اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنط
اَمَّا بَعْدُ! فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط
رسولِ اکرم،نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم،نبیِّ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ مُعَظَّم ہے:جس نے مجھ پر سو مرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نِفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شُہَداء کے ساتھ رکھے گا۔([1])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
پانڈو کے بھٹىاں (ضلع قصورپنجاب)کے ایک باغ میں چند بچے کھیل رہے تھے کچھ فاصلے پر سات سال کی عمر کا ایک بچہ ہاتھ میں تسبیح لئے بیٹھا تھا کافی دیر گزر گئی بچہ اسی حالت میں بیٹھا رہا بالآخر بچے کے والد ماجد نے اسے ڈھونڈنا شروع کردیا ایک ایک سے پوچھتے جاتے کہ کیا تم نے میرے بیٹے کو دیکھا ہے؟مگر ہر کوئی یہی کہتا:ہم نےنہیں دیکھا۔آخر کار کسی نے بتایا کہ فلاں باغ میں بچوں کے ساتھ ہے ،جب باغ میں پہنچے تو ایک عجیب منظر دیکھاکہ ان کا کمسن بیٹا ہاتھ میں تسبیح پکڑے آنکھیں بند کئے دوسرے بچوں سے الگ تھلگ بیٹھا ہےاور والہانہ انداز میں زبان سے یہ الفاظ
ادا کررہا ہے:
لوکاں واجپ مالىاں تے بابے دا جپ مال
سارى عمراں مالا پھىرى ، اِک نہ کتھا وال
یعنی:لوگوں کا مال کھاتے رہے اور جو کچھ اللہ نے دىا وہ بھى خود کھالىا( ىعنى اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے راستے مىں خرچ نہىں کىا) اسی حالت مىں سارى عمر تسبىح پھىرتے رہے مگر بال برابر نیکی بھی نہ کما سکے ىعنى اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى خوشنودى سے محروم رہے۔ والد ماجد نے جب یہ عارِفانہ کلام سنا تو وہیں کھڑے کھڑے جھومنا شروع کردیابچہ دنیا سے بےخبر ہوکر بار باریہ شعر پڑھتارہا والد ماجد کی وَارَفتگى بھی بڑھتى رہی، یَک لَخت بچہ خاموش ہوگیا تو والد ماجدکو یوں محسوس ہوا کہ وہ اب تک کسی سحر کے زیرِ اثر تھےاور بچے کے خاموش ہوتے ہی اس سے آزاد ہوگئے پھر آگے بڑھ کر بچے کو گود میں اٹھایااور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے گھر کی جانب بڑھنے لگے۔([2])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!عارفانہ کلام کہنے والا یہ بچہ پنجاب کے عظیم صوفی شاعر، مشہور ولیِ کامل ،تاجدارِ قصور حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہیں جو شریعت کا دامن تھام کر راہِ طریقت پر چلے اورولایت کے اعلیٰ درجے تک پہنچے۔ درج ذیل سطور میں حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا ذکرِ خیر ہے جو راہِ شریعت وطریقت کے مسافروں کےلئے قِندِیل کی طرح روشنی بکھیررہا ہے ۔
عمُدۃُ الواصِلِین ،سیِّدُ العاشقین ،زُبدۃُ العارِفِین حضرت بابا بلھے شاہ سیّد محمد عبد اللہ گیلانی قادری شَطّاری حنفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۱۰۶۱ھ بمطابق 1675ء میں مقام اُوچ شریف (تحصیل احمد پو شرقیہ ،ضلع بہاولپور،پنجاب) میں پیدا ہوئے۔([3])
آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا اصل نام سیِّد عبداللہ ہے جبکہ بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے نام سے عالمگیر شہرت پائی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قادری شطاری بزرگ ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا شجرۂ نسب چودہ واسطوں سے محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی،محی الدین حضرت سیِّدنا شیخ سیّد ابو محمد عبد القادر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے جا ملتاہے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے آباواجداد میں سے ایک بلند پایہ بزرگ غوثِ وقت حضرت سیّد محمد غوث بندگی گیلانی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۸۸۷ھ میں حَلب (ملک شام ) سے ہجرت کرکے اُوچ شریف میں آباد ہوئے ۔([4])
آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے والد ماجد حضرت سىد سخى شاہ محمددرویش گیلانی رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہایک بلند پایہ عالم، پُراثر خطیب ،درویش صفت اور سادہ طبیعت کے مالک
تھے۔حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ابھی زندگی کی چھٹی بہار میں قدم رکھا تھا کہ انہوں نے اُوچ شریف سے نقل مکانی فرماکر ملک وال (ضلع ساہیوال پنجاب )میں سکونت اختیار کرلی اورمقامی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دینے شروع کردئیےپھر کچھ عرصہ بعداہل ِ”پانڈوکے“ کے پر زور اصرار پر ”پانڈوکے“ منتقل ہوگئے اور مسجد کی امامت کے علاوہ درس و تدریس اور رُشد وہدایت کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے گردو نواح کے لوگ بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ظاہری و باطنی فُیُوض و بَرکات سے مُستَفِیض ہونے لگے ۔([5])
حضرت بابا بلھےشاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے دینی تعلیم کا آغاز والد ماجد کی سرپرستی میں قرآن مجید سے کیا اس کے علاوہ فارسی کی مُرَوَّجَہ کتب بھی والد ماجد سے پڑھیں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ذرا سی توجہ سے پورے پورے اَسباق زبانی یاد کر کے سنادیا کرتےتھے۔ والد ماجد رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جب آپ کی ذَہانت و فَطانَت اور علمی شوق مُلاحظہ فرمایا تو درسِ نظامی کی تکمیل کے لئے” قصور“ شہر کا انتخاب کیا۔”قصور“ ان دنوں اِن اَطراف میں اسلامی علوم وفُنُون کا مرکز سمجھا جاتا تھا جہاں دور دراز سے تِشنَگانِ علم آآکر اپنی پیاس بجھاتےاور علوم ِدینیہ حاصل کرتے تھے اس وقت بلند پایہ عالم ،صاحبِ فضل وکمال حضرت علامہ خواجہ حافظ غلام
مرتضیٰ صدیقی قصوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےعلم و فضل کا شُہرہ سورج کی کرنوں کی طرح چہار سو پھیلا ہوا تھا۔چنانچہ حضرت سیِّد بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے دن رات ایک کرکے حضرت خواجہ غلام مرتضیٰ قصوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے علومِ عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کے ساتھ ساتھ عربى، فارسى اور ہندی زبان پر بھی دَسترَس حاصل کی اور یوں والد ماجد کی آرزؤں اور تمناؤں کو عملی جامہ پہنایا۔ ([6])
ایک مرتبہ والد ماجد نے آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نےپوچھا: علم حاصل کرنے کے بعد تم خود کو کیسا محسوس کرتے ہو؟آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے جواب دیا: ذہن پرسکون ہے،والد ماجد نےدوبارہ پوچھا:اور دل کی کیا حالت ہے؟عرض کی: اضطراب ، بے چینی اور بے سکونی کی کیفیت طاری ہےاور اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ،پھر پوچھا: استادِ محترم سے اس کا علاج معلوم نہیں کیا ؟آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے عرض کی:انہوں نے فرمایاتھا کہ تمہارے دل کا علاج کسی روحانی طبیب کے پاس ہےجس کا پتا میں نہیں جانتا،پھر والد ماجد رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک وظیفہ بتاتے ہوئے فرمایاکہ اسے پابندی کے ساتھ پڑھتے رہو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔([7])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بزرگان ِ دین اور صوفیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کا یہی طریقہ کار رہا ہے کہ اپنے ظاہر کےساتھ ساتھ باطن کو بھی سنوارتے ہیں ظاہری علم کےحصول کے بعد باطنی علم کی طرف توجہ دیتے ہیں،شریعت پر عمل کرتے ہوئے راہِ طریقت کے مسافر بنتے ہیں ،علمِ شریعت کے بغیر نہ تو راہِ طریقت پر قدم رکھتے ہیں نہ اس کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ علم کے بغیر عبادت کرنے والوں کا کیا حال ہوتا ہے چنانچہ نبیوں کے سُلطان،رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشاد فرمایا : بغیر فقہ کے عبادت میں پڑنے والا ایسا ہے جیسا چکی کھینچنے والا گدھا (کہ مشقت جھیلے اور نفع کچھ نہیں)۔ ([8])
امامِ اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن شاہانِ طریقت کے چمکتے دمکتے اور نور بکھیرتے شاہی فرامین نقل فرماتے ہیں کہ حضور غوث ِاعظم حضرت سیِّدناشیخ عبد القادر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:فِقہ سیکھ، اس کے بعد خلوت نشین ہو جو بغیر علم کے خدا عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرتا ہے وہ جتنا سنوارے گا اس سے زیادہ بگاڑے گا۔ اپنے ساتھ شریعت کی شمع لے لو۔
سیِّدُ الطائفہ حضرت سیِّدنا جنید بغدادی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: میرے پیر حضرت(سیِّدنا)سَری سَقَطی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مجھے دعا دی: اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہیں حدیث دان بنا کر پھر صوفی بنائے اور حدیث داں ہونے سے پہلے تمہیں صوفی نہ کرے۔
حُجَّۃُ الاسلام امام(محمد بن محمد ) غزالی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت (سیِّدنا)سَری سَقَطی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اس دعا کی شرح میں فرماتے ہیں: حضرت(سیِّدنا) سَری سَقَطی نے اس طرف اشارہ فرمایا: جس نے پہلے حدیث و علم حاصل کرکے تصوف میں قدم رکھا وہ فلاح کو پہنچا اور جس نے علم حاصل کرنے سے پہلے صوفی بننا چاہا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا۔ وَالۡعِیاذ ۡبِاﷲِ تَعَالٰی۔([9])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور اُن کے صَدَقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابابلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نےو الد محترم کا بتاىا ہوا وظىفہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی تشنگی کو دور کرنے کےلئے رہبرِ کامل اورمرشدِ صادق کی تلاش جاری رکھی اىک دن اسی خیال میں گم ہوکر جنگل کی راہ لی تلاشِ مرشد میں پھرتے پھراتے دوپہر ہوگئی تیز دھوپ کی وجہ سے بیری کے درخت کے نیچے آرام کرنے کی غرض سے لیٹے تو آنکھ لگ گئی خواب میں ہیرے موتیوں سے ایک آراستہ تخت آسمان سے زمین کی جانب اترتا دکھائی دیا جس پر ایک پُروقار، نورانی صورت والے بزرگ جلوہ گَر تھے یہ بزرگ آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی آباواجداد میں سے پانچویں پشت کے حضرت سیِّد عبد الحکیم شاہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ تھے جب تخت زمین
پر آٹھہرا تو جَدِّ امجد حضرت سیِّد عبد الحکیم شاہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: مجھے پیاس لگی ہے ،حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے خواب ہی میں دودھ کا بھرا پیالہ پیش کردیا جس میں سے انہوں نے تھوڑا سا نوش فرمایا اور باقی دودھ آپ رَحْمَۃُ اللہ ِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو لوٹاتے ہوئے مُشفِقانہ لہجے مىں فرمایا:یہ دودھ پی لو! میرے پاس یہ امانت تھی جو تم تک پہنچادی ہے باقی حصہ حضرت حافظ شاہ محمد عنایت قادری(عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی) کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے جو عنقریب تمہیں مل جائے گا۔([10])
اس خواب سے بیدار ہو کر حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پر خوشی کی وجہ سے بے خودی کی کیفیت طاری ہوگئی دیوانہ وار بھاگتے ہوتے والد ماجد کی خدمت میں پہنچےاور اپنا خواب بیان کیا والد ماجد رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے بلا تاخیر مرکز الاولیاء لاہور میں مصنِّفِ کتبِ کثیرہ حضرت علامہ حافظ شاہ ابو المعارف محمد عنایت قادری شَطّاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی اور چند نصیحتیں کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:بیٹا!بزرگوں کی بارگاہ میں نہایت ادب و احترام اور عقیدت کے ساتھ حاضر ہونا چاہیے ،دل کو تکبر اور غرور کی آلائش سے پاک کرنا چاہیے، پیرو مرشد جو کچھ ارشاد فرمائیں اسے غور سے سُن کر اپنے دل میں جگہ دینا اور سامانِ حیات سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہوجانا ۔([11])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جو بارگاہ جتنی بڑی ہوتی ہےاس کے ادب آداب کا اتنا ہی خیال رکھاجاتا ہےاور بارگاہِ مرشد کا مقام بڑا کیسے نہ ہوکہ اسی بارگاہ میں مرید کےبرے اَخلاق و صفات کو اچھے اَخلاق وصفات میں تبدیل کیا جاتا ہے،ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کے باطن کو سنوارا جاتا ہے،تَزکیۂ نفس اور اصلاحِ اعمال پر توجہ دی جاتی ہے اور پھراسے بارگاہِ الٰہی اور بارگاہِ رسالت میں پیش کردیا جاتا ہےلہذا مرید پر لازم ہےکہ پیرِکامل کے فرامین چاہے وہ بیانات و مَدَنی مذاکرات کی صورت میں ہوں یا تحریرات و ملفوظات کی شکل میں یا مکتوبات کے ذریعے اس تک پہنچے ہوں انہیں اپنی زندگی کا حاصل سمجھے اور ان پر بے چون و چرا عمل پیرا ہو۔عارِف باللہ حضرت امام عبد الوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ راہِ طریقت کا مہکتا ہوااور دامن ِ عقیدت پر سجا لینے والا مدنی پھول عطا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے مرید! تیرا مرشِد جو کلام تیرے دل میں بَودے تَو اس کو بے ثَمَر(بےفائدہ) ہر گز مت سمجھ۔ کیونکہ بعض اوقات اس کلام کا ثَمَر(فائدہ) مرشِد کے انتقال کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی کھیتی اِنْ شَآءَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ برباد نہیں ہوگی۔ پس اے بیٹے! ہر اس بات کو جو تُواپنے مرشِد سے سنے اسکی خوب حفاظت کر اگرچہ اس بات کو سننے کے وقت تو اس کے فائدے کو نہ سمجھے۔([12])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت علامہ حافظ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا سنِ ولادت ۱۰۵۶ھ جبکہ جائے پیدائش ”قصور“ہےآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاتعلق آرائیں خاندان سے ہے۔ والدماجد پیر محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیش امام تھے۔ایک مرتبہ ایک مجذوب نے والد گرامی سے کہا : آپ کے پورے خاندان کو چمکانے والا بچہ اس دنیا میں آنے والا ہے ، پھرایک ماہ بعد حضرت حافظ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی ولادت ہوگئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید اپنے سینے میں محفوظ کیا بارہ سال کی عمر میں تمام علوم مُرَوَّجہ سے فراغت پاکر سندو دستاربندی کا اعزاز حاصل کیا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا رُجحان ابتداہی سے تصوف کی طرف تھاچونکہ کم عمری میں ہی والدماجد کی وفات کا داغ سینے سے لگ گیا تھا لہذا دستارِ فضیلت پانے کے بعد پیرو مرشد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے قسمت نے یاوَری کی اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو مرکز الاولیاء لاہور میں وارثِ فیضانِ محمدی عالمِ باعمل حضرت سیِّد محمد رضا شاہ قادری شَطّاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے درِ دولت پر لے آئی۔مرشدِ کامل کی نگاہِ فیض سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کچھ ہی عرصہ میں راہ ِ سلوک کی بلند و بالا منازل طے کیں اور خرقۂ خلافت پہنا پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جائے پیدائش قصور تشریف لے آئے اور مخلوقِ خدا کو علوم ِروحانی اور فیضِ ربانی سے نوازا، لوگ جُوق دَر جُوق آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوتے یہاں تک کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی شخصیت پورے
قصور بلکہ گرد نواح کے باسیوں کے لئے عقیدت و محبت کا مرکز بن گئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے 35سال سے زائد عرصہ تک اہلِ قصور کو علم و معرفت سے نوازا پھر 30 سال تک دیارِ مرشد مرکز الاولیاء لاہورکو اپنے علم و عرفاں سے سیراب کیابالآخر خلقِ خدا کی روحانی اور علمی رہنمائی فرماتے ہوئےاِکانوے سال کی عمر میں۲۷ جمُادَی الاُخرٰی۱۱۴۷ھ بمطابق 1768ء میں اس جہانِ فانی سے کوچ کیاآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار مبارک شاہراہِ فاطمہ جناح (کوئینز روڈ،مرکزالاولیا لاہور) پر آج بھی ہزاروں عقیدت مندوں کی روحانی تسکین کا باعث ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اللہ عَزَّ وَجَلَّنے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہولیِ کامل،متبحر عالم، تہجد گزار، طریقت و شریعت کے جامع، صاحبِ تحریر و تقریر تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے تصوف پرمایہ ناز کتاب ”دَستُورُ العمل “تصنیف فرمائی اس کے علاوہ علمِ فقہ میں مُلتَقَطُ الحَقَائِق عَلٰی کَنۡزِ الدَّقَائِق ،غَایَۃُ الۡحَوَاشِی عَلٰی شَرۡحِ الۡوِقَایَہ (مطبوعہ) جبکہ اَلۡہِدَایَہ پر تحقیق وتدقیق سے معمور حواشی آج بھی پنجاب پبلک لائبریری کا حصہ ہیں جو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے زورِ علمی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔([13])
اس سلسلے کے بانی حضرت شیخ بایزید بسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہیں یہ سلسلہ برصغیر پاک و ہند میں ” شطاریہ“ کے نام سے مشہور ہوا پاک وہندکی فضاؤں کو اس
سلسلے کی خوشبوؤں سے مہکانے والے پہلے بزرگ حضرت عبد اللہ شطاریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (متوفیٰ ۸۹۰ھ) ہیں جو نویں صدی ہجری کے اخیر میں ایران سے ہجرت کرکے برصغیر پاک وہند تشریف لائےجبکہ حضرت غوث گوالیاری شطاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ(متوفیٰ ۹۷۰ھ) کے فیضِ اثر سے اس سلسلے کی نورانی کرنیں چہار سو پھیل گئی ۔ ([14])
جب حضرت بابا بلّھے شاہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مرکز الاولیاءلاہور پہنچے تو اس وقت حضرت علامہ شاہ محمد عناىت قادرى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیبھاٹی دروازے میں واقع ” اُونچى مسجد“ کے پىش امام تھےاورظہر ىا عصر کے بعد درس دىا کرتے تھے، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عام لوگوں کی ذہنی سطح کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس درس میں فقہی مسائل مثلاً نماز، روزے ،وضو، غسل اور وعظ ونصیحت وغیرہ کا اہتمام فرمایا کرتے تھے،تصوف کے اَسرار ورُمُوز پر کبھی گفتگو نہ فرماتے اور نہ ہی سخت ریاضت اور مجاہدہ کی تلقین فرماتےاگر کوئی اس بارے میں سوال کر بیٹھتا تو صاف صاف ارشاد فرمادیتے کہ عام مسلمانوں کے لئے اسی میں عافیت ہے کہ وہ فرائض و واجبات کی پابندی کریں پیارے آقا محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنتوں پر عمل کریں نیز درودِ پاک اور اِستغفار کی کثرت کریں یہی ان کا وظیفہ ہےاور یہی ان
کے لئے ریاضت و مجاہدہ ہے۔([15])
پیارے اسلامی بھائیو!حضرت علامہ شاہ محمد عناىت قادرى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا مہکتا ہوا مدنی پھول اپنی خوشبو بکھیررہا ہے کہ عام مسلمان کو فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ سنتوں بھری زندگی گزارنا چاہیے کیونکہ طریقت کے اسرارو رموز کو سمجھنا ہر ایک کے بَس کی بات نہیں کہ اس راہ میں نہایت تنگ و تاریک گھاٹیوں کو عبور کرنا پڑتا ہےشدید آفتوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ پندرھویں صدی کی عظیم علمی و روحانی شخصیت شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علامہ مولانا ابوبلال محمد اِلیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے راہِ طریقت کی دشواریوں اور مشقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے محبین، مریدین اور تمام امتِ مسلمہ کے لئے انتہائی آسان اور سادہ طریقہ کار کے مطابق شریعت و طریقت کا جامع مجموعہ بنام ”مدنی انعامات“ کا انمول اور بے مثل تحفہ عطا فرمایاہے جس کا مقصد ہر مسلمان میں فرائض و واجبات کی پابندی اور سُنَن و مستحبات پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا ہے،اسے تقویٰ و پرہیز گاری کے زیور سے آراستہ کرنا ہےنیز اس کی معاشرتی و اخلاقی حالت کو بہتر بنانا ہےاس کا اندازہ اس مدنی انعام سے لگائیےچنانچہ مدنی انعام نمبر 42 ہے کہ ”آج آپ نے کسی مسلمان کے عُیُوب پر مُطَّلَع ہوجانے پر اس کی پردہ پوشی فرمائی یا (بلا مصلحتِ شرعی )
اس کا عیب ظاہر کردیا؟ نیز کسی کی راز کی بات (بغیر اس کی اجازت )دوسرے کو بتاکر خیانت تو نہیں کی ؟“
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت علامہ شاہ محمد عناىت قادرى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی درس کے بعد اپنی خانقاہ مىں تشرىف لے جاتے جہاں علماو صُلَحا اور راہ ِ سلوک پر چلنے والے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے منتظر ہوتےیہاں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا اندازِ درس بدل جاتا، شرىعت اور طرىقت کے موضوع پر عالِمانہ گفتگو ہوتی، مرىدوں کى روحانى تربىت کى جاتى اور انہیں اَسرارو رُمُوز سے آگاہ کیا جاتا ۔([16])
پیارے اسلامی بھائیو!عام لوگوں کے لئے الگ مجلس کا انتظام اور خاص لوگوں کے لئےعلیحدہ مجلس کا اہتمام کرنا اور ان پر خاص توجہ دینا علمائے کرام اور مشائخِ عُظَّام کا طریقہ کارہے اس ضمن میں ایک روح پرور حدیث مبارکہ سے اپنے ایمان کو ترو تازگی بخشئے چنانچہ حضرت سیِّدنا شَداد بن اَوس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ ہم بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں حاضر تھےکہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:کیا تم میں کوئی اجنبی یعنی یہودی یا نصرانی موجود ہے ؟ہم نےعرض کی : یارسولَاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! نہیں،
پس حضور نےہمیں دروازہ بند کرنےکا حکم دیا پھر فرمایا:تم اپنے ہاتھوں کو اٹھاکر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہو،راوی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کو ایک ساعت تک اٹھائے رکھا پھر رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ سب خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کےلئے ہیں الٰہی ! تو نے مجھے اس کلمہ کے ساتھ بھیجا اور اس پر مجھے جنت کا وعدہ فرمایااور تو وعدے کا خلاف نہیں فرماتا ۔پھر دعا کے بعد ہم سے ارشاد فرمایا: خوش ہوجاؤ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے تمہیں بخش دیا۔([17])
خلیفۂ اعلیٰحضرت ملک العلماء حضرت علامہ مفتی ظفر الدین بہاری رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس حدیثِ پاک سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ خاص توجہ لینے اور دینے کا جزئیہ ہے ورنہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی تعلیم کے واسطے تو حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمام جہانوں کی طرف بھیجے گئے پھر اس پوچھنے کے کیا معنی تھے کہ ھَلۡ فِیۡکُمْ غَرِیۡبٌ تم میں کوئی اجنبی تو نہیں ؟پس اس پوچھنے ہی پر بس نہ فرمایابلکہ دروازہ بند کرنے کا حکم دیا تاکہ کوئی غیر داخل نہ ہوسکے ،معلوم ہوا کہ یہ کوئی خاص تلقینِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ تھی جس میں خاص ہی خاص حضرات کا حصہ ہےاور یہ وہی توجہ ہے کہ مشائخِ کرام اپنے مریدین کو دیتے ہیں ۔([18])
پھر توجہ بڑھا میرے مرشد پیا نظریں دل پہ جما میرے مرشد پیا
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت علامہ شاہ محمد عناىت قادرى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی خانقاہ میں کوئی بیعت کے لئے حاضر ہوتاتو واضح الفاظ میں ارشاد فرمادیتے ” طریقت ایک کٹھن اور مشکل راستہ ہے، میرے پاس کچھ نہیں ہےاور نہ میں اسے پسند کرتاہوں کہ لوگ اس راہ میں اپنے پاؤں زخمی کرلیں اور یہ کہتے ہوئے لوٹ جائیں کہ ہمارا بہت سا وقت برباد ہوگیااور ہمارے ہاتھ کچھ نہ آیا “۔پھر عاجزی کرتے ہوئے اہل ِ محفل سے فرماتے کہ عنایت تو خود کسی کی عنایت کا محتاج ہے وہ بس اللہ عَزَّ وَجَلَّکے حکم سے راستہ دکھاسکتا ہے اور تمہاری کامیابیوں کے لئے دعا کرسکتا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہاری محنت اور کوشش کے پھل تمہیں عطا فرمائے اور تم پر اس دشوار گزار سفر کو آسان بنائے۔ اکثر لوگ یہ سُن کر واپس چلے جاتے جبکہ کچھ لوگ بَضِد رہتے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کڑی شرائط کے ساتھ انہیں اپنے حلقۂ ارادت میں شامل فرمالیتے۔([19])
پیارے اسلامی بھائیو! راہِ طریقت واقعی ایک مشکل راستہ ہےجس پر چلنے والوں کے لئے شریعت کے پاکیزہ دامن کو تھام کر رکھنا اَز حَد ضروری ہےورنہ اس راہ میں بہک جانے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےکلماتِ مبارکہ نہ صرف اس راہ میں بھٹکنے والوں کے لئے بلکہ دیکھنےاورقدم
جمانے والوں کے لئے بھی مشعل کی مثل روشنی بکھیر رہے ہیں چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : طریقت میں جو حقائق وغیرہ آدمی پر کھلتے ہیں وہ شریعت کی پیروی ہی کا صدقہ ہے ورنہ شریعت کی پیروی کے بغیر بڑے بڑے کشف تو راہِبوں، جو گیوں اور سَنیاسِیُوں کو بھی ہوتے ہیں ان کے کَشف انہیں کہاں لے جاتے ہیں اسی بھڑکتی آگ اور درد ناک عذاب کی طرف لے جاتے ہیں۔ لہذا شریعت کی پیروی کے بغیر کسی کَشف کا کوئی فائدہ نہیں۔شریعت کی حاجت ہر مسلمان کو ایک ایک سانس، ایک ایک پل، ایک ایک لمحہ پر مرتے دم تک ہے اور طریقت میں قدم رکھنے والوں کو تویہ حاجت اور زیادہ ہے کہ راستہ جس قدر باریک وکٹھن ہوتا ہے رہنما کی حاجت بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور رہنما یہاں پر ’’شریعت‘‘ ہے مزید فرماتے ہیں: اے عزیز ! شریعت ایک عمارت ہے اس کی بنیاد ’’عقائد‘‘ اور چُنائی ’’عمل‘‘ ہے پھر ظاہری اعمال وہ دیواریں ہیں جو اس بنیاد پر تعمیر کی گئیں اور جب وہ تعمیر اوپر چڑھ کر آسمانوں تک بلند ہوجاتی ہے تو طریقت کہلاتی ہے۔ دیوار جتنی اونچی ہوگی اسی قدر زیاد ہ اسے بنیاد کی حاجت ہوگی بلکہ عمارت میں ہر اوپر والے حصے کو نیچے والے حصے کی حاجت ہوتی ہے اگر نیچے سے دیوار نکال دی جائے تو اوپر والا حصہ بھی گر جائے گا تو وہ شخص احمق ہے جسے شیطان نے نظر بندی کرکے اس کے اعمال کی بلندی آسمانوں تک دکھائی اور دل میں یہ بات ڈالی کہ تم تو زمین کے دائرے سے اوپر گزر گئے ہو تمہیں ان نیچے والے حصوں کی کیا حاجت اور پھر اس احمق نے شیطان کے دھوکے میں آکر بنیادوں سے تعلق توڑ لیا تونتیجہ وہ نکلا جو قرآن مجید نے فرمایا :
فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَؕ- (پ،۱۱، التوبة:١٠٩)
ترجمۂ کنز الایمان: اس کی عمارت اسے لے کر جہنم میں ڈھے (گِر) پڑی
اللہ کی پناہ ہے ان باتوں سے، اسی لئے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :
’’جاہل صوفی شیطان کا مسخرہ ہے‘‘ اس لئے حدیثِ پاک میں آیا حضور سیِّد عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔([20]) بغیر علم کے عبادت میں مجاہدہ کرنے والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے۔ ان کے منہ سے لگام اور ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچتا پھرتا ہے اور طریقت سے جاہل سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا کررہے ہیں۔([21])
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جب حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کی بارگاہ میں حاضر ی کا شرف حاصل ہوا توانہوں نے کڑی شرائط کے ساتھ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو اپنے مریدوں کی صف میں شامل کرلیاپھر کچھ عرصہ زیرِ نگرانی تربیت فرماتے رہے اس کے بعد دریائے چناب کے کنارے جھنگ سیال کے صحراؤں میں چلے جانے کا حکم ارشاد فرمایاتاکہ عبادت و ریاضت کے ذریعے نفسانی خواہشات اور نَمُو دو نُمائش کے حجابات دور کرکے دل کی دنیا کو محبتِ الٰہی سے آباد کرسکیں اورچلتے ہوئے چندمدنی پھول ارشاد فرمائے :اے عبداللہ! اپنے
نفس کو عادی بناؤ کبھى بھوک کا تو کبھى پىاس کا ، کبھى تىزدھوپ کا تو کبھى سخت سردى کا، یاد رکھو! اىثار،صبر،قناعَت اورتَوَکُّل،’’تصوف‘‘ کى عمارت کے چار ستون ہىں اگر اىک ستون بھى کمزور رہ جائے تو عمارت میں مضبوطی نہیں آپاتی جس کی وجہ سے وہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ بے شک! ہم سب عالمِ اسباب مىں سانس لے رہے ہىں مگر مسبب الاسباب اسى کى ذاتِ پاک ہے، غىر کى گلىوں مىں زندہ رہنے سےبہتر ہے کہ بندہ حبیب کے کوچے میں مرجائے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم پر منزلِ شوق آسان فرمائے ۔([22])
اے کاش ! ہم بھی نفسانی خواہشات اور نمو دو نمائش کے حجابات دور کرنے کے لئے اور دل کی دنیا کو محبتِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ اورعشقِ ِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے آباد کرنےکے لئے علم و حکمت کے ان مدنی پھولوں کواپنے دل کے آبگینے پر سجالیں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیرو مرشد کی ہدایت پر جھنگ تشرىف لے آئے اور درىائے چناب کے کنارے ایک چٹان کے سہارے بانسوں کو کھڑا کرکے ٹاٹ کی بوری لپیٹ کر گھاس پھونس کی ایک شکستہ جھونپڑی بناکر اپنی دنیا آباد کرلی جہاں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کئى سال تک سخت رىاضتوں اور مجاہدوں میں مصروف رہے گرم ہواؤں کے تھپىڑےہوں یا سرد ہواؤں کے جھونکے ،سىلاب
ہویا آندھی و طوفان آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ موسم کى ہر سختى کومسکرا کر برداشت کرتے،آشیانہ بکھر جاتا تو تنکا تنکا جمع کرکے دوبارہ بنالیتے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دن رات عبادت و ریاضت میں مُستَغرَق رہتے سخت مجاہدات اور موسم کى سختىوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے رنگ کو جُھلس کر رکھ دیا تھاجس کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا سرخ و سفىد رنگ سىاہى مائل ہوچکا تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عموماً جنگلى پھلوں پر گزر بسر کرتے اور جب یہ موسم بھی گزر جاتاتو درختوں کے پتے کھا کر شکم کى آگ بجھاتے ۔([23])
رفتہ رفتہ آس پاس کے علاقوں میں آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی برکتوں کا ظہور ہونے لگا ،لوگوں کے مسائل حل ہونے لگے ،غربت و مفلسی دور ہونے لگی، کھیتوں میں پیداوار زیادہ ہوئی ،کھلیانوں میں غلے کے انبار لگ گئے،بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع ملنے لگے اس تبدیلی کو ہر ایک نے محسوس کیااور خوشی اور حیرت کے ملے جُلے تاثرات کا اظہار کیاآہستہ آہستہ یہ راز کھلنے لگا کہ دریا کے کنارے ایک ہستی دنیا و مافیھا سے بے خبر ہو کر ذکر و عبادت میں مصروف رہتی ہے چنانچہ ایک کسان مکئی کی روٹی اور ساگ لے کر حاضرِ خدمت ہوگیا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے
اسے سامانِ غیب تصور کیا اور تناول فرمانا شروع کیا مگر ایک روٹی کھاکر ہاتھ کھینچ لیا، کسان یہ دیکھ کر گھبراگیا اور عرض گزار ہواکہ شاید آپ کو کھانا پسند نہیں آیا اس لئے ہاتھ روک لیا ہے، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کی دل جوئی کرتے ہوئے فرمایا: تمہاری مکئى کى روٹى اور ساگ ،باد شاہوں کےعمدہ کھانوں سے زىادہ لذىذ ہے، اللہ عَزَّ وَجَلَّتمہاری روزى مىں برکت عطا فرمائے۔اس واقعے کے بعد قرب و جوار کے دوسرے کسان بھى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے لىے اپنے اپنے گھروں سے کھانا لانے لگے مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اىک روٹى سے زىادہ ہر گز نہ کھاتے۔([24])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کا مشکبار مدنی ماحول ہمیں بزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کی یاد دلاتا ہے۔شیخِ طریقت ،امیرِ اہلسنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضویدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی شہرہ آفاق تالیف ”فیضانِ سنّت “جلد اوّل کے صفحہ 644 پر طریقت کے چمنستان کی چابی کو الفاظ کا جامہ یوں پہناتے ہیں: پیٹ بھر کر کھانا مُباح یعنی جائز ہے مگر ”پیٹ کا قفلِ مدینہ“ لگاتے ہوئے یعنی اپنے پیٹ کو حرام اور شُبُھات سے بچاتے ہوئے حلال غذا بھی بھوک سے کم کھانے میں دین و دنیا کے بے شُمار فوائد ہیں۔ کھانا مُیَسَّرنہ ہونے کی صورت میں مجبوراً بھوکا رہنا کوئی کمال نہیں ،وافِر مقدار میں کھانا موجودہونے کے باوُجُودمَحض رِضائے الہٰی کی خاطِر
بھوک برداشت کرنا یہ حقیقت میں کمال ہے۔ چُنانچِہ روایت ہےکہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدار، دو جہا ں کے مالِک و مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اختیاری طور پر بھوک برداشت فرماتے تھے۔([25])
لُوٹ لے رَحمت ، لگا قفلِ مدینہ پیٹ کا |
پائے گا جنّت ، لگا قفلِ مدینہ پیٹ کا |
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
معلوم ہوااِختیاری طور پر بھوک برداشت کرنا ہمارے مکّی مَدَنی آ قا، میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی میٹھی میٹھی سنّت ہے اور سنَّت کی عظمت کے تو کیا کہنے! خود صاحِبِ سنَّت، سراپا رحمت، بِاِذنِ ربُّ العزّت مالکِ جنّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنّت نشان ہےکہ جس نے میری سنّت سے مَحبَّت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے مجھ سے مَحَبَّت کی وہ جنّت میں میرے ساتھ ہو گا۔([26])
آپ بھی اپنی سوچ و فکر کا دھارا تبدیل کرتے ہوئے گناہوں سے بچنے اور نیک بننے کے لئے تبلیغ ِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ہوکردونوں جہاں کی سعادتیں حاصل کریں۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تنہائى کے عادى نہ تھے اس لىے آغازِ سفر مىں پىر و مرشد، والدىن اور دوست احباب کى بہت ىاد آتى۔ کبھى کبھى شدتِ کرب سے بے قرار ہو کرمرشد نگر مرکز الاولیاءلاہور کى طرف رُخ کرتے اور غائبانہ طور پر پیرو مرشد کی بارگاہ میں عرض گزار ہوتے :یا سىدى ! مجھے سب کچھ گوارا ہے مگر آپ سے جدائى برداشت نہىں ہوتى، دل دَرد میں مبتلا رہتا ہے تو نظر شربت ِدیدکی طلب گار رہتی ہے اگر اجازت ہو توحاضری کی سعادت پاکر اپنے دردِ دل کا سامان کرلوں اور آنکھوں کى پىاس بجھالوں۔ جس دن بھی بارگاہِ مرشد میں یہ فریاد ہوتی اسی دن پیرو مرشد حضرت علامہ شاہ محمد عناىت قادرى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی خواب مىں تشرىف لا کر ارشاد فرماتے: ىاد رکھو، سختى کے بعد آسانى اور جدائی کے بعد ملاپ ہوتاہے ، ابھى تم نے سختىاں کہاں برداشت کى ہىں کہ آسانىاں ڈھونڈرہے ہو، ابھى تم آتشِ فراق مىں کب جلے ہو کہ راحتِ وصال مانگ رہے ہو۔ پہلے خاک تو ہوجاؤ پھر کوچۂ ىار کى آرزو کرنا۔‘‘ پىرو مرشد کى ہداىت پا کر حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اداس تو ہوجاتے مگرىہ احساس آپ رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو لذت سے سرشار کردىتا کہ پیرو مرشد مىرے حال سے بے خبر نہىں ہىں۔([27])
پیارے اسلامی بھائیو! بے شک ذاتی طور پر صِرْف اور صِرْ ف اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی دلوں کے اَحوال جاننے والا ہے ،مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے اُس کے مقبول بندے بھی دلوں کے احوال جان لیتے ہیں اور مخلوقِ خدا کے دکھ دَرد کا مُداوا(علاج ) کرتے ہیں چنانچہ حضرت سَیِّد علی بن وفار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار قربِ مرشد کے طلب گاروں کو آسان راستہ دکھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس مرید نے یہ گمان کیا کہ اس کا شَیخ اس کے اَسرار(یعنی رازوں) سے واقف نہیں ہے تو وہ مرید اپنے شَیخ سے بہت دور ہے اگرچہ دن رات مرشِد کےساتھ ہی بیٹھا ہو۔([28])
جَڑانوالہ(پنجاب ،پاکستان)کے ایک مَدنی اسلامی بھائی کا حلفیہ بیان کچھ یوں ہے کہ ایک دن اچانک میری آواز بند ہوگئی جس کی وجہ سے بولناتودرکنار رونے کی آواز بھی نہیں نکلتی تھی،میں ایک گونگے شخص کی طرح ہوکررہ گیا، مرکز الاولیاء (لاہور) اور دیگر شہروں میں بڑے بڑے ڈاکٹروں کو دکھایامگر میرا مرض کسی کی سمجھ میں نہ آیا ڈاکٹرمختلف دوائیں دیتے اورکچھ دن بعدجواب دے دیتے۔ آوازبندہونے کے 13ویں دن میں نے ایک دستی مکتوب اپنے پیرومرشد پندرھویں صدی ہجری کی عظیم علمی ورُوحانی شخصیت شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت ،
بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولاناابوبلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی بارگاہ میں بھیجا،جس میں اپنی بیماری کا حال لکھ کر نظرِ کرم کی درخواست کی گئی تھی۔ غالباًبدھ کے روزمکتوب شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی بارگاہ میں پہنچ گیا۔ جمعرات کومیں دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں حاضر ہوا ۔بعدِ اجتماع ایک اسلامی بھائی سے ملاقات کے دوران مجھے اپنے دل میں تھوڑا درد محسوس ہوا تومیں ایک کونے میں جاکر بیٹھ گیا اچانک میں نے دیکھا کہ میرے سامنے شیخِ طریقت ،امیر اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تشریف فرماہیں ،آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے خوشبوؤں کی لپٹیں آرہی ہیں۔ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مجھے مسکراکرسینے سے لگایا، تسلی دی اور چاروں قُل شریف پڑھ کر مجھ پر دَم فرمایا،پھر فرمایا :”کہو! مدینہ“ میں نے حکمِ مُرشِد پر” مدینہ“ کہا تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّمیری آوازکھل گئی ۔امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ایک اسلامی بھائی کے نام یہ پیغام بھی دیا کہ میرے گھر جاکر چاروں قُل شریف پڑھ کرپانی پردم کریں اور چاروں کونوں میں چھڑک دیں۔ میں ”مدینہ ، مدینہ“ کہتا ہوا اسلامی بھائیوں کی طرف متوجہ ہوا۔وہ مجھے بولتادیکھ کر حیرانگی کے ساتھ میرے گرد جمع ہوگئے۔ میں نے سب کو بتایا ابھی امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تشریف لائے تھے۔وہ میٹھے مُرشِد کی آمد کا سن کر جھوم اُٹھے۔یوں میرے پیر و
مرشد نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے باب المدینہ (کراچی) سے روحانی طور پر تشریف لا کر میرے مرض کا علاج فرمادیا۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اب میں بالکل نارمل ہوں ۔([29])
اب لے جلدی خبر تیری جانب نظر میں نے لی ہے لگا میرے مرشد پیا
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی امیرِ اَہلسنّت پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے والد ماجد حضرت سیِّد سخی شاہ محمد گیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہایک مرتبہ آپ سے ملنے آئے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہسے اہل ِ علاقہ کی محبت دیکھی تو بہت خوش ہوئے پھر فکر آمیز لہجے میں انفرادی کوشش کرتے ہوئے فرمانے لگے : بیٹا ! تم اپنى ان کامىابىوں پرخوش نہ ہوجانا، وہ زمانہ ىاد کرو کہ جب تم اىک خوش رنگ پھول تھے مگر خوشبو سے خالى تھے جس شاخ پر تم کھلےتھے مرشد کریم نے اس کی آبىارى کى پھررب عَزَّ وَجَلَّ نے تم پر کرم فرماىا اور تم مہکنے لگے، مىں نے اىسے کئی پھول دىکھے ہىں جو شدىد محنت و رىاضت کے باوجود زندگى بھر خوشبو سے محروم رہے۔پھراگلے دن نماز ِ فجر ادا کرنے کے بعد بىٹے کو اپنى دعاؤں سے سرفراز فرمایا اور ”پانڈوکے “ (ضلع قصور)روانہ ہوگئے۔([30])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! انسان کو ہلاکت کے گہرے گڑھے میں ڈال دینے والا ایک گناہ” خود پسندی“ ہے تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :اگر تم کوئی گناہ نہ کرو تو پھر بھی مجھے ڈر ہے کہ تم اس سے بڑی چیز”خود پسندی “میں مبتلا نہ ہو جاؤ ۔([31])
حجۃ الاسلام حضرت سیّدناامام محمدغزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَا لِیارشاد فرماتے ہیں : خود پسندی کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو علم و عمل میں کامل سمجھنے کی وجہ سے انسان کے دل میں تکبر پیدا ہوجائے۔ اگر اُسے اُس کمال کے زائل ہونے کاخوف ہو تو وہ خودپسند نہیں کہلائے گا اوراسی طرح اگر وہ اس کمال کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت سمجھ کر اس پر خوش ہو تو بھی خودپسندی نہیں بلکہ وہ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل پر خوش ہے ۔ اور اگر وہ اس وجہ سے خوش ہو کہ یہ اس کی اپنی صفت ہے اور نہ اس کے زوال کی طرف متوجہ ہو اور نہ یہ سوچے کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمت ہے تویہی چیز خود پسندی کہلاتی ہے اور یہی ہلاکت میں ڈالنے والی ہے۔
پھر خود پسندی کا علاج ارشاد فرماتے ہیں کہ انسان اپنے انجام میں غور کرے اور بَلْعَمْ بن بَاعُوْرَاء ([32])کے بارے میں غور کرے کہ اس کا خاتمہ کیسے کفر پر ہوا اور
اسی طرح ابلیس کی حالت ہے۔پس جس شخص نے برے خاتمہ کے بارے میں غور کیاتو اس کے لئے اپنی کسی صفت کی وجہ سے خودپسندی میں مبتلا ہونانا ممکن ہے۔ وَاللہُ اَعْلَم۔([33])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مذکورہ واقعہ میں والدین کےلئے بھی درس ہے کہ اولاد کی اچھی تربیت کریں ان میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر نظر رکھیں انہیں موقع بہ موقع پیار، محبت اور شفقت سے سمجھاتے رہیں۔ خود بھی فکرِ آخرت کرتے ہوئے گناہوں سے کنارہ کریں اور اپنی اولاد کوبھی اس کا مدنی ذہن دیں اس ضمن میں امیر ِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا خوفِ خدا میں ڈوبا ہوا طرزِ عمل ملاحظہ کیجئے:
شہزادۂ امیرِ اہلِ سنّت حاجی ابوہلال محمد بلال رضا عطاری سلَّمَہُ الۡبَارِی فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک مرتبہ میں نے کسی کنوئیں میں جھانک کر دیکھا تو اس کی گہرائی دیکھ کر میرے دل پر خوف طاری ہوگیا ۔جب میں نے اپنے باپاجان امیرِ اہل سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی خدمت میں یہ ماجرا عرض کیا تو آپ نے انفرادی کوشش کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا :دنیاوی کنوئیں کی گہرائی دیکھ کر ہی آپ کا دل خوف زدہ ہوگیا تو غور کیجئے کہ جہنم کی گہرائی کس قدر ہولناک ہوگی ۔([34])
ایک مرتبہ حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں جمال نامی حافظ صاحب حاضر ہوئے اورآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دستِ اقدس پر مرید ہونے کی درخواست کی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : کچھ دن ٹھہرجاؤ کہ نہ جانے تمہارے مقدر میں کیا لکھا ہےاورمیں اس سلسلےمیں بااختیار نہیں ہوں اگر پیرو مرشدنے توجہ فرمائی تو تم بامراد ٹھہرو گے، یہ سنتے ہی حافظ جمال پر ناامیدی کے گہرے بادل چھا گئے مگر رحمتِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ نے ڈھارس بندھائی چنانچہ روزانہ تہجد کی نماز ادا کرکے بڑے پُرسوز لہجے میں دعا کرتے : اے زمین و آسمان کے مالک ! تو نے اپنے کلام کی روشنی سے میرے سینے کو منور فرمایا اب اسی روشنی کے صدقے میں مجھے مرشد کامل عطا فرما۔ دعا مانگتے مانگتے حافظ جمال کی آنکھوں سے سیل ِ اشک رواں ہوجاتے، روزانہ کئی کئی بار حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چہرہ مبارکہ کی طرف نظر اٹھاتے کہ شاید مرکز الاولیاء لاہور سے ان کی درخواست کی منظور ی آگئی ہو مگر حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو خاموش دیکھ کر امیدوں پر اوس پڑ جاتی اور دل بجھ سا جاتاچنانچہ دل ہی دل میں مخاطب کرکے کہتے : جمال ! تو اس قابل نہیں ہے کہ حضرت شاہ عنایت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی مجلسِ معرفت میں شریک ہوسکے اپنے گھر لوٹ جا کہ شاید تیری قسمت میں یہ سعادت نہیں ہے ۔پھر خود ہی ان خیالات کو جھٹک دیتے اور کہتے کہ جمال ! تو یہاں سے اٹھ کر اور کہاں جائے گا ؟ اس جھونپڑی سے نکل کر تو اندھیرا ہی
اندھیرا ہے یہیں پڑا رہ، شاید وہ آفتابِ معرفت کسی دن تجھ پر مہربان ہوجائے اور تیرے دل کی تاریکیاں دور کردے۔اسی ذہنی کشمکش کے شکار رہے یہاں تک کہ ایک ماہ گزر گیا بالآخر دل و دماغ دونوں نے مل کر یہ فیصلہ کرلیا کہ بس ! اب حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں ساری زندگی گزاردینا ہے چاہے شرف ِ بیعت حاصل ہویا اس اعزاز سے سَدامحرومی رہے، اسی روز حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے خواب میں پیرو مرشد حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کویہ فرماتے سنا : حافظ جمال کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل کرلو کہ اب وہ ایک دَر کا پابند ہوگیا ہے ۔([35])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حضرت حافظ جمال رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب یَک دَر گیر مُحکم گیر یعنی ایک دروازہ پکڑ اور مضبوطی سے پکڑ،پر عمل پیرا ہوئے تو انہیں شرفِ بیعت کا مژدۂ جانفزا سنایا گیا ، یاد رکھئے کہ جو مرید اپنے مرشد ِکامل سے مضبوط ارادت نہیں رکھتا اور کبھی اِس دَر پر جاتا ہے تو کبھی اُس در پر اور کبھی کسی اور طرف نکل جاتا ہے،ایسا مریدیونہی بھٹکتا رَہ جاتا ہے اور اپنے پیر کے فیض سے محروم رَہ جاتا ہے لہذا مرید کو چاہیے کہ اپنے پیرو مرشد کا فیض پانے کے لئے اس سے ارادت مضبوط رکھے اور یک در گیر محکم گیر پر کاربند رہے اور ہمیشہ اس کی فرمانبرداری کرتا رہے کہ یہی وہ دروازہ ہے جس کے ذریعے اس کے دل پر انوار و
تجلیات کی بارش ہوگی ،یہی وہ راہ ہے جس کے ذریعے حق تعالی کی معرفت حاصل ہوگی۔ طریقت کے بلند و بالا اور مضبوط قلعوں کی جانب دیکھنے والوں کےلئے امام عبدالوہاب شعرانی قُدِّسَ سِرِّہُ الرَّبّا نی کا فرمان عقیدت کی گرہ میں باندھ لینے والا ہے چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:”مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے دل کو اپنے مرشِد کے ساتھ ہمیشہ مضبوط باندھے رکھے اور ہمیشہ تابعداری کرتا رہے اور ہمیشہ اعتقاد رکھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنی تمام اِمداد کا دروازہ صرف اس کے مرشِد ہی کو بنایا ہے اور یہ کہ اس کا مرشِد ایسا مظہر ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس کے مرید پر فُیوضات کے پلٹنے کےلئے صرف اسی کو مُعَیّن کیا ہے اور خاص فرمایا ہے اور مرید کو کوئی مدد اور فیض مرشِد کے واسطہ کے بِغیر نہیں پہنچتا اگر چہ تمام دنیا مشائخ عظام سے بھری ہوئی ہے۔مگر یہ قاعدہ اس لئے ہے کہ مرید اپنے مر شد کے علاوہ او رسب سے اپنی توجہ ہٹا دے کیونکہ اس کی امانت صرف اس کے مرشِد کے پاس ہوتی ہے ، کسی غیر کے پا س نہیں ہوتی“۔([36])
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی غلامی اور دعوتِ اسلامی پر تادَمِ مرگ اخلاص کے ساتھ استقامت عطا فرمائے۔
بنادے مجھے ایک دَر کا بنادے میں ہر دم رہوں با وفا یا الٰہی
سدا پیر و مُرشِد رہیں مجھ سے راضی کبھی بھی نہ ہوں یہ خفا یا الٰہی
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
پیارے اسلامی بھائیو!جہاں پھول ہوتے ہیں وہاں کانٹے ضرور ہوتے ہیں جہاں اچھے لوگ ہوں وہاں برے لوگ بھی ہوتے ہیں۔جب حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی عبادت وریاضت اور ولایت کا شہرہ پھیلنے لگا تو چند بدباطن بھی پیدا ہوگئےجنہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو ڈھونگی اور بناوٹی پیر ثابت کرنے کے لئےاىک بڑے تھال مىں دو رىشمى جوڑے، چند لذىذ کھانے اور چاندى کے سوسکّے رکھےاور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کى جھونپڑى کے قرىب پہنچ گئے اس وقت آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ درىا کے کنارے نماز پڑھ رہے تھے ان لوگوں نے کچھ دىر انتظار کىاجب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سلام پھىرا اور ان سے یہاں آنے کا مقصد پوچھا تو انہوں نے چرب زبانى کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا:اگر آپ اس حقىرنذرانے کو قبول فرمالىں گے تو ىہ ہمارے لىے بڑى سعادت ہوگى۔حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بڑے شىرىں لہجے مىں فرماىا: مىں تو دنىا کو بہت پىچھے چھوڑ آىا ہوں اور آپ لوگ اسى دنىا کو سجا کر پھر مىرے سامنے لے آئے، مىں جس کى خاطراس وىرانے مىں آپڑا ہوں، وہى مىرى ضرورتوں کا کفىل ہےاگر آپ لوگ ارد گرد نظر دوڑائیں تو بستی میں کئی ضرورت مند ایسے نکل آئیں گے جنہیں ان چیزوں کی حاجت ہوگی لہذا ان کا خىال رکھىں اور میرے پاس سے یہ سب چیزیں لے جائیں۔ىہ کہہ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے دوبارہ نماز کى نىت باندھ لى۔وہ لوگ
کھڑے رہے کہ ایک مرتبہ پھر کوشش کریں گے مگر ان کى ىہ خواہش پورى نہ ہو سکى، حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پہلى ہى رکعت مىں اتنا طوىل قىام کىا کہ وہ لوگ کھڑے کھڑے اُکتا گئے، آخر کار اپنا سا منہ لے کر رَہ گئے اور واپس لوٹ آئے۔ چند دن بعدایک صاحب عمدہ کھانا لے کر حاضر خدمت ہوئے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے قبول فرمالیا یہ دیکھ کر کسی نے عرض کی :حضور! فلاں دن آپ نےعمدہ کھاناقبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور آج قبول کرلیا اس میں کیا حکمت ہے؟ ىکاىک حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گىا اور آپ نے نہاىت پُر جلال لہجے مىں فرماىا : ان لوگوں کى نىتىں درست نہىں تھىں، کىا وہ لوگ مجھے بے خبر سمجھتے ہىں؟ مىں ہر گز بے خبر نہىں ہوں، حضرت شاہ عناىت قادرى کا غلام بھلا کىسے بے خبر رہ سکتا ہے۔([37])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! نیت کی تبدیلی سے اچھا عمل برا اور نیک گمان بدگمانی میں بدل جاتا ہے۔جس کی نیت اچھی اس کا صلہ بھی اچھا، جس کی نیت میں فُتُور اس کا صلہ بھی مردود، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھئے کہ اللہ والوں کا وجود ہر زمانے میں رہا ہے مگر ہر کوئی انہیں آسانی سے تلاش نہیں کرسکتایہی وجہ ہے کہ آج بھی جگہ جگہ ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں جوان اللہ والوں کا بھیس بدل کر عوام الناس کے جذبات اور ان کی عقیدت کے ساتھ کھِلواڑکرتے(یعنی کھیلتے)
ہیں، طرح طرح کی شعبدے بازیاں اور کمالات دکھا کربے چارے سادہ لوح مسلمانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں اس ضمن میں دوپہر کی دھوپ سے زیادہ روشن بس یہی ایک قاعدہ کلیہ حرزِ جاں بنالیجئے کہ شریعت ہی سب کا دارو مدار ہے شریعت ہی کسوٹی اور معیار ہےشریعت کا دامن چھوڑنے والا ولایت کے مرتبہ پر فائز نہیں ہوتا امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدنا بایزید بسطامی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک دوسرے بزرگ سے فرمایا: چلو! اس شخص کو دیکھیں جس نے اپنے آپ کو ولایت کے نام سے مشہور کیا ہے، وہ شخص زہد و تقوی میں مشہور تھا اور لوگ بکثرت اس کے پاس آیا کرتے تھے جب حضرت بایزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ وہاں تشریف لے گئے اتفاقاً اس شخص نے قبلہ کی طرف تھوکا حضرت بایزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فوراً واپس پلٹ آئے اور اس شخص سے سلام بھی نہ کیا اور فرمایا: یہ شخص نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آداب میں سے ایک ادَب پر تو امین ہے نہیں جس چیز کا (یعنی ولایت کا)دعویٰ کرتا ہے اس پر کیا امین ہوگا۔([38])
امام عبد الغنی نابلسی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن اور چمکدار کلام نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے عاقل! اے حق کے طالب ! تجھے حد سے گزرے ہوئے ان جاہلوں کی باتیں دھوکے میں نہ ڈالیں جو
اپنی طرف سے صوفی بنتے ہیں لیکن وہ خود بگڑے ہوئے اور دوسروں کو بگاڑنے والے ہیں خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں وہ شریعت کے راستے سے ٹیڑھے ہو کر جہنم کے راستے پر چلتے ہیں جو شخص علمائے شریعت کی راہ سے باہر ہے وہ طریقت کے بزرگوں کے مسلک سے خارج ہے ایسے لوگ ہمیشہ اپنے وہموں کے بتوں کے سامنے ادب سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ شیطان جو وسوسے ان کے ذہن میں ڈالتا ہے یہ انہیں وسوسوں اور فتنوں میں پڑے ہوئے ہیں اوریہ مکمل بربادی ہے ان کے لئے جوان کا پیر وکارہویا ایسوں کے کاموں کو اچھا جانے اور یہ بربادی اس لئے ہے کہ وہ راہِ خدا کے ڈاکو ہیں۔([39])
پیارے اسلامی بھائیو!اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ!اس دور میں بھی اللہ والوں کی کمی نہیں ہے اگر آپ واقعی کسیاللہوالے کی تلاش میں ہیں تو شریعَت و طریقت کی جامع شخصیت،امیرِاہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد اِلیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے دامن سے لپٹ جائیے فی زمانہ ان کی ذات مقدسہ ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی بہت بڑی نعمت ہے ان کی صحبت سے عمل میں اضافہ اور آخِرت کی تیاری کاذہن بنتا ہے۔ حُقوق اللہاورحُقوق العباد کی بجا آوری کی طرف طبَیْعَت مائل ہوتی ہے۔
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ایک مریدنے اپنے والدین اور گھروالوں کو چھوڑ چھاڑ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے آستانے پر ڈیرہ جما لیا ۔ دن رات آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں مصروف رہتا ، نہ والدین کی خبر گیری کرتا نہ بال بچوں کی فکر ۔ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے فرماىا : تمہارا مجاہدہ اور رىاضت اپنى جگہ مگر معاملاتِ دنىا سے بے نىاز رہنا ہر ایک کے لئے مناسب نہیں، تم بال بچوں والے ہوتمہارے ماں باپ بوڑھے ہوچکے ہیں تم پر ان سب کے حقوق ہىں اگر تم نے ان کے حقوق ادا نہ کئے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے احکامات کے خلاف ہوگانہ دنیا میں سرخرو ئی ملے گی نہ آخرت میں بلکہ ذلت و رسوائی مقدر ہوگی ، جاؤ! اپنے گھربار کى طرف دىکھواور ان کے حقوق ادا کرو۔‘‘آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شہد میں ڈوبے ہوئے کلمات تاثیر کا تیر بن کر اس مرید کے دل میں پیوست ہوگئے اور وہ اپنے گھر واپس لوٹ آیا۔ ([40])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں بچےکی پیدائش سے لےکرمرنےجینے،اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، کام کاج ، بیوی بچوں
بلکہ رشتے داروں اور دوست احباب تک کے روشن احکام بیان فرمائے گئے ہیں،اسلام ہمیں ترکِ دنیا اور رہبانیت اختیار کرنے سے منع کرتے ہوئے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم فرماتا ہے چنانچہ نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اسلام میں ترکِ دنیا نہیں ۔([41])
حضرت سیِّدنا ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ اہلِ یمن میں سے ایک شخص ہجرت کرکے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں حاضر ہوا تو رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دریافت فرمایا: کیا یمن میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہے ؟ اس نے عرض کی : میرے والدین ہیں ،فرمایا:کیا انہوں نے تمہیں اجازت دی ہے؟ عرض کی : نہیں ،ارشاد فرمایا: ان کی طرف لوٹ جاؤ اور ان سے اجازت طلب کرواگر وہ اجازت دیں تو جہاد کرو ورنہ ان کی خدمت میں مشغول ہوجاؤ۔([42])
والدین کی خدمت اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے والوں کو نور برساتی حدیثِ مبارکہ میں عمر اور رزق میں کشادگی کی بشارت عطاگئی ہے چنانچہ حضورِ اکرم نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان نور بار ہے :جسے یہ پسند ہو کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ کردیا جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں کےساتھ صِلہ رحمی کیا کرے۔([43])
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاپنے پیرو مرشد حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیسے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے اوربارگاہ ِمرشد کی حاضری کو ترسا کرتے تھے۔جب جب تصور کی بالکنی سے جھانکتےتو تصور ِ مرشد میں کھو جاتے اور زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوجاتے کہ مىرے لىے تو بس ىہى اىک اعزاز کافى ہے کہ جب پیرو مرشد کى نورانى مجلس آراستہ ہو، ہزاروں مرید دست بستہ بىٹھے ہوں اورمىں سرجھکائے اس بارگاہِ کرم مىں حاضری دوں تو مرشدِ عالى مقام یہ فرمارہے ہوں : دیکھو !مىرا مرىدسىد عبداللہ آرہا ہے ، ىہ کہتے کہتے حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کى آنکھوںمىں آنسو آجاتے ۔([44])
کروں بند آنکھیں تصور میں آئیں میرے پیرو مرشد سَدا یا الٰہی
بڑھے بے قراری میں مرشد پہ واری یوں ہوجاؤں ان پہ فِدا یا الٰہی
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کواپنے پیرو مرشد سے دور رہتے ہوئے چھ سال کا عرصہ ہوچکا تھالیکن پھر بھی مرشد کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سخت
مجاہدوں اور ریاضتوں میں مشغول رہے جب پیرومرشد حضرت شاہ عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے ملاحظہ فرمایا کہ اب مرید صادق کو خلوت نشینی کی ضروت نہیں تو حکم فرمایا کہ مرکز الاولیاء لاہور واپس آجائیں ،جب حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمرشد ِکریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو عجب حالت تھی کہ دل بے قابو ہوچکا تھا اورآنکھوں سے اَشکوں کا سیلاب جاری تھا چنانچہ مرشدِ کریم پر نگاہ پڑتے ہی بے تابانہ قدموں سے لپٹ گئے یہاں تک کہ ہوش ہی جاتا رہا ۔بس زبان پر یہی کلمات جاری تھے کہ یا مرشد! آپ نے مجھے اپنے سے دور کیوں کیا؟اور مرشدِکریم اپنے مریدِ صادق کے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے اورتالیفِ قلب کے لئے فرماتے جاتے کہ ان مىں سے بہت سے قرىب رَہ کر بھى دور ہىں، اور تم دور رَہ کر بھى بہت زىادہ قرىب ہو۔([45])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مرید اپنے پیرومرشد کی قُربت اور صحبت میں رہے تو اسے عام طور پر خوش نصیبی اور سعادت مندی سمجھا جاتا ہےمگر یاد رکھئے کہ اصل سعادت مندی یہ ہےکہ اسے مرشدِ کریم کا فیض حاصل ہوجائے چاہے وہ پیرو مرشد سے قریب ہو یا دور، حضرت شاہ عناىت قادرى عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے فرمان کا مفہوم یہی ہے کہ مرید کا پیرو مرشد سے قریب رہنا یا دور رہنا کوئی معنی نہیں رکھتا اىک مرىد اپنے مرشد کى خدمت مىں سارى زندگى گزار دىتا ہے مگر اسے
معرفت کا انتہائى انعام ملنا تو دور کی بات، ابتدائى صلہ بھى حاصل نہىں ہوتا کىونکہ اس کى خدمت گزارى مىں وہ خلوصِ عشق اور دىانت دارى شامل نہىں ہوتی جو کار گزارى کو بہتر بناکر مرشدکا منظورِ نظر بنادے ، اسى لىے وہ قرىب رَہ کر بھى دور ہى رہتا ہے جبکہ بعض مرید دور رَہ کر مرشد کے ہر فرمان پر لبیک کہتے ہیں اور عمل کرتے ہیں یوں مرشد کی رضا حاصل کرکے اللہ و رسول کی بارگاہ میں سرخروئی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
کوئی آیا پا کے چلا گیا کوئی عُمربھربھی نہ پا سکا
مِرے مولیٰ تجھ سے گِلہ نہیں یہ تو اپنا اپنا نصیب ہے
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے مبارک کلمات ان اسلامی بھائیوں کےجذبۂ شوق پر تسکین کا مرہم رکھنے کے لئے کافی ہیں جو امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہسے بظاہر دور رہتے ہوئے اپنے علاقوں میں یامدنی قافلوں میں سفر کرتے ہوئے دور دراز مقامات پر تن من دھن سے دعوتِ اسلامی کا مدنی کام کرنےمیں مصروف ہیں اگر ہم بھی اپنے مرشِد کامل کا فیض پانا چاہتے ہیں اور ان کا دل خوش کرنا چاہتے ہیں تو اپنی خواہشات کوان کی خواہش پر قربان کرنا ہوگا اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ہر اسلامی بھائی کے لئے خصوصی طور پر دو مدنی کام عطا فرمائے ہیں۔
(۱) مدنی انعامات (۲) مدنی قافلہ
ان دونوں مدنی کاموں پر عمل پیرا ہونے والوں سے آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ بہت خوش ہوتے ہیں چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں :جب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں اسلامی بھائی یا اسلامی بہن کا ”مدنی انعامات “پرعمل ہے تو دل باغ باغ بلکہ باغِ مدینہ ہوجاتا ہے۔
خوش نصیبوں کو اپنی پسندیدگی کی سند عطا کرتےہوئے فرماتے ہیں: میراپسندیدہ اسلامی بھائی وہ ہے جولاکھ سستی ہو مگر تین دن مدنی قافلے میں سفر کرتاہو ،جو داڑھی اور زلفوں سے آراستہ اور سنت کے مطابق مدنی لباس وعمامہ شریف سے مزیّن ہو ۔ مجھے کماؤ بیٹے پسند ہیں (یعنی جومدنی قافلے میں سفر اور مدنی انعامات پر عمل کرتے ہوں )
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں مَدَنی انعامات پر عمل کرنے، مَدَنی قافلوں میں سفر کرنے اور ذیلی حلقے کے بارہ مدنی کام کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
تقریباًایک سال بعدحضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیرو مرشد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئےمرکزالاولیاءلاہورسےوالدین کے پاس”پانڈوکے“ تشریف لے آئے والد ماجد حضرت سىد سخى شاہ محمد گیلانی رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا چھوٹا سا مدرسہ اب علمی و روحانی مرکز کی صورت اختیار کر چکا تھاجس میں گاؤں کے ”چودھری پانڈو“نے ہر طرح کا تعاون کیا تھا جونہی ”چودھری پانڈو “کا انتقال ہوا اس کی اولاد نے
مدرسہ کی مالی مُعاونَت ترک کردی اورسخت گیر رویہ اپناتے ہوئے ذاتی ملازم سمجھنا شروع کردیا مگر والد ماجد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہمت نہ ہاری اور مدرسہ کا نظام بخوبی چلاتے رہے کچھ عرصہ بعد والد ماجد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا انتقال ہوا اور پھر یکے بعد دیگرے والدہ ماجدہ اور دو چھوٹی ہمشیراؤں نے عالَم جاوِدانی کا سفر اختیار کیا رشتہ داروں میں اب بڑی ہمشیرہ حیات تھیں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کچھ عرصہ قبل ہنستا بستا گھرانہ ماتم کَدہ بن گیا، اداسی کے بادلوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پرگہرا سایہ کردیا پیرو مرشد حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تعزیت کے لئے تشریف لائے تودل کو ڈھارس ہوئی اور عرض گزار ہوئے :یا مرشدی !اب یہاں دل نہیں لگتا اپنے ساتھ مجھے مرکز الاولیاء لاہور لے چلئے ،پیرو مرشد نے شفقت بھرے لہجے میں فرمایا:ابھی یہیں رہو ، یہاں تمہاری ضرورت زیادہ ہے ۔([46])
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! امیر ِ اہلسنتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ”شیطان کے بعض ہتھیار “کے صفحہ 6 پر تعزیت کی فضیلت اور تعریف بیان کرتے ہوئے محبوب ِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ دلنشین نقل فرماتے ہیں : جو کسى غمزدہ شخص سے تعزىت کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے تقوىٰ کا لباس پہنائے گا اور روحوں کے درمىان اس کى روح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسى مصىبت زدہ سے تعزىت کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسے جنت کے جوڑوں مىں سے دو اىسے جوڑے پہنائے گا
جن کى قىمت (ساری) دنىا بھى نہىں ہوسکتى۔([47])
تعزىت کا معنى ہے، مصىبت زدہ آدمى کو صبر کى تلقىن کرنا۔ تعزىت مسنون (ىعنى سنّت ) ہے۔([48])
امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مزید ارشاد فرماتے ہیں :بسا اوقات غمخوارى اور تعزىت کے دنىا مىں بھى ثمرات دىکھے جاتے ہىں، چنانچہ ان دنوں کى بات ہے جن دنوں نور مسجد کاغذى بازارباب المدىنہ کر اچى مىں مىرى امامت تھى، اىک اسلامى بھائى پہلے مىرے قرىب تھے پھر کچھ دور دور رہنے لگے مگر مجھے اندازہ نہ تھا، اىک دن فجر کے بعد مجھے ان کے والد صاحب کى وفات کى خبر ملى مىں فورا ًان کے گھر پہنچا، ابھى غسلِ مىت بھى نہ ہوا تھا، دعا فاتحہ کى اور لوٹ آىا، نمازِ جنازہ مىں شرىک ہو کر قبرستان ساتھ گىا اور تدفىن مىں بھى پىش پىش رہا، اس کے فوائد تصور سے بھى بڑھ کر ہوئے چنانچہ اس اسلامى بھائى نے خود ہى انکشاف کىا کہ مجھے آپ کے بارے مىں کسى نے وَرغَلاىا تھا اس کى باتوں مىں آکر مىں آپ سے دور ہوگىا اور اتنا دور کہ
آپ کو آتا دىکھ کر چھپ جاتا تھا لىکن مىرے پىارے والد صاحب کى وفات پر آپ کے ہمدردانہ انداز نے مىرا دل بدل دىا، جس آدمى نے مجھے آپ سے بددِل کىا تھا وہ مىرے والد ِ مرحوم کے جنازے تک مىں نہىں آىا، اس واقعے کو تادمِ تحرىر کوئى 35 سال کا عرصہ گزر چکا ہوگا وہ اسلامى بھائى آج بھى بہت محبت کرتے ہىں، نہاىت بااثر ہىں تنظىمى طور پر کام بھى کرتے ہىں، داڑھی سجائى ہوئى ہے، خود مىرے پىر بھائى ہىں، مگر ان کے بال بچے نىز دىگر بھائى اور خاندان کے مزىد افراد عطارى ہىں، چھوٹے بھائى کا مدنى حلىہ ہے اور دعوتِ اسلامى کے ذمے دار ہىں بڑے بھائى بھى باعمامہ تھے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
مشہور مغل بادشاہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا انتقال ہوا تو پنجاب میں ایک غیر مسلم قوم نے آزادی اور خود مختاری کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوں پر حملے شروع کردئیے اتفاقاً اسی قوم کا ایک فرد ”پانڈوکے“ کے قریب سے گزرا تو گاؤں والوں نے اسے پکڑ لیا اور خوب مارا حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بیچ بچاؤ کرواکر اس کی جان چھڑوائی ،گاؤں کے چودھریوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو سخت برہم ہوئے او ر چندغنڈوں اور اوباشوں کو لے کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی رہائش گاہ پر حملہ کرکے اسے سخت نقصان پہنچایااور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو شدید زخمی کردیا چنانچہ
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی بڑی ہمشیرہ کو لے کر وہاں سے نکل آئے۔([49])
پھر گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے چودھریوں کو سمجھایا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ایک ولی کو تم نے ستایا ہے کہیں تم پر کوئی بڑی مصیبت نہ آن پڑے چنانچہ وہ سب حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو منانے آئے مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےجانے سے انکار کردیا جسے انہوں نے اپنی بے عزتی سمجھا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا یہ دیکھ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو جلال آگیا اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے:اُجڑ گیا پانڈوکے نگھر گیا سدھار، جب انہوں نے یہ کلمات سنے تو ناکام و نامراد لوٹ گئے ۔اس بدتمیزی اور گستاخی کی سزا انہیں یوں ملی کہ جب وہ غیر مسلم اپنی قوم کے پاس پہنچا اورانہیں پوری صورت حال سے آگاہ کیاتو وہ قَہر ِخداوندی بن کر ”پانڈوکے“ پر حملہ آورہوئے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی نیز چودھریوں کو قتل کرکےان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا ۔([50])
میٹھے میٹھےاسلامی بھائیو!اللہ عَزَّ وَجَلَّ اگرچہ عیبوں کو چھپانے والا گناہوں کو بخشنے والا،رحیم و کریم ہے لیکن اگرکوئی بدنصیب اس کے محبوب بندوں کی
شان میں کوئی گستاخی وبے ادبی کرتاہے تو خداوندِ قُدُّوس کی قہاری وجباری اس مردود کو ہرگز ہرگز معاف نہیں فرماتی بلکہ ضرور بالضروردنیا وآخرت کے بڑے بڑے عذابوں میں گرفتار کردیتی ہے اوروہ دونوں جہاں میں قہر ِقہار وغضب ِجبار کا اس طرح سزاوار ہوجاتاہے کہ دنیا میں لعنتوں کی باراورپھٹکاراورآخرت میں عذاب نار کے سوا اس کو کچھ نہیں ملتا۔ صرف دو گناہوں پر بندے کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے اعلانِ جنگ دیاگیا ہے ایک سود خور دوسرے دشمن ِاولیا کو ،چنانچہ حضرت سیِّدنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ ذیشان ہے:مَنۡ أَهَانَ لِيۡ وَلِيًّا فَقَدۡ بَارَزَنِيۡ بِالۡمُحَارَبَة جس نے میرے کسی ولی کی توہین کی بے شک اس نے میرے ساتھ جنگ کا اعلان کیا۔([51])
حضرت ابو قلابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میں ملکِ شام کی سرزمین میں تھا تو میں نے ایک شخص کو بار بار یہ صدا لگاتے ہوئے سنا کہ ’’ہائے افسوس! میرے لئے جہنم ہے ۔‘‘میں اٹھ کر اس کے پاس گیاتو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس شخص کے دونوں ہاتھ اورپاؤں کٹے ہوئے ہیں اور وہ دونوں آنکھوں سے اندھا ہے
اوراپنے چہرے کے بل زمین پر اوندھا پڑا ہو اباربار لگاتاریہی کہہ رہا ہے کہ ’’ہائے افسوس ! میرے لئے جہنم ہے۔‘‘یہ منظر دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اورمیں نے اس سے پوچھا کہ اے شخص ! تیرا کیا حال ہے ؟ اورکیوں اورکس بِنا پر تجھے اپنے جہنمی ہونے کا یقین ہے؟ یہ سن کر اس نے یہ کہا: اے شخص! میرا حال نہ پوچھ، میں ان بدنصیب لوگوں میں سے ہوں جو امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو شہید کرنے کے لئے ان کے مکان میں گھس گئے تھے ۔ میں جب تلوار لے کر ان کے قریب پہنچا تو ان کی زوجہ محترمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے مجھے ڈانٹ کر شور مچانا شروع کردیا جس کی وجہ سے میں نے انہیں ایک تھپڑ ماردیا یہ دیکھ کر امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ دعا مانگی کہ ”اللہ تعالیٰ تیرے دونوں ہاتھوں اوردونوں پاؤں کو کاٹ ڈالے اورتیری دونوں آنکھوں کو اندھی کردے اور تجھ کو جہنم میں جھونک دے“۔ اے شخص!میں امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پُر جلال چہرے کو دیکھ کر اوران کی اس قاہرانہ دعا کو سن کر کانپ اٹھا اور میرے بدن کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوگیا اور میں خوف ودہشت سے کانپتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلا۔ امیرالمؤمنین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی چاردعاؤں میں سے تین دعاؤں کی زَد میں تو آچکا ہوں، تم دیکھ رہے ہوکہ میرے دونوں ہاتھ اوردونوں پاؤں کٹ چکے جبکہ دونوں آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں اب صرف چوتھی دعا یعنی میرا جہنم میں داخل ہونا باقی رہ گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ بھی یقیناًہوکر
رہے گا چنانچہ اب میں اسی کا انتظار کررہا ہوں اور اپنے جرم کو بار بار یاد کر کے نادم وشرمسار ہورہاہوں اوراپنے جہنمی ہونے کا اقرارکرتا ہوں۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر مسلمان کو اپنے محبوب اور پیارے بندوں کی بے ادبی وگستاخی کی لعنت سے محفوظ رکھے اور اپنے محبوبوں کی تعظیم وتوقیر اوران کے ادب واحترام کی توفیق بخشے۔([52])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
’’پانڈو کے‘‘ سے رخصت ہونے کے بعد حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے پیرو مرشد حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے پاس مرکز الاولیاء لاہور تشریف لے آئےپھرکچھ عرصہ بعدآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو ” قصور “ شہر جانے کا حکم ہوا چونکہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا دور ِ طالب علمی وہاں گزارا تھا اس لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہوہاں کےحالات سے بخوبی واقف تھےچنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے :شہر قصور مىں نیک کام کرنے والے اور سخاوت سے کام لینےوالے نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہاں ملکی قانون بھی نافذ نہیں مگر پھر بھى مجھے قصور جانا ہے کىونکہ مىرے مرشد کا ىہى حکم ہے ۔([53])
اس سفر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے ہمراہ بڑی ہمشیرہ اور دو خاص مرید حضرت سلطان احمد مستانہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور حضرت حافظ جمال رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی تھے۔قصور آکرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سب سے پہلے اپنے استادِ گرامی حضرت علامہ خواجہ حافظ غلام مرتضیٰ صدیقی قصوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں حاضری دی اور دعائیں لیں پھر شہرکی گنجان آبادی میں ٹھہرنے کے بجائے کچھ دور ایک تالاب کے کنارے رہنا پسند فرمایا۔ابتدا میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اہل ِ قصور کی جانب سے پَس و پیش اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر جب ان پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیغامِ توحیدو رسالت کو عشق ومحبت کے روپ میں ڈھال کر بھولی بھٹکی مخلوقِ خدا کو درِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا غلام بنانااورانہیں عشق ِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جام پلانا چاہتے ہیں تو ان کی تمام مخالفت محبت اور الفت میں بدل گئی رفتہ رفتہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی بزرگی اورولایت کے چرچے عام ہوگئے شہرت اور مقبولیت کا یہ عالَم ہوگیا کہ لوگ دور دور سے آکرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے گرد پروانہ وار جمع ہونے لگے جو حاجت مند درِ اقدس پر پہنچ جاتا دامنِ مراد بھر کر لے جاتا، برسوں کا بیمار آتا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دم کئے اىک گھونٹ پانى سے شِفاىاب ہوجاتا ، دکھ درد اور تکلیف کا مارا آتا تو سکھ چین لے کر لوٹتا، پریشان حال آتا تو خوش باش ہوکرجاتا، اور جو شرىف زادىاں اپنى غربت کى وجہ سے ماں باپ کے کاندھوں کا بوجھ بنى ہوئى تھىں وہ حضرت بابا
بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کى دعاؤں سے رشتہ اِزدِواج مىں منسلک ہونے لگیں ، مقامى و غىر مقامى لوگوں کی قطاریں لگ جاتیں لوگوں کی آمدورفت کے پیش نظر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےلنگر کا سلسلہ جاری کردیا چنانچہ بھوک اور بے روزگارى کے ستائے ہوئے لوگوں کو بھی پىٹ بھر روٹى ملنے لگى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہلوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تربیت بھی فرماتےجاتے ۔([54])
پیارے اسلامی بھائیو! مسلمان کی مدد اور اس کی حاجت پوری کرنے کے فضائل کتبِ احادیث کے ذخیرے میں جگہ جگہ چمکتے دمکتےموتیوں کی طرح آنکھوں کو خیرہ کررہے ہیں ایمان کو تازگی بخشنے کے لئے تین فرامین مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ملاحظہ کیجئے :
حضرت سیِّدنا عبد اللہابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھُمَا سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی ایک مخلوق ایسی ہے جسے اللہ عَزَّ وَجَلَّنے لوگوں کی حاجات پوری کرنے کیلئے پیدا فرمایا ہے۔ لوگ حاجت کے وقت ان کی طرف رجوع کرتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو کل قیامت کے دن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے عذاب سے محفوظ ہوں گے۔([55])
حضر ت سیِّدنا سہل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سَرورِ عالَم،نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس خیر وشر کے خزانے ہیں اوران خزانوں کی چابیاں انسان ہیں ، اُس شخص کیلئے خوشخبری ہے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خیر کی چابی اورشر کیلئے تالا بنایا اورہلاکت ہے اُس شخص کےلئے جسے شر کی چابی اورخیر کے لئے تالا بنایا۔([56])
حضرت سیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حبیب ، بیمار دلوں کے طبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی مسلمان کی دنیاوی مصیبت کو دور کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت میں اس کی مصیبت کو دور فرماۓگا ، جو مسلمان کے عیب چھپائے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے دنیا وآخر ت کے عیوب چھپائے گا ، اللہ عَزَّوَجَلَّبندے کی مدد کرتارہتاہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتاہے۔([57])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے استادِ محترم مولانا حافظ غلام مرتضیٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور ان کی خدمت کو عین سعادت سمجھتے تھے،ایک بار استادِمحترم کی صاحب زادی کا نکاح ہوا تو استادِ محترم نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو مہمانوں کی خدمت پر مامور کیاایک شاگرد کی حیثیت سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جملہ انتظامات میں نہایت اخلاص اور تن دہی سے حصہ لیا اتفاق سے اسی دن پیر و مرشد حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کےبھتیجے اور خاص الخا ص مرید حضرت مولانا ظہور محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف لائے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ان سے مختصر ملاقات کی اور ایک خادم کی ذمہ داری لگائی کہ حضرت کی خدمت اور خیر خواہی میں کسی قسم کی کمی نہیں آنی چاہیے اور مہمانوں سے فارغ ہوکر خود حاضر ہونے کا کہہ کر رخصت ہوگئے،جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمہمانوں اور دیگر انتظامی معاملات سے فارغ ہوئے تو رات کافی بیت چکی تھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس خیال سے حضرت مولانا ظہور محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس نہ گئے کہ وہ آرام فرمارہے ہوں گے اور میری وجہ سے کہیں ان کی نیند میں خلل نہ آجائے لیکن دوسری طرف حضرت مولانا ظہور محمد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بے تابی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا انتظارکرتے رہے یہاں تک کہ پوری رات گزر گئی پھر صبح تڑکے ہی مرکز الاولیاء لاہور روانہ ہوگئے اور پیرو مرشد کی بارگاہ میں پورا ماجرا کہہ سنایا، حضرت بابا بلھے شاہ
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اندازِ بے رُخی اور اپنے خاصُ الخاص مرید کی بے قدری کا سن کر حضرت علامہ شاہ محمد عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے چہرہ مبارکہ پر ناراضی کےآثار نمودار ہوئے اور فرمایا: ہم نے آج سے بلھے شاہ کی کیاریوں سے اپنا پانی روک لیاہے، بس اتنا کہنےکی دیر تھی کہ حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکےلئے قیامت برپا ہوگئی جونہی مرشد کریم نے اپنی نظر ِکرم پھیری آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے دل پر چھریاں چل گئی،سر پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، دم بھر میں کیا سے کیا ہوگیا ، ہوش رہا نہ جوش،بہار خزاں میں بدل گئی، اجالا اندھیرے میں اور خوشی غم میں تبدیل ہو گئی۔ حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آستانے کا انتظام مرید خاص حضرت سلطان احمد مستانہ کے سپرد فرمایا اور مرکز الاولیاء لاہور تشریف لے آئے بارگاہِ مرشد میں حاضری چاہی مگریہ کیا !آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو آنے سے روک دیا گیا کوئی شُنوائی نہ ہوئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی جان پر بَن آئی،جدائی اور پشیمانی کی حالت نے تڑپا کر رکھ دیا ،چین لُٹ گیا اور قرار مِٹ گیا،مگرپیرو مرشد نے مرید صادق کوابھی آزمانا تھا آزمائش کی بھٹی میں تپا کر کندن بنانا مقصود تھا جبکہ مرید صادق کی بس یہی چاہت تھی کہ کسی طرح مرشد راضی ہوجائیں میری غلطی کو معاف کردیں اسی حالت میں دروازے پر کھڑے رہتے، دیارِمرشد کی خاک چھانتے رہتے نہ دن کا خیال رہا نہ رات کا، آنے والا ہر لمحہ جدائی کے زخم کو مزید گہرا کرتا جاتا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ایک مرید کے لئے لازم و ضروری ہےکہ ہر
وقت اور ہر حال میں اپنے پیرو مرشد کی رضاکا طلب گار رہےاور ہر اس بات یا عمل سے بچنے کی کوشش کرتا رہے جس سے ان کی ذات کو رنج و غم یا تکلیف پہنچتی ہواور اگر خدا نخواستہ کوئی ایسی بات یا عمل سر زَد ہوجائےجو پیرو مرشدکی ناراضی کا سبب بنےیا وہ کسی کام پر خفگی یا عِتاب کا اظہار کریں یا کسی بات پر دھتکاردیں تو مرید کو چاہیے کہ ان سے ہرگز جدا مت ہو، ان کو راضی کرنے کی کوشش میں لگارہےاور یہی آس لگا کر رکھے کہ ایک نہ ایک دن پیرو مرشد ضرور نظر ِکرم فرمائیں گےاور مجھ سے راضی ہوجائیں گے اس کے ساتھ ساتھ صبر کو لازم پکڑتے ہوئے اپنا مدنی ذہن بنائے کہ بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کسی ایک مسلمان کو ایک سانس برابر بھی ناپسند نہیں سمجھتے اورخفگی یا عِتاب کا اظہاردراصل مریدوں کی تعلیم کی غَرَض سے ہوتا ہےجس سے مرید اَنجان و بے خبر ہوتے ہیں نیز یوں بھی مدنی ذہن بنائے کہ بعض اوقات اس خفگی یا عِتاب سے مرید کا امتحان لینا مقصود ہوتا ہے اورجو اس میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ ہی فیضِ باطِنی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے چنانچہ عارِف باللہ امام عبدالوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خزینۂ مَعرفت کا بیش بہااور تراشا ہوا ہیرا عطا کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مرید پر لازم اور واجب ہے کہ جب مرشِد اس سے ناراض ہوجائیں تو فوراً ہی اس کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ جائے اگرچہ اسے اپنی خطا کا پتا نہ چلے۔ جس مرید نے اپنے مرشِد کو راضی کرنے کی طرف جلد بازی نہ کی تو یہ اس مرید کی ناکامی کی دلیل و علامت ہے۔مزید فرماتے
ہیں کہ میرے بیٹے عبدالرحمن نے پانچ برس کی عمر میں مجھ سے کہا: اباجان!سچا مرید وہ ہے کہ جب مرشِد اس پرناراض ہوجائے تو اس کی روح نکلنے کے قریب آجائے اور وہ نہ کھائے نہ پئے نہ ہنسےاور نہ سوئے، یہاں تک کہ (وہ اس قدر غمگین و فکر مند ہو کہ ) اس کے پیرو مرشِد اس سے راضی ہوجائیں ۔([58])
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منہ تکوں
کیا پُرسِش اور جا بھی سگِ بے ہُنر کی ہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہیہ بات جانتے تھے کہ دادا پیروارثِ فیضانِ محمدی حضرت علامہ سیِّد محمد رضا شاہ قادری شطاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے عرس مبارک کا زمانہ قریب ہے اور پیرو مرشد کی عرس پر ضرور حاضری ہوتی ہےچنانچہ جب عرس مبارک شروع ہوا اور حضرت شاہ عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تشریف لائے تو حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر راہ میں کھڑے ہو گئے اورجھوم جھوم کر دیوانہ وار نہایت پرسوز آواز میں اشعار پڑھنے لگے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی آواز میں بَلا کا درد تھا اشعار میں کلیجے کو چھلنی کردینےوالی
پکار تھی جب مرشد کریم حضرت شاہ عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کے مبارک کانوں میں سوزوگداز میں ڈوبی ہوئی آواز پہنچی اور حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اس درد ناک حالت میں دیکھا تو دل پسیج گیامرید صادق کو پہچان تو گئے تھے لہذا دل جوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:تم بلھے شاہ ہو؟مرید صادق حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بس یہی آرزو تھی کہ کسی طرح مرشدِ کریم میری جانب توجہ فرمالیں چنانچہ بے اختیار پیرومرشد کے قدموں میں آگرے اور عرض کرنے لگے :یا مرشدی ! میں بُلھا نئیں ،بھُلا آں یعنی ’’میں بُھولاہواہوں‘‘مرشد کریم نے مرید صادق کو دونوں ہاتھوں سے اٹھایا اور کمالِ عنایت و شفقت سے اپنےسینے سے لگالیاپھر تو رحمت کا بند چشمہ دوبارہ پھوٹ نکلا، سوکھی کیاری کو پھر سے پانی مل گیا،حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زندگی گلِ گلزار ہوگئی ،لطف وسرور کے رنگ برنگے پھولوں سے مہک اٹھی اب مرید کامل فنا فی الشیخ کے مرتبے پر فائز ہوچکا تھا ۔([59])
بس تیری یاد ہو دل میرا شاد ہو مجھ کو مئے وہ پلا میرے مرشد پیا
ایسا غم دے مجھے ہوش ہی نہ رہے مست اپنا بنا میرے مرشد پیا
پیارے اسلامی بھائیو!مشہور ہے کہ حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے پیرومرشد کو راضی کرتے وقت زنانہ لباس پہنا اورپاؤں میں گھنگرو
باندھےتھے جان لیجئے کہ کوئی بھی ولی چاہے وہ کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز ہو،احکامِ شرعیہّ کی پابندی سے آزاد نہیں ہوسکتا ، حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ باشرع عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت متقی، پرہیز گار اور سخت مجاہدہ کرنے والے تھے لہذا آپ جیسے باعمل عالم دین سے غیر شرعی امور کا صدور نہیں ہوسکتا اور اگر بالفرض زنانہ لباس پہننے اورگھنگرو باندھنے والی بات کا سچ ہونا تسلیم بھی کرلیا جائے تو حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی حالت کو بے خودی پر محمول کیا جائے گا کہ جس میں انسان کو خود پر اختیار نہیں رَہ پاتااور نہ اس پر شریعت گرفت فرماتی ہے، پیرو مرشد کی ناراضی کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پرغم کی حالت اس قدر طاری ہوچکی تھی کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس وقت بے خودی اور جذب کے عالم میں تھےتوان معاملات کا صدور ہوا جو کہ دلیل نہیں بنائے جا سکتے ۔مشہور مقولہ ہےکہ اچھوں کی نقل بھی اچھی ہوتی ہے، یہ بات اگرچہ درست اور لائقِ تحسین ہے مگر اس نقل اور پیروی کرنے میں لاز م و ضروری ہے کہ کوئی بات خلاف شریعت نہ ہو اور نہ ہی کسی قسم کے گناہ کی آمیزش پائی جائے جونہی اس میں اللہو رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نافرمانی شامل ہوگی قابلِ مردود ہے لہذاکسی بھی مرد کا زنانہ لباس پہننا گھنگرو باندھنا ناجائز وحرام ہےکہ حدیث پاک میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں کو ملعون قرار دیا ہے چنانچہ امام ابو داود نے ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان عورتوں پر لعنت کی جو
مردوں سے تشبہ کریں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے تشبہ کریں۔([60])جبکہ ایک حدیثِ پاک میں توفقط زنانہ لباس پہننے والے مرد پر لعنت فرمائی ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس مرد پر لعنت کی، جو عورت کا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر لعنت کی، جو مردانہ لباس پہنتی ہے۔([61])
امامِ اہلسنّت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے سنہرے حروف سے لکھنے والے کلمات ملاحظہ کیجئے چنانچہ فرماتے ہیں : وَجد کہ حقیقۃً دل بے اختیار ہوجائے اس پر تو مطالبہ کے کوئی معنی نہیں، دوسرے تَواجُد یعنی بَاختیارِخودوجد کی سی حالت بنانا، یہ اگرلوگوں کے دکھاوے کوہوتوحرام ہے اور ریا اور شرک خفی ہے، اور اگرلوگوں کی طرف نظراصلاً نہ ہوبلکہ اَہلُ اﷲ سے تشبہ اور بہ تکلف ان کی حالت بنانا کہ امام حجۃ الاسلام وغیرہ اکابر نے فرمایاہے کہ اچھی نیت سے حالت بناتے بناتے حقیقت مل جاتی ہے اور تکلیف دفع ہوکر تَواجُد سے وجد ہوجاتاہے تو یہ ضرور محمود(پسندیدہ )ہے مگراس کے لئے خلوت (تنہائی) مناسب ہے مجمع میں ہونا اور ریاسے بچنابہت دشوارہے۔([62])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
جب حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ محبتِ شیخ میں درجہ کمال کو پہنچ کرفنا فِی المُرشِد کے مقام پر فائز ہوگئے تو پیرو مرشدحضرت شاہ عنایت قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نےآپ کو بارگاہِ رسالت میں پیش کرنےسے پہلے فرمایا:جب تک کسی کی آنکھیں نورِ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے منور نہ ہوں تو نورِ الٰہی کے جلوے نہیں دیکھ سکتا ،جس طرح نورِ مرشدکے بغیر نورِ نبی کا دیکھنا ممکن نہیں اسی طرح نورِ نبی کےبغیر نورِ الٰہی دیکھنے کے لئے نورِ نبی کی عینک ضروری ہے،نبی کی معرفت کے بغیر معرفتِ الٰہی حاصل نہیں ہوسکتی ،مالکِ حقیقی تک رسائی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ رسولِ خدا محمدِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ مقدسہ ہے کوئی بھی سالک راہِ سلوک کی منزل نہیں پاسکتا جب تک اس دَر کا بھکاری نہ بن جائے ۔ اس کے بعد پیرو مرشد نے حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے کان میں کچھ خاص کلمات ارشاد فرمائے جس سے حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے سینے میں عشقِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آگ بھڑک اٹھی، رواں رواں دریائے محبتِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں ڈوب گیا پھر پیرومرشد نے لباس و بدن کو معطر رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے درود و سلام کی کثرت کا وظیفہ عطا فرمایاکہ یہی عشاق کا محبوب وظیفہ ہے ۔([63])
پیارے اسلامی بھائیو! امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہراہِ طریقت
کےجگمگاتے اور روشن اصول کو واضح الفاظ میں بیان فرماتے ہیں : اللہ کی طرف وسیلہ رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہیں اور رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف وسیلہ مشائخِ کرام، سلسلہ بہ سلسلہ جس طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ تک بے وسیلہ رسائی محالِ قطعی ہے یونہی رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک رسائی بے وسیلہ دشوار عادی ہے۔([64])
اعلیٰحضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے جدِّ مرشِد حضرت سیِّد شاہ آلِ اَحمد اچھے میاں رَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ” آداب ِسالکین“ میں ارشاد فرماتے ہیں! فنا کے تین درجے ہیں:
(۱) فَنافِی الشَّیخ(۲)فَنافِی الرَّسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم(۳) فَنافِی اللہ عَزَّ وَجَلَّ
آپرَحْمَۃُ اللہ ِتَعَالٰی عَلَیْہحضرت مولانا عبدالرحمٰن جامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ”نَفْحاتُ الانَس“ کے حوالے سے ذکْر کرتے ہیں کہ عام ولایت تو تمام ایمان والوں کو حاصل ہے مگر خاص ولایت ، (اَہلِ طریقت) میں ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے۔ جو فَنافِی الشَّیخ کے ذریعے فَنافِی الرَّسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہو کر فَنافِی اللہ ہوگئے۔([65])
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے پیرومرشد کے فرمان پر دُرُود وسلام
کو دل وجان سے وردِ زبان بنالیا۔ صلوٰ ۃ و سلام کا وظیفہ شب وروز جاری رہتا، روز بروز عشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں اضافہ و ترقی ہوتی رہی یہاں تک کہ ذکرِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بغیر دل کی بےچینی حد سے بڑھ جاتی جس کا اظہار آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنی شاعری میں بھی فرمایا ہے۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہر گھڑی ہر لمحہ پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جلوؤ ں میں گم رہنے لگے، عالم رؤیا (عالم خواب ) ہو یا عالمِ بیداری ہمہ وقت جلوۂِ محبوب سے سرشار رہتےاسی مقام و منزل کو اہلِ سلوک فنا فی الرسول کانام دیتے ہیں ۔([66])
ایسا گما دے ان کی وِلا میں خدا ہمیں ڈھونڈا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! معرفتِ الٰہی اور عرفانِ خداوندی کی منزل ایک اتھاہ (بہت ہی گہرا) سمندر اور بحرِ بے کنار ہے جس کی نہ ابتداہے اور نہ ہی انتہا، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نے اس بحرِ عمیق میں اپنے آپ کو ایسا کھویا اور اس انداز سے گم کیا کہ اپنے وجود اور ہستی کا احساس ہی نہ رہا چنانچہ
جب حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول کی کٹھن
اور دشوار گزار منزلوں کو طے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یاوری اور رہنمائی فرمائی گئی کہ حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دل کی آنکھیں منور ہوگئیں اور ذاتِ حقیقی سے ہمیشہ کے لئے نہ ٹوٹنے والا ربط وتعلق پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عشقِ الٰہی میں مستغرق رہنے لگے۔ آپ کے اشعار میں محبتِ الٰہی کا رنگ عیاں ہے۔ ([67])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ شکل و صورت کے اعتبار سے خوبرو اور خوش شکل تھے،سنّت کے مطابق سر ِاقدس پر زلفیں ہوا کرتی تھیں ، آنکھىں گول اور موٹى تھىں جو دیکھنے والوں کو بَھلی معلوم ہوتی جبکہ چہرے کے نقوش تىکھے (خوب صورت) تھے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شرىعت کے مطابق ایک مٹھی داڑھی سجا رکھی تھی جو بہت گھنی تھی جس کى بدولت چہرہ پر اىک رعب و دبدبہ نظر آتا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ڈھیلا ڈھالا کرتہ پہنتے اور ساتھ تہبند باندھا کرتے تھے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے سارى زندگى شادى نہ کى اورپوری زندگی تنہاگزاردی ۔([68])
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرید خاص حضرت سلطان احمد مستانہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال پیرومرشدکی حیاتِ مبارکہ میں ہوگیا تھا جس کی وجہ سے حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہان کے بیٹے سے بڑی محبت فرمایاکرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی سجادہ نشینی کا اعزاز آج بھی انہی کی اولاد میں چلا آرہا ہے۔([69])
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا کلام معرفت اور عشقِ حقىقى سے بھرپور ہے، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی تمام روحانی منازل کے حصول کا ذریعہ اور پہلا سبب شریعت ِمحمدی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہی قرار دیا اور اس پر عمل کو لازمی جانا چنانچہ لکھتے ہیں :
شریعت ساڈی دائی اے طریقت ساڈی مائی اے
اگوحق حقیقت آئی اے اتے معرفتوں کجھ پایا اے ([70])
یعنی شریعت ہماری ظاہری ضرورت ہے اور طریقت ہماری اصل حاجت ہے۔ انہی دو کے ذریعے حقیقت و معرفت تک رسائی ہوتی ہے۔ امامِ اہلسنّت سیّد ی
اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت، معرفت میں باہم اصلاً کوئی تَخالُف نہیں اس کا مُدَعِی اگر بے سمجھے کہے تونرا جاہل ہے اور سمجھ کر کہے تو گمراہ بددین، شریعت حضور اقدس سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے اقوال ہیں، اور طریقت حضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے افعال اور حقیقت حضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے احوال، اور معرفت حضور(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے علوم بے مثال۔([71])
غافل دلوں کو بیدار کرنے اور ریاکاری سے پاک عبادت کرنے کامدنی ذہن عطا کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
راتیں جاگیں کریں عبادت ،راتیں جاگن کتے ، تیتھوں اتّے
بھونکنوں بند مول نہ ہُندے ،جا روڑی تے ستّے، تیتھوں اتّے
بلھے شاہ کوئی رخت وہاج([72]) لے، نئیں تے بازی لے گئے کتے تیتھوں اتّے
یعنی انسان رات جاگ کر عبادت کرتا ہے مگر یہ کوئی کمال نہیں کیونکہ خدمت، وفاداری اور فرمانبرداری کے اوصاف تو کتے میں بھی پائے جاتے ہیں بلکہ وہ انسان سے آگے بھی نکل جاتا ہے کہ رات بھر جاگ کر اپنے مالک اور اس کے گھر کی رکھوالی کرتا ہے اور اس خدمت کے عِوض دن میں کُوڑے کے ڈھیر پر بھی سوجاتا
ہے مالک کے دَر سے جوتے پڑیں تب بھی اس کا دَر نہیں چھوڑتا مزید فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ خوبیاں دیکھ کر ریاکاری سے دور رہتے ہوئےعبادت اورآخرت کی تیاری کرنی چاہیےکہیں ایسا نہ ہوکہ کتے ہم سے بازی لے جائیں ۔([73])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے کلام کا مُصدَّقہ دىوان تو کہىں نہىں ملتا البتہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے کلام کےکئی مُرتَّب نسخے موجود ہیں، چند کے نام یہ ہیں :
٭…کافىاں حضرت بابا بلھے شاہ، ٭… گنجىنۂ معرفت، ٭…کافىاں مىاں بلھے شاہ، ٭…قانونِ عشق، ٭…کلىاتِ بلھے شاہ ۔([74])
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جہاں اپنے کلام کےذریعے سرد دلوں میں عشق ومحبت کی گرمی پیدا کی تووہیں اپنے ملفوظات کو مدنی پھولوں میں ڈھال کر کوچۂ دل کو مہکا دیا چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں :
۱۔جو علم بے عمل ہے وہ دل کى کھوٹ کو کھرا نہىں کرسکتا۔
۲۔اس علم کا کوئى فائدہ نہىں جس سے ذلت و خوارى حاصل ہو۔
۳۔ظاہری جمع خرچ محض تکبر کی نشانی ہے جب تک عملاً کچھ نہ کیا جائےمراد کا پھل حاصل نہیں ہوسکتا۔
۴۔محبوب ِحقىقى توانسان کے اپنےدل مىں ہوتا ہے،مگر اندھے کو اس کى پہچان کىسے ہوسکتى ہے۔
۵۔جب تک دل سے تکبر، حرص ،کىنہ، بغض نکال کر جلا نہ دىا جائے محبوب ِحقىقى نہىں مل سکتا۔
۶۔جس نے خود کو دنىا کى آلائشوں سے پاک کیا اس نے کسبِ فقر پالىا۔
۷۔آخرت کا توشہ کمانا چاہتے ہو تو محبوبِ حقىقى کى محبت اپناؤ۔
۸۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو ہمىشہ ہر شے سے زىادہ ىاد کرو۔
۹۔پیر ومرشد ہی ہمیشہ طرزِ فکر کابیج بَوتا ہے۔ ([75])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاپنی مخلوق میں جن بندوں کو اولیائے کرام کی فہرست میں شامل فرمایا دونوں جہاں میں ان پر انوار وتجلیات اور انعام و اکرام کی بارش برسائی اس بارش کا ظہور کبھی کرامتوں کی صورت میں ہوا جس کی وجہ سے عقیدت کے پھولوں کا رنگ نکھرااور ان کی معطر و معنبر خوشبوؤں سے ایمان کی کلی کِھل اٹھی آئیے!اس مرد ِ درویش کی کرامت سنئے اور گلستانِ عقیدت کو مہکائیے :
ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے گاؤں ”پانڈوکے “ میں سخت قحط آن پڑا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے لوگوں سے فرمایا: مىرے آستانے کی زمین پر مٹى ڈال کر اسے اونچا کردیں اور ایک چبوترہ بنادیں فى کس دو آنے کے حساب سے سب کو اجرت ملے گی، چنانچہ اردگرد کے لوگ مٹى ڈالنے کے لىےآنے لگے روزانہ شام کو جب کام پورا کرلیتے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے جائے نماز کے نىچے سے رقم نکال نکال کر ہر ایک کے ہاتھ پر رکھ دیتے۔اس صورتحال کوجب دو مزدوروں نے دیکھا تو آپس میں کہنے لگے :ىقىنا ًاس جائے نماز کے نىچے بہت بڑا خزانہ دفن ہے،پھر رات کو کھدائی کرکے خزانہ نکالنے کا منصوبہ بناکر چلے آئے جب رات نے تاریکی کی چادر اوڑھ لی اور چہار سو سناٹاہوگیا تووہی دونوں مزدور آئے اور جائے نماز ہٹاکر زمین کھودنا شروع کردى،کافی دیر تک کھودتے رہے لیکن خزانہ تو درکنار پھوٹی کوڑی بھی ہاتھ نہ آئی، مجبوراً مٹی واپس گڑھے میں ڈالی اور جگہ ہموار کرکے جائےنماز بچھا دی تاکہ بھىد نہ کھل سکےاوراگلے دن دوسرے مزدوروں کے ساتھ مل کر پہلے کی طرح کام میں مشغول ہوگئے جب شام ہوئی تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے ان دونوں مزدوروں سے فرمایا: تمہىں آج کى مزدورى سب سے آخر میں دی جائے گی، جب وہ دونوں مزدور آخر میں اپنی مزدوری لینے آئے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے دونوں کو چار چار آنے ادا کئے ، یہ دیکھ کر دیگر مزدور عرض کرنے لگے :حضور! ہمیں دو
آنے اجرت ادا فرمائی جبکہ انہیں چار آنے ،اس کى کىا وجہ ہے؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرماىا:آپ لوگوں نے صرف دن میں کام کیا ہے جبکہ یہ دونوں رات کوبھی کام کرتے رہے ہیں ، اس پر وہ دونوں مزدور بڑے شرمسار ہوئے اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے حلقۂ ارادات مىں شامل ہوگئے۔([76])
حضرت بابا بلھے شاہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکاوصالِ باکمال۱۱۸۱ھ میں ہوا۔ قصور شہر میں ہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزارِ اقدس ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا عرس مبارک ہرسال اگست کی 25،26اور27تاریخ کو منعقد ہوتا ہے جہاں ملک کے کونے کونے سے عقیدت مند اپنی عقیدت کے پھول چڑھانے جوق در جوق آتے ہیں۔ ([77])
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے،سنتوں کی خوشبو پھیلانے،عِلْمِ دین کی شمعیں جلانے اور لوگوں کے دلوں میں اولیاءاللہ کی محبت و عقیدت بڑھانے میں مصروف ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ(تادمِ
تحریر)دنیا کے کم وبیش 200ممالک میں اس کا مَدَنی پیغام پہنچ چکا ہے۔ساری دنیا میں مَدَنی کام کومنظم کرنے کےلئے تقریباً 92سے زیادہ مجالس قائم ہیں،انہی میں سے ایک’’مجلسِ مزاراتِ اولیا‘‘بھی ہے جودیگر مدنی کاموںکے ساتھ ساتھ درج ذیل خدمات انجام دے رہی ہے۔
1. یہ مجلس اولیائےکرامرَحِمَہُمُاللہ ُالسَّلَامکےراستےپرچلتےہوئےمزاراتِ مبارکہ پرحاضر ہونے والے اسلامی بھائیوں میں مَدَنی کاموں کی دُھومیں مچانے کیلئے کوشاں ہے۔
2. یہ مجلس حتَّی المَقدُورصاحبِ مزارکے عُرس کے موقع پراِجتماعِ ذکرونعت کرتی ہے۔
3. مزارات سے مُلْحِقہ مساجِد میں عاشِقانِ رسول کے مَدَنی قافلے سفرکرواتی اوربالخصوص عُرس کے دنوں میں مزارشریف کے اِحاطے میں سنّتوں بھرے مَدَنی حلقے لگاتی ہے جن میں وُضو،غسل،تیمم،نمازاور ایصالِ ثواب کا طریقہ، مزارات پر حاضری کے آداب اوراس کا درست طریقہ نیز سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتیں سکھائی جاتی ہیں۔
4. عاشِقانِ رسول کو حسبِ موقع اچھی اچھی نیتوں مثلاًباجماعت نمازکی ادائیگی، دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وارسنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت،درسِ فیضانِ سنت دینے یا سننے،صاحبِ مزار کے اِیصالِ ثواب کیلئے ہاتھوں ہاتھ مدنی قافلوں میں سفراورفکرِ مدینہ کے ذَرِیعے روزانہ مَدَنی انعامات کارسالہ پُرکرکے ہر مَدَنی
یعنی قَمری ماہ کی ابتِدائی دس تاریخوں کے اندراندراپنے ذِمہ دارکوجمع کرواتے رہنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
5. ’’مجلس مزاراتِ اولیاء‘‘ایامِ عُرس میں صاحبِ مزارکی خدمت میں ڈھیروں ڈھیرایصالِ ثواب کاتحفہ بھی پیش کرتی ہے اورصاحبِ مزاربُزرگ کے سَجادہ نشین،خُلَفَااورمَزارات کے مُتَوَلِّی صاحبان سے وقتاًفوقتاًملاقات کرکے اِنہیں دعوتِ اسلامی کی خدمات،جامعاتُ المدینہ و مدارِسُ المدینہ اور بیرونِ ملک میں ہونے والے مَدَنی کام وغیرہ سےآگاہ رکھتی ہے۔
6. مَزارات پرحاضری دینے والےاسلامی بھائیوں کوشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہکی عطاکردہ نیکی کی دعوت بھی پیش کی جاتی ہے۔
اللہعَزَّ وَجَلَّ ہمیں تا حیات اولیاکرام رَحِمَہُمُ اللہ ُ السَّلَام کا ادب کرتے ہوئے ان کے در سے فیض پانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے صدقے دعوتِ اسلامی کو مزید ترقیاں عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ کو مَزار شریف پرآنا مبارک ہو ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ !تبلیغِ قرآن وسنّت کی عالمگیر غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کی طرف سے
سُنَّتوں بھرے مَدَنی حلقوں کا سِلْسِلہ جاری ہے ،یقینازندگی بے حد مختصر ہے ،ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں ،عنقریب ہمیں اندھیری قبرمیں اُترنا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا پڑے گا،اِن اَنمول لمحات کو غنیمت جانئے اور آئیے! اَحکامِ الٰہی پر عمل کا جذبہ پانے،مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنَّتیں اور اللہ کے نیک بندوں کے مَزارات پر حاضری کے آداب سیکھنے سکھانے کے لئے مَدَنی حلقوں میں شامل ہوجائیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کودونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم
ماخذو مراجع
قرآن مجید
نمبرشمار |
کتاب |
مطبوعہ |
1 |
کنزالایمان |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی |
2 |
صحیح مسلم |
دارالمغنی، عرب شریف۱۴۱۹ھ |
3 |
سنن ابی داود |
داراحیاءالتراث العربی۱۴۲۱ھ |
4 |
سنن ترمذی |
دارالفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
5 |
مجمع الزوائد |
دارالفکر، بیروت ۱۴۲۰ھ |
6 |
کنزالعمال |
دارالکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ھ |
7 |
مسند احمد |
دارالفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
8 |
مصنف عبدالرزاق |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۱ھ |
9 |
المعجم الکبیر |
داراحیاءالتراث العربی۱۴۲۲ھ |
10 |
المعجم الاوسط |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۰ھ |
11 |
شعب الایمان |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۱ھ |
12 |
مشکاۃ المصابیح |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۴ھ |
13 |
الترغیب والترھیب |
دارالفکر، بیروت۱۴۱۸ھ |
14 |
لباب الاحیاء(مترجم) |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی۱۴۲۹ھ |
15 |
فتاوی رضویہ |
رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیاء ، لاہور۱۴۲۵ھ |
16 |
شریعت و طریقت |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی۱۴۲۴ھ |
17 |
فتاوی ملک العلماء |
المجمع الرضوی، بریلی شریف ۱۴۲۶ھ |
18 |
بہار شریعت |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی۱۴۳۰ھ |
19 |
کرامات صحابہ |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی۱۴۲۹ھ |
20 |
سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ |
مکتبہ نوریہ، قصور2004ء |
21 |
سیرت حضرت بابا بلھے شاہ |
اسلام بکڈپو، مرکزالاولیاء، لاہور2013ء |
22 |
سائیں بلھے شاہ |
مرکز الاولیاء، لاہور2002ء |
23 |
دلوں کے مسیحا |
القریش پبلی کیشنز، مرکزالاولیاء،لاہور2012ء |
24 |
حضرت قاضی فتح اللہ شطاری |
جامع مسجد الفردوس، کوٹلی آزادکشمیر۱۴۱۵ھ |
25 |
آداب مرشد کامل |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ، کراچی۱۴۲۶ھ |
26 |
بے قصور کی مدد |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ، کراچی |
27 |
انفرادی کوشش |
مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی۱۴۲۶ھ |
[1] … مَجْمَعُ الزَّوَائِد ،۱۰/۲۵۳،حدیث :۱۷۲۹۸
[2] … دلوں کے مسیحا،ص۲۸۲ملخصا ً
[3] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۳۸ملخصاً
[4] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۳۸بتصرف
[5] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۳۸تا ۴۲ملتقطاً
[6] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۴۲، ۴۵ملخصاً وغیرہ
[7] … دلوں کے مسیحا،ص۲۸۷ملخصاً
[8] … کنزالعمال،کتاب العلم،الباب الاول فی الترغیب فیہ،۱۰/۶۱،حدیث: ۲۸۷۰۵
[9] … شریعت و طریقت ،ص ۲۰
[10] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۴۷ ملخصاًوغیرہ
[11] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص ۴۸بتصرف
[12] … آداب مرشد کامل ص۶۴
[13] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص ۶۲تا ۷۲ملخصاًوغیرہ
[14] … حضرت قاضی فتح اللہ شطاری ص۱۰۷تا ۱۰۸ملخصاً
[15] … دلوں کے مسیحا،ص۲۹۲ملخصاً
[16] … دلوں کے مسیحا،ص۲۹۲
[17] … مسند احمد،مسند شامیین ، حدیث شداد بن اوس، ۶/۷۸،حدیث:۱۲۱ ۱۷
[18] … فتاویٰ ملک العلماء ص۳۱۳بتغیر
[19] … دلوں کے مسیحا،ص۲۹۳ملخصاً
[20] … تر مذی ، ابواب العلم ،باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة،۴/۳۱۳،حدیث:۲۶۹۰
[21] … شریعت و طریقت ص۵تا ۱۱بتغیر و ملتقطا
[22] … دلوں کے مسیحا،ص۲۹۸ بتصرف
[23] … سیرت حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۵۶تا ۵۷ ملخصاًوغیرہ
[24] … سیرت حضرت بابا بلھے شاہ ،ص ۵۷ ملخصاًوغیرہ
[25] … شُعُبُ الایمان،۵/۲۶،حدیث:۵۶۴۰
[26] … مشکاة المصابیح، کتاب الایمان، باب الاعتصام..الخ، ۱/۵۲، حدیث:۱۷۵
[27] … دلوں کے مسیحا،ص۲۹۹
[28] … آداب مرشد کامل، ص۶۰
[29] … بے قصور کی مدد،ص۲۹
[30] … دلوں کے مسیحا،ص۳۰۲بتصرف
[32] … بلعم بن باعوراء اپنے دور کا بہت بڑا عالم اور عابد و زاہد تھا۔ اسے اسمِ اعظم کا بھی علم تھا۔ یہ اپنی جگہ بیٹھا اپنی روحانیت سے عرش ِاعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا۔بہت ہی مستجاب الدعوات تھا جب اس نے حضرت سیِّدناموسیٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خلاف دعاکاپختہ ارادہ کرلیاتو اس کی زبان سینے تک لٹک گئی ،کتے کی طرح ہانپنے لگا،اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس سے ایمان، علم اور معرفت چھین لی۔
[33] … لباب الاحیاء، ص ۲۸۹
[34] … انفرادی کوشش ،ص۱۰۸
[35] … دلوں کے مسیحا،ص۳۱۴بتصرف
[36] … آداب مرشد کامل ص۲۲۸
[37] … دلوں کے مسیحا،ص۳۰۳تا۳۰۴ملخصاً
[38] … شریعت وطریقت ،ص۲۱
[39] … شریعت وطریقت ،ص۳۶ملتقطاً
[40] … دلوں کے مسیحا،ص۳۱۳ملخصاً
[41] … مصنف عبد الرزاق ،کتاب الایمان والنذر،باب الخزامة،۸/۳۸۹،حدیث : ۱۶۱۴۰
[42] … ابو داؤد،کتاب الجہاد،باب الرجل یغزو۔۔۔الخ ،۳/۲۵،حدیث : ۲۵۳۰
[43] … الترغیب والترہیب،کتاب البر والصلاة ، باب بر الوالدین ،۳/۲۵۵،حدیث :۳۷۹۸
[44] … دلوں کے مسیحا،ص۳۰۸
[45] … دلوں کے مسیحا،ص۳۱۷بتصرف
[46] … سیرت بلھے شاہ ،ص۶۷ تا ۶۸ملخصاً وغیرہ
[47] … المعجم الاوسط، ۶/۴۲۹، حديث :۹۲۹۲
[48] … بہار شرىعت، ۱/ ۸۵۲
[49] … سیرت بلھے شاہ ،ص۶۹ ملخصاً
[50] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۱۰۳ تا ۱۰۵ملخصاً
[51] … کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام، قسم الاقوال،۱/۲۰۰،حدیث: ۱۶۷۶
[52] … کراماتِ صحابہ ص:۹۳
[53] … دلوں کے مسیحا،ص۳۳۷ تا ۳۳۸ ملخصاً
[54] … سیرت بلھے شاہ ،ص۷۲تا ۸۰ملخصاً
[55] … المعجم الکبیر،۱۳/۲۷۴،حدیث : ۱۳۳۳۴
[56] … المعجم الکبیر، ۶/۱۵۰،حدیث:۵۸۱۲
[57] … مسلم کتاب الذکر،باب فضل الاجتماع الخ، ص۱۴۴۷،حدیث :۲۶۹۹
[58] … آداب مرشد کامل ص۶۱ تا ۶۸ملخصاً
[59] … سائیں بلھے شاہ ،ص۳۵ تا ۴۰ ملخصاً وغیرہ
[60] … ابوداود،کتاب اللباس، باب فی لباس النساء ۴/۸۳،حدیث:۴۰۹۷
[61] … ابوداود،کتاب اللباس، باب فی لباس النساء ۴/۸۳،حدیث:۴۰۹۸
[62] … فتاویٰ رضویہ ۲۳/۷۴۵
[63] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۱۴۰ملخصاً
[64] … فتاویٰ رضویہ ۲۱/۴۶۴
[65] … آداب ِ مرشد کامل ،ص ۱۲۵
[66] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۱۴۱تا ۱۴۸ ملخصاً
[67] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۱۶۷ تا ۱۷۱ ملخصاً
[68] … سیرت بلھے شاہ ،ص۱۴۸ ملخصاً
[69] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۱۱۲ملخصاًوغیرہ
[70] … سوانح حیات حضرت بابا بلھے شاہ ،ص۱۷۴
[71] … فتاوی رضویہ۲۱/۴۶۰
[72] … روحانی دولت کمانا
[73] … سائیں بلھے شاہ ص ۳۳۴ملتقطاً
[74] … سیرت بلھے شاہ ،ص۱۴۹ ملتقطاً
[75] … سیرت بلھے شاہ ،ص۱۵۰تا ۱۵۲ ملتقطاً
[76] … سیرت بلھے شاہ ،ص۱۳۷ بتصرف
[77] … سیرت بلھے شاہ ،ص۱۵۵تا ۱۵۶ملخصاً وغیرہ