اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ و حروف کلامِ عرب کی جنس سے ہیں اور ان کی نظم و نثر میں مستعمل ہیں مگر اس کا اُسلوب تمام اَسالیب سے جدا ہے اور اَنواعِ کلام (قصائد، خطب، رسائل، محاورہ) میں سے کسی سے نہیں ملتا۔ بایں ہمہ سب اَنواع کے محاسن کا جامع ہے۔ اہل عرب اَنواع چہار گانہ کے سوا کوئی او ر اُسلوب و طرزنہ جانتے تھے اور نہ کسی نئے طرز میں کلام کرسکتے تھے پس ایک عجیب نرالے اسلوب کا آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (جواُمی تھے) کی زبان مبارک پر جاری ہونا عین اعجاز ہے۔
اس کتاب میں پہلے مذکور ہوچکا ہے کہ ایک روز وَلید بن مُغِیرَہ نے قریش سے کہا کہ ایامِ حج قریب ہیں عرب کے قبائل تم سے اس مدعی نبوت (حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کی نسبت دریافت کریں گے تم اس کی نسبت ایک رائے قائم کرلو۔ اس پر قریش نے مختلف رائیں پیش کیں کہ وہ کاہن ہے،دیوانہ ہے، شاعر ہے،جادو گر ہے۔ ولید
نے یکے بعد دیگرے ان تمام کی تردید کرکے کہا:
’’ اللّٰہ کی قسم! اس کے کلام میں بڑی حلاوَت ہے۔ اس کلام کی اصل مضبوط جڑوالا درخت خرما ہے اور اس کی فرع پھل ہے۔ ان باتوں میں سے جو بات تم کہوگے وہ ضرور پہچان لی جائے گی کہ جھوٹ ہے۔ اس کے بارے میں صحت کے قریب تر قول یہ ہے کہ تم کہو وہ جادو گر ہے اور ایسا کلام لایا ہے جو جادو ہے۔ اس کلام سے وہ باپ بیٹے میں ، بھائی بھائی میں ، میاں بیوی میں ، خویش و اقارب میں جدائی ڈال دیتا ہے۔‘‘
اسی طرح ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجد میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ قریش نے اپنے سردار عُتْبَہ بن رَبیعہ کو آپ کی خدمت میں بھیجااور اس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کئی باتیں پیش کرکے کہا کہ ان میں سے ایک پسند کرلیجئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کے جواب میں سورۂ حم السجدہ کی شروع کی آیتیں تلاوت فرمائیں ۔ عتبہ نے قریش سے جاکر کہا:
’’ اللّٰہ کی قسم ! میں نے ایسا کلام سنا کہ اس کی مثل کبھی نہیں سنا اللّٰہ کی قسم ! وہ شعر نہیں نہ جادو ہے نہ کہانت۔ اے گروہ قریش! میرا کہا مانو:اس شخص کو کرنے دوجو کرتا ہے، اور اس سے الگ ہوجاؤ۔ اللّٰہ کی قسم! میں نے جو کلام اس سے سنا ہے اس کی بڑی عظمت و شان ہوگی اگر عرب اس کو مغلوب کرلیں تو تم غیر کے ذریعے سے اس سے بچ گئے۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس کا ملک تمہارا ملک ہے اور اس کی عزت تمہاری عزت ہے اور تم اس کے سبب سے خوش نصیب ہوجاؤگے۔‘‘
قریش یہ سن کر کہنے لگے کہ اس نے تو اپنی زبان سے تجھے بھی جادو کردیا۔ عتبہ بولا کہ ’’ اس کی نسبت میری یہی رائے ہے تم کرو جو چاہو۔‘‘
صحیح مسلم میں حدیث اسلام ابو ذَر غفاری میں خود ابو ذر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میرے بھائی انیس نے مجھ سے کہا کہ مجھ کو مکہ میں ایک کام ہے تو بکریوں کی حفاظت رکھنا۔ یہ کہہ کر انیس چلاگیا اور مکہ پہنچ گیا دیر کے بعد واپس آیا تو میں نے پوچھا: تو نے کیا کیا؟ وہ بولا: میں مکہ میں ایک شخص سے ملاجو کہتا ہے کہ میں اللّٰہ کا رسول ہوں ۔ میں نے پوچھا کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ لوگ کہتے ہیں : وہ شاعر ہے، کاہن ہے، جادو گر
ہے۔ پھر انیس ہی جو خود بڑا شاعر تھاکہنے لگا:
’’ اللّٰہکی قسم ! میں نے کاہنوں کا کلام سنا ہوا ہے، اس کا کلام کاہنوں کا کلام نہیں ۔ اللّٰہ کی قسم ! میں نے اس کے کلام کو شعر کی تمام قسموں کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، میرے بعد کسی سے یہ نہ بن پڑے گا کہ کہے :وہ کلام شعر ہے۔ اللّٰہ کی قسم! وہ سچے نبی ہیں اور کافر بیشک جھوٹے ہیں ۔’‘([1] )
اس حدیث میں اس کے بعد یہ مذکور ہے کہ یہ سن کر ابو ذر غفاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مکہ میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور اسلام لائے۔ جب اپنے بھائی انیس کے پاس واپس آئے تو ان کے اسلام کی خبر سن کر حضرت انیس اور ان کی والدہ بھی ایمان لے آئے۔ پھر تینوں اپنی قوم غفار میں آئے آدھی قوم ایمان لے آئی۔ جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو باقی بھی ایمان لے آئے۔ اس طرح قبیلہ اسلم بھی مسلمان ہوگیا۔ اس پر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’غفار غفر اﷲ لھا واسلم سالمھا اﷲ’‘یعنی اللّٰہ تعالٰی قبیلہ غفار کو بخش دے اور قبیلہ اسلم کو سلامت رکھے۔([2] )
ابن سعد نے طبقات میں بروایت یزید بن رومان اور محمد بن کعب اور شعبی اور زہیری وغیرہ روایت کیا ہے کہ بنی سلیم میں سے ایک شخص جس کا نام قیس بن نسیبہ تھا رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کا کلام سنا اور آپ سے کئی باتیں دریافت کیں آپ نے ان کا جواب دیا اس نے وہ سب کچھ یاد کرلیاپھر آپ نے اسے دعوت اسلام دی وہ ایمان لے آیا اور اپنی قوم میں جاکر کہنے لگا:
’’ بے شک میں نے روم کا ترجمہ،فارس کا زَمزمہ،([3] ) عرب کے اشعار، کاہن کی کہانت اور ملوک حِمیَر کا کلام سنا ہے مگر محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کا کلام ان کے کلام میں سے کسی سے نہیں ملتا اس لئے تم میرا کہا مانواور اس سے بہرہ ور ہوجاؤ۔‘‘
اس طرح بنو سلیم فتح مکہ کے سال مقام قدید میں خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور اسلام لائے۔ وہ سات([4] ) سوتھے اور کہا گیا ہے کہ ایک ہزار تھے۔ عباس بن مرد اس اور انس بن عباس بن رعل اور راشد بن عبدربہ انہیں میں تھے۔([5] )
قرآن مجید کے اسلوب بدیع کی نسبت مولیٰنا شاہ ولی اللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یوں فرمایا ہے:
’’ قرآن کو متونِ کتب کی طرح بابوں اور فصلوں میں تقسیم نہیں کیا گیا تاکہ تو ہر مطلب اس میں سے معلوم کر لے یا ایک فصل میں مذکور ہو بلکہ قرآن کو مکتوبات کا مجموعہ فرض کر جس طرح کوئی بادشاہ اپنی رعایا کو بحسب اقتضائے حال ایک فرمان لکھے اور کچھ مدت کے بعد دوسرا فرمان لکھے اور اسی طرح لکھتا جائے یہاں تک کہ بہت سے فرمان جمع ہوجائیں پھر ایک شخص ان فرمانوں کو جمع کرکے ایک مجموعہ تیار کردے۔ اسی طرح اس مَلِک علی الاطلاق نے اپنے بندوں کو ہدایت کے لئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر مقتضائے حال کے موافق یکے بعد دیگرے سورتیں نازل فرمائیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ مبارک میں ہر سورت الگ الگ محفوظ تھی مگر سورتوں کو ایک جگہ جمع نہ کیا گیا تھا۔
حضرت ابو بکر و عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے زمانے میں تمام سورتوں کو ایک جلد میں خاص ترتیب سے جمع کیا گیا اور اس مجموعہ کا نام مصحف رکھا گیا۔ اَصحاب کرام کے درمیان سورتوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک سبع طوال دوسری مِئِیْن جن میں سے ہر ایک میں سویا کچھ زیادہ آیتیں ہیں ۔ تیسری مثانی جن میں سے ہر ایک میں سو آیتوں سے کم ہیں ۔ چوتھی مفصل اور مصحف کی ترتیب میں دو تین سورتیں جو مثانی میں سے ہیں مِئِیْن میں داخل کردی گئیں کیونکہ ان کے سیاق کو مِئِیْن کے سیاق سے مناسبت ہے۔ اسی طرح بعض دیگر اقسام میں بھی کچھ تصرف ہوا ہے۔ حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اس مصحف کی کئی نقلیں کرا کے اطراف میں بھیج دیں تاکہ ان سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور کسی دوسری ترتیب کی طرف مائل نہ ہوں ۔ چونکہ سورتوں کا اُسلوب بادشاہوں کے فرمانوں سے پوری پوری مناسبت رکھتا تھا اس لئے ابتداء و
انتہا میں مکتوبات کے طریقہ کی رعایت کی گئی۔ جس طرح بعض مکتوبات کو خدا تعالٰی کی حمد سے شروع کرتے ہیں اور بعض کو اس کے املاء کی غرض سے اور بعض کو مرسل اور مرسل الیہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور بعض رقعے اور خطوط بے عنوان ہوتے ہیں اور بعض مکتوبات طویل اور بعضے مختصر ہوتے ہیں ۔ اسی طرح خدا تعالٰی نے بعض سورتوں کو حمد وتسبیح سے شروع کیا اور بعض کو اس کے املاء کی غرض کے بیان سے شروع کیا۔ چنانچہ فرمایا:
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ﶈ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲) ( بقرہ، شروع) ([6] )
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا ( نور، شروع) ([7] )
اور قسم مشابہ ہے اس کے ھذا ما صالح علیہ فلان وفلان۔ ھذا ما اوصی بہ فلان اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے واقعہ حدیبیہ میں یوں تحریر فرمایا تھا: ھذا ما قاضی علیہ محمد اور بعض کو مرسل اور مرسل الیہ کے ذکر سے شروع کیا۔ چنانچہ فرمایا:
تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ(۱) (زمر، شروع) ([8] )
كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ(۱) ( ہود، شروع) ([9] )
اور یہ قسم مشابہ ہے اس کے کہ لکھیں ’’حضرت خلافت کا حکم صادر ہوا۔‘‘ یا لکھیں : فلاں شہر کے باشندوں کو حضرت خلافت کی طرف سے یہ آگاہی ہو۔ اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تحریر فرمایا:’’ من محمد رسول اﷲ الی ہرقل عظیم الروم’‘۔اور بعض سورتوں کو رقعات و خطوط کے طور پر عنوان کے بغیر شروع کیا۔ چنانچہ فرمایا:
اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ ( منافقون، شروع) ([10] )
قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا(مجادلہ، شروع) ([11] )
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (تحریم، شروع) ([12] )
چونکہ عرب کی سب سے مشہور فصاحت قصیدے تھے اور قصیدوں کے شروع میں تشبیب میں عجیب مواضع اور ہولناک وقائع کا ذکر کرنا ان کی قدیم رسم تھی اس لئے اس اسلوب کو بعض سورتوں میں اختیار کیا۔ چنانچہ فرمایا:
وَالصّٰفّٰتِ صَفًّاo فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًاo (الصّٰفّٰت، شروع) ([13] )
وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاo فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًاo (ذاریات، شروع) ([14] )
اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْo وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْo (تکویر، شروع) ([15] )
جس طرح مکتوبات کے اَواخر کو جوامع کلم اور نوادِر وصایا اور اَحکام سابقہ کی تاکید اور مخالفین اَحکام کی تہدید پر ختم کرتے تھے۔ اسی طرح سورتوں کے اَواخر کو جوامع کلم اور منابع حکم اور تاکید بلیغ اور تہدید عظیم پر ختم فرمایااور کبھی سورت کے درمیان بڑے بڑے فائدے والے بدیع الاسلوب بلیغ کلام کو ایک طرح کی حمد وتسبیح سے یا نعمتوں اور عطایائے نعمت کے ایک طرح کے بیان سے شروع کیا ہے چنانچہ خالق و مخلوق کے مراتب میں تباین کے بیان کو سورۂ نمل کے اثناء میں آیہ
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰیٓط آٰ للّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُونَ([16] )
سے شروع کیا اور اس کے بعد پانچ آیتوں میں اس مدعا کو نہایت ہی بلیغ وجہ اور نہایت ہی بدیع اسلوب سے بیان فرمایا اور بنی اسرائیل کے مخاصمہ کو سورۂ بقرہ کے اثناء میں الفاظ:
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ ([17] )
سے شروع فرمایا اور ان ہی الفاظ پر ختم کیا۔ پس اس مخاصمہ کا اس کلام سے شروع کرنا اور اسی کلام پر ختم کرنا کمال درجہ کی بلاغت ہے۔ اسی طرح یہود و نصاری کے مخاصمہ کو سورۂ آل عمران میں آیہ
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫- ([18] )
سے شروع فرمایا تاکہ محل نزاع معین ہوجاوے اور قیل و قال کا توارُد اس مدعا پر واقع ہو۔ ([19] ) و اللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال ۔ انتہٰی ۔([20] )
قرآن میں پہلے نبیوں اور گزشتہ اُمتوں اور قُرُونِ مَاضیہ ([21] )کے قصے مذکور ہیں مثلاً حضرت آدم و حوا کا قصہ، حضرت نوح و طوفان کا قصہ، حضرت ابراہیم و سارہ کا قصہ، حضرت اسحاق اور حضرت لوط کے حالات، حضرت مریم و تولد مسیح ([22] )کا قصہ، ابتدائے پیدائش کا حال، ان میں بعض قصے جو علمائے اہل کتاب کو بھی شاذو نادر ہی معلوم تھے یہود کے سوال کرنے پر بتائے گئے مثلاً اصحاب کہف کا قصہ، ذوالقرنین کا قصہ، حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کا قصہ، حضرت موسیٰ وخضر کا قصہ۔ یہ تمام قصے قرآن مجید میں کتب سابقہ الہامیہ([23] ) کے مطابق مذکور ہیں ۔
قرآن میں شرائع سابقہ کے اَحکام مذکور ہیں ۔ مثلاً سورۂ مائدہ رکوع اوَّل میں ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ
حرام ہوا تم پر مردہ اور لہو اور گوشت سور کا اور جس چیز پر نام لیا گیا اللّٰہ کے سوا کا اور جو مر گیا گلا گھٹ کر۔([24] )
اعمال باب ۱۵، آیہ ۲۹ میں ہے:
’ ’ تم بتوں کے چڑھاوؤں اور لہو اور گلاگھونٹی ہوئی چیزوں اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔‘‘
اس آیت میں جو سور کے گوشت کی جگہ حرامکاری لکھا ہے درست نہیں کیونکہ اس مقام پر حلال و حرام خوراک کا ذکر ہے حرام کاری سے کیا عَلَاقَہ۔([25] )
قرآن میں بعض احکام بحوالہ کتب الہامیہ سابقہ مذکور ہوئے ہیں مثلاً سورۂ مائدہ رکوع ۷ میں ہے:
وَ كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ فِیْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِۙ-وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّۙ-وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌؕ-
اور لکھ دیا ہم نے ان پر قصاص اس کتاب (تورات ) میں کہ جی کے بدلے جی اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخم کا بدلہ برابر۔([26] )
تورات، کتاب الخروج، باب ۲۱، آیہ ۲۳۔ ۲۵ میں یوں ہے:
’’ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، پاؤں کے بدلے پاؤں ، جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم، چوٹ کے بدلے چوٹ۔‘‘
بعض احکام یہود کے طعن کے جواب یا ان کی تردید میں وارد ہوئے ہیں چنانچہ سورۂ آل عمران، رکوع ۱۰ میں ہے:
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِیْلُ عَلٰى نَفْسِهٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُؕ- قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىةِ فَاتْلُوْهَاۤ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۹۳)
سب کھانے کی چیزیں حلال تھیں بنی اسرائیل کو مگر جو حرام کرلی تھیں اسرائیل ( یعقوب) نے اپنی جان پر تورات نازل ہونے سے پہلے۔ توکہہ لاؤ تورات اور پڑھو اسے اگر سچے ہو۔([27] )
اس آیت کا شانِ نزول موضح القرآن میں یوں لکھاہے: ’ ’یہود آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کہتے کہ تم کہتے ہو ہم ابراہیم کے دین پر ہیں اور ابراہیم کے گھرانے میں جو چیزیں حرام ہیں سوکھاتے ہو، جیسا کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ۔ اللّٰہنے فرمایا کہ جتنی چیزیں اب لوگ کھاتے ہیں سب ابراہیم کے وقت میں حلال تھیں یہاں تک کہ تورات نازل ہوئی۔ تورات میں خاص بنی اسرائیل پر حرام ہوئی ہیں مگر ایک اونٹ کہ تورات سے پہلے حضرت یعقوب نے اس کے کھانے سے قسم کھائی تھی ان کی تَبْعِیَّت([28] ) سے ان کی اولاد نے بھی چھوڑدیا تھااور قسم کا سبب یہ تھا کہ ان کو ایک مرض ( عرق النسائ) ہوا تھا انہوں نے نذر کی کہ اگر میں صحت پاؤں تو جو میری بہت بھاؤ کی چیز([29] )ہے وہ چھوڑ دوں گا۔ ان کو یہی بہت بھاتا تھا سو نذر کے سبب چھوڑدیا۔‘‘
اسی طرح خود یہود پر جو چیزیں حرام تھیں ان کی نسبت وہ کہتے کہ یہ ہم ہی پر حرام نہیں ہوئیں بلکہ حضرت نوح و حضرات ابراہیم اور پہلی امتوں پر بھی حرام تھیں ۔ ان کے اس خیال کی تردید آیۂ ذیل میں مذکور ہے:
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍۚ-وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍؕ-ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ ﳲ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۱۴۶) ( انعام، ع۱۸)
اور ان پر ہم نے حرام کیاتھا ہر ناخن والا اور گائے اور بکری میں سے ہم نے حرام کی ان پر ان دونوں کی چربی مگر جو لگی ہو پشت پر یا آنت میں یا ملی ہو ہڈی کے ساتھ۔ یہ ہم نے ان کو سزا دی تھی ان کی شرارت([30] )پر اور ہم سچ کہتے ہیں ۔([31] )
جانوروں کے حلال وحرام کے احکام کی طرح اَحکامِ جنب و حائض و نُفَسَاء بھی قرآن میں کتب سابقہ کے مطابق بیان ہوئے ہیں ۔
ناظرین کرام! موافق و مخالف سب کو معلوم ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُمی تھے۔نہ کبھی کسی استاد کے آگے زانوئے شاگردی تہ کیااور نہ کبھی علمائے اہل کتاب میں سے کسی عالم کی صحبت سے اِستفادہ فرمایا۔ جیسا کہ پہلے آچکا ہے۔ پس تَعلُّم و مُجالَسَتِ علماء کے بغیر قصص مذکورہ بالا اور احکام ملل سابقہ کی خبر اس طرح دینا کہ مصدق کتب الہامیہ سابقہ ہو ([32] )ا س امر کی دلیل ہے کہ یہ سب اللّٰہ تعالٰی نے حضور کو وحی کے ذریعے بتایا۔ اسی واسطے یہود و نصاریٰ کی ایک جماعت آپ پر ایمان لائی اور باقی جو اس نعمت سے محروم رہے اس کا سبب محض حسدو عناد تھا۔
قصص و احکام کے علاوہ قرآن میں کتب سابقہ کے بعض اور مضامین صراحۃً یا اشارۃً بصورت اعمال کتب مذکور ہیں ۔ دیکھو آیاتِ ذیل:
…{1}
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵) بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ(۱۶) وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ(۱۷) اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰىۙ(۱۸) صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى۠(۱۹) ( سورۂ اعلٰی)
بیشک بھلا ہوا اس کا جو سنورا اور پڑھا نام اپنے رب کا پھر نماز پڑھی۔ بلکہ تم آگے رکھتے ہودنیا کا جینا اور آخرت بہتر ہے اور رہنے والی۔ یہ لکھا ہے پہلے صحیفوں میں ، صحیفوں میں ابراہیم کے اور موسیٰ کے۔([33] )
…{2}
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ فَسْــٴَـلْ بَنِیْۤ
اور ہم نے دیں موسیٰ کو نونشانیاں صاف سوپوچھ بنی اسرائیل سے
اِسْرَآءِیْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا(۱۰۱) ( بنی اسرائیل،ع۱۲)
جب آیا وہ ان کے پاس تو کہا اس کو فرعون نے میری اٹکل میں اے موسیٰ تجھ پر جادو ہوا ہے۔([34] )
اس آیت میں نو نشانیوں سے وہ نو معجزے مراد ہیں جو اللّٰہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کو فرعون کے مقابلے میں عطا کیے۔ ان نو نشانیوں کا ذکر تورات( کتاب الخروج، باب ۷ تا ۱۰) میں بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔
…{3}
ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ﳝ- وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ﱠ كَزَرْعٍ اَخْرَ جَ شَطْــٴَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَؕ- (سورۂ فتح،ع۴)
یہ صفت ہے اُن کی تورات میں اور صفت ہے ان کی انجیل میں جیسا کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا پھر اس کی کمر مضبوط کی پھر پٹھا موٹا ہوا پھر کھڑا ہوا اپنی نال پر خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو تاجلاوے ان سے جی کافروں کا۔([35] )
تورات موجودہ ( کتاب پیدائش، باب ۲۶،آیہ۱۲۔۱۳) میں یہ تفصیل یوں پائی جاتی ہے:
’’ اور اسحق نے اس زمین میں کھیتی کی اور اسی سال سوگنا حاصل کیااور خداوند نے اسے برکت بخشی اور وہ مرد بڑھ گیااور اس کی ترقی چلی جاتی تھی یہاں تک کہ بہت بڑا آدمی ہوگیا۔‘‘
اور انجیل مَتّٰی، باب ۱۳،آیہ۳۱۔۳۲ میں یوں ہے:
’’وہ ان کے واسطے ایک اور تمثیل لایاکہ آسمان کی بادشاہت خردَل کے دانے([36] )کی مانند ہے جسے ایک شخص نے لے کر اپنے کھیت میں بو یا وہ سب بیجوں میں چھوٹا، پَر جب اُگاسب ترکاریوں سے بڑا ہوتااور ایسا پیڑ ہوتا کہ ہوا
کی چڑیاں آکے اس کی ڈالیوں پر بسیر اکرتیں ۔ ‘‘
…{4}
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ-یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ- وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِؕ- ( سورۂ توبہ،ع۱۴)
اللّٰہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور مال اس قیمت پر کہ ان کے لئے بہشت ہے۔ لڑتے ہیں اللّٰہ کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں ۔ وعدہ ہوچکا اس کے ذمے پر تورات اور انجیل اور قرآن میں ۔([37] )
موجودہ کتب عہد عتیق و جدید میں بہت جگہ جہاد کا ذکر ہے۔ تفصیل کے لئے مصابیح الظلام اردو اور فارسی مولفہ خاکسار دیکھو۔ پولوس عبرانیوں کو اپنے نامہ (باب ۱۱، آیہ ۳۲۔۳۳) میں یوں لکھتا ہے:
’’اب میں کیا کہوں فرصت نہیں کہ جِدعُون اور برق اور سَمْسُون اور افتح اور داؤد اور سموئیل اور نبیوں کا حال بیان کروں ۔ انہوں نے ایمان سے بادشاہوں کو مغلوب کیااور راستی ([38] )کے کام کیے او ر وعدوں کو حاصل کیا اور شیرببر کے منہ بند کیے۔‘‘
…{5}
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ(۱۰۵) (انبیاء، ع۷)
اور ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں بعد ذکر (تورات ) کے کہ آخر زمین پر مالک ہوں گے میرے نیک بندے۔([39] )
زبور ۷ ۳، آیہ ۲۹ میں ہے: ’’صادِق زمین کے وارث ہوں گے۔‘‘
…{6}
لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۷۸)( مائدہ، ع۱۱)
لعنت کھائی منکروں نے بنی اسرائیل میں سے داؤد اور مریم کے بیٹے عیسٰی کی زبان پر۔ یہ اس سبب سے کہ گنہگار تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔([40] )
حضرت داؤد عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام فرماتے ہیں :
’’ وے جو میری برائی سے خوش ہوتے ہیں شرمندہ اور رسوا ہو ویں اور جو میری دشمنی پر پھولتے ہیں شرمندگی اور رسوائی کا لباس پہنیں ۔‘‘ (زبور ۳۵، آیہ ۲۵)
حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام فرماتے ہیں :
’’ اے ریا کار فقیہو اور فَرِیسیو! ([41] )تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو باہر سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں ۔ پَربھیتر ([42] ) مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی ناپاکی سے بھری ہیں ۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں لوگوں کو راست بازدکھائی دیتے ہو پر باطن میں ریا کار اور شرارت سے بھرے ہو۔‘‘ (انجیل متی، باب ۲۳، آیہ ۲۸)
…{7}
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۶) ( صف، ع۱)
جب کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل! میں بھیجا آیا ہوں اللّٰہ کا تمہاری طرف سچا کرتا اس کو جو مجھ سے آگے ہے تورات سے اور خوشخبری سناتا ایک رسول کی جو آوے گا مجھ سے پیچھے اس کا نام احمد ہے۔ پھر جب آیا ان کے پاس وہ رسول کھلے نشان لے کر بولے یہ جادو ہے صریح۔([43] )
اس آیت کا پہلا حصہ متی، باب۵، آیہ ۱۷۔۱۸۔ اور پچھلا حصہ یوحنا، باب ۱۴، آیہ ۱۶ میں ہے۔ مگر یوحنا کے موجودہ یونانی نُسخوں میں آیہ زیر استدلال میں بجائے لفظ احمد کے لفظ پاراقلیطوس (Paracletos)ہے جس کے معنی انگریزی میں کمفرٹر اور اردو میں تسلی دینے والا درج کردیئے گئے ہیں ۔ مگر یہ صاف تحریف لفظی ہے۔ اصل میں یونانی لفظ پر یقلیطوس (Pariclytos)تھا جس کے معنی ہیں بہت سراہا ہوا یعنی احمد، اہل کتاب جو اپنی کتابوں میں تحریف کرتے رہے ہیں انہوں نے لفظ پر یقلیطوس کو بدل کر پار اقلیطوس بنادیا۔ جروم جس نے چوتھی صدی مسیحی میں انجیل کا لاطینی ترجمہ کیا اس نے لفظ زیر بحث کو لا طینی میں پیر قلی طاس لکھا ہے جس سے صاف پایا جاتا ہے کہ اصلی نسخہ یونانی جو جروم کے پاس تھا اس میں پریقلیطوس تھانہ کہ پاراقلیطوس۔ اسی طرح انجیل برنباس میں بھی پریقلیطوس موجود ہے۔ علاوہ ازیں اگر انجیل میں بشارت احمد نہ ہوتی تو علمائے اہل کتاب کبھی قرآن کی صداقت پر ایمان نہ لاتے بلکہ اس کے بر عکس قرآن مجید کی تکذیب کرتے۔
…{8}
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ﳎ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ
اسی سبب سے لکھا ہم نے بنی اسرائیل پر کہ جو کوئی مارڈالے ایک جان بغیر بدلے جان کے فساد کے بیچ زمین کے تو گویا مار ڈالا اس
فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- ( مائدہ،ع۵)
نے سب لوگوں کو اور جس نے جلایا ایک جان کو تو گویا جلایا اس نے سب لوگوں کو۔ ([44] )
اس آیت کے متعلق تفسیر موضح القرآن میں یوں لکھا ہے: ’’یعنی ا وَّل روئے زمین میں بڑا گناہ یہی ہوا اور اس سے آگے رسم پڑی۔ اسی سبب سے تورات میں اس طرح فرمایا کہ ایک کو مارا جیسے سب کو مارا یعنی ایک کے کرنے سے اور دلیر ہوتے ہیں تو سب کے گناہ میں اول بھی شریک تھے اور جیسا ایک کو جلایا سب کو جلادیایعنی ظالم کے ہاتھ سے بچادیا۔‘‘
آیت مذکورہ بالا کا مضمون اب تورات موجودہ میں نہیں ملتا مگر تلمود ([45] ) یعنی احادیث یہود سے پایا جاتا ہے کہ اس میں تھا۔ چنانچہ کتاب پیدائش، باب ۴، آیت ہذا میں لفظ خون اصل عبرانی میں بصیغہ جمع ہے۔ اس کی تفسیر میں شناہ سنہدرین ([46] ) میں مفسر یہودی نے جو کچھ عبرانی میں لکھا ہے۔ اس کا ترجمہ ولیم سینٹ کلرئزل واعظ مشن جلفہ واقع ایران فارسی میں یوں کرتا ہے:
’’نسبت بقاین کہ برادر خو درا کشت یافتہ ایم کے دربارۂ وے گفتہ: آواز خوں ہائے برادرت فریاد برمے آورد نمے گوید خون برادرت بلکہ خونہائے برادرت یعنی خون وے و خون اولادش بنا بریں انسان بہ تنہائی آفریدہ شد۔ برائے آزمودنِ توکہ ہرکہ ہلاک کردیکے نفسے از اسرائیل را کتاب بروے حسابش رامے نماید کہ گویا ہمہ عالم را ہلاک کردہ باشدو ہر کہ یکے نفسے از اسرائیل را زندہ کردکتاب بر وے حسابش را مے نماید کہ گویا ہمہ عالم را زندہ کردہ باشد۔‘‘(ینابیع الاسلام، صفحہ ۳۹۔۴۰)
اس ترجمے میں کتاب سے مراد بظاہر تورات ہے۔ فَافْہَمْ! ([47] )…
{9} وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ (نساء، ع۲۲)
اور ان کے سود لینے پر حالانکہ وہ اس سے منع کیے گئے۔ ([48] )
تفسیر حسینی میں ہے:’’حالانکہ نہی کردہ شدہ اند از اخذ ربو در تورات۔‘‘ تورات میں یہ ممانعت احبار،باب۲۵، آیہ ۳۶ میں ہے۔
آیات مذکورہ بالا کا اس نبی اُمی ( بِاَبِی ہُوَ وَ اُ مِّی) کی زبان مبارک سے نکلنا بجز وحی الٰہی نا ممکن تھا لہٰذا یہ سب اِخْبَار بِالْمُغَِیّبات ([49] )کی قسم سے ہیں اور ان کی صحت میں کسی مخالف نے چون و چرا نہیں کی۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اہل کتاب کو وہ باتیں بتادیں جنہیں وہ چھپاتے تھے۔ (مائدہ، ع ۳)حالانکہ وہ ان کی کتابوں میں موجود تھیں مثلاً نبی آخر الزمان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت پیشین گوئیاں ، آپ کے اوصاف، حکم رجم وغیرہ مگر ان
میں سے کوئی بھی اپنی کتاب پیش کرکے آپ کی تکذیب نہ کر سکا۔ اس سے بڑھ کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صداقت کا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) (سورۂ نجم) ([50] )
کتب اِلہامیہ کا محاورہ بھی قابل غور ہے دیکھئے آیات ذیل:
{1}… فَاِنَّهُمْ لَا یُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ یَجْحَدُوْنَ(۳۳) (انعام،ع۴)
سو وہ تجھ کو نہیں جھٹلاتے لیکن بے انصاف اللّٰہکے حکموں سے منکر ہوئے جاتے ہیں ۔ ([51] )
اول سموئیل، باب ۸، آیہ ۷ میں ہے:
’’وہ تجھ سے منکر نہیں ہوئے ہیں بلکہ مجھ سے منکر ہوئے ہیں ۔‘‘
{2}… نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَۗۙ-كِتٰبَ اللّٰهِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ كَاَنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ٘(۱۰۱) ( بقرہ، ع۱۲)
پھینک دی ایک جماعت نے کتاب پانے والوں میں سے اللّٰہ کی کتاب اپنی پیٹھوں کے پیچھے گویا کہ ان کو معلوم نہیں ۔([52] )
نحمیاہ، باب ۹، آیہ ۲۶ میں ہے:
’’اور انہوں نے تیری شریعت کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔‘‘
{3}… وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(۴۷) (حج، ع۶)
اور ایک دن ([53] )تیرے رب کے ہاں ہزار برس کے برابر ہے ۔ جو تم گنتے ہو۔([54] )
زبور۹۰، آیہ ۴ میں ہے:
’’ہزار برس تیرے آگے ایسے ہیں جیسے کل کا دن جو گز رگیا۔‘‘
{4}… تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّؕ-وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْؕ- (بنی اسرائیل،ع۵)
اس کی ستھرائی بولتے ہیں آسمان ساتوں اور زمین اور جوکوئی ان میں ہے اور کوئی چیز نہیں جو نہیں پڑھتی خوبیاں اس کی لیکن تم نہیں سمجھتے ان کا پڑھنا۔([55] )
زبور ۱۹، آیہ ۲۔۳میں ہے:
’’آسمان خدا کا جلال بیان کرتے ہیں اور فضا اس کی دستکاری دکھاتی ہے۔ ایک دن دوسرے دن سے باتیں کرتا ہے ا ور ایک رات دوسری رات کو معرفت بخشتی ہے۔ ان کی کوئی لغت اور زبان نہیں ان کی آواز سنی نہیں جاتی۔‘‘
{5}… كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ- (حدید، ع۳)
جیسے کہاوت ایک مینہ کی جو خوش لگا کسانوں کو اس کا سبزہ اگنا پھر زور پر آتا ہے پھر تو دیکھے اس کو زرد ہوگیا پھر ہوجاتا ہے روندن۔([56] )
زبور۹۰، آیہ ۶ میں ہے:
’’وے ([57] )فجر کو اس گھاس کی مانند ہیں جو اُگی ہو وہ صبح کو لہلہاتی ہے اور تروتازہ ہوتی ہے شام کو کاٹی جاتی ہے
اور سوکھ جاتی ہے۔
{6}… اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ- (اعراف، ع۵)
بیشک جنہوں نے جھٹلائی ہماری آیتیں اور ان کے سامنے تکبر کیا نہ کھلیں گے ان کو دروازے آسمان کے اور نہ داخل ہوں گے جنت میں یہاں تک کہ داخل ہو اونٹ سوئی کے ناکے میں اور ہم یوں بدلہ دیتے ہیں گنہگاروں کو۔([58] )
اس آیت کا اخیر حصہ انجیل لوقا، ( با ب ۱۸، آیہ ۲۵) میں یوں ہے:
’’اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا ا س سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو۔‘‘
{7}… وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَ لَا یَضُرُّكَۚ- (یونس، ع۱۱)
اور مت پکار اللّٰہ کے سوا ایسے کو کہ نہ بھلا کرے تیر ا اور نہ برا کرے تیرا۔([59] )
یرمیاہ، باب ۱۰، آیہ ۵ میں ہے:
’’ان کے معبودوں سے مت ڈرو کہ ان میں ضرر پہنچانے کی سکت نہیں اور نہ ان میں قوت ہے کہ فائدہ بخشے۔‘‘
{8}… یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِؕ-
جس دن ہم لپیٹ لیں آسمان کو جیسے لپیٹتا ہے طور مار رقعوں کو جیسے
كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ-وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ(۱۰۴) (انبیآئ، ع۷)
سرے سے بنایا ہم پہلی بار پھر ا س کو دہرا دیں گے۔ وعدہ ہوچکا ہے ہم پر ہم کو کرنا ہے۔([60] )
یسعیاہ، باب ۳۴، آیہ ۴ میں ہے:
’’اور آسمان کا غذ کے تاؤ کے مانند لپیٹے جائیں گے۔‘‘
مکاشفات، باب ۶، آیہ ۱۴ میں ہے :
’’اور آسمان طور مار کی طرح ([61] )جب آپ سے لپیٹا جائے دوحصے ہوگیا۔‘‘
…{9} اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ- (بقرہ،ع۳۴)
جیتا ہے سب کا تھامنے والا نہیں پکڑتی ہے اس کو اونگھ اور نہ نیند۔([62] )
زبور ۲۱، آیہ ۴ میں ہے:
’’دیکھ وہ جو اسرائیل کا محافظ ہے ہر گز نہ اونگھے گا اور نہ سوئے گا۔‘‘
…{10} اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۱۵) (بقرہ، ع۲)
اللّٰہہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی شرارت میں بہکے ہوئے۔([63] )
زبور ۲، آیہ ۴ میں ہے:
’’وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسے گااور خداوند انہیں ٹھٹھوں میں اڑادے گا۔‘‘
اسی طرح زبور۵۹، آیہ۸ میں ہے:
’’پر تو اے خداوند ان پر ہنسے گا تو ساری قوموں کو مسخرہ بنادے گا۔‘‘
ناظرین! آپ اَمثِلہ بالا سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ’’قرآن و دیگر کتب الہامیہ‘‘ میں بلحاظ محاورہ کس قدر مطابقت ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ نزولِ قرآن اور نزولِ کتب سابقہ میں کتنا عرصہ دراز گزرا ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ کتب سابقہ میں تحریف معنوی اور تحریف لفظی اس کثرت سے ہوئی ہے کہ کتابوں تک کا پتہ نہیں چلتا۔ بایں ہمہ قرآن و کتب سابقہ موجودہ میں محاورہ کی ایسی مطابقت کا پایا جانا صاف بتارہا ہے کہ دونوں صورتوں میں ’’ متکلم‘‘ ایک ہی ہے وہ خدائے علیم جس نے تورات حضرت موسیٰ پر، زبور حضرت داؤد پر، انجیل حضرت عیسیٰ پر اور دیگر صحیفے دوسرے نبیوں پر بھیجے اسی نے قرآن مجید اپنے پیارے نبی اُمی (بابی ہو وامی) پر نازل فرمایا جو بخلاف دیگرکتب عبارت میں بھی مُعْجِز([64] )ہے اور مکمل ایسا کہ اس کی موجود گی میں کتب سابقہ جو اپنے اپنے وقت میں مکمل وکافی تھیں نامکمل و منسوخ ہوگئیں ۔
قرآن و کتب الہامیہ سابقہ میں مطابقت مذکورہ بالا کو دیکھ کر آج کل کے عیسائی بھی کفارِ قریش کی طرح کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ باتین اہل کتاب میں سے کسی عالم کی مدد سے لکھی گئی ہیں چنانچہ کبھی یہ گپ اڑاتے ہیں کہ بحیرا راہب نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو یہ سب کچھ سکھایا تھااور کبھی بڑبڑاتے ہیں کہ آپ نے دین مسیحی کا کچھ علم صہیب رُومی سے حاصل کیا تھا ([65] )اور کبھی یہ بَڑ ہانکتے ہیں کہ ظن غالب تو ان راہبوں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس وقت ملک عرب میں عزیز الوجود نہ تھے اور قرآن اکثر جگہوں میں ان کا ذکر تحسین و مدح کے الفاظ میں کرتا ہے۔ ([66] ) مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اس تمام ہرزہ سرائی([67] )کا کیا ثبوت ہے۔ ایسے عناد سے اپنی عاقبت کیوں خراب کررہے ہو۔ پامر عیسائی جس نے قرآن کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے یوں لکھتا ہے:
’’عیسائی مصنفین(حضرت) محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ان کی وحی کا بڑا حصہ ایک نصرانی راہب کی تعلیم کا نتیجہ ہے مگر اس الزام کی تائید میں کوئی شہادت موجود نہیں ۔‘‘([68] )
ہم عیسائیوں سے کھلے الفاظ میں پکار کر کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو پہلے ثابت کرو کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی یہودی یا عیسائی سے تعلیم پائی اور پھر جواب دو کہ مضامین زیر بحث کو ایسے معجز نظام کلام میں کس نے ادا کیا۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے اور سچا دعویٰ ہے کہ قرآن افتراء نہیں اور ناممکن ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا کوئی ایسا قرآن بنائے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کے سوا جو ہوگا وہ مخلوق ہوگا اور مخلوق ایسا قرآن بنانے پر قادر نہیں ۔ مگر یہ اصول دین اور بعض دیگر مضامین میں کتب سابقہ کے مطابق ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کتابیں منجانب اللّٰہ اور اپنے اپنے وقتوں میں مَعْمُوْل بِہَا تھیں ۔([69] ) اس لحاظ سے یہ ان کتابوں کا مُصَدِّق ([70] )اور ان کی صحت کی دلیل ہے کیونکہ یہ معجزہ ہے اور وہ معجزہ نہیں اس لئے وہ اپنے مضامین کی صحت کیلئے اس کی شہادت کی محتاج ہیں نہ کہ یہ۔ پس جب قرآن کتب سابقہ کا مصدق ٹھہرا تو یہ نتیجہ نکلا کہ یہ افتراء نہیں بلکہ اللّٰہ تعالٰی کی طرف سے ہے کیونکہ یہ ایک ایسے بندۂ کامل کے ہاتھ پر ظاہر ہوا جو نہ کوئی علم پڑھا اور نہ علمائے اہل کتاب میں سے کسی کی صحبت میں بیٹھا۔ پھر جو اس کی پیش کردہ کتاب کے مضامین کتب سابقہ کے مطابق پائے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ کتاب وحی الٰہی ہے۔ وہ کتاب جو کتب الہامیہ سابقہ کا صدق ثابت کرے خود افتراء کیسے بن سکتی ہے بلکہ وہ تو اَولیٰ بالصدق ہے۔([71] )یہ تقریر آیۂ ذیل کی تفسیر ہے:
وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ تَفْصِیْلَ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۫(۳۷) (یونس، ع۴)
اور نہیں یہ قرآن کہ کوئی بنالے اللّٰہ کے سوا اور لیکن سچا کرتا ہے اگلے کلام کو اور تفصیل ہے کتاب کی اس میں شبہ نہیں جہاں کے پروردگار سے ہے۔([72])
قرآن میں مومنوں کے دل کی بعض ایسی باتیں مذکور ہیں جہاں عَلَّامُ الغُیُوب ([73] )کے سوا اور کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ دیکھو اَمثلہ ذیل :
…{1}
وَ اِذْ یَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّآىٕفَتَیْنِ اَنَّهَا لَكُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِیْنَۙ(۷) (انفال،ع۱)
اور جس وقت وعدہ دیتا تھا اللّٰہ تم کو ایک ان دوجماعت میں سے کہ تم کو ہاتھ لگے گی اور تم چاہتے تھے کہ بن شوکت والا ملے تم کو اور اللّٰہ چاہتا تھا کہ سچا کرے سچ کو اپنے کلاموں سے اورکاٹے پیچھا کافروں کا۔([74] )
اس آیت میں ایک ایسے امر کی خبر ہے جو مومنوں کے دل میں آیا تھا اور جسے وہ پسند کرتے تھے مگر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے وہ امر پوشیدہ تھا۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرماکر آپ کو اطلاع بخشی۔ اس کا بیان یوں ہے کہ جب مسلمانوں کو خبر لگی کہ ابو سفیان لدے ہوئے اونٹوں کا قافلہ ملک شام سے لارہا ہے تو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تین سو آٹھ کی جمعیت کے ساتھ نکلے اور وادیٔ ذفران میں اللّٰہ تعالٰی نے آپ سے دو امروں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا قافلہ کا ہاتھ آنا یا گروہِ قریش کا مغلوب ہونا جو مکہ سے اس قافلہ کے چھڑانے کے لئے نکلا تھا۔ صحابہ کرام اپنے دلوں میں قافلہ کی گرفتاری پسند کرتے تھے۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے چاہا کہ وہ دشمنوں سے مقابلہ کریں تاکہ کفر کا زور ٹوٹ جائے اور دین حق کو تقویت پہنچے چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیاکیونکہ بدر کی لڑائی میں ستّر کافر مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے اور مسلمانوں میں سے صرف چودہ شہید ہوئے۔
…{2}
اِذْ هَمَّتْ طَّآىٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَاۙ-وَ اللّٰهُ وَلِیُّهُمَاؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۲۲) (آل عمران،ع۱۳)
جب قصد کیا دو فرقوں نے تم میں سے کہ نامردی کریں اور اللّٰہ مددگار تھا ان کا اور اللّٰہ ہی پر چاہیے بھروسہ کریں مسلمان۔([75] )
اس آیت میں مومنوں کے ایک خطرۂ قلبی کا اظہار ہے۔جس کا بیان یوں ہے کہ جنگ بدر سے اگلے سال (غزوۂ احد میں ) کافر جمع ہو کر مدینہ پر چڑھ آئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں سے مشورہ کیا اکثر کہنے لگے کہ ہم شہر ہی میں لڑیں گے اور حضور کی مرضی بھی یہی تھی۔ بعض کہنے لگے کہ یہ عار ہے بلکہ ہم میدان میں مقابل ہوں گے۔ آخر اسی مشورہ پر عمل کیا گیا۔ جب حضور شہر سے باہر چلے عبداللّٰہ بن ابی منافق مدینے کا رہنے والا تھا وہ بھی شریک جنگ تھا مگر وہ ناخوش ہو کر پھر گیا کہ ہمارے کہنے پر عمل نہ کیا۔ اس کے بہکانے سے انصار کے دو قبیلے (خزرج سے بنو سلمہ اور اوس سے بنی حارثہ) بھی پھر چلے۔ آخر ان کے سردار عوام کو سمجھا کرلے آئے۔ اس آیت میں انہیں دو قبیلوں کے خطرہ قلبی کا ذکر ہے حالانکہ ان سے نہ کوئی قول ظہور میں آیا اور نہ کوئی بزدلی۔(موضح القرآن)
قرآن مجید میں منافقوں کے راز کھول کر بتائے گئے ہیں جن کو وہ اپنے دلوں میں چھپاتے تھے یا اپنی ہی جماعت سے کہتے تھے۔ دیکھو آیات ذیل :
…{1}
یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَؕ-یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَاؕ- (آل عمران،ع۱۶)
اپنے جی میں چھپاتے ہیں جو تجھ سے ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ اگر کچھ کام ہوتا ہمارے ہاتھ تو ہم مارے نہ جاتے۔([76] )
اس آیت سے ظاہر ہے کہ جنگ احد کے دن جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو منافقین خلوت میں ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اگر لڑائی کے لئے نکلنا ہمارے اختیار میں ہوتا تو ابن ابی کی رائے پر عمل کرتے اور شہر مدینے سے باہر قدم نہ دھرتے اور نہ مارے جاتے۔ اس قول کو وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے چھپاتے تھے مگر اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو بذریعۂ وحی خبر دے دی۔
…{2}
وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْؕ-وَ مَا هُمْ مِّنْكُمْ
اور قسمیں کھاتے ہیں اللّٰہ کی کہ وہ بیشک تم میں سے ہیں حالانکہ
وَ لٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ(۵۶) (توبہ، ع ۷)
وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لوگ ڈرتے ہیں ۔([77] )
اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ منافقین جو قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں جھوٹ ہے۔
…{3}
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِۚ-فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ(۵۸) (توبہ، ع۷)
اور بعضے ان میں سے ہیں کہ تجھ کو طعن دیتے ہیں زکوٰۃ بانٹتے میں ۔ سو اگر ان کو ملے اس میں سے تو راضی ہوں اور اگر نہ ملے اس میں سے تب ہی وہ ناخوش ہوجاویں ۔([78] )
یہ آیت ابوالجواظ منافق کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ اس نے کہا تھا کہ تم اپنے صاحب کو نہیں دیکھتے کہ تمہارے صدقات ریوڑ چرانے والے گڈریوں میں تقسیم کردیتا ہے اور پھر سمجھتا ہے کہ میں عادل ہوں ۔ (تفسیر روح البیان) ([79] )
…{4}
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌؕ- ( توبہ، ع۸)
اور بعضے ان میں سے بدگوئی کرتے ہیں نبی کی اور کہتے یہ شخص کان ہے۔([80] )
بعض منافقین مثلاً جلاس اور اس کے ساتھی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں ایسی باتیں کہا کرتے تھے کہ جن سے انسان کو اذیت پہنچے اور جب انہیں منع کیا جاتا تو کہتے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تو کان ہی کان ہیں ہم ان کے سامنے قسم کھالیں گے اور انکارکردیں گے وہ مان لیں گے کیونکہ وہ جو سنتے ہیں مان لیتے
ہیں ان میں ذَکاء و فَطانت([81] )نام کو نہیں ۔ ( تفسیر روح البیان) ([82] )
…{5}
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْاۚ- (توبہ، ع۱۰)
قسمیں کھاتے ہیں اللّٰہ کی ہم نے نہیں کہا بیشک کہا ہے لفظ کفر کا اور منکر ہوگئے ہیں مسلمان ہو کر اور فکر کیا تھا انہوں نے جو نہ ملا۔([83] )
غزوۂ تبوک میں ان منافقین کی فَضِیحَت ([84] )میں آیات نازل ہوئیں جو اس غزوہ میں مدینہ منورہ میں پیچھے رہ گئے تھے اس لئے جُلاس بن سُوید نے کہا: اللّٰہ کی قسم! جو کچھ حضرت ہمارے بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں اگر وہ سچ ہے تو ہم گدھوں سے بدتر ہیں ۔ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے جلاس کو بلا کر پوچھا وہ قسم کھا گیا کہ میں نے ایسا نہیں کہا اس پر یَحْلِفُوْنَ بِاﷲِ مَا قَالُوْا۔الآیہ ([85] )اُتری۔ اگرچہ اس قصے میں قائل ایک ہے مگر چونکہ باقی منافق جلاس کے قول پر راضی تھے اس لئے وہ بھی بمنزلہ جلاس ہوگئے اور صیغہ جمع کا لایا گیا۔ مطلب یہ کہ وہ قسم کھا گئے کہ ہم نے کوئی کلمہ ایسا نہیں کہاجس سے آنحضرت یا آپ کے دین کی توہین ہوتی ہو حالانکہ بے شک انہوں نے کلمہ کفر کہااور اسی پر اکتفانہ کیا بلکہ اپنے افعال سے بھی کفر باطنی ظاہر کردیا۔ چنانچہ منجملہ ان افعال کے ایک یہ ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے وقت ان میں سے پندرہ نے اتفاق کرلیا کہ حضرت جب تبوک اور مدینہ کے درمیان عقبہ (گھاٹی) پر ہوں گے تو ہم ان کو سواری سے وادی میں دھکیل کر مارڈالیں گے مگر اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو منافقین کے اس ارادے سے آگاہ کردیا۔ اس لئے جب لشکر عقبہ میں پہنچا تو آپ تو عقبہ میں چلے اور باقی سب آپ کے ارشاد سے وادی میں چلنے لگے مگر ان منافقین نے منہ پر دہان بند ڈال کر عقبہ میں چلنا شروع کیا۔ حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن الیمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُپیچھے سے ہانک رہے تھے اتنے میں حذیفہ نے اونٹوں کے پیروں کی آہٹ اور ہتھیاروں کی آواز سنی۔ اس لئے حذیفہ اندھیری رات میں ان کی طرف بڑھے اور للکار کر کہا: اے اللّٰہ کے دشمنو! رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے دور ہو جاؤ۔ یہ سن کر وہ وادی کی طرف بھاگ گئے اور لوگوں میں مل گئے۔ (روح البیان وروح المعانی) ([86] )
…{6}
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًاۚ- (توبہ، ع۱۶)
اور جب نازل ہوئی ایک سورت تو بعضے ان میں کہتے ہیں کس کو تم میں زیادہ کیا اس سورت نے ایمان۔([87] )
یعنی جب منافق لوگ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں نہ ہوتے اور کوئی سورت نازل ہوتی جس میں دلائل قاطِعَہ ہوں تو وہ ایک دوسرے سے بطورِ اِستہزاء ([88] )کہتے کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا۔
…{7}
وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍؕ-هَلْ یَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْاؕ- (توبہ، ع ۱۶)
اور جب نازل ہوئی ایک سورت دیکھنے لگے ایک دوسرے کی طرف کہ کوئی بھی دیکھتا ہے تم کو پھر چلے گئے۔([89] )
یعنی جب منافقین حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حضور میں ہوتے اور کوئی سورت اترتی جس میں ان کے چھپے عیبوں کا بیان ہوتا تو وہ مومنوں سے آنکھ بچا کر مجلس سے کھسک جاتے اور اگر جانتے کہ کوئی مومن ان کو دیکھ رہا ہے تو وہیں بیٹھے رہتے اور اختتام مجلس پر چلے جاتے۔
…{8}
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُؕ-وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ(۱۰۷) (توبہ، ع ۱۳)
اور جنہوں نے بنائی ایک مسجد ضد اور کفر پر اور پھوٹ ڈالنے کو مسلمانوں میں اور گھات اس شخص کے لئے جو لڑ رہا ہے اللّٰہسے اور رسول سے پہلے سے اور اب قسمیں کھاویں گے کہ ہم نے تو بھلائی ہی چاہی تھی اور اللّٰہ گواہ ہے کہ و ہ جھوٹے ہیں ۔([90] )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسجد ضرار والے سب منافق تھے۔ منافقین کے مزید حال کیلئے سورۂ منافقون دیکھئے۔
قرآنِ مجیدمیں منافقین کی طرح یہودیوں کے چھپے عیب بھی ظاہر کردیئے گئے ہیں ۔ دیکھو آیات ِذیل :
…{1}
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ یَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ٘-وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللّٰهُۙ-وَ یَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُؕ-حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُۚ-یَصْلَوْنَهَاۚ-فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(۸) (مجادلہ، ع۲)
کیا تونے نہ دیکھے جن کو منع ہوئی کانا پھوسی پھر وہی کرتے ہیں جو منع ہوچکا ہے اور کان میں باتیں کرتے ہیں گناہ کی اور تعدی کی اور رسول کی نافرمانی کی اور جب آویں تیرے پاس تجھ کو دعا دیں جو دعا نہیں دی تجھ کو اللّٰہنے اور کہتے ہیں اپنے دلوں میں کیوں نہیں عذاب کرتا ہم کو اللّٰہاس پر جو ہم کہتے ہیں ۔ بس ہے ان کو دوزخ داخل ہوں گے اس میں سو بری ہے جگہ پھر جانے کی۔([91] )
موضح القرآن میں ہے: ’’حضرت کی مجلس میں بیٹھ کر منافق کان میں باتیں کرتے، مجلس کے لوگوں پر ٹھٹھے کرتے
اور عیب پکڑتے اور حضرت کی بات سن کر کہتے: یہ مشکل کام ہم سے کب ہوسکے گا۔ پہلے سورۂ نساء میں اس کا منع آچکا تھا مگر پھر وہی کرتے تھے اور دعایہ کہ یہود آتے اور السَّلَامُ عَلَیْکَ کے بدلے السَّامُ عَلَیْکَ کہتے۔ یہ بددعا ہے کہ تجھ پر پڑے مرگ۔ پھر آپس میں کہتے کہ اگریہ رسول ہے تو اس کہنے سے ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا اور کوئی منافق بھی کہتا ہوگا۔‘‘
…{2}
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ هَادُوْاۚۛ-سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَۙ-لَمْ یَاْتُوْكَؕ-یُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖۚ-یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْاؕ-وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـاؕ-اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰهُ اَنْ یُّطَهِّرَ قُلُوْبَهُمْؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ۚۖ-وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۴۱) (مائدہ، ع۶)
اے رسول تو غم نہ کھا ان پر جو جلدی منکر ہونے لگتے ہیں ان لوگوں میں سے جو کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں اپنے منہ سے اور ان کے دل مسلمان نہیں اور ان لوگوں میں سے جو یہودی ہیں سننے والے ہیں واسطے دوسری جماعت کے جو تجھ تک نہیں آئے بدل ڈالتے ہیں بات کو اس کا ٹھکانا چھوڑ کر کہتے ہیں اگر تم کو یہ ملے تو لو اور اگر نہ ملے تو بچتے رہو اور جس کو اللّٰہنے بچلانا ([92] )چاہا سو تو اس کا کچھ نہیں کر سکتا اللّٰہکے یہاں وہی لوگ ہیں جن کو اللّٰہنے نہ چاہا کہ ان کے دل پاک کرے ان کو دنیا میں ذلت ہے اور ان کو آخرت میں بڑی مارہے۔([93] )
موضح القرآن میں اس آیت کے متعلق یوں لکھا ہے: ’’بعضے منافق تھے کہ دل میں یہود سے ملتے تھے اور بعضے یہود تھے کہ حضرت کے پاس آمد ورفت کرتے تھے۔ اللّٰہنے فرمایا کہ یہ لوگ جاسوسی کو آتے ہیں کہ تمہارے دین میں سے کچھ عیب چن کر لے جاویں اپنے سرداروں کے پاس جو یہاں نہیں آتے اور فی الحقیقت عیب کہاں ہے لیکن بات کو
غلط تقریر کرکے ہنر کا عیب کرتے ہیں ۔ یہود میں کئی قصے ہوئے کہ اپنے قضایا ([94] )لائے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس فیصلے کو وہ سردار یہود آپ نہ آتے بیچ والوں کے ہاتھ بھیجتے اور کہہ دیتے کہ ہمارے معمول کے موافق حکم کریں تو قبول رکھو نہیں تو نہ رکھو۔ غرض یہ تھی کہ حکم تو رات کے خلاف معمول باندھے تھے کہ ایک بھی اگر اس کے موافق حکم کردے تو ہم کو اللّٰہ کے یہاں سند ہوجاوے اور جانتے تھے کہ ان کو تورات کی خبر نہیں جو ہمارا معمول سنیں گے سو حکم کریں گے۔ اللّٰہ تعالٰی نے حضرت کو خبردار کیا۔ موافق تورات ہی کے حکم فرمایااور تورات میں سے ثابت کر کے ان کو قائل کیا۔ ایک قصہ رجم کا تھا کہ وہ منکر ہوئے تھے۔ پھر تورات سے قائل کیااور ایک قصاص کا تھا کہ وہ اشراف اور کم ذات کا فرق کرتے تھے اور تورات میں فرق نہیں رکھا۔‘‘
…{3}
مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا وَاسْمَعْ غَیْْرَ مُسْمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَیًّام بِاَلْسِنَتِہِمْ وَ طَعْنًا فِی الدِّیْنِ( نسآئ،ع۷)
وہ جو یہودی ہیں بدل ڈالتے ہیں بات کو اس کی جگہ سے اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نہ مانا اور سن نہ سنایا جائیو اور راعنا موڑدے کر اپنی زبان کو اورطعن کرکے دین میں ۔([95] )
موضح القرآن میں ہے کہ ’’یہود حضرت کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کلام فرماتے۔ بعض بات جو نہ سنی ہوتی چاہتے کہ پھر تحقیق کریں تو کہتے:راعنا۔ یعنی ہماری طرف توجہ ہو۔ یہود کو اس لفظ کہنے میں دغا تھی اس کو زبان دبا کر کہتے تو را عینا ہوجاتا یعنی ہمارا چرواہا اور ان کی زبان میں راعنا احمق کو بھی کہتے تھے۔ اسی طرح حضرت فرماتے تو جواب میں کہتے: سنا ہم نے اس کے معنی یہ ہیں کہ قبول کیا لیکن آہستہ کہتے کہ نہ مانا۔ یعنی فقط کان سے سنااور دل سے نہ سنااور حضرت سے خطاب کرتے تو کہتے: سن، نہ سنایا جائیو۔ ظاہر میں یہ دعا نیک ہے کہ تو ہمیشہ غالب رہے کوئی تجھ کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ بہرا ہوجائیو۔ ایسی شرارت کرتے۔ پھر دین میں عیب دیتے کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب
معلوم کرلیتا۔ وہی اللّٰہصاحب نے واضح کردیا۔‘‘
ناظرین کرام! مومنوں کے دلوں کے راز ظاہر کرنا، منافقوں کا بھانڈا پھوڑنا اور یہودیوں کے فریبوں کی قلعی کھولنا،([96] )یہ تمام ازقبیل اِخْبَار بِالْمُغَیِّبات ([97] )ہے جس سے قرآن کا اعجاز ثابت ہے کیونکہ انسان اس سے عاجز ہے۔
بیان بالا سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ قرآن میں صرف غیوب ماضیہ کی خبریں ہیں کیونکہ غیوب مستقبلہ کی خبریں بھی اس میں کثرت سے ہیں جن میں سے بعض ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۲۳)فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ۚۖ-اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ(۲۴) ( بقرہ، ع۳)
اور اگر ہوشک میں اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تولے آؤ ایک سورۃ اس قسم کی اور بلاؤ جن کو حاضر کرتے ہو اللّٰہ کے سوا اگر تم سچے ہو۔ پھر اگرنہ کرواور البتہ نہ کر سکو گے تو بچو آگ سے جس کی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر تیار ہے منکروں کے واسطے۔([98] )
ان آیتوں میں یہ پیشین گوئی ہے کہ قرآن مجید کی ایک سورت کی مثل بنانے پر کوئی قادر نہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ مبارک میں اور اُس وقت سے اب تک کہ تیرہ سو چھپن ہجری مقدس ہے کثرت سے مخالفین و معاندین اسلام رہے مگر کوئی بھی قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثل بنا کر پیش نہ کرسکا اور نہ آئندہ کرسکے گا۔
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً
تو کہہ اگر تم کو ملنا ہے گھر آخر کا اللّٰہکے ہاں الگ سوائے
مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۹۴) (بقرہ، ع۱۱)
اور لوگوں کے تو تم مرنے کی آرزو کرو اگر سچ کہتے ہو۔([99] )
اس آیت میں اخبار عن الغیب ہے کہ یہود میں سے کوئی موت کی تمنانہ کرے گا چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔ کسی یہودی نے باوجود قدرت کے موت کی تمنانہ کی۔ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ اگر یہود موت کی تمنا کرتے تو البتہ مرجاتے اور دوزخ میں اپنی جگہ ضرور دیکھ لیتے۔([100] )
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَاؕ-اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ-لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۱۴) (بقرہ، ع۱۴)
اور اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے منع کیا اللّٰہ کی مسجدوں میں کہ ذکر کیا جائے وہاں نام اس کا اور دوڑا ان کے اجاڑنے کو۔ ایسوں کو نہیں لائق تھا کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کو دنیا میں ذلت ہے اور ان کو آخرت میں بڑی مار ہے۔([101] )
اس آیت میں اُولٰٓئِکَسے مراد نصاریٰ (طیطوس رومی اور اس کے اَتباع) ہیں جنہوں نے یہود پر غلبہ پا کر مسجد بیت المقدس کو ویران کیااور ان کی مسجدیں اجاڑیں ۔ یہ پیشین گوئی حضرت عمر بن الخطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت میں پوری ہوئی جب کہ یروشلم مع ملک شام عیسائیوں سے لے لیا گیااور ہیکل یروشلم کی خاص بنیاد پر اسلامی مسجد تعمیر کی گئی۔
بعض کے نزدیک اُولٰٓئِکَ سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے حدیبیہ کے سال آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بیت الحرام میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ اس صورت میں یہ پیشین گوئی ہجرت کے نویں سال پوری ہوئی جب کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ارشاد سے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہٗنے موسم حج میں منادی کرادی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگا بیت اللّٰہ کا طواف کرے۔([102] )
لَنْ یَّضُرُّوْكُمْ اِلَّاۤ اَذًىؕ-وَ اِنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ یُوَلُّوْكُمُ الْاَدْبَارَ۫-ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ(۱۱۱)ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْۤا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْكَنَةُؕ- (آل عمران، ع ۱۲)
وہ ہر گز ہر گزضرر نہ پہنچائیں گے تم کو مگر ستانا تھوڑا اور اگر تم سے لڑیں گے تو تم سے پیٹھ پھیر دیں گے پھر وہ مدد نہ دیئے جائیں گے ماری گئی ان پر ذلت جہاں پائے جائیں سوائے دستاویز اللّٰہ کے اور دستاویز لوگوں کے اور کما لائے غصہ اللّٰہ کا اور ماری گئی ان پر محتاجی۔([103] )
ان آیات میں یہود کی نسبت کئی پیشین گوئیاں ہیں :
…{۱} یہود مسلمانوں کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکیں گے۔
…{۲} اگر یہود مسلمانوں سے لڑیں گے تو شکست کھائیں گے۔
…{۳} شکست کھانے کے بعد یہود میں قوت و شوکت نہ رہے گی۔
…{۴} یہود ہمیشہ ذلیل رہیں گے مگر یہ کہ دوسروں کی پناہ میں ہوں ۔
…{۵} یہود مغضوب رہیں گے۔
…{۶} یہود کی سلطنت کہیں نہ ہوگی بلکہ مَسکَنَت میں ([104] )رہیں گے۔
یہ تمام پیشین گوئیاں پوری ہو چکی ہیں چنانچہ یہود زبانی طعن اور سَبُّ وشِتْم کے سوا مومنین کو کوئی بڑا ضرر نہ پہنچا سکے۔ یہود بنی قینقاع و بنی قریظہ و بنی نضیر و یہود خیبر نے مسلمانوں سے مقابلہ کیااور مغلوب ہوئے۔ پھر ان کے کہیں پاؤں نہ جمے اور ان کی شان و شوکت جاتی رہی۔ یہود ہمیشہ ہر ملک میں قتل و غارت و قید سے پامال ہوتے رہے ہیں رُوئے زمین پر کہیں ان کی سلطنت نہیں دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ہیں تو وہاں کے بادشاہ یا لوگوں کی عنایت سے ایسا ہوتا رہا ہے۔ ان کا مغضوب ہونا ظاہر ہے۔
سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَاۤ اَشْرَكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًاۚ-وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُؕ-وَ بِئْسَ مَثْوَى الظّٰلِمِیْنَ(۱۵۱) (آل عمران، ع ۱۶)
اب ڈالیں گے ہم کافروں کے دلوں میں ہیبت اس واسطے کہ انہوں نے شریک ٹھہرایا اللّٰہکا اس چیز کو جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور بری ہے جگہ ظالموں کے رہنے کی۔([105] )
یہ پیشین گوئی یوم اُحد کی نسبت تھی اور اسی دن پوری ہوگئی کیونکہ کفار باوجود غلبہ و ظفر کے مسلمانوں کے خوف سے لڑائی چھوڑ کر بھاگ گئے۔
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ وَ تُحْشَرُوْنَ اِلٰى
کہہ دے کافروں کو کہ تم جلدی مغلوب ہوگئے اور اکٹھے
جَهَنَّمَؕ-وَ بِئْسَ الْمِهَادُ(۱۲) ( آل عمران، ع۲)
کیے جاؤ گے دوزخ کی طرف اور برا ہے بچھونا۔([106] )
جب حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جنگ بدر سے مدینہ میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے یہود کوبازار بنی قینقاع میں جمع کیااور ان سے فرمایا کہ مسلمان ہوجاؤ ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو قریش کا ہوا۔ وہ بولے کہ نازاں نہ ہو تیرا ایسی قوم سے مقابلہ ہوا جو فن جنگ سے ناواقف تھی اگر ہم سے پالا پڑے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہم بہادر ہیں اور تو ہماری مانند نہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری جس میں یہ خبر دی گئی کہ یہود عنقریب مغلوب ہوجائیں گے۔ ([107] ) یہ پیشین گوئی بنی قریظہ کے قتل اور بنی نضیر کی جلاوطنی اور فتح خیبر اور باقی یہود پر جزیہ لگانے سے پوری ہوئی۔
اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ- (مائدہ، ع۱)
آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا اور پوری کی میں نے تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔([108] )
یہ آیت۱۰ ھ میں عرفہ کی شام کو جمعہ کے دن نازل ہوئی۔ اصحابِ آثار کا قول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اِکاسی یا بَیاسی دن زندہ رہے اور شریعت میں کوئی زیادتی یا نَسْخ یا تبدیلی وقوع میں نہ آئی۔ اس آیت میں آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وفات شریف کی خبر ہے۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس سے یہی سمجھتے تھے جو اِن کے ’’ اَعْلَمُ الصَّحَابَہ ‘‘([109] ) ہونے کی دلیل ہے۔
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ۪-فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۴) ( مائدہ، ع۳)
اور ان لوگوں سے جو کہتے ہیں ہم نصاریٰ ہیں لیا ہم نے عہد ان کا پھر وہ بھول گئے فائدہ لینا اس نصیحت سے جو ان کو کی گئی تھی پھر ہم نے لگادی انکے درمیان دشمنی اور کینہ قیامت کے دن تک اور آخر جتا دے گا ان کو اللّٰہجو کچھ وہ کرتے تھے۔([110] )
اس آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ قیامت تک نصاریٰ کے مختلف فرقے رہیں گے جو ایک دوسرے کی تکذیب و تکفیر کرتے رہیں گے۔ یہ بھی پوری ہوچکی ہے کیونکہ اب تک ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ نصاریٰ کے مختلف سینکڑوں فرقے ہیں جن کا ذکر ہم نے بخوفِ طوالت نہیں کیا۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ٘-یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىٕمٍؕ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۵۴) ( مائدہ، ع ۸)
اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے پھرے گا اپنے دین سے تو اللّٰہ آگے لاوے گا ایک قوم کو کہ ان کو دوست رکھتا ہے اور وہ اس کو دوست رکھتے ہیں نرم دل ہیں مسلمانوں پر اورسخت ہیں کافروں پر جہاد کریں گے اللّٰہ کی راہ میں اور نہ ڈریں گے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے یہ فضل ہے اللّٰہ کا دیتا ہے جس کو چاہے اور اللّٰہ کشائش والا ہے خبردار۔([111] )
اللّٰہ تعالٰی کو معلوم تھا کہ کچھ عرب دین سے پھر جائیں گے اس لئے فرما دیا کہ ان کی گوشمالی([112] ) کے لئے ایک ایسی قوم ہوگی جس کے اوصاف یہ ہوں گے۔ یہ پیشین گوئی حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال کے بعد پوری ہوئی جب کہ عرب کے کئی قبیلے دین اسلام سے منحرف ہوگئے اور بعضوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے باوجود([113] ) اختلافِ آراء ان کے ساتھ جہاد کیا اور ان کو مغلوب کیا([114] ) اور یہ آیت سیدنا ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خلافت کی حقیت ([115] ) پر دلیل واضح ہے۔
وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِؕ-كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُۙ-وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(۶۴) (مائدہ، ع ۹)
اور ہم نے ڈال دی ان میں دشمنی اور بغض قیامت کے دن تک جب ایک آگ سلگاتے ہیں لڑائی کے واسطے اللّٰہاس کو بجھاتا ہے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرتے اور اللّٰہ دوست نہیں رکھتا فساد کرنے والوں کو۔([116] )
اس میں یہ پیشین گوئی ہے کہ یہود کے مختلف فرقے ہوں گے جن میں عداوَت و بغض قیامت تک رہے گا۔ اس پیشین گوئی کے پورا ہونے میں کلام نہیں کیونکہ یہود کے مختلف فرقوں میں اب تک عداوت ہے اور آئندہ رہے گی۔
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ
اے رسول پہنچا جو کچھ اتارا گیا ہے تیری طرف تیرے رب سے اور اگر تونے نہ کیا پس تونے نہ پہنچایا اس کا پیغام اوراللّٰہ تجھ
مِنَ النَّاسِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷) (مائدہ، ع ۱۰)
کوبچائے گا لوگوں سے اللّٰہ ہدایت نہیں کرتا منکر قوم کو۔ ([117] )
یہ آیت بقولِ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوۂ ذَاتُ الرِّقاع (۴ ھ) میں نازل ہوئی۔ ([118] )اس آیت کے نزول سے پہلے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پاسبانی کیاکرتے تھے مگر جب یہ آیت اتری تو حراست موقوف کردی گئی کیونکہ اس میں خود اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زندگی میں اس پیشین گوئی کا پورا ہونا ظاہر ہے کیونکہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین باوجود کینہ و عداوت کے آپ کے قتل پر قادر نہ ہوئے۔ چونکہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم و فات شریف کے بعد جسد مبارک کے ساتھ مرقد منور میں حقیقۃً زندہ ہیں اس لئے یہ وعدہ قیامت تک پورا ہوتا رہے گا۔ ذیل میں ہم علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (متوفی ۹۱۱ھ) کی کتاب ‘’وَفَائُ الوَفَاء بِاِخْبَارِ دارِ المُصْطَفٰی’‘سے صرف ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے ناظرین اندازہ لگا سکیں گے کہ وفات شریف کے بعد اَعدائے اسلام نے ہمارے آقا، ہمارے مالک ،حضور شہنشاہ دو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کس طرح اذیت پہنچانی چاہی اور کس طرح یہ وعدہ پورا ہوا۔ واقعہ مذکورہ کو علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہیوں بیان فرماتے ہیں :
جان لے کہ مجھے علامہ جمال الدین ([119] ) اِسْنَوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی تصنیف سے ایک رسالہ معلوم ہوا ہے
جس میں نصاریٰ کو حاکم بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض نے اس رسالے کا نام ‘’ اِنْتِصارات اسلامیہ’‘ رکھاہے۔ میں نے اس پر علامہ موصوف کے شاگرد شیخ زَین ا لدِّین مَرَاغی کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیکھا ہے اور وہ یہ ہے:’’ نصیحۃ اولی الالباب فی منع استخدام النصاری کتاب لشیخنا العلامۃ جمال الدین اسنوی‘‘استاد نے اس رسالے کا نام نہ رکھا تھا، میں نے آپ کے سامنے یہ نام عرض کیا، جسے آپ نے برقرار رکھا، انتہی۔ پس میں نے اس رسالے میں یہ عبارت دیکھی:
سلطانِ عادِل نور الدین شہید کے عہد سلطنت میں نصاریٰ کے نفسوں نے انہیں ایک بڑے اَمر پر آمادہ کیا۔ ان کا گمان تھا کہ وہ پورا ہوجائے گا۔ اور اللّٰہ اپنی روشنی پورا کیے بغیر نہیں رہتا خواہ منکر برا مانیں ۔ وہ امر یہ ہے کہ سلطان مذکو ر رات کو تہجد اور وظائف پڑھا کرتا تھا ایک روز تہجد کے بعد سوگیا خواب میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھا کہ دوسرخ رنگ شخصوں کی طرف اشارہ کر کے فرمارہے ہیں : میری مدد کر اور مجھے ان دو سے بچا۔ وہ ڈر کر جاگ اٹھاپھر وضو کیا نماز پڑھی اور سو گیا پھر اس نے وہی خواب دیکھا جاگ اٹھا اور نماز پڑھ کر سوگیا پھر تیسری بار وہی خواب دیکھا پس جاگ اٹھا اور کہنے لگا:نیند باقی نہیں رہی۔ اس کا وزیر ایک صالح شخص تھا جس کا نام جمال الدین موصلی تھا رات کو اسے بلایااور تمام ماجرا اسے کہہ سنایا اس نے کہا: تم کیسے بیٹھے ہو اسی وقت مدینۃ النبی کی طرف روانہ ہوجاؤاور اپنے خواب کو پوشیدہ رکھو۔ یہ سن کر اس نے بقیہ شب میں تیاری کرلی اور سبکسار([120] ) سواریوں پر بیس آدمیوں کے ساتھ نکلا۔ وزیر مذکور اور بہت سامال بھی اس کے ساتھ تھا۔ سولہ دن میں وہ مدینے پہنچا۔ شہر سے باہر غسل کیا اور داخل ہوا، روضۂ منورہ میں نماز پڑھی اور زیارت کی پھر بیٹھ گیا حیران تھا کہ کیا کرے۔ جب اہل مدینہ مسجد میں جمع تھے تو وزیر نے کہا: سلطان نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زیارت کے ارادے سے آیاہے اور خیرات کے لئے اپنے ساتھ بہت سامال لایا ہے جو یہاں کے رہنے والے ہیں ان کے نام لکھو۔ اس طرح تمام اہل مدینہ کے نام لکھے۔ سلطان نے سب کوحاضر ہونے کا حکم دیا جو صدقہ لینے آتا سلطان اسے بغور دیکھتا تاکہ وہ صفت و شکل جو نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے دکھائی تھی معلوم کرے۔
جس میں وہ حلیہ نہ پاتا اسے صدقہ دے کر کہتاکہ چلے جاؤ یہاں تک کہ سب لوگ آچکے۔ سلطان نے پوچھا کہ کیا کوئی باقی رہ گیا ہے جس نے صدقہ نہ لیا ہو۔ انہوں نے عرض کی نہیں ۔ سلطان نے کہا: غوروفکر کرو۔ اس پر انہوں نے کہا اور تو کوئی باقی نہیں مگر دو مغربی شخص جو کسی سے کچھ نہیں لیتے وہ پارسا اور دولت مندہیں اور محتاجوں کو اکثر صدقہ دیتے رہتے ہیں ۔ یہ سن کر سلطان خوش ہوگیا اور حکم دیا کہ ان دونوں کو میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ وہ لائے گئے۔ سلطان نے انہیں وہی دو شخص پایا جن کی طرف نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ میری مدد کراور مجھے ان سے بچا۔ پس ان سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ انہوں نے کہا: ہم دیار مغرب سے حج کرنے کے لئے آئے ہیں اس لئے اس سال ہم نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُجَاوَرَت ([121] ) اختیار کی ہے۔ سلطان نے کہا: سچ بتاؤ۔ مگر وہ اپنی بات پر قائم رہے۔ پھر لوگوں سے پوچھا: یہ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ عرض کیا گیا کہ حجرہ شریف کے قریب رباط ([122] ) میں رہتے ہیں ۔ یہ سن کر سلطان نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور ان کے مکان میں آیا۔ وہاں بہت سا مال، دو قرآن مجید اور وعظ و نصیحت کی کتابیں پائیں ۔ ان کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔ اہل مدینہ نے ان کی بڑی تعریف کی کہ یہ بڑے سخی اور فیاض ہیں ، صائم الدہر ہیں اور روضہ شریف میں صلَوات اور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کے پابند ہیں ۔ ہر صبح جنت البقیع کی زیارت کو جاتے ہیں اور ہر شنبہ ([123] )قباء کی زیارت کرتے ہیں ، کسی سائل کا سوال رد نہیں کرتے، ان کی فیاضی سے اس قحط سالی میں مدینہ میں کوئی محتاج نہیں رہا۔ یہ سن کر سلطان نے کہا: سبحان اللّٰہ! اور اپنے خواب کو ظاہر نہ کیا۔ سلطان بذات خود اس مکان میں پھرتا رہا اس میں ایک چٹائی جو اٹھائی تو اس کے نیچے تہہ خانہ دیکھا جو حجرہ شریف کی طرف کھودر کھا تھا لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے۔ اس وقت سلطان نے کہا: تم اپنا حال سچ سچ بتاؤ!اور انہیں بہت مارا۔پس انہوں نے اقرار کیا کہ ہم عیسائی ہیں ہم کو نصاریٰ نے مغربی حاجیوں کے بھیس میں بھیجا ہے اور ہمیں بہت سامال دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے حجرہ شریف تک پہنچنے اور جسد مبارک نکالنے کا حیلہ ووسیلہ ٹھہراؤ۔ بھیجنے والے عیسائیوں کا یہ وہم تھا کہ اللّٰہ تعالٰی ان کو اس بات پر قادر کردے گااور وہ وہ کریں گے جو شیطان نے انہیں سمجھایا تھا اس لئے وہ دونوں حجرہ شریف کے سب سے قریب رَباط میں اُترے تھے اور انہوں نے وہ کیا جو اوپر ذکر ہوا۔ وہ رات کو کھودا کرتے تھے اور ہر ایک کے پاس مغربیوں کے لباس کے
مطابق ایک چمڑے کی تھیلی تھی جو مٹی جمع ہوتی ہر ایک اپنی تھیلی میں ڈال لیتااور دونوں زیارت بقیع کے بہانے سے نکل جاتے اور قبروں میں پھینک آتے۔ کچھ مدت وہ اسی طرح کرتے رہے جب کھودتے کھودتے حجرہ شریف کے قریب پہنچ گئے تو آسمان میں گرج پیدا ہوئی، بجلی چمکی اور ایساز لزلۂ عظیم پیدا ہوا کہ گویا پہاڑ جڑ سے اکھڑ گئے ہیں اسی رات کی صبح کو سلطان نور الدین آپہنچا اور دونوں کی گرفتاری اور اعتراف وقوع میں آیا۔ جب دونوں نے اعتراف کرلیا اور اس کے ہاتھ پر ان کا حال ظاہر ہوگیا اورا س نے اللّٰہ کی یہ عنایت دیکھی کہ یہ کام اس سے لیا تو وہ بہت رویااور ان کی گردن زَنی کا حکم دیا۔ پس وہ اس جالی کے نیچے قتل کیے گئے جو حجرہ شریف کے قریب بقیع سے متصل ہے۔ پھر اس نے بہت سی رانگ([124] )منگوائی اور تمام حجرہ شریف کے گرد پانی کی تہہ تک ایک بڑی خندق کھدوائی وہ رانگ پگھلائی گئی اور اس سے خندق بھر دی گئی۔ اس طرح حجرہ شریف کے گرد پانی کی تہہ تک رانگ کی دیوار تیار ہوگئی۔ پھر سلطان مذکور اپنے ملک کو چلا آیااور حکم دیا کہ نصاریٰ کمزور کردئیے جائیں اور کوئی کافر عامل نہ بنایا جائے بایں ہمہ ([125] )حکم دیا کہ محاصل چونگی تمام معاف کردیئے جائیں ۔
علامہ جمال الدین محمد مَطَرِی (متوفی ۷۴۱ھ) نے اس واقعہ کی طرف بطریق اختصار اشارہ کیا ہے، اور حجرہ شریف کے گرد خندق کھود نا اور اس میں رانگ کا پگھلا کر ڈالا جانا ذکر نہیں کیا ہے، مگر وہ سال بتادیا ہے جس میں یہ حادثہ وقوع میں آیا اور بیان بالا سے بعض تفاصیل میں اختلاف کیا ہے۔ چنانچہ جو فَصِیْل (شہر کے گرد چار دیواری)اب مدینہ کے گرد ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سلطان نورالدین محمود بن زنگی بن ‘’ اقسنقد ‘‘([126] ) ۵۵۷ ھ میں مدینہ منورہ میں پہنچا اس کے آنے کا سبب ایک خواب تھا جو اس نے دیکھا تھا۔ اس خواب کو بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے اور میں نے اسے فقیہ علم الدین یعقوب بن ابی بکر ( جس کا باپ مسجد نبوی کی آتشزدگی کی رات کو جل گیا تھا) سے سنااور علم الدین نے روایت کی ان اکابر سے کہ جن سے وہ ملا کہ سلطان محمود مذکور نے ایک رات تین بار نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خواب میں دیکھا ہر بار آپ فرماتے تھے: اے محمود! مجھے ان دوسرخ رنگ شخصوں سے بچا۔ اس لئے اس نے صبح ہونے سے پہلے اپنے
وزیر کو بلایا اور اسے یہ ماجرا سنایا۔وزیر نے کہا کہ مَدِیْنَۃُ النَّبِی میں کوئی امر حادِث ہوا ہے ([127] )جس کے لئے تیرے سوا کوئی اور نہیں ۔ پس وہ تیار ہوگیااور قریباً ایک ہزار اونٹ اور گھوڑے وغیرہ لے کر جلدی روانہ ہوا یہاں تک کہ اپنے وزیر کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوااور اہل مدینہ کو خبر نہ ہوئی۔ زیارت کے بعد مسجد میں بیٹھ گیا اور حیران تھا کہ کیا کرے۔ وزیر نے کہا کہ آپ ان دو شخصوں کو دیکھ کر پہچان لیں گے؟ سلطان نے کہا: ہاں ! پس تمام لوگوں کو خیرات کے لئے بلایااور بہت سازَر وسیم([128] )ان میں تقسیم کیااور کہا کہ مدینہ میں کوئی باقی نہ رہ جائے اس طرح کوئی باقی نہ رہا مگر اہل اندلس میں سے دو مُجاور جو اس جانب میں اترے ہوئے تھے جو نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حجرے کے آگے مسجد سے باہر آل عمر بن الخطاب کے گھر ( جو اَب دارالعشرۃ کے نام سے مشہور ہے) کے پاس ہے سلطان نے ان کو خیرات کے لئے بلایا۔ وہ نہ آئے اور کہنے لگے ہمیں ضرورت نہیں ہم کچھ نہیں لیتے۔ سلطان نے ان کے بلانے میں اصرار کیا پس وہ لائے گئے۔ جب سلطان نے ان کو دیکھا تو اپنے وزیر سے کہا: یہی وہ دو ہیں ۔ پھر ان کا حال اور ان کے آنے کا باعث دریافت کیا انہوں نے کہا: ہم نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُجَاوَرَت کے لئے آئے ہیں ۔ سلطان نے کہا: مجھ سے سچ سچ کہو۔ اور کئی دفعہ سوال کیا یہاں تک کہ مار پیٹ کی نوبت پہنچی۔ پس انہوں نے اقرار کیا کہ ہم عیسائی ہیں اور عیسائی بادشاہوں کے اتفاق سے ہم یہاں آئے ہیں تاکہ حجرہ شریف سے جسد مبارک کو نکال کرلے جائیں ۔ سلطان نے دیکھا کہ انہوں نے مسجد کی قبلہ رُو کی دیوار کے نیچے سے زمین دوز نقب لگائی ہوئی ہے ([129] ) اور حجرہ شریف کی طرف کو لے جارہے ہیں اور جس مکان میں وہ رہا کرتے تھے اس میں ایک گڑھا تھاجس میں وہ مٹی ڈال دیا کرتے تھے۔ اس طرح علم الدین یعقوب نے بالاسنا د میرے پاس بیان کیا۔ پس اس جالی کے پاس جو مسجد سے باہر حجرۂ نبی کے مشرق میں ہے ان کو قتل کردیا گیا۔ پھر شام کو آگ سے جلادیئے گئے اور سلطان مذکور سوار ہو کر شام کی طرف روانہ ہوا۔ ([130] )
قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ
لڑو ان سے تاعذاب کرے اللّٰہ ان کو تمہارے ہاتھوں کے ساتھ اور
عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَۙ(۱۴) وَ یُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْؕ-وَ یَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۱۵) (توبہ، ع ۲)
رسوا کرے ان کو اور غالب کرے تم کو ان پر اور ٹھنڈے کرے دل کتنے مسلمان لوگوں کے اور دور کرے ان کے دلوں کا غصہ اور اللّٰہ توبہ دے گا جس کو چاہے گا اور اللّٰہ جاننے والا حکمت والا ہے۔([131] )
بنو خزاعہ میں سے کچھ لوگ ایمان لائے تھے اور ہجرت کے بعد مکہ مشرفہ میں باقی رہ گئے تھے۔ ان کو مشرکین سے تکلیف پہنچی جس کی وجہ یہ ہوئی کہ حدیبیہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور قریش کے درمیان جو عہدو پیمان ہوئے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ ایک دوسرے کے حلیفوں ([132] ) کو ایذا نہ پہنچائیں گے اور اگر ایک کے حلیف دوسرے کے حلیفوں سے جنگ کریں تو ان کی مدد نہ کریں گے۔ اس عہد کے خلاف کفارِ قریش نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے حلیف خزاعہ کے خلاف اپنے حلیف بنو بکر کو ہتھیار وغیرہ سے مدد دی جس سے خزاعہ کا سخت نقصانِ جان ہوا۔ اس لئے خزاعہ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے شکایت کی جیسا کہ اس کتاب میں پہلے بیان ہو چکا ہے۔ پس یہ آیتیں اتریں جن میں مسلمانوں کی نصرت اور بعض کفار کے تائب ہونے کی پیشین گوئی ہے۔ یہ پیشین گوئی فتح مکہ سے پوری ہوگئی اور کفار میں سے مثلاً ابو سُفیان اور عِکرَمہ بن ابی جہل اور سہل بن عمرو وغیرہ ایمان لائے۔
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْؕ-اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْاؕ-وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۴۹) (توبہ، ع ۷)
اور ان میں سے بعض کہتا ہے مجھ کو رخصت دے اور فتنہ میں نہ ڈال۔ خبر دار رہو وہ فتنہ میں گر پڑے ہیں اور دوزخ گھیر رہی ہے کافروں کو۔ ([133] )
ایک منافق جَدّبن قَیس بہانہ لایا کہ روم کی عورتیں خوبصورت ہیں میں اس ملک میں جاکر بدی میں گرفتار ہوں گا، رخصت دوکہ سفر (غزوۂ تبوک ) میں نہ جاؤں لیکن مدد خرچ کروں گا مال سے۔ (موضح القران) اس پریہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ اِخبار بالغیب ہے کہ جَدّبن قَیس کافر ہی مرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۵)فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ بَخِلُوْا بِهٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ هُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۷۶)فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۷۷) (توبہ،ع ۱۰)
اور ان میں سے بعض وہ ہے کہ عہد کیااللّٰہسے اگر دیوے ہم کو اپنے فضل سے تو البتہ ہم خیرات دیں گے اور البتہ ہوں گے ہم صالحین میں سے پھر جب دیا ان کو اپنے فضل سے اس میں بخل کیا انہوں نے اور پھر گئے منہ پھیر کر پھر اس کا اثر رکھا خدا نے نفاق ان کے دلوں میں اس دن تک کہ ملیں گے اس سے بسبب اس کے کہ خلاف کیا انہوں نے جو وعدہ کیا اس سے اور بسبب اس کے کہ بولتے تھے جھوٹ۔([134] )
ایک منافق تھا ثَعْلَبہ بن حاطب اس نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے دعا چاہی کہ مجھ کو کشائش ہو۔ فرمایا کہ تھوڑا جس کا شکر ہوسکے بہتر ہے بہت سے کہ غفلت لاوے۔ پھر آیا، لگا عہد کرنے کہ اگر مجھ کو مال ہو میں بہت خیرات کروں اور غفلت میں نہ پڑوں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا کی اس کو بکریوں میں برکت ملی یہاں تک کہ مدینے کے جنگل سے کفایت نہ ہوتی نکل کر گاؤں میں جارہا جمعہ اور جماعت سے محروم ہوا۔ حضور نے پوچھا کہ ثعلبہ کیا ہوا؟ لوگوں نے حال بیان کیا فرمایا ثعلبہ خراب ہوا۔ پھر زکوٰۃ کا وقت آیا سب دینے لگے اس نے کہا: یہ تو مال بھرنا گویا جز یہ دینا ہے بہانہ کر کر ٹال دیا۔ پھر حضرت کے پاس مال لایا زکوٰۃ میں ، آپ نے قبول نہ کیا۔ حضرت کے بعد ابو بکر وعمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما بھی اپنی خلافت میں اس کی زکوٰۃ نہ لیتے خلافت عثمان میں مرگیا۔ ( موضح القرآن) اسی ثعلبہ
کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ اَخیر آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ ثعلبہ منافق ہی مرے گا اسے توبہ نصیب نہ ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْهِمْؕ-قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْؕ-وَ سَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُوْلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۹۴)سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْؕ-اِنَّهُمْ رِجْسٌ٘-وَّ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۹۵) (توبہ، ع۱۲)
عذر لاویں گے تمہارے پاس جب پھر کرجاؤ گے ان کی طرف تو کہہ عذر مت لاؤ ہم نہ مانیں گے ہر گز تمہاری بات ہم کو بتا دیا ہے اللّٰہ نے تمہارا بعض احوال اور ابھی دیکھے گا اللّٰہ تمہارا عمل اور اس کا رسول پھر جاؤ گے تم طرف اس جاننے والے چھپے اور کھلے کے سووہ بتادے گا تم کو جو تم کر رہے تھے اب قسمیں کھائیں گے اللّٰہ کی جب پھر کر جاؤ گے تم ان کی طرف تاکہ ان سے درگزر کرو تم سو درگزر کرو ان سے وہ لوگ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے بدلہ ان کی کمائی کا۔([135] )
منافقین (جَدّبن قیس و مُعَتب بن قشیر اور ان دونوں کے اصحاب) جو غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے اور مدینہ منورہ میں پیچھے رہ گئے تھے ان کی نسبت ان آیتوں میں یہ پیشین گوئی ہے کہ وہ عدم شرکت کا یوں عذر کریں گے اور یوں قسم کھائیں گے۔ یہ پیشین گوئی غزوۂ تبوک سے واپسی پر پوری ہوئی۔
وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ
اور پہنچتا رہے گا کافروں کو ان کے کیے پر کھڑکا یا اترے گا نزدیک
اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠(۳۱) (رعد، ع۴)
ان کے گھر سے یہاں تک کہ آوے وعدہ اللّٰہکا بیشکاللّٰہ خلاف نہیں کرتا وعدہ۔([136] )
اس آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ جب تک سارے عرب ایمان نہ لاویں گے مسلمان ان کے ساتھ جہاد کرتے رہیں گے اور انہیں قتل و قید کرتے رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) (حجر،ع۱)
ہم نے آپ اتاری ہے یہ نصیحت (قرآن) اور ہم اس کے نگہبان ہیں ۔([137] )
اس آیت میں یہ خبر دی گئی کہ قرآن کریم تحریف و تبدیل سے محفوظ رہے گا۔ اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کا مخالفین واَعدائے اِسلام([138] ) کو بھی اعترا ف ہے۔ مَلاحِدَہ([139] ) و معطلہ([140] ) بالخصوص قرامطہ نے تحریف قرآن کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ایک حرف بھی ادل بدل نہ کرسکے۔ کتب ِسَمَاوِیہ ٔسابقہ([141] ) اگرچہ سب کی سب کلام الٰہی تھیں مگر تحریف سے کوئی خالی نہ رہی فقط ایک قرآن مجید ہے جو تحریف و تبدیل سے محفوظ رہا اور رہے گا کیونکہ اس کا حافظ خود خدا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر کتب سابقہ میں تحریف ہوجاتی تھی تو دوسرا نبی آکر اسے بیان فرمادیتا تھامگر قر آن چونکہ خاتم النَّبِیین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر نازل ہوا جن کے بعد کوئی نیا نبی نہ آئے گا جو بصورتِ وقوعِ تحریف([142] ) اسے بیان فرما دیتااس لئے اللّٰہ تعالٰی نے اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی اور اس طرح اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شانِ محبوبیت کو بھی ظاہر فرما دیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی حَبِیْبِکَ سَیِّدِ نَا وَ مَوْلٰینَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ
وَ اَصْحَابِہٖ وَ عَلَیْنَا مَعَھُمْ بِعَدَدِ کُلِّ مَعْلُوْمٍ لَّکَ ۔
اللّٰہ تعالٰی نے قرآن کریم کی حفاظت کا طرفہسامان([143] ) کیاہے۔ علمائے اِسلام، قراء و محدثین ہر دور میں اسے بطریق ِتواتر روایت کرتے رہے ہیں جن پر کذب کا وہم تک نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاوہ حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے عہد مبارک سے لے کر ہر زمانے میں کثرت سے اس کتاب کے حافظ رہے ہیں اور آئندہ رہیں گے اس طرح امت کے سینوں میں محفوظ ہونا اس کتاب الٰہی کا خاصہ ہے۔
بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ(۴۹) (عنکبوت،ع۵)
بلکہ یہ قرآن آیتیں ہیں صاف، سینے میں ان کے جن کو ملا ہے علم۔ منکر نہیں ہماری آیتوں سے مگر وہی جو بے انصاف ہیں ۔([144] )
اسی واسطے اللّٰہ تعالٰی نے شب معراج میں اپنے حبیب پاکصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے مقام قاب قوسین او اَدنیٰ میں مِنْجملہ دیگر انعامات کے یہ بھی ارشاد فرمایا: ([145] ) ’’میں نے تیری امت میں سے ایسی جماعتیں بنائی ہیں کہ جن کے دل ان کی انجیلیں ہیں ۔‘‘([146] )یعنی ان کے دل کتابوں کی طرح ہیں جس طرح انسان کتاب سے پڑھتا ہے وہ دل سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ۔
امام بیہقی نے روایت کی کہ یَحْیٰی بن اَکْثَم (متوفی ۲۴۲ھ)نے کہا کہ ایک یہودی خلیفہ مامون کی خدمت میں آیا اس نے کلا م کیا اور اچھا کلام کیا خلیفہ نے اسے دعوتِ اسلام دی مگر اس نے انکار کردیاجب ایک سال گزرا تو وہ مسلمان ہوکر ہمارے پاس آیا اور اس نے علم وفقہ میں اچھی گفتگو کی۔ مامون نے اس سے پوچھا کہ تیرے اسلام لانے کا کیا باعث ہے؟ اس نے کہا: میں نے آپ کے ہاں سے جاکر مذاہب کا امتحان کیا میں نے تو رات کے تین([147] ) نسخے
لکھے اور ان میں کمی بیشی کردی اور کَنیسَہ ([148] ) میں بھیج دیئے وہ تینوں فروخت ہوگئے پھر میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں کمی بیشی کردی اور گر جامیں بھیج دیئے وہ تینوں بھی فروخت ہوگئے پھر میں نے قرآن مجید کے تین نسخے لکھے اور ان میں کمی بیشی کردی اور ان کو وَرَّاقِین([149] ) کے ہاں بھیج دیا انہوں نے ان نسخوں کی ورق گردانی کی۔([150] ) جب ان میں کمی بیشی پائی تو ان کو پھینک دیا اور ان کو مول نہ لیا۔ اس سے میں نے جان لیا کہ یہ کتاب تحریف سے محفوظ ہے اسی لئے میں مسلمان ہوگیا۔ یحییٰ نے کہا کہ میں نے اسی سال حج کیا اور سُفیان بن عیینہ سے ملا میں نے یہ قصہ ان سے بیان کیا۔ حضرت سفیان نے فرمایا کہ اس کا مصداق ([151] ) قرآن مجید میں موجود ہے۔ میں نے پوچھا: کس مقام پر؟ فرمایا کہ اللّٰہ تعالٰی نے تورات اور انجیل کی نسبت بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ([152] ) فرمایا ہے۔ پس ان کی حفاظت ان پر چھوڑدی گئی تھی اور قرآن کی نسبت فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) ([153] ) اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے اسے تحریف و تبدیل سے محفوظ رکھا۔([154] )
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ(۹۵) الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۚ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۹۶) (حجر، ع۶)
ہم بس ہیں تیری طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کو جو ٹھہراتے ہیں اللّٰہ کے سوا اور معبود سووہ آگے معلوم کریں گے۔ ([155] )
اشرافِ قریش میں سے پانچ شخص جہاں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھتے تھے ٹھٹھا کرتے
تھے جب ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی تو اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیتیں ان کے بارے میں نازل فرمائیں پس وہ ایک دن رات میں ہلاک ہوگئے۔ ان میں سے ایک عاص بن وائل سہمی تھا وہ اپنے بیٹے کے ساتھ سیر کرنے نکلا اور ایک درۂ کوہ ([156] ) میں اترا جونہی اس نے پاؤں زمین پر رکھا کہنے لگا مجھے کچھ کاٹ گیا۔ ہر چند لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا مگر کچھ نہ پایا۔ اس کے پاؤں میں ورم ہوگیا یہاں تک کہ اونٹ کی گردن کی مانند ہوگیا اور وہیں مرگیا۔ دوسرا حارِث بن قَیس سہمی تھا۔ اس نے نمکین مچھلی کھالی سخت پیاس جو لگی وہ پانی پیتا رہا یہاں تک کہ اس کا پیٹ پھٹ گیا اور مرگیا۔ مرتے وقت کہتا تھا کہ مجھے محمد کے رب نے مارڈالا۔ تیسرا اَسود بن المُطَّلِب بن الحارِث تھا۔ وہ اپنے غلام کے ساتھ نکلا ایک درخت کی جڑ میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلامآئے اور اس کے سر کو درخت پر مارنے لگے۔ وہ اپنے غلام سے فریاد کرنے لگا۔ غلام نے کہا: مجھے تو کوئی نظر نہیں آتا آپ ہی ایسا کر رہے ہیں ۔ پس وہ وہیں مرگیا۔ چوتھا وَلید بن مغیرہ تھا۔ وہ بنی خزاعہ میں سے ایک تیر تَرَّاش ([157] ) کی دکان سے گزرا۔ ایک پیکان ([158] ) اس کی چادر کے دامن سے چمٹ گیا وہ چادر کا دامن اپنے کندھے پر ڈالنے لگا تو پیکان سے اس کی رگِ ہفت اَندام ([159] ) کٹ گئی پھر خون بندنہ ہوا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پانچواں اَسود بن عبد یغوث تھا وہ اپنے گھر سے نکلا اسے لُو لگی پس وہ حبشی کی طرح سیاہ ہوگیاجب وہ گھر آیا تو گھر والوں نے اسے نہ پہچانا، ([160] ) آخر وہ اس لُو کے اثر سے مر گیا۔
وَ اِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَ اِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا(۷۶) (بنی اسرائیل، ع۸)
اور تحقیق وہ قریب تھے کہ بچلادیں تجھ کو زمین سے تاکہ نکالیں تجھ کو اس میں سے اور اس وقت وہ نہ رہیں گے تیرے پیچھے مگر تھوڑا زمانہ۔ ([161] )
کفارِ قریش چاہتے تھے کہ ایذاء سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو بے آرام کردیں تاکہ گھبرا کر مکہ سے نکل جائیں اس وقت یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ بتلادیا گیا ہے کہ اگر وہ آپ کو نکال دیں گے تو آپ کے بعد وہ دیر تک زندہ نہ رہیں گے۔ بد ر کے دن یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اس دن آپ کو ایذاء دینے والے قتل ہوگئے۔
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۵۵) (نور، ع۷)
وعدہ کیا اللّٰہنے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں نیک کام البتہ پیچھے حاکم کرے گا ان کو ملک میں جیساکہ حاکم کیا تھا ان سے اگلوں کو اور ثابت کردے گا انکے واسطے دین ان کا جو پسند کردیا انکے واسطے اور بدل دے گا ان کوڈر کے بعد امن، میری بندگی کریں گے، شریک نہ ٹھہرائیں گے میرا کوئی، اور جو کوئی ناشکری کرے گا اس پیچھے سو وہی لوگ ہیں فاسق۔([162] )
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے جو موجود تھے خلافت اورتمکین دِین([163] )او ر کفار سے امن کا وعدہ فرمایااور صاف کہہ دیا کہ یہ خلافت اس طرح ہوگی جیسے بنی اسرائیل میں قائم ہوئی تھی۔ یہ وعدہ خلفائے اربعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں لفظ بلفظ پورا ہوا جس کی تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں لہٰذا جو شخص ان کی خلافت سے منکرہو اُس کا حکم وہی ہے جو اس آیت کے اخیر حصے میں مذکور ہے۔
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍؕ- (قصص،ع۹)
جس نے حکم بھیجا تم پر قرآن کا وہ پھر لانے والا ہے تجھ کو پہلی جگہ۔([164] )
جب حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے بحکم الٰہی مدینہ کو ہجرت فرمائی تو راستے میں مقامِ جحفہ میں آپ کو وطن کا خیال آیا اللّٰہ تعالٰی نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی اور اس میں پھر مکہ میں واپس آنے کی خوشخبری دی۔ یہ پیشین گوئی ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے دن پوری ہوئی۔
الٓمّٓۚ(۱) غُلِبَتِ الرُّوْمُۙ(۲) فِیْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیَغْلِبُوْنَۙ(۳) فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ۬ؕ-لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْۢ بَعْدُؕ-وَ یَوْمَىٕذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۴) بِنَصْرِ اللّٰهِؕ-یَنْصُرُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُۙ(۵) (روم، شروع)
مغلوب ہوگئے ہیں رومی لگتے ملک میں اور وہ اس مغلوب ہونے کے بعد اب غالب ہوں گے کئی برس میں اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے کا م پہلے اور پچھلے اور اس دن خوش ہوں گے مسلمان اللّٰہ کی مدد سے مدد کرتاہے جس کی چاہتا ہے اور وہی ہے غالب مہربان۔ ([165] )
جب کسریٰ پرویز نے رومیوں پر حملہ کیا تو عرب سے لگتی زمین (اَذرِعات و بُصْرٰے یا اُردن و فلسطین) میں دونوں لشکروں کامقابلہ ہوا اور فارِس روم پر غالب آئے۔ جب یہ خبر مکہ مشرفہ میں پہنچی تو مشرکین خوش ہوئے اور مسلمانوں سے کہنے لگے: تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہو اور ہم اور فارس بے کتاب ہیں جس طرح ہمارے بھائی تمہارے بھائیوں پر
غالب آگئے ہم بھی تم پر غالب آجائیں گے۔ مسلمانوں کو یہ امر نہایت ناگوار گزرا پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں مذکور ہے کہ چند سال کے اندر روم فارس پر غالب آجائیں گے۔ چنانچہ نو سال کے بعد بدر کے دن یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی۔([166] )
اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْۙ-اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِۚ-فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۵۶) (مومن، ع ۶)
جولوگ جھگڑتے ہیں اللّٰہ کی باتوں میں بغیر کچھ سند کے جو پہنچی ہو ان کو اور کچھ نہیں ان کے سینوں میں مگر تکبر وہ نہیں پہنچنے والے اس تک سو تو پناہ مانگ اللّٰہ کی بے شک وہ ہے سنتا دیکھتا۔([167] )
اس آیت میں یہ مذکور ہے کہ منکرین کے دلوں میں یہ غرور ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اوپر رہیں گے مگر یہ نہیں ہونے کا، چنانچہ کفار کو کبھی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر تَعَاظُم و تَقَدُّم ([168] )حاصل نہ ہوا۔
فَلَا تَهِنُوْا وَ تَدْعُوْۤا اِلَى السَّلْمِ ﳓ وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ ﳓ وَ اللّٰهُ مَعَكُمْ وَ لَنْ یَّتِرَكُمْ اَعْمَالَكُمْ(۳۵) (محمد، ع ۴)
سوتم سستی نہ کرو اور نہ بلاؤ ان کوصلح کی طرف اور تم ہی رہوگے غالب اور اللّٰہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا تمہارے اعمال۔([169] )
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تم کفار کے مقابلہ میں سستی نہ کرو اور ان سے صلح طلب نہ کرو تم ہی غالب آؤ گے۔ چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْیَا بِالْحَقِّۚ-لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَۙ-مُحَلِّقِیْنَ رُءُوْسَكُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَۙ-لَا تَخَافُوْنَؕ-فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِیْبًا(۲۷) (فتح، ع۴)
بے شک اللّٰہنے سچ دکھایا اپنے رسول کو خواب تحقیق تم داخل ہوجاؤ گے مسجد حرام میں اگر اللّٰہ نے چاہا امن سے بال مونڈتے اپنے سروں کے اور کترتے ہوئے بے خطرہ پس جانا اللّٰہ نے جو نہ جانا تم نے پس ٹھہرادی اس سے ورے ایک فتح (خیبر) نزدیک۔([170] )
حدیبیہ کی طرف جانے سے پہلے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ مع صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سرمنڈائے ہوئے کعبۃ اللّٰہ میں داخل ہوئے ہیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ خواب صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بتادیا وہ سمجھے کہ داخلہ اسی سال ہوگا حالانکہ خواب میں داخلہ کے وقت کی تعیین نہ تھی جب مسلمان کعبۃ اللّٰہ میں داخل ہوئے بغیر حدیبیہ ہی سے صلح کر کے مدینے واپس آنے لگے تو منافقین تمسخرسے کہنے لگے: اب وہ خواب کہاں ہے جو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دیکھا تھا۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو یہ امر ناگوار گزرا اس لئے اللّٰہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی اور دوسرے سال فتح خبیر کے بعد یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ
وہ ہے جس نے بھیجا اپنا رسول ساتھ ہدایت اور سچے دین کے
لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ(۲۸) (فتح، ع۴)
تاکہ غالب کرے اس کو ہر دین پر اور کافی ہے اللّٰہ شہادت دینے والا۔([171] )
اس آیت میں دین اسلام کے تمام دینوں پر غالب آنے کی پیشین گوئی ہے جس کے پورا ہونے میں کلام نہیں ۔ موضح القرآن میں ہے: ’’اس دین کو اللّٰہ نے ظاہر میں بھی سب سے غالب کردیا ایک مدت اور دلیل سے غالب ہے ہمیشہ۔ ‘‘
اَمْ یُرِیْدُوْنَ كَیْدًاؕ-فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِیْدُوْنَؕ(۴۲) (طور، ع۲)
کیا چاہتے ہیں کچھ داؤ کرنا سو جو کافر ہیں وہی داؤ میں آنے والے ہیں ۔([172] )
اس آیت مکی میں یہ اِخبار بالغیب ہے کہ جن مشرکین نے بعثت کے تیر ھویں سال دار الندوہ میں جناب رسالت مآب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قتل کرنے پر اتفاق کیا تھا وہ ہلاک ہوجائیں گے چنانچہ یوم بدر میں ایسا ہی وقوع میں آیا۔
اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ(۴۴)سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(۴۵) (قمر،ع۳)
کیاکہتے ہیں ہم سب جماعت بدلہ لینے والے اب شکست دی جاوے گی وہ جماعت اور بھاگیں گے پیٹھ دے کر۔([173] )
یہ آیتیں مکہ میں نازل ہوئیں ۔ جب بدر کا دن آیا اور قریش کو ہزیمت ([174] )ہوئی تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زِرَہ پہنے اور تلوار کھینچے ہوئے ان کا تعاقب کیا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ اس دن مجھے
اس پیشین گوئی کا مطلب سمجھ میں آیا کہ کفار قریش ہزیمت اٹھائیں گے اور مسلمان تلوار و نیزے سے ان کا تعاقب کریں گے۔ صحیح بخاری کتا ب المَغازی میں حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ بدر کے دن نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا مانگی اور آپ عریش ([175] )میں تھے، اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ اَللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَد ۔ یااللّٰہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرا وعدہ طلب کرتا ہوں یااللّٰہ تو اگر (ہم پر کافروں کو غالب کرنا) چاہے تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ یہ سن کر سیدنا حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور کا ہاتھ پکڑلیا اور عرض کیا: ’’آپ کو یہ کافی ہے۔‘‘ پس حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عریش سے نکلے اور آپ یوں فرمارہے تھے: ([176] ) سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(۴۵) ([177] )
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَ جَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِﳳ- (حشر، ع ۱)
وہ ہے جس نے نکال دیئے جو کافر ہیں کتاب والوں میں سے ان کے گھروں سے پہلی جلاوطنی کے وقت۔([178] )
اس کتاب میں پہلے آچکا ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بنی نضیر کو ہجرت کے چوتھے سال جلاوطن کردیااور وہ ملک شام میں چلے گئے۔ یہ یہو د کی پہلی جلاوطنی تھی جیسا کہ ا ٓیت بالا سے ظاہر ہے۔ اس میں اشارہ تھا کہ یہود کی دوسری جلاوطنی بھی ہوگی چنانچہ وہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے عہد مبارک میں وقوع میں آئی جب کہ یہود تمام جزیرۂ عرب سے نکال دیئے گئے مگر حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے مالوں کی قیمت دی۔([179] )
كَلَّا لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ ﳔ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِیَةِۙ(۱۵) (سورۂ علق)
ہرگز نہیں یوں اگر باز نہ آوے گا ہم گھسیٹیں گے پیشانی کے بال پکڑ کر۔([180] )
اس آیت میں یہ پیشین گوئی ہے کہ ابو جہل ذلیل موت مرے گااور اس کو گھسیٹ کر لائیں گے۔ یہ پیشین گوئی جنگ بدر کے دن پوری ہوئی چنانچہ اس دن جب وہ لعین مررہا تھا تو حضرت عبداللّٰہبن مَسْعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو دُبلے پتلے تھے اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور اس کا سر کاٹ دیا۔ جب([181] )کمزوری کے سبب اس کے سر کو نہ اٹھا سکے تو اس کے کان میں سوراخ کرکے اس میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لائے۔([182] )
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲) اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳)o(کوثر)
ہم نے دی تجھ کو کوثر سو نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر بیشک دشمن تیرا وہی ہے پیچھا کٹا۔([183] )
یہ قرآن کی چھوٹی سی سورت ہے۔ اس کی تین آیتوں میں چار([184] )پیشین گوئیاں ہیں ۔ ایک توپہلی آیت میں ہے جب کہ کوثر سے مراد کثرتِ اَتباع([185] ) ہو جیسا کہ بعض روایات میں وارد ہے۔ دوسری پیشین گوئی دوسری آیت میں ہے کیونکہ وَانْحَرْ (اور قربانی کر) صیغۂ امر ہے۔ پس اس میں اشارہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اور آپ کی امت کو تو نگری عطا کرے گاجس سے قربانی پر اقدام ہوسکے۔ اسی طرح تیسری آیت میں دو پیشین گوئیاں ہیں ۔ یعنی حضور نہیں بلکہ حضور کا دشمن بے اولاد مرے گا کہ اس کے پیچھے کوئی اس کانام نہ لے گا۔ یہ چاروں
پیشین گوئیاں پوری ہوئیں ۔([186] ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَتباع کی کثرت([187] ) ظاہر ہے حتی کہ قیامت کے دن آپ بلحاظ امت تمام نبیوں سے بڑھ کر ہوں گے۔ اللّٰہ نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تو نگری اس قدر عطا فرمائی کہ ایک دفعہ سو اونٹ بطور ہَد ِی([188] ) بھیجے۔ عاص بن وائل جو حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پیچھا کٹا ہونے کا طعن دیا کرتا تھا بے اولاد مرا اس کی نسل منقطع ہوگئی۔ کوئی اس کانام بھی نہیں لیتا۔ حالانکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذُرِّیت قیامت تک رہے گی۔ آ پ کا نام قیامت تک روشن ہے۔ علاوہ ازیں سب مومنین آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اولاد ہیں جو قیامت تک رہیں گے۔
آثارِ اقتدارِ تو تا حشر متصل خصمِ سیاہ روئے تو بے حاصل وخجل
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ(۱) وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ(۲) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۠(۳)(سورۂ نصر )
جب آوے مدد اللّٰہ کی اور فتح اور تو دیکھے لوگوں کو داخل ہوتے ہیں اللّٰہ کے دین میں فوج فوج پس پاکی بیان کر اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اور بخشش مانگ اس سے بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔([189] )
یہ سورت فتح مکہ سے پہلے نازل ہوئی۔ اس میں فتح مکہ کی بشارت ہے جو ہجرت کے آٹھویں سال پوری ہوئی اورپیشین گوئی کے مطابق اہل مکہ وطائف ویمن و ہوازِن اور باقی قبائل ِعرب دین اسلام میں گروہ ہا گروہ داخل ہوئے حالانکہ اس سے پہلے اِکادُ کا اسلام میں داخل ہوا کرتے تھے۔
مندرجہ بالا پیشین گوئیاں جو سب کی سب پوری ہوئیں فقط بطورِ مثال بیان کی گئی ہیں اور اس کتاب میں زیادہ کی گنجائش بھی نہیں ورنہ قرآن مجید میں تو اس کثرت سے پیشین گوئیاں ہیں کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں جس میں قرآن مجید کی
کوئی نہ کوئی پیشین گوئی پوری نہ ہوتی ہو اور کتنی پیشین گوئیاں ہیں کہ قُرب ِقیامت اور یوم قیامت کو پوری ہوں گی۔ مثلاً یاجوج و ماجوج کا آنا، دابۃ الارض کاظاہر ہونا، حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا تشریف لانا، آسمانوں کا پھٹنا، پہاڑوں کا غبار ہونا، زمین کا چکنا چور ہونا، صور کا پھونکا جانا، مُردوں کا زندہ ہونا، ہاتھ پاؤں کا گواہی دینا، اَعمال کا وزن کیا جانا وغیرہ وغیرہ۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن کریم بے شک معجزہ ہے۔
علوم کے لحاظ سے بھی قرآنِ کریم معجزہ ہے چنانچہ شاہ وَلی اللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ مَعَانیِ منطوقہ قرآن پانچ علموں سے خارج نہیں ([190] )۔ اَوَّل: علم اَحکام یعنی واجب و مندوب و مباح ومکروہ وحرام خواہ از قسم عبادت ہوں یا معاملات یا تدبیر ِمنزل یا سیاست مُدُن([191] )۔ دوسرے: چار گمراہ فرقوں یعنی یہود و نصاریٰ ومشرکین ومنافقین کے ساتھ مُخَاصَمَہ کا علم۔ تیسرے اللّٰہ تعالٰی کی نعمتوں ( آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر اور بندوں کی ضروریات کاالہام اور اللّٰہ کی صفاتِ کاملہ کا بیان) کے ساتھ نصیحت کرنے کا علم۔ چوتھے ایام اللّٰہ یعنی امم ماضیہ میں دشمنانِ خداکے ساتھ خدا کے وقائع بیان کرنے کے ساتھ ([192] )نصیحت کرنے کا علم۔ پانچویں موت اور مابعد موت (حشر ونشرو حساب ومیزان وبہشت ودوزخ) کے ساتھ نصیحت کرنے کا علم۔([193] ) قرآن میں ان علوم پنجگانہ کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب اللّٰہ تعالٰی نے بنی آدم کی ہدایت کے لئے نازل فرمائی ہے۔ جس طرح عالم طب جب قانونِ شیخ ([194] )کامطالعہ کرتاہے اور دیکھتا ہے کہ یہ کتاب بیماریوں کے اسباب وعلامات اور اَدْوِیہ کے بیان میں غایت درجہ کو پہنچی ہوئی ہے تو اسے ذرا شک نہیں رہتا کہ اس کا مؤلف علم طب میں کامل ہے اسی طرح شریعتوں کے اَسرار کا عالم جب جان لیتا ہے کہ تَہذِیب نُفُوس([195] ) میں افراد
انسان کے لئے کن کن چیزوں کے بتانے کی ضرورت ہے اور بعدازاں فنون پنجگانہ میں تامل کرتا ہے تو بے شک اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ فنون اپنے معانی میں اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ اس سے بہتر ممکن نہیں ۔([196] )
قرآن کریم چونکہ تزکیہ نفوس میں مُعجِز کتاب ہے۔([197] ) اسی واسطے اس کتاب کی تلاوت کے وقت دلو ں میں خشیت و ہیبت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے:
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ- (زمر، ع۳)
اللّٰہنے اتاری بہتر کتاب۔ کتاب ہے آپس([198] ) میں دوہرائی ہوئی، بال کھڑے ہوتے ہیں اس سے کھالوں پر ان لوگوں کی جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے پھر نرم ہوجاتے ہیں ان کے چمڑے اور دل ان کے اللّٰہ کی یاد کی طرف۔ ([199] )
دوسری جگہ ارشا د ہوتاہے:
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۲۱) (حشر،ع۳)
اگر ہم اتارتے اس قرآن کو ایک پہاڑ پر البتہ تودیکھتا اس کو دب جانے والا پھٹ جانے والا اللّٰہ کے ڈرسے اور یہ مثالیں بیان کرتے ہیں ہم لوگوں کے واسطے تاکہ وہ فکر کریں ۔ ([200] )
قرآن کریم کی اس خارقِ عادت تاثیر سے بچنے کے لئے کفار قریش ایک دوسرے سے کہہ دیا کرتے تھے کہ جب قرآن پڑھاجائے تو تم شور مچا دیا کرو۔([201] ) (حم سجدہ، ع ۴) اور اسی واسطے مُکَذِّبین ([202] ) پر اس کا سننا نہایت دشوار
گزرتا تھااور بوجہ خبث طبع نفرت سے پیٹھ دے کر بھاگ جاتے تھے۔([203] ) (بنی اسرائیل، ع ۵) ذیل میں تاثیر ِقرآن مجید کی توضیح کے لئے ہم چند مثالیں درج کرتے ہیں ۔
ابن([204] ) اسحاق کا بیان ہے کہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکے اسلام لانے کی کیفیت مجھے یہ معلوم ہوئی ہے کہ آپ کی بہن فاطمہ اور فاطمہ کے خاوند سعید بن زید بن عمرو بن نفیل مسلمان ہوگئے تھے مگر اپنے اسلام کو اپنی قوم کے ڈر سے پوشیدہ رکھتے تھے۔ اسی طرح حضرت نعیم بن عبداللّٰہ النحام([205] ) بھی جو مکہ کے رہنے والے اور آپ ہی کی قوم بنی عَد ِی بن َکعْب میں سے تھے اسلام لے آئے تھے او ر اپنے اسلام کو اپنی قوم کے ڈرسے پوشیدہ رکھتے تھے۔ حضرت خباب بن الارت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت فاطمہ کے پاس قرآن پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز حضرت عمر کوجو خبر لگی کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کے اصحاب مردوزن قریباً چالیس کوہ صفا کے قریب ایک گھر میں جمع ہو رہے ہیں تو تلوار آڑے لٹکائے ہوئے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضور کے اصحاب کے قصد سے نکلے۔ ان اصحاب میں حضرت ابو بکر اور حضرت علی اور حضرت حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی تھے جو ان مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے ملک حبشہ کی طرف ہجرت نہ فرمائی تھی۔ راستے میں حضرت نعیم ملے جن سے یوں گفتگو ہوئی:
عمر: میں اس صابی (دین سے برگشتہ ) محمد کافیصلہ کرنے چلاہوں جس نے قریش کی جماعت کو پراگندہ ([206] )کردیاہے اور جوا ن کے داناؤں کو نادان اوران کے دین کو معیوب بتاتا ہے اور ان کے معبودوں کو براکہتا ہے۔
نعیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: عمر ! اللّٰہ کی قسم! تجھے تیرے نفس نے دھوکا دیا ہے۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ اگر تو حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قتل کردے گا تو عبد مناف کی اولاد تجھے زمین پر زندہ چھوڑدے گی؟ تو اپنے اہل بیت میں جا
اور انہیں سیدھا کر۔
عمر: کو ن سے اہل بیت ؟
نعیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: اللّٰہ کی قسم ! تیرا بہنوئی سعید بن زید اور تیری بہن فاطمہ دونوں مسلمان ہوگئے ہیں اور دین محمدی کے پیروبن گئے ہیں تو ان سے سُلَجھ لے۔
(یہ سن کر عمر اپنی بہن کے گھر پہنچتے ہیں وہاں حضرت خباب آپ کی بہن اور بہنوئی کو قرآن کی سورۂ طہ پڑھا رہے ہیں جن کی آواز عمر کے کان میں پڑجاتی ہے۔ عمر کی آہٹ سے حضرت خباب تو کوٹھڑی میں جاچھپتے ہیں اور فاطمہ وہ صحیفہ ٔ قرآن لے کر اپنی ران کے نیچے چھپالیتی ہیں )
عمر:(اندر داخل ہوکر) یہ آواز جو میں نے سنی کیسی تھی؟
سعیدوفاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما :تونے کچھ نہیں سنا۔
عمر: کیوں نہیں اللّٰہ کی قسم! مجھے خبر لگی ہے کہ تم دونوں دین محمدی کے پیر وبن گئے ہو۔ (یہ کہہ کر عمر سعید کو پکڑلیتے ہیں بہن جو چھڑانے اٹھتی ہے اسے بھی لہو لہان کردیتے ہیں )
سعید وفاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما: ہاں ہم مسلمان ہوگئے ہیں اور اللّٰہ و رسول پر ایمان لے آئے ہیں تو کر جو کر سکتاہے۔
عمر:(بہن کو لہو لہان دیکھ کر ندامت سے ) بہن! وہ کتاب تو د کھاؤ جو ابھی تم پڑھ رہے تھے۔
فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا : مجھے ڈرہے کہ تو واپس نہ دے گا۔
عمر: تو نہ ڈر (اپنے معبودوں کی قسم کھا کر) میں پڑھ کر واپس کردوں گا۔
فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا : (بھائی کے اسلام کے لالچ میں آکر ) بھائی! تو مشرک ہونے کے سبب سے ناپاک ہے اسے تو وہی چھوتے ہیں جو پاک ہوں ۔
عمر:( غسل کے بعد سورۂ طہ کی شروع کی آیتیں تلاوت کرکے) یہ کلام کیسا اچھا اور پیاراہے۔
خباب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: (کوٹھڑی سے نکل کر ) عمر! مجھے امید ہے کہ آپ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی دعا کے مصداق ہوں گے کیونکہ میں نے کل سنا کہ آپ یوں دعا فرما رہے تھے:’’یااللّٰہ! تو ابو الحکم بن ہشام یا عمر بن الخطَّاب کے ساتھ
اسلام کو تقویت دے۔ ‘‘ اے عمر ! تو اللّٰہ سے ڈر۔
عمر:مجھے حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لے چلو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں ۔
خباب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مع اصحاب کے کوہِ صفا کے قریب تشریف رکھتے ہیں ۔(عمر تلوار آڑے لٹکائے دردولت پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ اہل خانہ میں سے ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کو اس ہیئت میں دیکھ کر ڈرجاتے ہیں )
صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ عمر بن الخطاب ہے جو تلوار حَمَائل کیے ہوئے ([207] ) ہے ۔
حمزہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: اسے آنے کی اجازت دو۔ اگر وہ کارِ خیر کے لئے آیا ہے تو ہمیں دَریغ نہیں اور اگر وہ شرارت کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم اسے اسی کی تلوار سے قتل کردیں گے۔
رسو ل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم: اسے اند ر آنے دو۔
صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ: اندر آئیے۔(عمرداخل ہوتے ہیں )
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :(عمر کی کمر یا چادر کادامن کھینچ کر) خطاب کے بیٹے! کیونکر آنا ہوا، اللّٰہ کی قسم ! میں نہیں دیکھتا کہ تو باز آئے یہاں تک کہ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ تجھ پر کھڑکا نازل کرے۔
عمر:یارسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں آپ کی خدمت میں آیا ہوں تاکہ اللّٰہ پر او ر اللّٰہ کے رسول پر اور اس پر جووہ اللّٰہ کے ہاں سے لائے ایمان لاؤں ۔(اس طرح عمر اسلام لاتے ہیں اور حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تکبیر پڑھتے ہیں جس سے تمام حاضرین خانہ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مسلمان ہوگئے۔) ([208] )
ایک ([209] ) روز حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک اونٹ پر سوار ایک کوچے میں سے گزر رہے تھے ایک قاری نے یہ آیت پڑھی :
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷) مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸)
بے شک عذاب تیرے رب کا ہونے والاہے اس کوکوئی نہیں
(طور، ع ۱) ہٹانے والا۔([210] )
اسے سن کر آپ بیہوش ہوگئے اور بیہوشی کی حالت میں زمین پر گر پڑے وہاں سے اٹھا کر آپ کو گھر لائے مدت تک اس درد سے بیمار رہے یہاں تک کہ لوگ آپ کی بیمار پر سی کے لئے آتے تھے۔([211] )
دشمنانِ اسلام بھی قرآنِ کریم کی فوق العادت([212] ) تاثیر کے قائل تھے چنانچہ جب ۶ نبوت میں حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہجرت کے ارادے سے حبشہ کی طرف نکلے تو ابن الدغنہ ان کو برک الغِمَاد سے اپنی جوار میں مکہ واپس لے آیا۔([213] ) قریش نے ابن الدغنہ کی جوار کو ردنہ کیا مگر اس سے کہاکہ ابو بکر سے کہہ دو کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرے اور نماز میں چپکے جو چاہے پڑھے مگر ہمیں اذیت نہ دے اور آواز سے قرآن نہ پڑھے کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ مَبَادا([214] ) ہماری عور توں اور بچوں پر قرآن کااثر پڑجائے۔ ابن الدغنہ نے یہی آپ سے ذکرکر دیا۔ کچھ مدت آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسی پر عمل کیا۔ بعد ازاں اپنے گھر کے پاس ایک مسجد بنالی جس میں آپ نماز پڑھتے اور قرآن بآوا ز پڑھتے۔ رَقیق القلب([215] ) تھے، قرآن پڑھتے تو بے اختیار رو پڑتے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی قرأت و رِقت سے سردارانِ قریش ڈرگئے۔ انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا کر کہا کہ ابو بکر نے خلافِ شرط اپنے گھر کے پاس ایک مسجد بنالی ہے جس میں وہ بآواز نماز و قرآن پڑھتا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ مَبَادا([216] ) ہماری عورتوں اور بچوں پر اس کا اثرپڑے۔ تم اس کو روک دو۔ ہاں اگر وہ اپنے گھر کے اند ر چپکے عبادت کرنا چاہے تو کیاکرے اور اگر با ٓواز قرآن پڑھنے پر اِصرار کرے تو تم اس کی حفاظت کی ذمہ داری واپس لے لو کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ ہم تمہارے عہد کی حفاظت کو توڑ دیں ۔ ہم ابو بکر کو قرأ ت کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ سن کر ابن الدغنہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کو میری جوار کی شرط معلوم ہے آپ اس کی پابندی کریں ورنہ میری ذمہ داری واپس کردیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ عرب یہ سنیں کہ ایک شخص کی حفاظت
کا عہد جو میں نے کیا تھا وہ توڑ ڈالا گیا۔ آپ نے جواب دیا کہ میں تمہاری جوار کو واپس کرتا ہوں اورخدا کی جوار پر راضی ہوں ۔([217] )
حضرت جُبَیر بن مُطْعِم([218] ) جو اسلام لانے سے پہلے اسیرانِ بدر کے بارے میں گفتگو کرنے کے لئے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھتے پایا۔ جب آپ اس آیت پر پہنچے :
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ(۳۵) اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-بَلْ لَّا یُوْقِنُوْنَؕ(۳۶) اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ(۳۷) (طور، ع۲)
کیا وہ پیدا ہوئے ہیں آپ ہی آپ یا وہی ہیں پیدا کرنے والے یاانہوں نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین کو بلکہ یقین نہیں کرتے کیا ان کے پاس خزانے ہیں تیرے رب کے یا وہی داروغے ہیں ۔([219] )
تو قریب تھا کہ (خوف سے ) میرا دل پھٹ جائے ۔اور ایک روایت میں ہے کہ یہ پہلی دفعہ تھی کہ ایمان نے میرے دل میں قرار پکڑا۔([220] )
حضرت طُفَیْل بن عمر و الدوسی([221] ) جو ایک شریف ودانا شاعر تھے اپنے اسلام لانے کا قصہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں آیا، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وہیں تھے قبیلہ قریش کے لوگوں نے مجھ سے کہا: اے طفیل! تو ہمارے شہروں میں آیا ہے۔ یہ شخص (حضرت محمد ) جو ہمارے درمیان ہے اس نے ہمیں تنگ کردیا ہے اور ہماری جماعت کو پراگندہ([222] ) کردیا۔ اس کا قول جادو گروں کا ساہے جس سے وہ باپ بیٹے میں ، بھائی بھائی میں اور میاں بیوی
میں جدائی ڈال دیتاہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری طرح تجھ پر اور تیری قوم پر بھی جادو کردے۔ اس لئے تو اس سے کلام نہ کرنااور نہ اس سے کچھ سننا۔ وہ مجھے یہی کہتے رہے یہا ں تک کہ میں نے مصمم ار ادہ ([223] ) کرلیا کہ میں اس سے کچھ نہ سنوں گا اور نہ کلام کروں گا۔ نو بت یہاں تک پہنچی کہ جب میں مسجد کی طرف جاتا تو اس ڈر سے کہ کہیں بے ارادہ آپ کی آواز میرے کان میں پڑجائے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لیتا۔ ایک روز جو صبح کو میں مسجد کی طرف گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ میں آپ کے قریب کھڑا ہوگیا۔ پس اللّٰہ نے مجھے آپ کا بعض قول سنا ہی دیا۔ مگر میں نے ایک عمدہ کلام سنا اور اپنے جی میں کہا: وائے بے فرزَندیٔ مَادرِ مَن([224] ) میں دانا شاعر ہوں ، بُرے بھلے میں تمیز کرسکتا ہوں پھراس کا قول سننے سے مجھے کیا چیز مانع ہوسکتی ہے جو کچھ وہ بیان کرے گا اگر اچھا ہوا تو میں قبول کرلوں گااور اگر بُرا ہوا تو رد کردوں گا۔ اس لئے میں ٹھہر ارہا یہاں تک کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماپنے دولت خانے کی طرف وا پس ہوئے۔ میں آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے دولت خانے میں داخل ہونے لگے تو میں نے عرض کیا: اے محمد! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کی قوم نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے۔ اللّٰہ کی قسم ! وہ مجھے آپ کے قول سے ڈراتے رہے یہاں تک کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تاکہ آپ کا قول نہ سنوں مگر اللّٰہ نے سنا ہی دیا۔ میں نے ایک اچھا قول سنا۔ پھر میں نے التجا کی: اپنا دین آپ مجھ پر پیش کریں ۔ اس لئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ پر اسلام پیش کیااور مجھے قرآن پڑھ کر سنایا۔ اللّٰہ کی قسم ! میں نے کبھی اس کی بہ نسبت نہ کوئی اچھا قول اور نہ کوئی راست امر سنا، پس میں مسلمان ہوگیا اور میں نے کلمہ شہادت پڑھا اور عرض کیا: یارسول اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میری قوم میرے کہنے میں ہے، میں ان کی طرف جاتا ہوں اور انہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں آپ میرے لئے دعا کیجئے کہ خدا مجھے ایک نشانی دے جو دعوتِ اسلام میں ان کے مقابلہ میں میری مدد گار ہو۔ یہ سن کر آپ نے یوں دعا فرمائی: ’’اے اللّٰہ! اسے ایک نشانی عطا کر۔ ‘‘ پھر میں اپنی قوم کی طرف روانہ ہوا چلتے چلتے جب میں گھاٹی میں پہنچا جہاں سے میرا قبیلہ مجھے دیکھ سکتا تھا تو میری آنکھوں کے درمیان چراغ کی مانند ایک نور پیدا ہوا۔ میں نے کہا: یااللّٰہ! میری پیشانی کے سوا کسی اور جگہ نور پیدا کردے کیونکہ
میں ڈرتا ہوں وہ یوں گمان کریں گے کہ یہ عبرتناک سزاہے جوان کا دین چھوڑنے کے سبب میری پیشانی میں ظاہر ہوئی ہے۔ پس وہ نور بجائے پیشانی کے میرے کوڑے کے سرے پر نمودار ہوا۔ جب میں گھاٹی سے اپنے قبیلے کی طرف اتر رہا تھا تو وہ نور ان کو میرے کوڑے میں معلّق قندیل کی طرح نظرآتاتھایہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا پھر صبح ہوگئی جب میں مکان میں اترا تو میرا باپ جو بہت بوڑھا تھا میرے پاس آیا۔ میں نے کہا:ابا! مجھ سے دور رہو میں تیرا نہیں اور نہ تو میرا ہے۔ وہ بولا: بیٹا! کیوں ؟ میں نے کہا: میں مسلمان ہوگیا ہوں اور حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دین کا پیروبن گیا ہوں ۔ یہ سن کر میرے باپ نے کہا: میرا دین تیرا دین ہے۔ پس اس نے غسل کیا اور اپنے کپڑ ے پاک کیے پھر میرے پاس آیا۔ میں نے اس پر اسلام پیش کیا وہ مسلمان ہوگیا پھر میری بیوی میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے کہا: مجھ سے دور رہو۔ میں تیرا نہیں اور تو میری نہیں ۔ وہ بولی: میرے ماں باپ تجھ پر قربان! کیوں ؟ میں نے کہا: اسلام میرے اور تیرے درمیان فارق ہے۔ میں مسلمان ہوگیا ہوں اور حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دین کا پیرو بن گیا ہوں ۔ وہ کہنے لگی: میرا دین تیرا دین ہے اوروہ مسلمان ہوگئی۔ پھر میں نے قبیلہ دوس کو اسلام کی دعوت دی مگر انہوں نے اس میں تاخیر کی۔ پھر میں مکہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا نبی اللّٰہ! دوس مجھ پر غالب آگئے۔ آپ ان پر بددعا کیجئے۔ اس پر آپ نے یو ں دعا کی : ’’یااللّٰہ! دوس کو ہدایت دے۔ ‘‘ اور مجھ سے فرمایا کہ تو اپنی قوم میں لوٹ جا اور انہیں نرمی سے دعوت اسلام دے۔ اس لئے میں لوٹ آیا اور دوس کو نرمی سے اسلام کی طرف بلاتا رہا یہاں تک کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی اور غزوۂ بدر واُحد و خندق ہوچکے۔ پھر میں اپنی قوم کے مسلمانوں کو ساتھ لے کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا اور آپ خیبر میں تھے یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں دوس کے ستریا اسی گھرانے اترے۔([225] )
پادری راڈویل صاحب لکھتے ہیں کہ عرب کے سیدھے سادھے بھیڑ بکریاں چرانے والے خانہ بدوش بدو لوگ ایسے بدل گئے جیسے کسی نے جادو کردیاہو۔ وہ لوگ مملکتوں کے بانی مَبَانی([226] ) اور شہروں کے بنانے والے اور جتنے کتب خانے انہوں نے خراب کیے تھے ان سے زیادہ کتب خانوں کے جمع کرنے والے ہوگئے اور فِسْطاط، بغداد، قرطبہ اور دِلی
کے شہروں کووہ قوت ہوئی کہ عیسائی یورپ کو کپکپادیا اور قرآن کی قدر ہمیشہ ان تبدیلیوں کے اندازہ سے ہونی چاہیے جو اس نے اپنے بطیبخاطر([227] ) ماننے والوں کی عادات اور اعتقادات میں داخل کیں ۔ بت پر ستی کے مٹانے، جنات اور مادیات کے شرک کے عوض اللّٰہ کی عبادت قائم کرنے، اَطفال کُشی کی رسم([228] )کو نیست و نابود کرنے ، بہت سے تو ہمات ([229] ) کو دور کرنے اور اِزدِواج([230] )کی تعداد کو گھٹا کر اس کی ایک حد معین کرنے میں قرآن بے شک عربوں کے لئے برکت اور قدرتِ حق ([231] ) تھا، گوعیسائی مَذَاق پر وحی نہ ہو،([232] ) انتہیٰ۔ ( ازدیباچۂ قرآن مطبوعہ ۱۸۶۱ء ،صفحہ ۲۴) …یحییٰ بن الحَکَم الغَزَال اور عتبہ بن رَبیعہ وغیرہ کا حال بیان ہوچکاہے۔ زیادہ کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
مذکورہ بالا وجوہِ اَربعہ کے علاوہ علمائے کرام نے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی اور وجہیں بھی بیان کی ہیں مگر میرے خیا ل میں یہ چاروں و جہیں بالکل کافی ہیں ۔
ناظرین کو یاد ہوگا کہ ہم پہلے ایک وعدہ کر آئے ہیں اسی کے ایفاء کے لئے عنوان بالاقائم کیا گیاہے۔ مُسَیْلَمَہ کَذَّاب نے اپنے زُعم فاسد میں قرآن کی بعض چھوٹی چھوٹی سورتوں کا مُعَارَضَہ کیا تھا اَزاں جملہ ایک سورۂ کو ثر تھی جس کو اس لعین نے یوں سَجْع([233] ) کیا تھا: ([234] )
اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْجَوَاھِرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَھَاجِرْ اِنَّ مُبْغِضَکَ رَجُلٌ فَاجرٌ ([235] )
ہم نے دیئے تجھ کو جواہرات سو نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور ہجرت کر بے شک جو دشمن رکھنے والا ہے تجھ کو وہ بدکار شخص ہے۔
مگر کوئی منصف مزاج اسے مُعَارَضَہ نہیں کہہ سکتا کہ سورت ہی کے الفاظ و ترتیب لے کر اس میں کچھ اَدَل بدل کردیاجائے۔ علامہ جارُاللّٰہ زَمخشری صاحب تفسیر کَشّاف نے اس سورت کی وجہ اِعجاز پر ایک مستقل رسالہ لکھاہے
جس کا خلاصہ امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ‘’نہایۃ الایجاز فی درایۃ الاعجاز’‘ میں یوں لکھا ہے: ([236] )
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)([237] )اس آیت میں آٹھ فائدے ہیں :
{1}… یہ جملہ مُعْطِی کبیر([238] )کی طرف سے عطیۂ کثیرہ پر دلالت کرتاہے۔ جب عطیہ منعم عظیم ([239] )کی طرف سے ہو تو وہ نعمت ِعظمیٰ ہوتاہے۔ کوثر سے مراد وہ مومنین ِامت ہیں جو قیامت تک پیدا ہوں گے۔ نیز اس سے مراد وہ فضائل وخوا ص ہیں جو اللّٰہ تعالٰی نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دو جہاں میں عنایت فرمائے ہیں ۔ ان کی کنہ ([240] ) کوخدا کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور منجملہ ([241] ) کوثر وہ نہر ہے جس کی مٹی کستوری اور جس کے سنگریزے چاندی کی ڈلیاں ہیں اور جس کے کناروں پر سونے چاندی کے برتن ستاروں کی گنتی سے زیادہ ہیں ۔
{2}… اسم کی تَقْد ِیم مُفِید ِ تخصیص ہے یعنی ہم نے (نہ کسی غیر نے) تجھے یہ کثیر عطا کی جس کی کثرت کی کوئی غایت نہیں ۔ امام رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ تحقیق یہ ہے کہ یہاں مُحَدَّث عَنْہ کی تقدیم تخصیص کے لئے نہیں بلکہ اس واسطے ہے کہ ایسی تقدیم اثبات خبر کے واسطے زیادہ تاکید والی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جب اسم مُحَدَّث عَنْہ پہلے ذکر کیا جائے تو سامع کو خبر سننے کا شوق پیدا ہوتا ہے اس لئے جب وہ خبر سنتا ہے تو اس کا ذہن ا س کو یو ں قبول کرتا ہے جیسا عاشق معشوق کو۔ پس وہ خبر اس کے ذہن میں باَحْسَن وُجوہ متمکن ہوجاتی ہے۔ ([242] )
{3}… ضمیر متکلم بصیغۂ جمع لایاگیاہے جس سے ربوبیت کی عظمت پائی جاتی ہے۔
{4} …جملے کے شروع میں حرف تاکید لایا گیاہے جو قَسَم کے قائم مقام ہے۔
{5}…فعل کو بصیغۂ ماضی لایا گیا ہے تاکہ اس امر پر دلالت ہوکہ کریم کی عطاء آجلہ واقع کے حکم میں ہے۔
{6}… کوثر کے موصوف کو محذوف کردیاگیا اس لئے کہ مذکور میں وہ فرطِ اِبہام و شیاع نہیں جو محذوف میں ہے۔
{7}…وہ صفت اختیار کی گئی ہے جس کے معنی میں کثرت ہے۔ پھر اس کو اس کے صیغہ سے معدول کرکے لایا گیا۔
{8}… اس صیغہ پر لام تعریف لایا گیا تاکہ یہ اپنے موصوف کو شامل اور کثرت کے معنی دینے میں کامل ہو، چونکہ یہ لام عہد کا نہیں اس لئے واجب ہے کہ حقیقت کا ہو اور حقیقت کے بعض افراد بعض سے اَولیٰ نہیں ، پس وہ کاملہ ہوگی۔ اس میں اس طعن کا جواب بھی آگیا کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا آ پ کے بعد کوئی بیٹا نہیں کیونکہ آپ کے بعد بیٹے کا باقی رہنا دوحال سے خالی نہیں یا تو وہ بیٹا نبی بنایاجائے او ر یہ محال ہے کیونکہ آپ خاتم الانبیاء ہیں یانبی نہ بنایا جائے اوریہ امر وہم میں ڈالتا ہے کہ وہ ناخلف ہو۔ پس اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو خیر کثیر عطا فرما کر اس عیب سے محفوظ رکھا۔ اولاد کے ہونے سے یہی غرض ہوا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ عیب بھی لازم نہ آیا جو بیٹوں کے نبی نہ ہونے کی صورت میں تھا۔
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲) ([243] ) اس میں بھی آٹھ فائدے ہیں :
{1} …فاء تعقیب یہاں دو باتوں کا سبب بنانے کے معنی کے لئے مستعار ہے۔ اول انعام کثیر کو منعم کے شکر و عبادت میں قیام کا سبب بنانا۔ دوسرے انعامِ کثیر کو دشمن کے قول کی پروانہ کرنے کاسبب بنانا،کیونکہ اس سورت کے نزول کا سبب یہ ہے کہ عاص بن وَائِل نے کہا: اِنَّ مُحَمَّدًا صُنْبُورٌ۔([244] )یہ قول جناب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ناگوار گزرا، پس اللّٰہ تعالٰی نے یہ سورت نازل فرمائی۔
{2}… دو لاموں سے مقصود تعریض ہے عاص اور اس جیسے دوسروں کے دین سے جن کی عبادت و قربانی غیر اللّٰہ کے واسطے تھی اور نیز یہ مقصود ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے قدم صراطِ مستقیم پر جماد یں اور اپنی عبادت کو اللّٰہ کی ذات کریم کے لئے خالص کردیں ۔
{3}… ان دونوں عبادتوں سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عبادت کے دونوع ہیں ، ایک :اَعمالِ بدنیہ جن میں مقدم نماز ہے، دوسر ے: اَعمالِ مالیہ جن میں اعلیٰ اُونٹوں کی قربانی ہے۔
{4}… اس آیت میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نماز اور اُونٹوں کی قربانی سے
بڑا اِختصاص تھا([245] ) کیونکہ نماز آپ کی مبارک آنکھوں کے لئے ٹھنڈک بنائی گئی ہے اور اونٹوں کی قربانی میں آپ کی ہمت قوی تھی چنانچہ روایت ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے سو اونٹ قربانی دئیے جن میں ابو جہل کا ایک اونٹ تھاجس کے ناک میں سونے کی نکیل تھی۔
{5}… دوسرے لام کو اس لئے حذف کیا گیا کہ پہلا لام اس پر دلالت کررہا ہے۔
{6}… سَجْع کے حق کی رعایت کی گئی اور یہ من جملہ بدائع ہے۔ جب قائل اسے طبعی طور پر لائے اور تکلف سے کام نہ لے۔
{7}… ‘’لِرَ بِّکَ’‘ میں دو خوبیاں ہیں ایک تو اس میں التفات ہے،دوسرے مضمر کی جگہ لفظ مظہر لایا گیاہے اور اس میں اللّٰہ تعالٰی کی شانِ کبریائی اور اسکے غلبہ ٔ قدرت کا اظہار ہے۔ اسی سے خلفاء نے یہ قول لیا، یأمرک امیر المؤمنین بکذا ۔
{8}… اس سے معلوم ہواکہ حق عبادت یہ ہے کہ بندے اس کے ساتھ اپنے رب اور اپنے مالک کو خاص کریں او ر اس شخص کی خطاسے تعریض([246] ) ہوگئی جو اپنے رب کی عبادت چھوڑ کر کسی غیر کی عبادت کرے۔([247] )
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳) ([248] )اس میں پانچ فائدے ہیں :
{1}… امر (‘’ فَصَلِّ ‘‘ ‘’ وَ انْحَرْؕ ‘‘) کی علت میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شانی (دشمن) کے حال اور اس کے قول کی طرف ترک توجہ کوبر سبیل ا ِسْتِیناف ([249] ) بیان کیا گیا اور ا ِسْتِیناف کا یہ اچھا عمل ہے۔ قرآن شریف میں مواقع استیناف بکثرت ہیں ۔
{2}… یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس جملہ کو معترضہ قرار دیاجائے جو خاتمۂ اَغراض کے لئے حکمت کے سیاق پر لایا گیاہے جیسا کہ اللّٰہ تعالٰی کا قول ہے: اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(۲۶) (قصص، ع ۳)([250] )اور شانی سے
مراد عاص بن وائل ہے۔
{3}… عاص کو اس صفت کے ساتھ ذکر کیا اور نام کے ساتھ ذکرنہ کیا تاکہ یہ مُتَناوِل و شامل ہو اس شخص کو جو دین حق کی مخالفت میں عاص کی مانند ہو۔
{4}…اس جملے کے شروع میں حرف تاکید لایا گیا اس سے ظاہر ہے کہ جو کچھ عاص نے کہا جھوٹ ہے اور محض تعنت و عناد([251] )کا نتیجہ ہے اسی واسطے اس کو شانی کہا گیا۔
{5}… خبر معرفہ لائی گئی ہے تاکہ عدو وشانی([252] )کے لئے بتر ([253] )بدرجہ کمال ثابت ہو۔ گویا کہ وہ جہور ہے جس کو صُنْبور کہاجائے۔ پھر یہ سورت باوجود علو مَطْلَع و تمامِ مَقْطَع کے اور باوجود نکاتِ جلیلہ سے پُر ہونے اور محاسن کثیرہ کے جامع ہونے کے اس تَصَنُّع سے خالی ہے جس سے انسان اپنے خَصْم کو ساکت و مغلوب کرلیتاہے۔ انتہیٰ۔([254] )
ان تمام اُمور کے علاوہ اس سورت کی تین آیتوں میں چار پیشین گوئیاں ہیں جو پہلے مذکور ہوچکی ہیں ۔
آیہ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ ([255] )کی خارقِ عادت فصاحت کی طرف پہلے اشارہ آچکا ہے۔ علامہ کرمانی ([256] ) کی کتاب عجائب میں ہے کہ مُعَاندین نے عرب و عجم کے تمام کلام ڈھونڈمارے مگر کوئی کلام فخامت الفاظ ، حسن نظم، جودتِ معانی اور ایجاز میں اس کی مثل نہ پایااور اس امر پر متفق ہوگئے کہ انسانی طاقت اس آیت کی مثل لانے سے قاصر ہے۔([257] ) ابن اَبی الا ِصْبَع([258] ) کا قول ہے کہ میں نے کلام انسانی میں اس آیت ([259] )کی مثل نہیں دیکھا۔ اس میں سترہ لفظ ہیں اور بیس بدائع ہیں اور وہ یہ ہیں :
{1 2,}… ‘’ اِبْلَعِیْ ‘‘ ‘’ اَقْلِعِیْ ‘‘ میں مناسبت تامہ ہے۔
{4,3}… ‘’ اِبْلَعِیْ ‘‘ ‘’ اَقْلِعِیْ ‘‘ میں استعارہ ہے۔
{5}… ارض و سمامیں طباق ہے۔([260] )
{6}… ‘’یٰسَمَائُ’‘ میں مجاز ہے کیونکہ حقیقت ‘’ یَا مَطَرَ السَّمَائِ ‘‘ ہے۔
{7}… ‘’ وَ غِیْضَ الْمَآءُ ‘‘([261] )میں اشارہ ہے۔ ([262] )کیونکہ اس کی کئی معانی سے تعبیر کی گئی ہے اس لئے کہ پانی خشک نہیں کیا جاسکتا یہاں تک کہ آسمان کا مینہ تھم جائے او ر زمین پانی کے ان چشموں کو نگل جائے جو اس سے نکلتے ہیں تب سطح زمین کا پانی کم ہوجائے۔
{8}… ‘’ وَ اسْتَوَتْ’‘ میں صنعت ارداف([263] ) ہے کیونکہ اس کی حقیقت جَلَسَتْ ہے پس اس لفظ خاص سے اس کے مرادف کی طرف عدول کیاگیا۔ اس واسطے کہ استواء میں اشعار ہے جلوس متمکن کا جس میں کوئی کجی نہ ہو اور یہ معنی لفظ جلوس سے ادا نہیں ہوتے۔
{9}… ‘’ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ ‘‘([264] )میں تمثیل ([265] )ہے۔
{10}… اس آیت میں تعلیل([266] ) ہے۔کیونکہ ‘’ غِیْضَ الْمَآءُ ‘‘ ِاسْتِواء کی علت ہے۔
{11}… اس میں صحت تقسیم ہے، نقص کی حالت میں جو پانی کے اقسام ہیں وہ سب اس میں مذکور ہیں کیونکہ اس کی صرف یہی قسمیں ہیں ۔ آسمان کے پانی کا تھم جانا، زمین سے نکلنے والے پانی کا بند ہوجانا اور سطح زمین کے پانی کا خشک
ہوجانا۔
{12}… اس میں احتراس ([267] ) فی الدعاء ہے تاکہ یہ وہم نہ گزرے کہ غرق اپنے عموم کے سبب سے اس کو شامل ہے جو مستحق ہلاک نہیں کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کا عدل اس سے مانع ہے کہ غیر مستحق پر دعائے بد کرے۔([268] )
{13}… اس میں حسن النسق([269] )ہے کیونکہ ا س میں بعض جملے بعض پر واؤ عطف کے ساتھ اس ترتیب سے معطوف ہیں جو بلاغت کا مقتضاء ہے چنانچہ پہلے زمین پر سے پانی کا ناپید ہونا ذکر کیا گیا جس پر کشتی والوں کا غایت مقصود (کشتی کی قید سے نجات) موقوف ہے۔ پھر آسمان کے پانی کا تھم جانا بیان ہوا کہ جس پر یہ سب (یعنی کشتی سے نکلنے کے بعد کی اذیت کا دور کرنا اور زمین پرکے پانی کا پراگندہ ہوجانا) موقوف ہے۔ پھر ان ہر دو مادوں کے بند ہونے کے بعد پانی کے دور ہوجانے کی خبر دی جو یقینا ان سے متأخر ہے۔ پھر قضائے امر کی خبردی یعنی جس کا ہلاک ہونا مقدرتھا اس کے ہلاک ہونے کی اور جس کا بچنا مقدر تھا اس کے نجا ت پانے کی خبر دی۔ یہ امر ماقبل سے متأخر کیا گیا کیونکہ کشتی والوں کویہ کشتی سے نکلنے کے بعد معلوم ہوا اور ان کا نکلنا ماقبل پر موقوف تھا۔ پھر کشتی کے استقرار کی خبر دی جو اضطراب و خوف دور ہونے کا افادہ کرتا ہے۔ پھر ظالموں پر بددعا کرنے پر ختم کیا گیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ طوفان تو تمام روئے زمین پر تھا مگر غرق ہونا صرف مستحقین عذاب پر شامل تھا۔
{14}… اس میں ائتلاف اللفظ مع المعنی ہے یعنی الفاظ معنی مقصود کے مناسب لائے گئے ہیں ۔
{15}… اس میں ایجاز([270] ) ہے کیونکہ اللّٰہ تعالٰی نے یہ تمام قصہ نہایت ہی مختصر عبارت میں بیان فرمادیا۔
{16}… اس میں تسہیم([271] ) ہے کیونکہ آیت کااَوَّل اس کے آخر پر دلالت کرتاہے۔
{17}… اس میں تہذیب([272] ) ہے کیونکہ اس کے مفردات صفات حسن سے متصف ہیں ۔ ہر لفظ کے حروف کے مخارج
سہل ہیں اور ان پر فصاحت کی رونق ہے او ر بشاعت و عقادت سے خالی ہیں ۔
{18}… اس میں حسن بیان ہے کیونکہ سامع کو اس کے معنے سمجھنے میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں اسی سے وہ آسانی سے سمجھ سکتاہے۔
{19}… اس میں تمکین([273] ) ہے۔
{20}… اس میں انسجام([274] ) ہے۔([275] )
علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِتقان میں اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ا س آیت میں اعتراض([276] ) بھی ہے۔ یعنی تین جملے معترضہ لائے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں : وَ غِیْضَ الْمَآءُ ، وَ قُضِیَ الْاَمْرُ ، وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ اس سے سمجھا جاتاہے کہ یہ امر دونوں کے درمیان واقع ہوا۔ علاوہ ازیں اس میں اعتراض میں اعتراض ہے کیونکہ ‘’وقضی الامر’‘ غیض اور استوت کے درمیان واقع ہے۔ اس لئے کہ اِسْتِواء غیض کے بعد حاصل ہوا۔([277] )
’’ایجا ز‘‘ کی مثال: وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ ([278] )ہے۔ اس سے پہلے یہ مقولہ ضرب المثل تھا: ‘’القتل انفی للقتل’‘([279] ) جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس مثل کا استعمال متروک ہوگیا اس آیت کی ترجیح مثل مذکور پر بوجوہ ذیل ظاہرہے:
{1}… آیت میں مثل کی نسبت ا’’یجاز ‘‘ ہے جو ممدوح ہے کیونکہ ‘’القصاص حیٰوۃ ‘‘کے حروف دس ہیں اور ‘’ القتل انفی
للقتل’‘ کے چودہ ہیں ۔([280] )
{2}… قتل کی نفی حیات کو مستلزم نہیں اور آیت حیات کے ثبوت پر نص ہے جو مطلوبِ اصلی ہے۔
{3}… حیات کی تنکیر تعظیم کے لئے ہے جیسا کہ وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-الآیہ۔([281] )میں ہے اور اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص میں حیات مُتَطَاوِلہ ([282] )ہے مگر مثل میں یہ بات نہیں کیونکہ اس میں لام جنس کے لئے ہے۔ اسی واسطے مفسرین نے وہاں حیٰوۃ کی تفسیر بقاء کی ہے۔
{4}… آیت میں تعمیم ہے اور مثل میں نہیں کیونکہ ہر قتل انفی للقتل نہیں بلکہ بعض قتل (اور وہ قتل ظلماًہے) موجب قتل ہوتا ہے اور اس کا (یعنی قتل ظلماً کا ) نافی ایک خاص قتل ہے اور وہ قصاص ہے جس میں ہمیشہ حیات ہے۔
{5}… مثل میں لفظ ’’قتل‘‘ دوبار آیاہے اور آیت اس تکرار سے خالی ہے اور تکرار سے خالی افضل ہے اس سے جس میں تکرار پائی جائے خواہ وہ تکرا ر مخل فصاحت نہ ہو۔
{6}… آیت میں محذوف نکالنے کی حاجت نہیں مگر مثل میں ہے کیونکہ اس میں ’’افعل‘‘تفضیل کے بعد ’’من‘‘ اور اس کامابعد محذوف ہے اور قتل اول کے ساتھ’’ قصاصًا‘‘اور قتل ثانی کے ساتھ ’’ظلمًا‘‘محذوف ہیں اور تقدیریوں ہے: ‘’القتل قصاصًا انفی للقتل ظلمًا من ترکہ’‘
{7}… آیت میں صنعت طباق ہے کیونکہ قصاص کا حیات کی ضد ہونا مشعر ہے مگر مثل میں ایسا نہیں ۔
{8}… آیت ایک فن بدیع پر مشتمل ہے اور وہ دوضدوں میں ہے ایک کا جو فناو موت ہے دوسری کے لئے جوحیات ہے محل و مکان بناناہے اور حیات کاموت میں قرار پکڑنا بڑا مبالغہ ہے جیسا کہ کشاف میں مذکور ہے اور صاحب ایضاح نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ فِیْکو قصاص پر داخل کرکے قصاص کو حیات کے لئے گویا مَنْبع و مَعْدَن قرار دیاگیاہے۔
{9}…مثل میں پے درپے اَسباب خفیفہ (سکون بعد التحرک ) ہیں اور یہ امر کلمہ کی سلاست اور اس کے زبان پرجریان میں نقص ڈال دیتا ہے جیسا کہ سواری جب ذراسی حرکت کرے اور رک جائے پھر حرکت کرے پھر رک جائے تو ایسی سواری
کو سوار اپنی مرضی کے موافق نہیں چلا سکتا مگر آیت اس نقص سے پاک ہے۔
{10}… مثل میں ظاہر تَنَا قُض ہے کیونکہ ایک شیٔ اپنی ہی ذات کے لئے منافی قرار دی گئی۔
{11}… مثل میں قَلقَلہ ٔ قاف کا تکرار ہے جو تنگی و شدت کا موجب ہے اور نون کا غنہ بھی ہے۔
{12}… آیت حروف متلائمہ پر مشتمل ہے کیونکہ اس میں قاف سے صاد کی طرف خروج ہے اور قاف حروف استعلاء سے ہے اور صاد حروف استعلاء واطباق سے ہے۔ مگر مثل میں قاف سے تا ء کی طرف خروج ہے جو حرف مخفض ہے اور وہ قاف کے ملائم نہیں ۔ اسی طرح صاد سے حاء کی طرف خروج احسن ہے لام سے ہمزہ کی طرف خروج سے کیونکہ کنارۂ زبان اور اقصٰیٔ حلق میں بُعْد ہے۔
{13}…صاد اور حاء اور تاء کے تلفظ میں حسن صوت ہے مگر قاف اور تاء کی تکرار میں یہ خوبی نہیں ۔
{14}… آیت لفظ قتل سے خالی ہے جو مُشْعَرِ وَ حشت ہے بخلاف لفظ حیات کے جو طبائع کو زیادہ مقبول و مرغوب ہے۔
{15}… آیت میں لفظ قِصاص کے ذِکر سے جو مُشْعَرِ مُسَاوات ہے عدل ظاہر ہوتاہے مگر مطلق قتل میں ایسا نہیں ۔
{16}… آیت اِثبات پر مبنی ہے اور مثل نفی پر مبنی ہے اور اِثبات اَشرف ہے کیونکہ اثبات اَوَّل ہے اور نفی اس سے دوسرے درجے پر ہے۔
{17}… آیت کے معنی سنتے ہی سمجھ میں آجاتے ہیں مگر مثل کے معنی سمجھنے کیلئے پہلے’’القصاص ھو الحیٰوۃ’‘کے معنے سمجھنے درکار ہیں۔
{18}… مثل میں فعل متعدی سے افعل تفضیل ہے اور آیت اس سے خالی ہے۔
{19}… صیغۂ افعل اکثر اِشتراک کا مقتضی ہوتاہے، پس ترکِ قصاص قتل کا نافی ہوگا اور قصاص قتل کا زیادہ نافی ہوگا اور یہ درست نہیں ۔ آیت اس نقص سے خالی ہے۔
{20}…آیت قتل اور جرح دونوں سے روکنے والی ہے کیونکہ قصاص دونوں کے لئے ہوتا ہے اور قصاص اعضا ء میں بھی حیات ہے۔ کیونکہ عضو کا قطع کرنا مصلحت حیات کو ناقص یا منغض کردیتا ہے اور بعض وقت جان تک نوبت پہنچ جاتی ہے مگر مثل میں یہ خوبی نہیں ۔([283] ) کذا فی الا تقان للسیوطی۔
اَمثلہ مذکور ہ بالا سے جو بطورِ ’’ مشتے نمونہ از خروارے ‘‘([284] ) بیان کی گئی ہیں ناظرین قرآنِ مجید کی خارقِ عادت فصاحت و بلاغت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔
علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ-یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۬ؕ- ِالآیہ۔([285] ) کی فصاحت و بلاغت کے متعلق ایک رسالہ لکھاہے اور اس میں ایک سو بیس بدائع بیان کیے ہیں ۔ بخوفِ تطویل اسے یہاں درج نہیں کیاگیا۔
اس فصل میں جو معجزات بطریق اِختصار بیان ہوتے ہیں ان سے حضور رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معجزات کی وُسْعَت کا اندازہ بخوبی لگ سکتا ہے۔
حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَخص خصائص اور اَظہر معجزات میں سے یہ ہے کہ اللّٰہ تعالٰی نے آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اَسراء و معراج کی فضیلت سے خاص کیا اور کسی دوسرے نبی کو اس فضیلت سے مُشَرَّف و مُکَرَّم نہیں فرمایا اور جہاں تک آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پہنچایا کسی کو نہیں پہنچایا اور جو آیات و عجائبات آپ کو دکھائے وہ کسی کو نہیں دکھائے۔ ؎
بدیدہ آنچہ از دیدن بروں بود مپرس از ما ز کیفیت کہ چوں بود
بلکہ اگر تما م انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے تمام فضائل یکجا جمع کیے جائیں تو ان کامجموعہ ہمارے آقائے
نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی اس ایک فضیلت (یعنی معراج اور اس میں جو اَنوار و اَسرار اور حُب و قرب آپ کو حاصل ہوا) کے برابر نہ ہوگا۔
اَسراء سے مراد خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک رات کو جاناہے اور معراج بیت المقدس سے آسمانوں کے اوپر تشریف لے جانے کا نام ہے۔ اَسراء قرآن کریم سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے :
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱) (بنی اسرائیل، شروع)
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جسکے گرد ہم نے برکتیں دی ہیں تاکہ ہم اسکو اپنے چند عجائبات اور نشانیاں دکھلائیں بیشک اللّٰہ ہے سننے والا دیکھنے والا۔([287] )
یہ آیت شریف اَسراء کے ثبوت پر نَص ہے([288] ) اور اس کااَخیر حصہ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا([289] ) معراج شریف کی طرف اشارہ ہے یعنی مسجد اَقصیٰ تک لے گیا تاکہ وہاں سے آسمانوں پر لے جا کر عجائب ملکوت و ربوبیت دکھلائے کیونکہ آیات کا دکھانا اور غایت کرامات و معجزات کا ظہور آسمانوں پر ہے صرف ان امور پر مقصور([290] ) نہیں جو مسجد اَقصیٰ میں ظاہر ہوئے۔ مسجد اَقصیٰ تک لے جانا تواس کا مبدأ ہے اور فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹) فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ(۱۰) ([291] ) (سورہ نجم) ([292] ) میں بنابر تحقیق منتہائے معراج کا ذکر ہے۔
صحیح یہ ہے کہ اَسراء و معراج شریف ہر دو جسد مبارک کے ساتھ حالت بیداری میں ایک ہی رات وقوع میں آئے۔ جمہور صحابہ و تابعین ومحدثین و فقہاء و متکلمین وصوفیائے کرام کا یہی مذہب ہے اور یہی قرآنِ مجید سے ثابت ہے
کیونکہ آیۂ کریمہ سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ([293] )میں لفظ عبد موجود ہے اور عبد مجموعہ ٔ جسم ورُوح کو کہتے ہیں ۔ قرآن شریف میں جہاں کہیں کسی انسان کو کلمہ ٔ عبد سے تعبیرکیا ہے وہاں روح اور جسم دونوں مراد ہیں ۔ مثلاً سورۂ مریم میں
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّاۖۚ(۲)
یہ ذکر اس رحمت کاہے جو پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔([294] )
یہاں عبدسے یقیناً حضر ت زکریا مع جسم و رو ح کے مراد ہیں ۔سورۂ جن میں ہے:
وَّ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ یَدْعُوْهُ كَادُوْا یَكُوْنُوْنَ عَلَیْهِ لِبَدًا(۱۹)ﮒ
جب اللّٰہ کے بندے (محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) عبادت کے واسطے کھڑے ہوئے تو جن ان پر ٹوٹے پڑتے ہیں (تاکہ قرآن شریف سنیں ) ([295] )
اسی طرح آیت زیر بحث میں عبد سے مراد جسمِ اَقدس مع روحِ اَنور ہے۔ پس معراج جسمانی کا ثبوت اس آیت سے روزِ روشن کی طر ح ثابت ہے اوراحادیث صحیحہ کثیرہ سے بھی جو حد تواترکو پہنچنے والی ہیں یہی ثابت ہوتاہے۔ فی الواقع اگر خواب میں ہوتا تو کفار انکا ر نہ کرتے اور بعض ضعیف مومن فتنہ میں نہ پڑتے۔ کیونکہ خواب میں تو اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہم ایک لحظہ میں مشرق میں ہیں دوسرے لحظہ میں ہزاروں کوسوں پر مغرب میں ہیں ۔ فلاسفہ اور دیگر عقل کے مقلد جو اعتراضات اس پر کرتے ہیں ان تمام کا جواب اسرٰی بعبدہٖ(اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا) سے ملتا ہے کیونکہ لے جانے والا تو خدا ہے جو قادرِ مطلق اور جمیع نقائص سے پاک ہے۔ پس اگروہ اپنے کامل بندے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ سیدولد آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جسم اَطہر کے ساتھ حالت بیداری میں رات کے ایک حصے میں خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک اور بیت المقدس سے آسمانوں کے اوپر جہاں تک چاہا لے گیا تو ا س میں کونسا اِستحالہ لازم آتا ہے۔ وما ذٰ لک علی اللّٰہ بعزیز ۔([296] )
معجزۂ شق القمر قرآنِ کریم کی آیۂ ذیل سے ثابت ہے :
اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ(۱)وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَةً یُّعْرِضُوْا وَ یَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ(۲) (سورۂ قمرشروع) ٌّ
پاس آلگی و ہ گھڑی اور پھٹ گیا چاند اور اگر وہ دیکھیں کوئی نشانی تو ٹال دیں اور کہیں یہ جادو ہے چلا آتا۔([297] )
پہلی آیت کا یہ مطلب ہے کہ قیامت قریب آگئی اور دنیا کی عمر کا قلیل حصہ باقی رہ گیا کیونکہ ’’ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ ‘‘ جو منجملہ علامات قیامت تھا وقوع میں آگیا۔ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ سے مراد یہ ہے کہ شق القمر کا وقوع بالفعل حضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں ہوچکا۔ اس معنی کی تائید حضرت حُذَیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی قرأت سے ہوتی ہے۔و قد انشق القمر( اورحال یہ کہ چاند پھٹ چکا)کیونکہ اس صورت میں یہ جملہ حال ہوگااور قیامت سے پہلے اقتراب ساعت اور وقو ع انشقاق میں مقارنت کا مقتضی ہوگا اور اس معنی کی تائید مابعد سے ہوتی ہے کیونکہ اس کا مقتضا یہ ہے کہ شق القمر ایک معجزہ ہے جسے کفار قریش نے دیکھا اور ٹال دیااور اس سے پہلے بھی وہ پے درپے معجزات دیکھ چکے تھے کہ اسے دیکھ کر سحر مستمر بتانے لگے۔ اسی معنی پر مفسرین کا اجماع ہے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں بصراحت تام یہ قصہ مذکور ہے کہ رات کے وقت کفارِ قریش نے حضورِ اقدس صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کوئی نشان طلب کیا جو آپ کی نبوت پر شاہد ہو، آپ نے ان کو یہ معجزہ دکھلایا۔ اس معجزے کے راوی حضرت علی، ابن مسعود،حُذَیفہ، ابن عمر،ابن عباس اور اَنَس وغیرہ ہیں ۔رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ۔ ان میں سے پہلے چار صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے تو بچشم خود دیکھا کہ چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔([298] ) ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر اور دوسرا دوسرے پہاڑ پر تھا۔ یہ وہ معجزہ ہے کہ کسی دوسرے پیغمبر کے لئے وقوع میں نہیں آیااور بطریق تواتر ثابت ہے۔
سوال: کیا اہل مکہ کے سوااور لوگوں نے بھی شق القمر دیکھا؟
جواب: اہل مکہ کے علاوہ اَطراف سے آنے والے مسافروں نے بھیشَقَّ الْقَمَرُ کی شہادت دی۔ چنانچہ مسند([299] )ابو داؤد
طیالسی (متوفی ۲۰۴ھ ) میں بروایت حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمذکو ر ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں چاند پھٹ گیا۔ کفارِ قریش نے دیکھ کر کہا کہ یہ ابو کبشہ([300] )کے بیٹے کا جادو ہے۔ پھر وہ کہنے لگے: مسافر جو آئیں گے ان سے پوچھیں گے دیکھیں وہ کیا کہتے ہیں کیونکہ (حضرت) محمد کا جادو تمام لوگوں پر نہیں چل سکتا۔ چنانچہ مسافر آئے اور انہوں نے کہا کہ ’’ ہم نے بھی شق القمر دیکھا ہے۔ ‘‘([301] ) اگر بالفرض بعض جگہ نظر نہ آیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اِختلاف مطالع کے سبب بعض مقامات میں چاند کا طلوع ہوتا ہی نہیں اسی لئے چاند گہن سب جگہ نظر نہیں آتا اور بعض دفعہ دوسری جگہوں میں ابریا پہاڑ وغیرہ چاند کے آگے حائل ہوجاتا ہے۔
سوال:…شق القمر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے زمانے میں وقوع میں آیا۔ جسے اب تیرہ سو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں تو یہ کس طرح قرب قیامت کا نشان ہوسکتا ہے جواب تک نہیں آئی؟
جواب:…حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وجود مبارک اور آپ کی نبوت قرب قیامت کی علامات میں سے ہے یعنی اس امر کاایک نشان ہے کہ دنیا کی عمر کا اکثر حصہ گزرچکا ہے اور بہت تھوڑا باقی رہ گیا ہے، چنانچہ صحیحین میں ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’ بُعِثْتُ اَنَا وَ السَّاعَۃُ کَھَاتَینِ‘‘([302] ) یعنی میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی مانند ہیں کہ جس قدر و سطی (درمیانی انگلی) سبابہ (شہادت کی انگلی) سے آگے ہے قیامت سے پہلے میرا مبعوث ہونا بھی اسی کی مانند ہے کہ میں پہلے آگیا ہوں او ر قیامت میرے پیچھے آرہی ہے۔جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت قرب قیامت کی علامت ہوئی تو شق القمر کا بالفعل وقوع بھی جو آپ کی نبوت کی دلیل ہے قرب قیامت کانشان ٹھہرا۔
حضرت اَسماء بنت عمیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ صہبائ([303] ) میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی طرف وحی آرہی تھی اور آپ کا سر مبارک حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی گود میں تھا اس وجہ سے حضرت علی نے نماز عصر نہ پڑھی یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیااور نبیصَلَّیاللّٰہُتَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز عصر پڑھ لی تھی۔ آپ نے حضرت علی سے دریافت فرمایا: کیا تم نے نما ز عصر پڑھ لی؟ حضرت علی نے عرض کیا: نہیں !اس پر رسول اللّٰہصَلَّیاللّٰہ تعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ([304] ) یااللّٰہ! یہ تیری طاعت میں اور تیرے رسول کی طاعت میں تھا تو اس کے لئے آفتاب کو واپس لا۔ حضرت اَسماء رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے آفتاب کو دیکھا کہ غروب ہوگیا تھاپھر میں نے دیکھا کہ غروب ہونے کے بعد نکل آیااور اس کی شعاع پہاڑوں اور زمین پر پڑی۔([305] )
رد الشمس([306] ) کی طرح حبس الشمس([307] ) بھی آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے وقوع میں آیا ہے چنانچہ شب معراج کی صبح کو جب کفارِ قریش نے حضور صَلَّیاللّٰہ تعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اپنے قافلوں کے حالات پوچھے تو آپ نے ایک قافلہ کی نسبت فرمایا کہ وہ چہار شنبہ کے دن([308] ) آئے گا۔قریش نے اس کا انتظار کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا اور وہ قافلہ نہ آیا۔ اس وقت آپ صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دعا فرمائی تو اللّٰہ تعالٰی نے سورج کو
ٹھہرا رکھا اور دن میں اضافہ کردیا یہاں تک کہ وہ قافلہ آپہنچا۔ ([309] )
امام([310] ) بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کی ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک شخص کو دعوتِ اسلام دی۔ اس نے جواب دیا کہ میں آپ پر ایمان نہیں لاتا یہاں تک کہ میری بیٹی زندہ کی جائے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر دکھا۔ اس نے آپ کو اپنی بیٹی کی قبر دکھائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس لڑکی کانام لے کر پکارا۔ لڑکی نے قبر سے نکل کر کہا: لَبـَّیـْکَ وَسَعْدَیْکَ([311] ) نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کیا تو پسند کرتی ہے کہ دنیا میں پھر آجائے؟ اس نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمقسم ہے اللّٰہکی! میں نے اللّٰہ کو اپنے والدین سے بہتر پایا اور اپنے لئے آخرت کو دنیا سے اچھا پایا۔([312] )
حافظ ابو نُعَیْم([313] )نے کعْب بن مالک کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت جابر بن عبداللّٰہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہرہ متغیر پایا اس لئے وہ اپنی بیوی کے پاس واپس آئے اورکہنے لگے: میں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا چہر ہ متغیر دیکھاہے میرا گمان ہے کہ بھوک کے سبب سے ایسا ہے کیا تیرے پاس کچھ موجود ہے؟ بیوی نے کہا: اللّٰہ کی قسم! ہمارے پاس یہ بکری اور کچھ بچا ہوا توشہ ہے۔ پس میں نے بکری کو ذبح کیا اور اس نے دانے پیس کر روٹی اور گوشت پکایا پھر ہم نے ایک پیالہ میں ثرید([314] ) بنایا۔ پھر میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لے گیا۔ آپ نے فرمایا: اے جابر! اپنی قوم کو جمع کر لو۔ میں ان کو لے کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا۔ آپ نے فرمایا: ان کو میرے پاس
جدا جدا جماعتیں بناکر بھیجتے رہو۔ اس طرح وہ کھانے لگے۔ جب ایک جماعت سیر ہوجاتی تو وہ نکل جاتی اور دوسری آتی یہاں تک کہ سب کھاچکے اورپیالے میں جتنا پہلے تھا اتنا ہی بچ رہا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے تھے: کھاؤ اور ہڈی نہ توڑو۔ پھر آپ نے پیالے کے وسط میں ہڈیوں کو جمع کیا ان پر اپنا مبارک ہاتھ رکھا پھر آپ نے کچھ کلام پڑھا جسے میں نے نہیں سنا۔ ناگاہ ([315] )وہ بکری کان جھاڑتی اٹھی آپ صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: اپنی بکری لے جا۔ پس میں اپنی بیوی کے پاس آیا،وہ بولی یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: اللّٰہ کی قسم! یہ ہماری بکری ہے جسے ہم نے ذبح کیا تھا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اللّٰہ سے دعا مانگی پس اللّٰہ نے اسے زندہ کردیا۔ یہ سن کر میری بیوی نے کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں ۔([316] )
غزوۂ خیبر کے بعد سَلام بن مِشکَم یہودی کی زوجہ نے بکری کا زہر آلود گوشت آنحضرت صَلَّیاللّٰہ تعالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا۔ آپ اس میں سے بازو اٹھا کر کھانے لگے وہ بازو بولا کہ مجھ میں زہر ڈالا گیا ہے۔ وہ یہودیہ طلب کی گئی تو اس نے اعتراف کیاکہ میں نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے۔([317] ) یہ معجزہ مردے کے زندہ کرنے سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ یہ میت کے ایک جزو کا زندہ کرنا ہے حالانکہ اس کا بقیہ جو اس سے منفصل تھا مردہ ہی تھا۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے والدین کا آپ کی خاطر زندہ کیا جانا اور ان کا آپ پر ایمان لانا بھی بعض احادیث میں وارد ہے۔ علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اس بارے میں کئی رسالے تصنیف کیے ہیں ،اور دلائل سے اسے ثابت کیا ہے۔ جزاہ اللّٰہ عنّا خیر الجزاء ۔([318] )
حضور اقدس صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے توسل سے بھی مردے زندہ ہوگئے چنانچہ حضرت انس([319] ) رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک جوان نے وفات پائی اس کی ماں اندھی بڑھیاتھی۔ ہم نے اس جوان کو کفنا دیااور اس کی ماں کو پُرسَہ دیا۔([320] ) ماں نے کہا: کیا میرا بیٹامرگیاہے؟ ہم نے کہا: ہاں ! یہ سن کر اس نے یوں دعا مانگی: یااللّٰہ! اگر تجھے معلوم ہے کہ میں نے تیری طرف اور تیرے نبی کی طرف اس امید پر ہجرت کی ہے کہ تو ہر مشکل میں میری مدد کرے گا تو اس مصیبت کی مجھے تکلیف نہ دے۔ ہم وہیں بیٹھے تھے کہ اس جوان نے اپنے چہرے سے کپڑا اٹھا دیا اور کھانا کھایا اور ہم نے بھی اس کے ساتھ کھایا۔([321])
جن چیزوں کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کادست مبارک لگا ، یاحضور کے استعمال میں آئیں ان کی حقیقت و ماہیت بدل گئی۔ بغرضِ تو ضیح ذیل میں چند مثالیں درج کی جاتی ہیں :
ایک رات مدینہ منورہ کے لوگ ڈرگئے (گویا کوئی چو ریا دشمن آتاہے) آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو طَلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار تھا اوراس پر بغیر زین کے سوار ہو کر اکیلے جنگل کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد لوگ بھی سوار ہوکر اس طرف نکلے۔ آنحضرت صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم ان کو واپس آتے ہوئے ملے، آپ صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ڈرو نہیں ڈرونہیں ‘‘ اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔ اس دن سے وہ گھوڑا ایسا چالاک بن گیا کہ کوئی دوسرا گھوڑا اس سے آگے نہ بڑھ سکتا تھا۔ ([322] )
حضرت ام مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس ایک چمڑے کی کُپّی تھی جس میں وہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں گھی بطور ہدیہ بھیجا کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ حضور صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کو نہ نچوڑنا۔ یہ فرماکر آپ نے کُپّی ام مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو دے دی۔ وہ کیا دیکھتی ہیں کہ کُپّی گھی سے بھری ہوئی
ہے۔ ام مالک کے لڑکے آکر نان خورش ([323] ) مانگتے تو وہ کُپّی میں گھی بدستور پاتیں ۔ غرض وہ گھی اسی طرح خرچ ہوتا رہا یہاں تک کہ ایک روز ام مالک نے کُپّی کو نچوڑا توخالی ہوگئی۔([324] )
اُم اَوس بہزیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے کُپّی میں گھی ڈال کر بطور ہدیہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بھیجا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے قبول فرمایا اور کُپّی میں سے گھی نکال لیااور اُم اَوس کے لئے دعائے برکت فرماکر کُپّی واپس کردی۔ جب اُم اَوس نے دیکھا تو گھی سے بھری ہوئی پائی اسے خیال آیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ہدیہ قبول نہیں فرمایا اس لئے وہ فریاد کرتی ہوئی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ارشاد سے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس سے حقیقت حال بیان کردی ۔ ام اوس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہَا اس کُپّی میں آنحضر تصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بقیہ عمر شریف اور خلافت صدیقی وفاروقی وعثمانی میں گھی کھاتی رہی یہاں تک کہ حضرت علی وامیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے درمیان جنگ وقوع میں آئی۔([325] )
حضرت عبدالرحمن بن زید بن خطاب قرشی عدوی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کوتاہ قد پیدا ہوئے تھے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے سر پر اپنادست مبارک پھیر ا او ر دعا فرمائی اس کا یہ اثر ہوا کہ عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جب کسی قوم میں ہوتے تو قد میں سب سے بلند نظر آتے، جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔([326] )
ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز عشاء کے لئے نکلے۔ رات اندھیری تھی اور بارش ہو رہی تھی۔ آپ نے حضرت قَتَادَہ بن نعمان اَنصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھا۔ انہوں نے عرض کیا:میں نے خیا ل کیا کہ نمازی کم ہوں گے اس لئے میں نے چاہا کہ جماعت میں شامل ہوجاؤں ۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
نماز سے فارغ ہوکر حضرت قَتَادَہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کو کھجور کی ایک ڈالی دی اور فرمایا کہ یہ ڈالی دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ پیچھے روشنی کرے گی، جب تم گھر پہنچو تو اس میں ایک سیاہ شکل دیکھو گے، اس کو مار کر نکال دینا کیونکہ وہ شیطا ن ہے۔ جس طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ویسا ہی ظہور میں آیا۔([327] )
جنگ بدر میں حضرت عکاشہ بن محصن رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی خدمت میں آئے۔ حضور نے ان کوایک لکڑی عنایت فرمائی۔ جب عکاشہ نے ہاتھ میں لے کر ہلائی تو وہ ایک سفید مضبوط تلوار بن گئی جس سے وہ جنگ کرتے رہے۔ اس تلوار کانام عَوْن تھا۔ حضرت عکاشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اسی کے ساتھ جہاد کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد میں اَیَّام الرِّدَّۃ ([328] ) میں شہید ہو گئے۔([329] )
جنگ احد میں حضرت عبداللّٰہ بن جحش رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو ایک کھجور کی شاخ عنایت فرمائی وہ ان کے ہاتھ میں تلوار بن گئی جس کے ساتھ وہ جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ اس تلوار کو عرجون کہتے تھے۔([330] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ایک پانی کا مشکیزہ لیا اس کا منہ باندھ کر دعا فرمائی اور صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو عطافرمایا۔ جب نماز کا وقت آیا تو انہوں نے اسے کھولا کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں بجائے پانی کے تازہ دودھ ہے اور اس کے منہ پر جھاگ آرہی ہے۔([331] )
حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَالسَّلام نے حضرت سلمان فارسی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کیلئے جو کھجور کے پیڑ اپنے دست مبارک سے لگائے تھے وہ ایک ہی سال میں پھل لائے۔([332] ) بانجھ بکری کے تھنوں پر آپ کادست مبارک پھر گیا وہ دودھ دینے لگی۔([333] )گنجے کے سرپر دست شفا پھیرا تواسی وقت بال اُگ آئے۔([334] )اس قسم کی برکات کا ذکر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حلیہ شریف کے بیان میں آچکا ہے۔
معرض بن معیقیب یمانی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں نے حجۃ الوداع کیااور مکہ میں ایک گھر میں داخل ہوا۔ میں نے اس میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا۔ آپ سے ایک عجیب امر دیکھنے میں آیا۔ اہل یمامہ میں سے ایک شخص آپ کی خدمت میں ایک بچہ لایا جو اسی دن پیدا ہوا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا: اے بچے! میں کون ہوں ؟ وہ بولا: آپ اللّٰہ کے رسول ہیں ۔ آپ نے فرمایا: تو نے سچ کہا، اللّٰہ تجھے برکت دے۔ پھر اس کے بعد اس بچے نے کلام نہ کیا یہاں تک کہ وہ جوان ہوگیا۔ ہم اسے مبارک الیمامہ([335] )کہا کرتے تھے۔([336] )
حضرت شمر بن عطیہ نے اپنے بعض شیوخ سے روایت کی ہے کہ ایک عورت نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ایک لڑکا لائی جو جوان ہوگیا تھا۔ اس نے کہا: میرے اس بیٹے نے جب سے پیدا ہوا کلام نہیں کیا۔ پس رسول اللّٰہصَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس لڑکے سے پوچھا کہ میں کون ہوں ؟ اس نے جواب دیا کہ آپ اللّٰہ کے رسول ہیں ۔([337] )
حضرت فدیک بن عمرو السلامانی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئی تھیں اور وہ کچھ نہ دیکھ سکتے تھے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دم کردیا۔ وہ ایسے بینا ہوگئے کہ اَسی برس کی عمر میں سوئی میں دھاگہ ڈال سکتے تھے۔([338] )
امام رازی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت معاذ بن عفراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی بیوی کو برص کی بیماری تھی وہ رسول اللّٰہ صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے اپنا عصا مبارک اس کے بدن پر پھیردیا اسی وقت مرض جاتا رہا۔([339] )
حضرت ابو سَبْرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں ایک ایسی گلٹی تھی کہ اونٹ کی مہار نہ پکڑسکتے تھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک تیر منگوایا اور گلٹی پر پھیردیا وہ فوراً جاتی رہی۔([340] )
حضرت اَسماء بنت ابی بکر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہما کے سر پر اور چہرے پر ورم ہوگیا تھا رسول اللّٰہصَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا دست شفا ء کپڑے پر سے ان کے چہرے اور سر پر رکھا اور دعا فرمائی اسی وقت ورم جاتا رہا۔([341] )
حضرت حبیب بن یساف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ذکر کرتے ہیں کہ میں ایک غزوہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھا میری گردن پر ایک ضربِ شدید ایسی لگی کہ میرا بازو لٹک پڑا۔ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آیا۔ آپ نے اپنا لعاب دہن لگادیا اور بازو کو اس کی جگہ پر چسپاں کردیا تو وہ فوراً چنگا ([342] ) ہوگیا۔ پھر میں نے اسے
قتل کر دیا جس نے مجھے ضرب شدید لگائی تھی۔([343] )
حضرت عبداللّٰہ بن رَوَاحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ نے حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوکر ڈاڑھ کے درد کی شکایت کی آپ نے اپنامبارک ہاتھ ان کے رخسار کی اس جگہ پر رکھا جہاں درد تھا اور دعا فرمائی۔ ابھی آپ نے دست شفاوہاں سے نہ اٹھا یا تھا کہ اللّٰہ تعالٰی نے شفادی۔ ([344] )
حضرت جرہدرَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا کرتے تھے۔ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ انہوں نے عرض کیا کہ دائیں ہاتھ میں کچھ شکایت ہے جس کے سبب سے کھایا نہیں جاتا۔ حضور نے اس ہاتھ پر دم کردیا۔ حضرت جرہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو پھر عمر بھر یہ شکایت نہ ہوئی۔([345] )
عنوان بالا کے متعلق اور مثالیں حلیہ شریف میں دَہَان مبارک اور لُعاب مبارک اور دَست مبارک کے تحت میں مذکور ہوچکی ہیں جن کے دُہرانے کی یہاں ضرورت نہیں ۔
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ احزاب کے دن ہم خندق کھود رہے تھے ایک سخت زمین ظاہر ہوئی۔ صحابہ کرام نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آئے اور عرض کی کہ خندق میں سخت زمین پیش آگئی ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں خندق میں اترتا ہوں ۔ پھر آپ کھڑے ہوئے (حالانکہ بھو ک کی شدت سے آپ کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا اور ہم نے بھی تین دن سے کچھ نہ چکھا تھا) حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے کدال لی اور ماری۔ وہ سخت زمین رَیگ رواں ([346] ) کاایک ڈھیر بن گئی۔ میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یہ حالت دیکھ کر اپنی بیوی کے
پاس آیا اور اس سے کہا: کیا تیرے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے۔ میں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں سخت بھوک کی علامت دیکھی ہے۔ میری بیوی نے ایک تھیلی نکالی جس میں ایک صاع جو تھے۔ ہمارے ہاں گھر میں پلا ہوا ایک بکری کا بچہ تھا میں نے اسے ذبح کیا۔ میری بیوی نے جوپیس لئے۔ ہم نے گوشت دیگ میں ڈال دیا۔ پھر میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیااور چپکے سے عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ہم نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور میری بیوی نے ایک صاع جو پیسے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مع چند صحابہ کے تشریف لائیں ۔ یہ سن کر نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آواز دی: اے اہل خندق! جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ضیافت تیارکی ہے جلدی آؤ۔ پھر نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: تم میرے آنے تک دیگ نہ اتارنا اورخمیر کو نہ پکانا۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے تو میری بیوی نے آپ کے سامنے خمیر نکالا آپ نے اس میں اپنے دہن مبارک کا لعاب ڈال دیا اور دعائے برکت فرمائی پھرہماری دیگ کی طرف آئے۔ اس میں بھی لعاب مبارک ڈال دیااور دعائے برکت فرمائی پھرمیری بیوی سے فرمایا: روٹی پکانے والی کو بلا کہ تیرے ساتھ روٹی پکائے اور تو اپنی دیگ میں کفگیر سے گوشت نکالنااور دیگ کو چولہے پر سے نہ اتارنا۔ راوی کابیان ہے کہ اہل خندق جو ایک ہزارتھے اللّٰہ کی قسم! سب کھا چکے یہاں تک کہ اسے باقی چھوڑگئے مگر دیگ اسی طرح جوش مار رہی تھی اور خمیر اسی طرح پکایا جارہا تھا۔([347] )
قصہ مذکورہ بالا میں روایت ِاحمد ونسائی میں ہے کہ جب حضرت صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سخت پتھر پر بسماللّٰہ کہہ کر کدال ماری تو اس کی ایک تہائی ٹوٹ گئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللّٰہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئیں ۔ اللّٰہ کی قسم ! میں اس وقت شام کے سرخ محلات دیکھ رہاہوں ۔ پھر آپ نے دوسری بار کدال ماری تو دوسری تہائی ٹوٹ گئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللّٰہ اکبر! مجھے فارس کی کنجیاں دی گئیں ۔ خدا کی قسم ! میں اس و قت مدائن کسریٰ کاسفید محل دیکھ رہاہوں ۔ پھر تیسری بارکدال ماری تو باقی تہائی بھی ٹوٹ گئی۔ آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’اللّٰہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں ۔ خدا کی قسم ! میں اس وقت یہاں سے
ابواب صنعاء کو دیکھ رہاہوں ۔ ‘‘([348] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کے دن لوگوں کو بھوک لگی۔ حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُنے آنحضرت صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ آپ ان کوحکم دیں کہ جس کے پاس بچا ہوا توشہ ہے لے آئے پھرآپ اس پر دعائے برکت فرمائیں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منظور فرمایااور چمڑے کا فرش طلب کیاوہ بچھا دیا گیا تو آپ نے صحابہ کرام کا بچاہوا توشہ طلب فرمایا۔ کوئی چنے کی مٹھی لارہا تھا، کوئی چھواروں کی مٹھی بھر ے آرہا تھا، کوئی روٹی کا ٹکڑا لارہاتھا یہا ں تک کہ فرش پر تھوڑا سا توشہ جمع ہوگیا۔ پس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعائے برکت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ اپنے برتنوں میں ڈال کرلے جاؤ۔ چنانچہ لوگ اپنے برتنوں میں لے گئے یہاں تک انہوں نے لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جسے بھرا نہ ہو۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ تمام لشکر([349] )نے پیٹ بھر کر کھایااور بچ بھی رہا۔ پس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں اس امر کی کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس امر کی کہ میں اللّٰہ کا رسول ہوں ان د و شہادتوں میں شک نہ کرنے والا کوئی بندہ اللّٰہ سے نہ ملے گاکہ وہ بہشت سے روک دیاجائے۔([350] )
حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ہم ایک سو تیس شخص تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس طعام ہے۔ ایک شخص کے پاس ایک صاع طعام نکلا وہ گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک دراز قد، ژَولِیدہ مو،([351] ) بکریاں ہا نکتا آیا آپ نے اس سے ایک بکری خریدی۔([352] ) اسے ذبح کیا گیااور آ پ کے حکم سے اس کا کلیجہ بھونا گیا۔ آ پ نے اس کلیجہ کی ایک ایک بوٹی سب کودی۔ پھر گوشت دو پیالوں میں ڈال دیا۔ سب نے سیر ہو کر کھایا اور دونوں پیالے بھرے کے بھرے بچ رہے ہم نے بچے ہوئے کھانے کو
اونٹ پر رکھ لیا۔([353] ) واضح رہے کہ اس قصہ میں دو معجزے ہیں ایک تکثیرکلیجہ([354] )دوسرے تکثیر صاع و گوشت۔([355] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں بھوک کی شدت سے کبھی اپنے پیٹ کو زمین سے لگایا کرتا تھااور کبھی پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے میں بیٹھ گیا جہاں سے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖوَسَلَّم اور آپ کے صحابہ کرام گزرا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُپاس سے گزرے میں نے ان سے قرآن کی آیت پوچھی تاکہ آپ میرا پیٹ بھردیں مگر انہوں نے کچھ توجہ نہ کی اور گزرگئے۔ اسی طرح حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُآئے میں نے ان سے بھی ایک آیت پوچھی مگر انہوں نے بھی کچھ توجہ نہ کی اور گزرگئے۔ اس کے بعد حضرت ابوالقاسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پاس سے گزرے تو میری حالت کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ آپ دولت خانہ میں تشریف لے گئے تو ایک پیالہ میں کچھ دودھ دیکھا۔ آپ نے دریافت کیا کہ یہ دودھ کیسا ہے؟ جواب ملا کہ ہدیہ ہے۔ مجھ سے فرمایا کہ اہل صفہ کو بلالاؤ۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ کے پاس صدقہ آتا تو اسے اہل صفہ کے لئے بھیج دیتے اور اس میں سے خود کچھ نہ کھاتے۔ اگر ہدیہ آتا تو اہل صفہ کو بلاکر اس میں شریک کرلیتے۔ میں نے اپنے جی میں کہا کہ اتنے دودھ سے اہل صفہ کا کیا ہوگا اس کا تو میں ہی زیادہ مستحق تھا مگر ارشادِ تعمیل سے چارہ نہ تھا میں ان سب کو بلالایا۔ آپ صَلَّیاللّٰہُتَعَالٰیعَلَیْہِوَاٰلِہٖوَسَلَّم نے مجھے وہ پیالہ دیا اور فرمایا کہ ان کو پلاؤ۔ میں ایک ایک کو پلاتا رہا یہاں تک کہ وہ سب سیر ہوگئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پیالہ لے کر اپنے دست مبارک پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ پھر فرمایا: ابو ہریرہ ! میں اور تم دونوں باقی ہیں ۔میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ نے سچ فرمایا۔ آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ اور پیو! میں نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا: اور پیو! میں نے پھر پیا اسی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے عرض کیا کہ اب پیٹ میں گنجائش نہیں ۔ بعد ازاں باقی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پی لیا۔([356] )
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ([357] ) ذکر کرتے ہیں کہ ایک بدوی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے طعام کا سوال کیا۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے آدھا وسق ([358] ) جو عنایت فرمائے وہ اور اس کی بیوی اور اس کے مہمان ان کو کھاتے رہے (اور وہ کم نہ ہوئے) یہاں تک کہ ایک روز اس نے ان کو ماپ لیا( تووہ کم ہونے لگے) اس نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا اگر ان کو نہ ماپتا تو تم عمر بھر کھاتے رہتے اور وہ کم نہ ہوتے۔([359] )
حضرت اَنس([360] ) بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کابیان ہے کہ ابو طلحہ ([361] ) ( والد انس) نے ام سلیم (والد ۂ انس) سے کہا کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں بھوک کی شدت سے ضعف کے آثار دیکھے ہیں کیا گھر میں کچھ ہے؟ ام سلیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جو کی چند روٹیاں کپڑے میں لپیٹ کر میرے ہاتھ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بھیجیں ۔ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پہنچا۔ آپ مع اصحاب مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ام سلیم کے گھر چلو۔ میں گھر میں پہلے پہنچ گیا اور ابو طلحہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ سے صورت حال بیان کردی۔ ابو طلحہ نے راستے میں رسول اللّٰہصَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰیعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا استقبال کیا۔ جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گھر میں داخل ہوئے توام سلیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے فرمایا کہ ماحضر([362] )لے آؤ۔ آ پ کے ارشاد سے روٹیوں کے ٹکڑے کرکے ان میں کچھ گھی ڈال دیاگیا۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی اوراصحاب میں سے دس کو طلب کیا، وہ سیر ہوگئے تو پھر اور دس کو طلب کیا۔ اسی طرح ستریااسی اصحاب نے سیر ہوکر کھایا۔([363] )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں چند کھجوریں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لایا میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان میں دعائے برکت فرمائیں ۔ آپ نے
دست مبارک میں لیکر دعائے برکت فرمائی اور فرمایا کہ لو ان کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو جس وقت ان میں سے کچھ لینا چاہو تو ہاتھ ڈال کر نکال لیا کرنا اور توشہ دان کو نہ جھاڑنا۔ ہم نے ان میں سے اتنے اتنے وسق([364] ) راہِ خدا میں دے دئیے۔ خود کھاتے اور دوسروں کو کھلاتے رہے۔ وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوتا تھا یہاں تک کہ جب حضرت عثمان کی شہادت کادن آیا تو وہ گم ہوگیا۔([365] )کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس دن فرماتے تھے:
لِلنَّاسِ ھَمٌّ وَّلِیْ ھَمَّانِ بَیْنَھُمْ ھَمُّ الْجِرَابِ وَھَمُّ الْشَّیْخِ عُثْمَانًا([366] )
لوگوں کوایک غم ہے اور مجھے دو غم ہیں توشہ دان کے گم ہونے کا غم اور حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے شہید ہونے کاغم۔
حضرت جابر بن عبداللّٰہانصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا بیان ہے کہ میرے والداُحد کے دن شہید ہوگئے اور چھ لڑکیاں اور بہت ساقرض چھوڑگئے۔ جب کھجوروں کے توڑنے کا وقت آیا تو میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کو معلوم ہے میرے باپ احد کے دن شہید ہوگئے او ر بہت سا قرض چھوڑگئے میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کی زیارت کریں ۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ تم جاؤ اور ہر ایک قسم کی کھجور کا الگ الگ ڈھیر لگادو۔ میں نے تعمیل ارشاد کی اور آپ کو بلانے آیاجب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھاتو مجھے اور تنگ کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین بار پھر ے پھر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ قرـض خواہوں کو بلاؤ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ماپ کران کو دیتے رہے یہاں تک کہ میرے باپ کی امانت اللّٰہ نے ادا کردی۔ میں اسی پرراضی تھا کہ اللّٰہ تعالٰی میرے والد کی امانت ادا کردے۔ خواہ میری بہنوں کے لئے ایک کھجور بھی نہ بچے مگر اللّٰہ کی قسم! وہ تمام ڈھیر سالم رہے۔ میں نے اس ڈھیر کو دیکھا جس پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف رکھتے تھے۔ اس میں سے ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی تھی۔([367] )
تکثیر طعام کی طرح حضور کی دعا و برکت سے قلیل پانی کا کثیر ہوجانا بھی بہت سی احادیث میں آیا ہے۔ اس قسم کا تکثیر طعام اور تکثیر آب جناب سید کائنات عَلَیْہِ اُلُوْفُ التَّحِیَّۃ وَالصَّلٰوۃ کے مربی او ر وَلی نعم ہونے کا اثر ہے کیونکہ جس طرح حضور انور بحسب روحانیت قلوب وارواح کے مربی و مکمل ہیں عالمِ جسمانیت میں اَبدان واَشباح کے پرورش فرمانے والے بھی ہیں ۔ ؎
شکر فیض تو چمن چوں کند اے ابر بہار
کہ اگر خار و اگر گل ہمہ پروردۂ تست
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ‘’ اشعۃ اللمعات ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز میں صفا و مروہ کے درمیان بازار میں سے گزررہاتھا وہاں میں نے ایک سبزی بیچنے والے کو دیکھا کہ سبزی پر پانی چھڑک رہا ہے اور یوں کہہ رہا ہے : یَا بَرَکَۃَ النَّبِیِّ تَعَالِیْ وَ اَنْزِ لِیْ ثُمَّ لَا تَرْتَحِلِیْ ا ے نبی کی برکت!آاور میرے مکان میں اتر پھر کوچ نہ کر۔ ([368] )
[1] … لقد سمعت قول الکہنۃ فما ھو بقولھم ولقد وضعت قولہ علی اقراء الشعراء فما یلتئم علی لسان احد بعدی انہ شعر و اللّٰہ انہ لصادق وانھم لکا ذبون ۔۱۲منہ
[2] … صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل ابی ذر،الحدیث:۲۴۷۲،ص۱۳۴۲-۱۳۴۳ ملخصاً۔علمیہ
[3] … نغمہ، گیت۔
[4] … ’’الطبقات الکبریٰ لابن سعد ‘‘ میں ہے کہ ’’و ہم تسعمائۃ ‘‘ یعنی وہ نو سو تھے جبکہ تاریخ مدینہ دمشق اور دیگر میں سات سو ہی لکھا ہے، ہو سکتا ہے مصنف کے پاس الطبقات الکبریٰ لابن سعدکا جو نسخہ ہو اس میں ’’و ہم سبعمائۃ ‘‘ ہی ہو۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔ علمیہ
[5] … الطبقات الکبری لابن سعد،وفد سلیم،ج۱،ص۲۳۳ملخصاً و تاریخ مدینہ دمشق،ذکر من اسمہ انس،۸۲۷-انس بن عباس بن عامر،ج۹،ص۳۲۴۔ علمیہ
[6] … ترجمۂکنزالایمان:وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن)کوئی شک کی جگہ نہیںاس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو۔ (پ۱،البقرۃ:۲)۔ علمیہ
[7] … ترجمۂکنزالایمان:یہ ایک سورت ہے کہ ہم نے اتاری اور ہم نے اس کے احکام فرض کئے۔(پ۱۸،النور:۱)۔ علمیہ
[8] … ترجمۂکنزالایمان:کتاب اتارناہے اللّٰہ عزت و حکمت والے کی طرف سے۔(پ۲۳،الزمر:۱)۔ علمیہ
[9] … ترجمۂکنزالایمان:یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیںپھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے۔
(پ۱۱، ہود:۱)۔ علمیہ
[10] … ترجمۂکنزالایمان:جب منافق تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں۔(پ۲۸،المنٰفقون:۱)۔ علمیہ
[11] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک اللّٰہ نے سنی اس کی بات جو تم سے اپنے شوہر کے معاملہ میں بحث کرتی ہے۔(پ۲۸،المجادلۃ:۱)۔ علمیہ
[12] … ترجمۂکنزالایمان:اے غیب بتا نے والے (نبی)تم اپنے اوپر کیوں حرام کئے لیتے ہو وہ چیز جو اللّٰہ نے تمھارے لئے حلال کی۔
(پ ۲۸،التحریم:۱)۔ علمیہ
[13] … ترجمۂکنزالایمان:قسم ان کی کہ باقاعدہ صف باندھیںپھر ان کی کہ جھڑک کر چلائیں۔(پ۲۳،الصّٰفّٰت:۱۔۲)۔ علمیہ
[14] … ترجمۂکنزالایمان:قسم ان کی جو بکھیر کر اُڑانے والیاںپھر بوجھ اُٹھانے والیاں۔ (پ۲۶،الذّٰریٰت:۱۔۲)۔ علمیہ
[15] … ترجمۂکنزالایمان:جب دھوپ لپیٹی جائے اور جب تارے جھڑ پڑیں۔ (پ۳۰، التکویر:۱۔۲)۔ علمیہ
[16] … ترجمۂکنزالایمان:تم کہو سب خوبیاں اللّٰہ کو اور سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پرکیا اللّٰہ بہتر یا ان کے ساختہ شریک۔
(پ۱۹، النمل:۵۹)۔ علمیہ
[17] … ترجمۂکنزالایمان: اے یعقوب کی اولاد یاد کرو میرا وہ احسان۔(پ۱،البقرۃ:۴۰)۔علمیہ
[18] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک اللّٰہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔(پ۳۔اٰل عمرٰن:۱۹)۔علمیہ
[19] … الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،الباب الثالث فی بدیع اسلوب القرآن،الفصل الاول،ص۶۱-۶۳۔علمیہ
[20] … فوز الکبیر فی اصول التفسیرمطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ص ۲۱-۲۳۔
[21] … گزشتہ زمانے۔
[22] … حضرت سیدنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی ولادت مبارک۔
[23] … سابقہ آسمانی کتب۔
[24] … ترجمۂکنزالایمان: تم پر حرام ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور وہ جو گلا گھونٹنے سے مرے۔(پ۶،المائدۃ:۳) ۔علمیہ
[25] … تعلق۔
[26] … ترجمۂکنزالایمان: اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے۔ (پ۶،المائدہ : ۴۵)۔علمیہ
[27] … ترجمۂکنزالایمان:سب کھانے بنی اسرائیل کو حلال تھے مگر وہ جو یعقوب نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا توریت اترنے سے پہلے تم فرماؤ توریت لاکر پڑھو اگر سچے ہو۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۹۳)۔علمیہ
[28] … پیروی۔
[29] … بہت پسند کی چیز
[30] … شرارت سے مراد اُن کا ظلم کرنا، راہِ خدا سے روکنا، سود لینا، حالانکہ ان کو ان کی ممانعت تھی۔ تورات، کتاب الاحبار، باب۵۔ آیت میں اور لوگوں کا مال ناحق کھانا ہے۔ جیسا کہ سورۂ نسائ، رکوع ۲۲میں آیا ہے۔۱۲منہ
[31] … ترجمۂکنزالایمان:اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا ہر ناخن والا جانوراور گائے اور بکری کی چربی ان پر حرام کی مگر جو ان کی پیٹھ میں = =لگی ہو یا آنت میں یا ہڈی سے ملی ہو ہم نے یہ ان کی سرکشی کا بدلہ دیااور بیشک ہم ضرور سچے ہیں۔(پ۸،الانعام:۱۴۶)۔علمیہ
[32] … یعنی علمائے اہل کتاب سے نہ کچھ سیکھا،نہ ان کی مجلسوں میں شرکت کی اس کے باوجود یہ واقعات بتانااور پچھلی شریعتوں کے احکامات کو اسی طرح بیان فرمادینا جس طرح وہ سابقہ کتابوں میں تھے ۔
[33] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا ۔اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ بلکہ تم جیتی دنیا کو ترجیح دیتے ہو۔ اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی۔ بیشک یہ اگلے صحیفوں میں ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔(پ۳۰،الاعلٰی:۱۴۔۱۹)۔علمیہ
[34] … ترجمۂکنزالایمان:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیںتو بنی اسرائیل سے پوچھو جب وہ ان کے پاس آیا تو اس سے فرعون نے کہا اے موسیٰ میرے خیال میں تو تم پر جادو ہوا ۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۱۰۱)۔علمیہ
[35] … ترجمۂکنزالایمان: یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں۔(پ۲۶، الفتح: ۲۹)۔علمیہ
[36] … رائی کے دانے۔
[37] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک اللّٰہنے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے اللّٰہ کی راہ میں لڑیں تو ماریںاور مریںاس کے ذمۂ کرم پر سچا وعدہ توریت اور انجیل اور قرآن میں۔(پ۱۱،التوبۃ : ۱۱۱)۔علمیہ
[38] … سچائی۔
[39] … ترجمۂکنزالایمان:اور بیشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ اس زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے ۔
(پ۱۷، الانبیائ:۱۰۵)۔علمیہ
[40] … ترجمۂکنزالایمان: لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا۔(پ۶، المائدۃ :۷۸)۔علمیہ
[41] … قدیم یہودی فرقہ جو ریاکاری میں مشہور تھا۔
[42] … لیکن اندر سے۔
[43] … ترجمۂکنزالایمان: یاد کروجب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللّٰہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی = =کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادوہے۔(پ۲۸، الصف:۶)۔علمیہ
[44] … ترجمۂکنزالایمان:اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیااور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا۔( پ۶، المائدۃ : ۳۲)۔علمیہ
[45] … سیرت رسول عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ طلمود ‘‘ لکھا ہے لیکن تاریخ وسیرت کی کتب میں ’’ تلمود ‘‘ہے لہٰذا ہم نے یہاں ’’ طلمود ‘‘ کی جگہ ’’ تلمود ‘‘ لکھا ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اَعلَم
[46] … ایک کتاب کا نام ہے۔
[47] … خوب سمجھ لو۔
[48] … ترجمۂکنزالایمان:اور اس لئے کہ وہ سود لیتے حالانکہ وہ اس سے منع کیے گئے تھے۔ (پ۶،النساء:۱۶۱)۔علمیہ
[49] … غیب کی خبریں دینا۔
[50] … ترجمۂکنزالایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے۔(پ۲۷،النجم:۳-۴)۔علمیہ
[51] … ترجمۂکنزالایمان:تو وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم اللّٰہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔ (پ۷،الانعام:۳۳) ۔علمیہ
[52] … ترجمۂکنزالایمان: تو کتاب والوں سے ایک گروہ نے اللّٰہ کی کتاب اپنے پیٹھ پیچھے پھینک دی گویا وہ کچھ علم ہی نہیں رکھتے۔
(پ۱،البقرۃ:۱۰۱)۔علمیہ
[53] … یعنی ہزار برس کا کام ایک دن میں کرسکتا ہے۔ موضح القرآن۔۱۲منہ
[54] … ترجمۂکنزالایمان:اور بے شک تمہارے رب کے یہاں ایک دن ایسا ہے جیسے تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس۔
(پ۱۷، الحج:۴۷)۔علمیہ
[55] … ترجمۂکنزالایمان: اس کی پاکی بولتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہیں اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی نہ بولے ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۴۴)۔علمیہ
[56] … ترجمۂکنزالایمان:اس مینھ کی طرح جس کا اُگایاسبزہ کسانوں کو بھایا پھر سوکھا کہ تو اسے زرد دیکھے پھر روندن ہو گیا ۔
(پ۲۷، الحدید:۲۰)۔علمیہ
[57] … وہ۔
[58] … ترجمۂکنزالایمان: وہ جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان کے مقابل تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں جب تک سوئی کے ناکے اونٹ نہ داخل ہو اور مجرموں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔
(پ۸،الاعراف:۴۰)۔علمیہ
[59] … ترجمۂکنزالایمان:اور اللّٰہ کے سوا اس کی بندگی نہ کر جو نہ تیرا بھلا کرسکے نہ برا۔ (پ۱۱،یونس:۱۰۶)۔علمیہ
[60] … ترجمۂکنزالایمان:جس دن ہم آسمان کو لپیٹیں گے جیسے سجل فرشتہ نامہ اعمال کو لپیٹتا ہے ہم نے جیسے پہلے اسے بنایا تھا ویسے ہی پھر کر دیں گے یہ وعدہ ہے ہمارے ذمہ ہم کو اس کا ضرور کرنا۔ (پ۱۷، الانبیائ:۱۰۴) ۔علمیہ
[61] … مُڑی ہوئی بگل ۔
[62] … ترجمۂکنزالایمان:وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند۔ (پ۳،البقرہ:۲۵۵)۔علمیہ
[63] … ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہ ان سے استہزاء فرماتا ہے (جیسا اس کی شان کے لائق ہے)اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔(پ۱، بقرہ:۱۵)۔علمیہ
[64] … عاجز کرنے والا۔
[65] … تفسیر کامل قرآن بزبان انگریزی مولفہ ویری صاحب، جلد اول، صفحہ ۴۴۔ ۴۶۔۱۲منہ
[66] … انڈین اینٹیکوئری،جلد ۳۲، بابت جون ۱۹۱۳ئ، صفحہ ۲۵۹۔۱۲منہ
[67] … بیہودہ گفتگو۔
[68] … دیباچہ ترجمہ قرآن بزبان انگریزی، ص ۴۸۔۱۲منہ ۔
[69] … یعنی ان پر عمل کیا جاتا تھا۔
[70] … تصدیق کرنے والا۔
[71] … سچائی کے زیادہ لائق ہے۔
[72] … ترجمۂکنزالایمان:اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللّٰہ کے اتارے ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک نہیں پروردگار عالم کی طرف سے ہے۔( پ۱۱،یونس:۳۷)۔علمیہ
[73] … غیبوں کو جاننے والے۔
[74] … ترجمۂکنزالایمان:اور یاد کرو جب اللّٰہ نے تمہیں وعدہ دیا تھا کہ ان دونوں گروہوںمیں ایک تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہیںاور اللّٰہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے سچ کو سچ کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کا ٹ دے۔ (پ۹،الانفال:۷)۔علمیہ
[75] … ترجمۂکنزالایمان:جب تم میں کے دو گروہوں کا ارادہ ہوا کہ نامردی کرجائیں اور اللّٰہ ان کا سنبھالنے والا ہے اور مسلمانوں کو اللّٰہ ہی پر بھروسہ چاہئے۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۲۲)۔علمیہ
[76] … ترجمۂکنزالایمان:اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں کرتے کہتے ہیں ہمارا کچھ بس ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے۔
(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۵۴)۔علمیہ
[77] … ترجمۂکنزالایمان:اور اللّٰہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں اور تم میں سے ہیں نہیں ہاں وہ لوگ ڈرتے ہیں۔ (پ۱۰،التوبۃ:۵۶)۔علمیہ
[78] … ترجمۂکنزالایمان:اور ان میں کوئی وہ ہے کہ صدقے بانٹنے میں تم پر طعن کرتا ہے تو اگر ان میں سے کچھ ملے تو راضی ہوجائیں اور نہ ملے تو جبھی وہ ناراض ہیں۔(پ۱۰،التوبۃ:۵۸)۔علمیہ
[79] … تفسیر روح البیان،الجزء العاشر،سورۃ التوبۃ،ج۳،ص۴۵۱۔۴۵۲۔علمیہ
[80] … ترجمۂکنزالایمان:اور ان میں کوئی وہ ہیں کہ ان غیب کی خبریں دینے والے کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں۔ (پ۱۰،التوبۃ:۶۱)۔علمیہ
[81] … عقلمندی اور ذہانت۔
[82] … تفسیر روح البیان،الجزء العاشر،سورۃ التوبۃ،ج۳،ص۴۵۶۔علمیہ
[83] … ترجمۂکنزالایمان: اللّٰہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا اور بیشک ضرور انہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آکر کافر ہو گئے اور وہ چاہا تھا جو انہیں نہ ملا۔(پ۱۰،التوبۃ:۷۴)۔علمیہ
[84] … رسوائی۔
[85] … ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہکی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا۔ (پ۱۰،التوبۃ:۷۴)۔علمیہ
[86] … تفسیر روح البیان،الجزء العاشر،سورۃ التوبۃ،ج۳،ص۴۶۷۔علمیہ
[87] … ترجمۂکنزالایمان:اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان میں کوئی کہنے لگتا ہے کہ اس نے تم میں کس کے ایمان کو ترقی دی۔
(پ۱۱،التوبۃ:۱۲۴)۔علمیہ
[88] … مذاق اور تحقیر کے طور پر۔
[89] … ترجمۂکنزالایمان:اور جب کوئی سورت اترتی ہے ان میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے کہ کوئی تمہیں دیکھتا تو نہیں پھر پلٹ جاتے ہیں ۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۲۷)۔علمیہ
[90] … ترجمۂکنزالایمان:اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کواور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللّٰہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللّٰہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں۔(پ۱۱،التوبۃ:۱۰۷)۔علمیہ
[91] … ترجمۂکنزالایمان:کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جنہیں بری مشوَرَت (مشاورت)سے منع فرمایا گیا تھا پھر وہی کرتے ہیں جس کی ممانعت ہوئی تھی اور آپس میں گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کے مشورے کرتے ہیں اور جب تمہارے حضور حاضر ہوتے ہیں تو ان لفظوں سے تمہیں مجرا کرتے ہیں جو لفظ اللّٰہنے تمہارے اعزاز میں نہ کہے اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں ہمیں اللّٰہ عذاب کیوں نہیں کرتا ہمارے اس کہنے پر انہیں جہنم بس (کافی)ہے، اس میں دھنسیں گے تو کیا ہی برا انجام۔(پ۲۸،المجادلۃ:۸)۔علمیہ
[92] … گمراہ کرنا۔
[93] … ترجمۂکنزالایمان: اے رسول تمہیں غمگین نہ کریں وہ جو کفر پر دوڑتے ہیں کچھ وہ جو اپنے منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ان کے دل مسلمان نہیںاور کچھ یہودی جھوٹ خوب سنتے ہیںاور لوگوں کی خوب سنتے ہیںجو تمہارے پاس حاضر نہ ہوئے اللّٰہ کی باتوں کو ان کے ٹھکانوں کے بعد بدل دیتے ہیںکہتے ہیں یہ حکم تمہیں ملے تو مانو اور یہ نہ ملے تو بچواور جسے اللّٰہ گمراہ کرنا چاہے تو ہرگز تو اللّٰہ سے اس کا کچھ بنا نہ سکے گا وہ ہیں کہ اللّٰہ نے ان کا دل پاک کرنا نہ چاہا انہیں دنیا میں رسوائی ہے اور انہیں آخرت میں بڑا عذاب۔(پ۶،المائدۃ:۴۱)۔علمیہ
[94] … جھگڑے۔
[95] … ترجمۂکنزالایمان:کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں اورکہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا اورسنیئے آپ سنائے نہ جائیں اور راعنا کہتے ہیں زبانیں پھیر کراور دین میں طعنہ کے لئے۔(پ۵،النساء:۴۶)۔علمیہ
[96] … حقیقت ظاہر کرنا۔
[97] … غیب کی خبریں دینا ۔
[98] … ترجمۂکنزالایمان:اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے ان خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللّٰہکے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہوپھر اگر نہ لا سکو اور ہم فرمائے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ لا سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار رکھی ہے کافروں کے لئے۔(پ۱،البقرۃ:۲۳۔۲۴)۔علمیہ
[99] … ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ اگر پچھلا گھر اللّٰہ کے نزدیک خالص تمہارے لئے ہو نہ اَوروں کے لئے تو بھلا موت کی آرزو تو کرو اگر سچے ہو۔(پ۱،البقرۃ:۹۴)۔علمیہ
[100] … اخرج احمد والبـخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن مردویہ وابونعیم عن ابن عباس من رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قال: لو ان الیھود تمنوا الموت لماتوا ولرأوا مقاعدھم من النار۔ (درمنثور للسیوطی، جلد اول، ص ۸۹)۱۲منہ …(الدر المنثور،الجزء الاول،سورۃ البقرۃ،تحت الآیۃ:۹۴۔۹۵،ج۱،ص۲۲۰۔علمیہ)
[101] … ترجمۂکنزالایمان:اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللّٰہ کی مسجدوں کو روکے ان میں نامِ خدا لئے جانے سے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے ان کو نہ پہنچتا تھا کہ مسجدوں میں جائیں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب۔
(پ۱،البقرۃ:۱۱۴)۔علمیہ
[102] … لا یحج بعد العام مشرک ولا یطوف بالبیت عریان۔ (عینی شرح بخاری، جزء رابع، ص ۶۳۳۔)۱۲منہ…(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،کتاب الصلاۃ،باب ما یستر من العورۃ،الحدیث:۳۶۹،ج۳،ص۲۹۱۔علمیہ)
[103] … ترجمۂکنزالایمان:وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے مگر یہی ستانا اور اگر تم سے لڑیں تو تمہارے سامنے سے پیٹھ پھیر جائیں گے پھر ان کی مدد نہ ہوگی ان پر جمادی گئی خواری جہاں ہوں امان نہ پائیں مگر اللّٰہ کی ڈور اور آدمیوں کی ڈور سے اور غضب الٰہی کے سزاوار ہوئے اور ان پر جمادی گئی محتاجی۔(پ۴،اٰل عمرٰن: ۱۱۱۔۱۱۲)۔علمیہ
[104] … کسی نہ کسی کے زیر اثر ۔
[105] … ترجمۂکنزالایمان:کوئی دم جاتا ہے کہ ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈالیں گے کہ انہوں نے اللّٰہ کا شریک ٹھہرایا جس پر اس نے کوئی سمجھ نہ اتاری اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا برا ٹھکانا ناانصافوں کا۔ (پ۴،اٰل عمرٰن:۱۵۱)۔علمیہ
[106] … ترجمۂکنزالایمان:فرمادوکافروں سے کوئی دم جاتا ہے کہ تم مغلوب ہوگے اور دوزخ کی طرف ہانکے جاؤ گے اور وہ بہت ہی برا بچھونا۔
(پ۳،اٰل عمرٰن:۱۲)۔علمیہ
[107] … درمنثور بحوالہ ابن اسحاق وابن جریر و بیہقی بروایت ابن عباس۔ …(الدر المنثور،الجزء الثالث،سورۃ آل عمرٰن،تحت الآیۃ: ۱۲،ج۲،ص۱۵۸۔علمیہ)
[108] … ترجمۂکنزالایمان:آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ (پ۶، المائدۃ:۳)۔علمیہ
[109] … صحابہ کرام میں سب سے زیادہ علم والا۔
[110] … ترجمۂکنزالایمان:اور وہ جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے ان سے عہد لیا تو وہ بھلا بیٹھے بڑا حصہ ان نصیحتوں کا جو انہیں دی گئیں تو ہم نے ان کے آپس میں قیامت کے دن تک بَیر اور بغض ڈال دیا اور عنقریب اللّٰہ انہیں بتادے گا جو کچھ کرتے تھے۔ (پ۶، المائدۃ:۱۴)۔علمیہ
[111] …ترجمۂکنزالایمان: اے ایمان والوتم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللّٰہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللّٰہ کے پیارے اور اللّٰہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللّٰہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللّٰہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللّٰہ وسعت والا علم والا ہے۔(پ۶، المائدۃ:۵۴)۔علمیہ
[112] … سزا۔
[113] … دیکھو مشکوٰۃ، کتاب الزکوٰۃ، فصل ثالث۔۱۲منہ
[114] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الزکاۃ،الفصل الثالث،الحدیث:۱۷۹۰،ج۱،ص۳۴۰۔علمیہ
[115] … حق ہونے۔
[116] … ترجمۂکنزالایمان:اور ان میں ہم نے قیامت تک آپس میں دشمنی اور بیر ڈال دیاجب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں اللّٰہ اسے بجھا دیتا ہے اور زمین میں فساد کے لئے دوڑتے پھرتے ہیں اور اللّٰہ فسادیوں کو نہیں چاہتا۔(پ۶، المائدۃ:۶۴)۔علمیہ
[117] … ترجمۂکنزالایمان: اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایا اور اللّٰہتمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بیشک اللّٰہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔ (پ۶، المائدۃ:۶۷)۔علمیہ
[118] … اتقان للسیوطی، جز ء اول، ص۱۶۔…(الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثانی: معرفۃ الحضری والسفری،ج۱،ص۲۷۔علمیہ)
[119] … شیخ جمال الدین عبدالرحیم اِسْنَوی شافعی شہر اِسنا وا قع ملک مصر میں ذی الحجہ ۷۰۴ھ میں پیدا ہوئے۔ ۷۲۱ھ میں قاہرہ آئے اور وہاں مختلف استادوں سے ادب، نحو، اصول فقہ اور حدیث میں تعلیم پائی۔ اپنے وقت میں فقہ شافعی میں یگانہ تھے صاحب تدریس و تصنیف تھے۔ فقہ واصول و نحومیں بہت سی کتابیں آ پ کی تصنیف ہیں۔ آپ کا وصال جُمَادَی الا ُولیٰ ۷۷۲ھ میں ہوا۔ آپ کے جنازے پر انوارِ ولایت نمایاں تھے۔ (تفصیل کے لئے دیکھو ’’ بعیۃ الدعا اورحسن المحاضرہ‘‘۔ہر دو مصنفہ جلال الدین سیوطی) رسالہ ’’ نصیحۃ اولی الالباب فی منع استخدام النصاریٰ‘‘ آپ کی ہی تصنیف ہے جیسا کہ مصنف کے بیان سے ظاہر ہے۔ کشف الظنون میں ہے کہ علامہ سیوطی نے اس رسالہ کا اختصار کیاہے اور اس کا نام ’’جہد القریحۃ فی تجرید النصیحۃ‘‘ ہے۔ علامہ جمال الدین اِسْنَوی کے قلم سے اسی قسم کے ایک رسالہ ’’حسن المحاضرۃ ‘‘ میں لکھا ہے جس کا نام ’’الریاسۃ الناصریۃ فی الرد علی من یعظم اہلالذمۃ= = ویستخدمہم علی المسلمین‘‘ ہے، مگر کشف الظنون میں’’الریاسۃ الناصریۃ‘‘ کو علامہ جمال الدین کے بھائی علامہ عماد الدین محمد بن حسن اِسْنَوی (متوفی ۷۹۴ھ) کی تصنیف ظاہر کیاہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔۱۲منہ
[120] … تیز رفتار۔
[121] … ہمسائیگی،قرب۔
[122] … سرائے، مسافر خانہ۔
[123] … ہفتہ کے دن۔
[124] … ایک قسم نرم و عمدہ دھات جسے سیسہ کہتے ہیں۔
[125] … باوجود اس کے۔
[126] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ اسقنقد ‘‘ لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ’’ وفا ء الوفا ‘‘ کے نسخوں میں ’’اقسنقد ‘‘ ہے لہٰذا ہم نے یہاں ’’ اقسنقد ‘‘ لکھا ہے۔ علمیہ
[127] … یعنی کچھ معاملہ یا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔
[128] … سونا چاندی، مال و دولت۔
[129] … زیر زمین سرنگ بنائی ہے۔
[130] … وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی،خاتمہ،الجزء الثانی،ص۶۴۸-۶۵۱۔علمیہ
[131] … ترجمۂکنزالایمان:تو ان سے لڑو اللّٰہ انہیں عذاب دیگا تمہارے ہاتھوں اور انہیں رسوا کرے گا اور تمہیں ان پر مدد دے گا اور ایمان والوں کا جی ٹھنڈا کرے گااور انکے دلوں کی گھٹن دور فرمائے گااور اللّٰہ جسکی چاہے توبہ قبول فرمائے اور اللّٰہ علم و حکمت والا ہے۔ (پ۱۰، التوبۃ:۱۴۔۱۵)۔علمیہ
[132] … ایک دوسرے کی امداد کا معاہدہ کرنے والے فریق۔
[133] … ترجمۂکنزالایمان:اور ان میں کوئی تم سے یوں عرض کرتا ہے کہ مجھے رخصت دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالئے سن لو وہ فتنہ ہی میں پڑے اور بیشک جہنم گھیرے ہوئے ہے کافروں کو۔(پ۱۰، التوبۃ:۴۹)۔علمیہ
[134] … ترجمۂکنزالایمان:اور ان میں کوئی وہ ہیں جنہوں نے اللّٰہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ہم ضرور بھلے آدمی ہوجائیں گے تو جب اللّٰہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اس میں بخل کرنے لگے اور منھ پھیر کر پلٹ گئے تو اس کے پیچھے اللّٰہ نے ان کے دلوں میں نفاق رکھ دیا اس دن تک کہ اس سے ملیں گے بدلہ اس کا کہ انہوں نے اللّٰہ سے وعدہ جھوٹا کیا اور بدلہ اس کا کہ جھوٹ بولتے تھے۔ (پ۱۰، التوبۃ:۷۵۔۷۷)
[135] … ترجمۂکنزالایمان:تم سے بہانے بنائیں گے جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تم فرمانا بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ کریں گے اللّٰہ نے ہمیں تمہاری خبریں دے دی ہیں اور اب اللّٰہ و رسول تمہارے کام دیکھیں گے پھر اس کی طرف پلٹ کر جاؤ گے جو چھپے اور ظاہر سب کو جانتا ہے وہ تمہیں جتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے اب تمہارے آگے اللّٰہ کی قسم کھائیں گے جب تم ان کی طرف پلٹ کر جاؤ گے اس لئے کہ تم ان کے خیال میں نہ پڑو تو ہاں تم ان کا خیال چھوڑو وہ تو نرے پلید ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔ (پ۱۱، التوبۃ:۹۴-۹۵)۔علمیہ
[136] … ترجمۂکنزالایمان:اور کافروں کو ہمیشہ ان کے کئے پر سخت دھمک پہنچتی رہے گی یا ان کے گھروں کے نزدیک اترے گی یہاں تک کہ اللّٰہ کا وعدہ آئے بیشک اللّٰہ وعدہ خلاف نہیں کرتا۔ (پ۱۳، الرعد:۳۱)۔علمیہ
[137] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ (پ۱۴، الحجر:۹)۔علمیہ
[138] … دشمنانِ اسلام۔
[139] … دین اسلام پر طعنہ زنی کرنے والے،بے دین۔
[140] … معطلہ وہ لوگ ہیں جو اُلوہیت و رسالت اور احکام کے منکر ہیںاور قرامطہ رافضیوں کا ایک فرقہ ہے۔
[141] … سابقہ آسمانی کتابیںجیسے توراۃ، انجیل وغیرہ۔
[142] … تحریف ہوجانے کی صورت میں۔
[143] … انوکھا انتظام۔
[144] … ترجمۂکنزالایمان:بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جن کو علم دیا گیااور ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتے مگر ظالم ۔
(پ۲۱، العنکبوت:۴۹)۔علمیہ
[145] … وجعلت من امتک اقواما قلوبھم اناجیلھم (خصائص کبریٰ للسیوطی مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدر آباد دکن، جزء اول، ص ۱۷۵۔)
[146] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب خصوصیتہ بالاسرائ۔۔۔الخ،حدیث ابی ہریرۃ،ج۱،ص۲۸۸۔علمیہ
[147] … خصائص کبریٰ للسیوطی، جزء ثانی، ص۱۸۵۔
[148] … یہودیوں کا عبادت خانہ۔
[149] … کتب نویس،کتب فروش
[150] … بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَۚ-۔ (مائدہ، ع۷)اس واسطے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللّٰہ کی کتاب پر اور اس کی خبرداری پر تھے۔ اس آیت میں کتاب سے مراد تورات ہے۔۱۲منہ
[151] … اس بات کی سچائی کا ثبوت۔
[152] … ترجمۂکنزالایمان:ان سے کتاب اللّٰہ کی حفاظت چاہی گئی تھی۔(پ۶، المائدۃ:۴۴)۔علمیہ
[153] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ (پ۱۴، الحجر:۹)۔علمیہ
[154] … الخصائص الکبری للسیوطی، باب اختصاصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بأن کتابہ معجز۔۔۔الخ،ج۲،ص۳۱۶۔علمیہ
[155] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک ان ہنسنے والوں پر ہم تمہیں کفا یت کرتے ہیں جو اللّٰہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے۔(پ۱۴، الحجر:۹۵-۹۶)۔علمیہ
[156] … پہاڑ کے درمیان راستہ یا شگاف۔
[157] … تیر بنانے وا لا۔
[158] … تیر کا سِرا، پھل۔
[159] … شہ رگ جو تمام بدن کو خون پہنچاتی ہے۔
[160] … دلائل حافظ ابی نعیم، مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد، ص ۹۱۔۹۲۔…(دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل السادس عشر، الجزء الاول،ص۱۶۰ ۔علمیہ)
[161] … ترجمۂکنزالایمان: اور بے شک قریب تھا کہ وہ تمھیں اس زمین سے ڈِگا دیں (ہٹا دیں) کہ تمھیں اس سے باہر کردیں اور ایسا ہوتا تو وہ تمہارے پیچھے نہ ٹھہرتے مگر تھوڑا۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۷۶)۔علمیہ
[162] … ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہ نے وعدہ دیا ان کو جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے کہ ضرور انہیں زمین میں خلافت دے گاجیسی ان سے پہلوں کو دی اور ضرور ان کے لئے جمادے گا ان کا وہ دین جو ان کے لئے پسند فرمایا ہے اور ضرور ان کے اگلے خوف کو امن سے بدل دے گا میری عبادت کریں میرا شریک کسی کو نہ ٹھہرائیں اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ بے حکم ہیں۔ (پ۱۸، النور:۵۵)۔علمیہ
[163] … دین میں تقویت۔
[164] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک جس نے تم پر قرآن فرض کیا وہ تمہیں پھیر لے جائے گا جہاں پھرنا چاہتے ہو۔( پ۲۰، القصص:۸۵)۔علمیہ
[165] … ترجمۂکنزالایمان:رومی مغلوب ہوئے پاس کی زمین میںاور اپنی مغلوبی کے بعد عنقریب غالب ہوں گے چند برس میں حکم اللّٰہ ہی کا ہے آگے اور پیچھے اور اس دن ایمان والے خوش ہوں گے اللّٰہ کی مدد سے وہ مدد کرتا ہے جس کی چاہے اور وہی ہے عزت والا مہربان۔
(پ۲۱، الروم:۱۔۵)۔علمیہ
[166] … اتقان للسیوطی، جزء اول، ص ۲۰۔…(الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثانی: معرفۃ الحضری والسفری،ج۱،ص۲۷۔۲۸۔علمیہ)
[167] … ترجمۂکنزالایمان:وہ جو اللّٰہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں بے کسی سند کے جو انہیں ملی ہو ان کے دلوں میں نہیں مگر ایک بڑائی کی ہوس جسے نہ پہنچیں گے تو تم اللّٰہ کی پناہ مانگوبیشک وہی سنتا دیکھتا ہے۔(پ۲۴، المؤمن:۵۶)۔علمیہ
[168] … برتری اورپیش قدمی۔
[169] … ترجمۂکنزالایمان:تو تم سستی نہ کرو اور آپ صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم ہی غالب آؤ گے اور اللّٰہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہارے اعمال میں تمہیں نقصان نہ دے گا۔ (پ۲۶، محمد:۳۵)۔علمیہ
[170] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک اللّٰہ نے سچ کردیا اپنے رسول کا سچا خواب بیشک تم ضرور مسجد حرام میں داخل ہوگے اگر اللّٰہ چاہے امن و امان سے اپنے سروں کے بال منڈاتے یا ترشواتے بے خوف تو اس نے جانا جو تمہیں معلوم نہیں تو اس سے پہلے ایک نزدیک آنے والی فتح رکھی ۔(پ۲۶، الفتح:۲۷)۔علمیہ
[171] … ترجمۂکنزالایمان:وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اللّٰہ کافی ہے گواہ۔(پ۲۶، الفتح:۲۸)۔علمیہ
[172] … ترجمۂکنزالایمان:یا کسی داؤں کے ارادہ میں ہیں تو کافروں ہی پر داؤں پڑنا ہے۔(پ۲۷،الطور:۴۲)۔علمیہ
[173] … ترجمۂکنزالایمان:یا یہ کہتے ہیں کہ ہم سب مل کر بدلہ لے لیں گے اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیردیں گے۔
(پ۲۷، القمر:۴۴۔۴۵)۔علمیہ
[174] … شکست۔
[175] … سائبان، سپہ سالار کے لیے بنایا جانے والا خیمہ جو عموماً درخت کی ٹہنیوں کے ذریعے قائم کیا جاتا تھا۔
[176] … ترجمۂکنزالایمان:اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیردیں گے۔(پ۲۷، القمر:۴۵)۔علمیہ
[177] … صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب قول اللّٰہ تعالٰی۔۔۔الخ،الحدیث:۳۹۵۳،ج۳، ص۶ ۔علمیہ
[178] … ترجمۂکنزالایمان:وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کے لئے۔
(پ۲۸، الحشر:۲)۔علمیہ
[179] … دیکھو مشکوٰۃ ،باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب، فصل اول۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الجہاد،باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب،الحدیث:۴۰۵۱،ج۲،ص۷۰۔علمیہ)
[180] … ترجمۂکنزالایمان:ہاں ہاں اگر باز نہ آیا تو ہم ضرور پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے۔(پ۳۰، العلق:۱۵)۔علمیہ
[181] … دیکھو تفسیر کبیر، جزء ثا من۔
[182] … التفسیر الکبیر،سورۃ العلق،تحت الآیۃ:۱۵۔۱۶،ج۱۱،ص۲۲۴۔۲۲۵ ملخصاً۔علمیہ
[183] … ترجمۂکنزالایمان:اے محبوب بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیںتو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔(پ۳۰،الکوثر:۱۔۳)۔علمیہ
[184] … تفسیر روح المعانی، جز ء اول، ص ۲۸۔
[185] … پیروی کرنے والوں کی کثرت۔
[186] … تفسیر روح المعانی،المقدمۃ،الفائدۃ السابعۃ فی بیان وجہ اعجاز القرآن الکریم،ج۱،ص۴۳۔علمیہ
[187] … پیروی کرنے والوں کی کثرت۔
[188] … قربانی کا جانور جو حاجی مکہ لے جاتے ہیں۔
[189] … ترجمۂکنزالایمان:جب اللّٰہ کی مدد اور فتح آئے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللّٰہ کے دین میں فوج فوج داخل ہوتے ہیںتو اپنے رب کی ثنا ء کرتے ہوئے اسکی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔(پ۳۰، النصر:۱۔۳)۔علمیہ
[190] … وہ پانچ علوم جو ظاہری معنی کے اعتبار سے قران میں ہیں۔
[191] … شہروں کا نظم و نسق
[192] … یعنی پچھلی اُمتوں پر جو عذاب و غیرہ نازل ہوئے ان کا تذکرہ کرکے۔
[193] … الفوز الکبیر فی اصول التفسیر،الباب الاول فی العلوم الخمسۃ۔۔۔الخ،ص۱۷۔۱۸۔علمیہ
[194] … بو علی سینا کی کتاب القَا نُون فِی الطِّب ۔
[195] … بدن اور دل کی اصلاح۔
[196] … فوزالکبیر فی اصول التفسیر، ص ۳۹۹۲۔(ہم نے کئی نسخے دیکھے سب میں صفحہ نمبر یہی لکھا ہے یقینا کتابت میں غلطی ہوئی ہے۔ علمیہ)
[197] … یعنی نفسوں کو پاک کرنے والی ایسی کتاب جس کی مثل پیش کرنا ممکن نہیں۔
[198] … کتاب آپس میں ملتی یعنی خوبی میں کوئی آیت کم نہیں۔ دوہرائی ہوئی یعنی ایک مدعا کئی طرح تقریر کیا ہوا۔(موضح قرآن)۱۲منہ
[199] … ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اول سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں ۔(پ۲۳، الزمر:۲۳)۔علمیہ
[200] … ترجمۂکنزالایمان:اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللّٰہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لئے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔ (پ۲۸، الحشر:۲۱)۔علمیہ
[201] … وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ(۲۶)ترجمۂکنزالایمان:اور کافر بولے یہ قرآن نہ سنو اور اس میں بیہودہ غل کروشاید یونہی تم غالب آؤ۔ (پ۲۴، حم السجدۃ:۲۶)۔علمیہ
[202] … جھٹلانے والوں۔
[203] … وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا(۴۶)ترجمۂکنزالایمان:اور جب تم قرآن میں اپنے اکیلے رب کی یاد کرتے ہو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہیں نفرت کرتے۔(پ۱۵، بنی اسرائیل:۴۶)۔علمیہ
[204] … دیکھو سیرت ابن ہشام، ذکر اسلام عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ۔۱۲منہ
[205] … نحام کے معنی ہیں کھانسنے والا۔ یہ حضرت نُعیَم بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کالقب ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں بہشت میں داخل ہوا تو میں نے نعیم کے کھانسنے کی آواز سنی۔ (اصابہ )۱۲منہ
[206] … منتشر۔
[207] … تلوار لٹکائے ہوئے ۔
[208] … السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،اسلام عمر بن الخطاب،ص۱۳۶۔۱۳۷۔علمیہ
[209] … مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی سیدناشیخ احمد سرہندی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، دفتراول، مکتوب سہ صدو ۳۰۲دوم۔
[210] … ترجمۂکنزالایمان:بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔(پ۲۷، الطور:۷۔۸)۔علمیہ
[211] … مکتوباتِ امام ربانی،حصہ پنجم،دفتر اول،مکتوب سہ صد ودویم،ج۱،ص۱۴۷۔علمیہ
[212] … حیران کن۔
[213] … یعنی امان دے کر اپنے ساتھ مکہ لے آیا۔
[214] … کہیں ایسا نہ ہو کہ۔
[215] … نرم دل والے۔
[216] … کہیں ایسا نہ ہو کہ۔
[217] … صحیح بخاری، باب ہجرت النبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔…(صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینۃ،الحدیث:۳۹۰۵، ج۲، ص۵۹۱۔۵۹۲ملخصاً۔علمیہ)
[218] … صحیح بخاری وصحیح مسلم دیکھو۔
[219] … ترجمۂکنزالایمان:کیا وہ کسی اصل سے نہ بنائے گئے یا وہی بنانے والے ہیںیا آسمان اور زمین انہوں نے پیدا کئے بلکہ انہیں یقین نہیںیا ان کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں یا وہ کڑوڑے (حاکم اعلیٰ) ہیں۔(پ۲۷، الطور: ۳۵۔۳۷)۔علمیہ
[220] … صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الطور،۱۔باب،الحدیث:۴۸۵۴،ج۳،ص۳۳۶وصحیح البخاری،کتاب المغازی، ۱۲۔باب،الحدیث:۴۰۲۳،۴۰۲۴،ج۳،ص۲۴۔علمیہ
[221] … دلائل النبوت للحافظ ابی نعیم، جزء اول، ص ۷۸،۷۹۔ یہ قصہ استیعاب لابن عبدالبر میں بھی مذکور ہے۔علمیہ
[222] … منتشر۔
[223] … مضبوط ارادہ۔
[224] … میری ماں مجھے کھوئے،یہ محاورہ ہے غفلت پر تنبیہ یا تعجب کے اظہار کے لیے بولا جاتا۔
[225] … دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل الخامس عشر،الجزء الاول،الرقم۱۹۱،ص۱۳۹۔علمیہ
[226] … نظم و نسق چلانے والے۔
[227] … بخوشی و رضامندی۔
[228] … بچوں کو قتل کر ڈالنے کی رسم۔
[229] … وَہم پرستی۔
[230] … شادی کرنا۔
[231] … قدرت خدا، تعجب کے موقع پر بولتے ہیں۔
[232] … یعنی اگرچہ عیسائی اسے وحی تسلیم نہ کریں۔
[233] … سجع کہتے ہیں دو فقروں کے آخری الفاظ کا ہم قافیہ و ہم وزن ہونا۔
[234] … دیکھو مواہب لدنیہ للقسطلانی۔
[235] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الثانی،الفصل العاشر،الوفد الخامس:وفد بنی حنیفۃ،ج۵،ص۱۴۸۔علمیہ
[236] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس رسالے کا نام ’’ نہایت الاعجاز فی درایت الاعجاز ‘ ‘لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہمارے پیش نظر دارِ صادر بیروت (الطبعۃ الاولی،۱۴۲۴ھ -۲۰۰۴م)کا نسخہ ہے جس پر ’’نہایۃ الایجاز فی درایۃ الاعجاز‘‘ لکھا ہے لہٰذا ہم نے اسی کے مطابق تصحیح کی ہے ،و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔ علمیہ
[237] … ترجمۂکنزالایمان:اے محبوب بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔(پ۳۰، الکوثر:۱) ۔ علمیہ
[238] … سب سے بڑے عطا فرمانے والے۔
[239] … بزرگ و برتر نعمت دینے والے۔
[240] … حقیقت۔
[241] … ان میں سے۔
[242] … یعنی اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے۔
[243] … ترجمۂکنزالایمان:تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔(پ۳۰،الکوثر:۲)۔ علمیہ
[244] … وہ شخص جو والی وارث کے بغیر کمزور ہو ۔ علمیہ صنبور خرمابن تنہاگانہ… مرد فردبے بربے برادرو فرزند۔۱۲منہ
[245] … یعنی ان دونوں سے محبت تھی۔
[246] … تعریض یہ ہے کہ ایک لفظ اپنے معنی میں مستعمل ہو تاکہ اس کے ساتھ ایک اور معنی کی طرف اشارہ کیا جائے۔۱۲منہ
[247] … نہایۃ الایجاز فی درایۃ الاعجاز،الباب السادس،الفصل الاوّل فی وجہ الاعجاز فی سورۃ الکوثر،ص۲۳۸۔ علمیہ
[248] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔(پ۳۰، الکوثر:۳) ۔علمیہ
[249] … اِ سْتِیناف کا معنی از سر نو آغاز کرنا ہے۔
[250] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک بہتر نوکر وہ جو طاقتور امانتدار ہو۔ (پ۲۰، القصص:۲۶) ۔علمیہ
[251] … طعن و تشنیہ اور عداوت۔
[252] … بدخواہ دشمن۔
[253] … ذلت و بُرائی ۔خیر سے محرومی
[254] … نہایۃ الایجاز فی درایۃ الاعجاز،الباب السادس،الفصل الاوّل فی وجہ الاعجاز فی سورۃ الکوثر،ص۲۴۰۔ علمیہ
[255] … ترجمۂکنزالایمان:اے زمین اپنا پانی نگل لے۔ (پ۱۲، ہود:۴۴) ۔ علمیہ
[256] … اتقان، جزء ثانی، ص ۵۵۔
[257] … الاتقان فی علوم القرآن،النوع السادس والخمسون فی الایجاز والاطناب،ج۲،ص۳۷۴۔ علمیہ
[258] … اتقان، جزء ثانی، ص ۹۶۔
[259] … وَ قِیْلَ یٰۤاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَكِ وَ یٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَ غِیْضَ الْمَآءُ وَ قُضِیَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِیِّ وَ قِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۴۴)ترجمۂکنزالایمان:اور حکم فرمایا گیا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا اور پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری اور فرمایا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ ۔(پ۱۲، ھود:۴۴)۔علمیہ
[260] … صنعت طباق یہ ہے کہ کلام میں ایسے دو معنے ذکر کریں جو ایک دوسرے کی ضد ہوں ۔۱۲منہ
[261] … ترجمۂکنزالایمان:اور پانی خشک کردیا گیا۔ (پ۱۲، ہود:۴۴)۔ علمیہ
[262] … اشارہ یہ ہے کہ کلام قلیل لایا جائے جس کے معنے بہت ہوں ۔۱۲منہ
[263] … صنعت ارداف یہ ہے کہ متکلم ایک معنی مراد رکھے اور اسے لفظ موضوع لہ سے یاد لالت و اشارہ سے تعبیر نہ کرے بلکہ اس کے مرادف لفظ سے ادا کرے۔۱۲منہ
[264] … ترجمۂکنزالایمان:اور کام تمام ہوا۔ (پ۱۲، ہود:۴۴)۔ علمیہ
[265] … تمثیل وہ ہے کہ جسکی وجہ سےمتعددامور ہو۔۱۲ منہ
[266] … تعلیل کا فائدہ تقریر اور ابلغیت ہے۔ کیونکہ نفوس احکام معللہ کو دوسروں کی نسبت زیادہ قبول کرتے ہیں ۔۱۲منہ
[267] … احتراس یہ ہے کہ کسی کلام میں جو خلاف مقصود کا موہم ہو وہ امرذکر کریں جوا س وہم کو دور کردے۔۱۲منہ
[268] … یعنی ضرر پہنچائے۔
[269] … حسن النسق یہ ہے کہ متکلم پے درپے معطوف جملے لائے جو باہم اس طرح پیوستہ ہو ں کہ اگر ان میں سے کوئی جملہ علیحدہ کردیاجائے تو وہ بذات خود ایک مستقل جملہ ہو جس کے معنی سمجھنے کے لئے اسی کے الفاظ کافی ہوں ۔۱۲منہ
[270] … مقصود کو معمول سے کم الفاظ میں ادا کرنا ایجاز کہلاتاہے۔۱۲منہ
[271] … تسہیمیہ ہے کہ فاصلہ کا ماقبل فاصلہ پر دلالت کرے۔۱۲منہ
[272] … تہذیب یہ ہے کہ کلام ایسا مہذب ہو کہ اعتراض کو اس میں گنجائش نہ ہو۔۱۲منہ
[273] … تمکین یہ ہے کہ فاصلہ اپنے محل میں متمکن اور اپنی جگہ قرار پذیر ہو اور اس کے معنی کو کلام کے معنی سے ایسا تعلق تام ہوکہ اگر وہ گرجائے تو کلام کے معنی میں خلل آجائے۔۱۲منہ
[274] … انسجام یہ ہے کہ کلام پیچیدگی سے خالی ہونے کے سبب آبِ رواں کی مانند جاری اور ترکیب کی سہولت اور الفاظ کی شیرینی کے سبب نرم و آسان ہو۔۱۲منہ
[275] … الاتقان فی علوم القرآن،النوع الثامن والخمسون فی بدائع القرآن،ج۲،ص۴۳۵۔ علمیہ
[276] … اعتراض یہ ہے کہ ایک یازیادہ جملوں کا کوئی محل اعراب نہ ہو۔ ایک یا دو کلاموں کے درمیان رفع ابہام کے سوا کسی اور نکتہ کے لئے لائیں ۔۲۱منہ
[277] … الاتقان فی علوم القرآن،النوع السادس والخمسون فی الایجاز والاطناب،ج۲،ص۴۰۳والنوع التاسع والخمسون فی فواصل الآی،ص۴۳۵۔ علمیہ
[278] … ترجمۂکنزالایمان:اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے۔(پ۲، البقرۃ:۱۷۹)۔ علمیہ
[279] … کہتے ہیں کہ یہ فارس کے بادشاہ اَرْدَشیر کے قول کا ترجمہ ہے۔ الاعجاز والایجاز للثعالبی،ص۱۶۔۱۲منہ (قتل، قتل کو روکنے والا ہے۔علمیہ)
[280] … اتقان، جزء ثانی ،ص ۵۵۔
[281] … ترجمۂکنزالایمان:اور بیشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس رکھتے ہیں ۔ (پ۱، البقرۃ:۹۶) ۔علمیہ
[282] … طویل حیات۔
[283] … الاتقان فی علوم القرآن،النوع السادس والخمسون فی الایجاز والاطناب،ج۲،ص۳۷۵-۳۷۶۔ علمیہ
[284] … یہ محاورہ ہے یعنی ذرا سے نمونہ ہی سے کل چیز کی اصلیت معلوم ہو جاتی ہے۔ علمیہ
[285] … ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ (پ۳، البقرۃ:۲۵۷) ۔ علمیہ
[286] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ فصل دوم ‘‘نہیں لکھا ہے یقینا یہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس باب کی ابتداء میں معجزاتِ قرآن سے متعلق مضمون کو دو فصلوں میں بیان کرنے کا ذکر فرمایا تھا اورفصل اَوَّل کی ہیڈنگ تو وہاں ہے جبکہ فصل دوم اس باب میں کہیں مذکور نہیں ، لہٰذا سیاق و سباق اور مصنف کی عبارت ’’ اس فصل میں جو معجزات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ کو دیکھ کر ہم نے یہاں ’’ فصل دوم ‘‘ لکھ دیا ہے۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم۔ علمیہ
[287] … ترجمۂکنزالایمان:پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیامسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۱) ۔ علمیہ
[288] … یعنی صراحتاً دلالت کر رہی ہے۔
[289] … ترجمۂکنزالایمان:کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں ۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۱) ۔ علمیہ
[290] … محدود۔
[291] … ترجمہ: پھر رہ گیا فرق دو کمان کا میانہ یا اس سے بھی نزدیک پھر حکم بھیجا اللّٰہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا۔۱۲منہ
[292] … ترجمۂکنزالایمان:تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔
(پ۲۷، النجم:۹۔۱۰) ۔ علمیہ
[293] … ترجمۂکنزالایمان:پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا۔ (پ۱۵، بنی اسراء یل:۱) ۔ علمیہ
[294] … ترجمۂکنزالایمان:یہ مذکور ہے تیرے رب کی اس رحمت کا جو اس نے اپنے بندہ زکریا پر کی۔(پ۱۶، مریم:۲) ۔ علمیہ
[295] … ترجمۂکنزالایمان:اور یہ کہ جب اللّٰہ کا بندہ اس کی بندگی کرنے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ جن اس پر ٹھٹھ کے ٹھٹھ ہوجائیں ۔
(پ۲۹، الجن:۱۹) ۔ علمیہ
[296] … اگر زیاہ تفصیل مطلو ب ہوتو ’’تحفۂ احمدیہ در ثبوت معراج محمد یہ‘‘ مصنفہ شیخنا العلامہ مولیٰنا مولوی مشتاق احمد صاحب انبھڑی چشتی صابری مع حواشی خاکسار ، دفتر انجمن نعمانیہ لاہور سے طلب فرماکر مطالعہ کریں ۔۱۲منہ
[297] … ترجمۂکنزالایمان:پاس آئی قیامت اور شق ہوگیا چاند اور اگر دیکھیں کوئی نشانی تو منھ پھیرتے اور کہتے ہیں یہ تو جادو ہے چلا آتا۔
(پ۲۷،القمر:۱۔۲)۔ علمیہ
[298] … بعض قصہ خواں بیان کرتے ہیں کہ چاند جناب رسالت مآبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جیب میں داخل ہوا اور آستین سے نکل گیا مگر یہ بے اصل ہے۔۱۲منہ
[299] … مسند ابو دائود طیالسی، مطبوعہ دائرۃالمعارف النظامیہ حیدر آباد دکن، جز ء اول، ص ۳۸۔۱۲منہ
[300] … ابوکبشہ حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ایک جد مادری تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں قریش بتوں کی پوجا کرتے تھے اور وہ ان کے خلاف شعری عبو ر کی پرستش کرتا تھا اس لئے جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بتوں کی پرستش میں قریش کی مخالفت کی اور خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی تعلیم دی تو وہ آپ کو اس کی مخالفت کے سبب ابو کبشہ کا بیٹا کہا کرتے تھے۔۱۲منہ
[301] … مسند ابی داود الطیالسی،مااسند عبد اللّٰہ بن مسعود،الجزء الاول،الحدیث:۲۹۵،ص۳۸والشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل فی انشقاق القمر وحبس الشمس،الجزء الاول،ص۲۸۱-۲۸۲۔ علمیہ
[302] … صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب قرب الساعۃ،الحدیث:۲۹۵۱، ص۱۵۸۰۔ علمیہ
[303] … عرب میں خیبر سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک مقام کانام ہے۔۱۲منہ
[304] … اللّٰھمّ انّہ کان فی طاعتک وطاعت رسولک فاردد علیہ الشمس۔ ( شفاء و مواہب وخصائص کبریٰ) اس حدیث کو اما م طحاوی اور قاضی عیاض نے صحیح کہا ہے اور ابن منذر وابن شاہین وطبرانی نے اسے ایسے اسناد کے ساتھ ذکر کیاہے جن میں سے بعض صحیح کی شرط پر ہیں اور ابن مردویہ نے اسناد حسن کے ساتھ اسے روایت کیاہے۔۱۲منہ
[305] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،رد الشمس لہ،ج۶،ص۴۸۴-۴۸۵ والشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل فی انشقاق القمر وحبس الشمس،الجزء الاول،ص۲۸۴۔ علمیہ
[306] … سورج کو واپس لانا۔
[307] … سورج کو روک لینا۔
[308] … بدھ کے دن۔
[309] … شفاء شریف۔ اس حدیث کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند حسن حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے روایت کیاہے۔ (مواہب لدنیہ) اور بیہقی نے اسمٰعیل بن عبدالرحمن سے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔ (خصائص کبریٰ للسیوطی)۱۲منہ…(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل فی انشقاق القمر۔۔۔الخ،الجزء الاول،ص۲۸۴-۲۸۵۔ علمیہ)
[310] … دیکھو مواہب لدنیہ۔
[311] … ترجمہ: میں تیری طاعت کے لیے اور تیرے دین کی تائید کے لیے حاضر وتیار ہوں۔۱۲منہ
[312] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،ابراء ذوی العاہات واحیاء الموتی۔۔۔الخ،ج۷،ص۶۱-۶۲۔ علمیہ
[313] … خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۶۷۔۱۲منہ
[314] … ایک قسم کا کھانا ہے جو روٹی کے ٹکڑوں کو گوشت کے شو ر بے میں ترکرنے سے تیار ہوتا ہے۔۱۲منہ
[315] … اچانک۔
[316] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی احیاء الموتی وکلامہم،ج۲،ص۱۱۲۔ علمیہ
[317] … فتح الباری شرح صحیح بخاری لابن حجر،کتاب الطب،باب ما یذکر فی سم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، تحت الحدیث:۵۷۷۷، ج۱۰،ص۲۰۸۔ علمیہ
[318] … ان میں سے بعض یہ ہیں:التعظیم والمنۃ فی ان ابوی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الجنۃ ۔ الفوائد الکامنۃ فی ایمان السیدۃ آمنۃ ۔مسالک الحنفاء فی والدین المصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔سبل النجاہ فی والدی المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ہدیۃ العارفین،ج۵،ص۵۳۹) ۔ علمیہ
[319] … مواہب لدنیہ۔ اس حدیث کو ابن ابی الدنیا، بیہقی اور ابو نعیم نے نقل کیا ہے۔۱۲منہ
[320] … بیٹے کے انتقال پر اس کی ماں سے تعزیت کی۔
[321] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،ابراء ذوی العاہات واحیاء الموتی۔۔۔الخ،ج۷،ص۶۳۔ علمیہ
[322] … بخاری، کتاب الجہاد، باب الصرعۃ والرکض فی الفزع۔ …(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب السرعۃ والرکض فی الفزع، الحدیث:۲۹۶۹،ج۲،ص۳۰۱۔ علمیہ)
[323] … کھانا۔
[324] … صحیح مسلم و شفاء شریف۔…(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب فی معجزات النبی،الحدیث:۲۲۸۰،ص۱۲۵۰والشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع فیما اظہرہ اللّٰہ۔۔۔الخ،فصل فی کراماتہ وبرکاتہ۔۔۔الخ ،الجزء الاول،ص۳۳۲۔ علمیہ)
[325] … اصابہ بحوالہ طبرانی وابن مندہ وابن السکن۔ ترجمہ ام اوس بہزیہ۔…(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۱۱۸۹۹۔ام اوس البہزیۃ، ج۸،ص۳۵۸۔ علمیہ)
[326] … صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی،الحدیث:۷۰۷،ج۱،ص۲۵۳ والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۲۲۷۔عبد الرحمن بن زید،ج۵،ص۲۹۔۳۰۔ علمیہ
[327] … شفاء شریف ومسند امام احمد۔…(المسند للامام احمد بن حنبل،مسند ا بی سعید الخدری،الحدیث:۱۱۶۲۴، ج۴، ص۱۳۱ والشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع ۔۔۔الخ،فصل فی کراماتہ ۔۔۔الخ ،الجزء الاول،ص۳۳۳۔ علمیہ)
[328] … اس سے مراد وہ زمانہ ہے جس میں امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ،رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد زکوٰۃ وغیرہ کا انکار کرنے والے مرتدین سے جہاد فرمایا ۔ علمیہ
[329] … سیرت ابن ہشام۔…(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،غزوۃ بدر الکبری،قصۃ سیف عکاشۃ،ص۲۶۳ ۔ علمیہ)
[330] … استیعاب واصابہ۔…(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،۱۵۰۲۔عبد اللّٰہ بن جحش،ج۳،ص۱۵ والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۴۶۰۱۔عبد اللّٰہ بن جحش،ج۴،ص۳۲ ۔ علمیہ)
[331] … شفاء شریف وابن سعد۔…(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل فی کراماتہ۔۔۔الخ،الجزء الاول، ص۳۳۴ ۔ علمیہ)
[332] … اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،سلمان الفارسی:۲۱۵۰،ج۲،ص۴۹۰ ۔ علمیہ
[333] … حجۃ اللّٰہ علی العالمین،القسم الثالث،الباب التاسع،الفصل الثانی،ص۴۴۳ ۔ علمیہ
[334] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۹۰۱۲۔الہلب الطائی،ج۶،ص۴۳۲ ۔ علمیہ
[335] … اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ مواہب لدنیہ۔۱۲منہ
[336] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،ابراء ذوی العاہات واحیاء الموتی،ج۷،ص۶۶ ۔ علمیہ
[337] … اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیاہے۔ خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۶۹۔یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ حضرت شمر بن عطیہ اتباع تابعین میں سے ہیں۔ دیکھو زرقانی علی المواہب۔۱۲منہ…(دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ماجاء فی شہادۃ الرضیع۔۔۔الخ، ج۶،ص۶۱ والخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء الابکم۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۴ ۔ علمیہ)
[338] … اس حدیث کو ابن ابی شیبہ وبغوی وبیہقی و طبرانی وابونعیم نے روایت کیاہے۔ ( مواہب لدنیہ)۱۲منہ…(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، المقصد الرابع۔۔۔الخ،ابراء ذوی العاہات واحیاء الموتی،ج۷،ص۷۳ ۔ علمیہ)
[339] … التفسیر الکبیر،تحت الآیۃ انا اعطینک الکوثر،ج۱۱،ص۳۱۴ ۔ علمیہ
[340] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۶ ۔ علمیہ
[341] … مواہب لدنیہ، کتاب فی المعجزات۔…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲، ص۱۱۶ ۔ علمیہ)
[342] … ٹھیک۔
[343] … اس حدیث اوراحادیث آئندہ کے لئے دیکھو خصائص کبریٰ للسیوطی،جزء ثانی، ص ۷۰۔۱۲منہ…(الخصائص الکبری للسیوطی، باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۶ ۔ علمیہ)
[344] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۷ ۔ علمیہ
[345] … یہ حدیث شریف صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہے۔ (مشکوٰۃ، باب فی المعجزات) ۱۲منہ…(الخصائص الکبری للسیوطی،باب آیاتہ فی ابراء المرضی۔۔۔الخ،ج۲،ص۱۱۷ ۔ علمیہ)
[346] … ایسی باریک ریت جسے ہوا اُڑا لے جائے۔
[347] … یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ،باب فی المعجزات)۱۲منہ…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۸۷۷،ج۲،ص۳۸۲ ۔ علمیہ)
[348] … المسند للامام احمد بن حنبل،الحدیث:۱۸۷۱۶،ج۶،ص۴۴۵ ۔ علمیہ
[349] … کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک میں لشکر کی تعداد ایک لاکھ کو پہنچ گئی تھی۔ کذافی اشعۃ اللمعات۔۱۲منہ
[350] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۱۲،ج۲،ص۳۹۱ ۔ علمیہ
[351] … بکھرے بالوں والا۔
[352] … صحیح بخاری، باب قبول الہدیۃ من المشرکین۔
[353] … صحیح البخاری،کتاب الہبۃ وفضلہا۔۔۔الخ،باب قبول الہدیۃمن المشرکین،الحدیث:۲۶۱۸،ج۲،ص۱۸۱ ۔علمیہ
[354] … تھوڑی کلیجی کا زیادہ ہوجانا۔
[355] … تھوڑے سے گوشت اور صاع بھر طعام کا زیادہ ہوجانا۔
[356] … صحیح بخاری، باب کیف کان عیش النبیصلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلم واصحابہ۔۱۲منہ…(صحیح البخاری،کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔الخ،الحدیث:۶۴۵۲،ج۴،ص۲۳۴ملخصاً) ۔علمیہ
[357] … مواہب لدنیہ بحوالہ صحیح مسلم۔
[358] … تیس صاع۔
[359] … المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تکثیر الطعام القلیل۔۔۔الخ،ج۷،ص۵۷ ۔ علمیہ
[360] … صحیح بخاری، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔
[361] … حضرت سیدنا ابو طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کا نام زید بن سہل تھا حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سوتیلے والد تھے حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والد کا نام مالک بن نضر تھا جو کہ مشرک تھا اس کے قتل کے بعد حضرت سیدتنا ام سلیم (والدۂ انس) مشرف بااسلام ہوئیں انہی کی دعوت پر حضرت سیدنا ابو طلحہ نے اسلام قبول کیا اور پھر آپ کے ساتھ ان کا نکاح ہوا۔رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ۔(عمدۃ القاری،کتاب العلم،باب الحیاء فی العلم،تحت الحدیث:۱۳۰،ج۳،ص۲۹۸)
[362] … جو کچھ موجود ہے۔
[363] … صحیح البخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث:۳۵۷۸،ج۲،ص۴۹۴-۴۹۵ملخصاً ۔علمیہ
[364] … وسق بار شترو شصت صاع۔۱۲منہ
[365] … الخصائص الکبری للسیوطی،باب معجزاتہ فی تکثیر الطعام۔۔۔الخ،ج۲،ص۸۴ ۔ علمیہ
[366] … مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفضائل،باب فی المعجزات،الفصل الثانی، تحت الحدیث:۵۹۳۳،ج۱۰،ص۲۷۰ ۔ علمیہ
[367] … صحیح بخاری، باب قضاء الوصی دیون ا لمیت۔…(صحیح البخاری،کتاب الوصایا،باب قضاء الوصی دیون المیت۔۔۔الخ، الحدیث:۲۷۸۱،ج۲،ص۲۴۷ ۔ علمیہ)
[368] … اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن،باب فی المعجزات،ج۴،فصل اوَّل،ص۵۷۰ ۔علمیہ