ااتا ۱۳؁  نبوت

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادت شریف تھی کہ ہر سال موسم حج میں تمام قبائل عرب کو جو مکہ اور نواح مکہ میں مو جود ہو تے دعوت اسلام دیا کر تے تھے۔ اسی غرض سے ان کے میلوں میں بھی تشریف لے جا یا کرتے ان میلوں میں سے عُکاظ و مجنہ و ذُوالمجازکاذ کر حدیث میں آیا ہے۔ عُکاظ جواِن سب سے بڑا تھا نَخْلہ وطائف کے درمیان طائف سے دس میل کے فاصلہ پر لگا کر تا تھا۔یہ عرب کی تجارت کی بڑی منڈی اور شعراء کا دنگل تھا، ذیقعدہ کی پہلی تاریخ سے بیس تک رہا کرتاتھا۔ پھر مَجَنَّہ جو مَرُّالظّہْران کے متصل مکہ سے چند میل پر تھا، اخیر ذیقعدہ تک لگتا۔ اور ذُوالمجاز جو عرفہ کے متصل تھا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے آٹھویں تک قائم رہتا، بعد ازاں لوگ حج کو نکلتے۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کے ڈیر وں پر جاکر تبلیغ فرماتے مگر کوئی آپ کی نصرت کا دم نہ بھر تا تھا۔ عرب کے قبائل جن کے پاس حضرت بغرض تبلیغ تشریف لے گئے یہ ہیں : بنوعامِرمُحارِب، فزارَہ، غَسَّان، مُرَّہ ، حَنِیفَہ، سُلَیم، عبس، بنونَضْر، کندہ، کَلْب، حارث بن کعب عذرَہ، حضارمہ، ان سب کو آپ نے دعوت اسلام دی مگر کوئی ایمان نہ لایا۔ ابولہب لعین ہر جگہ ساتھ جاتا جب آپ کہیں تقریر فرماتے تو وہ برابر سے کہتا: ’’اس کا کہنا نہ مانیو! یہ بڑا دَروغ گو، دین سے پھرا ہوا ہے۔‘‘

          اللّٰہ تعالٰی کو اپنے دین اور اپنے رسول کا اعزاز منظور تھااس لئے نبوت کے گیارہویں سال ماہ ِرجب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حسب عادت مِنیٰ میں عقبہ کے نزدیک جہاں اب مسجد عقبہ ہے قبیلہ خزرج کے چھ آدمیوں کو اسلام کی دعوت دی تو وہ ایمان لے آئے۔

          واضح رہے کہ مَدینہ کا اصلی نام یثرب تھا،([1]) بہت قدیم زمانہ میں یہاں قوم عمالقہ کے لوگ آباد تھے ، ان کے بعد شام سے یہود آبسے اور انہوں نے یثرب اور اس کے نواح میں اپنی سکونت کے لئے آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قلعے بنا ئے، جب مَآرِب واقع یَمَن میں سَیْلِ عَرِم([2]) آیا تو وہاں کے لوگ یَمَن سے نکل کر مختلف جگہوں میں چلے گئے۔ چنانچہ قبیلہ ازدبن غوث قحطانی کے دوبھائی اَوْس وخَزْرَج یثرب میں آبسے۔ تمام انصار ان ہی دو کے خاند ان سے ہیں جیساکہ پہلے آچکا ہے، یہود کا چونکہ بڑا اقتدار و زور تھا اس لئے قبیلہ اَوْس وخَزْرَج آخر کار ان کے حلیف بن گئے۔یہود اہل کتاب اور صاحب علم تھے، اَوْس وخَزْرَج نے جو بت پرست تھے ان سے سنا ہو اتھا کہ ایک اور پیغمبر عنقریب مبعوث ہونے والا ہے اس لئے جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حسب معمول د عوت اسلام دی تو خَزْرَج کے چھ اشخاص نے آپ کے حالات پر غور کر کے ایک دوسرے سے کہا کہ ’’واللّٰہ! یہ تو وہی ہیں جن کا ذکر ہم نے یہودِمَد ینہ سے سنا ہوا


 

 ہے، کہیں یہود ہم سے سبقت نہ لے جائیں ۔‘‘ اس لئے وہ سب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لا ئے، انہوں نے مدینہ میں پہنچ کر اپنے بھائی بندوں کو اسلام کی دعوت دی۔آیندہ سال بارہ مرد اَیام حج میں مکہ میں آئے اور انہوں نے عقبہ کے متصل آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاتھ پر عورتوں کی طرح بیعت کی کہ ہم اللّٰہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے، چوری نہ کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، بہتان نہ لگائیں گے، کسی امر معروف میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نافرمانی نہ کریں گے۔ چونکہ عورتوں سے ان ہی باتوں پر بیعت ہوئی تھی اس لئے بیعت مذکورہ کو عورتوں کی سی بیعت کہا گیا، اس کو بیعت ِعَقَبَہ اُولٰی یعنی عقبہ میں اوّل مرتبہ بیعت بولتے ہیں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان بارہ کے سا تھ مُصْعَب بن عُمیربن ہاشم بن عبدمَناف کو بدیں غرض بھیجا کہ ان کو تعلیم اسلام دیں ۔ حضرت مُصْعَب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اَسعد بن زُرَارہ کے مکان پر قیام کیا پھر ان کو ساتھ لے کر بنی عبد الا َشْہَل اَوسی میں آئے، اس قبیلہ کے سردار سعد بن معاذاور اُسَیْد بن حُضَیر آپ کے سمجھا نے سے ایمان لا ئے اور ان کے ایمان لا نے سے سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔([3])بقولِ مشہور اسی سال ماہ رجب کی ستا ئیسویں رات کو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حالت بیداری میں جسد شریف کے ساتھ معراج شریف ہوا اور پانچ نمازیں فرض ہو ئیں ۔

          نبوت کے تیر ہو یں سال ایا م حج میں انصار کے ساتھ ان کی قوم کے بہت سے مشرک بھی بغرض حج مکہ میں آئے، جب حج سے فارغ ہوئے تو ان میں سے تہتر73 مر داوردو2 عورتیں اپنی قوم سے چھپ کر ایامِ تشریق میں رات کے وقت عقبہ منیٰ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت حضرت عباس بن عبدالمُطَّلِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو اَب تک اسلام نہ لائے تھے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے، سب سے پہلے وہی بولے: ’’اے گر وہ خَزْرَج! محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اپنی قوم میں معزز ہیں اور اپنے شہر میں مدد گاروں کی ایک جماعت ساتھ رکھتے ہیں ، ہم نے ان کو دشمنوں سے بچایاہے اگر تم اپنے عہد کو پورا کر سکو اور ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی سے ان کا ساتھ چھوڑ دو۔‘‘ اس کے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم مجھ سے وہ چیز بازرکھو گے جو اپنے اہل وعیال سے بازر کھتے ہو۔یہ سن کر سب سے پہلے بَرَاء بن مَعْرور اَنصاری خَزرَجی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دست مبارک پکڑ کر کہا: ’’ہمیں

 


 

 منظور ہے یا رسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں بیعت کر لیجئے! واللّٰہ! ہم اہل حرب واہل سِلاح ہیں ، یہی چیزیں باپ دادا سے ہمیں ور ثہ میں ملی ہیں ۔‘‘ ابو الہَیثَم بن تَیِّہَا ن اَنصاری اَوسی نے قطع کلام کرکے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہود سے ہمارے تعلقات ہیں جو بیعت سے ٹوٹ جائیں گے، ایسانہ ہو کہ جب اللّٰہ آپ کو غلبہ دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم میں چلے جائیں ۔‘‘ آپ نے مسکرا کر فرمایا: ’’نہیں ! تمہارا خون میرا خون ہے، میرا جینا مر نا تمہارے ساتھ ہے، میں تمہارا ہوں اور تم میرے ہو، تمہارا دشمن میرا د شمن اور تمہارا دوست میرا دوست ہے۔‘‘ اس طرح جب وہ بیعت کے لئے آمادہ ہو گئے تو عباس بن عُبادہ بن نَضْلہ اَنصاری خَزْرَجی نے ان سے کہا: ’’یہ بھی خبر ہے تم محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) سے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو، یہ عرب وعجم سے جنگ پر بیعت ہے، اگر تمہارا خیال ہے کہ جب تمہارے مال تاراج ہوں اور تمہارے اشراف قتل ہوں ، تم ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو ابھی سے چھوڑ دو اور اگر ایسی مصیبت پر بھی ساتھ دے سکو تو بیعت کر لو۔‘‘ سب بولے: ہم اسی بات پر بیعت کرتے ہیں مگر یارسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اگر ہم اس عہد پر ثابت رہیں تو ہمیں کیاملے گا ؟ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: بِہِشْت۔یہ سن کر سب نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اسے عقبہ کی بیعت ([4])ثانیہ کہتے ہیں ۔ بیعت کے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان میں بارہ اشخاص کو نقیب مقرر کیا، جن کے نام خود انصار نے پیش کیے اور ان سے یوں خطاب فرمایا: ’’تم اپنی اپنی قوم کے حالات کے کفیل ہو، جیسا کہ حواری حضرت عیسیٰ ابن مر یم (عَلَیْہِمَا السَّلَام) کے تھے اور میں اپنی قوم کا کفیل ہوں ۔‘‘ وہ بولے کہ ہاں ! منظور ہے۔اس کے بعد وہ اپنے اپنے ڈیر وں پر چلے گئے۔ صبح کو قریش ان سے کہنے لگے: ہم نے سنا ہے کہ تم نے ہمارے ساتھ جنگ کر نے پر بیعت کی ہے؟ ان کے مشرک ساتھیوں نے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہو ئی، یہ سن کر قریش واپس چلے گئے مگر تفتیش کے بعد حقیقت حال جو ان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے انصار کا تعاقب کیا۔ صرف سعدبن عبادہ ان کے ہاتھ آئے، ظالموں نے ان ہی کے اونٹ کے تَنگ ([5])سے ان کے ہاتھ گر دن سے جکڑ لئے اور مار تے پیٹتے اور سر کے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے ان کو مکہ میں لے آئے وہاں جُبَیر بن مُطْعِم بن عَدِی اور حارِث بن حَرب بن اُمَیَّہ نے ان کو چھڑایا۔([6])


 

                                                چوتھا باب

حالات ہجرت تا وفات شریف

          قریش کی اَذِیت رَسانی کے سبب سے اب مکہ میں مسلمانوں کا قیام نہایت دشوار ہو گیا اس لئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایاکہ ہجرت کر کے مدینہ چلے جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم متفرق طورپررفتہ رفتہ چوری چھپے مدینہ پہنچ گئے اور مکہ میں حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  بِاَبِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ کے علاوہ حضرات ابو بکر وعلیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور کچھ بیمار و عاجز رہ گئے۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہجرت کی اجازت مانگی تو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’امید ہے کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل جائے گی، ‘‘ عرض کیا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ امید ہے ؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں !‘‘ یہ سن کر حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمراہی کی امید پر حاضرِ خدمت رہے۔

خبردار الندوہ

          قریش نے جب دیکھا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے مدد گار مکہ سے باہر مدینہ میں بھی ہو گئے ہیں اور مہاجرین مکہ کو انصار نے اپنی حمایت وپناہ میں لے لیا ہے تووہ ڈرے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ بھی وہاں چلے جائیں اور اپنے مددگاروں کو ساتھ لے کر حملہ آور ہوں ، اس لئے تمام قبائل کے سر دار عُتْبَہ وشَیْبَہ پسر انِ رَبِیْعَہ، ابو سُفیان، طُعَیْمَہ بن عَدِی ، جُبَیْر بن مُطْعِم، نَضْربن حارِث ، ابو البَخْتَر ی بن ہِشام، زَمْعَہ بن اَسْوَد، ابوجَہْل، نَبِیْہ ومُنَـبِّہ پسرانِ حَجَّاج اور اُمَیَّہ بن خَلَف وغیرہ ‘’دارُالنَدْوَہ’‘([7])میں مشورہ کے لئے جمع ہوئے۔ابلیس لعین بھی کمبل اوڑھے اور شیخِ پارسا کی صورت بنا ئے دروازہ پر آموجود ہو ا، انہوں نے پو چھا کہ تم کون ہو ؟ بولا: ’’میں نجدیوں سے ایک شیخ ہوں ، میں نے سن لیا ہے جس امر کے لئے تم جمع ہو ئے ہو،اس لئے میں بھی حاضر ہو اہوں تاکہ سنوں کہ تم کیا کہتے ہواور مجھے تم سے اپنی رائے اور نصیحت سے بھی در یغ نہ ہو گا۔‘‘ وہ بولے: بہت اچھا!آئیے!جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا معاملہ پیش ہوا تو ایک بولا کہ اس کے ہاتھ پا ؤں میں لوہے کی بیڑ یاں ڈال کر ایک کو ٹھڑی میں بند کر دواور کھانے


 

 پینے کو کچھ نہ دو،خودہلاک ہو جائے گا۔شیخ نجدی نے کہا: یہ رائے اچھی نہیں ،اللّٰہ کی قسم! اگر تم اس کو اس طرح کوٹھڑی میں قید بھی کردو تو اس کی خبر بند دروازے میں سے اس کے اصحاب تک پہنچ جائے گی وہ تم پر حملہ کر کے اس کو چھڑالیں گے۔ دوسرابو لا کہ اس کو شہر سے نکال دو، جہاں چاہے چلا جائے ہمیں اس کا خوف نہ رہے گا۔ شیخ نجدی نے کہا: اللّٰہ کی قسم! یہ رائے اچھی نہیں ،کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس کا کلام کیسا شیریں اور دلفریب ہے، اگر تم ایسا کر وگے تو ممکن ہے وہ کسی قبیلہ میں چلا جائے اور اپنے کلام سے اسے اپنا تابع بنا لے اور پھر انہیں ساتھ لے کر تم پر حملہ کر دے۔ابو جہل بولا: میرے ذہن میں ایک رائے ہے جو اب تک کسی کو نہیں سوجھی۔انہوں نے پوچھا: وہ کیا ہے ؟ ابو جہل نے کہا: ’’وہ یہ ہے کہ ہم ہر قبیلہ میں سے ایک ایک عالی قدر دلیر خاند انی جوان لیں اور ہر نوجوان کے ہاتھ میں ایک ایک تیز تلوار دے دیں ، پھر وہ سب مل کر اس کو قتل کر دیں اس طرح جرمِ خون تمام قبائل پر عائد ہوگا۔عبد مناف کی اولاد تمام قبائل سے لڑ نہیں سکتی اس لئے وہ خون بہالینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم آسانی سے خون بہا دے دیں گے۔‘‘ یہ سن کر شیخ نجدی بولا : ’’یہی بات درست ہے اس کے سوا کوئی اور رائے نہیں ۔‘‘ سب نے اس رائے پر اتفاق کیا اور مجلس برخاست ہو گئی۔ قرآن مجید کی آیۂ ذیل میں اسی قصہ کی طرف اشارہ ہے :

وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَؕ-وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ(۳۰) (انفال ،ع ۴)([8])

اے محبوب! یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کر تے تھے کہ تمہیں بند کرلیں یا شہید کر دیں یا نکال دیں اور وہ اپنا مکر کر تے تھے اور اللّٰہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللّٰہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔([9])

قصۂ ہجرت

          جب قریش قتل پر اتفاق کر کے اپنے اپنے گھر وں کو چلے گئے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور قریش کے ار ادہ کی آپ کو اطلاع دی


 

 اور عرض کیا کہ آج رات آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں ۔عین([10])دوپہر کے وقت حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے گئے دروازے پر دستک دی، اجازت کے بعد اندر داخل ہوئے اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا:’’جو تمہارے پاس ہیں ان کو نکال دو۔‘‘حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’یارسول   اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !میرا باپ آپ پر قربان! آپ کے سوا کوئی اور نہیں ۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے ہجرت کی اجازت ہو گئی ہے۔‘‘ حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا:’’یا رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرا باپ آپ پر قربان! میں آپ کی ہمراہی چاہتا ہوں ۔‘‘ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منظور فرمایا۔ حضرت صدیق نے پھر عرض کیا: ’’یا رسول  اللّٰہ! میرا باپ آپ پر قربان ! آپ ان دواو نٹنیوں([11])  میں سے ایک پسند فرمالیں ۔‘‘ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں قیمت سے لوں گا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

          حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاجو شادی کے بعد سے اس وقت تک اپنے والد بزرگوار کے گھر میں تھیں بیان فرماتی ہیں کہ ہم نے سفر کی ضروریات کو جلدی تیار کر دیا اور دونوں کے لئے کچھ کھا نا توشہ دان میں رکھ دیا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے اپنے نِطاق (پٹکے ) ([12])کے دو ٹکڑ ے کر کے ایک سے توشہ دان کا منہ اور دوسرے سے مشکیزہ کا منہ با ندھا۔جس کی وجہ سے ان کو ذَاتُ ا لنطاقین کہا جاتا ہے۔ ایک کا فر عبداللّٰہ بن اُرَیْقِط دُئَلِی جو راستہ سے خوب واقف تھا رہنمائی کے لئے اجر ت پر نوکر رکھ لیا گیا اور دونوں اونٹنیاں اس کے سپر دکر دی گئیں تاکہ تین راتوں کے بعد غار پر حاضرکر دے۔اس انتظام کے بعد رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے دولت خانہ کو تشریف لے گئے ۔

          ایک تہائی رات گزری ہی تھی کہ قریش نے حسب قرار داددولت خانہ کا محاصرہ کر لیا اور اس انتظار میں رہے کہ آپ سو جائیں تو حملہ آور ہوں ۔اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس صرف حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمتھے۔ قریش کو اگرچہ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سخت عداوت تھی، مگر آپ کی


 

امانت ودیانت پر انہیں اس قدر اعتماد تھا کہ جس کے پاس کچھ مال واسباب ایسا ہو تا کہ اسے خود اپنے پاس رکھنے میں جوکھم نظر آتی([13])وہ آپ ہی کے پاس امانت رکھتا۔ چنانچہ اب بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس کچھ امانتیں تھیں اس لئے آپ نے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے فرمایا کہ تم میری سبز چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو رہو، تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو گی اور حکم دیا کہ یہ امانتیں واپس کر کے چلے آنا اور خود خاک کی ایک مٹھی لی۔ ([14])  اور سورۂ  یٰسٓ شریف کے شروع کی آیات  فَهُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ(۹)تک پڑ ھتے ہوئے کفار پر پھینک دی اور اس مجمع میں سے صاف نکل گئے، کسی نے آپ کو نہ پہچانا۔ ایک مخبر نے جو اس مجمع میں نہ تھا ان کو خبر دی کہ محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) تو یہاں سے نکل گئے اور تمہارے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے سروں پر جو ہاتھ پھیر اتو واقع میں خاک پائی مگر حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو سبز چادر اوڑ ھے ہوئے سوتے دیکھ کر خیال کیا کہ رسول  اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سور ہے ہیں ۔ جب صبح کو حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیدار ہو ئے تو وہ کہنے لگے کہ اس مخبر نے سچ کہاتھا۔([15])

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے دولت خانہ سے نکل کر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے گئے۔ راستے میں بازارِ حَزْوَرَہ میں جو بعد میں مسجد حرام میں شامل کر لیاگیاٹھہر کر یوں خطاب ([16])فرمایا: ’’بطحائے مکہ ! ([17])تو پا کیز ہ شہر ہے اور میرے نزدیک کیسا عزیز ہے اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور جگہ سکونت پذیر نہ ہو تا۔‘‘ اسی رات آپ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لے کر گھر کے عقب میں ایک در یچہ سے نکلے اور کوہ ثور کے غار پر پہنچے۔ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چاہا کہ غار میں داخل ہوں مگر صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیاکہ آپ داخل نہ ہوں جب تک کہ میں پہلے داخل نہ ہو لوں تاکہ اگر اس میں کوئی سانپ بچھو وغیر ہ ہوتو وہ مجھ کو کا ٹے آپ کو نہ کاٹے۔ اس لئے حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پہلے داخل ہوئے، غارمیں جھاڑودی، اس کے ایک طرف میں کچھ سوراخ پائے۔ اپنا شلوار پھاڑ کران کو بند کیا مگر دو سوراخ باقی رہ گئے، ان میں اپنے دونوں

 پاؤں ڈال دئیے۔ پھر عرض کیا: اب تشریف لائیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم داخل ہوئے اور سرمبارک حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گودمیں رکھ کر سو گئے۔ ایک سوراخ سے کسی چیز نے حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کاٹا، مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے کہ مَبادا([18])ر سول  اللّٰہصَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجاگ اٹھیں ۔ حضرت صدیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے آنسو جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک پر گرے، تو فرمایا: ’’ابوبکر تجھے کیا ہوا!‘‘ عرض کی: ’’میرے ماں باپ آپ پر فدا! مجھے کسی چیز نے کاٹ کھایا۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زخم پر اپنا لعاب دہن لگا دیا، فوراً سب درد جاتا رہا۔([19]) اس غار میں دونوں تین راتیں رہے۔حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کے بیٹے عبد اللّٰہ جو  نو خیز جوان تھے رات کو غارمیں ساتھ سوتے صبح منہ اندھیر ے شہر چلے جاتے اور قریش جو مشورہ کرتے یا کہتے شام کو غار میں آکر اس کی اطلاع دیتے۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا غلام عامر بن فُہَیرہ دن کو بکریاں چراتااور رات کو دو بکریاں غار پر لے جاتا۔ان کا دودھ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے کام آتا۔ عامر منہ اندھیرے بکریوں کو عبد اللّٰہ کے نقش پا ([20])پرہانک لے جا تا تاکہ نقش قدم مٹ جائے۔([21])

          جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رات کو اپنے دولت خانہ سے نکل آئے تو صبح کو کفار نے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا کہ تیر ایار کہاں گیا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں اس لئے پائے مبارک کے نشان کے ذریعے سے انہوں نے انحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا تعاقب کیا۔جب وہ کوہ ثور کے پاس پہنچے تو پائے مبارک کا نشان ان پر مشتبہ ہو گیا۔([22])وہ پہاڑ پر چڑھ گئے اور غار کے دَہانہ پر پہنچ گئے مگرغار پر اس وقت خدا ئی پہر ہ لگا ہوا تھا دہانہ([23]) پر مکڑی نے جالا تنا ہوا تھا([24])اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے۔یہ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ اگر (حضرت) محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اس میں داخل ہوتے تو مکڑی جالانہ تنتی اور کبوتری انڈے نہ دیتی۔ اس حال میں آہٹ پا کر حضرت ابو بکر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ نے عرض کی: ’’یارسولاللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماگر ان میں سے کسی کی نظر اپنے قدم پر پڑ جائے تو ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’غم نہ کر خدا عَزَّوَجَلَّ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘

          قصہ کو تا ہ غار میں تین راتیں گز ار کر شب دوشنبہ([25]) یکم ربیع الا وَّل کو او نٹنیوں پر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے عامر بن فُہَیر ہ کو حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بغر ضِ خدمت اپنے ساتھ سوار کر لیا تھا۔بدرَ قہ([26]) آگے آگے راستہ بتا تاجاتا تھا۔راستے میں اگر کوئی حضرت صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت پوچھتا تھا کہ یہ کون ہیں جواب دیتے کہ یہ میرے ہادیِ طریق ([27])  ہیں ۔([28])

          حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ (دوشنبہ کی) رات کو روانہ ہو کر ہم برابر چلتے رہے یہاں تک کہ دوپہر ہو گئی اور راستہ میں آمد ورفت بند ہو گئی۔ ہمیں ایک بڑا پتھر نظر آیا، ہم اس کے نزدیک اتر پڑے، میں نے اس کے سایہ میں اپنے ہاتھوں سے جگہ ہموار کی، اس پر پو ستِین([29]) بچھا دی اور عرض کی: ’’یارسول  اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ سو جائیں میں آپ کے ارد گرد پاسبانی کر تا ہوں ۔‘‘ آپ سو گئے میں نکلاکہ دیکھوں ار دگر د کوئی دشمن تو نہیں آرہا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں اسی پتھر کی طرف سایہ میں آرام پانے کے لئے لا رہا ہے۔ میں نے پو چھا: تو کس کا غلام ہے؟اس نے قریش کے ایک شخص کا نام لیاتو میں نے اسے پہچان لیا اور پوچھا:کیا تیری بکر یوں میں دودھ دینے والی ہیں ؟ وہ بولا کہ ہاں !میں نے کہا:کیا تو دوہ کر دے سکتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں ! پس اس نے ایک بکری پکڑ لی۔ میں نے کہا: اس کا تھن گر دوغبار سے صاف کر لے، پھر کہا کہ تو اپناہاتھ صاف کر لے۔ اس نے ایک پیالہء چوبین([30]) میں دودھ دوہا۔ میں رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیلئے ایک مِطْہَرَہ ([31]) ساتھ لے گیا تھا جس سے آپ وضو کر تے۔ میں نے ٹھنڈ اکر نے کے لئے دودھ میں تھوڑا ساپانی ملا کر خدمت اقدس میں پیش کیا۔ آپ نے خوب پیا۔جس سے میری


 

طبیعت خوش ہوئی، پھر فرمایا: کیا چلنے کا وقت نہیں آیا؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں !دن ڈھل چکا تھا کہ ہم وہاں سے چلے۔ ([32])

          دوسرے روزیعنی سہ شنبہ کے دن جب قُدَید کے قریب پہنچے تو سُراقہ بن مالک بن جُعْشُم مُدْلِجی تعاقب میں نکلا۔ جس کی کیفیت وہ خود یوں بیان کر تا ہے: ’’کفار قریش کے قاصد ہمارے پاس آئے ،کہنے لگے کہ جو شخص محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) یا ابو بکر کو قتل کر ے گا یا گر فتار کر کے لائے گا اسے ایک خون بہا کے برابر (یعنی سواونٹ ) انعام دیا جائے گا۔میں اپنی قوم بنو مُدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک شخص نے آکر کہا: ’’سراقہ! میں نے ابھی ساحل پر چند اشخاص دیکھے ہیں ، میرے خیال میں وہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اور ان کے ساتھی ہیں ۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ وہی ہیں مگر میں نے اس سے کہا کہ وہ نہیں ہیں تو نے فلاں فلاں کو دیکھا ہے جو ہمارے سامنے سے گئے ہیں ۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد میں مجلس سے اٹھ کر گھر آیا اور اپنی لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو پشتہ  ([33]) کے پیچھے (  بطن وادی میں ) لے جاکر ٹھہرا۔ میں نیزہ لے کر اپنے گھر کے عقب سے نکلا اور بُنِ نیز ہ ([34]) سے زمین میں خط کھینچا اور نیز ے کے بالائی حصہ کو نیچا کیے ہوئے گھوڑے کے پاس پہنچا۔میں نے سوا رہو کر گھوڑے کو ذرا دوڑایا یہاں تک کہ میں ان کے قریب جاپہنچا۔ میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی، میں گر پڑا، اٹھ کر میں نے تر کش کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس میں سے فال کے تیرنکا لے کہ حملہ کرناچاہیے یانہیں مگر جواب خلاف مراد نکلا۔ میں نے تیر کی بات نہ مانی۔دوبارہ گھوڑے پر سوار ہو کر آگے بڑھا یہاں تک کہ جب میں نے رسول  اللّٰہکی قراء ت کی آوا زسنی حالانکہ آپ (میری طرف ) نہ دیکھتے ([35]) تھے اور ابو بکر اکثر پیچھے دیکھتے تھے تو میرے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے میں نے اترکرگھوڑے کو زَجْروتَوبیخ ([36])  کی۔ اس نے چاہا کہ اٹھے مگروہ پاؤں زمین سے نہ نکال سکا۔جب وہ (بمشکل تمام ) سیدھا کھڑا ہو ا تو نا گاہ ([37])


 

اس کے پاؤوں کے نشان سے دھوئیں کی مانند غبار آسمان کی طرف اٹھا۔ میں نے پھر تیروں سے فال لی مگر خلاف مر ادہی جواب ملا۔میں نے پکارا: امان! امان! یہ سن کر وہ ٹھہر گئے۔میں اپنے گھوڑ ے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچ گیا۔ مُکَرَّر تجربہ([38])سے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بول بالا ہوگا۔ میں نے آپ سے قریش کے ارادے اور انعام کا ذکر کیا اور زادو مَتَاع ([39]) پیش کیا۔مگر انہوں نے کچھ نہ لیا اور صرف یہی درخواست کی کہ ہمارا حال پو شید ہ رکھنا۔ اس کے بعد میں نے آپ سے درخواست کی کہ مجھے کتاب اَمن تحریر فرمادیجئے۔آپ کے حکم سے عامر بن فُہَیرہ نے چمڑے کے ٹکڑے پر فرمان امن لکھ([40])دیا۔‘‘ سراقہ نے فرمان امن اپنی ترکش میں رکھ لیا اور واپس ہوا راستے میں جس سے ملتایہ کہہ کر واپس کر لیتا کہ میں نے بہت ڈھونڈا، آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس طرف نہیں ہیں ۔ حسن اتفاق سے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مسلمانوں کا ایک قافلہ ملاجوشام سے مال تجارت لا رہا تھا۔ اس قافلہ میں حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ    کو سفید کپڑے پہنائے۔([41])

          قُدَید ہی میں سہ شنبہ ([42])کو دوپہر کے وقت اُمِّ مَعْبَد عاتِکہ بنت خالد خُزاعِیہ کے ہاں گزر ہوا۔ اُمِّ مَعْبَد کی قوم قحط زدہ تھی وہ ا پنے خیمہ کے صحن میں بیٹھا کر تی اور آنے جانے والوں کو پانی پلاتی اور کھاناکھلاتی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے گوشت اور کھجور یں خرید نے کا قصد کیا مگر اس کے پاس ان میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس کے خیمہ کی ایک جانب ایک بکری دیکھی، پوچھا: یہ بکری کیسی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ لا غری وکمزوری کے سبب دوسری بکریوں سے پیچھے رہ گئی ہے، پھر پو چھا:کیا دودھ دیتی ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ اسے دوہ لوں ؟ اس نے عرض کی: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ اس کے نیچے دودھ دیکھتے ہیں تو دوہ لیں ۔ آپ نے اس کے تھن پر اپنا ہاتھ مبارک پھیر ااور بسم اللّٰہ پڑھی اور اللّٰہ تعالٰی سے دعا مانگی۔ بکری نے آپ کے لئے دونوں ٹا نگیں چوڑی کردیں ، دودھ اتا رلیا اور جُگا لی کی۔ آپ نے برتن طلب کیا جو جماعت کو سیر اب کر دے۔ پس آپ نے اس میں خوب دوہایہاں تک کہ اس پر جھاگ آگئی۔ پھر ام معبد کو پلا یا یہاں تک کہ سیر ہوگئی اور اپنے ساتھیوں کو پلا یا یہاں تک کہ سیر ہوگئے۔ سب کے بعد آپ نے پیا۔ بعد ازاں دوسری بار دوہا یہاں تک کہ بر تن بھر دیا اور اس کو (بطور نشان) ام معبد کے پاس چھوڑا اور اس کو اسلام میں بیعت کیا پھر سب وہاں سے چل دئیے۔([43]) تھوڑی دیر کے بعد اُم معبد کا خاوند گھر آیا، اس نے دودھ جو دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگاکہ یہ دودھ کہاں سے آیا؟ حالانکہ گھر میں تو کوئی ایسی بکری نہیں جو دودھ کا ایک قطرہ بھی دے۔ ام معبد نے جواب دیا کہ ایک مبارک شخص آیا تھا کہ جس کا حلیہ شریف ایسا ایسا تھا۔ وہ بولا: وہی تو قریش کے سر دار ہیں جن کا چرچا ہورہا ہے، میں نے قصد کر لیاہے کہ ان کی صحبت میں رہوں ۔

          جب مدینہ کے قریب موضَع غَمِیم میں پہنچے جو رابِغ و جُحْفَہکے درمیان ہے تو بُرَیدہ اَسلَمی قبیلہ بنی سَہْم کے ستر سوار لے کر حصولِ انعام کی امید پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو گرفتارکرنے آیا۔ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں بُرَیدہ ہوں ۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے بطور تَفاوُل([44])فرمایا: ابو بکر! ہمارا کام خوش و خُنک اور دُرست ہو گیا، پھر آپ نے بُرَیدہ سے پوچھاکہ تو کس قبیلہ سے ہے؟ اس نے کہا کہ بنو اسلم سے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت


 

 ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: ہمارے لئے خیروسلامتی ہے۔ پھر پوچھا: کون سے بنواسلم سے؟ اس نے کہا کہ بنوسہم سے۔ آپ نے فرمایا: تونے اپنا حصہ (اسلام سے) پالیا۔ بعد ازاں بریدہ نے حضرت سے پوچھاآپ کون ہیں ؟ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں  اللّٰہ کا رسول محمد بن عبد  اللّٰہ  ہوں ۔ بریدہ نے نام مبارک سن کر کلمہ شہادت پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ جو سوار بر یدہ کے ساتھ تھے وہ بھی مشرف باسلام ہو ئے۔ بریدہ نے عرض کیا: یا رسول  اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ میں آپ کا داخلہ جھنڈ ے کے ساتھ ہو نا چاہیے پس اپنا عمامہ سرسے اتار کر نیزہ پر باندھ لیا اور حضرت کے آگے آگے روانہ ہوا۔ پھر عرض کیا: یا رسول  اللّٰہ! آپ کس کے ہاں اتریں گے ؟ فرمایا: یہ میرانا قہ مامور ہے جہاں یہ بیٹھ جائے گا وہی میری منزل ہے۔بریدہ نے کہا: الحمد للّٰہ کہ بنوسہم بَطَوع ورَ غبت ([45])مسلمان ہوگئے۔([46])

          رسول  اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ لوگ ہر روز صبح کو شہر سے نکل کر حَرَّہ میں جمع ہوتے انتظار کرتے کر تے جب دوپہر ہوجاتی تو واپس چلے جاتے۔ایک دن انتظار کرکے گھر وں میں واپس جاچکے تھے کہ ایک یہودی نے ایک قلعہ پر سے کسی مطلب کے لئے نظر دوڑائی،اسے رسول  اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے ہمراہی سفید لباس پہنے ہوئے نظر پڑے جو سراب ([47])کے آگے حائل تھے۔ وہ یہودی نہایت زور سے بے ساختہ پکار اٹھا: ’’اے مَعْشَرِعرب!([48])لو تمہارا مقصد ومقصود جس کاتم انتظار کر رہے تھے وہ آگیا۔‘‘ یہ سن کر مسلمانوں نے فوراً ہتھیار لگا کر حَرَّہِ قُباء کے عقب میں رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا استقبال کیا اور اظہار مسرت کے لئے نعرۂ تکبیر بلند کیاجس کی آواز بنی عمر وبن عوف میں پہنچی۔یہ قبیلہ مو ضع قُباء میں جو مدینہ سے جنوب کی طرف دو میل کے فاصلہ پر ہے آباد تھا۔اس خاندان کا سر دار کلثوم بن ہِدْم اَنصار ی اَوسی تھا۔ اس سے پہلے اکثر اکابر صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اسی کے ہاں اتر تے تھے۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اسی کو شرفِ نزول بخشا۔


 

ہجرت کا پہلا سال

تعمیر مسجد قباء :

          قُباء میں رسول  اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نزول ۱۲ رَبیع الا وَّل یوم دو شنبہ ([49]) کو ہوا۔ یہی تاریخ اسلامی کی ابتداء ہے۔ حضرت علی المر تضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمجو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی روانگی کے تین دن بعد مکہ سے چلے تھے یہاں آملے اور یہیں رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس مسجد کی بناء  ([50]) رکھی جس کی شان میں یہ آیت وارِدہے:

لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸) (سورۂ توبہ)

البتہ وہ مسجد جسکی بنیاد پہلے دن سے پرہیز گاری پر رکھی گئی ہے زیادہ لائق ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو، اس میں وہ مرد ہیں جو پاک رہنے کو دوست رکھتے ہیں اور اللّٰہ پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ([51])

          کلثوم بن ہِدْم کی ایک اُفتادہ زمین  ([52]) تھی جہاں کھجوریں خشک ہو نے کے لئے پھیلا دی جاتی تھیں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے یہ زمین لے کر مسجد مذکور کی بنیا در کھی۔اس مسجد کی تعمیر میں دیگر اصحاب کے ساتھ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود بھی بغر ضِ تَشْوِیق وَتر غیب ([53]) کا م کر تے تھے۔ شَمُوس بنت نعمان اَنصار یہ مدنیہ کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہی تھی کہ ’’رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اتنا بھاری پتھر اٹھا تے کہ جسم اَطہر خم ہو جاتا اور بطن شریف پر مجھے مٹی کی سفید ی نظر آجا تی۔‘‘ آپ کے اصحاب میں سے اگر کوئی عقیدت مند آکر عرض کرتا: ’’یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیرے ماں باپ آپ پر فدا! چھوڑ دیجئے میں اٹھاتا ہوں ۔‘‘ تو آپ فرماتے:’’نہیں ! تم ایسا اور پتھر اٹھا لو اور خود اسی کو عمارت میں لگا تے۔‘‘ اس تعمیر میں حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ کو سمت قبلہ بتا رہے تھے۔ اسی


 

 واسطے کہا جاتا تھا کہ اس مسجد کا قبلہ اَعْدَل واَقو َم  ([54])ہے۔([55])

          حضرت عبد اللّٰہ بن رَواحہ خَزر جی شاعر بھی تعمیر مسجد میں شامل تھے اور کام کرتے ہوئے یوں کہتے جاتے تھے:

اَفْلَحَ   مَنْ   یُّعَالِجُ   الْمَسَاجِدَاوَ  یَقْرَئُ  الْقُرْاٰنَ  قَآئِماً  وَّ  قَاعِدَاوَ لَا  یَبِیْتُ  اللَّیْلَ  عَنْہُ  رَاقِدَا

          ’’وہ کامیاب ہے جو مسجدیں تعمیر کرتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے قرآن پڑھتا ہے اور رات کو جاگتا رہتا ہے۔‘‘ ([56])آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبھی ہر ہر قافیہ کے ساتھ آواز ملاتے جاتے تھے۔([57])

مَدینہ میں نزولِ رحمت

          قباء میں چار (چودہ یابیس) روز قیام رہا۔ یہاں سے جمعہ کے دن باطن مدینہ([58])کو روانہ ہوئے۔ مہاجرین وانصار ساتھ تھے۔انصار کے جس قبیلہ پر سے گز رہو تا اس کے سَربَرآوَردَہ ([59])عقیدت مند عرض کرتے: ’’یارسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری نصرت وحمایت میں اترئیے۔‘‘ آپ اِظہارِ مِنَّت ([60])و دعائے خیرکے بعد فرماتے کہ ’’میرا ناقہ مامور ہے، اس کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘ راستے میں بنو سالم خَزْرَجی کے محلہ میں جمعہ کا وقت آگیا۔ آپ نے وادی ذِی صَلْب کی مسجد میں نما زجمعہ مع خطبہ ادا کی۔ یہ آپ کاپہلا جمعہ اور پہلا خطبہ تھا۔ اس طرح بنی بَیَاضَہ، بنی ساعِدَہ اور بنی حارِث بن خَزْرَج سے گزرتے ہوئے بنی عَدِی بن نَجَّار میں پہنچے جو آپ کے دادا عبدالمُطَّلِب کے نَنِہَال تھے۔ سَلِیط بن قیس نجَّاری خَزْرَجی وغیرہ نے نَنِہَالی ر شتہ کو یاد دلا کر اِقامت کے لئے عرض کیا، مگر ان کو بھی وہی جواب ملا۔ بعد ازاں آپ کا ناقہ محلہ مالک بن نجار میں اس جگہ بیٹھ گیا جہاں اب مسجد نبوی ہے۔ پھر اٹھ کر قدرے آگے بڑھا اور مڑ کر پہلی جگہ بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا: ان شآء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یہی منزل ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری خزرجی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کی اجازت سے آپ کا سامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام یہ فرماکر اَلْمَرْئُ مَعْ رَحْلِہِ وہیں تشریف فرما ہوئے۔   ؎

مبارک منزلے کاں خانہ را ماہے چنیں باشد

ہمایوں کشورے کاں عرصہ را شاہے چنیں باشد

          حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری سے جو خوشی مدینہ میں مسلمانوں کو ہوئی اس کا بیان نہیں ہو سکتا۔حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سواری نزدیک پہنچی تو جوش مسرت کا یہ عالم تھا کہ پر دہ نشین عورتیں چھتوں پر نکل آئیں اور یوں گا نے لگیں :   ؎

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ

’’ہم پر چاند نکل آیا وَداع کی گھاٹیوں سے، ہم پر خدا کا شکر واجب ہے جب تک دعامانگنے والا دعامانگے۔‘‘آپ کے ناقہ کابیٹھنا تھا کہ بنو نجار کی لڑ کیاں دَف بجاتی نکلیں اور یوں گانے لگیں :

نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَنِی النَّجَّارٖ

یَاحَبَّذَا   مُحَمَّدٌ   مِّنْ   جَارٖ

’’ہم بنو نجارکی لڑکیاں ہیں ، اے نجاریو! محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیسا اچھا ہمسایہ ہے۔‘‘

آپ نے یہ سن کر ان لڑ کیوں سے پو چھا: کیا تم مجھ کو دوست رکھتی ہو؟ وہ بولیں : ہاں ! آپ نے فرمایا: میں بھی تم کو دوست رکھتا ہوں ۔

           اسی خوشی میں ز ن ومر د، چھوٹے بڑے، گلی کو چوں میں پکاررہے تھے: جَآئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ جَآئَ نَبِیُّ اللّٰہِ حبشی غلام آپ کے قُدُوم مَیْمَنَت لُزُوم ([61])کی خوشی میں ہتھیاروں سے کھیل رہے تھے۔ انسانوں پر کیا موقوف ہے وحوش ([62]) بھی اپنی حرکات وسکنات سے خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔

           جب مدینہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قیام کا انتظام ہو چکا تو آپ نے زید بن حارثہ اور


 

 اپنے غلام ابو رافع کو پانسودر ہم اوردو اونٹ دے کر مکہ میں بھیجا کہ آپ کے عیال کو مدینہ میں لے آئیں ۔ اسی وقت حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عبد اللّٰہ بن اُرَیْقَط دُئَلی(جو کہ مکہ کو واپس جارہا تھا ) کے ہاتھ اپنے صاحبزادے عبد اللّٰہ کو رُقْعَہ  ([63])دے دیا کہ میرے عیال کو مدینہ میں لے آؤ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیوں میں سے حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو ان کے خاوند ابو العاص نے آنے نہ دیا حضرت رُقَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا حبشہ میں تھیں ، اس لئے زید وابو رافع حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزاد یوں حضرت ام کلثوم وفاطمہ اور زوجہ محترمہ حضرت سَودَہ کو اور اُم اَیمن زو جہ زید اور اسامہ بن زید کو لے آئے، اور ان کے ساتھ عبد اللّٰہبن ابی بکر، حضرت عائشہ اور ان کی والدہ ام رُومان اور حضرت اَسماء بنت ابی بکر کو لائے۔یہ سب حارِثہ بن نعمان کے ہاں اُترے۔ ([64])رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ

          حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قیام سات ماہ تک حضرت ابو ایوب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں ہی رہا۔ جب مسجد نبوی کے ساتھ حجر ے تیار ہو گئے تو نقلِ مکان فرمایا۔ اس عرصہ میں بنو نجار نے مہمانی کا حق کَمَا حَقُّہٗ ([65])ادا کیا۔ حضرت ابو ایوب اور سعدبن عبادہ اور سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے خصوصیت سے اس میں حصہ لیا۔ جَزَاہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی خَیْرَالْجَزَاء  ۔ ([66])

تعمیرِ مسجدِ نبوی

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ناقہ جہاں بیٹھا تھاوہ جگہ دونجاری یتیموں (سہیل و سہل) کی تھی، جن کے ولی حضرت اَسعد بن زُرا رہ نجاری خزرجی تھے۔ وہ اس زمین میں کھجوریں خشک کر نے کے لئے پھیلا دیا کر تے تھے۔ اس کے ایک حصہ میں حضرت اسعد نے نماز کے لئے ایک مختصر جگہ بنائی ہوئی تھی جس پر چھت نہ تھی یہاں وہ نماز جمعہ پڑھا کر تے تھے، باقی زمین میں کھجور کے درخت اور مشرکوں کی قبریں اور گڑھے تھے۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہاں مسجد جامع بنانے کا ار ادہ کیا۔ آپ نے ان یتیم بچوں کو بلا بھیجا اور ان سے قیمت پر زمین طلب کی، انہوں نے کہا کہ ہم بلا قیمت آپ کی نذر کرتے ہیں ، آپ نے قبول نہ فرمایا اور قیمت دے کر خریدلی، تعمیر کا کام شروع ہو گیا، قبریں اُکھڑوا کر ہڈیاں کسی دوسری جگہ دبادی گئیں ، درخت کا ٹ دئیے گئے اور گڑھے ہموار کر دئیے گئے، حضور سر ور دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخود بھی کام کر رہے تھے آپ اپنی چادر میں اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے اور یوں فرمارہے تھے:

ہذا الحمال لاحمال خیبر                                                                               ہذا ابر ربنا واطہر

’’اے ہمارے پر وردگار! عَزَّوَجَلَّ یہ اینٹیں خیبر کے تمر وزَ بیب([67])سے زیادہ ثواب والی اور پاکیزہ ہیں ۔‘‘

اور نیز فرمارہے تھے:

اللھم ان الاجر اجر الاٰخرۃ                                                                               فارحم الانصار والمھاجرۃ([68])

’’خدا یا! بیشک اجرصرف آخر ت کا اجر ہے پس تو انصار ومہاجرین پر رحم فرما۔‘‘

          یہ مسجد نہایت سادہ تھی، بنیادیں تین ہاتھ تک پتھر کی تھیں ، دیواریں کچی اینٹوں کی، چھت بَرگِ خُرما ([69]) کی قدآدم سے کچھ اونچی اور ستون کھجور کے تھے، قبلہ بیت المقدس کی طرف رکھا گیا، تین دروازے تھے، ایک جانب کعبہ اور دو دائیں بائیں ۔ جب قبلہ بدل کر کعبہ کی طرف ہو گیا تو جانب کعبہ کا دروازہ بند کر دیا گیا اور اس کے مقابل شمالی جانب میں نیا دروازہ بنا دیا گیا۔ چو نکہ چھت پر مٹی کم تھی اور فرش خام تھا اس لئے بارش میں کیچڑہو جا یا کر تی تھی۔ ایک دفعہ رات کو بارش بہت ہوئی، جو نما زی آتا کپڑے میں کنکریاں ساتھ لا تا اور اپنی جگہ پر بچھا لیتا۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز سے فارغ ہو ئے تو فرمایا: ’’یہ خوب ہے ‘‘ اور کنکروں کا فرش بنو ادیا۔

اَصحابِ  صُفَّہ

          پا یا نِ مسجد([70])میں ایک سائبان تھا جو صُفَّہ کہلا تا تھا اور ان فقر اء و مساکین صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے لئے تھاجو مال ومَنال اور اَہل وعِیال نہ رکھتے تھے۔ ان ہی کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:

 

 

 

 

 

 

 

 

وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ (کہف ،ع۴)

اور روک رکھ جان اپنی ساتھ ان لوگوں کے کہ پکار تے ہیں پروردگار اپنے کو صبح کو اور شام کو چاہتے ہیں رضا مندی اس کی ۔([71])

   ان کی تعداد میں موت یا سفر یا تزوُّج کے سبب سے کمی بیشی ہو تی رہتی تھی۔ بعض وقت ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی تھی۔ باہر سے مدینہ میں اگر کوئی آتا اور شہر میں اس کا کوئی شریف جان پہچان نہ ہوتا تو وہ بھی صُفَّہ میں اتراکر تا تھا۔ حافظ ابو نعیم نے حِلْیَۃُ الا َولیاء میں سے سوسے کچھ اوپر اہل صُفَّہ کے نام گنائے ہیں ۔جن میں حضرات ابو ذَر غفاری، عَمَّار بن یاسر، سلمان فارسی، صُہَیب رُومی، بلال حبشی، ابو ہُرَیرَہ، خَبَّاب بن الا َ رت، حُذَیفہ بن الیَمَان، ابو سعید خُدْرِی، بَشِیر بن الخَصَاصِیہ، ابو مُوَیْہَبَہ(مولیٰ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) وغیرہم مشاہیرمیں سے تھے۔رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین۔([72])

          اہل صُفَّہ پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بڑی نظر عنایت تھی۔ ایک دفعہ غنیمت میں کنیز یں آئی ہوئی تھیں ، اس موقع کو غنیمت سمجھ کر آپ کی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت علی المر تضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم دونوں خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے اور ایک خادمہ کے لئے درخواست کی۔ آپ نے یوں جواب دیا: ’’ اللّٰہکی قسم! یہ نہیں ہونے کا کہ تم کو خادمہ دوں اور اہل صُفَّہ بھوکے مریں ۔ ان کے خرچ کے لئے میرے پاس کچھ نہیں میں ان اسیرانِ جنگ کو بیچ کر ان کی قیمت اہل صُفَّہ پر خرچ کر وں گا۔([73])

ازواجِ مطہر ات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حُجر وں کی تعمیر

          اَزواجِ مطہر ات میں سے اس وقت حضرت سَوْدَہ وحضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی


 

عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عقدمیں آچکی تھیں ان کے لئے مسجد سے متصل دو مکان بنا دیئے گئے۔ بعد ازاں دیگر ازواج کے آنے پر اور مکانات بنتے گئے۔ ان مکانات میں سے پانچ کھجور کی شاخوں سے بنے تھے جن پر کَہْگِل([74]) کی ہوئی تھی۔ ان کے ساتھ کو ئی حجر ہ نہ تھا۔ دروازوں پر کمبل کا پردہ پڑارہتا تھا باقی چار مکان کچی اینٹوں کے تھے جن کی چھت پر کھجور([75]) کی شاخوں کی کَہْگِل کی ہوئی تھی۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ایک حجر ہ کھجور کی شاخوں کا تھا جس کے دروازے پر کمبل کا پر دہ تھا۔ بقول داود بن قیس([76])حجر ہ کے دروازے سے اندرونی کمرہ کے دروازے تک چھ یا سات ہاتھ کا فاصلہ تھا اور اندرونی کمرہ دس ہاتھ کا تھا اور اِرتِفَاع ([77])سات آٹھ ہاتھ کے درمیان تھا۔ حضرت امام حسن بصر ی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بیان ہے کہ میں عہد عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں مُرَاہِق([78])تھا ان مکانات کی چھت کو میں ہاتھ سے چھولیتا تھا۔([79])

          یہ مکانات([80])جانب غربی کے سوا مسجد کے ارد گر دتھے۔ ان کے دروازے مسجد ہی کی طرف تھے اور مسجد سے اس قدر متصل تھے کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمحالت اعتکاف میں مسجد سے سر مبارک نکال دیتے اور ازواج مطہر ات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ گھر میں بیٹھی آپ کے بال مبارک دھودیا کر تی تھیں ۔

          حضرت فاطمہ زہراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا دولت خانہ جانب مشرق حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے حجر ہ سے متصل اس جگہ تھا جہاں اب آپ کی قبر شریف کی صورت بنی ہوئی ہے۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


 

 وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سفر سے تشریف لا تے تو پہلے مسجد میں دوگانہ ادا کر تے، بعد ازاں حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کا حال دریافت فرماتے، پھر اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے گھر وں میں قدم رنجہ فرماتے۔([81])

مہاجرین کے مکانات کی تعمیر

          مہاجرین کی سکونت کے لئے مسجد کے قریب مکانات کا انتظام کیا گیا چنانچہ آقائے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنوزہرہ کو مسجد کی ایک جانب میں ایک خطہ عنایت فرمایا جس میں حضرت عبدالرحمن بن عوف قرشی زہری کے حصہ میں ایک خُرمَاسِتان    ([82])آیا جوان کے نام سے مشہور ومعروف تھا۔ حضرت عبد اللّٰہوعتبہ پسر انِ مسعود ہُذَلی جو بنوزُہْرَہ کے حلیف تھے، ان کے لئے مسجد کے پاس ایک خطہ معین کیاگیا جو ان کے نام سے مشہور تھا۔ حضرت زبیر بن عوام قرشی اسد ی کو ایک وسیع قطعہ ملا، جس میں مختلف اقسام کے درختوں کی جڑ یں تھیں وہ بقیع الزبیر کہلا تا تھا۔ حضرت طلحہ بن عبید اللّٰہ قرشی تیمی کو ان کے گھر وں کی جگہ ملی۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی مسجد کے قریب زمین دی گئی۔ اسی طرح حضرات عثمان بن عفَّان قرشی اُمَوِی، خالد بن وَلید قرشی مخزومی،مِقداد بن اَ سْوَد کِنْدِی اور طفیل بن حارِ ث قرشی مُطَّلَبِی وغیرہم کو زمینیں دی گئیں ۔

          ان قطعات میں سے جو زمینیں بے آباد، غیر مملوکہ تھیں ([83])وہ رسول  اللّٰہ صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بطور خود تقسیم فرمادیں اور جن قطعات میں انصار کے منازل و مکانات تھے وہ انہوں نے رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہبہ کر دیئے اور حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مہاجرین کو عطا فرمادیئے چنانچہ سب سے پہلے حضرت حارِثہ بن نعمان نے اپنے مکانات بطور ہدیہ پیش([84]) کیے۔ بقولِ وَاقِدی منازلِ ([85])حارثہ کی جگہ ہی حضرات امہات المومنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حجر ے بنے۔([86])


 

مسجد نبوی میں چراغ کی ابتداء

          مسجد نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حجرات میں راتوں کو چراغ نہیں ([87])جلتے تھے۔([88])حضرت تمیم داری کے غلام سراج کا بیان ہے کہ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مسجد میں کھجور کی ٹہنیوں اور پتو ں سے روشنی کی جاتی تھی۔ ہم قَنادِیل([89])وروغن زیتون اور رسیاں لائے اور میں نے (قندیلوں کو لٹکا کر) مسجد میں روشنی کی۔ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ دیکھ کر پو چھاکہ ہماری مسجد کو کس نے روشن کیا ہے؟ تمیم نے کہا: میرے اس غلام نے۔ آپ نے پوچھا: اس کا کیا نام ہے؟ تمیم نے کہا: فتح۔ پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بلکہ اس کا نام سراج ہے۔ پس رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرانام سر اج([90])رکھا۔([91])

مواخات

          مہاجرین اپنے وطن سے اہل وعیال اور بھائی بندوں کو چھوڑ کر بے سر وسامان چھپ کر نکلے تھے، اس لئے رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مسجد جامع کی تعمیر کے بعد مہاجرین وانصار میں رشتہ اخوت قائم کیاتاکہ مہاجرین غربت کی وحشت اور اہل و عیال کی مفارقت محسوس نہ کریں اور ایک کو دوسرے سے مدد ملے۔ مہاجرین کی تعداد پینتالیس یا پچاس تھی آپ ہر دوفریق میں سے دودو کو بلا کر فرماتے گئے کہ یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ آپ کا یہ فرمانا تھاکہ وہ در حقیقت بھائی بن گئے چنانچہ جب حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ نے حضرت عبدالرحمن بن عَوف قرشی زُہری اور حضرت سعد بن ربیع انصاری خزرجی میں رشتۂ برادر ی قائم کر دیا تو حضرت سعد نے حضرت عبدالرحمن سے کہا کہ انصارمیں میرے پاس


 

 سب سے زیادہ مال ہے۔ میں اپنا مال آپ کو بانٹ دیتا ہوں ۔ میری دوبیویاں ہیں ، ان میں سے ایک کو جو آپ پسند کریں میں طلاق دے دیتا ہوں ۔ عدت گزرنے پر آپ اس سے نکاح کر لیجئے۔ حضرت عبدالرحمن نے کہا کہ آپ کے اہل اور آپ کا مال آپ کو مبارک ہو۔ کیا یہاں کوئی بازار تجارت ہے؟ انہوں نے بنو قَیْنُقَاع کے بازار کا راستہ بتا دیا۔ حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شام کو نفع کا پنیر اور مکھن ساتھ لائے۔ اسی طرح ہر روزباز ار میں چلے جایا کرتے۔ تھوڑے عرصہ میں وہ مالد ار ہوگئے۔ ایک روزر سول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ان کے بدن پر خوشبو کا نشان تھا۔ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ عرض کی کہ میں نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ مہر کتنا دیا؟ عرض کی کہ پانچ درہم بھر سونا۔ فرمایا کہ ’’ولیمہ دو، خواہ ایک بکری  ہو۔‘‘ ([92])حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرح کئی اور مہاجرین نے بھی تجارت کا کام شروع کر دیا۔

           حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ عقدبر ادری کے بعد انصارنے رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے درخواست کی کہ آپ ہمارے نخلستان ہمارے بھائیوں اور ہم میں تقسیم فرمادیں ۔ آپ نے فرمایا: نہیں ! یہ سن کر انصار نے مہاجرین سے کہا کہ کام (درختوں کو پانی دینا وغیرہ ) تم کیا کرو، ہم تمہیں پھل میں شریک کرلیں گے۔ اس پر سب نے کہا: ’’بسر وچشم‘‘([93])۔([94])یہ مساقات ([95]) کی صورت تھی۔ مگر بعض نخلستان محض مَنِیْحہ ([96]) کے طور پر بھی دیئے ہوئے تھے۔ جن میں کام بھی خودانصار کرتے تھے اور مہاجرین کو پیداوار کانصف دیتے تھے۔

        یہ عقدبرادری نُصْرَت و مُوئَ اسات و تَوارُث پر تھا اس لئے جب کوئی انصاری وفات پاتاتھا تو اس کی جائیداد و مال


 

 مہاجر کو ملتا تھا اور قریبی رشتہ دار محروم رہتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹)(حشر،ع۱)

اور (فی ٔہے واسطے) ان لوگوں کے جنہوں نے مہاجرین سے پہلے دار السلام (مدینہ) اور ایمان میں جگہ پکڑی وہ دوست رکھتے ہیں ان کو جو وطن چھوڑ کر ان کے پاس آتے ہیں اور اپنے دلوں میں کوئی دغدغہ نہیں پاتے اس چیز سے جو مہاجرین کو دی گئی اور انکو اپنی جانوں سے اول رکھتے ہیں اگر چہ خود ان کو تنگی ہو اور جو کوئی اپنے نفس کے حرص سے بچایا جائے وہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔ ([97])

          صحیح ([98]) بخاری میں یہ قصہ مذکورہے کہ ایک بھوکا سائل جناب پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا۔ آپ نے گھر میں دریافت کیا کہ کچھ کھانے کوہے؟ جواب آیا: صرف پانی۔ آپ نے فرمایا کہ کون ہے جو اس کو اپنا مہمان بنا ئے؟ ایک انصاری نے کہا: میں حاضر ہوں چنانچہ وہ اسے اپنے گھر لے گیا اور بیوی سے کہا کہ رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مہمان کو کھانا کھلاؤ، وہ بولی کہ صرف بچوں کی خوراک موجود ہے، کہا کہ تو وہ کھانا تیار کر اور چراغ روشن کر کے کھانے کے وقت بچوں کو سلا دینا، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب میاں بیوی اور مہمان کھانے پر بیٹھے تو بیوی نے بتی اکسانے کے بہانہ سے اٹھ کر چراغ گل کر دیا۔ میاں بیوی بھوکے رہے اور اس طرح ہاتھ چلا تے رہے کہ گویا کھارہے ہیں ۔ صبح کووہ انصاری رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ رات  اللّٰہ تعالٰی تمہارے نیک کام سے راضی ہوا اور وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰیٓ اَنْفُسِہِم الآیۃ نازل فرمائی۔ ([99])

          جب   ۴ھ ؁میں بنو نَضِیر جِلاو طن ہوئے اور ان کے اَموال (اراضی ونخلستان) رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

 وَسَلَّم کے قبضہ میں آئے تو آپ نے تمام انصار کو بلا کر فرمایا: ([100])اگر تم چاہتے ہو تو میں بنو نضیر کے اموال تم میں اور مہاجرین میں تقسیم کر دیتا ہوں اور مہاجرین تمہارے گھر وں اور اموال میں بد ستور رہیں گے اور اگر تم چاہتے ہو تو یہ اموال مہاجرین کو بانٹ دیتا ہوں اور وہ تمہارے گھروں اور اموال سے بے دخل ہوجائیں گے۔ حضرات سعد بن عُبَادہ اور سعد بن مُعاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے عرض کیا: یارسول  اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان اموال کو آپ مہاجرین میں تقسیم کر دیجئے، وہ ہمارے گھر وں اور اموال میں بد ستور رہیں گے، یہ سن کر انصار بو لے یارسول  اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم اس پر راضی ہیں ۔ اس پر رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’خدا یا! تو اَنصار اور اَبنائے اَنصار([101])پر رحم فرما۔‘‘ اس طرح حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اموال بنی نضیر صرف مہاجرین میں تقسیم فرمادیئے۔([102])

          ۸  ؁ہجری میں رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عَلاء بن الحَضْرَمی کو بغر ضِ تبلیغ ولایت بحرین ([103])میں بھیجا۔ مُنْذِرْبن ساویٰ حاکم ِبحرین اور وہاں کے تمام عرب ایمان لا ئے باقی اہل ِبحرین (مجوس ویہودو نصاریٰ) نے جِزْیَہ پر صلح کرلی۔ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انصار کو بلا یاتا کہ بحر ین کا جز یہ وخراج انصار کے لئے لکھ دیں ، مگر انصارنے عرض کیا: ’’نہیں!([104])اللّٰہ کی قسم! ایسا نہ کیجئے، یہاں تک کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے قریشی بھائیوں کے لئے اتنا ہی مال لکھ دیں۔‘‘([105])

          جب ۷ھ؁میں خیبر فتح ہو ا تو مہاجرین کے حصہ میں اس قدر مال آیا کہ ان کو انصار کے نخلستان کی حاجت نہ رہی، اس لئے انہوں نے وہ نخلستان جو بطورِ اباحت ان کے پاس تھے انصارکو واپس کر دیئے۔([106])


 

اذان کی ابتداء

          جب مدینہ منورہ میں مسجد جامع تیار ہو چکی تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ خیال آیا کہ مسلمانوں کو نماز کے لئے کس طرح جمع کیاجائے۔ آپ نے اپنے اصحاب کرام سے مشورہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ایک وقت اور ایک مکان میں اجتماع بغیر اِعلام([107])وآگاہی کے نہیں ہو سکتا، اس لئے صحابہ کرام رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اِعلام کے لئے کئی طریقے پیش کیے، بعض نے کہا کہ آگ روشن کر کے اونچی کردی جائے مسلمان اسے دیکھ کر جمع ہوجایا کریں گے۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بو جہ مشابہت ِمجوس اس طریقہ کو پسند نہ فرمایا، بعضوں نے ناقوس([108])  تجویز کیا، مگر بو جہ مشابہت نصاریٰ یہ تجویزرد کر دی گئی۔ اس طرح بُوق([109])کو بو جہ مشابہت یہود پسند نہ کیا گیا۔ حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ مشورہ دیاکہ ایک شخص کو نماز کے وقت بغرض اعلام بھیج دیا جائے۔ اس پر رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا کہ اٹھ کر نماز کے لئے نداکر دے، چنانچہ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یوں ندا کر دیا کرتے: ‘’ الصلٰوۃ جامعۃ ‘‘ اسی اثنا میں حضرت عبد اللّٰہ بن زید انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو خواب میں ان سب سے بہتر طریق بتلا دیاگیااور وہ مُرَوَّجَہ ([110])اذان شرعی ہے۔ حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنا خواب بار گاہِ رسالت میں عرض کیا۔ حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ پر اس سے پہلے اس بارے میں وحی آچکی تھی اس لئے آپ نے سن کر فرمایا کہ بیشک یہ رُویا([111]) حق ہے ان شآء اللّٰہ تعالٰی اور حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا کہ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کلمات ِاذان کی تلقین کر دو وہ اذان دیں گے کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند اور نرم وشیر یں ہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔([112])

یہود سے معاہدہ

          اسی سال رسول  اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مسلمانوں اور یہود مدینہ کے درمیان ایک معاہدہ تحریر


 

 فرمایا، جس کی شرائط کی پو ری تفصیل سیرت ابن ہشام میں ہے، ان شرائط کا خلاصہ یہ ہے :

{1} …خون بہااور فدیہ کا طریقہ سابقہ قائم رہے گا۔

{2} …ہر دوفریق کو مذہبی آزادی ہو گی، ایک دوسرے کے دین سے تعرض نہ کریں گے۔

{3} …ہر دوفریق ایک دوسرے کے خیر خواہ رہیں گے۔

{4}… اگر ایک فریق کو کسی سے لڑائی پیش آئے تو دوسرااس کی مدد کرے گا۔

{5} …اگر فریقین میں ایسا اختلاف پیدا ہو جائے کہ جس سے فساد کا اند یشہ ہو تو اس کا فیصلہ خدا اور رسول  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر چھوڑ دیا جائے گا۔

{6} …کوئی فریق، قریش اور ان کے معاونین کو امان نہ دے گا۔

{7} …اگر کوئی دشمن یثرب پر حملہ آور ہو تو ہر دوفریق مل کر اس کا مقابلہ کر یں گے۔

{8} …اگر ایک فریق کسی سے صلح کرے گا تو اس مصالحت میں دوسرا فریق بھی شامل ہوگا مگر مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ ہوگی۔([113])

مسجد سے محبت کی فضیلت

حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسلَّم کا فرمانِ اُلفت نشان ہے: ’’جو مسجد سے الفت (محبت) رکھتا ہے اللّٰہ تعالٰی اس سے الفت رکھتا ہے۔‘‘  (المعجم الاوسط للطبرانی،الحدیث:۶۳۸۳،ج۴،ص۴۰۰)

حضرت علامہ عبد الرؤف مناوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : مسجد سے الفت اس طرح ہے کہ رضائے الٰہی کیلئے اس میں اعتکاف، نماز، ذکر اللّٰہ  اور شرعی مسائل سیکھنے سیکھانے کیلئے بیٹھے رہنے کی عادت بنانا ہے۔ اور اللّٰہ تعالٰی کا اس بندے سے محبت کرنا اس طرح ہے کہ اللّٰہ تعالٰیاس کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ عطا فرماتااور اس کو اپنی حفاظت میں داخل کرتا ہے ۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر،تحت الحدیث:۸۵۲۴،ج۶،ص۱۱۲)


 

ہجرت کا دوسراسال

تحویل ِقبلہ :

          نماز اسلام کا ایک رکن ہے اور نماز کی روح خشوع ہے، خشوع کے لئے باطنی یکجہتی کے ساتھ ظاہری یکجہتی بھی درکار ہے کیونکہ ظاہر کا اثر باطن پر ضرور پڑ تا ہے اور مقصودِ اصلی کو تقویت پہنچتی ہے۔ نمازِ جماعت وجمعہ میں اتحادِ جہت کا اثر جو دوسرے نماز یوں پر پڑتا ہے محتاجِ بیان نہیں اس لئے نماز میں ایک جہت کا تَعیُّن ضروری ہے مگر اس میں انسانی عقل کو دخل نہیں بلکہ جوذاتِ پاک سزا وارِ عبادت ([114])ہے یہتَعیُّن  اسی کا حق ہے۔

          رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہلے مکہ میں کعبہ کی طرف نماز پڑ ھا کرتے تھے ہجرت کے بعد بحکم الٰہی بنا بر حکمت ومصلحت ِوقت بیت المقدس آپ کا قبلہ مقرر ہوا، چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سو لہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑ ھی۔ یہود آپ پر طعن کیا کر تے تھے کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)ہماری مخالفت کر تے ہیں مگر قبلہ میں ہمارے تابع ہیں اس لئے آپ کی یہ آرزو ر ہی کہ ملت ِابر اہیمی کی طرح میرا قبلہ بھی ابر اہیمی ہی ہو۔ مدتِ مذکورہ کے بعد اللّٰہ تعالٰی نے آپ کی یہ آرزوپوری کر دی:

قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ- (البقرۃ،ع۱۷)

بیشک ہم دیکھتے ہیں تیرے منہ کا پھرنا آسمان کی طرف پس ضرور ہم پھیریں گے تجھ کو اس قبلہ کی طرف کہ تو اسے پسند کر تا ہے۔ پس پھیر منہ اپنا مسجد حرام کی طرف اور جس جگہ تم ہواکرو پس پھیرومنہ اپنے اس کی طرف۔([115])

           اس تحویل کی کیفیت یہ ہے کہ نصف رجب یومِ دو شنبہ ([116])یا نصف شعبان یوم ِسہ شنبہ([117]) کو حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممسجد بنی سلمہ میں نماز ظہر پڑ ھا رہے تھے تیسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ وحی الٰہی سے آپ نے نماز ہی


 

میں کعبہ کی طرف رخ کر لیا اور مقتدیوں نے بھی آپ کا اتباع کیا۔ اس مسجد کو ‘’مسجد قِبْلَتَیْن’‘ کہتے ہیں ۔ ایک نمازی جو شامل جماعت تھا عصر کے وقت مسجد بنی حارثہ میں گیا اس نے دیکھا کہ وہاں انصار نماز عصر بیت المقدس کی طرف پڑ ھ رہے ہیں اس نے تحویل ِقبلہ کی خبر دی۔ وہ لوگ نماز ہی میں کعبہ رخ ہوگئے۔ دوسرے روز قباء میں عین اس وقت خبر پہنچی جب کہ لوگ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے بھی اسی حال میں اپنا رخ بدل کر کعبہ کی طرف کر لیا۔ ([118])

         تحویل ِقبلہ یہودیوں پر سخت نا گوار گزرا، وہ اس پر اعتراض کرنے لگے۔ان کا اعتراض اور اس کا جواب قرآنِ کریم میں یوں مذکورہے:

{۱} سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَاؕ-قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُؕ-یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۴۲) (البقرۃ،ع۱۷)

اب کہیں گے لوگوں میں سے بیوقوف کس چیز نے پھیرا ان کو ان کے قبلے سے جس پر وہ تھے کہہ دے اللّٰہ کی ہے مشرق اور مغرب چلا تا ہے جسے چاہتا ہے سید ھی راہ کی طرف۔ ([119])

{۲} وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِؕ-وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُؕ- (البقرۃ،ع۱۷)

اور نہیں مقررکیا ہم نے قبلہ اسکو جس پر تو پہلے تھا (یعنی کعبہ ) مگر اسی واسطہ کہ معلوم کریں کون تابع رہے گا رسول کا اور کون پھر جاوے گا الٹے پاؤں اور البتہ یہ قبلہ ہے شاق ودشوار مگر ان لوگوں پر جن کو راہ دکھائی اللّٰہ نے (حکمت ِاحکام کی) ۔ ([120])

           پہلی آیت میں ان کا اعتراض نقل کر کے یوں جواب دیا گیا کہ شرق وغرب بلکہ جِہاتِ سِتَّہ ([121])سب خدا عَزَّوَجَلَّ


 

کی ہیں ، اس کو کسی خاص جہت سے خصوصیت نہیں کیونکہ وہ مکان وجہت([122])سے پاک ہے وہ جس جہت کو چاہے قبلہ مقرر کر دے ہمارا کام اطاعت ہے۔ دوسری آیت میں مذکور ہے کہ تحویل قبلہ اس واسطے ہو اکہ ثابت و مُتَزَلزَل میں ([123])تمیز ہو جائے۔

 غزوات و سَرایا کاآغاز

          اسی سال سلسلہ غَزَوات و سَرایا شروع ہو تا ہے۔ محدثین واَہل سِیَر ([124])کی اِصطلاح میں غزَوہ وہ لشکر ہے جس میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بذات اقدس شامل ہوں اور اگر حضور  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بذات شریف شامل نہ ہوں بلکہ اپنے اصحاب میں سے کسی کو دشمن کے مقابلہ میں بھیج دیں تو وہ لشکر سَرِیَّہ کہلاتا ہے۔ غزوات تعداد میں ستائیس ہیں ۔  جن میں سے نو میں قتال وقوع میں آیا ہے اور وہ یہ ہیں : بَدْر، اُحُد، مُرَیْسِیْع، خندق، قُرَیْظَہ، خیبر، فتح مکہ، حُنَین، طائف۔ سرایا کی تعداد سینتا لیس ہے۔ نظر بر اِختصار ہم سر ایا کو پَس اَنداز کر کے([125])غزوات وبعض دیگر وَقائع ([126])کا حال سنہ وار پیش کرتے ہیں ۔

          ہجرت کے بعد بھی کفار قریش مسلمانوں کے مذہبی فرائض کی بجاآوری میں مُزَاحِم ہوتے([127])تھے اور اسلام کے مٹانے کی کوشش کرتے تھے بلکہ دیگر قبائل کو بھی مسلمانوں کی مخالفت پر برانگیختہ کر تے ([128])تھے، اس لئے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مختلف اَغراض کے لئے اپنے اصحاب کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں (سرایا) اَطرافِ مَدینہ میں بھیجنی شروع کیں بلکہ بعض دفعہ خود بھی شرکت فرمائی۔کہیں دشمن کی نقل و حرکت کی خبر لانے کے لئے کہیں بعض قبیلوں سے معاہدہ قائم کر نے کے لئے اور کہیں محض مُدَافَعَت کے لئے ایسا کیا گیا۔ ہاں ایک غرض یہ بھی تھی کہ قریش کی شامی تجارت کا راستہ بند کر دیا جائے اور یہ وہی بات ہے جس کی دھمکی حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ہجرت کے بعد ابوجہل کو خاص خانہ کعبہ میں یوں دی تھی کہ اگر تم نے([129])ہم کو طواف کعبہ سے روکاتو ہم تمہارا مدینہ کا راستہ بند کر دیں گے،([130]) چونکہ قریش با لعموم مسلمانوں کو حج وعمرہ سے روکتے تھے اس لئے مجبور اً مسلمانوں کو ان کے تجارتی قافلوں سے تَعَرُّض


 

 کرنا پڑا ([131])تاکہ مذہبی مُداخلت سے باز آجائیں ۔

           ‘’غزوۂ اَبواء’‘([132])اسی سال کے ماہِ صفر میں ، ‘’غزوۂ بُوَاط’‘([133])وغز وۂ بَدْر اُولیٰ ماہ ِربیع الا وَّل میں اور’’غزوۂ ذُوالعُشَیْرَہ’‘([134]) ماہِ جُمَادَی الا ُخریٰ میں ہوا۔بَدْرِ ([135])اُولیٰ کُرْزبن جابر فِہرِ ی کی گو شمالی([136])کے لئے تھا جو مدینہ منورہ کے اونٹ ہانک لے گیا تھا۔ باقی تینوں قافلۂ قریش سے تَعَرُّض کے لئے تھے مگر ان میں سے کسی میں بھی مقابلہ نہیں ہوا۔

          غزوۂ ذُوالعُشَیْرَہ کے بعد ماہ رجب میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے پھوپھی زادبھائی حضرت عبداللّٰہبن جحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو آٹھ یا بقولِ بعض بار ہ مہاجرین کی جمعیت کے ساتھ نخلہ([137])کی طرف روانہ کیا۔وہ نخلہ میں پہنچ کر قافلہ قریش کے منتظر رہے۔ نا گاہ ([138])قریش کے اونٹوں کا قافلہ جن پر وہ شرابِ مُنقّٰی اور چمڑا وغیرہ مالِ تجارت طائف سے لارہے تھے ان کے قریب اترا۔ اس قافلے میں عَمرْ و([139])بن حَضْرَمی، عثمان بن عبداللّٰہ بن مُغِیرَہ اور اس کا بھائی نَوفَل بن عبداللّٰہ اور ابوجہل کے باپ ہِشام بن مُغِیرَہ کا آزاد کردہ غلام حَکَم بن کَیْسَان تھے۔ فریقین میں مقابلہ ہوا، اس میں حضرت واقِد بن عبداللّٰہ تَمِیمِی نے ایک تیر سے عَمرْ وبن حَضْرَمی کا کام تمام کردیا۔ عثمان بن عبداللّٰہ اور حَکَم بن کَیْسَان گرفتار ہوئے اور باقی بھاگ گئے۔ حضرت عبداللّٰہبن جحش دونوں اَسیر وں اور مال غنیمت کو لے کر حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور نے غنیمت تقسیم فرمادی۔ حضرت حَکَم بن


 

 کَیْسَان اسلام لائے عثمان بن عبداللّٰہ کوچھوڑدیا گیا، وہ مکہ میں چلاگیااورکفرپرمرا۔([140])

         اسی سال کے ماہ شعبان میں ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے اور ماہ رمضان میں ’’ غزوۂ بَدْرثانیہ ‘‘ وُقوع میں آیا۔

غزوۂ بَدْر کُبریٰ

          ’’غزوۂ بَدْر‘‘ سب سے بڑا غزوہ ہے۔ا س کا سبب عَمرْ وبن حَضْرَمی کا قتل اور قافلہ قریش کا شام کی طرف سے آنا تھا۔ یہ وہی قافلہ تھا جس کے قصدسے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمذُوالعُشَیْرَہ تک تشریف لے گئے تھے۔ امیر قافلہ ابو سُفْیان تھا۔اس قافلے میں قریش کا بہت سامال تھا۔ جب یہ قافلہ بَدْر کے قریب پہنچا تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو خبر لگی آپ نے فوراً مسلمانوں کو نکلنے کی دعوت دی۔ اس لئے جلدی سے تیاری کرکے آپ بتاریخ ۱۲ ماہِ رمضان بروز ہفتہ مدینہ سے نکلے اور مدینہ منورہ سے ایک میل کے فاصلہ پر’’بِئْرِ اَبِی عُتْبَہ’‘([141])پر لشکر گاہ مقرر ہوا۔ یہاں لشکر کا جائز ہ لینے کے بعد آپ نے صغیرالسِن([142])صحابہ (مثلاًابن عمر، بَراء بن عازِب، اَنَس بن مالک ، جابر، زیدبن حارِث اور رَافع بن خَدِیج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ) کو واپس کر دیا اور باقی کو لے کر روانہ ہوئے۔

           حضرت سعد بن ابی وقاص کے بھائی عُمیر([143])جن کی عمر سولہ سال کی تھی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے آنکھ بچارہے تھے کیونکہ ان کو شہادت کا شوق تھامگر ڈرتے تھے کہ کہیں چھوٹی عمر کے سبب واپس نہ کردیئے جائیں چنانچہ جب پیش ہوئے توواپسی کا حکم ملا۔ اس پر آپ رونے لگے لہٰذا اس رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے شمولیت کی اجازت دے دی بلکہ ان پر خود اپنی تلوار کا پَرتَلہ([144])لگا دیا۔([145])


 

          واضح رہے کہ مسلمان محض قافلہ قریش سے تَعَرُّض([146])کے لئے نکلے تھے ان کو علم نہ تھا کہ فوج قریش سے مقابلہ کر نا پڑے گا۔اس لئے فوری ناتمام تیاری کی گئی۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ’’جس کا سواری کا اونٹ مو جود ہو وہ سوار ہو کر ہمارے ساتھ چلے۔‘‘ انصار آپ سے ان اونٹوں کے لا نے کے لئے جو مدینہ کے حصہ بالائی میں تھے اجازت مانگنے لگے۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں صرف وہی ساتھ چلے جس کا سواری کا اونٹ حاضر  ہے۔‘‘ ([147]) 

          آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ صرف ستراونٹ دوگھوڑے اور تین سو آٹھ مجاہدین تھے۔جن میں سے مہاجرین کچھ ساٹھ سے اوپر تھے اور باقی سب انصار تھے۔ آٹھ صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور تھے جو بو جہ عذرشامل نہ ہو سکے۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کو بھی غنیمت میں سے پورا حصہ دیالہٰذا یہ بھی اصحابِ بَدْر میں شامل ہو تے ہیں ۔ ان آٹھ میں سے تین تو مہاجرین تھے۔ یعنی حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو اپنی اہلیہ حضرت رُقَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  بنت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تیمارداری کے لئے حضور ہی کے ارشاد سے مدینہ منورہ میں رہ گئے تھے اور حضرت طلحہ بن عبید اللّٰہاور سعید بن زید ( ہر دو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ) جن کو حضور نے روانگی سے دس روز پیشتر قافلہ قریش کی خبر لا نے کے لئے بھیج دیا تھااور وہ آپ کی روانگی کے بعد مدینہ میں واپس آئے تھے اور پانچ انصار تھے۔ یعنی ابو لُبَابَہ بن عبدالمُنْذِر جن کو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنی غَیْبَت میں مدینہ کا حاکم مقرر کیا ([148])۔ عاصِم بن عَدِی العَجْلانی جو رَوحا([149]) سے ضربِ شدید کے سبب واپس کر دیئے گئے اور مدینہ منورہ کی


 

 بالائی آبادی (عالیہ ) کے حاکم بنائے گئے۔ حارِث بن حاطِب العمر ی جن کو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے روحاسے کسی خاص کا م کے لئے بنو عَمر وبن عَوْف کے پاس بھیج دیا۔ حارث بن الصَّمَّہ جو رَوحاء میں ٹانگ پر ضرب شدید آنے کے سبب واپس کر دیئے گئے اور خَوَّات بن جُبَیر جو اَثنا ئے راہ میں ساق([150])  پر پتھر لگنے کے سبب مقام صفرا([151]) سے واپس کر دیئے گئے۔([152])

          سواری کے لئے تین تین مجاہدین کو ایک ایک اونٹ ملا ہوا تھا۔ چنانچہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت علی اور حضرت مَرثَد غَنَوِی([153]) ایک اونٹ پر اور حضرت ابو بکر وحضرت عمر و حضرت عبدالرحمن بن عوف دوسرے پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمروحاء سے چل کر صفر اء کے قریب پہنچے تو آپ نے حضرت بَسْبَس بن عَمرْو اور عَدِی بن اَبی الزَّغْبَاء کو قافلہ قریش کی خبر لا نے کے لئے بھیجا۔ وہ بَدْرمیں پہنچے اور وہاں سے یہ خبر سن کر آئے کہ قافلہ کل یا پر سوں ([154]) بَدْر میں پہنچے گا۔ ابو سفیان کو شام میں خبر لگی تھی کہ حضرت قافلہ کی واپسی کا انتظارکر رہے ہیں ۔اس لئے اس نے حجاز کے قریب پہنچ کر ضَمْضَم بن عَمر و کو بیس مِثقال سونے کی اُجرت پر مکہ میں قریش کے پاس بھیجا تا کہ ان کو قافلہ کے بچا نے کی ترغیب دے۔ چنانچہ ضَمْضَم اونٹ پر سوار ہو کر فوراً روانہ ہو گیا۔

          مکہ پہنچ کر ضَمْضَم نے اپنے اونٹ کے ناک کان کا ٹ دیئے تھے۔کجاوہ اُلٹ دیا تھا اور اپنی قمیص پھاڑ دی تھی۔ اس ہیئت َکذائی میں ([155]) وہ اپنے اونٹ پر سوار، یوں پکار پکار کر کہہ رہاتھا: ’’اے گر وہ قریش! قافلہ تجارت! قافلہ تجارت! تمہارا مال ابو سفیان کے ساتھ ہے۔ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)اور اس کے اصحاب اس کے سَدِّر اہ  ([156]) ہو گئے ہیں ۔  میں


 

 خیال نہیں کر تا کہ تم اسے بچا لوگے۔ فریاد! فریاد!۔‘‘ یہ سن کر قریش کہنے لگے: کیا محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اور اس کے اصحاب گمان کر تے ہیں کہ یہ قافلہ بھی عَمرْ وبن حَضْرَمی کی مانند ہو گا! ہر گز نہیں ۔ اللّٰہکی قسم! اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ ایسا نہیں ۔ غرض قریش جلد ی نکلے اور ان کے اشراف میں سے سوائے ابولہب کے کوئی پیچھے نہ رہا اور اس نے بھی اپنے عوض ابو جہل کے بھائی عاص بن ہشام کو بھیجا اور چار ہزار درہم جو بطورِ سود اُس سے لینے تھے اس صلے میں اس کو معاف کردئیے۔ اُمَیَّہ بن خلف نے بھی پیچھے رہ جانے کاارادہ کیا تھا کیونکہ اس نے حضرت سعد بن معاذ سے ہجرت کے بعد مکہ مشرفہ میں سنا تھا کہ وہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور آپ کے اصحاب کے ہاتھ سے قتل ہو گا مگر ابوجہل نے کہا: تو اہل وادی مکہ کا سر دار ہے اگر تو پیچھے رہ گیا تو دوسرے بھی دیکھا دیکھی تیرے ساتھ رہ جائیں گے۔ غرض پَس وپَیْش ([157])کے بعد ابو جہل کے اِصر ار پر وہ بھی ساتھ ہو لیا۔([158])

          قریش جب بڑے سازوسامان سے اس طرح چلنے کو تیار ہو گئے تو انہیں بنو کنانہ کی طرف سے اند یشہ پیدا ہوا کیونکہ بَدْر سے پہلے قریش وکنانہ میں لڑائی جاری تھی۔ اس لئے قریش خائف تھے کہ مبادا ([159])کینہ سابق ([160])کے سبب ہمارے پیچھے ہم کو کوئی ضرر پہنچا ئیں ۔ اس وقت ابلیس([161])بصورت سُراقہ بن مالک ظاہر ہوا جو کنانہ کا سردار تھا، اور کہنے لگا: میں ضامن ہوں تمہارے پیچھے، بنو کنانہ سے تمہیں کوئی ضرر نہ پہنچے گا۔ میں تمہارے([162])ساتھ ہوں ۔ اس طرح ابلیس لعین بصورتِ سُراقہ لشکر قریش کے ساتھ تھا۔ علاوہ از یں اہل مکہ کے ساتھ گا نے والی عورتیں اور آلات مَلا ہی([163])بھی تھے۔ رسد کا انتظام ([164])یہ تھا کہ اُمَرائے قریش عباس، عُتْبہ بن رَبِیعہ، حارِث بن عامر، نَضْربن حارث، ابوجہل، اُمَیَّہ وغیرہ باری باری ہر روز دس دس اونٹ ذبح کر تے اور لوگوں کو کھلاتے تھے۔عُتْبہ بن رَبِیعہ جو قریش کا سب سے معزز ر ئیس تھا فوج کا سپہ سالا رتھا۔


 

          جب ابو سفیان مدینہ کے نواح میں پہنچااور قریش کی کُمَک ([165]) اس کی مدد کونہ پہنچی تو وہ نہایت خوفزدہ ہواکہ کہیں مسلمان کَمِین گاہ ([166])میں نہ ہوں ۔ اسی حال میں وہ بَدْر میں جا پہنچا وہاں اس نے مَجْدی بن عَمْر و سے پوچھا: کیا تو نے محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے جاسوسوں میں سے کسی کو دیکھا ہے؟ مجدی بولا: ’’اللّٰہکی قسم! میں نے کسی اجنبی شخص کو نہیں دیکھا، ہاں اس مقام پر دوسوار آئے تھے۔یہ کہہ کر عَدِی و بَسْبَس کے مُنَاخ([167])کی طرف اشارہ کیا۔ابوسفیان نے ان کے اونٹوں کی مینگنیوں کو لے کر تو ڑا تو کیا دیکھتا ہے کہ ان میں کھجور کی گٹھلیاں ہیں ۔ کہنے لگا: ان اونٹوں ([168])نے یثرب کی کھجوریں کھائی ہیں ۔ وہ تو محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے جاسوس تھے لہٰذا اس نے اپنے قافلے کے اونٹوں کے منہ پھیر دیئے اوربَدْر کو بائیں ہاتھ چھوڑ کر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ مکہ کو روانہ ہو ا۔ جب وہ قافلے کو محلِ خَطَر سے بچا لے گیا تو اس نے قیس بن اِمرَیٔ ُالقَیس کے ہاتھ قریش کو کہلا بھیجاکہ میں نے قافلے کو بچا لیا ہے لہٰذا تم واپس چلے جاؤ۔ یہ قاصد جُحْفَہ([169])میں قریش سے ملا اور انہیں ابو سفیان کا پیغام پہنچا یا۔ قریش نے واپس ہو نے کا ارادہ کیامگر ابوجہل بو لا کہ ہم([170]) بَدْر سے وَرے([171]) واپس نہ ہوں گے۔ وہاں تین دن ٹھہریں گے، اونٹ ذبح کریں گے اور کھائیں کھلائیں گے۔ شراب پئیں گے اور راگ سنیں گے۔ اس طرح قبائل عرب کے اَطراف میں ہماری عظمت و شوکت کا آوازہ پھیل([172])جائے


 

 گا ([173]) اور وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں گے۔ پس ابو جہل کی رائے پر عمل کیا گیا۔ جُحْفَہ ہی میں اَخْنَس([174]) بن شَرِیق الثَقَفِی نے اپنے حلیف بنو زُہر ہ کو جوایک سو اور بقول بعض تین سو مردتھے مشور ہ دیا کہ واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اس طرح بنو عدی بن کعب جو قریش کے ساتھ آئے تھے ثَنِیَّۂ لَفْت سے واپس لوٹ گئے اور واپسی میں ابو سفیان ان سے ملا اور کہنے لگا: اے بنو عدی! تم کیونکر لوٹ آئے۔لاَ فِی الْعِیْر وَلاَ فِی النَّفِیْر۔([175]) ( نہ قافلے میں اورنہ قریش میں ) وہ بولے کہ تو نے ہی تو قریش کو لوٹ جانے کا پیغام بھیجاتھا۔ غرض بنو زُہر ہ اور بنو عَدِی کے سوا تمام قریش کے قبائل لڑائی میں شامل تھے۔([176])

          مقام صَفْر اء کے نزدیک وادی ذَفِرَان میں حضور ِاَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام دوجماعتوں میں سے ایک کا وعدہ لا ئے۔ پس آپ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ کیا اور پو چھا کہ تم کیا چاہتے ہو، عِیر (قافلہ) یا نَفِیر (گروہ قریش ) مسلمان چونکہ محض قافلہ کے قصد سے نکلے تھے، تعداد بھی کم تھی اور سامان جنگ بھی کافی نہ تھا، اس لئے ایک فریق اس حالت میں لڑائی سے ہچکچا تا تھا۔([177]) وہ بولے: عِیر۔ یہ سن کر


 

 حضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمناخوش ہو ئے ،لہٰذا ابو بکر صدیقرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور خوب([178])کہا۔ پھر حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تقریر کی اور اچھی کی۔ پھر حضرت مِقْداد بن عَمْرورَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کھڑے ہو ئے اور بولے کہ ’’یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ تعالٰی نے جو آپ کو بتایا ہے وہ کیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں ، اللّٰہکی قسم! ہم([179])نہیں کہتے جیسا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکی قوم نے کہاتھا: فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ  ([180])بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے لڑیں گے۔‘‘ یہ سن کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخوش ہو ئے اور حضرت مِقْداد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں دعا ئے خیر فرمائی۔پھر آپ نے انصار کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ مجھے مشورہ دو۔ انصار کی طرف اشارہ کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بیعت عُقْبہ کے وقت کہا تھا: ([181])’’یارسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہم آپ کے ذِمام یعنی عہد سے بری ہیں یہاں تک کہ آپ ہمارے دِیارمیں پہنچ جائیں جب آپ ہمارے دیا ر میں پہنچیں گے تو ہمارے امان وعہد میں ہوں گے اور ہم آپ کی حمایت کریں گے ہرایسے امر سے کہ اس سے ہم اپنی اولاد اور عورتوں کی حمایت کر تے ہیں ۔‘‘ چونکہ اس عبارت سے ایک طرح کا وَہْم ہو تا تھاکہ انصار پر صرف مدینے میں ہی حضور کی حمایت واجب تھی، لہٰذا آپ نے اس مقام پر مَحْض ان کے حال سے اِسْتِکشَاف واِسْتِمزَاج کے لئے ایسا کیا۔([182])  انصار نے جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ارشاد سنا تو حضرت سعد بن معاذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو اَکا بر ِاَنصار میں سے تھے یوں جواب دیا: ([183])’’ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور شاہد ہیں اس امر پر کہ جو کچھ آپ لائے ہیں وہی حق ہے


 

 اور اس تصدیق پر ہم نے آپ کو اپنی اطاعت کے عہد ومواثیق دیئے ہو ئے ہیں ۔ یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اللّٰہکی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، اگر آپ ہمارے ساتھ اس سمندر کوعبور کر نا چاہیں اور اس میں کو دپڑ یں تو بیشک ہم بھی آپ کے ساتھ اس میں کو دپڑیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں یہ نا گوار نہیں کہ کل کو آپ ہمیں ساتھ لے کر دشمن کا مقابلہ کریں ۔ہم لڑائی میں صابر اور دشمن کے مقابلے کے وقت صادق ہیں ۔ شاید اللّٰہ تعالٰی مقابلے میں ہمارے ہاتھ سے آپ کو وہ دکھائے کہ جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈ ی ہوں ، لہٰذا آپ ہم کو اللّٰہکی برکت سے لے چلیں ۔‘‘ حضور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمحضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اس قول سے خوش ہو ئے اور فرمایاکہ’’ اللّٰہکی برکت سے چلو! اللّٰہ تعالٰی نے مجھ سے دوباتوں (قافلہ اور فوجِ قریش ) میں سے ایک ([184])کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اللّٰہکی قسم ! گو یا میں قریش کی موت کی جگہوں کو دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ یہاں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جھنڈے تیار کیے۔سب سے بڑا جھنڈ ا مہاجرین کا تھا جو حضرت مُصْعَب بن عمیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں تھا اور قبیلہ خزرج کا جھنڈا حضرت حباب بن المنذررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تھا اور قبیلہ اَوس کاجھنڈا حضرت سعدبن معاذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اٹھایا ہو اتھا۔ مشرکین کے ساتھ بھی تین جھنڈے تھے۔ ایک ابو عزیر بن عمیردوسر انضر بن حارث اور تیسرا طلحہ بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبتا ریخ ۷ا ماہِ رمضان جمعہ کی رات کو بَدْر میں قریب کے میدان میں اترے اور قریش دوسری طرف اترے۔([185]) حضور


 

انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرات علی وزبیر و سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو مشر کین کا حال دریافت کر نے کے لئے بھیجا وہ قریش کے دوغلام پکڑلائے۔ اس وقت حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنمازپڑھ رہے تھے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ان([186]) غلاموں سے پوچھا: کیا تم ابوسفیان کے ساتھی ہو؟ انہوں نے جواب دیاکہ ہم تو قریش کے سقے ہیں ۔ قریش نے ہمیں پانی پلا نے کے لئے بھیجا ہے۔ اس پر صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے انہیں مارا۔ جب وہ درد سے بے چین ہو ئے تو کہنے لگے کہ ہم ابو سفیان کے ساتھی ہیں ۔ اتنے میں حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز سے فارغ ہوئے۔ آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ’’جب یہ تم سے سچ بولے تم نے ان کو مارا اور جب تم سے جھوٹ بولے تو ان کو چھوڑ دیا۔ اللّٰہکی قسم! انہوں نے سچ کہاوہ قریش کے ساتھی ہیں۔‘‘ پھر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان غلاموں سے قریش کا حال دریافت کیا۔انہوں نے جواب دیا: اللّٰہ کی قسم! یہ تو دۂ رَیگ ([187])  جو نظر آرہا ہے اس کے پیچھے ہیں ۔آپ نے دریافت فرمایا کہ قریش تعداد میں کتنے ہیں ؟ وہ بولے کہ ہمیں معلوم نہیں ۔ پھر آپ نے پوچھا کہ وہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کر تے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن دس اور ایک دن نو۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ہزار اور نوسو کے درمیان ہیں ۔ (واقع میں وہ ساڑھے نو سو تھے اور ان کے پاس سو گھوڑ ے تھے۔) پھر آپ نے پوچھا: سر داران قریش میں سے کون کو ن آئے ہیں ؟ وہ بولے عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابو جہل بن ہشام، ابو البختر ی بن ہشام، حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد ، حارث بن عامر بن نوفل ، طعیمہ بن عدی ابن نو فل ، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود ، امیہ بن خلف ، نبیہ و منبہ پسر انِ حجاج ، سہیل بن عمرو ،([188])  عمرو بن عبد ود۔ یہ سن کر حضور صَلَّی اللّٰہُ


 

 تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ’’لو! مکہ نے اپنے جگر پارے تمہاری طرف بھیج دیئے ہیں ۔‘‘ پس حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجلدی کو چ کر کے کوؤں([189]) کی طرف آئے اور جو کوآں([190]) بَدْر کے سب سے قریب تھا اس پر اتر ے۔ حضرت حباب بن منذررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جہاں آپ ہیں وہ اچھی جگہ نہیں ۔ آپ ہمیں اس کوئیں پر لے چلیں جو قریش کے سب سے نزدیک ہو میں بَدْر سے اور اس کے کوؤں سے واقف ہوں ۔ وہاں ایک میٹھے پانی کا کوآں ہے جس کا پانی ختم نہیں ہو تا۔ ہم اس پر ایک حوض بنا لیں گے اس میں سے پئیں گے اور جنگ کریں گے اور باقی کوؤں کو بند کردیں گے تا کہ کفار کو پانی نہ ملے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام  حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حباب کی رائے درست ہے۔([191]) علاوہ ازیں جہاں مسلمان اتر ے ہوئے تھے وہ نرم ریتلی زمین تھی جس میں آدمیوں کے پاؤں اور چو پا یوں کے ُکھر اور سُم دَھنستے تھے اور جہاں کفار ٹھہر ے ہوئے تھے انہوں نے وہاں کوئیں کھود لئے تھے اور پانی جمع کر لیا تھا۔ مسلمانوں میں سے بعض کو غسل جنابت اور بعض کو وضو کی حاجت تھی اور پیاسے تھے پانی نہ ملتا تھا۔ پس شیطان نے ان کے دلوں میں یہ وسو سہ ڈالا کہ تمہارا گمان ہے کہ ہم حق پر ہیں ، پیغمبر ہمارے درمیان ہیں اور ہم اللّٰہکے پیارے ہیں ، حالانکہ مشرکین پانی پر قابض ہیں اور تم جنب اور محدث([192])ہونے کی حالت میں نماز یں پڑ ھتے ہو، پھر تمہیں کس طرح امید ہو سکتی ہے کہ تم ان پر غالب آجاؤ گے۔ ایسی حالت میں اللّٰہ تعالٰی نے ان پر نیند طاری کر دی۔([193])جس سے ان کا رَنج وتَعَب([194])دور ہو گیا اور مینہ برسادیاجس سے انہوں نے پیا، غسل کیااپنے چوپایوں کوپلا یا اور مشکیں بھر لیں اور ریت سخت ہو گئی جس پر چلنا


 

 آسان ہو گیا اور کفار کی زمین کیچڑ ہو گئی جس پر چلنا دشوار ہو گیا۔ اس طرح وسوسۂ شیطان جاتا رہا اورا طمینان حاصل ہو گیا۔

          غرض حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور آپ کے اصحاب وہاں سے چل کر کفار سے پہلے آب بَدْر پر پہنچ گئے اور قریش کے سب سے قریب کوئیں پر اترے اور اس پر حوض بنا کر پانی سے بھر لیااور دوسرے کوؤں کو بند کر دیا پھر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے لئے اونچی جگہ پر ایک عریش (کھجور کی شاخوں کا سائبان ) بنا یا گیا، اور حضرت بذات خود معر کہ کی جگہ پر تشریف لے گئے اور دست مبارک کے اشارے سے فرماتے تھے کہ یہ فلاں کا فر کے مارے جانے کی جگہ ہے اور یہ فلاں کافر کے قتل ہو نے کی جگہ ہے۔ جیسا کہ حضور نے فرمایا تھالڑائی میں ویسا ہی وقوع میں آیاان میں سے کسی نے بھی اشارے کی جگہ سے سرِ مُو([195])تجاوز نہ کیا۔یہ سب کچھ جمعہ کی رات بتا ریخ ۱۷ما ہ رمضان المبارک واقع ہوا۔کفار کیچڑکے سبب سے اپنی جگہ سے آگے نہ بڑھ سکے۔حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مع صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عریش میں داخل ہو ئے یا رغاریہاں بھی عر یش کے اندر اپنے آقائے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ  وَسَلَّمکی حفاظت کے لئے شمشیربرہنہ([196])عَلم کیے ہو ئے ([197]) تھا اور دروازے پر حضرت سعدبن معاذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تلوار آڑے لٹکا ئے پہر ہ دے رہے تھے۔([198])

          حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتمام رات بیدار اور مصروفِ دُعا رہے۔صبح ہوئی تو لوگوں کو نماز کے لئے آوازدی اور نماز سے فارغ ہو کر جہاد پر وعظ فرمایا۔([199])پھر آپ صف آرائی میں مشغول ہو ئے۔ آپ کے دست مبارک میں ایک تیر کی لکڑی تھی جس سے کسی کو آپ اشارہ فرماتے کہ آگے ہوجاؤ اور کسی سے ارشاد فرماتے تھے کہ پیچھے ہو جاؤ۔ چنانچہ حضرت سَوَّاد([200])بن غَزِیَّہ اَنصاری جو صف سے آگے نکلے ہو ئے تھے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے


 

 اس لکڑی سے ان کے پیٹ کو ٹھوکا دیا([201])اور فرمایا: اِسْتَوِ یَا سَوَاد۔ (اے سواد برابر ہو جاؤ) حضرت سواد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ نے مجھے ضرب ِشدید لگا ئی ہے حالانکہ آپ کو اللّٰہ تعالٰی نے حق وانصاف کے ساتھ بھیجا ہے آپ مجھے قصاص دیں ۔ یہ سن کر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا شکم مبارک ننگاکردیااور فرمایا: اپناقصاص لے لو، اس پر حضرت سواد حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے گلے لپٹ گئے اور آپ کے شکم مبارک کو بو سہ دیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پوچھا: اے سواد !تو نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سوادرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمموت حاضر ہے میں نے چاہاکہ آخر عمر میں میرابدن آپ کے بدنِ اَطْہر سے مس کر جائے، یہ سن کر آپ نے اس کے لئے دعائے خیر فرمائی اور اس نے معاف کر دیا۔ اسی اثناء میں مشرکین بھی نمودار ہوئے۔ حضور اقدس  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کی تعداد کثیر دیکھ کر یوں دعا فرمائی: ’’یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!یہ قریش فخر وتکبر کر تے آپہنچے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تیرے ساتھ جنگ کریں اور تیرے رسول کو جھٹلا ئیں ، اے خدا!  عَزَّوَجَلَّ میں اس نصرت کا منتظر ہوں جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہوا ہے۔‘‘([202])

          جب ہر دوفریق صف آرائی کر چکے تو قریش نے عمیر بن وَہْب جُمَحِی کو لشکر اسلام کی تعداد معلوم کر نے بھیجا۔ وہ لشکر اسلام میں آیا اور دیکھ بھال کے بعد واپس جاکر کہنے لگا: ’’مسلمان ([203]) کم وبیش تین سو ہیں اور ان کے ساتھ ستر اونٹ اور دو گھوڑ ے ہیں ۔ اے گرو ہ قریش! میں نے دیکھا کہ ان کے اونٹوں کے پا لا ن ([204]) موتوں کو اٹھا ئے ہوئے ہیں ۔ یثرب کے آب کش اونٹ ([205]) زہر قاتل سے لد ے ہوئے ہیں ۔ ان کو اپنی تلواروں کے سوا اور کوئی پناہ نہیں وہ گو نگے ہیں کلام نہیں کر سکتے اور سانپوں کی طرح زبانیں منہ سے نکالتے ہیں ۔ اللّٰہکی قسم! میری رائے میں ان میں سے ایک شخص بھی قتل نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ تم میں سے ایک کو قتل نہ کرلے۔ پس جب وہ تم میں سے اپنی تعداد کے برابر قتل کردیں گے تو اس کے بعد تمہارا جینا کیسا ہو گا۔ اس لئے تم آپس میں مشورہ کرلو۔‘‘([206])جب حکیم بن حِزَام نے یہ سناتو عُتْبہ بن رَبیعہ کے پاس گیااور


 

اس سے کہا: اے ابو الولید! تو قریش کا سر دار ہے۔کیا تو چاہتا ہے کہ آخر زمانے تک دنیا میں تیرا ذکر خیر رہے؟ وہ بولا: پھر میں کیا کر وں ؟ حکیم نے کہا: لوگوں کو واپس لے جااور اپنے حلیف عَمر وبن حَضْرَمی کا خون بہاادا کر دے۔ عتبہ نے کہا: بے شک وہ میر احلیف تھا۔ اس کا خون بہا اور اس کا نقصانِ مال جو ہوا وہ سب میرے ذمہ ہے۔ تو ابن الحَنْظَلِیَّہ (ابوجہل) کے پاس جاکیونکہ وہی ہے جس کی طرف سے مجھے اندیشہ ہے کہ لوگوں میں لڑائی کر ادے۔ پھر عتبہ نے کھڑے ہو کر یوں تقریر کی: ’’اے گر وہ قریش! تمہیں محمد اور اس کے اصحاب کے ساتھ لڑ نے سے کچھ فائدہ نہیں ۔ خدا کی قسم! اگر تم محمد کو قتل کروگے تو تم میں سے ہر ایک کو ان میں اپنے چچیر ے بھائی کے قاتل یا ماموں زاد بھائی کے قاتل یا اپنے خاندان کے کسی شخص کے قاتل کا منہ ہر وقت دیکھنا پڑے گا اس لئے لوٹ چلو اور محمد اور باقی عرب کو خود آپس میں سمجھ لینے دو۔‘‘ حکیم مذکور کا بیان ہے کہ میں ابوجہل کے پاس گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ ابو جہل نے زرہ دان میں سے ا پنی زرہ نکالی ہوئی ہے۔ اسے زیتون کے تیل کی چیٹک مل رہا ہے۔ میں نے کہا: اے ابو الحکم! عتبہ نے مجھے ایسا ایسا کہہ کر تیرے پاس بھیجا ہے۔ ابو جہل نے کہا: ’’خدا کی قسم! ([207]) محمد اور اس کے اصحاب کو دیکھ کر اس کا سینہ پھول گیا ہے۔ (یعنی بزدل ہو گیا ہے ) خدا کی قسم! ہم ہر گز واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ اللّٰہ ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ کر دے۔ عتبہ بزدل تو نہیں ہے مگر اس نے دیکھا کہ محمد اور اس کے اصحاب چند اونٹوں کا گو شت کھا نے والے ہیں اور ان میں ان کا بیٹا ابو حذیفہ ہے۔ اس کے بارے میں وہ تم سے ڈر گیا ہے۔‘‘ پھر ابو جہل نے عامر بن حضرمی کو کہلا بھیجا کہ تیر ا حلیف عتبہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو ہٹا لے جاوے اور تو قصاص چاہتا ہے۔ اس لئے اٹھ اور اپنے بھائی کا قصاص اور عہد وپیمان یاد د لا۔ اس پر عامر مذکور اٹھا اور اپنے چُو تڑ([208]) ننگے کر کے چلا یا واعمراہ! واعمر اہ! یہ دیکھ کر لوگوں کی رائے بدل گئی۔ جب عتبہ کو معلوم ہوا کہ ابوجہل نے اس کی نسبت یہ الفاظ (اللّٰہکی قسم اس کا سینہ پھول گیا ہے ) کہے ہیں تو بولا: ’’وہ حلقۂ دبر([209])   زَرد کیے ہوئے جلدی جان لے گا کہ کس کا سینہ پھول گیا ہے میرایا اس کا۔‘‘ یہ کہہ کر عتبہ نے اپنے سر کے لئے خود ([210])طلب کی مگر اس کی کھوپڑی اتنی بڑی تھی کہ تمام لشکر


 

میں ایسی خود نہ ملی جو اس کے سر پر ٹھیک آجائے۔ اس لئے اس نے چادر سے اپنا سر ڈھانپ لیا۔([211])اس طرح قریش آمادۂ جنگ ہوگئے۔ عتبہ نے عمیر بن وہب سے کہاکہ جنگ کر واس لئے وہ سو سوار لے کر حملہ آور ہوا۔ مسلمان اپنی صف پر قائم رہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ میری اجازت کے بغیر لڑائی نہ کرنا۔ اس وقت حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نیند ([212])طاری ہو گئی۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمقریش ہم پر آپڑ ے ہیں ۔ حضور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبیدار ہو گئے۔ اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو اس خواب میں قریش تھوڑے دکھائے۔ ([213]) اگر بہت دکھاتا تو مسلمان تعداد کثیر کا نام سن کر ڈر جاتے۔ اللّٰہ تعالٰی کے اس انعام کو دیکھئے کہ میدانِ جنگ میں اِلْتِحامِ حرب سے پہلے  ([214])مسلمانوں کو کفار تھوڑے ([215])دکھائے تاکہ وہ جنگ پر اِقدام کریں اور کفار کو مسلمان تھوڑے دکھا ئے جس سے انہوں نے لڑنے میں بہت کو شش نہ کی۔ ([216])

           مسلمانوں میں سے جو سب سے پہلے لڑائی کیلئے نکلاوہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا آزاد کر دہ غلام


 

 مِہْجَعْ نام تھا۔ جسے عامر بن حَضْرَ می نے تیرسے شہید کیاوہ مسلمانوں میں پہلا قتیل([217])تھاپھر انصار میں سے حضرت حارثہ بن سر اقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو ئے بعد از اں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مسلمانوں کو ترغیب دی اور فرمایا: ([218])بہشت کی طرف اٹھوجس کا عرض آسمان وزمین ہے یہ سن کر حضرت عمیر بن حُمَام اَنصاری بولے: ’’یا رسول اللّٰہ!  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبہشت جس کا عرض آسمان وزمین ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ہاں ! تب حضرت عمیر نے کہا: واہ وا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ تو نے واہ وا کیوں کہا؟ حضرت عمیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمفقط اس تو قع پر کہ میں اہل بہشت سے ہو جاؤں ۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تب تو بیشک اہل بہشت میں سے ہے۔‘‘ اس پر حضرت عمیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی ترکش سے چھوارے نکال کر کھانے شروع کیے پھر کہنے لگے: ’’اگر میں زندہ رہو ں یہاں تک کہ یہ چھوہارے کھالوں تو البتہ یہ لمبی زندگی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت عمیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چھوار ے جو پاس تھے پھینک دیئے پھر جہاد کیایہاں تک کہ شہید ہو گئے۔([219])  دوسری جانب صف اَعدا میں سے اسودبن عبدا لاسد مخزومی جو بد خُلْق تھا،آگے بڑ ھا اور کہنے لگا: ’’میں اللّٰہسے عہد کر تا ہوں کہ مسلمانوں کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے ویران کر دوں گا یا اس سے وَرے([220])مر جاؤں گا۔ ‘‘ ادھر سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نکلے۔ اسود حوض تک پہنچنے نہ پایا کہ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا پاؤں نصف ساق تک کاٹ دیا اور وہ پیٹھ کے بل گرپڑا پھر وہ حوض کے قریب پہنچا یہاں تک کہ اس میں گر پڑا تا کہ اس کی قسم پو ری ہوجائے۔ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس کا تعاقب کیا اور حوض ہی میں اس کا کام تمام کر دیا۔([221]) بعد ازاں شَیْبَہ بن رَبیعہ اور عُتْبَہ بن رَبیعہ اور وَلید بن رَبیعہ نکلے۔ مشرکین نے چلا کر کہا: ’’اے محمد! ہماری طرف اپنی قوم میں سے ہمارے جوڑ کے آدمی بھیجئے۔‘‘ یہ سن کر حضور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اے بنی ہاشم! اٹھو اور اس حق کی حمایت


 

 میں لڑوجس کے ساتھ اللّٰہ تعالٰی نے تمہارے نبی کو بھیجا ہے کیونکہ وہ باطل لا ئے ہیں تاکہ اللّٰہکے نور کو بجھا دیں ۔‘‘ پس حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (جن کے سینہ مبارک پر بطور نشان شتر مرغ کا پر تھا) اور علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن مطلب بن عبدمناف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  د شمن کی طرف بڑھے اور ان کے سروں پر خود تھے۔ عتبہ نے کہا: ’’تم بولو تا کہ ہم پہچان لیں ۔‘‘ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: ’’میں حمزہ بن عبدالمطلب شیر خدا اور شیر رسول ہوں ۔‘‘ عتبہ بولا: ’’یہ اچھا جو ڑہے ،میں حلیفوں کا شیرہوں ۔‘‘ پھر اس نے اپنے بیٹے سے کہا: ولید اٹھ۔ پس حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہٗ ولید([222]) کی طرف بڑھے اور ایک نے دوسرے پر وار کیا مگر حضرت علیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کو قتل کر دیا، پھر عتبہ اٹھا حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کی طرف بڑھے اور اسے قتل کر دیا پھر شیبہ اٹھا حضرت عبید ہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو اصحاب میں سے عمر میں سب سے بڑے تھے اس کی طرف بڑھے شیبہ نے تلوار کی دھار حضرت عبید ہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں پر ماری جو پنڈلی کے گوشت پر لگی اور اسے کاٹ دیا پھر حضرت حمزہ اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما شیبہ پر حملہ آور ہوئے اور اسے قتل کر دیا اور حضرت عبیدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اٹھا کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں لائے۔ حضرت عبیدہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللّٰہکیا میں شہید نہیں ؟‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ہاں ۔ ‘‘ پھر حضرت عبیدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: اگر ابو طالب اس حالت([223])میں مجھے دیکھتا تو مان جاتا کہ میں اس کی نسبت اس کے شعر ذیل کا زیادہ مستحق ہوں ۔   ؎

و نسلمہ حتی نصرع حولہ                     ونذ ھل عن ابنائنا والحلائل([224])

ہم محمد کو حوالہ نہ کریں گے یہاں تک کہ ان کے گردلڑ کرمر جائیں اور اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں ۔ 


 

          یہ سب کچھ ہر دوفوج کے اجتماعی حملہ سے پہلے وقوع میں آیا۔ پھر دونوں فوجیں مقابلہ کے لئے نزدیک ہو ئیں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مسلمانوں کو تاکید فرمائی کہ میرے حکم کے بغیر حملہ نہ کرواگر تمہیں دشمن آگھیرے تو نیز وں سے اسے دور رکھو۔ اہل اسلام نے جب جنگ سے چارہ نہ دیکھا تو اپنی تعداد کی کمی اور دشمن کی کثرت دیکھ کر خدا سے دعا کر نے لگے۔ حضرت بھی صفیں درست کر نے کے بعد عریش میں تشریف لے آئے۔ عریش میں بجزیارِغار آپ کے ساتھ کوئی نہ تھا۔ اس وقت حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قبلہ رو ہوکر یوں دست بدعا ہوئے: ’’یا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! ([225]) تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر۔ یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! تو نے جو کچھ مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ عطاکر۔ یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!  اگر تو مسلمانوں کا یہ گر وہ ہلاک کر دے گا تو روئے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی۔‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا میں اتنا اِلحاح ([226]) کیا کہ چادر شانۂ مبارک سے گر پڑی۔ حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چادر اٹھا کر شانۂ مبارک پر ڈال دی، پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دست مبارک پکڑلیا اور عرض کی: ’’یانبی اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کو اپنے پر وردگار  عَزَّوَجَلَّسے اتنی ہی درخواست کافی ہے۔([227])جو اس نے آپ سے وعدہ کیا ہے وہ جلدی پورا کردے گا۔‘‘ عریش ہی میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر غنود گی طاری ہو ئی۔ جب بیدار ہو ئے تو فرمایا: ’’ابو بکر! بشارت ہو۔اللّٰہکی نصرت آپہنچی۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام گھوڑے پر سوار باگ([228]) پکڑے آرہے ہیں اور ان کے دند انِ پیشین پر ([229]) غبار ہے۔‘‘ اس انعام کو اللّٰہ تعالٰی یوں بیان فرماتا ہے:


 

اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ(۹) (انفال ،ع ۱)

جب تم لگے فریاد کر نے اپنے رب سے تو پہنچا تمہاری پکار کو کہ میں تمہاری مدد بھیجوں گا ہزار فرشتے لگاتار آنے والے۔([230])

          پہلے ہزار فرشتے آئے۔ پھر تین([231])ہزار ہو گئے۔ بعد ازاں بصورتِ صبر وتقویٰ پانچ ہزار ہو گئے۔ شیطان نے جو بصورت سُر اقہ کفار کے ساتھ تھا جب یہ آسمانی مددد یکھی تو اپنی جان کے ڈر سے بھاگ گیا۔([232])حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک کنکریوں کی مٹھی لے کر کفار کی طرف پھینک دی۔([233]) کوئی مشرک ایسا نہ تھا جس کی آنکھ میں کنکریاں نہ ہوں اب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حملہ اجتماعی کا حکم دیا۔ گھمسان کے معرکہ ([234])کے وقت اللّٰہ تعالٰی نے


 

 کفار کو مسلمان اپنے سے دوچند([235])دکھائے جس سے ان پر رعب طاری ہو گیا۔ قتل کا بازار گر م ہوا۔فرشتے نظر نہ آتے تھے مگر ان کے افعال نمایاں تھے۔ کہیں کسی مشرک کے منہ اور ناک پر کوڑے کی ضرب کا نشان پا یا جاتا کہیں بے تلوار سر کٹتا نظر آتا کہیں آواز آتی: ([236])اُ قْدُمْ حَیْزُوْم۔  آخر کفار کو شکست ہو ئی اور وہ بھاگ نکلے۔ خود حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمعریش سے ننگی تلوار عَلم ([237])کیے یہ پکارتے ہوئے نکلے: ([238])سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(۴۵) (قمر،ع۳)([239])

          حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے لڑائی شروع ہو نے سے پہلے ارشاد فرمایا([240]) تھاکہ ’’مجھے معلوم ہے کہ بنوہاشم وغیرہ میں سے چند لوگ بجَبْر واِکراہ ([241])کفار کے ساتھ شامل ہو کر آئے ہیں جو ہم سے لڑنا نہیں چاہتے۔ اگر ان میں سے کوئی تمہارے مقابل آجائے تو تم اسے قتل نہ کرو۔‘‘ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان لوگوں کے نام بھی بتا دیئے تھے۔ازاَنجملہ ([242])ابو البختری عاص بن ہشام تھا جو مکہ میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو کسی قسم کی اذیت نہ دیا کر تا تھا۔ ابو البختری کے ساتھ جُنادَہ بن مُلَیحہ بھی اس کا رَدِیف ([243])  تھا۔ مُجَذّر بن ذِیاد کی نظر جو ابو البختری پر پڑی تو کہا کہ ’’رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہمیں تیرے قتل سے منع فرمایا ہے اس لئے تجھے چھوڑ تا ہوں ۔‘‘ ابو البختری نے کہا: میرے رفیق کو بھی۔ مُجَذّر نے کہا: ’’اللّٰہکی قسم! ہم تیرے رفیق کو نہیں چھوڑ نے کے،


 

 ہمیں رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فقط تیرے چھوڑ نے کا حکم دیا ہے ۔‘‘ ابولبختری نے کہا: ’’تب اللّٰہکی قسم! میں اور وہ دونوں جان دیں گے، میں مکہ کی عورتوں کا یہ طعنہ نہیں سن سکتا کہ ابو البختری نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے رفیق کا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘ جب مُجَذّر نے حملہ کیا توابوالبختری بھی یہ رجز پڑھتا ہو احملہ آور ہوااور مار اگیا۔   ؎

لن یسلم ابن حرۃ زمیلہ                                                                     حتی یموت او یری سبیلہ([244]) 

  شریف زادہ اپنے رفیق کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک مرنہ جائے یا اپنے رفیق کے بچاؤکی راہ نہ دیکھ لے۔

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا بڑا دشمن اُمَیَّہ بن خلف بھی جنگ بَدْر میں شریک تھا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پہلے اسی اُمَیَّہ کے غلام تھے۔اُمَیَّہ ان کو اذیت دیا کر تا تھاتاکہ اسلام چھوڑ دیں ۔ مکہ کی گرم ریت پر پیٹھ کے بل لٹا کر ایک بھاری پتھر ان کے سینے پر رکھ دیا کر تا تھا پھر کہا کر تا تھا: تمہیں یہ حالت پسند ہے یا تر ک اسلام؟ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس حالت میں بھی ‘’  اَحَد ! اَحَد ! ‘‘ پکار اکر تے تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی زمانہ میں مکہ میں اُمَیَّہ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ میں آئے گاتو یہ اس کی جان کے ضامن ہوں گے۔ عہد کی پابندی کو ملحوظ رکھ کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چاہاکہ وہ میدان جنگ سے بچ کرنکل جائے۔اس لئے اس کو اور اس کے بیٹے کو لے کر ایک پہاڑ پر چڑھے۔ اتفاق یہ کہ حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھ لیا اور انصار کو خبر کر دی۔لوگ دفعۃً ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُمَیَّہ کے بیٹے کو آگے کر دیا لوگوں نے اسے قتل کر دیا لیکن اس پر بھی قناعت نہ کی اور اُمَیَّہ کی طرف بڑھے۔ اُمَیَّہ چونکہ جسیم وثقیل([245])   تھااس لئے حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا تم زمین پر لیٹ جاؤ۔ وہ لیٹ گیا تو آپ اس پر چھاگئے تاکہ لوگ اس کو مار نے نہ پائیں مگر لوگوں نے حضرت عبدالرحمنرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ٹانگوں کے اندر سے ہاتھ ڈال کر اس کو قتل کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن کی بھی ایک ٹانگ زخمی ہوئی اور زخم کا نشان مدتوں باقی رہا۔([246])   


 

          جب میدان کا رزار سر دہو گیا تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ایسا کون ہے جو ابوجہل کی خبر لائے؟ یہ سن کر حضرت عبداللّٰہبن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ گئے اور ا سے اس حال میں پایا کہ عَفْراء کے بیٹوں معاذ اور معوذ نے اسے ضرب شمشیر سے گر ایاہوا تھا اور اس میں ابھی رمق حیات باقی تھا۔([247]) حضرت ابن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس لعین کے سینے پر بیٹھ گئے اور اس کی ناپاک ڈاڑھی کوپکڑکر کہا: کیا تو ابوجہل ہے؟ بتا آج تجھے اللّٰہنے رسواکیا؟ اس لعین نے جواب دیا: ’’رسواکیا کیا!  تمہارا مجھے قتل کر نا اس سے زیادہ([248])  نہیں کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے قتل کرڈالا۔ کاش! مجھے کسان کے سوا کوئی اور قتل کر تا۔‘‘ اس جواب میں اس لعین کا تکبر اورانصار کی تحقیر پائی جاتی ہے کیونکہ حضرت معاذ اور معوذرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  انصار میں سے تھے اور انصا رکھیتی باڑی کا کام کیا کرتے تھے۔ پھر حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس لعین کا کام تمام کر دیا اور یہ خبر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت اقدس میں لائے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ سن کر تین بار’’ اَللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو’‘پڑھا۔ چوتھی باریوں فرمایا: ‘’اَللّٰہُ اَکْبَر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَّقَ وَعْدَہٗ وَ نَصَرَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہ ‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ساتھ لے کر اس لعین کی لاش کے پاس تشریف لے گئے اور دیکھ کر یہ فرمایا: ’’یہ اس امت کا فر عون ہے۔ ‘‘([249])

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنگ سے فارغ ہو کر حضرت زید بن حارثہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس فتح کی خوشخبری دینے کے لئے مدینہ میں بھیجا اور اسی غرض کے لئے حضرت عبداللّٰہبن رَواحہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اہل عالیہ (مدینہ کی بالا ئی آبادی ) کی طرف بھیجا۔جب حضرت زیدرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینہ میں پہنچے تو بقیع میں حضرت رُقَیَّہ بنت رسول اللّٰہ کو دفن کررہے تھے۔([250])


 

           اس جنگ میں مسلمانوں میں سے صرف چودہ شہید ہو ئے جن کے اسمائے مبارک یہ ہیں : حضرت عبید ہ بن حارِث بن مُطَّلِب بن عبدمناف، حضرت عمیر بن ابی وَقَّاص، حضرت ذُوالشِّمالین عمیر بن عبد عمروبن نضلہ، حضرت عاقل بن ابی بکیر، حضرت مِہجَع مولیٰ عمر بن الخطاب، حضرت صَفْوان بن بیضائ، (یہ چھ مہاجرین میں سے ہیں ) حضرت سعد بن خَیْثَمَہ، حضرت مبشربن عبدالمُنْذِر، حضرت حارِثہ بن سُراقہ، حضرت عوف و معو ذ پسرانِ عفرائ، حضرت عمیر بن حُمام، حضرت رَافِع بن مُعلّٰی، حضرت یزید بن حارث بن فسحم (یہ آٹھ انصار میں سے ہیں )رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔ مشرکین میں سے ستر مقتول اور ستر گر فتار ہو ئے۔([251])  منجملہ مقتولین یہ ہیں : شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، عاص بن سعید بن عاص، ابوجہل بن ہشام، ابو البختری، حنظلہ بن ابی سفیان بن حرب، حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف، طعیمہ بن عدی، زمعہ بن اسود بن مطلب، نوفل بن خویلد، عاص بن ہشام بن مغیرہ جو حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ماموں تھا، اُمَیَّہ بن خلف، علی بن اُمَیَّہ بن خلف، منبہ بن حجاج، معید بن وہب اور منجملہ اسیر ان یہ ہیں :نوفل بن حارث بن عبد المطلب، عباس بن عبد المطلب، عقیل بن ابی طالب، ابو العاص بن ربیع، عدی بن خیار ، ابو عزیز بن عمیر، ولید بن ولید بن مغیرہ، عبداللّٰہبن ابی بن خلف، ابو عزہ عمر وبن عبد اللّٰہ جمحی شاعر، وہب بن عمیر بن وہب جمحی، ابو وداعہ بن ضبیرہ سہمی، سہیل بن عمر و عامری۔

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حکم سے مشرکین مقتولین میں سے چوبیس رُؤُساء ([252]) کی لاشیں ایک گڑھے میں ڈال دی گئیں جس میں مردار پھینکا کر تے تھے۔ اُمَیَّہ بن خَلَف جو زِرَہ میں پھول گیا تھا اس پر جہاں وہ پڑا تھا وہیں مٹی ڈال دی گئی اور باقی لاشوں کو اور جگہ پھینک دیا گیا۔

           حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی عادت شریف تھی کہ جب دشمن پر فتح پاتے تو تین دن میدان جنگ میں قیام فرماتے۔ چنانچہ بَدْر میں بھی تیسرے روز سوار ہو کر مقتولین کے گڑ ھے پر تشریف لے گئے اور ان سے یوں خطاب([253]) فرمایا: ’’اے بیٹے فلاں کے!اے فلاں بیٹے فلاں کے!کیا اب تمہیں تمنا ہے کہ اللّٰہ اور اللّٰہکے رسول کی اطاعت


 

 کر تے، جو کچھ ہمارے پر وردگار  عَزَّوَجَلَّنے ہم سے وعدہ فرمایا تھا ہم نے اسے سچ پایا۔ کیاتم نے بھی اسے جوتمہارے پروردگار نے تم سے وعدہ کیا تھاسچ پایا!‘‘ یہ دیکھ کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  آپ ان بے روح جسموں سے کیا خطاب فرمارہے ہیں ؟‘‘ اس پر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’قسم ہے خدا کی جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے، تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ ([254]) ‘‘ پھر جناب رسالت مآب عَلَیْہِ اُلُوْفُ التَّحِیَّۃ وَ الصَّلٰوۃ مُظَفَّر و مَنْصُور  ([255]) اسیر انِ جنگ  ([256])  اور غنائم ([257]) کے ساتھ مدینہ کو واپس ہوئے۔

           جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مقام صَفْر اء میں پہنچے جوبَدْر سے ایک منزل ہے تو آپ نے تمام غنیمت مجاہدین میں  ([258]) برابر برابر تقسیم فرمادی۔ اسی مقام پر حضرت عُبید ہ بن حارِث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جن کا پائے مبارک کٹ گیا تھا وفات پائی۔ ([259]) صَفْراء ہی میں نَضْر بن حارِث کو قتل کر دیا گیا ۔یہاں سے روانہ ہو کر جب عرق ُالظبیہ میں پہنچے تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حکم سے عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط قتل کر دیا گیا۔ مدینہ میں اس فتح کی اتنی خوشی تھی کہ لوگوں نے مبار کباد کہنے کے لئے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مقام رَوحاء میں استقبال کیا۔ اسیرانِ جنگ جناب سر ور عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ایک دن بعد مدینہ میں پہنچے۔ آپ نے ان کو صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں تقسیم کر دیا تھا اور تا کید فرما دی تھی کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے چنانچہ ابو عزیز بن عمیر کا بیان ہے کہ جب مجھے بَدْر سے لا ئے تو میں انصار کی ایک جماعت میں تھا وہ صبح یا شام کا کھانا لاتے تو روٹی مجھے دیتے اور خود کھجور یں کھاتے ان میں سے جس کے ہاتھ روٹی کا ٹکڑاآتا وہ میرے آگے رکھ دیتا مجھے شرم آتی میں اسے واپس کرتا مگر وہ مجھ ہی کو واپس


 

 دیتا اور ہاتھ نہ لگاتا۔([260])

          جن قید یوں کے پاس کپڑے نہ تھے ان کو کپڑے دلوائے گئے۔ حضرت عباس َرضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ دراز قدتھے کسی کا کر تہ ان کے بدن پر ٹھیک نہ اتر تا تھا،عبد اللّٰہبن اُبی (رئیس المنا فقین ) نے جو حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ہم قد تھا اپنا کرتہ منگواکر دیا۔ صحیح بخاری([261])میں سُفْیَان بن عُیَیْنَہ کا یہ قول منقول ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عبد اللّٰہ مذکور کو قبر سے نکلوا کر جو اپنا کر تہ پہنا یا تھاوہ اکثر کے نزدیک اسی احسان کا معاوضہ([262])تھا۔([263])

          رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قید یوں کے بارے میں اپنے اصحاب سے مشورہ کیا۔ حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ([264])  ’’یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ آپ کی قوم اور آپ کا قبیلہ ہیں ، انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان سے فدیہ لیا جائے، شاید اللّٰہ تعالٰی ان کو اسلام کی تو فیق دے۔‘‘ حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیری تووہ رائے نہیں جو ابو بکررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ہے بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں تا کہ ہم ان کو قتل کر ڈالیں ، مثلاً عقیل کو حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حوالہ کر دیں اور میرے فلاں رشتہ دار کو میرے سپرد کردیں ‘‘۔ حضور انور  بِاَ بِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ نے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ   کی رائے پر عمل فرمایا۔([265])

          قید یوں میں سے ہر ایک کا فدیہ حسب استطاعت ایک ہزاردر ہم سے چار ہزار درہم تک تھا جن کے پاس مال


 

 نہ تھا اور وہ لکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ انصار کے دس([266]) لڑکوں کو لکھنا سکھا دے۔ چنانچہ زید بن ثابت نے اس طرح لکھنا سیکھا تھا۔ بعضوں مثلاً ‘’ابو عزہ جمحیشاعر’‘ کو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یونہی چھوڑ دیا۔([267])ان قید یوں میں سے ایک شخص سہیل بن عمروتھا جو عام مجمعوں میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خلاف تقریریں کیا کر تا تھا، حضرت عمر ابن الخطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممجھے اجازت دیجئے کہ میں سہیل کے دندانِ پیشین([268])اُکھاڑدُوں اور اس کی زبان نکال دوں پھر وہ کسی جگہ آپ کے خلاف تقریر نہ کر سکے گا۔‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’میں اس کا عضونہیں بگاڑ تا ورنہ خدا اس کی جزامیں میرے اعضا بگا ڑ دے گا،گو میں نبی ہوں ۔‘‘([269])

          حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان دس رؤسائے قریش میں تھے جنہوں نے لشکر قریش کی رسد کا سامان اپنے ذمہ لیا تھا اس غرض کے لئے حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس بیس اُوقیہ([270])سونا تھا چونکہ ان کی نوبت کھانا کھلانے کی نہ آئی اس لئے وہ سو نا انہیں کے پاس رہا اور غنیمت میں شامل کر لیا گیا۔ حضرت عباس نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیں مسلمان ہوں ۔‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو تیرے اسلام کا خوب علم ہے اگر تو سچا ہے تو اللّٰہتجھے جزادے گا۔  تو اپنے فدیہ کے ساتھ عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث بن عبد المطلب اور اپنے حلیف عمروبن جَحْدَم کا فدیہ بھی ادا کر۔‘‘ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی مال نہیں ۔ اس پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ وہ مال کہاں ہے جو تونے اپنی بیوی ام الفضل کے پاس رکھا تھا اور اسے کہا تھا کہ اگر میں لڑائی میں مارا جاؤں تو اتنا فضل کو اتنا عبد اللّٰہ کو اتنا عبید اللّٰہکو ملے۔


 

 یہ سن کر حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ([271])نے کہا: ’’قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حق د ے کر بھیجا ہے اس مال کا علم سوائے میرے اور ام الفضل کے کسی کو نہ تھا میں خوب جا نتا ہوں کہ آپ اللّٰہکے رسول ہیں ۔‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تیرا یہ بیس اوقیہ سو نا فدیہ میں شمار نہ ہو گا یہ تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں عطا کیا ہے۔ پس حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنا اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں اور اپنے حلیف کا فدیہ([272])ادا کر دیا۔([273])

           شکست قریش کی خبر مکہ میں سب سے پہلے حَیْسُمان بن ایاس خُزاعی لایا۔([274]) قریش اپنے مقتولین پر نوحہ کرنے لگے پھر بدیں خیال([275]) کہ مسلمان ہم پر ہنسیں گے نوحہ بند کر دیا۔ شکست کی خبر پہنچنے کے نور وز بعد ابولہب مر گیا۔ اَسودبن عبد ِیَغُوث کے دو بیٹے زَمَعہ اور عَقیل اور ایک پو تا حارِث بن زَمَعہ میدان بَدْر میں کام آئے۔ وہ چاہتا تھا کہ ان پر روئے مگر ممانعت کے سبب خاموش تھا۔ ایک رات اس نے کسی عورت کے رونے کی آواز سنی چونکہ اس کی بینائی جاتی رہی تھی اس لئے اس نے اپنے غلام سے کہاکہ جاؤ دریافت کرو کیا اب رونے کی اجازت ہو گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں بھی زَمعہ پر نوحہ کروں کیونکہ میرا جگر جل گیا ہے۔ غلام نے آکر کہاایک عورت کا اونٹ گم ہوگیا ہے۔اس کے لئے رور ہی ہے۔ یہ سن کر اَسود کی زبان سے بے اختیار یہ شعر([276]) نکلے۔     ؎

اتبکی ان یضل لھا بعیر و یمنعھا من النوم السھود

فلا تبکی علٰی بِکرٍ و لٰـکن علی بدر تقاصرت الجدود


 

و بکی ان بکیت علٰی عقیل و بکی حارثا اسد الا سود

و بکیھم و لا تسمی جمیعًا و ما لابی حکیمۃ من ندید([277])

          کیاوہ اونٹ کے گم ہو نے پر روتی ہے اور بے خوابی اسے نیند نہیں آنے دیتی سو وہ جوان اونٹ پر نہ روئے بلکہ بَدْر پر جہاں قسمتوں نے کو تا ہی کی، اگر تجھ کو رونا ہے تو عقیل پر رواور شیروں کے شیر حارث پر رواور ان سب پر رواور نام نہ لے اور ابو حکیمہ (زَمَعہ ) کا کوئی ہمسر نہیں ۔

          یوم بَدْر واقع میں یوم فرقان تھا کہ کفر واسلام میں فرق ظاہر ہو گیااوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ضعف کے بعد مسلمانوں کو تقویت دی چنانچہ اس نعمت کو یوں یاد دلا یا ہے:

وَ  لَقَدْ  نَصَرَكُمُ  اللّٰهُ  بِبَدْرٍ  وَّ  اَنْتُمْ  اَذِلَّةٌۚ- (اٰل عمرٰن،ع ۱۳)

اور تمہاری مدد کر چکا ہے اللّٰہبدر کی لڑائی میں اور تم بے مقدور تھے۔([278])

           اس دن سے اسلام کا سکہ کفار کے دل پر جم گیا اور اہل مدینہ میں بہت سے لوگ ایمان لائے۔ اہل بَدْر کے فضائل میں اتنا ہی کہہ دینا کا فی ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کے حق میں فرمایا ہے: ([279])  ’’بیشک اللّٰہاہل بَدْر سے واقف ہے کیونکہ اس نے فرمادیا: تم عمل کر و جو چاہو البتہ تمہارے واسطے جنت ثابت ہو چکی یا تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا۔‘‘([280])  آخرت میں مغفور ہو نے کے علاوہ دنیا میں بھی بَدْر ی ہو نا خاص امتیاز کا سبب شمار کیا جاتا تھا بلکہ وہ ہتھیار بھی جن سے بَدْر میں کام لیا گیا تبرک خیال کیے جا تے تھے چنانچہ حضرت زبیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو بر چھی عبید ہ بن سعید بن عاص کی آنکھ میں ماری تھی۔([281]) وہ یاد گار رہی بدیں طور کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت زبیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مُسْتعار لی،پھر آپ کے چاروں خلیفوں کے پاس منتقل ہو تی رہی۔ بعد ازاں حضرت


 

 عبد اللّٰہبن زبیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس رہی یہاں تک کہ  ۷۳ھ؁ میں حجاج نے ان کو شہید کر دیا۔

          اہلِ بَدْرکے توسل سے جو دعا مانگی جائے وہ بفضل الٰہی ’’مستجاب‘‘ ہو تی ہے جیسا کہ ’’مشائخ‘‘ کا تجربہ ہے۔([282])

          اندلس کے مشہور سیا ح محمد بن جبیر (متوفی ۲۷شعبان ۶۱۴ھ؁ ) نے بَدْر کے حال میں یوں لکھا ہے: ([283]) ’’اس موضع میں خرما([284])کے بہت باغ ہیں اور آب رواں کا ایک چشمہ ہے۔ موضع کا قلعہ بلند ٹیلے پر ہے اور قلعہ کا راستہ پہاڑوں کے بیچ میں ہے۔ وہ قطعہ زمین نشیب میں ہے جہاں اسلامی لڑائی ہو ئی تھی اور اللّٰہ تعالٰی نے اسلام کو عزت اور اہل شرک کو ذلت دی۔ آج کل اس زمین میں خرماکاباغ ہے اور اس کے بیچ میں گنج شہیداں ([285])ہے۔ اس آبادی میں داخل ہوتے وقت بائیں طرف جبل الرحمۃ ہے۔ لڑائی کے دن اس پہاڑ پر فرشتے اترے تھے۔ اس پہاڑ کے ساتھ جَبَل ا  لطُّبُوْل ہے۔ اس کی قطع([286])ریت کے ٹیلے کی سی ہے۔ کہتے ہیں ہر شب جمعہ کو اس پہاڑ سے نقار ے کی صداآتی ہے۔ اس لئے اس کا نام جَبَل الطُّبُوْل رکھا ہے۔ ہنوزنصرتِ نبوی کی یہ بھی ایک کرامت باقی ہے۔ اس بستی کے ایک عرب باشند ے نے بیان کیا کہ میں نے اپنے کا نوں سے نقاروں کی آواز سنی ہے، یہ آواز ہر جمعرات اور دوشنبہ کو آیا کر تی ہے۔ اس پہاڑ کی سطح کے قریب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے تشریف رکھنے کی جگہ ہے اور اس کے سامنے میدان جنگ ہے۔‘‘

          اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِحَبِیْبِکَ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفٰی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ بِاَہْلِ بَدْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَنْ تُبَلِّغَنِیْ فِی الدَّارَیْنِ اَقْصٰی مَرَامِیْ وَ تَغْفِرَ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَشَائِخِیْ وَ لِاَحِبَّائِیْ وَ لِسَآئِرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ اَنْ تُؤَیِّدَ الْاِسْلَامَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ۔

          اسی سال یوم فطرسے دو دن پہلے یا شروع شوال میں صدقہ فطر واجب ہوا عید کے دن نماز عید الفطر عیدگاہ میں جماعت سے پڑھی گئی۔ اسی وقت زکوٰۃِ مال فرض ہوئی۔

غزوۂ بنی قینقاع

          نصف ماہ شوال میں غزوۂ بنی قینقاع پیش آیا۔ یہود سے پہلے معاہدہ ہو چکا تھا جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا۔ مدینہ


 

 کے گرد یہود کے تین قبیلے تھے۔ بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ ان تینوں نے یکے بعد دیگرے نَقْضِ عَہْد کیا۔([287])ان میں سب سے پہلے بنو قینقاع نے جو چھ سو مرد کا رزار اور یہود میں سب سے بہادر تھے عہد کو توڑا اور باغی ہو کر قلعہ بند ہوگئے مگر پندرہ روز کے محاصرہ کے بعد مغلوب ہوگئے۔ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کو جلاوطن کردیااور وہ اَذْرِعات ملک شام میں پہنچادیئے گئے جہاں وہ جلدی ہلاک و تباہ ہوگئے۔([288])

غزوۂ سو یق

          ماہ ذی قعدہ میں غزوۂ سَوِیق و قوع میں آیا۔ سَوِیق عرب میں ستو کو کہتے ہیں چونکہ اس غزوہ میں کفار کی غذا ستو تھی اس لئے اس نام سے موسوم ہوا۔ اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ غزوۂ بَدْر کے بعد ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک

میں محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے لڑائی نہ کرلوں جنابت سے سر نہ دھوؤں گا۔ اس لئے قسم کے پورا کرنے کے لئے وہ دو سو سوار لے کر نکلا۔ مقامِ عَرِیض میں اس نے ایک نخلستان کو جلادیااور ایک انصاری کو قتل کر ڈالا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تعاقب فرمایا۔ ابو سفیان اور اس کے ہمراہی بوجھ ہلکا کرنے کے لئے ستو کے بورے پھینک کر بھاگ گئے۔ جنہیں مسلمانوں نے اٹھالیااور واپس چلے آئے۔([289])

غمخواری کا ثواب

فرمان مصطفی صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسلَّم: ’’جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی مصبیت میں تعزیت کرتا (یعنی تسلی دیتا) ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بروز قیامت اسے عزت کا لباس پہنائے گا۔‘‘(الترغیب والترہیب،ج۴،ص۳۴۴)


 

ہجرت کا تیسرا سال

          نصف محرم کو’’غزوۂ قَرْقَرَۃُ الْکُدْر’‘اور رَبیع الاوَّل میں غزوۂ اَنمار یا غَطَفَان اور جُمَادَی الا ُولیٰ میں غزوۂ بنی سُلَیم وُقوع میں آیا۔ ان میں سے کسی میں مقابلہ نہیں ہوا۔ غزوۂ اَنمار میں دُعْثُوْرغَطَفَانی اسلام لایا۔ ماہ ربیع الاوَّل میں کعب بن اشرف یہودی شاعر جو اسلام کی ہَجوکیا کرتا تھا حضرت محمد بن مَسلَمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ ماہ ِجُمَادَی الاخریٰ میں ابو رافع سلاَّم بن ابی الحُقَیق یہودی جو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اذیت دیا کرتا تھا حضرت عبد اللّٰہ بن عَتِیک اَنصاری خَزْرَجی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ سے مارا گیا۔([290])

غزوۂ احد

          ماہِ شوال میں غزوۂ اُحُد([291]) وقوع میں آیا۔ جب قریش بَدْر میں شِکَسْتِ فاش کھا کر مکہ میں آئے تو ابو سفیان کے قافلے کا تمام مال دار ا لنَدْوَہ میں رکھا ہوا پایا۔ عبداللّٰہ بن اُبی رَبیعہ اور عِکْرَمَہ بن اَبی جہل اور صفوان بن اُمَیَّہ وغیرہ روسائے قریش جن کے باپ بھائی اور بیٹے جنگ بَدْر میں قتل ہوئے تھے، ابو سفیان اور دیگر شرکاء کے پاس آکر کہنے لگے کہ اپنے مال کے نفع سے مدد کرو تاکہ ہم ایک لشکر تیار کریں اور(حضرت) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)  سے بدلہ لیں ۔ سب نے بخوشی منظور کیا چنانچہ تمام مال فروخت کردیا گیااور حسب قَرا رْدَاد ْ  رَأس المال([292])مالکوں کو دیا گیااور نفع تجہیز لشکر([293]) میں کام آیا۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-فَسَیُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُوْنُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُوْنَ۬ؕ-وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ یُحْشَرُوْنَۙ(۳۶) (انفال:ع۴)

جو لوگ کافر ہیں خرچ کرتے ہیں اپنے مال تاکہ روکیں اللّٰہ کی راہ سے سوا بھی اور خرچ کریں گے پھر آخر ہوگا ان پر پچھتاؤ پھر آخر مغلوب ہوں گے اور جو کافر ہیں دوزخ کو ہانکے جائیں گے۔([294])


 

          قریش نے بڑی سرگرمی سے تیاری کی اور قبائل عرب کو بھی دعوت جنگ دی۔ مردوں کے ساتھ عورتوں کی ایک جماعت بھی شامل ہوئی تاکہ ان کو مقتولین بَدْر کی یاد دلا کر لڑائی پر ابھارتی رہیں چنانچہ ابو سفیان کی زوجہ ہند بنت عُتْبہ، عِکرَمہ بن ابو جہل کی زوجہ اُم حَکِیم بنت حارِث بن ہِشام، حارث بن ہِشام بن مُغَیرہ کی زوجہ فاطمہ بنت وَلید بن مُغیرہ، صفوان بن اُمَیَّہ کی زوجہ بَرزَہ بنت مسعود ثَقَفِیَہ، عَمروبن عاص کی زوجہ ریطہ بنت منبہ سہمیہ،([295]) طلحہ حَجَبِی کی زوجہ سُلافہ بنت سعد اپنے اپنے شوہروں سمیت نکلیں ۔ اسی طرح  خناس بنت مالک اپنے بیٹے ابو عزیز بن عمیر کے ساتھ نکلی۔ کل جمعیت تین ہزار تھی جن میں سات سو زِرَہ پوش تھے ان کے ساتھ دو سو گھوڑے تین ہزار اونٹ اور پندرہ عورتیں تھیں ۔ جُبَیر بن مُطْعِم نے اپنے حبشی غلام وحشی نام کو بھی یہ کہہ کر بھیج دیا کہ اگر تم محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )  کے چچا حمزہ کو میرے چچا طُعَیْمَہ بن عدی کے بدلے قتل کردو تو میں تم کو آزاد کردوں گا۔

          یہ لشکر ِقریش بسر کردگی ابو سفیان([296]) مدینہ کی طرف روانہ ہوا، اور مدینہ کے مقابل احد کی طرف  بطن وادی میں اترا۔ حضرت عباس بن عبدالمُطَّلِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواَب تک مکہ میں تھے بذریعہ خط آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو قریش کی تیاری کی خبر دی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت انس ومونس پسر انِ فضالہ بن عدی انصاری کو بطور جاسوس بھیجا۔ وہ خبر لائے اور کہنے لگے کہ مشرکین نے اپنے اونٹ اور گھوڑے عَرِیض([297]) میں چھوڑ دیئے ہیں جنہوں نے چرا گاہ میں سبزی کا نام و نشان نہیں چھوڑا پھر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے حضرت حُباب بن مُنْذِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو بھی بغرضِ تجسس بھیجا وہ لشکر کی تعداد وغیرہ کی خبر لائے۔ جمعہ کی رات (۱۴ شوال) کو حضرت سعد بن معاذ اور اُسید بن حُضَیر اور سعد بن عُبَادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ایک جماعت کے ساتھ مسلح ہو کر حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دولت خانے پر پہرہ دیتے رہے اور شہر پر بھی پہرہ لگا رہا۔ اسی رات حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں دیکھا کہ گویا آپ مضبوط زرہ پہنے ہوئے ہیں ، آپ کی تلوار’’ ذوالفقار‘‘ ایک طرف سے ٹوٹ گئی ہے، ایک گائے پر نظر پڑی جو ذبح کی جارہی ہے اور آپ کے پیچھے ایک مینڈھا سوار ہے۔ صبح کو آپ نے یہ تعبیر بیان فرمائی


 

کہ مضبوط زرہ مدینہ ہے۔ تلوار([298])کی شِکَستگی ذات شریف پر مصیبت ہے۔ گائے آپ کے وہ اصحاب ہیں جو شہید ہوں گے اور مینڈھا’’ کَبْش([299]) الْکَتِیبَہ ‘‘ ہے جسے اللّٰہ تعالٰی قتل کرے گا۔ اس خواب کے سبب سے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رائے تھی کہ لڑائی کے لئے مدینہ سے باہر نہ نکلیں ۔ عبداللّٰہ بن اُبی کی بھی یہی رائے تھی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا تو اکابر مہاجرین و انصار بھی آپ سے متفق ہوگئے مگر وہ نوجوان جو جنگ بَدْر میں شامل نہ تھے آپ سے درخواست کرنے لگے کہ مدینہ سے نکل کر لڑنا چاہیے ان کے اصرار پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نکلنے کی طرف مائل ہوئے نماز جمعہ کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وعظ فرمایا، اہل مدینہ و اہل عوالی جمع ہوگئے۔ آپ دولت خانہ میں تشریف لے گئے اور دوہری زِرہ پہن کر نکلے یہ دیکھ کر وہ نوجوان کہنے لگے کہ ہمیں زیبا نہیں کہ آپ کی رائے کے خلاف کریں اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ’’پیغمبر خدا کو شایاں  نہیں کہ جب وہ زِرَہ پہن لے تو اسے اتار دے یہاں تک کہ اللّٰہ تعالٰی اس کے اور دشمن کے درمیان فیصلہ کردے اب جو میں حکم دوں وہی کرو اور خدا کا نام لے کر چلو اگر تم صبر کروگے تو فتح تمہاری ہوگی۔‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین جھنڈے تیار کیے۔ اَوس کا جھنڈا حضرت اُسید بن حضیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اور خزرج کا جھنڈا حضرت حُباب بن مُنذِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی ابن ابی طالب کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو عطا فرمایا اس طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ نکلے جن میں سے ایک سو نے دوہری زِرَہ پہنی ہوئی تھی۔ حضرت سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا زرہ پہنے ہوئے آپ کے آگے چل رہے تھے جب آپ  ثَنِیَّۃُ الْوَدَاع کے قریب پہنچے تو ایک فوج نظر آئی آپ کے دریافت فرمانے پر صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ یہ یہود میں سے ابن اُبی کے حلیف ہیں جو آپ کی مدد کو آئے ہیں آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ لوٹ جائیں کیونکہ ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد نہیں لیتے۔ جب آپ موضع شَیْخَان([300])میں اترے تو عرضِ لشکر کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بعض صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بوجہ صغر سنی([301])واپس کردیا۔ چنانچہ اُسامہ بن زید، ابن عمر،


 

 زید بن ثابت، براء بن عازب، عمروبن حزم، اُسید بن ظُہَیر انصاری، ابو سعید خُدری، عَرَابہ بن اَوس، زید بن ارقم، سعد بن عُقَیب، سعد بن حَبْتَہ، زید بن جاریہ انصاری اور جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم واپس ہوئے۔ حضرت سَمُرَہ بن جندب اور رافع بن خَدِیج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا جو پندرہ پندرہ سال کے تھے پہلے روک دیئے گئے پھر عرض کیا گیا کہ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رافع اچھا تیر انداز ہے اس لئے وہ بھی رکھ لئے گئے پھر سَمُرَہ کی نسبت کہا گیا کہ وہ کشتی میں رافع کو پچھاڑدیتے ہیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ دونوں کشتی لڑیں چنانچہ سمرہ نے رافع کو پچھاڑ دیا، اس طرح حضرت سمرہ بھی رکھ لئے گئے۔ رات یہیں بسر ہوئی دوسرے روز باغ شَوط میں جو مدینہ اور اُحُد کے درمیان ہے فجر کے وقت پہنچے اور نماز باجماعت ادا کی گئی اسی جگہ ابن اُبی اپنے تین سو آدمی لے کر لشکر اسلام سے علیحدہ ہوگیا اور یہ کہہ کر مدینہ کو چلا آیا کہ ’’حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کا کہا مانا میرا کہا نہ مانا، پھر ہم کس لئے یہاں جان دیں ۔‘‘ جب یہ منافقین واپس ہوئے توصحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ایک گروہ نے کہاکہ ہم ان سے قتال کرتے ہیں اور دوسرے گروہ نے کہا کہ ہم قتال نہیں کرتے کیونکہ یہ مسلمان ہیں اس پر آیت نازل ہوئی:

فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْاؕ-اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا(۸۸)    (نسائ،ع۱۲)

پس کیا ہے واسطے تمہارے بیچ منافقوں کے دو فرقے ہو رہے ہو اور اللّٰہ نے الٹا کیا ان کو بسبب اس چیز کے کہ کمایا انہوں نے ۔ کیا ارادہ کرتے ہو تم یہ کہ راہ پر لاؤ جس کو گمراہ کیا اللّٰہ نے ؟ اور جس کو گمراہ کرے اللّٰہ پس ہر گز نہ پاوے گا تو واسطے اس کے راہ۔([302])

          ابن اُبی کا قول سن کر خزرج میں سے بنو سلمہ اور اوس میں سے بنو حارثہ نے دل میں لوٹنے کی ٹھہرائی مگر اللّٰہ تعالٰی نے ان کو بچالیا چنانچہ قرآن کریم میں ہے:

اِذْ  هَمَّتْ  طَّآىٕفَتٰنِ  مِنْكُمْ  اَنْ  تَفْشَلَاۙ-وَ  اللّٰهُ 

جب قصد کیا دو فریقوں نے تم میں سے یہ کہ نامردی کریں اور


 

وَلِیُّهُمَاؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۲۲) (آلِ عمران:۱۳)

دوستدار تھا ان کا اللّٰہاور اوپر اللّٰہ کے پس چاہیے کہ توکل کریں ایمان والے۔ ([303])

          اب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ سات سو آدمی اور دو گھوڑے رہ گئے۔ آپ نے ابو خَیْثمہ انصاری کو بطورِ بدرَقَہ ([304])ساتھ لیا تاکہ نزدیک کے راستے سے لے چلے۔ اس طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حرہ بنی حارثہ اور ان کے اموال کے پاس سے گز رتے ہوئے مِرْبَع بن قَیْظِی منافق کے باغ کے پاس پہنچے وہ نا بینا تھا۔ اس نے جب لشکر اسلام کی آہٹ سنی تو ان پر خاک پھینکنے لگا اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہنے لگا کہ اگر تو اللّٰہ کا رسول ہے تو میں تجھے اپنے باغ میـں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔یہ سن کر صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اسے قتل کرنے دوڑے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اسے قتل نہ کرو یہ آنکھ کا اند ھا دل کا بھی اند ھا ہے۔ مگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے منع کر نے سے پہلے ہی سعد بن زید اَشْہَلی نے اس پر کمان ماری اور سر توڑ دیا۔ یہاں سے روانہ ہو کر لشکر اسلام نصف شوال یوم شنبہ([305]) کو کوہِ احد کی شعب (درہ ) میں کَرانہ وادی([306])میں پہاڑ کی طرف اُترا۔([307])حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صف آرائی کے لئے پہاڑ کو پس پشت اور کوہ عینَین کو جوواد یٔ قَنات میں ہے اپنی بائیں طرف رکھا۔ کوہِ عَینَین میں ایک شگاف یا درہ تھاجس میں سے دشمن عَقْب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتا تھا۔ اس لئے آپ نے اس دَرَّے پر اپنے پچاس پیدل تیراَنداز مقرر کیے اور حضرت عبداللّٰہ بن جُبَیر کو ان کا سردار بنا یا اور یوں ہدایت کی: ’ ’اگر تم دیکھو کہ پرندے ہم کو اُچک لے گئے ہیں تو اپنی جگہ کو نہ چھوڑ و یہاں تک کہ میں تمہارے پاس کسی کو بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دی ہے اور مار کر پامال کر دیا ہے تو بھی ایسا ہی کر نا۔‘‘([308])

          مشرکین نے بھی جو عینَین میں وادیٔ قنات کے مدینہ کی طرف کے کنارے پر شور ستان میں اتر ے ہو ئے تھے،


 

 صفیں آراستہ کیں چنانچہ انہوں نے سواروں کے مَیْمَنہ پر خالد بن وَلید کو، مَیْسَرہ پر عِکرَمہ بن ابی جہل کو، پیدلوں پر صفوان بن اُمَیَّہ کو اور تیر اندازوں پر جو تعداد میں ایک سو تھے، عبداللّٰہ بن ابی رَبیعہ کو مقرر کیا اور جھنڈ اطلحہ بن ابی طلحہ کو دیا۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دیکھاکہ مشرکین کا جھنڈا بنو عبد الدار کے پاس ہے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لشکر اسلام کا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبدالدار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیا اور میمنہ پر حضرت زبیر بن عوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور میسرہ پر حضرت منذر بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مقرر فرمایا۔

           مشرکین میں سب سے پہلے جو لڑائی کے لئے نکلاوہ ابو عامر انصاری اَوسی تھا۔ اس کو راہب کہا کر تے تھے مگر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کا نام فاسق رکھا۔ زمانہ جاہلیت میں وہ قبیلۂ اَوس کا سر دار تھا۔جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرماکر مدینہ میں تشریف لے گئے تو وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مخالفت کر نے لگا اور مدینہ سے نکل کر مکہ میں چلا آیا۔ اس نے قریش کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے لڑنے پر آمادہ کیا اور کہا کہ میری قوم جب مجھے دیکھے گی تو میرے ساتھ ہو جائے گی۔ اس لئے اس نے پکار کر کہا: ’’اے گروہِ اَوس! میں ابو عامر ہوں ۔‘‘اوس نے جواب دیا: ’’اے فاسق! تیری مراد پوری نہ ہو۔ ‘‘ فاسق کا نام سن کر کہنے لگاکہ میری قوم میرے بعد بگڑ گئی ہے۔ اس کے ساتھ غلامان قریش کی ایک جماعت تھی وہ مسلمانوں پر تیر پھینکنے لگے۔ مسلمان بھی ان پر سنگباری کر نے لگے یہاں تک کہ ابو عامر اور اس کے ساتھی بھاگ گئے۔([309])

           مشرکین کا علم بر دار طلحہ صف سے نکل کر پکارا: ’’مسلمانو! تم سمجھتے ہو کہ ہم میں سے جو تمہارے ہاتھوں مر جاتا ہے وہ جلددوزخ میں پہنچ جا تا ہے اور تم میں جو ہمارے ہاتھوں مرجاتا ہے وہ جلد بہشت میں پہنچ جا تا ہے۔ کیا تم میں کوئی ہے جس کو میں جلد بہشت میں پہنچا دوں یا وہ مجھے جلد دوزخ میں پہنچا دے۔‘‘ حضرت علی ابن ابی طالب کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نکلے اور طلحہ کے سر پرایسی تلوارماری کہ کھوپڑی پھاڑ دی اور وہ گر پڑا۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کَبْشالْکَتِیبَہ کے مارے جانے پر خوش ہوئے آپ نے تکبیر کہی۔ مسلمانوں نے بھی آپ کا اقتداء کیا۔ طلحہ کے بعد اس کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ نے جھنڈا ہاتھ میں لیا۔ اس کے پیچھے عورتیں اشعار پڑھتی آتی تھیں اور وہ ان کے آگے یہ


 

 رجز پڑھتا تھا :

اِنَّ عَلٰی اَھْلِ اللِّوَآئِ حَقَّا                                اَنْ تُخْضَبَ الصَّعْدَۃُ اَوْ تَنْدَقًا

بیشک علم برداروں پر واجب ہے کہ نیزہ خون سے سر خ ہو جائے یا ٹوٹ جائے۔

          حضرت حمزہ بن عبد المُطَّلِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مقابلے کے لئے نکلے اور عثمان کے دو شانوں کے درمیان اس زور سے تلوار ماری کہ ایک بازو اور شانے کوکاٹ کر سرین تک جاپہنچی۔ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ واپس آئے اور زبان پر یہ الفاظ تھے : اَنَا ابْنُ سَاقِی الحَجِیْج۔([310])میں ساقی حجاج([311]) (عبدالمُطَّلِب ) کا بیٹا ہوں ۔

          اب میدان کارزار گرم ہوا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک میں ایک تلوار تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کر ے۔ یہ سن کر کئی شخص آپ کی طرف بڑھے مگر آپ نے وہ تلوار کسی کو نہ دی۔ ابو دُجانہ (سِمَاک بن خَرَشہ انصاری ) نے اٹھ کر عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کا حق کیا ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کا حق یہ ہے کہ تو اس کو دشمن پر مارے یہاں تک کہ ٹیڑھی ہوجائے۔ ابودُجانہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں اس کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو دُجانہ کو عنایت فرمائی۔ ابو دُجانہ مشہور پہلوان تھے اور لڑائی میں اَکڑ کر چلا کر تے تھے۔ جب سر خ رومال سر پر باندھ لیتے تو لوگ سمجھ جا تے تھے کہ لڑیں گے۔ انہوں نے تلوار لے کر حسب عادت سر پر سرخ رومال باندھا اور اَکڑتے تَنتے نکلے یہ دیکھ کر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ ’’یہ چال خدا عَزَّوَجَلَّ کو ناپسند ہے۔‘‘ ([312])حضرت ابو دُجانہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ صفوں کو چیرتے اور لاشوں پر لاشیں گراتے دامن کو ہ([313])میں مشرکین کی عورتوں تک جا پہنچے جو بغرضِ ترغیب دف پر اشعار ذیل گا رہی تھیں :   ؎


 

نحن  بنات طارق                                                         نمشی علی النمارق

ان  تقبلوا  نعانق                                                         او  تدبروا  نفارق

          ہم (علووشرف میں ) پروین ستارے ہیں ۔ ہم قالینوں پر چلنے والیاں ہیں اگر تم آگے بڑھو گے تو ہم تم سے گلے ملیں گی پیچھے ہٹو گے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی۔

           حضرت ابو دجانہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تلوار اٹھا ئی کہ ہند بنت عتبہ کے سر پر ماریں پھر بدیں خیال رک گئے کہ یہ سزاوار نہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی تلوار ایک عورت پر ماری جائے۔([314])

          حضرت ابو دجانہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرح حضرت حمزہ و حضرت علی وغیرہ  بھی دشمنوں میں جا گھسے اور صفوں کی صفیں صاف کردیں ۔ حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو آخر کار وَحْشی نے جو بعد میں ایمان لا ئے، شہید کر دیا۔ وحشی اپنا قصہ یوں بیان کر تے ہیں : ’’حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے طُعَیْمَہ بن عَدی بن الخِیار کو بَدْر میں قتل کر دیا تھا اس لئے میرے آقا جبیر بن مطعم نے کہا: اگر تو ـحمزہ کو میرے چچا کے بدلے قتل کر دے تو آزاد ہو جائے گا۔ جب سال عینَین میں (عینین احد کے مقابل ایک پہاڑ ہے اور دونوں کے درمیان ایک وادی ہے) لوگ نکلے تو میں لوگوں کے ساتھ لڑائی کے لئے نکلا جب لڑائی کے لئے صف بستہ ہوئے تو سِباع (بن عبد العُزّٰی) نکلا اور کہا کیا کوئی مُبارِزہے؟ یہ سن کر حمزہ بن عبدالمُطَّلِب  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کی طرف نکلے اور یوں خطاب کیا: اے سِباع ! اے عورتوں کے ختنہ کرنے والی ام اَنمار([315])کے بیٹے! کیا تو خدا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ جنگ کر تا ہے!! یہ کہہ کر حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس پر حملہ کیا پس وہ کل گز شتہ کی طرح ہو گیا۔([316]) میں ایک پتھر کے نیچے حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تا ک میں تھا جب حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مجھ سے نزدیک ہوا میں نے اپنا حربہ([317]) اس پر مارا وہ اس کی ناف وعانہ([318])کے درمیان لگا۔ یہاں تک


 

کہ اس کی دو ر انوں میں سے نکل گیا اور یہ اس کا آخرامر([319])  تھا۔ جب لوگ واپس آئے میں ان کے ساتھ واپس آیااور مکہ میں ٹھہرا یہاں تک کہ اس میں اسلام پھیل گیا پھر (فتح کے بعد ) طائف کی طرف بھاگ گیا جب اہل طائف نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی طرف اپنے قاصدبھیجے تو مجھ سے کہا گیا کہ حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قاصدوں کو تکلیف نہیں دیتے۔ اس لئے میں قاصدوں کے ساتھ نکلا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے دیکھا تو پوچھا: کیا تو وحشی ہے؟ میں نے کہا:ہاں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دریافت فرمایا: کیا تو نے حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قتل کیا؟ میں نے کہا: ایسا ہی وقوع میں آیا ہے جیسا کہ آپ کو خبر پہنچی ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: تو میرے سامنے نہ آیا کر، پس میں چلا گیا۔ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا وصال ہوا تو مُسَیْلمہ کذاب ظاہر ہوا میں نے کہا کہ میں مسیلمہ کی طرف ضرور نکلوں گا شاید میں اسے مار ڈالوں اور اس طرح سے قتل حمزہ کی مکافات([320]) کر دوں اس لئے میں لوگوں کے ساتھ نکلا مسیلمہ کا حال ہوا جو ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک شخص ہے دیوار کے درمیان کھڑا ہوا۔ گو یا کہ وہ ایک ژَوْلِیْدَہ مو([321])   خاکستری([322])  اونٹ ہے۔ میں نے اس پر اپنا حربہ([323])   مار اجو اس کے دو پستان کے درمیان لگا یہاں تک کہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان سے پار ہو گیا۔ انصار میں سے ایک شخص اس کی طرف کودا اور اس کے سر پر تلوار ماری پس ایک لونڈی نے گھر کی چھت پر (نوحہ کر تے ہوئے ) کہا : ’’وائے امیر المؤمنین! ([324]) اسے ایک حبشی غلام وحشی نے قتل کر دیا‘‘۔([325])

          حضرت حنظلہ بن ابی عامر انصاری اَوسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مشرکین کے سپہ سالا رابو سفیان پر حملہ کیا اور قریب تھا کہ ابو سفیان کو قتل کر دیتے مگر شدَّاد بن الا سود نے ان کے وار کو روک لیااور اپنی تلوار سے حضرت حنظلہ رَضِیَ


 

اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو شہید کر دیا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ فرشتے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں ۔ ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کرو۔ بیوی نے کہاکہ شب اُحُد کو ان کی شادی ہوئی تھی۔ صبح کو اٹھے تو غسل کی حاجت تھی غسل کے لئے آدھا سر دھویا تھا کہ دعوت جنگ کی آواز کان میں پڑی۔ فوراً اسی حالت میں وہ شریک جنگ ہو گئے۔ یہ سن کر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ اسی سبب سے اسے فرشتے غسل دے رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے حضرت حنظلہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو غَسِیْل الملائکہ([326]) کہتے ہیں ۔([327])

          بہادر ان اسلام نے خوب دادِ شجاعت دی۔([328])مشرکین کے پاؤں اکھڑ گئے۔ عثمان بن ابی طلحہ کے بعد ان کے علمبر دار ابو سعید بن ابی طلحہ، مُسَافِع بن طلحہ، حارِث بن طلحہ، کِلاب بن طلحہ،جُلَّاس بن طلحہ، اَرْطات بن شُرَحْبِیْل، شُریح بن قارِظ اور ابو زید بن عمرو بن عبد مناف یکے بعد دیگرے قتل ہو گئے۔ ان کا جھنڈا زمین پر پڑا رہ گیا کوئی اس کے نزدیک نہ آتا تھا، عَمْرہ بنت عَلقَمہ حارِثِیَّہ نے اٹھا لیا ، جس سے ایک حبشی غلام صُواَب نام نے لے لیا۔ قریش اس کے گرد جمع ہو گئے، لڑ تے لڑ تے صُو اب کے دونوں با زو کٹ گئے وہ سینے کے بل زمین پر گر پڑا اور جھنڈے کو سینے اور گر دن کے درمیان دبا لیا اس حالت میں یہ کہتا ہواما را گیا کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔([329])

          صو اب کے بعد کسی کو جھنڈا اٹھا نے کی جرأت نہ ہوئی۔ مشرکین کو شکست ہوئی۔ وہ عورتیں جو دف بجاتی تھیں اب کپڑے چڑھا ئے بر ہنہ ساق پہاڑ پر بھاگی جارہی تھیں ۔ مسلمان قتل وغارت میں مشغول تھے۔ یہ دیکھ کر عینَین پر تیر  اَندازوں نے آپس میں کہا: ’’غنیمت! غنیمت! تمہارے اصحاب غالب آگئے ہیں ۔اب تم کیا دیکھتے ہو۔‘‘ حضرت عبداللّٰہ بن جبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے انہیں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد یاددلایا مگر وہ بدیں خیال کہ مشرکین اب واپس نہیں آسکتے اپنی جگہ چھوڑ کر لوٹنے میں مشغول ہو گئے اور صرف چند آدمی حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی


 

 عَنْہُ کے ساتھ رہ گئے۔ خالد بن وَلید اور عِکرَمہ بن اَبی جہل نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کیا اور سب کو شہید کر دیا۔ پھر درّۂ کو ہ میں سے آکر عقب سے لشکر اسلام پر ٹوٹ پڑے اور ان کی صفوں کو در ہم بر ہم کر دیا۔ ابلیس لعین نے پکار کر کہا: ان محمدًا قد قتل(محمد قتل ہوچکے ) مسلمان سراسیمہ ([330])  بھاگنے لگے اور ان کے تین فر قے ہوگئے۔ فرقہ قلیل بھاگ کر مدینے کے قریب پہنچ گئے اور اختتام([331]) جنگ تک واپس نہیں آئے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہو ئی ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  تَوَلَّوْا  مِنْكُمْ  یَوْمَ  الْتَقَى  الْجَمْعٰنِۙ-اِنَّمَا  اسْتَزَلَّهُمُ  الشَّیْطٰنُ  بِبَعْضِ   مَا  كَسَبُوْاۚ-وَ  لَقَدْ  عَفَا  اللّٰهُ  عَنْهُمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  غَفُوْرٌ  حَلِیْمٌ۠(۱۵۵)    (آلِ عمران، ع۱۶)

تحقیق جو لوگ کہ پیٹھ مو ڑ گئے تم میں سے اس دن کہ ملیں دو جماعتیں ۔ سوائے اس کے نہیں کہ ڈگا دیا ان کو شیطان نے کچھ ان کے گناہوں کی شامت سے اور تحقیق معاف کیا اللّٰہ نے ان سے بیشک اللّٰہ بخشنے والا بردبار ہے۔([332])

          دوسرا فرقہ یعنی اکثرصحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمیہ سن کر کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قتل ہو گئے، حیر ان ہو گئے۔ ان میں سے جہاں کو ئی تھا وہیں رہ گیا اور اپنی جان بچا تا رہا یا جنگ کر تا رہا۔ تیسرا فرقہ جو بار ہ یا کچھ اوپر صحابہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے ساتھ ثابت رہا۔

          فتح کے بعد مسلمانوں کو جو شکست ہو ئی اس کی وجہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ارشاد کی خلاف ورزی تھی جیسا کہ آیا ت ذیل سے ثابت ہے :

وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖۚ     حَتّٰۤى  اِذَا  فَشِلْتُمْ  وَ  تَنَازَعْتُمْ

فِی  الْاَمْرِ  وَ  عَصَیْتُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِ  مَاۤ  اَرٰىكُمْ  مَّا  تُحِبُّوْنَؕ-مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ

اور البتہ تحقیق سچا کیا ہے تم سے اللّٰہ نے وعدہ اپنا جس وقت کاٹتے تھے تم ان کو اسکے حکم سے یہاں تک کہ جب نامردی کی تم نے اور جھگڑ اکیا تم نے اپنے کا م میں اور نافر مانی کی تم نے بعد اسکے کہ


 

مَّنْ  یُّرِیْدُ  الدُّنْیَا  وَ  مِنْكُمْ  مَّنْ  یُّرِیْدُ  الْاٰخِرَةَۚ-ثُمَّ  صَرَفَكُمْ  عَنْهُمْ  لِیَبْتَلِیَكُمْۚ-وَ  لَقَدْ  عَفَا  عَنْكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  ذُوْ  فَضْلٍ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۵۲)اِذْ  تُصْعِدُوْنَ  وَ  لَا  تَلْوٗنَ  عَلٰۤى  اَحَدٍ  وَّ  الرَّسُوْلُ  یَدْعُوْكُمْ  فِیْۤ  اُخْرٰىكُمْ  فَاَثَابَكُمْ  غَمًّۢا  بِغَمٍّ  لِّكَیْلَا  تَحْزَنُوْا  عَلٰى  مَا  فَاتَكُمْ  وَ  لَا  مَاۤ  اَصَابَكُمْؕ-وَ  اللّٰهُ  خَبِیْرٌۢ  بِمَا  تَعْمَلُوْنَ(۱۵۳)  (آل عمران، ع۱۶)

 دکھلا یا تم کو جو چاہتے تھے تم، بعض تم میں سے وہ تھا کہ ارا دہ کر تا تھا دنیا کااور بعض تم میں سے وہ تھا کہ ارادہ کرتا تھا آخرت کا، پھر پھیر دیا تم کو ان سے تاکہ آزما وے تم کو  اور البتہ تحقیق معاف کیا تم سے اور اللّٰہ صاحب فضل کا ہے ایمان والوں پر جس وقت چڑ ھے جاتے تھے تم شہر کو اور پیچھے نہ دیکھتے تھے کسی کو اور رسول پکار تا تھا تم کو پچھاڑی میں پس دوبارہ دیا تم کو غم ساتھ غم کے تاکہ تم غم نہ کھاؤاس چیز کا جو چوک گئی تم سے اور جو نہ پہنچی تم کو اور اللّٰہ کو خبر ہے اس چیز کی کہ کرتے ہو تم۔([333])

          خالد بن ولید کے حملے پر مسلمانوں میں جو لوٹنے میں مشغول تھے ایسی ابتری و سرا سیمگی([334] ) پھیلی کہ اپنے بیگانے میں تمیز نہ رہی۔ چنانچہ حضرت حُذَیفہ کے والد حضرت یَمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو مسلمانوں ہی نے شہید کردیا۔

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی شہادت کی آواز نے بڑے بڑے بہادروں کو بد حواس کر رکھا تھا۔ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میرے چچا حضرت اَ نَس بن نَضْررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ بَدْر میں حاضر نہ تھے۔ وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کر نے لگے: یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں پہلے قتال میں کہ آپ نے بذات شریف مشرکین سے کیا ہے حاضر نہ تھا۔ اگر خدا مجھے


 

 مشرکین کے قتال میں حاضر کر ے تو دیکھئے گاکہ میں کیا کر تا ہوں ۔ جب احد کا دن آیا اور مسلمانوں نے شکست کھا ئی تو کہا:یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں عذر چاہتا ہوں تیرے آگے اس سے جوا ن لوگوں نے کیا یعنی اصحاب کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اور بیزار ہوں تیرے آگے اس سے جو ان لوگوں نے کیا یعنی مشرکوں نے۔ پھر لڑائی کے لئے آئے۔ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُان کو ملے، ابن نَضْر نے کہا: سعد! میں بہشت چاہتا ہوں اور نضر کے رب کی قسم کہ میں احد کی طرف سے اس کی خو شبو پاتا ہوں ۔ سعد نے کہا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نہ کرسکا جو ابن نضر نے کیا۔ انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ ہم نے ابن نَضْرپر اَسی80 سے کچھ اوپر تلوارو نیزہ وتیر کے زخم پائے اور وہ شہید تھے، مشرکین نے ان کو مُثلہ کردیا تھا، ان کو فقط ان کی بہن نے انگلیوں کے پوروں سے پہچانا۔ راوی کا بیان ہے کہ ہم گمان کر تے تھے کہ آیت ذیل ابن نَضْر اور اس کی مثل دوسروں کے حق میں نازل([335] )ہوئی ہے:

 مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ﳲ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًاۙ(۲۳)  ([336] )(احزاب، ع۳) 

مسلمانوں میں سے وہ مر دہیں کہ سچ کر دکھا یا انہوں نے اس چیز کو کہ عہد با ند ھا تھا اللّٰہ سے اس پر۔پس بعض ان میں سے وہ ہے کہ پورا کر چکا کام اپنا اور بعض ان میں سے وہ ہے کہ انتظار کر تا ہے اور نہیں بدل ڈالا انہوں نے کچھ بدل ڈالنا۔([337] )

          ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن نَضْررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے راستے میں مہا جرین وانصار کی ایک جماعت کو دیکھاجس میں حضرت عمر فاروق وطلحہ بن عبید اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بھی تھے وہ ما یوس ہو کر بیٹھ رہے تھے۔ ابن نضر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے پوچھاکہ کیوں بیٹھ رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شہادت پاچکے ہیں ۔ ابن نضررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد تم زندہ رہ کر کیا کرو گے، تم بھی اسی طرح دین پر شہید ہو جاؤ۔ پھر ابن نضر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگ کیا اور شہید([338] ) ہو


 

 گئے۔([339] )

          حضرت ابن نضر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرح ثابت بن دَحْدَاح آئے اور انصار سے یوں خطاب کیا: ’’اے گروہِ انصار! اگر حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شہید ہو چکے تو اللّٰہ  تو زندہ ہے مر تا نہیں ،تم اپنے دین کے لئے لڑو۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے چند انصار کے ساتھ خالد بن ولید کی فوج پر حملہ کیا مگر خالد بن ولید نے ان کو شہید([340] )  کر دیا۔([341] )

           آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قتل کی افواہ اور مسلمانوں کی نظر وں سے غائب ہو نے کے بعد سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہچانا، سر مبارک پر مِغْفَر([342] ) تھا جس کے نیچے سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ حضرت کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے زور سے پکار کر کہا: ’’ مسلمانو! تم کو بشارت ہو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ ہیں ۔‘‘ یہ سن کر ایک جماعت حاضر خدمت ہو ئی اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق، علی المرتضیٰ، طلحہ بن عبید اللّٰہ، زبیر بن العوام اور حارث بن صَمَّہ وغیرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ساتھ شعب([343] )   کی طرف متوجہ ہو ئے تاکہ اپنے باقی اصحاب کا حال دیکھیں ۔ اب کفار نے بھی سب طرف سے ہٹ کر اسی رخ پر زوردیا۔ وہ بار بار ہجوم کر کے حملہ آور ہو تے تھے۔ ایک دفعہ ہجوم ہو اتو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’کون مجھ پر جان دیتا ہے ‘‘ حضرت زِیاد بن سَکَن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پانچ یا سات انصاری ساتھ لے کر حاضر ہوئے جنہوں نے یکے بعد دیگر ے جانبازی سے لڑکر جانیں فدا کر دیں ۔ عُتْبَہ بن ابی وَقَّاص نے پتھر مار کر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دانت مبارک (رباعیہ یمنٰی سفلٰی) شہید کر دیا([344])اور نیچے کا ہو نٹ زخمی کردیا۔ ابن قَمِئَہ لعین نے چہر ۂ مبارک ایسا زخمی کیاکہ خَود کے دو حلقے رخسار


 

 مبارک میں گھس گئے اور آپ ان گڑ ھوں میں سے ایک گڑھے میں گر پڑے جو ابو عامر فاسق نے بدیں غرض([345] )کھودے تھے کہ مسلمان بے علمی میں ان میں گرپڑ یں ۔ اس حالت میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرما رہے تھے: کیف یفلح قوم شجوا نبیھم(وہ قوم کیا فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کر دیا۔عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

لَیْسَ   لَكَ  مِنَ  الْاَمْرِ  شَیْءٌ  اَوْ  یَتُوْبَ  عَلَیْهِمْ  اَوْ  یُعَذِّبَهُمْ  فَاِنَّهُمْ  ظٰلِمُوْنَ(۱۲۸) (آلِ عمران، ع۱۳)

تیر ااختیار کچھ نہیں یاان کو تو بہ دیو ے یا ان کو عذاب کرے کہ وہ ناحق پر ہیں ۔([346] )

          حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہا تھ مبارک پکڑا اور حضرت طلحہ بن عبید اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اٹھایایہاں تک کہ آپ سید ھے کھڑے ہو گئے۔ حضرت ابو عبید ہ بن جراح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے دانتوں سے خود کا ایک حلقہ نکالا تو ان کا ایک سامنے کا دانت گر پڑا دوسرا حلقہ نکالا تو دوسرانکل گیا۔ حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والد مالک بن سِنان نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا خون چوس کر پی لیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود بھی کپڑے سے اپنے چہرے کا خون پونچھ رہے تھے کہ مبادا (ایسا نہ ہو) زمین پر گر پڑے تو عذاب نازل ہو اور یوں فرمارہے تھے:اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن  (اے اللّٰہ! عَزَّوَجَلَّ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔)([347] )

          اس موقع پر بعض اصحاب نے جانبازی کی خوب داددی چنانچہ حضرت طلحہ بن عبید اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اس کثرت سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سے تیرروکے کہ ہاتھ بیکار ہوگیا۔ حضرت ابو دُجانہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے ڈھا ل بنے کھڑے تھے۔ ان کی پشت پر تیر لگ رہے تھے مگراپنے آقا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر جھکے ہو ئے تھے۔ حضرت سعدبن ابی وقاص


 

 رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مدافعت میں تیر چلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے آپ پر میرے ماں باپ قربان۔([348] ) حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود ان کو اپنے تَرکَش میں سے تیر دیتے تھے اور فرماتے تھے: ’’پھینکتے جاؤ‘‘ حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بڑے تیرا نداز تھے، انہوں نے اس قدر تیر برسائے کہ دو تین کمانیں ٹوٹ ٹوٹ کر ان کے ہاتھ میں رہ گئیں ۔ وہ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر چمڑے کی ڈھال کی اوٹ بنا ئے کھڑے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کبھی گردن اٹھا کر دشمنوں کی طرف دیکھتے تو ابو طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عرض کر تے: ’’آپ پر میرے ماں باپ قربان! گردن اٹھا کر نہ دیکھئے ایسا نہ ہو کہ کوئی تیر لگ جائے۔یہ میرا سینہ آپ کے سینے کے لئے ڈھال ہے۔‘‘ حضرت شَمَّاس بن عثمان قرشی مخزومی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تلوار کے ساتھ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مدافعت کر رہے تھے۔ دائیں بائیں جس طرف سے وار ہو تاوہ ڈھال کی طرح آپ کو بچار ہے تھے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ ابھی رمق حیات باقی تھا([349] )کہ ان کو اٹھا کر مدینے میں حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس لے گئے۔ وہاں ایک دن رات زندہ رہ کر وفات پائی۔ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ اس دن ڈھال کے سوا مجھے کوئی ایسی چیز نہ سوجھی کہ جس سے شَمَّاس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو تشبیہ دوں ۔ اسی طرح سہل بن حنیف انصار ی اَوسی تیروں کے ساتھ مدافعت کر رہے تھے اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرمارہے تھے: ’’سہل کو تیردو۔ ‘‘ حضرت قَتَادَہ بن نعمان انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے چہرے مبارک کو بچا نے کے لئے اپنا چہرہ سامنے کیے ہو ئے تھے۔آخر کا رایک تیر ان کی آنکھ میں ایسا لگا کہ ڈیلا رخسارے پر آگرا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دست مبارک سے اس کی جگہ پر رکھ دیا اور یوں دعا فرمائی: ’’خدا یا! تو قتادہ کو بچا


 

جیسا کہ اس نے تیرے نبی کے چہر ے کو بچا یا ہے۔‘‘ پس وہ آنکھ دوسری آنکھ سے بھی تیز اور خوبصورت ہو گئی۔([350] )

          اَثنا ئے جنگ میں مشرکین کی عورتیں شہد ائے عِظام کو مُثلہ کر نے میں مشغول تھیں ۔ عُتْبَہ کی بیٹی ہندنے اپنے پاؤں کے کڑے، بالیاں اور ہار حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قاتل وحشی کو دے دیئے اور خود شہد اء کے کا نوں اور ناکوں سے اپنے واسطے کڑے بالیاں اور ہار بنا ئے اور حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے جگر کو پھاڑ کر چبایا نگل نہ سکی تو پھینک([351] )دیا۔([352] )

          حضرت مُصْعَب بن عمیر علمبر دار لشکر اسلام نے بھی آقا ئے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  پر جان فدا کر دی۔ جب ابن قَمِئَہ لعین حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قتل کے ار اد ے سے حملہ آور ہوا تو حضرت مُصْعَب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مُدافعت کی مگر شہید ہوگئے۔ حضرت محمد بن شُرَحْبِیْل عَبدَرِی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کر تے ہیں کہ حضرت مُصْعَب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا داہنا ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیااور وہ کہہ رہے تھے: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُولٌ (الآیہ) ([353] )پھر با یاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو جھک کر جھنڈے کو دونوں بازوؤں کے ساتھ سینہ سے لگا لیا اور آیۂ مذکور زبان پر تھی۔ راوی کا قول ہے کہ یہ آیت بعد میں نازل ہوئی مگر اس دن اللّٰہ تعالٰی نے بجواب قول قائل: ’’قَدْ قُتِلَ مُحَمُّدٌ‘‘ ان کی زبان پر جاری کر دی تھی۔([354] )حضرت مُصْعَب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد اسلامی جھنڈا حضرت علی مر تضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دیا گیا۔

          جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شعب پر چڑ ھے تو اُبی بن خَلَف سامنے آکر کہنے لگا: ’’اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اگر تم بچ گئے تو میں نہ بچوں گا۔‘‘ صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا: اگر اجازت ہو تو ہم میں سے ایک اس کا فیصلہ کر دے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اجا زت نہ دی اور بذات شریف حضرت


 

 حارث بن صَمَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نیز ہ لے کر اس کی گر دن پر ماراجس سے فقط خراش آئی اور لہونہ نکلا، اُبی مذکور مکہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہا کر تا تھاکہ میرے پاس ایک گھوڑ ا ہے جسے میں ہر روز آٹھ یا دس سیر پختہ ذُرَّہ (جُوار ) کھلا تا ہوں اس پر سوار ہو کر آپ کو قتل کروں گا۔ آپ فرماتے: بلکہ میں ان شَآء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تم کو قتل کروں گا۔ جب وہ قریش میں واپس گیا تو کہنے لگا: اللّٰہ کی قسم! مجھے محمد نے قتل کر دیا۔ وہ کہنے لگے: تو بے دل ہو گیا ہے۔ اس خراش کا کچھ ڈر نہیں ۔ اس نے کہا کہ مکہ میں مجھ سے محمد نے کہاتھا کہ میں تجھے قتل کر وں گا۔سواللّٰہ کی قسم! اگر وہ مجھ پر صرف تھوک دے تو میں مر جاؤں گا۔ چنانچہ قریش اس دشمن خدا کو مکہ کی طرف لے جارہے تھے کہ راستے میں مقام سَرَ ف میں مرگیا۔([355] )

          جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شعب کے دہا نے پر پہنچے تو حضرت علی مرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مہراس ([356] ) (کُنْڈ) سے اپنی ڈھال پانی سے بھر لا ئے تاکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پئیں مگر آپ نے اس میں بُو پائی اور نہ پیا۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اس سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرے سے خون دھویا اور سر مبارک پر گر ایا۔ اس وقت حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ‘’اِشْتَدَّ ([357] )غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ دَمّٰی وَجْہَ نَبِـیِّـہٖ’‘۔([358] )

          مشرکین اب تک تعاقب میں تھے چنانچہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اصحاب مذکورۂ بالا کے ساتھ شعب میں تھے تو ان کے سواروں کا ایک دستہ بسر کر دگی خالد بن ولید پہاڑ پر چڑھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ خدایا ! یہ ہم پر غالب نہ آئیں ۔ پس حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مہاجرین کی ایک جماعت نے قتال کیا یہاں تک کہ ان کو پہاڑ سے اتا ردیا۔یہاں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک چٹان پر چڑھنے لگے تو ناتوانی اور دہر ی زرہ کے سبب سے نہ چڑھ سکے۔ یہ دیکھ کر حضرت طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے نیچے بیٹھ گئے اور آپ ان کی پشت پر سے چڑھ گئے۔ اس وقت حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اوجب طلحۃ (یعنی حضرت طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے وہ کام کیا کہ جس سے وہ بہشت کے مستحق ہو گئے۔) اس روز زخموں کی وجہ سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ


 

 وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز ظہر بیٹھ کر ادا کی اور مقتدیوں نے بھی بیٹھ کر پڑھی۔([359] )

          جب ابو سفیان نے میدان سے واپس ہونے کا ار ادہ کیا تو سامنے کی ایک پہاڑ ی پرچڑھ کر پکارا: کیا تم میں محمد ہیں ؟ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کا جواب نہ دو۔ وہ پھر پکار ا:کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اس کا جواب نہ دو۔ اس نے پھر پکار کر کہا: کیا تم میں ابن خطاب ہے؟ جب جواب نہ ملا تو کہنے لگا کہ یہ سب مارے گئے کیونکہ اگر زندہ ہو تے تو ضرور جواب دیتے۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رہا نہ گیا بول اٹھے: ’’اود شمن خدا! تو نے جھوٹ کہا، وہ سب زندہ ہیں ۔ اللّٰہ نے تیرے واسطے وہ باقی رکھا ہے جو تجھے غمگین کر ے گا۔ (فتح کے دن) ابو سفیان بولا:

’’ اُعْلُ ھُبل’‘ اے ہبل! تو اُو نچارہ۔

صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے حسب ار شاد حضور جواب دیا :

‘’ اَ    للّٰہُ اَعْلٰی وَ اَجَلُّ’‘ اللّٰہ اونچا اور بڑا ہے ۔

ابو سفیان نے کہا :

’’لَنَا الْعُزّٰی وَ لَا عُزّٰی لَکُمْ‘‘ہمارے پاس عزیٰ ہے اور تمہارے پاس عزیٰ نہیں

صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے حسب ار شاد نبوی جواب دیا :

‘’ اَ    للّٰہُ مَوْلَانَا ولَا مَوْلٰی لَکُمْ’‘اللّٰہ ہمارا ناصر ومد د گار ہے اور تمہارا کوئی ناصر نہیں ۔

          ابو سفیان نے کہا:آج کا دن بَدْر کے دن کا جواب ہے۔ لڑائی میں کبھی جیت کبھی ہار ہوتی ہے۔ تم اپنی قوم میں ناک کان کٹے پاؤ گے۔ میں نے اپنی فوج کو یہ حکم نہیں دیامگر اس پر کچھ رنج بھی نہیں ہوا۔([360] )اس کے بعد ابو سفیان یہ کہہ کر واپس ہواکہ ہمارا اور تمہارا مقابلہ آیندہ سال مقام بَدْر میں ہو گا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمادیا کہ کہہ دیجئے: ہاں ! بَدْر ہمارا اور تمہارا مَوْعِدہے۔([361] ) اس طرح جب مشرکین مکہ کو لوٹے تو


 

 صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو خدشہ ہو اکہ مبادا([362] ) وہ مدینہ کا قصد کریں اس لئے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو در یافت حال کے لئے بھیجا اور فرمادیا کہ اگر وہ اونٹوں پر سوار ہوں اور گھوڑوں کو پہلو میں خالی لئے جارہے ہوں تو سمجھنا کہ وہ مکہ کو جاتے ہیں اگر اس کا عکس کریں تو مدینہ کا قصد رکھتے ہیں ۔ حضرت مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم خبر لائے کہ وہ اونٹوں پر سوار گھوڑوں کو خالی لے جارہے ہیں اور مکہ کی طرف متوجہ ہیں ۔([363] )

سَنُلْقِیْ  فِیْ  قُلُوْبِ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوا  الرُّعْبَ(آل عمران، ع۱۶)([364] )

 مشرکین کے اسی فرار کی طرف اشارہ ہے جیساکہ پہلے آچکا ہے۔

          خواتین اسلام نے بھی اس غزوہ میں حصہ لیا چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ اور ام سُلَیم (والدۂ انس) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم  پائینچے چڑھا ئے ہوئے کہ جس سے ان کے پاؤں کی جھانجھیں ([365] )  نظرآتی تھیں ، مشکیں بھر بھرکر لاتی تھیں اور مسلمانوں کو پانی پلا تی تھیں ۔ جب مشکیں خالی ہوجاتیں تو پھر بھر لاتیں اور پلا تیں ۔ حضرت اُم سَلِیط (والدۂ حضرت ابو سعید خدری   رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ) بھی یہی خدمت بجالا رہی تھیں ۔ حضرت ام اَیمن   رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا (رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دایہ ) اور حَمنَہ بنت جحش (ام المؤمنین زینب کی بہن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما ) پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مر ہم پٹی کر تی تھیں ۔ حضرت ام عَمَّارہ نَسِیْبَہ بنت کعَب انصاریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا (زوجہ زید بن عاصم انصاری مازنی ) اپنے شوہر اور دونوں بیٹوں کے ساتھ مشک لے کر نکلیں ۔ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ صرف چند جانباز رہ گئے تو یہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس پہنچیں اور تیر اور تلوارسے کا فر وں کو رو کتی رہیں ۔ جب ابن قَمِئَہ لعین، حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف بڑھاتوحضرت مُصْعَب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور چند اور مسلمان مقابل ہوئے۔ ان میں ام عَمَّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا بھی تھیں ۔ ابن قَمِئَہ نے ان کے کندھے پر ایسی ضرب لگائی کہ غار


 

 پڑ گیا۔ ام عَمَّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے بھی کئی وار کیے مگر وہ دشمن خدا دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا اس لئے کار گر نہ ہوئے۔ حضرت صَفْیَہ (حضرت امیر حمزہ کی بہن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ) مسلمانوں کی شکست پر اُحُد میں نیز ہ ہاتھ میں لئے آئیں اور بھاگنے والوں کے منہ پر مار کر کہتی تھیں کہ تم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو چھوڑ کر بھاگتے ہو۔ پھر بھائی کی لاش دیکھ کر بڑے استقلال سے’’ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ‘‘ پڑھا اور دعائے مغفرت کی۔

          جب مشرکین میدان کا رزار سے چلے گئے تو مدینہ کی عور تیں صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم  کی مدد کو نکلیں ۔ ان میں حضرت فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  بھی تھیں ۔ جب حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھا تو خوشی کے مارے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گلے لپٹ گئیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زخموں کو دھونے لگیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ڈھال سے پانی گرارہے تھے۔ جب فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے دیکھا کہ پانی سے خون زیادہ نکل رہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑ اجلا کر لگا دیا جس سے خون([366] ) بند ہو گیا۔ پھر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ دَ مُّوْا وَجْہَ رَسُوْلِہٖ([367] )پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا: اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن([368] )اس کے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے محمد بن مسلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضرت سعد بن ربیع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا حال معلوم کرنے کے لئے بھیجا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مقتولین میں زخمی پایا۔ ( ان پر تیر ،تلوار اور نیزے کے ستر زخم تھے۔) ان میں فقط رمق حیات باقی تھا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حکم دیا ہے کہ میں دیکھوں کہ تم زندوں میں ہو یا مر دوں میں ۔ حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دھیمی آواز سے جواب دیا: ’’میں مردوں میں ہوں ، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں میرا سلام پہنچانا اور عرض کر ناکہ سعد بن ربیع آپ سے گز ارش کر تا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی آپ کو ہماری طرف سے اچھی سے اچھی جزادے جو اس نے کسی نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی امت کی طرف سے دی ہے اور اپنی قوم کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ اگر کوئی (دشمن )


 

 تمہارے پیغمبر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک (بارا دۂ قتل ) پہنچ جائے اور تم میں سے ایک بھی زندہ ہو تو خدا عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں تمہا را کوئی عذرنہ ہو گا۔‘‘ حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ کہہ کر واصل بحق ہوگئے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں صورت حال عرض کر دی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ سن کر فرمایا: ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس پر رحم کرے اس نے حیات وموت میں خدا عَزَّوَجَلَّ اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خیر خواہی کی۔‘‘([369] )

          اس غزوہ میں مسلمانوں میں سے ستر یا کچھ کم وبیش شہید ہو ئے۔ اِبن نَجَّار نے ان سب کے نام دیئے ہیں ۔ جن میں سے چار مہاجرین میں سے اور باقی چھیا سٹھ انصار میں سے ہیں ([370] ) اختتامِ جنگ پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شہدائے کرام کی لاشوں پر تشریف لے گئے۔ حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی لاش مبارک کو دیکھ کر فرمایا کہ ’’ایسا دردنا ک منظر میری نظر سے کبھی نہیں گزرا۔ حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ساتوں آسمانوں میں شیر خدا اور شیر رسول لکھے گئے۔‘‘ پھر تمام لاشوں پر نظر ڈالتے ہو ئے فرمایا : ([371] ) اَنَا شَھِیْدٌ عَلٰی ھٰٓـؤُلَآئِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۔میں قیامت کے دن ان کا شفیع ہوں ۔

          بعد ازاں([372] )  حکم دیا کہ ان کو دفن کر دیا جائے۔ کپڑے کی قلت کا یہ عالم تھا کہ عموماً دودو تین تین ملا کر ایک ہی کپڑے میں ایک ہی قبر میں دفن کردیئے گئے۔ جس کو قرآن زیادہ یا دہوتا اس کو مقدم کیا جاتا اور ان شہداء پر اس وقت نماز جنازہ نہ پڑھی گئی بلکہ بے غسل اسی طرح خون میں لتھڑے ہوئے دفن کر دیئے گئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔([373] )

          سید ا لشُہَداء امیر حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک چا در میں دفن کیا گیا مگر چادر کو تا ہ تھی اگر منہ ڈھا نپتے تو قدم ننگے


 

 رہتے، قدموں کو چھپاتے تو منہ ننگا رہتا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ منہ کو ڈھا نپ دو اور قدموں پر حَرمَل([374])ڈال دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔([375] )

          حضرت مُصْعَب بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب شہید ہو ئے تو ان کے پاس صرف ایک کملی([376] )  تھی اس سے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے رہتے اور پاؤں چھپا تے تو سر ننگا رہتا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد سے سر کملی سے ڈھانپ دیا گیا اور پاؤں اِذ ْخَر([377] ) گھاس([378] )سے چھپا دیئے گئے۔([379] )

          حضرت وَہْب بن قابُوس مُزَنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کا بھتیجا حارث بن عُتْبَہ بن قابو س([380] )بکریاں چراتے مدینہ میں آئے۔ جب معلوم ہوا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غزوۂ اُحُد پر تشریف لے گئے تو اسلام لا کر حاضر خدمت اقدس ہو ئے۔ خالد و عِکرَمہ کے حملہ کے وقت حضرت وَہْب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بڑی بہادری سے لڑے۔ مشرکین کا ایک دستہ آگے بڑھا تو آپ نے تیروں سے ہٹا دیا،دو سر اآیا تو اسے تلوار سے بھگا دیا، تیسر اآیا تو تلوار سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کا بھتیجا بھی اسی طرح لڑکر شہید ہوا۔ مشرکین نے حضرت وہب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بری طرح سے مثلہ کر دیا تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اگر چہ زخموں سے نڈھال تھے مگر دونوں لا شوں پر کھڑے رہے اور حضرت وہب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْکَ فَاِنِّیْ عَنْکَ رَاضٍ ‘‘  اللّٰہتجھ سے راضی ہو،میں توتجھ سے راضی ہوں ۔

          حضرت وہب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو لحد میں رکھا گیا تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کا سر ان ہی کی چادر سے چھپادیا مگر وہ چادر ان کی نصف ساق([381] )  تک پہنچی اس لئے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے


 

ارشاد سے پاؤں پر حَرمَل([382] )ڈال دی گئی۔ حضرت عمر فاروق اور حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش! ہم خدا تعالٰی سے مُزَنی کے حال میں ملیں ۔([383] )

          حضرت عبداللّٰہ بن عَمرو بن حِزَام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جنازہ اٹھا یا گیا تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک رونے والی عورت کی آواز سنی اور دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے؟ عرض کیا گیا کہ مقتول کی بہن یا پھو پھی ہے۔  فرمایا کہ یہ کیوں روتی ہے یا فرمایا کہ نہ روئے کیونکہ جنازہ اٹھنے تک فرشتے اسے اپنے بازوؤں سے سایہ کر تے رہتے ہیں ۔([384] ) ترمذی (ابواب تفسیر القرآن ) میں حضرت جابربن عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھ سے ملے فرمایا کہ تو غمگین کیوں ہے ؟ میں نے عرض کیا :یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرا باپ احد کے دن شہید ہو گیا اور قرض وعیال چھوڑ گیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کیا میں تجھے بشارت نہ دوں کہ خدا تیرے باپ سے کس طرح ملا ہے؟ اللّٰہ تعالٰی نے کبھی شہدائے احد میں سے کسی سے بے پردہ کلام نہیں کیا مگر تیرے باپ سے روبر وکلام کیا اور کہا: مجھ سے مانگ کہ تجھے عطا کر وں ۔ تیرے باپ نے کہا: اے پروردگار! عَزَّوَجَلَّ تو مجھے حیات دنیوی عطا کر تا کہ میں دو بارہ تیر ی راہ میں شہید ہو جاؤں ۔ رب عَزَّوَجَلَّنے کہا :میری طرف سے وعدہ ہوچکا ہے کہ وہ (مر کر) دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے۔ پس یہ آیت نازل ہوئی:’’وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا‘‘([385] ) (الآیہ) ([386] )حضرت عبد اللّٰہ بن عَمر وبن حزام بھی ایک کملی([387] )میں دفن ہو ئے تھے، پاؤں حَرمَل سے چھپا دیئے گئے تھے۔

          حضرت عبد اللّٰہ بن جُبَیررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تیر اَ ندازوں کے امیر تھے جب ان کے ساتھ صرف چند آدمی رہ


 

 گئے تو مشرکین نے ان پر حملہ کیا وہ سب شہید ہو گئے مگر اپنی جگہ کو نہ چھوڑا۔ حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پہلے دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے جب تیر ختم ہو گئے تو نیز ہ سے کام لینے لگے جب نیز ہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار سے لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ کفار نے آپ کو بری طرح سے مثلہ کر دیاتھاآپ کے بھائی حضرت خَوَّات بن جُبَیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کمانوں سے گڑ ھا کھود کر آپ کو دفن کر دیا۔([388] )

          حضرت عَمر وبن جَمُوح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ لنگڑے تھے۔ ان سے کہا گیاکہ آپ معذور ہیں آپ پر جہاد فرض نہیں ، مگر وہ مسلح ہو کر نکلے اور کہنے لگے کہ مجھے امید ہے کہ میں اسی طرح بہشت میں ٹہلا کروں گا۔ پھر قبلہ رو ہو کر یوں دعا کی: ’’خدا یا! مجھے شہادت نصیب کر اور اپنے اہل کی طرف محروم واپس نہ لا۔‘‘ چنانچہ اُحُد میں شہید ہوگئے۔([389] )

          اَثنا ئے جنگ([390] ) میں ایک مسلمان کھڑا ہوا کھجور یں کھارہا تھا اس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پوچھا کہ اگر میں مارا گیا تو کہاں ہو ں گا؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’بہشت میں ۔ ‘‘یہ سن کر اس نے کھجوریں ہاتھ سے پھینک دیں اور لڑ تا ہو اشہید ہو گیا۔([391] )

          شہدائے کرام کی تد فین کے بعد رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  مدینہ کو واپس آئے۔ راستے میں جو عورتیں اپنے اہل واقارب کا حال دریافت کر تی تھیں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبتاتے جاتے تھے۔ آپ بنودینار کی ایک عورت کے برابر سے گز رے جس کا شوہر اور بھائی اور باپ احد میں شہید ہو گئے تھے، لوگوں نے اسے تینوں کی شہادت کی خبر دی تو اس نے کچھ پر وانہ کی اور پو چھا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کیسے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ بخیر ہیں ۔ کہنے لگی کہ مجھے دکھا دو تاکہ میں آنکھوں سے دیکھ لوں چنانچہ اس وقت حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف اشارہ کر دیا گیا۔ اس نے جب حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّی کو دیکھا تو پکا ر اٹھی: ([392] ) ‘’کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ


 

 جَلَلٌ’‘([393] ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہو تے ہوئے ہر ایک مصیبت ہیچ ہے۔

           جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انصار کے محلہ بنی عبد الا َشْہَل میں پہنچے تو ان کی عورتوں کو دیکھا کہ اپنے مقتولین پر رو رہی ہیں ۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور زبان مبارک سے نکلا: ’’اَمَّا حَمْزَۃُ فَلَا بَوَاکِیْ لَہٗ ‘‘ لیکن حمزہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے کوئی رونے والیاں نہیں ۔

           یہ سن کر حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُن عورتوں کے پاس گئے اور کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دردولت پر جاکر افسوس کر و، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ہم بھی شامل گریہ ہو گئیں ۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سو گئے اور ہم رور ہی تھیں ، آپ نے جاگ کر نماز عشا پڑھی اور سوگئے پھر جو آنکھ کھلی اور رونے کی آواز سنی تو فرمایا: کیا تم اب تک رورہی ہو۔ یہ فرماکر آپ نے رونے والیوں کو رخصت کیا اور ان کیلئے اور انکے ازواج واولا د کیلئے دعا ئے خیر فرمائی۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے نو حہ سے منع فرمادیا۔([394] )

          اس واقعہ سے آٹھ برس کے بعد ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس طرف کو نکلے اورشہدائے اُحُد پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منبر منیف([395] ) پر رونق افر وز ہو کر یہ خطبہ دیا: ([396] )

اِنِّیْ فَرَطٌ لَّکُمْ وَ اِنِّیْ وَ اللّٰہِ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِی الْاٰنَ وَ اِنِّیْ اُعْطِیْتُ مَفَاتِحَ خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اَوْ مَفَاتِحَ الْاَرْضِ وَ اِنِّیْ وَ اللّٰہِ مَآ اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِیْ وَ لٰکِنْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنَافَسُوْا فِیْھَا۔([397] )

          بیشک میں تمہارے واسطے فرط([398] ) (پیشرو) ہوں ، اللّٰہ کی قسم! میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیا ں یا زمین کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں ۔ خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد مشرک بن جاؤ گے لیکن یہ ڈر ہے کہ تم دنیا میں پھنس جاؤ۔


 

ہجرت کا چوتھا سال

غزوہ بنی نَضِیر:

          یہ غز وہ ماہ ر بیع الا وَّل میں ہواجس کی وجہ نقضِ عہدِ سابق([399] )تھی۔ بنو عامر کے دو شخص جن کے ساتھ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا عہد تھا مدینہ منورہ سے اپنے اہل کی طرف نکلے۔ راستے میں عمرو بن اُمَیَّہ ضَمْری ان سے ملا،ا سے معلوم نہ تھا کہ وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جوار میں ([400] )  ہیں اس نے دونوں کو قتل کردیا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مطالبہ دیت کے لئے بنو نَضِیر سے مدد مانگی۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ تشریف رکھئے ہم باہم مشورہ کرتے ہیں ۔ پس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  حضرات ابو بکر وعمر وعلی وغیرہم کے ساتھ ان کی ایک دیوار تلے بیٹھ گئے۔ یہود نے بجا ئے مدد دینے کے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ بے خبری میں دیو ار پر سے آپ پر چکی کا پاٹ پھینک دیں ۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اطلاع کردی، آپ فوراً وہاں سے مدینہ منور ہ تشریف لائے اور جنگ کے لئے تیار ہو کر ان پر حملہ آور ہوئے۔ بنو قُرَیْظہ بھی برسرپیکار([401] )  تھے۔ آخرکار آپ نے بنو نضیر کو جلا وطن کر دیا۔ بدیں شرط([402] ) ان کو اجازت دی کہ جو مال وہ اونٹوں پر لے جاسکیں لے جائیں ۔ چنانچہ وہ اپنے اموال لے کر خیبر میں اور بعضے اَذرِعات واقع شام میں چلے گئے مگر بنو قُرَیْظہ  پر آپ نے احسان کیا کہ ان کو امن دے دیا۔([403] )  جُمَادَی الا ُولیٰ میں غزوہ ذات الرِّقاع ہوا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنو مُحارِب اور بنو ثَعْلَبہ کے قصد سے نجد کی طرف نکلے مگر قتال وقوع میں نہ آیا۔امام بخاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس غزوہ کو غز وۂ خیبر کے بعد بتا یا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ غزوہ دود فعہ ہوا ہو۔ صلوٰۃ الخوف سب سے پہلے اسی غز وہ میں پڑ ھی گئی۔ اس میں غَوْرَث بن حارِث کا قصہ پیش آیا۔


 

ہجرت کا پانچواں سال

غز وۂ دُومَۃُ الْجَندَ ل:[404]

          ماہ ربیع الا َوَّل میں غزوۂ دُومَۃُ الْجَندَ ل پیش آیا مگر قتال وقوع میں نہ آیا۔ شعبان میں غزوۂ مُرَیْسِیْع یا غز وۂ بنی المُصْطَلِق ہوا۔ جس میں بنو المُصْطَلِق مغلوب ہوئے۔ قصۂ اِفک یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا پر منافقوں نے جو تہمت لگا ئی تھی وہ اسی غز َوہ سے واپسی پر پیش آیا۔

غَزَوۂ اَحزاب

          ماہ ذی قعدہ میں غز وۂ احزاب یا غزوۂ خند ق واقع ہوا۔ بنو نَضِیر جِلاو طن ہو کر خیبر میں آرہے تھے، انہوں نے مکہ میں جا کر قریش کو مسلمانوں سے لڑ نے پر اُبھا رااور دیگر قبائل عرب (غَطَفان، بنو سُلَیم، بنومُرَّہ، اشجع، بنو اسد وغیرہ ) کو بھی اپنے ساتھ متفق کر لیا۔ بنو قریظہ پہلے شامل نہ تھے مگر حُیَیْ بن اَخطب نے آخر کا ران کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ غرض قریش و یہود وقبائل عرب بار ہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے۔ چو نکہ اس غز وہ میں تمام قبائل عرب و یہود شامل تھے اس واسطے اس غز وہ کو غزَ وۂ اَحزاب (حِز ْب بمعنی طائفہ ) کہتے ہیں ۔ کفار کی تیاری کی خبر سن کررسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا۔ حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ کھلے میدان میں لڑنا مصلحت نہیں ، مدینہ اور دشمن کے درمیان ایک خند ق کھود کر مقابلہ کر نا چاہیے۔ سب نے اس رائے کو پسند کیا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مستورات([405] ) اور بچو ں کو شہر کے محفوظ قلعوں میں بھیج دیا اور بذات شریف تین ہزار کی جمعیت کے ساتھ شہر سے نکلے اور سامی طرف میں([406] )  سَلْع کی پہاڑی کو پس پشت رکھ کر خندق کھودی۔ اس واسطے اس غز َوہ کو غز وۂ خندق بھی کہتے ہیں ۔ خندق کھودنے میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی بغر ض ترغیب شامل تھے۔ کفار نے ایک ماہ محاصرہ قائم رکھا۔ وہ خندق کو عبورنہ کر سکتے تھے۔ اس لئے دور سے تیر اور پتھر بر ساتے تھے۔ ایک روز قریش کے کچھ سوار عَمر وبن عبد وغیرہ ایک جگہ سے جہاں سے اتفاقاً عرض([407] )   کم رہ گیا تھا، خندق کو عبور کر گئے۔ عمر ومذکور نے مبارز([408] )


 

 طلب کیا۔ حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آگے بڑھے اور تلوار سے اس کا فیصلہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر باقی ہمراہی بھاگ گئے۔ آخر کا ر قریظہ وقریش میں پھوٹ پڑگئی اور([409] )باوجود سر دی کے موسم کے ایک رات بادِ صَرصَر([410] )کا ایسا طوفان آیا کہ خیموں کی طنا بیں([411] )اُکھڑ گئیں اور گھوڑ ے چھوٹ گئے۔ کھانے کے دیگچے چو لہوں پر اُلٹ اُلٹ جاتے تھے۔ اِمتِدادِ مُحَاصَرہ کے سبب سے([412] )سامانِ رَسد([413] )بھی ختم ہو چکا تھا ،اس لئے قریش ودیگر قبائل محاصر ہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور بنو قریظہ اپنے قلعوں میں چلے آئے اس غز َوہ میں شد ت قتال کے وقت عصر ومغرب اور بقول بعض ظہر بھی قضا ہو گئی تھی۔ شہداء کی تعداد چھ تھی جن میں اَوس کے سر دار حضرت سَعَد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی تھے ان کی رگِ اَکحل([414] )تیر لگنے سے کٹ گئی۔ مسجد میں رُفَیْدَ ہ انصار یہ کا خیمہ تھا جو زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو علاج کے لئے اسی خیمہ میں بھیج دیامگر وہ اس زخم سے جانبر نہ ہو ئے اور ایک ماہ کے بعد انتقال فرماگئے۔ اس غز وہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے متعدد معجزے ظہور میں آئے۔

غز وۂ بَنِی قُریْظَہ

          جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غزوۂ خندق سے واپس تشریف لائے تو نماز ظہر کے بعد بنو قریظہ سے جنگ کا حکم آیا۔ بنو قریظہ نقضِ عہد  کر کے([415] )اَحزاب کے ساتھ مل گئے تھے۔ اس لئے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتین ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے اور پچیس دن ان کو محاصر ہ میں رکھا۔ آخر کا ر انہوں نے حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حَکَم([416] )  منظور کر لیا۔ حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مرد قتل کیے جائیں ۔ عورتیں اور بچے گر فتار کرلئے جائیں اور ان کا مال واسباب غنیمت سمجھا جائے۔ اس پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’قَضَیْتَ بِحُکْمِ اللّٰہِ‘‘تو نے اللّٰہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیاہے۔ (استثنا ء باب ۲۰ آیت ۱۰)

          چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔مر دوں کی تعداد چھ سو یا سات سو تھی۔ اسی سال رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کانکاح حضرت زینب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے ہوا۔ جن کا قصہ قرآن کریم میں مذکورہے۔


ہجرت کا چھٹاسال

بیعت رِضوان اور صلح حدیبیہ

          ماہ جمادی الا ُولیٰ میں غزوۂبنی لِحْیَان پیش آیامگر مقابلہ نہ ہوا۔ ماہ ذیقعد میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک ہزار چار سو صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ساتھ مدینہ منورہ سے عمر ہ کے ار ادہ سے نکلے، حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہَا  ساتھ تھیں ۔ جب آپ ذُوالحُلَیْفَہ میں پہنچے جواہل مَدینہ کا میقات ہے ، آپ نے عمر ہ کا احرام باندھا اور قربانیوں کو تقلید واِشْعار([417] )  کیا۔ یہاں سے آپ نے حضرت بُسْر بن سُفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو قریش کی طرف بطور جا سوس بھیجا۔ جب آپ عُسْفان کے قریب غدیر اَشطاط میں پہنچے تو آپ کا جاسوس خبر لایا کہ قریش حُلَفَائ([418] )  سمیت مکہ سے باہر مقام بَلْدَ ح میں جمع ہیں اور آمادہ ہیں کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے مشورہ کیاکہ حُلَفَاء کے اہل وعیال کو گر فتار کیا جائے تاکہ اگر وہ ان کی مدد کو آئیں تو ہمیں تنہا قریش سے مقابلہ کر نا پڑے۔

          حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا:’’یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آپ بیت اللّٰہ کے قصد سے نکلے ہیں آپ کا ارادہ کسی سے لڑائی کا نہیں آپ بیت اللّٰہ کا رخ کریں جو ہمیں اس سے روکے گا ہم اس سے لڑیں گے۔‘‘ آپ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور آگے بڑھنے کا حکم دیا۔ جب آپ حدیبیہ کے قریب ثنیتہ المرار([419] )  میں پہنچے جہاں سے اُتر کر قریش کے پاس پہنچ جاتے، توآپ کی ناقہ قَصْوَاء بیٹھ گئی ہر چند اٹھانے کی کوشش کی گئی مگر نہ اٹھی آپ نے فرمایا: ’’قصواء نہیں ر کی اور نہ رکنا اس کی عادت ہے بلکہ خدا ئے حابس الفیل([420] )  نے اسے روک لیا ہے۔ قسم ہے اس ذات


 

کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریش مجھ سے کسی ایسی حاجت کا سوال نہ کریں گے جس سے وہ حُرُمَات اللّٰہ([421] )   کی تعظیم کریں مگر میں وہ انہیں عطا کر دوں گا۔‘‘ اس کے بعد آپ نے قصواء کو جھڑ ک دیا اور وہ اٹھ کھڑی ہو ئی اور آپ مڑ کر حد یبیہ([422] )کی پَر لی طرف([423] )ایک کوئیں پراتر ے جس میں پا نی کم تھا۔ موسم گرما تھاپانی جلدی ختم ہو گیا اور آپ کی خدمت اقدس میں پیاس کی شکایت آئی۔ آپ نے پانی کی ایک کُلِّی کو ئیں میں ڈال دی جس سے پانی بکثر ت ہو گیا اور چھاگل([424] )  میں اپنا دست مبارک رکھ دیاتو آپ کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی نکلنے لگا۔ ان دونوں معجز وں کا ذکر اس کتاب میں آگے آئے گا۔

           اسی اَثنا ء میں بُدَیل([425] )بن وَرْ قاء خُزَاعی اپنی قوم کے چند اشخاص کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہواکہنے لگا کہ قبائل کَعْب بن لُؤی اور عامر بن لُؤی حُدَیبیہ کے آبِ کثیر پر اتر ے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ دُودھیل([426] )اونٹنیاں اور عورتیں بچو ں سمیت ہیں ۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جواب دیا: ’’ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے بلکہ صرف عمرہ کے ار ادہ سے آئے ہیں ۔ لڑائی نے قریش کو کمزور کر دیا ہے اور نقصان پہنچایا ہے اگر وہ چاہیں توہم ایک مدت کے لئے ان سے جنگ کا اِلتوائ([427] ) کر دیتے ہیں باقی لوگوں سے ہم خود سمجھ لیں گے۔اگر میں غالب آجاؤں اور بصورت غلبہ وہ میری اطا عت میں آنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں اگر انہوں نے انکار کر دیاتو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے ضرور لڑتا رہوں گایہاں تک کہ میں اکیلا رہ جاؤں اللّٰہ  تعالٰی اپنے دین کی ضرورمدد کرے گا۔‘‘ بُدَیل نے عرض کیا کہ میں آپ کا یہ ارشاد ان تک پہنچا دوں گا۔ چنانچہ وہ قریش میں ا ٓکر کہنے لگاکہ میں اس مرد (رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کا قول سن آیا ہوں اگر چاہو تو گزارش کردوں ۔ ان میں سے ایک نا دان بو لا کہ ہم اس کی کسی


 

 بات کے سننے کے لئے تیار نہیں ۔ ایک صاحب الر ائے([428] ) نے کہا کہ بیان کیجئے جو اس سے سن آئے ہو۔ اس پر بدیل نے بیان کر دیا۔ عُر وَہ بن مسعودنے اٹھ کر کہا کہ اس نے ایک نیک امر پیش کیا ہے وہ قبول کر لو اور مجھے اس کے پاس جانے دو۔ چنانچہ عروہ خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور بد یل کی طرح کلام کیا اور وہی جواب پا یا۔ عر وہ نے یہ الفاظ ( میں ان سے ضرور لڑتا رہوں گا ) سن کر عرض کیا: ’’اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )بتا ئیے اگر آپ نے اپنی قوم کو بالکل ہلا ک کر دیا۔ کیا آپ نے عرب میں کسی کی بابت سنا ہے کہ اس نے آپ سے پہلے اپنے اہل کو ہلاک کر دیا ہو۔ اور اگر قریش غالب آگئے تو آپ ان سے امن میں نہ رہیں گے کیونکہ اللّٰہ کی قسم! میں سردار (مکہ ) ہوں اور اَخلاط کو دیکھتا ہوں جو اس لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں ([429] ) ۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ سن کر کہا: ‘’امصص بظر اللات([430] )  کیا ہم آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ! ‘‘ اس پر عروہ بولاکہ یہ کون ہے؟ جو اب ملا: ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔ پس وہ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یوں مخاطب ہوا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھ پر تیر ااحسان([431] )  نہ ہو تا جس کا بدلہ میں نے نہیں دیاتو میں تجھے جواب دیتا۔‘‘ پھر عر وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف متوجہ ہو ا۔ جب وہ آپ سے کلام کر تاتو (حسب عادتِ عرب ) آپ کی رِیش مبارک([432] ) کو چھوتا۔ اس وقت مُغِیر ہ بن شعبہ خَود سر پر تلوار ہاتھ میں لئے آپ کے سر مبارک پر کھڑے تھے۔ جب عروہ اپنے ہاتھ ریش مبارک کی طرف بڑ ھا تاتو مغیر ہ بغر ض تعظیم نیام شمشیر اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ ریش مبارک سے ہاتھ ہٹا ؤ۔ عر وہ نے آنکھ اٹھا کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ (تیر ابھتیجا ) مغیر ہ بن شعبہ۔ عر وہ نے یہ سن کر کہا: او بیو فا ! کیا میں تیری دیت([433] )


 

 میں کوشش نہ کرتا تھا؟ پھر عروہ اصحاب نبی کی طرف دیکھتا رہا۔ اس نے واپس جا کر اپنی قوم سے صحابہ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے اوصاف بیان کیے اور کہا کہ ایک نیک امر جو پیش کیا جارہاہے اسے قبول کر لو۔ پھر حُلَیس بن علقمہ خدمت اَقدس میں حاضر ہوا اس نے بھی واپس جا کر کہا کہ میری رائے ہے کہ مسلمانوں کو بیت اللّٰہ سے نہ روکا جائے۔ حُلَیس کے بعد مِکرَ ز آیاوہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کلام کر ہی رہا تھاکہ خطیبِ قریش سہیل بن عمرو قریشی عامر ی حاضر ہواآ پ نے بطریقِ تَفَاوُل([434] )فرمایا کہ اب تمہارا کام کچھ سہل([435] )ہوگیا۔ گفتگو ئے صلح کے بعد قرار پا یا کہ دس سال تک لڑائی بندر ہے۔ سہیل نے عرض کیا کہ معاہدہ تحریر میں آجائے۔ پس نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کا تب یعنی حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوطلب فرمایا۔

رسولاللّٰہ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)  (علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ):  لکھ!  ‘’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ’‘

سہیل: ‘’الرحمن’‘ میں نہیں جانتا کیا ہے بلکہ لکھ  بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ جیسا کہ تو پہلے لکھا کر تا تھا۔

صحابہ حاضر ین:اللّٰہ کی قسم!  بِسْمِ اللّٰہِ الرَّ حْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے سوااور نہ لکھ۔

رسولاللّٰہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم): لکھ ! ([436] )بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ(بعد تعمیل ) لکھ ! ھٰذاماقاضٰیعلیہ محمد رسول اللّٰہ ۔

سہیل: (بعد کتابت ) اللّٰہ  کی قسم! اگر ہم جانتے کہ تو اللّٰہ کا رسول ہے تو تجھے بیت اللّٰہ سے منع نہ کر تے اور نہ تجھ سے لڑائی کر تے (علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ) بلکہ لکھ محمد بن عبد اللّٰہ اور لفظ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مٹا دے۔

رسولاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ( سہیل سے ) :اللّٰہ کی قسم! میں بیشک اللّٰہ  کا رسول ہوں اگر تم میری تکذیب


 

کر رہے ہو (تو اس سے میری رسالت میں فرق نہیں آتا ) (علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے) اسے مٹادو!

 حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ : میں اسے نہیں مٹا ؤں گا۔

 رسولاللّٰہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ): مجھے اس لفظ کی جگہ بتا ؤ۔

          (حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بتا دیتے ہیں اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لفظ رسول اللّٰہ کو مٹا کر علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس کی جگہ محمد بن عبد اللّٰہ  لکھو اتے ہیں ) آگے لکھ! شرط یہ ہے کہ قریش ہمارے واسطے بیت اللّٰہ کا راستہ چھوڑ دیں گے اور ہم اس کا طواف کریں گے۔

 سہیل: اللّٰہ کی قسم! ہم نہ چھوڑ یں گے۔ عرب یہ کہیں گے کہ دباؤڈال کر ہمیں اس پر راضی کیا گیا ہے، ہاں آئندہ سال ایسا ہو جائے گا۔ ( چنانچہ ایسا ہی لکھا گیا ) دیگر شرط([437] )یہ ہے کہ ہم میں سے جو کوئی آپ کے پاس آئے خواہ وہ آپ کے دین پر ہو آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے۔

صحابہ حاضر ین: (متعجب ہو کر ) سبحان اللّٰہ ! جو مسلمان ہو کر آئے وہ مشرکین کی طرف کس طرح واپس کیا جائے گا ؟

          ( اسی اَثنا ء میں سہیل کا بیٹا ابو جَنْدَ ل پابزنجیر([438] )اَسفل مکہ سے ( قید خانہ میں سے نکل کر) یہاں آجا تا ہے اور اپنے تئیں([439] ) مسلمانوں کے حوالہ کر تا ہے۔)

سہیل:یا محمد! پہلے میں اسی پر آپ سے مُحَاکَمَہ کر تا ہوں ([440]  )کہ آپ اسے میرے حوالہ کردیں ۔

رسولاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:  ہم ابھی صلح نا مہ کی کتابت سے فارغ نہیں ہوئے۔

 سہیل: اللّٰہ کی قسم! تب میں بھی آ پ سے کبھی کسی بات پر مصالحت نہ کر وں گا۔

 رسولاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :اسے میرے پاس رہنے دو۔

سہیل: میں آپ کو اس کی اجا زت نہیں دیتا۔


 

رسولاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :ہاں اجازت دے دو۔

سہیل: میں ایسا نہیں کر نے کا۔

مِکرَز: ( سہیل سے ) ہم نے تیرے واسطے اجازت دے دی۔

 ابو جَندَ ل:اے مَعْشَرِ مسلمین([441]  ) ! میں مسلمان ہو کر مشرکین کے حوالہ کیا جار ہا ہوں کیا تم میری تکلیف نہیں دیکھتے ہو۔

رسولاللّٰہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) : ابو جندل ! صبر کر اور ثواب کی امید رکھ ہم عہد نہیں توڑ تے اللّٰہ تیرے واسطے خلاصی کی کوئی سبیل پیدا کر دے گا۔(یہ سن کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اٹھ کر ابو جَند ل کے ساتھ ہو لئے اور کہہ رہے تھے وہ تو مشرکین ہیں کسی مشرک کو قتل کر نا ایساہے جیسا کسی کتے کو قتل کر ڈالا۔)

          ابن سعد اور بیہقی وغیرہ نے لکھا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب حد یبیہ میں پہنچے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قریش کو اپنے ار اد ے سے مطلع کر نے کے لئے حضرت خِراش بن اُمَیَّہ خزاعی([442]  )  کو اپنے اونٹ پر سوار کر کے ان کی طرف بھیجا۔ عکر مہ بن ابو جہل نے اس اونٹ کی کو نچیں کا ٹ دیں اور خِراش کو قتل کرنے لگے مگر اَحابِیش([443]  )اور اَحلاف نے روک دیا۔ خِراش نے خدمت اقدس میں واپس آکر یہ ماجرا کہہ سنایا۔ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک خط دے کر اَشر افِ قریش کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ مکہ میں کمزور مسلمانوں کوعنقریب فتح کی بشارت دینا۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے قریش کو مقام بَلْدَح میں دیکھا کہ مسلمانوں کو مکہ سے روکنے پر متفق ہیں ۔

           اَبان بن سعید اُمَوِی نے جواب تک ایمان نہ لا ئے تھے حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پنا ہ دی اور اپنے ساتھ گھوڑ ے پر سوار کر کے مکہ میں لے آئے۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اشراف قریش کو رسول اللّٰہ صَلَّی


 

اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پیغام پہنچا یا اور نامہ مبارک پڑھ کر ایک ایک کو سنایا مگر وہ روبرا ہ([444]  ) نہ ہوئے۔ جب صلح نامہ مکمل ہو گیا اور وہ اس کے نفاذ کے منتظر تھے تو فریقین کے ایک شخص نے دوسرے فریق کے ایک شخص پر پتھر یا تیر مارا اس سے لڑائی چھڑگئی۔ اس لئے فریقین نے فر یق مخالف کے آدمیوں کو بطور یر غمال اپنے پاس روک لیا۔ چنانچہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سُہَیل بن عَمروکواور مشرکین نے حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو (مع دس اور کے) زیر حراست رکھا۔ اس اَثناء میں یہ غلط خبر اڑی کہ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مکہ میں قتل کر دیئے گئے۔ اس لئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ببول کے درخت کے نیچے مسلمانوں سے موت پر بیعت لی جس کا ذکر کتاب اللّٰہ میں ہے، اس کو بیعت الرضوان کہتے ہیں ۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چونکہ مکہ میں تھے اس لئے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر مار کر ان کو بیعت کے شرف میں شامل کیا۔ جیسا کہ اس کتاب میں دوسری جگہ بالتفصیل مذکور ہے۔ جب قریش کو اس بیعت کی خبر پہنچی تو وہ ڈر گئے اور مَعذِرَت کر کے صلح کرلی اور طرفین کے اصحاب چھوڑ دیئے گئے۔

          جب صلح سے فارغ ہو ئے تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا کہ اُٹھو! قربانیاں دو اور سر منڈاؤ!۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین بار ایسا فرمایا مگر کوئی نہ اٹھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ اُم سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے یہ تذکرہ کیاتوان کی تدبیر سے یہ مشکل حل ہو گئی جیسا کہ آگے آئے گا۔

           جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حدیبیہ سے مدینہ میں واپس تشریف لائے تو ابو جند ل کی طرح ابو بَصِیر ثَقَفِی حلیف بنی زُہر ہ مکہ سے بھاگ کر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ قریش نے دوشخص اس کے تعاقب میں بھیجے۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حسب معاہدہ ابو بَصِیر کو ان دونوں کے حوالہ کردیا۔جب وہ ذُوالحُلَیْفَہ میں پہنچے تو ابو بَصِیر نے ان میں سے ایک سے دیکھنے کے بہانہ سے تلوار لی اور اس کا کام تمام کر دیا۔ دوسرا بھاگ کر خدمت اقدس میں آیاابو بَصِیر بھی اس کے پیچھے آپہنچا اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ آپ کا وعدہ پورا ہوچکا۔ آپ نے فرمایا: پورا نہیں ہواتو جہاں چاہتا ہے چلا جا۔ اس لئے ابوبَصِیر ساحل بحر پر چلاگیا۔ ابو جند ل بھی بھاگ کے ذومر ہ کے قریب ابو بَصِیر سے آملا اور رفتہ رفتہ ایک جماعت ان کے ساتھ ہو گئی۔

          ابو جندل نے قریش کا شامی راستہ روک لیا۔ قریش تنگ آکر حضور رحمت دوعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے طالب رحم ہوئے اور واپسی کی شرط بھی اُڑادی۔ پس حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو بَصِیر وابو جندل کے نام ایک نامہ بھیجا۔ابو بَصِیر


 

اس وقت قریب الموت تھا وہ نامہ مبارک اس کے ہاتھ ہی میں تھاکہ انتقال کرگیااور ابوجندل ساتھیوں سمیت مدینہ میں حاضر خدمت اقدس ہوگیا اور مدینہ ہی میں رہایہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں ملک شام میں شہید ہو گیا۔([445]  ) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ۔

 اذان کا جواب دینے والا جنّتی ہو گیا

          حضرت سیدناابوہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب جن کا بظاہر کو ئی بہت بڑا نیک عمل نہ تھا، وہ فوت ہوگئے تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صَحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ کی موجو دَ گی میں فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخِل کردیا ہے۔اس پرلوگ مُتَعَجِّب ہوئے کیونکہ بظاہر ان کا کوئی بڑاعمل نہ تھا۔ چُنانچِہ ایک صَحابی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُن کے گھر گئے اوران کی بیوہ سے پوچھا کہ اُن کا کوئی خاص عمل ہمیں بتائیے، تواُنہوں نے جواب دیا: اور توکوئی خاص بڑاعمل مجھے معلوم نہیں، صِرف اتنا جانتی ہوں کہ دن ہویا رات، جب بھی وہ اذان سنتے توجواب ضَرور دیتے تھے۔ ( تاریخ دمشق لابن عساکر،ج۴۰،ص۴۱۲۔۴۱۳ملخصاً) اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدْ قے ہماری مغفرت ہو۔

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جب اذان شُروع ہوتو باتیں اور دیگر کام کاج موقوف کرکے اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہاں اگر مسجِد کی طرف جارہا ہے یا وُضو کررہا ہے تو چلتے چلتے اور وُضو کرتے کرتے جواب دے سکتا ہے۔جب پے در پے اذانوںکی آوازیں آرہی ہوں تو پہلی اذان کا جواب دے دینا کافی ہے، اگر سب اذانوں کا جواب دے تو بہترہے۔

 اذان وجوابِ اذان کے تفصیلی اَحکامات کی معلوما ت کیلئے مکتبۃ المدینہ کا مطبوعہ رِسالہ فیضانِ اذان( 32 صَفَحات ) ضرورمُلاحَظہ فرمایئے۔

 



[1] جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرما کریہاں تشریف لائے تو اس کا نام مَدینۃُ النبیپڑ گیا اور اب مدینہ کہتے ہیں ،حدیث میں اسے یثرب کہنے کی ممانعت ہے۔ علمیہ                                            

[2] تباہ کن سیلاب۔

[3] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،بدء اسلام الانصار،ص۱۷۰۔۱۷۴ملتقطاً۔ علمیہ

[4] اس بیعت کے حالات سیرت ابن ہشام سے ماخوذ ہیں ۔۱۲منہ

[5] زین کسنے کا چوڑا تسمہ۔

[6] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،امر العقبۃ الثانیۃ،ص۱۷۵۔۱۷۹ملتقطاًوملخصاً۔ علمیہ

[7] سیر ت ابن ہشام، خبر دار الندوہ۔

[8] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ہجرۃ الرسول،ص۱۹۱۔۱۹۳ملتقطاً ۔ علمیہ

[9] ترجمۂکنز الایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب کافر تمہارے ساتھ مکر کرتے تھے کہ تمہیں بند کرلیں یا شہید کردیں یا نکال دیں اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللّٰہ  اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللّٰہ  کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔(پ۹،الانفال:۳۰) علمیہ

[10] قصہ ہجرت کے لئے دیکھو صحیح بخاری باب ہجرۃ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ۔۱۲منہ

[11] حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ان اونٹنیوں کو چار ماہ سے ببول کی پتیاں کھلا کھلا کر تیار کیاتھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔۱۲منہ

[12] پٹکہ یعنی کمر سے باندھنے والا کپڑا ۔

[13] خطرہ ہوتا۔       

[14] سیرت ابن ہشام۔

[15] صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ، الحدیث:۳۹۰۵، ج۲، ص۵۹۲ ملتقطاً  والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ہجرۃ الرسول، ص۱۹۲۔۱۹۳ملتقطاً۔ علمیہ

[16] معجم البلدان لیاقوت الحموی، تحت حزورہ۔   

[17] اے مکہ کی پتھریلی زمین۔

 

[18] ایسا نہ ہو کہ۔    

[19] مشکوٰۃ شریف، باب مناقب ابی بکر۔

[20] قدموں کے نشان۔

[21] معجم البلدان،حزورۃ،ج۲،ص۱۴۶ومشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب ابی بکر،الحدیث:۶۰۳۴، ج۲، ص۴۱۷والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ہجرۃ الرسول،ص۱۹۴۔ علمیہ           

[22] یعنی قدموں کے نشان واضح نہ رہے۔                   

[23] مشکوٰۃ شریف ،باب فی المعجزات، فصل ثالث۔          

[24] مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۳۴،ج۲،ص۳۹۶۔ علمیہ  

[25] شب پیر۔

[26] راستوں کا ماہر،راستہ بتانے والا۔           

[27] رہنما،راستہ دکھانے والے۔

[28] المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،باب ھجرۃ المصطفٰی۔۔۔الخ، ج۲،ص۱۰۲و ص۱۱۸۔۱۲۳ و السیرۃ الحلبیۃ، باب الھجرۃ الی المدینۃ،ج۲،ص۵۷۔ علمیہ

[29] چمڑے کا کوٹ۔

[30] لکڑی کے پیالے۔           

[31] وضو کا برتن۔

[32] صحیح بخاری، باب علامات النبوت فی الاسلام۔ نیز باب مناقب المہاجرین و فضلہم۔(صحیح البخاری،کتاب المناقب و کتاب فضائل اصحاب النبی، الحدیث: ۳۶۱۵و۳۶۵۲،ج۲،ص۵۰۵ و۵۱۶ملتقطًا۔ علمیہ)

[33] مضبوطی کے لیے لگایا گیا مٹی کا ڈھیر۔

[34] نیزے کی نوک۔

[35] آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّپر اعتمادتھا اس لئے آپ کو سراقہ کی کچھ پروا نہ تھی حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنا تو خیال نہ تھامگر محبت کی وجہ سے رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بڑا خیال تھا اس لئے ازروئے شفقت پیچھے دیکھتے تھے کہ سراقہ کی طرف سے کیا ـظہور میں آتاہے۔۱۲منہ

[36] لعنت ملامت۔

[37] اچانک۔

[38] بار بار کے تجربہ۔

[39] سفر کے لیے سامان۔

[40] صحیح بخاری، باب الہجرۃ الی المدینۃ۔ اس موقع پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سراقہ سے فرمایا: کَیْفَ بِکَ اِذَا لَبِسْتَ سُوَارَی کِسْریٰ۔ (تیرا کیا حال ہوگا جب تو کسریٰ کے دو کنگن پہنایا جائے گا) جب رسول اللّٰہ     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ْغزوۂ حنین و طائف سے واپس ہوئے تو جعرانہ میں سراقہ نے وہ فرمان امن پیش کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ آج وفا وا حسان کا دن ہے۔ سراقہ آگے بڑھے اور ایمان لائے۔ جب عہد فاروقی میں ایران فتح ہوااور کسری ہرمز کے کنگن حضرت فاروق کے ہاتھ آئے تو آپ نے قول رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی تصدیق و تحقیق کے لئے وہ کنگن سراقہ کو پہنادئیے اور فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ سَلَبَھُمَا کِسْرٰی وَاَلْبَسَھُمَا سُرَاقَۃ ۔(یعنی سب ستائش اللّٰہکو ہے جس نے کسریٰ جیسے شاہ عجم کے کنگن چھین کر سراقہ جیسے غریب بدوی کو پہنادئیے۔) سراقہ نے  ۲۴ھ ؁میں بعہد حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وفات پائی۔۱۲منہ

[41] صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ،الحدیث:۳۹۰۶،ج۲،ص۵۹۳۔ علمیہ

[42] بروز منگل۔

[43] مشکوٰۃ ،باب فی المعجزات، فصل۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات، الحدیث:۵۹۴۳، ج۲،ص۳۹۸۔علمیہ)

[44] اچھی فال لینے کے طور پر۔

[45] خوشی سے۔

[46] استیعاب لابن عبدالبر۔ وفاء الوفاء للسمہودی۔…(وفاء الوفاء للسمہودی،الفصل التاسع فی ہجرۃ النبی الیہا، ج۱، الجزء الاول، ص۲۴۳۔ علمیہ)

[47] زمین کی وہ چمک جو چاند سورج کی روشنی پڑنے سے پیدا ہوتی ہے اور جس پر پانی کا دھوکا ہوتا ہے۔

[48] اے عرب کے گروہ۔

[49] بروز پیر۔

[50] بنیاد۔

[51] ترجمۂکنز الایمان: بے شک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہواس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیںاور ستھرے اللّٰہ کو پیارے ہیں۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۰۸) علمیہ

[52] ناکارہ زمین۔    

[53] شوق و ترغیب دلانے کے لیے۔

[54] برابر و درست۔

[55] اصابہ للحافظ ابن حجر، ترجمہ شموس بنت نعمان، نیز وفاء الوفا ئ۔

[56] الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،الشموس بنت النعمان،ج۸،ص۲۰۴ووفاء الوفاء للسمہودی،الفصل العاشر فی دخولہ ارض المدینۃ۔۔۔الخ،ج۱،الجزء الاول، ص۲۴۸ملتقطاً و صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب ہجرۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ،ج۲،ص۵۹۴۔علمیہ

[57] وفاء الوفاء، جزاول ص ۱۸۱۔

[58] اندرونِ مدینہ۔

[59] سردار،بڑے لوگ۔

[60] عاجزی و انکساری کا اظہار۔

[61] بابرکت تشریف آوری۔

[62] جانور۔

[63] تحریری پیغام نامہ۔

[64] زاد المعاد۔  وفاء الوفاء۔(وفاء الوفاء للسمہودی،الفصل العاشر فی دخولہ ارض المدینۃ۔۔۔الخ،ج۱،الجزء الاول، ص۲۴۴۔۲۶۳ملتقطاً  و ملخصاً وزاد المعاد،فصل،ج۲،الجزء الثالث، ص۴۲۔۴۵ملتقطاً۔ علمیہ

[65] جیسا کہ اس کا حق تھا۔

[66] اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ان کو اچھی جزا عطافرمائے۔

[67] کھجور اور کشمش۔

[68] وفاء الوفاء للسمہودی،الباب الرابع۔۔۔الخ،الفصل الاول فی اخذہ۔۔۔الخ، ج۱،الجزء الاول،ص۳۲۱۔۳۲۸ ملتقطاً۔علمیہ

[69] کھجور کے پتے۔

[70] مسجد کے آخر۔

[71] ترجمۂکنز الایمان: اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے۔ (پ۱۵،الکہف:۲۸) علمیہ 

[72] مرقات شرح مشکوٰۃ، جزء خامس، ص ۴۸۶۔ عینی شرح صحیح بخاری، جزء ثانی، ص ۶۱۳۔…(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفضائل،باب الکرامات،تحت الحدیث:۵۹۴۶، ج۱۰،ص۲۸۵وعمدۃ القاری،کتاب مواقیت الصلاۃ،باب السمر مع الضیف و الاہل، تحت الحدیث:۶۰۲،ج۴،ص۱۳۸۔ علمیہ)

[73] مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی۔…(عمدۃ القاری،کتاب الخمس،باب الدلیل علی ان الخمس لنوائب رسول اللہ،تحت الحدیث: ۳۱۱۳،ج۱۰،ص۴۴۳۔ علمیہ)

[74] بھس اور مٹی کا پلستر۔

[75] جب آنحضرت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم غزوۂ دومۃ الجندل کے لئے تشریف لے گئے توآپ کی غیر حاضری میںحضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہانے اپنا حجرہ بھی کچی اینٹوں کا بنالیا۔ آپ نے واپسی پر دریافت فرمایا کہ یہ عمارت کیسی ہے؟ ام سلمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے جواب دیا: یارسول اللّٰہ! صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم میں نے یہ اس لئے بنا لیا کہ لوگوں کی نظرنہ پڑے۔ آپ نے فرمایا: ’’ام سلمہ!  مسلمان کے مال کا برا مصرف عمارت ہے۔ ‘‘ وفاء الوفاء، جزء اول، صفحہ ۳۲۷۔  ۱۲منہ

[76] الادب المفر دللبخاری صفحہ ۸۸۔

[77] اس ارتفاع میں بظاہر تین ہاتھ کی بنیاد محسوب ہے۔واللّٰہ اعلم بالصواب ۔۱۲منہ

[78] بالغ ہونے کے قریب۔

[79] وفاء الوفاء للسمہودی،الباب الرابع۔۔۔الخ،الفصل التاسع۔۔۔الخ،ج۱،الجزء الثانی،ص۴۵۸۔۴۶۱ملتقطاً والادب المفرد للبخاری،باب التطاول فی البنیان، الحدیث:۴۵۱،ص۱۲۰۔ علمیہ

[80] تعمیر مسجد و مکانات کی تفصیل کے لئے دیکھو صحیح بخاری اور وفاء الوفائ۔ ۱۲منہ

 

[81] وفاء الوفاء للسمہودی،الباب الرابع۔۔۔الخ،الفصل العاشرفی حجرۃ فاطمۃ۔۔۔الخ، الجزء الثانی،ص۴۶۶۔۴۶۷ملتقطاً۔علمیہ

[82] کھجوروں کا باغ۔ 

[83] کسی کی ملک نہ تھیں۔

[84] معجم البلدان للحموی، تحت مدینہ یثرب، زیادہ تفصیل وفاء الوفاء میں ہے۔

[85] مکانات۔

[86] معجم البلدان للحموی،تحت مدینۃ یثرب،ج۴،ص۲۳۱ و وفاء الوفاء للسمہودی،الباب الرابع۔۔۔الخ،الفصل الرابع والثلاثون فیماکان مطیفاً۔۔۔الخ،ج۱،الجزء الثانی،ص۷۱۷۔ علمیہ

[87] صحیح بخاری، باب الصلوٰۃ علی الفراش۔

[88] صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ علی الفراش، الحدیث:۳۸۲،ج۱،ص۱۵۳۔ علمیہ

[89] قندیل کی جمع،قندیل :ایک قسم کا فانوس جس میں چراغ جلاتے ہیں۔

[90] استیعاب واصابہ، ترجمہ سراج التمیمی۔

[91] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۳۱۱۰۔سراج التمیمی،ج۳،ص۳۳۔والاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،۱۱۳۶۔ سراج مولی تمیم الداری،ج۲،ص۲۴۲۔ علمیہ

[92] صحیح بخار ی، کتاب المناقب، باب اخاء النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بین المہاجرین والانصار  …(صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار،باب اِخاء النبی۔۔۔الخ، الحدیث: ۳۷۸۰۔ ۳۷۸۱،ج۲،ص۵۵۴ملخصاً ۔علمیہ)

[93] بڑی خوشی سے۔

[94] صحیح بخاری، ابواب الحرث والمزارعۃ۔…(صحیح البخاری،کتاب الحرث والمزارعۃ،باب اذا قال اکفنی۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۳۲۵،ج۲،ص۸۶۔ علمیہ)

[95] بیع کی ایک قِسْم۔

[96] تحفہ۔

[97] ترجمۂکنز الایمان: اور جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنا لیادوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کر کے گئے اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کی جو دیئے گئے اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیںاگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔(پ۲۸،الحشر:۹)  علمیہ

[98] صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب: وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰیٓ اَنْفُسِہِم۔

[99] صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ویؤثرون علی انفسہم۔۔۔الخ، الحدیث:۳۷۹۸،ج۲،ص۵۵۹۔ علمیہ

 

[100] زرقانی علی المواہب، غزوۂ بنی نضیر، بحوالہ اکلیل حاکم نیشاپوری۔ نیز دیکھو فتوح البلدان بلاذری مطبوعہ مصر صفحہ ۲۶۔۱۲منہ

[101] انصار کی اولاد۔

[102] شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،حدیث بنی نضیر،ج۲،ص۵۱۹۔۵۲۰۔ علمیہ

[103] سلطنت بحرین۔

[104] صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب ما اقطع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من البحرین وما وعد من مال البحرین والجزیۃ۔ یہ حدیث کتاب المناقب اور کتاب المساقات میں بھی وارد ہے۔۱۲منہ

[105] صحیح البخاری،کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب ما اقطع النبی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۱۶۳،ج۲،ص۳۶۴۔ علمیہ

[106] صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب رد المھاجرین الی الانصار منائحھم من الشجر والثمر حین استغنوا عنھا بالفتوح۔(صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر، باب رد المہاجرین الی الانصار۔۔۔الخ، الحدیث:۱۷۷۱،ص۹۷۴۔ علمیہ)

[107] اعلان۔

[108] مخروطی شکل کالکڑی کا باجا جسے نصاریٰ مخصوص عبادت کے لیے بجاتے تھے۔

[109] یعنی بِگُل: ایک باجاجو یہود اپنی مخصوص عبادت کے لیے بجاتے اور اس کی آواز سن کر جمع ہوجاتے تھے۔

[110] رائج۔

[111] خواب۔

[112] المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب بدء الاذان،ج۲،ص۱۹۴۔ علمیہ

[113] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ہجرۃ الرسول،ص۲۰۱۔ علمیہ

[114] عبادت کے لائق۔

[115] ترجمۂکنز الایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں  تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانو تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو۔ (پ۲،البقرۃ:۱۴۴) علمیہ

[116] بروزپیر شریف۔

[117] بروز منگل۔

[118] المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،تحویل القبلۃ وفرض رمضان وزکاۃ الفطر،ج۲،ص۲۴۲۔۲۴۵۔ علمیہ

[119] ترجمۂکنزالایمان:اب کہیں گے بے وقوف لوگ کس نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر تھے تم فرمادو کہ پورب پچھم سب اللّٰہہی کا ہے جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔ (پ۲،البقرۃ:۱۴۲)  علمیہ

[120] ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتاہے اور بے شک یہ بھاری تھی مگر ان پر جنہیں اللّٰہنے ہدایت کی۔(پ۲،البقرۃ:۱۴۳)  علمیہ

[121] چھ سمتیں۔

[122] یعنی جگہ اور سمت۔

[123] ثابت قدم اور ڈگمگانے والوں یعنی مومن و کافر میں۔

[124] سیرت لکھنے والوں۔

[125] چھوڑکے۔

[126] واقعات۔      

[127] رکاوٹ بنتے۔

[128] اُبھارتے، اکساتے۔

[129] صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب ذکر النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، من یقتل ببدر۔

[130] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب ذکر النبی من یقتل ببدر،الحدیث:۳۹۵۰،ج۳،ص۳۔ علمیہ

[131] رکاوٹ بننا پڑا۔

[132] ابواء ایک قریہ ہے جو جحفہ سے ۲۳ میل ہے۔ یہاں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی والدہ ماجدہ کی قبر ہے۔۱۲منہ

[133] بواط ایک پہاڑ کا نام ہے جو ینبع سے ایک دن کی راہ ہے۔۱۲منہ

[134] ذو العشیر ہ مکہ مدینہ کے درمیان میں ینبع کے نواح میں واقع ہے۔۱۲منہ

[135] بَدْرایک کنوئیں کا نام ہے بَدْر اور مدینہ منورہ کے درمیان سات برید (منزل )ہیں۔۱۲منہ

[136] سزا دینا۔

[137] یہ مقام مکہ و طائف کے درمیان مکہ سے ایک دن کی راہ ہے۔۱۲منہ

[138] اچانک۔

[139] عمروبن حضرمی کا باپ عبداللّٰہ حضرمی حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دادا حرب بن اُمَیَّہ کا حلیف تھا اور حرب قریش کا رئیس تھا اور عثمان و نوفل حضرت خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دادا مغیرہ کے بیٹے تھے جو روساء قریش کے زمرہ میں شمار ہوتا تھا۔۱۲منہ

[140] الطبقات الکبری لابن سعد،سریۃ عبد اللّٰہ بن جحش الاسدی،ج۲،ص۳۔۷ و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،سریۃ عبد، اللّٰہ بن جحش۔۔۔الخ،ص۲۴۷۔۲۴۹ملتقطاً۔ علمیہ

[141] سیرت کی کتب میں اس کنویں کا نام ’’ بِئرِ ابی عِنَبَہ‘‘  بھی لکھا ہے ۔ علمیہ

[142] کم عمر۔

[143] طبقات ابن سعدو استیعاب واصابہ، ترجمہ عمیر بن ابی وقاص۔

[144] وہ پیٹی جو تلوار لٹکانے کے لیے کندھے پر ڈالتے ہیں۔

[145] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۰۷۲۔عمیر بن ابی وقاص،ج۴،ص۶۰۳ و الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ۲۰۱۹۔ عمیر بن ابی وقاص،ج۳،ص۲۹۴ ۔  علمیہ

[146] حدیث کعب بن مالک میں ہے: انما خرج النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یرید عیر قریش حتی جمع اللّٰہ بینہ وبینھم علی غیر میعاد۔ ( یعنی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صرف قافلہ قریش کے قصد سے نکلے تھے کہ اللّٰہ تعالٰینے دونوں فریق کو اچانک مقابل کردیا۔) یہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے اور قرآن کریم کی آیت ذیل کی صحیح تفسیر ہے: وَ لَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِۙ-وَ لٰكِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ﳔ (انفال، ع۵) اور اگر آپس میںتم وعدے کرتے تو نہ پہنچتے وعدے پر لیکن اللّٰہکو کرڈالنا تھا ایک امر کا جو ہوچکا تھا (ترجمۂکنز الایمان: اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور وقت پر برابر نہ پہنچتے لیکن یہ اس لئے کہ اللّٰہ پورا کرے جو کام ہونا ہے ۔(پ۱۰،الانفال:۴۲)۔علمیہ) حدیث کعب کے علاوہ اور حدیثیں بھی ہیں جو اسی مضمون کی تائید کرتی ہیں۔۱۲منہ

[147] صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب سقوط فرض الجہاد عن المعذورین، حدیث انس بن مالک۔…(صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب ثبوت الجنۃ للشہید،الحدیث:۱۹۰۱،ص۱۰۵۳ ۔علمیہ)

[148] یعنی مدینے سے روانگی پر اپنے پیچھے ان کو مدینہ منورہ کا حاکم مقرر فرمایا۔

[149] بد ر سے ۳۶میل ہے۔۱۲منہ

[150] پنڈلی۔

[151] بَدْر سے ایک منزل کے فاصلہ پر ہے۔۱۲منہ

[152] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بدر،ج۲،ص۸ والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدر الکبری، ص۲۵۱۔۲۵۶ ملتقطاً وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب ذکر النبی من یقتل ببد ر،الحدیث:۳۹۵۰،ج۳،ص۳ملتقطاً۔  علمیہ

[153] مقام روحاء تک حضرت مرثد کی جگہ حضرت ابو لبابہ تھے۔ جب حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی باری پیدل چلنے کی آتی تو حضرت علی وابولبابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما عرض کرتے کہ آپ سوار ہولیں ہم بجائے آپ کے پیدل چلتے ہیں مگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے: تم پیدل چلنے پر مجھ سے زیاد ہ قادر نہیں ہو او رنہ میں تمہاری نسبت اجر کا کم خواہاں ہوں۔ طبقات ابن سعد، غزوہ بَدْر۔۱۲منہ

[154] سیرت ابن ہشام۔

[155] راہ میں رکاوٹ بننا۔

[156] بد ر سے ۳۶میل ہے۔۱۲منہ

[157] سوچ و بچار۔

[158] صحیح بخاری، باب ذکر النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم من یقتل ببدر۔

[159] ایسا نہ ہو۔

[160] پرانی دشمنی۔   

[161] سیرت ابن ہشام۔

[162] قرآن مجید کی آیت ذیل میں اسی قصہ کی طرف اشارہ ہے:’’ وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْۚ- ‘‘(الانفال، ع۶) اور جس وقت سنوارنے لگا شیطان ان کی نظر میں ان کے کام اور بولا کوئی غالب نہ ہوگا تم پر آج کے دن اور میں رفیق ہوں تمہارا۔۱۲منہ(ترجمۂکنز الایمان: اور جبکہ شیطان نے ان کی نگاہ میں ان کے کام بھلے کر دکھائے اور بولا آج تم پر کوئی شخص غالب آنے والا نہیں اور تم میری پناہ میں ہو ۔(پ۱۰،الانفال:۴۸) علمیہ)

[163] لہو لعب کے آلات۔

[164] لشکر کے کھانے پینے کا انتظام۔

[165] وہ فوج جو لڑائی میں مدد کے لیے بھیجی جائے۔

[166] دشمن کو پکڑنے یا مارنے کے لیے گھات لگا کر یعنی چھپ کر بیٹھنے کی جگہ کو کمین گاہ کہتے ہیں۔

[167] اونٹوں کے بٹھانے کی جگہ کو مناخ بولتے ہیں۔۱۲منہ

[168] طبقات ابن سعد، غزوۂ بَدْر۔

[169] جحفہ مدینے کے راستے میں مکہ سے تین یا چار منزل ہے اور غدیر خم سے دو میل اور ساحل بحر سے قریباً تین منزل ہے۔ معجم البلدان لیاقوت الحموی۔۱۲منہ

[170] کامل لابن الاثیر، غزوہ ٔبَدْر۔ بَدْر مواسم عرب میں ایک موسم بھی تھا جہاں ہر سال ایک دفعہ میلا لگا کرتا تھا حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بَدْر پہنچنے کے لئے جوراستہ اختیار فرمایا تھا وہ روحا میںسے تھا۔ روحاء اور مدینے کے درمیان چار دن کا راستہ ہے۔ پھر روحاء سے منصرف ایک برید۔ پھر ذات اجذال ایک برید پھر معاملات ایک برید پھر اثیل ایک برید اور اثیل سے بَدْردو میل۔ طبقات ابن سعد۔۱۲منہ

[171] بدر کے قریب آکر۔

[172] قرآن کریم کی آیت ذیل میں اسی طرف اشارہ ہواہے: وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(۴۷) (انفال، ع۶) اور مت ہوکہ جیسے نکلے وہ لوگ اپنے گھروں سے اتراتے اور لوگوں کو دکھاتے اور روکتے اللّٰہکی راہ سے اور اللّٰہکے قابو میں ہے جو وہ کرتے ہیں۔۱۲منہ (ترجمۂکنز الایمان: اور ان جیسے نہ ہونا جو اپنے گھر سے نکلے اتراتے اور لوگوں کے دکھانے کو اور اللّٰہ کی راہ سے روکتے اور ان کے سب کام اللّٰہ کے قابو میں ہیں۔ (پ۱۰،الانفال:۴۷) ۔علمیہ)

[173] شہرت ہو جائے گی۔

[174] اس کا اصلی نام اُبی تھا مگر جب بنوزہرہ کولوٹالے گیا تو کہاگیا خنس بہم( وہ ان کو واپس لے گیا) لہٰذا اس کو اخنس کہنے لگے (طبقات ابن سعد) اس کے اسلام میں اختلاف ہے۔ دیکھو اصابہ فی تمییز الصحابہ۔۱۲منہ

[175] طبقات ابن سعد۔ مگر ضرب الامثال للبدانی میں ہے کہ ابو سفیان کا یہ خطاب بنو زہرہ سے تھا اور اسی نے لکھا ہے کہ یہ مثل سب سے پہلے ابو سفیان کی زبان سے نکلی تھی۔ بقول اصمعی اسے ایسے مقام پر بولا جاتاہے جہاں کسی شخص کی قدر ے تحقیر و تصغیر منظور ہو۔۱۲منہ

[176] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بدر،ج۲،ص۹۔۱۰ملتقطاً و والکامل فی التاریخ،ذکر غزوۃ بدر الکبری،ج۲، ص۱۷۔۱۹۔  علمیہ           

[177] سورۂ انفال، رکوع اوَّل میں ہے: كَمَاۤ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَیْتِكَ بِالْحَقِّ۪- (آیہ ۵تا۱۱) بعض نے پانچویں آیت میں  وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ(۵) کو حال حقیقیہ سمجھ کر کہا ہے کہ مدینہ سے نکلے اور اس گروہ کے جی چرانے کا وقت ایک ہی تھا اور ساتویں آیت و اذ یعدکم اللّٰہ کی رو سے دو فریق (کاروان تجارت وفوج قریش) میں سے ایک کا وعدہ بھی مدینہ ہی میںتھا۔ مگر یہ درست نہیں کیونکہ جملہ وان فریقا حال حقیقیہ نہیں بلکہ مقدرہ ہے جیسا کہ تمام کتب تفسیر میں مذکور ہے اور واذیعدکم میں وائو عاطفہ نہیں بلکہ استیناف ہے اور اذ ظرف ہے فعل مضمر اذکروا کا نہ کہ اخرجک کا۔ اس میں شک نہیں کہ نویں آیت۔ (اذ تستغیثون)میں اور گیارہویں آیت (اذ یغشیکم النعاس ) میں اذبدل ہے اذیعد کم سے پس بنا بر تقریر بعض مذکور خروج من البیت، وعدہ احدی الطائفتین، استغاثہ مسلمین، نیند کا طاری ہونااور مینہ کا برسنا یہ سب مدینہ ہی میں ہونا چاہیے۔ وہذا کما تری تفصیل کے لئے رسالہ غزوات النبی، مولفہ خاکسار دیکھو۔۱۲منہ

[178] سیرت ابن ہشام۔

[179] صحیح بخاری، غزوۂ بَدْر، باب قول اللّٰہ تعالٰی: اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ الآیۃ۔ سیرت ابن ہشام میں حضرت مقداد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تقریر میں یہ بھی ہے: ’’ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر آپ ہمارے ساتھ برک الغماد کا قصد کریں گے تو ہم تلوار چلائیں گے یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں۔ ‘‘ بعض روایتوں میں یہی الفاظ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف منسوب ہیں۔ ممکن ہے دونوں نے ایسا ہی کہا ہو۔ جیسا کہ ابن الدمینہ کا قول ہے۔(معجم البلدان لیاقوت الحموی) برک الغماد مکہ مشرفہ سے پانچ دن کی راہ پر اقصائے یمن میں حبشہ کے مقابل ایک شہر ہے۔۱۲منہ

[180] فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴)تو جا اور تیرا رب دونوں لڑو ہم یہاں ہی بیٹھتے ہیں۔(مائدہ، ع ۴)(ترجمۂکنز الایمان:  تو آپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔(پ۶،المائدۃ:۲۴)   علمیہ)

[181] سیرت ابن ہشام، غزوۂ بَدْر۔

[182] یعنی وضاحت اور مرضی پوچھنے کیلئے ایسا فرمایا۔

[183] سیرت ابن ہشام، غزوۂ بَدْر۔

[184] قرآن کریم میں ہے: وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآىٕفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ(۷)اور جب وعدہ کرتا ہے اللّٰہ ایک کا دو جماعتوں میں سے کہ یہ واسطے تمہارے ہے اور تم دوست رکھتے ہو یہ کہ بن شوکت والاہی ہو وے واسطے تمہارے اور اللّٰہ چاہتا ہے کہ سچا کرے سچ کواپنے کاموں سے اور کاٹے پیچھا کافروں کا۔۱۲منہ(ترجمۂکنز الایمان: اور یاد کرو جب اللّٰہ نے تمہیں وعدہ دیا تھا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہیں اور اللّٰہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے سچ کو سچ کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے ۔(پ۹،الانفال:۷)   علمیہ۔) حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مطلب یہ تھا کہ کاروان اور لشکرقریش میں سے ایک کا وعدہ ہوچکا ہے۔ اب قافلہ تو ہاتھ سے جاتا رہا لہٰذا قریش گرفتار ہوں گے۔۱۲منہ

[185] قرآن کریم میں ہے:  اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَ هُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰى وَ الرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْؕ- (انفال، ع۵) جس وقت تم تھے ورے کے ناکے پر او ر وہ پرے کے ناکے پر اور قافلہ نیچے اتر گیا تم سے۔  (ترجمۂکنز الایمان: جب تم نالے کے اس کنارے تھے اور کافر پرلے کنارے اور قافلہ تم سے ترائی میں۔(پ۱۰،الانفال:۴۲)۔   علمیہ) یعنی مسلمان قریب کے میدان میں مدینے کی طرف کو اترے اور= = کفار پر لے ناکے پر مکہ کی طرف اترے او ر قافلہ مسلمانوں سے نیچے کی طرف ساحل سمند ر کے قریب تھا۔۱۲منہ…( ا لسیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، غزوۃ بدر ا لکبری ، ص۲۵۳۔ ۲۵۴ و صحیح البخاری ، کتاب المغازی ،  باب قول اللّٰہ تعالٰی : اذ تستغیثون ربکم ۔۔۔الخ ، الحدیث: ۳۹۵۲ ، ج۳ ، ص۵  و الطبقات الکبری ، لابن سعد ، غزوۃ بدر، ج۲، ص۱۰۔  علمیہ)

 

[186] سیرت ابن ہشام۔ مگر صحیح مسلم میں ایک غلام کا ذکر ہے۔ بظاہر حدیث مسلم کے راوی نے ایک ہی کے ذکر پر اختصار کیا ہے۔ واللّٰہ اعلم۔۱۲منہ

[187] ریت کا ٹیلہ۔

[188] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ سہل بن عمرو ‘‘ لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، السیرۃ الحلبیۃ اوردیگر کتب میں ’’ سُہَیل بن عَمْرو ‘‘ہے لہٰذا ہم نے یہی لکھا ہے۔  علمیہ

 

[189] کنوؤں۔

[190] کنواں۔

[191] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدر الکبری،ص۲۵۴و الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بدر،ج۲،ص۱۰ملخصاً۔ علمیہ

[192] بے غسل اور بے وضو۔

[193] قرآن مجید میں ہے : اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَؕ(۱۱) (انفال،ع۲) اور جس وقت ڈال دی تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کو اور اتارا تم پر آسمان سے پانی کہ اس سے تم کو پاک کرے اور دور کرے تم سے شیطان کی نجاست اور محکم گرہ دے تمہارے دلوںپر اور ثابت کرے اسکے سبب تمہارے قدم۔۱۲منہ(ترجمۂکنزالایمان:جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین (تسکین) تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرمادے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔ (پ۹،الانفال:۱۱)۔  علمیہ)

[194] رنج اورتھکاوٹ۔

[195] بال برابر۔                 

[196] صواعق محرقہ لابن حجر المکی بحوالہ مسند بزار ص۱۷۔

[197] ننگی تلوار بلند کیے ہوئے۔

[198] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدر الکبری،ص۲۵۶۔۲۵۹ و سبل الہدی والرشاد، غزوۃ بدرالکبری، ذکر وصول ابی سفیان،ج۴،ص۲۹-۳۱ و الدر المنثور للسیوطی، سورۃ الانفال، تحت الآیۃ :۷،۸،ج۴،ص۲۷۔   علمیہ

[199] منتخب کنز العمال بروایت ابن عسا کر۔

[200] سیرت ابن ہشام، غزوۂ بَدْر بروایت ابن اسحاق۔

[201] اندر کی طرف دبایا۔                     

[202] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدر الکبری،ص۲۵۷۔۲۵۹ملتقطاً ۔  علمیہ           

[203] طبقات ابن سعد، غزوۂ بَدْر۔              

[204] وہ گدا یا کپڑا جو اونٹ وغیرہ کی پیٹھ کے بچاؤ کیلئے اسکی پشت پر ڈالتے ہیں۔ 

[205] آب پاشی کے لیے پانی لے جانے والے اُونٹ۔          

[206] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بدر،ج۲،ص۱۱۔  علمیہ                   

[207] طبقات ابن سعد، غزوۂ بَدْر۔              

[208] سرین۔       

[209] ابو جہل لعین کے حلقہ دبر پرایک برص کا داغ تھا جسے وہ زعفران لگا کر زردر کھا کرتاتھا۔ سیرت ابن ہشام۔۱۲منہ            

[210] لوہے کی جنگی ٹوپی۔                     

[211] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،ص۲۵۷۔  علمیہ 

[212] در منثور للسیوطی بحوالہ دلائل بیہقی، جزء ثالث، صفحہ۱۶۷۔                      

[213] قرآن مجید میں ہے: اِذْ یُرِیْكَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِكَ قَلِیْلًاؕ-وَ لَوْ اَرٰىكَهُمْ كَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۴۳) (انفال، ع۵) جب اللّٰہ تعالٰی نے ان کو دکھا یا تیرے خواب میں تھوڑے اگر وہ تجھ کو بہت دکھاتا تو تم لوگ نامردی کرتے اور جھگڑا ڈالتے کام میںلیکن اللّٰہنے بچا لیا اس کو معلوم ہے جو بات ہے دلوں میں۔۱۲منہ(ترجمۂکنزالایمان:  جب کہ اے محبوب اللّٰہ تمہیں کافروں کو تمہاری خواب میں تھوڑا دکھاتا تھا اور اے مسلمانو اگر وہ تمہیں بہت کرکے دکھاتا تو ضرور تم بزدلی کرتے اور معاملہ میں جھگڑا ڈالتے مگر اللّٰہ نے بچالیا بیشک وہ دلوں کی بات جانتا ہے۔ (پ۱۰،الانفال:۴۳)  علمیہ)                 

[214] دونوں فوجوں کے گتھم گھتا ہونے سے پہلے۔                       

[215] قرآن مجید میں ہے :’’ وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًاؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠(۴۴)‘‘(انفال، ع۵) اور جب تم کو دکھائی دی وہ فوج وقت ملاقات کے تمہاری آنکھوں میں تھوڑی اور تم کو تھوڑا دکھایا ان کی آنکھوں میں تاکہ کرڈالے اللّٰہ ایک کام جو ہوچکا تھا اور اللّٰہتک پہنچ ہے ہر کام کی۔۱۲منہ(ترجمۂ کنز الایمان:اور جب لڑتے وقت تمہیں کافر تھوڑے کرکے دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں تھوڑا کیا کہ اللّٰہپورا کرے جو کام ہونا ہے اور اللّٰہ کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے ۔  (پ۱۰،الانفال:۴۴)  علمیہ)               

[216] الدرالمنثور للسیوطی،سورۃ الانفال،تحت الآیۃ:۷،۸،ج۴،ص۲۴۔  علمیہ             

[217] مقتول،شہید۔             

[218] صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب سقوط فرض الجہاد عن المعذورین۔       

[219] صحیح مسلم،کتاب الامارۃ ، باب ثبوت الجنۃ للشہید ، الحدیث:۱۹۰۱،ص۱۰۵۳وسبل الہدی والرشاد، غزوۃ بدر الکبری،ج۴،ص۳۴،۳۵۔علمیہ    

[220] اس کے پاس۔

[221] دلائل النبوۃ للبیہقی، باب سیاق قصۃ بدرعن مغازی۔۔۔الخ،ج۳،ص۱۱۳۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدر الکبری، ص۲۵۸۔  علمیہ

 

[222] ابن سعد نے اس قول کو ثبت کہا ہے مگر سنن ابی داود میں بروایت حضرت علیرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وارد ہے کہ حضرت عبیدہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ولید میں مقابلہ ہوااورحضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا۔۱۲منہ           

[223] ان چھ (حضرت حمزہ ، حضرت علی، حضرت عبیدہ بن حارث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم، عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ) کے بارے میں سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی:  هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّهِمْ٘- ۔ ( صحیح بخاری ، تفسیر سورۂ حج) ۱۲منہ(  ترجمۂکنز الایمان:یہ دو فریق ہیں کہ اپنے رب میں جھگڑے۔(پ۱۷،الحج:۱۹) علمیہ)

[224] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بدر،ج۲،ص۱۲وشرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ،باب غزوۃ بدر الکبری، ج۲،ص۲۷۶ علمیہ۔          

[225] اَللّٰہُمَّ اَنْجِزْ لِیْ مَا وَعَدْتَنِی، اَللّٰہُمَّ اٰتِ مَا وَعَدْتَنِی، اَللّٰہُمَّ اِنْ تُہْلِکْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَہْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْاَرْضِ۔( صحیح مسلم، باب الامد ادبا لملائکۃ فی غزوۃ بَدْر واباحۃ الغنائم)۱۲منہ         

[226] … گریہ و زاری۔ 

[227] …امام خطابی فرماتے ہیں کہ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت اس حالت میں وعدۂ الٰہی پر زیادہ اعتماد تھا کیونکہ یہ قطعاً ناجائز ہے بلکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب پر شفقت اور ان کے دلوں کی تقویت کے لئے ایساکیا۔ اس لئے کہ یہ دشمن کے ساتھ پہلا مقابلہ تھا۔ لہٰذا دعا میں الحاح فرمایا کہ ان کے دل کو تسکین حاصل ہو، کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا وسیلہ مقبول اور ان کی دعاء مستجاب ہے۔ پس حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قوت و طمانیت قلبی سے معلوم ہوگیا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا قبول ہوگئی تو انہوں نے عرض کی کہ بس یہ کافی ہے۔ عینی شرح بخاری۔۱۲منہ          

[228] … لگام۔        

[229] … سامنے والے دانتوں پر۔    

[230] ترجمۂکنز الایمان:جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی کہ میں تمہیں مدد دینے والا ہوں ہزار فرشتوں کی قطار سے۔(پ۹،الانفال:۹) علمیہ۔      

[231] … قرآن کریم میں ہے: اِذْ  تَقُوْلُ  لِلْمُؤْمِنِیْنَ  اَلَنْ  یَّكْفِیَكُمْ  اَنْ  یُّمِدَّكُمْ  رَبُّكُمْ  بِثَلٰثَةِ  اٰلٰفٍ  مِّنَ  الْمَلٰٓىٕكَةِ  مُنْزَلِیْنَؕ(۱۲۴)بَلٰۤىۙ-اِنْ  تَصْبِرُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  وَ  یَاْتُوْكُمْ  مِّنْ  فَوْرِهِمْ  هٰذَا  یُمْدِدْكُمْ  رَبُّكُمْ  بِخَمْسَةِ  اٰلٰفٍ  مِّنَ  الْمَلٰٓىٕكَةِ  مُسَوِّمِیْنَ(۱۲۵) (آل عمران، ع۱۳) جب تو کہنے لگا مسلمانوں کو۔ کیا تم کو کفایت نہیں کہ تمہاری مدد بھیجے رب تمہارا تین ہزار فرشتے آسمان سے اترے البتہ اگر تم ٹھہرے رہو اور پرہیز گاری کرو تم اور وہ آئیں تم پر اسی دم تو مدد بھیجے رب تمہارا پانچ ہزار فرشتے پلے ہوئے گھوڑوں پر۔۱۲منہ(ترجمۂکنز الایمان: جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہار ارب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر  ہاں کیوں نہیں اگر تم صبر و تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا ۔(پ۴،آل عمران :۱۲۴،۱۲۵) علمیہ)    

[232] … چنانچہ قرآن مجید میں ہے: ۚ-فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَؕ-وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠(۴۸) (انفال، ع۲) پس جب سامنے ہوئیں دو فوجیں الٹا پھرا اپنی ایڑیوں پر اور بولا میں تمہارے ساتھ نہیں میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں ڈرتا ہوں اللّٰہسے اور اللّٰہ کا عذاب سخت ہے۔۱۲منہ(ترجمۂکنزالایمان: تو جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے الٹے پاؤں بھاگا اور بولا میں تم سے الگ ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا میں اللّٰہ سے ڈرتا ہوں اور اللّٰہ کا عذاب سخت ہے  (پ۱۰، الانفال:۴۸)…صحیح مسلم،کتاب الجہاد،باب الامداد بالملائکۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۷۶۳،ص۹۶۹ و المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ بدرالکبری،ج۲،ص۲۷۷۔۲۸۶ملتقطاً و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدر الکبری، ص۲۵۸-۲۵۹ملتقطاً۔ علمیہ)     

[233] … اسی کی نسبت قرآن مجید میں وارد ہے : وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (انفال) اور تونے نہیں پھینکی تھی مٹھی خاک جس وقت پھینکی تھی لیکن اللّٰہنے پھینکی۔۱۲منہ(ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللّٰہ نے پھینکی ۔  (پ۹، الانفال:۱۷) علمیہ)       

[234] … جنگ کی شدت۔          

[235] … چنانچہ قرآن کریم میں ہے : اٰیَةٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَاؕ-فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اُخْرٰى كَافِرَةٌ یَّرَوْنَهُمْ مِّثْلَیْهِمْ رَاْیَ الْعَیْنِؕ-وَ اللّٰهُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ(۱۳) (آل عمران، ع۲)ابھی ہوچکا ہے تم کو ایک نمونہ دو فوجوں میں جو بھڑی تھیں ایک فوج ہے لڑتی ہے اللّٰہکی راہ میں اور دوسری منکر ہے دیکھتے تھے وہ کافر مسلمانوں کو اپنے دو برابر صریح آنکھوں سے اور اللّٰہزور دیتاہے اپنی مدد کا جس کو چاہے۔ اس میں عبرت ہے آنکھ والوں کے لئے۔۱۲منہ (ترجمۂکنز الایمان:  بے شک تمہارے لئے نشانی تھی دو گروہوں میں جو آپس میں بھڑ پڑے ایک جتھا اللّٰہ کی راہ میں لڑتا اور دوسرا کافر کہ انہیں آنکھوں دیکھا اپنے سے دونا سمجھیں اور اللّٰہ اپنی مدد سے زور دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے شک اس میں عقلمندوں کے لئے ضرور دیکھ کر سیکھنا ہے۔ (پ۳،آل عمران:۱۳)  دوچند یعنی دُگنے۔ علمیہ)

[236] … حیزوم حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَامکے گھوڑے کا نام ہے۔ یعنی اے حیزوم آگے بڑھو۔۱۲منہ

[237] … بلند۔         

[238] ترجمہ: شتاب شکست کھاوے گی جماعت اور بھاگیں گے پیٹھ دے کرانتہیٰ۔ اس آیت میں نبوت کا ایک نشان ہے کیونکہ مکہ مشرفہ میں نازل ہوئی جس میں پہلے یہ بتایا گیاتھا کہ کفار کو ہزیمت ہوگی۔۱۲منہ           

[239] ترجمۂکنز الایمان:اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیر دیں گے۔ (پ۲۷، القمر:۴۵) علمیہ)

[240] … سیرت ابن ہشام، غزوۂ بَدْر۔

[241] … اپنی مرضی کے خلاف،مجبوراً۔

[242] … ان میں سے۔

[243] … سوار کے پیچھے بیٹھنے والا۔

[244] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،ص۲۶۰ملتقطاً۔ علمیہ

[245] … بھاری بدن والا۔

[246] … صحیح بخاری، کتاب الوکالۃ۔…(صحیح البخاری،کتاب الوکالۃ،باب اذا وکل المسلم حربیاً۔۔۔الخ،الحدیث:۲۳۰۱، ج۲،ص۷۸ و السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، غزوۃ بدر الکبری، ص۲۶۰۔ علمیہ)

[247] … کچھ سانسیں باقی تھیں۔

[248] … اس لعین کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا مجھے قتل کرنا ایسا ہے جیسا کہ ایک شخص کو اس کی قوم قتل کردے پس اس میںنہ تمہیں کوئی فخر ہے اور نہ مجھے کوئی عار ہے۔۱۲منہ

[249] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قتل ابی جہل،الحدیث:۳۹۶۳،ج۳،ص۸ وسبل الہدی والرشاد، غزوۃ بدر الکبری،ج۴،ص۵۱ و دلائل النبوۃ للبیہقی، باب اجابۃ اللّٰہ عزوجل دعوۃ رسول اللّٰہ۔۔۔الخ،ج۳،ص۸۸۔ علمیہ

[250] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،ص۲۶۵۔ علمیہ

[251] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،من استشہد من المسلمین یوم بدر،ص۲۹۵-۳۰۰ و المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ بدر الکبری،ج۲،ص۳۲۸۔ علمیہ

[252] … سرداروں۔   

[253] … صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل۔

 

[254] … اس سے سماع موتی ثابت ہے اگر زیادہ تفصیل مطلوب ہوتو کتاب البرزخ مولفہ خاکسار دیکھو۔۱۲منہ…(صحیح البخاری، کتاب المغازی،باب قتل ابی جہل،الحدیث:۳۹۷۶،ج۳،ص۱۱و المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ بدرالکبری، ج۲،ص۳۰۳۔۳۰۵ملتقطاً۔  علمیہ)   

[255] … کامیاب و کامران۔

[256] … جنگی قیدی۔   

[257] … غنیمت کی جمع،اَموالِ غنیمت۔          

[258] … غنیمت کے بارے میں مجاہدین میںجھگڑا ہوا۔ لہٰذا اللّٰہ تعالٰی نے ’’قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ  الاٰیۃ  ‘‘ نازل فرمائی اور تقسیم کا معاملہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سپرد کیا پس حضور بِاَ بِیْ ہُوَ وَ اُ مِّیْ نے برابر تقسیم فرمائی۔ ۱۲منہ

[259] … سیرت ابن ہشام۔

[260] … سیرت ابن ہشام، غزو ۂ بَدْر۔…(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،ص۲۶۶۔۲۶۷ملتقطاًوص۲۹۵۔علمیہ)          

[261] … صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ھل یخرج ا لمیت من القبر واللحد لعلۃ۔  

[262] … بدلہ۔        

[263] صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ہل یخرج المیت۔۔۔الخ،الحدیث:۱۳۵۰،ج۱،ص۴۵۴۔ علمیہ)

[264] … صحیح مسلم، باب الامداد بالملئکۃ فی غزوۃ بَدْر واباحۃ الغنائم۔

[265] … اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ﳓ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۶۷) (انفال، ع۹) ‘‘نہ تھا لائق واسطے نبی کے یہ کہ ہوئیں واسطے اس کے بندی وان یہاں تک کہ خونریزی کرے بیچ زمین کے۔ ارادہ کرتے ہو اسباب دنیا کا اور اللّٰہ ارادہ کرتاہے آخرت کا اور اللّٰہ غالب حکمت والاہے۔(ترجمۂکنزالایمان:  کسی نبی کو لائق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہائے تم لوگ دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللّٰہ آخرت چاہتا ہے اور اللّٰہ غالب حکمت والا ہے ۔(پ۱۰،الانفال:۶۷)…(صحیح مسلم،کتاب الجہاد،باب الامداد بالملائکۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۷۶۳، ص۹۷۰ملتقطاً۔ علمیہ)

[266] … طبقات ابن سعد، غزوۂ بَدْر۔ 

[267] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بدر،ج۲،ص۱۳و۱۶۔ علمیہ                

[268] … اگلے دانت۔  

[269] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،ص۲۶۹۔ علمیہ

[270] … ایک اوقیہ وزن میں چالیس درہم کے برابر تھا اور ایک درہم کاوزن تقریباً 3.0618گرام بنتا ہے لہٰذا بیس اوقیہ تقریباً 2450 گرام ہوا۔  واللّٰہُ تعالٰی اَعلم بالصواب ۔علمیہ

[271] … کامل ابن اثیر، غزوۂ بَدْر۔

[272] … اس پر یہ آیت نازل ہوئی:  یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّمَنْ فِیْۤ اَیْدِیْكُمْ مِّنَ الْاَسْرٰۤىۙ-اِنْ یَّعْلَمِ اللّٰهُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ خَیْرًا یُّؤْتِكُمْ خَیْرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنْكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۷۰) (انفال، ع۱۰) ’’اے نبی!کہہ دے ان کو جو تمہارے ہاتھ میں ہیںقیدی اگر جانے گا اللّٰہ تمہارے دل میں کچھ نیکی تودے گا تم کو بہتر اس سے جو تم سے چھن گیا اور تم کو بخشے گا اور اللّٰہ  ہے بخشنے والامہربان۔(ترجمۂکنز الایمان:  اے غیب کی خبریں بتانے والے جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ اگر اللّٰہ نے تمہارے دلوں میں بھلائی جانی تو جو تم سے لیا گیا اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ۱۰،الانفال:۷۰) علمیہ)

[273] الطبقات الکبری لابن سعد،الطبقۃ الثانیۃ من المہاجرین۔۔۔الخ،ج۴،ص۹۔۱۰والکامل فی التاریخ لابن اثیر،ذکر غزوۃ بدرالکبری،ج۲،ص۲۹۔علمیہ

[274] … کامل ابن اثیر، غزوۂ بَدْر۔   

[275] … اس خیال سے۔

[276] … سیرت ابن ہشام، غزو ۂ بَدْر۔

[277] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،ص۲۶۸ والکامل فی التاریخ لابن اثیر،ذکر غزوۃ بدرالکبری،ج۲، ص۲۸۔علمیہ

[278] ترجمۂکنز الایمان:اور بے شک اللّٰہنے بَدْر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سروسامان تھے۔ (پ۴، اٰٰل عمران:۱۲۳)۔علمیہ

[279] لَعَلَّ اللّٰہَ اطَّلَعَ اِلٰی اَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ،اَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی،  فضل من شہد بدرا)۔۱۲منہ

[280] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب فضل من شہد بدراً،الحدیث:۳۹۸۳،ج۳،ص۱۳ملتقطاً۔ علمیہ

[281] … صحیح بخاری، باب شہود الملائکۃ ببَدْر۔

[282] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب شہود الملائکۃ بدراً،الحدیث:۳۹۹۸،ج۳،ص۱۸۔ علمیہ

[283] … سفر نامہ محمد بن جبیر اندلسی ( اردو ترجمہ) مطبع احمدی ریاست رامپور صفحہ۱۹۲۔

[284] … کھجور۔

[285] … اجتماعی قبر۔   

[286] … بناوٹ۔

[287] … وعدہ توڑ دیا۔

[288] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بنی قینقاع،ج۲،ص۲۱ملخصاً والکامل فی التاریخ لابن اثیر،ذکر غزوۃ بنی قینقاع، ج۲،ص۳۳۔۳۴ملخصاً۔ علمیہ

[289] الکامل فی التاریخ لابن اثیر،ذکرغزوۃ السویق،ج۲،ص۳۶ملخصاً و الکامل فی التاریخ لابن اثیر،ودخلت السنۃ الثالۃ۔۔۔الخ،ج۲،ص۳۸-۴۲ و المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، غزوۃ بنی سلیم۔۔۔الخ،ج۲،ص۳۴۴-۳۴۵ و غزوۃ غطفان، ۳۷۸-۳۸۱ملخصاً۔ علمیہ

 

[290] … اس قتل کے سنہ وماہ میں یہ مختلف اقوال ہیں : رمضان  ۶ھ؁ ،  ذوالحجہ ۵ھ؁،  ذوالحجہ  ۴ھ؁،  جمادی الاخری ۳ھ؁،  رجب  ۳ھ؁۔۱۲منہ

[291] … اُحد ایک پہاڑ کانام ہے جو مدینہ منورہ سے قریباً تین میل پر ہے۔۱۲منہ

[292] … اصل زر۔

[293] … لشکر کے ساز و سامان۔

[294] ترجمۂکنز الایمان:بے شک کافر اپنے مال خرچ کرتے ہیں کہ اللّٰہ کی راہ سے روکیں تو اب انہیں خرچ کریں گے پھر وہ ان پر پچھتاوا ہوں گے پھر مغلوب کردیئے جائیں گے اور کافروں کا حشر جہنم کی طرف ہوگا۔(پ۹،الانفال:۳۶) علمیہ

[295] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ ربطہ بنت منبہ ‘‘ لکھا ہے لیکن سیرۃ ابن ہشام، سیرۃ ابن اسحاق اور دیگر کتب میں ’’ رَیْطَہ بنت مُنَـــــــبِّہ‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں سیرۃ ابن ہشام کے مطابق ’’ رَیْطَہ بنت مُنَـــــــبِّہ ‘‘  لکھا ہے۔ علمیہ

[296] … ابوسفیان کی سرداری میں ۔ 

[297] … مَدینہ کی چراگاہ کا نام۔

 

[298] … طبقات ابن سعد، بخاری شریف میں ہے کہ تلوار کا اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا جس کی تعبیراصحاب کرام کی شکستگی و ہز یمت تھی۔۱۲منہ

[299] … طلحہ بن ابی طلحہ کو کَبْشُ الْکَتِیبَہ کہاکرتے تھے۔۱۲منہ

[300] … مدینہ منورہ کی ایک بستی کا نام۔

[301] … کم عمری۔

[302] ترجمۂکنز الایمان:تو تمہیں کیا ہوا کہ منافقوں کے بارے میں دو فریق ہوگئے اور اللّٰہ نے انہیں اوندھا کردیا ان کے کوتکوں کے سبب کیا یہ چاہتے ہو کہ اسے راہ دکھاؤ جسے اللّٰہ نے گمراہ کیا اور جسے اللّٰہ گمراہ کرے تو ہرگز تواس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔ (پ۵، النسائ:۸۸) علمیہ  

 

[303] ترجمۂکنز الایمان:جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کرجائیں اور اللّٰہ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اللّٰہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۲۲) علمیہ          

[304] … راستہ بتانے والا۔       

[305] … بروز ہفتہ۔

[306] … وادی کے کنارے۔             

[307] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ رسول اللّٰہ اُحداً،ج۲،ص۲۸۔۳۰ملخصاً والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد، ص۳۲۳۔۳۲۵ملتقطاً والکامل فی التاریخ لابن اثیر،ذکرغزوۃ اُحد، ج۲، ص۴۴۔۴۶ملخصاً۔ علمیہ   

[308] …صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب ما یکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب۔…(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب مایکرہ من التنازع۔۔۔الخ،الحدیث:۳۰۳۹،ج۲،ص۳۲۰۔ علمیہ)

[309] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ رسول اللّٰہ اُحداً،ج۲،ص۳۰ملخصاً والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد،ص۳۲۶۔ علمیہ

[310] الکامل فی التاریخ لابن اثیر،ذکرغزوۃ اُحد،ج۲،ص۴۷ملخصاً والطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ رسول اللّٰہ اُحداً، ج۲،ص۳۱۔ علمیہ

[311] حاجیوں کو پانی پلانے والا۔

[312] المعجم الکبیر للطبرانیاور دیگرکتب میں ، اس روایت میں مزید الفاظ یوں ہیں : ’’ الا فی ہذا الموضع ‘‘ (یعنی) اس مقام کے سوا۔علمیہ

[313] پہاڑ کا دامن۔

[314] الکامل فی التاریخ لابن اثیر،ذکرغزوۃ اُحد،ج۲،ص۴۷۔۴۸ و المعجم الکبیرللطبرانی،۶۵۲۔من اسمہ سماک، الحدیث:۶۵۰۸،ج۷،ص۱۰۴۔ علمیہ

[315] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ ام نمار ‘‘ لکھا ہے لیکن بخاری شریف اور حدیث و سیرت کی دیگر کتب میں ’’ اُمِّ اَنمَار ‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں بخاری شریف کے مطابق ’’ اُمِّ اَنمَار ‘‘  لکھا ہے۔  علمیہ

[316] یعنی نیست و نابود ہوگیا۔

[317] نیزہ۔

[318] ناف کے نیچے کی جگہ جہاں بال ہوتے ہیں ۔

[319] انجام۔

[320] بدلہ ،عوض۔

[321] بکھرے بالوں والا۔

[322] مٹیالے رنگ کا۔

[323] یہ وہی حربہ ہے جس سے حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہید کیا تھا۔ حضرت وحشی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہا کرتے تھے: قتلت فی کفری خیر الناس و فی اسلامی شر الناس یعنی میں نے اپنی کفر کی حالت میں خیرالناس کو شہید کیااور مسلمان ہونے کی حالت میں شرالناس کو قتل کیا۔۱۲منہ

[324] مسیلمہ کذاب کو امیرالمومنین اس لئے کہا کہ اس پر ایمان لانے والوں کے امور کا مرجع وہی تھا۔ اس سے تلقیب (لقب دینا) مقصود نہ تھی۔۱۲منہ

[325] صحیح بخاری، باب قتل حمزہ۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قتل حمزۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ،الحدیث:۴۰۷۲، ج۳،ص۴۱ ۔ علمیہ)

[326] جسے فرشتوں نے غسل دیا۔

[327] سیرت ابن ہشام۔السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد،ص۳۲۹۔  علمیہ

[328] جرأت وبہادری سے لڑے۔

[329] سیرت ابن ہشام، بروایت ابن اسحق۔…(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد ، ص۳۳۱ و سبل الہدی والرشاد، غزوۃ احد،ج۴،ص۱۹۴-۱۹۵۔   علمیہ)

[330] پریشان اور گھبرا کر۔

[331] الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ رسول اللّٰہ اُحداً،ج۲،ص۳۱۔۳۲ملتقطاً۔ علمیہ

[332] ترجمۂکنز الایمان:بیشک وہ جو تم میں سے پھرگئے جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں انہیں شیطان ہی نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے باعث اور بیشک اللّٰہ نے انہیں معاف فرمادیا بیشک اللّٰہ بخشنے والا حلم والا ہے۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۵۵) علمیہ

[333] ترجمۂکنز الایمان:اور بیشک اللّٰہ نے تمہیں سچ کر دکھایا اپنا وعدہ جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کرتے تھے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور حکم میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللّٰہ   تمہیں دکھا چکا تمہاری خوشی کی بات تم میں کوئی دنیا چاہتا تھا اور تم میں کوئی آخرت چاہتا تھا پھر تمہارا منہ ان سے پھیردیا کہ تمہیں آزمائے اور بیشک اس نے تمہیں معاف کردیااور اللّٰہ مسلمانوں پر فضل کرتا ہے جب تم منہ اٹھائے چلے جاتے تھے اور پیٹھ پھیر کر کسی کو نہ دیکھتے اور دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے تو تمہیں غم کا بدلہ غم دیا اور معافی اس لئے سنائی کہ جو ہاتھ سے گیا اور جو افتاد پڑی اس کا رنج نہ کرو اور اللّٰہ کوتمہارے کاموں کی خبر ہے۔

             (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۵۲۔۱۵۳) علمیہ

[334] گھبراہٹ۔

[335] صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب قول اللّٰہ عزوجل: من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللّٰہ علیہ۔( الاٰیۃ )۔

[336] صحیح البخاری،کتاب الجہاد والسیر،باب قول اللّٰہ:من المؤمنین رجال۔۔۔الخ،الحدیث:۲۸۰۵، ج۲،ص۲۵۵۔علمیہ

[337] ترجمۂکنز الایمان:مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچا کردیا جو عہد اللّٰہ سے کیا تھا تو ان میں کوئی اپنی منت پوری کرچکا اور کوئی راہ دیکھ رہا ہے اور وہ ذرا نہ بدلے۔(پ۲۱،الاحزاب:۲۳) علمیہ

[338] سیرت ابن ہشام۔

[339] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد،ص۳۳۳۔ علمیہ

[340] اصابہ، ترجمہ ثابت بن دحداح۔

[341] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۸۸۰۔ثابت بن الدحداح،ج۱،ص۵۰۳۔ علمیہ

[342] لوہے کی جالی جو خَود کے اندر پہنی جاتی ہے۔

[343] گھاٹی، وادی۔

[344] ابن جوزی نے اور خطیب نے تاریخ میں محمد بن یوسف حافظ فریابی سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہاکہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رباعیہ توڑا تھا اس کے گھر میں جو بچہ پیدا ہوتا اس کا رباعیہ نہ اگتا۔ زر قانی علی المواہب، جزء اول ص ۳۵۔۱۲منہ

[345] اس لیے۔

[346] ترجمۂکنز الایمان:یہ بات تمہارے ہاتھ نہیں یا انہیں توبہ کی توفیق دے یا ان پر عذاب کرے کہ وہ ظالم ہیں ۔(پ۴،اٰل عمران:۱۲۸) علمیہ

[347] المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،غزوۃ اُحد،ج۲،ص۴۲۳۔۴۲۹و۴۳۵ملخصاً والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد، ص۳۳۱۔۳۳۲ملتقطاً۔ علمیہ

[348] ان الفاظ کیساتھ روایت ہمیں نہیں ملی البتہ بخاری شریف اور سیرت ابن ہشام وغیرہ میں مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا: سعد! تیر پھینکو ،تم پر میرے ماں باپ قربان!۔ بخاری شریف میں ہے:عن علی رضی اللّٰہ عنہ قال ما سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جمع ابویہ لاحد الا لسعد بن مالک ، فانی سمعتہ یقول یوم احد  یا سعد ارم، فداک ابی و امی ۔ (صحیح البخاری،کتاب المغازی،الحدیث:۴۰۵۹،ج۳،ص۳۸)سیرۃ ابن ہشام میں ہے:  و رمی سعد بن ابی وقاص دون رسول اللّٰہ ، قال سعد : فلقد رایتہ یناولنی النبل و ہو یقول : ارم، فداک  ابی و امی (سیرۃ ابن ہشام،غزوۃ احد،ص۳۳۲ و المواہب اللدنیہ مع شرح الزرقانی،باب غزوۃ احد، ج۲،ص۴۳۱) و اللّٰہ تعالی اعلم۔ علمیہ

[349] کچھ سانسیں باقی تھیں ۔

[350] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، شان عاصم بن ثابت، ص۳۳۲و سبل الہدی والرشاد،غزوۃ احد،ج۴،ص۲۰۴ و الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف الشین المعجمۃ، شماس بن عثمان:۳۹۳۸،ج۳،ص۲۸۸۔ علمیہ

[351] سیرت ابن ہشام۔

[352] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد،ص۳۳۶۔ علمیہ

[353] ترجمۂکنز الایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں ۔(پ۴،اٰل عمران:۱۴۴)  علمیہ

[354] تفسیر درمنثور للسیوطی، بحوالہ طبقات ابن سعد۔…(الدرالمنثور للسیوطی،سورۃ آل عمران،تحت الآیۃ:۱۴۴۔۱۴۵، ج۲، ص۳۳۶۔ علمیہ)

[355] سیرت ابن ہشام۔ …(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد،ص۳۳۳ملتقطاً۔ علمیہ)

[356] تالاب۔

[357] سیرت ابن ہشام۔

[358] اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا غضب سخت ہے اس پر جس نے اس کے پیغمبر کا چہرہ خون آلود کر دیا۔ ۱۲منہ

[359] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد،ص۳۳۴ملتقطاً۔ علمیہ

[360] صحیح بخاری، غزوۂ احد۔

[361] یعنی ہاں ! بدر میں ہمارا اور تمہارا مقابلہ ہوگا۔

[362] کہیں ایسا نہ ہو۔

[363] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ اُحد،الحدیث:۴۰۴۳،ج۳،ص۳۴ والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، غزوۃ اُحد،ج۲،ص۴۴۴۔ علمیہ

[364] ترجمۂکنز الایمان:کوئی دم جاتا ہے کہ ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے۔ (پ۴،اٰٰل عمران:۱۵۱)  علمیہ

[365] پاؤں کا ایک زیور۔

[366] صحیح بخاری، غزوۂ احد۔

[367] اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا غضب شدید ہوگیا اس قوم پر جس نے اس کے رسول کے چہرہ کوخون آلود کر دیا۔ علمیہ

[368] اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔ علمیہ

[369] استیعاب ومواہب۔…(صحیح البخاری،کتاب الجہاد والسیر،باب المجن۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۰۳،ج۲، ص۲۸۳و المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،غزوۃ اُحد،ج۲،ص۴۴۴۔۴۴۶ملتقطاً والاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،۹۳۶۔ سعد بن الربیع بن عمرو الانصاری،ج۲،ص۱۵۷وسبل الہدی والرشاد، غزوۃ احد،ج۴،ص۲۰۲۔علمیہ)

[370] وفاء الوفاء للسمہودی، جزء ثانی، ص ۱۱۳۔

[371] صحیح بخاری، غزوۂ احد۔

[372] اس کے بعد۔

[373] وفاء الوفاء للسمہودی،تسمیۃ شہداء اُحد،ج۲،الجزء الثالث،ص۹۳۳۔۹۳۵ملتقطاً وصحیح البخاری،کتاب المغازی، باب من قتل المسلمین یوم اُحد۔۔۔الخ،الحدیث:۴۰۷۹،ج۳،ص۴۴۔  علمیہ

[374] ایک جنگلی پودے کے پتے۔

[375] طبقات ابن سعد۔…(الطبقات الکبری لابن سعد،الطبقۃ البدریین من المہاجرین،الطبقۃ الاولی، ۲۔حمزۃ بن عبد المطلب،ج۳،ص۶-۷ ۔ علمیہ)

[376] چھوٹا کمبل۔

[377] فارسی گورگیاہ۔ بہ ہندی گندھلین گندھیل۔۱۲منہ

[378] خوشبو دار گھاس۔

[379] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ اُحد،الحدیث:۴۰۴۷،ج۳،ص۳۵۔ علمیہ

[380] اسد الغابۃ ، الاستیعاب ، الطبقات لابن سعد و دیگر کتب میں ان کا نام ’’ عقبہ بن قابوس‘‘  لکھا ہے۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔ علمیہ

[381] آدھی پنڈلی۔

[382] ایک جنگلی پودے کے پتے۔

[383] طبقات ابن سعد۔…(الطبقات الکبری لابن سعد،الطبقۃ الثانیۃ من المہاجرین والانصار،۴۴۲۔وہب بن قابوس المزنی، ج۴،ص۱۸۶۔ علمیہ)

[384] بخاری، (باب مایکون من النیاحۃ علی ا  لمیت)…(صحیح البخاری،کتاب الجنائز،۳۴۔باب، الحدیث:۱۲۹۳، ج۱، ص۴۳۸۔ علمیہ)

[385] زاد المعاد، غزوۂ احد۔…(سنن الترمذی،کتاب التفسیر،باب ومن سورۃ آل عمران،الحدیث:۳۰۲۱،ج۵،ص۱۲۔علمیہ)

[386] ترجمۂکنزالایمان:اور جو اللّٰہ کی راہ میں مارے گئے ہر گز انہیں مردہ نہ خیال کرنا۔(پ۴،اٰل عمران:۱۶۹) علمیہ

[387] چھوٹا کمبل۔

[388] طبقات ابن سعد۔…(الطبقات الکبری لابن سعد،طبقات البدریین من الانصار،الطبقۃ الاولی من الانصار،۱۳۷۔  عبد اللّٰہ بن جبیر،ج۳،ص۳۶۲۔۳۶۳ملخصاً۔ علمیہ)

[389] استیعاب ابن عبدالبر۔…(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ۱۹۲۵۔عمروبن الجموح السلمی،ج۳،ص۲۵۳۔ علمیہ)

[390] دورانِ جنگ۔

[391] بخاری، غزوۂ احد۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ اُحد،الحدیث:۴۰۴۶،ج۳،ص۳۵۔ علمیہ)

[392] سیرت ابن ہشام۔

[393] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ اُحد،ص۳۴۰۔ علمیہ

[394] طبقات ابن سعد۔…(الطبقات الکبری لابن سعد،طبقات البدریین من المہاجرین،الطبقۃ الاولی،۲۔حمزۃ بن عبد المطلب،ج۳،ص۱۳۔ علمیہ)

[395] بزرگی والا بلند رتبہ منبر۔

[396] بخاری، کتاب الجنائز، باب الصلوٰۃ علی الشہید۔

[397] صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب الصلاۃ علی الشہید،الحدیث:۱۳۴۴،ج۱،ص۴۵۲ وکتاب المغازی،باب غزوۃ احد، الحدیث:۴۰۴۲،ج۳،ص۳۳۔  علمیہ

[398] فرط آنکہ پیش قوم رود تا اسباب آبخور را درست کند۔ منتہی الارب۔۱۲منہ

[399] پچھلے معاہدہ کی خلاف ورزی۔         

[400] پناہ میں ۔

[401] جنگ پر آمادہ۔

[402] اس شرط پر۔

[403] صحیح بخاری مع قسطلانی، باب حدیث بنی نضیر۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث بنی النضیر۔۔۔الخ، الحدیث: ۴۰۲۸،ج۳،ص۲۶ وکتاب المغازی،باب غزوۃ ذات الرقاع،ج۳،ص۵۷،۵۸ و ارشادالساری لشرح صحیح البخاری، کتاب المغازی،باب حدیث بنی النضیر۔۔۔الخ،ج۹،ص۸۲۔۸۳ملتقطاً والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،حدیث بنی النضیر،ج۲،ص۵۰۷۔۵۰۸وغزوۃ ذات الرقاع،ص۵۲۲،۵۳۱،۵۳۲۔  علمیہ)

[404] یہ موضع دمشق و مدینہ کے درمیان دمشق سے سات منزل پر ہے۔۱۲ منہ

[405] خواتین۔    

[406] اونچائی کی جانب میں ۔

[407] چوڑائی۔

[408] مقابلہ پر آنے والا۔

[409] کفار کا بڑے زور شور سے مدینہ پر حملہ کرنا، مخلصوں کا ثابت قدم رہنا اور منافقوں سے کلمات نفاق کا سرزد ہونا اور طوفان باد سے لشکر کفار کا برباد ہونا یہ سب کچھ سورۂ اَحزاب میں مذکور ہے۔۱۲منہ

[410] جھکڑ، آندھی۔

[411] خیموں کی رسیاں ۔

[412] محاصرہ کی مدت طویل ہوجانے کے سبب سے۔           

[413] خوراک، کھانے کا سامان۔       

[414] بازو کی ایک رَگ جس کی فصد کی جاتی ہے۔          

[415] عہد توڑ کر۔         

[416] فیصلہ کرنے والا۔

[417] قربانی کے جانوروںکی گردن میںکوئی شے بطور علامت ڈالنا جس سے معلوم ہوکہ یہ قربانی کے لیے ہیں۔

[418] حلیفوںیعنی مدد گاروں سمیت۔

[419] سیرتِ رسولِ عربی کے بعض نسخوں میں یہاں ’’ تینتہ المرا ‘‘ اوربعض میں’’ثنیۃ المرہ‘‘ لکھا ہے لیکن مواہب لدنیۃ ، سیرۃ ابن ہشام، مسند احمد بن حنبل اور دیگر کتب میں ’’ ثَنِیَّۃُ الْمرا   ر ‘‘ہے لہٰذااسے کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ ثَنِیَّۃُ الْمرا ر‘‘ لکھا ہے۔  واللّٰہ تعالی اعلم۔ علمیہ

[420] قصۂ اصحاب فیل کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے فیل کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا تاکہ جان و مال کا نقصان اور بیتاللّٰہ کی بے حرمتی نہ ہو اور اس کے حبیب پاک پر غلامی کا دھبہ نہ لگے اسی قسم کے امور کے لئے خدا تعالیٰ نے قصواء کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔۱۲منہ

[421] اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت والی اشیائ۔

[422] حدیبیہ مکہ سے ۹ میل کے فاصلہ پر ہے۔۱۲منہ

[423] دوسری طرف۔       

[424] مٹی کا وہ برتن جس میں مسافر پانی بھر کر رکھتے ہیں۔

[425] بدیل مذکور فتح مکہ کے دن ایمان لایا۔ قبیلہ خزاعہ نے زمانہ جاہلیت میں رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دادا عبدالمطلب کے عہد سے موالات کیا تھا اسی کی رو سے بدیل کا اس موقع پر خدمت اقدس میں حاضر ہونا بغرض خیر خواہی تھا۔۱۲منہ

[426] بہت دودھ دینے والی۔

[427] جنگ کو ملتوی۔

[428] اچھا مشورہ دینے والا ، عقل مند۔

[429] اَخلاط جمع ہے خلط کی یعنی ملے ہوئے مراد یہ کہ آپ کے اصحاب میں ایسے بھی ہیں جو وقت پڑنے پر آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔

[430] عربی میں’’ امصص بظر الام‘‘گالی ہے حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بجائے ام کے لات کہہ دیا۔ اس میں عروہ اور اس کے معبود کی تحقیر ہے۔ وہ لات کو خدا کی بیٹی کہا کرتے تھے، لہٰذا عروہ پر چوٹ ہے کہ لات اگر خدا کی بیٹی ہے تو اس کے لئے وہ چاہئے جو عورتوں میں ہے۔۱۲منہ

[431] ایک دفعہ عروہ کو دِیَت دینی پڑی تھی اس میں حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عروہ کو مدد دی تھی یہ اس کی طرف اشارہ ہے۔۱۲منہ

[432] داڑھی مبارک۔

[433] مغیرہ اور ثقیف کے تیرہ آدمی تحائف لے کر مُقَوْقِس والی مصر کے ہاں گئے تھے جو انعام ملا وہ تیرہ نے لے لیا اور مغیرہ کو  کچھ نہ دیا=  واپسی پر راستے میں وہ تیرہ شراب پی کر سوگئے۔ مغیرہ نے سب کو قتل کر دیااور مال لے کر مدینہ میں حاضر ہوا اور اسلام لایا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ تیرا اسلام ہم قبول کرتے ہیں مگر مال میں دخل نہیں دیتے۔ اس پر فریقین میں لڑائی ہوئی۔ عروہ نے دیت دے کر ثقیف سے صلح کرلی۔۱۲منہ

[434] اچھی فال لینے کے طور پر۔

[435] آسان۔

[436] رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سہیل سے جو موافقت کی اس میں بڑی مصلحت تھی جو صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس وقت معلوم نہ ہوئی۔ یہ حقیقت میں بڑی فتح تھی۔ یہی سہیل حجۃ الوداع میں حاضر ہے حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قربانی دینے کے بعد اپنا سر مبارک منڈارہے ہیں اور سہیل آپ کے بال مبارک لے کر اپنی آنکھوں پر رکھ رہا ہے۔ علاوہ ازیں باسمک اللّٰھماور بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِکے ایک ہی معنی ہیں۔۱۲منہ

[437] اس شرط میں بھی موافقت بناء بر مصلحت تھی اور وہ اس صلح کے ثمرات و فوائد تھے اس سے کفار کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حالات سننے اوردیکھنے کا موقع مل گیا اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ چنانچہ حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان کچھ لوگ اسلام لائے مگر فتح مکہ کے بعد گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوئے۔۱۲منہ

[438] پاؤں میں زنجیرسمیت ۔

[439] اپنے آپ کو۔

[440] یعنی اسی صلح نامہ کے تحت فیصلہ کا طلب گارہوں۔

[441] اے مسلمانوں کے گروہ۔

[442] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ فراش بن امیہ‘‘ لکھا ہے یہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ طبقات ابن سعد، مسند احمد بن حنبل اور دیگر کتب میں ’’ خِرَاش بن اُمَــیَّہ ‘‘ہے لہٰذا ہم نے یہی لکھا ہے۔ علمیہ

[443] احابیش وہ قریشی جنہوں نے حبشی عورتوں سے نکاح کیے یا پھر جبل حبشہ کے پاس آپس میںعہد و پیمان کرنے کی وجہ سے احابیش کہلائے۔علمیہ

[444] آمادہ۔

[445] حالات مذکورہ کے لئے دیکھو زرقانی علی المواہب۔…(المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،امر الحدیبیۃ،ج۳، ص۱۷۰۔ ۲۲۶ملخصاً وغزوۃ المریسیع، ص۳-۱۶و غزوۃ الخندق۔۔۔الخ،ص۱۷-۶۴ و غزوۃ بنی قریظۃ،ص۶۵-۱۰۰،سبل الھدی والرشاد، غزوۃ دومۃ الجندل، ج۴، ص۳۴۲۔  علمیہ)