جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (ذی الحجہ ۶ھ میں ) حد یبیہ سے واپس تشریف لا ئے تو آپ نے شروع ۷ھ میں والیانِ ملک([1] )کو دعوت اسلام کے خطوط اِرسال فرمائے جن کا ذکر کسی قدر تفصیل سے یہاں درج کیا جاتاہے:
{۱}…جو نامہ مبارک قیصر روم کے نام لکھا گیا اس کے الفاظ یہ تھے :
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ من محمد عبد اللّٰہ و رسولہ الٰی ھِرَقْلَ عظیم الروم سلام علٰی من اتبع الھدٰی امّا بعد فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم یؤتک اللّٰہ اجرک مرتین فان تولیت فان علیک اثم الاریسین ویٰـاھل الکتٰب تعالوا الٰی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللّٰہ فان تولّوا فقولوا اشہدوا بانا مسلمون۔اللہ رسول محمد
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہا یت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے بندے اور رسول محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کی طرف سے ہِرَقْل امیر رُوم کے نام۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ اما بعد میں تجھ کو دعوتِ اسلام کی طرف بلا تا ہوں تو اسلام لا، سلامت رہے گا، خدا تجھ کو دوہرا ثواب دیگا۔اگر تونے رو گردانی کی تو تیر ی رعا یاکا گناہ تجھ پرہوگا۔ اوراے اہل کتاب! آؤ ایسی بات
کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی پوجانہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اورہم میں سے کوئی اللّٰہ کو چھوڑ کر دو سرے کو خدا نہ بنا ئے۔اگر وہ نہیں ما نتے توکہہ دو: تم گواہ رہوکہ ہم ما ننے والے ہیں ۔ اللہ رسول محمد
رومیوں اور ایر انیوں میں دیر سے لڑائی چلی آتی تھی۔ ایر انیوں نے ملک شام فتح کر لیا تھا۔ ہِرَقْل کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ اسے اپنے پا یۂ تخت([2] ) قُسْطَنْطِیْنِیَّہ پر ایرانی حملہ کا اندیشہ ہوگیا تھا۔ اس حالت میں اللّٰہ تعالٰی نے اپنے کلام پاک میں خبردی کہ رومی جو شام میں مغلوب ہو گئے ہیں چند سال میں وہ ایرانیوں پر غالب آئیں گے۔ یہ پیشین گوئی صلح حدیبیہ سے نوسال پیشتر ہوئی تھی اور حرف بحرف پوری ہوئی۔ چنانچہ حدیبیہ کے دن مسلمانوں کو رومیوں کی فتح کی خبرپہنچی۔ ہِرَقْل اس فتح کے شکرانے کے لئے حِمْص سے بیت المقدس میں پیادہ گیا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا نامہ مبارک حضرت دِحْیہ بن خلیفہ کلبی کے ہاتھ روانہ کیا تھا۔حضرت دِحیہ نے وہ خط ہِرَقْل کے گورنر شام حارث غَسَّانی کو بصرے میں دے دیا۔ اس نے قیصرکے پاس بیت المقدس میں بھیج دیا۔ قیصرنے حکم دیا کہ اس مدعی نبوت کی قوم کا کوئی آدمی یہاں ملے تولاؤ۔ اتفاق یہ کہ ابو سفیان جو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے، تا جر ان قریش کے ساتھ غَزَّہ([3] ) میں آئے ہوئے تھے۔ قیصرکا قاصد ان سب کو بیت المقدس میں لے گیا۔ ابوسفیان([4] ) کا بیان ہے کہ جب ہم کوقیصرکے پاس لے گئے توکیا دیکھتے ہیں کہ وہ تاج پہنے ہوئے دربارمیں تخت پربیٹھاہے اور اس کے گِرداگِرد([5])اُمرائے روم ہیں ۔ اس نے اپنے ترجمان سے کہاکہ ان (قریشیوں ) سے پوچھو کہ تم میں بلحاظ نسب اس مدعی نبوت سے کون اَقرب([6])ہے؟ (قول ابوسفیان) میں نے کہا کہ میں اقرب ہوں ۔ قیصر نے رشتہ دریافت کیا۔ میں نے کہا: وہ میرا چچیرا بھائی ہے۔قافلہ میں اس وقت عبد مناف کی اولادمیں میرے سوا کوئی نہ تھا۔ قیصرکے حکم سے مجھے نزدیک بلایا گیا اور میرے ساتھیوں کومیری پیٹھ پیچھے بٹھایا گیا۔ پھرقیصرنے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس کے ساتھیوں سے کہہ دو کہ میں اس (ابوسفیان) سے اس مدعی نبوت کاحال دریافت کرتا ہوں ۔ اگر یہ جھوٹ بولے تو کہہ دینا کہ یہ جھوٹ بو لتا ہے۔ ابو سفیان کا قول ہے کہ اگرمجھے یہ ڈرنہ ہوتاکہ میرے ساتھی میرا جھوٹ اور وں سے نقل کیا کریں گے تو میں اس کا حال بیان کر نے میں جھوٹ بولتا مگر اس ڈرسے میں
سچ ہی بولا۔ اس کے بعد قیصر وابوسفیان میں بذر یعہ ترجمان یہ گفتگو ہوئی :
قیصر:… اس مدعی نبوت کا نسب تم میں کیساہے ؟
ابوسفیان: …وہ شریف النسب ہے۔
قیصر: …کیا اس سے پہلے تم میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟
ابوسفیان:… نہیں ۔
قیصر:… کیا اس کے خاندان میں کوئی بادشاہ گزراہے؟
ابوسفیان:… نہیں ۔
قیصر: …اس کے پیر واکا بر ہیں یا کمزور لوگ؟
ابوسفیان: …کمزور لوگ ہیں ۔
قیصر:… اس کے پیر وزیا دہ ہو رہے ہیں یا کم ہو تے جارہے ہیں ؟
ابوسفیان: …زیادہ ہو رہے ہیں ۔
قیصر:… کیا اس کے پیر وؤں میں سے کوئی اس کے دین سے ناخوش ہو کر ا س دین سے پھر بھی جا تا ہے؟
ابوسفیان:… نہیں ۔
قیصر:… کیا دعوائے نبوت سے پہلے تمہیں اس پر جھوٹ بو لنے کا گمان ہوا ہے؟
ابوسفیان:… نہیں ۔
قیصر: …کیا وہ عہد شکنی کر تا ہے ؟
ابوسفیان:… نہیں ۔لیکن اب جو ہمارا اس کے ساتھ معاہدہ صلح ہے، دیکھئے اس میں کیا کرتا ہے۔
قیصر:… کیا تم نے کبھی اس سے جنگ بھی کی ؟
ابوسفیان:… ہاں ۔
قیصر:… جنگ کا نتیجہ کیا رہا؟
ابوسفیان:… کبھیہم غالب رہے اور کبھی وہ۔
قیصر:… وہ تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے ؟
ابوسفیان:… کہتا ہے کہ ایک خدا کی عبادت کر و،خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تمہارے آباء واجداد جو کچھ کہتے ہیں وہ چھوڑدو، نمازپڑھو، سچ بولو، پاک دامن رہو، صلۂ رحم کرو۔
اس گفتگوکے بعدقیصرنے ترجمان کی وَساطَت سے ابوسفیان سے کہاکہ تم نے اس کو شریف النسب بتا یا، پیغمبر اپنی قوم کے اَشراف میں مبعوث ہواکرتے ہیں ۔ تم نے کہا کہ ہم میں سے کسی نے اس سے پہلے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ایسا ہو تاتو میں سمجھ لیتا کہ اس نے پہلے کے قول کا اقتداء کیا ہے۔ تم نے کہا کہ اس کے خاندان میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں خیال کر تا کہ وہ اپنے آبائی ملک کا طالب ہے۔ تم نے کہا کہ دعویٰ نبوت سے پہلے وہ کبھی مُتَّہِم بالکِذ ب نہیں ہوا۔([7])اس سے میں نے پہچان لیاکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں پر توجھوٹ نہ باندھے اورخدا پرجھوٹ باندھے۔ تم نے بتایا کہ کمزورلوگ اس کے پیرو ہیں ۔ پیغمبروں کے پیرو(غالباً) کمزور لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ۔ تم نے ذکر کیاکہ اس کے پیروزیادہ ہورہے ہیں ۔ دین وایمان کا یہی حال ہوتاہے یہاں تک کہ وہ تمام وکامل ہوجاتاہے۔ تم نے بتایاکہ اس کے پیروؤں میں سے کوئی مرتد([8])نہیں ہوتا۔ ایمان کا یہی حال ہے کہ جب اس کی بشاشت ولذت دل میں سرایت کر جاتی ہے تووہ دل سے نہیں نکلتا۔ تم نے کہا کہ وہ عہدشکنی نہیں کرتا۔ پیغمبر عہد نہیں توڑا کرتے۔ تم نے بیان کیا کہ جنگ میں کبھی ہم غالب رہتے ہیں اور کبھی وہ۔ پیغمبروں کایہی حال ہوتاہے کہ اعدائے دین کے سبب ان کو اِبْتِلائ([9])ہوا کرتاہے مگرآخرکار فتح پیغمبروں ہی کوہوتی ہے۔ تم نے اس کی تعلیمات بیان کیں ۔ اگرتم سچ کہتے ہوتومیرے قدم گاہ تک اس کا قبضہ ہوجائے گا۔ میں جانتاتھاکہ وہ آنے والا ہے مگرمجھے یہ خیال نہ تھاکہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگرمجھے یقین ہوتا کہ اس تک پہنچ جاؤں گا تومیں اس کی خدمت میں حاضرہونے کی تکلیف گواراکرتااوراگرمیں اس کے پاس ہوتاتواس کے پاؤں دھوتا۔ اس کے بعد رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کانامہ مبارک پڑھاگیا۔ اسے سن کر اُمرائے روم نے بڑا شور و شَغَب برپا کیا ابوسفیان اور اس کے ہمراہی رخصت کردیئے گئے۔
قیصر حِمْص([10])میں چلا آیا اور امرائے روم کوقصرشاہی میں جمع کرکے حکم دیاکہ دروازے بندکردیئے جائیں ۔ پھر یوں خطاب کیا: ’’اے گروہ روم! اگر تم فلاح ورُشدکے طالب ہو اور چاہتے ہوکہ تمہارا ملک برقرار رہے تواس نبی پر ایمان لاؤ۔ یہ سن کروہ خرانِ وَحشی کی طرح ([11])دروازوں کی طرف بھاگے مگر ان کوبندپا یا۔ جب ہِرَقْل نے ان کی نفرت دیکھی اور ان کے ایمان سے مایوس ہوگیا توکہا کہ ان کومیرے پاس لاؤ اوران سے یوں خطاب کیا کہ میں تمہیں آزماتا تھا کہ تم اپنے دین میں کیسے مستحکم ہو،سو میں نے تم کومستحکم پایا۔ یہ سن کرانہوں نے قیصرکو سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے۔([12])
{۲} …خسرو پرویز بن ہُرمُز بن نوشیرواں شاہِ ایران کویوں ([13])لکھا گیا:
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللّٰہ الٰی کسرٰی عظیم فارس سلام علی من ا تبع الھدٰی و اٰمن باللّٰہ و رسولہ و شھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و ان محمدا عبدہ و رسولہ ادعوک بدعایۃ اللّٰہ عز وجل فانی رسول اللّٰہ الی الناس کلھم لینذر من کان حیًّا و یحقّ ا لقول علی الکفر ین اسلم تسلم فان تولیت فعلیک اثم المجوس ۔ اللہ رسول محمد
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہا یت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے رسول محمد کی طرف سے کسرٰ ی امیر فارس کے نام۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور گواہی دی کہ کوئی معبود بحق نہیں مگر خدا ایک جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ میں تجھے دعوت خدا ئے عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلاتا ہوں کیونکہ میں تمام لوگوں کی طرف خدا کا رسول
ہوں تا کہ ڈراوے اس کو جو زندہ ہو اور ثابت ہوجائے کلمہ عذاب کافروں پر تو اسلام لا سلامت رہے گا۔ پس اگر تو نے نہ مانا تو مجو سیوں کا گناہ تجھ پر ہے۔ اللہ رسول محمد
علاقہ بحرین کسریٰ کے زیر فرمان تھا۔ وہاں اس کی طرف سے مُنْذِر بن ساوِی عبد ی تمیمی نائب السلطنت تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا نا مہ مبارک حضرت عبد اللّٰہ بن حُذافہ قَرَشی سَہْمِی کو دے کر حکم دیا([14])کہ اسے حاکم بحرین کے پا س لے جاؤ۔ حاکم موصوف نے وہ نامہ خسرو پر ویز کے پاس بھیج دیا۔ جب وہ پڑ ھا گیاتو پرویز نے اسے پھاڑ ڈالا۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خبر ہو ئی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پر ویز اور اس کے معاو نین پر بد دعا فرمائی کہ ’’وہ ہر طرح پا رہ پا رہ کیے جائیں ۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا، ان کی سلطنت جاتی رہی، دولت واقبال نے منہ پھیر لیا اور وہ ہلاک ہو گئے۔ اس بر بادی کی کیفیت یوں ہے([15]) کہ پر ویز نے نامہ مبارک کو چاک کر نے کے بعد اپنے گو ر نر یمن با ذان کو لکھا کہ اپنے دو دلیر آدمیوں کو حِجاز میں بھیجو تا کہ اس مدعی نبوت کوپکڑ کر میرے پاس لائیں ۔ باذان نے اپنے قہرمان([16])بابُوَیہ اور ایک شخص خرخسرہ نام کو اس غرض کے لئے مدینہ میں بھیجا اور بابُوَیہ سے کہہ دیا کہ اس مدعی نبوت سے کلام کرنا اور اس کے حال سے اطلاع دینا۔ یہ دونوں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے۔ بابُوَیہ نے حقیقت حال عرض کی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ کل میرے پاس آؤ۔ جب وہ دوسرے دن حاضرِ خدمت ہوئے تو آپ نے فرمایاکہ فلاں مہینے کی فلاں رات کو خدا نے کسریٰ کو قتل کر دیا اور اس کے بیٹے شِیرَوَیہ کو اس پر مسلط کردیا۔ وہ بو لے آپ یہ کیا فرمارہے ہیں کیا ہم اپنے بادشاہ (باذان ) کو یہ اطلاع کردیں ؟ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا:ہاں ! میری طرف سے اسے یہ خبر دے دواور کہہ دو کہ میرا دین اور میری حکومت کسریٰ کے ملک کی انتہا تک پہنچ جائے گی اور (باذان سے) یہ بھی کہہ دو کہ اگر تم اسلام لاؤ تو تمہارا ملک تم ہی کو دیا جائے گا۔ دونوں نے واپس آکر باذان سے سارا ماجر اکہہ سنا یا۔ اس پر کچھ عرصہ نہ گزراتھاکہ شِیرَوَیہ کا خط باذان کے نام آیا جس میں لکھا تھا کہ میں نے اپنے باپ پر ویز کوقتل کرڈالا کیونکہ وہ اَشراف ِفارس کا قتل جائز سمجھتا تھا۔ اس لئے تم لوگوں سے میری اطا عت کا عہد لو اور اس مدعی نبوت کو جس کے بارے میں کسریٰ نے تم کو کچھ لکھا تھا بر ابھلا مت کہو۔ یہ دیکھ کر باذان مسلمان ہو گیا اور ایرانی جو یمن میں تھے سب ایمان لے آئے۔ اس کے چھ ماہ بعد شِیرَوَیہ بھی مر گیا۔ فار س کا آخر ی باد شاہ یَزْدَجْرِدْ بن شہر یار
بن شِیرَوَیہ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں قتل ہوا۔([17])
{۳}… اَصْحَمہ نَجاشی شاہِ حَبَشہ کو جو نامہ مبارک([18] ) لکھا گیااس کے الفاظ یہ ہیں :ـ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللّٰہ الی النجاشی ملک الحبشۃ سلام انت فانی احمد الیک اللّٰہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلام المؤمن المھیمن و اشھد ان عیسی ابن مریم روح اللّٰہ و کلمتہ القٰھا الی مریم البتول الطیبۃ الحصینۃ حملت بعیسی فخلقہ من روحہ و نفخہ کما خلق اٰدم بیدہٖ و انی ادعوک الی اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و الی موالات علی طاعتہ و ان تتبعنی و تؤمن بالذی جا ٓء نی فانی رسول اللّٰہ الیک و انی ادعوک و جنودک الی اللّٰہ عز و جل و قد بلغت و نصحت فاقبلوا نصیحتی و السلام علی من ا تبع الھدٰی ۔ اللہ رسول محمد
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے رسول محمد کی طرف سے نجاشی شاہِ حبشہ کے نام۔ توسلامتی والا ہے میں تیرے پاس خدا کا شکر کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود بحق نہیں وہ بادشاہ ہے،پاک ذات، سلامت سب عیب سے، امان دینے
والا، نگہبان اور میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم روح اللّٰہ ہیں اور اللّٰہ کا کلمہ جسے اس نے القاء کیا مریم بتول طیبہ عَفِیفَہ([19] )کی طرف وہ بارْوَر ہوئی([20] ) عیسیٰ کے ساتھ پس خدا نے اسے پیدا کیا اپنی روح سے اور اس کے پھونکنے سے جیسا کہ پیدا کیا آدم کو اپنے ہاتھ سے اور میں تجھے بلاتا ہوں اللّٰہ کی طرف جو وحدہ لا شریک ہے اور اس کی اطاعت پر مو الا ت([21] )کی طرف اور یہ کہ تو میری پیروی کر ے اور ایمان لائے اس چیز پر جو مجھے ملی کیونکہ میں تیری طرف اللّٰہ کا رسول ہوں اور میں تجھ کو اور تیرے لشکروں کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بلا تاہوں ۔میں نے پہنچا دیا اور نصیحت کر دی تم میری نصیحت کو قبول کرو۔ والسلام علی من اتبع الہدیٰ۔ اللہ رسول محمد
جب یہ نامۂ مبارک حضرت عمر وبن اُمَیَّہ ضَمْرِ ی کے ہاتھ اَصْحَمہ نجاشی کو ملاتو اس نے اسے اپنی آنکھوں پر رکھا اور تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا پھر اپنے اسلام کا اعلان کر دیا اور نامہ مبارک کو ہاتھی دانت کے ڈبے میں رکھ لیا اور یہ جواب لکھا :
بسم اللّٰہ الر حمن الرحیم الی محمد رسول اللّٰہ من النجاشی اصحمۃ سلام علیک یارسول اللّٰہ و رحمۃ اللّٰہ وبرکات اللّٰہ الذی لا الہ الا ھو الذی ھدا نی للاسلام اما بعد فقد بلغنی کتابک یارسول اللّٰہ فما ذکرت من امر عیسی فو رب السمآء والارض ان عیسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام لا یزید علٰی ما ذکرت ثفروقاً انہ کما ذکرت وقد عرفنا ما بعثت بہ علینا فاشھد انک رسول اللّٰہ صادقاً مصد قاً وقد بایعتک وبایعت ابن عمک واسلمت علی یدیہ للّٰہ رب العٰـلمین وقد بعثت الیک ابنی وان شئت اتیتک بنفسی فعلت فانی اشھد ان ما تقولہ حق و السلام علیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ۔ مہر
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے رسول محمد کے نام نجاشی اصحمہ کی طرف سے۔ یا رسول اللّٰہ آپ پر سلام اور اللّٰہ کی رحمت اور اللّٰہ کی بر کتیں جس کے سوا کو ئی معبود بحق نہیں ۔ اس نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت کی۔ امابعد! یارسول اللّٰہ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) مجھے آپ کا نامہ ملا،آپ نے جو حضرت عیسیٰ (علیہ الصلٰوۃ و السلام) کا حال بیان کیا ہے سو آسمان وزمین کے رب کی قسم کہ حضرت عیسیٰ (علیہ الصلٰوۃ و السلام) اس سے ذرہ بھی زیادہ نہیں ہیں وہ بے شک ایسے ہی ہیں جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے اور ہم نے پہچان لیا جو کچھ آپ نے ہماری طرف لکھ کر بھیجا ہے۔ پس میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللّٰہ کے رسول صادق مصدق ہیں اور میں نے آپ کی بیعت کی اور آپ کے چچیر ے بھائی کی بیعت کی اور اس کے ہاتھ پر اللّٰہ رب العالمین کے لئے اسلام لا یا اور میں آپ کی خدمت میں اپنے بیٹے کو بھیج رہا ہوں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں خودحاضر ہو جاؤں تو تیار ہوں ۔ پس میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں حق ہے۔ والسلام علیک و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ مہر
اَصْحَمہ کورسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عمر وبن اُمَیَّہ ضَمْرِ ی کے ہاتھ ایک اور نامہ بھیجا تھاکہ اُمِ حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ( امیر معاویہ کی بہن ) کو نکاح کا پیغام دو اور مہاجرین میں سے جواب تک حبشہ میں ہیں ان کو یہاں پہنچادو۔ ارشاد مبارک کی تعمیل کی گئی۔ حضرت ام حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضرت خالد بن سعید بن العاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اپنا وکیل مقرر کیا اور نجاشی نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نکاح اُم حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے کر دیا اور مہر جو چار سو دینا ر تھا وہ بھی خود ہی ادا کردیا۔ ام حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا پہلا خاوند عُبَید اللّٰہ بن جَحَش اَسَدی تھا دونوں ہجرت کر کے حبشہ میں چلے آئے تھے مگر عبید اللّٰہ نصر انی ہو کر مر گیا تھا۔ اس طرح ام حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیوہ رہ گئی تھیں ۔
نجاشی نے حضرت جعفر([22] ) طیار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور حضرت ام حبیبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور دیگر مہاجر ین حبشہ کو ایک جہاز میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ کیا۔ اس کے بعد دوسرے جہاز میں اپنے بیٹے کو مصاحبوں کے ساتھ رسول
اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ایک خط دے کر بھیجا جس میں اپنے ایمان لا نے کا حال لکھا تھا۔ پہلا جہاز صحیح وسالم منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ اس وقت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خیبر میں تشریف رکھتے تھے مگر دوسرا جہاز سمندر میں ڈوب گیا اور سوا رسب ہلا ک ہوگئے۔
اصحمہ نجاشی نے ۹ھمیں وفات پائی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کے جناز ے کی نماز غائبانہ پڑ ھی۔([23] ) رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دوسرے نجاشی کو بھی جو اصحمہ کے بعد باد شاہ ہوا دعوت اسلام کا خط لکھا تھااس دوسرے نجاشی کے ایما ن کا حال معلوم نہیں ۔([24] )
{۴}… مُقَوْقِس والی ِ مصرہِرَقْل قیصر روم کا باج گزا ر([25] ) تھا۔حضرت حاطِب بن اَبی بَلْتَعَہ کے ہاتھ اس کو یہ نامہ مبارک بھیجا گیا:
بسم اللّٰہ الر حمن الرحیم من محمد عبد اللّٰہ و رسولہ الی المقوقس عظیم القبط سلام علی من اتبع الھدٰی اما بعد فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم یوتک اللّٰہ اجرک مرتین فان تولیت فعلیک اثم القبط یٰاھل الکتٰب تعالوا الی کلمۃ سوآء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللّٰہ و لا نشرک بہ شیئا و لا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللّٰہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون ۔ اللہ رسول محمد
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہر بان نہایت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے بندے اور اس کے رسول محمد کی طرف سے مُقَوْقِس امیر
قِبط کے نام ۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ امابعدمیں بلاتاہوں تجھ کو دعوت اسلام کی طرف۔تواسلام لا سلامت رہے گا۔ دے گا تجھ کو اللّٰہ ثواب دوہرا۔ اگر تو نے نہ مانا تو تجھ پر ہو گا گناہ قِبْطِیوں کا۔اے اہل کتاب! تم آؤ طرف ایسی بات کی جو یکساں ہے ہم میں اور تم میں کہ ہم عبادت نہ کریں مگر اللّٰہ کی اور شریک نہ ٹھہرائیں اس کے ساتھ کسی کو اور نہ بنائے ہم سے کوئی دوسرے کو رب سوائے اللّٰہ کے سوا گر وہ نہ مانیں تو کہو تم گو اہ رہو کہ ہم ہیں ما ننے والے۔ اللہ رسول محمد
حسن اتفاق سے اصل نا مہ مبارک ایک فرا نسیسی سیاح کو احمیم کے گر جامیں ایک راہب سے ملا۔ اس نے خرید کر سلطان عبد المجید خاں مر حوم والی سلطنت عثمانیہ کی خدمت میں بطورِ ہدیہ پیش کیا اور اب قُسْطَنْطِنْیہ میں محفوظ ہے۔ اس کے دو فوٹواس وقت ہمارے زیر نظر ہیں ۔ ہم نے اسے تبرکا مطابقِ اَصل لفظ بہ لفظ سطروار نقل کیا ہے۔ اس کے اخیر میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مہر ثبت ہے۔ جس کی اوپر کی سطر میں اللّٰہ دوسری میں رسول اور تیسری میں محمد ہے۔ دیگر خطوط کے آخر میں بھی یہی مہر مبارک ثبت تھی۔ یہ نامۂ مبارک مُقَوْقِس کو سکندریہ میں ملا۔ اس نے ہاتھی دانت کے ڈبے میں رکھ لیا اور اس پر اپنی مہر لگا دی اور جواب میں عربی زبان میں یوں لکھو ایا:
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم لمحمد بن عبد اللّٰہ من المقوقس عظیم القبط سلام علیک اما بعد فقد قرات کتابک فھمت ماذکرت فیہ وما تدعو الیہ وقد علمت ان نبیا بقی وکنت اظن انہ یخرج بالشام وقد اکرمت رسولک وبعثتہ الیک بجاریتین لھما مکان فی القبط عظیم وبکسوۃ واھدیت الیک بغلۃ لترکبھا والسلام علیک ۔([26] ) مہر
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ محمد بن عبد اللّٰہ کے نام مُقَوْقِس امیر قبط کی طرف سے سلام آپ پر۔ اما بعد! میں نے آپ کا خط پڑھا اور سمجھ گیاجو کچھ آپ نے اس میں ذکر کیا ہے اور جس کی طرف آپ بلاتے ہیں ۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک نبی آنے والا ہے۔ میرا گمان تھا کہ وہ شام میں ظاہر ہوگا۔ میں نے آپ کے قاصد کی عز ت کی اور آپ کی طرف دو کنیز یں جن کی قِبطیوں میں بڑی عزت ہے اور کپڑے بھیجتا ہوں اور آپ کی سواری کے لئے ایک خچر ہدیہ بھیجتا ہوں و السلام علیک ۔ مہر
یہ دو کنیز یں مارِیہ اور سِیرِ ین نام سگی بہنیں تھیں ۔رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو دعوت اسلام دی تو ماریہ نے فوراً اور سیر ین نے کچھ توقف کے بعد کلمہ شہادت پڑھا اس واسطے حضرت ماریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا حرم نبوی میں داخل کر لی گئیں اور سیر ین حضرت حسان بن ثابت شاعر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوعنایت ہوئی۔ خچر کا نام دُلدُل تھا۔ حضرت حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مُقَوْقِس کا حال جو ذکر کیا تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس خبیث کو ملک کی طَمَع نے اسلام سے محروم رکھاحالانکہ اس کا ملک باقی نہ رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
{۵}… ہَو ذَہ بن علی الحَنَفی صاحب یمامہ کی طرف یوں لکھا گیا ہے :
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللّٰہ الی ھَوذۃ بن علی سلام علی من اتبع الھدی واعلم ان دینی سیظھر الی منتھی الخف و الحافر فاسلم تسلم اجعل لک ما تحت یدیک۔ اللہ رسول محمد
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔اللّٰہ کے رسول محمد کی طرف سے ہَوذَہ بن علی کے نام۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیر وی کی۔ تجھے معلوم رہے کہ میرادین عنقریب اس حدتک پہنچے گاجہاں تک کہ اونٹ اور خچر جاتے ہیں تو اسلام لا، سلامت رہے گا۔میں تیر املک تجھ کو دے دوں گا۔ اللہ رسول محمد
جب حضرت سَلِیط بن عمر وعامری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ نامہ مبارک ہَوذَہ کے پاس لے گئے تو اُر ُکونِ([27] ) دمشق جو اُمر ائے نصاریٰ میں سے تھا اس وقت حاضر تھا۔ ہَوذَہ نے مضمون نامہ بیان کر کے اس سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت دریافت کیا۔اُر کُون نے کہا:تم اس کی دعوت قبول کیوں نہیں کرتے؟ہَوذَہ نے کہا: میں اپنی قوم کا بادشاہ ہوں اگر میں اس کا پیر وبن گیاتو ملک جا تا رہے گا ۔اُر ُکون نے کہا:خدا کی قسم! اگر تو اس کا پیرو بن جائے تو
وہ ضرور تیر املک تجھ کو دیدے گا۔ تیری بہبودی اس کے اتباع میں ہے۔ وہ بیشک نبی عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے جس کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریم عَلَیْہِ السَّلَام نے دی ہے اور یہ بشارت ہمارے پاس انجیل میں موجود ہے۔ بایں ہمہ ہَوذَہ ایمان نہ لایا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ہَوذَہ ہلاک ہو گیا اور اس کا ملک جاتا رہا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فتح مکہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے حاضر خدمت ہو کر خبر دی کہ ہَوذَہ مرگیا۔([28] )
{۶}… قیصر رُوم کی طرف سے حارِث بن ابی شِمْر غَسَّانی حد ود شام کا گور نر تھا، غَوطہ دمشق اس کا پایۂ تخت([29] ) تھا۔ اس کو یہ نامہ مبارک بھیجا گیا:
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللّٰہ الی الحارث بن ابی شمرسلام علی من اتبع الھد ی وامن بہ وصدق فانی ادعوک الی ان تؤمن باللّٰہ وحدہ لا شریک لہ یبقی ملکک. اللہ رسول محمد
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہر بان نہایت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے رسول محمد کی طرف سے حارث بن ابی شمر کے نام۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ میں تجھے اس بات کی طرف بلاتا ہوں کہ تو اللّٰہ وحدہ لا شریک پر ایمان لا ئے۔تیری حکومت قائم رہے گی۔ اللہ رسول محمد
حضرت شُجَاع بن وَہب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ نامہ مبارک لے کر روانہ ہوئے۔ جب یہ دِمَشق پہنچے تو دیکھا کہ قیصر روم جوحِمْص سے بیت المقدس کو ایر انیوں پر فتح کے شکر انہ کے لئے آرہا تھا، اس کے استقبال کے لئے تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ان کا بیان ہے([30] ) کہ میں نے حارث کے دروازے پر دوتین دن قیام کیامیں نے اس کے رومی دربان سے کہا
کہ میں حارث کی طرف رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قاصد ہوں ۔ اس نے کہا کہ فلاں روزباریابی([31] )ہو گی۔ وہ دربان جس کا نام مُرِّ ی تھا مجھ سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کی دعوت کا حال پوچھتا رہتا تھامیں بیان کر تا تو اس پر رقت طاری ہو جاتی یہاں تک کہ روپڑتا اور کہتا کہ میں نے انجیل میں پڑھا ہے۔ بِعَیْنِہٖ اسی نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی صفت اس میں مذکور ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ شام میں ظاہر ہوگا مگر میں دیکھتا ہوں کہ وہ زمین عرب میں ظاہر ہوا ہے۔ میں اس پر ایمان لا تا ہوں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔ مجھے اند یشہ ہے کہ حارث مجھے قتل کر دے گا آخرکار حارِث ایک روز دربار میں تاج پہن کر تخت پر بیٹھا، میں بار یاب ہواتو میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نامہ مبارک پیش کیا۔ اس نے پڑھ کر پھینک دیا کہنے لگا: مجھ سے میرا ملک کون چھین سکتا ہے؟ وہ خواہ یمن میں ہو میں اس کے پاس جاتا ہوں اور حکم دیا کہ فوج تیار ہو جائے اور گھوڑ وں کی نعل بند ی کی جائے۔ پھر مجھ سے کہا:تم جو کچھ دیکھ رہے ہو اس کو بتا دینا۔ حارث نے میری آمد کا حال قیصر کو لکھا۔ وہ عرضدا شت قیصر کو بیت المقدس میں ملی۔ دَحیہ کلبی ابھی وہاں تھے۔ جب قیصر نے حارث کا خط پڑھا تو اسے لکھا کہ اس مدعی نبوت کے پاس مت جاؤاس سے دور رہو اور مجھ سے بیت المقدس میں ملو۔ یہ جواب میرے ایا م قیام میں آگیا۔ حار ث نے مجھے بلا کر دریافت کیا کہ کب جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہاکہ کل۔ یہ سن کر اس نے حکم دیا کہ مجھے سو مثقال سو نا دے دیا جائے۔ حضرت مُرِّ ی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے نفقہ ولباس سے میری مدد کی اور کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بعد سلام عرض کر دینا کہ میں آپ کے دین کا پیرو ہوں ۔ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حارث کا حال عرض کیاتو فرمایا کہ اس کا ملک جا تا رہا اور حضرت مُرِّ ی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا حال عرض کیاتو فرمایا کہ وہ سچا ہے۔([32] )
{۷}… ۸ھمیں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت علابن الحضرمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ مُنذِر بن ساویٰ حاکم بحرین کے نام ایک تبلیغی خط بھیجاجس کے مطالعہ سے منذر کے ساتھ وہاں کے تمام عرب اور بعض عجم ایمان لائے مگر یہود و مجوس ایمان نہ لائے۔ حضرت مُنذِر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بذریعہ عرضد اشت آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ان حالات کی اطلاع دی اور دریافت کیا کہ کیا کیا جائے؟ اس پر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
نے مُنْذِر کو یہ خط لکھا :
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللّٰہ الی المنذر بن ساوی سلام علیک فانی احمد اللّٰہ الیک الذی لا الہ الا ھو واشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمداً عبدہ ورسولہ اما بعد فانی اذکر اللّٰہ عزوجل فانہ من ینصح فانما ینصح لنفسہ وانہ من یطع رسلی ویتبع امرھم فقد اطاعنی ومن نصح لھم فقد نصح لی وان رسلی قد اثنوا علیک خیرا وانی قد شفعتک فی قومک فاترک للمسلمین ما اسلموا علیہ وعفوت عن اھل الذنوب فاقبل منھم وانک مھما تصلح فلن نعز لک عن عملک و من اقام علی یھودیتہ او مجوسیتہ فعلیہ الجزیۃ. اللہ رسول محمد ([33] )
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اللّٰہ کے رسول محمد کی طرف سے مُنذِر بن ساویٰ کے نام۔ سلام تجھ پر میں تیرے پاس خدا کا شکر کر تا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود بحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود بحق نہیں اور یہ کہ محمد اللّٰہ کا بندہ اور رسول ہے، اما بعد! میں تجھے یاد دلاتا ہوں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ(کے احکام ) بیشک جو خیر خواہی کر تا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے اور جو میرے قاصدوں کی اطاعت کرے اور ان کا حکم مانے، اس نے بے شبہ میری اطاعت کی اور جو ان کی خیر خواہی کرے اس نے بیشک میری خیر خواہی کی۔ میرے قاصدوں نے تمہاری تعریف کی ہے میں نے تمہاری سفارش تمہاری قوم کے بارے میں قبول کی۔ پس مسلمانوں
کے لئے چھوڑدو وہ (مال وغیرہ ) جس پر وہ مسلمان ہو ئے۔ میں نے گنہگاروں کو (پہلے گناہ ) معاف کر دیئے تم ان سے (اسلام ) قبول کرو۔ جب تک تم کا م اچھا کر تے رہو گے ہم تم کو تمہارے عہدے سے معزول نہ کریں گے اور جو شخص یہود یت یا مجوسیت پر قائم رہے اس پر جزیہ ہے۔ اللہ رسول محمد
یہ اصل نامۂ مبارک بھی ایک فرانسیسی سیاح نے اَطراف بلادِ مصرسے ایک قِبطی راہب سے خرید کر سلطان عبدالمجید خاں مر حوم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔اب وہ خزانہ شاہی میں محفوظ ہے اس کے اخیر میں یہ مہر ہے:
اللہ رسول محمد
{۸}…ذیقعدہ ۸ھمیں وَالیانِ عُمَان کے نام یہ نامہ مبارک لکھا گیا:
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم من محمد بن عبد اللّٰہ الی جیفر و عبد ابنی الجلندی سلام علی من ا تبع الھدی اما بعد فانی ادعوکما بدعایۃ الاسلام اسلما تسلما فانی رسول اللّٰہ الی الناس کافۃ لانذر من کان حیا و یحق القول علی الکفرین وانکما ان اقررتما بالاسلام ولیتکما مکانکما وان ابیتما ان تقرّا بالاسلام فان ملککما زائل عنکما و خیلی تحل بساحتکما و تظھر نبوتی علی ملککما ۔ اللہ رسول محمد
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ محمد بن عبد اللّٰہ کی طرف سے جَیفَر وعبد پسر ان جُلَنْدی کے نام۔ سلام اس پر جس نے ہدایت کی پیر وی کی۔ امابعد میں تم دونوں کو دعوت اسلام کی طرف بلا تا ہوں ۔ تم اسلام لاؤ سلامت رہو گے کیونکہ میں تمام لوگوں کی طرف اللّٰہ کا رسول ہوں تا کہ ڈراؤں اس کو جو زندہ ہو اور کافروں پر حُجت ثابت ہو جائے۔ اگر تم اسلام کا اقرار کر لو تو میں تم کو تمہارا
ملک دے دوں گااگر تم اقرار اسلام سے انکار کروتو تمہارا ملک تمہارے ہاتھ سے نکل جا ئے گا اور میرے سوار تمہارے مکانات کی فضا میں اتریں گے اور میری نبوت تمہارے ملک پر غالب آئے گی۔ اللہ رسول محمد
یہ نامہ مبارک حضرت عمر وبن العاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہاتھ ار سال کیا گیا۔ جَیفَروعبد دونوں ایمان لائے۔([34] )
ماہِ محرم میں غزوۂ غَابہ یا غَزوۂ ذِی قَرَد پیش آیا۔مو ضع غابہ میں جو مدینہ سے چار میل ملک شام کی طرف واقع ہے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اونٹنیاں چرا کرتی تھیں ۔ حضرت ابو ذَر غفاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا لڑکا چرایا کر تا اور شام کو ان کا دودھ دوہ کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لا یا کر تا تھا۔ ایک رات قبیلہ غَطَفان کے چالیس سواروں نے بسر کر دگی عُیَیْنَہ بن حِصْن فَزَاری چھاپا مارا۔ وہ حضرت ابوذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے صاحبزاد ے کو قتل کر کے بیس اونٹنیاں لے گئے اور حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیوی کو بھی گرفتار کر کے ساتھ لے گئے۔ دوسرے روز فجر کی اذان سے پہلے ـحضرت سلَمہ بن اَکوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو مشہور تیراندا زاور تیز رفتار صحابی تھے کمان حمائل کیے مدینہ سے غابہ کی طرف جو نکلے تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے غلام نے ان کو اس ماجرا کی خبر دی۔انہوں نے کوہ سَلْع یا ثَنِیَّۃُ الوَداع پر کھڑے ہو کر مدینہ کی طرف منہ کر کے تین بار زور سے یاصباحاہ! پکارا([35] )یہاں تک کہ وہ آواز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تک پہنچ گئی پھر وہ پیادہ دشمن کی طرف دوڑے اور ان کو جالیا اور تیر اندازی سے وہ اُونٹنیاں یکے بعد دیگرے چھڑالیں ۔ ادھر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی پانسو500 کی جمعیت کے ساتھ تعاقب میں نکلے۔ غَطَفَان ذُو قَرَد([36] )کے قریب ایک تنگ درہ میں پہنچے جہاں عیینہ ان کی مدد کو آیا یہاں مقابلہ ہوا غَطَفان بھاگ گئے۔ آفتاب غروب نہ ہوا تھاکہ وہ ذُوقَرَد میں پا نی پینے لگے۔ حضرت سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دوڑ کر ان پر تیر بر سانے شروع کیے اور ان کوپانی نہ پینے دیاوہ بھاگ کر اپنے علاقہ میں جو
ذُو قَرَد سے ملحق تھا چلے گئے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شام کو ذُو قَرَد میں پہنچے ۔ سواروپیادہ سب آپ سے آملے۔ حضرت سلمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ میں نے ان کو پانی پینے نہ دیااگر مجھے سو100 سُوار مل جائیں تو میں ان کو ایک ایک گرفتار کر لاتا ہوں مگر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جواب دیا: اِذَا مَلَکْتَ فَاسْجَحْ ۔ جب تو قابو پا جائے تو نرمی سے کام لے۔ ذوقردمیں ایک دن رات قیام کر کے واپس ہوئے۔ حضرت ابوذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیوی اس کے بعد ناقہ پر آپہنچی۔ ([37] )
غزوۂ غابہ کے تین دن بعد جنگ خیبر([38] )پیش آئی۔ خیبر کے یہود اسلام کے سخت دشمن تھے۔ غزوۂ احزاب میں اگر چہ ان کو کا میابی نہ ہوئی مگر وہ اسلام کو مٹانے کے لئے برابر سازش کر رہے تھے۔غطفان ان کو مدد دینے کے لئے تیار ہوگئے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک ہزار چھ سو کی جمعیت کے ساتھ نکلے جن میں سے دو سو سوار اور باقی سب پیادہ تھے۔ راس المنا فقین([39] ) عبد اللّٰہ بن اُبی بن سَلُول نے اَہل خیبر کو کہلا بھیجا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) تم سے لڑنے آرہے ہیں مگر تم ان سے نہ ڈرناتمہاری تعداد بہت ہے یہ تو مٹھی بھر آدمی ہیں جن کے پاس ہتھیار تک نہیں ۔ اس سفر میں جب لشکر اسلام صَہْبَاء میں پہنچا جو خیبر سے بارہ میل پر ہے تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز عصر پڑھ کر کھانا طلب فرمایاصرف ستو پیش کیے گئے جو حسب الارشاد پا نی میں گھول دیئے گئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے وہی کھائے۔ صَہْبَاء سے روانہ ہو کر خیبر کے قریب غَطَفان ویہود کے درمیان وادی ٔرَجِیع میں اترے تا کہ غَطَفَان یہودکی مددکو نہ جاسکیں ۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔یہ مقام اسلامی کیمپ یا لشکر گاہ مقرر ہوا ۔ یہاں سے لڑائی کے لئے تیار ہو کر جایا کر تے اور زخمیوں کو علاج کے لئے یہاں لا یا جاتا غرض اسبابِ بار بر داری اور مستور ات کو یہاں چھوڑ دیا گیا اور رات یہیں گزاری کیونکہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کی عادت([40] ) مبارک تھی کہ کسی قوم پر رات کو حملہ نہ کیا کر تے تھے۔ صبح کو نماز فجراوَّل وقت پڑھ کر آگے بڑھے۔جب بستی نظر آئی تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین بار یوں پکارا: اَللّٰہُ اَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ اِنَّا اِذَا نَزَلْنَا بسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَآئَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ ۔ اللّٰہ اکبر! خیبر ویران ہو گیا۔ہم جب کسی قوم کی انگنائی میں اتر تے ہیں تو ڈرائے گیوں کی صبح بری ہوتی ہے۔
جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شہر میں داخل ہونے لگے تو فرمایا: ٹھہر و! یہ سن کر تمام فوج نے تعمیل ارشاد کی اور آپ نے یہ دعا ما نگی: اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ مَآ اَظْلَلْنَ وَ رَبَّ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعِ وَ مَا اَقْلَلْنَ وَ رَبَّ الشَّیٰطِیْنَ وَ مَا اَضْلَلْنَ وَ رَبَّ الرِّیَاحِ وَ مَآ اَذْرِیْنَ فَاِنَّا نَسْأَلُکَ خَیْرَھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَخَیْرَ اَھْلِھَا وَخَیْرَ مَا فِیْھَا وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَ شَرِّ اَھْلِھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا ۔
اے پر ور دگار سات آسمانوں کے اور ان چیز وں کے جن پر آسمانوں نے سایہ ڈالا ہے اور پرور دگار سات زمینوں کے اور ان چیزوں کے جن کو زمینوں نے اٹھا یا ہوا ہے اورپروردگار شیطانوں کے اور ان کے جن کو شیطانوں نے گمراہ کیا ہے اورپروردگار ہو اؤں کے اور ان چیزوں کے جن کو ہوا ئیں اڑالے جاتی ہیں ہم تجھ سے اس بستی اور بستی والوں اور بستی کی چیزوں کی خیر مانگتے ہیں اوراس بستی اور بستی والوں اور بستی کی چیزوں کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں ۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا معمول تھا کہ جب کسی بستی میں داخل ہو تے تو یہی دعا ما نگتے۔([41] ) اس کے بعد شہر میں داخلہ ہوا اور تمام قلعے یکے بعد دیگر ے فتح ہو گئے۔
سب سے پہلے قلعہ ناعِم فتح ہوا۔حضرت محمودبن مسلمہ انصاری اَوسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسی قلعہ کی دیوار تلے شہید ہوئے۔ گرمی کی شدت تھی۔وہ لڑ تے لڑ تے تھک کر دیوار کے سایہ میں آبیٹھے۔ کنانہ بن رَبیع بن اَبی الحُقَیْق نے اکیلے یا بشر اکت ِمَرْ حب فصیل پر سے چکی کا پاٹ ان کے سر پر گرادیا جس کے صدمہ سے انہوں نے شہادت پائی ۔
نا عم کے بعد قَموص فتح ہوایہ بڑا مضبوط قلعہ تھا جو اسی نام کی پہاڑ ی پر واقع تھا۔ ابن ابی الحُقَیْق یہودی کا خاندان
اسی قلعہ میں رہتاتھاعرب کا مشہور پہلو ان مَرْحب اسی قلعہ کار ئیس تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پہلے حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پھر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو فوج دے کر بھیجامگر یہ قلعہ فتح نہ ہواجب محاصرے نے طول کھینچاتو ایک روز آپ نے فرمایا کہ میں کل عَلم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا فتح دے گا اور جو اللّٰہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول بھی اس کو دوست رکھتے ہیں ۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے یہ رات انتظار وبیقراری میں گز اری کہ دیکھئے عَلم کسے عنایت ہو تا ہے۔ صبح کو ار شاد ہوا کہ علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کہاں ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب([42] )ہے۔ فرمایا: ان کو بلا ؤ۔ جب وہ حاضرخدمت ہوئے تو آپ نے اپنا لُعابِ دَہن مبارک ان کی آنکھوں میں ڈالا اور دعا کی۔ فوراً آرام ہو گیا اور عَلم ان کو عنایت ہوا د شمن کی طرف سے پہلے مَرْحب کا بھائی حارِث نکلاجو شجاعت میں معروف تھا۔ وہ حضرت مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے ہاتھ سے قتل ہوا توخود مَرْحب بڑے طُمْطُراق([43] )سے نکلااس کو بھی بِناء بَراَصَحُّ الر ِوایات([44] ) حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے قتل کیا۔ مَرْحب کے بعد یاسر نکلااسے حضرت زُبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے قتل کیا۔اس طرح یہ محکم قلعہ([45] ) بھی فتح ہو گیا۔ جو سبایا([46] )ہاتھ آئیں وہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں تقسیم کر دی گئیں اور صَفْیَہ بنت حُیَیْ بن اَخطب جو کنانہ بن ربیع کے تحت میں تھی اس کو آزاد کر کے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے نکاح میں لائے۔ حضرت صفیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا باپ رئیس خیبر تھا ان کا شوہر قبیلہ نَضِیر کا رئیس تھا باپ اور شو ہر دونوں قتل کیے جاچکے تھے وہ کنیز ہو کر بھی رہ سکتی تھی مگر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حفظ مراتب اور رَفع غم کے لئے ان کو آزاد کر کے اپنے عقد میں لے لیا اور وہ امہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ میں شامل ہو ئیں اس سے بڑھ کر اور کیا حسن سلوک ہو سکتا تھا۔
قَموص کے بعد با قی قلعے جلدی فتح ہو گئے۔ ان معر کو ں میں ۹۳ یہود مارے گئے اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے پند رہ نے شہادت پا ئی۔ فتح کے بعد زمین ِخیبر پر قبضہ کرلیا گیا مگر یہود نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے درخواست کی کہ زمین ہمارے قبضہ میں رہے ہم پیدا وار کا نصف آپ کو دے دیا کریں گے۔ آپ نے یہ
درخواست منظور کی اور فرمایا: ’’ہم تمہیں بر قرار رکھیں گے جب تک ہم چاہیں ۔‘‘ جب غلہ کا وقت آیا تو آپ نے حضرت عبد اللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو وہاں بھیج دیا۔انہوں نے غلہ کو دو مُسَاوی حصوں میں تقسیم کر کے یہود سے کہا کہ جو حصہ چاہو لے لو۔ اس پر وہ حیر ان ہو کر کہنے لگے کہ ’’زمین وآسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں ۔‘‘([47] )
جنگ خیبر سے فارغ ہو کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وادی القریٰ کی طرف روانہ ہو ئے۔ یہ وادی خیبر اور تَیْماء کے درمیان واقع ہے۔ اس میں دیہات کا لگاتار سلسلہ چلا گیا ہے اس لئے اسے وادی القریٰ کہتے ہیں ۔ وہاں پہنچ کر یہود کو دعوت اسلام دی گئی انہوں نے قبول نہ کی بلکہ برسرپیکار ہوئے([48] ) مگر جلد ی مغلوب ہوگئے۔ خیبر کی طرح غنائم تقسیم کر دی گئیں اور زمین وباغات نصف پیدا وار پر اُن کے قبضہ میں چھوڑ دئیے گئے۔ تَیْمَاء کے یہود نے جب وادی القریٰ کا حال سناتو قاصد بھیج کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے جز یہ پر صلح کرلی اورزمین ان ہی کے قبضہ میں رہی۔
جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خیبر سے واپس تشریف لا ئے تو آپ نے حضرت مُحَیِّصَہ بن مسعود کو اَہل فدک کے پاس بھیجاوہاں کا رئیس یوشع بن نون یہودی تھا۔ دعوتِ اسلام دی گئی وہ خیبر کا حال سن کے پہلے ہی ڈرے ہو ئے تھے اس لئے انہوں نے نصف زمین پر صلح([49] )کر لی۔([50] )
یہودِ خیبر کو اگر چہ امان دیا گیا تھا مگر وہ اپنی شر ار توں سے بازنہ آتے تھے۔ چنانچہ ایک دن زینب نے جو سلام بن مِشکَم کی زوجہ اور مَرْحب کی بھاوج تھی ایک بکر ی کا گوشت بھون کر اس میں زہر ملا دی اور بطور ہدیہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ نے اس میں سے بازواٹھا لیا اور کھانے لگے۔ باقی چند صحابہ حاضرین نے تنا ول کیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ گو شت نہ کھا ؤ۔ اور اس یہودیہ کو بلا بھیجا۔ وہ
حاضرخدمت ہو ئی تو فرمایاکہ تم نے اس گوشت میں زہر ملا یا ہے۔ وہ بولی آپ کو کس نے خبر دی۔ آپ نے بازو کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ اس بازو نے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ اس نے کہا:ہاں میں نے اس میں زہر ملا دی ہے۔ بدیں خیال کہ اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پیغمبر ہیں تو زہر اثر نہ کرے گی اور اگر آپ پیغمبر نہیں ہیں تو ہم آپ سے آرام پائیں گے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی ذات شریف کے لئے کسی سے انتقام نہ لیتے تھے۔ اس لئے معاف([51] ) فرمادیا۔([52] )وہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم جنہوں نے کھایا تھا انتقال فرماگئے۔ان میں سے سب سے پہلے حضرت بِشْر بن بَرَاء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے انتقال فرمایاتو ان کے قصاص میں اس یہودیہ کو قتل کردیا گیا۔
اسی سال حضرت خالد بن وَلید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (فاتح شام ) اور حضرت عَمْرْوبن العاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (فاتح مصر ) ایمان لائے۔
حضرت سیدنا ثوبان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سرکارِ مَدینہ، راحت قلب و سینہ، باعث نزولِ سکینہ،صاحب معطر پسینہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسلَّم نے فرمایا: ’’جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ لوگوں سے کوئی چیز نہ مانگے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔‘‘ حضرت سیدنا ثوبان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عرض گزار ہوئے کہ میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں ۔ چنانچہ وہ کسی سے کچھ نہیں مانگا کرتے تھے۔
(سنن ابی داود،کتاب الزکاۃ، باب کراہیۃ المسألۃ، الحدیث:۱۶۴۳، ج۲، ص۱۷۰)
جُمَادَی الا ُولیٰ میں غزوۂ موتہ وقوع میں آیا۔ حقیقت میں یہ سریہ تھامگر لشکر کی کثرت کے سبب سے اسے غز وہ سے تعبیر کیا گیا۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت حارث بن عُمیر اَزدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ امیر بصریٰ یا قیصر روم کے نام اپنا نامۂ مبارک بھیجا۔ جب قاصد مو تہ میں پہنچا تو شُرَحْبِیْل بن عَمرْو غَسَّانی نے جو قیصر روم کی طرف سے شام میں ایک گور نر تھا اس کو شہید کر دیا۔جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نہایت غمگین ہو ئے اور تین ہزار فوج بسر کر دگی زید بن حارِثہ (جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے ) بھیجی اور حکم دیا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو جعفربن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور وہ بھی شہید ہو ں تو عبد اللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فوج کے سردار ہوں اور ارشاد ہوا کہ اس مقام پر جانا جہاں حارث بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو ئے ہیں اور یہ بھی ہدایت کر دی گئی کہ پہلے ان کو دعوت اسلام دینااگر وہ قبول کر لیں تو جنگ کی ضرورت نہیں ۔ خود جناب رسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ثَنِیَّۃُ ا لوَداع تک فوج کی مُشَایِعَت([53] ) فرمائی۔ شُرَحْبِیْل کو خبر پہنچی تو اس نے ایک لا کھ فوج تیار کی۔ ادھر قیصر روم عرب کی ایک لاکھ فوج لے کر زمین بلقائ([54] ) میں خیمہ زن ہوا۔جب لشکر اسلام شہر مَعَان میں پہنچا تو ان کو دشمن کی تعداد کثیر کی اطلاع ملی۔ انہوں نے چاہاکہ دربار رسالت کو حالات کی اطلاع دی جائے اور حکم کا انتظار کیا جائے مگر حضرت عبد اللّٰہ بن رواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ فتح وشہادت میں سے ایک ہمیں ضرورحاصل ہوجائے گی اس لئے آگے بڑھے۔ جب بلقاء کی حد پر پہنچے تو مَشَارِف میں قیصر کا لشکر نظر آیا۔ مسلمان بچ کر مو تہ کی طرف چلے گئے اور یہاں جنگ ہوئی۔ حضرات زیدو جعفرو عبد اللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم یکے بعد دیگرے بڑی بہادری سے پیدل ہو کر لڑے اور شہید ہوئے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ میں ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور بیان
فرمارہے تھے۔ حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پہلے اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیں ([55] ) پھر حملہ کیا ان کا دایاں بازو کٹ گیاتو عَلم بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ بایاں بھی کٹ گیا تو بغل میں لے لیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے انکی لاش دیکھی تو اس پر نوے سے کچھ اوپرزخم تلواروں اور بر چھیوں کے تھے اور سب کے سب سامنے کی طرف تھے پشت پر ایک بھی نہ تھا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہادت کے بعد بہشت میں فرشتوں کے سا تھ اڑتے دیکھا۔ دوسری روایت میں ہے کہ بشکل فرشتہ دو خون آلود ہ بازوؤں کے ساتھ دیکھا۔ اسی واسطے ان کو جعفر طَیَّار یا جعفر ذُوالجَنَاحَین کہتے ہیں ۔ حضرت عبد اللّٰہ بن رَواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد بالاتفاق حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ امیر لشکر ہو ئے۔ وہ بھی نہایت شجاعت سے لڑے۔ خودان کا بیان ہے کہ اس دن نو تلواریں میرے ہاتھ سے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں ۔ لشکر کفار میں تَزَلزُل پڑ گیا([56] ) آخرلشکر اِسلام پسپا ہو گیا۔ اسے مسلمانوں کی فتح کہنا چاہیے کہ دو لاکھ کے مقابلہ میں صرف بارہ شہید ہو ئے باقی سب صحیح وسالم مدینہ منورہ واپس آگئے۔
ماہِ رمضان میں غزوۂ فتح مکہ وقوع میں آیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ قریش نے معاہدہ حدیبیہ توڑدیا۔ بغر ضِ توضیح ہم یہاں کسی قدر تفصیل سے کام لیتے ہیں ۔ عبدالمُطَِّلب بن ہاشم کو ان کے چچا مُطَّلِب سات یا آٹھ سال کی عمر میں مدینہ سے مکہ میں لائے تھے جیسا کہ اس کتاب میں پہلے مذکور ہوا اور ہاشم کے مکانات پر ان کو قابض کردیا تھا جب مُطَّلِب نے وفات پائی تو عبد المُطَّلِب کے چچا نوفل نے وہ مکانات چھین لئے۔ عبد المُطَّلِب نے قریش سے مدد مانگی۔ قریش نے کہا کہ ہم تو تم دونوں میں دخل نہیں دیتے۔ عبد المُطَّلِب نے اپنے نَنِہال یعنی بنو نجار کو مدینہ میں لکھا۔اس لئے ابو سعید بن عُدَس نجاری اَ سِّی سوارلے کر مد دکو آیا۔جب وہ مکہ میں پہنچا تو نو فل حطیم میں قریش کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا۔ ابو سعید نے وہاں پہنچ کر نو فل کے سر پر تلوار کھینچ لی اور کہنے لگا کہ ہمارے بھانجے کے مکانات واپس کر دو ورنہ اس تلوار سے
فیصلہ کر دیتا ہوں ۔ یہ دیکھ کر نو فل نے قریش کے سامنے مکانا ت تو واپس کر دیئے مگر اپنی کمزوری کو محسوس کر کے آیندہ کے لئے عبدشمس کے بیٹوں کو بنو ہا شم کے خلاف اپنا حلیف بنا لیا۔ اس پر عبد المُطَّلِب نے خزاعہ سے کہا کہ تم بنو نو فل اور بنو عبدشمس کے خلاف میرے حلیف بن جاؤ۔ عبد مناف کی ماں خُزَاعہ کے سردار حُلَیْل کی بیٹی تھی۔اس لئے وہ کہنے لگے کہ تمہاری مدد کر نا ہم پر واجب ہے۔ چنانچہ دار الندوہ میں یہ معاہدہ لکھا گیا۔
حدیبیہ کے دن از رو ئے معاہد ہ ہر ایک قبیلہ فر یقین میں سے جس کا چاہا حلیف بن گیا۔ چنانچہ خزاعہ اپنا پر انا معاہدہ دکھا کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حلیف بن گئے اور بنو بکر قریش کے معاہد ے میں شامل ہوئے۔ یہ دونوں قبیلے ( خزاعہ وبنو بکر ) ایک دوسرے کے حریف تھے اور ان میں مدت سے لڑائی چلی آتی تھی۔ جس کا سبب یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں بنو الحَضْرمی میں سے ایک شخص جو اَسو دبن رَزن دُئَلِی بکری کا حلیف تھا بغر ضِ تجارت گھر سے نکلا جب وہ خزاعہ کے علاقہ میں پہنچا تو انہوں نے اسے قتل کر ڈالا اور مال لے لیا۔ اس پر بنو بکر نے خزاعہ کا ایک آدمی قتل کر ڈالا۔ پھر خزاعہ نے بنو الا سود یعنی سلمیٰ وکلثوم وذُوئَ یْب کو عرفات میں قتل کر ڈالا۔ اسی حالت میں اسلام کے ظہور نے عرب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور وہ لڑائیاں رک گئیں ۔ جب صلح حدیبیہ کے سبب سے اسلام وکفر میں لڑائی کا سلسلہ بند ہو گیاتو بنو بکر (کی ایک شاخ بنو نُفَاثہ) سمجھے کہ اب انتقام کا وقت ہے اس لئے نوفل بن مُعَاوِیَہ دَیلی بکر ی بنو نفاثہ کو ساتھ لے کر آبِ وَتِیر میں جو اسفل مکہ میں خزاعہ کے علاقہ میں ہے رات کو حملہ آور ہوا۔ قریش نے حسب معاہد ہ بنو بکر کی مدد کی۔ چنانچہ صفو ان بن اُمَیَّہ، حویطَب بن عبد العز ی،عِکرَمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمروو غیرہ صورتیں بدل بدل کر خزاعہ سے لڑے یہاں تک کہ خزاعہ نے مجبور ہو کر حرم مکہ میں پنا ہ لی۔ بنو بکر حرم کا احترام ملحوظ رکھ کر رک گئے مگر نوفل نے کہاکہ یہ موقع پھر ہاتھ نہ آئے گا چنانچہ حرم میں خزاعہ کاخون بہایا گیا۔
جب بنو بکر و قریش نے وہ عہد تو ڑ دیاجو ان کے اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درمیان تھا تو عمروبن سالم خزاعی چالیس سوارلے کر مد ینہ پہنچااس وقت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد میں اپنے اصحاب میں تشریف رکھتے تھے۔عمرو مذکور حاضر خدمت ہو کر یوں گو یا ہوا:
یَا رَبِّ اِنِیْ نَاشِدٌ مَحَمَّدَا حِلْفَ اَبِیْنَا وَ اَبِیْہِ الْاَتْلَدَا
فَانْصُرْ رَسُوْلَ اللّٰہِ نَصْرًا عَتِدَا وَ ادْعُ عِبَادَ اللّٰہِ یَاْتُوْا مَدَدَا
اِنَّ قُرَیْشًا اَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَا وَ نَقَضُوْا مِیْثَاقَکَ الْمُؤَکَّدَا
ھُمْ بَیْتُوْنَا بِالْوَتِیْرِ ھُجَّدَا وَ قَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَّ سُجَّدَا
اے خدا! میں محمد کو یاد دلا تا ہوں وہ پر انا معاہد ہ جو ہمارے باپ اور اس کے باپ (عبد المطلب ) کے درمیان ہو ا تھا۔ یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری پو ری مدد کیجئے اور خدا کے بند وں کو بلا ئیے جو ہماری مدد کو آئیں ۔ قریش نے آپ سے وعدہ کے خلاف کیا اور آپ کا محکم([57] )معاہدہ تو ڑ ڈالا۔ انہوں نے وَتیر میں ہم پر بحالت خواب حملہ کیا اور ہمیں رکوع و سجدے کی حالت میں قتل کر ڈالا۔
یہ سن کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: عمر و! تجھے مدد مل جائے گی۔ ایک روایت([58] )میں ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں قریش سے دریافت کر تا ہوں ۔ پس آپ نے حضرت ضَمْرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھیجا اور یہ تین شرطیں پیش کیں کہ قریش ان میں سے ایک اختیار کرلیں :
{۱}… خزاعہ کے مقتولین کا خون بہادیں ۔
{۲} …بنو نفاثہ کی حمایت سے دست بر دار ہو جائیں ۔
{۳}…اعلان کردیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
قُرَطہ بن عمرو نے کہا کہ ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مکہ پر حملہ کی پو شید ہ تیاری شروع کردی۔ حضرت حاطب بن اَبی بَلْتَعَہ لَحْمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو بنواسد بن عبد العزی کے حلیف تھے بنو ہاشم کی کنیز سارہ کے ہاتھ قریش کو ایک خط لکھ بھیجاجس میں اس جنگی تیار ی کا حال در ج تھا۔ سارہ نے وہ خط اپنے سر کے بالوں میں چھپالیا اور روانہ ہوئی۔ اللّٰہ تعالٰی نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس معاملہ کی خبر دے دی۔ آپ نے حضرت علی وزبیر ومقداد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو بھیجا اور ان سے فرمایا کہ روضہ خاخ میں تم کو ایک سا نڈنی سوار([59] ) عورت ملے گی اس کے پاس قریش مکہ
کے نام ایک خط ہے وہ لے آؤ۔ وہ سوار ہو کر چل پڑے اور سارہ سے روضہ خاخ میں جا ملے۔ اس کو نیچے اتارلیا اور کہا کہ تیرے پاس ایک خط ہے۔ اس نے انکار کیا۔ اس کے کجاوے کی تلا شی لی گئی مگر کچھ برآمد نہ ہوا۔ حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اس سے کہا: میں اللّٰہ کی قسم کھاتاہوں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جھوٹ نہیں فرمایاتو خط نکال ورنہ ہم تیرے کپڑوں کی تلا شی لیں گے۔ یہ سن کر اس نے اپنے سر کے بالوں سے وہ خط نکال کر حوالہ کیا۔ جب یہ خط آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پیش کیا گیاتو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو طلب فرمایا اور پو چھا: ’’حاطب! تو نے یہ کیا حرکت کی؟ ‘‘ حاطب نے یوں عرض کیا:’’یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے۔میں دین سے نہیں پھرا۔ میرے بال بچے مکہ میں قریش کے درمیان ہیں ۔ آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں قریش میں ان کے رشتے ہیں جن کے سبب سے وہ ان کے بال بچوں کی حفاظت کریں گے۔ مگر میرا قریش میں کوئی رشتہ نہیں ۔ اپنے اہل وعیال کے بچاؤ کے لئے میں نے یہ حیلہ کیا کہ قریش پر یہ احسان کروں تاکہ اس کے صلہ میں وہ میرے بال بچوں کی حفاظت کریں ۔‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا ہے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بیتا ب ہو کر عرض کیا: یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کا سر اُڑا دُوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ حاطب اصحابِ بدر میں سے ہے ۔ عمر! تجھے کیا معلوم ہے بے شک اللّٰہ تعالٰی اہل بدر پر مطلع ہے کہ فرمادیا: ([60] ) اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ۔غرض باوجود ایسے سنگین جرم کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معاف فرمادیا۔([61] )
قصہ کو تاہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بتا ریخ ۱۰ ماہِ رمضان ۸ھ دس ہزار آراستہ فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جواب تک مکہ میں مقیم تھے اپنے اہل وعیال سمیت ہجرت کر کے
مدینہ کو آرہے تھے۔ وہ مقام جُحْفَہ([62] )میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حسبِ ارشادنبوی انہوں نے اہل وعیال کو تو مدینہ بھیج دیا اور خود لشکر اسلام میں شامل ہوگئے۔ قُدَید میں قبائل کو جھنڈے دیئے گئے۔ اخیر پڑاؤ مَرُّ ا لظَّہران تھاجہاں سے مکہ ایک منزل یا اس سے بھی کم تھا۔ یہاں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے تمام فوج نے الگ الگ آگ روشن کی۔ قریش کو لشکر اسلام کی روانگی کی افواہ پہنچ چکی تھی۔ مزید تحقیق کے لئے انہوں نے ابو سفیان بن حرب اور حکیم بن حِزام اور بُدَیل بن وَرْقاء کو بھیجا۔ اس تجسّس میں ان کا گز ر مَرُّ الظَّہران پر ہوا۔ ابو سفیان بو لا: یہ اس قدر جابجا([63] )آگ کیسی ہے؟ یہ تو شب عرفہ کی آگ کی مانند ہے۔ بدیل خزاعی نے کہا: یہ خزاعہ کی آگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا: خزاعہ گنتی میں اتنے نہیں کہ ان کی اس قدر آگ ہو۔ خیمہ نبوی کی حفاظت پر جو دستہ متعین تھا انہوں نے ابو سفیان وغیرہ کو دیکھ لیا اور پکڑ کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گئے۔ ابوسفیان ایمان لائے۔ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہاں سے مکہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چو ٹی پر لے جا کر کھڑا کر دوتا کہ افواج الٰہی کا نظارہ آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ قبائل عرب کی فو جیں ابوسفیان کے سامنے سے گزر نے لگیں ۔ پہلے غِفَار پھر جُہَیْنَہ، سعد بن ہُزَیل، سُلَیم نعرہ تکبیر بلند کر تے ہوئے یکے بعد دیگر ے گزرے ان کے بعد ایک فوج آئی جس کی مثل دیکھنے میں نہیں آئی۔ ابو سفیان نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا کہ یہ انصارہیں ۔ سردارانصار حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ عَلم ہاتھ میں لئے ہوئے برابر سے گزرے تو ابو سفیان سے کہا:’’اَلْیَوْمُ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ الْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃ‘‘ آج گھمسان کے معر کہ کا دن ہے، آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔
بعد ازاں وہ مبارک دستہ آیاجس میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب (مہاجرین) تھے۔ حضرت زبیر بن العوام علمبر دار تھے۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام برابر سے گزرے تو ابوسفیان نے کہا: ’’حضور نے سنا سعد بن عبادہ کیا کہتے گزرے ہیں ؟ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا۔ آج کعبہ کی عزت کی جائے گی اور غلاف چڑھایا جائے گاپھر حکم دیاکہ عَلم سعد سے لے کر ان کے صاحبزادے قیس کو دے دیا جائے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مکہ میں حصہ بالائی کی طرف سے داخل ہوئے۔ اعلان کر دیا گیاکہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابو سفیان کے گھر پنا ہ لے گایا مسجد میں داخل ہو گایا دروازے بند کرلے گااس کو امن دیا جائے گا۔ حصہ بالائی میں (خَیْفِ بنی کنانہ یعنی مُحَصَّبمیں ) رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے خیمہ نصب کیا گیا اور حضرت زبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حسب الا رشاد مُحَصَّبکی حد یعنی حَجُون کی پہاڑی پر عَلم کھڑا کر دیا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو حکم دیا قبائل عرب کے ساتھ پائین شہر کی طرف سے([64] ) داخل ہوں اور صفا میں ہم سے آملیں اور کسی سے جنگ نہ کریں ۔ مگر صفوان بن اُمیہ، عِکرَمہبن ابی جہل اور سہیل بن عمرو قریش کی ایک جماعت ساتھ لے کر جندمہ میں سدراہ ہو ئے اور حضرت خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فوج پر تیر برسانے لگے چنانچہ حضرت حُبَیْشبن اَشعر اور کُرْز بن جابر فِہرْی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے شہادت پائی۔ حضرت خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجبور ہو کر ان پر حملہ کیا۔ وہ تیرہ یا زیادہ لا شیں چھوڑ کر گھروں کو بھاگ گئے اور بعضے پہاڑی پر چڑھ گئے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جو تلواروں کی چمک دیکھی تو پوچھا کہ یہ جنگ کیسی ہے؟ عرض کیا گیا کہ شاید مشرکین نے پیش دستی([65] )کی ہے جس کی وجہ سے خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو لڑنا پڑا۔ بعد ازاں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے باز پرس کی تو انہوں نے عرض کیا کہ ابتداء مشرکین کی طرف سے تھی،فرمایا: ’’قضا ئے الٰہی بہتر ہے۔‘‘([66] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خیمہ میں ذر اآرام فرمایاپھر غسل کیا اور ہتھیاروں سے سج کر ناقہ قصواء پر سوا ر ہو ئے اور اپنے غلام کے لڑکے اسامہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا۔ کَوْ کَبَۂ نبوی([67] )بڑی شان وشوکت سے کعبہ کی طرف روانہ ہوا۔ آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے مہاجرین وانصار تھے جو اس طرح سر اپا آہن پو ش([68] )تھے کہ بجز سیاہ چشم([69] ) ان کے بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آتا تھا۔ بیت اللّٰہ شریف میں داخل ہو کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پہلے حجراسود کو بو سہ دیاپھر اپنی نا قہ پر طواف کیا۔ بیت اللّٰہ کے گرداور اوپر تین سو ساٹھ بت تھے جن کے سبب سے وہ
خانۂ خدا بت خانہ بنا ہوا تھا۔ آپ کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی اس سے آپ ایک ایک بت کو ٹھوکے دیتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے :
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(۸۱)
سچ آگیا اور باطل مٹ گیا بیشک با طل مٹنے والا ہے۔([70] )
جَآءَ الْحَقُّ وَ مَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا یُعِیْدُ(۴۹)
سچ آگیا اور باطل نہ پہلی بار پیدا کرتا ہے اور نہ دوبارہ کر تا ہے۔([71] )
اور وہ منہ کے بل گر تے جاتے تھے۔([72] )جب اس طرح بیت اللّٰہ شریف بتو ں سے پاک ہو گیاتو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عثمان بن طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کُنجی لے کر دروازہ کھولااندر داخل ہو ئے تو حضرت ابراہیم واسمٰعیل عَلَیْہِمَاالسَّلَام کے مجسمے نظر پڑے جن کے ہاتھوں میں جو اء کھیلنے کے تیر دیئے ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’خدا اِن کو غارت کرے اللّٰہ کی قسم! ان دونوں نے کبھی تیروں سے جواء نہیں کھیلا۔‘‘ کعبہ کے اندرہی لکڑیوں کی ایک کبو تری بنی ہوئی تھی جسے آپ نے اپنے دست مبارک سے تو ڑ ڈالا اور تصویر یں جو تھیں وہ مٹا دی گئیں ۔ پھر دروازہ بند کر دیا گیا اور حضرت اسامہ وبلا ل وعثمان بن طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ اندر رہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھی اور ہر طرف تکبیر کہی پھر دروازہ کھول دیا گیا۔مسجد حرام قریش کی صفوں سے بھری ہوئی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دروازے کے بازو ؤں کو پکڑ کر یہ خطبہ پڑھا:
لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہ ٗصَدَقَ اللّٰہُ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ اَلَا کُلُّ مَاْثَرَۃٍ اَوْ دَمٍ اَوْ مَالٍ یُدْعٰی فَھُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ ھَاتَیْنِ اِلَّا سِدَانَۃَ الْبَیْتِ وَسِقَایَۃَ الحَآجِّ اَلَا وَ قَتِیْلُ الْخَطَائِ شِبْہِ الْعَمْدِ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا فَفِیْہِ الدِّیَّۃُ مِائَۃٌ مِّنَ الْاِبِلِ مِنْھَا اَرْبَعُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھَا اَوْلَادُھَا یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ نَخْوَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَعَظُّمَھَا بِالْاٰبَآئِ النَّاسُ مِنْ اٰدَ مَ وَاٰدَ مُ مِنْ تُرَابٍ
ایک خدا کے سوا اور کو ئی معبو د بحق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں ، خدا نے اپنا وعدہ سچا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور کا فروں کے گر وہوں کو تنہا شکست دی، آگا ہ رہو کہ تمام مفاخریا خون یا مال ہر قسم کا سو ا ئے کعبہ کی تَوَلِّیَت اور حاجیوں کی سِقایت کے میرے ان دو قدموں کے نیچے ہیں ، آگاہ ر ہو کہ قتل خطاجو عَمَدکے مشابہ ہو، تازیانہ سے ہو یا عصا سے اس کا خون بہا ایک سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس کے پیٹوں میں بچے ہوں ،اے گر وہ قریش! خدا نے تم سے جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار دور کر دیا، تمام لوگ آدم کی اولادسے ہیں اور آدم مٹی سے ہیں ۔
پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(۱۳) (حجرات، ع۲)
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مر داور عورت ( آدم و حوا ) سے پیدا کیا اور تم کو کنبے اور قبیلے بنایا تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو بیشک تم میں اللّٰہکے نزدیک زیادہ بزرگ وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے تحقیق اللّٰہ جاننے والا خبر دار ہے۔([73] )
خطبہ کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قریش کی طرف متوجہ ہو ئے جن سے مسجد بھر ی ہو ئی تھی۔ اعلانِ دعوت سے اب تک ساڑھے ستر ہ سال میں قریش نے آپ سے اور آپ کے اصحاب سے جو جو سلوک کیے تھے وہ سب ان کے پیش نظر تھے اور خوف زدہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھئے کیاسلوک کیا جا تا ہے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اب اس شہر میں ہیں جہاں سے نکلے تھے تو اندھیری رات اور فقط صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ساتھ تھے۔آج آپ داخل ہو تے ہیں تو دس ہزار جاں نثار ساتھ ہیں اور بد لہ لینے پر پوری قدر ت حاصل ہے۔ بایں ہمہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں خطاب فرمایا: اے گر وہ قریش! تم اپنے گمان میں مجھ سے کیسے سلوک کی تو قع رکھتے ہو؟ وہ بو لے :’’خَیْرًا اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْم‘‘نیکی کی تو قع رکھتے ہیں ، آپ شریف بھائی اور شریف برادرزادہ ہیں ۔یہ سن کر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :
‘’ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَآئُ ‘‘ آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم آزاد ہو۔
اعلانِ عفوکے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد حرام میں بیٹھ گئے۔ بیت اللّٰہ شریف کی کنجی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک میں تھی۔ حضرت علی اور حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما میں سے ہر ایک نے عرض کیاکہ کنجی ہمیں عنایت ہو مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عثما ن بن طلحہ بن ابی طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عطا فرمائی۔([74] )
حضرت عثمان بن طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ ہجرت سے پہلے مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مکہ میں ملے، آپ نے مجھے دعوت اسلام دی ۔میں نے کہا:اے محمد! تجھ سے تعجب ہے کہ تو چاہتا ہے کہ میں تیری پیروی کر وں حالانکہ تو نے اپنی قوم کے دین کی مخالفت کی ہے اور ایک نیادین لا یاہے۔ ہم جاہلیت میں کعبہ کو دوشنبہ اور پنجشنبہ کے دن([75] ) کھولا کر تے تھے۔ ایک دن رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کے ساتھ کعبہ میں داخل ہونے کے اراد ے سے آئے۔ میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دُرُشْت کلامی([76] )کی اور آپ کو برا بھلا کہا مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے درگزر کیا اور فرمایا: ’’عثمان تو یقینا عنقریب ایک دن اس کنجی کو میرے ہاتھ میں دیکھے گاکہ جہاں چاہوں رکھ دوں ۔‘‘میں نے کہا: اس دن بیشک قریش ہلا ک ہو جائیں گے اور ذلیل ہو جائیں گے۔ اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بلکہ زندہ رہیں گے اور عزت پائیں گے اور آپ کعبہ میں داخل ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس ارشاد نے مجھ پر اثر کیا۔ میں نے گمان کیا کہ جیسا آپ نے مجھ سے فرمایا عنقریب ویسا ہی ہوجائے گا اور اراد ہ کیا کہ مسلمان ہو جاؤں مگر میری قوم مجھ سے نہایت درشت کلامی کر نے لگی۔ جب فتح مکہ کا دن آیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: عثمان! کنجی لا، آپ نے کنجی مجھ سے لی پھر وہی کنجی مجھے دے دی اور فرمایا: لو یہ پہلے سے تمہاری ہے اور تمہارے ہی پاس ہمیشہ رہے گی۔ ظالم کے سوا اسے کوئی تم سے نہ چھینے گا۔ عثمان! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تم کو اپنے گھر کا امین بنا یا ہے۔ پس اس گھر کی خدمت کے سبب سے جو کچھ تمہیں ملے اسے دَستور ِشرعی کے موافق کھاؤ۔ جب میں نے پیٹھ پھیر ی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے پکارا میں پھر حاضر ہوا۔ فرمایا: کیا وہ بات نہ ہوئی جو میں نے تجھ سے کہی تھی۔ اس پر مجھے ہجرت سے پہلے مکہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وہ قول یاد آگیا۔ میں نے عرض کیا: ’’ہاں (وہ بات ہوگئی) میں گو اہی([77] )دیتا ہوں کہ ’’آپ اللّٰہ کے رسول ہیں ۔‘‘([78] )اس حدیث میں تین پیشگوئیاں ہیں ۔ وہ تینوں پوری ہوگئیں ۔
اس روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دیر تک مسجد میں رونق افروزرہے۔ نماز کا وقت آیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حکم سے حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کعبہ کی چھت پر اذان کہی۔ ابوسفیان بن حرب اور عتاب بن اسید اور حارث بن ہشام کعبہ کے صحن میں بیٹھے ہو ئے تھے اذان کی آواز سن کر عتاب بولا کہ خدا نے اسید کو یہ عزت بخشی کہ اس نے یہ آواز نہ سنی ورنہ اسے رنج پہنچتا۔ حارث بولا: خدا کی قسم! اگر یہ حق ہو تا تو میں اس کی پیروی کرتا۔ حضرت ابو سفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا: میں تو کچھ نہیں کہتااگر کہوں تو یہ کنکریاں ان کو میرے قول کی خبر دیں گی۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان لوگوں کے پاس ہو کر نکلے تو فرمایاکہ تمہاری باتیں مجھے معلوم ہو گئیں تم نے ایسا ایسا کہا ہے۔ حارث وعتاب یہ سنتے ہی کہنے لگے: ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا عَزَّوَجَل کے رسول ہیں ۔ان باتوں کی اطلاع کسی اور کو نہ تھی ورنہ ہم کہہ دیتے کہ اس نے آپ کو بتا دیں ۔‘‘ ([79] )
مسجد سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہِ صفاپر تشریف لے گئے۔وہاں مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کر کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ مر دوں میں حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مستورات میں ان کی والدہ ہند بھی تھی جو حضرت امیر حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا کلیجہ چباگئی تھی۔
عفوعام سے نو یادس اشخاص مستثنیٰ تھے جن کی نسبت حکم دیا گیا تھا کہ جہاں ملیں قتل کر دیئے جائیں ۔ اس حکم کی وجہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذاتی انتقام نہ تھابلکہ اور مختلف جرم تھے۔ ان میں سے صرف تین یعنی ابن خَطَل، مِقْیَس بن صُبَابہ اور ابن خَطَل کی کنیز قُرَیبہ قتل ہو ئے۔ ابن خَطَل اور مِقْیَس قصاص میں قتل کیے گئے۔ قُرَیبہ اسلام کی ہَجوگا یا کر تی تھی۔ باقی سب کو امن دیا گیا اور ایمان لا ئے۔ ایک دشمن ِاسلام عیسا ئی مصنف ان دس اشخاص کی تفصیل
دے کر یوں لکھتا ہے۔([80] )
’’ اس طرح عفو کے مقابلہ میں حکم قتل کی صورتیں کا لعد م تھیں اور سز ائے موت جہاں فی الو اقع عمل میں آئی (شاید با ستثنائے مُغَنِّیہ) محض پو لیٹیکل مخالفت کے سوا اور جرموں کی وجہ غالباً روا تھی۔ جس عالی حوصلگی سے (حضرت) محمد نے اس قوم سے سلوک کیا جس نے اتنی دیر آپ سے دشمنی رکھی اور آپ کا انکار کیاوہ ہر طرح کی تحسین وآفرین کے قابل ہے۔ حقیقت میں گز شتہ کی معافی اور اس کی گستاخیوں اور اذیتوں کی فراموشی آپ ہی کے فائد ے کے لئے تھی مگر تا ہم اس کے لئے ایک فرَّاخ وفیاض دل کی کچھ کم ضرورت نہ تھی۔‘‘
فتح مکہ کے دوسرے روز خُزاعہ نے ہذیل کے ایک شخص کو جو مشرک تھا قتل کر ڈالا اس پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حمد وثنا کے بعد یوں خطاب([81] )فرمایا:
اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَھَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْھَا النَّاسُ لَا یَحِلُّ لِاِمْرِیئٍ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا وَّلَا یَعْضِدَ بِھَا شَجَرًا فَاِنْ تَرَخَّصَ اَحَدٌ لِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیْہِ وَسَلَّمَ فِیْھَا فَقُوْلُوْا لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَاْذَنْ لَکُمْ وَاِنَّمَا اَذِنَ لِی فِیْھَا سَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ وَّقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بِالْاَمْسِ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الَْغَائِبَ ۔([82] )
تحقیق مکہ کو اللّٰہ نے حرام کر دیا اور لوگوں نے حرام نہیں کیا جو شخص خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ اس میں خون بہائے اور نہ اس کا درخت کا ٹے اگر کوئی اس میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جنگ کے سبب سے قتال کو رخصت کہے تو اس سے کہہ دو کہ خدانے اپنے رسول کو اجازت دی تم کو اجازت نہیں دی،
مجھے بھی دن کی ایک ساعت اجازت دی گئی اور آج پھر اس کی حرمت ایسی ہو گئی جیسا کہ کل (فتح سے پہلے ) تھی، چاہیے کہ جو یہاں حاضر ہے وہ غائب کو یہ پیغام پہنچا دے۔
جب مکہ بتو ں سے پاک ہو چکا تو مکہ کے گر دجوبت (منات،لات، عزیٰ، سواع) تھے وہ سرایا کے ذریعہ سے منہدم کر دیئے گئے۔
فتح مکہ کا اثر قبائل عرب پر نہایت اچھا پڑاوہ اب تک منتظر تھے اور کہا کر تے تھے کہ (حضرت) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) اور ان کی قوم کو آپس میں نپٹ لینے دو اگر وہ قریش پر غالب آگئے تو سچے پیغمبر ہیں ۔ اس لئے جب مکہ فتح ہوا تو ہر ایک قوم نے اسلام قبول کر نے میں پیش دستی کی([83] )مگر ہَوَ ازَن کا زبر دست قبیلہ جو مکہ وطائف کے درمیان سکونت پذیر تھا اس فتح پر بہت بَراَفر وختہ([84])ہوا ۔وہ اس سے پہلے ہی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے اس لئے فتح کی خبر سنتے ہی حملہ کے لئے تیار ہو گئے۔ ہوازن (باستثنائے کعب وکلاب ) کے ساتھ ثَقِیف تمام اور نَصْر و جُشَم تمام اور سعد بن ابی بکر اور کچھ بنوہلال شامل ہوئے۔ جُشَم کا رئیس دُرَید بن صِمَّہ تھا جس کی عمر سوسال سے متجاوز تھی۔ اسے محض مشور ے کے لئے ہَودَج([85] ) میں بٹھا کر ساتھ لے گئے۔ تمام فوج کا سپہ سالا را عظم ما لک بن عوف نصری تھا جس کے حکم سے بچے اور عورتیں اور اَموال بھی ساتھ تھے تا کہ لڑائی میں پیچھے نہ ہٹیں ۔ دُرَید نے اس حکم کو پسند نہ کیامگر اس کی کچھ پیش نہ گئی۔
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خبر پہنچی تو آپ نے حضرت عبد اللّٰہ بن ابی حَدْرَد اَسلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُو بطور جا سوس دریافت حال کے لئے بھیجا۔ وہ دشمن کے لشکر میں آئے اور انہوں نے وہاں کے تمام حالات دربار رسالت میں عرض کیے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تیاری شروع کر دی۔ دس ہزار درہم سے زائد عبداللّٰہ بن ابی رَبیعہ سے جو ابوجہل کے بھائی تھے قرض لئے گئے۔ اور صفوان بن امیہ سے جواب تک ایمان نہ لا ئے تھے سو زِرہیں مع لو از م مُسْتَعارلی گئیں ۔ غرض شوال ۸ھ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارہ ہزار جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے جن میں سے دوہزار طُلَقا ء ( اہل مکہ ) تھے۔ لشکر کی کثرت کو دیکھ کر بعضوں کی زبان سے بے اختیار نکلا:
’’آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے؟‘‘ جب حنین([86] )میں پہنچے تو صبح کے وقت کہ ابھی اجالا بھی اچھی طرح نہ ہو اتھا حملہ کے لئے آگے بڑھے۔ دشمن نے ان کے پہنچنے سے پہلے ہی اس طرح صف آرائی کر رکھی تھی کہ سب سے آگے سوار، سواروں کے پیچھے پیادہ، پیادوں کے پیچھے عورتیں اور عورتوں کے پیچھے بکریا ں اور اونٹ تھے اور کچھ فوج پہاڑ کی گھاٹیوں اور دَروں کی کمین گاہوں میں مقرر کر دی تھی۔ اسلامی فوج نے پہلے ایسی شجاعت سے دھاواکیا کہ کفار([87] )بھاگ نکلے۔ مسلمان غنیمت لو ٹنے میں مشغول ہو گئے۔ کفار نے ایک دوسرے کو پکار اکہ یہ کیا ذِلت و فَضِیْحَت([88] ) ہے اور مڑ کر حملہ کیا۔ اب کثرت پر نازش([89] ) اپنا رنگ لائی۔ لشکر اسلام کے مقدمہ میں بہت سے ایسے نوجوان تھے جو سلاح([90] )وزِرہ سے خالی تھے۔ ہو ازن وبنو نصر کی جماعت نے جو تیرانداز ی میں مشہور تھے تیروں کا مینہ بر سانا شروع کیا۔ذراسی دیر میں مقدمۃ الْجَیْش([91] )کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس طرح باقی فوج بھی بھاگ نکلی۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ صرف چند اصحاب ثابت قدم رہے مگر اکیلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے کہ اس حالت میں بھی دشمن کی طرف بڑھنا چاہتے تھے اور وہ اصحاب بمقتضائے شفقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو روک رہے تھے۔ چنانچہ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے خچر کی لگا م اور حضرت ابو سفیان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رکا ب تھا مے ہوئے تھے کہ آگے نہ بڑھ جائیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرمارہے تھے:
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں پیغمبر ہوں اس میں جھوٹ نہیں ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ۔
حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نہایت بلند آواز تھے۔ آپ نے حکم دیا کہ مہاجرین وانصار کو آواز دو۔ چنانچہ وہ یوں پکار نے لگے :یَامَعْشَرَ الْاَنْصَارِ! یَا اَصْحَابَ السَّمْرَۃِ ! یَا اَصْحَابَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ ! او گروہ انصار! او بیعت رضوان والو! اے سورۂ بقرہ والو!
اس آواز کا کان میں پڑ نا تھا کہ لَبیک لَبیک کہتے ہوئے سب جمع ہوگئے۔ آپ نے صف آرائی کے بعد حملہ
کا حکم دیا چنانچہ وہ نہایت بہادری سے لڑنے لگے۔ شدت جنگ کو دیکھ کر آپ نے فرمایا: اَ لْاٰنَ حَمِیَ الْوَطِیْسُ(اب تنور خوب گرم ہو گیا) لڑائی کا نقشہ بدل چکا تھا۔مسلمانوں پر طَمَانِیَت کا نزول ہوا۔کفار کو ملاء ِاعلیٰ([92] )کا لشکر پچکلیان گھوڑوں([93] )پر سواروں کی شکل میں نظر آرہاتھا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خچر سے اتر کر ایک مشت خاک لی اور شَاہَتِ الْوُجُوْہ([94] )پڑھتے ہوئے کفار کی طرف پھینک دی۔ دشمن میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ خاک نہ پڑی ہو۔([95] ) لشکر کفار کو شکست ہوئی۔ اللّٰہ تعالٰی نے اپنے کلام پاک میں جنگ حنین کاذکر اس طرح کیا :
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِیْ مَوَاطِنَ كَثِیْرَةٍۙ-وَّ یَوْمَ حُنَیْنٍۙ-اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَیْــٴًـا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَۚ(۲۵) ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶)ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۷) (سورۂ توبہ، ع۴)
البتہ تحقیق اللّٰہ نے تم کو مدد دی بہت میدانوں میں اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترائے۔ پس وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین با وجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر ہٹے پھر اللّٰہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نا زل فرمائی اور وہ فوجیں اتاریں جو تم نے نہ دیکھیں اور کافروں کو عذاب کیا اور یہی سزاہے کافروں کی پھر خدا اس کے بعد توبہ قبول کرے گا جس کی چا ہے اور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔([96] )
شکست خوردہ فوج ٹوٹ پھوٹ کر کچھ تو اَوطاس میں اور کچھ طائف میں جمع ہوئی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کچھ فوج بسر کر دگی حضرت ابوعامر اَشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اَوطاس بھیجی جو دِیارِ ہَوازِن میں ایک وادی کا نام ہے۔ دُرَید بن صِمَّہ یہاں مارا گیا۔ قبیلہ جُشَم کے ایک شخص نے حضرت ابو عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ران میں تیرمارا حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس جشمی کو قتل کر ڈالا اور حضرت ابو عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اطلاع دی۔حضرت ابو عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کچھ دیر کے بعد وَاصِل بحق ہوئے۔مگر شہادت سے پہلے انہوں نے حضرت ابو موسیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ سلام کے بعد میرا یہ پیغام رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پہنچا دینا کہ آپ میرے حق میں دعا ئے مغفرت فرمائیں ۔
حضرت ابو عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عَلم ہاتھ میں لیا اور خوب جنگ کی دشمن کو شکست ہو ئی۔اسیر انِ جنگ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا عی بہن شَیما ء سعدیہ بھی تھیں ۔ جب گر فتار ہو کر آئیں تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہنے لگیں کہ میں آپ کی بہن ہوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کی علامت کیا ہے؟ اس پر انہوں نے اپنی پیٹھ کھول کر دکھائی کہ ایک دفعہ بچپن میں میں آپ کو گود میں لئے بیٹھی تھی آپ نے دانت سے کاٹا تھا یہ اس کا نشان ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ نشان پہچا ن لیا اور اپنی چادرمبارک بچھا کر ان کو اس پر بٹھا یا اور مر حبا کہا۔ پھر فرمایا:’’جی چاہے تو میرے ہاں عزت سے رہو اور اپنی قوم میں جا نا چاہوتو وہاں پہنچا دیا جائے۔‘‘ انہوں نے اپنی قوم میں رہنا پسند کیا اور ایمان لائیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو غلام وکنیز اور ایک اونٹ دے کر بڑے احترام سے ان کی قوم میں پہنچا دیا۔
جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اوطاس سے واپس آئے تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرت ابو عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا پیغام پہنچادیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا فرمائی:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِعُبَیْدٍ اَبِیْ عَامِرٍ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَوْقَ کَثِیْرٍ مِّنْ خَلْقِکَ وَمِنَ النَّاسِ۔اے خدا یا! ابو عامر عبید کو بخش دے اے خدا! اسے قیامت کے دن اپنی مخلوق اور اپنے لوگوں میں سے بہتوں کے اوپر رکھنا۔
یہ دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے واسطے دعا کی التجاء کی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا فرمائی: ‘’ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ قَیْسٍ ذَنْبَہٗ وَ اَ دْخِلْہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مُدْخَلًا کَرِیْمًا۔’‘ اے خدا ! عبد اللّٰہ بن قیس کا گناہ بخش دے اور اسے قیامت کے دن عزت کے مقام میں داخل کر۔([97] )
آنحضرت صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے غَنائم و اَسیر ان([98] )جنگ کی نسبت حکم دیا کہ سب کو جمع کر کے جِعْرانہ([99] )میں بھیج دیا جائے۔ بذات اقدس طائف([100] )کی طرف روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت طفیل بن عَمرودُوسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بت ذُو الْکَفَّیْنکے منہدم کر نے کے لئے بھیجا اور حکم دیا کہ اپنی قوم سے مدد لے کر ہم سے طائف میں آملو،حضرت طفیل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی قوم کے رئیس تھے انہوں نے بت کو جلا دیا اور قبیلہ دُوس کے چار سو آدمی اور دبابہ و منجنیق لے کر طائف میں حاضر خد مت اقدس ہوئے۔
ثَقِیف اَوطاس سے بھاگ کر طائف میں چلے آئے تھے۔ یہاں ایک قلعہ تھااس کی مرمت کر کے ایک سال کا سامان رسد([101]) لے کر اس میں پناہ گزین تھے۔ لشکر اسلام اس قلعہ کے قریب اتر ا اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ قلعہ شکن آلا ت استعمال میں لائے گئے۔مسلمانوں نے منجنیق([102] )نصب کیا تو اہل قلعہ نے تیروں کا مینہ برسانا شروع کیا بار ہ غازی شہید ہو گئے۔دبابہ([103] )استعمال کیا گیا تو ثقیف نے لوہے کی گرم سلاخیں بر سائیں جن سے دبابہ جل گیا اور نقصانِ جان بھی ہوا، پھر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے منادی کردی گئی کہ کفار کا جو غلام قلعہ سے ہمارے پاس آئے گاوہ آزاد کر دیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیس غلام قلعہ سے اتر کر حاضر خدمت ہوئے، وہ سب آزاد کر دیئے گئے اور
ایک ایک کرکے مسلمانوں کے حوالہ کر دیئے گئے کہ ان کی ضروریات کے مُتَکَفِّل ہوں اور ان کو تعلیم اسلام دیں ۔ ان غلاموں میں حضرت نُفَیع بن حارِث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے جو چرخ چاہ([104] )پر لٹک کر قلعہ کی دیوار سے اتر ے تھے۔ اس لئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی کنیت ابو بکرہ([105] )رکھ دی۔
دو ہفتہ بلکہ اس سے زیادہ محاصرہ قائم رہامگر قلعہ فتح نہ ہوا۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت نوفل بن معاویہ دَیْلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مشورہ کیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ ’’لو مڑی بَھٹ میں ہے۔اگر آپ کو شش جاری رکھیں گے تو اسے پکڑلیں گے اور اگر اسے چھوڑ جائیں تو آپ کو مضر نہیں ۔‘‘ غرض محاصرہ اٹھا لیا گیا۔جب واپس آنے لگے تو صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا: ’’یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !ثقیف کے تیروں نے ہم کو جلادیا،آپ ان پر بددعا فرمائیں ۔‘‘ اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا فرمائی :’’ اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا وَائْتِ بِھِمْ مُسْلِمِیْن’‘([106] )اے خدا! تو ثقیف کو ہدایت دے اور ان کو (مسلمان بنا کر ) لا۔ اس دعا ئے رحمۃ للعالمین کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۹ھ میں ثقیف کے وفد نے حاضر خدمت اقدس ہو کر اظہار اسلام کیا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم طائف سے جعرانہ میں تشریف لائے۔ یہاں غنائم حنین واو طاس جمع تھیں ، جن کی تفصیل یہ ہے :
اسیر ان جنگ (زَنان و اَطفال ) 6000
اُونٹ 24000
بکریاں 40000سے زائد
چاندی 4000 ۱وقیہ
آپ نے دس دن سے کچھ زیادہ ہَو ازِن کا انتظار کیا۔وہ نہ آئے تو آپ نے مال غنیمت میں سے طُلَقا ء و مہاجرین کو دیا اور اَنصار کو کچھ نہ دیا۔ اس پر اَنصار کو رنج ہواان میں سے بعضے کہنے لگے: ’’خدا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معاف کر دے۔ وہ قریش کو عطا فرماتے ہیں اور ہم کو محروم رکھتے ہیں حالانکہ ہماری تلواروں سے قریش کے خون
کے قطرے ٹپکتے ہیں ‘‘ اور بعض بولے: ’’جب مشکل پیش آتی ہے تو ہمیں بلا یا جاتا ہے اور غنیمت اَوروں کو دی جاتی ہے۔‘‘
آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے یہ چر چا سناتو اَنصار کو طلب فرمایا۔ایک چرمی([107] )خیمہ نصب کیا گیا جس میں آپ نے انصار کے سوا کسی اور کونہ رہنے دیا۔ جب انصار جمع ہو گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پو چھا کہ’’وہ کیا بات ہے جو تمہا ری نسبت میرے کان میں پہنچی ہے۔‘‘ انصار جھوٹ نہ بولا کر تے تھے کہنے لگے کہ سچ ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سنا مگر ہم میں سے کسی دانا نے ایسا نہیں کہا نو خیز جوانوں نے ایسا کہا تھا۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حمد وثنا کے بعد یوں خطاب فرمایا:
یَامَعْشَرَ الْاَنْصَارِ اَلَمْ اَجِدْکُمْضُلَّالًا([108] )فَھَدَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ وَکُنْتُمْ مُتَفَرِّقِیْنَ فَاَلَّفَکُمُ اللّٰہُ بِیْ وَکُنْتُمْ عَالَۃً فَاَغْنَاکُمُ اللّٰہُ بِیْ ۔اے گر وہ انصار! کیا یہ سچ نہیں کہ تم گمراہ تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو ہدایت دی اور تم پرا گندہ([109] )تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو جمع کر دیا اور تم مفلس تھے، خدا نے میرے ذریعہ سے تم کو دولت مند کر دیا۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ فرماتے جاتے تھے اور انصار ہر فقرے پر کہتے جاتے تھے کہ ’’ خدا اور رسول کا احسان اس سے بڑھ کرہے۔‘‘
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ تم مجھے جو اب کیوں نہیں دیتے۔انصار نے عرض کیا یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم کیا جواب دیں خدا اور رسول کا احسان اور فضل ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: بخدا! اگر تم چاہوتویہ جواب دومیں ساتھ ساتھ تمہاری تصدیق کر تا جا ؤں گا:
اَتَیْتَنَا مُکَذَّبًا فَصَدَّقْنَاکَ وَ مَخْذُوْلًا فَنَصَرْنَاکَ وَ طَرِیْدًا فَاٰوَیْنَاکَ وَ عَآئِلاً فَوَاسَیْنَاکَ
تو ہمارے پاس اس حال میں آیا کہ لوگوں نے تیری تکذیب کی تھی،ہم نے تیری تصدیق کی،لوگوں نے تیرا ساتھ چھوڑ دیا تھا،ہم نے تیری مدد کی،لوگوں نے تجھ کو نکال دیا تھا ہم نے تجھے پناہ دی،تو مفلس تھا ہم نے جان ومال سے تیری ہمدردی کی۔
پھر فرمایا کہ میں نے تا لیف قلوب کے لئے اہل مکہ کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے ’’اے انصار! کیا تمہیں یہ پسند نہیں
کہ لوگ اونٹ بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو لے کر گھر جاؤ۔ اللّٰہ کی قسم! تم جو کچھ لے جا رہے ہو وہ اس سے بہتر ہے جو وہ لے جارہے ہیں ۔ اگر لوگ کسی وادی یا دَرَّہ میں چلیں تو میں اَنصار کی وادی یا دَرَّہ میں چلوں گا۔‘‘([110] )یہ سن کر انصار پکا ر اٹھے: ‘’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ رَضِیْنَا’‘(یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہم راضی ہیں ) اور ان پر اس قدررقت طاری ہو ئی کہ روتے روتے ڈاڑ ھیاں تر ہوگئیں ۔([111] )
جب جِعرانہ میں اسیر ان جنگ کی تقسیم بھی ہوچکی تو ہوازِ ن کی سفارت (وفد) حاضر خدمت اقدس ہو ئی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا عی ماں حلیمہ قبیلہ سعد بن بکربن ہو ازِن سے تھیں ۔ اس سفارت میں آپ کا رضا ئی چچا ابو ثُر وان (یاابو بُرقان) بن عبد العزی سَعَد ی بھی تھا۔ سفارت کا رئیس زُہَیْر بن صُرَد سعدی جُشَمی تھا۔ وفد نے پہلے اپنی طرف سے اور اپنی قوم کی طرف سے اظہار اسلام کیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک پر بیعت کی پھر حضرت زُہَیْر بن صُرَد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یوں تقریر کی: ([112] )
’’یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اَسیران جنگ میں سے جو عورتیں چھپروں میں ہیں وہ آپکی پھوپھیاں اور خالا ئیں اور دایہ ہیں جو آپ کی پر ور ش کی کفیل تھیں ۔ اگر ہم نے حارث بن ابی شِمْرْ(امیر شام ) یا نعمان بن مُنْذِر (شا ہِ عراق) کو دودھ پلا یا ہوتاپھر اس طرح کی مصیبت ہم پر آپڑتی تو ہمیں اس سے مہر بانی وفائدہ کی تو قع ہو تی مگر آپ سے تو زیادہ تو قع ہے کیونکہ آپ فضل وشرف میں ہر مَکْفُول سے بڑھ کرہیں ۔‘‘([113] )
اس کے بعد حضرت ابو ثُروان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یوں عرض کیا : ([114] ) ’’یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان چھپروں میں آپ کی پھو پھیاں خالا ئیں اور بہنیں ہیں جو آپ کی پرورش کی کفیل تھیں ۔ انہوں نے آپ کو اپنی گو دوں میں پا لا اور اپنے پستان سے دودھ پلا یا۔ میں نے آپ کو دودھ پیتے دیکھا کو ئی دودھ پیتا بچہ آپ سے بہتر نہ
دیکھا۔ میں نے آپ کو دودھ چھڑایا ہوا دیکھا کوئی دودھ چھڑایا بچہ میں نے آپ سے بہتر نہ دیکھا پھر میں نے آپ کو نوجوان دیکھا کوئی نوجوان آپ سے بہتر نہ دیکھا۔ آپ میں خصالِ خیر([115] )کامل طور پر موجود ہیں اور باو جود اس کے ہم آپ کے اہل وکنبہ ہیں آپ ہم پر احسان کریں اللّٰہ تعالٰی آپ پر احسان کرے گا۔‘‘
یہ تقریر سن کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں نے انتظار کے بعد تقسیم کی ہے۔ اب تم اسیران جنگ وغنائم میں ایک اختیار کر لو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسیر ان جنگ کی رہائی چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایاکہ مجھے اپنے خاندان کے حصہ کا اختیار ہے۔ باقی کے لئے اوروں کی اجازت در کار ہے تم نماز ظہر کے بعد اپنی درخواست پیش کرنا۔ چنانچہ نماز ظہر کے بعد انہوں نے اظہار مطلب کیاپھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حمد وثنا ء کے بعد یوں خطاب([116] ) فرمایا: ’’تمہارے بھائی مسلمان ہو کر آئے ہیں ۔میری رائے ہے کہ اسیر ان جنگ ان کو واپس کردوں تم میں سے جو بغیر عوض واپس کر نا چاہتے ہیں کر دیں اور جو عوض لینا چاہتے ہیں ہم پہلی غنیمت میں سے جو ہاتھ آئے گی ادا کر دیں گے۔‘‘قصہ کو تاہ تمام مہاجرین وانصار نے بغیر عوض واپس کر دینا منظور کر لیااس طرح چھ ہزار رہا کر دیئے گئے۔([117] )
اس سال کے اَوائل میں واقعہ اِیلاء پیش آیا۔ اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مقدورسے زیادہ نفقہ و ِکسوَت([118] )طلب کیا اس پر آپ نے اِیلاء کیا یعنی سو گند([119] ) کھائی کہ ایک ماہ تک ان کے ساتھ مُخا لَطَت([120] )نہ کر وں گا۔ جب ۲۹ دن گزرنے پر مہینہ پو را ہو ا تو آیۂ تخییر(سورۂ اَحزاب ) نازل ہوئی مگر سب نے زینت دنیا پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اختیار کیا۔
غز وۂ طائف اور غز وۂ تبوک([121] )کے درمیانی زمانہ میں حضرت کعب بن زُہیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللّٰہ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر ایمان لائے اور انہوں نے اپنا مشہور قصیدہ پڑھا۔
یہ غز وہ ماہِ رجب میں پیش آیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ رومیوں اور عیسا ئی عربوں نے مدینہ پر حملہ کر نے کے لئے بڑی فوج تیار کر لی ہے۔ اس لئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اہل مکہ اور قبائل عرب سے جانی ومالی امداد طلب کی۔اس وقت سخت قحط اور شدت کی گرمی تھی۔ اسی وجہ سے اس غز وہ کو غز وۃ العُسْرَۃ بھی کہتے ہیں ۔ سورۂ تو بہ میں ہے: ‘’ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ ‘‘([122] )جو لشکر اس غز وہ کے لئے تیار کیا گیا اسے جیش العُسْرَۃ کہتے ہیں ۔ اس جیش کی تیاری میں حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے خصوصیت سے حصہ لیا۔ حضرت ابو بکر صدیق وعمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے بھی بڑے ایثار کا ثبوت دیا۔ غرض رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تیس ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ راستہ میں جب سر زمین ثمود میں اتر ے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایا([123] ) کہ یہاں کے کوؤں کا پانی نہ لینا اور نہ وہ پانی پینا۔ انہوں نے عرض کیاکہ ہم نے پانی لیا ہے اور اس سے آٹا گوندھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پانی گرادواور آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔ جب آپ حجر یعنی ثمود کے مکانات میں سے گزرے جو پہاڑوں کو تراش کر بنا ئے ہوئے تھے تو فرمایا([124] )کہ ان معذبین کے مکانات سے روتے ہوئے گز رنا چاہیے کہ مبادا ہم پر بھی وہی عذاب آئے۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی چادر سے منہ چھپا لیا اور اس وادی سے جلدی گز رگئے۔
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حجر سے روانہ ہوئے تو راستے میں ایک جگہ آپ کا ناقہ گم ہوگیا۔ زید بن لُصَیْت([125])قینقاعی منافق کہنے لگا: ’’محمد نبوت کا دعویٰ کر تا ہے اور تم کو آسمان کی خبر دیتا ہے حالانکہ وہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ اس کا ناقہ کہا ں ہے۔‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو باطلاعِ الٰہی یہ معلوم ہوگیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ فرمایا: ’’ایک منافق ایسا ایسا کہتا ہے خدا کی قسم! میں وہی جانتاہوں جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے بتادیا۔ چنانچہ خدا عَزَّوَجَلَّ نے مجھے ناقہ کا حال بتا دیا ہے۔ وہ فلاں دَرَّہ میں ہے اس کی نکیل ایک درخت میں پھنسی ہوئی ہے اس سبب سے وہ رکاہوا ہے، تم جاکر لے آؤ۔‘‘ بتعمیل ارشاد مبارک ناقہ اس دَرَّہ میں سے لا یا گیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد مبارک کے وقت حضرت عَمَّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ موجود تھے۔ منا فق مذکور حضرت عَمَّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہی کے ڈیر ے میں تھا۔ حضرت عَمَّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے ڈیرے میں واپس آکر کہنے لگے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابھی ہم سے باطلاع الٰہی عجیب ماجرا بیان فرمایاکہ ایک شخص ایسا ایسا کہتا ہے۔ عَمَّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بھائی عمرو بن حزم نے کہاکہ تمہارے آنے سے پہلے زید بن لُصَیْت نے ایسا ہی کہا ہے۔ یہ سن کر حضرت عَمَّارہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے زید کی گردن لکڑی سے ٹُھکادی اور کہا: ’’اودشمن خدا! میرے ڈیر ے سے نکل جا، میرے ساتھ نہ رہ۔‘‘ کہا گیا ہے کہ زید مذکور بعد میں تائب ہو گیا تھا۔([126] )
حجر سے تبوک چار منزل ہے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی۔ تبوک میں بیس روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قیام رہا۔ اہل تبوک نے جزیہ پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے صلح کر لی۔ اَیلہ([127] )کا نصرانی سر دار یُوحَنَّہ بن رُؤ ْبہ حاضر خدمت اقدس ہوا۔ اس نے تین سودینار سالا نہ جزیہ پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے صلح کرلی اور ایک سفید خچر پیش کیا۔ آپ نے ایک چادر اسے عنا یت فرمائی۔جَرْبا واَذْرُح ([128] )کے یہود یوں نے بھی جزیہ پر صلح کر لی۔
تبوک ہی سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو چار سو سو اروں کا دستہ دے کر اُکَیْد ِر بن عبد المالک کِنْدِی نصر انی سر دار دُومَۃُ الجُندَل کے زیر کر نے کے لئے بھیجااور فرمادیا کہ تم اُکَیْد ِر کو نیل گا ئے([129] ) کا شکار کر تے پاؤگے۔ اُکَیْد ِر دُومَۃُ الجُندَ ل کے قلعہ میں رہا کر تا تھا جب حضرت خالد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قلعہ کے پاس پہنچے تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا، چاند نی رات تھی کہ ایک نیل گائے جنگل سے آکر قلعہ کے دروازے
پر سینگ مارنے لگی اُکَیْد ِر اس کے شکار کے لئے قلعہ سے اتر آیا۔ اَثنائے شکار میں حضرت خالدکے دستہ نے اس پر حملہ کیا اور گر فتار کر کے مدینہ میں لے آئے۔ اس نے بھی جزیہ پر صلح کرلی۔([130] )
منافق ہمیشہ اس امر کے درپے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دیں ۔ اس غرض سے انہوں نے اپنی علیحدہ مسجد بنا نے کا ار ادہ کیا۔ ابو عامر فاسق جو انصار میں سے تھا عیسا ئی ہوگیا تھا۔ وہ غزوۂ خند ق تک آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے لڑتا رہا۔ جب ہو ازِ ن بھاگ گئے تو وہ شام میں چلا گیا تھااس نے وہاں سے ان منافقین کو کہلا بھیجا کہ تم مسجد قباء کے متصل اپنی مسجد بنا لو اور سامان حرب تیار کر لو۔ میں قیصر روم کے پاس جا تا ہوں اور رومیوں کی فو جیں لا تا ہوں تا کہ محمد اور اس کے اصحاب کو ملک سے نکال دیں ۔ چنانچہ منافقوں نے مسجد قباء کے پاس ایک مسجد بنا ئی اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آکر درخواست کی کہ ہم نے بیماروں اور معذوروں کے لئے ایک مسجد بنائی ہے ۔ آپ اس میں قدم رنجہ فرما کر اس میں نماز پڑھا ئیں اور دعائے بر کت فرمائیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں اب غز وۂ تبوک پر جا رہا ہوں واپس آکر ان شَا ٓء اللّٰہ تَعَالٰی حاضر ہوں گا۔ چنانچہ جب آپ مہم تبوک سے واپس ہو کر مو ضع ذُو اَوَان میں پہنچے جو مدینہ طیبہ سے ایک گھنٹہ کی راہ ہے تو یہ آیتیں نازل ہوئیں :
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۰۷)لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ-لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ
اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنا ئی ضرر پہنچا نے اور کفر کرنے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے اور کمین گاہ بنا نے کیلئے اس شخص کے واسطے جو پہلے سے خدا اور رسول سے لڑرہا ہے اور البتہ وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی چاہی تھی۔ اللّٰہ گواہ ہے کہ وہ لوگ جھوٹے ہیں تو اس مسجد میں ہر گز کھڑا نہ ہو نا البتہ وہ مسجد جسکی بنیاد پہلے دن سے پر ہیزگاری پر رکھی گئی ہے اس بات کی زیادہ
یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ(۱۰۸)(توبہ،ع۱۳)
مستحق ہے کہ تو اس میں کھڑا ہو۔ اس میں ایسے مرد ہیں جو پاک رہنے کو دوست رکھتے ہیں اور اللّٰہ پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔([131] )
پس آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت مالک بن دَخْشَم اور مَعْن بن عَدی عَجْلانی کو حکم دیاکہ جاکراس مسجدضرارکو گرادواور جلادو، چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔([132] ) اس سال مختلف قبائل کے وفود اس کثرت سے دربار رسالت میں حاضر ہوئے کہ اسے سال وفود کہا جاتا ہے۔ یہ وفودبالعموم نعمت ِایمان سے مالا مال ہوکر واپس گئے۔ اس مختصر میں ان کی تفصیل کی گنجا ئش نہیں ۔
اس سال بھی وفود عرب پے درپے حاضرخدمت ہو تے رہے۔ اہل یمن و ملوک حمیر ایمان لائے، اسی سال رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آخری حج کیاجسے حجۃ الوداع کہتے ہیں ، ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ الاٰیۃ ‘‘([133] )عرفہ میں نا زل ہوئی۔([134] )
اس سال کے ماہ ربیع الا وَّل میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال شریف ہو گیا جس کا ذکر آئندہ باب میں آتا ہے۔([135] )
ماہ ِصفر ۱۱ ھکے اَخیر عشرہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیمار ہو گئے اور ماہ ِرَبیع الاوَّل میں وِصال فرماگئے۔ وِصال شریف کی تا ریخ میں اِ ختلاف ہے۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وَفات شریف ماہِ رَبیع الاوَّل میں دو شنبہ کے دن([136] )ہوئی۔ جمہور کے نزدیک ربیع الاوَّل کی بار ھویں تاریخ تھی۔ ماہِ صفر کی ایک یادوراتیں باقی تھیں کہ مرض کا آغاز ہو ا۔ بعضے تا ریخ وصال یکم ربیع الا وَّل بتا تے ہیں ۔ بنا بر قولِ حضرت سلیمان تَیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابتدائے مرض یومِ شنبہ([137] ) ۲۲ماہِ صفر کو ہو ئی اور وفات شریف یومِ دو شنبہ([138] ) ۲ربیع الاوَّل کو ہوئی۔ حافظ ابن حجر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ابومِحْنَف([139] )کا قول ہی معتمد ہے کہ وفات شریف ۲ ربیع الاوَّل کو ہوئی۔ دوسروں کی غلطی کی وجہ یہ ہو ئی کہ ثانی([140] ) کو ثانی عشر([141] ) خیال کر لیا گیا، پھر اسی وہم میں بعضوں نے بعض کی پیر وی کی۔([142] )
حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ مو تہ میں شہید ہو گئے تھے۔ ان کے انتقام کے لئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایامِ مرض ہی میں فوج تیار کی اور اپنے دست مبارک سے جھنڈا تیارکیا اور حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے صاحبزاد ے حضرت اُسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس فوج کا سر دار مقرر کر کے حکم دیا کہ مقامِ اُبنٰی میں پہنچ کر رومیوں سے جہاد کر و۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایام مرض ہی میں حضرت فَیر وز دَیلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اَسوَ د عَنسِی مدعی نبوت کو قتل کر ڈالا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینہ میں اس حال کی خبر دی اور فرمایا: ’’فَازَ فیروز’‘(فیروزکامیاب ہوگیا)۔
وفات شریف سے پہلے جو پنجشنبہ([143] ) تھا اس میں قصۂ قر طاس وقوع میں آیا جس کو فقیر نے تحفہ شیعہ میں بالتفصیل لکھاہے۔([144] ) اسی روز حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو تین چیز وں کی وصیت فرمائی:
{1}… مشرکین کو جز یرۂ عرب سے نکال دینا۔
{2}… ملوک وامر اکے ایلچی جو تمہارے پاس آیا کریں ان کو جائز ہ وانعام دیا کر نا جیسا کہ میں دیا کر تا تھا۔
…تیسری چیز کا ذکر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نہ فرمایا، یا راوی( سلیمان اَحوَل) بھول گیا۔([145] ) اسی روز حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنا خلیفہ ٔ نماز مقرر فرمایا اور وہ وفات شریف تک نماز پڑ ھا تے رہے۔ چھ یا سات دینا رجو حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس تھے وہ بھی حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایام مرض میں تقسیم فرمادیئے اور کچھ باقی نہ چھوڑ ا۔([146] ) وفات شریف کا وقت عین قریب
آپہنچا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثریوں وصیت فرماتے تھے: ([147] ) اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَا نُکُمْ۔([148] )نماز اور غلام۔
جب روح پاک نے جسم اطہر سے اعلیٰ عِلِّیِّین کی طرف پر واز کی تو الفاظ اللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی زبان مبارک پر تھے۔([149] )
واضح رہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال شریف دو شنبہ کے دن دو پہر ڈھلے ہوا۔ وصال شریف کے بعد زمین تا ریک ہو گئی۔ اس صدمہ سے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جو حال ہوا وہ بیان نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو غسل دیا۔ حضرت عباس وفضل بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پہلو بد لنے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی مدد کر رہے تھے اور قُثَم بن عباس اور اُسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا غلام شُقْران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پا نی ڈال رہے تھے۔ سوائے ـحضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے باقی سب آنکھوں پر رو مال با ند ھے ہوئے تھے تا کہ جسد شریف پر نظر نہ پڑے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کفن میں تین سو تی کپڑے سُحُول کے بنے ہو ئے تھے جن میں قمیص وعمامہ نہ تھا۔
شب چہار شنبہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دفن کیا گیا۔ تا خیر کی وجہ کئی امور تھے چنانچہ مہاجرین و انصار میں بیعت کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا، اس اختلاف کا فیصلہ ہو تے ہی اس امر میں اختلافِ آراء ہوا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کہاں دفن کیا جائے۔ قبر شریف میں لحد چاہیے یا شق۔ آخر کا ر حضرت ابوطلحہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے لحد کھودی۔ نماز جنازہ حجر ہ شریف کے اندر ہی بغیر امامت الگ الگ پڑ ھی گئی۔ پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے پھر بچو ں نے پھر غلاموں نے نماز پڑھی۔ بعد ازاں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بالاتفاق حجرہ شریف ہی میں جہاں وصال شریف ہو ا تھادفن کر دیا گیا۔ بنا بر قول اصح حضرت عباس وعلی و قُثَم وفضل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم
قبر شریف میں اترے۔ لحد کی اینٹیں کچی نو تھیں ۔ حضرت قُثَم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سب سے اَخیر میں قبر مبارک سے نکلے۔
حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بطور میراث کچھ نہیں چھوڑ اجو کچھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چھوڑ اوہ صدقہ ووقف تھا اور اس کا مصرف وہی تھا جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حیات شریف میں تھا، چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد مبارک ہے: لَا نُوْرِثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔([150] ) ہم (انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کسی کو وارث نہیں بنا تے جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ووقف ہے۔ (بخاری شریف، کتاب الجہاد)
حضرت عمرو بن حارث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے جوام المؤمنین جُوَیْرِیَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے بھائی تھے، یوں روایت ہے: مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِیْنَارًا وَّ لَا دِرْھَمًا وَّ لَا عَبْدًا وَّ لَا اَمَۃً وَّ لَا شَیْئًا اِلَّا بَغْلَتَہُ الْبَیْضَآئَ وَ سِلَاحَہٗ وَ اَرْضًا جَعَلَھَا صَدَقَۃً ۔([151] )رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی موت کے وقت نہ کوئی دینار چھوڑ انہ در ہم نہ غلام نہ لونڈی نہ کچھ اور مگر اپنا سفید خچر اور اپنا ہتھیار اور کچھ زمین جسے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صدقہ وو قف بنا دیا۔ (بخاری، کتاب الو صایا)
ابو داود میں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی روایت اس طرح ہے:مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِیْنَارًا وَّ لَا دِرْھَمًا وَّ لَا بَعِیْرًا وَّلَا شَاۃً ([152] )رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نہ کوئی دینا ر چھوڑ ا نہ در ہم نہ اونٹ نہ بکری۔
روایات مذکورہ بالا سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے متروکا ت میں ایک سفید خچر (دُلدُل ) کچھ ہتھیار اور زمین ( خیبر وفِدَک) تھی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ار شاد مبارک کے مطابق ان میں سے کسی میں قاعدۂ اِرث([153])جاری نہیں ہوا۔ اسی واسطے دُلدُ ل اور ذُوالفقار دونوں حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ
الْکَرِیْم کے پاس تھے۔ ورنہ بجا ئے علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے حضرت عباس وفاطمہ زہرا اور از واج مطہرات حقدار تھیں ۔ اَموالِ بنو نَضِیر وغیرہ پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قبضہ مالکانہ نہ تھا بلکہ مُتَوَلِّیَانَہ تھا۔ابو داؤد میں مالک بن اوس کی روایت میں حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاں تین صفایا تھیں ۔([154] ) ایک اموال بنونضیر، دوسرے خیبر، تیسرے فدک۔ اموال بنو نضیر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حوادث وحوائج([155] )کے لئے محبوس وموقوف تھے۔ فدک مسافروں کے لئے مخصوص تھا۔خیبر کی آمد نی کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین حصے کیے تھے۔ دوحصے مسلمانوں کے لئے اور ایک حصہ اپنی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے لئے مقرر کر دیا تھا۔اپنے اہل کے نفقہ میں سے جو کچھ بچ رہتاوہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فقراء ومہاجرین میں تقسیم فرمادیتے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد یہ جائیداد یں بحیثیت وقف حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زیر اہتمام رہیں ۔ انہوں نے ان میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرح تصرف کیا۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان پر اسی حیثیت سے دوسال قابض رہے پھر حضرت عباس وعلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے اصر ار پر مال بنو نضیر ان دونوں کی تولیت میں کر دیا اور خیبر وفدک کو اپنی تحویل میں رکھا۔ کچھ دنوں کے بعد تو لیت وتصرف میں شرکت حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ناگوار گز ری، وہ چاہنے لگے کہ تو لیت میں تقسیم ہو جائے تاکہ ہر ایک اپنے حصہ کے تصرف میں مستقل بن جائے۔ حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مانع ہوئے۔ اس لئے فیصلہ کے لئے دونوں دربار فاروقی میں حاضر ہوئے مگر حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تقسیم تو لیت سے انکار کر دیا۔ بعد از اں حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر غلبہ پا کر مال بنو نضیر کو اپنے تصرف میں کر لیا۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بعد حسن بن علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور پھر حسین بن علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ہاتھ میں رہا۔ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد علی بن حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور حسن بن حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا دونوں کے ہاتھ میں رہا۔ دونوں نوبت بہ نوبت اس میں تصرف
کرتے تھے۔ پھرزید بن حسن کے ہاتھ آیا۔([156] ) (صحیح بخاری )
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد خیبروفدک بحیثیت وقف عام حضرت عثمان غنی وعلی مرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے تصرف میں رہے۔ جب ۴۰ھ میں حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی امارت([157] )پر اِجماع ہو گیا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فدک مروان حاکم مدینہ کو دے دیا۔ شایدبدیں تاویل([158] ) کہ جو امر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مختص ہو وہی آپ کے خلیفہ کے لئے ہو تا ہے، چونکہ حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو خود تو ضرورت نہ تھی لہٰذا اپنے بعض اقرباء کے ساتھ سلوک کیا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ آخرالا مر خلیفہ عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی خلافت میں فدک کواسی حالت پر بحال کر دیاجس پر وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور خلفا ئے راشدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے عہد میں تھا۔ (طبقات ابن سعد) مزید تفصیل کے لئے تحفہ شیعہ مولفہ خاکسار دیکھو۔
متروکات مذکو رہ بالا کے سوااور اشیاء بھی تھیں جو بطور تبرک مختلف اشخاص کے پاس تھیں ۔ ان کا ذکر آثار شریفہ میں آئے گا۔ ان شَآء اللّٰہ تَعَالٰی ۔
ارباب سیّر نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گھوڑ وں ، خچروں ، درازگوشوں ، اونٹوں اور بکریوں کی جو لمبی فہرست دی ہے وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاں مختلف اوقات میں موجود تھے۔ مگر وفات شریف سے پہلے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو حسب عادت شریف ہبہ یا خیر ات کر دیا تھا۔ وفات شریف کے وقت صرف ایک سفید خچر یعنی دُلدُ ل باقی تھا جیسا کہ روایات مذکورہ بالا سے ظاہر ہے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حلیہ شریف کے بیان میں عرض مدعاسے پیشتر قارئین کرام کی آگاہی کے لئے امورذیل کا بتا دینا ضروری ہے:
{1}… ہمارا عقیدہ ہے کہ کمالِ خُلْق کی طرح کمالِ خِلْقَت میں بھی اللّٰہ تعالٰی نے کسی مخلوق کو حضور صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مثل پیدا نہیں کیا اور نہ کرے گا۔
لَمْ یَخْلُقِ الرَّحْمٰنُ مِثْلَ مُحَمَّدٖ اَ بَدًا وَّ عِلْمِیْ اَنَّہ ٗ لَا یَخْلُق([159] )
نہیں پیدا کیا اللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے مثل محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کبھی اور مجھے یقین ہے کہ وہ نہ پیدا کرے گا.
{2}…جن بزر گوں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حلیہ مبارک بیان کیا ہے انہوں نے اگرچہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوصاف کے بیان میں حسب طاقت بشر ی ابلغ انواع بلاغت واکمل قوانین فصاحت سے کام لیا ہے مگر غایت جسے وہ پہنچے ہیں یہی ہے کہ انہوں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صفات کی صرف ایک جھلک کا ادراک کیا ہے اور حقیقت وصف کے اِدر اک سے عاجز رہ گئے ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ صورتِ وَصف کو پیش کرسکتے ہیں نہ حقیقت ِوَصف کو کیونکہ حقیقت ِوَصف حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خالق ِبے چوں کے سوا کوئی نہیں جانتا، چنانچہ امام بو صیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ قصیدہ ہمزیہ میں فرماتے ہیں : ؎
اِنَّمَا مَثَّلُوْا صِفَا تَکَ لِلنَّاس کَمَا مَثَّلَ النُّجُوْمَ الْمَآئُ
انہوں نے صرف صورت دکھائی ہے تیری صفات کی لوگوں کو جیسا پانی صورت دکھا دیتا ہے ستا روں کی.
امام قرطبی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (متوفی ۶۷۱ھ) نے کتاب الصلوٰۃ میں کسی عارف کا کیا اچھا قول([160] ) نقل کیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کامل حسن ہمارے لئے ظاہر نہیں ہوا کیونکہ اگر ظاہر ہو جاتا تو ہماری آنکھیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دیدار کی تا ب نہ لا سکتیں ۔([161] )
{3}…حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اوصاف کے بیان میں جو تشبیہات وار دہوئی ہیں وہ صرف لوگوں کے سمجھانے کے لئے حسب عرف وعادتِ شعر اء استعمال ہو ئی ہیں کیونکہ حقیقت میں مخلوقات میں سے کوئی شے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صفات خَلقیہ وخُلقیہ کے مما ثل ومعادِل نہیں ۔
{4}…اعضائے شریف میں تو سط واعتدال جو حسن وجمال کا مدار اور فضل وکمال کا مبنیٰ ہے، بطور کلیہ ہر جگہ ملحوظ ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ سَیِّدِنَا
مُحَمَّدٍوَّاَصْحٰبِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ ۷بِقَدَرِ حُسْنِہٖ وَجَمَالِہٖ وَکَمَالِہٖ کُلَّمَا
ذَکَرَکَ وَذَکَرَہُ الذَّاکِرُوْنَ وَغَفَلَ عَنْ ذِکْرِکَ وَذِکْرِہِ الْغَافِلُوْنَ۔
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا رُوئے مبارک([162] )جو جمالِ الٰہی کا آئینہ اور اَنوارِ تجلی کا مَظہَر تھا، پُر گوشت اور کسی قدر گول تھا۔ اسی روئے مبارک کو حضرت عبد اللّٰہ بن سلام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ دیکھتے ہی پکار اُٹھے تھے: وَجْھُہٗ لَـیْسَ بِوَجْہِ کَذَّابٍ ۔([163] )ان کا چہرہ دَروغ گو کا چہرہ نہیں اور ایمان لا ئے تھے۔([164] )
حضرت بَر اء بن عازِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں سے بڑھ کر خوبر و اور خوش خو تھے۔([165] ) حضرت ہِند([166] ) بن ابی ہالہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان فرماتے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہر ۂ مبارک چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا تھا۔([167] )حضرت جابر بن سَمْرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو چاند نی رات میں دیکھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سرخ دھاری
دار حلہ([168] )پہنے ہو ئے تھے۔ میں کبھی چاند کی طرف دیکھتا اور کبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف بیشک میرے نزدیک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چاند سے زیادہ خوبصورت تھے۔([169] )
ابن عساکر ( متوفی ۷۱ ۵ھ ) نے حضرت عائشہ صد یقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی روایت سے نقل کیا ہے کہ میں سحر کے وقت سی رہی تھی، مجھ سے سو ئی گر پڑی، میں نے ہر چند تلاش کی مگر نہ ملی۔ اتنے میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روئے مبارک کے نور کی شعاع میں وہ سوئی نظر آئی، میں نے یہ ماجرا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اے حُمیرائ! ([170] ) سختی وعذاب ہے (تین دفعہ فرمایا ) اس شخص کے لئے جو میرے چہرے کی طرف دیکھنے سے محروم کیا گیا۔ ‘‘([171] )
حافظ ابو نُعَیم ( متو فی ۴۳۰ھ) نے بروایت عباد بن عبد الصمد نقل کیا ہے کہ اس نے کہاکہ ہم حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاں آئے۔آپ نے کنیز سے کہاکہ دسترخوان لا! تا کہ ہم چاشت کا کھانا کھائیں وہ لے آئی۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایاکہ رومال لا۔ وہ ایک میلا ر ومال لائی۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایاکہ تنور گرم کر۔ اس نے تنور گرم کیا پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حکم سے رومال اس میں ڈال دیاگیا۔ وہ ایسا سفید نکلا گویا کہ دودھ ہے۔ ہم نے حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے روئے مبارک کو مسح فرمایا کر تے تھے۔ جب یہ میلاہو جاتا ہے تو اسے ہم یوں صاف کر لیتے ہیں کیونکہ آگ اس شے پر اثر نہیں کرتی جو انبیاء عَلَیْہِمَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روئے مبارک پر سے گزری
ہو۔([172] )کسی شاعر نے کیا اچھا کہا ہے :
ہرچہ اسباب جمال است رخ خوب ترا ہمہ بر وجہ کمال است کما لایخفٰی
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک آنکھیں بڑی([173] )اور قدر ت الٰہی سے سُرمَگِیں ([174] )اور پلکیں دراز تھیں ۔ آنکھوں کی سفیدی میں باریک سرخ ڈور ے تھے۔ کتب سابقہ میں یہ بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ایک علامت ِنبوت تھی یہی وجہ تھی کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ۲۵سال کی عمر شریف میں خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرف سے ان کے غلام مَیْسَرہ کے ساتھ تجارت کے لئے ملک شام کا سفر کیا اور بصریٰ میں نَسْطُور راہب کے عبادت خانہ کے قریب ایک درخت کے نیچے اتر ے تو راہب مذکور نے مَیْسَرہ سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت یہ سوال کیا: ’’کیا ([175] )ان کی دونوں آنکھوں میں سر خی ہے؟‘‘ مَیْسَرہ نے جواب دیا: ہاں اور وہ سر خی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کبھی جدا نہیں ہوتی۔([176] )
اللّٰہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بصر شریف کا وصف قرآن مجید میں یوں مذکور فرمایا : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷) (سورۂ نجم ) ([177] )یعنی شب معراج میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھ مبارک نے ان آیات کو دیکھنے سے عدول و تجاوز نہ کیا کہ جن کے دیکھنے کے لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مامور تھے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ایسی غایت درجہ کی قوت ِبصارت عطا ہوئی تھی کہ آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس شے کو دیکھتے خواہ وہ غایت درجہ خفا میں ہو،([178] ) اسے یوں اِدراک فرماتے تھے کہ جس طرح وہ واقع اور نفس الا مر([179] ) میں ہوا کر تی۔([180] )
امام بیہقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (متوفی ۴۵۸ھ) نے بروایت([181] )ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نقل کیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اندھیری رات میں روشن دن کی طرح دیکھتے تھے۔([182] )حدیث صحیح([183] )میں آیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ مجھ سے تمہارا رکوع اور خشوع پو شید ہ نہیں ۔ میں تم کواپنی پیٹھ کے پیچھے دیکھتا ہوں ۔([184] )امام مجاہد (متوفی ۱۰۴ھ)نے([185] )’’ الَّذِیْ یَرٰىكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ(۲۱۸) وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ(۲۱۹) ‘‘(شعرآء ،ع ۱۱)([186] )کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ رسول اللّٰہ([187] ).صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنماز میں پچھلی صفوں کو یوں دیکھتے تھے جیسا کہ اپنے سامنے والوں کو۔([188] )احادیث مذکورہ بالا میں رُویت سے مراد رُویَتِ عَینی([189] )ہے جو اللّٰہ تعالٰی نے اپنے ـحبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو بطورِ خرقِ عادت([190] )عطا فرمائی تھی۔ جس طرح باری تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے
قلب شریف کو معقولات کے ادر اک میں احاطہ اور وسعت بخشی تھی اسی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حواس لطیف کو محسوسات کے احساس میں تو سیع عنایت فرمائی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فر شتوں اور شیاطین کو دیکھنا اور شب معراج کی صبح کو مکہ مشرفہ میں قریش کے آگے بیت المقدس کو دیکھ کر اس کا حال بیان فرمانا اور مسجد نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بننے کے وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مدینہ منورہ سے کعبہ مشرفہ کو دیکھنا، زمین کے مشارق ومغارب کو دیکھ لینا اور حضرت جعفر طیَّار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو شہادت کے بعد بِہِشْت میں فرشتوں کے ساتھ اُڑ تے دیکھنا، یہ تمام امور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قوت بینا ئی پر دلا لت کر تے ہیں ۔
غز وۂ اَحزاب میں خند ق کھود تے وقت ایک سخت پتھر حائل ہو گیا تھاجسے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کدال کی تین ضربوں سے اُڑادیا۔ پہلی ضرب پر فرمایاکہ میں یہاں سے شام کے سر خ محلات دیکھ رہا ہوں ۔ دوسری ضرب پر فرمایا کہ میں یہاں سے کسریٰ کا سفید محل دیکھ رہا ہوں ۔ تیسری ضرب پر فرمایا کہ اس وقت میں یہاں سے ابواب صنعاء کو دیکھ رہا ہوں ۔([191] )اسی طرح جب غزوۂ موتہ میں حضرات زید بن حارِثہ و جعفر بن ابی طا لب وعبد اللّٰہ بن رواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم یکے بعد دیگر ے بڑی بہادری سے لڑتے ہو ئے شہید ہو گئے تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ منورہ میں ان واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور بیان فرمارہے تھے۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بھویں درازو باریک تھیں اور درمیان میں دونوں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے ملی ہوئی معلوم ہو تی تھیں ۔ ان دونوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت حرکت میں آجاتی اور خون سے بھر جاتی۔([192] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناک مبارک خوبصورت اور دراز تھی اور درمیان میں اُبھراؤ نمایاں تھا
اور بن بینی (عِرْنین) ([193] )پر ایک نور دَر خشاں تھا۔ جو شخص بغور تا مل نہ کرتا اسے معلوم ہو تا کہ بلند ہے حالانکہ بلند نہ تھی۔ بلندی تو وہ نور تھا جواسے گھیر ے ہوئے تھا۔([194] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیشانی مبارک کشادہ تھی اور چراغ کی مانند چمکتی تھی۔ چنانچہ حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے: ([195] )
مَتٰی یَبْدُ فِی اللَّیْلِ الْبَھِیْمِ جَبِیْنُہٗ بَلَجَ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَی الْمُتَوَ قِّدٖ([196] )
جب اندھیری رات میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیشانی ظاہر ہوتی تو تاریکی کے روشن چراغ کی مانند چمکتی۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہر دو گوش مبارک ([197] )کا مل وتا م تھے۔قوت بصر کی طرح اللّٰہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قوت سمع بھی بطر یق خرق عادت غایت درجہ کی عطا کی تھی۔ اسی واسطے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمصحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرماتے کہ میں جو دیکھتا ہوں ([198] ) تم نہیں دیکھ سکتے اور میں جو سنتا ہوں تم نہیں سن سکتے۔ میں تو آسمان کی آواز بھی سن لیتا ہوں ۔([199] )
آواز ِآسمان کی طرح آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آسمان کے درواز ے کے کھلنے کی آواز بھی سن لیتے تھے چنانچہ ایک روز حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ ناگاہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نے اپنے اوپر کی طرف سے ایک آوازسنی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سر مبارک اٹھایا تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیاکہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج ہی کھلاہے ،آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا۔ ([200] ) الحدیث ([201] )
منہ مبارک فراخ، رُخسار مبارک ہموار، دَندان ہائے پیشین ([202] )کشادہ اور رَو شن وتاباں ، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکلام فرماتے تو دَندان ہائے پیشینمیں سے نور نکلتا د کھائی دیتا تھا۔ بزَّار (متوفی ۲۹۲ھ) وبیہقی نے بروایت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نقل کیا ہے کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ضِحک ([203] ) فرماتے تو دیواریں روشن ہو جاتیں ۔ ([204] )آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کبھی جمائی ([205] )نہیں آئی۔ ([206] )
حضرت عمیرہ بنت مسعود انصاریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا روایت کر تی ہیں کہ میں اور میری پانچ بہنیں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قدید( خشک کیا ہوا گوشت) کھارہے تھے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چبا کر ایک ٹکڑا ان کو دیا، انہوں نے بانٹ کر کھا لیا مرتے دم تک ان میں سے کسی کے منہ میں بو ئے نا خوش پیدا نہ ہوئی اور نہ کوئی منہ کی بیماری ہوئی۔ ([207] )
غزوۂ خیبر ([208] )کے روز حضرت سلمہ بن الا کوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پنڈلی میں ایسی ضرب شدید لگی کہ لوگوں کو
گمان ہوا کہ شہید ہو گئے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین بار اس پر دم کر دیا۔([209] )پھر پنڈلی میں کبھی درد نہ ہوا۔([210] )
ایک روز ایک بد زبان عورت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قدید تناول فرما رہے تھے۔ اس نے سوال کیا کہ مجھے بھی دیجئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جو قدید سامنے پڑا ہوا تھا اس میں سے دیا۔ اس نے عرض کیا کہ اپنے منہ میں سے دیجئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منہ سے نکال کر اسے دیا وہ کھاگئی اس روز سے فحش اور کلام قبیح اس سے سننے میں نہ آیا۔([211] )
مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ بے شمار پیشگو ئیاں اورد عوات جو پوری اور قبول ہوئیں وہ اسی منہ مبارک سے نکلی ہو ئی تھیں ۔
یوم حدیبیہ میں چاہِ حدیبیہ کا تمام پانی لشکر اسلام نے (جوبقول حضرت براء بن عازب چودہ سو تھے۔) نکال لیا اس میں ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا اور وضو کر کے پانی کی ایک کلی کوئیں میں ڈال دی اور فرمایا کہ ذراٹھہرو۔ اس کوئیں میں اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ حدیبیہ میں قریباً بیس روز قیام رہا، تمام فوج اور ان کے اونٹ اسی سے سیر اب ہو تے رہے۔([212] )
حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے منہ مبارک کا لعاب زخمی اور بیماروں کے لئے شفاء تھا چنانچہ فتح خیبر کے دن آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا لعابِ دَہن حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی آنکھوں
میں ڈال دیا تو وہ فوراً تندر ست ہو گئے گویا درد چشم کبھی ہواہی نہ تھا۔
غار ثور میں حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاؤں کو کسی چیز نے کاٹ کھایا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا لعابِ دہن زخم پر لگا یا اسی وقت درد جاتا رہا۔
حضرت رِفاعہ بن رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ بدر کے دن میری آنکھ میں تیر لگا اور وہ پھوٹ گئی۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس میں اپنا لعاب مبارک ڈال دیا اور دعا فرمائی۔ پس مجھے ذرا بھی تکلیف نہ ہوئی اور آنکھ با لکل د رست ہو گئی۔([213])
حضرت محمد بن حاطب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ پر ہنڈیا گر پڑی اور وہ جل گیا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا لعاب مبارک اس پر ڈالا اور دعا کی وہ ہاتھ چنگا ہو گیا۔
حضرت عمرو بن معاذ بن جموح انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا پاؤں کٹ گیا تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس پر اپنا لعابِ مبارک لگا دیا۔ وہ اچھا ہو گیا۔([214] )
حضرت ابو قتادہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کر تے ہیں کہ غز وۂ ذی قرد (محرم ۷ھ) میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے چہرے میں یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیاکہ ایک تیر لگا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ نزدیک آؤ۔ میں نزدیک ہوا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس پر لعاب دہن لگادیا۔ اس روز سے مجھے کبھی تیروتلوارنہیں لگی اور نہ خون نکلا۔([215] )
ایک دفعہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس پانی کا ڈول لایا گیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے پیا۔ پس خوردہ([216] ) کوئیں میں ڈال دیا گیا۔ پس اس میں سے کستوری کی سی خوشبو نکلی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خادم حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر میں ایک کوآں ([217] ) تھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا لعاب دہن اس میں ڈال دیا۔ اس کا پانی ایسا شیریں ہو گیا کہ تمام مدینہ منورہ میں اس سے بڑھ کر میٹھا کوئی کوآں ([218] ) نہ تھا۔
عاشورا کے روز حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بچوں کو بلا کر ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے اور ان کی ماؤں سے فرما دیتے کہ شام تک ان کو دودھ نہ دینا۔ پس وہی لعاب دہن ان کو کافی ہوتا۔([219] )
حضرت عامر بن کریز قریشی عبشمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے صاحبز ادے عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بچپن میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں لائے۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالنے لگے اور وہ اسے نگلنے لگے۔ اس پر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ یہ مَسْقی (سیراب ) ہے۔ حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب کسی زمین (یاپتھر ) میں شگاف کیا کرتے تو پانی نکل آیا کر تا۔([220] )
عُتْبَہ بن فَرقَد جنہوں نے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد مبارک میں موصل کو فتح کیا ان کی بیوی اُم عاصم بیان کر تی ہے کہ عتبہ کے ہاں ہم چار عورتیں تھیں ۔ہم میں سے ہر ایک خوشبو لگانے میں کوشش کر تی تھی تا کہ دوسری سے اَطیب ہو اور عتبہ کوئی خو شبو نہ لگا تا تھامگر اپنے ہا تھ سے تیل مل کر ڈاڑ ھی کو مل لیتا تھا اور ہم سب سے زیادہ خوشبودار تھا۔ جب وہ باہر نکلتا تو لوگ کہتے کہ ہم نے عتبہ کی خو شبو سے بڑ ھ کر کوئی خوشبو نہیں سو نگھی۔ ایک دن میں نے اس سے پو چھا کہ ہم استعمالِ خوشبو میں کوشش کرتی ہیں اور تو ہم سے زیادہ خوشبودار ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ اس نے جواب دیاکہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عہد مبارک میں میرے بدن پر آبلہ ریز ے([221] ) نمودار ہوئے، میں خدمت
نبوی میں حاضر ہوا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس بیماری کی شکایت کی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ کپڑے اتا ر دو۔ میں نے کپڑے اتا ردیئے۔ ([222] ) اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اپنا لعاب مبارک اپنے دست مبارک پر ڈال کر میری پیٹھ اور پیٹ پر مل دیا۔ اس دن سے مجھ میں یہ خوشبو پیدا ہو گئی۔ ([223])اس حدیث کو طبر انی (متوفی ۳۶۰ ھ) نے اوسط میں روایت کیا ہے۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم افصح الخلق تھے اور فصاحت میں خارقِ عادت حد کو پہنچے ہو ئے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جوامع کلم، بدائع حکم، امثال سائرہ، دررمنثورہ، قضایائے محکمہ، وصایائے مبرمہ اور مواعظ ومکاتیب ومناشیر مشہور آفاق ہیں ، ان کی تفصیل کا یہ محل نہیں ۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام تمہارے کلام کی مانند نہ تھا کہ بو جہ عجلت سامع پر مُلْتَبس ([224] ) ہو بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام واضح اور مبین ایسا تھاکہ پاس بیٹھنے والا اسے یاد کر لیتا۔ ([225] )
حضرت اُم مَعْبَد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حلیہ شریف بیان کیا ہے اس میں یوں ہے: ’’آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام ([226] ) شیریں ، حق وباطل میں فرق کر نے والا، نہ حد سے کم نہ حد سے زیادہ، گویا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام لڑی کے موتی ہیں جو گر رہے ہیں ۔‘‘ ([227] )
حافظ ابن حجر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ (متوفی۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی
حیات شریف میں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں سے کوئی اصم یعنی بہرا نہ تھا اور یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کرامات میں سے ہے کیونکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمان کے لئے احکامِ الٰہی کے مُبَلِّغ تھے اور بہر اپن اس کام کے سہو لت کے ساتھ ہونے سے مانع ہو تا ہے۔ برعکس نا بینا ئی کے کہ وہ مانع نہیں ہو تی۔([228] )
تمام انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوبرو اور خوش آواز تھے مگر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان سب سے زیادہ خوبرو([229] ) اور خوش آواز تھے۔([230] ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز میں ذر اگرانی پا ئی جاتی تھی جو اَوصافِ حمید ہ میں شمار ہوتی ہے۔ خوش آواز ہو نے کے علاوہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بلند آواز اتنے تھے کہ جہاں تک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز شریف پہنچتی اور کسی کی آواز نہ پہنچتی تھی۔ بالخصوص خطبوں میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز شریف گھر وں میں پر دہ نشین عورتوں تک پہنچ جا تی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر پر رونق افر وز ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حاضر ین سے فرمایاکہ خطبہ سننے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ اس آواز کو حضرت عبد اللّٰہ بن رواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جو شہر مدینہ میں قبیلہ بنی غَنَم میں تھے سن لیا اور ار شاد نبوی کی تعمیل میں وہیں اپنے مکان میں دوزانوہو بیٹھے۔([231] ) حضرت عبد الرحمن بن معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منیٰ میں خطبہ پڑھاجس سے ہمارے کان کھل گئے یہاں تک کہ ہم اپنی اپنی جگہ پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام مبارک سنتے تھے۔ حضرت ام ہانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ہم آدھی رات کے وقت حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قرأت سنا کر تے تھے حالانکہ میں مکان کے اندر چارپائی پر ہو اکرتی تھی۔([232] )
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عمومًاتبسم فرمایا کر تے تھے۔ تبسم مبادی ضحک سے ہے اور ضحک کے معنی چہرہ کا انبساط([233] )ہے یہاں تک کہ خوشی سے دانت ظاہر ہوجائیں ۔ اگر آواز کے ساتھ ہو اور دور سے سنا جائے اسے قَہقَہَہ کہتے ہیں ۔ اگر آواز تو ہو اور دور سے نہ سنا جائے تو ضَحِک کہتے ہیں ۔ اگر بالکل آواز نہ پا ئی جائے تو اسے تبسم بولتے ہیں ۔ پس یوں سمجھئے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثر اوقات تبسم کی حد سے تجاو زنہ فرماتے۔ شاذ و نادر ضحک کی حد تک پہنچتے کیونکہ کثرت ضحک دل کو ہلاک کر دیتی ہے اور قہقہہ کبھی نہ مارتے کیونکہ یہ مکر وہ ہے۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گریہ شریف ضحک کی جنس سے تھاکہ آواز بلند نہ ہو تی تھی مگر آنسو مبارک آنکھوں سے گر پڑتے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سینہ شریف سے دیگ مِسِی([234] )کے جوش کی سی آواز سنی جاتی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گر یہ مبارک صفت جلالِ الٰہی کی تجلی اور اُمت پر شفقت اور میت پر رحمت کے باعث ہوا کر تا اور اکثرقرآن شریف کے سننے سے اور کبھی کبھی نماز شب میں بھی ہوا کر تا۔([235] )آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انگڑائی کبھی نہیں لی۔
سر مبارک بڑا تھا۔ یہ وہی سر مبارک ہے کہ جس پر قبل بعثت بطر یق اِرہاص([236] )وکرامت گرما میں بادل سایہ کیے رہتا تھا۔ چنانچہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مائی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاں پر ورش پارہے تھے تو
وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کسی دور جگہ نہ جانے دیتی تھیں ۔ ایک روز وہ غافل ہوگئیں اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی رضاعی بہن شَیماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ دو پہر کے وقت مو یشیوں میں تشریف لے گئے۔ مائی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا تلاش میں نکلیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شَیماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ساتھ پایا۔ کہنے لگیں :ایسی تپش میں ؟ شَیماء بولی: ’’اماں جان! میرے بھائی نے تپش محسوس نہیں کی، میں نے دیکھاکہ بادل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ کرتا تھا جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ٹھہر جاتے تو بادل بھی ٹھہر جاتا اور جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تو وہ بھی چلتا، یہی حال رہا یہاں تک کہ ہم اس جگہ آپہنچے ہیں ۔‘‘ مائی حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے پوچھا: بیٹی! کیا یہ سچ ہے؟ شَیماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جواب دیا: ’’ہاں خدا کی قسم۔‘‘ ([237] ) اسی طرح جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارہ برس کی عمر شریف میں اپنے چچا ابوطالب اور دیگر شیوخ قریش کے ساتھ ملک شام میں تشریف لے گئے تو بحیرا راہب کے عباد ت خانے کے قریب اترے۔ اس راہب نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہچا ن لیا اور کھانا تیار کرکے لایا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بلوایا۔ پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لا ئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بادل سایہ کیے ہوئے تھا۔([238] )
گردن مبارک کیا تھی گو یا بت عاج([239] )کی گر دن تھی، چاند ی کی ما نند صاف۔([240] )
کف دست([241] )اور بازو مبارک پُر گوشت تھے۔حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی ریشم یا
دیبا([242] )کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کف مبارک سے زیادہ نرم نہیں پا یا اور نہ کسی خوشبو کو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔([243] )
جس شخص سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مصافحہ کر تے وہ دن بھر اپنے ہاتھ میں خوشبو پا تا اور جس بچہ کے سر پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنا دست مبارک رکھ دیتے وہ خوشبو میں دوسر ے بچوں سے ممتاز ہوتا۔ چنانچہ حضرت جابر بن سَمُرہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ نماز ظہر پڑھی پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اہل خانہ کی طرف نکلے،میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ نکلا، بچے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے آئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمان میں سے ہر ایک کے رخسار کو اپنے ہاتھ مبارک سے مسح فرمانے لگے۔ میرے رخسار کو بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسح فرمایا۔ پس میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک کی ٹھنڈک یا خوشبو ایسی پائی کہ گو یا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا ہاتھ عطّار کے صند وقچہ سے نکالا تھا۔([244] )
حضرت وَائل بن حجر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ جب میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مصافحہ کرتا تھا یا میرا بد ن آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدن سے مس کر تا تو میں اس کا اثر بعد ازاں اپنے ہاتھ میں پا تا اور میرا ہاتھ کستوری سے زیادہ خوشبو دار ہو تا۔ حضرت یز ید بن اَسود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا ہاتھ مبارک میری طرف بڑھا یا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ برف سے ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے۔([245] )
حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہاتھ وہ مبارک ہاتھ تھاکہ ایک مشت خاک کفار پر پھینک دی([246] ) اور ان کو شکست ہو ئی۔ یہ وہی دست کرم تھا کہ کبھی کوئی سائل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دروازے سے محروم نہیں پھرا۔ یہ وہی دست شفاتھاکہ جس کے محض چھونے سے وہ بیماریاں جاتی رہیں کہ جن کے علاج سے اطباء عاجز ہیں ۔ اسی مبارک ہاتھ میں سنگ ریز وں([247] )نے کلمہ شہادت پڑھا۔اسی مبارک ہاتھ کے اشارے سے فتح مکہ کے روز تین سو ساٹھ بت([248] ) یکے بعد دیگر ے منہ کے بل گر پڑے۔ اسی مبارک ہاتھ کی ایک انگلی کے اشارے سے چاند([249] )دوپارہ ہو گیا۔ اسی مبارک ہاتھ کی انگلیوں سے([250] )متعد ددفعہ چشمہ کی طرح پانی جاری ہوا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک کی مزید برکات کی تشریح کے لئے ذیل میں چند مثالیں اور درج کی جاتی ہیں :
{1}… حضرت اَبْیَض بن حَمَّال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہر ے پر داد تھاجس سے چہر ے کا رنگ بدل گیا تھا ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو بلا یا اور ان کے چہرے پر اپنا دست شفا پھیر ا۔شام نہ ہو نے پائی کہ دادکا کوئی نشان نہ رہا۔([251] )
{2}… حضرت شُرَحْبِیْل جُعْفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ہتھیلی میں ایک گلٹی سی تھی جس کے سبب سے وہ تلوار کا قبضہ اور گھوڑے کی باگ نہیں پکڑسکتے تھے۔ انہوں نے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے شکایت کی۔ آپ نے اپنی ہتھیلی سے اس
گلٹی کور گڑا پس اس کا نشان تک نہ رہا۔([252] )
{3}… ایک عورت اپنے لڑکے کو خدمت اقدس میں لائی اور عرض کیاکہ اس کو جنون ہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیر ا۔لڑکے کوقے ہوئی اور اس میں ایک کا لا کتے کا پِلّا نکلا اور فوراً آرام ہو گیا۔([253] )
{4}… جنگ احد میں حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھ کو صد مہ پہنچا اور ڈیلا رخسار پر آپڑا۔ تجویز ہوئی کہ کاٹ دیا جائے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دریافت کیا گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ایسا نہ کرواور انہیں بلا کر اپنے دست مبارک سے ڈیلے کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ آنکھ فوراً ایسی درست ہو گئی کہ کوئی یہ نہ بتا سکتا تھاکہ دونوں میں سے کس آنکھ کو صدمہ پہنچا تھا۔([254] )
{5}… حضرت عبد اللّٰہ بن عَتِیک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب ابو رافع یہودی کو قتل کر کے اس کے گھر سے نکلے تو زینے سے گر کر ان کی ساق([255] )ٹوٹ گئی۔ انہوں نے اپنے عمامہ سے باندھ لی۔ جب آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایاکہ پاؤں پھیلا ؤ۔حضرت عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے پاؤں پھیلایا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس پر اپنا دست ِشفا پھیرااسی وقت ایسی تندرست ہوگئی کہ گویا کبھی وہ ٹوٹی ہی نہ تھی۔([256] )
{6}… حضرت عائذبن سعید جسری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ میرے چہرے پر اپنا مبارک ہاتھ پھیر دیجئے اور دعا ئے برکت فرمائیے۔حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایسا ہی کیا اس وقت سے حضرت عائذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکا چہرہ ترو تازہ اور نورانی رہا کرتا تھا۔([257] )
{7}…آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عبد الرحمن وعبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا پسرانِ عبد کے لئے دعا ئے برکت فرمائی اور دونوں کے سر وں پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا۔وہ دونوں جب سر منڈایا کر تے تو جس جگہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مبارک ہاتھ رکھا تھا اس پر باقی حصے سے پہلے بال اُگ آتے۔([258] )
{8}… جب حضرت عبد الرحمن بن زید بن خطاب قرشی عَدَوِی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُپیدا ہوئے تو نہایت ہی کوتاہ قد تھے۔ ان کے نانا حضرت ابولُبَابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت بابر کت میں لے گئے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تَحْنِیْک([259] )کے بعد ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیر ا اور دعائے برکت فرمائی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب کسی قوم میں ہو تے تو قدمیں سب سے بلند نظر آتے۔([260] )
{9}… رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت قتا دہ بن مِلحان قَیْسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرے پر اپنا دست مبارک پھیرا، جب وہ عمر رسید ہ ہو گئے تو ان کے تمام اعضاء پر کُہْنَگی([261] )کے آثار نمایاں تھے مگر چہرہ بدستور تروتازہ تھا۔([262] )
{10}… آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قیس بن زید بن جبار([263] )جذامی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سر پر اپنا دست مبارک پھیر ااور دعا ئے برکت فرمائی۔ حضرت قیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے سو برس کی عمر میں وفات پائی۔ ان کے سر کے بال سفید ہوگئے تھے مگر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک کی جگہ کے بال سیاہ ہی رہے۔([264] )
{11}… جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی تو راستے میں ایک غلام چرواہے سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دودھ طلب کیا۔ اس نے جواب دیاکہ میرے پاس کوئی دودھ دینے والی بکری نہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک بکری پکڑلی اور اس کے تھن پر اپنا دست مبارک پھیرا۔ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کا دودھ دوہا اور دونوں نے پیا۔ غلام نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پو چھا کہ آپ کون ہیں ؟ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں خدا عَزَّوَجَلَّکا رسول ہوں ۔ یہ سن کر وہ ایمان لا یا۔([265] )اسی طرح حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اُم مَعْبَد کی بکری کے تھن پر اپنا دست مبارک پھیرا اور اس نے دودھ دیا ،جیسا کہ اس کتاب میں پہلے آچکا ہے۔
{12}… حضرت مالک بن عمیر سلمی شاعر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیاکہ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں شا عرہوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شعر کے بارے میں کیا فتویٰ دیتے ہیں ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اگر تیرے سر سینہ سے کندھے تک پیپ سے بھر جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھراہو۔ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میری خطابطریق مسح([266] )دور کردیجئے۔ یہ سن کرحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے سر اور چہرے پر اپنا مبارک ہاتھ پھیر اپھر میرے جگر پر پھر پیٹ پر پھیر ایہاں تک کہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک کے مَبْلَغ سے شرمندہ ہو تا تھا۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت مالک بن عمیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بو ڑھے ہوگئے یہاں تک کہ ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید ہو گئے مگر سر اور ڈاڑ ھی میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاتھ مبارک کی جگہ کے بال سفید نہ ہوئے۔([267] )
{13}… حضرت مدلوک فزاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کابیان ہے کہ میرا آقا مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گیا۔ میں اسلام لایا تو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے دعا ئے برکت دی اور میرے
سر پر اپنا دست مبارک پھیرا۔ میرے سر کا وہ حصہ جسے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک نے مس کیا تھاسیاہ ہی رہاباقی تمام سر سفید ہوگیا۔([268] )
{14}… حضرت مُعاوِیہ بن ثوربن عُبادَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو ئے۔ان کے صاحبزادے بِشْر بن مُعاوِیہ ساتھ تھے۔ حضرت مُعاوِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیاکہ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بِشْر کے چہرے پر اپنا دست مبارک پھیر دیجئے۔ چنانچہ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بِشْر کے چہرے کو مسح کیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مسح کا نشان حضر ت بِشْر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پیشانی میں غُرَّہ کی مانند تھا([269] )اور وہ جس بیمار پراپنا ہاتھ پھیر دیتے اچھا ہو جاتا۔ حضرت بِشْر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے صاحبزادے محمد بن بِشْر اس بات پر فخر کیا کر تے تھے کہ میرے باپ کے سر پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دست مبارک پھیرا تھا، چنانچہ یوں کہا کر تے تھے:
وَ اَبِی الَّذِیْ مَسَحَ النَّبِیُّ بِرَاْسِہٖ وَ دَعَا لَہٗ بِالْخَیْرِ وَ الْبَرَکَات
میرا باپ وہ ہے کہ پیغمبر خدا نے ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیر ا اور ان کے لئے دعا ئے خیر وبر کت فرمائی ۔([270] )
{15}… حضرت یزید بن قُنَافہ طائی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اَقرع (گنجے ) تھے۔رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے سر پر ہاتھ مبارک پھیر ا اسی وقت بال اُگ آئے۔اسی واسطے ان کا لقب ہُلْب (بَسیارمو) ([271] ) ہو گیا۔ ابن دُرَید کا قول ہے کہ وہ اَقرع تھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک کی بر کت سے اَفرع (مردِتمام مو) ([272] ) ہو گئے۔([273] )
{16}… یَسار بن اُزَیْہِر جُہَنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ذکر کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے
سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور مجھے دو چادریں پہنا دیں اور ایک تلوار عطا فرمائی۔ حضرت یسار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی صاحبزادی عَمْرَہ کا بیان ہے کہ میرے باپ کے سر میں سفید بال نہ آئے یہاں تک کہ انہوں نے وفات پائی۔([274] )
{17}… حضرت ابو زید بن اَخطب اَنصاری خزرجی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر اور چہرے پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا مبارک ہاتھ پھیراسو سال سے زائد ان کی عمر ہوگئی مگر سر اور ڈاڑھی میں کوئی سفید بال نہ تھا۔([275] )
{18}… حضرت ابو سِنان عبدی صباحی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہر ے پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دست مبارک پھیرا ان کی عمر نوے برس کی ہوگئی مگر چہر ہ بجلی کی طرح چمکتا تھا۔([276] )
{19}… حضرت ابو غَزْوان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُحالت کفر میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابو غزوان۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے لئے سات بکریوں کا دودھ دوہا اور وہ سب پی گئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو دعوت اسلام دی وہ مسلمان ہو گئے پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے سینے پر اپنا ہاتھ مبارک پھیر دیا دو سرے روز صبح کے وقت صرف ایک بکری دوہی گئی وہ اس کابھی تمام دودھ نہ پی سکے۔([277] )
{20}… حضرت سَہْل بن رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ دو صاع کھجور یں بطو ر زکوٰۃ اور اپنی لڑکی عَمِیْرَہ کو لے کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت بابر کت میں حاضرہوئے اور عرض کیا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرے حق میں اور لڑکی کے حق میں دعائے خیر فرمائیں اور اس لڑکی کے سر پر اپنا مبارک ہاتھ پھیر دیں ۔ عَمِیْرَہ کا قول ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا ہاتھ مبارک مجھ پر رکھا۔ میں اللّٰہ کی قسم کھاتی ہوں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مبارک ہاتھ کی ٹھنڈک بعد میں میرے کلیجے پر رہی۔([278] )
{21}…حضرت سائب بن یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا آزاد کر دہ غلام عطا ء بیان کر تا ہے کہ میں نے حضرت سائب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کودیکھاکہ ان کی ڈاڑ ھی کے بال سفید تھے مگر سر کے بال سیاہ تھے۔ میں نے پوچھا: آقا! آپ کے سر کے بال سفید کیوں نہیں ہوتے؟ انہوں نے جواب دیاکہ ایک روز میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھاحضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لڑکوں کو سلام کیا۔ ان میں سے میں نے سلام کا جواب دیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے بلا یا اور اپنا مبارک ہاتھ میرے سرپر رکھ کر فرمایا: ’’اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تجھ میں برکت دے۔‘‘ پس حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک کی جگہ پر سفید بال کبھی نہ آئیں گے۔([279] )
{22}… حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کر تا تھا۔ ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: لڑکے! کیا تیرے پاس دودھ ہے؟ میں نے کہاکہ ہاں ! لیکن میں امین ہوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کیا تیرے پاس کوئی ایسی بکری ہے جس پر نرنہ کودا ہو؟ میں نے جواب دیاکہ ہاں ۔ پس میں نے ایک بکری پیش کی جس کا تھن نہ تھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تھن کی جگہ پر اپنا دست مبارک پھیر ا۔ ناگاہ ایک دودھ بھر اتھن نمودار ہوا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دودھ دوہااور حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور مجھ کو پلا یاپھر تھن سے ارشاد فرمایا کہ سکڑ جا۔ پس وہ ایسا ہی ہو گیاجیسا کہ پہلے تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کیاکہ یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے تعلیم دیجئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے سر پر ہاتھ پھیر ااور دعا ئے برکت دے کر فرمایاکہ تو تعلیم یا فتہ لڑکا ہے۔ پس میں اسلام لایا۔([280] )
{23}… حضرت محمدبن انس بن فضالہ انصاری اوسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ذکر کرتے ہیں کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینے میں تشریف لا ئے تو میں دو ہفتے کا تھامجھے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے سر پر دست مبارک پھیر ا اور دعا ئے برکت فرمائی اور ارشاد
فرمایاکہ اس کا نام میرے نام پر رکھومگر میری کنیت نہ رکھو۔ ان کے صاحبزادے یو نس کا قول ہے کہ میرے والد بو ڑ ھے ہو گئے اور ان کے تمام بال سفید ہوگئے مگر سر کے بال جن پر دست مبارک پھرا تھا سفید نہ ہوئے۔([281] )
{24}… حضرت عُبَادَہ بن سَعَد بن عثمان زُرَقی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی۔ انہوں نے اَسّی سال کی عمر میں وفات پائی اور کوئی بال سفید نہ ہوا۔([282] )
{25}… حضرت بشر (یا بشیر) بن عقربہ جہنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میرے والد مجھ کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گئے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پو چھا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا بَحِیْرہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایاکہ نزدیک آؤ۔ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دائیں ہاتھ بیٹھ گیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیر ا اور مجھ سے پوچھاکہ تمہارا کیا نام ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرانام بَحِیْرہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: نہیں بلکہ تمہارا نام بشیر ہے۔ میری زبان میں لکنت تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیالکنت جاتی رہی۔ میرے سر کے تمام بال سفید ہو گئے مگر جن بالوں پر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا دست مبارک پھرا تھا وہ سیاہ ہی رہے۔([283] )
{26}…آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خزیْمَہ بن عاصِم عُکْلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرے پر اپنا دست مبارک پھیرا ان کے چہر ے پر پِیری([284] )کے آثار نمودار نہ ہوئے یہاں تک کہ وفات پائی۔([285] )
{27}…حضرت فراس بن عمر وکنانی لیثی([286] )رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد کے ساتھ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور دردِ سر کی شکایت کی ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فراس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کو اپنے سامنے بٹھایا اور ان کی آنکھوں کے درمیانی چمڑے کوپکڑ کر کھینچا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک انگلیوں کی جگہ بال اُگ آئے اور درد جاتا رہا۔ انہوں نے حرور ائ([287] )کے دن خوارج کے ساتھ نکلنا چاہا ان کے والد نے ان کو کو ٹھڑ ی میں بند کر دیا، وہ بال گر گئے جب توبہ کی تو پھر اُگ آئے۔([288] )
{28}… حضرت عمرو بن تَغْلِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرے اور سر پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دست مبارک پھیرا انہوں نے سو بر س کی عمر میں وفات پائی مگر چہرے اور سر کے وہ بال جن کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاتھ مبارک نے چھواتھاسفید نہ ہوئے۔([289] )
{29}… حضرت اُسید بن اَبی اِیاس([290] )کنانی دئلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے سینے پر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنا دست مبارک رکھااور چہرے پرپھیرا ۔ وہ تاریک گھر میں داخل ہو تے تو روشن ہو جاتا۔([291] )
{30}… حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نکاح حضرت زینب بنت جحش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے ہواتو میری ماں ام سلیم نے خُرما([292] )اور گھی اور پنیر سے حَیْس([293] )تیار کیا اور اسے ایک تور([294] )میں ڈال دیا۔ پھر کہا: انس! اس کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں لے جا۔ وہاں عرض کرناکہ یہ میری ماں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے بھیجا ہے وہ سلام کہتی ہے اور عرض کر تی ہے کہ یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ تھوڑا ساکھانا ہماری طرف سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کے لئے ہے۔ میں خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ماں نے جو کچھ کہا تھا عرض کر دیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کورکھ دو اور فلاں فلاں فلاں (تین شخصوں ) کو بلا لاؤ، اور جو او رملیں ان کو بھی لے آؤ۔ میں نے تعمیل ارشاد کی۔ واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر اہل خانہ سے بھر اہوا ہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دست مبارک اس حیس پر رکھا اور دعا ئے برکت فرمائی۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حاضر ین میں سے دس دس کو بلاتے رہے اور فرماتے رہے کہ اللّٰہ کا نام لے کر کھاؤ اور ہر ایک اپنے سامنے سے کھائے۔ اس طرح ایک گر وہ نکلتا اور دوسرا آجاتا یہاں تک کہ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: اَنس ! اُٹھا ؤ۔ میں نے اُٹھا لیا۔ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ جب تو ر رکھا گیاتو اس وقت کھا نا زیادہ تھا یا جب اٹھایا گیا۔ بقولِ اَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حاضرین کی تعداد تین سو تھی۔([295] )
{31}… جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرماکر مدینے میں رونق اَفروز ہوئے تو اس وقت حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک یہودی کے ہاں بطور غلام کام کرتے تھے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد سے انہوں نے اس یہودی سے اس امر پر مُکاتَبَت([296] ) کر لی کہ وہ اس یہودی کو چالیس اُوقیہ سونا ادا کریں اور اس کے لئے کھجوروں کے تین سو پودے لگا کر پرورش کریں یہاں تک کہ وہ بار آور ہوں ۔ جب حضرت سلمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ خبر دی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا کہ سلمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مدد کر و۔ چنانچہ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے پودے دے دیئے اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے مبارک ہاتھ سے ان کو لگا یا۔ وہ سب لگ گئے اور اسی سال پھل لائے۔ ایک روایت میں ہے کہ تین سو پودوں میں سے ایک کسی([297] )اور نے لگایا۔ وہ پھل نہ لا یا تو حضور صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے اکھا ڑ کر اپنے دست مبارک سے پھر لگا دیا۔ وہ بھی دوسروں کے ساتھ ہی پھل لا یا۔([298] ) آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں کسی کان سے مرغی کے انڈے کے برابر سونا آیا تھا، وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سلمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو عطا فرمایا۔ سلمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ اس کو چالیس اوقیہ کے ساتھ کیا نسبت ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ یہی لے جاؤ اللّٰہ تعالٰی اسی کے ساتھ تمہارا قرض ادا کر دے گا۔ چنانچہ وہ لے گئے اور اسی میں سے چالیس اوقیہ([299] ) تول کر یہودی کو دے دیئے۔([300] ) اس طرح حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آزاد ہوگئے۔
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بغل شریف سفید تھی اور اس سے کسی قسم کی نا خوش بو نہ آتی تھی بلکہ کستور ی کی مانند خوشبو آیا کر تی تھی ۔
آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سینہ مبارک کشادہ تھا۔ آپ کا قلب شریف پہلا قلب شریف ہے جس میں اَسرارِاِلٰہیہ اور معارف ربانیہ ودیعت رکھے گئے۔ کیونکہ آپ بو جود صورتِ نوری سب سے پہلے پیدا کیے گئے۔ صدرِ معنوی کی شرح اور قلب اقدس کی وسعت کا بیان طاقت بشری سے خار ج ہے۔ چار دفعہ فرشتوں نے آپ کے صدرِ مبارک کو شق کیا اور قلب شریف کو نکال کر دھویا اور اسے ایمان وحکمت سے بھر دیا۔ اسی کی طرف اللّٰہ تبارک و تعالٰی اپنے قرآن پاک میں یوں ارشاد فرماتا ہے:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱)
کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا ۔([301] )
یہی وجہ ہے کہ جو اسر ار آپ کے قلب شریف کو عطا ہو ئے وہ کسی اور مخلوق کو عطا نہیں ہوئے اور نہ کسی اور مخلوق کا قلب اس کا متحمل ہو سکتا تھا۔حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے قلب شریف کی نسبت یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ میری آنکھ سو جاتی ہے مگر میرادل نہیں سو تا۔([302] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سواء البطن والصد ر تھے یعنی آپ کا شکم اور سینہ مبارک ہموار وبر ابر تھے۔نہ تو شکم سینہ سے اور نہ سینہ شکم سے بلند تھا۔ حضرت اُم ہانی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شکم مبارک کو دیکھاگو یا کاغذہیں ایک دو سرے پر رکھے ہوئے اور تہہ کیے ہوئے۔([303] )
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بول وبر از بلکہ تمام فضلا ت پاک تھے جیسا کہ احادیث کثیرہ سے ثابت ہے۔([304] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی پشت مبارک ایسی صاف وسفید تھی کہ گویا پگھلا ئی ہوئی چاندی ہے،([305] ) ہر دوشانہ([306])کے درمیان ایک نورانی گوشت کا ٹکڑا تھاجو بدن شریف کے باقی اجزاء سے ابھرا ہو اتھا۔ اسے مہرِ نبوت یا خاتم نبوت کہتے تھے۔ کتب سابقہ میں آپ کی علامات نبوت میں ایک یہ بھی مذکور تھی۔ حلیہ مبارک بیان کر نے والوں نے اس کی ظاہر ی شکل وصورت کے بیان کرنے میں اسے کئی چیزوں (مثلاً بیضۂ کبوتر یا تکمۂ چھپر کھٹ یا گر ہِ گو شت سر خ وغیرہ ) سے تشبیہ دی ہے تاکہ لوگ سمجھ لیں ۔ سچ پو چھوتویہ ایک سرِّ عظیم([307] )اور نشان عجیب تھاجو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مختص تھاکہ جس کی حقیقت کو رب العزت کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ ؎
نبوت را توئی آں نامہ درپشت کہ از تعظیم داردمہر بر پشت
ہر دوپائے مبارک سِطَبر([308] )و پُر گو شت اور خوبصورت ایسے کہ کسی انسان کے نہ تھے اور نر م و صاف ایسے کہ ان پر پانی ذر ا بھی نہ ٹھہر تا بلکہ فوراً گر جاتا۔ ایڑیاں کم گوشت ہر دوساق مبارک([309] ) باریک وسفید ولطیف گو یا شحم النخل([310] )یعنی کھجور کا گا بھا([311] )ہیں ۔([312] )جب آپ چلتے تو قدم مبارک کو قوت و تَثَبُّت([313] )اور وقار تو اضع سے اٹھا تے جیسا کہ اہل ہمت وشجاعت کا قاعدہ([314] )ہے۔ حضرت ابوہریرہ([315] ) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ چلنے میں میں نے آنحضرت سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ گویا آپ کے لئے زمین لپٹتی جاتی تھی۔ ہم دوڑا کرتے اور تیز چلنے میں مشقت اٹھاتے اور آپ بآسانی وبے تکلف چلتے مگر پھر بھی سب سے آگے رہتے۔([316] ) بعض دفعہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اصحاب کے ساتھ چلنے کا قصد فرماتے تو اس صورت میں اصحاب آپ کے آگے ہوتے اور آپ عمداً([317] )ان کے پیچھے ہوتے۔([318] )اور فرماتے ہیں کہ میری پیٹھ فرشتوں کے لئے خالی چھوڑ دو۔([319] )
حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاؤں مبارک وہ قدم مبارک ہیں کہ جب آپ پتھر پر چلتے تو وہ نرم([320] )ہو جاتا۔ تا کہ آپ بآسانی اس پر سے گزر جائیں ۔ اور جب ریت پر چلتے تو اس میں پا ئے مبارک کا نشان نہ ہوتا۔ یہ وہی قدم مبارک ہیں جن کی محبت میں کو ہِ احد وکو ہِ ثَبِیر حرکت میں آئے۔ یہ وہی قدم مبارک ہیں کہ قیام شب میں ورم کر آتے تھے۔ یہ وہی قدم مبارک ہیں کہ مکہ اور بیت المقدس کو ان سے شرف زائد حاصل ہوا۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نہ بہت درازتھے نہ کو تا ہ قدبلکہ میانہ قد مائل بہ درازی تھے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہٗ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت درازقد نہ تھے اور مائل بہ درازی ہونے کے سبب اوسط قدسے زیادہ تھے مگر جب لوگوں کے ساتھ ہو تے تو سب سے بلند وسر فراز ہوتے۔([321] )حقیقت میں یہ آپ کا معجزہ تھاکہ جب علیحد ہ ہو تے تو میانہ قدمائل بہ درازی ہو تے اور جب اوروں کے ساتھ چلتے یا بیٹھتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے۔([322] )تا کہ باطن کی طرح ظاہر وصورت میں بھی کوئی آپ سے بڑا معلوم نہ ہو۔
آپ کی قامت زیبا کا سایہ نہ تھا اس کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ آپ کے اسمائے مبارک میں سے ایک اسم شریف نور ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورۂ مائد ہ میں ہے:
قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)
البتہ تمہارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک نوراور کتاب واضح آئی۔([323] )
اور ظاہر ہے کہ نور کا سایہ نہیں ہو تا۔ حکیم ترمذی (متوفی ۲۵۵ھ) نے نوادر الا صول میں بر وایت ذکو ان (تا بعی) نقل کیا ہے کہ دھوپ اور چاندنی میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔ امام ابن سبع کا قول ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا اور آپ نور تھے۔ لہٰذا جب آپ دھوپ یا چا ند کی روشنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے کہ جس میں مذکور ہے کہ جب آپ نے یہ دعامانگی کہ اللّٰہ میرے تمام اعضاء اور جہات میں نور کر دے تو دعا کو اس قول پر ختم فرمایا: ([324] ) وَاجْعَلْنِی نُوْراً۔([325] ) (اور مجھ کو نور بنا دے )۔ زر قانی([326] )میں مذکور ہے کہ حدیث ذکوان مر سل ہے۔ مگر ابن مبارک وابن جوزی نے بروایت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نقل کیا ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نہ تھا۔ جب آپ دھوپ میں کھڑے ہو تے تو آپ کی روشنی سورج کی روشنی پر غالب آتی اور جب چراغ کے سامنے کھڑے ہوتے تو چراغ کی روشنی پر غالب آتی۔بعض کا قول ہے کہ آپ کا سایہ نہ ہو نے میں یہ حکمت تھی کہ آپ کے سایہ کو کوئی کا فر پامال نہ کرے۔([327] ) ؎
ماہ فروماند از جمال محمد سرو نروید باعتدال محمد
رنگ مبارک گورا اور روشن وتاباں مگر اس میں کسی قدر سر خی ملی ہوئی تھی۔ بعض روایتوں میں جو آ پ کو’’اَسْمَرُاللَّوْن’‘ یعنی گند م گوں لکھا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے۔
آپ کی جلد مبارک نرم تھی۔ایک وصف ذاتی حضور میں یہ تھا کہ خوشبو لگائے بغیر آپ سے ایسی خوشبو آتی تھی کہ کوئی خوشبو اس کو نہ پہنچ سکتی تھی۔آپ کی والد ہ ماجد ہ فرماتی ہیں کہ جب آپ پیدا ہوئے تو میں نے غور سے آپ کی
طرف نگاہ کی کیا دیکھتی ہوں کہ آپ چودھویں رات کے چاند کی مانند ہیں اور آپ سے تیز بو کستور ی کی طرح خوشبو([328] ) آرہی ہے۔([329] )حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی کستور ی یا عبیر([330] )کو بوئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے خوش تر نہ پایا۔([331] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کر تے ہیں کہ ایک شخص رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت ِ اقدس میں آیا اور عرض کیاکہ یا رسول اللّٰہ میں نے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا ہے میں اسے اس کے خاوند کے گھر بھیجنا چاہتاہوں میرے پاس کوئی خوشبو نہیں آپ کچھ عنایت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس موجود نہیں مگر کل صبح ایک چو ڑے منہ والی شیشی اور کسی درخت کی لکڑی میرے پاس لے آنا۔ دوسرے روز وہ شخص شیشی اور لکڑی لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اپنے دونوں بازوؤں سے اس میں اپنا پسینہ ڈالنا شروع کیایہاں تک کہ وہ بھرگئی پھر فرمایاکہ اسے لے جااپنی بیٹی سے کہہ دیناکہ اس لکڑی کو شیشی میں ترکر کے مل لیا کرے۔ پس جب وہ آپ کے پسینہ مبارک کو لگا تی تمام اہل مدینہ کو اس کی خوشبو پہنچتی یہاں تک کہ ان کے گھر کا نام بیت الْمُطَیِّبِیْن ( خوشبو والوں کا گھر ) ہوگیا۔([332] )
حضور کے خادم حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے ہاں تشریف لائے اور قیلولہ فرمایاحالت خواب میں آپ کو پسینہ آگیامیری ماں ام سلیم نے ایک شیشی لی اور آپ کا پسینہ مبارک اس میں ڈالنے لگی آپ جاگ اٹھے اور فرمانے لگے: ام سلیم! تو یہ کیاکرتی ہے؟ اس نے عرض کیا: ’’یہ آپ کا پسینہ
ہے۔([333] )ہم اس کو اپنی خو شبو میں ڈالتے ہیں اور وہ سب خوشبو ؤں سے خو شبود ار بن جا تی ہے‘‘۔([334] )دوسری روایت مسلم میں ہے کہ ام سلیم نے یوں عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم اپنے بچوں کے لئے آپ کے عرق مبارک کی برکت کے امیدوار([335] )ہیں ۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تو نے سچ کہا۔‘‘([336] )اس سے معلوم ہوا کہ حضور کے عرق مبارک کو بچوں کے چہرے اور بدن پر مل دیا کر تے تھے اور وہ تمام بلاؤں سے محفوظ رہا کرتے تھے۔
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ([337] )سے روایت ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ منورہ کے کسی کو چہ میں سے گز رتے تو گز رجا نے کے بعد بھی آنے جانے والوں کو اس کو چہ سے خوشبو آتی اور وہ سمجھ جاتے کہ اس کوچہ میں سے آپ کا گزر ہواہے۔([338] )باقی حال لعاب مبارک اور دست مبارک میں آچکا ۔ یہاں اس کے اِعادہ کی ضرورت نہیں ۔
اب بھی مدینہ منورہ کے درودیوار سے خوشبو ئیں آرہی ہیں جنہیں محبان وعاشقانِ جنابِ رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شامَّۂ محبت سے محسوس کر تے ہیں ۔ ابن بَطَّا ل کا قول ہے([339] )کہ جو شخص مدینہ منورہ میں رہتا ہے وہ اس کی خاک اور دیو اروں سے خوشبو محسوس کر تا ہے۔ اور اَشبِیلی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا ہے کہ خاکِ مدینہ میں ایک عجیب مہک ہے جو کسی خوشبو میں نہیں ۔ اور یا قوت نے کہا ہے کہ مِنجملہ خصائصمَدینہ اس کی ہو اکا خوشبو دار ہونا ہے اور وہاں کی بارش میں بو ئے خوش ہو تی ہے جو کسی اور جگہ کی بارش میں نہیں ہوتی۔ ابو عبد اللّٰہ عطا ر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
بِطِیْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ طَابَ نَسِیْمُھَا فَمَا الْمِسْکُ مَا الْکَافُوْرُ مَا الصَّنْدَلُ الرَّطْبُ ([340] )
رسول اللّٰہ کی خوشبوسے نسیم مدینہ خوشبو دار ہو گئی۔ پس کیا ہے کستور ی، کیا ہے کا فور، کیا ہے عطر صند ل تروتازہ۔([341] )
امام ابن سبع([342] )نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے خصائص میں شمار کیا ہے کہ آپ کے کپڑوں پر مکھی نہ بیٹھتی اور آپ کو جوں ایذاء نہ دیتی۔([343] )یعنی آپ کے کپڑوں میں جوں نہ ہوتی کہ آپ کو ایذاء دے۔ کیونکہ جوں عُفُونت([344] ) اور پسینے سے پیدا ہو تی ہے اور حضور تو نور اور اَطیب الناس([345] )تھے اور آپ کا پسینہ خوشبو دار ہو تا تھااسی طرح بو جہ لطافت آپ کے بدن مبارک پر کپڑا میلا نہ ہو تا تھا۔
علامہ دمیری نے اپنے منظو مہ فی الفقہ میں لکھا ہے کہ جن چو پا یوں پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوار ہو ئے، آپ کی سواری کی حالت میں انہوں نے کبھی پیشاب نہ کیا اور جس چو پا یہ پر آپ سوار ہوئے وہ آپ کی حیات میں کبھی بیمار نہ ہوا۔
سر مبارک کے بال نہ تو بہت گھونگر والے تھے اور نہ بہت سید ھے بلکہ دونوں کے بین بین([346] ) تھے۔ان بالوں کی درازی میں مختلف روایتیں آئی ہیں ۔کانوں تک، کانوں کے نصف تک، کا نوں کی لوتک، شا نہ مبارک کے نزدیک تک، شانوں تک۔ ان سب روایتوں میں تطبیق یوں ہے کہ ان کو مختلف اوقات واحوال پر محمول کیا جائے۔ یعنی جب آپ کٹوا دیتے تو کان تک رہ جاتے پھر بڑھ کر نصف گو ش یانر مۂ گوش([347] ) یا شانہ تک پہنچ جا تے۔ اگر مو ئے مبارک خود بخود پراگند ہ
ہو جاتے([348] ) تو آپ ان کو دو حصے بطورمانگ کر لیتے اور اگر ازخود نہ بکھر تے تو بحال خود رہنے دیتے اور بہ تکلف مانگ نہ نکالتے۔
ڈاڑھی مبارک گھنی تھی اسے کنگھی کر تے اور آئینہ دیکھتے اور سونے سے پہلے آنکھوں([349] ) میں تین تین بار سرمہ ڈالتے۔ مونچھ مبارک کو کٹوایاکرتے اور فرماتے([350] ) تھے کہ مشرکین کی مخالفت کرو۔ یعنی ڈاڑ ھیوں کو بڑھاؤ اور مو نچھوں کو خوب کٹواؤ۔([351] ) اخیر عمر شریف میں آپ کی ریش مبارک([352] ) اور سر مبارک میں قریباً بیس بال سفید تھے۔ گلے اور ناف کے درمیان بالوں کا ایک بار یک خط تھااس کے سوا شکم مبارک اور پستان مبارک پر بال نہ تھے۔ دونوں بازوؤں اور شانوں اور سینہ مبارک کے بالائی حصہ میں بال زیادہ تھے۔ موئے مبارک کا باقی حال آثار شریفہ کی تعظیم کے تحت میں آئے گا۔ اِنْ شآء اللّٰہ تعالٰی۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا عام لباس([353] ) چادر، قمیص اور تہبند تھا۔یمن کی دھا ری د ار چادر یں جن کو عربی میں حِبَرَۃٌ([354] ) کہتے ہیں سب سے زیادہ پسند فرماتے تھے۔ بعض اوقات آپ نے اُونی جبہ شامیہ استعمال فرمایا ہے جس کی آستینیں اس قدرتنگ تھیں کہ وضو کے وقت ہاتھ آستینوں سے نکالنے پڑتے تھے۔ جبہ کسر وانی بھی پہن لیتے
تھے جس کی جیب اور دونوں چاکو ں پر دیبا کی سنجاف([355] )تھی۔ ایسی اونی چادر بھی آپ نے پہنی ہے جس پر کجاوہ کی شکل بنی ہو ئی تھی۔ سفید لباس پسند اور سرخ ناپسند فرماتے تھے۔ پاجا مہ آپ نے کبھی نہیں پہنا۔
عمامہ کا شملہ چھوڑا کر تے اور کبھی نہ چھوڑا کر تے۔ شملہ اکثر دونوں شانوں کے بیچ میں اور کبھی شانہ مبارک پر پڑا رہتا۔ بعض وقت عمامہ میں تحنیک فرماتے۔ یعنی دستار مبارک کا ایک پیچ بائیں جانب سے ٹھوڑی مبارک کے نیچے سے گزار کر سر مبارک پر لپیٹ لیتے۔ عمامہ اکثر سیاہ رنگ کا ہو تا تھا۔ عمامہ کے نیچے سر سے لپٹی ہوئی ٹوپی ہوا کر تی۔ اونچی ٹوپی آپ نے استعمال نہیں فرمائی۔
نعلین شریفین چپلی کی شکل کی تھیں ۔ ہر ایک کے دو دو تسمے دہر ی تہ والے تھے۔ ایک تسمہ انگو ٹھے اور متصل کی انگلی مبارک کے بیچ میں اور دوسرا اُنگشت میانہ اور بِنْصَر([356] )کے بیچ میں ہوا کرتا۔ یہ وہی نعلین شریفین ہیں کہ شب معراج میں جب حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عرش پر تشریف لے گئے تو بقول صو فیائے کرام باری تعالٰی کا ارشاد ہواکہ نعلین سمیت عرش کو شرف بخشئے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
لَدَی الطُّوْرِ مُوْسٰی نُوْدِیَ اخْلَعْ وَ اَحْمَدٗ عَلَی الْعَرْشِ لَمْ یُوْذَنْ بِخَلْعِ نِعَالِہٖ
طور کے پاس حضرت موسیٰ کو آواز آئی کہ پاپوش([357] )اُتار لیجئے اور حضرت احمد کو عرش پر پاپوش اُتارنے کی اجازت نہ ملی۔
ہر ایک مسلمان کی یہ آرزو ہوتی ہے اور ہو نی چاہیے کہ اس دنیا میں بھی حالت خواب یا حالت بیدار ی میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت سے مشرف ہو۔ لہٰذا ہم ذیل میں ایک درود شریف درج کر تے ہیں ۔ جو شخص اس درود شریف کو ہرروز سو نے سے پہلے با وضوبا ادب اور حضورِ قلب سے تین بار پڑھے گا اِنْ شآء اللّٰہ تعالٰیچالیس دن کے اندر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت سے مشرف ہوگا۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی نُوْرِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَنْوَارِ وَصَلِّ عَلٰی رُوْحِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَرْوَاحِ وَصَلِّ عَلٰی جَسَدِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَجْسَادِ وَصَلِّ عَلٰی رَأْسِ مُحَمَّدٍ فِی الْرُّئُ وْسِ وَصَلِّ عَلٰی وَجْہِ مُحَمَّدٍ فِی الْوُجُوْہِ وَصَلِّ عَلٰی جَبِیْنِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَجْبُنِ وَصَلِّ عَلٰی جَبْھَۃِ مُحَمَّدٍ فِی الْجِبَاہِ وَصَلِّ عَلٰی عَیْنِ مُحَمَّدٍ فِی الْعُیُوْنِ وَصَلِّ عَلٰی حَاجِبِ مُحَمَّدٍ فِی الْحَوَاجِبِ وَصَلِّ عَلٰی جَفْنِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَجْفَانِ وَصَلِّ عَلٰی اَنْفِ مُحَمَّدٍ فِی الْاُنُوْفِ و صَلِّ عَلٰی خَدِّ مُحَمَّدٍ فِی الْخُدُوْدِ وَصَلِّ عَلٰی صُدْغِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَصْدَاغِ وَصَلِّ عَلٰی اُذُنِ مُحَمَّدٍ فِی الْاٰذَانِ وَصَلِّ عَلٰی فَمِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَفْوَاہِ وَصَلِّ عَلٰی شَفَۃِ مُحَمَّدٍ فِی الشِّفَاہِ وَصَلِّ عَلٰی سِنِّ مُحَمَّدٍ فِی الْاَسْنَانِ وَصَلِّ عَلٰی لِسَانِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَلْسِنَۃِ وَصَلِّ عَلٰی ذَقَنِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَذْقَانِ وَصَلِّ عَلٰی عُنُقِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَعْنَاقِ وَصَلِّ عَلٰی صَدْرِ مُحَمَّدٍ فِی الصُّدُوْرِ وَصَلِّ عَلٰی قَلْبِ مُحَمَّدٍ فِی الْقُلوْبِ وَصَلِّ عَلٰی یَدِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَیْدِیْ وَصَلِّ عَلٰی کَفِّ مُحَمَّدٍ فِی الْاَکُفِّ وَصَلِّ عَلٰی اِصْبَعِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَصَابِعِ وَ صَلِّ عَلٰی زَنْدِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَزْنَادِ وَصَلِّ عَلٰی ذِرَاعِ مُحَمَّدٍ فَی الْاَذْرُعِ وَصَلِّ عَلٰی مِرْفَقِ مُحَمَّدٍ فِی الْمَرَافِقِ وَ صَلِّ عَلٰٰی عَضُدِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَعْضَادِ وَصَلِّ عَلٰی اِبْطِ مُحَمَّدٍ فِی الْاٰبَاطِ وَصَلِّ عَلٰی مَنْکَبِ مُحَمَّدٍ فِی الْمَنَاکِبِ وَ صَلِّ عَلٰی کَتِفِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَکْتَافِ وَصَلِّ عَلٰی تَرْقُوَۃِ مُحَمَّدٍ فِی الْتَرَاقِیْ وَصَلِّ عَلٰی کَبِدِ مُحَمَّدٍ فَی الْاَکْبَادِ وَصَلِّ عَلٰی ظَہْرِ مُحَمَّدٍ فِی الظُّھُوْرِ وَصَلِّ عَلٰی فَخِذِ مُحَمَّدٍ فَی الْاَفْخَاذِ وَصَلِّ عَلٰی رُکُبَۃِ مُحَمَّدٍ فِی الرُّکَبِ وَصَلِّ عَلٰی سَاقِ مُحَمَّدٍ فِی السُّوْقِ وَصَلِّ عَلٰی کَعْبِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَکْعُبِ وصَلِّ عَلٰی عَقَبِ مُحَمّدٍ فِی الْاَعْقَابِ وَصَلِّ عَلٰی قَدَمِ مُحَمَّدٍ فَی الْاَقْدَامِ وَصَلِّ عَلٰی شَعْرِ مُحَمَّدٍ فِی الشُّعُوْرِ وَ صَلِّ عَلٰی لَحْمِ مُحَمَّدٍٍ فِی اللُّحُوْمِ وَصَلِّ عَلٰی عِرْقِ مُحَمَّدٍ فِی الْعُرُوْقِ وَصَلِّ عَلٰی دَمِ مُحَمَّدٍ فِی الدِّمَآئِ وَصَلِّ عَلٰی عَظْمِ مُحَمَّدٍ فِی الْعِظَامِ وَصَلِّ عَلٰی جِلْدِ مُحَمَّدٍ فِی الْجُلُوْدِ وَصَلِّ عَلٰی لَوْنِ مُحَمَّدٍ فِی الْاَلْوَانِ وَصَلِّ عَلٰی قَامَۃِ مُحَمَّدٍ فِی الْقَامَاتِ وَبَارِکْ وَسَلِّم عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَاَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّاتِہٖ اَفْضَلَ صَلٰوۃٍ واَکْمَلَ بَرَکَۃٍ وَّاَزْکٰی سَلَامٍ بِعَدَدِ کُلِّ مَعْلُوْمٍ لَّکَ وَعَلَیْنَا مَعَھُمْ کُلَّمَا ذَکَرَکَ وَذَکَرَہُ الذَّاکِرُوْنَ وَغَفَلَ عَنْ ذِکْرِکَ وَذِکْرِہِ الْغَافِلُوْنَ ۔
اہل سنت و الجماعت کا عقید ہ ہے کہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام بالخصوص حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی اپنی قبر وں میں زندہ ہیں بحیات حقیقیہ دنیویہ۔ قرآن مجید میں جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی موت کی خبر ہے وہ موت عادی ہے جس سے مخلوقات میں سے کسی کو چارہ نہیں ۔ اسی عادی موت کے بعد اللّٰہ تعالٰی نے پیغمبر وں کو حیات بخش دی ہے۔ اَحادیث صحیحہ سے انبیا وشہداء کے واسطے اس حیات کا دائمی ہوناثابت ہے۔
ابن تَیمِْیَّہ کے وقت سے ایک فر قہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ انبیاء بھی دوسرے مر دہ اشخاص کی طرح زمین کے نیچے مد فون اور مر دہ ہیں ۔ اس لئے مدینہ منورہ میں روضہ شریف پر حاضر ہو نا اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وسیلے سے طلب ِحاجات بے کاروبے سود ہے۔ چنانچہ ابن تَیمِْیَّہ کا بڑا شاگر دابن القیم اپنی کتاب عقائد یعنی قصیدہ نونِیَّہ (مطبوعہ مصرص ۱۴۱ ) میں یوں لکھتا ہے :
من فوقہ اطباق ذاک الترب واللبنا ت قد عرضت علی الجدران
لو کان حیا فی الضریح حیاتہ قبل الممات بغیر فرقان
و ما کان تحت الارض بل من فو قھا و اللّٰہ ھذہ سنۃ الرحمان
(ترجمہ) حضرت نبی پر ڈھیر وں مٹی اور اینٹیں ہیں ،دیو ار یں بنی ہو ئی ہیں ،ا گر آپ قبر شریف میں ویسے ہی زندہ ہو تے جیسے موت سے پہلے تھے توزمین کے نیچے نہ ہو تے بلکہ اس کے اوپر ہوتے۔ واللّٰہ عادت اللّٰہ یہی ہے۔(انتہیٰ)([358] )
تو سل اور زیارتِ رَوضہ اَقدس کی بحث آگے آئے گی اِنْ شآء اللّٰہ تعالٰی۔ یہاں صرف حیاتِ اَنبیاء کرام بالخصوص حیاتِ حضور سید المر سلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ثبوت پیش کر نا مقصود ہے۔
قرآنِ کریم میں شُہَداء کرام کی حیات کی نص موجود ہے۔ اَنبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام شُہَدائِ عِظام سے یقینا افضل ہیں ۔ان میں وصف نبوت کے ساتھ بالعموم وصف شہادت بھی پا یا جاتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وفات شریف کے وقت یوں فرمایا:یاعائشۃ ما ازال اجد الم الطعام الذی اکلت بخیبر
فھذا اوان وجدت انقطاع ابھری من ذلک السّم۔([359] )اے عائشہ ! مجھے خیبر کے کھانے کی تکلیف برابر رہی ہے اور اب میری رگ جان([360] )اسی زہرسے منقطع ہو تی ہے۔
اس سے ثابت ہو اکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نبوت کے ساتھ شہادت کا در جہ بھی حاصل ہے۔لہٰذا آپ سید المر سلین ہو نے کے ساتھ سید الشُہَداء بھی ہو ئے۔ پس آپ کی حیات شُہَداء کی حیات سے اکمل ہے بایں ہمہ([361] ) آپ کو مردہ کہنا کیسی گستاخی ہے حالانکہ قرآن کریم میں شُہَداء کی نسبت ار شاد باری تعالٰی ہے کہ ان کو مر دہ نہ کہو۔
علامہ سَمْہودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ وَفاء الو فاء ( جزء ثانی، ص ۴۰۵ ) میں لکھتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّموفات کے بعدزندہ ہیں ۔ اسی طرح دیگر انبیاء بھی اپنی اپنی قبر وں میں زندہ ہیں ایسی حالت کے ساتھ جو شہداء (جن کی حیات کی اللّٰہ تعالٰی نے اپنی کتاب عزیز میں خبردی ہے) کی حیات سے اَکمل ہے اور ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سید ا لشہداء ہیں اور شہد اء کے اعمال آپ کی میزان میں ہیں ۔ انتہیٰ۔([362] )
احادیث صحیحہ سے بھی حیاتِ اَنبیاء کا ثبوت ملتا ہے جن میں سے چند ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
{۱}… عَنْ اَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِنَّ مِنْ اَفْضَلِ اَیَّا مِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فِیْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِیْہِ قُبِضَ وَفِیْہِ النَّفْخَۃُ وَفِیْہِ الصَّعْقَۃُ فَاَکْثِرُوْا عَلَیَّ مِنَ الصَّلٰوۃِ فِیْہِ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ مَعْرُوْ ضَۃٌ عَلَیَّ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ صَلٰوتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ اَرِمْتَ قَالَ یَقُوْلُوْنَ بَلِیْتَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَ رْضِ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَآء ۔ رو اہ ابوداوٗد والنسائی وابن ماجہ والدارمی والبیھقی فی الد عوات الکبیر۔([363] ) (مشکوٰۃ،باب الجمعۃ)
حضرت اَوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کہ تمہارے افضل ایام میں سے جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے اور اسی میں قبض کیے گئے اس میں نفخۂثانیہ اور نفخۂ اُولٰیہے۔ پس تم اس دن مجھ پر درود زیادہ بھیجوکیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا:
یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارادرود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا حالانکہ آپ بو سید ہ ہڈیاں ہوں گے۔ (قول راوی) صحابہ کی مراد اَرِمْتَ سے بَلِیْتَ ( بو سید ہ ہوں گے۔ ) ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ پیغمبر وں کے جسموں کو کھا ئے۔ اسے ابو داؤدو نسائی وابن ما جہ ودارمی نے اور بیہقی نے دعوات الکبیر میں روایت کیا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام جسموں کے ساتھ زند ہ ہیں کیونکہ صحابۂ کرام نے جب حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا یہ ار شاد سنا کہ تمہارا درود مجھ پر عرض کیا جاتا ہے([364] ) تو ان کو شبہ ہوا کہ آیا یہ عرض بعد وفات شریف صرف روح پر ہو گایا روح مع الجسد پر۔ کیونکہ انہوں نے خیال کیا کہ جسد نبی دوسرے اشخاص کے جسد کی مانند ہے۔ پس اس کے جواب میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرما دیا کہ میرا جسد دوسرے اشخاص کے جسد کی مانند نہیں کیونکہ پیغمبر وں کے جسم کو مٹی نہیں کھا تی۔ پس وہ سمجھ گئے کہ یہ عرض روح مع الجسد پر ہو گالہٰذا حیات انبیاء بعد وفات ثابت ہے۔
{۲}… عن ابی الدرداء قال قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکْثِرُوا الصَّلٰوۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْہُوْدٌ تَشْہَدُہُ الْمَلٰئِکَۃُ واِنَّ اَحَدًا لَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ عَلَیَّ صَلَاتُہٗ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْہَا قَالَ قُلْتُ وَبَعْدَ الْمَوْتِ قَالَ وَبَعْدَ الْمَوْتِ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَأْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ۔ رواہ ابن ماجہ۔([365] )
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: مجھ پر جمعہ کے دن درود زیادہ بھیجا کروکیونکہ وہ دن حاضر کیا گیا ہے۔ حاضر ہو تے ہیں اس میں فرشتے، تحقیق کو ئی مجھ پردرود نہیں بھیجتامگر اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہوجائے۔ کہا ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے: میں نے عرض کیا ،کیا موت کے بعد بھی ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے زمین پر حرام کر دیا کہ پیغمبر وں کے جسموں کو کھا ئے۔ پس اللّٰہکے نبی زندہ ہیں رزق دئیے جاتے ہیں ۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
اس حدیث سے انبیاء کی حیات بحیات حقیقیہ دنیویہ بعد الوفات ثابت ہے اس میں حی کے ساتھ یرزق بطور تاکید ہے کیونکہ رزق کی حاجت جسم کو ہو تی ہے۔ علامہ سیو طی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ‘’ شَرْحُ الصُّدُ ور’‘ میں نقل کرتے ہیں :
{۳}… و اخرج ابو یعلی و البیھقی و ابن مندۃ عن انس اَنَّ النَّبِیَّصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْاَنْبِیَائُ اَحْیَائُ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ ۔([366] )
اور ابویعلی اور بیہقی اور ابن مَنْدَ ہ نے حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کیا ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ انبیاء زندہ ہیں اپنی قبر وں میں نماز پڑ ھتے ہیں ۔
علامہ سَمْہود ی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے وفاء الو فاء میں اس حدیث کو نقل کر کے لکھا ہے کہ روایت ِابو یعلی کے راوی ثقہ ہیں اور بیہقی نے اسے مَعَ التصحیح نقل کیا ہے۔ اس کے شواہد سے صحیح مسلم میں روایت ِحضرت ِاَنس ہے کہ رسول ا للّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں (شب معراج میں ) موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر گزرا وہ اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے۔(انتہی ) اسی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے شب معراج میں بیت المقدس میں انبیاء کرام کی جماعت کرائی اور آسمانوں میں ان کو دیکھا۔([367] ) مسئلہ حیات انبیاء کی تائید صحیح مسلم کی روایت ابن عباس سے بھی ہو تی ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وادیِ اَز ْرَق([368] ) سے گز رے۔فرمایا یہ کو نسی وادی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: وادیٔ ازرق ہے۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں گو یا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھ رہا ہوں کہ گھاٹی سے اتر تے ہو ئے لبیک کہہ رہے ہیں ۔ پھر وادیٔ ہرشا پر پہنچ کر حضور نے فرمایا: یہ کونسی گھاٹی ہے؟صحابہ نے عرض کیا: یہ وادی ہرشا ہے۔ حضور نے فرمایا: گو یا میں یونس عَلَیْہِ السَّلَام کو سرخ بالوں والی اونٹنی پر دیکھتا ہوں کہ صوف کا جبہ پہنے ہو ئے ہیں ۔ مُہار([369] ) کھجور کی چھا ل کی رسی کی ہے۔([370] )
اولیا ء کرام میں بہت سی مثالیں ایسے بزرگوں کی ملتی ہیں جو رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حالت بیدار ی میں دیکھا کر تے تھے۔ بخوفِ طوالت یہاں ان کا حال درج نہیں کر تے۔ علامہ جلا ل الدین سیو طی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے رسالہ تنو یر الملک میں وہ احادیث و اقوال صلحاء نقل کر تے ہیں جو حالت خواب اور حالت بیداری ہر دو میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رویت کے امکان پر دلالت کر تے ہیں ۔ بعد ازاں یوں فرماتے ہیں کہ ان تمام احادیث واقوال سے ثابت ہو گیاکہ حضور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے جسم اقدس اور روح شریف کے ساتھ زندہ ہیں اور وہ تصرف فرماتے ہیں جہاں چاہتے ہیں زمین وآسمان میں اور اسی ہیئت سابقہ شریفہ پر ہیں([371] )کچھ تبد یلی اس میں نہیں ہو ئی۔ آنکھوں سے ایسے ہی غائب ہیں جیسے فرشتے نظر نہیں آتے حالانکہ فرشتے زندہ ہیں اور ان کے اجسام بھی ہیں ۔ جب اللّٰہ تعالٰی اراد ہ کر تا ہے کسی امتی پر کرامت اور احسان کا تو حجاب اٹھا دیتا ہے اور وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت اصلی صورت میں کر لیتا ہے۔ اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور صرف مثال ہی کے دیکھنے پر منحصر کر دینے کی کوئی وجہ نہیں ۔ انتہی۔ امام بیہقی نے حیات ِانبیاء پر ایک رسالہ لکھا ہے جو چاہے اسے مطالعہ کرے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ سید نا ومولیٰنا محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وفات شریف کے بعد بھی جسم اَطہر کے ساتھ زندہ ہیں ۔ بحیات حقیقیہ دنیویہ اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تصرّفات بدستور جاری ہیں ۔ اسی واسطے آپ کی امت میں تا قیامت قطب، غوث، ابد ال واو تا د ہو تے رہیں گے۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ نے رسالہ([372] ) ’’سلوک اقرب السبل بالتوجہ الی سید الر سل صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم‘‘ میں جو خانِخانا ں کی طرف لکھا ہے یوں فرمایا ہے:
’’وباچندیں ([373] )اختلافات وکثرت مذاہب کہ درعلماء امت است یک کس را دریں مسئلہ خلافے نیست کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بحقیقت حیات بے شائبہ مجاز وتوہم تا ویل دائم وباقی است۔ وبر ا عمال امت حاضر وناظر ومر طالبان حقیقت را ومتوجہان آنحضرت رامفیض ومربی است۔‘‘([374] )
علماء امت میں اس قدر اختلافات اور کثرت مذاہب ہے۔ بایں ہمہ کسی ایک کو اس مسئلہ میں ذرا بھی اختلاف نہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبلا شا ئبہ مجازو توہم تاویل حیاتِ حقیقیہ کے ساتھ دائم وباقی ہیں اور اُمت کے اَعمال پر حاضر ونا ظر ہیں اور طالبان حقیقت کو اور متو سلانِ بار گاہ ِنبوت کو فیض پہنچا نے والے اور ان کی تربیت فرمانے والے ہیں ۔
حضرت شیخ نے بالکل درست لکھا ہے کیونکہ فتنہ ابن تَیمِْیَّہ اس تحریر سے سینکڑوں سال پہلے فَرو ہو چکا تھا اور شیطان کا سینگ ابھی نجد سے نہ نکلا تھاجس نے تعلیم تَیمِْی کی سو تی بلا کو جگایا اور بات بات پر مسلمانوں کو مشرک بتا یا۔
حضرت سیدنا ابو سعید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب منزہٌ عن العیوب صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: مَنْ تَرَکَ صَلَاۃً مُتَعَمِّدًا کُتِبَ اِسْمُہٗ عَلٰی بَابِ النَّارِ فِیْمَنْ یَدْخُلُہَا یعنی جو کوئی جان بوجھ کر ایک نماز بھی ترک کرے گا، اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جائے گا جس سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
(حلیۃ الاولیائ،الحدیث:۱۵۹۰،ج۷، ص۲۹۹)
اَفرادِ انسان میں سے انبیائے کرام صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو مکارمِ اخلاق ([375] ) کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ان کا کام تبلیغ وتزکیہ([376]) ہے۔اسی واسطے بعنایت الٰہی انہیں اوَّلِ خَلقَت وفطرت ([377] ) ہی میں محاسن اخلاق حاصل تھے جن کا ظہور حسب موقع ان کی عمر شریف میں ہو تا رہامگر دیگر فضائل کی طرح اس کمال میں بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دیگر اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام سے ممتاز ہیں ۔چنانچہ اللّٰہ تعالٰی نے خُلق عظیم کو آپ کی ذات شریف میں حَصَر فرمایا ہے:
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (سورۂ قلم)
اور تحقیق تو بڑے خُلق پر پیدا ہو ا ہے۔ ([378] )
اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرماتے ہیں : بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَ خْلَاقِ ۔ (مؤطاامام مالک ) میں محاسن اَخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔([379] )
اَنبیا ئے سابقین عَلَیْہِمُ السَّلَام میں سے ہر ایک حسن اَخلاق کی ایک نوع سے مختص تھے مگر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات اَقدس حسن اَخلاق کے تمام انواع کی جامع تھی۔ اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو تمام انبیائے سابقین عَلَیْہِمُ الصَّلوات کی سیر ت کے اتباع کا حکم دیا:
فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْؕ- (انعام،ع ۱۰)
پس تو ان کی رَوِش کی پیروی کر۔ ([380] )
لہٰذا خصال وکمال وصفات شرف وفضائل جوان میں متفرق طور پر پا ئے جاتے تھے وہ تمام آپ کی ذات شریف میں جمع
تھے۔ چنانچہ حِلم وسخاوت ِابر اہیم، صدقِ وعدہ اسمٰعیل، شکر داؤدو سلیمان، صبر ایوب، معجزاتِ قاہر ہ موسیٰ، مناجاتِ زَکریا، تَضَرُّعِ یحییٰ، دمِ عیسٰی وغیرہ سب آپ میں موجود تھے۔ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلَواتُ وَالتَّسْلِیْمَات۔ ؎
آنچہ بنازند زاں دلبراں جملہ ترا ہست وزیادت براں
حضرت سعد بن ہشام بن عامر نے جب حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خُلق کی بابت دریافت کیا تو حضرت صدیقہ نے جواب میں فرمایا: کیا تو قرآن نہیں پڑ ھتا؟ حضرت سعد نے جواب دیا کہ ہاں ۔ یہ سن کر حضرت صدیقہ نے فرمایاکہ ’’نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاخُلق([381] ) قرآن تھا۔([382] ) کتب ِ سابقہ اِلہامیہ([383] )میں جو آداب و فضائل و اَوصافِ حمیدہ مذکور تھے قرآن مجید ان سب کا جامع ہے۔ ارشادِ صدیقہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جس قدر محامد اخلاق مذکور ہیں وہ سب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات اقدس میں پا ئے جاتے تھے۔ غرض دیگر کمالا ت کی طرح محاسن اخلاق میں بھی آپ کا مرتبہ دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ التَّسْلِیْمَات سے بڑھا ہوا ہے۔ صاحب قصیدہ بُردہ شریف فرماتے ہیں ۔ ؎
فَاقَ النَّبِیّٖنَ فِیْ خَلْقٍ وَّ فِیْ خُلُقٍ وَ لَمْ یُدَانُوْہُ فِیْ عِلْمٍ وَّ لَا کَرَمٖ([384] )
لے گیا فوق انبیاء پر خَلق میں اور خُلق میں ، کس میں تھااس کا عِلم اور کس میں اس کا سا کرَم۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خاتم النبیین ہیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کوئی اور نیانبی نہ ہو گا۔ اس لئے آپ کے اَخلاق وعا دات بطریق اِسنا د نہایت صحت کے ساتھ محفوظ ہیں تا کہ قیامت تک ہر زمانے میں ان کا اِقتداء کیا جائے اور ان ہی کو دستور العمل بنا یا جائے۔ اس مختصر میں تفصیل کی گنجائش نہیں اس لئے ذیل میں چند جزئیات پیش کی جاتی ہیں ۔ واللّٰہ الموفق والمعین۔
[1] … مختلف ممالک کے بادشاہ۔
[2] … دار الحکومت۔
[3] … یہ شہر اقصائے شام میں مصر کی طرف واقع ہے۔۱۲منہ
[4] … صحیح بخاری، کتاب العلم و کتاب الجہاد۔
[5] … اِرد گرد۔
[6] … زیادہ قریبی۔
[7] … جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی گئی۔
[8] … ایمان لانے کے بعد پھر جانا۔
[9] … آزمائش، امتحان۔
[10] … یہ شہر دمشق وحلب کے وسط میں واقع ہے۔۱۲منہ
[11] … وحشی گدھوں کی طرح۔
[12] … صحیح البخاری،کتاب بدء الوحی،باب۔۶،الحدیث:۷،ج۱،ص۱۰۔۱۲ملخصاً۔ علمیہ
[13] … مواہب لدنیہ۔
[14] … صحیح بخاری، کتاب العلم و کتاب الجہاد۔
[15] … اصابہ، ترجمہ جد جمیرہ۔
[16] … وکیل۔
[17] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،واما مکاتبتہ الی الملوک وغیرہم،ج۵،ص۱۴وصحیح البخاری،کتاب المغازی، باب کتاب النبی الی کسری وقیصر،الحدیث:۴۴۲۴،ج۳،ص۱۵۱والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،الجیم بعدہا الدال والرائ،۱۲۷۸۔جد جمیرۃ،ج۱،ص۶۳۲ملخصاً ومدارج النبوۃ،مضمون نامہ کہ کسری۔۔۔الخ،ج۲،ص۲۲۴ والکامل فی التاریخ،ذکرمقتل یزدجر بن شھریار،ج۳،ص۱۴-۱۸۔ علمیہ
[18] … ہدایۃ الحیاری لابن قیم۔ مواہب لدنیہ۔
[19] … عِفَّت والی یعنی پاکباز عورت۔
[20] … حاملہ ہوئی۔
[21] … باہمی اتفاق و اتحاد۔
[22] … جب حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہجرت کی خبر پہنچی تو وہ اور ان کے دو بھائی اور ان کی قوم کے باون یا ترپن آدمی یمن سے ہجرت کرکے ایک کشتی میں مدینہ منورہ کو روانہ ہوئے، مگر باد مخالف کے سبب سے ان کی کشتی ساحل حبشہ پر جالگی اس لئے وہ حبشہ میں حضرت جعفر طیار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس سفر میں وہ بھی حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ مدینہ چلے آئے۔۱۲منہ
[23] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،واما مکاتبتہ الی الملوک وغیرہم،ج۵، ص۱۹۔۲۶ملخصاً۔ علمیہ
[24] … فقہ حنفی میں غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں ۔ تفصیل کے لیے ’’ نزہۃ القاری شرح صحیح بخاری ‘‘ جلد اوّل،صفحہ۷۵۴ پر اسی حدیث کی شرح ملاحظہ فرمائیے۔علمیہ
[25] … محصول دینے والا۔
[26] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،واما مکاتبتہ الی الملوک وغیرہم،ج۵،ص۲۷۔۳۳ملتقطاً ۔ علمیہ
[27] … سردار۔
[28] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،واما مکاتبتہ الی الملوک وغیرہم،ج۵،ص۴۳۔۴۵ملتقطاً۔ علمیہ
[29] … دارالحکومت۔
[30] … ہدایۃ الحیاری لابن قیم۔
[31] … ملاقات۔
[32] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،واما مکاتبتہ الی الملوک وغیرہم،ج۵،ص۴۶۔۴۷ملتقطاً۔ علمیہ
[33] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،واما مکاتبتہ الی الملوک وغیرہم،ج۵،ص۳۴۔۳۶ملخصاً۔ علمیہ
[34] … تفصیل کیلئے دیکھو ہدایۃ الحیاری اور مواہب لدنیہ۔…(المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،واما مکاتبتہ الی الملوک وغیرہم، ج۵،ص۳۷-۴۳ملتقطاً۔ علمیہ)
[35] … دشمن یا کسی آفت وغیرہ سے خبردار کرنے کے لیے اس طرح پکارا جاتا تھا۔علمیہ
[36] … ذوقرد ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ اور خیبر کے درمیان مدینہ سے ایک دن (بقول بعض دو دن) کی مسافت پر ہے۔۱۲منہ
[37] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،غزوۃ ذی قرد،ج۳،ص۱۱۰-۱۱۷۔ علمیہ
[38] … خیبر مدینہ سے شام کی طرف ۹۶ میل کے فاصلہ پر ہے۔ اس بڑی بستی میں سات قلعے اور کھیت و باغات بکثرت تھے۔ قلعوں کے نام یہ ہیں: ناعِم،قَموص، شق، نَطاۃ، سَلالَم، وطِیح ، کَتِیبہ۔ معجم البلدان ۱۲منہ
[39] … منافقوں کا سردار۔
[40] … صحیح بخاری، غزوۂ خیبر۔
[41] … صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ خیبر،الحدیث:۴۱۹۷،ج۳،ص۸۱و المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، غزوۃ خیبر، ج۳،ص۲۵۲-۲۵۳والسیرۃ الحلبیۃ،باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،ج۳،ص۴۹۔ علمیہ
[42] … آنکھوں کا مرض جس میں آنکھیں سرخ ہو جاتی اوردکھتی ہیں۔
[43] … غرور و تکبر۔
[44] … صحیح روایتوں کے مطابق۔
[45] … مضبوط قلعہ۔
[46] … قیدی عورتیں۔
[47] … فتوح البلدان بلاذری، ذکر خیبر۔…(سبل الھدی والرشاد، فی غزوۃ خیبر،ج۵،ص۱۲۰و۱۲۴-۱۲۷والسیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،ج۳،ص۵۰،۵۵ و۶۳۔ علمیہ)
[48] … لڑائی کے لیے تیار ہوگئے۔
[49] … بلا ذری، ذکر فدک۔۱۲منہ
[50] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،فتح وادی القری،ج۳،ص۳۰۱-۳۰۳۔ علمیہ
[51] … مشکوٰۃ شریف، باب فی المعجزات، فصل ثانی۔
[52] … مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۳۱،ج۲،ص۳۹۵ و مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفضائل،باب فی المعجزات،تحت الحدیث:۵۹۳۱،ج۳،ص۲۶۶۔ علمیہ
[53] … فوج کو رخصت کرتے وقت کچھ فاصلے تک اس کے ساتھ جانا۔
[54] … یہ مقام شام و وَادِی القُریٰ کے درمیان واقع ہے، موتہ اور مشارف دیہات بلقاء میں سے ہیں، شہر معان بلقاء کے نواح میں ہے۔۱۲منہ
[55] … ایڑی کے اوپر سے پاؤں کے پٹھے کاٹنا،لُولا بنا دینا۔
[56] … ہلچل مچ گئی۔
[57] … مضبوط۔
[58] … زرقانی علی المواہب بحوالہ مغازی ابن عائذ بروایت ابن عمر۔
[59] … اونٹنی پر سوار۔
[60] … تم کرو جو چاہو البتہ میں نے تم کو معاف کردیا۔ صحیح بخاری، باب غزوۃ الفتح وما بعث حاطب بن ابی بلتعہ الی اہل مکہ۔۱۲منہ
[61] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۳۲۹۔۳۹۱ملخصاً وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الفتح،الحدیث:۴۲۷۴،ج۳،ص۹۹ و السیرۃ الحلبیۃ،باب ذکر مغازیہ،غزوۃ وادی القری، ج۳، ص۸۷۔ علمیہ
[62] … یہ مقام مکہ شریف سے چار منزل ہے۔۱۲منہ
[63] … جگہ جگہ۔
[64] … یعنی شہر کے نچلے حصے سے۔
[65] … پہل۔
[66] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۳۹۵۔۴۱۷ملخصاً۔ علمیہ
[67] … نبوی جلوس۔
[68] … زرہ پہنے ہوئے۔
[69] … سیاہ آنکھوں کے سوا۔
[70] … ترجمۂکنز الایمان:حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔(پ۱۵،بی اسرائیل:۸۱)۔علمیہ
[71] … ترجمۂکنز الایمان:حق آیا اور باطل نہ پہل کرے اور نہ پھر کر آئے۔(پ۲۲،سبا:۴۹)علمیہ
[72] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۴۶۰۔۴۶۲ملتقطاً۔ علمیہ
[73] … ترجمۂکنز الایمان:اے لوگوہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو بیشک اللّٰہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللّٰہ جاننے والا خبردار ہے ۔(پ۲۶،الحجرات:۱۳)علمیہ
[74] … السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،دخول رسول الحرم،ص۴۷۳ملخصاً۔ علمیہ
[75] … پیر اور جمعرات کے دن۔
[76] … سخت کلامی۔
[77] … حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ معجزہ دیکھ کر تجدید شہادت کی ورنہ یہ معلوم ہے کہ آپ سال فتح سے پہلے اسلام لاچکے تھے۔۱۲منہ
[78] … طبقات ابن سعد (متوفی ۲۳۰ھ)…(المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳،ص۴۶۹ملتقطاً۔ علمیہ)
[79] … سیرت ابن ہشام۔…(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،دخول رسول الحرم،ص۴۷۴۔ علمیہ)
[80] … لائف آف محمد، مولفہ سرولیم میور صاحب۔…(سبل الھدی والرشاد،فی غزوۃ الفتح الاعظم۔۔۔الخ،ج۵،ص۲۲۴-۲۲۶ و۲۴۷۔ علمیہ)
[81] … صحیح بخاری و سیرت ابن ہشام۔
[82] … صحیح البخاری،کتاب المغازی،۵۳۔باب،الحدیث:۴۲۹۵،ج۳،ص۱۰۵ والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،دخول رسول الحرم،ص۴۷۴۔ علمیہ
[83] … جلدی کی۔
[84] … غصہ میں بھرا ہونا۔
[85] … اونٹ کا کجاوہ۔
[86] … ایک وادی کا نام ہے جو مکہ سے طائف کی طرف قریباً بارہ میل کے فاصلہ پر ہے۔۱۲منہ
[87] … صحیح بخاری، باب قول اﷲتعالیٰ: ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم۔ الآیۃ۔
[88] … رسوائی۔
[89] … فخرو بڑائی۔
[90] … اسلحہ۔
[91] … وہ فوجی دستہ جو لشکر کے آگے آگے ہوتا ہے۔
[92] … آسمانی فرشتے۔
[93] … وہ گھوڑا جس کے چاروں پاؤں اور ماتھا سفید ہو۔
[94] … چہرے سیاہ ہو جائیں۔
[95] … السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ حنین فی سنۃ ثمان بعد الفتح،ص۴۸۳۔۴۸۸ملتقطاً و المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، غزوۃ حنین،ج۳،ص۴۸۷۔۵۱۱ملخصاً وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قول اللّٰہ تعالٰی:ویوم حنین۔۔۔الخ، الحدیث:۴۳۱۷،ج۳،ص۱۱۱۔ علمیہ
[96] … ترجمۂکنز الایمان:بیشک اللّٰہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ ا ٓئی اور زمین اتنی وسیع ہوکر تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دے کر پھرگئے پھر اللّٰہ نے اپنی تسکین اتا ری اپنے رسول پر اور مسلمانوں پر اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہ دیکھے اور کافروں کو عذاب دیااور منکروں کی یہی سزا ہے پھر اس کے بعد اللّٰہ جسے چاہے گا توبہ دے گااور اللّٰہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (پ۱۰،التوبۃ:۲۵۔۲۷)علمیہ
[97] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،غزوۃ اوطاس،ج۳،ص۵۳۲۔۵۳۶ملتقطاً۔ علمیہ
[98] … مال غنیمت اور جنگی قیدی۔
[99] … جعرانہ یا جغرانہ مکہ و طائف کے درمیان مکہ سے ایک برید (۱۲ میل) ہے۔۱۲منہ
[100] … طائف ایک بڑا شہر ہے جو مکہ سے دو یا تین منزل مشرق کی طرف واقع ہے۔۱۲منہ
[101] … راشن۔
[102] … منجنیق ایک قسم کا بڑا گوپھیا تھا جس میں بڑے بڑے پتھر رکھ کر دیوار قلعہ پر پھینکا کرتے تھے تاکہ دیوار ٹوٹ جائے۔۱۲منہ
[103] … دبابہ ایک آلۂ جنگ تھا جو چمڑے اور لکڑی سے بنایا جاتا تھا اس کی اوٹ میں دشمن کے قلعہ کی طرف جاتے تاکہ دیوار قلعہ میں نقب لگائیں۔۱۲منہ
[104] … کنویں کے چرخے۔
[105] … یعنی چر خ والا۔
[106] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،حرق ذی الکفلین،غزوۃ الطائف،ج۴،ص۳۔۱۸ملتقطاً۔علمیہ
[107] … چمڑے کا۔
[108] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ ضَآ لًّا ‘‘ لکھا ہے لیکن بخاری شریف، زرقانی علی المواہب اور حدیث و سیرت کی دیگر کتب میں ’’ ضُلَّالًا ‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ ضَآلًّا ‘‘ کے بجائے ’’ ضُلَّالًا ‘‘ لکھا ہے ۔ علمیہ
[109] … منتشر، بکھرے ہوئے۔
[110] … ان حالات کے لئے صحیح بخاری دیکھو۔۱۲منہ
[111] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،نبذۃ من قسم الغنائم۔۔۔الخ،ج۴،ص۱۸۔۲۴ملتقطاً وصحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ الطائف،الحدیث:۴۳۳۰-۴۳۳۱،ج۳،ص۱۱۶۔۱۱۷۔ علمیہ
[112] … سیرت حلبیہ و اصابہ۔
[113] … السیرۃ الحلبیۃ،غزوۃ الطائف،ج۳،ص۱۷۸ والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۲۸۳۳۔زہیر بن صرد،ج۲،ص۴۷۳۔علمیہ
[114] … اصابہ، ترجمہ ابو ثروان۔
[115] … اچھی عادتیں۔
[116] … صحیح بخاری، غزوۂ حنین۔
[117] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۹۶۶۶۔ابوثروان بن عبد العزی السعدی،ج۷،ص۴۸ والسیرۃ الحلبیۃ،غزوۃ الطائف،ج۳، ص۱۷۹۔۱۸۰ملتقطاً وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب قول اللّٰہ تعالٰی:ویوم حنین۔۔۔الخ،الحدیث:۴۳۱۸۔ ۴۳۱۹،ج۳،ص۱۱۱۔ علمیہ
[118] … یعنی د نیاوی ساز و سامان و آسائشیں
[119] … قسم۔
[120] … میل جول۔
[121] … یہ شہر مدینہ و دمشق کے قریباً وسط میں ہے۔۱۲منہ
[122] … ترجمۂکنز الایمان:جنہوں نے مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۱۷) علمیہ
[123] … صحیح بخاری، کتاب الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالیٰ و الی ثمود اخاہم صٰلحاً۔الآیۃ
[124] … صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب نزول النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم الحجر۔
[125] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ زید بن بصیت‘‘ لکھا ہے لیکن زرقانی ،واقدی اور دیگر کتب میں ’’ زَید بن لُصَیْت‘‘ہے لہٰذ کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں زرقانی کے مطابق’’ زَید بن لُصَیْت‘‘ لکھا ہے۔علمیہ
[126] … زرقانی علی المواہب بحوالہ ابن اسحاق وواقدی وغیرہ، غزوۂ تبوک۔
[127] … یہ شہر بحیرہ قلزم کے کنارے پر شام سے ملحق واقع ہے۔ وہ یہود جن پر اﷲ تعالیٰ نے مچھلی کا شکار سبت کے دن حرام کردیا تھا اسی شہر میں رہا کرتے تھے۔۱۲منہ
[128] … یہ دو علاقوں کے نام ہیں۔
[129] … ہرن کی قسم کا ایک جنگلی چوپایہ جو چھوٹی گائے کے برابر ہوتا ہے۔
[130] … المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، ثم غزوۃ تبوک،ج۴، ص۶۵۔۹۵ وھدم صنم طیٔ،ص۵۷-۶۳ ملخصاً و صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالٰی: والی ثمود اخاہم صالحاً،الحدیث:۳۳۷۸-۳۳۷۹،ج۲، ص۴۳۲ و صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب نزول النبی الحجر،الحدیث:۴۴۱۹-۴۴۲۰،ج۳، ص۱۴۹۔ ۱۵۰ملتقطاً۔ علمیہ
[131] … ترجمۂکنز الایمان:اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کواور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللّٰہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللّٰہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیںاس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللّٰہ کو پیارے ہیں۔ (پ۱۱، التوبۃ:۱۰۷۔۱۰۸)
[132] … تفسیر درمنثور اور وفاء الوفائ۔…(الدرالمنثور للسیوطی،سورۃ التوبۃ،تحت الآیۃ:۱۰۷،ج۴،ص۲۸۴۔۲۸۶ملتقطاً و وفاء الوفاء للسمہودی،الباب الخامس:ماجاء فی مسجد الضرار،ج۲،الجزء الثالث،ص۸۱۴۔۸۱۶ملتقطاً۔ علمیہ)
[133] … ترجمۂکنز الایمان:آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا۔(پ۶،المآئدۃ:۳) علمیہ
[134] … الکامل فی التاریخ،ذکرالاحداث فی سنۃ عشر،ج۲،ص۱۶۲-۱۷۱۔ علمیہ
[135] … الکامل فی التاریخ،ذکراحداث سنۃ احدی عشرۃ،ج۲،ص۱۸۲۔ علمیہ
[136] … بروز پیر۔
[137] … بروز ہفتہ۔
[138] … بروز پیر۔
[139] … وفاء الوفاء میں ’’ابومخنف‘‘ لکھا ہے البتہ سیرت وتاریخ کی بعض کتب میں ’’ ابومحنف‘‘ بھی ہے ممکن ہے مصنف کے پاس وفاء الوفاء کاجو نسخہ ہو اس میں ’’ابو محنف‘‘ ہی ہویا انہوں نے کسی وجہ سے اسے ترجیح دی ہو۔ واللّٰہ تعالی اَعلم۔ علمیہ
[140] … ۲ ربیع الاوَّل۔
[141] … ۱۲ ربیع الاوَّل۔
[142] … وفاء الوفائ، جزء اوّل ، ص ۲۲۶۔ …(وفاء الوفاء للسمہودی،الستۃ العاشرۃ من الہجرۃ۔۔۔الخ،ج۱،الجزء الاول، ص۳۱۷۔ ۳۱۹ملتقطاً۔ علمیہ)
[143] … جمعرات۔
[144] … قصۂ قرطاس بالاختصار یوں ہے کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وفات شریف سے پانچ دن پہلے فرمایا: کاغذ قلم لاؤ میں ایک تحریر لکھ دوں تاکہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو، اس پر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کہا: نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درد غالب ہے اور ہمارے پاس کتاب اللّٰہ ہے اور وہ ہم کو کافی ہے۔ حاضرین میں اختلاف ہوا اور بات بڑھ گئی جس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ جاؤ میرے پاس جھگڑا کرنا مناسب نہیں، پھر ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا یہ کہتے ہوئے نکلے بڑی مصیبت ہے جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور تحریر کے درمیان حائل ہوگئی۔(صحیح بخاری،کتاب العلم، باب کتابۃ العلم،الحدیث:۱۱۴،ج۱،ص۵۹ ملخصاً) اسے ’’ حدیث قرطاس‘‘ بھی کہتے ہیں اس قصہ میں معترضین کے معاذ اللّٰہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر اعتراضات ہیں کہ انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو ایک ضروری تحریر سے روک دیا وغیرہ۔ ان اعتراضات اور ان کے جوابات کو مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی کتاب’’ تحفہ شیعہ ‘‘میں تحریر فرمایا ہے۔علمیہ
[145] … مشکوٰۃ شریف بحوالہ صحیحین، باب وفات النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ، باب ہجرۃ اصحابہ۔۔۔الخ،الحدیث:۵۹۶۶،ج۲،ص۴۰۴۔ علمیہ)
[146] … مشکوٰۃ شریف، باب الانفاق و کراہیۃ الامساک ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الزکاۃ،باب الانفاق وکراہیۃ الامساک، الحدیث:۱۸۸۴،ج۱،ص۳۵۸۔ علمیہ)
[147] … ابن ماجہ، ابواب الوصایا۔
[148] … سنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،باب ہل اوصی رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۶۹۷،ج۳،ص۳۰۲۔ علمیہ
[149] … مشکاۃ الصابیح،کتاب احوال القیامۃ،باب ہجرۃ اصحابہ۔۔۔الخ،الحدیث:۵۹۶۴،ج۲،ص۴۰۴۔ علمیہ
[150] … صحیح البخاری،کتاب فرض الخمس،باب فرض الخمس،الحدیث:۳۰۹۳،ج۲،ص۳۳۸ والسیرۃ الحلبیۃ،باب یذکر فیہ مدۃ مرضہ۔۔۔الخ،ج۳،ص۵۰۱-۵۰۲۔ علمیہ
[151] … صحیح البخاری،کتاب الوصایا،باب الوصایا۔۔۔الخ،الحدیث:۲۷۳۹،ج۲،ص۲۳۱۔ علمیہ
[152] … سنن ابی داود،کتاب الوصایا،باب ماجاء فی مایؤمربہ من الوصیۃ،الحدیث:۲۸۶۳،ج۳،ص۱۵۳۔ علمیہ
[153] … وراثت کا قانون۔
[154] … صفایا صفی کی جمع ہے مراد مالِ غنیمت کا وہ حصہ جو کسی مصرف کے لئے خاص کر لیا جائے۔
[155] … ضروریات۔
[156] … صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب حدیث بنی نضیر۔۔۔الخ،الحدیث:۴۰۳۳۔۴۰۳۴، ج۳،ص۲۷۔۲۹ملخصاً۔علمیہ
[157] … حکومت۔
[158] … اس تاویل سے۔
[159] … حیوٰۃ الحیوان للعلامہ کمال الدین الدمیری الشافعی المتوفی ۸۰۸ ھ، جزء اوّل، ص ۴۲…(حیاۃ الحیوان الکبری،الاوز،فائدۃ اجنبیۃ، ج۱،ص۷۵۔ علمیہ)
[160] … مواہب لدنیہ، کتاب شمائل النبویہ۔
[161] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الثالث،الفصل الاول فی کمال خلقتہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۲۴۱۔علمیہ
[162] … چہرہ مبارک۔
[163] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،الحدیث:۱۹۰۷،ج۱،ص۳۶۲۔ علمیہ
[164] … مشکوٰۃ شریف، باب فضل الصدقہ۔
[165] … صحیح بخاری، باب صفۃ النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم…(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی، الحدیث: ۳۵۴۹،ج۲،ص۴۸۷۔ علمیہ)
[166] … یہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ربیب تھے کیونکہ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے ابو ہالہ کے نکاح میں تھیں جس سے ہندمذکور پیدا ہوئے۔ یہ ایمان لائے اور ہجرت کی اور ۳۶ ھ میں یوم جمل میں حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔۱۲منہ
[167] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم …(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ،الحدیث:۷،ص۲۲ملتقطاً۔ علمیہ)
[168] … حلہ دو کپڑوں کو کہتے ہیں یعنی چادر اور شلوار۔۱۲منہ
[169] … دیکھو شمائل ترمذی، باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم …(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ،الحدیث:۹،ص۲۴۔ علمیہ)
[170] … حمیراء لقب ام المؤمنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ۔ گویند کہ حمرہ بمعنی سفیدی نیز آمدہ و ایشاں را حمیراء گویند ایشاں سفید رنگ بودند۔ کذا فی المنتخب۔۱۲منہ
[171] … خصائص کبریٰ للسیوطی، مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن، جزء اوّل، ص ۶۳…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی وجہہ الشریف،ج۱،ص۱۰۷۔ علمیہ)
[172] … خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص۸۰۔…(الخصائص الکبری للسیوطی،فائدۃ فی عدم احتراق المندیل۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۳۴۔ علمیہ)
[173] … یعنی نہ چھوٹی اور نہ اتنی بڑی کہ باہر نکلی ہوئی معلوم ہوں۔۱۲منہ
[174] … سرمہ والی۔
[175] … دلائل حافظ ابی نعیم، مطبوعہ دائرۃ المعارف انتظامیہ حیدر آباد دکن، ص ۵۴۔ ابو نعیم کے علاوہ ابن سعد اور ابن عسا کرنے بھی اسے روایت کیا ہے (خصائص کبریٰ، جزء اوّل، ص۹۱)۔۱۲منہ
[176] … دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل الحادی عشر،ذکر خروج النبیصلی اللّٰہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم الی الشام۔۔۔الخ،ص۱۰۰ ، الخصائص الکبری للسیوطی، باب ما ظہر من الاٰیات فی سفرہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم۔۔۔الخ،ج۱، ص۵۴ والسیرۃ الحلبیۃ،باب سفرہ الی الشام ثانیاً،ج۱،ص۱۹۳۔ علمیہ
[177] … بہکی نہیں نگاہ اور حد سے نہیں بڑھی۔…(ترجمۂکنزالایمان:آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ (پ۲۷،النجم:۱۷) علمیہ)
[178] … انتہائی درجہ چھپی ہوئی ہو۔
[179] … حقیقت میں۔
[180] … زرقانی علی المواہب، جز ء رابع، ص ۸۲…(المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ، ج۵،ص۲۶۲-۲۶۳۔علمیہ)
[181] … خصائص کبریٰ، جزء اوّل، ص۶۱۔
[182] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب المعجزۃ والخصائص فی عینیہ الشریفین،ج۱،ص۱۰۴۔ علمیہ
[183] … صحیح بخاری، باب عظۃ الامام الناس فی اتمام الصلوٰۃ وذکر القبلۃ۔
[184] … صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،باب عظۃ الامام الناس۔۔۔الخ،الحدیث:۴۱۸،ج۱،ص۱۶۱۔ علمیہ
[185] … ترجمہ: جو دیکھتا ہے تجھ کو جب تو اٹھتا ہے اور تیرا پھرنا نمازیوں میں۔ اس آیت کے تحت میں تفسیر خازن میں لکھا ہے: و قیل معناہ یری تقلب بصرک فی المصلین فانہ کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یبصر من خلفہ کما یبصر من قدامہ۔ ( انتہی)۔
[186] … ترجمۂکنزالایمان:جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہواور نمازیوں میں تمہارے دورے کو (پ۱۹،الشعرآئ:۲۱۸،۲۱۹)
[187] … اس حدیث مرسل کو امام حمیدی ( متوفی ۴۰۹ھ) نے اپنی مسند میں اور ابن منذر(متوفی ۳۱۸ھ) نے اپنی تفسیر میں اور بیہقی نے روایت کیاہے۔ دیکھو مواہب لدنیہ، جزء اوّل، ص۲۵۲ اور خصائص کبریٰ، جزء اوّل، ص۶۱۔
[188] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب فی المعجزۃ والخصائص فی عینیہ الشریفین،ج۱،ص۱۰۴و المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۲۶۵۔ علمیہ)
[189] … ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ۔
[190] … معجزہ کے طور پر۔
[191] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، باب وفات النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔
[192] … الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ،الحدیث:۷،ص۲۲ملتقطاً۔ علمیہ
[193] … ناک کی ہڈی۔…شمائل ترمذی، باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔
[194] … الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ،الحدیث:۷،ص۲۲ملتقطاً۔ علمیہ
[195] … زرقانی علی المواہب، جزء رابع، ص ۹۱۔
[196] … شرح الزرقانی علی المواہب،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۲۷۸۔ علمیہ
[197] … دونوں مبارک کان
[198] … خصائص کبریٰ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وابی نعیم، جزء اوّل، ص ۶۵۔
[199] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی سمعہ الشریف،ج۱،ص۱۱۳ملتقطاً۔ علمیہ
[200] … مشکاۃ المصابیح،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،الحدیث:۲۱۲۴،ج۱،ص۴۰۰۔ علمیہ
[201] … مشکوٰۃ شریف بحوالہ صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن۔
[202] … سامنے کے مبارک دانت۔
[203] … خصائص کبریٰ، جزء اوّل، ص ۷۴۔
[204] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب جامع فی صفۃ خلقہ،ج۱،ص۱۲۷۔ علمیہ
[205] … جب کسی شخص کو نماز میں جمائی آئے تو وہ صرف ذہن میں اتنا یاد کرلے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کبھی جمائی نہیں آئی تھی، اس کے بعد نہ آئے گی۔۱۲منہ
[206] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی حفظہ من التثاؤب،ج۱،ص۱۱۲۔ علمیہ
[207] … اصابہ، ترجمہ عمیرہ بنت مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا ۔…(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۱۱۵۴۸۔عمیرۃ بنت مسعود الانصاریۃ، ج۸،ص۲۵۱۔ علمیہ)
[208] … دیکھو صحیح بخاری، باب غزوۂ خیبر۔
[209] … حضرت فدیک بن عمرو السلامانی اور حضرت جرہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا قصہ معجزات میں آئے گا۔ ان شاء اﷲ تعالٰی۔۱۲منہ
[210] … صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ خیبر،الحدیث:۴۲۰۶،ج۳،ص۸۳۔ علمیہ
[211] … خصائص کبریٰ للسیوطی، جزء اوّل، ص۶۲۔…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی فمہ الشریف وریقہ واسنانہ،ج۱، ص۱۰۵۔ علمیہ)
[212] … استیعاب و اصابہ اور خصائص کبریٰ بحوالہ بیہقی و حاکم۔…(السنن الکبری للبیہقی، باب نزول سورۃ الفتح۔۔۔الخ، الحدیث:۱۸۸۱۵، ج۹،ص۳۳۷ وصحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیۃ،الحدیث:۴۱۵۱،ج۳،ص۶۹۔ علمیہ)
[213] … زاد المعاد، غزوۂ بدر۔…(زاد المعاد،فصل فی غزوۃ بدر الکبری،ج۲،الجزء الثالث،ص۱۴۴۔ علمیہ)
[214] … اصابہ، ترجمہ عمرو بن معاذ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔…(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۵۹۸۰۔عمرو بن معاذ بن الجموح الانصاری،ج۴،ص۵۶۶۔۵۶۷۔ علمیہ)
[215] … اصابہ، ترجمہ ابو قتادہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔…(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۱۰۴۱۱۔ابوقتادۃ بن ربعی الانصاری، ج۷،ص۲۷۲۔ علمیہ)
[216] … بچا ہوا۔
[217] … کنواں۔
[218] … کنواں۔
[219] … خصائص کبریٰ بروایت ابو نعیم، جز ء اوّل، ص ۹۱۔…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی فمہ الشریف وریقہ واسنانہ، ج۱،ص۱۰۵ملتقطاً۔ علمیہ)
[220] … استیعاب و اصابہ اور خصائص کبریٰ بحوالہ بیہقی و حاکم۔…(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،۱۶۰۵۔عبد اللّٰہ بن عامرالعبشمی، ج۳،ص۶۴ و الاصابۃ فی تمییز۔ علمیہ)
[221] … پَھوڑے۔
[222] … المعجم الصغیر للطبرانی اور دیگر حدیث و سیرت کی کتب میں یہ الفاظ ہیں : ’’و ألقیت ثوبی علی فرجی ‘‘ یعنی میں نے اپنا ستر ڈھانپ لیا۔ علمیہ
[223] … المعجم الصغیر للطبرانی،الجزء الاول،الحدیث:۹۸،ص۳۸۔ علمیہ
[224] … شک و شبہ۔
[225] … شمائل ترمذی، باب کیف کان کلام رسول اللّٰہصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب کیف کان کلام رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۱۳،ص۱۳۴۔ علمیہ)
[226] … استیعاب لابن عبد البر۔ فصل سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کلام مبین و ظاہر ہوتا تھا جیسا کہ روایت حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا میں وارد ہے۔۱۲منہ
[227] … الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،کتاب کنی النسائ،باب المیم،۳۶۳۹۔ام معبد الخزاعیۃ ،ج۴،ص۵۱۴۔ علمیہ
[228] … نسیم الریاض، جلد اوّل، صفحہ ۳۹۷۔…(نسیم الریاض،الباب الثانی۔۔۔الخ،القسم الاول،فصل فی خصال محمودۃ مخصوصۃ بہ ،ج۱،ص۴۹۸۔ علمیہ)
[229] … زرقانی علی المواہب بحوالہ ترمذی، جز ء رابع، ص۱۷۸۔
[230] … شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۴۴۴۔ علمیہ
[231] … خصائص کبریٰ للسیوطی بروایت ابن سعد و ابی نعیم وغیرہ۔
[232] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۴۴۵و الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی صوتہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۱۳۔ علمیہ
[233] … چہرہ کھل اٹھنا۔
[234] … تانبہ کی دیگ۔
[235] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۴۴۸۔۴۵۱ملتقطاً۔ علمیہ
[236] … نبی سے جو بات خلافِ عادت قبل نبوت ظاہر ہواس کو اِرہاص کہتے ہیں۔
[237] … دیکھو مواہب لدنیہ اور خصائص کبریٰ۔…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب ما ظہر فی زمان رضاعہ من الآیات والمعجزات، ج۱،ص۱۰۰۔ علمیہ)
[238] … ترمذی، باب ماجاء فی بدء نبوۃ النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔…(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی بدء نبوۃ النبی،الحدیث:۳۶۴۰،ج۵،ص۳۵۶ملتقطاً۔ علمیہ)
[239] … ہاتھی دانت کی بنی ہوئی مورت۔
[240] … الشمائل المحمدیۃ،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم،ص۲۲۔ علمیہ
[241] … ہتھیلی۔
[242] … ریشمی کپڑا۔
[243] … صحیح بخاری، باب صفۃ النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔…(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی،الحدیث: ۳۵۶۱،ج۲،ص۴۸۹۔ علمیہ)
[244] … صحیح مسلم، باب طیب ریحہ ولین مسہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔…(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب رائحۃ النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۲۳۲۹،ص۱۲۷۱۔ علمیہ)
[245] … دیکھو مواہب لدنیہ۔…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵، ص۴۵۲۔ علمیہ)
[246] … قرآن کریم میں ہے: (وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ-) ترجمہ: ’’اور نہیں پھینکا تونے جس وقت کہ پھینکا تونے لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے پھینکا تھا۔‘‘ ۱۲منہ(ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللّٰہ نے پھینکی۔(پ۹،الانفال:۱۷) علمیہ)
[247] … خصائص کبریٰ، جز ء ثانی، ص ۷۵۔
[248] … دلائل حافظ ابو نعیم، جز ء ثانی، ص ۱۸۸۔
[249] … قرآن مجید میں ہے: اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ(۱) (ترجمہ) نزدیک آئی قیامت اور پھٹ گیا چاند۔ ۱۲منہ(ترجمۂکنزالایمان: پاس آئی قیامت اور شق ہوگیا چاند۔ (پ۲۷،القمر:۱)علمیہ)
[250] … صحیح بخاری، باب علامات النبوت فی الاسلام۔
[251] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۶ والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ۱۹۔ ابیض بن حمال،ج۱،ص۱۷۷۔ علمیہ
[252] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۶۔ علمیہ
[253] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۲۳،ج۲،ص۳۹۴ و الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۶۔ علمیہ
[254] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب ما وقع فی غزوۃ اُحد من الآیات والمعجزات،ج۱،ص۳۶۰۔ علمیہ
[255] … پنڈلی
[256] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۸۷۶، ج۲،ص۳۸۲۔ علمیہ
[257] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۴۴۶۲۔عائذ بن سعید،ج۳،ص۴۹۳۔ علمیہ
[258] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۱۹۹۔عبد اللّٰہ بن عبد،ج۵،ص۱۶۔ علمیہ
[259] … کوئی چیز مثلاً کھجور چبا کر اسے بچہ کے تالو میں لگادینا تحنیک کہلاتا ہے۔ صحابہ کرام بغرض تحنیک اپنے بچوں کو بارگاہِ رسالت میں لاتے تاکہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا لعاب مبارک ان کے شکم میں پہنچے۔
[260] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۲۲۷۔عبد الرحمن بن زید،ج۵،ص۲۹۔۳۰۔ علمیہ
[261] … یعنی بڑھاپے۔
[262] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۷۰۸۹۔قتادۃ بن ملحان القیسی،ج۵،ص۳۱۷۔ علمیہ
[263] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’قیس بن زید بن حباب‘‘ لکھا ہے لیکن اِصابہ اور دیگر کتب میں’’قَیس بن زَید بن جبار‘‘ ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں اصابہ کے مطابق ’’قَیس بن زَید بن جبار‘‘ لکھا ہے۔ علمیہ
[264] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۷۱۸۸۔قیس بن زید بن جبار الجذامی،ج۵،ص۳۵۷۔ علمیہ
[265] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۷۲۵۸۔قیس بن النعمان السکونی،ج۵،ص۳۸۲۔ علمیہ
[266] … ہاتھ مبارک پھیر کر۔
[267] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۷۶۸۶۔مالک بن عمیر السلمی الشاعر،ج۵،ص۵۴۹۔ علمیہ
[268] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۷۸۷۷۔مدلوک الفزاری،ج۶،ص۵۱۔ علمیہ
[269] … غرہ بمعنی چمک و روشنی یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مسح فرمانے سے ان کی پیشانی نورانی ہوگئی۔علمیہ
[270] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۷۹۔بشر بن معاویۃ،ج۱،ص۴۳۷۔ علمیہ
[271] … گھنے بالوں والا۔
[272] … وہ مرد جس کے سر پر پورے بال ہوں۔
[273] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۹۰۱۲۔الہلب الطائی ج۶،ص۴۳۲۔ علمیہ
[274] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۹۳۵۱۔یساربن ازیہر الجہنی،ج۶،ص۵۳۳۔ علمیہ
[275] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۹۹۵۲۔ابو زید بن اخطب،ج۷،ص۱۳۳۔ علمیہ
[276] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۱۰۰۶۶۔ابوسنان العبدی ثم الصباحی،ج۷،ص۱۶۴۔ علمیہ
[277] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۱۰۳۷۵۔ابوغزوان،ج۷،ص۲۶۱۔ علمیہ
[278] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۱۱۵۳۵۔عمیرۃ بنت سہل بن رافع،ج۸،ص۲۵۰۔ علمیہ
[279] … المعجم الصغیر للطبرانی،الجزء الاول،الحدیث:۷۰۲،ص۲۴۹۔ علمیہ
[280] … المعجم الصغیر للطبرانی،الجزء الاول،الحدیث:۵۱۴،ص۱۸۶۔ علمیہ
[281] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب الشعر الذی وضع یدہ الکریمۃ۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۳۸۔ علمیہ
[282] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب الشعر الذی وضع یدہ الکریمۃ۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۳۹۔ علمیہ
[283] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۷۱۔بشر بن عقربۃ الجہنی،ج۱،ص۴۳۴-۴۳۵۔ علمیہ
[284] … بڑھاپے۔
[285] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۲۲۶۵۔خزیمۃ بن عاصم،ج۲،ص۲۴۳۔ علمیہ
[286] … سیرت رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’فراش بن عمرو ‘‘ لکھا ہے جبکہ’’ اُسُد الغابۃ ‘‘ اور ’’ الاصابۃ ‘‘ وغیرہ میں ان کا نام ’’فراس بن عمرو ‘‘ ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے’’فراس بن عمرو ‘‘ لکھا ہے۔علمیہ
[287] … عراق میں کوفہ کے قریب ایک مقام جہاں لڑائی ہوئی تھی اس دن کو یوم حَرُوْرائکہا جاتا ہے۔علمیہ
[288] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۹۸۳۔فراس بن عمرو الکنانی،ج۵،ص۲۷۴۔ علمیہ
[289] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب الشعر الذی وضع یدہ الکریمۃ۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۳۹۔ علمیہ
[290] … الخصائص الکبریٰ میں ان صحابی کا نام ’’ اُسید بن اَبی اُناس‘‘ لکھا ہے البتہ حدیث و سیرت کی بعض کتب میں ’’ اُسید بن اَبی اِیاس‘‘ بھی ہے ممکن ہے مصنف کے پاس الخصائص الکبریٰ کاجو نسخہ ہو اس میں ’’ اُسید بن اَبی اِیاس‘‘ ہی ہو یا پھر انہوں نے کسی وجہ سے اسے ترجیح دی ہو۔ و اللّٰہ تعالی اعلم۔علمیہ
[291] … امثلہ مذکورہ بالا میں سے نمبر ۲۱،۲۲ معجم صغیر طبرانی میں سے ہیںاور نمبر ۲۳، ۲۸، ۲۹ خصائص کبریٰ للسیوطی سے اور باقی تمام اصابہ للعسقلانی میں سے ہیں۔۱۲منہ…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی اثر یدہ۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۴۲۔ علمیہ)
[292] … کھجور۔
[293] … ان اشیاء سے مرکب ایک کھانا۔
[294] … تور پیالہ کی شکل کا ایک برتن ہوتا ہے۔۱۲منہ
[295] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، باب فی المعجزات۔…(مشکاۃ المصابیح،احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات، الحدیث: ۵۹۱۳،ج۲،ص۳۹۱۔ علمیہ)
[296] … آقااور غلام کے درمیان معاہدہ جس کے تحت غلام مقررہ مال دے کر آزاد ہو جاتا ہے۔
[297] … ایک روایت ترمذی میں ہے کہ وہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔ (شمائل ترمذی، باب ماجاء فی خاتم النبوۃ)۔۱۲منہ
[298] … اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،سلمان الفارسی:۲۱۵۰،ج۲،ص۴۹۰۔ علمیہ
[299] … ایک اوقیہ، وزن میں چالیس درہم کے برابر تھا اور ایک درہم کاوزن تقریباً 3.0618گرام بنتا ہے لہٰذا چالیس اوقیہ تقریباً 4899 گرام ہوا۔علمیہ
[300] … استیعاب لابن عبد البر وغیرہ۔
[301] … ترجمۂ کنزالایمان:کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔(پ۳۰،الم نشرح:۱) علمیہ
[302] … تنام عینی ولاینام قلبی۔صحیح بخاری۔…(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب کان النبی تنام عینہ۔۔۔الخ،الحدیث: ۳۵۶۹، ج۲،ص۴۹۱۔ علمیہ)
[303] … خصائص کبریٰ بحوالہ ابن سعد و طبرانی، جز ء اول، ص ۷۳۔…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب جامع فی صفۃ خلقہ، ج۱، ص۱۲۶۔ علمیہ)
[304] … تفصیل کے لئے دیکھو رسالہ حلیۃ النبی، مولفہ خاکسار۔
[305] … خصائص کبریٰ بحوالہ احمد و بیہقی، جزء اول، ص ۷۳۔…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب جامع فی صفۃ خلقہ، ج۱، ص۱۲۵۔ علمیہ)
[306] … دونوں مبارک کندھے۔
[307] … بڑا راز۔
[308] … تنو مند۔
[309] … دونوں پنڈلیاں مبارکہ۔
[310] … مدراج النبوۃ مطبوعہ نولکشور، جلد اول، ص ۶۵۔
[311] … کھجور کا مغز۔
[312] … مدارج النبوت،قسم اول در فضائل۔۔۔الخ،باب اول دربیان حسن خلقت۔۔۔الخ،ج۱،ص۲۰،۲۱ملتقطاً۔ علمیہ
[313] … ٹھہراؤ۔
[314] … اس طرح کی رفتار ممدوح و مستحسن ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) (فرقان، ع۶)‘‘ اور بندے رحمن کے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر دبے پاؤں اور جب بات کرنے لگیں ان سے بے سمجھ لوگ، کہیں صاحب سلامت۔(ترجمۂکنز الایمان:اورر حمن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ۱۹،الفرقان:۶۳) علمیہ)
[315] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی مشیہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلم۔
[316] … الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی مشیۃ رسول اللّٰہ،الحدیث:۱۱۶،ص۸۶۔ علمیہ
[317] … قصداً۔
[318] … حضور اپنے اصحاب کے مربی و نگہبان تھے۔ اس لئے ان کے حالات کے ملاحظہ کے لئے آپ پیچھے ہوجاتے تاکہ حسب حال ان کی تربیت وتادیب و تکمیل فرمائیںیا آپ کا یہ فعل تواضع پر مبنی تھا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
[319] … بقول حافظ ابو نعیم فرشتے آپ کی نگہبانی کرتے تھے۔ یہ امر کسی طرح وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-۔ (اور اللّٰہ تجھ کو لوگوں سے بچائے گا) کے منافی نہیں۔ کیونکہ اگر یہ حالت اس آیت کے نزول سے پہلے تھی تو عدم منافات ظاہر ہی ہے ۔ اور اگر نزول کے بعد ہو تو =
=یوں سمجھنا چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دشمنوں سے آپ کی حفاظت کا یوں انتظام کردیا کہ اظہار شرف کے لئے فرشتوں کی ایک جماعت اس کام پر متعین فرمادی۔ (دیکھو زرقانی علی المواہب، جزء رابع، ص۲۹۱)…(المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۵۲۳۔ علمیہ)
[320] … خصائص کبریٰ و شرح ہمزیہ لابن حجرہیتمی۔
[321] … مواہب لدنیہ بحوالہ عبداللّٰہ ابن الامام احمد وغیرہ۔…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵،ص۴۸۵۔ علمیہ)
[322] … آپ کا اِرتفاع معنوی دیکھنے والوں کے لئے مُمَثل ہوجاتا اور آپ ان سب کو بلند نظر آتے (دیکھو زرقانی علی المواہب، جزء رابع، ص ۱۹۹) …(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،الفصل الاول فی کمال خلقتہ وجمال صورتہ،ج۵، ص۴۸۵۔ علمیہ)
[323] … ترجمۂکنز الایمان:بیشک تمہارے پاس اللّٰہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ (پ۶، المائدۃ:۱۵) علمیہ
[324] … خصائص کبریٰ، جزء اول،ص۶۸۔
[325] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی انہ لم یکن یری لہ ظل،ج۱،ص۱۱۶۔ علمیہ
[326] … زرقانی علی المواہب، جزء رابع، ص۲۲۰۔
[327] … شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،الفصل الاول فی کمال خلقتہ۔۔۔الخ،ج۵،ص۵۲۴۔۵۲۵ملتقطاً۔ علمیہ
[328] … زرقانی علی المواہب، جزء رابع، ص۲۲۳۔
[329] … شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ،الفصل الاول ۔۔۔الخ،ج۵،ص۵۳۱۔ علمیہ
[330] … عبیر ایک خوشبو ہے جو صندل و گلاب و مشک سے بناتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک خوشبو ہے جس میں زعفران ملا ہوتا ہے۔۱۲منہ
[331] … صحیح بخاری، کتاب الصیام، باب مایذکر من صوم النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلم و افطارہ۔ …(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب ما یذکر من صوم النبی وافطارہ،الحدیث:۱۹۷۳،ج۱،ص۶۴۹۔ علمیہ)
[332] … یہ ایک حدیث کا مضمون ہے جسے ابو یعلی اور طبرانی اور ابن عسا کرنے روایت کیا ہے۔ دیکھو مواہب لدنیہ اور خصائص کبریٰ۔۱۲منہ …الخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی عرقہ الشریف،ج۱،ص۱۱۵و شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ، الفصل الاول۔۔۔الخ،ج۵،ص۵۳۴۔ علمیہ
[333] … صحیح مسلم، باب طیب عرقہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔
[334] … صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب عرق النبی والتبرک بہ،الحدیث:۲۳۳۱،ص۱۲۷۲۔ علمیہ
[335] … صحیح مسلم ،باب طیب عرقہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلم والتبرک بہ۔
[336] … صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب عرق النبی والتبرک بہ،الحدیث:۲۳۳۱،ص۱۲۷۲۔ علمیہ
[337] … اس کو بزار اور ابو یعلی نے باسناد صحیح روایت کیا ہے۔ دیکھو مواہب لدنیہ اور خصائص کبریٰ۔
[338] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الاول۔۔۔الخ،ج۵،ص۵۳۵والخصائص الکبری للسیوطی،باب الآیۃ فی عرقہ الشریف،ج۱،ص۱۱۵۔ علمیہ
[339] … دیکھو وفاء الوفاء باخباردار المصطفیٰ لشیخ الاسلام السمہودی، جز ء اول، ص۱۲۔
[340] … ’’وفاء الوفاء باخبار دار المصطفٰی ‘‘ لشیخ الاسلام السمہودی میں ’’ مَا الصَّنْدَلُ الرَّطْبُ ‘‘کے بجائے ’’ مَا المَّنْدَلُ الرَّطْبُ ‘‘ لکھا ہے ممکن ہے مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے نسخہ میں ایسا ہی ہو یا پھر یہاں کتابت میں غلطی ہو ئی ہو ، واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ علمیہ
[341] … وفاء الوفاء للسمہودی،الباب الاول فی ذکر اسماء ہذہ البلدۃ الشریفۃ،ج۱،الجزء الاول،ص۱۷۔ علمیہ
[342] … خصائص کبریٰ، جزء اول، ص ۶۸۔
[343] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب فی انہ کان لا ینزل الذباب علیہ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۱۷۔ علمیہ
[344] … گندگی۔
[345] … سب سے زیادہ پاکیزہ۔
[346] … درمیان۔
[347] … کان کا نرم حصہ۔
[348] … پھیل جاتے۔
[349] … نظر بریں کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھیں قدرتی طور پر سرمگین تھیں اور بدن مبارک سے خوشبو آیا کرتی تھی آپ کو سرمہ یا خوشبو کے استعمال کی حاجت نہ تھی مگر بایں ہمہ آپ کا سرمہ اور خوشبو کو استعمال کرنا بغرضِ تعلیم اُمت ہوگا۔ فافہم۔۱۲منہ
[350] … مشکوٰۃ المصابیح، باب الترجل۔
[351] … مشکاۃ المصابیح،کتاب اللباس،باب الترجل،الحدیث:۴۴۲۱،ج۲،ص۱۲۸۔ علمیہ
[352] … داڑھی مبارک۔
[353] … لباس کے متعلق دیکھو مشکوٰۃ شریف، کتاب اللباس۔
[354] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ حیرۃ ‘‘ لکھا ہے یقینایہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ مشکاۃ المصابیح و دیگر کتب میں’’ حِبَرَۃ ‘‘ ہے۔ مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بھی یمن کی دھاری دار چادروں کا ذکر کیا ہے جنہیں ’’ حِبَرَۃ ‘‘ کہتے ہیںلہٰذا ہم نے یہی لکھا ہے۔ علمیہ
[355] … ریشمی گوٹ۔
[356] … چھنگلیا کے ساتھ والی انگلی۔
[357] … نعلین شریف۔
[358] … القصیدۃ النونیۃ، فصل فی الکلام فی حیاۃ الانبیائ۔۔۔الخ،ص۱۷۸ ۔علمیہ
[359] … صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ،الحدیث:۴۴۲۸،ج۳،ص۱۵۲۔علمیہ
[360] … بڑی رگ جو تمام رگوں کو خون پہنچاتی ہے۔
[361] … اس کے باوجود۔
[362] … وفاء الوفاء للسمہودی ،ج۲،الجزء الرابع،ص۱۳۵۲۔ علمیہ
[363] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،الحدیث:۱۳۶۱،ج۱،ص۲۶۴۔ علمیہ
[364] … پیش کیا جاتا ہے۔
[365] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب الجمعۃ،الحدیث:۱۳۶۶،ج۱،ص۲۶۵۔ علمیہ
[366] … شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور،باب احوال الموتی فی قبورھم۔۔۔الخ،ص۱۸۷(مرکز اہل سنت برکات رضا)۔علمیہ
[367] … وفاء الوفاء للسمہودی ،ج۲،الجزء الرابع،ص۱۳۵۲۔ علمیہ
[368] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں ’’ ارزق ‘‘ لکھا ہے جوکہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ مسلم شریف و دیگر کتب میں’’ ازرق ‘‘ہے لہٰذا ہم نے یہی لکھا ہے۔ علمیہ
[369] … نکیل یعنی اونٹ کے ناک کی رسی۔
[370] … صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الاسراء برسول اللّٰہ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۶۶،ص۱۰۳۔ علمیہ
[371] … یعنی حیاتِ ظاہری پر ہیں۔
[372] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس رسالے کا نام ’’ سلوک اقرب السبل الی سید الر سل ‘‘ لکھا ہے لیکن ’’ اخبار الاخیار ‘‘ میں اس کا نام ’’ سلوک اقرب السبل بالتوجہ الی سید الر سل ‘‘ ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے اس کا نام ’’ اخبار الاخیار ‘‘ کے مطابق لکھا ہے۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔ علمیہ
[373] … اخبار الاخیار مجتبائی، حاشیہ ص ۱۵۵۔
[374] … مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی علی ھامش اخبار الاخیار،ص۱۵۵۔ علمیہ
[375] … عمدہ اخلاق۔
[376] … پاک کرنا۔
[377] … ابتدائے پیدائش
[378] … ترجمۂکنزالایمان:اور بیشک تمہاری خُو بُو بڑی شان کی ہے ۔(پ۲۹،القلم:۴)
[379] … نوادر الاصول للحکیم الترمذی،الاصل الثالث و الستون و المائتان،الحدیث:۱۴۲۵،ج۱،ص۱۱۰۷۔ علمیہ
[380] … ترجمۂکنزالایمان:تو تم انہیں کی راہ چلو۔(پ۷،الانعام:۹۰)
[381] … صحیح مسلم،باب صلوٰۃ اللیل۔
[382] … صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا،باب جامع صلاۃ اللیل۔۔۔الخ، الحدیث:۷۴۶،ص۳۷۴۔ علمیہ
[383] … اللّٰہ عَزَّوَجَّلکی نازل کردہ کتابیں۔
[384] … القصیدتان،البردۃ للبوصیری،الفصل الثالث فی مدح رسول اللّٰہ،ص۱۲(ضیاء القرآن)