نبوت کا بو جھ ان اوصاف ([1] )کے بغیر بر داشت نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم میں کئی جگہ ان اوصاف کا ذکر آیا ہے۔
فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۳) (مائد ہ، ع ۳)
پس معاف کر ان سے اور در گز ر کر بیشک اللّٰہ نیکی کر نے والوں کو چاہتا ہے۔([2] )
وَ لَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰى مَا كُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰۤى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَاۚ- (انعام،ع۴)
اور البتہ بہت رسول تجھ سے پہلے جھٹلائے گئے۔پس وہ جھٹلانے اور ایذاء پر صبر کرتے رہے یہاں تک کہ ان کو ہماری مدد پہنچی۔([3] )
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (اعراف، اخیررکوع)
خوپکڑ معاف کر نا اور کہا کر نیک کام کو اور کنارہ کر جاہلوں سے۔([4] )
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْؕ- (احقاف، اخیر رکوع)
پس تو صبر کر جیسے صبر کر تے رہے اولو العزم رسول اور شتابی نہ کر ان کے واسطے ۔([5] )
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) (توبہ،ع۱۴)
تحقیق ابر اہیم تھا البتہ دردمند حلم والا۔([6] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی ذات کے حق کے لئے کبھی انتقام نہ لیا ،ہاں جب آپ کسی حرمت اللّٰہ کی بے حرمتی دیکھتے تو اللّٰہ کے واسطے اس کا انتقام لیتے۔([7] )
نبوت کے دسویں سال جیسا کہ پہلے آچکا ہے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قبیلہ ثَقِیف کو دعوت اسلام دینے کے لئے طائف تشریف لے گئے مگر بجائے رُوبراہ([8] ) ہونے کے انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو اس قدر اَذیت دی کہ نعلین مبارک خون آلودہ ہوگئے۔ جب آپ وہاں سے واپس ہو ئے توراستے میں پہاڑوں کے فرشتے نے حاضرخدمت ہو کر عرض کی: یامحمد! آپ جو چاہیں حکم دیں اگر اجازت ہو تو اَخْشَبَیْن([9] )کو ان پر اُلٹ دوں ۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ ہلاک ہوجائیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللّٰہ تعالٰی ان کی پشتوں سے ایسے بندے پیدا کرے گا جو صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا ئیں گے۔([10])
ہجرت سے پہلے مکہ میں کفار نے مسلمانوں کو اس قدر اذیت دی کہ ان کا پیمانہ صبر لبر یز ہو گیا۔ چنانچہ حضرت خباب بن الا رَت بیان کر تے ہیں کہ ہمیں مشرکین سے شدت وسختی پہنچی۔ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ سر مبارک کے نیچے چادر رکھ کر کعبہ کے سائے میں لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کیا: آپ مشرکین پر بد عاکیوں نہیں کر تے؟ یہ سن کر آپ اٹھ بیٹھے، چہرہ مبارک سرخ ہو گیا تھا۔فرمایا: تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لو ہے کی کنگھیاں چلا ئی جاتیں جس سے گوشت پوست سب علیحدہ ہو جاتااور ان کے سر پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دو ٹکڑے کردیئے جاتے۔ مگر یہ اذ یتیں ان کو دین سے بَرگَشْتَہ ([11] ) نہ کر سکتی تھیں ۔ اللّٰہ تعالٰی دین اسلام کو
کمال تک پہنچا ئے گایہاں تک کہ ایک سوار صَنْعاء سے حَضْرمَوت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈرنہ ہوگا۔([12] )
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غزوۂ بدر (رمضان ۲ ھ) سے واپس تشریف لا ئے تو راستے میں مقام صفر اء میں آپ کے حکم سے حضرت علی مر تضیٰ نے نضر بن حارِث بن علقمہ بن کلد ہ بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصی کو قتل کر ڈالا۔نضر مذکور اُن امر ائے قریش میں سے تھا جن کا شغل آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ایذا رسانی اور اسلا م کو مٹا نے کی کو شش کر نا تھا۔ اسی نَضْر کی بیٹی قُتَیْلہ نے جو بعد میں اسلام لائی اپنے باپ کامر ثیہ لکھا جس کے اَخیر میں یہ شعر ہیں :
مُحَمَّدٌ وَلَاَنْتَ ابْنُ نَجِیْبَۃ مِنْ قَوْمِھَا وَ الْفَحْلُ فَحْلٌ مُعْرِق
اے محمد! بیشک آپ اس ماں کے بیٹے ہیں جو اپنی قوم میں شریف ہے اور آپ شریف اصل والے مرد ہیں ۔
مَا کَانَ ضَرَّکَ لَوْ مَنَنْتَ وَ رُبَّمَا مَنَّ الَْفَتٰی وَ ھُوَ الْمَغِیْظُ الْمُحْنَق
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا کچھ نہ بگڑ تا تھا اگر آپ احسان کر تے اور بعض وقت جو ان احسان کرتا ہے، حالانکہ وہ غضبنا ک اور نہایت خَشْمْنَا ک([13] ) ہو تا ہے۔
وَالنَّضْرُاَقْرَبُ مَنْ اَسَرْتَ قَرَابَۃً وَ اَحَقُّ اِنْ کَانَ عِتْقٌ یُعْتَق
اور نَضْر آپ کے تمام قید یوں میں قرابت میں سب سے زیادہ قریب تھا اور آزادی کا زیادہ مستحق تھااگر ایسی آزادی پائی جائے کہ جس سے آزاد کیا جائے۔
جب یہ شعر حضور سید المر سلین رحمۃ للعا لمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں پہنچے تو ان کو پڑھ کر آپ اتنا روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔([14] ) اور فرمایا کہ اگر یہ اشعار نضر کے قتل سے پہلے میرے پاس پہنچ جاتے تو میں ضرورا سے قُتَیْلَہ کے حوالہ کر دیتا۔([15] )
جنگ بَدْرْ کے کچھ دن بعد ایک روز عُمیربن وَہْب بن خلف قرشی جُمَحِیاور صفوان بن امیہ بن خلف قرشی جُمَحِی خانہ کعبہ میں حطیم میں بیٹھے ہو ئے تھے۔ عمیر مذکور شیاطین قریش میں سے تھا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب کو اَذِیت دیا کرتا تھا۔ اس کا بیٹا وہب بن عمیر اسیر انِ جنگ میں تھا۔عمیر وصفوان کے درمیان یوں گفتگو ہوئی:
عمیر:بدر میں ہمارے سا تھیوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے کیا کیا مصیبتیں اٹھائیں ۔ ظالموں نے کس بے رحمی سے ان کو گڑ ھے میں پھینک دیا۔
صفوان: اللّٰہ کی قسم! ان کے بعد اب زندگی کا لطف نہ رہا۔
عمیر:اللّٰہ کی قسم! تو نے سچ کہا۔ اللّٰہ کی قسم ! اگر مجھ پر قرض نہ ہو تا جسے میں ادا نہیں کر سکتا اور عَیَال ([16] )نہ ہوتا جس کے تلف ہو جانے کا اندیشہ ہے تو میں سوار ہو کر محمد کو قتل کر نے جاتا کیونکہ اب تو ایک بہانہ بھی ہے کہ میرا بیٹا ان کے ہاتھ میں گرفتار ہے۔
صفوان: آپ کا قرض میں ادا کر دیتا ہوں ۔آپ کا عیال میرے عیال کے ساتھ رہے گا۔ میں آپ کے بال بچوں کا مُتَکَفِّل ہوں([17])جب تک وہ زند ہ ہیں ۔
عمیر: بس میرے اور آپ کے درمیان۔
صفوان: بسر و چشم۔ ( عمیر کی روانگی کے بعد لوگوں سے) تم شاد ہو کہ چند روز میں تمہارے پاس ایک واقعہ کی خبر آئے گی جس سے تم جنگ بدر کی سب مصیبتیں بھول جاؤ گے۔
(عمیر زہر میں بجھی ہوئی تیز تلوار لے کر مدینہ میں آتا ہے۔ اس وقت حضرت عمر فاروق مسلمانوں کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے جنگ بدر میں مسلمانوں پر خدا کی عنا یات کا ذکر کررہے ہیں ۔ عمیر تلوار آڑے لٹکائے ہوئے اپنی او نٹنی کو مسجد کے درواز ے میں بٹھا دیتا ہے۔)
عمر فاروق: ( عمیر کو دیکھ کر ) یہ کتادشمنِ خدا عمیرکسی شرارت کے لئے آیا ہے۔
رسول اللّٰہ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ):اسے میرے پاس لاؤ۔ ( عمیرسے ) آگے آؤ۔
عمیر: آپ کی صبح بخیر ہو۔
رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) : عمیر ! تو نے جا ہلیت کا تحیہ ([18] )کہامگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیں تیرے تحیہ سے بہتر عطا فرمایا ہے اور وہ سلام ہے جواہل بہشت کا تحیہ ہے۔
عمیر: یا محمد ! اللّٰہ کی قسم ! یہ تحیہ آپ کو تھوڑ ے دنوں سے ملا ہے۔
رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) : عمیر !کیونکر آنا ہوا ؟
عمیر: اپنے بیٹے کے لئے جو آپ کے پاس اسیر انِ جنگ میں ہے۔
رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) :پھر گلے میں تلوار آڑ ے کیوں لٹکا ئی ہے۔
عمیر: خدا ان تلوار وں کا براکرے انہوں نے ہمیں کچھ فائدہ نہ دیا۔
رسول اللّٰہ ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) :سچ بتاؤ کس لئے آئے ہو ؟
عمیر: فقط اپنے بیٹے کے لئے۔
رسول اللّٰہ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم):نہیں بلکہ تو اور صفوان دونوں حطیم میں بیٹھے ہو ئے تھے تو نے مقتولین بدر کا ذکر کیا جو گڑ ھے میں پھینکے گئے پھر تو نے کہا کہ اگر مجھ پر قرض اور بارِ عیال نہ ہوتا میں محمد کو قتل کر نے نکلتا۔ یہ سن کر صفوان نے بار قرض وعیال اپنے ذمہ لیا۔بد یں غرض کہ تو مجھے قتل کر دے مگر اللّٰہ تیرے اور اس غرض کے درمیان حائل ہے۔
عمیر: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے رسول ہیں ۔ یا رسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)ہم اس آسمانی وحی کو جو آپ پر نازل ہوئی تھی جھٹلادیا کر تے تھے۔آپ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)نے جو بات بتلا ئی وہ میرے اور صفوان کے سوا کسی کو معلوم نہ تھی۔ اللّٰہ کی قسم ! میں خوب جا نتا ہوں کہ خدا کے سوا آپ کو کسی نے نہیں بتا ئی۔ حمد ہے اللّٰہ کی جس نے مجھے اسلام کی تو فیق بخشی اَشْھَدُ اَن لَّا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَ ہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہ
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (اپنے اصحاب سے ) :تم اپنے بھائی عمیر کو مسائل دینی سکھا ؤاور قرآن پڑھا ؤ اور
اس کے بیٹے کو بھی چھوڑ دو۔([19] )
حضرت رَافع بن خَدِیْج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ غزوۂ اَنمار ( ربیع الا وَّل ۳ ھ ) میں ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے۔ آپ کی آمد کی خبر سن کر اعراب پہاڑوں کی چو ٹیوں پر چلے گئے۔ غَطَفَان نے دُعْثُور بن حارِث کو جواُن کا سر دار تھا کہا کہ محمد اس وقت اپنے اصحاب سے علیحد ہ ہے تمہیں ایسا موقع نہ ملے گا۔ دُعْثُور تیز تلوار لے کراتر آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لیٹے ہوئے ہیں وہ تلوار کھینچ کر آپ کے سر پر آکھڑا ہو ا آپ بیدار ہو ئے تو کہنے لگا: ’’تجھ کو مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘ آپ نے فرمایا: اللّٰہ ۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اسے ہٹا دیااور وہ گر پڑا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تلوار لے کر کہا: ’’تجھ کو مجھ سے کون بچا ئے گا؟‘‘ وہ بولا کوئی نہیں ۔ غرض رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے کچھ تَعَرُّض نہ کیا اور وہ ایمان لے آیا۔ ([20] )
غزوۂ اُحد (شوال ۳ ھ) میں کفار نے آپ کا دانت مبارک شہید کر دیا اور سر اور پیشانی مبارک بھی زخمی کر دی۔ اس حالت میں آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ ([21] )تھے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لاَ یَعْلَمُوْن ۔خدایا! میری قوم کا یہ گنا ہ معاف کردے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔([22] )
حضرت جابر بن عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ غز وۂ نجد ( غز وۂ ذَاتُ الرِّقاع جُمَادَی الا ُولیٰ ۴ھ ) میں ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے۔ واپس آتے ہوئے ایک گھنے جنگل میں آپ کو دوپہر ہو گئی۔ آپ ایک درخت کے سایہ میں اتر ے اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکادی اور آپ کے اصحاب ایک ایک کرکے درختوں کے سایہ میں اتر پڑے۔ اسی اثنا ء میں آپ نے ہمیں آواز دی ہم حاضر ہو ئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بَدُّ وآپ کے سامنے
بیٹھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں سو رہا تھااس نے آکر میری تلوار کھینچ لی، میں بیدار ہوا تو یہ تلوار کھینچے میرے سر پر کھڑا تھا۔ کہنے لگا:’’تجھ کو مجھ سے کون بچا ئے گا؟‘‘ میں نے کہا:اللّٰہ ۔یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ آپ نے اس کو کچھ سزا نہ دی۔ ([23] )اس اعرابی کا نام غَوْرَث بن حارِث تھا۔
حضرت جابر بن عبد اللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ راوی ہیں کہ ایک غز وہ (غزوۂ مر یسیع شعبان ۵ھ) میں ہم رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے۔ ایک مہاجر نے ایک انصاری کے تھپڑمارا، انصاری نے انصار اور مہاجر نے مہاجرین کو مدد کے لئے پکارارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سنا تو پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب سارا ماجرا عرض کیا گیا تو فرمایاکہ یہ دعویٔ جاہلیت اچھا نہیں ۔ اس طرح رفع فساد ہوگیا۔([24] ) رأس المنافقین ([25] ) عبد اللّٰہ بن اُبی خزرجی نے سنا تو کہنے لگا کہ’’اگر ہم اس سفر سے مدینہ میں پہنچ گئے تو جس کا اس شہر میں زور ہے وہ بے قدر شخص کو نکال دے گا۔‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ خبر پہنچی تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! آپ مجھے اجازت دیں کہ اس منافق کی گر دن اڑا دوں ۔ مگر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اسے جانے دو کیونکہ لوگ یہی کہیں گے کہ محمد اپنے اصحاب کو قتل کرتا ہے۔([26] ) جائے غور ہے کہ آپ کا یہ سلوک اس شخص کے ساتھ ہے جو عمر بھر منافق رہاجس نے آپ کو اَذَل بتایا جو جنگ اُحد میں عین مو قع پر تین سو کی جمعیت لے کر راستہ میں سے واپس آگیا اور ہمیشہ آپ کی مخالفت وتو ہین میں سر گر م رہا۔
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غز وۂ مُرَیْسِیْع سے واپس ہو ئے تو را ستے میں واقعہ اِفک پیش آیا جس کا بانی یہی رأس المنا فقین تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس کا علم تھامگر معاملہ گھر کاتھااس لئے فیصلہ خدا پر چھوڑا تاکہ منافقین کو چون و چرا کی گنجائش نہ رہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالٰی نے اس واقعہ کی تکذیب اپنے کلام پاک
میں کر دی۔ بایں ہمہ جب یہ منافق مرا تو آپ کو نماز جنازہ کے لئے بلا یا گیا۔جب آپ ا س پر نماز پڑھنے لگے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکیا آپ ابن اُبی پر نماز پڑ ھتے ہیں ۔ جس نے فلاں فلاں روز ایسا ایسا کہا۔ ‘‘اس پر آپ نے مسکر ا کر فرمایا: عمر! ہٹو۔ جب اِصر ار کیا تو فرمایا کہ اِستِغفار وعدم استغفار کا مجھے اختیار دیا گیا ہے اگر مجھے معلوم ہو تا کہ ستر سے زیادہ بار استغفار سے اس کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں ویسا ہی کرتا۔ جب آپ نماز جنازہ سے فارغ ہو کر واپس تشریف لائے تو آیندہ کے لئے حکمِ ممانعت نازل ہوا۔([27] )
فُرات بن حَیَّان جو انصار میں سے ایک شخص کا حلیف تھا ابو سفیان کی طرف سے مسلمانوں کی جاسوسی پر مامور تھا۔ غزوۂ خند ق (ذیقعد ہ ۵ھ ) میں وہ جاسوسی کرتا ہوا پکڑا گیا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ لوگ اس کو پکڑ کر لے چلے۔ راستے میں اس کا گز رانصار کے ایک حلقہ پر ہوا تو کہنے لگا کہ میں مسلمان ہوں ۔ ایک انصاری نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اطلاع دی کہ فرات کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ آپ نے فرمایاکہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو ہم ان کے ایمان پر چھوڑتے ہیں ان میں سے ایک فرات ہے۔ حضرت فرات بعد میں صدق دل سے ایمان لائے اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کو یمامہ میں ایک قطعہ زمین عطا فرمائی جس کی آمد نی چار ہزار([28] ) دوسوتھی۔([29] )
ثُمَامہ بن اُثال الیَمامی جواہل یمامہ کا سر دار تھا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو قتل کر نا چاہتا تھا۔ آپ نے دعا فرمائی تھی کہ خدایا! اس کو میرے قابو میں کر دے۔ حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہروایت کر تے ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سواروں کا ایک دستہ نجدکی طرف بھیجاوہ بنو حنیفہ میں سے ایک شخص ثمامہ بن اُثال کو پکڑ لائے اور اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کی طرف نکلے تو پو چھا:
ثمامہ! کیا کہتے ہو؟ ثمامہ نے کہا:یا محمد! اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک خونی کو قتل کر یں گے اور اگراحسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اگر آپ زر فد یہ چاہتے ہیں تو جس قدر مانگیں دے دوں گا۔ آپ نے یہ سن کر کچھ جواب نہ دیا۔ دوسرے روز بھی یہی گفتگو ہوئی۔ تیسرے روز آپ نے اس کا وہی جواب سن کر حکم دیا کہ ثمامہ کو کھول دو۔ یہ عنایت دیکھ کر اس نے مسجد کے قریب ایک درخت کی آڑ میں غسل کیا اور مسجد میں آکر کلمہ شہادت پڑ ھا اور کہنے لگا: ’’اے محمد! خدا کی قسم! میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض نہ تھااب وہی چہرہ میرے نزدیک سب چہر وں سے زیادہ محبوب ہے۔ اللّٰہ کی قسم! میرے نزدیک کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مبغوض([30] ) نہ تھااب وہی دین میرے نزدیک سب دینوں سے زیادہ محبوب ہے۔ اللّٰہ کی قسم! میرے نزدیک کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مبغوض نہ تھا اب وہی شہر میرے نزدیک سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔([31] )وفاء الوفاء میں ہے کہ حضرت ثمامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی گرفتاری شروع ۶ھ میں ہوئی۔
حضرت اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت([32] )کرتے ہیں کہ اہل مکہ میں سے اَسّی مر د کوہِ تَنْعِیم([33] ) سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر آپڑے۔ وہ ہتھیار لگا ئے ہو ئے تھے اور چاہتے تھے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب کو غافل پائیں ۔ آپ نے ان کو لڑائی کے بغیر پکڑ لیا اور زند ہ رکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کو چھوڑ دیا۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی :
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ (فتح، ع ۳)
اور خدا وہ ہے جس نے مکہ کے نواح میں ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے بازر کھا۔([34] )
([35] )یہ واقعہ قَضْیَہ حُدَیبِْیَہ (ذیقعد ہ ۶ھ) میں ہوا تھا۔
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غزوۂ خیبر ( محرم ۷ ھ) سے واپس تشریف لا ئے تو ایک روز سلام بن مِشکَم یہودی کی زَوجہ زَینب بنت حارث نے بکری کا گو شت بھون کر زہر آلودہ کر کے آپ کی خدمت میں بطورِ ہد یہ بھیجاجسے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اور آپ کے چند اصحاب نے کھا یا۔ باوجود اعتراف کے آپ نے اس یہود یہ کواپنی طرف سے معاف کر دیامگر جب اس کے سبب سے ایک صحابی نے انتقال فرمایا تو قصاص میں اس کو قتل کر دیا گیا۔([36] ) جیسا کہ اس کتاب میں پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اسی سال ماہ محرم ہی ([37] ) میں لَبِیْد بن اَعْصَم یہودی منافق نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جادو کر دیامعلوم ہو جانے پر آپ نے اس سے بھی کچھ تَعَرُّض نہ فرمایا۔([38] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میری ماں مشرکہ تھیں ۔ میں ان کو دعوت اسلام دیا کر تا تھا۔ ایک دن میں نے ان کو دعوت اسلام دی تو انہوں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں مجھے مکروہ الفاظ سنائے۔ میں روتا ہوا آپ کی خدمت اقدس میں گیا اور واقعہ عرض کر کے دعا ئے ہدایت کی درخواست کی۔ آپ نے یوں دعا فرمائی: ’’خدا یا! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔‘‘ میں اس دعا سے خوش ہو کر گھر آیا تو دیکھا کہ کواڑ بند ہیں ۔ میری ماں نے میرے قدم کی آہٹ سن کر کہا: ابو ہریرہ! یہیں ٹھہر و۔ میں نے پانی کی آواز سنی۔ انہوں نے غسل کر کے جلدی کپڑے پہنے اور دروازہ کھولتے ہی کلمہ شہادت پڑھا۔([39] )
جن دنوں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فتح مکہ (رمضان ۸ھ) کے لئے پوشیدہ تیار یاں کر رہے تھے۔ حضرت حاطب بن ابیبَلْتَعَہنے بغر ضِ اِطلاعِ قریش ایک خط لکھا اور ایک عورت کی معرفت مکہ روانہ کیا وہ خط راستے میں
پکڑا گیابا و جود ایسے سنگین جرم کے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت حاطب کو معاف کر دیا اور اس عورت سے بھی کسی قسم کا تَعَرُّض نہ کیا۔
ابو سفیان بن حرب جو اسلام لا نے سے پہلے غز وۂ اُحد وغزوۂ اَحزاب میں رأس المشرکین تھے۔ غز وۂ فتح میں مقامِ مَرُّالظَّہران میں مسلمانوں کی جاسوسی کر تے ہوئے گر فتار ہوئے۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ان کو لے کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئے۔ آپ ابو سفیان سے مروت سے پیش آئے اور وہ اسلام لائے۔
قریش آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مُذَمَّم کہہ کر گالیاں دیا کر تے تھے۔ مگر آپ فرمایا کر تے: ’’کیا تم تعجب نہیں کر تے کہ اللّٰہ تعالٰی قریش کی دُشْنَام([40] )و لعنت کو کس طرح مجھ سے بازر کھتا ہے وہ مُذَمَّم کہہ کر گالیاں دیتے اور لعنت کر تے ہیں حالانکہ میں محمد ہوں ۔‘‘([41] )
اعلانِ دعوت سے ساڑھے سترہ سال تک قریش نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب کو جوجو اَذِیتیں دیں ان کی داستان دُہر انے کی ضرورت نہیں ۔ فتح مکہ کے دن وہی قریش مسجد حرام میں نہایت خوف و بیقرار ی کی حالت میں آپ کے حکم کے منتظر ہیں ۔ آپ ان اذیتوں کا ذکر تک زبان مبارک پر نہیں لا تے اور یہ حکم سناتے ہیں : اِذْھَبُوا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَائ(جاؤتم آزاد ہو۔) اس عالی حو صلگی کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔ اس عفوعام کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ حنین میں دوہزار طُلَقا ء لشکر اسلام میں شامل تھے۔
ہندبنت عُتْبَہ (زوجہ ابو سفیان بن حرب ) جو حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چباگئی تھیں فتح مکہ کے دن نقاب پو ش ہو کر ایمان لا ئیں تا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہچان نہ لیں ۔ بیعت کے موقع پر بھی گستاخی سے بازنہ رہیں ۔ ایمان لا کر نقاب اُٹھا دیا اور کہنے لگیں کہ میں ہندبنت عتبہ ہوں ۔ مگر حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی امر کاذکر تک نہ کیا۔ یہ دیکھ کر ہند نے کہا: ’’یا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! رو ئے زمین پر کوئی اہل خیمہ
میری نگاہ میں آپ کے اہل خیمہ سے زیادہ مبغوض نہ تھے لیکن آج میری نگاہ میں روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہل خیمہ سے زیادہ محبوب نہیں رہے۔‘‘([42] )
عِکرَمہ بن اَبی جہل قُرَشی مخزومی اپنے باپ کی طرح رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سخت دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن وہ بھاگ کر یمن چلے گئے۔ ان کی بیوی جو مسلمان ہو چکی تھی وہاں پہنچی اور کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے بڑھ کر صلہ رحم اور اِحسان کر نے والے ہیں ۔ غرض وہ عکرمہ کو بار گاہ رسالت میں لائی۔ عکرمہ نے آپ کو سلام کہا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور ایسی جلد ی سے ان کی طرف بڑھے کہ چادر مبارک گر پڑی اور فرمایا: ([43] )مرحبا بالرّاکب المھاجر([44] )ہجرت کر نے والے سوار کو آنا مبارک ہو۔
صَفوَان ابن اُمَیَّہ جاہلیت میں اَشرافِ قریش میں سے تھے اور اسلام کے سخت دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن بھاگ گئے تھے۔ حضرت عُمیر بن وَہْب نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ صفوان میری قوم کے سردار ہیں وہ بھاگ گئے ہیں تاکہ اپنے آپ کو سمند رمیں ڈال دیں ۔ اَحمرو اَسود کو آپ نے امان دی ہے ان کو بھی امان دیجئے۔ آپ نے فرمایا: تو اپنے چچیر ے بھائی کو لے آ!اسے امان ہے۔حضرت عمیر نے عرض کیا کہ امان کی کوئی نشانی چاہیے جو میں اسے دکھا دوں ۔ آپ نے اپنا عمامہ جو فتح مکہ کے دن پہنے ہو ئے تھے عطا فرمایا۔ صفوان جدہ میں جہاز پر سوا رہو نے کو تھے کہ حضرت عمیر جاپہنچے اور ان کو مژدۂ امان سنایا۔ صفوان نے کہا : مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت عمیر نے کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حلم وکرم اس سے برتر ہے۔ غرض صفوان حاضر خدمت اقدس ہو ئے اور عرض کیاکہ یہ عمیر کہتا ہے کہ آپ نے مجھے امان دی ہے۔ آپ نے فرمایا: عمیر سچ کہتا ہے ۔ یہ سن کر صفوان نے کہا: یارسول اللّٰہ!
دو ماہ کی مہلت دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ تجھے چار ماہ کی مہلت ہے۔([45] )حضرت صفوان غز وۂ طائف کے بعد بر غبت و رضاایمان لائے۔
جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم محاصر ۂ طائف (شوال ۸ھ) سے واپس آنے لگے تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ ثَقِیف پر بد دعافرمائیں ۔ مگر آپ نے یوں دعافرمائی: اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا۔ (خدا یا! ثقیف کو ہدایت دے۔) چنانچہ وہ دعا قبول ہوئی اور ثقیف ۹ھمیں ایمان لائے۔
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے جِعْرَ انہ میں غَنَائم حنین تقسیم فرمائیں تو ایک منافق انصاری نے کہا کہ اس تقسیم سے رضا ئے خد امطلوب نہیں ۔ حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ ماجراآپ سے عرض کیا تو فرمایا: ’’خدا موسیٰ پر رحم کر ے ان کو اس سے زیادہ اذیت دی گئی، پس صبر کیا۔‘‘([46] )
جب ابو العاص بن رَبِیع نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادی حضرت زینب کو مکہ سے مدینہ بھیجا تو را ستے میں چند سُفَہا ئے قریش نے مزاحمت کی۔ ان میں سے ہَبَّار بن اَسو د قریشی اَسد ی نے حضرت زینب کو اونٹ سے گر ادیا۔ وہ حاملہ تھیں پتھر پر گریں حمل ساقط ہو گیا اور ان کو سخت چوٹ آئی اور اسی میں جاں بحق ہوئیں ۔ فتح مکہ کے دن ہَبَّار مذکور وَاجب القتل اشتہار یوں میں تھاوہ مکہ سے بھاگ گیا اور چاہتا تھا کہ ایر ان چلا جائے۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جِعرانہ سے واپس تشریف لائے تو وہ بار گاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور یوں عرض کر نے لگا: ’’یانبی اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں آپ کے ہاں سے بھا گ کر شہر وں میں پھر تا رہا میرا ارادہ تھا کہ ایر ان چلا جاؤں پھر مجھے آپ کی نفع رسانی، صلہ رحمی اور عفو و کرم یاد آئے مجھے اپنی خطا وگنا ہ کا اعتراف ہے آپ در گزر فرمائیں ۔‘‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’میں نے تجھے معاف کر دیا۔‘‘ ([47] )
کَعْب بن زُہَیر اور ان کے بھائی بُجَیْرْ([48] )’’ اَبرَ ق عَزَّاف ‘‘([49] ) میں بکریاں چرایا کر تے تھے۔ بُجَیْرْنے کعب سے کہا: ’’تم یہاں ٹھہر ومیں اسی مد عی نبوت کے پاس جاتا ہوں تاکہ دیکھوں وہ کیا کہتا ہے۔‘‘ بجیر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں آئے اور آپ کا کلام سن کر مسلمان ہو گئے۔ کعب کو یہ خبر لگی تو انہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہجو اور اسلام کی تو ہین میں یہ اشعاربجیر کو لکھ بھیجے :
الا ابلغا عنی بُجَیرا رسالۃ فھل لک فیما قلت ویحک ھل لکا
سقاک ابوبکر بکأس رَوِیّۃ فانھلک المامون منھا و علکا
ففارقت اسباب الھدی و اتبعتہ علی ایّ شیئٍ ریب غیرک دلکا
علی خلق لم تلف اُ مًّا و لَا ابًا علیہ و لم تعرف علیہ اخا لکا
فان انت لم تفعل فلست باٰسف و لا قائل اما عثرت لعًا لکا
آگا ہ ر ہو میری طرف سے بجیر کو یہ پیغام پہنچا دو کہ کیاتو نے دل سے کلمہ شہادت پڑھ لیا ہے۔ تجھ پر افسوس! کیا تو نے دل سے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ ابو بکر نے تجھے سیراب کر نے والا پیالہ پلادیا اور امین (حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) نے تجھے اس پیالہ سے پہلی بار اور دوسری بار پلا دیا۔ اس لئے تو اسباب ہدایت چھوڑ کر اس کا پیروبن گیا اس نے تجھے کیا بتا یا تو اَوروں کی طرح ہلاک ہو گیا۔ اس نے ایسا مذہب بتا یاجس پر تو نے اپنے ماں باپ کو نہ پایا اور نہ اپنے بھائی کو اس پر دیکھا۔اگر تو نے میرا کہا نہ ماناتو میں تجھ پر تا سف نہ کروں گا اور تو ٹھو کر کھا کر گر پڑے تومیں دعا نہ کروں گا کہ تو اٹھ کر کھڑاہوجائے۔
حضرت بُجَیر نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ ماجر اعرض کر دیا۔ آپ نے کعب کا خون ہَدْر ([50] )فرما دیا۔ پھر حضرت بجیر نے کعب کو اطلا ع دی اور تر غیب دی کہ حاضر خدمت اقدس ہو کر معافی مانگیں ۔ چنانچہ وہ ۹ھ میں غز وۂ تبوک سے پہلے حاضر خدمت ہو ئے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس وقت مسجد میں اپنے
اَصحاب میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ کَعْب سے واقف نہ تھے کَعْب نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عرض کیا: یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! کَعْب بن زُہَیر مسلمان ہو کر امان طلب کر تا ہے اجازت ہو تو میں اسے آپ کے پاس لے آؤں ۔ آپ نے اجازت دی پھر کعب نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! کعب میں ہی ہوں ۔ بعد ازاں اسلام لاکر انہوں نے اپنا قصید ہ پڑھا جس میں اشعار تو طیہ کے بعد یہ شعر ہے :
اُ نْبِئْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوْعَدَنِیْ وَ الْعَفْوُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ مَامُوْل
مجھے خبر دی گئی ہے کہ بار گاہِ رسالت سے میری نسبت وعید قتل صادِر ہو ئی ہے حالانکہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عفوکی امید کی جا تی ہے۔
اس قصیدہ سے خوش ہو کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت کعب کو اپنی چادر (بردہ) عطا فرمائی اور ان کی گز شتہ خطا کا ایک حرف بھی زبان پر نہ لائے۔ ([51] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے چچا حضرت امیر حمزہ کا قاتل وَحشی حبشی غلام سفیان بن حرب جنگ اُحد کے بعد مکہ میں رہا کر تا تھا۔ جب مکہ میں اسلام پھیلا تو وہ بھاگ کر طائف چلا گیاپھر وہ وفدطائف کے ساتھ ماہ رمضان ۹ھمیں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ایمان لا یاآپ نے ان سے صرف اتنا فرمایا کہ مجھے اپنا چہرہ نہ دکھایا کرو۔([52] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نہ فاحِش([53] ) تھے اور نہ مُتَفَحِّش اور نہ بازار میں شور کر نے والے تھے۔ آپ بدی کا بدلہ بدی سے نہ دیا کرتے تھے بلکہ معاف کر دیتے اور در گزر فرماتے۔([54] )
اب ہم چند متفرق مثالیں اور پیش کر تے ہیں ۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے مسجدنبوی میں پیشاب کر دیالوگ اسے مار پیٹ کر نے کے لئے اٹھے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اسے جانے دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا ایک ڈول بہادوکیونکہ تم نرم گیر بنا کر بھیجے گئے ہوسخت گیر بنا کر نہیں بھیجے گئے۔‘‘ ([55] )
حضرت اَنَس کا بیان ہے کہ ایک روز میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ جار ہاتھاآپ سخت حاشیہ والی ([56] )نجرانی چادر اَوڑ ھے ہوئے تھے۔ ایک بَدُّو آپ کے پاس آیااس نے آپ کی چادر کے ساتھ آپ کو ایسا سخت کھینچاکہ چادر پھٹ گئی۔ آپ کی گر دن مبارک کو جو میں نے دیکھااس میں چادر کے حاشیہ نے اثر کیا ہوا تھاپھر اس بَدُّو نے کہا: ’’اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)آپ کے پاس جو خدا کا مال ہے اس میں میرے واسطے حکم کیجئے۔‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی طرف دیکھا پھر ہنس کے اس کے لئے بخشش کا حکم دیا۔([57] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خطابخشی کا یہ عالم تھا کہ حسب بیان حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاآپ نے کبھی کسی عورت یا خادم کو اپنے دست مبارک سے نہیں مارا۔([58] )
حضرت زید بن سَعْنَہ جو اَحبارِ یہود ([59] )میں سے تھے اپنے اسلام لا نے کا قصہ یوں بیان کر تے ہیں کہ میں نے تو رات میں نبی آخر الزماں کی نبوت کی جو علامات پڑھی تھیں ۔ وہ سب میں نے رُوئے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھتے ہی پہچان لیں ۔ صرف دو خصلتیں ایسی تھیں جن کا آزمانا باقی رہایعنی آپ کا حلم آپ کے غضب پر سبقت لے جاتا ہے اور دوسرے کی شدت جہالت وایذاء آپ کے حلم کو اور زیادہ کردیتی ہے ان دونوں کی آزمائش کے لئے میں موقع
کا منتظر تھا اور آپ سے تَلَطُّف ([60] )سے پیش آتا تھاایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے دولت خانہ سے نکلے آپ کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب تھے۔ ایک سوار جو بظاہر کوئی بادیہ نشین([61] )تھا آپ کی خدمت میں آیا اور یوں عرض کرنے لگا: ’’یارسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فلاں قبیلے کے لوگ ایمان لائے ہیں میں ان سے کہا کر تا تھا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو تمہیں رزق بکثرت ملے گا۔ اب ان کے ہاں اِمساک باراں ([62] ) اور قحط ہے۔ یارسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے اندیشہ ہے کہیں وہ طمع کے سبب سے اسلام سے برگشتہ نہ ہو جائیں ۔ ([63] ) کیونکہ طمع کے لئے ہی وہ اسلام میں داخل ہو ئے ہیں ۔ اگر آپ کی ر ائے مبارک ہو توکچھ ان کی دستگیر ی فرمائیے۔‘‘ یہ سن کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے پہلو میں ایک شخص (جو میرے گمان میں حضرت علی تھے ) کی طرف دیکھا۔ اس نے عرض کیا کہ اس میں سے تو کچھ با قی نہیں رہا۔ یہ دیکھ کر میں آگے بڑھا اور آپ سے کھجوروں کی میعاد معین میعاد معلوم پر خرید کی اور اس کی قیمت اَسّی مثقال سونا اپنی ہمیان ([64] )سے نکال کر پیشتر دے دی۔ آپ نے وہ اَسی مثقال اس سوار کو دے دیئے اور فرمایا کہ جلدی جاؤ اور اس قبیلے کے لوگوں میں اسے تقسیم کر دو۔ جب میعاد ختم ہو نے میں دو تین دن باقی رہ گئے تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک انصاری کے جنازے کے ساتھ نکلے۔آپ کے ہمراہ منجملہ دیگر اصحاب حضرت ابو بکر وعمرو عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمتھے۔ جب آپ نمازِ جنازہ سے فارغ ہو ئے اور بیٹھنے کے لئے ایک دیوار کے قریب پہنچے تو میں نے آگے بڑھ کر آپ کی قمیص اور چادر کے دامن پکڑ لیے اور تُند نگاہ([65] )سے آپ کی طرف دیکھ کر یوں کہا: ’’اے محمد! کیا تو میرا حق ادا نہیں کر تا۔ اے عبد المطلب کے خاندان والو! قسم بخدا ! تم ادائے حق سے گریز کر نے کے لئے حیلے حوالے کیا کر تے ہو۔‘‘ حضرت عمر نے تیز نگاہ سے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’او دشمن خدا! کیا تو ر سول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ کہتا ہے جو سن رہاہوں اور آپ کے ساتھ یہ سلوک کر تا ہے جو میں دیکھ رہا ہوں ۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے۔اگر مجھے مسلمانوں اور تیری قوم کے درمیان صلح کے فوت ہو جانے کا ڈر نہ ہو تا تو اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا۔‘‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آرام و آہستگی اور تبسم کی حالت میں حضرت عمر کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’عمر! مجھے اور اسے بجائے اس سختی کے اس بات کی زیادہ ضرورت تھی کہ تم مجھے
حسن ادا ئے حق اور اسے حسن تقاضا کا امر کر تے۔ اے عمر! اس کو لے جاؤ اور اس کا حق ادا کر دواور اسے جو تم نے دھمکایا ہے اس کے عوض بیس صاع کھجوریں اور دے دو۔ ‘‘ حضرت عمرمجھے اپنے ساتھ لے گئے اور میرا حق اداکردیااور بیس صاع کھجوریں علاوہ دیں ۔ میں نے پوچھا کہ یہ زائد کیسی ہیں ؟ حضرت عمر نے اس کو جواب دیا پھر میں نے کہا:عمر! کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ جواب دیاکہ نہیں ۔ میں نے کہا کہ میں زیدبن سَعْنہ ہوں ۔ فرمایا: وہی زید جو یہودیوں کا عالم ہے؟ میں نے کہا: ہاں ۔ پھر پوچھا کہ تو نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟ میں نے کہا: اے عمر! جس وقت میں نے روئے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا وہ تمام علامات جو میں تو رات میں پڑ ھتا تھا موجود پائیں ۔ ان میں صرف دو علامتیں باقی تھیں جو میں نے اب آزمالیں ۔ ’’اے عمر! میں تجھ کو گو اہ بناتا ہوں کہ میں اللّٰہ کو اپنا پر ور دگار اور اسلام کو اپنا دین اور محمد کو اپنا پیغمبر ماننے پر راضی ہو گیا اور میں تجھے گو اہ بناتاہوں کہ میرا آدھا مال امت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر صدقہ ہے۔‘‘ پھر حضرت عمر اور زید دونوں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور حضرت زید نے بارگاہ رسالت میں اظہار اسلام کیا۔ ([66] ) اسلام لانے کے بعد حضرت زید بن سَعْنہ بہت سے غز وات میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ رہے اور غزوہ تبوک میں دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے شہید ہوئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔([67] )
اللّٰہ تعالٰی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سارے جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ ارشاد ِباری تعالٰی ہے :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (انبیائ، ع۷)
اور نہیں بھیجا ہم نے تجھ کو مگر رحمت بنا کر سارے جہاں کے لئے۔([68] )
اس لئے تمام مخلوقات آپ کی رحمت سے بہر ہ وَرہے جیسا کہ ذیل کے مختصر بیان سے واضح ہو گا۔
اللّٰہ تعالٰی حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان میں یوں فرماتا ہے:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (تو بہ، اخیر رکوع)
البتہ تحقیق تمہارے میں کا ایک پیغمبر تمہارے پاس آیا ہے تمہاری تکلیف اس پر شاق گزرتی ہے اسکو تمہاری ہدایت و صلاح کی حرص ہے وہ ایمان والوں پر شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے([69] )
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اوصاف حمید ہ میں ذکر کر دیا کہ امت کی تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے۔ان کو شب وروز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ امت راہ راست پر آجائے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے امت کی ہدایت وبہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں ۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بددعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دعا کی۔ایمان والوں پر آپ کی شفقت ورحمت ظاہر ہے اسی واسطے آپ نے کسی مقام پر امت کو فراموش نہیں فرمایا بغرض توضیح چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
جس روز آند ھی یا آسمان پربادل ہو تارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک میں غم وفکر کے آثا ر نمایاں ہو تے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہو تے اور حالت غم جاتی رہتی۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس کا سبب دریافت کیاتو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا ([70] ) ( قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔([71] )
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا ما نگی :
اَللّٰھُمَّ مَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْھِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ وَمَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُ مَّتِیْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِھِمْ فَارْفُقْ بِہٖ ([72] )
خدا یا جو شخص میری امت کے کسی کام کا وَالی ومُتَصَرِّف بنا یا جائے پس وہ ان کو مشقت میں ڈالے تو اس والی کو مشقت میں ڈال اور جو شخص میری امت کے کسی کا م کا والی بنا یا جائے پس وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو اس والی کے ساتھ نرمی کر۔
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جہاد کا اس قدر شوق تھا کہ آپ چاہتے تھے کہ میں باربار شہید ہو کر زندہ ہو تا رہوں مگر چونکہ امت میں سے ہر ایک پر واجب تھا کہ جہاد میں آپ کے ساتھ نکلے بفحوائے آیۂ ذیل : ([73] )
مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- (توبہ، ع۱۵)
نہ چاہیے مدینہ کے رہنے والوں کو اور ان اَعراب کو جوان کے گردہیں کہ پیچھے رہ جائیں رسول خدا سے اور نہ یہ کہ رسول کی جان سے اپنی جان کو زیادہ چاہیں ۔([74] )
اس لیے آ پ سر ایا میں لشکر اسلام کے ساتھ بدیں خیال تشریف نہ لے جایا کر تے تھے کہ اگر میں ہر فوج کے ہمراہ جاؤں تو مسلمانوں کی ایک جماعت پیچھے رہ جائے گی۔کیونکہ میرے پاس اس قدر گھوڑے اونٹ نہیں کہ سب کو سوار کر کے ساتھ لے جاؤں اور نہ ان میں استطاعت ہے کہ سوار ہو کر میرے ساتھ چلیں ۔اس طرح پیچھے رہ جانے والے گنہگار اور ناخوش و شِکَسْتَہ دِل ہوں گے۔([75] )
حضرت عبد اللّٰہ بن عمر و بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا قول حضرت ابراہیم کی نسبت ’’ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-۔۔۔الآ یہ‘‘([76] )اور حضرت
عیسیٰ کا قول" اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸)"([77] ) تلاوت فرمایا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی : اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ( خدا یا میری امت میری امت ) اور روپڑے۔ اللّٰہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل کو حکم دیا کہ محمد کے پاس جاؤ (حالانکہ تیرا پر وردگار خوب جانتا ہے۔) ان سے رونے کا سبب دریافت کرو۔ حضرت جبرئیل نے حاضر خدمت ہو کر رونے کا سبب پوچھا۔ آپ نے بتا دیا ( حالانکہ خدا کو خوب معلوم ہے۔) اللّٰہ تعالٰی نے حکم دیا: اے جبرئیل ! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور غمگین نہ کریں گے۔([78] )
حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ جناب پیغمبر خد ا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جو مومن مر جائے اور مال چھوڑ جا ئے تو وہ اس کے وار ثوں کو خواہ کوئی ہو ں ملنا چاہییے اور جو مومن قرض یا ( محتاج ) عیال چھوڑ جائے تو چاہیے کہ قرض خواہ یا عیال میرے پاس آئے کیونکہ میں اس کا وَلی و مُتَــکَفِّل([79] )ہوں ۔([80] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تین رات نماز تراویح اپنے اصحاب کرام کو پڑھائی چوتھی رات صحابہ کرام بکثرت مسجد میں جمع ہو ئے اور انتظار کر تے رہے مگر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف نہ لائے۔ صبح کی نماز کے بعد آپ نے یوں تقریر فرمائی: ([81] )اَ مَّا بَعْدُ فَاِ نَّہٗ لَمْ یَخْفَ عَلیَّ مَکَانَــکُمْ لٰـکِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْھَا۔([82] )
امابعد! تمہارا مسجد میں جمع ہو نا مجھ پر پو شید ہ نہ تھالیکن میں ڈرگیا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے اور تم اس کے ادا کر نے سے عاجز آجاؤ۔
نماز تراویح کی طرح بعضے اور افعال کو آپ نے صرف اس ڈرسے ترک کردیا کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائیں ۔ ہر نماز کے لئے مسواک کا ترک کرنا، تا خیر عشاء کا ترک کر نا اور صوم وصال([83] ) سے منع فرمانا اسی قبیل سے ہیں ۔
یہ آپ کی شفقت ہی کا باعث تھا کہ دین ودنیا میں امت کے لئے تخفیف و آسانی ہی مد نظر رہی۔ چنانچہ جب آپ کو دواَمر وں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ آسان مو جب گناہ نہ ہو تا اور اگرایسا ہوتا تو آپ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہنے والے تھے۔([84] )
شب معراج میں پہلے پچاس نمازیں فرض ہو ئیں ۔ بارگاہ رب العزت سے واپس آتے ہوئے جب آپ آسمان ششم میں حضرت موسیٰ (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) کے پاس سے گز رے تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا حکم ملا ہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہرروزپچاس نمازوں کا حکم ملاہے۔ حضرت موسیٰ (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) نے عرض کیاکہ آپ کی امت ہر روز پچاس نماز یں نہ پڑھ سکے گی۔ آپ اپنی امت سے بو جھ ہلکا کرائیں ۔ چنانچہ آپ درگاہ رب العزت میں باربار حاضر ہو کر تخفیف کراتے رہے یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں اور آپ اس پر راضی ہو گئے۔([85] ) (صحیحین)
جب شب معراج میں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مقام قاب قوسین میں پہنچے تو باری تعالٰی کی طرف سے آپ پر یوں سلام پیش ہوا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ‘‘ اے نبی ! تم پر سلام اور اللّٰہ کی رحمت اور بر کتیں ۔ اس کے جواب میں آپ نے عرض کیا:’’اَ لسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْن’‘سلام ہم پر اور اللّٰہ کے نیک بندوں پر۔
اس جواب میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عباد ِصالحین کو الگ ذکر کر کے گنہگار انِ اُمت کو غایت
کرم سے سلام میں اپنے ساتھ شامل رکھا اور اسی واسطے صیغہ جمع (علینا ) استعمال فرمایا۔
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میرا حال اور میری امت کا حال اس شخص کی مثل ہے جس نے آگ روشن کی پس ٹڈیاں اور پروانے اس میں گر نے لگے اور وہ ان کو آگ سے ہٹا تا تھا سو میں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا نے والا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹتے ہو۔([86] ) (اور آگ میں گر نا چاہتے ہو۔ )
قیامت کے دن لوگ بغرضِ شفاعت یکے بعد دیگر ے اَنبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پاس جائیں گے مگر وہ سب عذر پیش کریں گے۔ آخر کار حضور شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حمد وثناء کے بعد سجدے میں گر پڑیں گے۔باری تعالٰی کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ سر سجدے سے اٹھائیے، جو کچھ مانگیئے دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس وقت آپ یوں عرض کریں گے: یَا رَبِّ اُ مَّتِیْ اُ مَّتِیْ اے میرے پروردگار ! میری امت میری امت۔([87] ) (صحیحین )
اب عالم برزخ میں ہر روز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اُمت کے اعمال پیش ہو تے ہیں ۔ اچھے عملوں کو دیکھ کر آپ خدا کا شکر اور برے عملوں کو دیکھ کر مغفر ت کی دعا کر تے ہیں جیسا کہ آگے آئے گا۔
’’ وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) ‘‘اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارِجِ نماز ، اس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے ۔ جمہور صحابہ رضی اللّٰہ عنہم اس طرف ہیں کہ یہ آیت مقتدی کے سننے اور خاموش رہنے کے باب میں ہے ۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہماکی حدیث میں ہے آپ نے کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ نماز میں امام کے ساتھ قرأت کرتے ہیں تو نماز سے فارغ ہو کر فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم اس آیت کے معنٰی سمجھو! لہٰذا ضروری ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ وغیرہ کچھ نہ پڑھے ۔
پہلی اُمتوں میں نافر مانی پر عذاب الٰہی ہو تاتھا مگر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وجود ِباجود کی برکت سے کفار عذاب ِدنیوی سے محفوظ رہے۔
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- (انفال، ع ۴)
اور خدا ان کو عذاب نہ کرے گا جب تک تو ان میں ہے۔([88] )
بلکہ عذابِ استیصال کفار سے تا قیامت مر فوع ہے۔([89] )
ایک دفعہ صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْننے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ مشرکین پر بددعا کریں ۔ آپ نے فرمایا: ’’میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیامیں تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘([90] )
حضرت طفیل بن عَمْرو دَوسی کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے قبیلہ دَوس میں دعوت اسلام کے لئے بھیجا تھا۔انہوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کریوں عرض کیا: ’’قبیلہ دَوس ہلاک ہو گیاکیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور اطا عت سے انکار کر دیا، آپ ان پر بد دعا کریں ۔‘‘ لوگوں کو گمان ہوا کہ آپ بددعاکر نے لگے ہیں مگر آپ نے یوں دعا فرمائی : ([91] ) ’’ اَللّٰھُمَّ اھْدِ دَوْسًا وَّ ائْتِ بِھِمْ‘‘ خدا یا ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور ان کو مسلمان کرکے لا۔([92] )
جب طائف سے محاصرہ اٹھالیاگیاتو صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! ہم کو قبیلہ ثقیف کے تیروں نے جلا دیاآپ ان پر بددعا کریں ۔ مگرآپ نے یوں دعا فرمائی: ([93] ) اَ للّٰہُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا خدایا! ثقیف کو ہدایت دے۔([94] )
’’جنگ اُحد‘‘ میں دانت مبارک شہید ہو گیا تھا اور چہر ہ مبارک خون آلودہ تھا مگر زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے : ’’ اَ للّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لاَ یَعْلَمُوْن‘‘ خدا یا ! میری قوم کا یہ گناہ معاف کر دے کیونکہ وہ نہیں جانتے۔([95] )
جب قریش نے اَزرُوئے تعنت وعناد ایمان لانے سے انکار کر دیا([96] ) تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا کی: ’’یااللّٰہ! ان حضرات پر یوسف (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) کے سات سالوں کی طرح سات سال قحط لا۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ قریش نے ہڈیاں اور مردار کھائے۔ اس حالت میں ابو سفیان نے حاضر خدمت ہوکر یوں عرض کیا: ’’یا محمد! آپ کی قوم ہلاک ہو گئی۔ اللّٰہ سے دعا کیجئے کہ ان کی مصیبت دور ہو جائے۔‘‘ پس حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی اور وہ مصیبت دور ہو گئی۔([97] )
حضرت ثُمَامہ بن اُثال یمامی کے ایمان لا نے کا قصہ پہلے بیان ہوچکا ہے وہ اسلام لا کر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اجازت سے عمر ہ کے لئے مکہ میں آئے مشرکین میں سے کسی نے ان سے کہا کہ تم ہمارے دین سے بَرگَشْتہ ہو گئے۔ ثمامہ نے کہا کہ میں نے دین محمد ی جو خیر الا َدیان ہے اختیار کر لیاہے۔ ’’خدا کی قسم! رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اجازت کے بغیر غلہ کا ایک دانہ تم تک نہ پہنچے گا۔‘‘([98] ) مکہ میں غلہ یمامہ سے آیا کر تاتھا۔ جب یمامہ سے غلہ کی آمد بند ہو گئی تو قریش میں کال([99] ) پڑگیا۔انہوں نے تنگ آکر صلہ رحم کا واسطہ دے کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لکھا۔ آپ نے حضرت ثمامہ کو لکھا کہ یہ بند ش اٹھا دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔([100] )
حضرتِ اَسماء بنت ابی بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا بیان کر تی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عہد مبارک میں میری ماں میرے پاس آئی وہ مشرکہ تھی۔ میں نے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے دریافت کیا کہ وہ کچھ مانگتی ہے کیا میں اس سے صلہ رحم کروں ؟ حضور نے فرمایا: ([101] ) نَعَمْ صَلِیْ اُ مَّکِ۔ ہاں تو اپنی ماں سے صلہ رحم کر۔([102] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سلوک منا فقین کے ساتھ قابل غور ہے۔ یہ لوگ سامنے تو چاپلوسی کیا کرتے تھے مگر پیٹھ پیچھے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اَذیت دیا کرتے تھے۔ باوُجود علم کے آپ ان کے ساتھ خُلْق سے پیش آتے۔ ان کے لئے استغفار فرماتے اور ان کے جنازے کی نماز پڑھا کر تے یہاں تک کہ اللّٰہ تعالٰی نے منع فرمادیا۔
اسلام سے پہلے یہ صنف نازک قَعْرِ مذلت میں ([103] ) گری ہوئی اور مردوں کے اِستبداد([104] ) کا تختۂ مشق بنی ہوئی تھی۔ عرب میں اِزدِوَاج کی([105] ) کوئی حد نہ تھی۔چنانچہ حضرت غِیْلان ثَقَفِی ایمان لائے تو ان کے تحت میں دس عورتیں تھیں ۔جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کا بیٹا اپنی سوتیلی ماں کو وِرَاثت میں پاتا۔ وہ خوداس سے شادی کر لیتایا اپنے بھائی یا قریبی کو شادی کے لئے دے دیتاورنہ نکاح ثانی سے منع کر تا۔ اسی طرح اور خرابیاں بھی تھیں جن کا ذکر پہلے آچکا ہے۔
ہندوستان میں کثرت اِزدِوَاج اور نیوگ([106] ) کو جائز سمجھا جا تا تھا۔شوہرمر جاتا تو بیوہ نکاحِ ثانی نہ کرسکتی تھی بلکہ اسے دنیا میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہ تھاوہ شوہر کی چِتَا(([107] ) میں زندہ جل کر بھسم ہو جاتی اور سَتِی کا پوتر لقب([108] ) حاصل کرتی۔ طُرْفَہ یہ([109] ) کہ ایساحکم صرف عورتوں ہی کے لئے تھاشوہر عورت کی چتامیں نہ جلتا۔
بعض ملکوں مثلاً تِبَّت میں کثرت اِزدِوَ اج کا عکس پایا جاتا تھااگر عورت ایک مر دسے شادی کرتی تو وہ اس مرد کے دوسرے بھائیوں کی بھی زوجہ سمجھی جاتی تھی۔ مجوسیوں کے ہاں بیٹی اور ماں سے بھی نکاح جائز سمجھاجاتا تھا۔
مسیحی بیاض تعلیم([110] )میں عورت کی عزت واحترام کا کوئی پتہ نہیں چلتاخود حضرت مسیح عَلَیْہِ السَّلَام اپنی والد ہ ماجد ہ کو اے عورت کہتے ہیں ۔ ( یوحنا، باب ۱۹، آیہ ۲۶) اور ستم دیکھئے ،شوہر عنین([111] ) ہو، خصی([112] ) ہو، مجبوب([113] )ہو، مجنون([114] ) ہو یا سزایا فتہ حبس دوام([115] )ہو۔ ان حالات میں اِنجیل مقدس نے عورت کی خلاصی کی کوئی صورت نہیں بتائی مگر یہ کہ زِنا جیسے کبیر ہ گنا ہ کا اِر تکاب کرے۔ (متی ، باب ۵، آیہ ۳۲۔باب ۱۹، آیہ ۹۔)
جزیرہ پاپؤا (نیوگنی) کے قدیم باشند وں کے حالات جواب معلوم کیے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ان میں شوہر کواپنی عورت پرپورا اختیار حاصل تھا وہ اپنے شوہر کامال تھی کیونکہ خاوند اس کیلئے ایک رقم ادا کر تا تھابعض حالات میں شوہر اس کو قتل کر سکتا تھا۔‘‘([116] )
دنیا کے کسی مذہب میں والد ین یا شوہر کے ترکہ میں عورت کا کوئی حق نہ تھا اور اب تک بھی اسلام کے سوا کسی مذہب نے عورت کو ترکہ میں کسی کا حقدار نہیں ٹھہرایا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری سے اس ذلیل ومظلوم گر وہ کی وہ حق رسی ہوئی کہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عورت کو عزت واحترام کے دربار میں مردوں کے برابر جگہ دی اور مذکورہ بالا مفاسد کا اِنسداد([117] )فرمادیا۔
اسلام سے پہلے کثرت اِزدِواج کی کوئی حد نہ تھی جیسا کہ اوپر بیان ہوااسلام نے اسے بصورتِ ضرورت چار تک محدود کر دیا اور چار کو بھی شرطِ عدل پر مُعَلَّق رکھا۔ بصورتِ فقدانِ عدل صرف ایک پر مقصور کر دیا۔مرد عورت پرحاکم ہے اس لئے رَعیت کا تَعَدُّد ([118] ) ایک حدتک جائز رکھا گیا مگر حاکم کا تَعَدُّد([119] )جائز نہیں ہو سکتا اس لئے ایک عورت کے متعدد شوہر نہیں ہوسکتے۔ قرآن مجید میں محرمات کی تفصیل مو جود ہے جن میں ماں اور بیٹی داخل ہیں ۔ خود کشی خواہ کسی طرح ہو منع ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے :
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ- (نسائ، ع۵)
اور نہ مارڈالو اپنے آپ کو۔([120] )
باری تعالٰی عَزَّاِسْمُہٗ کا ارشاد ہے :
وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (نسائ،ع۳)
عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔([121] )
اگر عورت سر کشی اختیار کرے تو مردکو اسے قتل کر نے کا اختیار نہیں بلکہ پہلے اسے سمجھائے، نہ سمجھے تو گھر میں اس سے جدا سو ئے، پھر آخر در جہ مارے بھی تو نہ ایسا کہ ضرب شدید پہنچے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ- (نسائ،ع۶)
اور جن عورتوں کی سر کشی کا تم کو ڈر ہو تم ان کو نصیحت کرو اور خواب گاہ میں ان کو جدا کر و اور ان کو مارو۔([122] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ہے :’’ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ‘‘ (ترمذی ودارمی وابن ماجہ ) تم میں سب سے اچھاوہ ہے جو اپنے اہل کے لئے سب سے اچھا ہو۔ اور میں اپنے اہل کے لئے تم سب سے اچھا ہوں ۔([123] )
حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مردوں کو عورتوں کی کج خُلقی([124] )پر صبر کی وصیت یوں فرماتے ہیں : اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ خَیْرًا فَاِنَّ الْمَرْاَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ وَّاِنَّ اَعْوَجَ شَیْ ئٍ فِی الضِّلَعِ اَعْلَاَہُ فَاِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہٗ کَسَرْتَہٗ وَ اِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ اَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَا ٓئِ ۔([125] ) (بخاری،باب خلق آدم وذریتہٖ )
میں جو تمہیں عورتوں کے ساتھ اچھے بر تاؤ کی وصیت کر تا ہوں تم میری وصیت کو قبول کروکیونکہ عورت اُستخوانِ
پہلو([126] ) سے پیدا کی گئی ہے اور استخوانِ پہلومیں سب سے ٹیڑھی چیز اس کا حصہ بالا ئی ہے۔اگر تم اس استخوان کو سید ھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے ا ور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی پس تم عورتوں کے بارے میں میری وصیت کو قبول کرو۔
عورتوں پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شفقت اس قدر تھی کہ اگر آپ نماز کی حالت میں کسی بچہ کی آواز سنتے تو اس کی ماں کی مشقت کے خیال سے نماز میں تخفیف فرماتے۔([127] ) ( بخاری، باب الا یجازفی الصلوٰۃ واکمالہا)
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ایک سیاہ فام غلام انجشہ نام تھے وہ اونٹوں کے آگے حُدی([128] ) پڑھا کر تے تھے۔ ایک دفعہ سفر میں اَز واجِ مُطَہَّر ات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ ساتھ تھیں اونٹ تیز چلنے لگے تو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا :’’وَیْحَکَ یَا اَ نْجَشَۃُ رُوَیْدَکَ بِالْقَوَارِیْر‘‘(بخاری، کتاب الا دب) انجشہ ! دیکھناشیشیوں کو آہستہ لے چل۔([129] )
حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا مکہ میں حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے نکاح میں آئیں ۔ حضرت زبیر کے پاس ایک گھوڑ ے اور ایک آب کش اونٹ([130] ) کے سوا کوئی مال و مملوک نہ تھااس لئے حضرت اسماء گھر کے کام کے علاوہ گھوڑے کے لئے گھاس لاتیں اور اونٹ کو کھجور کی گٹھلیاں کوٹ کر کھلاتیں ۔ چنانچہ آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں اس زمین سے جو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (ہجرت کے بعد اموالِ بنی نضیر میں سے ) حضرت زبیر کو عطا فرمائی تھی اور جو میرے مکان سے دو میل کے فاصلے پر تھی کھجور کی گٹھلیاں اپنے سر پر لا د کر لا یا کر تی تھی۔ ایک روز میں آرہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں ۔ اس حالت میں میری نظر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پڑی۔ آپ کے ساتھ انصارکی ایک جماعت تھی۔ آپ نے مجھے آواز دی اور اونٹ کو بٹھا دیا تاکہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر
لیں ۔ میں مردوں کے ساتھ چلنے سے شرماگئی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگے تشریف لے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے ایک خادمہ میرے پاس بھیج دی جو گھوڑ ے کی خدمت کیا کر تی تھی۔ اس طرح صدیق اکبر نے مجھ کو گو یا غلامی سے آزاد کر دیا۔([131] )
صحیح مسلم کی دوسری روایت میں حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکابیان ہے کہ ’’ میں حضرت زبیر کے ہاں گھر کا کام کیا کرتی تھی ان کا ایک گھوڑا تھاجس کی نگہبانی میرے ذمہ تھی۔ گھوڑے کی نگہبانی سے زیادہ سخت اور کو ئی خدمت نہ تھی میں اس کے لئے گھاس لاتی، اس کی خدمت ونگہبانی کر تی۔‘‘ کچھ عرصہ کے بعد آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پاس غلام آئے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک خادمہ حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو عطا فرمائی جو گھوڑے کی خدمت کیا کر تی تھی۔([132] )ہر دو روایت میں وجہ تطبیق یوں ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے وہ باندی حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ہاں بھیج دی تاکہ وہ حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے پاس بھیج دیں ۔
اسلام میں اَز رُوئے قرآن وحدیث عورتوں کے حقوق ثابت ہیں ۔چنانچہ باری تعالٰی عَزَّاِسْمُہٗ کا ار شاد ہے :
وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ- (بقرہ، ع۲۸)
اور عورتوں کا (مردوں پر)حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر ہے ساتھ انصاف کے اور مردوں کو ان پر در جہ (فوقیت) ہے۔([133] )
اس آیت سے ظاہر ہے کہ عورتوں کے مر دوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں ۔ ازدواجی زندگی میں نِباہ نہ ہونے کی صورت میں اگر مرد کو طلاق کا حق ہے تو دوسری طرف عورت کو خُلَع کا اختیار دیا گیا ہے۔
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَؕ-نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا(۷) (نسا ئ،ع ۱)
مردوں کے لئے حصہ ہے اس چیز سے کہ چھوڑ گئے ہیں ماں باپ اور قرابتی اور عورتوں کے لئے حصہ ہے اس چیز سے کہ چھوڑ گئے ہیں ماں باپ اور قرابتی تھوڑا ہو اس میں سے یابہت ہو۔حصہ ہے مقرر کیا ہوا۔([134] )
اس آیت کی رُوسے عورتیں اپنے ماں باپ اور قرابتیوں کی وارث ہیں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں یوں ار شاد فرمایا : ([135] ) فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِی النِّسَآئِ فَاِنَّکُمْ اَخَذْتُمُوْھُنَّ بِاَمَانِ اللّٰہِ۔ پس عورتوں کے معاملہ میں تم خدا سے ڈروکیونکہ تم نے ان کو عہدِ خدا کے ساتھ لیا ہے۔([136] )
ایک روز عور توں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اَقدس میں عرض کیا کہ آپ کے ہاں مردوں کا ہر روز ہجوم رہتا ہے۔ آپ ہمارے واسطے ایک خاص دن مقرر فرمائیں ۔ چنانچہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عورتوں کے لئے ایک دن خاص کردیا وہ اس دن حاضر خدمت اقدس ہوتیں ۔ آپ ان کو وعظ ونصیحت فرماتے۔([137] )
ؤ…حقوق النساء کی تفصیل کے لئے مُطَوَّلات([138] )کی طرف رجوع کر نا چاہیے۔
یتیموں اور غریبوں پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بڑی شفقت تھی چنانچہ یتیم کی خبر گیر ی کر نے والے کا در جہ بتانے کے لئے آپ نے اپنی اُنگشت سَبَّابہ و وُسطیٰ([139] ) کے درمیان کچھ کشاد گی رکھ کر فرمایا: ’’میں اور یتیم کا مُتَکَفِّل خواہ یتیم اس کے رشتہ داروں میں سے ہو یا اجنبیوں میں سے ہو بہشت میں یوں ہوں گے۔‘‘([140] )
حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ جو شخص محض رضائے خدا کے لئے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اس کے لئے ہر بال کے مقابلہ میں جس پر اس کا ہاتھ پھرتا ہے نیکیاں ہیں ۔ اور جو کسی یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ (جو اس کی کفالت میں ہو) نیکی کرتا ہے میں اور وہ بہشت میں ان دو انگلیوں (آپ نے سبابہ و وسطی کو ملا کر اشارہ فرمایا) کی مانند ہوں گے۔([141] )
ایک شخص نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ میرادل سخت ہے اس کا علاج کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اکر واور مسکین کو کھانا کھلا یا کرو۔([142] )
حضرت اسماء بنت عُمَیْس (زوجہ حضرت جعفرطَیَّار) بیان کر تی ہیں کہ جس دن حضرت جعفر (غز وۂ موتہ میں ) شہید ہو ئے۔رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے ہاں قدم رَنجہ فرمایا۔ میں اس دن چالیس کھالوں کی دَباغت([143] ) کر چکی تھی اور آٹا پیس کر اپنے بچو ں کو نہلا دھلا کر تیل مل چکی تھی کہ اتنے میں رسول اللّٰہ تشریف لے آئے۔ فرمایا اَسمائ! جعفر کے بچے کہاں ہیں ؟ میں نے ان کو حاضر خدمت کیا۔ آپ نے ان کو سینہ سے لگا لیاپھر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ روپڑے۔میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمشاید آپ کو جعفر کی طرف سے کچھ خبر آئی ہے۔ فرمایا:ہاں وہ آج شہید ہو گئے۔ یہ سن کر میں چلا نے لگی، عورتیں جمع ہوگئیں ۔ فرمانے لگے: اَسمائ! لَغْو نہ بول اور سینہ نہ پیٹ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہ بولیں : ہائے چچا! آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جعفر جیسے پر عورتوں کو رونا چاہیے۔([144] )
بیوگان ومساکین کی خبر گیری کا ثواب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یوں بیان فرمایا: ’’بیو گان و مساکین پر خرچ کرنے والاراہ خدا (جہاد وحج ) میں خرچ کر نے والے کی مانند ہے۔‘‘([145] )
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُروایت کر تے ہیں کہ ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعاکی: ’’ اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ اَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ احْشُرْنِیْ فِیْ زُمَرَ ۃِ الْمَسَاکِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ‘‘خدا یا! مجھے مسکین زند ہ رکھ اور مجھے مسکین موت دے اور قیامت کے دن غر یبوں کے گر وہ میں میرا حشر کر۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ کیوں ؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ یہ دولت مندوں سے چالیس سال پہلے بہشت میں جائیں گے۔ اے عائشہ ! ( رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا) کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامراد نہ پھیرنا گو نصف خرما([146] )ہی کیوں نہ ہو۔ اے عائشہ!( رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا)غریبوں سے محبت رکھ اور ان کو اپنے سے نزدیک کرخدا تجھے قیامت کے دن اپنے سے نزدیک کرے گا۔([147] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بچو ں پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔بچے آپ کی خدمت میں بغرض دعا و تَحْنِیْک([148] )لا ئے جاتے تھے۔ ایک روز اُمِ قَیس بنت مُحْصِن اپنے شیر خوار بچہ کو خدمت اَقدس میں لا ئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس بچہ کو اپنی گود میں بیٹھا لیا اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے اس پر پانی بہا([149] ) دیا اور کچھ نہ کہا۔([150] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بچوں کو چومتے اور پیار کر تے تھے۔ایک روز آپ حضرت حَسَن بن علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو چوم رہے تھے، اَقرَع بن حا ِبس تمیمی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس بیٹھے تھے، دیکھ کر کہنے لگے کہ میرے دس لڑکے ہیں ، میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چو ما۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’جو ر حم نہیں کر تااس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘([151] ) ایک بد و([152] ) ر سول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آکر کہنے
لگا کہ تم بچو ں کو چومتے ہوہم نہیں چومتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’جب اللّٰہ تمہارے دل سے رحمت نکال لے تو میں کیا کر سکتا ہوں ۔‘‘([153] )
حضرت جابر بن سَمُر ہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیچھے نماز ظہر پڑھی، نماز سے فارغ ہو کر آپ دو لت خانہ کو تشریف لے گئے، میں آپ کے ساتھ ہو لیا، راستے میں بچے ملے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہر ایک کے رخساروں پر دست شفقت پھیر ا اور میرے رخساروں پر بھی پھیرا، میں نے آپ کے دست مبارک کی ٹھنڈک یا خوشبو ایسی پائی کہ گو یا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا ہاتھ مبارک عطا ر کے صند وقچہ میں سے نکالا تھا۔([154] ) جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گز ربچو ں پر ہو تا تو ان کو سلام کیا کر تے تھے۔([155] )
حضرت عبد اللّٰہ بن جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی سفر سے تشریف لاتے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہل بیت کے بچے خدمت شریف میں لائے جاتے۔ ایک دفعہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی سفر سے تشریف لائے تو پہلے مجھے خدمت شریف میں لے گئے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے اپنے آگے سوار کر لیاپھر حضرت فاطمہ زہر ا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے دو لڑ کوں میں سے ایک لائے گئے، آپ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کر لیا اس طرح تینوں ایک سواری پر داخل مدینہ ہوئے۔([156] )
فتح مکہ کے دن جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مکہ میں تشریف لائے تو حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہ کے صاحبزادوں قُثَم اور فَضْل کو اپنی سوار ی پر آگے پیچھے بٹھا لیا۔([157] )
حضرت ابو رافع بن عمر وغفار ی کے چچا بیان کر تے ہیں کہ میں لڑ کپن میں انصار کے نخلستان میں جاتااور درختوں پر ڈھیلے مارتا، مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گئے، آپ نے پوچھا: لڑکے! تو درختوں پر ڈھیلے کیوں مار تا ہے؟ میں نے کہا: کھجور یں کھانے کے لئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ڈھیلے نہ مارا کروکھجوریں جو نیچے گری ہو ں کھالیا کرو۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے میرے سر پر دست شفقت پھیرا اور یوں دعا فرمائی: ’’خدا یا! اس کا پیٹ بھر دے۔‘‘([158] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل پکتا تو لوگ اسے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں لایا کر تے، آپ اس پر یہ دعا پڑھا کر تے: ’’خدا یا! ہمیں اپنے مدینہ میں اور اپنے پھل میں اور اپنے مُدمیں اور اپنے صَاع([159] ) میں برکت دے۔‘‘ اس دعا کے بعد بچے جو حاضر خدمت ہوا کرتے ان میں سے سب سے چھوٹے کووہ پھل عنا یت فرماتے۔([160] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ایک عورت میرے پاس آئی اس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں ، اس نے مجھ سے کچھ مانگا ، اس وقت میرے پاس صرف ایک کھجور تھی میں نے وہی اسے دے دی، اس نے دونوں لڑکیوں میں تقسیم کردی پھر وہ چلی گئی۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گھر تشریف لائے تو میں نے یہ قصہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کردیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:’’جس شخص کے ہاں لڑکیاں ہو ں او روہ ان کی پر ورش اچھی طرح کرے تو وہ آتش دوزخ اور اس کے درمیان حائل ہو جائیں گی۔‘‘([161] )
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص قرشیہ امویہ کے والد ین ہجرت کر کے حبشہ میں چلے گئے تھے۔یہ وہیں پیدا ہو ئیں اور لڑکپن میں وہاں سے مدینہ آگئیں ۔ حضرت زُبیر بن العوام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے ساتھ بیاہی گئیں جن سے ایک لڑکا خالد نام پیدا ہو ا، اس سبب سے ان کی کنیت اُم خالد ہوئی۔ ان کا بیان ہے کہ ایک روز میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئی، زردرنگ کا کرتہ میرے بدن پر تھاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دیکھ کر فرمایا: سَنَہ سَنَہ۔([162] ) (حبشی زبان میں حسنہ کو کہتے ہیں ) میں خاتم نبوت سے کھیلنے لگی، میرے باپ نے مجھے جھڑک دیا، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کھیلنے دو۔ پھر تین بار فرمایا: تو اس کو پہن کر پر انا کرے۔([163] )
ام خالد ہی بیان کر تی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس کپڑے آ ئے ان میں ایک سیاہ چادر تھی جس میں دونوں طرف آنچل تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حاضر ین سے پوچھا کہ یہ چادر کس کو اوڑھا ؤں ؟ کسی نے جواب نہ دیا۔ آپ نے فرمایا: ام خالد کو لاؤ۔ مجھے لے گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دست مبارک سے وہ چادر مجھے اوڑ ھا ئی اور دود فعہ فرمایا: ’’تو اسے پہن کر پرانی کرے۔‘‘ آپ چادر کی بُوٹیاں دیکھ رہے تھے اور ہاتھ مبارک سے میری طرف اشارہ کر کے فرماتے تھے: ’’ام خالد! یہ سَنَہ ہے۔ ام خالد! یہ سَنَہ ہے۔‘‘ سَنَہ حبشی زبان میں حَسَن (اچھے) کو کہتے ہیں ۔([164] )
غز وات میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہدایت تھی کہ بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وجود باجود لڑکیوں کے لئے خصوصیت سے رحمت تھا زمانہ جاہلیت میں بعضے عرب اَفلاس کے ڈر سے لڑکیوں کو زندہ دَرگور کر دیتے تھے چنانچہ ایک شخص حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی خدمت میں حاضر ہو کر
کہنے لگا کہ ہم اہل جاہلیت وبت پرست تھے اپنی اولاد کو مارڈ التے تھے۔ میرے ہاں ایک لڑکی تھی میں نے اسے بلایا وہ خوشی خوشی میرے پیچھے ہولی جب میں نزدیک ہی اپنے اہل کے ایک کنوئیں پر پہنچاتو میں نے اس کا ہاتھ پکڑکر کنوئیں میں گرادیا وہ اَبااَبا کہتی تھی۔ یہ سن کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے آپ نے فرمایا کہ یہ قصہ مجھے پھر سناؤ ۔ اس شخص نے دہر ایاتو آپ اتنا روئے کہ آنسوؤں سے ڈاڑھی مبارک تر ہوگئی۔([165] )
عرب کی طرح ہند میں بھی دُختر کُشی([166] )پائی جاتی تھی۔رُومَۃُ الکبرٰی([167] ) میں بچہ کشی کی رسم([168] )زمانہ قدیم سے جاری تھی۔ چنانچہ ایڈور ڈگبن صاحب اپنی تاریخ میں یوں رقمطرازہے :
’’اپنے نئے پیدا ہو ئے بچوں کے باہر پھینک آنے یا قتل کر نے کی خوفناک رسم جس سے قُدَمَاء خوب آشنا تھے رُومۃ الکبرٰی کے صوبہ جات بالخصوص اِطالیہ میں روز بروز کثیر الو قوع ہو تی جاتی تھی۔ اس کا باعث اَفلاس تھا اور اَفلاس کے بڑے اَسباب ٹیکسو ں کا ناقابل بر داشت بو جھ اور مفلس مَدیونوں ([169] )کے خلاف محکمۂ مَال کے اَفسروں کے تکلیف دہ اور بے درد([170] ) مقدمات تھے۔ نوع انسان کے کم مالدار یا کم محنت کش حصہ نے عیال میں اضافہ کی خوشی منانے کی بجائے شفقت پدری کا مقتضایہ سمجھا تھا کہ اپنے بچوں کو ایسی زندگی کی آنے والی تکلیفوں سے چھڑادیا جائے جسے وہ خود نباہنے کے قابل نہ تھے۔ قسطنطین (متوفی ۲۲مئی ۳۳۷ئ) کی مر وت شاید مایوسی کے بعض تا زہ غیر معمولی واقعات سے حرکت میں آئی کہ اس نے پہلے اطالیہ پھر افریقہ کے تمام شہروں کی طرف ایک فرمان بھیجا جس میں یہ ہدایت تھی کہ والدین اپنے ایسے بچے مجسٹریٹوں کی عدالتوں میں پیش کیا کریں جن کو ان کا افلاس تعلیم دلا نے کی اجازت نہیں دیتاان کو فوری وکافی امداد دی جائیگی۔لیکن یہ وعدہ ایسا فیاضانہ اور یہ بند وبست ایسا بے سر وپاتھا کہ اس پر کوئی عام یا د ائمی فائدہ مترتب نہ ہوا۔یہ قانون اگرچہ کسی قدرقابل تحسین تھا مگر افلاس عامہ کو کم کر نے کی بجائے یہ افلاس کے اظہار کا ذریعہ بنا۔‘‘([171] )
یہ رسم بد جس کا انسد اد([172] ) کسی دنیوی قوت سے نہ ہو سکا آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بر کت سے
عرب بلکہ آہستہ آہستہ تمام دنیا سے اٹھ گئی۔ ارشادباری تعالٰی عَزَّاِسْمُہٗ یوں ہوا :
وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ- (انعام، ع ۱۹)
اور تم اپنے بچوں کو مفلسی کے ڈرسے ہلاک نہ کروہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں ۔([173] )
وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْﭪ(۸)بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْۚ(۹) (تکویر)
اور جب زندہ درگور لڑکی پوچھی جائے گی کہ تو کس گناہ کے بدلے ہلاک کی گئی۔([174] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمادیا : اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّھَاتِ وَ وَأْدَ الْبَنَاتِ۔(مشکوٰۃ، باب البر والصلۃ) اللّٰہ نے تم پر حرام فرماد یا ماؤں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ در گور کر نا۔
عورتیں جن چیزوں پر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بیعت کیا کر تی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی :
وَ لَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ (ممتحنہ، ع۲)
وہ اپنے بچوں کو ہلاک نہ کیا کریں گی۔([175] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے غلاموں کے آزاد کر نے کو موجب نجات فرمایا ہے چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا ارشاد ہے: ’’ جو کوئی کسی مسلمان غلام کو آزاد کر تا ہے اس غلام کے ہر عضوکے مقابلہ میں اللّٰہ تعالٰی اس کا ایک عضو دوزخ کی آگ سے آزاد کر تا ہے۔‘‘([176] ) علاوہ ازیں کفارات میں جابجاغلام آزاد کر نا واجب رکھا گیا ہے۔
اسلام میں غلاموں کے حقوق کا خاص لحاظ ہے چنانچہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : تمہارے غلاموں میں جو تمہارے موافق ہو اسے کھلاؤ اس میں سے جو تم کھاتے ہواور پہناؤ اس میں سے جو تم پہنتے ہو اور
ان میں سے جو تمہارے موافق نہ ہو اسے بیچ دو اور خَلْقِ خدا کو عذاب نہ دو۔([177] )
حضرت ابو مسعود انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کر تے ہیں کہ میں اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے یہ آواز سنی: ’’ابو مسعود! جان لو کہ تم کو جس قدر اس غلام پر اختیار ہے اس سے زیادہ خدا کو تم پر اختیار ہے۔‘‘ میں نے مڑ کر جو دیکھا تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممیں نے اس کو رضا ئے خدا کے لئے آزاد کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ دیکھو! اگر تم ا یسا نہ کر تے تو دوز خ کی آگ تم کو جلاتی۔‘‘([178] )
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک عجمی غلام کو بر ابھلا کہااس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے شکا یت کر دی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ابو ذر! تم میں جاہلیت ہے ،وہ تمہارے بھائی ہیں ،خدا نے تم کو ان پر فضیلت دی ہے، ان میں سے جو تمہارے موافق نہ ہو اسے بیچ دو، اور خلق خدا کو عذاب نہ دو۔‘‘([179] )
حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دریافت کیا: ’’یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم خادم کو کتنی بار معاف کر دیا کریں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخاموش رہے۔ اس نے دوسری بار دریافت کیاپھر بھی آپ خاموش رہے تیسری بار دریافت کر نے پر فرمایا کہ ہر روز ستر بار معاف کر دیا کر و۔([180] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرمایا کر تے تھے کہ جو شخص اپنے غلام کے منہ پر تھپڑمارے اس کا کفارہ
یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ حضرت سو ید بن مقرن بیان کرتے ہیں کہ ہم سات بھائی تھے، ہمارے ہاں صرف ایک خادمہ تھی، ہم میں سے ایک نے اس کے منہ پر تھپڑمارا،رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے کہا کہ خادمہ کو آزاد کر دو! انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں صرف یہی ایک خادمہ ہے۔آپ نے فرمایا کہ وہ خدمت کر تی رہے یہاں تک کہ بے نیازہو جائیں جب ضرورت نہ رہے تو اسے آزاد کردیں ۔([181] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو غلاموں کی بہبودی کا اس قدر خیال تھا کہ جب وفات شریف کا وقت عین قریب آپہنچا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یوں وصیت فرمارہے تھے :اَ لصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَـکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ نماز اور غلام۔([182] )
انسان تو در کنار چو پایوں پر بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شفقت تھی ایک روز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک انصاری کے باغ میں داخل ہو ئے کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک اونٹ ہے جب اس اونٹ نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا تو روپڑا اور اس کی دونوں آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔ آپ اس کے پاس آئے اور اس کے پس گوش پر ہاتھ پھیرا وہ چپ ہو گیاآپ نے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نے عرض کیا کہ یہ اونٹ میرا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایاکیاتو اس چوپائے کے بارے میں جس کا اللّٰہنے تجھ کو مالک بنایا ہے خدا سے نہیں ڈرتا! اس نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور کثرت سے تکلیف دیتا ہے۔([183] )
ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گز رایک اونٹ پر ہوا جس کی پیٹھ (بھوک اور پیاس کے سبب سے) پیٹ سے لگی ہوئی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللّٰہ سے ڈروتم ان پر سوار ہو در آنحا لیکہ لا ئق ( سواری کے) ہوں اور ان کو چھوڑو در آنحا لیکہ لا ئق (پھر سوار ہونے کے) ہوں ۔‘‘([184] )
ایک دفعہ ایک گدھے پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا گزرہواجس کے چہرے پر داغ دیا ہوا تھا آپ نے فرمایا: ’’لعنت کر ے اللّٰہ اس شخص کو جس نے اسے داغ دیا ہے۔‘‘([185] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ تم اپنے چو پا یو ں کی پیٹھوں کو منبرنہ بناؤکیونکہ اللّٰہ تعالٰی نے ان کو تمہارے تابع کیا ہے تاکہ وہ تم کو ایسے شہروں میں پہنچا دیں جہاں تم بغیر مشقت جان نہ پہنچتے اور تمہارے واسطے زمین بنا ئی پس اس پر اپنی حاجتیں پوری کرو۔‘‘([186] )
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آدابِ سفر میں فرمایا ہے کہ جب فراخ سالی ہوا ور گھاس بکثرت ہو تو تم سفر میں دن کو کسی وقت اُونٹوں کو چھوڑ دیا کروتا کہ وہ چرلیں اور جب قحط سالی ہو تو ان کو تیز چلاؤ تا کہ وہ اچھی حالت
میں منزل مقصود پر پہنچ جائیں ۔ ایسا نہ ہوکہ بصورت تا خیر وہ بھوک کے مارے کمزور ہوکر راستے ہی میں رہ جائیں اور جب تم آخر شب میں کسی جگہ اتر و تو راستہ چھوڑکر ڈیرہ ڈالوکیونکہ رات کے وقت چوپائے اور حشرات الا رض راستوں میں پھرا کرتے ہیں ۔([187] ) اور کھانے کی گری پڑی چیز یں اور ہڈیاں وغیرہ جو راستے میں ہوں کھایا کرتے ہیں ۔([188] )
حضرت ابو وَاقد لَیْثی روایت کر تے ہیں کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ میں تشریف لا ئے اور لوگ اونٹوں کی کو ہان اور بھیڑبکری کی سر ین کا گو شت (کھانے کے لئے ) کاٹ لیا کر تے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ جو گوشت کسی زندہ چوپائے سے کاٹا جائے وہ مردار ہے کھانانہ چاہیے۔([189] )
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ایک عورت ایک بلی کے سبب سے دوزخ میں گئی جسے اس نے باند ھ رکھا اور کھانا نہ کھلا یا اور نہ چھوڑا تا کہ حشراتُ الارض کو کھاتی۔([190] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص راستے میں چل رہا تھااسے سخت پیاس لگی ایک کنواں نظر پڑا تو اس میں اتر کراس نے پانی پیا پھر نکل آیا ناگاہ اس نے ایک کتا دیکھاجو پیاس کے مارے زبان نکالے ہو ئے تھا اور مٹی کھارہا تھا اس شخص نے سو چاکہ اس کتے کو پیاس سے ویسی ہی تکلیف ہے جیسی مجھے تھی اس لئے وہ کنوئیں میں اتر ا اور اپنا مو زہ پانی سے بھرا پھر اسے اپنے منہ سے پکڑایہاں تک کہ اوپر چڑھ آیااور کتے کو پانی پلا یاخدا نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔ صحابہ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکیاچو پایوں میں ہمارے واسطے کچھ اَجرہے؟ آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ہرذی رُوح میں اجر ہے۔([191] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شفقت عامہ کا مقتضا ء تھا کہ آپ نے چو پایوں کو باہم لڑانے([192] ) کسی جانور کو نشانہ بنانے([193] ) کسی چوپائے یا جانور کو ہلاک کرنے کے لئے حبس([194] ) کرنے([195] ) اورحیوان کو مثلہ([196] ) بنا نے سے منع فرمادیا۔
حضرت عبد الرحمن کے والد عبد اللّٰہ بیان کر تے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے۔آپ قضا ئے حاجت کے لئے تشریف لے گئے ہم نے ایک پر ندہ (زورک) ([197] ) کو دیکھاجس کے ساتھ اس کے دو بچے تھے ہم نے دونوں بچوں کوپکڑ لیازور ک آئی اور اُتر نے کے لئے بازو پھیلانے لگی اتنے میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا : ’’اس کے بچوں کو پکڑ کر اسے کس نے دکھ دیاہے اس کے بچے اسے واپس دے دو۔‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک چیونٹیوں کاگھر دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پوچھا کہ اسے کس نے جلایا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جلا یا ہے۔ اس پر آپ صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ ’’جائز نہیں کہ خدا کے سوا کوئی کسی کو آگ کا عذاب دے۔‘‘([198] )
ایک روز حضرت عثمان بن حبَّان نے ایک پسو پکڑ کر آگ میں ڈال دیا۔اس پر حضرت اُم درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے کہا :میں نے ابو الدرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے سنا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’آگ کے مالک (خدا) کے سوا کوئی کسی کو آگ کا عذاب نہ دے۔‘‘([199] )
عامر تیرانداز سے روایت ہے کہ ہم نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں تھے ،نا گاہ ایک شخص آیا جس پر کمبل تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر اس نے کمبل لپیٹا ہوا تھا،اس نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمدرختوں کے جنگل میں میرا گز رہوا میں نے اس میں ایک پر ندے کے بچوں کی آواز یں سنیں میں نے ان کو پکڑ لیا اور اپنے کمبل میں رکھ لیاان کی ماں آئی اور میرے سر پر منڈلا نے لگی میں نے کمبل کو بچوں پر سے دور کر دیاوہ ان پر گرپڑی میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا اور وہ یہ میرے پاس ہیں ۔ آپ نے فرمایا: ان کو رکھ دے۔ میں نے ان کو رکھ دیامگر ان کی ماں نے ان کا ساتھ چھوڑنے سے انکارکیا۔ آپ نے فرمایا: کیا تم بچوں پر ماں کے رحم کرنے پر تعجب کر تے ہو۔اس ذات کی قسم !جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے، تحقیق اللّٰہ اپنے بندوں پر ان بچوں کی ماں سے بڑھ کر رحم کر نے والا ہے تو ان کو واپس لے جااور ان کو ماں سمیت وہیں رکھ دے جہاں سے انہیں پکڑا ہے۔ پس وہ ان کو واپس لے گیا۔([200] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رحمت سے جمادات ونباتا ت کو بھی حصہ ملا ہے۔ آپ کی بعثت سے
زمین شرک وکفر کی نجاست سے پا ک ہو ئی اور نورِ ایمان چاروں طرف پھیل گیا۔ مسجد یں تعمیر ہونے لگیں ، اور اذان میں اللّٰہاور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا نام پکا را جانے لگا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے تَوَلُّد ہونے کے بعد آسمان پر شیاطین کا جانا بند ہو گیا۔
جب اِمساک با راں ([201] ) ہو تاتو لوگ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وسیلہ پکڑ کر دعا کیا کر تے اور وہ مستجاب ہو جاتی یاحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخو د دعافرمایا کر تے اور بارانِ رحمت نازل ہو تاجس سے مردہ زمین پھر زند ہ ہو جاتی اور نباتا ت اُگتے۔
غرض آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رحمت سے دونوں عالم کو حصہ پہنچا ہے۔ انسان کے علاوہ جنات بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی دعوت سے دولت ایمان سے مشرف ہوئے، فرشتے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر درود بھیجنے کے سبب سے مُوْرِدِ رَحمت الٰہی بنے رہتے ہیں کیونکہ حدیث مسلم میں ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’جو کوئی مجھ پر ایک بار درودبھیجتا ہے اللّٰہ اس پر دس باردر ود بھیجتا ہے۔‘‘([202] )
باوجود علو مر تبت کے آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے بڑھ کر متواضع تھے۔ آپ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ بار گاہ الٰہی سے ایک فرشتے نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا پر وردگار ارشاد فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو پیغمبر ی کے ساتھ بند گی وفقراختیار کریں اور اگر چاہیں تو نبوت کے ساتھ بادشاہت اور امیر ی لے لیں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پیغمبر ی کے ساتھ بند گی کو پسند فرمایا۔ اس کے بعد حضورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتکیہ لگا کر کھانانہ کھاتے اور فرماتے: ’’میں کھانا کھاتا ہوں جیسے بند ہ کھایا کر تا ہے اور بیٹھتا ہوں جیسے بند ہ بیٹھا کر تا ہے۔‘‘([203] )
حضرت ابو اُمامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عصاپر ٹیک لگائے نکلے ہم آپ کے لئے کھڑے ہوگئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ تم کھڑے مت ہو جیسا کہ عجمی ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔([204] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہروایت کر تے ہیں کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی نے ایک دوسرے کو دُشنا م دی([205] )مسلمان نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کو تمام جہان والوں پر برگزیدہ کیا۔ یہودی نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلام)کو تمام جہان والوں پر بر گز یدہ کیا۔اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھا کر یہودی کے ایک تھپڑ مارا یہودی جناب پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس گیااوراپنااور مسلمان کا حال بیان کیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے (مسلمان سے) فرمایاکہ تم مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دوکیونکہ لوگ (قیامت کے دن) بیہوش ہوکر گر پڑیں گے میں سب سے پہلے ہو ش میں آؤں گا ناگاہ موسیٰ عرش کی ایک طرف کو پکڑ ے ہو ئے ہوں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ ان میں سے ہوں گے جو بے ہوش ہوئے اور پھر ہوش میں آئے یا ان میں سے ہوں گے جو بے ہوش ہونے سے مستثنیٰ رہے۔([206] )
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ ایک شخص رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا کہنے لگا: ’’ یَا خَیْرَ الْبَرِ یَّۃِ ‘‘ اے بہترین خلق! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ’’خَیْرَ الْبَرِ یَّۃِ‘‘تو ابر اہیم (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلام) ہیں ۔([207] )
حضرت عبداللّٰہبنالشِّخِّیْربیان کر تے ہیں کہ میں بنو عامر کے وفد میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا،ہم نے کہا: آپ ہمارے آقا ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’آقا
خدا ہے۔‘‘ پس ہم نے کہا کہ آپ فضل وکرم میں ہم سب سے افضل و اعظم ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: تم یہ کہو یا اس سے بھی کم کہو، دیکھنا ! شیطان تمہیں اپنا وکیل نہ بنا لے۔([208] )
عدی بن حاتم طائی پہلے عیسا ئی تھے جو اپنی قوم کے سردار تھے اور غنیمت میں سے حسب قاعدۂ جاہلیت چوتھا حصہ لیا کر تے تھے جب ان کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعثت کی خبر پہنچی تو وہ بھاگ کر ملک شام کو چلے گئے۔ ان کی بہن پیچھے رہ گئی اور گر فتار ہو کر بار گاہ رسالت میں آئی اس نے عرض کیا کہ آپ مجھ پر احسان کیجئے خدا تعالٰی آپ پر احسان کر ے گا۔ چنانچہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے خور اک وپو شاک اور سواری دے کر اس کی قوم کے ایک قافلہ کے ساتھ روانہ فرما دیا وہ شام میں اپنے بھائی کے پاس پہنچ گئی۔ عدی کو شک تھا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بادشاہ ہیں یا پیغمبربہن نے مشورہ دیا کہ تم خود حاضر خدمت ہوکر دیکھ آؤ۔ چنانچہ عدی یوں بیان کرتے ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچا تو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد میں تشریف رکھتے تھے میں نے سلام عرض کیا آپ نے پو چھا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں عدی بن حاتم طائی ہوں ۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکھڑے ہو گئے اور مجھے اپنے گھر لے چلے ۔نا گاہ ایک مسکین بڑھیاکسی حاجت کے لئے حاضر خدمت ہو ئی وہ کہنے لگی :ٹھہرئیے! چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمٹھہر گئے اور وہ دیر تک کچھ عرض کر تی رہی یہ دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ بادشاہ نہیں ہیں پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممجھے اپنے گھر لے گئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک تکیہ جو کھجور کی چھال سے بھر اہوا تھامیری طرف پھینکااور فرمایا کہ اس پر بیٹھ جاؤ!میں نے کہا: نہیں آپ اس پر تشریف رکھئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم ہی اس پر بیٹھو۔ چنانچہ حسب الارشاد میں اس پر بیٹھ گیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمزمین پر بیٹھ گئے یہ دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ باد شاہ کا یہ حال نہیں ہوا کر تا۔ پھر آپ نے فرمایا: عدی بن حاتم! کیا تم رَکو سی([209] )نہیں ہو؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ۔پھر فرمایا: کیا تم غنیمت کا چوتھا حصہ نہیں لیتے؟ میں نے
عرض کیا کہ ہاں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ یہ تمہارے دین میں جائز نہیں ۔ میں اس سے پہچان گیا کہ آپ پیغمبر مر سل ہیں اس کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ عدی ! شاید تم اس لئے دین اسلام میں داخل نہیں ہو تے کہ مسلمان غریب اور تعداد میں تھوڑے ہیں اور ان کے دشمن بہت اور صاحب ملک وسلطنت ہیں ،مگر عنقریب مسلمانوں میں مال کی وہ کثرت ہو گی کہ کوئی صدقہ لینے والا نہ ملے گا اور تم عنقریب سن لو گے کہ ایک عورت اونٹ پر سوار ہو کر قادسیہ سے مکہ میں پہنچ کر بیت اللّٰہ کا حج کیا کرے گی اور اسے کسی کا ڈر نہ ہو گااور تم عنقریب سر زمین بابل میں سفید محلات پر مسلمانوں کے قبضہ کی خبر سن لو گے۔ یہ سن کر میں اسلام لا یا۔ حضرت عدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرمایا کر تے تھے کہ ان تین پیشگو ئیوں میں سے دوسری اور تیسری پوری ہو چکی ہے اور پہلی پوری ہو کر رہے گی۔([210] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اصحاب کو مَدْح میں مبالغہ کرنے سے روکتے اور فرماتے: میری مَدْح میں تم مبالغہ نہ کروجیسا کہ نصاریٰ نے ابن مر یم کی مدح میں کیا،میں اللّٰہ کا بند ہ ہوں ،مجھے اللّٰہ کا بند ہ اور اللّٰہ کا رسول کہا کرو۔([211] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے اَہل خانہ وخد ام اور اَصحاب سے نہایت تو اضع سے پیش آیا کرتے، اپنے دولت خانہ میں اہل خانہ کے کا روبار کیا کر تے ،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کبھی کھانے کو عیب نہ لگایا، خواہش ہو تی توکھالیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ حضرت اَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دس سال تک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت کی اس عرصہ میں آپ نے کبھی ان کواُ ف نہ کہا اور نہ یوں فرمایا کہ فلاں کا م کیوں کیا اور فلاں کیوں نہ کیا۔([212] )
جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنماز فجر سے([213] ) فارغ ہو تے تو اہل مدینہ کے خادم پانی کے برتن لے
کر حاضرہو تے۔ آپ ان میں اپنا دست مبارک ڈبو دیتے([214] )تا کہ ان کو شفاء اور بر کت ہو۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلتے اور ان کی حاجت بر آری فرماتے۔([215] ) اہل مدینہ([216] )کی لونڈیاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہاتھ مبارک پکڑ تیں اور اپنے کاموں کے لئے جہاں چاہتیں لے جاتیں ۔([217] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبیماروں کی عیادت فرماتے،جنازے کے پیچھے چلتے،غلاموں کی دعوت قبول فرماتے، دراز گوش پر سوار ہوتے اور اپنے پیچھے اَور وں کو بٹھا لیتے۔ چنانچہ بنی قُرَیظہ کی لڑائی کے دن آپ در از گوش پر سوار تھے جس کی مہار اور پالان پوست([218] )خرماکا تھا۔([219] ) حجۃ الوداع میں جس کجاوے پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوار تھے([220] ) جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمشہر میں داخل ہوئے تو ازروئے تواضع سر مبارک کو اس قدر جھکا لیا کہ کجاوے سے آلگا۔([221] )
غزوۂ بد رمیں تین تین مجاہدوں کے لئے ایک ایک اونٹ تھا۔([222] ) چنانچہ حضرت علی مرتضیٰ وابولبابہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عدیل([223] )تھے جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اتر نے کی باری آتی تو دونوں عرض کرتے کہ آپ نہ اتریں ہم آپ کے بدلے پید ل چلتے ہیں مگر حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے کہ تم مجھ سے زیادہ قوی نہیں ہو اور میں تمہاری نسبت اجروثواب سے زیادہ بے نیاز نہیں ہوں ۔([224] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے نعل مبارک کو آپ پیوند لگا لیتے اپنے کپڑے آپ سی لیتے اپنی بکری کا دودھ دوہ لیتے جب کوئی آپ سے ملنے آتا تو اس کا اِکرام([225] ) کر تے یہاں تک کہ بعض وقت اپنی چادر مبارک اس کے لئے بچھا دیتے جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی سے ملتے تو پہلے سلام کر تے جب مصافحہ کرتے تو اپنا ہاتھ نہ ہٹا تے جب تک دوسرا شخص نہ ہٹاتا اور اس سے اپنا روئے مبارک نہ پھیرتے یہاں تک کہ وہ پھیر لیتا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے زانو اپنے ہم نشین سے آگے بڑھا کرنہ بیٹھا کر تے۔([226] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا بیان ہے کہ ایک شخص اجازت لے کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس اندر آیا آپ نے اسے درواز ے میں دیکھتے ہی فرمایا کہ قبیلے کا یہ شخص بُراہے۔جب وہ بیٹھ گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس کے سامنے کشادہ رُوئی اور اِنبسا ط([227] )ظاہر کیاجب وہ چلا گیا تو حضرت صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمجب آپ نے اس شخص کو درواز ے میں دیکھا تو ایسا فرمایامگر اس کے روبر وتازہ رُوئی اور انبساط ظاہر کیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’اے عائشہ ! تونے مجھے فاحش کب پایا،قیامت کے دن اللّٰہ کے نزدیک منزلت کے لحاظ سے سب سے بُرا وہ شخص ہوگاجس سے لوگ اس کے فحش سے بچنے کے لئے کنارہ کر تے ہیں ۔‘‘([228] )
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فحش کہنے والے
نہ تھے اور نہ کسی پر لعنت کرنے والے اور نہ گالی دینے والے تھے۔ جب آپ کسی پر عتاب فرماتے تو یوں ارشاد فرماتے: ’’اسے کیا ہوااس کی پیشانی خاک آلود ہ ہو۔‘‘([229] )
ایک سفر میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اَصحاب سے فرمایا کہ کھانے کے لئے ایک بکری دُرُست کرلو ایک نے کہا: اس کا ذبح کرنا میرے ذمے ہے۔ دوسرے نے کہا: کھال اتارنا میرے ذمے ہے۔ ایک اور بولا: پکانا میرے ذمے ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: لکڑیاں چن کر لانا میرے ذمے ہے۔ صحابہ کرام رِضْوانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْننے عرض کیا کہ یہ کام ہم خود کر لیتے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تم کر سکتے ہو لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اپنے تئیں([230] )تم سے ممتاز کروں کیونکہ خدا تعالٰی اس بندے کو پسند نہیں کرتا جواپنے سا تھیوں سے ممتاز بنتا ہے۔ اس کے بعد آپ لکڑیاں جمع کر کے لائے۔([231] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے اصحاب کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی دل جوئی اور تعہد([232] ) میں کوئی دَقیقہ فرو گزاشت نہ فرماتے۔([233] ) ایک روز ایک شخص آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا اور اپنی حاجت عرض کی وہ آپ کی ہیبت سے کا نپنے لگا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا گھبر اؤمت میں بادشاہ نہیں ہوں میں ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گو شت کھایا کر تی تھی۔([234] )
ایک دفعہ نجاشی شاہ حبشہ کا وَفدآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں آیا،آپ بذات خود ان کی خدمت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے عرض کیا کہ ہم آپ کی طرف سے خدمت کے لئے کا فی ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ انہوں نے اپنے ملک میں ہمارے اَصحاب
کا اِکرام کیا تھا اس لئے مجھے یہی پسند ہے کہ اس اِکرام کا بد لہ میں خود دوں ۔([235] )
حضرت قیس بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے غریب خانہ پر تشریف لا ئے میرے والد نے آپ کی خاطر تو اضع کی۔ کھانا تنا ول فرمانے کے بعد جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمواپس آنے لگے تو میرے والد نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے لئے ایک در از گو ش تیار کیاجس پر کمبل کا پالان ([236] ) تھاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس پر سوار ہو گئے جب چلنے کو ہوئے تو والد نے مجھ سے کہا: قیس! تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ جا۔ اس لئے میں ساتھ ہو لیاحضورانور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ تو میرے ساتھ سوار ہوجا میں نے بپاس ادب انکار کردیا مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’یا تو سوار ہوجا یا لوٹ جا۔‘‘ اس لئے میں واپس آگیا۔([237] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُمت کی دل جو ئی کے لئے کبھی کبھی خوش طبعی بھی فرمایا کر تے تھے مگر وہ متضمن دَروغ نہ ہو تی تھی۔([238] ) چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا ایک چھوٹا اَخیافی بھائی([239] )تھاوہ جب حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آتا تو اس کے ہاتھ میں ایک چڑیا (ممولا) ہوتی جس سے وہ کھیلا کر تا تھااتفاقاً وہ چڑیا مرگئی اس کے بعد جب وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں آتا تو آپ خوش طبعی کے طور پر فرماتے: یَا اَ بَا عُمَیْر مَا فَعَلَ النُّغَیْر ۔ یعنی اے ابو عمیر ! وہ چڑیا کہا ں گئی۔([240] )
ایک روز ایک شخص نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے درخواست کی کہ مجھے سواری عنا یت کیجئے تاکہ میں اس پر سوار ہو جاؤں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایاکہ میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کر وں گا۔ وہ بولا
میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں ۔ اس پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ اونٹنیاں ہی اونٹ جنتی ہیں ۔([241] ) یعنی ہر ایک اونٹ اونٹنی کا بچہ ہو تا ہے اس میں تعجب کیا ہے۔
اسی طرح ایک روز ایک عورت نے جو قرآن پڑھا کر تی تھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ آپ دعا کر یں کہ میں بہشت میں داخل ہوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے اس سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت بہشت میں داخل نہ ہو گی۔اس نے اس کاسبب پو چھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جواب دیا کیا تو قرآن نہیں پڑھتی اس میں اللّٰہ تعالٰی نے یوں فرمایا ہے:
اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًاۙ(۳۶) (واقعہ،ع ۱)
([242] )ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر پیدا کیا اور ان کو کنواریاں بنا یا۔([243] )
ایک بدوی صحابی زاہر نام جو بد شکل تھے جنگل کے پھل سبزی وغیرہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بطو رہد یہ لا یا کر تے تھے۔ جب وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے رخصت ہو تے تو آپ شہر کی چیزیں کپڑا وغیرہ ان کودے دیا کر تے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو ان سے محبت تھی اور فرمایا کر تے تھے کہ زاہر ہمارا رُوستا ئی([244] )ہے اور ہم اس کے شہر ی ہیں ۔ ایک روز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمبازار کی طرف نکلے تو دیکھا کہ زاہر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنی متاع بیچ رہے ہیں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پیٹھ کی طرف سے جاکر ان کی آنکھوں پر اپنا دست مبارک رکھا اور ان کوگودمیں لے لیاوہ بو لے:کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو۔ انہوں نے مڑکر دیکھا تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے۔ پس اپنی پیٹھ اور بھی حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سینے سے (بغرض تبرک) لپٹا نے لگے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: کوئی ہے جو ایسے غلام کو خرید ے۔ وہ بولے : یارسول
اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماگر آپ بیچتے ہیں تو آپ مجھے کم قیمت پائیں گے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’تو خدا کے نزدیک گراں قدر ہے۔‘‘([245] )
حضرت محمود بن ربیع انصاری خزرجی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جو صغار صحابہ میں سے تھے۔پانچ سال کے تھے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے گھرتشریف لے گئے جس میں ایک کنواں تھا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک ڈول سے پانی پیا اور پانی کی کلی (بطریق مزاح) حضرت محمود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے چہر ے پر ماری۔([246] ) اس کی برکت سے ان کو وہ حافظہ حاصل ہوگیاکہ اس قصے کو یاد رکھتے تھے اسی وجہ سے صحابہ میں شمار ہوئے۔ اسی طرح حضرت زینب بنت ام سلمہ مخزومیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رَبِیْبَہ تھیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پاس آئیں آپ غسل خانے میں تھے آپ نے ان کے چہرے پر پانی پھینک دیا اس کی برکت سے ان کے چہر ے میں شبا ب کی رونق قائم رہی یہاں تک کہ نہایت بو ڑھی ہو گئیں ۔([247] )
جو دِ حقیقی یہ ہے کہ بغیر غرض وعوض کے ہو اور یہ صفت ہے حق سبحانہٗ کی جس نے بغیر کسی غرض وعوض کے تمام ظاہری وباطنی نعمتیں اور تمام حسی و عقلی کمالات خلائق پر اِفاضہ کیے ہیں ۔اللّٰہ تعالٰی کے بعد ’’اَجْوَدُ الْاَجْوَدِیْن‘‘اس کے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں ۔حدیث صحیح میں واردہے کہ آپ سے کبھی کسی چیز کا سوال نہ کیا گیا کہ اس کے مقابل آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لَا (نہیں ) فرمایا ہو۔([248] ) یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی کے
سوال کو رَدنہ فرماتے، اگر مو جود ہو تا تو عطا فرماتے اور اگر پاس نہ ہو تا تو قرض لے کر دیتے یا وعدہ عطا فرماتے۔ ایک دفعہ ایک سائل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا آپ نے فرمایا: میرے پاس کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ تو مجھ پر قرض کرے جب ہمارے پاس کچھ آجا ئے گا ہم اسے ادا کردیں گے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا نے آپ کو اس چیز کی تکلیف نہیں دی جو آپ کی قدرت میں نہیں ۔ حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی یہ بات حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پسند نہ آئی۔انصار میں سے ایک شخص بولا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمعطا کیجئے اور عرش کے مالک سے تقلیل ([249] ) کا خوف نہ کیجئے۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تبسم فرمایا اور آپ کے روئے مبارک پر تازگی وخوشحالی پائی گئی۔ فرمایا: ’’اسی کا اَمر کیا گیا ہے۔‘‘([250] )
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس بحرین سے مال لا یا گیا اور یہ زیادہ سے زیادہ مال تھا جو آپ کے پاس لایا گیا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کو مسجد میں ڈال دو۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو ئے تو اس مال کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم فرمانے لگے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ کے پاس آئے اور عرض کر نے لگے: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممجھے اس مال میں سے دیجئے کیونکہ جنگ بدرکے دن میں نے فدیہ دے کر اپنے آپ کو اور عقیل بن ابی طالب کو آزاد کر ایا تھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:لے لو۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کپڑے میں ڈال لیا۔ پھر اٹھانے لگے تو نہ اٹھا سکے۔عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کسی سے فرمادیں کہ اٹھا کر مجھ پر رکھ دے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں کسی سے اٹھا نے کو نہیں کہتا۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بو لے: آپ خود اٹھا کر مجھ پر رکھ دیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: میں اسے نہیں اٹھاتا۔ پس حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس میں سے کچھ گرادیا پھر اٹھانے
لگے تو تب بھی نہ اٹھاسکے عرض کیا: یارسول اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کسی سے فرمادیں کہ اٹھاکر مجھ پر رکھ دے۔ آپ نے فرمایا: میں کسی سے اٹھا نے کو نہیں کہتا۔ حضرت عباس بولے: آپ خود اٹھا کر مجھ پر رکھ دیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں اسے نہیں اٹھاتا۔ پس حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس میں سے بھی کچھ گرادیاپھر اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور روانہ ہوئے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کی طرف دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ غائب ہوگئے اور حضور ان کی طمع پر تعجب فرماتے تھے۔ غرض حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وہاں سے اٹھے تو ایک درہم بھی باقی نہ تھا۔([251] ) مسند ابن ابی شیبہ میں بر وایت حمید بن ہلال بطریق اِرسال مروی ہے کہ وہ مال ایک لاکھ درہم تھا اور اسے عَلاء بن الحَضْرَمی نے بحرین کے خراج میں بھیجا تھا اور یہ پہلا مال تھاجو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لا یا گیا۔
غنائم حنین کی تفصیل پہلے آچکی ہے۔ ان میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سخاوت حدقیاس سے خارج تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اَعراب ([252] ) میں بہت سوں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔([253] ) مگر اس دن آپ کی سخاوت زیادہ تر مؤ لفۃ القلوب کے لئے تھی جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا ہے۔ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص (صفوان بن امیہ) نے اس روز بکریوں کا سوال کیاجن سے دوپہاڑ وں کا درمیانی جنگل پُر تھاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ سب اس کو دے دیں ۔ اس نے اپنی قوم میں جا کر کہا: ’’اے میری قوم ! تم اسلام لاؤ !!!اللّٰہ کی قسم! محمد( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ایسی سخاوت کرتے ہیں کہ فقر سے نہیں ڈرتے۔‘‘ ([254] )
حضرت سعید بن مُسَیِّب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ صفوان بن اُمَیَّہ نے کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حنین کے دن مجھے مال عطا فرمانے لگے حالانکہ آپ میری نظر میں مبغوض ترین خلق تھے پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممجھے عطا فرماتے رہے یہاں تک کہ میری نظر میں محبوب ترین خلق ہوگئے۔([255] )
حضرت جُبَیر بن مُطْعِم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ جب میں اور دیگر لوگ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ حنین سے (بعد تقسیم غنائم) واپس آرہے تھے تو بادِیہ نشینانِ عرب([256] )حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے لپٹ گئے وہ حنین کی غنیمت میں سے مانگتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بحالت اِضطرار ([257] ) ایک ببول کے درخت کی طرف لے گئے اس درخت میں آپ کی چادر مبارک پھنس گئی۔آپ ٹھہر گئے اور فرمایا: ’’مجھے میری چادردے دواگر میرے پاس اس جنگل کے درختانِ ببول جتنے چو پائے ہو تے تو البتہ میں ان کو تمہارے درمیان تقسیم کر دیتاپھر تم مجھ کو بخیل نہ پاتے اور نہ دَروغ گو اور بزدل پاتے۔‘‘([258] )
حضرت ابو ذَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ ایک روز میں جناب پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھا، جب آپ نے کو ہِ اُحد کو دیکھا تو فرمایا: ’’ اگر یہ پہاڑ میرے لئے سو نا بن جائے میں پسند نہ کروں گا کہ اس میں سے ایک دینا ربھی میرے پاس تین راتوں سے زیادہ رہ جائے بجز اس دینا ر کے جسے میں ادائے قرض کے لئے رکھ چھوڑوں ۔([259] )
ایک رو ز نماز عصر کا سلام پھیر تے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دولت خانہ میں تشریف لے گئے پھر جلدی نکل آئے صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو تعجب ہوا آپ نے فرمایا کہ مجھے نماز میں خیال آگیا کہ صدقہ
کا کچھ سونا گھر میں پڑا ہے مجھے پسند نہ آیا کہ رات ہو جائے اور وہ گھر میں پڑا رہے اس لئے جا کر اسے تقسیم کر نے کے لئے کہہ آیا ہوں۔([260] )
حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ ایک عورت ایک چادرلے کر آئی اس نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !یہ میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے میں آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ضرورت تھی اس لئے آپ نے وہ چادر لے لی پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری طرف نکلے اور اسی چادر کو بطورِ تہبند باند ھے ہو ئے تھے۔ صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن میں سے ایک نے دیکھ کر عرض کیا: کیا اچھی چادر ہے یہ مجھے پہنا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا: ہاں ! کچھ دیر کے بعد آپ مجلس سے اٹھ گئے پھر لوٹ آئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس صحابی کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے اس سے کہا کہ تو نے اچھا نہ کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے اس چادر کا سوال کیاحالانکہ تجھے معلوم ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی سائل کا سوال رد نہیں فرماتے۔ اس صحابی نے کہا:اللّٰہکی قسم! میـں نے صرف اس واسطے سوال کیا کہ جس دن میں مر جاؤں یہ چادر میرا کفن بنے۔ حضرت سہل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ وہ چادر اس کا کفن ہی بنی۔([261] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہروایت کر تے ہیں کہ ایک کا فر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مہمان ہواآپ کے حکم سے، اس کے لئے ایک بکری دوہی گئی وہ اس کا دودھ پی گیا ،دوسری دوہی گئی وہ اس کا دودھ بھی پی گیاپھر ایک اور دوہی گئی وہ اس کا دودھ بھی پی گیا اسی طرح اس نے سات بکریوں کا دودھ پی لیاصبح جواٹھا تو اسلام لایا۔ پس رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حکم دیا کہ اس کے لئے ایک بکری دوہی جائے وہ اس کا دودھ پی گیا پھر دوسری دوہی گئی مگر وہ اس کا دودھ تمام نہ پی سکا۔ پس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ’’مو من ایک
انتڑ ی میں پیتا ہے اور کافر سات انتڑیوں میں پیتا ہے۔‘‘([262] )
حضرت بلال مؤذّن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہآنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے خزانچی تھے۔ایک روز عبداللّٰہ ہوزنی([263] ) نے ان سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خزانہ کا حال پوچھا انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس کچھ نہ رہتا تھا۔بعثت سے وفات شریف تک یہ کام میری تحویل میں تھا جب کوئی ننگا بھوکا مسلمان آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پاس آتاآپ مجھے حکم دیتے میں کسی سے قرض لیتا اور چادر خرید کر اسے اُڑھاتا اور کھانا کھلاتا۔ ایک روزایک مشرک مجھ سے ملاکہنے لگا: بلا ل! میرے ہاں گنجا ئش ہے۔ میرے سوا کسی اور سے قرض نہ لیا کرو۔ میں نے ایسا ہی کیاایک روز میں وضو کر کے اذان دینے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مشرک تاجروں کی ایک جماعت کے ساتھ آرہا ہے اس نے مجھے دیکھ کر کہا: اوحبشی ! میں نے کہا: لبیک! پھر اس نے ترش رُو ہو کر([264] ) میری نسبت سخت الفاظ کہے اور بولا:’’کچھ معلوم ہے وعد ے میں کتنے دن با قی ہیں ۔‘‘ میں نے کہا: وقت وعدہ قریب آگیا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف چاردن باقی ہیں اگر اس مدت میں تونے قرضہ ادا نہ کیا تو تجھے غلام بنا کر بکریاں چرواؤں گاجیسا کہ تو پہلے چر ایا کر تا تھا۔ یہ سن کر مجھے فکر وغم دامن گیر ہوا۔ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز عشاء پڑھ کر دولت خانہ میں تشریف لے گئے، میں وہیں حاضر خدمت ہوا ،اور عرض کیا:’’ یارسول اللّٰہ!میرے ماں باپ آپ پر فدا۔ وہ مشرک جس سے میں قرضہ لیاکرتا تھا اس نے مجھ سے ایسا ایسا کہا ہے، آپ کے پاس ادائے قرض کے لئے کچھ موجود نہیں اور نہ میرے پاس ہے وہ مجھ کوفَضِیحَت کرے گا ([265] ) آپ اجازت دیں تومیں بھاگ کر مسلمانوں کے کسی قبیلہ میں جا رہوں ،جب ادائے قرض کے لئے خدا کچھ سامان کر دے گا تو واپس آجاؤں گا۔‘‘ غرض میں اپنے گھر آگیا اور تلوار،
تھیلا، جوتا اور ڈھال اپنے سرہانے رکھ لئے۔ صبح کا ذِب ہوتے ہی میں چلنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص دوڑتا آرہا ہے اور کہتا ہے: ’’بلال! رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تجھے یا د فرمارہے ہیں ۔‘‘ وہاں پہنچا تو دیکھتاہوں کہ چار لدے ہو ئے اونٹ بٹھائے ہو ئے ہیں ۔ میں اجازت لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: مبارک ہو!!! اللّٰہ تعالٰی نے ادائے قرض کا سامان کر دیا،تم نے چار اونٹ بیٹھے دیکھے ہوں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ۔آپ نے فرمایا کہ یہ اونٹ حاکم فدک نے بھیجے ہیں یہ اور غلہ اور کپڑے جو ان پر ہیں سب تمہاری تحویل میں ہیں ان کو بیچ کر قرضہ ادا کر دو۔ میں نے تعمیل ارشاد کی، پھر میں مسجد میں آیا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے سلام عرض کیا۔ آپ نے ادا ئے قرضہ کا حال پو چھا؛میں نے عرض کیا کہ قرضہ سب ادا ہو گیا کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ کچھ بچ تو نہیں رہا۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں کچھ بچ بھی رہا۔ فرمایا: ’’مجھے اس سے سبکدوش کرو!! جب تک یہ کسی ٹھکا نے نہ لگے گا میں گھر نہ جاؤں گا۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنماز عشا ء سے فارغ ہو ئے تو مجھے بلا کر اس بقیہ کا حال پوچھا ؛میں نے عرض کیا کہ وہ میرے پاس ہے کوئی سائل نہیں ملا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمرات کو مسجد ہی میں رہے۔ دوسرے روز نماز عشاء کے بعد مجھے پھربلایا،میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا نے آپ کو سبکد وش کر دیا۔ یہ سن کر آپ نے تکبیر کہی اور خدا کا شکر کیا کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موت آجا ئے اور وہ مال میرے پاس ہوپھر آپ دو لت خانہ میں تشریف لے گئے۔ ([266] )
بعض وقت ایسا ہو تا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی شخص سے ایک چیز خرید تے ،قیمت چکا دینے کے بعد وہ اسی کو یا کسی دوسرے کو عطا فرماتے۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہسے ایک اونٹ خریدا پھر وہی اونٹ ان کو بطورِ عطیہ عنا یت فرمایا۔ اسی طرح ایک روز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ایک شترکابچہ خرید اپھر حضرت عبداللّٰہبن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو عطا فرمایا۔ ([267] )
غرض جو کچھ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آتاسب راہ خدا میں دے دیتے پاس نہ ہو تا تو قرضہ لے کر سائل کی حاجت روائی فرماتے۔ اپنی ذات شریف کے لئے دوسرے دن کا نفقہ بھی جمع نہ کرتے ([268] ) البتہ بعض وقت اپنے حرم کے لئے ایک سال کا نفقہ ذخیر ہ کرلیتے۔جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی محتاج کو دیکھتے تو باوجود احتیاج کے اپنا کھانا اسے دے دیتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دولت خانہ میں بعض دفعہ دودو مہینے آگ نہ جلتی تھی۔ ایک دفعہ غنیمت میں کنیز یں آئی ہو ئی تھیں حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے کہا کہ تم اس موقع پر اپنے والد بزر گوار سے خدمت کے لئے ایک کنیزمانگ لو۔ جب وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے پو چھا کہ کس لئے آئی ہو ؟ عرض کیا کہ سلام کر نے آئی ہوں اور بپاس حیا اظہارِ مطلب نہ کیا اور واپس آکر حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے یہی عذر بیان کر دیا پھر دونوں حاضر خدمت اقدس ہوئے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآب کشی کر تے کرتے میرے سینے پر نیل پڑ گئے ہیں ۔ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کیا کہ چکی پیستے پیستے میری ہتھیلیوں پر آبلے پڑگئے ہیں ۔ آپ خدمت کے لئے ایک کنیز عنایت فرمائیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اللّٰہ کی قسم ! یہ نہیں ہو نے کا کہ میں تم کو خادمہ دوں اور اہل صفہ بھوکے مریں ان کے خرچ کے لئے میرے پاس کچھ نہیں میں ان اسیرانِ جنگ کو بیچ کر ان کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کر وں گا۔ ‘‘ رات ہوئی تو آپ حضرت علی وفاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے گھرتشریف لے گئے۔دونوں ایسی پرزہ دار چادر میں تھے کہ اگر اس سے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں ڈھانپتے توسر ننگے رہتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھ کر دونوں اٹھنے لگے آپ نے فرمایا:’’ اپنی جگہ پر رہو!‘‘ پھر ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں کنیز سے بہتر چیز بتا تا ہوں اوروہ وہ کلمات ہیں جو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلامنے مجھے سکھائے ہیں یعنی ہر نماز کے بعد سُبْحَانَ اللّٰہِ دس بار، اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ دس بار اور اَ للّٰہُ اَ کْبَرْ دس
بار اور سونے کے وقت سُبْحَانَ اللّٰہِ ۳۳ بار، اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳ بار او ر اَ للّٰہُ اَ کْبَر ۳۴بار پڑھ لیا کرو۔([269] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان اَوصاف میں بھی سب پر فائق تھے۔ ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل بر پاہو اگو یا کوئی چوریا دشمن آیا ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا گھوڑا لیاجو سست رفتار اور سر کش تھاآپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے ،جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کو تسلی دی کہ ڈرومت ڈرومت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریاکی مانند تیز رفتار پایا۔([270] )
غز وات میں جہاں بڑے بڑے دِلا وروبہاد ربھاگ جایا کر تے تھے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ثابت قدم رہا کرتے تھے۔ چنانچہ جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہو ئی تو یہ کوہِ اِستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے جب کمان پارہ پارہ ہوگئی تو سنگ انداز ی شروع کی۔ جنگ حنین میں صرف چند جانباز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفاء نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر مدافعت فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو باربار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھا نا چاہتے تھے مگر وہ جانبا ز مانع آرہے تھے۔
جب گھمسان کا معرکہ ہوا کر تا تھا تو صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت بَراء بن عازِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا قول ہے:’’اللّٰہکی قسم! جب لڑائی شدت سے
ہوا کر تی تھی تو ہم نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پنا ہ ڈھونڈا کر تے تھے اور ہم میں سے بہاد روہ ہو تا تھاجو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہو تا تھا۔‘‘([271] )
اعلان دعوت پر قریش نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سخت مخالفت کی جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ار ادہ کیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں فرمایا: ’’چچا جان!اللّٰہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کا م کو چھوڑ دوں تب بھی اس کا م کو نہ چھوڑ وں گایہاں تک کہ خدا اسے غالب کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں ۔‘‘
ہجرت سے پہلے قریش نے مسلمانوں کو اس قدر ستا یا کہ ان کا پیمانہ صبر لبر یز ہو گیا تنگ آ کر انہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے عرض کیا کہ آپ ان پر بددعا فرمائیں ۔یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا: ’’ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لو ہے کی کنگھیاں چلا ئی جاتیں جس سے گو شت پوست سب علیحدہ ہوجاتا اور ان کے سروں پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دوٹکڑے کردئیے جاتے مگر یہ اذیتیں ان کو دین سے برگشتہ نہ کرسکتی تھیں ۔اللّٰہ تعالٰی دین اسلام کو کمال تک پہنچا ئے گایہاں تک کہ ایک سوار صَنعاء سے حَضَرمَوت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈرنہ ہو گا۔‘‘( صحیح بخاری) ([272] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قوت بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔غز وۂ احزاب میں جب صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن خند ق کھود رہے تھے تو ایک جگہ ایسی سخت زمین ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آگئے۔ آپ سے عرض کیا گیا تو آپ بذات شریف خند ق میں اُتر ے اور ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں ([273] ) کا ایک ڈھیر بن گئی۔([274] )
رُکانَہ بن عبد یز ید بن ہاشم قرشی مطلبی قریش میں سب سے طاقتور تھاوہ ایک روز مکہ کے راستے میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے ملاآپ نے اس سے فرمایا: ’’رکانہ! کیا تو خد اسے نہیں ڈرتا اور میری دعوت اسلام کو قبول نہیں کرتا؟‘‘ اس نے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ سچ ہے تو میں آپ پر ایمان لے آؤں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اگر میں تجھے کشتی میں پچھاڑ دوں تو کیا تو مان جائے گا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں سچ ہے؟ ‘‘ وہ بولا کہ ہاں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے پکڑتے ہی چاروں شانے چت گر ادیا۔([275] ) کہنے لگا: ’’محمد! آپ مجھ سے دوبار ہ کشتی لڑیں ۔ ‘‘ آپ نے دوسری دفعہ بھی اسے پچھاڑ دیا۔ اس پر اس نے کہا: ’’محمد! خدا کی قسم! آپ کا مجھے پچھاڑ نا عجیب ہے۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اگر تو خدا سے ڈرے اور مجھ پر ایمان لائے تو میں اس سے بھی عجیب امر تجھ کودکھاتا ہوں ۔ اس نے پو چھا کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ درخت جو تو دیکھتا ہے میں اسے بلاتا ہوں اور وہ میرے پاس چلا آئے گا۔ اس نے کہا کہ آپ اسے بلائیے۔ چنانچہ وہ درخت آپ کے بلا نے پر پاس آکھڑا ہو ا۔ ر کانہ نے کہا کہ اسے حکم دیجئے کہ اپنی جگہ پر چلا جائے۔ آپ کے حکم سے وہ اپنی جگہ پر چلا گیا رُکانہ نے اپنی قوم میں جا کر کہا کہ میں نے محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے بڑھ کر کسی کو جادو گر نہیں دیکھا پھر بیان کیا جو کچھ دیکھا تھا۔([276] ) رُکانہ مذکورفتح مکہ میں ایمان لائے۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔
آ پ نے ابو الا سود جُمَحِی کو بھی پچھاڑا تھاجو ایسا طاقتور تھا کہ گا ئے کی کھال پر کھڑ اہو جاتا،دس جوان اس کھال کو اس کے پاؤں کے نیچے سے نکال لینے کی کو شش کرتے وہ چمڑا پھٹ جاتامگر اس کے پاؤں کے نیچے سے نہ نکل سکتا تھا۔اس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہا: ’’اگر آپ مجھے کشتی میں پچھا ڑ دیں تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا۔‘‘ آپ نے اسے پچھاڑ دیامگر وہ بدبخت ایمان نہ لایا۔ ([277] )
یہ وصف بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذات مبارک میں کمال درجے کا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہایک قوم کے پاس سے گزرے جن کے آگے بکری کا بھنا ہوا گوشت رکھا ہوا تھاانہوں نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکو شریک طعام ہو نے کے لئے بلا یا مگر آپ نے یہ فرماکر اِنکار کر دیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔([278] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہل بیت کبھی لگاتار دو روز جو کی روٹی سے سیر نہ ہو ئے یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔([279] )حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا بیان ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی خوان پر([280] ) کھانا نہ کھایا([281] ) اور نہ بار یک روٹی تنا ول فرمائی۔([282] )
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دولت خانہ میں بعض دفعہ دو دومہینے آگ روشن نہ ہوا کر تی تھی اور صرف پانی اور چھواروں پر گزارہ ہو تا تھا۔([283] ) بعض وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہبیان فرماتے ہیں کہ ایک روزہم نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بھوک کی شکایت کی اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر
بند ھا دکھایا۔ پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے پیٹ مبارک پر دوپتھر بند ھے دکھائے۔ ([284] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کابیان ہے کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال ہوا تو میرے گھر کے طاق میں سوائے آدھے پیمانۂ جو کے کچھ کھانے کو نہ تھا۔ ([285] )اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے ہاں تیس صاع جو کے عوض گِرَو ([286] )تھی جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اہل وعیال کے نفقہ کے لئے لئے تھے۔([287] )
اِیلا ء کے زمانہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک مشربہ (بالاخانہ) میں تشریف رکھتے تھے جہاں کھانے پینے کا اسباب رکھا جاتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکو جب اِیلا ء کی خبر ملی تو گھبر ائے ہوئے اس مشربہ میں حاضر خدمت اقدس ہوئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک کُھرِّی چارپائی ([288] ) پر لیٹے ہوئے ہیں جو برگِ خرما سے بنی ہوئی ہے اور جس پر کوئی توشک([289] ) وغیرہ نہیں ۔ بو ریا ئے خرما کے نشان آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پہلو ئے مبارک پر پڑ ے ہو ئے ہیں اور بدن مبارک پر ایک تہبند کے سوا کچھ نہیں ، سرہانے ایک تکیہ ہے جس میں خرما کی چھا ل بھر ی ہوئی ہے۔ فرمایا: میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خزانہ کو دیکھا۔ ایک کونے میں مٹھی بھر جَو رکھے ہوئے تھے پاؤں مبارک کے قریب درخت سُلَم کے کچھ پتے (جو دَباغت میں کام آتے ہیں ) پڑے ہوئے تھے اور سر مبارک کے پاس ایک کھونٹی پر تین کھالیں لٹک رہی تھیں ۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پو چھا: ابن خطاب! کیوں روتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ کیوں نہ روؤں بوریا ئے خرما کے نشان آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پہلو ئے مبارک پر پڑے ہوئے ہیں یہ آپ کا خزانہ ہے اس میں جو کچھ ہے وہ نظر آرہاہے۔ قیصر وکسریٰ تو باغ وبہار کے مزے لو ٹیں اور خدا کے رسول و برگزیدہ کے خزانہ کا یہ حال
ہو۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ابن خطاب! کیا تم یہ پسند نہیں کر تے کہ آخرت ہمارے واسطے اور دنیا ان کے لئے ہو۔([290] )
حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہفرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بو ریا ئے خرماپر سوئے ہوئے تھے۔ اُٹھے تو اس کے نشان آپ کے پہلو ئے مبارک پر پڑے ہوئے تھے۔ہم نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم آپ کے لئے گدّا بنوا دیتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے دنیا سے کیا غرض دنیا میں میرا حال اس سوار کی مانند ہے جو ایک در خت کے سایہ میں بیٹھ جا تا ہے پھر اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے‘‘۔([291] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے اہل وعیال کے لئے بھی زہد کی زندگی پسند فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ کی ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حجر ے کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے جن کی چھت کہگل ([292] )کی ہوتی تھی اور وہ قدآدم سے کچھ ہی اونچے تھے جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا ہے۔ پہننے کے لئے ان میں سے ہر ایک کے پاس صرف ایک ایک جو ڑ اکپڑا تھا۔([293] )
حضرت ثوبان کا بیان ہے کہ جب رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سفر کا قصد فرماتے تو اپنے اہل میں سے سب سے اَخیر حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے مل کر جاتے اور واپس آکر سب سے پہلے حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے ملتے۔ ایک دفعہ آپ کسی غز وہ سے تشریف لائے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے اپنے دروازے پر پر دہ لٹکایا ہو اتھا اور امام حَسَن اور امام حُسَین کو چاندی کے کنگن پہنا ئے ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمحسب معمول حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے یہاں آئے تو اندرداخل نہ ہو ئے اور تشریف لے
گئے۔حضرت فاطمہ زہر انے خیال کیا کہ زینت وزیورہی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اندر آنے سے روکا ہے۔اس لئے پر دے کو پھاڑ ڈالا اور بچوں کے ہاتھوں سے کنگن نکال دیئے۔ حضرت حسنین روتے ہوئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئے۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کنگن ان سے لے لئے اور فرمایا: ’’ثوبان! یہ زیور فلاں شخص کی آل کے ہاں لے جا کیونکہ یہ میرے اہل بیت ہیں میں پسند نہیں کر تا کہ یہ اپنی دنیوی زندگی میں لذائذسے حظ اُٹھائیں ۔ ([294] ) ثوبان! فاطمہ کے لئے ایک عصب ([295] ) کا ہار اور عاج (ہاتھی دانت) کے دو کنگن خرید لاؤ۔([296] )
ایک روز رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی صاحبز ادی حضرت بی بی فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے گھر تشریف لے گئے مگر اندر داخل نہ ہوئے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آئے تو حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے ان سے یہ ذکر کر دیا۔انہوں نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ فاطمہ کے دروازے پر مُخَطَّطْ([297] )پر دہ لٹک رہا تھا۔ پھر فرمایا کہ مجھے دنیا سے کیا غرض۔ جب حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے یہ بیان کیا تو وہ بولیں کہ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس بارے میں جو چاہیں ارشاد فرمائیں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اسے فلاں حاجت مند اہل بیت کو دے دیں ۔ اسی طرح حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک حلۂ سیر اء (مخطط یار یشمی) بطور ہدیہ عطا فرمایامیں نے اسے پہن لیا۔یہ دیکھ کر حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہر ۂ مبارک پر غضب کے آثار نمو دار ہوئے میں نے اسے پھاڑ کر اپنی عورتوں میں تقسیم کر دیا۔ ([298] )
ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی دعوت کی اور کھانا تیار کیا۔حضرت فاطمہ زہر اء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے کہا:کیا خوب ہواگر ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو بھی شریک طعام کر لیں چنانچہ ہم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بلایا، آپ تشریف لا ئے، آپ نے دروازے کے بازوؤں پر اپنا ہاتھ مبارک رکھا اور گھر کے ایک طرف پردہ لٹکتا دیکھ کر واپس تشریف لے گئے۔حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے کہا کہ جائیے اور دیکھئے کہ آپ کس واسطے واپس ہوگئے۔حضرت علی نے آپ سے واپسی کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ پیغمبر کی شان کے خلاف ہے کہ زیب وزینت والے گھر میں داخل ہو۔([299] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی غز وہ میں تشریف لے گئے تھے میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی واپسی کا انتظار کیاکر تی تھی ۔ہمارے ہاں ایک رنگین فرش تھامیں نے اسے چھت کے ایک شہتیر پر لپیٹ دیا۔جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لا ئے تو میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: ’’ اَ لسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَا تُہسب ستائش خدا کے لئے ہے جس نے آپ کو شرف وبزرگی بخشی۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے گھر میں بساطِ رنگین([300] ) دیکھ کر میرے سلام کا جواب نہ دیا۔میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک پر کراہت کے آثاردیکھے۔آپ نے اس فرش ([301] )کو پھاـڑ ڈالا اور فرمایا کہ خدا نے جو کچھ ہمیں دیا ہے اس کے بارے میں ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ اینٹ پتھر کو پہنا دیں ۔ بس میں نے اس کے دو تکیے بنالئے جن میں کھجور کی چھال بھر دی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس پر اعتراض نہ فرمایا۔([302] )
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ہمارے ہاں ایک پر دہ تھاجس میں پرندوں کی تصویر یں تھیں ۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اے عائشہ ! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اس کو بدل ڈالو کیونکہ جب
میں اسے دیکھتا ہوں تو دنیایا د آتی ہے۔([303] )
واضح رہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ زہد اختیار ی تھا۔ خدا تعالٰی نے تو زمین ([304] )کے خزانوں کی کنجیاں آپ پر پیش کیں مگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہمت عالی نے عبودیت وزُہد کو پسند فرمایا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں کہ میرے پر وردگار نے مجھ سے فرمایا کہ ’’اگر تو چاہے تو تیرے واسطے وادیٔ مکہ کو سونا بنا دوں ۔‘‘ مگرمیں نے عرض کیا: ’’اے میرے پروردگار! میں یہ نہیں چاہتابلکہ یوں چاہتا ہوں کہ ایک دن سیر ہو کر کھاؤں اور دوسرے روز بھوکا رہوں جب بھوکا رہوں تو تیرے آگے زاری و عاجزی کروں اور جب سیر ہو جاں تو تیری حمد اورتیرا شکر کروں ۔‘‘ ([305] )
اس میں شک نہیں کہ حضور ِاَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فتوحات بکثرت ہوئیں مگر جو کچھ آتا را ہ ِخدا میں اٹھا دیتے اور خود زہد کی زندگی بسر کر تے یہاں تک کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال شریف ہوا تو بدن مبارک پر صرف ایک کملی اور تہبند تھاکملی میں پیوند پر پیوند لگے ہو ئے تھے اور نمدہ ([306] )کی طرح ہو گئی تھی۔ تہبندکا کپڑا بھی پیو ندوں کی کثرت سے موٹا ہو گیا تھا۔([307] )اور آپ کی زِرَہ ذاتُ الفُضُوْل نام ابو الشحم یہودی کے پاس بیس صاع جو میں گِرَو ([308] )تھی جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اہل کے لئے ایک دینار کو لیے تھے۔ (ترمذی ) ([309] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معرفت الٰہی اور علم سب سے زیادہ تھا۔اس لئے آپ سب سے زیادہ
خدا ترس اور عبادت کر نے والے تھے۔چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں :’’ قسم ہے! اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہیں معلوم ہو تاجو مجھے معلوم ہے تو تم البتہ زیادہ روتے اور تھوڑا ہنستے‘‘۔([310] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عبادت کا یہ حال تھا کہ کثرت قیام شب کے سبب سے آپ کے پاؤں مبارک پر ورم آگیا تھا۔صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے عرض کیا کہ آ پ یہ تکلیف ومحنت کیوں اٹھاتے ہیں حالانکہ خدا تعالٰی نے آپ کے سب اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں ([311] ) آپ نے جواب میں فرمایا:’’ کیا میں شکر گزاربندہ نہ بنو ں ‘‘۔([312] ) یعنی کیا میں اس بات کا شکر نہ کروں کہ میں بخشا گیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمام رات نماز میں کھڑے رہے اور قرآن کی ایک ہی آیت بار بار پڑھتے رہے۔([313] )
حضرت حذیفہ بن الیمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا بیان ہے کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو رات کے ایک حصے میں نماز پڑھتے دیکھاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یوں پڑھتے تھے: اَللّٰہُ اَ کْبَر (تین بار) ذُو الْمُلْکِ([314] )وَ الْجَبَرُوْتِ وَ الْکِبْرِیَآئِ وَ الْعَظَمَۃِ ۔ پھر دُعائے اِستفتاح پڑھتے تھے،بعد اَزاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے (سورۂ فاتحہ کے بعد)سورۂ بقرہ پڑھ کر رکوع کیا ۔آپ کا رکوع (طوالت میں ) مانند قیام کے تھا اور اس میں ’’سُبْحَانَ رَ بِّیَ الْعَظِیْمِ ‘‘پڑھتے تھے ۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے رُکوع سے سر اٹھایا ۔آپ کا قومہ مانند رکوع کے تھا اور آپ اس میں لِرَبِّیَ الْحَمْدُ پڑھتے تھے۔ پھر آپ نے سجدہ کیا۔آپ کا سجدہ مانند قومہ کے تھا۔آپ سجدہ
میں ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘پڑھتے تھے۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سجدہ سے سر اٹھا یا، آپ دو سجدوں کے درمیان مانند سجدہ کے بیٹھتے تھے اور رَبِّ اغْفِرْ لِیْ، رِبِّ اغْفِرْ لِیْ پڑھتے تھے۔اس طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چار رکعتیں پڑھیں اور ان میں سُوْرَۂ بَقَرَۃ و آلِ عِمْرَان و نِسَآء اور مَائِدَ ۃ یا اَنْعَام ختم کیں ۔ ([315] )
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خوفِ الٰہی کمال درجہ کا تھا۔حضرت عبداللّٰہ بن الشِخِّیر روایت کر تے ہیں کہ ایک روز میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہواکیا دیکھتا ہوں کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور رونے کے سبب سے آپ کے شکم مبارک سے تانبے کی دیگ (کے جوش) کی مانند آواز آرہی ہے۔([316] )
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عبادت کے تفصیلی حالات کتب اَحادیث میں موجود ہیں ۔ یہاں بوجہ اِختصار ان کے اِیر اد کی گنجائش نہیں ۔مگر اتنا بتا دینا ضروری ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا طرزِ عمل اِفراط و تفریط سے خالی ہوا کر تا تھانہ تمام رات نماز پڑھتے اور نہ تمام رات سو تے بلکہ رات کو نماز بھی پڑ ھتے اور سو بھی لیتے اسی طرح روزوں کا حال تھا ماہ رمضان مبارک کی طرح تمام ماہِ شعبان کے روزے رکھتے باقی دس مہینوں میں سے ہر ایک میں آپ ہمیشہ روزہ نہ رکھتے کہ اِفراط لازم آئے اور نہ ہمیشہ اِفطار فرماتے کہ تفریط لازم آئے بلکہ ہر مہینہ میں کبھی روزہ رکھتے اور کبھی اِفطار فرماتے۔([317] )
رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب سے زیادہ عادل وامین تھے۔طفولیت میں جب مائی حلیمہ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہلے پہل گو دمیں لیا تو آپ نے صرف دا ہنی چھاتی سے دودھ پیا اور دوسری ان کے
شیر خوار بچہ کے لئے چھوڑ دی۔ ([318] )
جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غنائم حنین تقسیم فرمارہے تھے تو ذوالخویصر ہ رَاس الخَوارِج ([319] )نے کہا: یارسول اللّٰہ!(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )عدل کیجئے ۔آپ نے فرمایا:’’تجھ پر افسوس !میں اگر عدل نہ کروں تو اور کون کرے گا! اگر میں عادِل نہیں تو تو نا امید وزیاں کا ر ([320] )ہے۔‘‘ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا کہ مجھے اجا زت دیجئے کہ میں اس کی گر دن اڑادوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’اسے جانے دو کیونکہ اس کے اصحاب ایسے ہیں کہ ان کی نماز وں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے، وہ دین سے یوں نکل جاتے ہیں جیسا تیر شکار میں سے نکل جا تا ہے۔‘‘ ([321] )
ایک دفعہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک شخص سے کچھ کھجور یں اُدھار لیں ۔جب اس نے تقاضا کیا تو آپ نے فرمایا:’’ آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، مہلت دیجئے کہ کچھ آجائے تو ادا کر دوں ۔‘‘ یہ سن کربولا:’’آہ بے وفائی۔‘‘ اس پر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو غصہ آگیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’عمر! جانے دو،صاحب حق ایسا ویسا کہا کر تا ہے۔ ‘‘ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت خولہ بنت حکیم اَنصار ِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے کھجور یں منگوا کراس کے حوالہ کیں ۔ ([322] )
حضرت ابو حدرد ا سلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ مجھ پر ایک یہودی کا چار در ہم قرض تھا یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غز وہ خیبر کا ار ادہ فرمارہے تھے اس نے مجھ سے تقاضا کیا،میں نے مہلت مانگی تو وہ نہ مانا اور مجھے پکڑ کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گیا،آپ نے مجھ سے دودفعہ فرمایا کہ اس کا حق ادا کردو،میں نے عرض کیا:یا رسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ مہم خیبر کا ارادہ فرمارہے ہیں
شاید ہمیں وہاں سے کچھ غنیمت ہاتھ لگے، آپ نے پھر فرمایا کہ اس کا حق ادا کر دو۔یہ قاعدہ تھا کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی بات کے لئے تین بار فرمادیتے تو پھر کوئی عذر نہ کیا جاتا۔میرے پاس بدن پر ایک تہہ بند اور سر پر عمامہ تھامیں نے اس یہودی سے کہا کہ اس تہہ بند کو مجھ سے خرید لوچنانچہ اس نے چار در ہم میں خرید لیا، میں نے عمامہ سر سے اتا رکر کمر سے لپیٹ لیا۔ایک عورت میرے پاس سے گز ری اس نے اپنی چادر مجھے اُڑھادی۔ ([323] )
سُرَّق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک صحابی تھے ان سے اس نام کی وجہ تسمیہ دریافت کی گئی تو کہنے لگے کہ ایک بدوی دو اونٹ لے کر آیامیں نے خرید لئے پھر میں (قیمت لا نے کے بہانہ سے ) اپنے گھر میں داخل ہوا اور عقب ِخانہ سے نکل گیا اور ان اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت پوری کی۔ میں نے خیال کیا کہ بدوی چلا گیا ہوگامیں واپس آیا توکیا دیکھتا ہوں کہ وہ کھڑا ہے۔وہ مجھے پکڑکر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لے گیا اور واقعہ عرض کیاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے پو چھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ میں نے عرض کیا:یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نے اونٹوں کو بیچ کر اپنی حاجت روائی کی ہے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ بدوی کو قیمت ادا کر دو۔میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے،آپ نے فرمایا کہ تو سُرَّق ہے پھر بدوی سے فرمایا کہ تم اس کو بیچ کر اپنی قیمت وصول کر لو، چنانچہ لوگ اس سے میری قیمت پو چھنے لگے۔وہ ان سے کہتا تھا کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ وہ کہتے تھے کہ ہم خرید کر اس کو آزاد کر نا چاہتے ہیں ۔یہ سن کر بدوی نے کہا کہ میں تمہاری نسبت ثواب کا زیادہ مستحق وخواہاں ہوں اور مجھ سے کہا کہ جاؤ میں نے تم کو آزاد کردیا۔([324] )
ایک دفعہ خاندان مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، قریش نے چاہا کہ وہ حد سے بچ جائے۔ انہوں نے حضرت اُسا مہ بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے جو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے محبوب خاص تھے درخواست کی کہ آپ سفار ش کیجئے۔چنانچہ حضرت اُسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے سفارش کی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:’’ تم حد میں سفارش کرتے ہو! تم سے پہلے لوگ (بنی اسرائیل ) اسی سبب سے
تبا ہ ہوئے کہ وہ غریبوں پر حد جاری کرتے اور امیروں کو چھوڑدیتے۔خدا کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) بھی ایسا کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘([325] )
ایک روز رسولاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غنیمت تقسیم فرمارہے تھے ایک شخص آیا اور آپ پر جھک گیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کھجور کی سو کھی شاخ سے جو آپ کے دست مبارک میں تھی اسے ٹھو کا دیا جس سے اس کے منہ پر خراش آگئی۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ تم مجھ سے قصاص لے لواس نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نے معاف کردیا۔‘‘ ([326] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جنگ بدر کے لئے صف آرائی کر رہے تھے۔ حضرت سَواد بن غَزِیَّہ اَنصاری صف سے آگے نکلے ہو ئے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک تیر کی لکڑی سے ان کے پیٹ کو ٹھوکا دیا اور فرمایا : استو یاسواد ۔اے سواد! بر ابر ہو جاؤ۔ اس پر سواد نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے قصاص طلب کیاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فوراً اپنا شکم مبارک ننگا کر دیا اور فرمایا کہ قصاص لے لو۔ یہ قصہ بالتفصیل پہلے آچکا ہے۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امانت کا یہ عالم تھا کہ نبوت سے پہلے بھی آپ عرب میں ’’ امین‘‘ مشہور تھے۔ چنانچہ قریش کعبہ کو از سر نوبنانے لگے اور وہ حجر اسود کی جگہ تک تیار ہو گیا تو قبائل قریش میں جھگڑا ہوا، ہر ایک قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو اٹھا کر ہم اس کی جگہ پر رکھیں گے۔آخریہ قرار پایا کہ جو شخص کل صبح باب بنی شیبہ سے حرم میں پہلے داخل ہو وہ ثالث بنے۔اتفاقاً اس دروازے سے جو پہلے داخل ہو ئے وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے۔آپ کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے : ([327] )
’’ھٰذَا الْا َمِیْنُ رَضِیْنَا ھٰذَا مُحَمَّدٌ‘‘یہ امین ہیں ، ہم راضی ہیں ، یہ محمد ہیں ۔(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)
جب انہوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یہ معاملہ ذکر کیا تو آپ نے ایک چادر بچھا کر حجر اسود کو اس میں رکھاپھر فرمایا کہ ہر طرف والے ایک ایک سر دار انتخاب کرلیں اور وہ چاروں سر دار چادر کے چاروں کو نے تھام لیں اور اوپر کو اٹھائیں ۔اس طرح جب وہ چادر مقام نصب کے برابر پہنچ گئی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر دیو ار کعبہ میں نصب فرمایا اور وہ سب خوش ہو گئے۔([328] )
ایک دفعہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدن مبارک پر ایک جو ڑا قِطرِی مو ٹے کپڑے ([329] )کا تھا،جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیٹھتے تو وہ پسینہ سے بو جھل ہو جاتاایک یہودی کے ہاں شام سے کپڑے آئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کیا کہ آپ کسی کے ہاتھ اس سے ایک جو ڑا قرض منگوالیں ۔ جب آپ کا آدمی یہودی کے پاس پہنچا تو اس نے کہا: ’’میں سمجھامطلب یہ ہے کہ وہ میرا مال یاد ام یوں ہی اڑ ا لیں ۔‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سن کر فرمایا: ’’اس نے جھوٹ کہا۔ اسے معلوم ہے کہ میں سب سے زیادہ پرہیزگار اور سب سے زیادہ امانت کا ادا کر نے والا ہوں ۔‘‘ ([330] )
قریش کو اگرچہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے سخت عداوت تھی مگر باوجود اس کے اپنی جو کھم کی چیز آپ ہی کے ہاں امانت رکھا کر تے تھے جیسا کہ اس کتاب میں پہلے مذکورہوا۔
اپنے تو در کناربیگا نے بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صداقت کے قائل تھے۔حضرت عبداللّٰہ بن سلام ابھی ایمان نہ لائے تھے کہ حضور کو دیکھتے ہی پکار اٹھے : وَجْھُہٗ لَیْسَ بِوَجْہِ کَذَّابٍان کا چہرہ دروغ گو کا چہر ہ نہیں ۔([331] )
صلح حدیبیہ کی مدت میں ہر قل ِروم نے ابو سفیان ( جو اب تک ایمان نہ لائے تھے) سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت پو چھا:’’کیا دعویٰ نبوت سے پہلے تمہیں ان پر جھوٹ بو لنے کا گمان ہوا ہے ؟ ‘‘ ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ۔
حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو جہل نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے کہا کہ’’ ہم (معشر قریش ) تم کو جھوٹا نہیں کہتے۔لیکن جو کچھ ( کتاب و شریعت ) تم لائے ہو اس سے ہم انکار کرتے ہیں ۔‘‘ اس پر ابو جہل اور اس کے اَمثال کی شان میں اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ(۳۳) (انعام،ع۴)
وہ تجھ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن ظالم خدا کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔([332] )
عُتْبَہ بن رَبیعہ حضرت امیرمُعاوِیہ کی والد ہ ہند کا باپ تھا،جو جنگ بدر میں کفر پر مرا۔ایک روز قریش نے اس کو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے گفتگوکر نے کے لئے بھیجا۔اس نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر چند اُمور پیش کیے کہ ان میں سے جو چاہیں اِختیار کریں اور نئے مذہب سے بازآئیں ۔اس کے جواب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سورہ ٔ حٰم السجد ۃ پڑ ھنی شروع کی۔جب آپ آیہ فَاِنْ اَعْرَضُوْا پر پہنچے تو عتبہ نے آپ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ کر اور قرابت کی قسم دے کر کہا کہ آپ آگے نہ پڑھیں ۔اس کے بعد عُتْبَہ نے واپس جاکر قریش سے یہ ماجر ابیان کیا اور کہا کہ اس نے مجھے قرآن سنا یا، جب وہ اس آیت پر پہنچا :
فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَؕ(۱۳)
اگر وہ منہ پھیر یں تو کہہ دیجئے کہ میں نے تمہیں ایک کڑا کے سے ڈر ایا ہے جیسا کہ عاد و ثمود پر آیا تھا۔([333] )
تو میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور قرابت ِقَرِیبہ کی قسم دے کر کہا کہ بس آگے نہ پڑھئے۔ تمہیں معلوم ہے کہ محمد (صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) جب کچھ کہہ دیتا ہے تو جھوٹ نہیں بولتا۔اس لئے میں ڈرگیا کہ کہیں تم پر وہ عذاب نازل ہو جائے جس سے اس نے ڈرایا تھا۔([334] )
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اعلانِ دعوت کا حکم آیا تو آپ نے کو ہ صفا پر چڑھ کر قریش کو پکارا، جب وہ جمع ہوگئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے پو چھا:’’ بتا ؤاگر میں تم سے یہ کہوں کہ وادی مکہ سے ایک سواروں کا لشکر تم پر تاخت و تاراج ([335] )کر نا چاہتا ہے تو کیا تمہیں یقین آجائے گا؟‘‘ وہ بولے ’’ہاں ‘‘،کیونکہ ہم نے تم کو سچ ہی بو لتے دیکھا ہے۔([336] )
جب ہِرَقْل قیصر ِروم نے ابو سفیان سے پو چھا:’’کیا وہ مدعی نبوت عہد شکنی کرتا ہے ؟ ‘‘ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ۔
ابو رافع ایک قبطی غلام تھے جو مکہ میں رہا کر تے تھے ان کا بیان ہے کہ قریش نے مجھے سفیر بنا کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف بھیجا۔جب میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام کی صداقت جاگزیں ہو گئی۔میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں واللّٰہ کبھی ان کے پاس لوٹ کر نہ جاؤں گا۔‘ ‘ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ ’’ میں عہد شکنی نہیں کر تا اور نہ قاصد وں کو اپنے پاس روکتاہوں تم اب لوٹ جاؤاگر وہاں بھی تمہارے دل میں صداقت اسلام رہی تو واپس آجانا۔‘‘ ابو رافع کا قول ہے کہ میں چلا گیاپھرنبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایمان لایا۔([337] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عہد شکنی کو بہت براجا نتے تھے۔چنانچہ فرمایا کر تے تھے :’’ مَنْ قَتَلَ
مُعَاھِدً ا لَمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ وَ اِنَّ رِیْحَھَا لَتُوْجَدُ مِنْ مَّسِیْرَۃِ اَ رْبَعِیْنَ عَامًا‘‘ جو شخص کسی غیر مسلم معاہد (ذِمِّی) کو قتل کرے گا وہ بہشت کی بو نہ سونگھے گاحالانکہ اس کی بو چالیس سال کی مسافت سے آئے گی۔([338] )
حضرت عبداللّٰہ بن ابی الحَمسَاء بیان کر تے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کوئی چیز خریدی اس کی قیمت میں سے کچھ میرے ذمہ باقی رہا میں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وعدہ کیا کہ میں باقی قیمت لے کر اسی جگہ آپ کے پاس آتا ہوں چنانچہ میں چلا گیا اور اپنا وعدہ بھول گیا۔تین راتوں کے بعد مجھے یاد آیامیں بقیہ قیمت لے کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسی جگہ بیٹھ رہے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’اے نوجوان! بے شک تو نے مجھے مشقت میں ڈال دیامیں تین راتوں سے یہاں تیرا انتظار کر رہا ہوں ۔‘‘([339] )
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پاک دامنی کا ذِکر کس زبان سے کیا جائے صرف اتنا بتا دینا کافی ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ ہوں نہیں چھوا۔
حیاوہ خُلْق ہے جس کے ذریعے انسان قبائح شرعیہ([340] ) کے ارتکاب سے بچتا ہے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ذات اَقدس میں غایت درجہ کی حیاتھی چنانچہ حضرت ابو سعید خُدرِ ی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دہ والی دو شیزہ سے بڑھ کر حیادار تھے۔جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی امر کو نا پسند فرماتے تو ہم اسے آپ کے چہر ہ مبارک میں پہچان جاتے۔ ([341] )یعنی غایت حیاکے سبب سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی کراہت کی تصریح نہ فرماتے تھے([342] )بلکہ ہم اس کے آثار چہر ہ انور میں پاتے۔‘‘
حضرت امام حُسَین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والدبزر گوار سے دریافت کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا جووقت اپنے دولت خانہ میں گز رتا تھا آپ اس میں کیا کیا کر تے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب رسولاللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گھر میں داخل ہوتے تواس میں قیام کے وقت کے تین حصے کرلیتے تھے۔ ایک حصہ اللّٰہ (کی عبادت) کے لئے،دوسرااپنے اہل (کے ساتھ موانست ومعاشرت) کے لئے، تیسرا اپنی ذاتِ اَقدس کے لئے۔ پھر اپنے ذاتی حصہ کو اپنے اور عام لوگوں کے درمیان تقسیم کر لیتے۔ خو ّاص صحابہ جو دولت خانہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو تے آپ ان کی وساطت سے عوام کو جو دو لت خانہ میں حاضر نہ ہوا کرتے تبلیغِ اَحکام فرماتے اور نصیحت وہدایت کی کوئی بات عام وخاص سے پو شیدہ نہ رکھتے۔حصۂ اُمت میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا طریقہ یوں تھا کہ اَہل فضل کو ترجیح دیتے تاکہ حاضر ِخدمت ہو کر اِفادۂ عام کریں اور اس حصۂ اُمت کو بقدر حاجات دینیہ تقسیم فرماتے۔اہل فضل میں سے کسی کو ایک مسئلہ دین دریافت کر نا ہوتاکسی کو دواور بعض کوبہت سے مسائل کی ضرورت ہو تی۔پس ان اصحاب حاجات کی طرف توجہ فرماتے اور ان کو وہی امور دریافت کر نے دیتے جن میں ان کی امت کی بہبود ی ہو۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے مناسب حال احکام بیان فرماتے۔اس کے بعد آپ حاضر ین مجلس سے ارشادفرماتے کہ تمہیں چاہیے کہ بقیہ امت کو جو حاضر نہیں یہ احکام پہنچا دو، اور نیز فرماتے کہ جو لوگ (مثلاً عورتیں ،بیمار،غائب وغیرہ ) اپنی حاجتیں مجھ تک پہنچا نہیں سکتے تم ان کے حوائج مجھ پر پیش کرو کیونکہ جو شخص ایسے آدمی کی حاجت بادشاہ تک پہنچاتا ہے جسے وہ خود نہیں پہنچا سکتا اللّٰہ تعالٰی قیامت کے دن اس کے قدم (پل صراط پر ) ثابت رکھے گا اسی طرح کے ضروری مفید امور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پیش ہو اکر تے اور ایسے امور کی شنوائی نہ ہوتی جن میں کچھ فائدہ نہ ہو تا۔طالب وسائل دولت خانہ میں خدمت اقدس میں حاضر ہو تے اور آپ سے استفاد ہِ علوم کرتے اور لوگوں کے رہبر بن کر نکلتے۔
حضرت امام حُسَین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اپنے والد بزرگوار سے پو چھا کہ
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو وقت گھر سے خارج گزر تا تھا آپ اس میں کیا کیا کرتے تھے۔انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثر خاموش رہتے اور بجز مفید وضروری امر کے لب کشائی نہ فرماتے۔ آپ لوگوں کو (حسن خُلْق سے ) اپنا گرویدہ بنا تے اور ایسی بات نہ کرتے جس سے وہ آپ سے نفرت کرنے لگیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر قوم کے بزرگ کی عزت کر تے اور اس کو ان کا سر دار بناتے۔آپ لوگوں کو (عذاب خدا سے ) ڈراتے ان سے احتراز کرتے اور بچتے مگر کشادہ روئی اور حسن خُلق میں کسی سے دریغ نہ فرماتے۔ اپنے اصحاب کی خبر گیر ی فرماتے (مثلاً مریض کی عیادت مسافر کے لئے دعا اور میت کے لئے استغفار فرماتے۔) اپنے خاص اصحاب سے لوگوں کے حالات دریافت فرماتے ( تاکہ ظالم سے مظلوم کا بد لہ لیں ) آپ اچھی بات کی تحسین فرماتے اور اس کی تائید کرتے اور بری بات کی برائی ظاہر فرماتے اوراس کی تضعیف وتردید کرتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حال ہمیشہ معتدل تھا،اس میں اختلاف نہ تھا۔آپ (لوگوں کی تذکیر و تعلیم سے ) غافل نہ ہو تے تھے کہ مبادا وہ غافل ہو جائیں یا سستی کی طرف مائل ہو جائیں ۔آپ بہرحال (جمیع انواع عبادات کے لئے ) مُسْتَعِد تھے۔حق سے کوتاہی نہ کرتے اور نہ حق سے تجاوز فرماتے، جو لوگ (استفادہ کے لئے ) آپ کی خدمت میں حاضر رہتے وہ خیر الناس ہو تے ،سب سے افضل آپ کے نزدیک وہ ہو تا جو سب مسلمانوں کا خیر خواہ ہو تا اور مرتبہ میں آپ کے نزدیک سب سے بڑا وہ ہو تا جو محتاجوں کی غم خواری کر نے والا اور (مہمات امور میں ) ([343] ) اپنے بھائیوں کی مدد کر نے والا ہوتا۔
امام حُسَین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ بعد ازاں میں نے والدبزرگوار سے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس کا حال دریافت کیاانہوں نے فرمایا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مجلس سے اٹھنا اور مجلس میں بیٹھنا بغیر ذکر الٰہی نہ ہوتا۔ جب آپ کسی مجلس میں رونق افروز ہوتے تو جو جگہ خالی پاتے وہیں بیٹھ جاتے اور دوسروں کو بھی یہی حکم دیتے جو لوگ آپ کے پاس بیٹھتے آپ ان میں سے ہر ایک کو(حسب حال کشادہ روئی اور تعلیم وتفہیم سے) بہرہ ور فرماتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہر ایک جلیس ([344])یہ سمجھتا کہ آپ کے نزدیک مجھ سے زیادہ کوئی بزرگ نہیں ۔ جو شخص آپ کے پاس بیٹھتا یا کسی حاجت کے لئے آپ سے کلام کر تا۔ آپ اس کے ساتھ اسی حالت میں
ٹھہرے رہتے یہاں تک کہ وہ خود واپس ہوجاتا۔جو شخص آپ سے کسی حاجت کا سوال کرتاآپ اس کی حاجت کو پورا کرتے یا اس سے کوئی نرم بات فرماتے۔(یعنی وعدہ فرماتے یا فرماتے کہ فلاں سے ہمارے ذمہ قرض لے لو ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی کشادہ روئی اور حسن خلق تمام لوگوں کے لئے عام تھا۔آپ (بلحاظ شفقت) سب کے باپ ہو گئے تھے اور وہ آپ کے نزدیک حق میں برابر تھے ( حسب حال واستحقاق ہر ایک کی حق رسانی ہو تی ) آپ کی مجلس حلم و حیاء وامانت وصبر کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ اس میں آواز یں بلند نہ ہوا کر تیں اور نہ اس میں کسی کی آبر وریزی ہوتی اور نہ اشاعت ہفوات ہوتی۔ ([345] )آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں سب مُتَسَاوی تھے ہاں بلحاظِ تقویٰ بعض کو بعض پر فضیلت تھی۔ وہ سب متواضع تھیجو مجلس مبارک میں بڑوں کی تو قیر چھوٹوں پر رحم کر تے اور صاحب حاجت ([346] ) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے اور مسافر واجنبی کے حق کی رعایت کرتے۔([347] )
‘’لَا یُفَضِّلُنِیْ اَحَدٌ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ اِلَّا جَلَدْتُہٗ حَدَ الْمُفْتَرِیْ اخرجہ ابن عَسَاکِر والدار قطنی’‘
مجھے کوئی شخص ابوبکرو عمر(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا) پر فضیلت نہ دے وگرنہ میں اسے مفتری کی حد یعنی ۸۰ کوڑے ماروں گا۔
(تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۴،ص۳۶۵،دار الفکربیروت والمؤتلف والمختلف للدار قطنی، باب حجل وجحل وحجل، ج۲، ص۸۰۷، دار الغرب الإسلامی بیروت)اور صواعق لابن حجر ہیتمی میں یہ الفاظ ہیں:’’لَا اَجِدُ اَحَدًا فَضَّلَنِیْ عَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ اِلَّا جَلَدْتُہٗ حَدَّ الْمُفْتَرِی’‘جسے میں پاؤں گا کہ شیخین (حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا)سے مجھے افضل بتاتا (اور مجھے ان میں سے کسی پر فضیلت دیتا )ہے اسے مُفتری (افتراء و بہتان لگانے والے)کی حد ماروں گا کہ اسی۸۰ کوڑے ہیں۔(الصواعق المحرقۃ علی أہل الرفض والضلال والزندقۃ ،ج۱،ص۱۷۷، مؤسسۃ الرسالۃ لبنان)
اللّٰہ تعالٰی نے مختلف زمانوں میں اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے اپنے پیارے پیغمبر عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھیجے اور ان کی رسالت کے ثبوت کے لئے بطور ِدلائل ان کو معجزات عنایت کیے کوئی پیغمبر ایسا نہیں جسے کوئی نہ کوئی معجزہ عطانہ ہوا ہو مگر حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معجزات اَکثرو اَقوی و اَظہر و اَشہر ہیں ۔ کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان کے اَفراد کا اِحاطہ انسانی طاقت سے خارج ہے۔ قرآنِ کریم کو دیکھئے!کہنے کو تو ایک معجزہ ہے مگر اس میں ہزارہا معجزے ہیں کیونکہ فُصَحائے قریش سے قرآن کی کسی ایک سورت کا مُعارَضہ طلب کیا گیا([348] ) تووہ عاجز آگئے۔ اب جائے غور ہے کہ قرآن میں چھوٹی سے چھوٹی سورت ’’کوثر ‘‘ہے۔ جس میں دس سے کچھ اوپر کلمات ہیں بقول بعض قرآن میں ۷۷۹۳۴ کلمے ہیں ۔ پس اگر سورتِ کوثر کی مقدار کلماتِ قرآن کے اَجزاء بنائے جائیں تو قریباً سات ہزارہوں گے۔ جن میں سے ہر ایک جزء فی نفسہ معجزہ ہوگا۔ پھر اگر بلاغت و اسلوب واخبار غیب وغیرہ وجوہِ اعجاز پر غور کیا جائے تو سات ہزار کی تضعیف ہوتی جائے گی([349] ) ۔ پس آپ حساب کرلیں کہ ایک قرآن کریم میں کتنے معجزے ہیں ۔ ہم اسی مضمون کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ دو فصلوں میں لکھتے ہیں ۔
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے اپنے اپنے زمانے میں معجزات دکھائے ،مگر ان معجزات کا وجود صرف ان کی حیاتِ دنیوی تک رہا۔ علاوہ ازیں ان کے معجزات عموماً حِسِّی تھے جن کو فقط حاضرین وقت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مثلاً عصائے موسوی کو اگر دیکھا تو اس وقت کے حاضرین نے، ناقہ حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلَام کا اگر مشاہدہ کیا تو اس وقت کے موجودین نے اور مَائدہ([350] )حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا
اگر ملاحظہ کیا تو حاظرین وقت نے، مگر حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شریعت قیامت تک باقی رہے گی اور ہر زمانے میں ہر صاحب ِعقل ِسلیم اس کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ سکے گا۔ چنانچہ جب کفار نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے نبیوں کے سے حِسِّی معجزے طلب کیے تو ان کے جواب میں اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْؕ- (عنکبوت ،ع ۵)
کیا ان کو بس نہیں کہ ہم نے اتاری تجھ پر کتاب جو ان پر پڑھی جاتی ہے۔([351] )
مطلب یہ کہ اگر کفارواقعی طالب حق ہیں تو ہم نے تجھے قرآن مجید ایک ایسا معجزہ عطا کیا ہے کہ جس کی موجودگی میں ان معجزوں کی ضرورت نہیں جو اَزروئے تعنت و عناد تجھ ([352] )سے طلب کرتے ہیں ۔ یہ قرآن ہر مکان([353] )و ہر زمان میں منکرین پر پڑھا جاتا ہے اور پڑھا جائے گا لہٰذا یہ زندہ معجزہ تا قیامت ان کے ساتھ رہے گااور دوسرے معجزوں کی طرح نہیں کہ وجود میں آئے اور جاتے رہے، یا ایک مکان میں ہوئے اور دوسرے میں نہ ہوئے۔ اسی مطلب کو امام بوصیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے قصیدہ بُردہ میں یوں ادا کیاہے ؎
دَامَتْ لَدَیْنَا فَفَاقَتْ کُلَّ مُعْجِزَۃٍ مِنَ النَّبِیّٖنَ اِذْ جَائَ تْ وَ لَمْ تَدُمٖ([354] )
ہیں ہمارے پاس باقی آج تک وہ آیتیں معجزے اور انبیاء کے ہوگئے سب کالعدم([355] )
حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت کی سب سے بڑی سب سے اَشرف اور سب سے واضح دلیل یہی قرآنِ مجید ہے۔ وجہ یہ کہ معجزات عموماً اس وحی کے مغائر ہوا کرتے تھے جو کسی نبی پر نازل ہوتی تھی اور وہ نبی اس وحی کی صداقت پر معجزے کو بطورِ شاہد پیش کرتا تھا۔ مگر قرآنِ کریم وحی ہے اور معجزہ بھی اس لئے یہ اپنا شاہد خود آپ ہے اور کسی دوسری دلیل کا محتاج نہیں ۔ ؎
آفتاب آمد دلیل آفتاب گردلیلت بایداز وے رومتاب
حدیث ‘’مَا مِنَ الْاَنْبِیَاء’‘([356] )کے یہی معنے ہیں ([357] ) کیونکہ اس حدیث میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمادیا کہ جب معجزہ نفس وحی ہو تو بوجہ اتحادِ دلیل و مدلول وہ دلالت میں اَوضح و اَقویٰ ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے والے زیادہ ہوتے ہیں اسی واسطے قرآن کریم پر ایمان لانے والے ہر زمانے میں بکثرت رہے اور رہیں گے۔([358] )خلاصہ کلام یہ کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت قرآن مجید پر مبنی ہے۔ چنانچہ خود قرآن مجید میں وارد ہے:
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ (۱) (فرقان، ع۱)
بڑی برکت ہے اس کی جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر کہ ہوجہان والوں کے لئے ڈرانے والا۔([359] )
اور قرآن کریم کے وحی الٰہی ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل مغائر کی ضرورت نہیں ([360] )لہٰذا ہم قرآن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وجوہ ذیل سے اس کا معجزہ ہونا ثابت ہے:
وجوہِ اعجاز میں سب سے اعلیٰ اور مقدم قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت ہے جو خارِقِ عادت عرب ہے۔ زمانہ
جاہلیت میں فصاحت و بلاغت میں عرب([361] ) کا وہ پایہ تھا کہ کسی دوسری قوم کو نصیب نہیں ہوا۔ ان کا نام ہی بتا رہا ہے کہ اس فن میں ان کو کس قدر مُزَاوَلت([362] ) تھی۔ مہمات امور میں وہ اس فن کے عجائبات بدا ہۃً ظاہر کیا کرتے تھے۔ محافل و مجالس میں فی البدیہ خطبے پڑھ دیا کرتے تھے اور گھمسان کے معرکوں میں طعن و ضرب کے درمیان رجز پڑھا کرتے تھے اور مطالب ِعالیہ کے حصول میں بھی اپنی سحر بیانی سے کام لیتے تھے۔ اس فن سے وہ بزدل کو دلیر ‘ بخیل کو سخی‘ ناقص کو کامل‘ گمنام کونامور اور مشکل کو آسان کردیتے تھے۔ جسے چاہتے مدح سے شریف اور ہجو سے وَضِیع([363] ) بنا دیتے ۔اور اسی سے کینہ دیرینہ دلوں سے دور کر کے بیگانے کو اپنا بنالیتے۔ انہیں یقین تھا کہ اِقلیم سخن کے مالک اور میدانِ فصاحت وبلاغت کے شہسوار ہم ہی ہیں اور وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ کوئی کلام ہمارے کلام سے سبقت نہیں لے جاسکتا۔
فصاحت و بلاغت کے اس کمال پر ان کی روحانی حالت نہایت ہی گری ہوئی تھی وہ عموماً بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ خانۂ خدا کو انہوں نے بت خانہ بنایا ہوا تھا۔ بعضے آگ کی پرستش کرتے تھے۔ کچھ لوگ ستاروں اور سورج اور چاند کو پوجتے تھے۔ بعضے تشبیہ کے قائل تھے اور فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے اور بعض کو خدا کی ہستی ہی سے انکار تھا۔ اوامرونواہی کی انہیں مطلق خبر نہ تھی اور نہ ان کے پاس کوئی الہامی کتاب تھی۔ دین ابراہیمی بجز چند رُسوم کے بالکل مفقود تھا۔ قَساَوَتِ قلب کا یہ عالم تھا کہ بعضے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیتے تھے۔ وہ شب و روز زنا کاری، شراب خوری، قمار بازی اور قتل و غارتگری میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے درمیان جو اہل کتاب موجود تھے ان کی حالت بھی دگرگوں تھی اور ان کی کتابیں بھی مُحرَّف ہوچکی تھیں ۔([364] ) یہود حضرت عزیر عَلَیْہِ السَّلَام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور نصاریٰ تین خدا مانتے تھے اور مسئلۂ کفارہ کی آڑ میں اعمالِ حَسَنہ کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے تھے۔ غرض ملک عرب میں ساری دنیا کے مذاہب باطلہ اور عقائد قبیحہ موجود تھے۔ مشرکین وہاں تھے، آتش پرست، ستارہ پرست، آفتاب پرست، ماہتاب پرست اور درخت پرست وہاں تھے، نصاریٰ وہاں تھے،یہود وہاں تھے، مشبہ و مجسمہ وہاں تھے، تناسخیہ وہاں تھے دہریہ ([365] ) وہاں تھے۔
نظر بحالات مذکورہ بالا اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ ایسے مرکز میں خدا کی طرف سے ایک کامل طبیب روحانی ساری دنیا کے لئے مبعوث ہو چنانچہ حسب عادتِ الٰہی ان کے پاس اللّٰہ کا ایک کامل بندہ آیااور ایک کامل کتاب لایا۔ جس میں قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم کے تمام رُوحانی امراض([366] )کا خدائی نسخہ درج تھا۔
اس طبیب روحانی سے وہ پہلے ہی آشنا تھے کیونکہ وہ اللّٰہ کا پیارا خاتم سلسلہ انبیاء انہیں میں سے تھا۔ انہیں کے درمیان پیدا ہوا اور انہیں کے درمیان پرورش پائی۔ ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک ہی میں تھاکہ والد ماجد نے انتقال فرمایا۔ جب چھ سال کا ہوا تو والدہ ماجدہ نے بھی اس دارِفانی سے رحلت فرمائی۔ بعد ازاں دادا اور چچا یکے بعد دیگرے اس کی پرورش کے متکفل ہوئے۔ اس طرح اس دُرِّیتیم کی تعلیم کا کوئی سامان نہ ہوا نہ ہوسکتا تھا کیونکہ مکہ میں نہ کوئی مدرسہ تھا نہ کتب خانہ اور نہ وطن سے باہر کسی دوسری جگہ جا کر تعلیم پانے کا اتفاق ہوا۔ اگر ایسا ہوتا تو اہل مکہ سے کب پوشیدہ رہ سکتا تھا۔ غرض چالیس سال کی عمر تک وہ بندہ کامل اُمِّیَوں میں اُمی مگر صدق و امانت میں مشہور رہا پھر یکایک استادِ اَزل کی تعلیم سے منصب نبوت پر سرفراز ہوا۔
اس اُمی لقب امین نے جو کتاب اپنی نبوت کے ثبوت میں اپنے ہم وطنوں کے سامنے پیش کی وہ انہیں کی زبان میں تھی اور اسی فن میں ان سے معارضہ طلب کیا جس میں وہ نقارۂ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم بجارہے تھے۔([367] ) اس میں شک نہیں کہ ان میں اَفصح الفُصَحَاء اَبلغ ا لبُلَغَاء مَصَاقع الخطباء اور اشعر الشعراء موجود تھے مگر جب معارضہ کے لئے وہ کتاب پیش کی گئی تو ان کی عقلیں چکراگئیں ۔
اس رحمت عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے باجود قلت اَتباع([368] )کے کھلے الفاظ میں یوں فرمادیا کہ اگر تمام انس و جن مل کر اس کا معارضہ کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں گے۔ ( بنی اسرائیل، رکوع ۱۰) پھر بطور اِرخاء عِنان([369] )کہہ دیا کہ سارا نہیں تو ایسی دس سورتیں ہی بنالاؤ۔ ( ہود،ع ۲) پھر اِ تما م حجت کے لئے فرمادیا کہ دس نہیں تو ایسی ایک ہی سورت پیش
کرو۔ (یونس،ع ۴) اسی طرح وہ اللّٰہ کا پیارا، دوجہان میں ہم گنہگاروں کا سہارا مکہ مشرفہ میں لگاتار دس سال کفار سے طلب معارضہ فرماتا رہا۔ پھر جب حکم الٰہی سے ہجرت فرما کر مدینے میں رونق افروز ہوا تو وہاں بھی دس سال’’ فَأْتُوا بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ ‘‘ سے تحدی کرتا رہااور ساتھ ہی’’ وَلَن تَفْعَلُوا‘‘سے انہیں چونکاتا اور اکسا تا رہا۔
اس عرصۂ دراز میں اس ختم المرسلین نے اسی تحدی ([370] )پر اکتفانہ کیا بلکہ عرب جیسی قوم کو جس کی حمیت جاہلیہ مشہور ہے مجالس میں عَلٰی رُؤُس الاَشْہَاد([371] )یوں پکار کر فرما دیا کہ تم گمراہ ہو، تمہارے آباء و اجداد گمراہ تھے، تمہارے معبود دوزخ کا ایندھن ہیں ، تمہاری جانیں اور تمہارے مال مسلمانوں کے لئے مباح ہیں ۔ بایں ہمہ([372] )انہوں نے معارضہ سے پہلو تہی کی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اسلام کی شوکت روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ ان کے شہر اسلام کے قبضے میں آرہے تھے ان کی اولاد کو گرفتار کرکے غلام بنایا جارہاتھا۔ ان کے بت توڑے جارہے تھے، ان کے باپ دادا دوزخی بتائے جارہے تھے۔ اس حالت میں اگر وہ ذرا سا معارضہ بھی کرسکتے تو اس ذلت کو ہر گز گوارا نہ کرتے کیونکہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کے معارضہ سے یہ تمام خواری و رسوائی دور ہو سکتی تھی اور اسلام کی جمعیت و شوکت کا شیرازہ ہمیشہ کے لئے پراگندہ ہوسکتا تھا۔ جمعیت کے باوجود ان کا بیس سال اس ذلت کو برداشت کرنا اور جلاوطنی اور جزیہ کو گوارا کرنا صاف بتا رہا ہے کہ وہ معارضہ سے عاجز تھے۔ مگر اپنے عجز پر پردہ ڈالنے کے لئے قسم قسم کے عذر اور حیلے بہانے کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ کبھی اسے منظوم دیکھ کر شاعر کا قول یاکا ہن کا قول بتاتے۔ (حاقہ، ع۲) کبھی اپنی قدرت سے خارج دیکھ کر حیرت سے کہا کرتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔ (سبا،ع۵) کبھی اپنی جہالت کے سبب سے کہتے کہ چاہیں تو ہم بھی ایسا کہہ لیں یہ تو پہلوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔(انفال،ع ۴) کبھی کہتے کہ یہ اضغاث احلام یعنی اڑتے خواب ہیں ([373] )۔ ( انبیاء، ع ۱) کبھی اس کی تاثیر روکنے کیلئے کہتے کہ شور مچاؤ اور سننے نہ دو۔ ( حم سجدہ، ع۴) کبھی کہتے کہ قرآن سے ہمارے دل غلاف میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے۔( حم سجدہ، ع۱) کبھی کہتے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں میں یہ نہیں سنایہ تو بتائی بات ہے۔ (ص،ع۱) اور کبھی اس رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ساحر کذاب یعنی بڑا جھوٹا جادوگر۔ (ص، ع۱) کبھی مسحور یعنی جادو مارا۔ (فرقان، ع ۱) کبھی مُعلَّم مجنون یعنی سکھایا ہواباؤلا۔ (دخان،ع۱) کبھی کاہن اور کبھی شاعر کہتے۔ (طور، ع۲) مگر ایسے حیلوں اور عذروں سے کیا بن سکتا تھا۔ ؎
چراغے راکہ ایز بر فروزد ہرآں کو پف زند ریشش بسوزد
جب عرب کے کمال فصاحت و بلاغت کے زمانے میں فُصَحاء و بُلَغا چھوٹی سے چھوٹی سورت کے معارضے سے عاجز آگئے تواَزمِنَۂ ما بعد([374] )کے عرب و عجم کا عجز خود ثابت ہوگیا۔ سیدنا ومولیٰنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی رسالت کی یہ کیسی دلیل ِساطع اور برہانِ قاطع([375] ) ہے کہ ساڑھے تیرہ سوسال سے زائد عرصہ گز رچکا کوئی شخص اَقْصَر سورت([376] ) کے معارضہ پر قادر نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا۔
اگر ہم کسی انسان کے کلام کو خواہ وہ کتنا ہی فصیح و بلیغ ہو مطالعہ کریں تو اختلافِ مضامین، اختلافِ اَحوال اور اختلافِ اَغراض سے ان کی فصاحت و بلاغت میں ظاہر فرق نظر آئے گا۔ مثلاً شعرا ء و خطبائے عرب جو فصاحت میں بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے بعضے مدح میں بہت بڑھ چڑھ کر اور ہجو میں معمول سے بہت گرے ہوئے اور بعضے اس کے برعکس ہیں ۔ بعضے مرثیہ گوئی میں فائق اور غزل میں بھدے اور بعضے اس کے خلاف ہیں اور بعضے رجز میں اچھے اور قصیدے میں خراب اور بعضے اس کے برعکس ہیں ۔ بعضے کسی خاص شے کے وصف میں اوروں سے سبقت لے گئے ہیں ۔ چنانچہ امرؤ القیس گھوڑے اور عورت کے وصف میں ، اعشٰی شراب کے وصف میں ، نابغہ ترہیب اور زہیر ترغیب میں مشہور ہیں ۔ ذوالرمہ تشبیب و تشبیہ میں اچھا اور ریت، دوپہر، بیابان، پانی اور سانپ کے وصف میں بڑھ کر ہے مگر مدیح وہجا میں گرا ہوا ہے اسی سبب سے اسے فَحو ل شُعَراء ([377] )میں شمار نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ اس کے شعر میں ہرنوں کی مینگنیاں اور خالِ عروس ([378] )ہیں ۔ فرزدق اگرچہ صاحب غزل ہے مگر تشبیب میں اچھا نہیں ۔ جریر اگرچہ عورتوں سے پرہیز کرنے والا ہے مگر تشبیب میں سب سے اچھا ہے۔ اسی طرح شاعرا گرزُہد کو بیان کرنے لگے تو قاصر رہ جائے۔ اگر کوئی لائق اَدیب حلال و حرام کو بیان کرے تو اس کا کلام معمول سے گرجائے گا۔ علی ہذا القیاس اِختلافِ اَحوال سے بھی انسان کا کلام متفاوت ہوجاتا ہے۔ مثلاً خوشی کے وقت کا کلام غصہ کے وقت کے کلام سے بلحاظ فصاحت مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح اختلاف اغراض کے سبب سے انسان کبھی ایک چیز کی مدح کرتا ہے اور کبھی مذمت جس سے اس کے کلام میں ضرور فرق ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں فصحاء و بلغاء کا کلام فصل و وصل، علو ونزول، تقریب و تبعید وغیرہ میں متفاوِت ہے۔مثلاً بہت
سے شعراء ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف اِنتقال کرنے اور ایک باب سے دوسرے باب کی طرف خروج کرنے میں ناقص ہیں ۔ چنانچہ سب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بختری جو نظم میں اچھا ہے۔نسیب سے مَدیح کی طرف انتقال کرنے میں قاصر ہے۔ اس تمام کے برعکس قرآن کریم پر غورکیجئے باوجودیکہ اس میں وجوہ خطاب مختلف ہیں کہیں قصص و مواعظ ہیں ، کہیں حلال و حرام کا ذکر ہے، کہیں اعذاروانذار، کہیں وعدہ و وعید، کہیں تخویف وتبشیراور کہیں تعلیم اَخلاقِ حسنہ ہے۔ مگر وہ ہر فن میں فصاحت و بلاحت وبلاغت کے خارقِ عادات اعلیٰ درجے میں ہے اور اس میں کہیں اس منزلت علیا سے اِنحطاط نہیں پایا جاتا اور اوَّل سے آخر تک مقصد واحد کے لئے ہے اور وہ خلقت کو اللّٰہ کی طرف بلانا اور دنیا سے دین کی طرف پھیرنا ہے۔ چنانچہ آیہ ذیل میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا(۸۲) (نسآء، رکوع ۱۱)
کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر یہ ہوتا کسی اور کا سوائے اللّٰہ کے تو پاتے اس میں بہت تفاوت۔([379] )
مثال کے طور پر دیکھئے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۷) (سجدہ، ع ۲)
سو کسی جی کو معلوم نہیں جو چھپا دھرا ہے ان کے واسطے جو ٹھنڈک ہے آنکھوں کی بدلہ اس کا جو کرتے تھے۔([380] )
اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ(۷۰)یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَهَبٍ وَّ اَكْوَابٍۚ-وَ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُۚ-وَ اَنْتُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَۚ(۷۱) (زخرف، ع۷)
چلے جاؤ بہشت میں تم اور تمہاری عورتیں کہ بناؤ کردیئے جاؤ گے۔ لئے پھریں گے ان پر رکابیاں سونے کی اور آب خورے اور وہاں ہے جو دل چاہے اور جس سے آنکھیں آرام پاویں اور تم کو اس میں ہمیشہ رہناہے۔([381] )
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًاۙ(۶۸) اَمْ اَمِنْتُمْ اَنْ یُّعِیْدَكُمْ فِیْهِ تَارَةً اُخْرٰى فَیُرْسِلَ عَلَیْكُمْ قَاصِفًا مِّنَ الرِّیْحِ فَیُغْرِقَكُمْ بِمَا كَفَرْتُمْۙ-ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَیْنَا بِهٖ تَبِیْعًا(۶۹) (بنی اسرائیل، ع ۷)
سوکیا تم نڈرہو اس سے کہ دھنسا دے تم کو جنگل کے کنارے یا بھیج دے تم پر آندھی پھر نہ پاؤ تم اپنا کوئی کار ساز یا نڈر ہو اس سے کہ پھر لے جاوے تم کو دریا میں دوسری بار پھر بھیجے تم پر پتھراؤ ہوا کا پھر غرق کرے تم کو بدلے اس ناشکری کے پھر نہ پاؤ تم اپنی طرف سے ہم پراس کا دعویٰ کرنے والا۔([382] )
ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِیَ تَمُوْرُۙ(۱۶) اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآءِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًاؕ-فَسَتَعْلَمُوْنَ كَیْفَ نَذِیْرِ(۱۷) (ملک، ع۲)
کیا نڈر ہو تم اس سے جو آسمان میں ہے کہ دھنسادے تم کوزمین میں ۔ پس ناگاہ وہ جنبش کرے یا نڈر ہواس سے جو آسمان میں ہے کہ بھیجے تم پرپتھراؤ ہوا کا سو اب جانو گے کیسا ہے ڈرانا میرا۔([383] )
فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖۚ-فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًاۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَۚ-وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاۚ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۴۰) (عنکبوت،ع ۴)
پھر ہر ایک کو پکڑا ہم نے اس کے گناہ پر سو ان میں سے کوئی تھا کہ اس پر بھیجا ہم نے پتھراؤ ہوا کااور کوئی تھا کہ اس کو پکڑا چنگھاڑنے اور کوئی تھا کہ اس کو دھنسایا ہم نے زمین میں اور کوئی تھا کہ اس کو ڈبودیا ہم نے اور اللّٰہا یسا نہیں ہے کہ ان پر ظلم کرے پر تھے وہ اپنا آپ برا کرتے۔([384] )
اَفَرَءَیْتَ اِنْ مَّتَّعْنٰهُمْ سِنِیْنَۙ(۲۰۵) ثُمَّ جَآءَهُمْ مَّا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَۙ(۲۰۶) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یُمَتَّعُوْنَؕ(۲۰۷) (شعراء، ع۱۱)
بھلا بتلاؤ اگر ہم فائدہ دیں ان کو کئی برس پھر آوے ان پر (عذاب) جس کا ان سے وعدہ تھا کیا کام آوے گا ان کے تمتع ان کا۔([385] )
اَللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُؕ-وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ(۸)عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ الْكَبِیْرُ الْمُتَعَالِ(۹)سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَهَرَ بِهٖ وَ مَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍۭ بِالَّیْلِ وَ سَارِبٌۢ بِالنَّهَارِ(۱۰) ( رعد، ع ۲)
اللّٰہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ اور جو سکڑتے ہیں پیٹ اور بڑھتے ہیں اور ہر چیز اس کے نزدیک اندازہ پر ہے۔ وہ جاننے والا چھپے اور کھلے کا۔ عظیم الشان بلند۔ برابر ہے تم میں جو چپکے بات کہے اور جو کہے پکار کراور جو چھپنے والا ہے رات کو چلنے والا ہے دن کو۔([386] )
اسی طرح قرآن کریم کے فواتح و خواتم، مواضع فصل ووصل اور مواقع تحول و تنقل کو دیکھئے اس کے پڑھنے والوں کو خارقِ عادت بدیع تالیف کے سبب سے فصل بھی وصل معلوم دیتا ہے اور ایک قصے سے دوسرے قصے کی طرف اور ایک شے سے دوسری شے کی طرف مثلاً وعدہ سے وعید اور ترغیب سے ترہیب کی طرف انتقال کرنے میں مختلف مؤتلف اور متبائن متناسب نظر آتا ہے۔
اس مقام پر بغرضِ توضیح قرآن کی فصاحت وبلاغت کے متعلق چند شہاد تیں پیش کی جاتیں ہیں ۔ سَبْع مُعَلَّقَات جو تمام عرب جاہلیت کا مایۂ فخر وناز تھے اور خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں تھے۔ قرآن شریف کے نازل ہونے پر
اتار لئے گئے۔ یہ قصائد اب تک موجود ہیں مگر سبع طوال([387] ) کی جھلک سے اپنی آب و تاب سب کھو بیٹھے ہیں ۔
حضرت لبید([388] ) بن ربیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو سبع معلقات کے شعراء میں سے تھے اسلام لے آئے تھے اور ساٹھ سال اسلام میں زندہ رہے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے سوائے ایک بیت کے کوئی شعر نہیں کہا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنی خلافت میں ان سے فرمایا کہ مجھے اپنے شعر سناؤ۔ اس پر آپ نے سورۂ بقرہ پڑھی اور عرض کیا: میں شعر نہیں کہنے کا جب کہ اللّٰہ تعالٰی نے مجھے سورۂ بقرہ سکھادی ہے۔
ابو عبیدہ([389] ) قاسم بن سلام بغدادی (متوفی ۲۲۳ھ) جو امام شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے شاگرد اور فقہ و حدیث و لغت میں امام ہیں حکایت کرتے ہیں کہ ایک بادیہ نشین عرب نے کسی کو یہ آیت پڑھتے سنا:
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ (حجر، ع ۶)
سو سنادے کھول کر جو تجھ کو حکم ہوا۔([390] )
اس نے سنتے ہی سجدہ کیاا ور کہا کہ میں نے اس کلام کی فصاحت کو سجدہ کیا ہے۔
ایک دفعہ کسی اعرابی نے یہ آیت سنی:
فَلَمَّا اسْتَیْــٴَـسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِیًّاؕ- ( یوسف، ع۱۰)
پھر جب ناامید ہوئے اس سے اکیلے بیٹھے مصلحت کو۔([391] )
کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی مخلوق اس کلام کی مثل پر قادر نہیں ۔([392] )
امام اصمعی یعنی عبدالملک بن اصمع بصری ( متوفی ۲۱۰ھ) جو لغت و نحوو ادب و نوادر میں امام ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک پانچ یا چھ سال کی لڑکی کو یہ کہتے سنا کہ میں اپنے تمام گناہوں سے استغفار کرتی ہوں ۔ میں نے سن کر کہا: تو کس چیز پر استغفار کرتی ہے تو تو مکلف ہی نہیں ۔ وہ بولی:
استغفر اﷲ لذنبی کلہ قتلت انسانا بغیر حلہ
مثل غزال ناعم فی دلہ انتصف اللیل ولم اصلہ
میں نے کہا: اللّٰہ تجھے مارے تو کیسی فصیح ہے! وہ کہنے لگی:قرآن میں یہ آیت ہے:
وَاَوْحَیْنَآ اِلٰیٓ اُمِّ مُوْسٰیٓ اَنْ اَرْضِعِیْہِ ج فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْج اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَo (قصص، ع۱)
اور ہم نے حکم بھیجاموسیٰ کی ماں کو کہ اسکو دودھ پلاپھر جب تجھ کو ڈر ہو اس کا توڈال دے اسکو دریا میں اور ڈر مت اور غم مت کھا بے شک ہم لوٹانے والے ہیں اس کو تیری طرف اور بنانے والے ہیں اس کورسولوں سے۔([393] )
کیا اس آیت کے مقابل میرا یہ قول فصیح کہا جاسکتا ہے؟ اس ایک آیت میں دو امر، دو نہی، دو خبریں اور دو بشارتیں جمع ہیں۔([394] )
حکایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک روز مسجد نبوی میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کے سرہانے کھڑا ہوا ایک شخص کلمہ شہادت پڑھ رہاتھا آپ نے اس سے سبب دریافت کیا اس نے کہا کہ میں بطارقہ روم میں سے ہوں مجھے عربی زبانیں آتی ہیں میں نے ایک مسلمان قیدی سے سنا کہ وہ آپ مسلمانوں کی کتاب میں سے ایک آیت پڑھ رہا تھا میں نے اس آیت پر غور کیا اس میں وہ احوال دنیاو آخرت جمع ہیں جو اللّٰہ تعالٰی نے حضرت عیسیٰ بن مریم عَلَیْہِمَا السَّلَام پر نازل فرمائے وہ آیت یہ ہے:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) (نور،ع۷)([395] )
اور جو کوئی حکم پر چلے اللّٰہ کے اور اسکے رسول کے اور ڈرتا رہے اللّٰہ سے اوربچ کر چلے اس سے سو وہی لوگ ہیں مراد کو پہنچنے والے۔([396] )
ابن مُقَفَّع([397] )نے جو فصاحت و بلاغت میں یگانہ روزگار تھا اور زمانہ تابعین میں تھا قرآن شریف کے معارَضہ میں کچھ لکھنا شروع کیا ایک روز ایک مکتب پر سے اس کا گزر ہواجس میں ایک لڑکا یہ آیت پڑھ رہا تھا:
وَ قِیْلَ یٰٓـاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَ یٰسَمَآئُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآئُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ o ( ہود، ع ۴)
اور حکم آیا اے زمین نگل جا اپنا پانی اور اے آسمان تھم جااور خشک کیا گیا پانی اور تمام کیا گیا کام اور کشتی ٹھہری جو دی پہاڑ پر اور حکم ہوا کہ دورہوں قوم بے انصاف۔([398] )
وہ سن کر واپس آیااور جو کچھ لکھا تھا سب مٹا ڈالا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کا معارضہ نہیں ہوسکتایہ انسان کا کلام نہیں۔([399] )
یحییٰ بن الحکم الغزال نے جو بقول ذہبی دوسری اور بقول ابن حبان تیسری صدی ہجری میں اندلس میں فحول شعراء میں سے تھا قرآن کے معارضے کا ارادہ کیا ایک روز سورۂ اخلاص کا معارضہ کرنے لگا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی جو اس کی توبہ کا باعث ہوئی۔
امام ابن الجوزی([400] ) ( متوفی ۵۹۷ھ) نے وفاء فی فضائل المصطفیٰ میں ذکر کیا ہے کہ امام ابن عقیل نے کہا کہ ابو محمد بن مسلم نحوی نے مجھ سے حکایت کی ہے کہ ہم اعجاز القرآن پر گفتگو کر رہے تھے۔ وہاں ایک فاضل شیخ موجود تھا اس نے کہا کہ قرآن میں ایسی کون سی چیز ہے جس سے فضلاء عاجز آجائیں ۔ پھر وہ کاغذدوات لے کر بالاخانے پر چڑھ گیا اور وعدہ کیا کہ تین دن کے بعد قرآن کے معارضے میں کچھ لکھ کر لاؤں گاجب تین دن گزر گئے تو ایک شخص بالاخانے پر چڑھا اور اس کو سہارا لئے ہوئے اس حال میں پایا کہ اس کا ہاتھ قلم پر سوکھ گیا تھا۔([401] )
مُسَیْلمہ کذَّاب نے قرآن کی بعض چھوٹی سورتوں کے معارضہ میں کچھ لکھا مگر ایسا کہ اَطفالِ مکتب بھی اسے دیکھ کر ہنسیں ۔ سورۂ کوثر پر جو اس لعین نے لکھا تھا ہم ان شاء اللّٰہ اسے اس بحث کے اخیر میں لائیں گے اور اس لعین کے کلام کی سخافت ([402] )ظاہر کرنے کے لئے اس سورت کی وجہ اعجاز پر مفصل بحث کریں گے اور مزید توضیح کے لئے قرآن کی فصاحت کے متعلق دو اور مثالیں پیش کریں گے۔
قرآن شریف میں انبیائے کرام کے قصے بار بار لائے گئے ہیں چنانچہ بقولِ بعض حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکا ذکر ایک سو بیس جگہ ہے اور بقول ابن عربی حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلَامکا قصہ پچیس آیتوں میں اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا قصہ نوے آیتوں میں ذکر کیا گیا ہے یہ خلافِ فصاحت ہے۔
وہ تکرار خلاف ِفصاحت ہوتی ہے جس میں کچھ فائدہ نہ ہو مگر قَصَصِ قرآنی کی تکرار فوائد سے خالی نہیں ۔ علامہ بدر بن جماعہ نے اس مضمون پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ‘’ اَ لْمُقْتَنَص فِیْ فَوَائِدِ تَکْرَارِ الْقَصَص’‘ ہے۔ اس میں تکریر ِقَصَص کے کئی فائدے([403] )ذکر کیے ہیں ۔
{1}… ہر جگہ کچھ نہ کچھ زیادتی ہے جودوسری جگہ نہیں یا کسی نکتہ کے لئے ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ لایا گیا ہے اور یہ بلغاء کی عادت ہے۔
{2} …ایک جماعت ایک قصہ سن کر اپنے گھر چلی جاتی تھی اس کے بعد دوسری جماعت ہجرت کرکے آتی تھی اور جو کچھ پہلی جماعت کے چلے جانے کے بعد نازل ہوتا اسے روایت کرتی اگر تکرار قصص نہ ہوتی تو قصہ موسیٰ کو ایک قوم سنتی اور قصہ عیسیٰ کو دوسری قوم سنتی اسی طرح باقی قصوں کا حال ہوتا۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے چاہا کہ تمام لوگ ان قصوں کے سننے میں مشترک ہوں تاکہ ایک قوم کو اِفادہ اور دوسری کو زیادہ تاکید حاصل ہو۔
{3}… ایک ہی مضمون کو مختلف اَسالیب میں بیان کرنے میں جو فصاحت ہے وہ پوشیدہ نہیں ۔
{4}… قصص کے نقل کرنے پر اس قدر دَواعی نہیں جتنے کہ احکام کے نقل کرنے پر ہیں اس لئے احکام کے برعکس قصص کو بار بار لایا گیا ہے۔
{5}… اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید نازل فرمایااور لوگ اس کی مثل لانے سے عاجز آگئے پھر ان کے عجز کے معاملہ کو اس طرح واضح کردیا کہ ایک قصہ کو کئی جگہ ذکر کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہ اس کی مثل لانے سے عاجز ہیں خواہ کوئی سے الفاظ میں لائیں اور کسی عبارت سے تعبیر کریں ۔
{6}… جب اللّٰہ تعالٰی نے منکرین سے تَحَدّی([404] )کی کہ اس کی مثل ایک سورت بنا لاؤ تو اگر ایک قصے کو ایک ہی جگہ ذکر کیا جاتا اور اسی پر کفایت کی جاتی، اہل عرب کہتے کہ تم ہی اس کی مثل ایک سورت پیش کرو پس اللّٰہ تعالٰی نے ہر طرح سے ان کی حجت دورکرنے کے لئے ایک قصے کو کئی سورتوں میں نازل فرمایا۔
{7}… جب ایک قصے کو بار بار ذکر کیا گیا اور ہر جگہ اس کے الفاظ میں کمی بیشی اور تقدیم و تاخیر کردی گئی اور مختلف اُسلوب عمل میں لایا گیا تو یہ عجیب بات پیدا ہوگئی کہ ایک ہی معنی مختلف صورتوں میں جلوہ اَفروز ہوااور لوگوں کو اس کے سننے کی طرف کشش ہوگئی کیونکہ ہر نئے اَمر میں لذت ہوتی ہے اوراس سے قرآن مجید کا ایک خاصہ ظاہر ہوگیا کیونکہ باوجود تکرار کے لفظ میں کوئی عیب اور سننے کے وقت کوئی ملال پیدا نہیں ہوتا پس کلامِ الٰہی بندوں کے کلام سے ممتاز رہا۔([405] )
مانا کہ ایک معنی کو مختلف لباس اور مختلف اسلوب میں ظاہر کرنے سے فصاحت میں کوئی خلل نہیں آتا بلکہ یہ ابلغ ہے مگر بعض جگہ ایک ہی جملہ بار بار لایا گیا ہے چنانچہ سورۂ شعرا ء میں
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ-وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۸)وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۹) ([406] ))
آٹھ بار لایا گیا ہے۔ اور سورۂ قمر میں :
لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۠(۲۲) ([407] )
چار بار اور سورۂ رحمن میں
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(۱۳) ([408] )
اکتیس باراور سورہ مرسلات میں
وَیْلٌ یَّوْمَىٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِیْنَ(۴۹) ([409] )
دس بار مذکور ہے۔
ان سورتوں میں بھی تکرارِ آیت فائدہ سے خالی نہیں کیونکہ ہر جگہ متعلق بہ مختلف ہے تاکہ ہر خبر کے سننے کے بعد تجدید نصیحت و عبرت ہو۔ چنانچہ سورۂ شعراء میں ہر قصے کے بعد
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةًؕ- ([410] )
مذکور ہے اور ہر دفعہ ایک نبی اور اس کی امت کے قصے کی طرف اشارہ ہے کہ اس نبی پر ایمان لانے والے سلامت رہے اور منکرین تباہ ہوئے اور پھر بار بار بتلادیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی مومنوں کے لئے رحم والا اور منکروں کے لئے عزیز یعنی زبردست ہے تاکہ اس امت کے لوگ نصیحت پکڑیں ۔ یہی حال سورۂ قمر میں تکرارِ آیت کا ہے کیونکہ اس میں قصہ نوح وعاد و ثمودو لوط میں سے ہر ایک کے بعد
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ الآیۃ ([411] )
مذکور ہے تاکہ قرآن پڑھنے والے اس سے عبرت پکڑیں ۔ اسی طرح سورۂ مرسلات میں ہر دفعہ ایک نشانی کے ذکر کے
بعد آیا ہے کہ قیامت کے دن خرابی ہوگی ان لوگوں کے لئے جو اس نشان کو جھٹلانے والے ہیں ، علیٰ ہذا القیاس۔ سورۂ رحمن میں ہر بار مختلف نعمتوں کے ذکر کے بعد:
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ(۱۳) ([412] )
آیا ہے تاکہ لوگ سن کر ہدایت پائیں ۔ جیسا کہ ایک ناشکر گزار محسن الیہ کو محسن کہے: کیا تو فقیر نہیں تھا میں نے تجھے امیر بنا دیا، آیا تجھے اس سے انکار ہے؟ کیا تو ننگا نہ تھا میں نے تجھے لباس پہنادیا، آیا تجھے اس سے انکار ہے؟ کیا تو گمنام نہ تھا میں نے تجھے نامور کردیا، آیا تجھے اس سے انکار ہے؟
کتب عہد عتیق میں مزمور ۱۳۶ میں یہی طرز پایا جاتا ہے جس کا عربی ترجمہ جو قسیس ولیم ہاج مل مدرس مدرسہ اسقفیہ کلکتہ نے کیا ہے وہ اس وقت ہمارے زیر نظر ہے اس میں ہر آیت کے بعد’’ اِنَّ رَحْمَتَہٗ اِلَی الْاَبَدِ ‘‘اٹھائیس بار آیا ہے۔ بخوفِ طوالت ہم اس مزمور کو یہاں نقل نہیں کرتے۔
[1] … مصیبت وایذا ء کے وقت اپنے آپ کو روکنا اور متاثر نہ ہونا صبر کہلاتا ہے۔ اپنی طبیعت کو غصہ سے ضبط کرنے کا نام حلم ہے۔ خطا پر مواخذہ نہ کرنے کو عفو کہتے ہیں۔۱۲منہ
[2] … ترجمۂکنزالایمان:تو انہیں معاف کردو اور ان سے درگزرو بیشک احسان والے اللّٰہ کو محبوب ہیں۔(پ۶،المائدۃ:۱۳)
[3] … ترجمۂکنزالایمان:اور تم سے پہلے رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے صبر کیا اس جھٹلانے اور ایذائیں پانے پر یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد آئی۔(پ۷،الانعام:۳۴)
[4] … ترجمۂکنزالایمان:اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو۔ (پ۹،الاعراف:۱۹۹)
[5] … ترجمۂکنزالایمان:تو تم صبر کرو جیسا ہمت والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لئے جلدی نہ کرو۔ (پ۲۶،الاحقاف:۳۵)
[6] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمل ہے۔ (پ۱۱،التوبۃ:۱۱۴)
[7] … صحیح بخاری، باب صفۃ النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم۔…(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،الحدیث:۳۵۶۰،ج۲،ص۴۸۹۔ علمیہ)
[8] … آمادہ۔
[9] … طائف کے دو مضبوط اور اُونچے پہاڑ۔
[10] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، باب البعث وبد ء الوحی۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب المبعث وبدء الوحی،الحدیث:۵۸۴۸،ج۲،ص۳۷۱۔ علمیہ)
[11] … مخالف۔
[12] … صحیح بخاری، باب مالقی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم واصحابہ من المشرکین بمکۃ۔…(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب مالقی النبی واصحابہ۔۔۔الخ،الحدیث:۳۸۵۲،ج۲،ص۵۷۳۔ علمیہ)
[13] … غصّے میں بھرا ہوا۔
[14] … استیعاب لابن عبدالبر، ترجمہ قتیلہ بنت نضر۔
[15] … الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،۳۵۰۴۔قتیلۃ بنت النضر بن الحارث،ج۴،ص۴۵۸۔ علمیہ
[16] … خاندان۔
[17] … یعنی ان کی کفالت میرے ذمہ ہے۔
[18] … ملاقات کے وقت کہاجانے والا کلمہ ۔
[19] … سیرت ابن ہشام۔…(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدرالکبری،اسلام عمیر بن وہب،ص۲۷۴ملخصاً ۔علمیہ)
[20] … اصابہ بحوالہ وا قدی، ترجمہ دعثور بن حارث غطفانی۔…(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۲۴۰۱۔دعثوربن الحارث الغطفانی، ج۲،ص۳۲۴ ۔علمیہ)
[21] … مواہب لدنیہ و شفا شریف۔
[22] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،غزوۃ اُحد،ج۲،ص۴۲۸۔۴۲۹ والشفاء بتعریف حقوق المصطفی، الباب الثانی فی تکمیل محاسنہ،فصل واما الحلم،الجزء الاول،ص۱۰۶ ۔علمیہ
[23] … صحیح بخاری، کتاب الجہاد و کتاب المغازی۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ ذات الرقاع، الحدیث: ۴۱۳۵،ج۳، ص۶۰ وصحیح البخاری،کتاب الجہاد والسیر،باب من علق سیفہ۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۱۰،ج۲، ص۲۸۴ ۔علمیہ)
[24] … فساد ختم ہوگیا۔
[25] … منافقوں کا سردار۔
[26] … صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورۂ اذا جاء ک المنافقون۔…(صحیح البخاری،کتاب التفسیر،باب قولہ:سواء علیہم۔۔۔الخ، الحدیث:۴۹۰۵،ج۳،ص۳۵۵ ۔علمیہ)
[27] … صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب۔ … (صحیح البخاری،کتاب التفسیر، باب قولہ: استغفر لہم او لا تستغفر لہم ۔۔۔الخ، الحدیث: ۴۶۷۱،ج۳، ص۲۳۸ وصحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب ما یکرہ من الصلاۃ علی المنافقین ۔۔۔الخ، الحدیث:۱۳۶۶،ج۱،ص۴۶۰ ۔علمیہ)
[28] … ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجاسوس الذمی۔ اصابہ، ترجمہ ابن حیان۔
[29] … سنن ابی داود،کتاب الجہاد،باب فی الجاسوس الذمی،الحدیث:۲۶۵۲،ج۳،ص۶۷ والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ۶۹۸۰۔فرات بن حیان،ج۵،ص۲۷۳ ۔علمیہ
[30] … ناپسندیدہ۔
[31] … صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب وفد بنی حنیفہ۔ …(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب وفد بنی حنیفۃ۔۔۔الخ، الحدیث: ۴۳۷۲،ج۳،ص۱۳۱ ۔علمیہ)
[32] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ۔
[33] … مکہ مشرفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک مشہور مقام ہے جہاں سے عمرہ بجالاتے ہیں۔۱۲منہ
[34] … ترجمۂکنزالایمان:اور وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دئیے وادی مکہ میں۔
(پ۲۶، الفتح:۲۴)۔علمیہ
[35] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الجہاد،باب حکم الاسرائ،الحدیث:۳۹۶۶،ج۲،ص۵۳۔علمیہ
[36] … مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفضائل،باب فی المعجزات،الفصل الثانی،تحت الحدیث:۵۹۳۱،ج۱۰،ص۲۶۵-۲۶۶۔علمیہ
[37] … وفاء الوفائ، جزء اول، ص ۲۲۵۔ جزء ثانی، ص ۲۵۲۔
[38] … صحیح بخاری، کتاب الطب، باب ہل یستخرج السحر۔…(صحیح البخاری،کتاب الطب،باب السحر،الحدیث:۵۷۶۶،ج۴، ص۴۰۔علمیہ)
[39] … صحیح مسلم،باب من فضائل ابی ہریرۃ۔…(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب من فضائل ابی ہریرۃ الدوسی،الحدیث: ۲۴۹۱،ص۱۳۵۳۔علمیہ)
[40] … گالی گلوچ۔
[41] … صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب اسماء النبی ۔…(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب ما جاء فی اسماء رسول اللّٰہ، الحدیث: ۳۵۳۳،ج۲،ص۴۸۴۔علمیہ)
[42] … صحیح بخاری، باب ذکر ہندبنت عتبہ۔…(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ذکر ہند بنت عتبۃ بن ربیعۃ،الحدیث: ۳۸۲۵،ج۲،ص۵۶۷۔علمیہ)
[43] … اصابہ۔سیرت حلبیہ۔
[44] … السیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہ، فتح مکۃ شرفہا اللّٰہ تعالٰی، ج۳،ص۱۳۲والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۵۶۵۴۔عکرمۃ بن ابی جہل،ج۴،ص۴۴۳۔۴۴۴۔علمیہ
[45] … سیرت حلبیہ۔…(السیرۃ الحلبیۃ،باب ذکر مغازیہ،فتح مکۃ شرفہا اللّٰہ تعالٰی،ج۳،ص۱۳۵۔علمیہ)
[46] … صحیح بخاری، باب غزوۃ الطائف۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ الطائف،الحدیث:۴۳۳۵، ج۳،ص۱۱۸۔ علمیہ)
[47] … اصابہ، ترجمہ ہبار بن اسود۔…(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۸۹۵۱۔ہبار بن الاسود،ج۶،ص۴۱۲۔۴۱۳۔علمیہ)
[48] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں ان صحابی کا نام ’’بحیر‘‘ لکھا ہے یہ ہمیں نہیں ملا، یقینا کتابت کی غلطی ہے کیونکہ سیرۃ ابن ہشام، الاصابۃ اور سیرت و تاریخ کی کتب میں ان کا نام ’’ بجیر ‘‘ لکھا ہے لہٰذا ہم نے یہی لکھا ہے۔ علمیہ
[49] … مکہ کی ایک وادی کا نام ہے۔
[50] … جائز۔
[51] … اصابہ وغیرہ۔…(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۷۴۲۶۔کعب بن زہیر،ج۵،ص۴۴۳۔۴۴۴بالتغیر والسیرۃ النبویۃ لابن ہشام،امرکعب بن زہیر بعد الانصراف عن الطائف،ص۵۱۰۔۵۱۱۔علمیہ)
[52] … صحیح بخاری، باب قتل حمزہ۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب قتل حمزۃ،الحدیث:۴۰۷۲،ج۳،ص۴۲۔علمیہ)
[53] … فاحش کے معنی ہے کلا م میں بالطبع فحش کرنے والااور متفحش کے معنی بتکلف فحش کرنے والا ہیں۔علمیہ
[54] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۳۰، ص۱۹۷۔علمیہ)
[55] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب قول النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم: یسروا و لا تعسروا ۔…(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب قول النبی:یسروا ولاتعسروا،الحدیث:۶۱۲۸،ج۴،ص۱۳۳۔علمیہ)
[56] … سخت کناروں والی۔
[57] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب التبسم والضحک۔…(صحیح البخاری،کتاب الادب، باب التبسم والضحک،الحدیث: ۶۰۸۸،ج۴،ص۱۲۴۔علمیہ)
[58] … ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی التجاوز۔…(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی التجاوز فی الامر،الحدیث:۴۷۸۶، ج۴،ص۳۲۸۔علمیہ)
[59] … یہودیوں کے علماء
[60] … مہربانی۔
[61] … دیہات کا رہنے والا۔
[62] … بارش کا نہ ہونا۔
[63] … پِھرنہ جائیں۔
[64] … روپوںکی تھیلی جو کمر سے باندھی جاتی ہے۔
[65] … غصہ بھری نگاہ۔
[66] … دلائل النبوۃ للحافظ ابی نعیم، مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن۔
[67] … اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،زید بن سعنہ:۱۸۴۱،ج۲،ص۳۴۵۔علمیہ
[68] … ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ (پ۱۷،الانبیائ:۱۰۷)۔علمیہ
[69] … ترجمۂ کنزالایمان: بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان (پ۱۱،التوبۃ:۱۲۸)۔علمیہ
[70] … کہیں ایسا نہ ہو کہ۔
[71] … صحیح مسلم، کتاب صلوۃ الاستسقائ۔ …(صحیح مسلم،کتاب صلاۃ الاستسقائ،باب التعوذ عند رؤیۃ الریح۔۔۔الخ،الحدیث: ۸۹۹،ص۴۴۶۔علمیہ)
[72] … مشکوٰۃ بحوالہ مسلم، کتاب الامارۃ والقضائ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الامارۃ والقضائ،الفصل الاول، الحدیث:۳۶۸۹، ج۲،ص۷۔علمیہ)
[73] … اسی آیت کے مضمون کی وجہ سے۔
[74] … ترجمۂکنزالایمان:مَدینے والوں اور ان کے گرد دیہات والوں کو لائق نہ تھا کہ رسول اللّٰہسے پیچھے بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ ان کی جان سے اپنی جان پیاری سمجھیں۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۲۰)۔علمیہ
[75] … صحیح مسلم، باب فضل الجہاد۔…(صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب فضل الجہاد۔۔۔الخ،الحدیث:۱۸۷۶،ص۱۰۴۲۔ ۱۰۴۳۔علمیہ)
[76] … ترجمۂکنزالایمان:اے میرے رب بیشک بتوں نے بہت لوگ بہکا دئیے۔(پ۱۳، ابراہیم:۳۶)۔علمیہ
[77] … ترجمۂکنزالایمان:اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔ (پ۷،المائدۃ:۱۱۸)۔علمیہ
[78] … صحیح مسلم، باب دعاء النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم لامتہ وبکاء ہ شفقۃً علیہم۔…(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب دعاء النبی لامتہ۔۔۔الخ،الحدیث:۲۰۲،ص۱۳۰۔علمیہ)
[79] … کفالت کرنے والا۔
[80] … صحیح بخاری، کتاب فی الاستقراض، باب الصلوٰۃ علی من ترک دینا۔…(صحیح البخاری،کتاب فی الاستقراض۔۔۔الخ، باب الصلاۃ علی من ترک دیناً،الحدیث:۲۳۹۹،ج۲،ص۱۰۸-۱۰۹۔علمیہ)
[81] … صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، باب من قال فی الخطبۃ بعد الثناء اما بعد۔
[82] … صحیح البخاری،کتاب الجمعۃ، باب من قال فی الخطبۃ بعد الثنائ: اما بعد،الحدیث:۹۲۴،ج۱،ص۳۱۸۔علمیہ
[83] … پے در پے بغیر افطار کے روزے رکھنا۔
[84] … صحیح بخاری، باب قول النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم یسرو ا ولا تعسروا۔…(صحیح البخاری،کتاب الادب، باب قول النبی: یسروا ولاتعسروا،الحدیث:۶۱۲۶،ج۴،ص۱۳۳۔علمیہ)
[85] … صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار، باب المعراج،الحدیث:۳۸۸۷،ج۲،ص۵۸۶وصحیح مسلم،کتاب الایمان، باب الاسراء برسول اللّٰہ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۶۲،ص۹۸۔۹۹ملخصاً۔علمیہ
[86] … صحیح مسلم، باب شفقۃ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم علیٰ امتہ۔…(صحیح مسلم،باب شفقتہ علی امتہ۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۲۸۵،ص۱۲۵۴۔علمیہ)
[87] … صحیح البخاری،کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل۔۔۔الخ،الحدیث:۷۵۱۰،ج۴،ص۵۷۷ ملخصاً صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب ادنی اہل الجنۃ منزلۃ فیہا،الحدیث:۱۹۳،ص۱۲۴۔علمیہ
[88] … ترجمۂکنزالایمان:اور اللّٰہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔(پ۹،الانفال:۳۳)علمیہ
[89] … یعنی کافروں پر قیامت تک کبھی ایسا عذاب نہیں آئے گا جو ان کوبالکل نیست و نابود کردے۔ علمیہ
[90] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیح مسلم، باب فی اخلاقہ و شمائلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل، باب فی اخلاقہ وشمائلہ،الحدیث:۵۸۱۲،ج۲،ص۳۶۵۔ علمیہ)
[91] … صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب قصۃ دوس ۔
[92] … صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب قصۃ دوس۔۔۔الخ،الحدیث:۴۳۹۲،ج۳،ص۱۳۷۔ علمیہ
[93] … مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی، باب مناقب قریش و ذکر القبائل۔
[94] … مشکاۃ المصابیح،کتاب المناقب،باب مناقب قریش وذکر القبائل،الحدیث:۵۹۹۵،ج۲،ص۴۱۰۔ علمیہ
[95] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،غزوۃ اُحد،ج۲،ص۴۲۸۔۴۲۹والشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الثانی فی تکمیل محاسنہ،فصل واما الحلم،الجزء الاول،ص۱۰۶۔ علمیہ
[96] … یعنی اعتراضات اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ایمان نہ لائے ۔ علمیہ
[97] … صحیح بخاری، تفسیر سورۂ دخان۔…(صحیح البخاری ،کتاب التفسیر ، سورۃ الدخان ، الحدیث:۴۸۲۲۔۴۸۲۴ ، ج۳، ص۳۲۳ملتقطاً۔ علمیہ)
[98] … صحیح بخاری، باب وفد بنی حنیفہ۔…(صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب وفد بنی حنیفۃ ، الحدیث:۴۳۷۲ ، ج۳، ص۱۳۲۔ علمیہ)
[99] … قحط۔
[100] … سیرت ابن ہشام ، اسر ثمامہ بن آثال الحنفی و اسلامہ۔…( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، أسر ثمامۃ بن اثال الحنفی و اسلامہ ۔۔۔الخ،ص۵۷۰۔ علمیہ)
[101] … بخاری، باب الہدیۃ للمشرکین۔
[102] … صحیح البخاری،کتاب الہبۃ وفضلہا۔۔۔الخ، باب الہدیۃ للمشرکین،الحدیث:۲۶۲۰،ج۲،ص۱۸۲۔ علمیہ
[103] … ذلت کے گڑھے میں۔
[104] … ظلم و ستم۔
[105] … بیویاں رکھنے کی۔
[106] … ہندو مذہب میں حصولِ اولاد کے لیے ایک خاص رسم۔
[107] … لکڑیوں کا ڈھیر جس میں ہندو مردہ جَلاتے ہیں۔
[108] … پاک لقب۔
[109] … تعجب کی بات ہے۔
[110] … عیسائیوں کی تعلیمی کتب۔
[111] … نامرد۔
[112] … ہیجڑا۔
[113] … ذَکَر کٹا ہوا۔
[114] … پاگل۔
[115] … عمر قید کی سزا پانے والا۔
[116] … نیلسن کی انسائیکلوپیڈیا، تحت لفظ Women۔
[117] … روک تھام۔
[118] … یعنی بیویوں کا ایک سے زائد ہونا
[119] … یعنی شوہر کا ایک سے زائد ہونا۔
[120] … ترجمۂکنزالایمان:اور اپنی جانیں قتل نہ کرو ۔(پ۵،النسائ:۲۹)۔ علمیہ
[121] … ترجمۂکنزالایمان:اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ۴،النسائ:۱۹) ۔ علمیہ
[122] … ترجمۂکنزالایمان:اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور انہیں مارو۔ (پ۵،النسائ:۳۴)۔ علمیہ
[123] … سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب حسن المعاشرۃ النسائ،الحدیث:۱۹۷۷،ج۲،ص۴۷۸۔ علمیہ
[124] … بداخلاقی ۔
[125] … صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب خلق آدم وذریتہ،الحدیث:۳۳۳۱،ج۲،ص۴۱۲۔ علمیہ
[126] … (اُس۔تُ۔ خان) پہلو کی ہڈی یعنی پسلی۔
[127] … صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی،الحدیث:۷۰۷،ج۱،ص۲۵۳۔ علمیہ
[128] … عرب شتر بانوںکا نغمہ۔
[129] … صحیح البخاری،کتاب الادب،الحدیث:۶۱۶۱،ج۴،ص۱۴۴۔ علمیہ
[130] … آب پاشی کے لیے پانی لے جانے والا اُونٹ۔
[131] … صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب الغیرۃ۔…(صحیح البخاری،کتاب النکاح، باب الغیرۃ،الحدیث:۵۲۲۴،ج۳، ص۴۶۹- ۴۷۰۔ علمیہ)
[132] … صحیح مسلم، باب جواز ارداف المرأۃ الاجنبیۃ اذا اعیت فی الطریق۔…(صحیح مسلم،کتاب السلام،باب جواز ارداف المراۃ الاجنبیۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۲۸۲،ص۱۲۰۰۔ علمیہ)
[133] … ترجمۂکنزالایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے۔ (پ۲،البقرۃ:۲۲۸)۔ علمیہ
[134] … ترجمۂکنزالایمان:مردوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کے لئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت، حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا۔(پ۴،النسائ:۷)۔ علمیہ
[135] … مشکوٰۃ، باب قصۃ حجۃ الوادع۔
[136] … مشکاۃ المصابیح،کتاب المناسک،باب قصۃ حجۃ الوداع،الحدیث:۲۵۵۵،ج۱،ص۴۷۶۔ علمیہ
[137] … بخاری، کتاب العلم، باب ھل یجعل لنساء یوم علی حدۃ فی العلم۔…(صحیح البخاری،کتاب العلم،باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم،الحدیث:۱۰۱،ج۱،ص۵۴۔ علمیہ)
[138] … یعنی وہ کتب جن میں عورتوں کے حقوق تفصیل سے بیان کئے گئے ہوں۔
[139] … شہادت کی انگلی او ر درمیانی انگلی۔
[140] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیح بخاری، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، الحدیث:۴۹۵۲،ج۲،ص۲۱۰۔ علمیہ)
[141] … مشکوٰۃ بحوالہ احمد و ترمذی، باب الشفقۃ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق،الحدیث: ۴۹۷۴،ج۲،ص۲۱۳۔ علمیہ)
[142] … مشکوٰۃ بحوالہ احمد، باب الشفقۃ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق،الحدیث:۵۰۰۱، ج۲،ص۲۱۷۔ علمیہ)
[143] … کچے چمڑے کو پکانا، صاف کرنااور رنگنا
[144] … طبقات ابن سعد، جزء ثانی، ص۱۔…(الطبقات الکبری لابن سعد،۴۲۲۹۔اسماء بنت عمیس،ج۸،ص۲۲۰۔ علمیہ)
[145] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، باب الشفقۃ۔…(مشکاۃ المصابیح ،کتاب الآداب ، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق،الحدیث: ۴۹۵۱،ج۲،ص۲۱۰۔ علمیہ)
[146] … آدھی کھجور۔
[147] … ترمذی، ابواب الزہد۔…(سنن الترمذی،کتاب الزہد،باب ماجاء ان فقراء المہاجرین۔۔۔الخ، الحدیث:۲۳۵۹،ج۴، ص۱۵۷۔ علمیہ)
[148] … کوئی چیز مثلاً کھجور چبا کر اسے بچہ کے تالو میں لگادینا تحنیک کہلاتا ہے۔ صحابہ کرام بغرض تحنیک اپنے بچوں کو بارگاہِ رسالت میں لاتے تاکہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا لعاب مبارک ان کے شکم میں پہنچے۔
[149] … صحیح بخاری، کتاب الوضو، باب بول الصبیان۔
[150] … صحیح البخاری،کتاب الوضوئ،باب بول الصبیان،الحدیث:۲۲۳،ج۱،ص۹۸۔ علمیہ
[151] … صحیح البخاری،کتاب الادب،باب رحمۃ الولد۔۔۔۔الخ،الحدیث:۵۹۹۷،ج۴،ص۱۰۰۔ علمیہ
[152] … دیہاتی۔
[153] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد و تقبیلہ۔…(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، الحدیث:۵۹۹۸،ج۴،ص۱۰۰۔ علمیہ)
[154] … صحیح مسلم، طیب ریحہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب طیب رائحۃ النبی۔۔۔الخ، الحدیث:۲۳۲۹،ص۱۲۷۱۔ علمیہ)
[155] … صحیح بخاری، کتاب الاستیذان، باب التسلیم علی الصبیان۔…(صحیح البخاری،کتاب الاستیذان،باب التسلیم علی الصبیان، الحدیث:۶۲۴۷،ج۴،ص۱۷۰۔ علمیہ)
[156] … مشکوٰہ بحوالہ مسلم، باب آداب السفر۔…(مشکاۃ المصابیح ،کتاب الجہاد ، باب آداب السفر ، الحدیث:۳۹۰۰،ج۲، ص۴۱۔ علمیہ)
[157] … صحیح بخاری، باب الثلثۃ علی الدابۃ۔…(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب حمل صاحب الدابۃ غیرہ بین یدیہ،الحدیث: ۵۹۶۶،ج۴،ص۹۱۔ علمیہ)
[158] … ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب من قال انہ یأکل مما سقط۔…(سنن ابی داود،کتاب الجہاد،باب من قال: انہ یاکل مما سقط، الحدیث:۲۶۲۲،ج۳،ص۵۵۔ علمیہ)
[159] … مُد اور صاع دو پیمانے ہیں۔
[160] … صحیح مسلم، باب فضل المدینہ۔…(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب فضل المدینۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۳۷۳،ص۷۱۳۔ علمیہ)
[161] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد و تقبیلہ۔…(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ، الحدیث:۵۹۹۵،ج۴،ص۹۹۔ علمیہ)
[162] … اچھا ہے۔
[163] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من ترک صبیۃ غیرہ حتی تلعب بہ۔…(صحیح البخاری ،کتاب الادب ، باب من ترک صبیۃ غیرہ۔۔۔الخ،الحدیث:۵۹۹۳،ج۴،ص۹۹۔ علمیہ)
[164] … صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب ما یدعی لمن لبس ثوباً جدیدًا۔…(صحیح البخاری ،کتاب اللباس، باب مایدی لمن لبس ثوباً جیداً،الحدیث:۵۸۴۵،ج۴،ص۶۳۔ علمیہ)
[165] … مسنددارمی، صفحہ اول۔…سنن الدارمی،باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۲،ج۱،ص۱۴۔ علمیہ
[166] … بیٹی کو قتل کرنا۔
[167] … یہ روم کا دارالحکومت تھا۔
[168] … بچے کو قتل کر ڈالنے کی رسم۔
[169] … مقروضوں۔
[170] … بے رحم۔
[171] … تنزل و زوال رومۃ الکبری، جلد اول، باب ۱۴۔
[172] … روک تھام
[173] … ترجمۂکنزالایمان:اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے۔ (پ۸،الانعام:۱۵۱)۔ علمیہ
[174] … ترجمۂکنزالایمان:اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے کس خطا پر ماری گئی۔ (پ۳۰،التکویر:۸۔۹)۔ علمیہ
[175] … ترجمۂکنزالایمان: اورنہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی۔(پ۲۸،الممتحنۃ:۱۲)۔ علمیہ
[176] … مشکوۃ، کتاب العتق۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب العتق،الفصل الاول،الحدیث:۳۳۸۲،ج۱،ص۶۲۱۔ علمیہ)
[177] … مشکوٰۃبحوالہ احمد و ابو داؤد، باب النفقات و حق المملوک۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب النکاح،باب النفقات وحق المملوک، الحدیث:۳۳۶۹،ج۲،ص۶۱۷۔ علمیہ)
[178] … مشکوٰۃ بحوالہ مسلم، باب النفقات و حق المملوک۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب النکاح،باب النفقات وحق المملوک، الحدیث: ۳۳۵۳،ج۱،ص۶۱۶۔ علمیہ)
[179] … دیکھو ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک۔…(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی حق المملوک،الحدیث:۵۱۵۷، ج۴،ص۴۳۷۔ علمیہ)
[180] … دیکھو ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حق المملوک۔…(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی حق المملوک،الحدیث:۵۱۶۴، ج۴،ص۴۳۹۔ علمیہ)
[181] … تیسیر الوصول الی جامع الاصول بحوالہ ابو داؤد۔…(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی حق المملوک،الحدیث:۵۱۶۷، ج۴،ص۴۴۰۔ علمیہ)
[182] … سنن ابن ماجہ،کتاب الوصایا،باب ھل اوصی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم،الحدیث:۲۶۹۷،ج۳، ص۳۰۲۔ علمیہ
[183] … تیسیر الوصول الی جامع الاصول بحوالہ ابو داؤد۔…(سنن ابی داود،کتاب الجہاد،باب ما یؤمر بہ من القیام۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۵۴۹،ج۳،ص۳۲۔ علمیہ)
[184] … مشکوٰۃ بحوالہ ابو داؤد، باب النفقات وحق المملوک۔
(مشکاۃ المصابیح ،کتاب النکاح ، باب النفقات وحق المملوک، الحدیث:۳۳۷۰،ج۲،ص۶۱۸۔علمیہ)
حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہ مرآۃ میں فرماتے ہیں: ’’ یعنی جو جانور سواری کے لائق ہو اس پر سوار ہو، بیمار اور کمزور، چھوٹے بچے پر سواری نہ کرونہ بوجھ لادو۔‘‘ اور ’’ ان کو چھوڑ دو ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں: ’’ اس جملہ کے دو مطلب ہو سکتے ہیںایک یہ کہ جانور کو بالکل تھکا کر نہ چھوڑوبلکہ ابھی اس میں قوت ہو کہ اسے کھول دو کہ وہ دانہ پانی کھاپی لیں اس سے جانور کی تندرستی اور قوت خراب نہ ہوگی ،دوسرے یہ کہ جانور کو بوڑھا ناکارہ کرکے محنت سے آزاد نہ کرو بلکہ ابھی اس میں کچھ طاقت ہو کہ اس سے کام لینا موقوف کردو۔‘‘(مرآۃ المناجیح،نفقات کا بیان،ج۵،ص۱۷۱)۔علمیہ
[185] … مشکوٰۃ بحوالہ مسلم، کتاب الصید والذبائح۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الصید والذبائح،الفصل الاول،الحدیث:۴۰۷۸، ج۲،ص۷۵۔علمیہ)
[186] … مشکوٰۃ بحوالہ ابو داؤد، باب آداب السفر۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الجہاد،باب آداب السفر،الحدیث:۳۹۱۶،ج۲، ص۴۳۔علمیہ)
[187] … صحیح مسلم، باب مراعات مصلحۃ الدواب فی السیر۔
[188] … صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب مراعاۃ مصلحۃ الدواب فی السیر۔۔۔الخ،الحدیث:۱۹۲۶،ص۱۰۶۳۔علمیہ
[189] … مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی و ابو داؤد، کتاب الصید والذبائح۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الصید والذبائح،الفصل الثانی،الحدیث: ۴۰۹۵،ج۲،ص۷۷۔علمیہ)
[190] … تیسیر الوصول بحوالہ بخاری و مسلم۔…(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،باب خمس من الدواب فواسق۔۔۔الخ،الحدیث: ۳۳۱۸،ج۲،ص۴۰۸۔علمیہ)
[191] … تیسیر الوصول بحوالہ مالک و بخاری و مسلم و ابو داؤد۔…(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب رحمۃ الناس والبہائم،الحدیث: ۶۰۰۹،ج۴،ص۱۰۳وصحیح البخاری،کتاب المساقاۃ،باب فضل سقی المائ،الحدیث:۲۳۶۳،ج۲،ص۹۸۔علمیہ)
[192] … مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی و ابو داؤد، باب ذکر الکلب۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الصید والذبائح،باب ذکر الکلب،الحدیث: ۴۱۰۳،ج۲،ص۷۹۔علمیہ)
[193] … مشکوٰۃ بحوالہ بخاری و مسلم، کتاب الصید و الذبائح۔…(مشکاۃ المصابیح ،کتاب الصید والذبائح،الفصل الاول، الحدیث: ۴۰۷۵،ج۲،ص۷۵۔علمیہ)
[194] … قید کرنے۔
[195] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، کتاب الصید و الذبائح۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الصید والذبائح،الفصل الاول،الحدیث:۴۰۷۴، ج۲،ص۷۵۔علمیہ)
[196] … مرقات بحوالہ احمد و شیخین و نسائی، کتاب الصید والذبائح۔…(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الصید والذبائح،الفصل الاول ، تحت الحدیث:۴۰۷۵،ج۷،ص۶۸۱۔علمیہ)
[197] … چڑیا کی مثل ایک پرندہ۔
[198] … مشکوٰۃ بحوالہ ابو داؤد، باب قتل اہل الردۃ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الدیات،باب قتل اہل الردۃ۔۔۔الخ، الحدیث:۳۵۴۲، ج۱،ص۶۴۸۔علمیہ)
[199] … مرقات بحوالہ مسند بزار، جز ء رابع، ص ۲۳۶۔…(مرقاۃ المفاتیح ،کتاب الجہاد، باب القتال فی الجہاد،تحت الحدیث: ۳۹۵۳،ج۷،ص۴۹۸۔علمیہ)
[200] … مشکوٰۃ بحوالہ ابو داؤد۔ … (مشکاۃ المصابیح ،کتاب الدعوات ، باب سعۃ رحمۃ اللّٰہ ، الحدیث : ۲۳۷۷ ، ج۱ ، ص۴۴۳۔علمیہ)
[201] … خشک سالی۔
[202] … صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ،باب الصلاۃ علی النبی بعدالتشہد،الحدیث:۴۰۸،ص۲۱۶۔علمیہ
[203] … مشکوٰۃ بحوالہ شرح السنۃ، باب فی اخلاقہ و شمائلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل، باب فی اخلاقہ وشمائلہ،الحدیث:۵۸۳۶،ج۲،ص۳۶۸۔علمیہ)
[204] … مشکوٰۃ، کتاب الآداب، باب القیام۔ …(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب القیام،الحدیث:۴۷۰۰،ج۲،ص۱۷۳۔علمیہ)
[205] … بُرا بھلا کہا۔
[206] … صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةًؕ- (الاٰیۃ)… (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیائ،باب وفاۃ موسی وذکرہ بعد،الحدیث:۳۴۰۸،ج۲،ص۴۴۴۔علمیہ)
[207] … مشکوٰۃ بحوالہ مسلم، باب المفاخرۃ والعصبیۃ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب المفاخرۃ والعصبیۃ،الحدیث:۴۸۹۶، ج۲،ص۲۰۲۔علمیہ)
[208] … مشکوٰۃ شریف ، کتاب الآداب، باب المفاخرۃ العصبیۃ۔ …(مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المفاخرۃ والعصبیۃ، الحدیث:۴۹۰۰،ج۲،ص۲۰۲۔علمیہ)
[209] … رکوسیہ گروہے است میان ترسایاں وصائبین۔۱۲منہ…(نصاریٰ اور صائبین کے درمیان ایک فرقہ یا قوم ہے انہیں ’’رکوسیہ‘‘ کہتے ہیں۔علمیہ)
[210] … سیرت ابن ہشام، امرعدی بن حاتم۔…(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،امر عدی بن حاتم،ص۵۴۳۔۵۴۴ملخصاً۔علمیہ)
[211] … مشکوٰۃ ،باب المفاخرۃ والعصبیۃ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب المفاخرۃ والعصبیۃ،الحدیث:۴۸۹۷،ج۲، ص۲۰۲۔علمیہ)
[212] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخائ۔…(صحیح البخاری،کتاب الاداب،باب حسن الخلق والسخائ۔۔۔الخ، الحدیث:۶۰۳۸،ج۴،ص۱۱۰۔علمیہ)
[213] … مشکوٰۃ، باب فی اخلاقہ و شمائلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ۔
[214] … مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی اخلاقہ وشمائلہ، الحدیث:۵۸۰۸،ج۲،ص۳۶۴۔علمیہ
[215] … ضرورت پوری فرماتے۔
[216] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب الکبر۔
[217] … صحیح البخاری،کتاب الادب،باب الکبر،الحدیث:۶۰۷۲،ج۴،ص۱۱۸۔علمیہ ۔
[218] … یعنی نکیل اور دراز گوش پر رکھی جانے والی گدِّی کھجور کی چھال کی تھی۔
[219] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی تواضع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی تواضع رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۱۵،ص۱۹۰۔علمیہ)
[220] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی تواضع رسول اﷲ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ( اس کی قیمت چاردرہم تھی۔)
[221] … صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب الردف علی الحمار۔…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی ، باب غزوۃ الفتح الاعظم،ج۳ ، ص۴۳۴۔علمیہ)
[222] … سیرت ابن ہشام۔
[223] … باری باری اونٹ پر سواری کرنے والے رفیق۔
[224] … طبقات ابن سعد، غزوۂ بدر۔ مشکوٰۃ بحوالہ شرح السنۃ، باب آداب السفر۔…(الطبقات الکبری لابن سعد،غزوۃ بدر،ج۲،ص۱۵ ومشکاۃ المصابیح،کتاب الجہاد،باب آداب السفر،الحدیث:۳۹۱۵،ج۲،ص۴۳۔علمیہ)
[225] … عزت۔
[226] … مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی، باب فی اخلاقہ و شمائلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل، باب فی اخلاقہ وشمائلہ ،الحدیث:۵۸۲۲-۵۸۲۴،ج۲،ص۳۶۶ملتقطاً۔علمیہ)
[227] … خوشی۔
[228] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب لم یکن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلمفحاشا ولا متفحشا۔…(صحیح البخاری،کتاب الادب، باب لم یکن النبی فاحشاً ولا متفحشاً،الحدیث:۶۰۳۲،ج۴،ص۱۰۸۔علمیہ)
[229] … صحیح بخاری، باب لم یکن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلمفحاشاولا متفحشا۔…(صحیح البخاری،کتاب الادب،باب لم یکن النبی فاحشاً ولا متفحشاً،الحدیث:۶۰۳۱،ج۴،ص۱۰۸۔علمیہ)
[230] … اپنے آپ کو۔
[231] … مواہب لدنیہ بحوالہ سیرت محب طبری۔…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،ج۶، ص۴۸۔علمیہ)
[232] … وعدہ پورا کرنا۔
[233] … خوب کوشش فرماتے۔
[234] … ابن ماجہ، باب القدید۔…(سنن ابن ماجہ،کتاب الاطعمۃ،باب القدید،الحدیث:۳۳۱۲،ج۴،ص۳۱۔علمیہ)
[235] … مواہب لدنیہ۔…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۵۰۔علمیہ)
[236] … دراز گوش پر رکھی جانے والی گدِّی۔
[237] … ابو دائود،کتاب الادب، باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستیذان۔…(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب کم مرۃ یسلم الرجل فی الاستیذان،الحدیث:۵۱۸۵،ج۴،ص۴۴۵۔علمیہ)
[238] … یعنی اس میں جھوٹ شامل نہ ہوتا۔
[239] … وہ بھائی یا بہن جن کے باپ الگ الگ اور ماںایک ہواَخیافی کہلاتے ہیں ۔
[240] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، کتاب الآداب، باب المزاح۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب المزاح،الحدیث:۴۸۸۴، ج۲،ص۱۹۹۔علمیہ)
[241] … دیکھو مشکوٰۃ، باب المزاح اور شمائل ترمذی، باب ماجاء فی مزاح رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب،باب المزاح،الحدیث:۴۸۸۶،ج۲،ص۲۰۰والشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۲۸،ص۱۴۲۔علمیہ)
[242] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک ہم نے ان عورتوں کو اچھی اُٹھان اُٹھایاتو انہیں بنایا کنواریاں اپنے شوہر پر پیاریاں۔ (پ۲۷،الواقعۃ:۳۵۔۳۶)۔علمیہ
[243] … مشکاۃ المصابیح ،کتاب الآداب، باب المزاح،الحدیث:۴۸۸۸، ج۲،ص۲۰۰والشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ما جاء فی صفۃ مزاح رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۳۰،ص۱۴۴
[244] … دیہاتی۔
[245] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی مزاح رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۲۹،ص۱۴۳ومشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب المزاح،الحدیث:۴۸۸۹، ج۲،ص۲۰۰۔علمیہ)
[246] … صحیح بخاری، کتاب العلم، باب متی یصح سماع الصغیر۔ …(صحیح البخاری،کتاب العلم،باب متی یصح سماع الصغیر،الحدیث: ۷۷،ج۱،ص۴۵والمواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۷۵۔علمیہ)
[247] … استیعاب لابن عبدالبر، ترجمہ زینب بنت ابی سلمہ۔…(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،۳۳۹۵۔زینب بنت ابی سلمۃ المخزومیۃ، ج۴،ص۴۱۱۔علمیہ)
[248] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخائ۔…(صحیح البخاری کتاب الادب،باب حسن الخلق والسخائ۔۔۔الخ، الحدیث:۶۰۳۴،ج۴،ص۱۰۹۔علمیہ)
[249] … کمی۔
[250] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی خلق رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۳۸،ص۲۰۱۔علمیہ)
[251] … صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب مااقطع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم من البحرین۔…(صحیح البخاری کتاب الجزیۃ و الموادعۃ،باب ما اقطع النبی من البحرین۔۔۔الخ،الحدیث:۳۱۶۵ ،ج۲،ص۳۶۵۔علمیہ)
[252] … دیہات میں رہنے والوں۔
[253] … بخاری، باب غزوۃ الطائف ۔ … ( صحیح البخاری کتاب المغازی ، باب غزوۃ الطائف ، الحدیث:۴۳۳۶ ، ج۳ ، ص۱۱۸۔علمیہ)
[254] … مشکوٰۃ، باب فی اخلاقہ وشمائلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ،فصل اول۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل، باب فی اخلاقہ وشمائلہ،الحدیث:۵۸۰۶ ،ج۲،ص۳۶۴۔علمیہ)
[255] … جامع ترمذی،باب ماجاء فی اعطا ء المؤلفۃ قلوبہم۔ … (سنن الترمذی،کتاب الزکاۃ،باب ماجاء فی اعطاء المؤلفۃ قلوبہم، الحدیث:۶۶۶،ج۲،ص۱۴۷۔علمیہ)
[256] … عرب کے دیہاتوں میں رہنے والے۔
[257] … بے قراری کی حالت میں۔
[258] … صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب الشجاعۃ فی الحرب و الجبن۔…(صحیح البخاری،کتاب الجہاد والسیر،باب الشجاعۃ فی الحرب والجبن،الحدیث:۲۸۲۱،ج۲،ص۲۶۰۔علمیہ)
[259] … صحیح بخاری، کتاب الاستقراض، باب اداء الدین۔…(صحیح البخاری ،کتاب فی الاستقراض۔۔۔الخ ، باب اداء الدیون ، الحدیث:۲۳۸۸،ج۲،ص۱۰۵۔علمیہ)
[260] … صحیح بخاری، کتاب التہجد، باب یفکر الرجل الشی ٔفی الصلوٰۃ۔…(صحیح البخاری،کتاب العمل فی الصلاۃ، باب یفکر الرجل الشیء فی الصلاۃ،الحدیث:۱۲۲۱،ج۱،ص۴۱۱۔علمیہ)
[261] … صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب البرودوالحِبرۃ۔…(صحیح البخاری،کتاب اللباس،باب البرود والحبرۃ والشملۃ،الحدیث: ۵۸۱۰،ج۴،ص۵۴۔علمیہ)
[262] … صحیح مسلم، باب المومن یاکل فی معی واحد والکا فر یاکل فی سبعۃ امعائ۔ اس مہمان کا نام غالبانضلہ بن عمرو غفاری تھا۔۱۲منہ…(صحیح مسلم،کتاب الاشربۃ،باب المؤمن یاکل فی معی واحد۔۔۔الخ،الحدیث:۲۰۶۳،ص۱۱۴۱۔علمیہ)
[263] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’عبد اللّٰہ ہوازنی‘‘ لکھا ہے، لیکن’’سنن ابی داود ‘‘ اور دیگر حدیث و سیرت کی کتب میں یہ روایت حضرت ’’ عبد اللّٰہ ہَوْزَنی ‘‘رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے منقول ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے ’’ ہوازنی ‘‘ کی بجائے ’’ ہوزنی ‘‘ لکھا ہے۔علمیہ
[264] … بد مزاجی سے۔
[265] … برا بھلا کہے گا، رسوا کرے گا۔
[266] … ابو دائود، جلد ثانی، کتاب الخراج والفی ٔ، باب فی الامام یقبل ہدایا المشرکین۔…(سنن ابی داود،کتاب الخراج والفیء والامارۃ، باب فی الامام یقبل ہدایا المشرکین،الحدیث:۳۰۵۵،ج۳،ص۲۳۰-۲۳۲۔علمیہ)
[267] … صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب شری الدواب والحمیر، باب اذا اشتری شیئا فوہب من ساعتہ قبل ان یتفرقا۔…(صحیح البخاری،= =کتاب البیوع،باب شراء الدواب والحمیر۔۔۔الخ،الحدیث:۲۰۹۷،ج۲،ص۱۸و باب اذا اشتری شیئاً فوہب من ساعتہ قبل ان یتفرقا۔۔۔الخ،الحدیث:۲۱۱۵،ج۲،ص۲۳۔علمیہ)
[268] … مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی، باب فی اخلاقہ وشمائلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل، باب فی اخلاقہ وشمائلہ،الحدیث:۵۸۲۵،ج۲،ص۳۶۷۔علمیہ)
[269] … مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی، باب فی اخلاقہ و شمائلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ،الباب الرابع، الفصل التاسع،ذکر ما کان فیہ من ضیق العیش۔۔۔الخ،ج۲،ص۲۱۶۔علمیہ)
[270] … صحیح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق والسخائ۔…(صحیح البخاری ،کتاب الاداب ، باب حسن الخلق والسخائ۔۔ ۔الخ،الحدیث:۶۰۳۳،ج۴،ص۱۰۸-۱۰۹۔علمیہ)
[271] … صحیح مسلم، غزوۂ حنین۔…(صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر،باب فی غزوۃ حنین،الحدیث:۷۹-(۱۷۷۶)ص۹۸۰۔علمیہ)
[272] … صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار، باب ما لقی النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۳۸۵۲،ج۲،ص۵۷۳۔علمیہ)
[273] … اُڑنے والی ریت۔
[274] … صحیح بخاری، غزوۂ خندق۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق وہی الاحزاب،الحدیث:۴۱۰۱، ج۳،ص۵۱۔علمیہ)
[275] … پیٹھ کے بل گرا دیا۔
[276] … سیرت ابن ہشام۔…(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، امر رکانۃ المطلبی ومصارعتہ للنبی، ص۱۵۵ والمواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۱۰۱۔علمیہ)
[277] … مواہب لدنیہ۔…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۱۰۳۔علمیہ)
[278] … صحیح بخاری، باب ماکان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم واصحابہ یاکلون۔…(صحیح البخاری،کتاب الاطعمۃ، باب ما کان النبی واصحابہ یاکلون،الحدیث:۵۴۱۴،ج۳،ص۵۳۲۔علمیہ)
[279] … مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، باب فضل الفقرائ۔
[280] … میز وغیرہ پر۔
[281] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الرقاق،باب فضل الفقرائ۔۔۔الخ،الحدیث:۵۲۳۷،ج۲،ص۲۵۴۔علمیہ
[282] … صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب فضل الفقر۔…(صحیح البخاری،کتاب الرقاق، باب فضل الفقر،الحدیث:۶۴۵۰،ج۴، ص۲۳۳۔علمیہ)
[283] … صحیح بخاری، باب کیف کان عیش النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم واصحابہ۔…(صحیح البخاری،کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۶۴۵۹،ج۴،ص۲۳۶۔علمیہ)
[284] … مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی، باب فضل الفقرائ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الرقاق،باب فضل الفقرائ۔۔۔الخ،الحدیث:۵۲۵۴، ج۲،ص۲۵۶۔علمیہ)
[285] … صحیح بخاری،کتاب الرقاق، باب فضل الفقر۔…(صحیح البخاری،کتاب الرقاق،باب فضل الفقر،الحدیث:۶۴۵۱،ج۴، ص۲۳۴۔علمیہ)
[286] … گروی۔
[287] … صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب وفات النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(صحیح البخاری،کتاب المغازی، باب۸۸، الحدیث:۴۴۶۷،ج۳،ص۱۶۱و المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،النوع الاول فی عیشہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۱۵۱۔علمیہ)
[288] … بے بچھونے کی چار پائی۔
[289] … بچھونا۔
[290] … صحیح مسلم، باب بیان ان تخییر امرتہ لا یکون طلاقا بالنیۃ۔ صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجہا۔ …(صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب فی الایلائ۔۔۔الخ،الحدیث:۱۴۷۹،ص۷۸۴ وصحیح البخاری،کتاب النکاح، باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجہا،الحدیث:۵۱۹۱،ج۳،ص۴۶۰۔علمیہ)
[291] … جامع ترمذی، ابواب الزہد۔…(سنن الترمذی،کتاب الزہد،۴۴۔باب،الحدیث:۲۳۸۴،ج۴،ص۱۶۷۔علمیہ)
[292] … بھس ملا کر مٹی سے پلستر کرنا۔
[293] … صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب ہل یصلی المرأۃفی ثوب حاضت فیہ۔ ابو دائود، باب المرأۃ تغسل ثوبہا الذی تلبسہ فی حیضہا۔… (صحیح البخاری،کتاب الحیض،باب ہل تصلی المراۃ فی ثوب حاضت فیہ،الحدیث:۳۱۲،ج۱،ص۱۲۵۔علمیہ)
[294] … یعنی لذتوں سے فائدہ اٹھائیں۔
[295] … عصب کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعضے کہتے ہیںکہ ایک بحری جانور کے دانت کو عصب کہتے ہیں جس کو تراش کر منکے بنائے جاتے ہیں۔ عصب کے معنی پٹھے کے بھی ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض حیوانات کے پٹھوں کو خشک کرکے کترکر منکے بنالیتے ہوں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔۱۲منہ
[296] … مشکوٰۃ بحوالہ احمد وابودائود، کتاب اللباس، باب الترجل۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب اللباس،باب الترجل،الحدیث:۴۴۷۱، ج۲،ص۱۳۴۔علمیہ)
[297] … دھاری دار، خوبصورت۔
[298] … صحیح بخاری، کتاب الہبۃ، باب ہدیۃ مایکرہ لبسہا۔…(صحیح البخاری،کتاب الہبۃ وفضلہا۔۔۔الخ،باب ہدیۃ ما یکرہ لبسہا، الحدیث:۲۶۱۳،۲۶۱۴،ج۲،ص۱۸۰۔علمیہ)
[299] … ابودائود، کتاب الاطعمہ، باب الرجل یدعی فیری مکروہا۔…(سنن ابی داود،کتاب الاطعمۃ،باب اجابۃ الدعوۃ اذا حضرہا مکروہ، الحدیث:۳۷۵۵،ج۳،ص۴۸۴۔علمیہ)
[300] … رنگین بچھونا۔
[301] … بچھونا۔
[302] … ابودائود، کتاب اللباس، باب فی الصور۔…(سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی الصور،الحدیث:۴۱۵۳،ج۴،ص۹۹۔علمیہ)
[303] … مشکوٰۃ بحوالہ امام احمد، کتاب الرقاق۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الرقاق،الفصل الثالث،الحدیث:۵۲۲۵،ج۲،ص۲۵۲۔علمیہ)
[304] … مواہب لدنیہ بحوالہ طبرانی۔…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،النوع الاول فی عیشہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۱۶۴۔علمیہ)
[305] … جامع ترمذی، ابواب الزہد، باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ۔…(سنن الترمذی،کتاب الزہد،باب ماجاء فی الکفاف والصبر علیہ،الحدیث:۲۳۵۴،ج۴،ص۱۵۵۔علمیہ)
[306] … موٹا اُونی کپڑا۔
[307] … صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب ماذ کرمن درع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم وعصاہ وسیفہ الخ۔…(صحیح البخاری،کتاب فرض الخمس،باب ما ذکر من درع النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۳۱۰۸،ج۲،ص۳۴۳ و المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، صفۃ ازارہ،ج۶،ص۳۰۱۔علمیہ)
[308] … گروی۔
[309] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،النوع الاول فی عیشہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۱۵۱۔علمیہ
[310] … صحیح بخاری، کتاب الرقاق،باب قول النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم لو تعلمون مااعلم ۔الخ۔…(صحیح البخاری،کتاب الایمان
والنذور،باب کیف کان یمین النبی،الحدیث:۶۶۳۷،ج۴،ص۲۸۴۔علمیہ)
[311] … سورۃ الفتح کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے: لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ (پ۲۶،الفتح:۲)اوراعلیٰ حضرت امام اہلسنت رَحْمَۃُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کنزالایمان شریف میں اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے: تاکہ اللّٰہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔اس میں کچھ تفصیل ہے لہٰذا ملاحظہ فرمائیے فتاویٰ رضویہ،جلد۲۹،مسئلہ۱۴۳،صفحہ ۳۹۴ تا ۴۰۱۔
[312] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی عبادۃ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء
فی عبادۃ رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۴۸،ص۱۶۰۔علمیہ)
[313] … شمائل ترمذی،باب ماجاء فی عبادۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم، روایت ابوذر میں ہے کہ وہ آیت یہ ہے: اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸) ( سنن ابن ماجہ، باب ماجاء فی القراء ۃ فی صلوٰۃ اللیل۔)۱۲منہ…(الشمائل
المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی عبادۃ رسول اللّٰہ،الحدیث:۲۶۱،ص۱۶۵۔علمیہ)
[314] … ’’سنن ابی داود ‘‘ اور ’’مشکاۃ المصابیح ‘‘ میں ’’ ذُو الْمُلْک ‘‘ کی بجائے ’’ ذُو الْمَلَکُوت ‘‘ لکھا ہے۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔علمیہ
[315] … مشکوٰۃ بحوالہ ابو دائود، باب صلوٰۃ اللیل۔…(مشکاۃ المصابیح ،کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ اللیل، الحدیث:۱۲۰۰،ج۱، ص۲۳۷۔علمیہ)
[316] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی بکاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی بکاء رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۰۵،ص۱۸۴۔علمیہ)
[317] … صحیح بخاری، باب مایذکرعن صوم النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم وافطارہ۔…(صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب ما یذکر من صوم النبی وافطارہ،الحدیث:۱۹۷۲،ج۱،ص۶۴۸۔علمیہ)
[318] … شرح ہمزیہ لابن حجر الہیتمی بحوالہ ابن اسحاق وابن راہو یہ وابو یعلی و طبرانی بیہقی وابو نعیم۔۔علمیہ
[319] … خارجیوں کا سردار۔
[320] … نقصان پہنچانے والا ہے۔
[321] … صحیح بخاری، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔…(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث: ۳۶۱۰،ج۲،ص۵۰۳۔علمیہ)
[322] … معجم صغیر طبرانی، اسم محمد۔…(المعجم الصغیر للطبرانی،الجزء الثانی،ص۹۸۔علمیہ)
[323] … معجم صغیر طبرانی،اسم عبدان شروع۔…(المعجم الصغیر للطبرانی،الجزء الاول،ص۲۳۴۔علمیہ)
[324] … مستدرک حاکم، کتاب الاحکام، قصہ سرق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ۔…(المستدرک علی الصحیحین،کتاب الاحکام،ذکر قصۃ سرق،الحدیث:۷۱۴۴،ج۵،ص۱۳۸۔علمیہ)
[325] … صحیح بخاری، کتاب الانبیائ۔…(صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،۵۶۔باب،الحدیث:۳۴۷۵،ج۲،ص۴۶۸۔علمیہ)
[326] … ابو دائود، باب القود بغیر حدید۔…(سنن ابی داود ،کتاب الدیات، باب القود من الضربۃ۔۔۔الخ، الحدیث:۴۵۳۶،ج۴، ص۲۴۱۔علمیہ)
[327] … سیرت ابن ہشام، حدیث بنیان الکعبۃ۔
[328] … السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اختلاف قریش فیمن یضع الحجر ولعقۃ الدم،ص۷۹۔علمیہ
[329] … قطر ایک بستی کا نام ہے یمن یا بحرین میں، وہاں کا تیار کردہ اعلیٰ درجہ کا کپڑا جو سوتی ،مائل بہ سرخی ہوتا ہے اور حاشیہ پر اعلیٰ درجہ کا کام ہوتا ہے۔(مرآۃ المناجیح،ج۶،ص۱۱۶)۔علمیہ
[330] … ترمذی، باب ماجاء فی الرخصۃ فی الشراء الی اجل۔…(سنن الترمذی،کتاب البیوع،باب ماجاء فی الرخصۃ فی الشراء الی اجل،الحدیث:۱۲۱۷،ج۳،ص۷۔علمیہ)
[331] … مشکوٰۃ شریف، باب فضل الصدقۃ۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الزکاۃ،باب فضل الصدقۃ،الحدیث:۱۹۰۷،ج۱،ص۳۶۲۔علمیہ)
[332] … ترجمۂکنزالایمان:تو وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم اللّٰہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔ (پ۷،الانعام:۳۳) علمیہ
[333] … ترجمۂکنزالایمان:پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرماؤ کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک کڑ ک سے جیسی کڑ ک عاد اور ثمود پر آئی تھی۔
(پ۲۴،حم السجدۃ:۱۳) علمیہ
[334] … خصائص کبریٰ للسیوطی، بحوالہ ابن ابی شیبہ وبیہقی وابی نعیم ، جزء اول، ص ۱۱۴۔…(الخصائص الکبری للسیوطی ، باب اعجاز القرآن۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۹۰ملخصاً۔علمیہ)
[335] … تباہ و بربادکرنا
[336] … صحیح بخاری،تفسیر سورۂ شعرا۔…(صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الشعرائ،الحدیث:۴۷۷۰،ج۳،ص۲۹۴۔علمیہ)
[337] … ابو دائود، باب فی الامام یستجن بہ فی العہود۔…(سنن ابی داود،کتاب الجہاد،باب فی الامام یستجن بہ فی العہود،الحدیث: ۲۷۵۸،ج۳،ص۱۰۹۔علمیہ)
[338] … بخاری، باب اثم من قتل معاہدا بغیر جرم۔…(صحیح البخاری،کتاب الجزیۃ والموادعۃ،باب اثم من قتل معاہداً بغیر جرم، الحدیث:۳۱۶۶،ج۲،ص۳۶۵۔علمیہ)
[339] … ابو دائود، کتاب الادب، باب العدۃ۔…(سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی العدۃ،الحدیث:۴۹۹۶،ج۴،ص۳۸۸۔علمیہ)
[340] … وہ امور جو شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ اوربُرے ہیں۔
[341] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی حیاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی حیاء رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۴۱،ص۲۰۳۔علمیہ)
[342] … یعنی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہ فرماتے۔
[343] … اہم اُمور میں۔
[344] … آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت سے فیض یاب ہونے والا۔
[345] … بُری باتوں کی اشاعت
[346] … ضرورت مند۔
[347] … شمائل ترمذی، باب ماجاء فی تواضع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم۔…(الشمائل المحمدیۃ للترمذی،باب ماجاء فی تواضع رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۱۹،ص۱۹۱۔۱۹۳۔علمیہ)
[348] … یعنی اس سورت کی مانند و مثل لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
[349] … یعنی دُگنے تگنے ہوتے ہوئے کئی گنا ہوتے جائیں گے۔
[350] … دستر خوان
[351] … ترجمۂکنزالایمان:اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے۔ (پ۲۱،العنکبوت:۵۱)۔علمیہ
[352] … بغض و عداوت کی بنا پر
[353] … مقام
[354] … القصیدتان،البردۃ للبوصیری،الفصل السادس فی ذکرشرف القرآن الکریم،ص۲۲۔علمیہ
[355] … اس شعر کے تحت حضرت علامہ عمر بن احمد خرپوتی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ’’عصیدۃ الشہدۃ شرح قصیدۃ البردۃ ‘‘میں لکھا ہے کہ تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کے معجزات ان کی حیات ظاہری تک تھے جب ان کا وصال ہوا تو وہ معجزات بھی منقطع ہوگئے جبکہ ہمارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے معجزات قیامت تک باقی رہیں گے ۔(عصیدۃ الشہدۃ شرح قصیدۃ البردۃ،ص۲۱۸)…علمیہ
[356] … عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم ما من الانبیاء من نبی الا قد اعطی من الاٰیات ما مثلہ اٰمن علیہ البشر وانما کان الذی اوتیت وحیا اوحی اللّٰہ الیّ فارجو ان اکون اکثرہم تابعاً یوم القیامۃ۔ متتفق علیہ(مشکوٰۃ باب فضائل سید المرسلین صلوٰۃ اللّٰہ وسلامہ علیہ) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ نبیوں میں سے کوئی نبی نہیں مگر یہ کہ معجزات میں سے اسے ایسا معجزہ عطا ہوا کہ جس کی صفت یہ ہے کہ اسے دیکھ کر لوگ ایمان لائے اور سوائے اس کے نہیں کہ مجھے جو معجزہ عطا ہوا وہ وحی ہے جو اللّٰہ نے میری طرف بھیجی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میں امت کے لحاظ سے ان سے زیادہ ہوں گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔۱۲منہ…(مشکاۃ المصابیح، کتاب الفضائل والشمائل،باب فضائل سید المرسلین،الحدیث:۵۷۴۶،ج۲،ص۳۵۴۔علمیہ)
[357] … دیکھو مقدمہ تاریخ ابن خلدون۔۱۲من
[358] … مقدمۃ ابن خلدون،المقدمۃ السادسۃ فی اصناف المدرکین للغیب۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۰۳۔علمیہ
[359] … ترجمۂکنزالایمان:بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سنانے والا ہو۔
(پ۱۸،الفرقان:۱)۔علمیہ
[360] … قرآنِ پاک کے سوا کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔
[361] … لفظ عرب اعراب سے ہے۔ جس کے معنی ہیں پیدا گفتن سخن را وبفصاحت سخن گفتن۔۱۲منہ
[362] … مہارت۔
[363] … کمینہ۔
[364] … یعنی ان میں ردوبدل ہو چکا تھا۔
[365] … مُشَبَّہ: حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّنا و عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام کو خدا کے مشابہ قرار دینے والے ۔ مُجَسَّمَہ:بت پرست۔ تَنَاسُخِیَّہ: وہ لوگ جن کا عقیدہ ہے کہ روح ایک قالب سے دوسرے میں منتقل ہو جاتی ہے۔دَہْرِیَہ: خدا کو نہ ماننے والے،لامذہب۔
[366] … (یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷) (یونس، ع۶)اے لوگو! تم کو آئی ہے نصیحت تمہارے رب سے اور شفاء واسطے سینوں کے روگ کے اور ہدایت اور رحمت ایمان لانے والوں کے لئے ۔۱۲منہ
ترجمۂکنزالایمان:اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لئے (پ۱۱،یونس:۵۷)۔علمیہ
[367] … بے جا ناز و فخر کرنے پر یہ جملہ کہا جاتا ہے۔
[368] … پیروکاروں کی کمی۔
[369] … ڈھیل دیتے ہوئے۔
[370] … للکار
[371] … علی الاعلان۔
[372] … باوجود اس کے
[373] … ایسے خواب جن کی کوئی تعبیر نہ ہو ۔
[374] … اس کے بعد کے زمانے۔
[375] … بلند و مضبوط دلیل۔
[376] … قرآن کی سب سے چھوٹی سورت یعنی سورۃ الکوثر۔
[377] … جیدشعرائ۔
[378] … دلہن کے کاجل یا تل کا ذکر
[379] … ترجمۂکنزالایمان:تو کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور اگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔
(پ۵،النسا ء:۸۲)۔علمیہ
[380] … ترجمۂکنزالایمان:تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لیے چھپا رکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا ۔
(پ۲۱،السجدۃ:۱۷)۔علمیہ
[381] … ترجمۂکنزالایمان:داخل ہو جنت میں تم اور تمہاری بیبیاں تمہاری خاطریں ہوتیں ان پر دورہ ہوگا سونے کے پیالوں اور جاموں کا اور اس میں جو جی چاہے اور جس سے آنکھ کو لذت پہنچے اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔(پ۲۵،الزخرف:۷۰۔۷۱)۔علمیہ
[382] … ترجمۂکنزالایمان:کیا تم اس سے نڈر ہوئے کہ وہ خشکی ہی کا کوئی کنارہ تمہارے ساتھ دھنسادے یا تم پر پتھراؤ بھیجے،پھر اپنا کوئی حمایتی نہ پاؤ ۔یا اس سے نڈر ہوئے کہ تمہیں دوبارہ دریا میں لے جائے پھر تم پر جہاز توڑنے والی آندھی بھیجے تو تم کو تمہارے کفر کے سبب ڈبو دے پھر اپنے لیے کوئی ایسا نہ پاؤ کہ اس پر ہمارا پیچھا کرے۔(پ۱۵، بنی اسرائیل:۶۸۔۶۹)۔علمیہ
[383] … ترجمۂکنزالایمان:کیا تم اس سے نڈر ہوگئے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسادے جبھی وہ کانپتی رہے یا تم نڈر ہوگئے اس سے جس کی سلطنت آسمان میں ہے کہ تم پر پتھراؤ بھیجے تو اب جانو گے کیسا تھا میرا ڈرانا۔(پ۲۹،الملک:۱۶۔۱۷)۔علمیہ
[384] … ترجمۂکنزالایمان:تو ان میں ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ پر پکڑا تو ان میں کسی پر ہم نے پتھراؤ بھیجا اور ان میں کسی کو چنگھاڑ نے آلیا اور ان میں کسی کو زمین میں دھنسادیااور ان میں کسی کو ڈبو دیا اور اللّٰہ کی شان نہ تھی کہ ان پر ظلم کرے ہاں وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (پ۲۰،العنکبوت:۴۰)۔علمیہ
[385] … ترجمۂکنزالایمان:بھلا دیکھو تو اگر کچھ برس ہم انہیں برتنے دیںپھر آئے ان پر وہ جس کا وہ وعدہ دئیے جاتے ہیںتو کیا کام آئے گا ان کے وہ جو برتتے تھے۔(پ۱۹، الشعرائ:۲۰۵۔۲۰۷)۔علمیہ
[386] … ترجمۂکنزالایمان: اللّٰہ جانتا ہے جو کچھ کسی مادہ کے پیٹ میں ہے اور پیٹ جو کچھ گھٹتے اور بڑھتے ہیںاور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا سب سے بڑا بلندی والابرابر ہیں جو تم میں بات آہستہ کہے اور جو آواز سے اور جو رات میں چھپا ہے اور جو دن میں راہ چلتا ہے ۔(پ۱۳،الرعد:۸۔۱۰)۔علمیہ
[387] … سورۃ البقرۃ ، اٰل عمران ، النساء ، المائدۃ ، الانعام، الاعراف ، الانفال ، التوبۃ ، یہ آٹھ سورتیں سبع طوال کہلاتی ہیں اور الانفال اور التوبۃ کے درمیان بسم اللّٰہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک شمارکیا گیا ہے۔علمیہ
[388] … کتاب الشعر والشعراء لابن قتیبۃ، ترجمہ لبید بن ربیعہ۔
[389] … ان مثالوں کے لئے دیکھو شفاء شریف اور مواہب لدنیہ۔۱۲منہ
[390] … ترجمۂکنزالایمان:تو علانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے۔ (پ۱۴،الحجر:۹۴)۔علمیہ
[391] … مطلب یہ ہے کہ جب وہ حضرت یوسف سے بہت مایوس ہوگئے تو الگ ہوکر باہم مشورہ کرنے لگے اور سوچنے لگے کہ باپ کے پاس جا کر کیا جھوٹ بناکر کہیںگے اور اس حادثہ کا کیا ذکر کریں گے۔ پس یہ تھوڑے سے کلمے اس طویل قصے کو شامل ہیں۔ ۱۲منہ…(ترجمۂ کنزالایمان:پھر جب اس سے نا امید ہوئے الگ جاکر سرگوشی کرنے لگے۔ (پ۱۳،یوسف:۸۰)۔علمیہ
[392] … الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل فی اعجاز القرآن،الجزء الاول،ص۲۶۲۔علمیہ
[393] … ترجمۂکنزالایمان: اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایاکہ اسے دودھ پلا پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈراور نہ غم کربیشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے ۔(پ۲۰،القصص:۷)۔علمیہ
[394] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع فی معجزاتہ الدالۃ علی ثبوت نبوتہ،ج۶،ص۴۳۷-۴۳۸۔علمیہ
[395] … الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،فصل فی اعجاز القرآن،الجزء الاول،ص۲۶۲۔علمیہ
[396] … ترجمۂکنزالایمان:اور جو حکم مانے اللّٰہ اور اس کے رسول کا اور اللّٰہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔
(پ۱۸،النور:۵۲)۔علمیہ
[397] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ ابن مقنع ‘‘ لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ’’ المواہب اللدنیۃ ‘‘ وغیرہ میں’’ ابن مُقَــفَّع ‘‘ہے لہٰذا ہم نے یہاں ’’ المواہب اللدنیۃ ‘‘کے مطابق ’’ ابن مُقَــفَّع ‘‘ لکھا ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔علمیہ
[398] … ترجمۂکنزالایمان:اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہ ِ جودی پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ۔(پ۱۲،ہود:۴۴)۔علمیہ
[399] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع فی معجزاتہ الدالۃ علی ثبوت نبوتہ،ج۶،ص۴۴۴۔علمیہ
[400] … دیکھو حجۃ اللّٰہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین للنبہانی،مطبوعہ بیروت، ص ۳۰۹۔۱۲منہ
[401] … حجۃ اللّٰہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین،الفصل الثانی فی بیان وجوہ۔۔۔الخ،ص۲۲۸۔علمیہ
[402] … بیہودہ ، واہیات و بے فائدہ
[403] … دیکھواتقان للسیوطی، جزء ثانی، صفحہ ۶۸۔۱۲منہ
[404] … چیلنج دینا
[405] … الاتقان فی علوم القرآن، النوع السادس والخمسون فی الایجاز والاطناب،ج۲،ص۳۹۳۔۳۹۴۔علمیہ
[406] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیںاور بیشک تمہارا رب ضرور وہی عزت والا مہربان ہے۔ (پ۱۹،الشعرائ:۸۔۹)۔علمیہ
[407] … ترجمۂکنزالایمان: بیشک ہم نے قرآن یاد کرنے کے لیے آسان فرمادیا تو ہے کوئی یاد کرنے والا ۔(پ۲۷،القمر:۱۷)۔علمیہ
[408] … ترجمۂکنزالایمان:تو اے جن و انس تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے ۔(پ۲۷،الرحمن:۱۳)۔علمیہ
[409] … ترجمۂکنزالایمان: اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی۔ (پ۲۹،المرسلٰت:۴۹)۔علمیہ
[410] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک اس میں ضرور نشانی ہے۔ (پ۱۹،الشعرائ:۸)۔علمیہ
[411] … پ۲۷،القمر:۱۷۔علمیہ
[412] … ترجمۂکنزالایمان:تو اے جن و انس تم دونوں اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے ۔(پ۲۷،الرحمٰن:۱۳)۔علمیہ