وَ جَآءَتْ سَیَّارَةٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَهُمْ فَاَدْلٰى دَلْوَهٗؕ-قَالَ یٰبُشْرٰى هٰذَا غُلٰمٌؕ-وَ اَسَرُّوْهُ بِضَاعَةًؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(۱۹)
ترجمۂکنزالایمان:اور ایک قافلہ آیا انہوں نے اپنا پانی لانے والا بھیجا تو اس نے اپنا ڈول ڈالا بولا آہا کیسی خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے اور اسے ایک پونجی بناکر چھپالیا اور اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور ایک قافلہ آیا تو انہوں نے اپنا پانی لانے والا آدمی بھیجا تو اس نے اپنا ڈول ڈالا ۔ اس پانی لانے والے نے کہا: کیسی خوشی کی بات ہے ،یہ تو ایک لڑکا ہے۔ اور انہوں نے اسے سامانِ تجارت قرار دے کر چھپالیا اور اللہ جانتا ہے جو وہ کررہے تھے۔
{وَ جَآءَتْ سَیَّارَةٌ:اور ایک قافلہ آیا۔} ایک قافلہ جو مدین سے مصر کی طرف جارہا تھا وہ راستہ بہک کر اُس جنگل کی طرف آ نکلا جہاں آبادی سے بہت دور یہ کنواں تھا اور اس کا پانی کھاری تھا مگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی برکت سے میٹھا ہوگیا ، جب وہ قافلہ والے اس کنوئیں کے قریب اترے تو انہوں نے اپنا پانی لانے والا کنویں کی طرف بھیجا، اس کا نام مالک بن ذعر خزاعی تھا اور یہ شخص مدین کا رہنے والا تھا، جب وہ کنوئیں پر پہنچا اور اس نے اپنا ڈول ڈالا تو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے وہ ڈول پکڑلیا اور اس میں لٹک گئے ، مالک نے ڈول کھینچا تو آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کنویں سے باہر تشریف لے آئے۔ جب اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا عالَم افروز حسن دیکھا تو نہایت خوشی میں آکر اپنے ساتھیوں کو مُژدہ دیا کہ آہا کیسی خوشی کی بات ہے، یہ تو ایک بڑا حسین لڑکا ہے۔ مالک بن ذعر اور اس کے ساتھیوں نے انہیں سامانِ تجارت قرار دے کر چھپالیا تاکہ کوئی اس میں شرکت کا دعویٰ نہ کر دے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائی جو اس جنگل میں اپنی بکریاں چراتے تھے اور وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نگرانی بھی کررہے تھے ، آج جو انہوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کنوئیں میں نہ دیکھا تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے قافلہ میں پہنچے، وہاں انہوں نے مالک بن ذعر کے پاس حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو وہ اس سے کہنے لگے کہ یہ غلام ہے، ہمارے پاس سے بھاگ آیا ہے ، کسی کام کا نہیں ہے اور نافرمان ہے، اگر خرید لو تو ہم اسے سستا بیچ دیں گے اور پھر اسے کہیں اتنی دور لے جانا کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کے خوف سے خاموش کھڑے رہے اور آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کچھ نہ فرمایا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۱۰، ابو سعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۸۹، ملتقطاً)
وَ شَرَوْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍۚ-وَ كَانُوْا فِیْهِ مِنَ الزَّاهِدِیْنَ۠(۲۰)
ترجمۂکنزالایمان:اور بھائیوں نے اسے کھوٹے داموں گنتی کے روپوں پر بیچ ڈالا اور انہیں اس میں کچھ رغبت نہ تھی۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور بھائیوں نے بہت کم قیمت چند درہموں کے بدلے میں اسے بیچ ڈالا اور انہیں اس میں کچھ رغبت نہ تھی۔
{وَ شَرَوْهُ:اور بھائیوں نے اسے بیچ ڈالا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھائیوں نے انہیں مالک بن ذعر خزاعی کے ہاتھ بہت کم قیمت والے چند درہموں کے بدلے بیچ دیا ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ بیس درہم تھے۔ اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے بھائی پہلے سے ہی ان میں کچھ رغبت نہ رکھتے تھے۔ پھر مالک بن ذعر اور اس کے ساتھی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مصر میں لائے، اس زمانے میں مصر کا بادشاہ ریان بن ولید بن نزدان عملیقی تھا اور اس نے اپنی عِنانِ سلطنت قطفیر مصری کے ہاتھ میں دے رکھی تھی، تمام خزائن اسی کے تحتِ تَصَرُّف تھے ، اس کو عزیزِ مصر کہتے تھے اور وہ بادشاہ کا وزیر اعظم تھا، جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاممصر کے بازار میں بیچنے کے لئے لائے گئے تو ہر شخص کے دل میں آپ کی طلب پیدا ہوئی اور خریداروں نے قیمت بڑھانا شروع کی یہاں تک کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے وزن کے برابر سونا، اتنی ہی چاندی، اتنا ہی مشک اور اتنا ہی ریشم قیمت مقرر ہوئی اور عمر شریف اس وقت تیرہ یا سترہ سال کی تھی۔ عریزِ مصر نے اس قیمت پر آپ کو خرید لیا اور اپنے گھر لے آیا۔ دوسرے خریدار اس کے مقابلہ میں خاموش ہوگئے۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۹۴۹، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۰، ۳ / ۱۱، ملتقطاً)
وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۲۱)
ترجمۂکنزالایمان: اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھ شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا: انہیں عزت سے رکھو شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ہم انہیں بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو زمین میں ٹھکانا دیا اور تاکہ ہم اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔
{وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖ:اور مصر کے جس شخص نے انہیں خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا۔} آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مصر کے جس شخص نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خریدا اسے لوگ عزیزمصر کہتے تھے اور اس کا نام قطفیر تھا، اس نے اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو عزت سے رکھو ، ان کی قیام گاہ نفیس ہو، لباس اور خوراک اعلیٰ قسم کی ہو، شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے اور ہمارے کاموں میں اپنے تدبر و دانائی سے ہمارے لئے نفع مند اور بہتر مددگار ثابت ہو نیز ہوسکتا ہے کہ سلطنت اور حکومت کے کاموں کو سر انجام دینے میں ہمارے کام آئے کیونکہ رُشد کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہیں یا پھر ہم انہیں بیٹا بنالیں۔ یہ قطفیر نے اس لئے کہا کہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۹۰، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱، ملتقطاً)
{وَ كَذٰلِكَ:اور اسی طرح ۔}یعنی جس طرح ہم نے قتل سے محفوظ کرکے اور کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر لا کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر احسان فرمایا اسی طرح ہم نے انہیں مصر کی سرزمین میں ٹھکانا دیا تاکہ ہم اسے مصر کے خزانوں پر تسلط عطا کریں اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے کام پر غالب ہے ،وہ جو چاہے کرے اور جیسا چاہے حکم فرمائے، اس کے حکم کو کوئی روکنے والا ہے نہ اس کی قضا کو کوئی ٹالنے والا ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس پر غالب ہے ،مگر اکثر آدمی نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کیا کرنے والا ہے اور وہ ان سے کیاچاہتا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۱، ۳ / ۱۱)
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۲۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جب یوسف بھر پور جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔
{وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچے۔} یعنی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر آیا اور عمر مبارک امام ضحاک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قول کے مطابق بیس سال، سدی کےقول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جانناعلم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۲، ۳ / ۱۱-۱۲)
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدنی بخشا کہ استاد کے واسطے کے بغیر ہی علم و فقہ اور عملِ صالح عنایت کیا۔ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکاعمومی یا اکثر علم مبارک علمِ لدنی ہوتا ہے۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘ (کہف:۶۵)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا۔
اور ہمارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بارے میں فرمایا
’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘ (النساء:۱۱۳)
ترجمۂکنزُالعِرفان:اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے۔
اور فرمایا
’’ اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ‘‘ (سورۂ رحمٰن:۱،۲)
ترجمۂکنزُالعِرفان:رحمٰن نے۔ قرآن سکھایا۔
لہٰذا دنیا کا کوئی علم والا نبیعَلَیْہِ السَّلَام کے برابر نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ لوگ دنیاوی استادوں کے شاگرد ہوتے ہیں اور نبیعَلَیْہِ السَّلَام ربُّ العالمین عَزَّوَجَلَّ سے سیکھتے ہیں۔
وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۳)
ترجمۂکنزالایمان: اور وہ جس عورت کے گھر میں تھا اس نے اسے لبھایا کہ اپنا آپا نہ روکے اور دروازے سب بند کردئیے اور بولی آؤ تمہیں سے کہتی ہوں کہا اللہ کی پناہ وہ عزیز تو میرا رب یعنی پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا بیشک ظالموں کا بھلا نہیں ہوتا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ جس عورت کے گھر میں تھے اُس نے اُنہیں اُن کے نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی اور سب دروازے بند کردئیے اور کہنے لگی: آؤ ، (یہ) تم ہی سے کہہ رہی ہوں۔ یوسف نے جواب دیا: (ایسے کام سے) اللہ کی پناہ۔ بیشک وہ مجھے خریدنے والا شخص میری پرورش کرنے والا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ بیشک زیادتی کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔
{هُوَ فِیْ بَیْتِهَا:وہ جس عورت کے گھر میں تھے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی پاکدامنی بیان فرمائی ہے، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انتہائی حسین و جمیل تھے، جب زلیخا نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے حسن و جمال کو دیکھا تو اس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں لالچ کیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اسی گھر میں رہائش پذیر تھے جہاں زلیخا رہتی تھی، اس لئے زلیخا نے موقع پاکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے مُقَدّس نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تا کہ وہ اس کے ساتھ مشغول ہو کر اس کی ناجائز خواہش کو پورا کریں۔زلیخا کے مکان میں یکے بعد دیگرے سات دروازے تھے، زلیخا نے ساتوں دروازے بند کر کے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے کہا ’’میری طرف آؤ ،یہ میں تم ہی سے کہہ رہی ہوں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ا س کی بات سن کر فرمایا’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں اور اسی سے اپنی حفاظت کا طلبگار ہوں کہ وہ مجھے اس قباحت سے بچائے جس کی تو طلب گار ہے۔ بے شک عزیز مصر قطفیر میری پرورش کرنے والا ہے اور اس نے مجھے رہنے کے لئے اچھی جگہ دی ہے اس کا بدلہ یہ نہیں کہ میں اس کے اہلِ خانہ میں خیانت کروں ، جو ایسا کرے وہ ظالم ہے۔ (تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۶ / ۴۳۸، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۳، ۳ / ۱۲، ملتقطاً)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہونا چاہیے اور اپنے مربی کا احسان ماننا انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے۔
وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(۲۴)
ترجمۂکنزالایمان: اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بیشک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا اوراگروہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تووہ بھی عورت کا ارادہ کرتا۔ ہم نے اسی طرح کیاتاکہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں ،بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے۔
{وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ:اور بیشک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا۔} یعنی زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے برائی کاا رادہ کیا اور اگرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماپنے رب عَزَّوَجَلَّکی دلیل نہ دیکھ لیتے تو انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ بھی عورت کی طرف مائل ہو جاتے لیکن حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب تعالیٰ کی دلیل دیکھی اور اس فاسد ارادے سے محفوظ رہے اور وہ دلیل وبُرہان عِصْمت ِنبوت ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاکیزہ نُفوس کو برے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہے اور پاکیزہ، مُقَدّس اور شرافت والے اَخلاق پر ان کی پیدائش فرمائی ہے، اس لئے وہ ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے درپے ہوئی اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو دیکھا کہ انگشت ِمبارک دندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اِجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں۔ (ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۹۴-۹۵، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۴، ملتقطاً)
تنبیہ:ان آیات میں ذکر کئے گئے واقعے سے متعلق بحث کرنے سے بچناہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی کی عصمت کا ہے اور بحث کرنا کہیں ایمان کی بربادی کا سبب نہ بن جائے ۔
{كَذٰلِكَ:اسی طرح۔} یعنی جس طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دلیل دکھائی اسی طرح ہم اس سے ہربرائی اور بے حیائی کو پھیر دیں گے اور بیشک حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامہمارے ان بندوں میں سے ہے جنہیں ہم نے نبوت کے لئے منتخب فرما لیا ہے اور دوسرے لوگوں پر انہیں اختیار کیا ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۴، ۳ / ۱۵)
اَحادیث میں پاک دامن رہنے اور قدرت کے باوجود بدکاری سے بچنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ، ترغیب کے لئے4 اَحادیث اور ایک حکایت درج ذیل ہے۔
(1)…حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو مجھے اپنے دونوں جبڑوں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان والی چیز (یعنی زبان اور شرمگاہ) کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، ۴ / ۲۴۰، الحدیث: ۶۴۷۴)
(2)… حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اے قریش کے جوانو! اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور زِنا نہ کرو، سن لو! جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اس کے لئے جنت ہے۔(شعب الایمان، السابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۵۴۲۵)
(3)… حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔ (حلیۃ الاولیاء، الربیع بن صبیح، ۶ / ۳۳۶، الحدیث: ۸۸۳۰)
(4)… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے (عرش کے) سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں ایک) وہ شخص ہے جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے (اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے) طلب کیا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث:۶۶۰)
حضرت ابوعبداللہ بلخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا جس سے زیادہ حسن و جمال والا کوئی نوجوان کبھی دیکھا نہ گیا ،وہ ٹوکر یاں بیچا کرتا تھا ۔ ایک دن یوں ہواکہ وہ اپنی ٹوکریاں لے کر(انہیں بیچنے کے لئے) گھوم رہا تھا کہ بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ کے محل سے ایک عورت نکلی ،جب اس نے نوجوان کو دیکھا تو جلدی سے واپس لوٹ گئی اور بادشاہ کی شہزادی سے کہا :میں نے گھر سے ایک نوجوان کو ٹوکریاں بیچتے ہوئے دیکھا ( وہ اتنا خوبصورت ہے کہ)میں نے اس سے زیادہ حسین و جمیل نوجوان کبھی نہیں دیکھا ۔( یہ سن کر) شہزادی نے کہا: اسے لے آؤ۔ وہ عورت ا س کے پاس گئی اور کہا: اے نوجوان!اندر آ جاؤ، ہم تم سے خریداری کریں گے ۔نوجوان (محل میں ) داخل ہو ا تو عورت نے اس کے پیچھے دروازہ بند کر دیا ،پھر ا س سے کہا: داخل ہو جاؤ۔ وہ داخل ہوا تو اس نے پیچھے سے دوسرا دروازہ بند کر دیا، پھر وہ عورت نوجوان کو شہزادی کے سامنے لے گئی جس نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھایا ہوا تھا اور اس کا سینہ بھی عُریاں تھا۔ (جب نوجوان نے شہزادی کو اس حالت میں دیکھا) تواس نے شہزادی سے کہا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرمائے، تم (اپنا چہرہ اور سینہ) چھپا لو۔ شہزادی نے کہا: ہم نے تمہیں نصیحت کرنے کے لئے نہیں بلایا بلکہ محض اس مقصد کے لئے بلایا ہے( کہ ہم تجھ سے اپنی شہوت کی تسکین کرنا چاہتے ہیں۔) نوجوان نے اس سے کہا : تو (اس معاملے میں ) اللہ تعالیٰ سے ڈر۔ شہزادی نے کہا: میری مراد پوری کرنے میں اگر تو نے میری بات نہ مانی تو میں بادشاہ کو بتا دوں گی کہ تم میرے پاس صرف میرے نفس پر غالب آنے کے لئے آئے ہو۔ نوجوان نے پھر انکار کیا اور اسے نصیحت کی ، جب ا س نے (نصیحت ماننے سے) انکار کر دیا تو نوجوان نے کہا : میرے لئے وضو کا انتظام کر دو۔ شہزادی نے کہا : کیا تو مجھے دھوکہ دینا چاہتا ہے؟ اے خادمہ: اس کے لئے محل کی چھت پر وضو کا برتن رکھ دو تا کہ یہ فرار نہ ہوسکے ۔ محل کی چھت زمین سے تقریباً 40 گز اونچی تھی، جب وہ نوجوان چھت پر پہنچ گیا تو اس نے (دعا مانگتے ہوئے ) عرض کی:اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، مجھے تیری نافرمانی کی طرف بلایا جا رہا ہے اور میں اپنے نفس سے صبر کرنے کو اختیار کر رہا ہوں ، (مجھے یہ منظور ہے کہ) اپنے آپ کو اس محل سے نیچے گرا دو ں اور گناہ نہ کروں ،پھر اس نے بِسْمِ اللہ پڑھی اور خود کو محل کی چھت سے نیچے گرا دیا ۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جس نے اسے بازؤں سے پکڑا اور پاؤں کے بل زمین پر کھڑا کر دیا، جب وہ نوجوان زمین پر اتر آیاتو عرض کی : اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، اگر توچاہے تومجھے ایسا رزق دے سکتا ہے جو مجھے یہ ٹوکریاں بیچنے سے بے نیاز کر دے۔ (جب اس نے یہ دعا کی) تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ایک بوری بھیجی جو سونے سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے بوری سے سونا بھرنا شرو ع کردیا یہا ں تک کہ اس نے اپنا کپڑا بھر لیا۔ پھر اس نے عرض کی: ’’ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ،اگر یہ اسی رزق کا حصہ ہے جو تو نے مجھے دنیا میں دینا تھا تو مجھے اس میں برکت عطا فرما او راگر یہ میرے اس اجر و ثواب میں سے کچھ کم کر دے گا جو تیرے پاس آخرت میں ہے تو مجھے اس سونے کی حاجت نہیں۔ (جب اس نوجوان نے یہ کہا) تو اسے ایک آواز سنائی دی : جو سونا ہم نے تجھے عطا کیا ، یہ اس اجر کا پچیسواں حصہ ہے جو تجھے خود کو اس محل سے گرانے پر صبر کرنے سے ملا ہے۔ اس نوجوان نے کہا: ’’ اے میرے پروردگار! عَزَّوَجَلَّ، مجھے ایسے مال کی حاجت نہیں جو میرے اس ثواب میں کمی کا باعث بنے جو آخرت میں تیرے پاس ہے ۔ (جب نوجوان نے یہ بات کہی) تو وہ سونا اٹھا لیا گیا۔(عیون الحکایات، الحکایۃ الخامسۃ والعشرون بعد المائۃ، ص۱۴۲-۱۴۳)
وَ اسْتَبَقَا الْبَابَ وَ قَدَّتْ قَمِیْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ وَّ اَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَا الْبَابِؕ-قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْٓءًا اِلَّاۤ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۲۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے اس کا کرتا پیچھے سے چیر لیا اور دونوں کو عورت کا میاں دروازے کے پاس ملا بولی کیا سزا ہے اس کی جس نے تیری گھر والی سے بدی چاہی مگر یہ کہ قید کیا جائے یا دکھ کی مار۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے ان کی قمیص کو پیچھے سے پھاڑ دیا اور دونوں نے دروازے کے پاس عورت کے شوہر کو پایا تو عورت کہنے لگی۔ اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ یہی کہ اسے قید کردیا جائے یا دردناک سزا (دی جائے)۔
{وَ اسْتَبَقَا الْبَابَ:اور وہ دونوں دروازے کی طرف دوڑے۔}جب زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درپے ہوئی اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنے رب تعالیٰ کی بُرہان دیکھی تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دروازے کی طرف بھاگے اور زلیخا ان کے پیچھے انہیں پکڑنے کے لئے بھاگی۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامجس جس دروازے پر پہنچتے جاتے تھے اس کا تالا کھل کر گرتا چلا جاتا تھا۔ آخر کار زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک پہنچی اور اس نے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کرتا پیچھے سے پکڑ کر آپ کو کھینچا تاکہ آپ نکلنے نہ پائیں لیکن آپ غالب آئے اور دروازے سے باہر نکل گئے ۔ زلیخا کے قمیص کھینچنے کی وجہ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قمیص پیچھے سے پھٹ گئی تھی۔
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے ہی باہر نکلے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیچھے زلیخا بھی نکلی تو انہوں نے زلیخا کے شوہر یعنی عزیز مصر کو دروازے کے پاس پایا، فوراً ہی زلیخا نے اپنی براء ت ظاہر کرنے اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے مکر سے خوفزدہ کرنے کے لئے حیلہ تراشا اور شوہر سے کہنے لگی: اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ اتنا کہہ کر زلیخا کو اندیشہ ہوا کہ کہیں عزیز طیش میں آکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے قتل کے درپے نہ ہوجائے اور یہ زلیخا کی شدّتِ محبت کب گوارا کرسکتی تھی اس لئے اس نے یہ کہا ’’یہی کہ اسے قید کردیا جائے یا دردناک سزا دی جائے یعنی اس کو کوڑے لگائے جائیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۵، ۳ / ۱۵، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۵، ص۵۲۶، ملتقطاً)
قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَ هُوَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۲۶)وَ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَ هُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۷)فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنْ كَیْدِكُنَّؕ-اِنَّ كَیْدَكُنَّ عَظِیْمٌ(۲۸)
ترجمۂکنزالایمان: کہا اس نے مجھ کو لبھایا کہ میں اپنی حفاظت نہ کروں اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی اگر ان کا کرتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا۔ اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے۔ پھر جب عزیز نے اس کاکرتا پیچھے سے چرا دیکھا بولا بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر ہے بیشک تمہارا چرتر بڑا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یوسف نے فرمایا: اسی نے میرے دل کو پھسلانے کی کوشش کی ہے اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں۔اور اگر ان کا کر تا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں۔ پھر جب عزیز نے اس کا کر تاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو کہا: بیشک یہ تم عورتوں کا مکر ہے۔ بیشک تمہارا مکر بہت بڑا ہے۔
{قَالَ: فرمایا۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دیکھا کہ زلیخا الٹا آپ پر الزام لگاتی ہے اور آپ کے لئے قید و سزا کی صورت پید ا کرتی ہے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اپنی براء ت کا اظہار اور حقیقت ِحال کابیان ضروری سمجھا اور فرمایا ’’یہ مجھ سے برے فعل کی طلب گار ہوئی تو میں نے اس سے انکار کیا اور میں بھاگا۔ عزیز نے کہا’’ اس بات پر کس طرح یقین کیا جائے؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ اس گھر میں ایک چار مہینے کا بچہ جھولے میں ہے جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ عزیز نے کہا کہ’’ چار مہینے کا بچہ کیا جانے اور کیسے بولے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کو گویائی دینے اور اس سے میری بے گناہی کی شہادت ادا کرا دینے پر قادر ہے۔ عزیز نے اس بچہ سے دریافت کیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ بچہ بولنے لگا اور اس نے کہا: اگر اِن کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو پھر تو عورت سچی ہے اور یہ سچے نہیں اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے ہیں۔ یعنی اگر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آگے بڑھے اور زلیخا نے ان کو ہٹایا تو کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو گا اور اگر حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماس سے بھاگ رہے تھے اور زلیخا پیچھے سے پکڑ رہی تھی تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو گا۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ۳ / ۱۵-۱۶، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۶-۲۷، ص۵۲۶-۵۲۷، ملتقطاً)
اس واقعے سے سرکار ِدوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بھی معلوم ہوئی کہ جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامپر تہمت لگی تو ان کی پاکیزگی کی گواہی بچے سے دلوائی گئی اگرچہ یہ بھی عظیم چیز ہے لیکن جب سیّدالمرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا پر تہمت لگی تو چونکہ وہ معاملہ سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت کا بھی تھا اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی عِفت و عِصمت اور پاکیزگی کی گواہی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خود دی۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ چند شیر خوار بچوں نے کلام کیا ہے۔ (1) حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ گواہ ۔ (2) ہمارے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پیدا ہوتے ہی حمدِ الٰہی کی۔ (3) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔(4)حضرت مریم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا۔(5) حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (6) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ۔ (7) اس عورت کا بچہ جس پر زنا کی تہمت لگائی گئی تھی اور وہ بے گناہ تھی۔ (8) خندق والی مصیبت زَدہ عورت کا بچہ یعنی اَصحابِ اُخدود۔ (9) حضرت آسیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکی کنگھی کرنے والی کا بچہ ۔ (10) مبارک یمامہ ، جس نے پیدا ہوتے ہی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم سے گواہی دی۔(11)جریج راہب کی گواہی دینے والا بچہ۔
{فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ:پھر جب عزیز نے اس کا کر تاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا۔} یعنی جب عزیز نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا اور جان لیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سچے ہیں اور زلیخا جھوٹی ہے تو زلیخا سے کہا ’’تمہاری یہ بات کہ اس شخص کی کیا سزا ہے جو تمہاری گھر والی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ؟ یہ صرف تم عورتوں کا مکر ہے ، بیشک تمہارا مکر بہت بڑا ہے جس کی وجہ سے تم مردوں پر غالب آ جاتی ہو۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۸، ص۵۲۷)
یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاٚ-وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ ۚۖ-اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِـٕیْنَ۠(۲۹)
ترجمۂکنزالایمان: اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بیشک تو خطاواروں میں ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ ۔بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے ہے۔
{یُوْسُفُ: اے یوسف!} جب عزیز ِمصر کے سامنے زلیخا کی خیانت اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی براء ت ثابت ہو گئی تو عزیز نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف متوجہ ہو کر اس طرح معذرت کی ’’اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور اس پر مغموم نہ ہو بے شک تم پاک ہو ۔ اس کلام سے یہ بھی مطلب تھا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرو تاکہ چرچا نہ ہو اور شُہرہ عام نہ ہوجائے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۹، ۳ / ۱۶)
اس آیت کے علاوہ بھی حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی برأت کی بہت سی علامتیں موجود تھیں ایک تو یہ کہ کوئی شریف طبیعت انسان اپنے مُحسن کے ساتھ اس طرح کی خیانت روا نہیں رکھتا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اچھے اَخلاق کی بلندیوں پر فائز ہوتے ہوئے کس طرح ایسا کرسکتے تھے۔ دوسری یہ کہ دیکھنے والوں نے آپ کو بھاگتے آتے دیکھا اور طالب کی یہ شان نہیں ہوتی بلکہ وہ درپے ہوتا ہے، آگے نہیں بھاگتا ۔بھاگتا وہی ہے جو کسی بات پر مجبور کیا جائے اور وہ اسے گوارا نہ کرے۔ تیسری یہ کہ عورت نے انتہا درجہ کا سنگار کیا تھا اور وہ غیر معمولی زیب و زینت کی حالت میں تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رغبت و اہتمام محض اس کی طرف سے تھا ۔ چوتھی یہ کہ حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا تقویٰ و طہارت جو ایک دراز مدت تک دیکھا جاچکا تھا اس سے آپ کی طرف ایسے برے فعل کی نسبت کسی طرح قابلِ اعتبار نہیں ہوسکتی تھی ۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲۹، ۳ / ۱۶)
{وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ :اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ ۔} یعنی عزیز مصر زلیخا کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا ’’ اے عورت! تو اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگ جو تو نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر تہمت لگائی حالانکہ وہ اس سے بری ہیں۔ اپنے شوہر کے ساتھ خیانت کا ارادہ کرنے کی وجہ سے بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے ہے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۲۷، ۲۹، ۳ / ۱۶)
وَ قَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِیْنَةِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىهَا عَنْ نَّفْسِهٖۚ-قَدْ شَغَفَهَا حُبًّاؕ-اِنَّا لَنَرٰىهَا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۳۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور شہر میں کچھ عورتیں بولیں کہ عزیز کی بی بی اپنے نوجوان کا دل لبھاتی ہے بیشک ان کی محبت اس کے دل میں پَیر گئی ہے ہم تو اسے صر یح خود رفتہ پاتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور شہر میں کچھ عورتوں نے کہا: عزیز کی بیوی اپنے نوجوان کا دل لبھانے کی کوشش کرتی ہے، بیشک ان کی محبت اس کے دل میں سماگئی ہے، ہم تو اس عورت کو کھلی محبت میں گم دیکھ رہے ہیں۔
{وَ قَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِیْنَةِ:اور شہر میں کچھ عورتوں نے کہا۔} عزیز ِمصر نے اگرچہ اس قصہ کو بہت دبایا لیکن یہ خبر چھپ نہ سکی اور اس کا چرچا اورشہرہ ہو ہی گیا۔ شہر میں شُرفاء ِمصر کی عورتیں زلیخا اور حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ عزیز کی بیوی زلیخا اپنے نوجوان کا دل لبھانے کی کوشش کرتی ہے، بیشک ان کی محبت اس کے دل میں سماگئی ہے، ہم تو اس عورت کو کھلی محبت میں گم دیکھ رہے ہیں کہ اس دیوانے پن میں اس کو اپنے ننگ و ناموس اور پردے و عفت کا لحاظ بھی نہ رہا۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۰، ۳ / ۱۶-۱۷، ملخصاً)
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْهِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً وَّ اٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُ جْ عَلَیْهِنَّۚ-فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ وَ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ وَ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًاؕ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ(۳۱)
ترجمۂکنزالایمان: تو جب زلیخا نے ان کا چکروا سنا تو ان عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری دیدی اور یوسف سے کہا ان پر نکل آؤ جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے لگیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنسِ بشر سے نہیں یہ تو نہیں مگر کوئی معزز فرشتہ۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: تو جب اس عورت نے ان کی بات سنی تو ان عورتوں کی طرف پیغام بھیجااور ان کے لیے تکیہ لگا کر بیٹھنے کی نشستیں تیار کردیں اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دیدی اور یوسف سے کہا: ان کے سامنے نکل آئیے توجب عورتوں نے یوسف کو دیکھا تواس کی بڑائی پکار اُٹھیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے اورپکار اٹھیں سُبْحَانَ اللہ ،یہ کوئی انسان نہیں ہے یہ تو کوئی بڑی عزت والا فرشتہ ہے۔
{فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ:تو جب اس عورت نے ان کی بات سنی۔} یعنی جب زلیخانے سنا کہ اَشرافِ مصر کی عورتیں اسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی محبت پر ملامت کرتی ہیں تو اس نے چاہا کہ وہ اپنا عذر ان کے سامنے ظاہر کردے، چنانچہ اس کے لئے اس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اس دعوت میں اشراف ِمصر کی چالیس عورتوں کو مدعو کرلیا، ان میں وہ سب عورتیں بھی تھیں جنہوں نے اس پر ملامت کی تھی، زلیخا نے ان عورتوں کو بہت عزت و احترام کے ساتھ مہمان بنایا اور ان کیلئے نہایت پرتکلف نشستیں تیار کردیں جن پر وہ بہت عزت و آرام سے تکئے لگا کر بیٹھیں ، دستر خوان بچھائے گئے اور طرح طرح کے کھانے اور میوے اس پرچنے گئے۔ پھر زلیخا نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دیدی تاکہ وہ اس سے کھانے کے لئے گوشت کاٹیں اور میوے تراش لیں ، اس کے بعد زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عمدہ لباس پہننے کیلئے دیا اور کہا ’’ان عورتوں کے سامنے نکل آئیے۔ پہلے تو آپ نے اس سے انکار کیا لیکن جب اِصرار و تاکید زیادہ ہوئی توزلیخا کی مخالفت کے اندیشے سے آپ کو آنا ہی پڑا۔ جب عورتوں نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا توان کی بڑائی پکار اُٹھیں کیونکہ انہوں نے اس عالَم افروز جمال کے ساتھ نبوت و رسالت کے اَنوار، عاجزی و اِنکساری کے آثار ،شاہانہ ہَیبت واِقتدار اور کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور حسین و جمیل صورتوں کی طرف سے بے نیازی کی شان دیکھی تو تعجب میں آگئیں اور آپ کی عظمت وہیبت دلوں میں بھر گئی اور حسن و جمال نے ایسا وارفتہ کیا کہ ان عورتوں کو خود فراموشی ہو گئی اور ان کے حسن و جمال میں گم ہوکر پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور ہاتھ کٹنے کی تکلیف کا اصلاً احساس نہ ہوا۔ وہ پکار اٹھیں کہ سُبْحَانَ اللہ، یہ کوئی انسان نہیں ہے کہ ایسا حسن و جمال انسانوں میں دیکھا ہی نہیں گیا اور اس کے ساتھ نفس کی یہ طہارت کہ مصر کے اعلیٰ خاندانوں کی حسین و جمیل عورتیں ، طرح طرح کے نفیس لباسوں اور زیوروں سے آراستہ وپیراستہ سامنے موجود ہیں اور آپ کی شانِ بے نیازی ایسی کہ کسی کی طرف نظر نہیں فرماتے اور قطعاً اِلتفات نہیں کرتے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۷-۱۸، تفسیر کبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۱، ۶ / ۴۴۸، ملتقطاً)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس واقعے کی طرف اشارہ کر کے بڑے حسین انداز میں شانِ مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زَناں سر کٹاتے ہیں ترے نام پر مردانِ عرب
علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو حسن کا ایک حصہ عطا کیا گیا تھا اور ان کا حسن ظاہر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حسن کو اپنے جلال کے پردوں میں نہیں چھپایا ،اسی لئے آپعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن کا نظارہ کر کے عورتیں فتنے میں مبتلا ہو گئیں جبکہ حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کامل حسن عطا کیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے جمال کو اپنے جلال کے پردوں میں چھپا دیا تھا جس کی وجہ سے آپ کا حسنِ کامل دیکھ کر بھی کوئی عورت فتنے میں مبتلا نہ ہوئی یہی وجہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سراپا اَقدس کی تفصیلات بڑے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مروی نہیں بلکہ چھوٹے صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے منقول ہیں کیونکہ بڑے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے دلوں میں آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہبیت و جلال اس قدر تھی کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف نظر نہ اٹھا سکتے تھے۔(صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۹۴۸، ملخصاً)
قَالَتْ فَذٰلِكُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْهِؕ-وَ لَقَدْ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ فَاسْتَعْصَمَؕ-وَ لَىٕنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَاۤ اٰمُرُهٗ لَیُسْجَنَنَّ وَ لَیَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِیْنَ(۳۲)
ترجمۂکنزالایمان: زلیخا نے کہا تو یہ ہیں وہ جن پر تم مجھے طعنہ دیتی تھیں اور بیشک میں نے ان کا جی لبھانا چاہا تو انہوں نے اپنے آپ کو بچا یا اور بیشک اگر وہ یہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں پڑیں گے اور وہ ضرور ذلت اٹھائیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:زلیخا نے کہا: تو یہ ہیں وہ جن کے بارے میں تم مجھے طعنہ دیتی تھیں اور بیشک میں نے ان کا دل لبھانا چاہا تو اِنہوں نے اپنے آپ کو بچالیا اور بیشک اگر یہ وہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں ڈالے جائیں گے اور ضرور ذلت اٹھانے والوں میں سے ہوں گے ۔
{قَالَتْ:زلیخا نے کہا۔} عورتوں نے جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا تو وہ ان کے حسن و جمال میں گم ہو گئیں ، یہ دیکھ کر زلیخا نے ان سے کہا ’’یہ ہیں وہ جن کے بارے میں تم مجھے طعنہ دیتی تھیں ،اب تم نے دیکھ لیا اور تمہیں معلوم ہوگیا کہ میرا دیوانہ پن کچھ قابلِ تعجب اور ملامت نہیں اور بیشک میں نے ان کا دل لبھانا چاہا تو اِنہوں نے اپنے آپ کو بچالیا اور کسی طرح میری طرف مائل نہ ہوئے۔ اس پر مصری عورتوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ آپ زلیخا کا کہنا مان لیجئے ۔ ان کی بات سن کرزلیخا بولی ’’ بیشک اگر یہ وہ کام نہ کریں گے جو میں ان سے کہتی ہوں تو ضرور قید میں ڈالے جائیں گے اور ضرور ذلت اٹھانے والوں میں سے ہوں گے اور چوروں ، قاتلوں اور نافرمانوں کے ساتھ جیل میں رہیں گے، کیونکہ انہوں نے میرا دل مجھ سے چھین لیا اور میری نافرمانی کی اور فراق کی تلوار سے میرا خون بہایا تو اب انہیں بھی خوشگوار کھانا پینا اور آرام کی نیند سونا میسر نہ ہوگا، جیسا میں جدائی کی تکلیفوں میں مصیبتیں جھیلتی اور صدموں میں پریشانی کے ساتھ وقت کاٹتی ہوں یہ بھی تو کچھ تکلیف اٹھائیں ،میرے ساتھ ریشم میں شاہانہ چارپائی پر عیش گوارا نہیں ہے تو قید خانے کے چبھنے والے بوریئے پر ننگے جسم کو دُکھانا گوارا کریں ، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہ سن کر مجلس سے اٹھ گئے اور مصری عورتیں ملامت کرنے کے بہانے سے باہر آئیں اور ایک ایک نے آپ سے اپنی تمنّاؤں اور مرادوں کا اظہار کیا ۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کی گفتگو بہت ناگوار ہوئی تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳ / ۱۸، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۵۲۸-۵۲۹، ملتقطاً)
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِۚ-وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ(۳۳)فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَیْدَهُنَّؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۳۴)ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰى حِیْنٍ۠(۳۵)
ترجمۂکنزالایمان: یوسف نے عرض کی اے میرے رب مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا۔تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکر پھیردیا بیشک وہی ہے سنتا جانتا ۔پھر سب کچھ نشانیاں دیکھ دکھا کر پچھلی مت انہیں یہی آئی کہ ضرور ایک مدت تک اسے قیدخانہ میں ڈالیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یوسف نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے اس کام کی بجائے قید خانہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے بلارہی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر وفریب نہ پھیرے گاتو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکروفریب پھیردیا، بیشک وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔ پھر سب نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی انہیں یہی سمجھ آئی کہ وہ ضرور ایک مدت تک کیلئے اسے قیدخانہ میں ڈال دیں۔
{ثُمَّ بَدَا لَهُمْ:پھران کیلئے یہی بات ظاہر ہوئی۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے امید پوری ہونے کی کوئی شکل نہ دیکھی تو مصری عورتوں نے زلیخا سے کہا کہ اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب دو تین روز حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانہ میں رکھا جائے تاکہ وہاں کی محنت و مشقت دیکھ کر انہیں نعمت و راحت کی قدر ہو اور وہ تیری درخواست قبول کرلیں۔ زلیخا نے اس رائے کو مانا اور عزیز ِمصر سے کہا کہ میں اس عبرانی غلام کی وجہ سے بدنام ہوگئی ہوں اور میری طبیعت اس سے نفرت کرنے لگی ہے ،مناسب یہ ہے کہ ان کو قید کیا جائے تاکہ لو گ سمجھ لیں کہ وہ خطاوار ہیں اور میں ملامت سے بری ہوں۔ یہ بات عزیز کے خیال میں آگئی اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قید خانے میں بھیج دیا۔ (تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۵، ۶ / ۴۵۲، ملخصاً)
وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِؕ-قَالَ اَحَدُهُمَاۤ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَعْصِرُ خَمْرًاۚ-وَ قَالَ الْاٰخَرُ اِنِّیْۤ اَرٰىنِیْۤ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِیْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْهُؕ-نَبِّئْنَا بِتَاْوِیْلِهٖۚ-اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۶)
ترجمۂکنزالایمان: اور اس کے ساتھ قیدخانہ میں دو جوان داخل ہوئے ان میں ایک بولا میں نے خواب دیکھا کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرند کھاتے ہیں ہمیں اس کی تعبیر بتائیے بیشک ہم آپ کو نیکو کار دیکھتے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یوسف کے ساتھ قیدخانے میں دو جوان بھی داخل ہوئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کررہا ہوں اور دوسرے نے کہا: میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرند ے کھا رہے ہیں۔ (اے یوسف!) آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک آدمی دیکھتے ہیں۔
{ وَ دَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیٰنِ:اور یوسف کے ساتھ قیدخانے میں دو جوان بھی داخل ہوئے ۔} ان دو جوانوں میں سے ایک تو مصر کے شاہِ اعظم ولید بن نزدان عملیقی کے باورچی خانے کا انچارج تھا اور دوسرا اس کاساقی، ان دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینا چاہا اور اس جرم میں دونوں قید کر دئیے گئے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب قید خانے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے علم کا اظہار شروع کردیا اور فرمایا کہ میں خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتا ہوں۔ ان دو جوانوں میں سے جو بادشاہ کا ساقی تھا اس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک باغ میں ہوں اور وہاں ایک انگور کی بیل میں تین خوشے لگے ہوئے ہیں ، بادشاہ کا کاسہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں نے ان انگوروں کا رس نچوڑ کر بادشاہ کو پلایا تو اس نے پی لیا۔ دوسرا یعنی کچن کا انچارج بولا ’’ میں نے خواب دیکھا کہ میں بادشاہ کے کچن میں اپنے سر پر کچھ روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں جن میں سے پرند ے کھا رہے ہیں۔ اے یوسف! عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، آپ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے۔ بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ دن میں روزہ دار رہتے ہیں ، ساری رات نماز میں گزارتے ہیں ، جب کوئی جیل میں بیمار ہوتا ہے تو اس کی عیادت کرتے ہیں اور اس کی خبر گیری رکھتے ہیں ، جب کسی پر تنگی ہوتی ہے تو اس کے لئے کشائش کی راہ نکالتے ہیں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں تعبیر بتانے سے پہلے اپنے معجزے کا اظہار اور توحید کی دعوت شروع کردی اور یہ ظاہر فرما دیا کہ علم میں آپ کا درجہ اس سے زیادہ ہے جتنا وہ لوگ آپ کے بارے میں سمجھتے ہیں کیونکہ علمِ تعبیر ظن پر مبنی ہے اس لئے آپ نے چاہا کہ انہیں ظاہر فرما دیں کہ آپ غیب کی یقینی خبریں دینے پر قدرت رکھتے ہیں اور اس سے مخلوق عاجز ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے غیبی عُلوم عطا فرمائے ہوں اس کے نزدیک خواب کی تعبیر کیا بڑی بات ہے، اس وقت معجزے کا اظہار آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ جانتے تھے کہ ان دونوں میں ایک عنقریب سولی دیا جائے گا ،اس لئے آپ نے چاہا کہ اس کو کفر سے نکال کر اسلام میں داخل کریں اور جہنم سے بچا دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر عالم اپنی علمی منزلت کا اس لئے اظہار کرے کہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں تو یہ جائز ہے۔ (مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۵۲۹-۵۳۰، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳ / ۱۹-۲۰، روح البیان، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۶، ۳۸، ۴ / ۲۵۷، ۲۶۰، ملتقطاً)سُبْحَانَ اللہ! حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا جیل کی تنگ وتکلیف دِہ زندگی میں بھی کس قدر پیارا اور دلنواز کردار ہے ۔ کاش کہ ہم عافیت کی زندگی میں ہی ایسے کردار کو اپنانے کی کوشش کرلیں۔
تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی امت کے اَکابر اولیاءِ کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ بھی جہاں عافیت کی حالت میں دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے وہیں قیدو بند کی صعوبتوں میں بھی انہوں نے اپنے قول اور عمل کے ذریعے تبلیغِ دین کے سلسلے کو جاری و ساری رکھا، جن میں ایک بہت بڑا اور عظیم نام سیدنا مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا ہے ، جب اکبر بادشاہ نے ملحدین اور بے دینوں کے ذریعے ایک نیا دین یعنی دینِ اکبری ایجاد کیا تو حضرت مجدد الف ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ملک کے طُول وعَرض میں دینِ اکبری کے خلاف اور دینِ اسلام کے دفاع میں مکتوبات اور مریدین کی جماعت کے ذریعے اپنی تبلیغی کوششوں کو عام کر دیا پھر جب اکبر بادشاہ مر گیا اور اس کے بعد جہانگیر نے سلطنت کی زِمامِ کار سنبھالی تو اس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے بعد حضرت مجدد الفِ ثانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنے دربار میں بلا یا اور تادیب کرنے ،تہذیب سکھانے اور دربارِ شاہی کی تعظیم نہ کرنے کو بہانا بنا کر انہیں قلعہ گوالیار میں قید کر دیا، لیکن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے وہاں قیدیوں میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہزاروں کافر و مشرک قیدی مشرف باسلام ہو گئے ، اسی طرح قید خانے سے مکتوبات کے ذریعے اپنے اہل و عیال، مریدوں اور اہلِ محبت کو اَحکامِ اسلام پر عمل کی دعوت دیتے رہے، ان میں سے ایک خط مُلاحظہ ہو، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاپنے صاجزادوں خواجہ محمد سعید اور خواجہ محمد معصوم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِماکے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں ’’فرزندانِ گرامی! مصیبت کا وقت اگرچہ تلخ و بے مزہ ہے لیکن اس میں فرصت میسر آ جائے تو غنیمت ہے، اس وقت تمہیں چونکہ فرصت میسر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور ایک لمحہ بھی فارغ نہ بیٹھو، تین باتوں میں سے ہر ایک کی پابندی ضرور ہونی چاہئے (1) قرآنِ پاک کی تلاوت۔ (2) لمبی قراء ت کے ساتھ نماز۔ (3) کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہْ‘‘ کی تکرار۔ کلمہ لَا کے ساتھ نفس کے خود ساختہ خداؤں کی نفی کریں ، اپنی مرادوں اور مقصدوں کی بھی نفی کریں ، اپنی مرادیں چاہنا (یعنی جو ہم چاہیں وہی ہوجائے گویا) خدائی کا دعویٰ کرنا ہے ا س لئے چاہئے کہ سینے میں کسی مراد کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ہوس کا خیال تک نہ آنے پائے تاکہ حیات کی حقیقت متحقق ہو۔ نفسانی خواہشات جو کہ جھوٹے خدا ہیں کو کلمہ’’ لَا‘‘ کے تحت لائیں تاکہ ان سب کی نفی ہو جائے اور تمہارے سینے میں کوئی مقصد و مراد باقی نہ رہے حتّٰی کہ میری رہائی کی آرزوبھی جو اس وقت تمہاری سب سے اہم آرزؤں میں ہے، نہ ہونی چاہئے، تقدیر اور اللہ تعالیٰ کے فعل و مشیت پر راضی رہیں ، جہاں بیٹھے ہوئے ہیں اسے اپنا وطن سمجھیں۔ یہ چند روزہ زندگی جہاں بھی گزرے اللہ تعالیٰ کی یاد میں گزرنی چاہئے۔ (مکتوبات امام ربانی، دفتر سوم، حصہ ہشتم، مکتوب دوم، ۲ / ۷-۸)
جیل میں تبلیغ کے حوالے سے ایک دوسرا واقعہ مُلا حظہ فرمائیں ،چنانچہ امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر نگہبانوں میں سے ایک شخص حسن بن قحطبہ نے امام اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے عرض کی: میرا کام آپ سے مخفی نہیں ہے ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے کئے پر نادم ہو، اور جب تجھے کسی مسلمان کو قتل کرنے اور خود قتل ہونے میں اختیار دیا جائے تو تم اسے قتل کرنے پر اپنے قتل ہونے کو ترجیح دو اور اللہ تعالیٰ سے پختہ ارادہ کرو کہ آئندہ تم کسی مسلمان کو قتل نہیں کرو گے اور تم نے اس عہد کو پورا کر لیا تو سمجھ لینا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی ہے۔(مناقب الامام الاعظم للکردری، الفصل السادس فی وفاۃ الامام رضی اللہ عنہ، ص۲۲، الجزء الثانی)
قَالَ لَا یَاْتِیْكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِهٖۤ اِلَّا نَبَّاْتُكُمَا بِتَاْوِیْلِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَكُمَاؕ-ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْؕ-اِنِّیْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ(۳۷)
ترجمۂکنزالایمان: یوسف نے کہا جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پاس نہ آنے پائے گا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتادوں گا یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے بیشک میں نے ان لوگوں کا دین نہ مانا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت سے منکر ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: فرمایا: تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے وہ تمہارے پاس نہیں آئے گا مگر یہ کہ اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتادوں گا۔ یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔ بیشک میں نے ان لوگوں کے دین کونہ مانا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔
{قَالَ:فرمایا۔} اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالَّلَامنے ان دونوں سے فرمایا: تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کے تمہارے پاس آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس خواب کی تعبیر بتا دوں گا جو تم نے میرے سامنے بیان کیا ہے۔ (بیضاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۸۷-۲۸۸) دوسری تفسیر یہ ہے کہ تم نے خواب میں جو کھانا دیکھا اور اس کے بارے میں مجھے خبر دی ہے، میں حقیقت میں اس طرح ہونے سے پہلے ہی تمہیں اس کی تعبیر بتا دوں گا۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ تمہارے گھروں سے جو کھانا تمہارے لئے آتا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی میں تمہیں اس کی مقدار ، اس کا رنگ ، تمہارے پاس آنے سے پہلے اس کے آنے کا وقت اور یہ کہ تم نے کیا کھایا ،کتنا کھایا اور کب کھایا بتا دوں گا۔ (صاوی، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۹۵۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰، ملتقطاً)
{ذٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ:یہ ان علموں میں سے ہے جو مجھے میرے رب نے سکھایا ہے۔}حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر ان دونوں قیدیوں نے کہا ’’یہ علم تو کاہنوں اور نجومیوں کے پاس ہوتا ہے ،آپ کے پاس یہ علم کہاں سے آیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا ’’ میں کاہن یا نجومی نہیں ہوں ، جس کے بارے میں ، میں تمہیں خبر دوں گا وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف فرمائی اور یہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے۔ بیشک میں نے ان لوگوں کے دین کونہ مانا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۷، ۳ / ۲۰)
یہاں خواب کی تعبیر سے متعلق ذکر ہوا،اس مناسبت سے ہم یہاں خواب بتانے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے کے آداب،خواب کی تعبیر بیان کرنے والے مشہور علما اور اس موضوع پر مشتمل کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر سے متعلق حضور پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مبارک معمول بھی بیان کرتے ہیں
(1)… صرف اس کے سامنے خواب بیان کیا جائے جو اس کی صحیح تعبیر بتا سکتا ہو یا وہ اس سے محبت رکھتا ہو یا وہ قریبی دوست ہو، حاسدوں اور جاہلوں کے سامنے خواب بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔ صحیح بخاری میں ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اگر ایسا خواب دیکھے کہ جو اسے پسندنہ ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اسے پناہ مانگنی چاہئے اور (اپنی بائیں طرف )تین مرتبہ تھتکاردے اور اس خواب کو کسی سے بیان نہ کرے تو وہ کوئی نقصان نہ دے گا ۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب اذا رأی ما یکرہ فلا یخبر بہا ولا یذکرہا، ۴ / ۴۲۳، الحدیث: ۷۰۴۴)
(2)…اپنی طرف سے خواب بنا کر بیان نہ کیا جائے کہ اس پر حدیث پاک میں سخت وعید بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص ایسی خواب گھڑے جو اس نے دیکھی نہ ہو تو اسے اس چیز کا پابند کیا جائے گا کہ وہ جَوکے دو دانوں میں گرہ لگائے اوروہ ہر گزایسا نہ کرسکے گا۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب من کذب فی حلمہ، ۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۷۰۴۲)
(3)…ڈراؤنے خواب دیکھنے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی خواب سے گھبرا جائے تو کہہ لے ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَحْضُرُونِ‘‘ میں اللہ کے پورے کلمات کی پناہ لیتا ہوں اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر اور شیطانوں کے وسوسوں اور ان کی حاضری سے۔‘‘ تو تمہیں کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ (ترمذی، کتاب الدعوات، ۹۳-باب، ۵ / ۳۱۲، الحدیث: ۳۵۳۹)
یاد رہے کہ خواب کی تعبیر بیان کرنا نہ ہر شخص کا کا م ہے اور نہ ہی ہر عالم خواب کی تعبیر بیان کر سکتا ہے بلکہ خواب کی تعبیر بتانے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسے قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی خواب کی تعبیروں پر عبور ہو، الفاظ کے معانی، کنایا ت اور مجازات پر نظر ہو، خواب دیکھنے والے کے اَحوال اور معمولات سے واقفیت ہو اور خواب کی تعبیر بیان کرنے والا متقی و پرہیزگار ہو ۔موضوع کی مناسبت سے یہاں خواب کی تعبیر بیان کرنے کے 5آداب درج ذیل ہیں
(1)…جب تعبیر بیان کرنے والے کے سامنے کوئی اپنا خواب بیان کر نے لگے تو وہ دعائیہ کلمات کے ساتھ اس سے کہے:جو خواب آپ نے دیکھا اس میں بھلائی ہو، آپ اپنا خواب بیان کریں۔
(2)…اچھے طریقے سے خواب سنے اور تعبیر بیان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔
(3)…خواب سن کر ا س میں غور کرے ،اگر خواب اچھا ہو تو خواب بیان کرنے والے کو خوشخبری دے کر اس کی تعبیر بیان کرے اور اگر برا ہو تو اس کے مختلف اِحتمالات میں جو سب سے اچھا احتمال ہو وہ بیان کرے اور اگر خواب کا اچھا یا برا ہونا دونوں برابر ہوں تو اصول کی روشنی میں جسے ترجیح ہو وہ بیان کرے اور اگر ترجیح دینا ممکن نہ ہو تو خواب بیان کرنے والے کا نام پوچھ کر ا س کے مطابق تعبیر بیان کر دے اور خواب بیان کرنے والے کو تعبیر سمجھا دے۔
(4)…سورج طلوع ہوتے وقت، زوال کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت تعبیر بیان نہ کرے ۔
(5)…تعبیر بیان کرنے والے کو بتائے گئے خواب اس کے پاس امانت ہیں اس لئے وہ ان خوابوں کو کسی اور پر بلا ضرورت ظاہر نہ کرے۔
خوابوں کی تعبیر بیان کرنے میں مہارت رکھنے والے علما نے اس موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں ،ان میں سے ایک امام المعبرین حضرت امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب’’ تَفْسِیْرُ الْاَحْلَامِ الْکَبِیرْ‘‘ہے جو کہ’’ تعبیرُ الرُّؤیا‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور ایک کتاب علامہ عبد الغنی نابُلسیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ہے جو کہ ’’تَعْبِیْرُ الْمَنَامْ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں احادیثِ صحیحہ سے ثابت کہ حضورِ اقدس، سید عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰیعَلَیْہ وَسَلَّمَ اسے (یعنی خواب کو) امرِ عظیم جانتے اور اس کے سننے، پوچھنے، بتانے، بیان فرمانے میں نہایت درجے کا اہتمام فرماتے ۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ہے، حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ صبح پڑھ کر حاضرین سے دریافت فرماتے: آج کی شب کسی نے کوئی خواب دیکھا؟ جس نے دیکھا ہوتا (وہ ) عرض کرتا (اور) حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،اس خواب کی ) تعبیر فرماتے ۔ (بخاری، کتاب الجنائز، ۹۳-باب، ۱ / ۴۶۷، الحدیث: ۱۳۸۶،فتاوی رضویہ، ۲۲ / ۲۷۰-۲۷۱)
اسی سلسلے میں دو اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ ا س کی سیرابی میرے ناخنوں سے بھی نکلنے لگی، پھر میں نے اپنا بچا ہوا حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو دے دیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اس سے کیا مراد لیتے ہیں ؟ ارشاد فرمایا (اس سے مراد) علم (ہے)۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب اللبن، ۴ / ۴۱۱، الحدیث: ۷۰۰۶)
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں : میں نے دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے درمیان میں ایک ستون ہے جس کی چوٹی پر ایک حلقہ ہے، مجھ سے کہا گیا کہ اس پر چڑھو، میں نے کہا: مجھ میں اتنی طاقت نہیں ، پھر میرے پاس ایک ملازم آیا اور اس نے میرے کپڑے سنبھالے تو میں چڑھ گیا اور میں نے اُس حلقے کو پکڑ لیا، جب میں بیدار ہوا تو میں نے حلقہ پکڑ اہوا تھا، پھر میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ خواب بیان کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا’’وہ باغ تواسلام کا باغ ہے اور وہ ستون بھی اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے یعنی آخری وقت تک تم اسلام کو ہمیشہ پکڑے رہو گے۔ (بخاری، کتاب التعبیر، باب التعلیق بالعروۃ والحلقۃ، ۴ / ۴۱۳، الحدیث: ۷۰۱۴)
وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-مَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نُّشْرِكَ بِاللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَیْنَا وَ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ(۳۸)
ترجمۂکنزالایمان: اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحق اور یعقوب کا دین اختیار کیا ہمیں نہیں پہنچتا کہ کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں یہ اللہ کا ایک فضل ہے ہم پر اور لوگوں پر مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے دین ہی کی پیروی کی۔ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ کا شریک ٹھہرائیں ، یہ ہم پر اور لوگوں پر اللہ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
{وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِیْ:اور میں نے اپنے باپ دادا کا دین اختیار کیا۔} حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے معجزے کا اظہار فرمانے کے بعدیہ بھی ظاہر فرما دیا کہ آپ خاندانِ نبوت سے ہیں اور آپ کے آباؤ اَجداد انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں ، جن کا بلندمرتبہ دنیا میں مشہور ہے۔ اس سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا مقصد یہ تھا کہ سننے والے آپ کی دعوت قبول کریں اور آپ کی ہدایت مانیں اور فرمایا کہ ہمارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ ہم کسی چیز کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائیں۔ نیز توحید اختیار کرنا اور شرک سے بچنا ہم پر اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے مگر اکثر لوگ اُن نعمتوں پر شکر نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہیں اور ان کی ناشکری یہ ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت بجانہیں لاتے اور مخلوق پَرستی کرتے ہیں۔( تفسیرکبیر، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۶ / ۴۵۶، خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۸، ۳ / ۲۰-۲۱، ملتقطاً)
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُؕ(۳۹)
ترجمۂکنزالایمان: اے میرے قیدخانہ کے دونوں ساتھیو کیا جدا جدا رب اچھے یا ایک اللہ جو سب پر غالب۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے میرے قیدخانے کے دونوں ساتھیو! کیا جدا جدا رب اچھے ہیں یا ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟
{یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ:اے میرے قیدخانے کے دونوں ساتھیو!۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے قید خانے کے ساتھیوں سے فرمایا کہ کیا جدا جدا رب جیسا کہ بت پرستوں نے بنا رکھے ہیں کہ کوئی سونے کا ، کوئی چاندی کا ، کوئی تانبے کا ، کوئی لوہے کا ، کوئی لکڑی کا ، کوئی پتھر کا، کوئی اور کسی چیز کا، کوئی چھوٹا کوئی بڑا، مگر سب کے سب نکمے بے کار، نہ نفع دے سکیں نہ ضرر پہنچاسکیں ، ایسے جھوٹے معبود اچھے ہیں یا ایک اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب ہے کہ نہ کوئی اس کا مقابل ہوسکتا ہے نہ اس کے حکم میں دخل دے سکتا ہے ، نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ نظیر، سب پر اس کا حکم جاری اور سب اس کی ملک میں ہیں۔( خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۳۹، ۳ / ۲۱، ملخصاً)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل قوی استعمال کرنے چاہئیں جیسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نرم الفاظ کے ساتھ ان دو افراد کو اسلام قبول کرنے کی طرف مائل کیا۔
مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ-اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۴۰)
ترجمۂکنزالایمان: تم اس کے سوا نہیں پوجتے مگر نرے نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے تراش لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری حکم نہیں مگر اللہ کا اس نے فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو یہ سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان:تم اس کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہوجو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے تراش لیے ہیں ، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حکم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،یہ سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
{مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً:تم اس کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہو۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے ان قیدیوں کو جدا جدا خداؤں کے فساد پر آگاہ کیا توان کے سامنے بیان کیا کہ اِن بتوں کا معبود ہونا دور کی بات ہے ان کی تو اپنی کوئی حقیقت ہی نہیں چنانچہ فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا صرف ایسے ناموں کی عبادت کرتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے اپنی جہالت اور گمراہی کی وجہ سے تراش لیے ہیں ،خارج میں ان کا کوئی وجود ہی نہیں کہ وہ ان ناموں کے مِصداق قرار پائیں ، تم جن کی عبادت کرتے ہو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے درست ہونے پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے اور بتوں کی عبادت کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا حکم وہ ہے جو اس نے اپنے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے ذریعے دیا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّکے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور یہی عقلمندی کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عبادت کے لئے خاص ہونا ہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ دلائل سے جہالت کی وجہ سے نہیں جانتے کہ یہی سیدھا دین ہے اور وہ فرضی ناموں کی پوجا میں لگے ہوئے ہیں۔(ابوسعود، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۱۰۹)
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِؕ(۴۱)
ترجمۂکنزالایمان: اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ)کو شراب پلائے گا رہا دوسرا وہ سُولی دیا جائے گا تو پرندے اس کا سر کھائیں گے حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا اور جہاں تک دوسرے کا تعلق ہے تو اسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھالیں گے ۔ اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا۔
{یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ:اے قید خانے کے دونوں ساتھیو!۔} جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنے اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی دعوت دینے سے فارغ ہوئے تو ان کے خواب کی تعبیر بیان فرمائی چنانچہ فرمایا کہ اے قید خانے کے دونوں ساتھیو! تم میں ایک یعنی بادشاہ کوشراب پلانے والا تو اپنے عہدے پر بحال کیا جائے گا اور پہلے کی طرح بادشاہ کو شراب پلائے گا اور تین خوشے جو خواب میں بیان کئے گئے ہیں اس سے مراد تین دن ہیں ، وہ اتنے ہی دن قید خانے میں رہے گا پھر بادشاہ اس کو بلالے گا اور جہاں تک دوسرے یعنی کچن کے انچارج کا تعلق ہے تو اسے سولی دی جائے گی پھر پرندے اس کا سر کھالیں گے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ تعبیر سن کر ان دونوں نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ خواب تو ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم تو ہنسی کررہے تھے۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اس کام کا فیصلہ ہوچکا ہے جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا اور جو میں نے کہہ دیا یہ ضرور واقع ہوگا تم نے خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو اب یہ حکم ٹل نہیں سکتا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۱، ۳ / ۲۱)
وَ قَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّهٗ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّكَ٘-فَاَنْسٰىهُ الشَّیْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّهٖ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَؕ۠(۴۲)
ترجمۂکنزالایمان: اور یوسف نے ان دونوں میں سے جسے بچتا سمجھا اس سے کہا اپنے رب (بادشاہ)کے پاس میرا ذکر کرنا تو شیطان نے اسے بھلا دیا کہ اپنے رب (بادشاہ)کے سامنے یوسف کا ذکر کرے تو یوسف کئی برس اور جیل خانہ میں رہا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یوسف نے جس کے بارے میں گمان کیا کہ ان دونوں میں سے وہ بچ جائے گا اسے فرمایا: اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا تو شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے سامنے یوسف کا ذکر کرنا بھلادیا تو یوسف کئی برس اور جیل میں رہے۔
{وَ قَالَ:اور فرمایا۔} یعنی حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے علم سے ساقی کے بارے میں جان لیا تھا کہ وہ بچ جائے گا تو اس سے فرمایا ’’اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کرنا اور میرا حال بیان کرنا کہ قید خانے میں ایک مظلوم بے گناہ قید ہے اور اس کی قید کو ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ شیطان نے اسے بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ذکر کرنا بھلا دیا جس کی وجہ سے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کئی برس اور جیل میں رہے۔ اکثر مفسرین اس طرف ہیں کہ اس واقعہ کے بعد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سات برس اور قید میں رہے اور پانچ برس پہلے رہ چکے تھے اس مدت کے گزرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ کو حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا قید سے نکالنا منظور ہوا تو مصر کے شاہ ِاعظم ، ریان بن ولید نے ایک عجیب خواب دیکھا جس سے اس کو بہت پریشانی ہوئی اور اس نے ملک کے جادوگروں اور کاہنوں اور تعبیر دینے والوں کو جمع کرکے ان سے اپنا خواب بیان کیا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۲، ۳ / ۲۱-۲۲)
وَ قَالَ الْمَلِكُ اِنِّیْۤ اَرٰى سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍؕ-یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِیْ فِیْ رُءْیَایَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْیَا تَعْبُرُوْنَ(۴۳)قَالُوْۤا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۚ-وَ مَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ(۴۴)وَ قَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا وَ ادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِیْلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ(۴۵)
ترجمۂکنزالایمان: اور بادشاہ نے کہا میں نے خواب میں دیکھیں سات گائیں فربہ کہ انہیں سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری اور دوسری سات سوکھی اے درباریو میری خواب کا جواب دو اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہو۔ بولے پریشان خوابیں ہیں اور ہم خواب کی تعبیر نہیں جانتے۔ اور بولا وہ جو ان دونوں میں سے بچا تھا اور ایک مدت بعد اسے یاد آیا میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا مجھے بھیجو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بادشاہ نے کہا: میں نے خواب میں سات موٹی گائیں دیکھیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سرسبز بالیاں اور دوسری خشک بالیاں دیکھیں۔ اے درباریو! اگر تم خوابوں کی تعبیر جانتے ہو تو میرے خواب کے بارے میں مجھے جواب دو۔ انہوں نے کہا: یہ جھوٹے خواب ہیں اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔اور دو قیدیوں میں سے بچ جانے والے نے کہا اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا: میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا، تم مجھے (یوسف کے پاس) بھیج دو۔
{وَ قَالَ الَّذِیْ نَجَا مِنْهُمَا:اور دو قیدیوں میں سے بچ جانے والے نے کہا۔} یعنی شراب پلانے والا کہ جس نے اپنے ساتھی کچن کے انچارج کی ہلاکت کے بعد قید سے نجات پائی تھی اور اسے ایک مدت کے بعد یاد آیا تھا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس سے فرمایا تھا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا ذکر کرنا، اس نے کہا ’’ میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا، تم مجھے قید خانے میں بھیج دو، وہاں خواب کی تعبیر کے ایک عالم ہیں ،چنانچہ بادشاہ نے اسے بھیج دیا اور وہ قید خانہ میں پہنچ کر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی خدمت میں عرض کرنے لگا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۳ / ۲۳، ملخصاً)
یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍۙ-لَّعَلِّیْۤ اَرْجِعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَ(۴۶)
ترجمۂکنزالایمان: اے یوسف اے صدیق ہمیں تعبیر دیجئے سات فربہ گایوں کی جنہیں سات دُبلی کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور دوسری سات سوکھی شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اے یوسف! اے صدیق! ہمیں ان سات موٹی گایوں کے بارے میں تعبیر بتائیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات سرسبز بالیوں اور دوسری خشک بالیوں کے بارے میں تاکہ میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں تاکہ وہ جان لیں۔
{یُوْسُفُ:اے یوسف!} یعنی اے یوسف! اے صدیق! ہمارے بادشاہ نے خواب دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی تھیں اور سات سرسبز بالیاں ہیں اور دوسری خشک بالیاں ، ملک کے تمام علماء و حکماء اس کی تعبیر بتانے سے عاجز رہے ہیں ، حضرت! آپ اس کی تعبیر ارشاد فرما دیں تاکہ میں اس خواب کی تعبیر کے ساتھ بادشاہ اور اس کے درباریوں کی طرف لوٹ کر جاؤں تو وہ اس خواب کی تعبیر جان لیں اور آپ کے علم و فضل اور مقام و مرتبہ کو جان جائیں اور آپ کو اس مشقت سے رہا کرکے اپنے پاس بلالیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۶، ۳ / ۲۳، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۶، ص۵۳۳، ملتقطاً)
قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاۚ-فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِیْ سُنْۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ(۴۷)
ترجمۂکنزالایمان: کہا تم کھیتی کرو گے سات برس لگارتار تو جو کاٹو اسے اس کی بال میں رہنے دو مگر تھوڑا جتنا کھالو۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یوسف نے فرمایا: تم سات سال تک لگاتار کھیتی باڑی کرو گےتو تم جو کاٹ لو اسے اس کی بالی کے اندر ہی رہنے دو سوائے اس تھوڑے سے غلے کے جو تم کھالو۔
{قَالَ:فرمایا۔} حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے خواب کی تعبیر بتادی اور فرمایا تم سات سال تک کھیتی باڑی کرو گے، اس زمانے میں خوب پیداوار ہوگی، سات موٹی گائیوں اور سات سبز بالیوں سے اسی کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا تم جو کاٹ لو اسے اس کی بالی کے اندر ہی رہنے دو تاکہ خراب نہ ہو اور آفات سے محفوظ رہے البتہ کھانے کیلئے اپنی ضرورت کے مطابق تھوڑے سے غلے سے بھوسی اتار کر اسے صاف کرلو اور باقی غلے کو ذخیرہ بنا کر محفوظ کرلو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۷، ۳ / ۲۳، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ نبی دنیاوی اور دینی تمام رازوں سے خبردار ہوتے ہیں۔ کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کاشت کاری کا ایسا قاعدہ بیان فرمایا جو کامل کاشت کا ر کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ بالی یا بھوسے میں گندم کی حفاظت ہے، پھر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا بادشاہِ مصر سے فرمانا کہ مجھے خزانے سپرد کردو ، اور پھر تمام دنیا میں غلہ کی تقسیم کا بہترین انتظام فرمانا ، اس سب سے پتہ چلا کہ نبی سلطنت کرنا بغیر سیکھے ہوئے جانتے ہیں ، ان کا علم صرف شرعی مسائل میں محدود نہیں ہوتا اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُمورِ سلطنت چلانا بھی دین میں داخل ہیں۔
ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ(۴۸)ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِیْهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیْهِ یَعْصِرُوْنَ۠(۴۹)
ترجمۂکنزالایمان: پھر اس کے بعد سات کرّے برس آئیں گے کہ کھا جائیں گے جو تم نے ان کے لیے پہلے جمع کر رکھا تھا مگر تھوڑا جو بچالو۔پھر ان کے بعد ایک برس آئے گا جس میں لوگوں کو مینھ دیا جائے گا اور اس میں رس نچوڑیں گے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: پھر اس کے بعد سات برس سخت آئیں گے جو اس غلے کو کھا جائیں گے جو تم نے ان سالوں کے لیے پہلے جمع کر رکھا ہوگا مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم بچالو گے۔ پھر ان سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی اور اس میں رس نچوڑیں گے۔
{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ:پھر اس کے بعد آئیں گے۔} یعنی ان سات سرسبز سالوں کے بعد لوگوں پر سات سال سخت قحط کے آئیں گے جن کی طرف دبلی گائیوں اور سوکھی بالیوں میں اشارہ ہے، جو غلہ وغیرہ تم نے ان سات سالوں کے لئے جمع کر رکھا ہو گا وہ سب ان سالوں میں کھا لیا جائے گا البتہ تھوڑا سا بچ جائے گا جو تم بیج کے لئے بچا لو گے تاکہ اس کے ذریعے کاشت کرو۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۸، ۳ / ۲۴، ملخصاً)
اس سے معلوم ہوا کہ حفاظتی تدابیر کے طور پر آئندہ کے لئے کچھ بچا کر رکھنا تو کل کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اناج اور دیگر ضروریات کے حوالے سے ملکی ذخائرکا جائزہ لیتے رہیں اور اس کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دیں بلکہ زرِ مبادلہ کے جو ذخائر جمع کر کے رکھے جاتے ہیں ان کی اصل بھی اس آیت سے نکالی جاسکتی ہے۔
اسی طرح کسی شخص کا ان لوگوں کے لئے کچھ بچا کر رکھنا جن کا نان نفقہ اس کے ذمے ہے ،یہ بھی توکل کے خلاف نہیں۔جیسا کہ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں ’’جہاں تک عیال دار کا تعلق ہے تو بال بچوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کرنے سے توکل کی تعریف سے نہیں نکلتا۔ (احیاء العلوم، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عیال کی کفایت (کفالت)شرع نے اس پر فرض کی، وہ ان کو توکل و تبتل و صبر علی الفاقہ پر مجبور نہیں کرسکتا، اپنی جان کو جتنا چاہے کُسے مگر اُن کو خالی چھوڑنا اس پر حرام ہے۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَفرماتے ہیں ’’کَفٰی بِالْمَرْ ءِ اِثْمًا اَنْ یُضَیِّعَ مَنْ یَقُوْتُ‘‘ آدمی کے گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کا قُوت (یعنی نفقہ ) اس کے ذمہ ہے اُسے ضائع چھوڑ دے۔(ت)( ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی صلۃ الرحم، ۲ / ۱۸۴، الحدیث: ۱۶۹۲، فتاوی رضویہ، ۱۰ / ۳۲۳)
اسی مقام پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے ذکر کردہ مزید کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور پر نور سَیِّدُ الْمُتَوَکِّلِینْ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے نفس کریم کے لیے کل کا کھانا بچا کر رکھنا پسند نہ فرماتے۔ ایک بار خادمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پرندے کا بچا ہوا گوشت دوسرے دن حاضر کیا تو ارشاد فرمایا ’’اَلَمْ اَنْہَکِ اَنْ تَرْفَعِی شَیْئًا لِغَدٍ اِنَّ اللہَ یَاْتِی بِرِزْقِ کُلِّ غَدٍ‘‘ کیا ہم نے منع نہ فرمایا کہ کل کے لیے کچھ ا ٹھاکرنہ رکھنا، کل کی روزی اللہ عَزَّوَجَلَّ کل دے گا۔ (مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ما اسندہ نجیح ابو علی عن انس، ۳ / ۴۳۳، الحدیث: ۴۲۰۸)
اور اپنے اہل و عیال کے معاملے میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا طرزِ عمل یہ تھا کہ آپ ان کے لئے سال بھر کاغلہ جمع فرما دیتے تھے چنانچہ امیر المومنین حضرت فاروق اعظمرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اَموال اُن اموال میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر لوٹادئیے تھے، مسلمانوں نے انہیں حاصل کرنے کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے تھے نہ اونٹ، یہ اموال خاص طور پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے تصرف میں تھے ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان اموال سے ایک سال کا خرچ نکال لیتے اور جو مال باقی بچتا اسے جہاد کی سواریوں اور ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کرتے تھے۔(مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب حکم الفیئ، ص۹۶۴، الحدیث: ۴۸(۱۷۵۷))
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا خرچ جمع کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا دل یا آپ کے اہلِ خانہ کے دل کمزور تھے بلکہ (آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ کام) امت کے کمزور لوگوں کے لئے سنت بنانے کی خاطر ایسا کیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس بات کی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جس طرح عزیمت (یعنی اصل حکم) پر عمل کیا جاتا ہے اسی طرح کمزور لوگوں کی دلجوئی کے لئے رخصت پر بھی عمل کیا جائے تاکہ ان کی کمزوری ان کو مایوسی تک نہ لے جائے اور وہ انتہائی درجہ تک پہنچنے سے عاجز ہونے کی وجہ سے آسان نیکی بھی چھوڑ دیں۔ (احیاء العلوم، کتاب التوحید والتوکل، الفن الثانی فی التعرّض لاسباب الادخار، ۴ / ۳۴۳-۳۴۴)
{ثُمَّ یَاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ:پھر ان کے بعد ایک سال آئے گا۔} یعنی سخت قحط والے سات سالوں کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو بارش دی جائے گی، اس میں لوگ انگوروں کا رس نچوڑیں گے اور تل اور زیتون کا تیل نکالیں گے۔ مراد یہ ہے کہ یہ سال بڑی برکت والا ہوگا، زمین سرسبز وشاداب ہوگی اور درخت خوب پھلیں گے۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۴۹، ۳ / ۲۴)
وَ قَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِیْ بِهٖۚ-فَلَمَّا جَآءَهُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰى رَبِّكَ فَسْــٴَـلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِكَیْدِهِنَّ عَلِیْمٌ(۵۰)
ترجمۂکنزالایمان: اور بادشاہ بولا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ تو جب اس کے پاس ایلچی آیا کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس پلٹ جا پھر اس سے پوچھ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے بیشک میرا رب ان کا فریب جانتا ہے۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: اور بادشاہ نے حکم دیا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ تو جب ان کے پاس قاصد آیا تو یوسف نے فرمایا: اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جاؤ پھر اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے۔ بیشک میرا رب ان کے مکر کو جانتا ہے۔
{وَ قَالَ الْمَلِكُ:اور بادشاہ نے حکم دیا۔} ساقی جب حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے یہ تعبیرسن کر واپس ہوا اور بادشاہ کی خدمت میں جا کر تعبیر بیان کی ،بادشاہ کو یہ تعبیر بہت پسند آئی اور اسے یقین ہوا کہ جیسا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ہے ضرور ویسا ہی ہوگا۔ بادشاہ کو شوق پیدا ہوا کہ اس خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبان مبارک سے سنے،چنانچہ اس نے حکم دیا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں ان کی زیارت کروں کیونکہ انہوں نے خواب کی اتنی اچھی تعبیر بیان کی ہے۔ جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس آیا اور اس نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ نے فرمایا ’’اپنے بادشاہ کی طرف لوٹ جاؤ پھر اس سے درخواست کرو کہ وہ تفتیش کرے کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے۔ بیشک میرا ربعَزَّوَجَلَّ ان کے مکر کو جانتا ہے۔ یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اس لئے فرمایا تاکہ بادشاہ کے سامنے آپ کی براء ت اور بے گناہی ظاہر ہوجائے اور اس کو یہ معلوم ہو کہ یہ لمبی قید بلا وجہ ہوئی تاکہ آئندہ حاسدوں کو الزام لگانے کا موقع نہ ملے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہمت دور کرنے میں کوشش کرنا ضروری ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۰، ۳ / ۲۴، مدارک، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۰، ص۵۳۳، ملتقطاً)
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ یُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوْٓءٍؕ-قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ الْــٴٰـنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ٘-اَنَا رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّفْسِهٖ وَ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۵۱)
ترجمۂکنزالایمان: بادشاہ نے کہا اے عورتو تمہارا کیا کام تھا جب تم نے یوسف کا جی لبھانا چاہا بولیں اللہ کو پاکی ہے ہم نے ان میں کوئی بدی نہ پائی عزیز کی عورت بولی اب اصلی بات کھل گئی میں نے ان کا جی لبھانا چاہا تھا اور وہ بیشک سچے ہیں۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: بادشاہ نے کہا: اے عورتو! تمہارا کیا حال تھا جب تم نے یوسف کا دل لبھانا چاہا۔ انہوں نے کہا: سُبْحَانَ اللہ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز کی عورت نے کہا: اب اصل بات کھل گئی۔ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ سچے ہیں۔
{قَالَ:بادشاہ نے کہا۔} جب قاصد حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکے پاس سے پیام لے کر بادشاہ کی خدمت میں پہنچا تو بادشاہ نے پیام سن کر ہاتھ کاٹ لینے والی عورتوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ عزیز ِ مصرکی عورت کو بھی بلایا، پھر بادشاہ نے ان سے کہا: اے عورتو! اپنے صحیح حالات مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا تھا ، جب تم نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دل لبھانا چاہا ،کیا تم نے ان کی جانب سے اپنی طرف کوئی میلان پایا۔ عورتوں نے جواب دیا: سُبْحَانَ اللہ! ہم نے ان میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیز ِ مصرکی عورت یعنی زلیخانے کہا: اب اصل بات ظاہر ہو گئی ہے، حقیقت یہ ہے کہ میں نے ہی ان کا دل لبھانا چاہا تھا اور بیشک وہ اپنی بات میں سچے ہیں۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۴)
یاد رہے کہ اس آیت میں حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکی توبہ کا اعلان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کیونکہ انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور قصور کا اقرار توبہ ہے لہٰذا اب حضرت زلیخا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی صحابیہ اور ان کی مقدس بیوی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے قصوروں کا ذکر فرما کر ان پر غضب ظاہر نہ فرمایا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھیں اور توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے گناہ کی طرح ہوتا ہے۔
ذٰلِكَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ كَیْدَ الْخَآىٕنِیْنَ(۵۲)
ترجمۂکنزالایمان: یوسف نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہ کی اور اللہ دغا بازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔
ترجمۂکنزُالعِرفان: یوسف نے فرمایا: یہ میں نے اس لیے کیا تاکہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدمِ موجودگی میں کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ خیانت کرنے والوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔
{ذٰلِكَ:یہ۔} بادشاہ نے حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پیام بھیجا کہ عورتوں نے آپ کی پاکی بیان کی اور عزیز کی عورت نے اپنے گناہ کا اقرار کرلیا ہے، اس پر حضرت یوسفعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ میں نے قاصد کو بادشاہ کی طرف اس لیے لوٹایا تاکہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں اس کی بیوی میں کوئی خیانت نہیں کی اوراگر بالفرض میں نے کوئی خیانت کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ مجھے ا س قید سے رہائی عطا نہ فرماتا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: ۵۱، ۳ / ۲۵) اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کو فروغ نہیں ہوتااور سانچ کو آنچ نہیں آتی، مکار کا انجام خراب ہوتا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا اَخلاقی خیانت انتہائی مذموم وصف ہے اس سے ہر ایک کو بچنا چاہئے اور اخلاقی امانتداری ایک قابلِ تعریف وصف ہے جسے ہر ایک کو اختیار کرنا چاہئے ،آنکھ کی خیانت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
’’یَعْلَمُ خَآىٕنَةَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘ (مومن:۱۹)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ آنکھوں کی خیانت کوجانتا ہے اور اسے بھی جو سینے چھپاتے ہیں۔
اخلاقی خیانت کرنے والوں سے متعلق حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’گھروں میں بیٹھ رہنے والوں پر مجاہدین کی عورتوں کی حرمت ان کی ماؤں کی حرمت کی طرح ہے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والوں میں سے جو شخص مجاہدین میں سے کسی کے گھروالوں میں (اس کا) نائب بنے(اور اس کے گھر بار کی دیکھ بھال کرے) اور وہ اس مجاہد کے اہلِ خانہ میں خیانت کرے تو قیامت کے دن اسے کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس کی نیکیوں میں سے جو چاہے گا لے لے گا ، اب (اس مجاہد کے نیکیاں لینے کے بارے میں ) تمہارا کیا خیال ہے؟ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب حرمۃ نساء المجاہدین واثم من خانہم فیہنّ، ص۱۰۵۱، الحدیث: ۱۳۹(۱۸۹۷))
حضرت فُضالہ بن عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’تین شخص ایسے ہیں جن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا، (اور انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کر دیا جائے گا، ان میں سے ایک) وہ عورت جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر) نے اس کی دنیوی ضروریات (جیسے نان نفقہ وغیرہ) پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے خیانت کی۔ (الترغیب والترہیب، کتاب البیوع وغیرہ، ترہیب العبد من الاباق من سیّدہ، ۳ / ۱۸، الحدیث: ۴)
اور اخلاقی خیانت سے بچنے والوں کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے (عرش کے) سائے میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے (عرش کے) سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (ان میں ایک) وہ شخص ہے جسے کسی منصب وجمال والی عورت نے (اپنے ساتھ برائی کرنے کے لئے) طلب کیا تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔(بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۳۶، الحدیث: ۶۶۰)
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاقی خیانت کرنے سے محفوظ فرمائے اور اخلاقی طور پر بھی امانت دار بننے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
|
قرآن مجید |
کلامِ الٰہی |
|
نمبر شمار |
نام کتاب |
مصنف/مؤلف |
مطبوعات |
1 |
کنز الإیمان |
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی |
2 |
کنز العرفان |
شیخ الحدیث والتفسیر ابو الصالح مفتی محمد قاسم قادری |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی |
کتب التفسیر وعلوم القرآن
1 |
تفسیرِ طبری |
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری ،متوفی ۳۱۰ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۰ھ |
2 |
تفسیر ابن ابی حاتم |
حافظ عبد الرحمن بن محمد بن ادریس رازی ابن ابی حاتم، متوفی ۳۲۷ھ |
مکتبہ نزار مصطفی الباز، ریاض۱۴۱۷ھ |
3 |
تاویلاتِ اہل السنّہ |
امام ابو منصور محمد بن منصور ماتریدی، متوفی ۳۳۳ھ |
پشاور |
4 |
تفسیرِ سمرقندی |
ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی، متوفی۳۷۵ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۳ھ |
5 |
تفسیرِ ثعلبی |
ابو اسحاق احمد ثعلبی، متوفی ۴۲۷ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت۱۴۲۲ھ |
6 |
تفسیرِ بغوی |
امام ابو محمدحسین بن مسعود فراء بغوی ،متوفی ۵۱۶ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۴ھ |
7 |
تفسیرِ کبیر |
امام فخر الدین محمد بن عمر بن حسین رازی، متوفی ۶۰۶ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۰ھ |
8 |
تفسیرِ قرطبی |
ابوعبداللّٰہ محمد بن احمد انصاری قرطبی، متوفی ۶۷۱ھ |
دار الفکر ، بیروت ۱۴۲۰ھ |
9 |
تفسیرِ بیضاوی |
ناصر الدین عبداللّٰہ بن ابوعمر بن محمدشیرازی بیضاوی،متوفی ۶۸۵ھ |
دارالفکر ،بیروت۱۴۲۰ھ |
10 |
تفسیرِ مدارک |
امام عبداللّٰہ بن احمد بن محمود نسفی، متوفی ۷۱۰ھ |
دار المعرفہ، بیروت ۱۴۲۱ھ |
11 |
تفسیرِ خازن |
علاء الدین علی بن محمدبغدادی، متوفی ۷۴۱ھ |
مطبعہ میمنیہ، مصر ۱۳۱۷ھ |
12 |
البحرُ المحیط |
ابو حیان محمد بن یوسف اند لسی، متوفی۷۴۵ھـ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۲ھـ |
13 |
تفسیر ابن کثیر |
ابوفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقی شافعی، متوفی ۷۷۴ھ |
دار الکتب العلمیہ ، بیروت۱۴۱۹ھ |
14 |
تفسیرِ جلالین |
امام جلال الدین محلی، متوفی۸۶۳ ھ وامام جلال الدین سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
باب المدینہ کراچی |
15 |
تفسیرِ دُر منثور |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الفکر، بیروت ۱۴۰۳ھ |
16 |
تناسق الدرر |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۰۶ھ |
17 |
الاتقان |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الفکر، بیروت ۱۴۲۳ھ |
18 |
الاکلیل |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۸ھ |
19 |
تفسیرِ ابو سعود |
علامہ ابو سعود محمد بن مصطفی عمادی ،متوفی ۹۸۲ھ |
دار الفکر، بیروت |
20 |
حاشیۃ الشہاب علی البیضاوی |
قاضی شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر خفاجی، متوفی ۱۰۶۹ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۷ھ |
21 |
تفسیراتِ احمدیہ |
شیخ احمد بن ابی سعید ملّا جیون جونپوری، متوفی۱۱۳۰ ھ |
پشاور |
22 |
روحُ البیان |
شیخ اسماعیل حقی بروسی، متوفی۱۱۳۷ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۰۵ھ |
23 |
تفسیرِ جمل |
علامہ شیخ سلیمان جمل، متوفی ۱۲۰۴ھ |
باب المدینہ کراچی |
24 |
تفسیرِ صاوی |
احمد بن محمد صاوی مالکی خلوتی، متوفی۱۲۴۱ھ |
دار الفکر، بیروت ۱۴۲۱ھ |
25 |
روح المعانی |
ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی، متوفی ۱۲۷۰ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت۱۴۲۰ھ |
26 |
خزائن العرفان |
صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی، متوفی۱۳۶۷ھ |
مکتبۃ المدینہ، کراچی |
27 |
نور العرفان |
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ |
پیر بھائی کمپنی، مرکز الاولیاء لاہور |
کتب الحدیث ومتعلقاتہ
1 |
کتاب الجامع |
حافظ معمربن راشدازدی، متوفی۱۵۳ھـ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۱ھ |
2 |
مصنف ابن ابی شیبہ |
حافظ عبداللّٰہ بن محمد بن ابی شیبہ کوفی عبسی، متوفی ۲۳۵ھ |
دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
3 |
مسندِ امام احمد |
امام احمد بن محمد بن حنبل، متوفی ۲۴۱ھ |
دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
4 |
دارمی |
امام حافظ عبداللّٰہ بن عبدالرحمن دارمی، متوفی۲۵۵ھ |
دارالکتاب العربی ،بیروت۱۴۰۷ھ |
5 |
بخاری |
امام ابوعبداللّٰہ محمد بن اسماعیل بخاری ،متوفی ۲۵۶ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ھ |
6 |
مسلم |
امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری، متوفی ۲۶۱ھ |
دارابن حزم، بیروت ۱۴۱۹ھ |
7 |
ابن ماجہ |
امام ابو عبداللّٰہ محمد بن یزید ابن ماجہ، متوفی ۲۷۳ھ |
دار المعرفہ، بیروت۱۴۲۰ھ |
8 |
ابوداود |
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی، متوفی ۲۷۵ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۱ھ |
9 |
ترمذی |
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی ۲۷۹ھ |
دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
10 |
مسند البزار |
امام ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بزار، متوفی ۲۹۲ھ |
مکتبۃالعلوم و الحکم ، المدینۃ المنورۃ ۱۴۲۴ھ |
11 |
سنن نسائی |
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، متوفی۳۰۳ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۶ھ |
12 |
سنن الکبری |
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، متوفی۳۰۳ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۱ھـ |
13 |
مسند ابو یعلی |
امام ابو یعلی احمد بن علی بن مثنی موصلی، متوفی ۳۰۷ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۸ھ |
14 |
معجم الکبیر |
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، متوفی ۳۶۰ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۲ھ |
15 |
معجم الأوسط |
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۰ھ |
16 |
معجم الصغیر |
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ |
دار الکتب العلمیہ،بیروت ۱۴۰۳ھ |
17 |
مستدرک |
امام ابو عبداللّٰہ محمد بن عبداللّٰہ حاکم نیشاپوری، متوفی ۴۰۵ھ |
دار المعرفہ، بیروت ۱۴۱۸ھ |
18 |
حلیۃ الاولیاء |
حافظ ابو نعیم احمد بن عبداللّٰہ اصفہانی شافعی، متوفی ۴۳۰ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ھ |
19 |
مسند الشہاب |
امام ابو عبداللّٰہ محمد بن سلامہ قضاعی، متوفی۴۵۴ھ |
مؤسسۃ الرسالہ، بیروت۱۴۰۵ھ |
20 |
سنن الکبری |
امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی، متوفی ۴۵۸ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۴ھ |
21 |
شعب الإیمان |
امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی، متوفی ۴۵۸ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۱ھ |
22 |
مسند الفردوس |
ابو شجاع شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ دیلمی، متوفی ۵۰۹ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۰۶ھـ |
23 |
شرح السنۃ |
امام ابو محمد حسین بن مسعود بغوی، متوفی ۵۱۶ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۴ھ |
24 |
ابن عساکر= تاریخ دمشق |
امام ابو قاسم علی بن حسن شافعی، متوفی ۵۷۱ ھ |
دار الفکر، بیروت ۱۴۱۵ھ |
25 |
الترغیب والترہیب |
امام زکی الدین عبد العظیم بن عبد القوی منذری، متوفی ۶۵۶ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۸ھ |
26 |
مشکاۃ المصابیح |
علامہ ولی الدین تبریزی، متوفی ۷۴۲ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۴ھ |
27 |
المطالب العالیہ |
حافظ احمد بن علی بن حجرعسقلانی، متوفی۸۵۲ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۴ھ |
28 |
جامع صغیر |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۵ھ |
29 |
جمع الجوامع |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الکتب العلمیہ ،بیروت ۱۴۲۱ھ |
30 |
کنز العمال |
علی متقی بن حسام الدین ہندی برہان پوری، متوفی ۹۷۵ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ھ |
کتب شروح الحدیث
1 |
عمدۃ القاری |
امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی، متوفی ۸۵۵ھ |
دارالفکر، بیروت ۱۴۱۸ھ |
2 |
فیض القدیر |
علامہ محمد عبد الرء ُوف مناوی، متوفی۱۰۳۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۲ھ |
3 |
مراٰۃ المناجیح |
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ |
مکتبۂ اسلامیہ،مرکز الاولیاء لاہور |
کتب العقائد
1 |
المعتمد المستند |
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ |
برکاتی پبلشرز، کراچی۱۴۲۰ھ |
2 |
الدولۃ المکیۃ |
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ |
مؤسسۃرضا، لاہور۱۴۲۲ھ |
کتب الفقہ
1 |
ہدایہ |
امام برہان الدین علی بن ابی بکر مَرغینانی، متوفی ۵۹۳ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت |
2 |
تبیین الحقائق |
امام فخرالدین عثمان بن علی زیلعی حنفی،متوفی ۷۴۳ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۰ھ |
3 |
درّ مختار |
علامہ علاء الدین محمد بن علی حصکفی، متوفی ۱۰۸۸ھ |
دار المعرفہ، بیروت۱۴۲۰ھ |
4 |
عالمگیری |
علامہ ہمام مولانا شیخ نظام، متوفی۱۱۶۱ھ وجماعۃ من علماء الہند |
دار الفکر، بیروت۱۴۰۳ھ |
5 |
ردّ المحتار |
علامہ محمد امین ابن عابدین شامی، متوفی ۱۲۵۲ھ |
دار المعرفہ، بیروت۱۴۲۰ھ |
6 |
فتاویٰ رضویہ |
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ |
رضا فاؤنڈیشن، لاہور |
7 |
بہارشریعت |
مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ |
مکتبۃ المدینہ ،باب المدینہ کراچی |
کتب التصوف
1 |
رسائل ابن ابی الدنیا |
حا فظ امام ابوبکرعبداللّٰہ بن محمدقُرشی ،متوفی۲۸۱ھ |
مکتبۃ العصریہ ، بیروت۱۴۲۶ھ |
2 |
احیاء العلوم |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی شافعی، متوفی ۵۰۵ھ |
دار صادر، بیروت۲۰۰۰ء |
3 |
منہاج العابدین |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی شافعی، متوفی ۵۰۵ھ |
مؤسسۃ السیروان ، بیروت ۱۴۱۶ھ |
4 |
کیمیائے سعادت |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی شافعی، متوفی ۵۰۵ھ |
انتشارات گنجینہ، تہران |
کتب السیرۃ والطبقات
1 |
سیرت ابن ہشام |
ابو محمد عبد الملک بن ہشام بن ایوب حمیری معافری، متوفی ۲۱۳ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۲ھ |
2 |
الطبقات الکبری |
محمد بن سعد بن منیع ہاشمی المعروف بابن سعد، متوفی۲۳۰ھ |
دارالکتب العلمیہ،بیروت۱۴۱۸ھ |
3 |
طبقات الصوفیۃ |
ابو عبد الرحمن محمد بن حسین سلمی، متوفی ۴۱۲ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ھ |
4 |
بہجۃ الاسرار |
نور الدین ابو الحسن علی بن یوسف لخمی شطنوفی، متوفی ۷۱۳ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۳ |
5 |
طبقاتِ اولیاء |
ابو حفص عمر بن علی بن احمد مصری شافعی المعروف بابن ملقن، متوفی۸۰۴ھ |
مکتبۃ الخانجی، قاہرہ۱۴۱۵ھ |
6 |
المواہب اللدنیۃ |
شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی، متوفی ۹۲۳ھ |
دارالکتب العلمیہ،بیروت۱۴۱۷ھ |
7 |
الطبقات الکبری |
عبد الوہاب بن احمد بن علی احمدشعرانی، متوفی ۹۷۳ھ |
دار الفکر، بیروت۱۴۱۹ھ |
8 |
سیرت ِمصطفی |
مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی ، متوفی ۱۴۰۶ھ |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی |
الکتب المتفرقۃ
1 |
معرفۃ الصحابہ |
ابو نعیم احمد بن عبداللّٰہ بن احمد اصبہانی، متوفی ۴۳۰ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۲ھ |
2 |
عیون الحکایات |
ابو الفرج عبد الرحمن بن علی جوزی، متوفی ۵۹۷ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۴ھ |
3 |
صفۃ الصفوۃ |
جما ل الدین ابو الفرج ابن جوزی، متوفی ۵۹۷ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۳ھ |