰی‘‘ جس نے زبان سے کفرکیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔
جواہر الاخلاطی اور مجمع الانہر میں ہے ’’من کفر بلسانہ طائعا و قلبہ مطمئن بالایمان کان کافرا عندنا و عند اﷲ تعالٰی ‘‘ جس نے زبان سے حالتِ خوشی میں کفر کااظہا ر کیا حالانکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا تو وہ ہمارے نزدیک کافر ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مومن نہیں۔ (مجمع الانہر، کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ۲ / ۵۰۲، جواہر الاخلاطی، کتاب السیر، ص۶۸، مثلہ)
شرح فقہ اکبر میں ہے ’’ اللسان ترجمان الجنان فیکون دلیل التصدیق وجودا و عدما فاذا بدلہ بغیرہ فی وقت یکون متمکنا من اظہارہ کان کافرا و اما اذا زال تمکنہ من الاظہار بالاکراہ لم یصر کافرا ‘‘ زبان دل کی ترجمان ہے تو یہ دل کی تصدیق یا عدمِ تصدیق پر دلیل ہوگی تو جب وہ اظہارِ ایمان پر قدرت کے باوجود عدمِ تصدیق کااظہار کرتاہے تو وہ کافر ہوگیا البتہ جب کسی جبر کی وجہ سے اظہار پر قدرت نہ ہو تو اب کافر نہ ہوگا۔ (منح الروض الازہر شرح فقہ الاکبر، الایمان ہو التصدیق والاقرار، ص۸۶)
طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ میں ہے ’’(حکمہ) ای التکلم بکلمۃ الکفر( ان کان طوعا) ای لم یکرھہ احد( من غیر سبق لسان) الیہ( احباط العمل وانفساخ النکاح) ‘اگر کلمۂ کفر کا تکلم خوشی سے ہے یعنی کسی چیز کا اکراہ و جبر نہیں جبکہ سبقت ِلسانی نہ ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ عمل ضائع اور نکاح ختم ہوجائے گا(الحدیقۃ الندیہ، القسم الثانی، المبحث الاول، النوع الاول من الستین کلمۃ الکفر العیاذ باللہ، ۲ / ۱۹۷-۱۹۸)۔( فتاوی رضویہ ، کتاب السیر، ۱۴ / ۶۰۰-۶۰۱)
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ رسول کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَ سَلَّمَ کی شان میں گستاخی کفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذر قبول نہیں۔(خزائن ا لعرفان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۳۷۰)
یاد رہے کہ اس آیت میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخی اگرچہ مذاق میں ہو اور گستاخی کی نیت نہ ہو تب بھی کفر ہے اور یہی حکم دوسرے تمام کفریات کا ہے کہ ہنسی مذاق میں کفر کرنے سے بھی آدمی کافر ہوجاتا ہے ، مذاق کا عذر مردود ہے۔ اس سے فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً کامیڈی ڈراموں میں بولے جانے والے کفریات کا حکم سمجھا جاسکتا ہے۔
{اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ:اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کر (بھی) دیں۔} یعنی اگر ہم تم میں سے کسی کو اس کے توبہ کرنے اور اخلاص کے ساتھ ایمان لانے کی وجہ سے معاف کر بھی دیں تو توبہ نہ کرنے والے گروہ کو ضرور عذاب دیں گے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ص۴۴۳)
حضرت محمد بن اسحٰق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جس شخص کی معافی کی بات ہورہی ہے اس سے وہی شخص مراد ہے جو ہنستا تھا مگر اس نے اپنی زبان سے کوئی گستاخی کا کلمہ نہ کہا تھا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے توبہ کی اور اخلاص کے ساتھ ایمان لایا۔ اس نے دعا کی کہ یارب! عَزَّوَجَلَّ، مجھے اپنی راہ میں مقتول کرکے ایسی موت دے کہ کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ میں نے غسل دیا، میں نے کفن دیا، میں نے دفن کیا ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے اور ان کا پتہ ہی نہ چلا۔ ان کا نام حضرت یحیٰ بن حمیر اشجعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھا اور چونکہ انہوں نے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدگوئی سے زبان روکی تھی اس لئے انہیں توبہ و ایمان کی توفیق ملی ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۶، ۲ / ۲۵۸)
اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْؕ-نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْؕ-اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۶۷)وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-هِیَ حَسْبُهُمْۚ-وَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌۙ(۶۸)
ترجمۂکنزالایمان: منافق مرد اور منافق عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں برائی کا حکم دیں اور بھلائی سے منع کریں اور اپنی مٹھی بند رکھیں وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑ دیا بیشک منافق وہی پکے بے حکم ہیں۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے وہ انہیں بس ہے اوراللہ کی ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی ہیں ، برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اس نے انہیں چھوڑ دیا ۔ بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے، وہ (جہنم) انہیں کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔
{اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ:منافق مرد اور منافق عورتیں۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں سب نِفاق اور اَعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں ان کا حال یہ ہے کہ کفر و مَعْصِیَت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں اور ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں اورراہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں ،انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا اور انہوں نے اس کی اطاعت و رضا طلبی نہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں چھوڑ دیا اور ثواب و فضل سے محروم کردیا، بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۷، ۲ / ۲۵۸)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ برائی کا حکم دینا اور بھلائی سے منع کرنا منافق کا کام ہے۔ افسوس کہ ہمارے زمانے میں یہ چیز گھر گھر دیکھنے میں آرہی ہے کہ گھر والوں کو گناہ کرنے کی ترغیب دی جاتی اور ان کے سامنے گناہوں کو معمولی قرار دے کر انہیں مزید گناہوں پر ابھارا جاتا ہے جیسے نماز اور روزے کی پابندی کرنے سے روکا جاتا اور ان کے بارے میں اس طرح کلام کیاجا تا ہے جیسے ان کی خاص اہمیت نہ ہو۔ ٹی وی پر کوئی من پسند ڈرامہ یا فلم آ رہی ہو تو دوسروں کے سامنے ان کی خوبیاں بیان کر کے انہیں بھی وہ ڈرامہ یا فلم دیکھنے کے لئے بلا یا جاتا ہے۔ فلموں ، ڈراموں اور ٹی وی کے بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کے دینی اور مذہبی عقائد و معمولات کو مَجروح کرنے والے پروگراموں کو دیکھنے کے لئے نت نئے انداز سے ایک دوسرے کومائل کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور عُریانی پر مَبنی لباسوں کو فیشن اور سوسائٹی کا تقاضا بتا کر انہیں پہننے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ والدین اپنی اولاد کو ماڈرن اور آزاد خیال دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور مذہبی حلیے میں دیکھ کر تکلیفمحسوس کرتے ہیں۔ کوئی داڑھی رکھ لے اور مذہبی شکل و صورت بنالے تو والدین اس سے ناراض ہوتے ہیں اور اسے گناہوں کی طرف جانے پر مجبور کرتے ہیں جبکہ اگر کوئی رشوت اور سود کا مال لا کر گھر میں خوشحالی لاتا ہے تواس سے خوش ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حدیثِ پاک میں بڑی عبرت ہے،
حضرت ابوامامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب تمہاری عورتیں سرکشی کریں گی، تمہارے نوجوان فاسق ہوجائیں گے اور تم جہاد چھوڑ دو گے تو اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیا ہوگا ارشاد فرمایا’’ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کا حکم نہیں دو گے اور برائی سے نہیں روکو گے ۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عر ض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اس سے زیادہ سخت کیاہو گا؟ ارشاد فرمایا’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھو گے؟ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا ایسا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا۔ انہوں نے عرض کی: اس سے زیادہ سخت کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اس طرح ہو گا؟ ارشاد فرمایا ’’ہاں ! اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہو گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’مجھے اپنی قسم ہے، میں ان پر ایسا فتنہ مقرر کروں گا کہ اس میں سمجھدار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے۔ (احیاء العلوم، کتاب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، الباب الاول فی وجوب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں منافقت کی اس علامت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ:اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں سے وعدہ کیا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں منافقوں کے برے اعمال بیان کئے گئے اور اس آیت میں ان کی سزا بیان کی گئی ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے اور عذاب وسزا کے طور پر جہنم انہیں کافی ہے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیا اور ان کے لئے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔
كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَّ اَكْثَرَ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًاؕ-فَاسْتَمْتَعُوْا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَ خُضْتُمْ كَالَّذِیْ خَاضُوْاؕ-اُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۶۹)
ترجمۂکنزالایمان: جیسے وہ جو تم سے پہلے تھے تم سے زور میں بڑھ کر تھے اور ان کے مال اور اولاد تم سے زیادہ تو وہ اپنا حصہ برت گئے تو تم نے اپنا حصہ برتا جیسے اگلے اپنا حصہ برت گئے اور تم بیہودگی میں پڑے جیسے وہ پڑے تھے ان کے عمل اکارت گئے دنیا اور آخرت میں اور وہی لوگ گھاٹے میں ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے منافقو!) جس طرح تم سے پہلے لوگ تم سے قوت میں زیادہ مضبوط اور مال اور اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنے (دنیا کے) حصے سے لطف اٹھایا تو تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھالو جیسے تم سے پہلے والوں نے اپنے حصوں سے فائدہ حاصل کیا اور تم اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے جیسے وہ بیہودگی میں پڑے تھے۔ ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اور وہی لوگ گھاٹے میں ہیں۔
{كَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ:جس طرح تم سے پہلے لوگ۔} یعنی اے منافقو! تم گزشتہ زمانے کے ان لوگوں کی طرح ہو جو قوت میں تم سے زیادہ مضبوط اور مال و اولاد کی کثرت میں تم سے بڑھ کر تھے پھر انہوں نے اپنی دنیوی لذتوں اور شہوتوں کے حصے سے لطف اٹھایا ۔ اے منافقو! تم بھی ویسے ہی اپنے حصے سے لطف اٹھالو اور جو موج مستی کرنی ہے کرلو۔ یہ سارا کلام انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکی کے طور پر ہے۔ مزید فرمایا کہ جیسے پہلے لوگ بیہودگی میں پڑے ہوئے تھے تم بھی اسی طرح بیہودگی میں پڑگئے اور تم نے باطل کی اتباع کی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ اورا س کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب اور مؤمنین کے ساتھ اِستہزاء کرنے میں ان کی رَوِش اختیار کر لی، جس کے نتیجے میں ان لوگوں کے تمام اَعمال دنیا و آخرت میں برباد ہوگئے اوروہ اس کی وجہ سے خسارے میں پڑگئے، اور اب انہیں کفار کی طرح اے منافقین تم بھی گھاٹے میں ہو اور تمہارے عمل باطل ہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۲۵۸-۲۵۹، ملخصاً)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیوی مال ودولت کی کثرت اور افرادی قوت کی زیادتی کوئی کامیابی کی علامت نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کامیابی ایمان اور تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا٘-فَاُولٰٓىٕكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَ هُمْ فِی الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ‘‘(سبا:۳۷)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد اس قابل نہیں کہ تمہیں ہمارے قریب کردیں مگر وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا (وہ ہمارے قریب ہے) ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے بدلے میں کئی گنا جزا ہے اور وہ(جنت کے) بالاخانوں میں امن وچین سے ہوں گے۔
اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﳔ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ-اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِۚ-فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۷۰)
ترجمۂکنزالایمان: کیا انہیں اپنے سے اگلوں کی خبر نہ آئی نو ح کی قوم اور عاد اور ثمود اور ابراہیم کی قوم اور مدین والے اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں ان کے رسول روشن دلیلیں ان کے پاس لائے تھے تو اللہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرتا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظالم تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا ان کے پاس ان سے پہلے لوگوں (یعنی) قومِ نوح اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیم اور مدین اور الٹ جانے والی بستیوں کے مکینوں کی خبر نہ آئی ؟ ان کے پاس بہت سے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تو اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے۔
{اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ:کیاان کے پاس ان سے پہلے لوگوں کی خبر نہ آئی۔} یعنی منافقوں کو گزری ہوئی امتوں کا حال معلوم نہ ہوا کہ ہم نے انہیں اپنے حکم کی مخالفت اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کرنے پر کس طرح ہلاک کیا۔ قومِ نوح جو طوفان سے ہلاک کی گئی اور قومِ عاد جو ہوا سے ہلاک کئے گئے اور قومِ ثمود جو زلزلہ سے ہلاک کئے گئے اور قومِ ابراہیم جو سَلب ِ نعمت سے ہلاک کی گئی اور نمرود مچھر سے ہلاک کیا گیا اور مدین والے یعنی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم جوبادل والے دن کے عذاب سے ہلاک کی گئی اور وہ بستیاں کہ الٹ دی گئیں اور زیرو زبر کر ڈالی گئیں وہ قومِ لوط کی بستیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان چھ کا ذکر فرمایا اس لئے کہ بلادِ شام و عراق و یمن جو سرزمینِ عرب کے بالکل قریب ہیں ان میں ان ہلاک شدہ قوموں کے نشان باقی ہیں اور عرب لوگ ان مقامات پر اکثر گزرتے رہتے ہیں۔
مزید ارشاد فرمایا کہ ان کے پاس بہت سے رسول روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے تھے اور ان لوگوں نے تصدیق کرنے کی بجائے اپنے رسولوں کی تکذیب کی جیسا کہ اے منافقو! تم کررہے ہو، لہٰذا تم اس بات سے ڈرو کہ کہیں انہیں کی طرح مبتلائے عذاب نہ کردئیے جاؤ۔ سابقہ لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے برباد ہوئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھاکیونکہ وہ حکیم ہے ،بغیر جرم کے سزا نہیں فرماتا بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے کہ کفر کر کے او ر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو نہ مان کر عذاب کے مستحق بنے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۲ / ۲۵۹، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ص۴۴۴، ملتقطاً)
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اوراللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔
{وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبیث اَعمال اور فاسد اَحوال بیان فرمائے، پھراس عذاب کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دنیاو آخرت میں تیار کیا اور اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرماے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۱، ۲ / ۲۵۹-۲۶۰)
اس آیت سے تین آیات پہلے منافق مردوں اور منافقہ عورتوں کے4 اَوصاف بیان ہوئے
(1)… یہ سب نفاق اور اعمالِ خبیثہ میں یکساں ہیں۔
(2)…یہ کفر و معصیت اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تکذیب کا حکم دیتے ہیں ، یونہی برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…ایمان وطاعت ا ور تصدیقِ رسول سے منع کرتے ہیں۔
(4)…راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔
اورمذکورہ بالا آیت میں مومنوں کے5 اَوصاف بیان کئے گئے
(1)…وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
(2)…بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔
(3)…نماز قائم کرتے ہیں۔
(4)… زکوٰۃ دیتے ہیں۔
(5)…اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مانتے ہیں۔
منافقوں اور مخلص ایمان والوں کے اوصاف کوسامنے رکھتے ہوئے عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غور کریں کہ ان کے اعمال کن لوگوں کے ساتھ ملتے ہیں ؟ اگر ان کے اعمال مخلص ایمان والوں کے ساتھ ملتے ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کریں اور اگراعمال منافقوں کے ساتھ ملتے ہوں تو انہیں چاہئے کہ اپنی عملی حالت درست کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور مخلص ایمان والوں جیسے اوصاف اپنائیں تاکہ وہ منافقوں کے بارے میں بیان کی گئی وعید میں داخل ہونے سے بچ سکیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اس آیت میں بیان ہوا کہ مسلمان ایک دوسرے کے رفیق اور معین ومددگار ہیں اور حدیثِ پاک میں بیان ہوا کہ مسلمان اتفاق اور اتحاد میں ایک عمارت کی طرح ہیں ، چنانچہحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فر مایا ’’سارے مسلمان ایک عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت پہنچاتا ہے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں۔ (بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب نصر المظلوم، ۲ / ۱۲۷، الحدیث: ۲۴۴۶)
اور حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے، جب جسم کا کوئی عُضْو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو جاتاہے۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم۔۔۔ الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۶(۲۵۸۶))
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے اورآپس میں متفق و متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
اس آیت میں ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں۔ فی زمانہ اس کام کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت بے عملی کا شکار ہے، نیکیاں کرنا، نفس کے لئے بے حد دشوار جبکہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بہت آسان ہو چکا ہے، مسجدوں کی ویرانی، سینما گھروں اور ڈرامہ گاہوں کی رونق، دین کا درد رکھنے والوں کو رُلا دیتی ہے، ڈش انٹینا اور کیبل کے ذریعے ٹی وی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال کرنے والوں نے گویا اپنی آنکھوں سے حیا دھو ڈالی ہے، ضروریات کی تکمیل اور سہولیات کے حصول کی حد سے زیادہ جدو جہد نے مسلمانوں کی بھاری تعداد کو آخرت کی فکر سے غافل کر دیا ہے ،گالی دینا، تہمت لگانا، بد گمانی کرنا، غیبت کرنا، چغلی کھانا، لوگوں کے عیب جاننے کی جستجو میں رہنا، لوگوں کے عیب اچھالنا، جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، کسی کا مال ناحق کھانا، خون بہانا، کسی کو شرعی اجازت کے بغیر تکلیف دینا، کسی کا قرض دبا لینا، کسی کی چیز وقتی طور پر لے کر واپس نہ کرنا، مسلمانوں کو برے القاب سے پکارنا، کسی کی چیز اسے ناگوار گزرنے کے باوجود اجازت کے بغیر استعمال کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، چوری کرنا، زنا کرنا، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجے سننا، سود اور رشوت کا لین دین کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور انہیں ستانا، امانت میں خیانت کرنا، بد نگاہی کرنا، عورتوں کا مردوں اور مردوں کا عورتوں کی نقالی کرنا، بے پردگی، غرور، تکبر ، حسد،ریا کاری، اپنے دل میں کسی مسلمان کا بغض و کینہ رکھنا، غصہ آجانے پر شریعت کی حد توڑ ڈالنا، گناہوں کی حرص ،حُب ِجاہ، بخل اور خود پسندی وغیرہ معاملات ہمارے معاشرے میں بڑی بے باکی کے ساتھ کئے جاتے ہیں حتّٰی کہ بظاہر نیک نظر آنے والے کسی شخص کے قریب جائیں تو وہ بھی بسا اوقات عقیدے کی خرابی، زبان کی بے احتیاطی، بد نگاہی اور بد اَخلاقی وغیرہ کی آفتوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا، جذبہ ،ہمت اور توفیق عطا فرمائے ،اٰمین۔
وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۷۲)
ترجمۂکنزالایمان: اللہنے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو باغوں کا وعدہ دیا ہے جن کے نیچے نہریں رواں ان میں ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ مکانوں کا بسنے کے باغوں میں اور اللہ کی رضا سب سے بڑی یہی ہے بڑی مراد پانی ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اوراللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
{وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ:اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وعیدیں اور ان کے لئے تیار کردہ جہنم کے عذاب کا ذکر فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جس ثواب اور جزاء کا وعدہ فرمایا، اسے ذکر فرمایا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۰)
{فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ: عدن کے باغات میں۔} ایک قول یہ ہے کہ ’’عَدن‘‘ جنت میں ایک خاص جگہ کا نام ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عدن جنت کی صفت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۶ / ۱۰۲)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ایک روایت یہ ہے کہ جنتیں آٹھ ہیں اورا ن کے نام یہ ہیں (1) دارُ الجلال۔ (2) دارُ القرار ۔ (3) دارُ السّلام۔ (4) جنتِ عدن۔ (5) جنتِ مأویٰ۔ (6) جنتِ خُلد۔ (7) جنتِ فِردَوس۔ (8) جنتِ نعیم۔(روح البیان، الصف، تحت الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۵۰۸)
جنت عدن کے بارے میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے جنتِ عدن کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا، اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک سرخ یاقوت کی اور ایک سبز زبرجد کی ہے، مشک کا گارا ہے، اس کی گھاس زعفران کی ہے، موتی کی کنکریاں اور عنبر کی مٹی ہے۔ (ابن ابی دنیا،صفۃ الجنۃ، ۶ / ۳۱۹، الحدیث: ۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جب اللہ تعالیٰ نے جنتِ عد ن کو پیدا فرمایا تو اس میں وہ چیزیں پیدا فرمائیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت عدن سے فرمایا ’’ مجھ سے کلام کر۔ اس نے کہا ’’ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۵، الحدیث: ۷۳۸)
{ وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ:اور اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔} یعنی جنت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّجنتیوں سے راضی ہو گا ۔کبھی نا راض نہ ہوگا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۲، ۲ / ۲۶۱)
یہ نعمت تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور عاشقانِ الٰہی کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی عمل کا بد لہ نہ ہو گا بلکہ یہ خاص رب عَزَّوَجَلَّ کا عطیہ ہو گا۔ ’’ رَزَقَنَا اللہُ تَعَالٰی بِجَاہِ حَبِیْبِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘
کسی بندے سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی ایک علا مت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندےراضی ہوں اور اسے نیک اعمال کی توفیق ملے ۔ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی سے راضی ہوتا ہے تو فر شتوں میں اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس سے راضی ہیں تم بھی اس سے راضی ہو جاؤ پھر تما م زمین والوں کے دلوں میں اس کی محبت پڑ جا تی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو ند اکی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَاماس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام آسمانی مخلوق میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، چنانچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ، ۲ / ۳۸۲، الحدیث: ۳۲۰۹)
اس سے معلوم ہوا کہ بزر گا نِ دین کی طرف دلو ں کا مائل ہونا ان کے محبوبِ الٰہی ہونے کی علامت ہے ۔
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْؕ-وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُؕ-وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ(۷۳)
ترجمۂکنزالایمان: اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی) جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پر اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے غیب کی خبریں دینے والے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور کتنی بری پلٹنے کی جگہ ہے۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ:اے غیب کی خبریں دینے والے نبی!} اس سے معلوم ہوا کہ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا نام لے کر نہ پکارا جائے بلکہ اچھے القاب سے پکارا جائے جب خداوند ِ قدوس عَزَّوَجَلَّ ان کو نام لے کر نہیں پکارتا تو ہم کس شمار میں ہیں۔ ایک مقام پر اللہتعالیٰ واضح طور پرفرماتا ہے۔
’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ‘‘ (النور :۶۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے لوگو!) رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا (معمولی) نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔
{جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ:کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔} یعنیکافروں پر تو تلوار اور جنگ سے اور منافقوں پر حجت قائم کرنے سے جہاد کرو اور ان سب پر سختی کرو۔ حضرت عبداللہ بن احمد نسفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ہر وہ شخص جس کے عقیدے میں فساد ہو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کہ حجت و دلائل کے ساتھ اس سے جہاد کیا جائے اور جتنا ممکن ہو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۳، ص۴۴۵)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد صرف لڑائی کی شکل میں نہیں ہوتا بلکہ دین کیلئے کی جانے والی ہر کوشش جہاد ہے خواہ وہ زبان یا قلم سے ہو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جو علماء ،دینِ حق اور عقیدہ ِ صحیحہ کے تحفظ و بَقا کیلئے تقریر وتحریر کے ذریعے کوشش کرتے ہیں وہ سب مجاہدین ہیں اور اِس آیتِ مبارکہ پر عمل کرنے والے ہیں۔ اس میں مصنفین اور صحیح مقررین کیلئے بڑی بشارت و فضیلت ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو کافروں اور منافقوں پر سختی کرنے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ دین و ایمان کے دشمنوں پر سختی کرنا اَخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں اور نہ ہی یہ شدت پسندی ہے بلکہ یہ عین اسلام کی تعلیمات اوراللہ تعالیٰ کا حکم ہے البتہ بے جا کی سختی یا اسلامی تعلیمات کے منافی قتل و غارتگری ضرور حرام ہے جیسے آج کل مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کی مہم جاری ہے۔
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْاۚ-وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْۚ-وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًاۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۷۴)
ترجمۂکنزالایمان: اللہکی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا اور بیشک ضرور انہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آکر کافر ہوگئے اور وہ چاہا تھا جو انہیں نہ ملا اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کا بھلا ہے اور اگر منہ پھیریں تو اللہ انہیں سخت عذاب کرے گا دنیا و آخرت میں اور زمین میں کوئی نہ ان کا حمایتی ہوگا نہ مددگار۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: منافقین اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہ کہا حالانکہ انہوں نے یقینا کفریہ کلمہ کہا اور وہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے اور انہوں نے اس چیز کا قصد و اِرادہ کیا جو انہیں نہ ملی اور انہیں یہی برا لگا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا تو اگر وہ توبہ کریں تو ان کے لئے بہتر ہوگا اور اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں سخت عذاب دے گا اور ان کے لئے زمین میں نہ کوئی حمایتی ہوگا اور نہ مددگار۔
{یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ:اللہکی قسم کھاتے ہیں۔} شانِ نزول: امام بغوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کلبی سے نقل کیا کہ یہ آیت جُلَّاسْ بن سُوَید کے بارے میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز سرور ِعالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تبوک میں خطبہ فرمایا اس میں منافقین کا ذکر کیا اور ان کی بدحالی و بدما ٓلی کا ذکر فرمایا: یہ سن کر جُلَّاسْ نے کہا کہ اگر محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سچے ہیں تو ہم لوگ گد ھوں سے بدتر ہیں۔ جب حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ واپس تشریف لائے تو حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جُلَّاسْ کا مقولہ بیان کیا۔ جُلَّاسْ نے انکار کیا اور کہا کہ یا رسولَ اللہ ! عامر نے مجھ پر جھوٹ بولا ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دونوں کو حکم فرمایا کہ منبر کے پاس قسم کھائیں۔ جُلَّاسْ نے عصر کے بعد منبر کے پاس کھڑے ہو کر اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسم کھائی کہ یہ بات اس نے نہیں کہی اور عامر نے اس پر جھوٹ بولا پھر حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر قسم کھائی کہ بے شک یہ مقولہ جُلَّاس نے کہا اور میں نے اس پر جھوٹ نہیں بولا ۔حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ، اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر سچے آدمی کی تصدیق نازل فرما ۔ ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے ہی حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ آیت میں ’’فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ‘‘ سن کر جُلَّاسْکھڑے ہوگئے اور عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، سنئے، اللہ تعالیٰ نے مجھے توبہ کا موقع دیا، حضرت عامر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو کچھ کہا سچ کہا اور میں نے وہ کلمہ کہا تھا اور اب میں توبہ و استغفار کرتا ہوں۔ رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور وہ توبہ پر ثابت رہے۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۳)اس آیت میں جمع کے صیغے ذکر کئے گئے حالانکہ توہین آمیز بات کہنے والا شخص ایک تھا، اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ باقی منافق اس بات پر راضی ہونے کی وجہ سے کہنے والے کی طرح ہیں۔(روح البیان، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۴۶۷)
{وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا:اور انہوں نے اس چیز کا قصد و ارادہ کیا جو انہیں نہ ملی۔} ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد منافقین کا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سواری سے گرانے کا ارادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پندرہ کے قریب منافقین کے ایک گروہ نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ تبوک سے واپسی پر رات کے اندھیرے میں کسی گھاٹی پر نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ان کی سواری سے گرا کے شہید کردیا جائے۔ حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سواری پیچھے سے ہانک رہے تھے اور حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سواری کی لگام تھامے آگے چل رہے تھے۔ اسی دوران جب حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اونٹوں اور اسلحے کی آواز سنی توانہوں نے پکار کر کہا کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمنو! دور ہو جاؤ، دور ہو جاؤ۔ یہ سن کر منافقین بھاگ گئے۔(بیضاوی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۱۵۸-۱۵۹)
ایک قول یہ ہے کہ منافقین نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا کے بغیر عبداللہ بن اُبی کی تاج پوشی کا ارادہ کیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے جس چیز کا قصد و ارادہ کیا تھا وہ انہیں نہ ملی۔ (ابو سعود، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۴۲۸)
امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جلاس نے افشائے راز کے اندیشہ سے حضرت عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ پورا نہ ہوا ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۲ / ۲۶۲)
{اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ:اللہ اور اس کے رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔} اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مدینہ منورہ تشریف آوری سے پہلے یہ منافق تنگدستی کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ جب مدینہ منورہ میں رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی آمد ہوئی تو ان کے صدقے غنیمت میں مال و دولت پا کر یہ منافق خوشحال ہو گئے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ جُلَّاسْ کا غلام قتل کر دیا گیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بارہ ہزار درہم اس کی دِیَت ادا کرنے کا حکم دیا تو دیت پا کر وہ غنی گیا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۴، ۶ / ۱۰۴)
یہاں آیت میں غنی کرنے کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی طرف کی گئی ہے۔ اس پر تفصیلی کلام اسی سورت کی آیت نمبر 62 کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۵)فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۷۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان میں کوئی وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ہم ضرور بھلے آدمی ہوجائیں گے۔ تو جب اللہنے انہیں اپنے فضل سے دیا اس میں بخل کرنے لگے اور منہ پھیر کر پلٹ گئے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا ہوا ہے کہ اگراللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا تو ہم ضرور صدقہ دیں گے اور ہم ضرور صالحین میں سے ہوجائیں گے۔پھر جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمایا تو اس میں بخل کرنے لگے اور منہ پھیر کر پلٹ گئے۔
{وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ:اور ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا ہوا ہے۔} شانِ نزول: ایک شخص ثعلبہ نے رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے درخواست کی کہ اس کے لئے مالدار ہونے کی دعا فرمائیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :اے ثعلبہ تھوڑا مال جس کا تو شکر ادا کرے اس بہت سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکے۔ دوبارہ پھر ثعلبہ نے حاضر ہو کر یہی درخواست کی اور کہا اسی کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا کہ اگر وہ مجھے مال دے گا تو میں ہر حق والے کا حق ادا کروں گا۔حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بکریوں میں برکت فرمائی اور اتنی بڑھیں کہ مدینہ میں ان کی گنجائش نہ ہوئی تو ثعلبہ ان کو لے کر جنگل میں چلا گیا اور جمعہ و جماعت کی حاضری سے بھی محروم ہوگیا۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس کا حال دریافت فرمایا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ اس کا مال بہت کثیر ہوگیا ہے اور اب جنگل میں بھی اس کے مال کی گنجائش نہ رہی۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ ثعلبہ پر افسوس پھر جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے زکوٰۃ کے وصول کرنے والے بھیجے تو لوگوں نے انہیں اپنے اپنے صدقات دئیے، جب ثعلبہ سے جا کر انہوں نے صدقہ مانگا اس نے کہا یہ توٹیکس ہوگیا، جاؤ میں پہلے سوچ لوں۔ جب یہ لوگ رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں واپس آئے تو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کے کچھ عرض کرنے سے قبل دو مرتبہ فرمایا ، ثعلبہ پر افسوس۔ اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی پھر ثعلبہ صدقہ لے کر حاضر ہوا تو سرورِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے قبول فرمانے کی ممانعت فرما دی، وہ اپنے سر پر خاک ڈال کر واپس ہوا۔ پھر اس صدقہ کو خلافتِ صدیقی میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لایا انہوں نے بھی اسے قبول نہ فرمایا۔ پھر خلافتِ فاروقی میں حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس لایا انہوں نے بھی قبول نہ فرمایا اور خلافتِ عثمانی میں یہ شخص ہلاک ہوگیا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ص۴۴۶، ملتقطاً)
ثعلبہ کی توبہ اس لئے قبول نہیں ہوئی کہ اس کا توبہ کرنا اور رونا دھونا دل سے نہ تھا بلکہ لوگوں کے درمیان اس کے مردود ہونے کی وجہ سے جو ذلت ہورہی تھی وہ اس سے بچنے کیلئے واویلا کررہا تھا تو چونکہ توبہ صدقِ دل سے نہ تھی اس لئے مقبول نہ ہوئی۔
یہاں ایک وضاحت کردینا مناسب ہے اور وہ یہ کہ تفسیرحدیث اور سیرت کی عام کتب میں اس شخص کا نام ’’ثعلبہ بن حاطب‘‘ لکھا ہو اہے، علامہ ابن حجر عسقلانی اور علامہ ابنِ اثیر جزری کی تحقیق یہ ہے کہ اس شخص کا نام ’’ ثعلبہ بن حاطب‘‘ درست نہیں کیونکہ ثعلبہ بن حاطب بدری صحابی ہیں اور وہ جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تھے اور بدری صحابہ کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ثعلبہ بن حاطب اس آیت کا مِصداق نہیں ہو سکتے نیز جب وہ جنگ ِ احد میں شہید ہوگئے تو وہ اس کے مِصداق ہوہی نہیں سکتے کہ یہ شخص تو زمانۂ عثمانی میں مرا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ آیت میں جس شخص کا واقعہ مذکور ہے وہ ثعلبہ بن حاطب کے علاوہ کوئی اور ہے اور تفسیر ابن مردویہ میں مذکور حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کے مطابق وہ شخص ’’ثعلبہ بن ابو حاطب‘‘ تھا۔ علامہ محمد بن یوسف صالحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے الاستیعاب میں اور علامہ زبیدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اتحاف میں اس تحقیق سے اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’ ’یہ شخص جس کے باب میں یہ آیت اتری ثعلبہ ابن ابی حاطب ہے اگرچہ یہ بھی قوم اَوس سے تھا اور بعض نے اس کانام بھی ثعلبہ ابن حاطب کہا۔ مگروہ بدری خود زمانۂ اقدس حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں جنگِ اُحد میں شہیدہوئے اور یہ منافق زمانۂ خلافتِ امیرالمومنین عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں مرا۔ (فتاویٰ رضویہ، فوائد تفسیریہ وعلوم قرآن، ۲۶ / ۴۵۳-۴۵۴)
اور علامہ شریف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’صحیح یہ ہے کہ (وہ شخص) ثعلبہ بن ابی حاطب ہے جیسا کہ خازن اور اصابہ میں ہے۔ ثعلبہ بن حاطب بن عمرو صحابیٔ مخلص تھے جو بدر اور اُحد میں شریک ہوئے اور احد میں شہید ہوئے،اور یہ ثعلبہ بن ابی حاطب خلافتِ عثمانی میں مرا۔ (فتاوی شارح بخاری، عقائد متعلقہ صحابۂ کرام، ۲ / ۴۳)
فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۷۷)
ترجمۂکنزالایمان: تو اس کے پیچھے اللہنے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا اس دن تک کہ اس سے ملیں گے بدلہ اس کا کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ جھوٹا کیا اور بدلہ اس کا کہ جھوٹ بولتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو اللہنے انجام کے طور پر اس دن تک کے لئے ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی جس دن وہ اس سے ملیں گے کیونکہ انہوں نے اللہ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی اور جھوٹ بولتے رہے۔
{فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ:تو اللہ نے انجام کے طور پر ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی۔} امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے اِحتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۷، ۶ / ۱۰۸-۱۰۹)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔ (بخاری،کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق، ۱ / ۲۴،الحدیث: ۳۳)
اس آیت سے مزید 4باتیں یہ معلوم ہوئیں ،
(1)… بعض گناہ کبھی بد عقیدگی تک پہنچا دیتے ہیں۔
(2)… غریبی میں خداعَزَّوَجَلَّ کو یاد کرنا اور امیری میں بھول جانا منافقت کی علامت ہے۔
(3)… آدمی کا ایمان و تقویٰ سے محروم ہو جانا بھی عذاب ِ الٰہی ہے۔
(4)… حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وعدہ کرنا اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرنا ہے کیونکہ ثعلبہ نے حضو ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے وعدہ کیا تھا۔
ثعلبہ کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر ہم اپنے حالات میں غور کریں تو یہ نظر آئے گا کہ ہم میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال نہیں یا کہیں سے مال ملنے کی امید ہے تووہ یہ دعا ئیں کرتے ہیں کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، تو ہمیں مال عطا فرما، ہم اس مال کے ذریعے فلاں نیک کام کریں گے ،اس سے فلاں کی مدد کریں گے اور تیرا دیا ہوا مال غریبوں کی بھلائی اور ان کی بہتری میں خرچ کریں گے ۔ اسی طرح بعض لوگ کسی بڑے مالی نقصان ، شدید بیماری یا حادثے سے بچ جانے کے دوران یا بچ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے بہت سے وعدے کرتے ہیں کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، تو ہماری فلاں مشکل اور پریشانی دور فرما دے اور ہمیں فلاں بیماری یا حادثے کی وجہ سے ہونے والے زخموں سے شفا عطا کردے ، ہم اب کبھی تیری نافرمانی نہیں کریں گے اور تیری فرمانبرداری والے کاموں میں اپنی زندگی بسر کریں گے ،نماز روزے کی پابندی کریں گے، اپنے مالوں کی زکوٰۃ دیں گے، ہم نے جن لوگوں کے حقوق ضائع کئے ہیں وہ پورے کر دیں گے ،خود بھی نیک بنیں گے اور دوسروں کو بھی نیک بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوجائیں گے ۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنے کسی قریبی عزیز کے اچانک فوت ہوجانے پر دنیا کے عیش و عشرت اور اس کی رنگینیوں سے دور ہونے اور اپنی قبر و آخرت کی تیاری میں مصروف ہونے کے وعدے کرتے ہیں لیکن جب انہیں مال مل جاتا ہے اور ان پر آنے والی مصیبت ٹل جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں شدید بیماری اور زخمی حالت سے شفا عطا کر دیتا ہے اور قریبی عزیز کے انتقال کو کچھ وقت گزر جاتا ہے تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے سب وعدے بھول جاتے ہیں اور مال ملنے کے بعد اسے نیک کاموں میں خرچ کرنے کا سوچتے نہیں اور غریبوں کو اچھی نظر سے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے اور اپنی سابقہ گناہوں بھری زندگی میں مشغول ہو کر قبر و آخرت کی تیاری سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں۔قرآن اس طرزِ عمل کو منافقوں کا طرز ِعمل قرار دیتا ہے اور یقینا یہ ایک سچے مسلمان کا کردار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت نصیب کرے اور انہیں کامل مسلمان بننے کی توفیق عطا کرے،اٰمین۔
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِۚ(۷۸) اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْؕ-سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ٘-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۹)
ترجمۂکنزالایمان: کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہ ان کے دل کی چھپی اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور یہ کہ اللہ سب غیبوں کا بہت جاننے والا ہے۔ وہ جو عیب لگاتے ہیں ان مسلمانوں کو کہ دل سے خیرات کرتے ہیں اور ان کو جو نہیں پاتے مگر اپنی محنت سے تو ان سے ہنستے ہیں اللہ ان کی ہنسی کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ ان کے دل کی ہرچھپی بات اور ان کی ہر سرگوشی کو جانتا ہے اور یہ کہ اللہسب غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اور وہ جو دل کھول کر خیرات دینے والے مسلمانوں پر اور ان پر جو اپنی محنت مشقت کی بقدر ہی پاتے ہیں عیب لگاتے ہیں پھر ان کا مذاق اڑاتے ہیں تو اللہ انہیں ان کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں تھا ۔} یعنی ان منافقین کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ پر کچھ مخفی نہیں ، وہ ان کے دلوں کی بات بھی جانتا ہے اور جو آپس میں وہ ایک دوسرے سے کہیں وہ بھی جانتا ہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے تو ان کا حال اللہ تعالیٰ سے کیسے مخفی رہ سکتا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۸، ۲ / ۲۶۵)
{اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ:وہ جو عیب لگاتے ہیں۔} شانِ نزول :جب آیتِ صدقہ نازل ہوئی تو لوگ صدقہ لائے، ان میں بعض بہت زیادہ مال لائے انہیں تو منافقین نے ریا کار کہا اور کوئی تھوڑا سا مال لے کر آیا تو منافقین نے ان کے متعلق کہا: اللہ تعالیٰ کو اس کی کیا پرواہ، (یعنی اتنا تھوڑا دینے کا کیا فائدہ۔) اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ جب رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو صدقہ کی رغبت دلائی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار ہزار درہم لائے اور عرض کیا: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میرا کل مال آٹھ ہزار درہم تھا چار ہزار تویہ راہِ خدا میں حاضر ہے اور چار ہزار میں نے گھر والوں کے لئے روک لئے ہیں۔ حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جو تم نے دیا اللہ تعالیٰ اس میں برکت فرمائے اور جو روک لیا اس میں بھی برکت فرمائے۔ حضورِاقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ ان کا مال بہت بڑھا یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے دو بیویا ں چھوڑیں ،انہیں آٹھواں حصہ ملا جس کی مقدار ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم تھی۔ حضرت ابو عقیل انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ چار کلو کے قریب کھجوریں لے کر حاضر ہوئے اور انہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں عرض کیا کہ’’ میں نے آج رات پانی کھینچنے کی مزدوری کی، اس کی اجرت دو صاع کھجوریں ملیں ، ایک صاع تو میں گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا اور ایک صاع راہِ خدا میں حاضر ہے۔ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ صدقہ قبول فرمایا اور اس کی قدر کی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۷۹، ۲ / ۲۶۵)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں مال کی مقدار نہیں دیکھی جاتی بلکہ دلوں کا خلوص دیکھا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))
اس آیت سے تین چیزیں معلوم ہوئیں۔
(1)… جو لوگ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ہر عبادت کو نفاق یا دکھلاوے پر محمول کرتے ہیں اور صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر طعن کرتے ہیں وہ منافقین ہیں۔
(2)…نیک لوگوں کا نیکی پر مذاق اڑانا منافقین کا کام ہے۔ آج بھی بہت سے مسلمان کہلانے والوں کو فلموں ، ڈراموں سے تو تکلیف نہیں ہوتی البتہ دینی شَعائر پر عمل کرنے، دینی حُلیہ اپنانے، دین کا نام لینے سے تکلیف ہوتی ہے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
(3)… نیک بندوں کا مذاق اڑانا، انہیں تہمت لگانا، رب تعالیٰ سے مقابلہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا بدلہ لیتا ہے۔
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْؕ-اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۸۰)
ترجمۂکنزالایمان: تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہواگر تم ستر بار ان کی معافی چاہو گے تو اللہ ہرگز انہیں نہیں بخشے گا یہ اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے منکر ہوئے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے حبیب!) تم ان کی مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو، اگر تم ستر بار بھی ان کی مغفرت طلب کرو گے تو اللہ ہرگز ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا ۔یہ اس لیے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا کرتے تھے اوراللہ فاسقوں کوہدایت نہیں دیتا۔
{ اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ:(اے حبیب!) تم ان کی مغفرت کی دعا مانگو یا نہ مانگو۔} شانِ نزول: اوپر کی آیتیں جب نازل ہوئیں اور منافقین کا نفاق کھل گیا اور مسلمانوں پر ظاہر ہوگیا تو منافقین سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے معذرت کرکے کہنے لگے کہ آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر گز ان کی مغفرت نہ فرمائے گا چاہے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ استغفار میں مبالغہ کریں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ۲ / ۲۶۶)
{ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:یہ اس لیے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا کرتے تھے۔} اس آیت میں منافقوں کو نہ بخشنے کی وجہ بیان فرمائی گئی کہ وہ اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے منکر ہیں اور جو اِن کا منکر ہو اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے لئے اپنی رحمتِعامہ کی بنا پردعا بھی کردیں ، تب بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے نہ بخشے گا۔ اِس نہ بخشنے میں حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی انتہائی عظمت کا اظہار ہے کہ آپ کا منکر جنت میں نہیں جاسکتا۔ معلوم ہوا کہ کافر کو کسی کی دعائے مغفرت فائدہ نہیں دیتی، اس کی بخشش ناممکن ہے۔
{وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ:اور اللہ فاسقوں کوہدایت نہیں دیتا۔} اس سے مراد یہ ہے کہجو ایمان سے خارج ہوں ، جب تک کہ وہ کفر پر قائم رہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں ہدایت نہیں دیتا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۰، ص۴۴۷)اور جوہدایت کاارادہ کرے ، ہدایت اسے ہی ملتی ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ جبراً کسی کو ہدایت نہیں دیتا۔
فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَ كَرِهُوْۤا اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّؕ-قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاؕ-لَوْ كَانُوْا یَفْقَهُوْنَ(۸۱)
ترجمۂکنزالایمان: پیچھے رہ جانے والے اس پر خوش ہوئے کہ وہ رسول کے پیچھے بیٹھ رہے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں لڑیں اور بولے اس گرمی میں نہ نکلو تم فرماؤ جہنم کی آگ سب سے سخت گرم ہے کسی طرح انہیں سمجھ ہوتی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پیچھے رہ جانے والے اس بات پر خوش ہوئے کہ وہ اللہ کے رسول کے پیچھے بیٹھے رہے اور انہیں یہ بات ناپسندتھی کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور انہوں نے کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔ تم فرماؤ: جہنم کی آگ شدید ترین گرم ہے۔کسی طرح یہ لوگ سمجھ لیتے۔
{فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ:پیچھے رہ جانے والے خوش ہوئے۔} غزوۂ تبوک میں گرمی کی شدت، سفر کی دوری، زادِ راہ کی کمی اور جان کے خوف کی وجہ سے منافقین کی ایک بڑی تعداد جہاد میں ساتھ نہ گئی تھی بلکہ حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئی اور یہ لوگ پیچھے رہ جانے پر بڑے خوش تھے کہ شکر ہے کہ تکلیفوں سے جان چھوٹ گئی۔ یہاں انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے اس بات پر خوش ہوئے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پیچھے بیٹھے رہے اور بہانے بنا کر غزوۂ تبوک میں نہ گئے۔
{وَ كَرِهُوْا:اور انہیں یہ بات ناپسندتھی۔} اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی برکت سے نیک اعمال پر دلیری پیدا ہوتی ہے اور کفر و نفاق کی وجہ سے کم ہمتی پیدا ہوتی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’منافقین پرسب نمازوں میں زیادہ بھاری نماز عشا و فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے، اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے آتے۔ (معجم الکبیر، ومن مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۹۹، الحدیث: ۱۰۰۸۲)
اِس آیت و حدیث سے سمجھ آتا ہے کہ جس کو گناہ آسان معلوم ہوں اور نیک کام بھاری محسوس ہوں اور اس وجہ سے وہ گناہ کرے اور نیکیاں نہ کرے تو اس کے دل میں نفاق کی ایک علامت موجود ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّہمیں اس سے محفوظ رکھے،اٰمین۔
{وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ:اور انہوں نے کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔} غزوۂ تبوک کے موقعہ پر موسم بہت گرم تھا۔ اور وہ جگہ بھی بہت گرم تھی ۔ وقت اور علاقے کی گرمی جمع ہو گئی تو ان لوگوں نے ایک دوسرے سے یہ کہا :اس گرمی میں نہ نکلو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، تم فرماؤ: جہنم کی آگ شدید ترین گرم ہے۔ اگر یہ جانتے تو تھوڑی دیر کی گرمی برداشت کرلیتے اور ہمیشہ کی آگ میں جلنے سے اپنے آپ کو بچالیتے۔ (قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۸۱، ۴ / ۱۱۵، الجزء الثامن، ملخصاً)
یہ تو منافقین کا حال تھا، اب یہاں حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ایک سچے عاشق کا حال سنئے۔ چنانچہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت ابوخیثمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ تبوک میں جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے مگر ایک دن وہ شدید گرمی میں کہیں باہر سے آئے تو ان کی بیوی نے چھپر میں چھڑ کاؤ کر رکھا تھا۔ تھوڑی دیر اس سایہ دار ا ور ٹھنڈی جگہمیں بیٹھے لیکن پھر اچانک ان کے دل میں حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خیال آ گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ میں تو اپنی چھپر میں ٹھنڈک اور سایہ میں آرام و چین سے بیٹھا رہوں اور خدا عَزَّوَجَلَّ کے مقدس رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس دھوپ کی تَمازت اور شدید لو کے تھپیڑوں میں سفر کرتے ہوئے جہادکے لئے تشریف لے جا رہے ہوں ، ایک دم ان پر ایساجوشِ ایمانی سوار ہوا کہ توشہ کیلئے کھجور لے کر ایک اونٹ پر سوار ہو گئے اور تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ لشکر والوں نے دور سے ایک شُتر سوار کو دیکھا تو حضوراکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ابوخیثمہ ہوں گے، اس طرح یہ لشکرِ اسلام میں پہنچ گئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۲ / ۲۶۷)
فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا وَّ لْیَبْكُوْا كَثِیْرًاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۸۲)
ترجمۂکنزالایمان: تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا ہنسیں اور بہت روئیں بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا سا ہنس لیں اور بہت زیادہ روئیں (یہ) ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔
{فَلْیَضْحَكُوْا قَلِیْلًا:تو انہیں چاہیے کہ تھوڑا سا ہنس لیں۔ } اس آیت میں منافقین کو تھوڑا ہنسنے اور بہت رونے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ منافقین کی حالت کی خبر دینے کے طور پر کلام کیا گیا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ منافقین اگرچہ اپنی ساری زندگی ہنسیں اور خوشیاں منائیں یہ کم ہے کیونکہ دنیا اپنی درازی کے باوجود قلیل ہے اور آخرت میں ان کا غم اور رونا بہت زیادہ ہو گا کیونکہ آخرت کی سزا ہمیشہ کے لئے ہو گی، کبھی ختم نہ ہو گی اور ختم ہو جانے والی چیز نہ ختم ہونے والی کے مقابلے میں تھوڑی ہی ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۲، ۶ / ۱۱۴، ملخصاً)
تفسیر خازن میں ہے دنیا میں خوش ہونا اور ہنسنا چاہے کتنی ہی دراز مدت کے لئے ہو مگر وہ آخرت کے رونے کے مقابل تھوڑا ہے کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت دائم اور باقی ہے۔ آخرت کا رونا دنیا میں ہنسنے اور خبیث عمل کرنے کا بدلہ ہے۔ (زرقانی، ثمّ غزوۃ تبوک، ۴ / ۸۲)
اس آیت میں اگرچہ منافقین سے متعلق کلام ہے البتہ جداگانہ طور پر ہمیں بہرحال یہی حکم دیا گیا ہے کہ تھوڑا ہنسیں اور گریہ و زاری زیادہ کیا کریں۔ چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تھوڑا ہنستے اور بہت روتے۔ (بخاری،کتاب التفسیر، باب لاتسألوا عن اشیاء۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۱۷، الحدیث: ۴۶۲۱)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرو کیونکہ جہنمی جہنم میں روئیں گے حتّٰی کہ ان کے آنسو ان کے چہروں پرا س طرح بہیں گے گویا کہ وہ نہریں ہیں یہاں تک کہ ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر ان کا خون بہنے لگے گا اور وہ خون اتنا زیادہ بہہ رہا ہو گا کہ ا گرا س میں کشتی چلائی جائے تو چل پڑے۔ (شرح السنّہ، کتاب الفتن، باب صفۃ النار واہلہا، ۷ / ۵۶۵، الحدیث: ۴۳۱۴)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیمار ہوئے تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ساتھ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ جب اندر داخل ہوئے تو انہیں گھر والوں کے جھرمٹ میں پایا، ارشاد فرمایا: کیا فوت ہو گئے؟ لوگوں نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نہیں۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرونے لگے، جب لوگوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ ارشاد فرمایا ’’سنو! بے شک اللہ تعالیٰ آنکھ کے بہنے اور دل کے مغموم ہونے پر عذاب نہیں دیتا بلکہ اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم فرماتا ہے، اور زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب البکاء عند المریض، ۱ / ۴۴۱ رقم ۱۳۰۴)
نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا، ’’اے جبرائیل! عَلَیْہِ السَّلَام، تم کیوں روتے ہو حالانکہ تم بلندترین مقام پر فائز ہو؟ انہوں نے عرض کی ’’میں کیوں نہ روؤں کہ میں رونے کا زیادہ حق دار ہوں کہ کہیں میں اللہتعالیٰ کے علم میں اپنے موجودہ حال کے علاوہ کسی دوسرے حال میں نہ ہوں اور میں نہیں جانتا کہ کہیں ابلیس کی طرح مجھ پر اِبتلا نہ آجائے کہ وہ بھی فرشتوں میں رہتا تھا اور میں نہیں جانتا کہ مجھ پر کہیں ہاروت وماروت کی طرح آزمائش نہ آجائے ۔ یہ سن کر رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی رونے لگے ۔ یہ دونوں روتے رہے یہاں تک کہ نداء دی گئی ، ’’اے جبرائیل !عَلَیْہِ السَّلَام، اور اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کو نافرمانی سے محفوظ فرما دیا ہے ۔ ‘‘پھر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام چلے گئے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ باہر تشریف لے آئے ۔(مکاشفۃ القلوب، الباب التاسع بعد المائۃ فی التخویف من عذاب جہنم، ص۳۱۷)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی کم ہنسنے ، اپنی آخرت کے بارے میں فکرمند ہونے اور گریہ و زاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىٕفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ اَبَدًا وَّ لَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّاؕ-اِنَّكُمْ رَضِیْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ(۸۳)
ترجمۂکنزالایمان: پھر اے محبوب اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کو نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم فرمانا تم کبھی میرے ساتھ نہ چلو اور ہرگز میرے ساتھ کسی دشمن سے نہ لڑو تم نے پہلی دفعہ بیٹھ رہنا پسند کیا تو بیٹھ رہو پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اے حبیب! اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد میں ساتھ نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم فرمادینا کہ تم کبھی بھی میرے ساتھ نہ چلو اور ہرگز میرے ساتھ کسی دشمن سے نہ لڑو۔ تم نے پہلی دفعہ بیٹھے رہنے کو پسند کیا تو (اب) پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔
{فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىٕفَةٍ مِّنْهُمْ:پھر اے محبوب! اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب جو آپ غزوۂ تبوک سے واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو منافقین دھوکہ دہی کے لئے کہیں گے کہ حضور ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم کو اجازت دیں کہ آئندہ جہاد میں آپ کے ہمراہ چلیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۲۶۷) اس میں غیبی خبر ہے کہ وہ ایسا کہیں گے ۔
{فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِیْنَ:تو (اب) پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔} یعنی اب اگر منافقین جہاد میں ساتھ چلنے کی اجازت مانگیں تو ان سے فرما دو کہ اب تم ہرگز کبھی بھی میرے ساتھ نہ چلو اور نہ ہی میرے ساتھ کسی دشمن سے لڑو۔ تم نے پہلی دفعہ جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنے کو پسند کیا تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو یعنی عورتوں بچوں بیماروں اور اپاہجوں کے ساتھ بیٹھ رہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ جس شخص سے دھوکہ اور فریب ظاہر ہو اس سے تعلق ختم کر دینا اور علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے اور محض اسلام کے مُدّعی ہونے سے کسی کو ساتھ ملالینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ منافقین کے جہاد میں جانے کو منع فرمایا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۳، ۲ / ۲۶۷)
آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ہر کلمہ گو کو ملالو اور اس کے ساتھ اتفاق و اتحاد کرو یہ اس حکمِ قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔ اس حکم میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اگر مومنوں کے ساتھ منافقوں کو بھی کسی اہم مہم میں شامل کرلیا جائے تو وہ مسلمانوں کے دلوں میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، جیسے بہادروں کے ساتھ اگر بزدلوں کو بھی کسی مہم میں بھیج دیا جائے تو وہ بزدل اپنی حرکتوں سے بہادروں کے بھی قدموں میں لغزش پیدا کردیں گے۔
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ-اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ(۸۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بیشک وہ اللہ و رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور نافرمانی کی حالت میں مرگئے ۔
{وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا:اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا ۔} اس آیت میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو منافقین کے جنازے کی نماز اور ان کے دفن میں شرکت کرنے سے منع فرمایا گیا اور اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول منافقوں کا سردار تھا، جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو مسلمان صالح مخلص صحابی اور کثیرُ العبادت تھے انہوں نے یہ خواہش کی کہ سیّدِ عالَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے باپ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو کفن کے لئے اپنا قمیص مبارک عنایت فرمادیں اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیں۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے اس کے خلاف تھی لیکن چونکہ اس وقت تک ممانعت نہیں ہوئی تھی اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معلوم تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ عمل بہت سے منافقین کے ایمان لانے کا باعث ہوگا اس لئے حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنی قمیص بھی عنایت فرمائی اور جنازہ میں شرکت بھی کی۔ قمیص دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو بدر میں اسیر ہو کر آئے تھے تو عبداللہ بن اُبی نے اپنا کرتہ انہیں پہنایا تھا۔ حضورانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کا بدلہ دینا بھی منظور تھا لہٰذا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قمیص بھی دیا اور جنازہ بھی پڑھایا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کے بعد پھر کبھی سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی منافق کے جنازہ میں شرکت نہ فرمائی اور حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وہ مصلحت بھی پوری ہوئی۔ چنانچہ جب منافقین نے دیکھا کہ ایسا شدید عداوت والا شخص جب سیّدِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کرتے سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے عقیدے میں بھی آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور اس کے سچّے رسول ہیں یہ دیکھ کرایک بڑی تعدادمسلمان ہوگئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۴، ۲ / ۲۶۸-۲۶۹)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اگر کوئی کافر مر جائے تو مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس کے مرنے پر نہ اس کے لئے دعا کرے اور نہ ہی ا س کی قبر پر کھڑا ہو۔ افسوس! فی زمانہ حال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے ملک میں کوئی بڑا کافر مر جاتا ہے تو مسلمانوں کی سربراہی کے دعوے دار اس کے مرنے پر اس طرح اظہارِ افسوس کرتے ہیں جیسے اِ ن کا کوئی اپنا بڑا فوت ہوگیا ہو اور اگر اس کی قبر بنی ہو تو اس پر کھڑے ہو کر دعا ئیں مانگتے ہیں۔ یہ دعا بالکل حرام ہے۔
آیت کی مناسبت سے ہم یہاں کافر،فاسق اور مسلمان کے جنازے سے متعلق چند شرعی مسائل ذکر کرتے ہیں
(1)… اس آیت سے ثابت ہوا کہ کافر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافر کی قبر پر دفن و زیارت کے لئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا ’’اور فسق ہی میں مرگئے‘‘یہاں فسق سے کفر مراد ہے قرآنِ کریم میں اور جگہ بھی فسق بمعنی کفر وارد ہوا ہے جیسے کہ آیت ’’ اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا‘‘ (السجدۃ :۳۲)(توکیا جو ایمان والا ہے وہ اس جیسا ہوجائے گا جو نافرمان ہے)میں۔
(2)… فاسق کے جنازے کی نماز جائز بلکہ فرضِ کِفایہ ہے ،اس پر صحابہ اور تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا اجماع ہے اور اس پر علماء و صالحین کا عمل اور یہی اہلِ سنت و جما عت کا مذہب ہے۔
(3)… جب کوئی کافر مر جائے اور اس کا ولی مسلمان ہو تو اس کو چاہیے کہ بطریق مَسنون غسل نہ دے بلکہ اس پر پانی بہا دے اور نہ کفن مسنون دے بلکہ اتنے کپڑے میں لپیٹ دے جس سے اس کا ستر چھپ جائے اور نہ سنت طریقہ پر دفن کرے اور نہ بطریقِ سنت قبر بنائے ،صرف گڑھا کھود کر اندر رکھ دے ۔
وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۸۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان کے مال یا اولاد پر تعجب نہ کرنا اللہ یہی چاہتا ہے کہ اسے دنیا میں ان پر وبال کرے اور کفر ہی پر ان کا دم نکل جائے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان کے مال اور اولاد تمہیں تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ یہی چاہتا ہے کہ انہیں اس کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور کفر کی حالت میں ان کی روح نکل جائے۔
{وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ:اور ان کے مال اوراولاد تمہیں تعجب میں نہ ڈالیں۔} اس آیت کی تفسیر آیت نمبر 55 کے تحت گزر چکی ہے اور یہاں منافقوں کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنے کو دوبارہ ذکر کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ لوگ اس بات کو بھول نہ جائیں اور اس سے غافل نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھیں کہ اس پر عمل کرنا انتہائی اہم ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جن میں مشغولیت کی وجہ سے دل بہت جلد دنیا کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور جو چیز دنیا کی طرف زیادہ راغب کرنے والی ہواس سے بار بار بچنے کا حکم دیاجاتاہے ا س لئے یہاں دوبارہ منافقوں کے مال اور اولاد پر تعجب نہ کرنے کافرما یاگیا ہے۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۲۶۹، تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۵، ۶ / ۱۱۸، ملتقطاً)
وَ اِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ اَنْ اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهِ اسْتَاْذَنَكَ اُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَ قَالُوْا ذَرْنَا نَكُنْ مَّعَ الْقٰعِدِیْنَ(۸۶) رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ وَ طُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَفْقَهُوْنَ(۸۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب کوئی سورت اترے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ جہاد کرو تو ان کے مقدور والے تم سے رخصت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دیجیے کہ بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ہولیں۔انہیں پسند آیا کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ ہوجائیں اور ان کے دلوں پر مہُر کردی گئی تووہ کچھ نہیں سمجھتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ جہاد کرو تو ان کے قوت و طاقت رکھنے والے تم سے رخصت مانگتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں چھوڑ دیجیے تاکہ بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہوجائیں۔انہیں یہ پسند آیا کہ پیچھے رہنے والی عورتوں کے ساتھ ہوجائیں اور ان کے دلوں پر مہُرلگادی گئی تو وہ کچھ سمجھتے نہیں۔
{اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ جَاهِدُوْا مَعَ رَسُوْلِهِ:اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ہمراہ جہاد کرو۔}بعض علماء نے اس آیت کی بنا پر فرمایا کہ ایمان کے بعد جہاد کا درجہ ہے اور جہاد اعلیٰ درجے کی عبادت ہے کہ رب تعالیٰ نے اسے ایمان کے بعد ذکر فرمایا۔ مگر حق یہ ہے کہ نماز سب سے اعلیٰ درجے والی عبادت ہے کہ جہاد اس کے قائم کرنے کے لئے ہے ۔ یہ آیت اس خصوصی موقعہ کے لحاظ سے ہے جب جہاد کی سخت ضرورت تھی۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قدرت کے باوجود دینِ اسلام کی مدد نہ کرنا منافقوں کاعمل ہے کہ فرمایا گیا : ان منافقوں میں سے جو قدرت والے ہیں وہ آپ سے جہاد میں نہ جانے کی رخصت مانگ رہے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو کفار کے ظلم و ستم کا شکار مسلمانوں کی مدد کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کی مدد نہیں کرتے اور انہیں بے یار و مدد گار چھوڑے ہوئے ہیں ، اسی طرح ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو اہلسنّت کے عقائد و معمولات کا دفاع کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کا دفاع نہیں کرتے اور سنی عوام کو بد مذہبوں کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں اور وہ لوگ بھی اس سے نصیحت حاصل کریں جو لوگوں کو گناہ سے روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں گناہ سے نہیں روکتے اور انہیں نفس و شیطان کے واروں کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ رکھا ہے ، اسی وجہ سے علماء نے جمعہ کے دن پڑھے جانے والے خطبات میں یہ لکھا ہے کہ اے اللہ! اس کی مدد کر جو ہمارے سردار اور ہمارے مولیٰ محمد (مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کی مدد کرے اور اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے جو ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد ( مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے دین کو فراموش کردے۔
{وَ طُبِـعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ:اور ان کے دلوں پر مہُرلگادی گئی۔} یعنی ان کے کفر و نفاق اختیار کرنے کے باعث ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی تو وہ کچھ سمجھتے نہیں کہ جہاد میں کیا کامیابی و سعادت اور بیٹھ رہنے میں کیسی ہلاکت و شقاوت ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۷، ص۴۴۹)
لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْخَیْرٰتُ٘-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۸۸)اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۸۹)
ترجمۂکنزالایمان: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں جانوں سے جہاد کیا اور انہیں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی مراد کو پہونچے۔ اللہ نے ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں بہشتیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی مراد ملنی ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں اورجانوں کے ساتھ جہاد کیا اور انہیں کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی کامیاب ہونے والے ہیں۔اور اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے ۔یہی بڑی کامیابی ہے۔
{لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ:لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے۔} اس سے پہلی آیات میں جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے میں منافقوں کا حال بیان کیا گیا اور اس آیت سے نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جذبۂ جہاد بیان کیا گیا کہ انہوں نے اللہتعالیٰ کی رضا کی طلب میں اور اس کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کے لئے اپنے مال اور اپنی جانیں دونوں خرچ کر دیں۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۸۸، ۶ / ۱۱۹)
اس آیت سے دومسئلے معلوم ہوئے
(1)… جنت اور وہاں کی نعمتیں پیدا ہو چکی ہیں۔
(2)… جنتی اپنی اپنی جنت کے پورے پورے مالک ہوں گے۔ وہاں صرف مہمان کی طرح بغیر ملکیت کے نہ ہوں گے البتہ ان کی خاطِر تواضُع مہمانوں کی سی ہوگی۔
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۹۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور بہانے بنانے والے گنوار آئے کہ انہیں رخصت دی جائے اور بیٹھ رہے وہ جنہوں نے اللہ و رسول سے جھوٹ بولا تھا جلد ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب پہونچے گا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور عذر پیش کرنے والے دیہاتی آئے تا کہ انہیں رخصت دیدی جائے اور اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولنے والے بیٹھے رہے ۔ ان میں سے کافروں کو عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔
{وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ:اور عذر پیش کرنے والے دیہاتی آئے۔} تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں جہاد سے رہ جانے کا عذر پیش کرنے کیلئے دیہاتی آئے ۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہ عامر بن طفیل کی جماعت تھی انہوں نے سرورِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کی: یا نَبِیَّ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر ہم آپ کے ساتھ جہاد میں جائیں تو قبیلہ طے کے عرب ہمارے بیوی بچوں اور جانوروں کو لوٹ لیں گے۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے حال سے خبردار کیا ہے اور وہ مجھے تم سے بے نیاز کرے گا ۔عمرو بن علاء نے کہا کہ ان لوگوں نے باطل عذر بنا کر پیش کیا تھا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۲۷۱)
{وَ قَعَدَ:اور بیٹھے رہے۔} یہ دوسرے گروہ کا حال ہے جو بغیر کسی عذر کے بیٹھ رہے یہ منافقین تھے انہوں نے ایمان کا دعویٰ جھوٹا کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ سے جھوٹ بولنا ہے کیونکہ ان بد نصیبوں نے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جھوٹ بولا ، اِس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جھوٹ بولا۔
{سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ:ان میں سے کافروں کو عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا۔} یعنی ان منافقوں میں سے جو کھلے کافر بن جائیں ، انہیں دنیا میں قتل و غارت کا عذاب ہو گا یا ان منافقوں میں سے جو آخر دم تک کفر پر قائم رہیں ،ا نہیں آخرت کا درد ناک عذاب ہو گا۔
لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖؕ-مَا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۙ(۹۱)
ترجمۂکنزالایمان: ضعیفوں پر کچھ حرج نہیں ا ور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جنہیں خرچ کا مقدور نہ ہو جب کہ اللہ و رسول کے خیر خواہ رہیں نیکی والوں پر کوئی راہ نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کمزوروں پر اور بیماروں پر اورخرچ کرنے کی طاقت نہ رکھنے والوں پر کوئی حرج نہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ رہیں۔ نیکی کرنے والوں پر کوئی راہ نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ:کمزوروں پرکوئی حرج نہیں۔} باطل عذر والوں کا ذکر فرمانے کے بعد سچے عذر والوں کے متعلق فرمایا کہ ان پر سے جہاد کی فرضیت ساقط ہے ۔یہ کون لوگ ہیں ؟ان کے چند طبقے بیان فرمائے
پہلا طبقہ ضعیف جیسے کہ بوڑھے ،بچے ، عورتیں اور وہ شخص بھی انہیں میں داخل ہے جو پیدائشی کمزور ضعیف ونحیف ہو۔
دوسرا طبقہ بیمار، اس میں اندھے ،لنگڑے، اپاہج بھی داخل ہیں۔
تیسرا طبقہ وہ لوگ جنہیں خرچ کرنے کی قدرت نہ ہو اور سامانِ جہاد نہ کرسکیں یہ لوگ رہ جائیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔(تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱)
{اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ:جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ رہیں۔} یعنی ان کی اطاعت کریں اور مجاہدین کے گھر والوں کی خبر گیری رکھیں۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۱، ۶ / ۱۲۱، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی رب تعالیٰ کی خیر خواہی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی نیکی نہ کر سکے مگر نیکیوں کا دل سے خیر خواہ رہے تب بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ نیکوں میں شمار ہو گا۔ آیت کا مَنشا یہ ہے کہ مجبور مسلمان جو جہاد میں شریک نہ ہو سکیں وہ مدینہ میں رہ کر اللہ رسول عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خیر خواہی میں مجاہدین کے بچوں کی خدمت کریں۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تم مدینہ منورہ میں ایسے لوگوں کو بھی چھوڑ آئے ہو کہ تم جو سفر کر رہے ہو ،جو مال خرچ کر رہے ہو اور جن وادیوں کو طے کر رہے ہو ہر کام میں وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، وہ ہمارے ساتھ کس طرح شمار ہو گئے جبکہ وہ تو مدینہ منورہ میں ہیں ، ارشاد فرمایا: انہیں مجبوری نے روکا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی الرخصۃ فی القعود من العذر، ۳ / ۱۷، الحدیث: ۲۵۰۸)
وَّ لَا عَلَى الَّذِیْنَ اِذَا مَاۤ اَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحْمِلُكُمْ عَلَیْهِ۪ - تَوَلَّوْا وَّ اَعْیُنُهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَؕ(۹۲) اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَ هُمْ اَغْنِیَآءُۚ-رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِۙ-وَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۹۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور نہ ان پر جو تمہارے حضور حاضر ہوں کہ تم انہیں سواری عطا فرماؤ تم سے یہ جواب پائیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تمہیں سوار کروں اس پر یوں واپس جائیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو ابلتے ہوں اس غم سے کہ خرچ کا مقدور نہ پایا۔مؤاخذہ تو ان سے ہے جو تم سے رخصت مانگتے ہیں اور وہ دولت مند ہیں انہیں پسند آیا کہ عورتوں کے ساتھ پیچھے بیٹھ رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر کردی تو وہ کچھ نہیں جانتے ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور نہ ان پر کوئی حرج ہے جوآپ کے پاس اس لئے آتے ہیں تاکہ آپ انہیں سواری دیدیں (لیکن آپ ) فرما دیتے ہیں : میں تمہارے لئے کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کردوں تو وہ اس حال میں لوٹ جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہہ رہے ہوں کہ وہ خرچ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔مواخذہ تو ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہونے کے باوجود آپ سے رخصت مانگتے ہیں۔ انہیں یہ پسند ہے کہ عورتوں کے ساتھ پیچھے بیٹھ رہیں اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہرلگادی تو وہ کچھ نہیں جانتے ۔
{وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ:اور نہ ان پر کوئی حرج ہے۔} شانِ نزول: حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو اپنے ساتھ جہاد میں جانے کا حکم دیا تو صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی ایک جماعت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں حاضر ہوئی، ان میں حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے، انہوں نے عرض کی! یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں کوئی سواری عطا کیجئے۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا ’’اللہ کی قسم ! میرے پاس کوئی سواری نہیں کہ جس پر میں تمہیں سوار کروں۔ وہ روتے ہوئے واپس چلے گئے کیونکہ جہاد سے رہ جانا ان پر بہت گراں تھا اور ان کے پاس زادِ راہ تھا، نہ سواری۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے محبت اور جہاد پر حرص کی وجہ سے ان کے عذر میں یہ آیتیں بیان فرمائیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۲، ۶ / ۱۸۶۳-۱۸۶۴)
اس آیت ِ مبارکہ اور اس کے شانِ نزول کے واقعہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے جذبہ ِ جہاد ، شوقِ عبادت اور ذوقِ اطاعت کاپتہ چلتا ہے کہ ایک طرف تو منافقین ہیں جو قدرت ہونے کے باوجود جھوٹے حیلے بہانے کرکے جہاد سے جان چھڑاتے ہیں اور ایک طرف یہ کامل الایمان، مخلص غلام ہیں جو شرعاً رخصت و اجازت ہونے کے باوجود جہاد نہ کرسکنے اور اس عبادت میں شریک نہ ہوسکنے کے غم میں آنسو بہارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسا ذوق و شوق عطا فرمائے۔
{اِنَّمَا
السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ:مواخذہ تو ان لوگوں پر ہے۔} یعنی
مُواخَذہ تو ان لوگوں پر ہے جو جہاد میں جانے کی قدرت رکھتے ہیں ، اس کے باوجود
آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے رخصت مانگتے
ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت
الآیۃ: ۹۳، ص۴۵۰)
(یَعْتَذِرُوْنَ)
پارہ نمبر…11
یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْهِمْؕ-قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْؕ-وَ سَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۹۴)
ترجمۂکنزالایمان: تم سے بہانے بنائیں گے جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تم فرمانا بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے اللہ نے ہمیں تمہاری خبریں دے دی ہیں اور اب اللہ و رسول تمہارے کام دیکھیں گے پھر اس کی طرف پلٹ کر جاؤ گے جو چھپے اور ظاہر سب کو جانتا ہے وہ تمہیں جتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: جب تم ان کے پاس لوٹ کر جاؤگے تو یہ تم سے بہانے بنائیں گے ۔ تم فرماؤ : بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے اللہ نے ہمیں تمہاری خبریں دیدی ہیں اور اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھیں گے پھر تمہیں اس کی طرف لوٹایا جائے گا جو غیب اور ظاہر کو جاننے والا ہے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال بتادے گا۔
{یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ:تم سے بہانے بنائیں گے ۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اور آپ کے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم جب غزوۂ تبوک سے واپس مدینہ منورہ پہنچیں گے تو غزوہ سے رہ جانے والے منافقین جھوٹے بہانے بنا کر اور باطل عذر پیش کر کے آپ سب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ان سے فرما دینا کہ بہانے مت بناؤ، جو عذر تم پیش کر رہے ہو ہم اس کی ہر گز تصدیق نہیں کریں گے، تم نے جو کچھ کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں اس کی خبریں دیدی ہیں اور اب اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے کام دیکھیں گے کہ تم نفاق سے توبہ کرتے ہو یا اس پر قائم رہتے ہو۔ بعض مفسرین نے کہا کہ منافقین نے وعدہ کیا تھا کہ زمانۂ مستقبل میں وہ مومنین کی مدد کریں گے، ہوسکتا ہے کہ اسی کے متعلق فرمایا گیا ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمہارے کام دیکھیں گے کہ تم اپنے اس عہد کو بھی وفا کرتے ہو یا نہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۲۷۲-۲۷۳)
{عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ:غیب اور ظاہر کو جاننے والا ہے۔} یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عالم الغیب بیان فرمائی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وصف ِ خاص ہے یعنی اللہ نے جن مقربینِ بارگاہ کو غیب کا علم عطا فرمایا ہے ان کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے وہ غیب جانتے ہیں یا غیب پر مطلع ہیں یا غیب پر خبردار ہیں لیکن انہیں عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا کہ اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جیسے لفظ ِ رحمٰن ہے۔ اس مسئلہ پر عقیدہ ٔاہلسنّت جاننے کیلئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں ’’ہماری تحقیق میں لفظ ’’عالم الغیب ‘‘کا اطلاق حضرت عزت عَزَّجَلَالُہ کے ساتھ خاص ہے کہ اُس سے عرفاً علم بالذات متبادر ہے اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔ حضورپر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قطعاً بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں مگر ’’عالم الغیب‘‘ صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کہا جائے گا۔ جس طرح حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قطعاً عزت جلالت والے ہیں ، تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل ہے نہ ہوسکتا ہے، مگر محمدعَزَّوَجَلَّ کہنا جائز نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ و محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کہا جائے گا)۔(فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۵)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’علم غیب بالذات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے خاص ہے کفار اپنے معبود انِ باطل وغیرہم کیلئے مانتے تھے لہٰذا مخلوق کو’’ عالم الغیب ‘‘کہنا مکروہ ، اور یوں (کہنے میں ) کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے سے امورِ غیب پر انہیں اطلاع ہے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۵۷۵)
اور فرماتے ہیں ’’اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے، یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے ،جو اس کا منکر ہوکافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں محمَّد رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء و تمام جہان سے اتم و اعظم ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیب اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، ۲۹ / ۴۵۱)
سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ- اِنَّهُمْ رِجْسٌ٘-وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۹۵)
ترجمۂکنزالایمان: اب تمہارے آگے اللہ کی قسم کھائیں گے جب تم ان کی طرف پلٹ کر جاؤ گے اس لیے کہ تم ان کے خیال میں نہ پڑو تو ہاں تم ان کا خیال چھوڑو وہ تو نرے پلید ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اب جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے درگزر کرو تو تم ان سے اعراض ہی کرو۔ یہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔
{سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ: اب تمہارے سامنے اللہکی قسمیں کھائیں گے ۔} ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جب آپ اپنے اس سفر سے واپس ہو کر مدینہ طیبہ میں ، غزوے میں شرکت نہ کرنے والے منافقین کی طرف لوٹ کر جائیں گے تو یہ آپ کے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّکی قسمیں کھائیں گے تاکہ آپ ان سے درگزر کریں اور پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان پر ملامت و عتاب نہ کریں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ منافق و گمراہ زیادہ قسمیں کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِعَزَّوَجَلَّ! مومنوں کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔
{فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ:تو تم ان سے اعراض ہی کرو۔} بعض مفسرین نے فرمایا :’’اس سے مراد یہ ہے کہ اُن کے ساتھ بیٹھنا اور ان سے بولنا ترک کردو۔ چنانچہ جب نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضور ِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ منافقین کے پاس بیٹھیں ، نہ اُن سے بات کریں کیونکہ اُن کے باطن خبیث اور اعمال برے ہیں اور ملامت و عتاب سے ان کی اصلاح نہ ہوگی ،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناپاک ہیں اور ان کے پاک ہونے کا کوئی طریقہ نہیں ، آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ ان کے دنیا میں کیے ہوئے خبیث اعمال کا بدلہ ہے۔ شانِ نزول: حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ یہ آیت جد بن قیس ، معتب بن قشیر اور ان دونوں کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ 80 منافق تھے ۔نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ ان کے پاس بیٹھو ،نہ ان سے کلام کرو۔ مقاتل نے کہا کہ یہ آیت عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے قسم کھائی تھی کہ اب کبھی وہ جہاد میں جانے سے سستی نہ کرے گا اور سیدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے درخواست کی تھی کہ حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس سے راضی ہوجائیں ، اس پر یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ۲ / ۲۷۳، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۵، ص۴۵۰، ملتقطاً)
یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْۚ-فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ(۹۶)
ترجمۂکنزالایمان: تمہارے آگے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ تو اگر تم ان سے راضی ہوجاؤ تو بیشک اللہتو فاسق لوگوں سے راضی نہ ہوگا ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم ان سے راضی ہوجاؤ تو اگر تم ان سے راضی ہو (بھی) جاؤ تو بیشک اللہ تو نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوگا۔
{یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ:تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔} یعنی اے مسلمانو! منافقین تمہارے سامنے تمہاری رضا حاصل کرنے کے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ اس طرح انہیں دنیا میں نفع حاصل ہو، اے ایمان والو! اگر تم ان کی قسموں کا اعتبار اور ان کے عذر قبول کرتے ہوئے ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہیں کوئی فائدہ نہ ہو گا کیونکہ اللہتعالیٰ اُن کے دل کے کفر و نفاق کو جانتا ہے، وہ ان سے کبھی راضی نہ ہو گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ۲ / ۲۷۳، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۶، ص۴۵۰، ملتقطاً)
اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانا منافقین کا کام ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جھوٹی قسمیں کھانے والے فاسق ہیں۔
اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّ نِفَاقًا وَّ اَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۹۷)
ترجمۂکنزالایمان: گنوار کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ اللہ نے جو حکم اپنے رسول پر اتارے اس سے جاہل رہیں اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: دیہاتی (منافق) کفر اورمنافقت میں زیادہ سخت ہیں اور اس قابل ہیں کہ اُن احکام سے جاہل رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔
{اَلْاَعْرَابُ:دیہاتی۔} یعنی دیہات میں رہنے والے منافق کفر اور منافقت میں شہر میں رہنے والوں سے زیادہ سخت ہیں ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لوگ علم کی مجالس اور علماء کی صحبت سے دور رہتے ہیں ، قرآن و حدیث اور وعظ ونصیحت نہیں سنتے ۔ وہ اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جوفرائض، سُنَن اور اَحکام اپنے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل فرمائے ہیں ان سے جاہل رہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۷، ۲ / ۲۷۳)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہالت شدت پیدا کرتی ہے لہٰذا جو شخص بلا وجہ شدت کا عادی ہے وہ علم سے دور ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی ایک گروہ ایسی شدت کی طرف مائل ہے کہ سب کو مشرک قرار دیتا ہے یہ شدت بھی جہالت کی علامت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دیہات والوں کو بھی چاہیے کہ علم حاصل کریں اور علماء و صالحین کی صحبت اختیار کریں کیونکہ علم اور اچھی صحبت جہالت و بے عملی کو ختم کردیتی ہے اور علم کی وجہ سے بے جا کی شدت کا خاتمہ ہوتا ہے۔
وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّ یَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآىٕرَؕ-عَلَیْهِمْ دَآىٕرَةُ السَّوْءِؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۹۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور کچھ گنوار وہ ہیں کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کریں اسے تاوان سمجھیں اور تم پر گردشیں آنے کے انتظار میں رہیں انہیں پر ہے بری گردش اور اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کچھ دیہاتی وہ ہیں کہ وہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تم پر گردشیں آنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ بری گردش انہی پر ہے اور اللہ سننے والا جاننے والاہے۔
{وَ مِنَ الْاَعْرَابِ:اور کچھ دیہاتی۔} اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں رضائے الٰہی اور طلبِ ثواب کے لئے تو کرتے نہیں بلکہ ریا کاری کے طور پر اور مسلمانوں کے خوف سے خرچ کرتے ہیں اور وہ مسلمانوں پر گردشیں آنے کے انتظار میں رہتے ہیں اور یہ راہ دیکھتے ہیں کہ کب مسلمانوں کا زور کم ہو اور کب وہ مغلوب ہوں ، انہیں خبر نہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کیا منظورہے ، وہ اللہتعالیٰ نے بتا دیا کہ بری گردش انہی پر ہے اور وہی رنج و بلا اور بدحالی میں گرفتار ہوں گے۔ شانِ نزول: یہ آیت قبیلہ اسد، غطفان ا ور تمیم کے دیہاتیوں کے بارے میں نازل ہوئی پھر اللہتعالیٰ نے ان میں سے جن کو علیحدہ کیا ان کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۸، ۲ / ۲۷۴)
اس آیت میں منافقت کی مزید دو علامتیں بیان کی گئی ہیں ، ایک تو یہ کہ وہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو ٹیکس اور تاوان کی طرح سمجھتے ہیں اس لئے کبھی خوشدلی سے خرچ نہیں کرتے اور دوسری یہ کہ مسلمانوں کے نقصان کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآنِ مجید کی آیات ہماری اصلاح کیلئے نازل ہوئی ہیں ا س لئے ہمیں بھی اپنے حال پر غور کرنا چاہیے کیونکہ آج ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگ ہیں جو راہِ خدا میں خرچ کرنے کو اپنے عمل سے ٹیکس کی طرح سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے نقصان کے خواہشمند رہتے ہیں۔
وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوْلِؕ-اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْؕ-سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۹۹)
ترجمۂکنزالایمان: اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھیں ہاں ہاں وہ ان کے لیے باعث قرب ہے اللہ جلد انہیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں نزدیکیوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہیں۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
{وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ:اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔} اس سے پہلی آیت میں بیان فرمایا گیا کہ کچھ دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا جا رہاہے کہ دیہاتیوں میں بعض حضرات ایسے ہیں جو نیک اور صالح مومن ہیں ، راہِ خدا میں جہاد کرنے والے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو غنیمت تَصَوُّر کرتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے بعض حضرات ایسے ہیں کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں نزدیکیوں اور رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں کہ جب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں صدقہ پیش کریں گے تو حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کیلئے خیرو برکت و مغفرت کی دعا فرمائیں گے۔( تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۶ / ۱۲۶-۱۲۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۲۷۴، ملتقطاً)
اس آیت میں جن دیہاتیوں کا ذکر ہوا ان کے بارے میں امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ قبیلہ مُزَیْنَہ میں سے بنی مُقَرَّنہیں۔ کلبی نے کہا وہ اسلم ،غِفار اور جُہَینہ کے قبیلے ہیں۔ (بغوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۲ / ۲۷۰)
ان قبائل کے بارے میں صحیح بخاری او رمسلم میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ قریش ، انصار ، جُہَینہ ،مُزَیْنَہ ، اسلم ، غفارا ورا شجع کے لوگ ہمارے دوست ہیں ، ان کامولیٰ اللہ اور رسول کے سوا اور کوئی نہیں۔(بخاری، کتاب المناقب، باب ذکر اسلم وغفار ومزینۃ۔۔۔ الخ، ۲ / ۴۷۷، الحدیث: ۳۵۱۲، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم لغفار واسلم، ص۱۳۶۵، الحدیث: ۱۸۹(۲۵۲۰))
اس سے دو مسئلے معلوم ہوئے۔
(1)… اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت کو ماننے والا وہی ہے جو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے کیونکہ دوسرے گنوار بھی اللہ تعالیٰ اور قیامت کو مانتے تھے مگر انہیں منکرین میں شامل کیا گیا۔
(2)… تمام اعمال پر ایمان مقدم ہے ۔یاد رہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت پر ایمان میں تمام ایمانیات داخل ہیں لہٰذا قیامت، جنت دوزخ، حشر، نشر سب ہی پر ایمان ضروری ہے ۔
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ آیت کے اس حصے ’’ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ‘‘ اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں ’’ کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر نعمت میں سب سے بڑا واسطہ ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لئے جو بھی عمل کیا جائے ا س میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے، ارشاد فرمایا :
’’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘‘ (ال عمران:۳۱)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبرداربن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔
تو جو یہ گمان رکھے کہ وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو واسطہ اور وسیلہ بنائے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے گا تو یہ اس کی خام خیالی اور بیکار کوشش ہے ۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
معلوم ہوا کہ نیک اعمال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشنودی کی نیت کرنا شرک نہیں بلکہ قبولیت کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور ِ اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ئےمبارک ساری کائنات سے مُنفرد اور جداگانہ چیز ہے کیونکہ یہاں آیت میں قرب ِ الٰہی کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کا حصول ایک مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ كی خوشی کیلئے بطورِ خاص کوشش کیا کرتے تھے جیسے اَحادیث میں ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں زیادہ تر نذرانے اس دن پیش کیا کرتے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا کے گھر تشریف فرما ہوتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے زیادہ محبت ہے ۔ اسی طرح سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خوشی ہی کیلئے خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے اَزواجِ مُطہّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکیلئے وظائف مقرر کئے ہوئے تھے۔
تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا عمل مبارک یہی تھا کہ جب آپ کی بارگاہ میں کوئی صدقہ حاضر کرتا تو اس کے لئے خیر وبرکت اور بخشش کی دعا فرماتے ۔اس سے معلوم ہو اکہ صدقہ وصول کرنے والے کیلئے سنت یہ ہے کہ صدقہ دینے والے کو دعائے خیر سے نوازے۔
{اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ:سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہے۔} یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے۔ (جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۹۹، ۳ / ۸۳۱)
اِس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی نہایت عظمت کا بیان ہے اور وہ یوں کہ ویسے تو ہر نیک عمل اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قرب کا ذریعہ ہے لیکن راہِ خدا میں خرچ کرنا ایسا خاص عمل ہے کہ جس کو بطورِ خاص اللہ عَزَّوَجَلَّنے اپنے قرب کا ذریعہ قرآن میں بیان فرمایا ہے۔
یہاں آیت کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے قرب سے متعلق3اَحادیث ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے میں اسے اعلانِ جنگ دیتا ہوں اور میرے کسی بندے کا فرض عبادتوں کے مقابلے میں دوسری عبادتوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں اور میرا بندہ (فرض عبادات کی ادائیگی کے ساتھ) نَوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، حتّٰی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، پھر جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے دیتا ہوں اور اگر میری پناہ لیتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور جو مجھے کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی میں تردد نہیں کرتا جیسے کہ میں اس مومن کی جان نکالنے میں توقف کرتا ہوں جو موت سے گھبراتا ہے اور میں اسے ناخوش کرنا پسند نہیں کرتا ادھر موت بھی اس کے لیے ضروری ہے۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزّوجل والتقرّب الیہ، الفصل الاول، ۱ / ۴۲۳، الحدیث: ۲۲۶۶)
(2)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اکیلے ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر گروہ میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت گز بھر اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر ا س کی طرف جاتی ہے۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذّرکم اللہ نفسہ، ۴ / ۵۴۱، الحدیث: ۷۴۰۵)
(3)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جو ایک نیکی کرے اسے دس گنا ثواب ہے اور زیادہ بھی دوں گا اور جو ایک گناہ کرے تو ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے یا (میں چاہوں تو ) اسے بخش دوں اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میری رحمت ایک گز اس کے نزدیک ہوجاتی ہے اورجو مجھ سے ایک گز نزدیک ہو تا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ برابر اس سے قریب ہوجاتی ہے ، جو میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تومیری رحمت اس کی طرف دوڑتی ہوئی آتی ہے، اور جو کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائے پھر زمین بھر گناہ لے کر مجھ سے ملے تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا۔ (مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الذکر والدعاء والتقرّب الی اللہ تعالی، ص۱۴۴۳، الحدیث: ۲۲(۲۶۸۷))
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اولین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔
{وَ السّٰبِقُوْنَ:اور سبقت لے جانے ۔} اس آیت کی ابتداء میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے دو گروہوں کا ذکر ہوا۔
(1)… سابقین مہاجرین یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے مہاجرین ۔ان کے بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نمازیں پڑھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بدر مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ ان سے اہلِ بیت ِرضوان مراد ہیں۔
(2)… سابقین انصار یعنی ایمان قبول کرنے میں دوسروں پر سبقت لے جانے والے انصار۔ ان سے مراد وہ صحابۂ کرامرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں کہ جو بیعتِ عَقَبۂ اُولیٰ میں شریک تھے جن کی تعداد چھ تھی، یونہی بیعتِ عقبۂ ثانیہ میں شریک بارہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بیعتِ عقبۂ ثالثہ میں شریک ستر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی سابقین انصار کہلاتے ہیں۔ پھر سابقین کے گروہ میں بھی جو ایمان قبول کرنے میں سب سے سابق ہیں وہ یہ حضرات ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا یعنی مردوں میں سب پہلے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے، عورتوں میں سب سے پہلے اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھانے، بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اور غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایمان قبول کیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۳ / ۲۷۴، ملخصاً)
{وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ: اور جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں۔} بعض مفسرین نے فرمایا کہ ان سے باقی مہاجرین و انصار مراد ہیں ، اس قول کے مطابق تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اس آیت میں داخل ہوگئے اور ایک قول یہ ہے کہ پیرو ی کرنے والوں سے قیامت تک کے وہ ایماندار مراد ہیں جو ایمان ، طاعت ا ورنیکی میں انصار و مہاجرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے راستے پرچلیں۔ ان سب سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہوا کہ اسے ان کے نیک عمل قبول ہیں اور یہ اللہ عَزَّوَجَلَّسے راضی ہیں کہ اس کے ثواب و عطاسے خوش ہیں۔ اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور یہ حضرات ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۰، ۲ / ۲۷۵)
اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں لہٰذا جوبد بخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے، وہ مردود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے اور ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ درج ذیل حدیث پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مغفل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو، اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جسنے ان سے محبت کی تو ا س نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایذا دی اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۵ / ۴۶۳، الحدیث: ۳۸۸۸)
اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کرنا یقینا بہت اچھی بات ہے لیکن نیکی میں پہل کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ پہل کرنے والا نیکی کے اس کام کو قوت و طاقت دیتا ہے اور نیکی کی طرف جلد رغبت میں فطرت کے نیک اور اچھا ہونے کی علامت بھی ہوتی ہے۔
صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی حالت ِ ایمان میں زیارت کرنے والے حضرات کوتابعین کہا جاتا ہے اور یہ لفظ بھی غالباً اسی آیتِ مبارکہ سے لیا گیا ہے۔ ان کے زمانے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں ، پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں۔ (بخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشہد علی شہادۃ جور اذا شہد، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۲۶۵۲)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گا کہ جب وہ بکثرت جمع ہو کر جہاد کریں گے توان سے پوچھا جائے گا کہ کیاتم میں کوئی ایسا شخص ہے جو رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت میں رہا ہو؟لوگ کہیں گے کہ ہاں ! تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گاکہ وہ کثیر تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت پائی ہو؟ وہ جواب دیں گے :ہاں !تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی ۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ بڑی تعداد میں جمع ہو کر جہاد کریں گے تو ان سے دریافت کیا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی صحبت سے مشرف ہونے والو ں کی صحبت کا شرف حاصل کیا ہو؟ لوگ اِثبات میں جواب دیں گے تو انہیں بھی فتح دی جائے گی۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، ۲ / ۵۱۵، الحدیث: ۳۶۳۹)
حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رأی النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم وصحبہ، ۵ / ۴۶۱، الحدیث: ۳۸۸۴)
وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ﳍ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ ﳌ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ-لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْؕ-سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِیْمٍۚ(۱۰۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے ان کی خو ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں جلد ہم انہیں دو بار عذاب کریں گے پھر بڑے عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی )وہ منافقت پر اڑگئے ہیں۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر انہیں بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا۔
{وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ:اور (اے مسلمانو!) تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مدینے کے منا فقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا کہ اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۶ / ۱۳۰)
اور یونہی خود مدینہ طیبہ میں بھی کچھ منافقین ہیں جیسے عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھی اور دیگر بہت سے لوگ جن کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں نشاندہی کی جاتی رہی۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جاسکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے جیسے سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔۔۔ الخ، ص۷۱۵، الحدیث: ۴۸۳(۱۳۷۷))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے ، مدینہ کو جو شخص بطورِ اعراض چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا شہید (یعنی گواہ) ہوں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبیصلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص۷۰۹-۷۱۰، الحدیث: ۴۵۹-۴۶۰(۱۳۶۳))
حضرت سفیان بن ابی زہیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۵، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص۷۱۹، الحدیث: ۴۹۷(۱۳۸۸))
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب اثم من کاد اہل المدینۃ، ۱ / ۶۱۸، الحدیث: ۱۸۷۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشادفرمایا:’’ جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گااللہ عَزَّوَجَلَّ اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ، ذکر البیان بانّ اللہ جلّ وعلا یخوف من اخاف اہل المدینۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۰، الحدیث: ۳۷۳۰، الجزء السادس)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ یا اللہ! عَزَّوَجَلَّ، جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل ۔ (معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، ۲ / ۳۷۹، الحدیث: ۳۵۸۹)
حضرت عبداللہبن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ اور فرشتوں اور تما م آدمیوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ وارادہم بسو ء، ۳ / ۶۵۹، الحدیث: ۵۸۲۶)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، ۵ / ۴۸۳، الحدیث: ۳۹۴۳)
{ لَا تَعْلَمُهُمْؕ-نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ:تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔} اس کے معنی یا تویہ ہیں کہ ایسا جاننا جس کا اثر انہیں معلوم ہو ،وہ ہمارا جاننا ہے کہ ہم انہیں عذاب کریں گے یا حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے منافقین کا حال جاننے کی نفی جو پہلے ہو چکا اس کے اعتبار سے ہے اور اس کا علم بعد میں عطا ہوا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا
’’وَ لَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ‘‘ (محمد:۳۰)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ضرور تم انہیں گفتگو کے انداز میں پہچان لو گے۔ (جمل، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۳ / ۳۰۴، ملخصاً)
کلبی اور سدی نے کہا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جمعہ کے دن خطبے کے لئے قیام کرکے نام بنام فرمایا: نکل اے فلاں ! تو منافق ہے ،نکل۔ اے فلاں ! تو منافق ہے، تو مسجد سے چند لوگوں کو رسوا کرکے نکالا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اس کے بعد منافقین کے حال کا علم عطا فرمایا گیا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
{سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَیْنِ:عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے۔} دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے ایک بار تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں عذاب دیں گے۔ پھر انہیں بڑے عذاب یعنی عذابِ دوزخ کی طرف پھیرا جائے گا جس میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین کو تین بار عذاب دے گا ایک مرتبہ دنیا میں ، دوسری مرتبہ قبر میں اور تیسری مرتبہ آخرت میں۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲ / ۲۷۶)
اسی آیت میں عذاب ِ قبر کا بھی ثبوت ہے۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث بکثرت ہیں جن میں سے 5یہاں پر بیان کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص۱۵۳۴، الحدیث: ۶۸(۲۸۶۸))
(2)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو قبروں کے پا س سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ کسی (ایسے) بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دئیے جا رہے (جن سے بچنا مشکل ہو)۔پھر ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ! (بے شک وہ گناہ معصیت میں بڑا ہے) ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی توڑی اور اس کے دو حصے کئے ،پھر ہر قبر پرا یک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے۔( بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۸)
(3)…حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک انصا ری صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جنازے میں نکلے ،جب قبر تک پہنچے تو وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے اردگرد اس طرح خاموشی سے بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس کے ساتھ زمین کرید نے لگے اور سرِ انور اٹھا کر دو یا تین مرتبہ ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔( ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر، ۴ / ۳۱۶، الحدیث: ۴۷۵۳)
(4)…حضرت امّ مبشر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں کہ میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی اور اس میں بنو نجار کے زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی قبریں تھیں اس وقت میرے پا س رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے، پھر جاتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ میں نے سنا تو عرض کی ’’یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! مردے اپنی قبروں میں ایسا عذاب دیئے جاتے ہیں جسے جانور سنتے ہیں۔(معجم ا لکبیر، امّ مبشر الانصاریۃ، ۲۵ / ۱۰۳، الحدیث: ۲۶۸)
(5)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَدعا مانگا کرتے ’’اللہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں عذابِ قبر سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ لیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب التعوّذ من عذاب القبر، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۱۳۷۷)
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًاؕ-عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۰۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور کچھ اور ہیں جو اپنے گناہوں کے مقر ہوئے اور ملایا ایک کام اچھا اور دوسرا برا قریب ہے کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا تو انہوں نے ایک اچھا عمل اور دوسرا برا عمل ملادیا عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ بیشک اللہبخشنے والا مہربان ہے۔
{وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ:اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔} یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے دوسروں کی طرح جھوٹے عذر نہ کئے بلکہ انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور اپنے فعل پر نادم ہوئے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۲) شانِ نزول: جمہور مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت مدینہ طیبہ کے مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوئہ تبوک میں حاضر نہ ہوئے تھے ،اس کے بعد نادم ہوئے اور توبہ کی اور کہا :افسوس ہم گمراہوں کے ساتھ یا عورتوں کے ساتھ رہ گئے حالانکہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمجہاد میں ہیں۔ جب حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سفر سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور ہر گز نہ کھولیں گے یہاں تک کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کھولیں۔یہ قسمیں کھا کر وہ مسجد کے ستونوں سے بندھ گئے جب حضور ِانور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور انہیں ملاحظہ کیا تو فرمایا: یہ کون ہیں ؟ عرض کیا گیا :یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں حاضر ہونے سے رہ گئے تھے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کیا ہے کہ یہ اپنے آپ کو نہ کھولیں گے جب تک حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُن سے راضی ہو کر اُنہیں خود نہ کھولیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا اور میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں انہیں نہ کھولوں گا نہ اُن کا عذر قبول کروں جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے کھولنے کا حکم نہ دیا جائے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں کھولا تو انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ مال ہمارے رہ جانے کاسبب بنے۔ انہیں لیجئے اور صدقہ کیجئے اور ہمیں پاک کردیجئے اور ہمارے لئے دُعائے مغفرت فرمائیے ۔ حضورپُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مجھے تمہارے مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا اس پر اگلی آیت ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ‘‘ نازل ہوئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۶-۲۷۷)
{عَمَلًا صَالِحًا:ایک اچھا عمل۔} یہاں اچھے عمل سے یا قصور کا اعتراف کرلینا اور توبہ کرنامراد ہے یا اس غزوے میں حاضر نہ ہونے سے پہلے غزوات میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ حاضر ہونا مراد ہے یا طاعت و تقویٰ کے تمام اعمال مراد ہیں ،اس صورت میں یہ آیت تمام مسلمانوں کے بارے میں ہوگی۔ آیت کے اگلے حصے میں برے عمل سے تَخَلُّفْ یعنی جہاد سے رہ جانا مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ۲ / ۲۷۷)
{عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ:عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ کرنے کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کے اعتراف کو ذکر کر دیا اور گناہوں کا اعترف توبہ کی دلیل ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۲، ص۴۵۳)
اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں پر شرمندہ ہونا بھی توبہ ہے بلکہ توبہ کی اہم شرط ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’شرمندگی توبہ ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ، ۴ / ۴۹۲، الحدیث: ۴۲۵۲)
نیز گناہوں پر شرمندگی عام طور پر گناہ چھڑوا ہی دیتی ہے، اسی لئے گناہوں پر جَری اور بیباک کی مذمت زیادہ ہے۔ اِس آیت میں ہم جیسے گناہگاروں کیلئے بھی بڑی امید ہے کہ اگرچہ ہمارے گناہ بے حدوحساب ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک اعمال بھی کرہی لیتے ہیں اور اگر ہمارے اعمال ناقص ہیں تو کم از کم ہمارا نفسِ ایمان تو قطعی اور یقینی طور پر درست ہے اور وہ بھی نیک عمل ہے۔
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱۰۳)
ترجمۂکنزالایمان: اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کرو جس سے تم انہیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کروبیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
{خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً:اے حبیب! تم ان کے مال سے زکوٰۃ وصول کرو۔} اس آیت میں جو ’’صدقہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے اس کے معنی میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ جن صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر اُوپر کی آیت میں ہے ،انہوں نے کفارے کے طور پر جو صدقہ دیا تھا وہ مراد ہے اوروہ صدقہ ان پر واجب نہ تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس صدقہ سے مراد وہ زکوٰۃ ہے جو اُن کے ذمہ واجب تھی ،انہوں نے توبہ کی اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لینے کا حکم دیا۔ امام ابوبکر جصاص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ صدقہ سے زکوٰۃ مراد ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۲ / ۲۷۸، احکام القرآن للجصاص، سورۃ التوبۃ، باب دفع الصدقات الی صنف واحد، ۳ / ۱۹۰)
{وَصَلِّ عَلَیْهِمْ:اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔} صدقہ پیش کرنے والے کے لئے دعائے خیر کرناسیّدا لمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معمولات میں شامل تھا ،چنانچہصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بِن اَبی اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب کوئی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس صدقہ لاتا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کے حق میں دُعا کرتے، میرے والد صاحب نے صدقہ حاضر کیا تو حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا فرمائی ’’ اللھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفیٰ‘‘ اے اللہ! ابو اَوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب صلاۃ الامام ودعائہ لصاحب الصدقۃ، ۱ / ۵۰۴، الحدیث: ۱۴۹۷، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب الدعاء لمن اتی بصدقۃ، :ص۵۴۲، الحدیث: ۱۷۶(۱۰۷۸))
تفسیرمدارک میں ہے: سنت یہ ہے کہ صدقہ لینے والا صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۴۵۳)
{اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ:بیشک تمہاری دعا ان کے دلوں کا چین ہے ۔}یعنی اے حبیب !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی دعا ان کے لئے رحمت اور دلوں کا چین ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنوں کے دلوں کا چین ہیں اور مسلمان کو جس قدر محبت و رغبت حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعائے مبارک کے حصول میں ہوسکتی ہے اور کس چیز میں ہوگی؟ یہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری زندگی میں بھی تھا اور اب بھی ہے کیونکہ ہمارے اعمال نبی ٔرحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ، اچھے عمل دیکھ کر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اگر اچھے نہ پائیں تو ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں جیساکہ حدیث پاک میں ہے ’’ میری زندگی تمہارے لئے بہتر ہے اور میرا انتقال فرمانا تمہارے لئے بہتر ہے،تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے اگر اچھے عمل پاؤں گا تو میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کروں گا اور اگر اچھے اعمال کے علاوہ پاؤں گا تو تمہارے لئے مغفرت طلب کروں گا۔(مسند البزار، زاذان عن عبد اللہ، ۵ / ۳۰۸، الحدیث: ۱۹۲۵)
لہٰذا نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا ان کی زندگی اور وفات کے بعد دونوں صورتوں میں حاصل ہو گی اور دلوں کے چین و سکون کا باعث بھی ہو گی۔
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۰۴)
ترجمۂکنزالایمان: کیا انہیں خبر نہیں کہ اللہہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور صدقے خود اپنے دست قدرت میں لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور خود صدقات( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
{اَلَمْ یَعْلَمُوْا:کیا انہیں معلوم نہیں۔} اس آیت میں توبہ کرنے والوں کو بشارت دی گئی کہ ان کی توبہ اور ان کے صدقات مقبول ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جن لوگوں نے اب تک توبہ نہیں کی اس آیت میں انہیں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دی گئی ہے۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
یاد رہے کہ ہر جرم کی توبہ ایک جیسی نہیں ، بلکہ مختلف جرموں کی توبہ بھی مختلف ہے جیسے اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق تَلف کئے ہوں مثلاً نمازیں قضا کی ہوں ، رمضان کے روزے نہ رکھے ہوں ، فرض زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، حج فرض ہونے کے بعد حج نہ کیا ہو ان سے توبہ یہ ہے کہ نماز روزے کی قضا کرے، زکوٰۃ ادا کرے ، حج کرے اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کی معافی مانگے، اسی طرح اگر اپنے کان ،آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ پاؤں ، شرمگاہ اور دیگر اَعضا سے ایسے گناہ کئے ہوں جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ہو بندوں کے حقوق کے ساتھ نہ ہو جیسے غیر مَحرم عورت کی طرف دیکھنا، جنابت کی حالت میں مسجد میں بیٹھنا، قرآنِ مجید کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا، گانے باجے سننا وغیرہ، ان سے توبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے، ان گناہوں پر ندامت کااظہار کرتے اور آئندہ یہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرتے ہوئے معافی طلب کرے اور اس کے بعد کچھ نہ کچھ نیک اعمال کرے کیونکہ نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں ،اور اگر بندوں کے حقوق تلف کئے ہوں تو ان کی تین صورتیں ہیں :
(1)… ان حقوق کا تعلق صرف قرض کے ساتھ ہے جیسے خریدی ہوئی چیز کی قیمت، مزدور کی اجرت یا بیوی کا مہر وغیرہ۔
(2)… ان حقوق کا تعلق صرف ظلم کے ساتھ ہے جیسے کسی کو مارا، گالی دی یا غیبت کی اور اس کی خبر ا س تک پہنچ گئی۔
(3)… ان کا تعلق قرض اور ظلم دونوں کے ساتھ ہے، جیسے کسی کا مال چرایا، چھینا، لوٹا، کسی سے رشوت لی، سود لیا یا جوئے میں مال جیتا وغیرہ۔
پہلی صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے یا صاحب ِحق سے معافی حاصل کرے۔ دوسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ صرف صاحب ِحق سے معافی طلب کرے اور تیسری صورت میں توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقوق ادا بھی کرے اور صاحب ِحق سے معافی بھی حاصل کرے۔ اگرتوبہ کی شرائط جمع ہوں تو توبہ ضرور قبول ہوگی کیونکہ یہ رب تعالیٰ کا وعدہ ہے اوراپنے وعدے کے خلاف کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی کے لائق نہیں۔
یہاں توبہ کی قبولیت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو ،چنانچہ توبہ سے پہلے حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی فتنہ انگیزی اور شراب نوشی کی داستانیں مشہور تھیں ، ایک دن آپ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکی مجلس میں آئے، اس وقت حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاس آیت ’’ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ‘‘(حدید:۱۶)(کیاایمان والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لئے جھک جائیں )کی تفسیر بیان کررہے تھے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اس آیت کی ایسی تشریح کی کہ لوگ رونے لگے،اس دوران ایک جوان مجلس میں کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے مومن بندے! کیا مجھ جیسا فاسق و فاجر بھی اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے فرمایا ’’ ہاں ، اللہ تعالیٰ تیرے گناہوں کو معاف کردے گا، جب عتبہ نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ زرد پڑگیا اور کانپتے ہوئے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئے، جب انہیں ہوش آیا تو حضرتِ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ان کے قریب آکر یہ شعر پڑھے، جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ’’ اے اللہ تعالیٰ کے نافرمان جوان! تو جانتا ہے کہ نافرمانی کی سزا کیا ہے؟ نافرمانوں کے لئے پُر شور جہنم ہے اور حشر کے دن اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی ہے۔ اگر تو نارِ جہنم پر راضی ہے تو بے شک گناہ کرتا رہ، ورنہ گناہوں سے رک جا۔ تونے اپنے گناہوں کے بدلے اپنی جان کو رہن رکھ دیا ہے، اس کو چھڑانے کی کوشش کر۔
عتبہ نے پھر چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے، جب ہوش آیا تو کہنے لگے اے شیخ! کیا مجھ جیسے بدبخت کی توبہ ربِ رحیم قبول کرلے گا؟ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کہا: درگزر کرنے والا رب عَزَّوَجَلَّ ظالم بندے کی توبہ قبول فرمالیتا ہے، اس وقت عتبہ نے سراٹھا کر اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں :۔
(1)…اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو نے میرے گناہوں کو معاف اور میری توبہ کو قبول کرلیا ہے تو ایسے حافظے اور عقل سے میری عزت افزائی فرما کہ میں قرآنِ مجید اور علومِ دین میں سے جو کچھ بھی سنوں ، اُسے کبھی فراموش نہ کروں۔
(2)…اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسی آواز عنایت فرماکہ میری قرأت کو سن کر سخت سے سخت دل بھی موم ہوجائے۔
(3)…اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، مجھے رزقِ حلال عطا فرما اور ایسے طریقے سے دے جس کا میں تَصَوُّر بھی نہ کرسکوں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عتبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی تینوں دعائیں قبول کرلیں ، ان کا حافظہ اور فہم و فراست بڑھ گئی اور جب وہ قرآن کی تلاوت کرتے تو ہر سننے والا گناہوں سے تائب ہوجاتا تھا اور ان کے گھر میں ہر روز شوربے کا ایک پیالہ اور دوروٹیاں (رزقِ حلال سے) پہنچ جاتیں ، اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کون رکھ جاتا ہے اور حضرت عتبہ غلام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ساری زندگی ایسا ہی ہوتا رہا۔( مکاشفۃ القلوب، الباب الثامن فی التوبۃ، ص۲۸-۲۹)اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔[2]
{وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ:اور خود صدقے ( اپنے دستِ قدرت میں ) لیتا ہے۔} اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا اور اس پر ثواب عطا فرماتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۴، ۲ / ۲۷۹)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پاکیزہ مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ مال کے سوا قبول نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے خواہ وہ ایک کھجور ہو پھر وہ صدقہ رحمٰن عَزَّوَجَلَّکے دستِ قدرت میں بڑھتا رہتا ہے حتّٰی کہ پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیّب وتربیتہا، ص۵۰۶، الحدیث: ۶۳(۱۰۱۴))
یاد رہے کہ حدیثِ پاک میں مذکور دائیں ہاتھ سے جسم والا دایاں ہاتھ مراد نہیں بلکہ یہ مُتَشابہات میں سے ہے جس کا معنی وہی ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّکی شایانِ شان ہے۔ نیز اس حدیثِ پاک میں ان لوگوں کے لئے بھی نصیحت ہے جو سود اور رشوت وغیرہ کی حرام آمدنی سے صدقات و خیرات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے رہا ہے، اس لئے ہم غریبوں کی بھلائی اور رشتہ داروں سے صِلہ رحمی کرنے میں اس مال کو خرچ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اس حدیث پاک میں بڑی عبرت ہے ،چنانچہ حضرت قاسم بن مُخَیْمِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص گناہ کے ذریعے مال حاصل کر کے اس سے صلہ رحمی کرتا یا صدقہ کرتا یا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سب کو جمع کر کے جہنم میں ڈال دے گا۔(ابن عساکر، موسی بن سلیمان بن موسی ابو عمرو الاموی، ۶۰ / ۴۰۹)
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تمہیں وہ شخص تعجب میں نہ ڈالے جس نے حرام مال کمایا کیونکہ اگر وہ اس مال کو (راہِ خدا میں ) خرچ کرے یا اسے صدقہ کرے تو وہ قبول نہ کیا جائے گا اور اگر اسے چھوڑ دے تو اس میں برکت نہیں دی جائے گی اور اس میں سے کچھ بچ جائے تو یہ جہنم کی طرف ا س کا زادِ راہ ہو گا (شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۹۶، الحدیث: ۵۵۲۵)۔[3]
وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَۚ(۱۰۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور تم فرما ؤ کام کرو اب تمہارے کام دیکھے گا اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان اور جلد اس کی طرف پلٹوگے جو چھپا اور کھلا سب جانتا ہے تو وہ تمہارے کام تمہیں جتادے گا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور تم فرما ؤ: تم عمل کرو ،اب اللہ اور اس کے رسول اور مسلمان تمہارے کام دیکھیں گے اور جلد ہی تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے جوہر غیب اور ظاہر کو جاننے والاہے پھر وہ تمہیں تمہارے اعمال بتائے گا۔
{وَ قُلِ اعْمَلُوْا:اور تم فرما ؤ: تم عمل کرو ۔} اس آیت میں اطاعت گزاروں کو عظیم ترغیب اور گناہگاروں کوبڑی ترہیب دی گئی ہے ، توگویا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’تم مستقبل کے لئے کوشش کرو کیونکہ تمہارے اعمال کا ایک ثمرہ دنیا میں ہے اور ایک ثمرہ آخرت میں ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور مسلمان تمہارے اعمال دیکھ رہے ہیں ، اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اطاعت کرو گے تو دنیا میں تمہاری بڑی تعریف ہو گی اور دنیا و آخرت میں تمہیں عظیم اجر ملے گا اور اگر تم اللہ تعالیٰ اور ا س کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرو گے تو دنیا میں تمہاری مذمت ہو گی اور آخرت میں تمہیں شدید عذاب ہو گا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۶ / ۱۴۲)
{وَ سَتُرَدُّوْنَ:اورجلد ہیتم لوٹائے جاؤگے۔} یعنی عنقریب تم قیامت کے دن اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو تمہاری خَلْوَت اور جَلْوَت کو جانتا ہے، تمہارے ظاہر و باطن میں سے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، تم دنیا میں جو اچھے برے جو اعمال کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا اور تمہیں تمہارے اَعمال کی جزا د ے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۵، ۲ / ۲۸۰)
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۱۰۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور کچھ موقوف رکھے گئے ہیں اللہ کے حکم پر یا ان پر عذاب کرے یا ان کی توبہ قبول کرے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ کا حکم آنے تک کچھ دوسروں کو مؤخر کردیا گیا ہے ۔یا تو اللہ انہیں عذاب دے گا اور یا ان کی توبہ قبول فرمالے گا اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔
{وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ: اور اللہ کا حکم آنے تک کچھ دوسروں کو مُؤخر کردیا گیا ہے ۔}یعنی غزوۂ تبوک سے رہ جانے والے کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں مَوقوف رکھا گیا ہے یہاں تک کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ظا ہر ہو جائے، اگر وہ اپنے جرم پر قائم رہے اور توبہ نہ کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ انہیں عذاب دے گا اور اگر انہوں نے توبہ کر لی تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لے گا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۴۵۳) غزوۂ تبوک سے رہ جانے والے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی تعداد دس تھی، ان میں سے سات صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ندامت و شرمندگی کی وجہ سے خود کو مسجد کے ستونوں سے بندھوا لیا تھا۔ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ میں ان سات صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اعترافِ جرم اور توبہ کی قبولیت کا ذکر مذکورہ بالا آیات میں ہوا جبکہ بقیہ تین صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے چونکہ اُن کی طرح ستونوں سے بندھ کر اپنی توبہ اور ندامت کا اظہار نہ کیا تھا اس لئے ان کی توبہ کی قبولیت کو مؤخر کردیا گیا۔ اس آیت میں انہی تین صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ص۴۵۳-۴۵۴، ملخصاً)ان کی توبہ کی قبولیت کا ذکراسی سورت کی آیت نمبر 118 میں ہے۔
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۰۷)
ترجمۂکنزالایمان: اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور (کچھ منافق ) وہ (ہیں ) جنہوں نے نقصان پہنچانے کے لئے اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اور اس شخص کے انتظار کے لئے مسجد بنائی جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں۔
{وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا:اور وہ جنہوں نے نقصان پہنچانے کے لئے مسجد بنائی۔} شانِ نزول: یہ آیت منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مسجدِ قبا کو نقصان پہنچانے اور اس کی جماعت میں تفریق ڈالنے کیلئے اس کے قریب ایک مسجد بنائی تھی، اس میں ایک بڑی چال تھی وہ یہ کہ ابو عامر جو زمانہ ٔجاہلیت میں نصرانی راہب ہو گیا تھا، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے مدینہ طیبہ تشریف لانے پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہنے لگا:یہ کون سا دین ہے جو آپ لائے ہیں ؟ حضورپُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :میں ملتِ حَنِیْفِیّہ، دینِ ابراہیم لایا ہوں۔ابو عامر کہنے لگا :میں اسی دین پر ہوں۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ، نہیں۔ اس نے کہا کہ آپ نے اس میں کچھ اور ملا دیا ہے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا نہیں ،میں خالص صاف ملّت لایا ہوں۔ پھرابو عامر نے کہا: ہم میں سے جو جھوٹا ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کو حالت ِسفر میں تنہا اور بیکس کرکے ہلاک کرے ۔ حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے آمین فرمایا۔ لوگوں نے اس کا نام ابو عامر فاسق رکھ دیا۔ جنگِ اُحد کے دن ابو عامر فاسق نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے کہا کہ جہاں کہیں کوئی قوم آپ سے جنگ کرنے والی ملے گی میں اس کے ساتھ ہو کر آپ سے جنگ کروں گا ۔ چنانچہ جنگِ حُنَین تک اس کا یہی معمول رہا اور وہ نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مصروفِ جنگ رہا ،جب ہوازن کو شکست ہوئی اور وہ مایوس ہو کر ملک شام کی طرف بھاگا تو اُس نے منافقین کو خبر بھیجی کہ تم سے قوت واسلحہ جو سامانِ جنگ ہوسکے سب جمع کرو اور میرے لئے ایک مسجد بناؤ ۔ میں شاہ ِروم کے پاس جاتا ہوں وہاں سے رومی لشکر لے کر آؤں گا اور (سیّد ِعالَم ) محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اور ان کے اصحاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو نکالوں گا ۔یہ خبر پا کر اُن لوگوں نے مسجدِ ضِرار بنائی تھی اور رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے عرض کیا تھا یہ مسجدہم نے آسانی کے لئے بنادی ہے کہ جو لوگ بوڑھے ضعیف کمزور ہیں وہ اس میں بہ فراغت نماز پڑھ لیا کریں ،آپ اس میں ایک نماز پڑھ دیجئے اور برکت کی دعا فرمادیجئے۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ اب تو میں سفرِ تبوک کے لئے جارہا ہوں ،واپسی پر اللہ عَزَّوَجَلَّکی مرضی ہوگی تو وہاں نماز پڑھ لوں گا۔ جب نبی ٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر مدینہ شریف کے قریب ایک علاقے میں ٹھہرے تو منافقین نے آپ سے درخواست کی کہ اُن کی مسجد میں تشریف لے چلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اُن کے فاسد ارادوں کا اظہار فرمایا گیا، تب رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بعض صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حکم دیا کہ اس مسجد کو جا کر گرادیں اور جلا دیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور ابو عامر راہب ملکِ شام میں بحالتِ سفر بے کسی و تنہائی میں ہلاک ہوا۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۲ / ۲۸۱)
اِس سے معلوم ہوا کہ مسجد کے نام پر بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچایاجاسکتااور اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دشمنی کی جاسکتی ہے لہٰذا ایسی مسجدوں سے بھی دور رہا جائے جہاں اللہ تعالیٰ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نقص نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جہاں مسلمانوں کو باطل تعلیم دے کر لڑایا جاتا ہے۔ آج بھی جو مسجد دین میں فساد اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کیلئے بنائی جائے وہ مسجد ِ ضرار ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ-لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸)
ترجمۂکنزالایمان: اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: (اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس کی حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔ اس میں وہ لوگ ہیں جو خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
{لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا:(اے حبیب!) آپ اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔} اس آیت میں تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مسجدِ ضرار میں نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی گئی۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ۲ / ۲۸۲)
امام عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ جو مسجد فخر و ریا اور نمود و نمائش یا رضائے الٰہی کے سوا اور کسی غرض کے لئے یا حرام مال سے بنائی گئی ہو وہ بھی مسجدِ ضرار کے ساتھ لاحق ہے (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ص۴۵۴)
فی زمانہ مسلمانوں میں ایک تعداد ایسی ہے جنہیں عالیشان مسجد تعمیر کرنے پر اور زیادہ مساجد بنانے پر ایک دوسرے سے فخر کااظہار کرتے دیکھا گیا ہے، ان کے دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے یا خود انہیں اپنے دلوں کا حال اچھی طرح معلوم ہے ، اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اس کی عبادت کرنے میں مسلمانوں کو سہولت پہنچانے کی نیت سے عالی شان اور خوبصورت مساجد بنائی ہیں تو ان کایہ عمل لائقِ تحسین اوراجر و ثواب کاباعث ہے اور اگر ان کی نیت یہ نہ تھی بلکہ خوبصورت مساجد بنانے سے ریاکاری اور فخر و بڑائی کا اظہار مقصود تھا اگرچہ زبان سے لوگوں کے سامنے یہ صدا عام تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ کوشش قبول فرمائے ،تو انہیں چاہئے کہ درج ذیل3 اَحادیث سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت کی نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ مسجد تعمیر کرنے میں فخر کریں گے ۔ (نسائی، کتاب المساجد، المباہاۃ فی المساجد، ص۱۲۰، الحدیث: ۶۸۶) یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ نامْوَری، ریاکاری اور بڑائی کی نیت سے مسجد یں تعمیر کریں گے۔
(2)…حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ لو گ جب مسجد (تعمیر کرنے) کے معاملے میں فخر کرنے لگ جائیں گے۔(ابن ماجہ، کتاب المساجد والجماعات، باب تشیید المساجد، ۱ / ۴۰۹، الحدیث: ۷۳۹)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں وہ مسجدیں تعمیر کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کیا کریں گے اور انہیں آباد کم کیا کریں گے۔( صحیح ابن خزیمہ، جماع ابواب فضائل المساجد وبنائہا وتعظیمہا، باب کراہۃ التباہی فی بناء المساجد۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۸۱، الحدیث: ۱۳۲۱)
یاد رہے کہ کسی کے دل کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے ہم کسی کے دل کا حال معلوم کر سکیں اس لئے کسی مسلمان پر بد گمانی کرنے اور اس پر یہ الزام ڈالنے کی شرعاً کسی کو اجاز ت نہیں کہ اس نے فخر و ریاکاری کی نیت سے مسجد تعمیر کی ہے لیکن تعمیر کرنے والے کو بہرحال اپنے قلب کی طرف نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا مقصد کیا ہے۔
{لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے۔} اس سے مراد مسجدِ قباء ہے جس کی بنیاد رسولِ کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے رکھی اور جب تک حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے قبا میں قیام فرمایا اس میں نماز پڑھی ۔ مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجدِ مدینہ مراد ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
یاد رہے کہ دونوں مسجدوں کے بارے میں حدیثیں مذکور ہیں اور ان دونوں باتوں میں کوئی تَعارُض نہیں کیونکہ آیت کا مسجدِ قبا ء کے حق میں نازل ہونا اس بات کو مُستَلْزِم نہیں ہے کہ مسجد ِمدینہ میں یہ اَوصاف نہ ہوں۔ احادیث میں مسجدِ نبوی اور مسجدِ قبا ء کے کثیر فضائل مذکور ہیں ،ان میں سے چند فضائل درج ذیل ہیں :
یہاں آیت کی مناسبت سے مسجدِ نبوی کے تین فضائل ملاحظہ ہوں
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، ۱۳-باب، ۱ / ۶۲۱، الحدیث: ۱۸۸۸)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’کسی شخص کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز کا ثواب ہے ،اور اس کا محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کا جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا مسجدِ اقصیٰ میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور اس کا میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ہے اور ا س کامسجدِ حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی الصلاۃ فی المسجد الجامع، ۲ / ۱۷۶، الحدیث: ۱۴۱۳)
(3)…حضرت اُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میرے اس منبر کے پائے جنت میں نَصب ہیں۔(نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۳)
مسجدِ قبا کو بھی بہت فضیلت حاصل ہے ،چنانچہ اس کے بھی تین فضائل ملاحظہ ہوں ،
(1)…حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر ہفتے مسجدِ قبا میں (کبھی) پیدل اور (کبھی) سوار ہو کر تشریف لاتے تھے۔ (بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، من اتی مسجد قباء کلّ سبت، ۱ / ۴۰۲، الحدیث: ۱۱۹۳)
(2)…حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص اپنے گھر سے نکلے، پھر مسجد ِقبا میں آ کر نماز پڑھے تو اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔ (نسائی، کتاب المساجد، فضل مسجد قباء والصلاۃ فیہ، ص۱۲۱، الحدیث: ۶۹۶)
(3)…حضرت اُسَید بن ظُہَیر انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسجدِ قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب عمرہ کے برابر ہے ۔ (ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الصلاۃ فی مسجد قبائ، ۱ / ۳۴۸، الحدیث: ۳۲۴)
{یُحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا:وہ لوگ خوب پاک ہونا پسند کرتے ہیں۔} شانِ نزول: یہ آیت مسجدِ قبا والوں کے حق میں نازل ہوئی، سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اُن سے فرمایا : اے گروہِ انصار! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری تعریف فرمائی ہے، تم وضو اور استنجے کے وقت کیا عمل کرتے ہو؟ اُنہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم بڑا استنجا تین ڈھیلوں سے کرتے ہیں ،اس کے بعد پانی سے طہارت کرتے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۸، ص۴۵۵)
ہر صاحب ِذوق شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی ، ستھرائی انسان کے وقار و شرف کی آئینہ دار ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت وعظمت کی بد ترین دشمن ہے۔ دینِ اسلام نے جہاں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کر کے عزت و رفعت عطا کی وہیں ظاہری طہارت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند کیا، بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی ستھرائی، ظاہری ہَیئت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی ،مکان اور سازو سامان کی بہتری ہو یا سواری کی دھلائی الغرض ہر ہر چیز کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دینِ اسلام میں تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
’’اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ‘‘(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوئ، ص۱۴۰، الحدیث: ۱(۲۲۳))
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے۔ (البقرہ:۲۲۲)
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاسے روایت ہے، سرور ِعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ بے شک اسلام صاف ستھرا (دین) ہے تو تم بھی نظافت حاصل کیا کرو کیونکہ جنت میں صاف ستھرا رہنے والا ہی داخل ہو گا۔ (کنز العمال، حرف الطاء، کتاب الطہارۃ، قسم الاقوال، الباب الاول فی فضل الطہارۃ مطلقاً، ۵ / ۱۲۳، الحدیث: ۲۵۹۹۶، الجزء التاسع )
ایک روایت میں ہے کہ جو چیز تمہیں مُیَسّر ہو اس سے نظافت حاصل کرو، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں صاف ستھرے رہنے والے ہی داخل ہوں گے۔ (جمع الجوامع، حرف التائ، التاء مع النون، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۱۰۶۲۴)
حضرت سہل بن حنظلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جو لباس تم پہنتے ہو اسے صاف ستھرا رکھو اور اپنی سواریوں کی دیکھ بھال کیا کرو اور تمہاری ظاہری ہیئت ایسی صاف ستھری ہو کہ جب لوگوں میں جاؤ تو وہ تمہاری عزت کریں۔ (جامع صغیر، حرف الہمزۃ،ص۲۲، الحدیث: ۲۵۷)
حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اس حدیث میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان نفرت و حقارت محسوس کرے اس سے بچا جائے خصوصاً حُکّام اور علماء کو ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۱ / ۲۴۹، تحت الحدیث: ۲۵۷)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ’’ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے یہاں تشریف لائے، ایک شخص کو پَراگندہ سر دیکھا، جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں ، فرمایا: ’’کیا اس کو ایسی چیز نہیں ملتی جس سے بالوں کو اکٹھا کرلے اور دوسرے شخص کو میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا: کیا اسے ایسی چیز نہیں ملتی، جس سے کپڑے دھولے۔ (ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فی غسل الثوب وفی الخلقان، ۴ / ۷۲، الحدیث: ۴۰۶۲)
حضرت عطاء بن یسار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کی طرف اشارہ کیا، گویا بالوں کے درست کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ وہ شخص درست کرکے واپس آیا تو نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے کہ کوئی شخص بالوں کو اس طرح بکھیر کر آتا ہے گویا وہ شیطان ہے۔ (مؤطا امام مالک، کتاب الشعر، باب اصلاح الشعر، ۲ / ۴۳۵، الحدیث: ۱۸۱۹)
حضرت سعید بن مسیب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّطیِّب ہے۔ طِیْب یعنی خوشبو کو دوست رکھتا ہے، ستھرا ہے ستھرائی کو دوست رکھتا ہے، کریم ہے کرم کو دوست رکھتا ہے، جواد ہے جودو سخاوت کو دوست رکھتا ہے۔ لہٰذا اپنے صحن کو ستھرا رکھو، یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی النظافۃ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۲۸۰۸)
اسلا م میں صفائی کی اہمیت کے حوالے سے سرِ دست یہ چند روایتیں ذکر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۱۰۹)
ترجمۂکنزالایمان: تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی اللہ سے ڈر اور اس کی رضا پر وہ بھلایا وہ جس نے اپنی نیو چنی ایک گراؤ گڑھے کے کنارے تو وہ اسے لے کر جہنم کی آگ میں ڈھے پڑا اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو کیا جس نے اپنی عمارت کی بنیاداللہ سے ڈرنے اور اس کی رضا پررکھی وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھائی کے کنارے پر رکھی جو گرنے والی ہے پھر وہ عمارت اس (اپنے بانی) کو لے کر جہنم کی آگ میں گر پڑے اور اللہ ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔
{اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ:تو کیا جس نے اپنی بنیاد رکھی۔} آیت کا خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دین کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی کی مضبوط سطح پر رکھی وہ بہتر ہے نہ کہ وہ جس نے اپنے دین کی بنیاد باطل و نفاق کے ٹوٹے ہوئے کناروں والے گڑھے پر رکھی۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۹، ص۴۵۵)
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسی پیاری تشبیہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مسجدِ ضِرار اور منافقین کے سارے اعمال اس عمارت کی طرح ہیں جو دریا کے نیچے سے کاٹی یا گلی ہوئی زمین پر بنادی جائے اور پھر وہ زمین مع اس عمارت کے دریا میں گر جائے۔ ایسے ہی منافقین کی مسجدیں ہیں کہ ان کی مسجد بھی دوزخ میں ہے، اور وہ خود بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کی میٹھی باتوں اور ظاہری نیکیوں کو دیکھ کر اس کے نیک ہونے کا یقین نہ کرلینا چاہیے، ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی۔ یہ آیت ِ مبارکہ اس بات کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ مسجدوں کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی پر ہونی چاہیے ۔ لہٰذا صرف اپنی برادری کا علم بلند کرنے کیلئے یا اس طرح کی کوئی دوسری فخریہ چیز کیلئے مسجدیں نہیں ہونی چاہئیں ، ہاں ان کی نیک نامی اور مسلمانوں کی ان کیلئے دعائیں مطلوب ہوں تو درست ہے۔ اسی طرح مختلف ناموں پر مسجدوں کے نام رکھنے کا معاملہ ہے کہ اگر اس سے ریا کاری اور فخرو تکبر کا اِظہار مقصود ہے تو حرام ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ اس سے لوگوں کو مسجدیں بنانے کی ترغیب ملے یا جو اس کا نام پڑھے وہ اس کے لئے دعائے خیر کر ے تو یہ جائز ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے نام لکھنے کے معاملے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ’’ریاء کو حرام مگر بلاوجہِ شرعی مسلمان پر قصد ِریا کی بدگمانی بھی حرام، اور بنظرِ دعا ہے تو حرج نہیں۔(فتاوی رضویہ، ۱۶ / ۴۹۹)
لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۠(۱۱۰)
ترجمۂکنزالایمان: وہ تعمیر جو چنی ہمیشہ ان کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی مگر یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور اللہ علم والا ، حکمت والا ہے۔
{لَا یَزَالُ بُنْیَانُهُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ: اُن کی تعمیر شدہ عمارت ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان منافقوں نے جو عمارت تعمیر کی تھی وہ ہمیشہ اُن کے دلوں میں کھٹکتی رہے گی اور اس کے گرائے جانے کا صدمہ باقی رہے گا یہاں تککہ قتل ہو کر یا مر کر یا قبر میں یا جہنم میں ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دلوں کا غم و غصہ مرتے دم تک باقی رہے گا اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جب تک اُن کے دل اپنے قصور کی ندامت اور افسوس سے پارہ پارہ نہ ہوں اور وہ اخلاص سے تائب نہ ہوں اس وقت تک وہ اسی رنج و غم میں رہیں گے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۰، ص۴۵۶)
اس آیت سے معلوم ہو اکہ اعمال کے معاملے میں عقائد کا درست ہونا اور باطن کا صاف ہو نابنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور جس طرح پانی پر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی بلکہ عمارت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے سخت زمین پر بنایا جائے اسی طرح اعمال کے قائم رہنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی بنیاد درست عقائد اور تکبر،ریا وغیرہ سے صاف باطن پر رکھی جائے ،اگرعقائد درست نہ ہوں یا عقائدمیں پلپلہ پن ہو اور باطن بھی صاف نہ ہو تو ان پر اعمال کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی اس لئے ہر عقلمند انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دین اور اعمال کی بنیاد درست عقائد ،اخلاص اور تقویٰ و پرہیز گاری پر رکھے تاکہ اس کے اعمال سے اسے نفع حاصل ہو۔
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ-وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖؕ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۱۱)
ترجمۂکنزالایمان: بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں اور مریں اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ توریٰت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ قول کا پورا کون تو خوشیاں مناؤ اپنے سودے کی جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے ، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں تو قتل کرتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں۔ یہ اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے، توریت اور انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوشیاں مناؤ جو سودا تم نے اللہ کے ساتھ کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
{اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى:بیشک اللہ نے خرید لئے۔} اس آیت میں راہ ِخدا میں جان و مال خرچ کرکے جنت پانے والے ایمان داروں کی ایک مثال بیان کی گئی ہے جس سے کمال لطف و کرم کا اظہار ہوتا ہے کہ پروردگار ِعالَم عَزَّوَجَلَّ نے انہیں جنت عطا فرمانا اُن کے جان و مال کا عوض قرار دیا اور اپنے آپ کو خریدار فرمایا یہ کمال عزت افزائی ہے کہ و ہ ہمارا خریدار بنے اور ہم سے خریدے ۔کس چیز کو؟ وہ جو نہ ہماری بنائی ہوئی ہے اور نہ ہماری پیدا کی ہوئی۔ جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی اور مال ہے تو اس کا عطا فرمایا ہوا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶، ملخصاً)
شانِ نزول: جب انصار نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے شبِ عَقبہ، بیعت کی تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی کہ یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اپنے رب عَزَّوَجَلَّکے لئے اور اپنے لئے کچھ شرط فرما لیجئے جو آپ چاہیں۔ ارشاد فرمایا ’’ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے لئے یہ کہ جن چیزوں سے تم اپنے جان و مال کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہو اس کو میرے لئے بھی گوارا نہ کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ’’ ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ ارشاد فرمایا ’’ جنت۔( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
{وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ:یہ اس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ ہے توریت اور انجیل اور قرآن میں۔} یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں سے جو وعدہ فرمایا ہے وہ جس طرح قرآن میں موجود ہے اسی طرح تورات اور انجیل میں بھی تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ۲ / ۲۸۴)
عیسائی شور مچاتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں تو ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے، یہ ان کی انجیل سے بھی جہالت کی علامت ہے کہ اولاً تو آج کی انجیل تحریف شدہ ہے ۔ اب اگر ایسی آیت نہ بھی ہو تو کیا اعتراض کہ جب قرآن نے یہ فرمایا تھا اس وقت یقینا موجود تھی ورنہ اس وقت بھی نجران وغیرہ بلکہ خود مدینہ طیبہ کے قرب و جوار میں عیسائی موجود تھے اور قرآن کی آیت پر اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے اور ثانیاً یہ کہ آج کی انجیل میں بغور دیکھیں تو اس مفہوم کی آیات موجود ہیں۔
{وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ:اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہے؟} کیونکہ وعدہ خلافی کرنا معیوب ہے،ہم میں سے کوئی سخی وعدہ خلافی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ جوکہ سب سے بڑا کریم ہے وہ اپنے وعدے کے خلاف کیسے کر سکتا ہے۔ جہاد سے متعلق یہ سب سے بہترین ترغیب ہے۔( مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
{فَاسْتَبْشِرُوْا:خوشیاں مناؤ ۔} یعنی تم بے حد خوشیاں مناؤ کیونکہ تم نے فنا ہو جانے والی چیزکو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز کے بدلے میں بیچ دیا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
اس آیتِ مبارکہ میں جنت کی عظمت کا بھی بیان ہے اور جنت کیلئے جان قربان کردینے والوں کی بھی عظمت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’تمہارے جسموں کی قیمت جنت کے سوا اور کوئی نہیں تو تم اپنے جسموں کو جنت کے بدلے ہی بیچو۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۱، ص۴۵۶)
یہاں جنت کی طلب سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت حکم بن عبدالسلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے (کہ جنگِ موتہ میں ) جب حضرت جعفر بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید کر دیئے گئے تو لوگو ں نے بلند آواز سے حضرت عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پکارا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس وقت لشکر کی ایک طرف موجود تھے اور تین دن سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کچھ بھی نہ کھایا تھا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں ایک ہڈی تھی جسے بھوک کی وجہ سے چو س رہے تھے ۔ (جب حضرت جعفربن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کی خبر سنی) تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بے تاب ہو کر ہڈی پھینک دی اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے: اے عبداللہ! ابھی تک تیرے پاس دُنْیَوی چیز موجود ہے ! پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بڑی بے جگری سے دشمن پر ٹوٹ پڑے ،اس دوران تلوار کے وار سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی انگلی کٹ گئی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ اشعار پڑھے:
تو نے صرف یہ انگلی کٹوائی ہے اور راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں یہ کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اے نفس! شہید ہوجا ورنہ موت کا فیصلہ تجھے قتل کرڈالے گا اور تجھے ضرور موت دی جائے گی ۔ تو نے جس چیز کی تمنا کی تجھے وہ چیز دی گئی ۔ اب اگر تو بھی ان دونوں ( یعنی حضرت زید بن حارث اور حضرت جعفر بن ابوطالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا)کی طرح شہید ہو گیا تو کامیاب ہے اور اگر تو نے تاخیر کی تو تحقیق بد بختی تیرا مقدر ہوگی ۔
پھر اپنے نفس کو مُخاطَب کر کے فرمانے لگے: ’’اے نفس !تجھے کس چیز کی تمنا ہے؟ کیا فلاں کی ؟ تو سن! اسے تین طلاق۔ کیا تجھے فلاں فلاں لونڈی وغلام اور فلاں باغ سے محبت ہے؟ تو سن ! اپنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے چھوڑ دے ۔ اے نفس! تجھے کیا ہوگیا کہ تو جنت کو ناپسند کررہا ہے ؟ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ تجھے اس میں ضرور جانا پڑے گا، اب تیری مرضی چاہے خوش ہوکر جایا مجبور ہو کر ۔جا! خوش ہو کر جا! بے شک تو وہاں مطمئن رہے گا، تو پانی کا ایک قطرہ ہی تو ہے ،( پھر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بالآخر لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش فرماگئے ۔ )( عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والسبعون بعد الثلاث مائۃ، ص۳۲۸-۳۲۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ملنے پر خوشی منانا اچھا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت یا کوئی دوسری بشارت ملے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے جیسے اس آیت میں اس چیز کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے۔
اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲)
ترجمۂکنزالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے،حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو۔
{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔} بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ان مومنین کے ساتھ ہے جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا، اس صورت میں اوپر والی آیت میں دیا گیا جنت کا وعدہ ان مجاہدین کے ساتھ خاص ہو گا جن میں اس آیت میں مذکور اوصاف پائے جائیں۔ امام زجاج کے نزدیک اس آیت میں مذکور اَوصاف کا تعلق ماقبل آیت میں مذکور مومنین کے ساتھ نہیں بلکہ یہ جدا طور پر بیان کئے گئے ہیں ، ’’اَلتَّآئِبُوۡنَ‘‘ سے لے کر آخر تک ذکر کئے گئے اوصاف جن میں پائے جائیں ان کے لئے بھی جنت ہے اگرچہ وہ (نفلی) جہاد نہ کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
’’وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى‘‘ (النساء:۹۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک آیت کا یہ معنی بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جنت کا وعدہ تمام مومنین کے لئے ہو گا۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۲-۱۵۳، ملخصاً)
{اَلتَّآىٕبُوْنَ:توبہ کرنے والے۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جن ایمان والوں کا اس سے پہلی آیت میں ذکر ہوا وہی کفر سے حقیقی توبہ کرنے والے ،اسلام کی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کرنے والے، ایمان معرفت اور اطاعت کا حکم دینے والے، شرک اور گناہوں سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدوں یعنی اس کے اَمر و نہی کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ان صفات سے متصف ایمان والوں کو (جنت کی ) خوشخبری سنادو۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ص۴۵۶-۴۵۷)
دوسری تفسیر یہ ہے کہتمام گناہوں سے توبہ کرنے والے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّکے فرمانبردار بندے جو اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کو اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں۔ نمازوں کے پابند اور ان کو خوبی سے ادا کرنے والے ہیں۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اس کے احکام بجا لانے والے یہ لوگ جنتی ہیں۔ اور اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا عہد و فا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۲ / ۲۸۵)
{وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ:اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ۔}اللہ تعالیٰ نے بندوں کو جن اَحکام کا پابند کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں ، یہ تمام احکام دو قسموں میں منحصر ہیں (1) عبادات ،جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ (2) معاملات، جیسے خریدو فروخت ،نکاح اور طلاق وغیرہ۔ ان دونوں قسموں میں سے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لانا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حدوں کی حفاظت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۶ / ۱۵۵، قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۲، ۴ / ۱۵۵، الجزء الثامن، ملتقطاً)
اسی بات کو عام الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوقُ اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں کہ حقوقُ اللہ میں مگن ہو کر حقوق العباد چھوڑ دیں اور حقوق العباد میں مصروف ہوکر حقوقُ اللہ سے غافل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں یہ اِفراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے اور یہ دین سے جہالت کی وجہ سے ہے۔
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(۱۱۳)
ترجمۂکنزالایمان: نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ انہیں کھل چکا کہ وہ دوزخی ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔
{مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں۔} شانِ نزول: اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار کروں گا جب تک کہ مجھے ممانعت نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ممانعت فرمادی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب ما کان للنبیّ والذین آمنوا۔۔۔ الخ، ۳ / ۲۴۰، الحدیث: ۴۶۷۵)
بعض مفسرین نے یہ شانِ نزول بیان کیا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے اپنی والدہ کی زیارت ِ قبر کی اجازت چاہی اس نے مجھے اجازت دی پھر میں نے ان کے لئے استغفار کی اجازت چاہی تو مجھے اجازت نہ دی اور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ’’مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ‘‘(مستدرک، کتاب التفسیر، زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر امّہ آمنۃ، ۳ / ۷۱، الحدیث: ۳۳۴۵)
لیکن یہ ہرگز درست نہیں چنانچہ صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ شانِنزول کی یہ وجہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث حاکم نے روایت کی اور اس کو صحیح بتایا اور ذہبی نے حاکم پر اعتماد کرکے میزان میں اس کی تصحیح کی لیکن مُخْتَصِرُ الْمُسْتَدْرَکْ میں ذہبی نے اس حدیث کی تضعیف کی اور کہا کہ ایوب بن ہانی کو ابنِ معین نے ضعیف بتایا ہے، علاوہ بریں یہ حدیث بخاری کی حدیث کے مخالف بھی ہے جس میں اس آیت کے نزول کا سبب آپ کا والدہ کے لئے استغفار کرنا نہیں بتایا گیا بلکہ بخاری کی حدیث سے یہی ثابت ہے کہ ابو طالب کے لئے استغفار کرنے سے متعلق یہ آیت وارد ہوئی، اس کے علاوہ اور حدیثیں جو اس مضمون کی ہیں جن کو طبرانی ، ابنِ سعد اور ابنِ شاہین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ وغیرہ نے روایت کیا ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ابنِ سعد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے طبقات میں حدیث کی تخریج کے بعد اس کو غلط بتایا اور سند المحدثین امام جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے رسالہ ’’ اَلتَّعْظِیْمُ وَالْمَنَّۃُ‘‘ میں اس مضمون کی تمام اَحادیث کو مَعلول بتایا ،لہٰذا یہ وجہ شانِ نزول میں صحیح نہیں اور یہ بات ثابت ہے، اس پر بہت سے دلائل قائم ہیں کہ سیّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والدہ ماجدہ مُوَحِّدہ (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ماننے والی) اور دینِ ابراہیمی پرتھیں۔
{مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ:جبکہ ان کے لئے واضح ہوچکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔} یعنی جب ان کیلئے ظاہر ہو چکا کہ وہ شرک پر مرے ہیں۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ص۴۵۷)خیال رہے کہ کسی مشرک کا مرتے وقت تک مسلمان نہ ہونا ا س بات کی علامت ہے کہ وہ کافر مرا لہٰذا اس پر اسلام کے احکام جاری نہیں ہوتے اگرچہ حقیقتِ حال کی خبر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ہے جیسے کسی کا مرتے وقت تک مسلمان رہنا اس کے اسلام پر مرنے کی علامت ہے اگرچہ ا س کے خاتمہ کا حال ہمیں معلوم نہیں ،یہی آیتِ کریمہ کا مقصد ہے۔
وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ-اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا بیشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمل ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے ۔ بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔
{وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا ۔} اس سے یا تو وہ وعدہ مراد ہے جو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے آزر سے کیا تھا کہ میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے تیری مغفرت کی دعا کروں گا یا وہ وعدہ مراد ہے جو آزر نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اسلام لانے کا کیا تھا۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ص۴۵۷) شانِ نزول: حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ‘‘(مریم: ۴۷)(عنقریب میں تیرے لئے اپنے رب سے معافی مانگوں گا)تو میں نے سنا کہ ایک شخص اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کررہا ہے حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے تو میں نے کہا :تو مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کرتا ہے؟ اس نے کہا :کیا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آزر کے لئے دُعا نہ کی تھی؟ وہ بھی تو مشرک تھا ۔ یہ واقعہ میں نے نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ذکرکیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اِستغفار اسلام قبول کرنے کی امید کے ساتھ تھا جس کا آزر آپ سے وعدہ کرچکا تھا اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آزر سے استغفار کا وعدہ کرچکے تھے۔جب وہ اُمید مُنقطع ہوگئی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس سے اپنا تعلق ختم کردیا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ، ۵ / ۶۹، الحدیث: ۳۱۱۲، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۲ / ۲۸۷، ملتقطاً)
{اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دو صفات بیان فرمائیں اس سے مقصود یہ ہے کہ جس میں یہ صفات پائی جائیں اس کا قلبی مَیلان اپنے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنے میں بہت شدید ہوتا ہے گویا کہ فرمایا گیا بے شک حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عظیم مرتبے ،آہ و زاری اور برداشت کی صِفات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کافر چچا کے لئے استغفار کی دعا کرنے سے منع کر دیا تو جس میں یہ باتیں نہ ہوں اسے تو بدرجہ اَولیٰ اپنے کافر والدین کے لئے استغفار کی دعا کرنا منع ہے۔ (تفسیر کبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۴، ۶ / ۱۵۸-۱۵۹)
صفت ’’اَوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کی خوبیاں :
یہ دونوں صفات بہت عظیم ہیں اور سیدنا ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان صِفات کے مَظْہَرِ اَتَم تھے ،نیچے ان کے مفہوم کی وضاحت بیان کی جارہی ہے البتہ اس میں گناہوں کو یاد کرکے مغفرت طلب کرنے کی بات دوسروں کے لئے ہے ، حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے نہیں کیونکہ نبی گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔ ’’اَوّاہ‘‘ صفت کی خوبی یہ ہے کہ جس میں یہ صفت پائی جائے وہ بکثرت دعائیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور ا س کی تسبیح میں مشغول رہتا ہے، کثرت کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا ہے، اُخرَوی ہولناکیوں اور دہشت انگیزیوں کے بارے میں سن کر گریہ و زاری کرتا ہے، اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے مغفرت طلب کرتا ہے، نیکی اور بھلائی کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ ہر کام سے بچتا ہے ۔حلیم صفت کی خوبی یہ ہے جس میں یہ صفت پائی جائے وہ اپنے ساتھ برا سلوک کرنے والے پر بھی احسان کرتا ہے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے بھلائی کے ساتھ دیتا ہے اور اسے اگر کسی کی طرف سے اَذِیّت اور تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اگر کسی سے بدلہ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر لیتا ہے اور اگر کسی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہی مدد کرتا ہے۔
ترغیب کے لئے یہاں صفت ’’اوّاہ‘‘ اور’’ حلیم‘‘ کے چند فضائل درج ذیل ہیں ، چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَرات کے وقت (ایک صحابی کی تدفین کیلئے) ایک قبر میں داخل ہوئے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لئے چراغ جلایا گیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میت کو قبلہ کی طرف سے پکڑ کر فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ، تو بہت رونے والا اور کثرت سے تلاوتِ قرآن کرنے والا تھا۔(ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الدفن باللیل، ۲ / ۳۳۱، الحدیث: ۱۰۵۹)
حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک شخص ذوالبجادین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ’’ اَوَّاہْ ‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قرآنِ مجید کی تلاوت اور دعا کے ذریعے کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ (معجم الکبیر، باب العین، علی بن رباح عن عقبۃ بن عامر، ۱۷ / ۲۹۵، الحدیث: ۸۱۳)
حضرت علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’بے شک آدمی حِلم کے ذریعے روزہ دار عبادت گزار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۳۶۹، الحدیث: ۶۲۷۳)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’حلیم شخص دنیا میں سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سردار ہو گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحلم والانائ، ۲ / ۵۵، الحدیث: ۵۸۰۷، الجزء الثالث)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان صِفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْمًۢا بَعْدَ اِذْ هَدٰىهُمْ حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ مَّا یَتَّقُوْنَؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۱۱۵)اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یُحْیٖ وَ یُمِیْتُؕ-وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ(۱۱۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور اللہ کی شان نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت کرکے گمراہ فرمائے جب تک انہیں صاف نہ بتادے کہ کس چیز سے انہیں بچنا چاہیے بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔بیشک اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت جِلاتا ہے اور مارتا ہے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی والی اور نہ مددگار۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد اسے گمراہ کردے جب تک انہیں صاف نہ بتادے کہ کس چیز سے انہیں بچنا ہے ۔بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔بیشک اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے ،وہ زندہ کرتا ہے اور وہ مارتا ہے اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی ہے اور نہ مددگار۔
{حَتّٰى یُبَیِّنَ لَهُمْ:جب تک انہیں صاف نہ بتادے۔} آیت کا معنی یہ ہے کہ جو چیز ممنوع ہے اور اس سے اِجتناب واجب ہے اس پر اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندوں کی گرفت نہیں فرماتا جب تک کہ اس کی ممانعت کا صاف بیاناللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے نہ آجائے لہٰذا مُمانَعت سے پہلے اس فعل کے کرنے میں حَرج نہیں۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ص۴۵۷، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸، ملتقطاً)شانِ نزول : جب مومنین کو مشرکین کے لئے اِستغفار کرنے سے منع فرمایا گیا تو انہیں اندیشہ ہوا کہ ہم پہلے جو استغفار کرچکے ہیں کہیں اس پر گرفت نہ ہو، اس آیت سے انہیں تسکین دی گئی اور بتایا گیا کہ ممانعت کا بیان ہونے کے بعد اس پر عمل کرنے سے مُؤاخَذہ ہوتا ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۵، ۲ / ۲۸۸)اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں شریعت کی طرف سے ممانعت نہ ہو وہ جائز ہے۔
لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌۙ(۱۱۷)
ترجمۂکنزالایمان:بیشک اللہ کی رحمتیں متوجہ ہوئیں ان غیب کی خبریں بتانے والے اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا بعد اس کے کہ قریب تھا کہ ان میں کچھ لوگوں کے دل پھر جائیں پھر ان پر رحمت سے متوجہ ہوا بیشک وہ ان پر نہایت مہربان رحم والا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:بیشک اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی نبی پر اور ان مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے مشکل وقت میں نبی کی پیروی کی حالانکہ قریب تھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے دل ٹیڑھے ہوجاتے پھر اللہ کی رحمت ان پر متوجہ ہوئی ۔ بیشک وہ ان پر نہایت مہربان، بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
{لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِیِّ:بیشک اللہ کی رحمت نبی پر متوجہ ہوئی۔} نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رحمۃ للعالمین ہیں اورآپ پر رحمت ِ الٰہی کا رجوع یوں ہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو معصوم ہونے کے باوجود بکثرت توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائی گئی جو آپ کی بلندیٔ درجات اور مسلمانوں کیلئے تعلیم کا ذریعہ تھی اور مسلمانوں کو بہت سے معاملات میں توبہ کی توفیق دی گئی اور اس توبہ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے قبول بھی فرمایا۔
{اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ:جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔} مشکل گھڑی سے مراد غزوہ ٔ تبوک ہے جسے غزوۂ عسرت بھی کہتے ہیں اس غزوہ میں عسرت یعنی تنگی کا یہ حال تھا کہ دس دس آدمیوں میں سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا باری باری اسی پر سوار ہولیتے تھے اور کھانے کی قِلَّت کا یہ حال تھا کہ ایک ایک کھجور پر کئی کئی آدمی اس طرح گزارہ کرتے تھے کہ ہر ایک نے تھوڑی تھوڑی چوس کر ایک گھونٹ پانی پی لیا۔ پانی کی بھی نہایت قلت تھی ، گرمی شدت کی تھی، پیاس کا غلبہ اور پانی ناپید ۔ اس حال میں صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماپنے صدق و یقین اور ایمان و اخلاص کے ساتھ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی جاں نثاری میں ثابت قدم رہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی :یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے ۔ ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ خواہش ہے؟ عرض کی: جی ہاں ، تو حضورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دستِ مبارک اُٹھا کر دعا فرمائی اور ابھی دستِ مبارک اٹھے ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بادل بھیجا ،بارش ہوئی ،لشکر سیراب ہوا اور لشکر والوں نے اپنے برتن بھر لئے، اس کے بعد جب آگے چلے تو زمین خشک تھی، بادل نے لشکر کے باہر بارش ہی نہیں کی وہ خاص اسی لشکر کو سیراب کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
{مَا كَادَ:قریب تھا۔} یعنی قریب تھا کہ ان میں سے بعض لوگوں کے دل شدت اور سختی پہنچنے کی وجہ سے حق سے اِعراض کر جاتے اور وہ اس شدت و سختی میں رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے جدا ہونا گوارا کرلیتے لیکن انہوں نے صبر کیا اور وہ ثابت قدم رہے اور جو وسوسہ ان کے دل میں گزرا تھا اس پر نادم ہوئے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ا رشاد فرمایا ’’ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کا اخلاص اور توبہ کی سچائی جانتا ہے تو اس نے انہیں توبہ کرنے کی توفیق دی اور اس توبہ کو قبول فرمایا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۲ / ۲۸۹)
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاؕ-حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِؕ-ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠(۱۱۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور ان تین پر جو موقوف رکھے گئے تھے یہاں تک کہ جب زمین اتنی وسیع ہوکر ان پر تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جان سے تنگ آئے اور انہیں یقین ہوا کہ اللہ سے پناہ نہیں مگر اسی کے پاس پھر ان کی توبہ قبول کی کہ تائب رہیں بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ان تین پر (بھی رحمت ہوئی)جن کا معاملہ موقوف کردیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کی ناراضگی سے (بچنے کیلئے) اس کے سوا کوئی پناہ نہیں تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی تا کہ وہ تائب رہیں۔ بیشک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
{وَ عَلَى الثَّلٰثَةِ:اور تین پر۔} یہ تین صحابۂ کرام حضرت کعب بن مالک، ہلال بن اُمیہ اور مرارہ بن ربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمہیں۔ ان کا ذکر آیت ’’وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ(توبہ:۱۰۶)(اور اللہ کے حکم کی وجہ سے کچھ دوسروں کو مؤخر کردیا گیا ہے) ‘‘ میں گزر چکا ہے ،یہ سب انصاری تھے، رسول کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے غزوۂ تبوک سے واپس ہو کر ان سے جہاد میں حاضر نہ ہونے کی وجہ دریافت فرمائی اور فرمایا: ٹھہرو، جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی فیصلہ فرمائے اور مسلمانوں کو اُن لوگوں سے ملنے جلنے کلام کرنے سے ممانعت فرما دی حتّٰی کہ اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں نے ان سے کلام ترک کردیا ،یہاں تک کہ ایسا معلو م ہوتا تھا کہ اُن کو کوئی پہچانتا ہی نہیں اور اُن کی کسی سے شناسائی ہی نہیں۔ اس حال پر انہیں پچاس روز گزرے یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور انہیں کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی جہاں ایک لمحہ کے لئے انہیں قرار ہوتا ،ہر وقت پریشانی اور رنج وغم بے چینی و اِضطراب میں مُبتلا تھے اور وہ رنج وغم کی شدت کی وجہ سے اپنی جانوں سے تنگ آگئے ، نہ کوئی اَنیس ہے جس سے بات کریں ،نہ کوئی غم خوار جسے حالِ دل سنائیں ، وحشت و تنہائی ہے اور شب و روز کی گریہ و زاری۔ انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی سے بچنے کیلئے اس کے سوا کوئی پناہ نہیں تواللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان کی توبہ قبول فرما لی تا کہ آئندہ توبہ کرنے والے ہی رہیں۔(خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۸، ۲ / ۲۹۰-۲۹۱، ملخصاً)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)
ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
{وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ:اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔} یعنی ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو ایمان میں سچے ہیں ، مخلص ہیں ، رسولِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی اِخلاص کے ساتھ تصدیق کرتے ہیں۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ صادقین سے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَامراد ہیں۔ ابنِ جریج کہتے ہیں کہ اس سے مہاجرین مراد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی نیتیں سچی رہیں ، ان کے دل اور اَعمال سیدھے رہے اور وہ اخلاص کے ساتھ غزوئہ تبو ک میں حاضر ہوئے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ۲ / ۲۹۳)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم ارشاد فرمایا،اس مناسبت سے یہاں ہم سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی مذمت پر دو اَحادیث ذکر کرتے ہیں۔
(1)…حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک سچائی بھلائی کی طرف ہدایت دیتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق ہو جاتا ہے اور جھوٹ بدکاریوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور بدکاریاں جہنم میں پہنچاتی ہیں اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالی: یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۵، الحدیث: ۶۰۹۴)
(2)…حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ جس شخص کو آپ نے (شبِ معراج) دیکھا کہ ا س کے جبڑے چیرے جا رہے ہیں وہ بہت جھوٹا آدمی ہے، ایسی بے پرکی اڑاتا تھا کہ اس کا جھوٹ اطراف ِعالَم میں پھیل جاتا تھا، پس قیامت تک ا س کے ساتھ یہی کیا جاتا رہے گا۔(بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالی: یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۱۲۶، الحدیث: ۶۰۹۶)
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
اِس آیت سے نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا بھی ثبوت ملتا ہے کیونکہ ان کے ساتھ ہونے کی ایک صورت ان کی صحبت اختیار کرنا بھی ہے اور ان کی صحبت اختیار کرنے کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی سیرت و کردار اور اچھے اعمال دیکھ کر خود کوبھی گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ دل کی سختی ختم ہو تی اور اس میں رِقَّت و نرمی محسوس ہوتی ہے،ایمان پر خاتمے اور قبر و حشر کے ہَولناک معاملات کی فکر نصیب ہوتی ہے، اس لئے ہر مسلمان کوچاہئے کہ وہ نیک بندوں سے تَعلُّقات بنائے اور ان کی صحبت اختیار کرے اور کسی کی بھی صحبت اختیار کرنے سے پہلے غور کر لے کہ وہ کس کی صحبت اختیار کر رہا ہے ،اس کی ترغیب سے متعلق حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ترمذی، کتاب الزہد، ۴۵-باب، ۴ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۳۸۵)
اور دیندار دوست تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں ’’سچے دوست تلاش کرو اور ان کی پناہ میں زندگی گزارو کیونکہ وہ خوشی کی حالت میں زینت اور آزمائش کے وقت سامان ہیں۔ اور کسی گناہگار کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس سے گناہ کرنا ہی سیکھو گے۔ (احیاء العلوم، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ کرو: (1) بہت جھوٹ بولنے والا شخص،کیونکہ تم اس سے دھوکہ کھاؤ گے ،وہ سراب (یعنی صحراء میں پانی نظر آنے والی ریت ) کی طرح ہے،وہ دور والے کو تیرے قریب کر دے گا اور قریب والے کو دور کر دے گا۔ (2) بے وقوف آدمی، کیونکہ اس سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، وہ تمہیں نفع پہنچانا چاہے گا لیکن نقصان پہنچا بیٹھے گا۔ (3) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا۔ (4) بزدل شخص، کیونکہ یہ مشکل وقت میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ (5) فاسق شخص، کیونکہ وہ تمہیں ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔ کسی نے پوچھا کہ لقمے سے کم کیا ہے؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’لالچ رکھنا اور اسے نہ پانا۔(احیاء العلوم، کتاب آداب الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، الباب الاول فی فضیلۃ الالفۃ والاخوۃ۔۔۔ الخ، بیان الصفات المشروطۃ فیمن تختار صحبتہ، ۲ / ۲۱۴-۲۱۵)
یاد رہے کہ کسی کو اپنا پیرو مرشد بنانے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی صحبت کے ذریعے اس سے فیض حاصل کیا جاسکے ۔یونہی باعمل علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی بھی بہت فضیلت ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے۔ ’’علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔ (مسند الفردوس، باب المیم، ۴ / ۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں میں سے گزرو تو چر لیا کرو ۔ عرض کی گئی، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جنت کے باغ کیا چیز ہیں ؟ارشاد فرمایا: علم کی مَجالس۔ (معجم الکبیر، باب العین، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱ / ۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)
حضرت سہل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جو چاہتا ہے کہ وہ انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی مجلسوں کی طرف دیکھے اسے چاہیے کہ علماء کی مجلسوں کی طرف دیکھے کہ کوئی مرد آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے فلاں (یعنی مولانا صاحب، مفتی صاحب) آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں اس اس طرح قسم کھائی، پس وہ عالم کہتا ہے کہ اس کی عورت کو طلاق ہو گئی اور ایک دوسرا شخص آتا ہے اور کہتاہے ،آپ اس مرد کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس نے اپنی عورت کے بارے میں ایسے ایسے قسم اٹھائی تو وہ کہتا ہے کہ وہ مرد اپنی اس بات کے ساتھ حانِث (قسم توڑنے والا) نہیں ہوا اور یہ بات کہنا (یعنی احکامِ شرع بیان کرنا)جائز نہیں مگر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور علماء کے لیے۔ پس اس بات سے علماء کی شان پہچان لو۔ (الفقیہ والمتفقہ، ذکر احادیث واخبار شتی یدلّ جمیعہا علی جلالۃ الفقہ والفقہاء، ۱ / ۱۴۹، روایت نمبر: ۱۳۶)
حضرت بہزبن حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو علماء کی صحبت میں بیٹھا تحقیق وہ میری صحبت میں بیٹھا اور جو میری صحبت میں بیٹھا یقینا وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں بیٹھا۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول فی الترغیب فیہ، ۵ / ۷۴، الحدیث: ۲۸۸۷۹، الجزء العاشر)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’علماء کی مجالس سے الگ نہ رہو اس لئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّنے روئے زمین پر علماء کی مجالس سے مکرم کسی مٹی کوپیدا نہیں فرمایا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ترتیب الاوراد وتفصیل احیاء اللیل، الباب الاول فی فضیلۃ الاوراد وترتیبہا واحکامہا، بیان اختلاف الاوراد باختلاف الاحوال، ۱ / ۴۶۰)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ارشا د ہے: ایسے لوگوںکی صحبت اختیار کرو جن کی صورت دیکھ کر تمہیں خدا یاد آئے ، جن کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے، جن کا عمل تمہیں آخرت کا شوق دلائے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع فی آداب العالم والمتعلم، ص۱۷۲) اللہ تعالیٰ ہمیں نیک لوگوں کو اپنا دوست بنانے ،علم کی مجالس اور علماء کی صحبت میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
علامہ عبداللہ بن احمد نسفیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہتعالیٰ نے صادقین کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا، اس سے اُن کے قول کو قبول کرنا لازم آتا ہے۔ (مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۱۹، ص۴۵۸)
نیز اس حدیثِ پاک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اجماع حجت ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اِنَّ اُمَّتِیْ لَا تَجْتَمِعُ عَلٰی ضَلَالَۃٍ فَاِذَا رَاَیْتُمْ اِخْتِلَافًا فَعَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ‘‘بے شک میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی،تو جب تم اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کو لازم پکڑ لو۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، ۴ / ۳۲۷، الحدیث: ۳۹۵۰)
مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ لَا یُصِیْبُهُمْ ظَمَاٌ وَّ لَا نَصَبٌ وَّ لَا مَخْمَصَةٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَطَـٴُـوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْكُفَّارَ وَ لَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَۙ(۱۲۰)
ترجمۂکنزالایمان: مدینے والوں اور ان کے گرد دیہات والوں کو لائق نہ تھا کہ رسولُ اللہ سے پیچھے بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں یہ اس لیے کہ انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے اور جہاں ایسی جگہ قدم رکھتے ہیں جس سے کافروں کو غیظ آئے اور جو کچھ کسی دشمن کا بگاڑتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے بیشک اللہ نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتا ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ کے راستے میں انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک پہنچتی ہے اور جہاں کفار کو غصہ دلانے والی جگہ پرقدم رکھتے ہیں اور جو کچھ دشمن سے حاصل کرتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔
{مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ:اہلِ مدینہ کیلئے مناسب نہیں تھا ۔} یہاں اہلِ مدینہ سے مدینہ طیبہ میں سکونت رکھنے والے مراد ہیں خواہ وہ مہاجرین ہوں یا اَنصار اور اَعراب سے قرب و جوار کے تمام دیہاتی مراد ہیں۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بذاتِ خود جہاد کے لئے تشریف لے جائیں تو اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں میں کسی کے لئے جائز نہ تھا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے پیچھے بیٹھے رہیں اور جہاد میں حاضر نہ ہوں اور نہ یہ جائز تھا کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں بلکہ انہیں حکم تھا کہ شدت و تکلیف میں حضور اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا ساتھ نہ چھوڑیں اور سختی کے موقع پر اپنی جانیں آپ پر فدا کریں۔ یہ مُمانَعت اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے میں انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک پہنچتی ہے اور جہاں کفار کو غصہ دلانے والی جگہ پرقدم رکھتے ہیں اور کفار کی زمین کو اپنے گھوڑوں کے سموں سے روندتے ہیں اور جو کچھ دشمن کوقید کرکے یا قتل کر کے یا زخمی کرکے یا ہزیمت دے کر حاصل کرتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے ۔ (صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۸۴۷-۸۴۸، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۳-۲۹۴، ملتقطاً)
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ:بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کوضائع نہیں فرماتا۔} یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں کے اجر ضائع نہیں فرماتا جنہوں نے اچھے عمل کئے ، جس چیز کااللہ عَزَّوَجَلَّ نے حکم دیا اور جس چیز سے منع کیا اس میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کی بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کی جزا انہیں عطا فرماتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس شخص نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی اطاعت کا قصد کیا تو اس مقصد کیلئے اس کا اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب نیکیاں ہیں ، وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے یہاں لکھی جاتی ہیں اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّکی نافرمانی کا ارادہ کیا تو اس کااس مقصد کیلئے اُٹھنا بیٹھنا ،چلنا، حرکت کرنا سب گناہ ہیں ، ہاں اللہ عَزَّوَجَلَّچاہے تو اپنے فضل وکرم سے سب معاف فرما دے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۲ / ۲۹۴)
اس آیت میں راہِ خدا میں نکل کر جہاد کرنے اور راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنے کاذکر ہوا ،اس مناسبت سے یہاں راہِ خدا میں جہاد کیلئے نکلنے اور اِس راہ میں تکالیف برداشت کرنے کے فضائل پر مشتمل 5 اَحادیث ذکر کی جاتی ہیں :
(1)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا، ’’اللہ عَزَّوَجَلَّاپنی راہ میں نکلنے والوں کو ضمانت دیتاہے کہ جس بندے کو صرف میری راہ میں جذبۂ جہاد ،ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق نے گھر سے نکالا ہے تو اب وہ میری کفا لت میں ہے میں اسے جنت میں داخل کروں یا اسے ثواب اور غنیمت عطافرمانے کے بعد اسے واپس اس کے گھر تک پہنچاؤں۔(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ، ص۱۰۴۲، الحدیث: ۱۰۳(۱۸۷۶))
(2)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا، ’’راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں زخمی ہونے والا قیامت کے دن آئے گا تو اس کے زخموں سے سرخ خون بہہ رہا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہو گی۔(بخاری، کتاب الذبائح والصید والتسمیۃ علی الصید، ۳ / ۵۶۶، الحدیث: ۵۵۳۳)
(3)…حضرت ابودَرْدَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا، ’’ جسے راہِ خداعَزَّوَجَلَّمیں ایک زخم لگے گا اس پر شہداء کی مہر لگادی جائے گی جو قیامت کے دن اس کے لئے نور ہوگی، اس کا رنگ زعفران کی طرح اور خوشبو مشک کی طرح ہوگی، اسے اس مہر کی وجہ سے اَوّلین وآخرین پہچان لیں گے اور کہیں گے فلاں پر شہیدوں کی مہر لگی ہوئی ہے ۔ (مسند احمد، من مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ،۱۰ / ۴۲۰، الحدیث: ۲۷۵۷۳)
(4)… حضرت عبدالرحمٰن بن جَبْررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جس بندے کے پاؤں راہِ خدا عَزَّوَجَلَّمیں گرد آلود ہوئے انہیں جہنم کی آگ نہ چھوئے گی ۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من اغبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۲ / ۲۵۷، الحدیث: ۲۸۱۱)
(5)…اور ایک روایت میں ہے ’’ جو پاؤں راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں گرد آلود ہوجائیں وہ جہنم کی آگ پر حرام ہیں۔(ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل من اغتبرّت قدماہ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۵، الحدیث: ۱۶۳۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اپنی راہ میں آنے والی تکالیف برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمائے،اٰمین۔
وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً وَّ لَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِیَجْزِیَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں چھوٹا یا بڑا اور جو نالا طے کرتے ہیں سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کے سب سے بہتر کاموں کا انہیں صلہ دے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور جو کچھ تھوڑا اور زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں اور جو وادی وہ طے کرتے ہیں سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کے بہتر کاموں کا انہیں بدلہ عطا فرمائے۔
{وَ لَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَةً صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً:اور جو کچھ تھوڑا اور زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ تھوڑا مثلاً ایک کھجور یا زیادہ وہ خرچ کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوۂ تبوک میں خرچ کیا اور اپنے سفر میں آنے اور جانے کے دوران جو وادی وہ طے کرتے ہیں تو ان کا راہِ خدا میں خرچ کرنا اور وادیاں عبور کرنا سب ان کے لیے لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کے کاموں کا انہیں بدلہ عطا فرمائے۔ اس آیت سے جہاد کی فضیلت اور اس کابہترین عمل ہونا ثابت ہوا۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ۲ / ۲۹۴، مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۱، ص۴۵۹، ملتقطاً)
جہاد میں مال خرچ کرنے اور جہاد میں شریک ہونے کے فضائل بکثرت اَحادیث میں مذکور ہیں ، ان میں سے 5 اَحادیث یہاں بیان کی جاتی ہیں۔
(1)…حضرت خریم بن فاتک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّکی راہ میں کچھ خرچ کرے تو اس کیلئے سات سو گنا لکھا جاتا ہے۔ (ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل النفقۃ فی سبیل اللہ، ۳ / ۲۳۳، الحدیث: ۱۶۳۱)
(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی راہ میں صبح کو جانا یا شام کو جانا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۱، الحدیث: ۲۷۹۲)
(3)… حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہیں : (1 ) وہ شخص جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے حتّٰی کہ اسے موت آجائے تو جنت میں داخل فرمادے یا اَجر اور غنیمت کا مال لے کر واپس کرے۔ (2 ) وہ شخص جو مسجد کی طرف چلے وہ اللہتعالیٰ کی ذمہ دار ی میں ہے۔ (3) وہ شخص جو ا پنے گھر میں سلام کر کے داخل ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے ۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فضل الغزو فی البحر، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۲۴۹۴)
(4)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس کی سی ہے جو دن کا روزہ داراور رات کو آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرنے والا ہو، نہ روزے سے تھکے نہ نماز سے ، حتّٰی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ کا مجاہد لوٹ آئے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللہ تعالی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۰( ۱۸۷۸))
(5)… حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گھر سے نکلا پھر قتل کیا گیا یااسے اس کے گھوڑے یا اونٹ نے کچل دیا یا اسے زہریلے جانور نے ڈس لیا یا اپنے بستر پر کسی سبب سے مر گیا جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے چاہا تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فیمن مات غازیاً، ۳ / ۱۴، الحدیث: ۲۴۹۹)
وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠(۱۲۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکل جائیں تو ان میں ہر گروہ میں سے ایک جماعت کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اورجب اِن کی طرف واپس آئیں تووہ اِنہیں ڈرائیں تاکہ یہ ڈر جائیں۔
{وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا۔} یعنی علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا توجب سارے نہیں جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں کافی ہو کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں ضروری ہے۔(مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ص۴۵۹)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں اور وہ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دین کے مسائل سیکھتے اور فقاہت حاصل کرتے اور اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے احکام دریافت کرتے۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی فرماں برداری کا حکم دیتے اور نماز زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں اُن کی قوم پر مامور فرماتے۔ جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان کردیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کا خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے ۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۵)یہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا معجزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں کو بہت تھوڑے عرصے میں دین کے اَحکام کا عالم اور قوم کا ہادی بنادیا ۔
اس آیت سے 3مسائل معلوم ہوئے:
(1)… علمِ دین حاصل کرنا فرض ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو چیزیں بندے پر فرض و واجب ہیں اور جو اس کے لئے ممنوع و حرام ہیں اور اسے درپیش ہیں ان کا سیکھنا فرضِ عین ہے اور اس سے زائدعلم حاصل کرنا فرضِ کفایہ۔ حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا: ’’ علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔( ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فضل العلماء والحثّ علی طلب العلم، ۱ / ۱۴۶، الحدیث: ۲۲۴)
امام شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ علم سیکھنا نفل نماز سے افضل ہے۔ (خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۲، ۲ / ۲۹۷)
(2)… علم حاصل کرنے کے لئے سفر کی ضرورت پڑے تو سفر کیا جائے۔ طلبِ علم کے لئے سفر کا حکم حدیث شریف میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ا رشاد فرمایا’’ جو شخص طلبِ علم کے لئے را ہ چلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لئے جنت کی راہ آسان کرتا ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴ / ۲۹۴، الحدیث: ۲۶۵۵)
(3)…فقہ افضل ترین علوم میں سے ہے ۔حدیث شریف میں ہے، حضورِ اکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے لئے بہتری چاہتا ہے اس کو دین میں فقیہ بناتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا ہے۔( بخاری، کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیراً یفقّہہ فی الدین، ۱ / ۴۲، الحدیث: ۷۱، مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النہی عن المسألۃ، ص۵۱۷، الحدیث: ۱۰۰(۱۰۳۷))
حضرت عبداللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴ / ۳۱۱، الحدیث: ۲۶۹۰)
فقہ اَحکامِ دین کے علم کو کہتے ہیں اور اِصطلاحی فقہ بھی اس کا عظیم مِصداق ہے۔
[1] …زکوٰۃ کے مصارف اورزکوٰۃ سے متعلق مزید مسائل جاننے کے لئے کتاب’’فتاویٰ اہلسنت(زکوٰۃ کے احکام) ‘‘ اور ’’فیضانِ زکوٰۃ ‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ) کا مطالعہ فرمائیں ۔
[2] …سچی توبہ اور اس سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’توبہ کی روایات و حکایات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ مفید ہے۔
[3] … صدقات سے متعلق احکام اور فضائل وغیرہ کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کتاب’’فضائلِ صدقات‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ فرمائیں۔