اِجابت دعا

          حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ جو دعا فرماتے وہ بارگاہِ رب العزت میں قبول ہوتی یہ باب نہایت وسیع ہے نظر بر اِختصار صرف چند مثالیں درج کی جاتی ہیں ۔([1] )

          حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ماں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کی: یارسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  انس آپ کا ادنیٰ خادم ہے اس کے حق میں دعائے خیر فرمائیں ۔ پس آپ نے یوں دعا فرمائی: ’’یااللّٰہ ! تو اس کا مال و اولاد زیادہ کراور جو نعمت تو نے اسے دی ہے اس میں برکت دے۔‘‘([2] ) ایک روایت یہ بھی ہے کہ تو اس کی عمر زیادہ کر اور بہشت([3] ) میں میرا رفیق بنا۔ یہ دعا ایسی مقبول ہوئی کہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ


 

تَعَالٰی عَنْہُ کے باغ میں کھجوروں کے درخت سال میں دو دفعہ پھل دیتے۔ ان کی اولاد سو سے زیادہ تھی۔ ایک کم سو برس کی عمر پائی۔ اخیر عمر میں فرماتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ حسب دعائے جناب مصطفی     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں بہشت میں آپ کا رفیق بھی ہوں گا۔ 

          اسی طرح حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں دعا فرمائی تھی کہ اللّٰہ  تجھے برکت دے۔ اس دعا کی برکت سے اللّٰہ  تعالٰی نے حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوتجارت میں اس قدر نفع دیا کہ جب  ۳۱ھ؁ میں انہوں نے وفات پائی تو ان کے ترکہ کا سونا کلہاڑیوں سے کھودا گیا یہاں تک کہ کثرت کا رسے ہاتھ زخمی ہوگئے اور ان کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو اسی ہزار دینار ملے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ایک ہزار گھوڑے اورپچاس ہزار دینار فی سبیل اللّٰہ خیرات کردیئے جائیں ۔ یہ تمام علاوہ ان صدقات کے تھا جو انہوں نے اپنی زندگی میں کیے۔ چنانچہ ایک روز تیس غلام آزاد کیے۔ ایک مرتبہ سات سو اونٹوں کا کارواں مع مال واسباب تصدق کر دیا۔ ایک دفعہ اپنا آدھا مال راہِ خدا میں دے دیا پھر چالیس ہزار دینار پھر پانچ سو گھوڑے پھر پانچ سو اونٹ تصدق کیے۔([4] )

          جنگ احد میں حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُجناب رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے بیٹھے ہوئے تیر چلارہے تھے اوریوں کہہ رہے تھے۔’’یااللّٰہ ! یہ تیرا تیر ہے اس سے تو اپنے دشمن کو ہلاک کر۔ ‘‘ اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرما رہے تھے: ’’یااللّٰہ! اس کا نشانہ درست کردے اور اس کی دعا قبول کرلے۔ ‘‘([5] )  آپ کی دعا سے حضرت سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ   مستجاب الدعوات بن گئے جو دعا کرتے قبول ہوتی اور جو تیر پھینکتے وہ کبھی خطا نہ کرتا۔

          اسی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی تھی کہ یااللّٰہ ! اسلام کو عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) کے ساتھ عزت دے۔([6] ) یہ دعا حضرت عمر       رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں قبول ہوئی وہ ایمان لائے اور اس دن سے اسلام کو عزت و غلبہ حاصل ہوا۔


 

          حضرت عبداللّٰہ      بن عباس    رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا کی تھی کہ         ’’یااللّٰہ! اس کو دین میں فقیہ بنادے۔‘‘ ([7] ) اس دعا کی برکت سے حضرت ابن عباس رئیس المفسرین اور حَبْرالا مت بن گئے۔

          ایک روز آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جو شخص میری اس دعا کے تمام ہونے تک اپنا کپڑا بچھائے رکھے گا وہ میری احادیث میں سے کبھی کچھ نہ بھولے گا۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک کملی کے سوا کوئی کپڑا نہ تھا میں نے کملی ہی بچھادی یہاں تک کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی دعا تمام کی پھر میں نے اپنی کملی لپیٹ کر اپنے سینے سے لگا دی۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حق دے کر بھیجا ہے کہ میں آپ کی احادیث کو آج تک نہیں بھولا۔([8] )

          جب حضرت طفیل بن عمرو دوسی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک پر اسلام لائے تو انہوں نے یوں عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! میری قوم میری اطاعت کرتی ہے۔ میں اس کے پاس جاتا ہوں اور اس کو دعوت اسلام دیتا ہوں آپ دعا فرمائیں کہ اللّٰہ  تعالٰی مجھے ایسی نشانی عطا کرے جو ان کے برخلاف میری معاون ہو۔ ‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ یااللّٰہ! اس کے لئے ایک نشانی پیدا کر دے۔ یہ سن کر میں اپنی قوم کی طرف آیا جب میں گھاٹی ِکداء ([9] ) میں پہنچا تو میری دونوں آنکھوں کے درمیان چراغ کی مانند ایک نور پیدا ہوا۔ میں نے دعا کی: یااللّٰہ ! اس نور کو میری پیشانی کے سوا کسی اور جگہ پیدا کردے کیونکہ میں ڈرتاہوں کہ میری قوم اس کو میری پیشانی میں مثلہ خیال کرے گی۔ پس وہ نور میرے چابک کے سرے پر لٹکتی ہوئی قندیل کی طر ح ہوگیا۔ پھر میں نے اپنی قوم کو دعوت اسلام دی مگروہ ایمان نہ لائے۔ میں نے رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو


 

 کر عرض کیا کہ قبیلہ دَوس نے میری اطاعت سے انکار کردیاہے آپ ان پر بددعا فرمائیں ۔ آپ نے بجائے بد دعا کے دعائے ہدایت فرمائی اور مجھ سے ارشاد فرمایا کہ ان کو نرمی سے دعوتِ اسلام دو۔ میں تعمیل ارشاد کرتارہایہاں تک کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے آئے پھر میں اپنی قوم کے ستر یا اسی اشخاص کے ساتھ جو ایمان لائے تھے خدمت اقدس میں حاضرہوا۔ ([10] )

          حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللّٰہ! میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں مگر وہ قبول نہیں کرتیں آپ دعا فرمائیں ۔ حضور نے یہ سن کر دعا فرمائی اور وہ ایمان لائی۔ جیسا کہ پہلے آچکا ہے۔

          حضرت نابغہ (نابغہ بنی جعدہ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شعر سنایا۔ آپ نے پسند فرمایا اور میرے حق میں یوں دعا فرمائی: ’’اللّٰہ تیرا دانت نہ گرائے۔‘‘ حضرت نابغہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی عمر سو سال سے زائد ہوگئی مگر آپ کا کوئی دانت نہ گرا۔([11] )

          حضرت ثابت بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرا ایک پاؤں لنگڑا ہے زمین پر نہیں لگتا۔‘‘ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے حق میں دعا فرمائی وہ پاؤں چنگا ([12] ) ہو گیا اور دوسرے کی طرح زمین پر برابر لگنے لگا۔([13] )

          حضرت عروۃ البارقی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لئے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ یااللّٰہ! اس کے سودے میں برکت دے۔ اس کے بعد حضرت عروہ جو چیز خریدتے خواہ وہ مٹی ہو اس میں نفع ہی ہوتا۔([14] )

          ہجرت کے وقت جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غار ثو ر سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو سراقہ


 

 بن مالک گھوڑے پر سوار آپ کے تعاقب میں بالکل قریب آگیا۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ہمیں تو آلیا۔ آ پ نے فرمایا کہ غم نہ کر کیونکہ اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔ جب دو تین نیزے کا فاصلہ رہ گیا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی کہ یااللّٰہ ! تو جس طرح چاہے ہم کو بچا۔ اس پر سراقہ کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ یہ دیکھ کر سراقہ نے عرض کیا: یامحمد!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کا کام ہے۔ آپ اس مصیبت سے میری نجات کے لئے دعا فرمائیں ۔ اللّٰہ کی قسم! میں کسی کو تعاقب میں آپ تک نہیں آنے دوں گا۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا سے سراقہ نے نجات پائی اوروہ واپس چلاگیا۔ راستے میں جس سے ملتا اسے یہ کہہ کر موڑ لیتا کہ میں نے بہت ڈھونڈاحضرت ادھر نہیں ہیں ۔([15] )

          حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تشریف آوری سے پہلے مدینہ میں طاعون ووباسب سے زیادہ رہا کرتی تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا سے ایسی دور ہوئی کہ آج تک وہ مبارک شہر وباء و طاعون سے محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا۔

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو لہب کے بیٹے عتیبہ پر بد دعا فرمائی چنانچہ اس کوایک شیر نے پھاڑ ڈالا ([16] )جیسا کہ آگے مفصل بیان ہوگا۔

          جب قریش نے ایمان لانے سے انکار کردیا توحضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعافرمائی: یااللّٰہ! ان پر حضرت یوسف کے سات سالوں کی طرح سات سال قحط لا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ قریش نے مردار اور ہڈیاں کھائیں ۔ ابوسفیان نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کیا: یامحمد! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کی قوم ہلاک ہوگئی اللّٰہ سے دعا کیجئے کہ قحط دور ہوجائے۔ پس آپ نے دعا فرمائی اور وہ مصیبت دور ہوگئی۔([17] )


 

          حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسریٰ پرویز کو جودعوت اسلام کا خط لکھا تھا، اس نے اسے پڑھ کر پھاڑ دیا، جب آپ نے یہ سنا تو فرمایا کہ اس کا ملک پارہ پارہ ہوجائے۔ چنانچہ ایساہی ہو ا کہ فارس سے اکاسرہ کی سلطنت ہمیشہ کے لئے جاتی رہی۔([18] )

          حکم ابن ابی العاص نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ استہزاء کرنے کے لئے اپنا منہ ٹیڑھا کر لیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اسی طرح رہے۔ چنانچہ وہ کج دہان ہی رہا یہاں تک کہ مرگیا۔([19] )

          جناب سرور کائنات عَلَیْہِ اُلُوْفُ التَّحِیَّۃ وَالصَّلٰوۃ نے محلم بن جثامہ([20] )کوایک سریہ میں بھیجا تھا جس پر عامر بن الاضبط کو امیر بنایاتھا۔ جب وہ ایک وادی کے درمیان پہنچے تو محلم نے عامر کو ایک معاملے کے سبب جو دونوں میں تھا دھوکے سے قتل کردیا۔ جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے دعا فرمائی کہ محلم کو زمین قبول نہ کرے۔ اس دعا کے سات دن بعد محلم مرگیا جب اس کو دفن کیا گیا تو زمین نے اس کو پھینک دیا۔ اسی طرح کئی دفعہ کیا گیا مگر زمین نے قبول نہ کیا آخرکار اس کو ایک غارمیں پھینک دیا گیااور پتھروں کی ایک دیوار اس پر بنادی گئی۔([21] )

          حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے میں قحط پڑا۔ جمعہ کے دن حضور منبر پر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک بادیہ نشین عرب([22] )آ پ کے پاس آیا اور یوں عرض کرنے لگا: ’’یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے مال ضائع ہوگئے اور بال بچے بھوکے مررہے ہیں ۔ آپ ہمارے حق میں دعا فرمائیں ۔‘‘ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اس وقت آسمان پر کوئی بادل نظر نہ آتا تھا۔([23] )   قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ نے ہاتھ نہ چھوڑے تھے کہ پہاڑوں کی


 

 مثل بادل اٹھا۔ پھر آپ منبر سے نہ اترے یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ کی ریش مبارک پر سے نیچے گررہاہے۔ اس طرح جمعۂ آیندہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھروہی بادیہ نشین عرب آیا اور عرض کرنے لگا: ’’یارسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے مکانات گرگئے۔‘‘ آپ نے ہاتھ اٹھاکے دعا فرمائی:’’یااللّٰہ! ہمارے گرد مینہ برسا اور ہمارے مکانات سے دور رکھ۔‘‘ پس جس طرف آپ اشارہ فرماتے بادل دور ہوجاتا یہاں تک کہ مدینہ گول گڑھے کی مانند  ہوگیا اور وادیٔ قنات([24] )میں ایک مہینہ تک پانی جاری رہا جس طرف سے کوئی آتاباران کثیر کی خبر لاتا۔([25] )

          جب مسلمان غزوۂ تبوک([26] )کے لئے نکلے تو گرمی کی شدت تھی۔ ایک پڑاؤ پر پیاس کی شدت سے یہ نوبت پہنچی کہ اونٹ ذبح کرتے اس کی لید نچوڑ کر پانی پی لیتے اور بقیہ کو اپنے جگر پر باندھتے۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ دعا فرمائیے۔ چنانچہ حضور انور کی دعا سے پانی برسا اور مسلمانوں نے اپنے برتن بھر لئے۔ پھر جو دیکھا تو یہ بار ش حدود لشکر سے متجاوز نہ تھی۔([27] )

          آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک نابینا کواپنی ذات شریف سے توسل کا طریق بتایا اس نے ایسا ہی کیا اور بینا ہوگیا،([28] )جیسا کہ آگے بالتفصیل آئے گا۔([29] )ہم اس عنوان کوایک مشہور واقعہ پر ختم کرتے ہیں جس کی کیفیت ذیل میں درج ہے۔    

نجران کے نصاریٰ کے ساتھ مباہلہ

          نجران مکہ مشرفہ سے جانب یمن سات منزل کے فاصلہ پر ایک بڑا شہر ہے جو نجران بن زید بن یشجب بن یعرب کے نام سے موسوم ہے۔ یہ شہر ملک عرب میں عیسائی مذہب کا مرکز تھااور 73گاؤں اس سے متعلق تھے۔ جناب سرورِ دَو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال سے ایک سال پیشتر یہاں کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ میں آیا۔


 

 جب وہ عصر کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی نماز کا وقت آپہنچا مسجد میں انہوں نے شَرْق رُو ہوکر ([30] )نماز ادا کی۔ صحابہ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن منع کرنے لگے مگر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تالیف قلوب ([31] ) اور توقع اسلام کو مد نظر رکھ کر ان سے تعرض کرنے ([32] ) سے منع فرمایا۔ اس وفد میں ساٹھ آدمی تھے جن میں چوبیس ان کے اشراف([33] )میں سے تھے اور ان چوبیس میں سے تین مَرْجع کُل تھے۔([34] ) عَبْدُ الْمَسِیْح جن کا لقب عاقب تھا اور سید جس کانام ا یہم اور بقول بعض شرحبیل تھااور ابو حارثہ بن علقمہ جو ان کا اسقف (بڑاپادری) تھا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو دعوت اسلام دی مگر وہ رُوبَراہ نہ ہوئے([35] ) بلکہ مباحثہ کرنے لگے اور آخر کار کہنے لگے کہ اگر عیسیٰ (عَلَیْہِ السَّلام)خدا کا بیٹا نہیں تو بتاؤ ان کا باپ کون تھا؟ اس کے جواب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں :

اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹)اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ(۶۰)فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱)(آل عمران،ع۶)

بے شک عیسیٰ کی مثال اللّٰہکے نزدیک جیسی مثال آدم کی بنایا اس کو مٹی سے پھر کہا کہ ہوجا وہ ہو گیا حق بات ہے تیرے رب کی طرف سے پس تو مت رہ شک میں پھر جو جھگڑا کرے تجھ سے اس بات میں بعد اس کے کہ پہنچ چکا تجھ کو علم تو تو کہہ آؤ بلائیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کواپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کوپھر دعا کریں اور لعنت ڈالیں اللّٰہ کی جھوٹوں پر۔([36] )  

           ان آیات کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  کا نہ باپ تھا نہ ماں ۔اگر حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  کا باپ نہ ہو تو کیا عجب ہے۔اگر نصاریٰ اس قدر سمجھا نے پر بھی قائل نہ ہوں تو ان


 

 کے ساتھ قسم کرو کہ یہ بھی ایک صورت فیصلہ کی ہے کہ دونوں اپنی جان سے اور اولاد سے حاضر ہوں اور دعا کریں کہ جو کوئی ہم میں سے جھوٹاہے اس پر لعنت اور عذاب پڑے۔

           اہل اسلام اس طرح کے فیصلے کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ کیا خوب فیصلے کا ڈھنگ ہے کہ صرف عادِل حقیقی جو بے رُوْورِعایت اور بغیر بھول چو ک کے فیصلہ کر نے والا ہے فیصلہ کر دے۔اس ار شاد الٰہی کے مطابق حضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان علمائے نصاریٰ سے مباہلہ کے لئے کہا۔انہوں نے مہلت مانگی۔ دوسرے روز صبح کو حضرت نے حضرت امام حسن اور امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما  کو جو خورد سال ([37] ) تھے ہاتھ سے پکڑا آپ کے پیچھے حضرت فاطمۃ الزہرارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور ان کے پیچھے حضرت علی المر تضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکِرِیْم مقامِ مباہلہ کو روانہ ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تم آمین کہنا۔ پنجتن پاک کو دیکھ کر ابو حارِثہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا :

          ’’میں ([38] )  وہ صورتیں دیکھتا ہوں کہ اگر وہ خد ا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو بیشک ان کی دعا سے ٹل جائے گا اس لئے تم مباہلہ نہ کرو،ورنہ ہلاک ہو جاؤگے اور رُوئے زمین پر قیامت تک کوئی عیسا ئی نہ رہے گا۔ اللّٰہ کی قسم ! تمہیں اس کی نبوت معلوم ہو چکی ہے اور وہ تمہارے صاحب (عیسیٰ ) کے بارے میں قول فیصل لایا ہے۔ اللّٰہ کی قسم ! جس قوم نے پیغمبر سے مباہلہ کیا وہ ہلاک ہوگئی۔‘‘

           یہ سن کر عیسائی ڈر گئے اور مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے بلکہ صلح کرلی اور جزیہ دینا قبول کیا۔حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اگر وہ مباہلہ کر تے تو بند راور سوربن جاتے اور یہ جنگل ان پر آگ بر ساتا، اللّٰہ نجران اور اس کے باشند وں کو تباہ کر دیتایہاں تک کہ کوئی پر ندہ بھی درخت پر باقی نہ رہتا۔([39] )

          نصاریٰ کا اس طرح مباہلہ سے گریز صاف بتا رہا ہے کہ اَعد ائے اِسلام بھی حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ


 

وَسَلَّم کی دعاکی اجابت کے قائل تھے۔اس مباہلہ سے ایک اور بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر دین اسلام خدا کی طرف سے نہ ہو تا اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نبی بر حق نہ ہو تے تو ہر گز اپنے دعویٰ پر خدا کے حضور جھوٹے پر لعنت اور غضب الٰہی نازل ہو نے کی بد دعا کرنے کا حوصلہ اور جرأت نہ کر سکتے کیا کوئی اپنی چالاکی سے خدا کو بھی دھو کہ دے سکتا ہے ؟ اگر ایسا ہو سکتا تو پھر عیسا ئی علماء کیوں دعا مانگنے کی جرأت نہ کر سکے۔

اُنگلیوں سے چشموں کی طرح پانی جاری ہونا

          حضرت سالم ([40] )بن الجعدرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ     حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت کر تے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس ایک چھا گل تھی آپ نے اس سے وضو فرمایا تو لوگ پانی کے لئے آپ کی طرف دوڑ ے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ کی چھاگل کے پانی کے سوا ہمارے پاس نہ وضو کر نے کو ہے نہ پینے کو۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنا ہاتھ مبارک چھاگل پر رکھا۔پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی نکلنے لگا۔ہم نے پیااور وضو کیا۔ میں نے حضرت جابررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے پو چھا: تم اس دن کتنے تھے؟ حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا کہ ہم ڈیڑ ھ ہزار تھے اگر ایک لاکھ ہوتے تو تب بھی وہ پانی کفایت کرتا۔([41] )

          یہ معجزہ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے متعدددفعہ مختلف جگہوں میں ایک جماعت کثیرہ کے سامنے ظہور میں آیا اور اس کے را وی حضرت جابر بن عبد اللّٰہ، انس بن مالک، عبد اللّٰہ بن مسعود، عبد اللّٰہ بن عباس، ابو یعلی انصاری، زید بن الحارث الصدائی اور ابو عمر ہ انصاری  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں ۔ پس یہ قطعی الثبوت ہے۔([42] ) نظر بر اختصار یہاں صرف ایک روایت پر کفایت کی گئی ہے۔یہ معجزہ بھی شق القمر کی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص میں سے ہے۔


 

حیوانا ت کی اِطاعت اور کلام

          جس طرح وہ انسان جن کے نام پر قرعۂ سعادت پڑا ہوا ہے حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شریعت کے مطیع ومسخر ([43] )  ہیں اسی طرح اللّٰہ تبارک وتعالٰی نے حیوانات کو بطر یق اعجازو خرق عادت([44] )  حضور  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مطیع ومسخر بنا یا۔از اں جملہ([45] )  چند مثالیں ذیل میں در ج کی جاتی ہیں ۔

 اونٹ کی شکایت اور سجدہ

          حضرت انس([46] ) بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک کے ہاں ایک اونٹ تھا جس سے آب کشی کیا کر تے تھے۔ ([47] ) وہ سر کش ہو گیا اور اپنی پیٹھ پر پانی نہ اٹھا تا تھا۔اونٹ کے مالک حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئے اور عرض کر نے لگے کہ ہمارے ہاں ایک اونٹ ہے جس سے ہم آب کشی کیا کر تے تھے وہ سر کش ہو گیا ہے اپنی پیٹھ پر پانی نہیں اٹھا تاہماری کھجور یں اور کھیتی سو کھ رہی ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ اٹھو! وہ اٹھے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کے ساتھ ایک باغ میں داخل ہوئے۔ وہ اونٹ اس باغ کے ایک گو شہ میں تھا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کی طرف روانہ ہوئے ، انصارنے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ اونٹ کاٹنے والے کتے کی مانند ہوگیا ہے ہمیں ڈر ہے کہ کہیں آپ کو تکلیف پہنچے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: مجھے اس سے کچھ ڈر نہیں ۔ جب اونٹ نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو دیکھا تو آپ کی طرف آیا یہاں تک کہ آپ کے آگے سجدے میں گرپڑا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی پیشانی کے بال پکڑلئے اور وہ ایسا مطیع ہوا کہ کبھی نہ ہوا تھا یہاں تک کہ آپ نے اس کو کام پر لگا دیا۔ آپ کے اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ حیوانِ لا یعقل([48] )  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سجدہ کر تا ہے اور ہم عقل والے ہیں اس لئے ہم اس کی نسبت آپ کو سجدہ کر نے کے زیادہ سزاوار([49] )


 

  ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ انسان کو سزاوار نہیں کہ دوسرے انسان کو سجدہ کرے اگر ایک انسان کا دوسرے انسان کو سجدہ کر نا جائز ہو تا تو میں حکم دیتا کہ عورت اپنے خاوند کو سجدہ کرے کیونکہ خاوند کا عورت پر بڑا حق ہے۔([50] )

           حضرت عبداللّٰہ([51] )بن جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سب سے پسندیدہ شے جس کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قضا ئے حاجت کے لئے اَوٹ بنا یا کر تے تھے کوئی بلند چیز یا درختانِ خرماکا مجمع تھا۔ ایک دفعہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انصار میں سے ایک شخص کے باغ میں داخل ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اس باغ میں ایک اونٹ ہے اس اونٹ نے جب نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا تو رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔ رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ا س کے پاس آئے اور اس کے پس گوش پر([52] )  اپنا مبارک ہاتھ پھیر اوہ چپ ہو گیا آپ نے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ انصار میں سے ایک نوجوان نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ ! یہ اونٹ میرا ہے۔آپ نے فرمایا کیا تو اس چوپایہ کے بارے میں جس کا اللّٰہ نے تجھے مالک بنایا ہے اللّٰہ سے نہیں ڈرتااس نے میرے پاس شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور کثرتِ استعمال سے اسے تکلیف دیتا ہے۔([53] )

 بکری کی طاعت اور سجدہ

          حضرت انس([54] ) بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما اور انصار کے چند اشخاص تھے۔ اس باغ میں ایک بکری تھی اس نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آگے سجدہ کیا۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ!اس بکری کی نسبت ہم آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سجدہ کر نے کے زیادہ سزاوار ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میری امت کو جائز نہیں کہ ایک دوسرے کو سجدہ کرے۔ اگر ایک کا دوسرے


 

 کو سجدہ کر نا جائز ہو تا تو میں حکم دیتا کہ عورت اپنے خاوندکو سجدہ کرے۔([55] )

          ام معبد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کی بکری کا قصہ([56] )حالات ہجرت میں آچکا ہے۔ دودھ نہ دیتی تھی حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی دعا سے اس نے دودھ دیا۔  ([57] )

 بھیڑ یے کی شہادت اور طاعت

          حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک بھیڑیا بکریوں کے ریوڑ کی طرف آیا۔اس نے بکریوں میں سے ایک بکری پکڑلی۔ چرواہے نے بھیڑیے کا پیچھا کیایہاں تک کہ بکری اس سے چھڑالی۔پس بھیڑیا ایک ریت کے ٹیلے پر چڑ ھ گیا اورکتے کی طرح اپنے چوتڑوں پر بیٹھ گیا اور اپنی دُم کو اپنے پیروں کے درمیان کر لیا اور بو لا: میں نے رِزْق کا قصد کیاجو اللّٰہ نے مجھے دیا اور میں نے اسے لے لیاپھر تو نے اسے مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے کہا: خدا کی قسم! میں نے آج کی طرح کسی دن بھیڑیے کو کلام کر تے نہیں دیکھا۔بھیڑیے نے کہا: اس سے عجیب تر ایک شخص (حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کا حال ہے جو نخلستان میں ذُوحرہ کے درمیان یعنی مدینہ میں ہے تمہیں خبر دیتا ہے اس کی جو گزر چکا اور جو تمہارے بعد ہو نے والا ہے۔ (اور لوگ اس اُمّی لقب نبی کا یہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا تے) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا قول ہے کہ چرواہا یہودی تھا اس نے جناب پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس واقعہ کی خبر دی اور مسلمان ہو گیا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی تصدیق کی۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس طرح کے اُمور قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں قریب ہے کہ ایک شخص اپنے گھر سے نکلے گا اور واپس نہ آئے گا یہاں تک کہ اس کے ہر دو نعل اور اس کا تازیانہ بتائے گا کہ اس کی غیر حاضری میں اس کے اَہل خانہ نے کیا عمل کیا ہے۔([58] )


 

          حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک چرواہا([59] )حرہ میں بکریاں چرارہاتھا ناگاہ ایک بھیڑ یا اس کی بکریوں میں سے ایک بکری کو پکڑنے آیا۔ چرواہا بکری اور بھیڑیے کے درمیان حائل ہوگیا۔ بھیڑیا اپنی دم پر کتے کی طرح بیٹھ گیاپھر چرواہے سے بولا: کیا تو اللّٰہ سے نہیں ڈرتا کہ میرے رزق کے درمیان جو اللّٰہ نے میرے قابو میں کر دیا ہے حائل ہو تا ہے۔ چرواہے نے کہا: تعجب ہے کہ بھیڑیا انسان کی طرح کلام کر تا ہے۔ بھیڑیے نے کہا:دیکھ ! میں تجھے اس سے بھی عجیب بات بتاتا ہوں ۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ذُوحرہ ([60] ) (سنگلاخ زمینوں ) کے درمیان (مدینہ میں ) لوگوں سے گز شتہ اُمتوں کے حال بیان فرمارہے ہیں ۔ (اور وہ اس اُمّی لقب نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا یہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا تے ) پس چرواہے نے بکریاں ہانک لیں یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں آیا اور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر ہوکر بھیڑیے کا قصہ بیان کیا۔رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: سچ ہے۔ دیکھو! درندوں کا انسان سے کلام کر نا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت نہ آئے گی یہاں تک کہ درند ے انسان سے کلام کریں گے اور انسان سے اس کے جوتے کا تسمہ اور اس کے کوڑے کا سرا کلام کر ے گا اور انسان کو اس کی ران خبر دے گی جو اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں کیا۔([61] )

          حضرت حمزہ بن ابو اسید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک شخص کے جنازے میں نکلے دیکھتے کیا ہیں کہ ایک بھیڑیا راستے میں پاؤں پھیلائے بیٹھا ہے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: یہ تم سے اپنا حصہ طلب کر تا ہے اس کے لئے کچھ مقرر کر و۔صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کی کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ ہر اونٹ پر ہر سال ایک بکری ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:


 

 یارسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ تو بہت ہے۔ آپ نے بھیڑیے کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہاں سے جلدی چل دو۔ بھیڑیا یہ سن کر چلا گیا۔([62] )

شیر کی طاعت

          حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آزاد کر دہ غلام حضرت سفینہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا بیان ہے کہ میں سَمُنْدَ ر میں ایک کشتی پر سوار ہواوہ کشتی ٹوٹ گئی۔ پس میں اس کے ایک تختے پر چڑھ بیٹھا اور ایک بن ([63] ) میں جا نکلا جس میں شیر تھے ناگاہ ایک شیر آیاجب میں نے اسے دیکھا تو میں نے کہا:اے ابو الحارِث!  ([64] )میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا آزاد کر دہ غلام سفینہ ہوں ۔یہ سن کر شیر دُم ہلاتا ہوا آیایہاں تک کہ میرے پہلو میں کھڑا ہوگیا پھر میرے ساتھ چلایہاں تک کہ مجھے راستے پر ڈال دیاپھر اس نے کچھ دیر ہلکی آواز نکالی میں سمجھا کہ یہ مجھے وداع کر تا ہے۔([65] )

           جب ہجرت کے وقت حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہ ثور کے غار میں تھے۔اس غار کے منہ پر مکڑی نے جالا تنا ہوا تھا اور کنارے پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے۔ کفار تعاقب میں وہاں پہنچے۔اس عجیب دربانی وپاسبانی کو دیکھ کر واپس ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر حضرت اس میں داخل ہوتے تو مکڑی جالا نہ بنتی اور کبوتری انڈے نہ دیتی۔ امثلۂ مذکورہ بالا کے علاوہ ہر نی کا قصہ اور سو سمار([66] )کی حدیث مشہور ہے۔

نباتات کا کلام وطاعت اور سلام وشہادت

          جس طرح حیوانات حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے امر کے مطیع تھے اسی طرح نباتات بھی آپ کے فرمانبردار تھے چنانچہ درختوں کا آپ کی خدمت اقدس میں آنا اور سلام کر نا اور آپ کی رسالت پر شہادت دینا


 

اَحادیث کثیرہ سے ثابت ہے جن میں سے صرف دو تین مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں ۔

          حضرت عائشہ صدیقہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاسے روایت([67] )ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جب میری طرف وحی بھیجی گئی تو جس پتھر اور درخت پر میرا گزرہوتا تھا وہ کہتا تھا: اَلسَّلَامُ عَلَـیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ۔([68] )

            حضرت عبد اللّٰہ  بن عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا بیان ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے ایک بادیہ نشین عرب([69] )ٓپ کے سامنے آیا۔ جب وہ نزدیک ہوا تو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے فرمایا کہ کیا تو خدا کی وحد انیت اور محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کی رسالت کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: آپ جو کچھ فرماتے ہیں اس پر کون شہادت دیتا ہے؟ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: یہ درخت! پس آپ نے اسے بلا یا حالانکہ وہ وادی کے کنارے پر تھا وہ زمین کو چیر تا ہوا سامنے آکھڑا ہوا۔ آپ نے تین باراس سے شہادت طلب کی اور اس نے تینوں بار شہادت دی کہ واقع میں ایسا ہی ہے جیسا کہ آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا۔ پھر درخت اپنی جگہ پر چلا گیا۔ ([70] )

          حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت  ([71] )ہے کہ بنی عامر بن صَعْصَعَہ میں سے ایک بادیہ نشین عرب([72] ) نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں آیا اور کہنے لگا: میں کس چیز سے پہچا نوں کہ آپ اللّٰہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے فرمایا: بتا ! اگر میں اس درخت خرماکی شاخ کو بلا لوں تو کیا تو میری رسالت کی گواہی دے گا ؟ اس نے عرض کیا: ہاں ! پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس شاخ کو بلا یا۔وہ درخت سے اترنے لگی یہاں تک کہ زمین


 

 پر گری اور پھد کنے لگی۔ حافظ ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ وہ آپ کی طرف اس حال میں آئی کہ سجدہ کر رہی تھی اور اپنا سر اٹھا رہی تھی یہاں تک کہ وہ آپ کے پاس پہنچ گئی اور آپ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایاکہ اپنی جگہ پر واپس چلی جا۔ پس وہ اپنی جگہ واپس چلی گئی۔یہ دیکھ کر اس اعرابی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ کے رسول ہیں اور ایمان لے آیا۔([73] )

          حضرت جابر([74] ) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ سیر کی یہاں تک کہ ہم ایک فَرَاخ وادی میں اُترے، رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے کوئی چیز نہ دیکھی جس کے ساتھ پر دہ کرلیں نا گاہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس وادی کے ایک کنارے دو درخت دیکھے آپ نے ان دو میں سے ایک کے پاس قدم رنجہ فرمایا اور اس کی ایک شاخ کو پکڑ کر یوں ارشاد فرمایا: اللّٰہ کے اذن سے میری فرمانبر داری کر۔ اس درخت نے آپ کی اس طرح فرمانبر داری کی جیسے کہ نکیل والا اونٹ شتربان کی فرمانبر داری کر تا ہے یہاں تک کہ آپ دوسرے درخت کے پاس آئے اور اس کی ایک شاخ کو پکڑ کر فرمایا:اللّٰہ کے اذن سے میری فرمانبر داری کر۔ وہ بھی اسی طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ چلا حتی کہ جب ان دونوں کے بیچ میں ہوئے تو فرمایا: اللّٰہ کے اذن سے تم دونوں مجھ پر مل جاؤ ۔پس وہ درخت باہم مل گئے۔ (حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں :) میں اپنے دل میں اس امر عجیب کی نسبت حیرت سے سو چنے لگا میں نے جو نظر اٹھا ئی کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میری طرف آرہے ہیں اور وہ درخت جدا جدا ہو گئے ہیں اور ہر ایک اپنی اصلی حالت میں اپنے تنے پر قائم ہے۔([75] )

 جمادات کی طاعت اور تسبیح وسلام

            جس طرح نباتات حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زیر فرمان تھے اسی طرح جمادات([76] )  بھی


 

آپ کے مطیع تھے۔ چنانچہ شجرکا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سلام کر نا اور آپ کی رسالت پر شہادت دینا پہلے آچکا ہے۔سخت پتھر وں کا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے نرم ہو جانا اور صخرۂ بیت المقدس ([77] )کا خمیر کی مانند ہو نا اس کتاب میں آگے آئے گا۔

         حضرت علی([78] ) کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجَہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ میں نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ مکہ میں تھا ایک روز ہم اس کے بعض نواح میں نکلے جو پہاڑ یادرخت آپ کے سامنے آتا تھا وہ کہتا تھا:

’’   اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ‘‘([79] )

           حضرت ابو ذَر([80] )رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کابیان ہے کہ ایک روز میں دوپہر کے وقت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دولت خانہ پر حاضر ہوا نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتشریف فرمانہ تھے۔میں نے خادم سے دریافت کیا۔اس نے کہا کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا  کے گھر میں ہیں ۔میں وہاں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پہنچا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیٹھے ہو ئے تھے اور کوئی آدمی آپ کے پاس نہ تھا۔مجھے اس وقت یہ گمان ہوتا تھا کہ آپ وحی کی حالت میں ہیں ۔میں نے آپ کو سلام کیاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میرے سلام کا جواب دیاپھر فرمایا:تجھے کیا چیز یہاں لائی؟ میں نے عرض کیا: اللّٰہ اور رسول کی محبت۔ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جا۔ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پہلو میں بیٹھ گیانہ میں آپ سے کچھ پوچھتا تھا اور نہ آپ مجھ سے کچھ فرماتے تھے۔میں تھوڑی دیر ٹھہرا کہ اتنے میں حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جلدی جلدی چلتے ہوئے آئے انہوں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو سلام کیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا: تجھے کیا چیز یہاں لائی؟ حضرت ابو بکر  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا: اللّٰہ اور رسول کی محبت۔ آپ نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ بیٹھ جا۔وہ ایک بلند جگہ پر نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مقابل بیٹھ گئے۔ پھر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ


 

آئے۔انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی ویساہی فرمایا۔ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ پھر اسی طرح حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔اس کے بعد رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سات یا نو یا اس کے قریب سنگریزے لئے۔ان سنگریزوں نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مبارک ہاتھ میں تسبیح پڑھی یہاں تک کہ آپ کے ہاتھ میں ان میں شہدکی مکھی کی مانند آواز سنی گئی (پھر آپ نے ان کو زمین پر رکھ دیا اور وہ چپ ہو گئے ) پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ سنگریزے مجھے چھوڑ کر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیئے۔ان سنگریزوں نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں تسبیح پڑھی۔ (یہاں تک کہ میں نے شہد کی مکھی کی مانند ان کی آواز سنی )پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ کنکر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے لے کر زمین پرر کھ دیئے۔وہ چپ ہوگئے اور ویسے ہی سنگریزے بن گئے۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو دیئے۔ ان کے ہاتھ میں بھی انہوں نے تسبیح پڑھی جیسا کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ میں پڑھی تھی (یہاں تک کہ میں نے شہد کی مکھی کی مانند ان کی آواز سنی ) پھرآپ نے زمین پر رکھ دیئے وہ چپ ہو گئے۔پھر آپ نے حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیئے۔ان کے ہاتھ میں بھی انہوں نے تسبیح پڑھی جیسا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے ہاتھ میں پڑھی تھی ( یہاں تک کہ میں نے شہد کی مکھی کی مانند ان کی آواز سنی ) پھر آپ ([81] )نے لے کر ان کو زمین پر رکھ دیاوہ چپ ہو گئے۔ (پھر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ یہ نبوت([82] )کی خلافت ہے)([83] )  


 

          حضرت امام محمد([84] ) باقررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیمار ہو ئے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام ایک خوان لائے جس میں (بہشت کے ) انا ر اور انگور تھے۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تنا ول فرمانے کے لئے ان میں سے کچھ اٹھا یا تو اس میں سے سُبْحَانَ اللّٰہ کی آواز آئی۔([85] )

           یہ خارقِ عادت (تَسبِیُح الطَّعَام ) بہت دفعہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے بھی ظہور میں آیا ہے۔ چنانچہ ـحضرت عبداللّٰہ  بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ ہم البتہ  ([86] ) بے شک طعام کی تسبیح سنا کر تے تھے جس حال میں کہ وہ کھایا جا تا تھا۔‘‘([87] )

           حضرت ابو اَسید  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت([88] )ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عباس بن عبد المُطَّلِب سے فرمایا: اے ابوالفَضْل! رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کل تم اور تمہارے([89] )بیٹے اپنے مکان سے نہ جائیں یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آؤں کیونکہ مجھے تم سے ایک کام ہے انہوں نے آپ کا انتظار کیایہاں تک کہ آپ چاشت کے بعد تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا:

’’  اَ لسَّلامُ عَلَیْکُم‘‘

انہوں نے جواب دیا:

’’  وَعَلَـیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ ‘‘

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:تم نے کیونکر صبح کی؟ انہوں نے عرض کی:’’ بِحَمْدِ اللّٰہہم نے بخیر یت صبح کی۔‘‘ پس آپ نے ان سے فرمایا: نزدیک ہوجاؤ! وہ ایک دوسرے کے نزدیک ہوگئے یہاں تک کہ جب وہ آپ صَلَّی


 

 اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے متصل ہوگئے تو آپ نے اپنی چادر مبارک سے ان کو ڈھا نپ لیا اور یوں دعا فرمائی: ’’اے میرے پر ور دگار! یہ میرا چچا اور میرے باپ کا بھائی ہے اور یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کو دوزخ کی آگ سے یوں چھپا لینا جیسا کہ میں نے ا ن کو اپنی چادر میں چھپا لیا ہے۔‘‘ اس پر گھر کی چو کھٹ اور دیو اروں نے تین بار آمین کہی۔([90] )

           حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ([91] )ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہِ احد پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر وعمر وعثمان  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم تھے۔ وہ پہاڑ ہلاآپ نے اسے اپنے پائے مبارک سے ٹھو کر لگا کر فرمایا: تو ساکن رہ کیونکہ تجھ پر نبی اور صدیق اور شہید  ہیں ۔([92] )

          حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ([93] )ہے کہ رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوہِ ثَبِیْر پر تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکرو عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما تھے اور میں تھا۔ وہ پہاڑ ہلایہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے دامن کو ہ میں گر پڑے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پائے مبارک سے ٹھو کر لگا کر فرمایا: اے ثَبِیْر! ساکن رہ کیونکہ تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں ۔([94] )

           حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جس وقت نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابو بکر وعمر وعثمان و علی وطَلْحہ وزُبیر کو ہِ حراء پر تھے وہ پہاڑ ہلا۔ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اے حرائ! ساکن رہ کیونکہ تجھ پر نہیں ہیں ([95] )مگر نبی یا صدیق یاشہید۔ایک روایت میں سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا ذکر ہے اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کا ذکر نہیں اور ایک روایت میں سوائے ابو عُبیدہ کے تمام عشرۂ مبشرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم([96] )


 

 کا ذکر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ جب ہجرت کے وقت قریش نے جناب رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تلاش میں اپنے آدمی بھیجے تو کوہ ثَبِیْر نے کہا:یا رسول اللّٰہ! اتر ئیے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ وہ آپ کو میری پشت پر قتل کر دیں اور مجھے اللّٰہ  تعالٰی عذاب دے پس حراء نے کہا: یا رسول اللّٰہ! میری طرف آئیے۔([97] )

           حضرت جابر([98] )  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جس وقت نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خطبہ پڑھا کر تے تھے مسجد کے ستو نوں میں سے ایک درخت خرماکے خشک تنے سے پشت مبارک لگا لیا کرتے تھے۔ جب آپ کے لئے منبر بنایا گیا اور آپ اس پر رونق افروز ہوئے تو اس تنے نے جس کے پاس خطبہ پڑھاجایاکر تا تھا فریاد کی قریب تھا کہ وہ پارہ پارہ ہو جائے۔ پس نبی صَلَّی الللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم منبر سے اتر آئے ([99] )  یہاں تک کہ اس نے آرام وقرار پایا۔ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ یہ اس لئے رویا کہ جو ذکر یہ سنا کر تا تھا وہ اب اس سے جدا ہو گیا۔ ([100] ) اس ستون کو نا لہ کر نے کے سبب حنانہ بو لتے ہیں ۔ نالۂ حنانہ کی حدیث متواتر ہے اس لئے اس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ۔

           فتح مکہ کے روز حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہلے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور مہاجرین وانصار آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں تھے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے پہلے حجر اسود کو بو سہ دیاپھر طواف کیا۔ اس وقت بیت اللّٰہ  شریف کے گر داور اوپر تین سو ساٹھ بت تھے جو رانگ کے ساتھ پتھر وں میں نصب کیے ہوئے تھے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی اس سے آپ جس بت کی طرف اشارہ فرماتے اور یہ پڑھتے :


 

جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(۸۱) (بنی اسرائیل،ع ۹) 

آیا سچ اور نکل بھاگا جھوٹ بیشک جھوٹ نکل بھاگنے والا ہے۔ ([101] )

 وہ منہ کے بل گر پڑتا۔ اس طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیت اللّٰہ  شریف کو بتوں سے پاک کر دیا۔

           بدر کے دن جب لڑائی سخت ہو گئی تو حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے سنگر یزوں کی ایک مٹھی لی اور قریش کی طرف منہ کر کے فرمایا :’’ شَاھَتِ الْوُجُوْہ ‘‘(ان کے چہر ے بد شکل ہو گئے) پھر ان کی طرف پھینک دی،کفار کو شکست ہو ئی۔اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی :

وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰىۚ- (انفال،ع۲)   

اور نہیں پھینکا تو نے جس وقت کہ پھینکا تو نے لیکن اللّٰہ  تعالٰی نے پھینکا۔([102] )

          اسی طرح حنین کے دن جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ صرف چند صحابہ رہ گئے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے خچر سے اتر کر ایک مشت خاک لی اور  شَاھَتِ الْوُجُوْہ کہہ کر کفار کی طرف پھینک دی۔ کوئی کا فر([103] )  ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ مٹی نہ پڑی ہو۔پس وہ شکست کھا کر بھاگ گئے۔([104] )

مغیبات پر مطلع ہونا

          حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معجزات میں سے آپ کا مغیبات پر مطلع ہو نا اور غیوب ماضیہ اور مستقبلہ کی خبر دینا بھی ہے۔ ([105] )علم غیب بالذات اللّٰہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے جو کچھ اس قبیل سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زبان مبارک سے ظاہر ہوا وہ اللّٰہ تعالٰی کی وحی واِلہام سے ہوا جیسا ([106] )کہ آیاتِ ذیل سے ظاہر ہے۔


{1}

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (بقرہ،ع۱۷)

اور اسی طرح ہم نے تم کو بہتر امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہوا وررسول تم پر گواہ ہو۔([107] )

{2}

 ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَؕ- (آل عمر ان،ع۵)

یہ غیب کی خبر وں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں ۔([108] )

{3}

وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ   ۪-  (آل عمران،ع۱۸)

نہیں ہے اللّٰہ  کہ خبر دار کرے تم کو غیب پرلیکن اللّٰہپسند کر تا ہے اپنے پیغمبر وں میں سے جس کو چاہے۔([109] )

{4}

وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳) (نساء،ع۱۷)

اور خدا نے اتا ری تجھ پر کتاب اور حکمت اور سکھایا تجھ کو جو کچھ کہ تو نہ جانتا تھا اور اللّٰہ کا فضل تجھ پر بڑا ہے۔([110] )

{5}

تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهَاۤ اِلَیْكَۚ-مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا ﳍ (ہود،ع۴)

 یہ بعض خبر یں ہیں غیب کی جن کو ہم تیری طرف وحی کر تے ہیں ان کو جانتا نہ تھا تو اور نہ تیری قوم اس سے پہلے۔([111] )


{6}

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَۚ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْۤا اَمْرَهُمْ وَ هُمْ یَمْكُرُوْنَ(۱۰۲) (یوسف،ع۱۱)

 یہ غیب کی خبر وں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں اور توان کے پاس نہ تھاجس وقت انہوں نے اپنا کام مقرر کیا اور وہ مکر کر تے تھے۔ ([112])

{7}

فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىؕ(۱۰) (نجم، ع۱)

پس اللّٰہ نے وحی پہنچا ئی اپنے بندے کی طرف جو پہنچائی۔([113] )

{8}

عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ (جن، ع۲)

وہ غیب کا جاننے والاپس مطلع نہیں کرتا اپنے غیب پر کسی کو مگر وہ پیغمبر جس کو اس نے پسند کر لیا۔([114] )

            اس مضمون کی اور آیتیں بھی ہیں ۔ان سب کی تفسیر کے لئے ایک علیحد ہ کتاب در کار ہے یہاں صرف آیت {1} کے حصہ اخیر کی نسبت کچھ ذکر کیا جاتا ہے۔ علامہ اسمٰعیل حقی قُدِّسَ سِرُّہٗاپنی تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں بعض اَربابِ حقیقت کا قول یوں نقل فرماتے ہیں :

          و معنی شھادۃ الرّسول علیھم اطلاعہ علٰی رتبۃ کل متدین بدینہ و حقیقتہ  الّتی ھو علیھا من دینہ وحجابہ الّذی ھو بہ محجوب عن کمال دینہ فھو یعرف  ذنوبھم و حقیقۃ ایمانھم و اعمالھم و حسناتھم وسیاتھم و اخلاصھم و نفاقھم و غیر ذلک بنور الحق ۔

            ان پر رسول کے گواہ ہو نے کے معنی یہ ہیں کہ حضور مطلع ہیں ا پنے دین کے ہر متدین ([115] )کے رتبے پر اور اس کے ایمان کی


 

حقیقت پر اور اس حجاب پر کہ جس کے سبب سے وہ کمال دین سے محجوب ہے۔پس حضور ان کے گناہوں کو اور ان کے ایمان کی حقیقت کو اور ان کے اعمال کو اور ان کی نیکیوں اور برائیوں کو اور ان کے اخلاص ونفاق وغیرہ کو نو ر نبوت سے پہچا نتے ہیں ۔([116] )

          اسی طرح مولیٰنا شاہ عبد العزیز  قُدِّسَ سِرُّہٗ ’’تفسیر عزیز ی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :  وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- ([117] )یعنی وباشدر سول شمابر شماگواہ۔زیراکہ اومطلع است بنورنبوت بر رتبۂ ہر متدین بدین خود کہ درکدام در جہ ازدین من رسیدہ وحقیقت ایمان او چیست وحجاب کہ بداں از ترقی محجوب ماندہ است کدام است۔پس اومے شنا سد گناہان شمار ا و درجات ایمان شمار اواعمالِ نیک وبد شمار اواخلاص ونفاق شمارا۔ ‘‘

           حالت خواب([118] )میں بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنی امت کے حالات سے آگاہ رہا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قُدِّسَ سِرُّہٗ مُلَّاحَسَن کشمیر ی کو یوں تحریر فرماتے ہیں : حدیث  تنام عینای و لا ینام قلبیکہ تحریر یافتہ بود اشارت بدوام آگا ہی نیست بلکہ اخبار است از عد م غفلت از جریان احوال خویش وامت خویش۔([119] )   

          عالم برزخ میں بھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنی امت کے احوال سے آگاہ رہتے ہیں ۔ چنانچہ علامہ قسطلانی آدابِ زِیارَت میں یوں تحریر فرماتے ہیں :

          و ینبغی ان یقف عند محاذاۃ اربعۃ اذرع و یلازم الادب و الخشوع و التواضع غاض البصر فی مقام الھیبۃ کما کان یفعل  فی حال حیاتہٖ اذ لا فرق بین موتہٖ و حیاتہ فی مشاہدتہ لامتہ و معرفتہ باحوالھم و نیاتھم وعزائمھم وخواطرھم ذلک عندہ جلی لاخفاء بہ فان قلت ھذہ الصفات مختصۃ باللّٰہ تعالٰی فالجواب ان من انتقل الٰی عالم البرزخ من المؤمنین یعلم احوال الاحیاء غالباً وقد وقع کثیر من ذلک کما ہو مسطور فی مظنۃ ذلک من الکتب و قد روی ابن المبارک عن سعید بن المسیب: لیس من  یوم الا و تعرض


 

 علی النّبی صلی اللّٰہ  تعالی علیہ والہ وسلم اعمال امتہ غدوۃً وعشیۃً فیعرفھم بسیماھم واعمالھم فلذلک یشھد علیھم۔(مواہب لدنیہ) ([120] )

          چاہیے کہ زیارت کر نے والا قبر شریف سے چار ہاتھ پر سامنے کھڑا ہووے، اور ادب و خشوع و تواضع کو لازم پکڑے اور مقام ہیبت میں آنکھیں بند کرے جیسا کہ حضور کی حیات شریف کی حالت میں کیا جاتا تھا کیونکہ اپنی امت کے مشاہدے اور ان کے احوال ونیات وعزائم و خواطرکی معرفت میں  ([121] )حضور کی موت وحیات یکساں ہے اور یہ آپ کے نزدیک ظاہر ہے اس میں کوئی پو شید گی نہیں ۔ اگر اعتراض کیا جائے کہ یہ صفات تو اللّٰہ تعالٰی سے مختص ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ (کامل) مومنوں میں سے جو شخص عالم برزخ میں چلا جاتا ہے وہ زندوں کے حالات غالباً جانتا ہے۔ایسا بہت وقوع میں آیا ہے جیسا کہ اس کے متعلق کتابوں میں مذکور ہے۔حضرت عبد اللّٰہ بن مبارک نے بروایت سعید بن مسیب نقل کیا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ صبح وشام امت کے اعمال آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر پیش نہ کیے جاتے ہوں ۔ لہٰذا آپ ان اعمال کو اور خود ان کو ان کے چہرے سے پہچا نتے ہیں ۔اسی واسطے آپ ان پر گواہی دیں گے۔

          مواہب لدنیہ کی طرح  مَدخل ابن حاج میں بھی زیارتِ سید الاوّلین والآخرین میں یہی مضمون مذکور ہے اور یہ بھی لکھا ہے:

          فاذا زارہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ و الہ و سلم فان قدر ان لا یجلس فھو بہ اولٰی فان عجز فلہ ان یجلس بالادب والاحترام والتعظیم، و قد لا یحتاج الزائر فی طلب حوائجہ و مغفرۃ ذنوبہ ان یذکرھا بلسانہ ، بل یحضر ذلک فی قلبہ و ھو حاضر بین یدیہ صلی اللّٰہ  تعالی علیہ و الہ و سلم لانہ علیہ الصَّلٰوۃ و السلام اعلم منہ بحوائجہ ومصالحہ وارحم بہ منہ لنفسہ واشفق علیہ من اقاربہ۔ وقد قال علیہ الصلٰوۃ و السلام: ‘’انما مثلی و مثلکم کمثل الفراش تقعون فی النار و انا اخذ بحجزکم عنھا ‘‘ اوکما قال و ھٰذا فی حقہ صلی اللّٰہ  تعالی علیہ و الہ و سلم فی کل وقت و اوان اعنی فی التوسل بہ و طلب الحوائج بجاھہ عند ربہ عز و جل و من لم یقدر لہ زیارتہ صلی اللّٰہ  تعالی علیہ والہ وسلم بجسمہ فلینوھا کل وقت بقلبہ ، و لیحضر


 

 قلبہ انہ حاضر بین یدیہ متشفعا الٰی من منّ بہ علیہ ۔ (مدخل لابن الحاج، جزء اول، زیارت سید الاولین والاٰخرین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہ وسلم )

            جس وقت زائر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کرے اگر وہ طاقت رکھتا ہو کہ نہ بیٹھے تو اس کے لئے نہ بیٹھنا اَولیٰ ہے۔اگر وہ کھڑا ر ہنے سے عاجز ہو تو اسے ادب واحترام اور تعظیم سے بیٹھنا جائز ہے۔زائر کے لئے اپنی حاجتیں اور گناہوں کی معافی طلب کر نے میں یہ ضروری نہیں کہ ان کو اپنی زبان سے ذکر کرے بلکہ ان کو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حضور میں دل میں حاضر کرلے کیونکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  کو زائر کی حاجات و ضروریات کا علم خود زائر سے زیادہ ہے، اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس پر خود اس کی نسبت زیادہ رحم والے اور اس کے اقارب سے زیادہ شفقت والے ہیں ۔ چنانچہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا ہے:’’میرا حال اور تمہارا حال پروانوں کے حال کی طرح ہے کہ تم آگ میں گر تے ہو اور میں تم کو کمرسے پکڑ کر آگ سے بچا نے والا ہوں ۔‘‘ اور یہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حق میں ہر وقت اور ہر لحظہ میں ہے یعنی حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم  سے توسل کرنے میں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے جاہ کے وسیلہ سے حاجتیں مانگنے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے، اور جس شخص کے لئے بذات خود آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کا مقدورنہ ہو اُ سے چاہیے کہ ہر وقت اپنے دل میں زیارت کی نیت کرے اور یہ سمجھے کہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سامنے حاضر ہوں اور حضور کو بار گاہ الٰہی میں شفیع لارہا ہوں جس نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بھیج کر مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔([122] )

           علامہ سیو طی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عالم بر زخ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَشغال میں یوں تحریر فرماتے ہیں :

            النظر فی اعمال امتہ و الاستغفار لھم من السیّات و الدعاء بکشف البلاء عنھم و التردد فی اقطار الارض لحلول البرکۃ  فیھا و حضور جنازۃ من مات من صالحی امتہ فان ھذہ الامور من جملۃ اشغالہ فی البرزخ کما وردت بذلک الاحادیث و الاثار۔([123] )


 

          اپنی امت کے اعمال کو دیکھنا اور ان کے گناہوں کی بخشش طلب کر نا اور ان سے بلا دور کر نے کی دعا کر نا اور اقطار زمین میں حلول بر کت کے لئے تشریف لے جانا، اپنی امت کے صالحین میں سے کسی کے جنازے میں حاضر ہونابیشک یہ امور برزخ میں حضور کے اَشغال میں سے ہیں جیسا کہ احادیث وآثار میں وار دہے۔

          اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو علم   ما کان و ما یکون عطا فرمایا، چنانچہ صحیح([124] ) بخاری ومسلم میں حضرت حذیفہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ہم میں (وعظ کے لئے ) کھڑے ہوئے۔ اس میں آپ نے جو کچھ قیامت تک واقع ہونے والا ہے سب بیان فرمادیااسے یاد رکھا جس نے یاد رکھا اور بھلا دیا جس نے بھلا دیا۔اس واقعہ کا میرے یاروں کو بھی علم ہے جو کچھ آپ نے خبر دی اس میں سے ایسی چیز واقع ہو تی ہے جس کو میں بھول گیا ہوں جب اس کو دیکھتا ہوں تو یاد کر لیتا ہوں جس طرح ایک شخص دوسرے شخص کا چہرہ (بطریق اجمال) یاد رکھتا ہے، جب کہ وہ غائب ہو جاتا ہے پھرجب اس کو دیکھتا ہے تو اسے (بہ تفصیل و تشخیص) پہچان لیتا ہے۔([125] )

           حضرت ابو زید ([126] ) رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ہمیں نماز فجر پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں وعظ فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا آپ منبر سے اتر آئے اورنماز پڑھی پھر منبرپر رونق افروز ہوئے اور ہمیں وعظ فرمایا یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیاپھر آپ اتر آئے اور نماز پڑھی پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں وعظ فرمایایہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ہم کو جو کچھ واقع ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے سب کی خبر دی۔ہم میں سے جو زیادہ یاد رکھنے والا ہے وہ زیادہ عالم ہے۔([127] )

           حضرت ثوبان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللّٰہنے میرے لئے زمین کو لپیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا اور قریب ہے کہ میری امت کی


 

 سلطنت ان تمام مقامات پر پہنچے اور مجھے دو خزانے سرخ وسفید دیئے گئے۔ الحدیث ([128] )

           صحیح بخاری و مسلم میں حضرت اُسامہ بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  مدینہ کے قلعوں میں سے ایک پر کھڑے ہوئے۔ پھر فرمایا: کیا تم دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں ! آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں کے بیچ بارش کی طرح گر رہے ہیں ۔ ([129] )

           حضرت عبد الرحمن بن عائش رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں نے اپنے پر ور دگار کو نہایت اچھی صورت میں دیکھا۔ اس نے پوچھا کہ فرشتے کس چیز میں جھگڑرہے ہیں ؟ میں نے عرض کیا: تو زیادہ دانا ہے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: پس پروردگار نے اپنا ہاتھ میرے دو شانوں کے درمیان رکھامیں نے اس ہاتھ کی ٹھنڈک اپنے دو پستانوں کے درمیان پائی اور جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا ([130] ) اور آنحضرت نے یہ آیت پڑھی :

وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ(۷۵)

اور اسی طرح ہم دکھا نے لگے ابراہیم کو سلطنت آسمان اور زمین کی تاکہ اس کو یقین آوے۔ ([131] )

          اس حدیث کو دارمی نے بطریق ارسال روایت کیا ہے ،اسی کی مانند ترمذی میں ہے۔ ([132] )

           حضرت عبد اللّٰہ بن عمر وبن العاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


 

 (اپنے دولت خانہ سے) نکلے اور آپ کے دونوں ہاتھوں میں دوکتابیں تھیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ دوکتابیں کیسی ہیں ؟ ہم نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مگر یہ کہ آپ ہمیں بتا دیں ۔ جو آپ کے دائیں ہاتھ میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے اس میں بہشتیوں کے نام اور ان کے آباء و قبائل کے نام ہیں پھر اخیر میں ان کا مجموعہ دیا گیا ہے، ان میں نہ کبھی زیادتی ہوگی اور نہ کمی ہو گی۔ پھر جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بائیں ہاتھ میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ایک کتاب ہے اس میں دوزخیوں کے نام ہیں پھر اخیر میں مجموعہ دیا گیا ہے۔ان میں کبھی نہ زیادتی ہوگی اور نہ کمی ہو گی۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اگر اس امر سے فراغت ہو چکی تو عمل کس واسطے ہے؟ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اپنے عملوں کو درست کرو اور قرب الٰہی ڈھونڈو کیونکہ جو بِہِشْتِی ہے اس کا خاتمہ بِہِشْتِیوں کے عمل پر ہو گا خواہ وہ عمر بھر کیسا ہی عمل کر تا رہے اور جو دوزخی ہے اس کا خاتمہ دوز خیوں کے عمل پر ہو گا خواہ وہ عمر بھر کیسا ہی عمل کر تا رہے۔ پھر رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا اور ان دو کتابوں کو پس پشت ڈال دیا۔ پھر فرمایا: اللّٰہ تعالٰی اپنے بندوں سے فارغ ہوگیا ہے ایک گر وہ بِہِشْت میں اور ایک گر وہ دوزخ میں ۔ اس حدیث کو تر مذی نے روایت کیا ہے۔([133] )

          امام اَحمد و طبرانی نے بر وایت ابوذَر نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس سے آئے اس حال میں کہ آسمان میں پرندہ جو اپنا بازو ہلاتا ہے اس کے متعلق بھی اپنے علم کا آپ نے ہم سے ذکر فرمادیا۔ ([134] )

           طبرانی میں بروایت ابن عمر مروی ہے کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: اللّٰہ تعالٰی نے میرے سامنے رکھا دنیا کو میں دنیاکی طرف اور اس میں قیامت تک ہو نے والے حوادِث کی طرف یوں دیکھتا تھاجیسے


 

 اپنے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔  ([135] )

           طبرانی میں حضرت حذیفہ بن اَسید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ کل رات اس حجر ہ کے پاس میری امت اول سے آخر تک مجھ پر پیش کی گئی۔آپ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللّٰہ ! پیش کیے گئے آپ پر وہ جو پیدا ہوچکے ہیں کیونکہ وہ موجود ہیں مگر وہ کیونکر پیش کیے گئے جو پیدا نہیں ہو ئے؟ آ پ نے فرمایا کہ میرے لئے آب وگل میں([136] ) ان کی صورتیں بنا ئی گئیں یہاں تک کہ میں ان میں سے ہر ایک کو اس سے بھی زیادہ پہچانتا ہوں جتنا کہ تم اپنے ساتھی کو پہچا نتے ہو۔([137] )

           مسند فردوس میں ہے کہ میرے لئے آب وگل میں میری امت کی شکل بنا ئی گئی اور مجھے تمام اَسماء کا علم حضرت آدم کی طرح دیا گیا۔([138] )

           جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے تو اِنس وجن ومَلک میں سے کس کو یارا ہے کہ اس کااحاطہ کر سکے لہٰذا یہاں جو کچھ بیان ہو تا ہے اسے سَمُنْدَر میں سے ایک قطرہ تصور کر نا چاہیے۔

           صاحب قصیدہ بر دہ شریف یوں فرماتے ہیں :

فَاِنَّ  مِنْ جُوْدِکَ  الدُّ نْیَا  وَ ضَرَّتَھَا                                           وَ مِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَ الْقَلَمِ([139] )

          کیونکہ دنیا اور آخرت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بخشش سے ہے اور لوح وقلم کا علم آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی


 

عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علوم میں سے ہے۔

           اس بیت ([140] )کی شرح میں مُلا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْبَارِی زُبْدَ ہ شرح بُرْدَ ہ میں یوں فرماتے ہیں : ’’توضیحہ ان المراد بعلم اللوح ما اثبت فیہ من النقوش القدسیۃ والصور الغیبیۃ وبعلم القلم ما اثبت فیہ کما شاء و الاضافۃ لادنی ملابسۃ وکون علمھا من علومہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلم لان علومہ تتنوع الی الکلیات والجزئیات وحقائق ودقائق وعوارف ومعارف تتعلق بالذات والصفات وعلمھما انما یکون سطراً من سطور علمہ ونھرًا من بحور علمہ ثم مع ھذا ھو من برکۃ وجودہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلم’‘   

          تو ضیح اس کی یہ ہے کہ لوح کے علم سے مر اد نقوش قدسیہ اور صورغیبیہ ہیں جو اس میں منقوش ہیں ، اور علم قلم سے مراد وہ ہے جو اللّٰہ نے جس طرح چاہا اس میں ودیعت رکھا۔ان دونوں کی طرف علم کی اضافت ادنیٰ علاقہ کے باعث ہے اور ان دونوں کا علم آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علوم کا ایک جزوہے اس لئے کہ حضرت کے علم کئی قسم کے ہیں علم کلیا ت، علم جزئیات، علم حقائق اشیائ، علم اسرار اور وہ علوم ومعارف جو ذات وصفات باری تعالٰی سے متعلق ہیں اور لوح وقلم کے علوم تو علوم محمدیہ کی سطروں میں سے ایک سطر اور ان کے دریاؤں میں سے ایک نہر ہیں بایں ہمہ علم لوح وقلم آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی کے وجود کی برکت سے ہے۔ (کہ اگر حضور نہ ہو تے تو نہ لوح وقلم ہو تے نہ ان کا علم )

اس بیت کی شرح میں شیخ ابراہیم باجوری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یوں لکھتے ہیں :

          استشکل جعل علم اللوح والقلم بعض علومہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلمبان من جملۃ علم اللوح والقلم الامور الخمسۃ المذکورۃ فی اخر سورۃ لقمان مع ان النبی علیہ الصلٰوۃ والسلام لا یعلمھا لان اللّٰہ قد استاثر بعلمھا فلا یتم التبعیض المذکور واجیب بعدم تسلیم ان ھذہ الامور الخمسۃ مما کتب القلم فی اللوح والا لاطلع علیہ من شانہ ان یطلع علی اللوح کبعض الملائکۃ المقربین وعلی تسلیم انھا مما کتب القلم فی اللوح فالمراد ان بعض علومہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلمعلم اللو ح والقلم الذی یطلع علیہ المخلوق فخرجت ھذہ الامور الخمسۃ۔ علی انہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ والہ وسلملم یخرج من الدنیا الا بعد ان اعلم اللّٰہ تعالٰی بہذہ الامور۔ فان قیل اذاکان علم اللوح والقلم بعض علومہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ


 

والہ وسلمفما البعض الاٰخر اجیب بان البعض الاٰخر ھو ما اخبرہ اللّٰہ عنہ من احوال الاٰخرۃ لان القلم انما کتب فی اللوح ما ھو کائن الٰی یوم القیامۃ۔

          ناظم نے علم لوح وقلم کو حضرت کے علوم کا ایک جزء قرار دیا ہے اس میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ امور خمسہ جو آخر سورۂ لقمان میں مذکور ہیں علم لوح وقلم میں سے ہیں حالانکہ حضرت ان کو نہیں جانتے کیونکہ ان کا علم اللّٰہ تعالٰی نے اپنے لئے خاص کرلیا ہے لہٰذا جزئیت مذکورہ درست نہیں رہتی۔اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہم یہ تسلیم نہیں کر تے کہ امور خمسہ مذکورہ قلم نے لوح محفوظ میں لکھے ہیں اگر ایساہو تا تو بعض مقرب فرشتے جن کی شان یہ ہے کہ وہ لوح پر مطلع ہوتے ہیں ان امور پر مطلع ہوتے۔ اگر ہم تسلیم کرلیں کہ امور خمسہ کو قلم نے لوح میں لکھا ہے تواس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت کے علوم کا جزء وہ علم لوح و قلم ہے جس پر مخلوق مطلع ہے پس یہ امور خمسہ نکل گئے۔ علاوہ ازیں حضرت اس دنیا سے تشریف نہیں لے گئے مگر بعد اس کے کہ اللّٰہ  تعالٰی نے آپ کو ان امور کا علم دے دیا۔ اگریہ کہا جائے کہ جب علم لوح و قلم حضرت کے علوم کا ایک جزء ٹھہرا تو دوسرا جزء کونسا ہے؟ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ دوسرا جزء وہ اَحوالِ آخرت ہیں جن کی اللّٰہ تعالٰی نے حضرت کو خبر دی ہے کیونکہ قلم نے تو لوح میں فقط وہ لکھا ہے جو روز قیامت تک ہو نے والاہے۔

          علامہ شیخ محی الدین محمد بن مصطفی معروف بہ شیخ زادہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جنہوں نے ’’تفسیر بیضاوی‘‘ پر حاشیہ لکھا ہے اسی بیت کی شرح میں لکھتے ہیں :  ’’والعلم فی ھذا البیت اما بمعناہ او بمعنی المعلوم ای معلوماتک المعلومات الحاصلۃ منھما ولعل اللّٰہ اطلعہ علٰی جمیع ما فی اللوح وزادہ ایضاً لان اللوح والقلم متناھیان فما فیھما متناہ ویجوز احاطۃ  المتنا ھی با لمتناھی ھذا علی قدر فھمک اما من اکتحلت عین بصیرتہ بالنور الاِلٰھی فیشاھد بالذوق ان علم اللوح والقلم جزء من علومہ کما ھی جزء من علم اللّٰہ سبحانہ لانہ علیہ السلام عند الانسلاخ من البشریۃ کما لا یسمع ولا یبصر ولا یبطش ولا ینطق الا بہ جلت قدرتہ و عمت نعمتہ کذلک لا یعلم الا بعلمہ الذی لا یحیطون بشیء منہ الا بما شاء کما اشار الیہ بقولہ: ([141] )

‘’ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-’‘([142] )


 

          اس بیت میں علم یا تو اپنے معنی میں ہے یا معلوم کے معنی میں ہے یعنی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معلومات وہ معلومات ہیں جو دونوں سے حاصل ہوئے ہیں اور شاید اللّٰہ نے حضرت کو اس تمام پر مطلع کردیا ہے جو لوح میں ہے اور اس سے زیادہ کا بھی علم دیا ہے چونکہ لو ح وقلم متنا ہی ہیں ۔پس جو کچھ ان دونوں میں ہے وہ متناہی ہے اور متنا ہی کا احاطہ متنا ہی سے جائز ہے۔اس قدربات تیری سمجھ کے مطابق ہے۔ لیکن وہ شخص جس کی بصیرت کی آنکھ میں نورالٰہی کا سر مہ پڑا ہو ا ہے وہ ذوق سے مشاہدہ کر تا ہے کہ علوم لوح وقلم حضرت کے علوم کا جزء ہیں جیسا کہ اللّٰہ  سبحانہ کے علم کا جزء ہیں کیونکہ حضور عَلَیْہِ السَّلام بشریت سے انسلاخ کے وقت جیسا کہ نہیں سنتے، نہیں دیکھتے، نہیں پکڑتے اور نہیں بو لتے مگر ساتھ اللّٰہ کے اسی طرح حضور نہیں جانتے مگر ساتھ اس علم خدا کے جس میں سے کسی چیز کو نہیں گھیر تے ملائک و انبیا ء وغیرہ مگر جو وہ چاہے۔ جیسا کہ اس نے اپنے ارشاد: (وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکْنْ تَعْلَمُ) میں اسکی طرف اشارہ کیا ہے۔

          بیان بالاسے یہ نہ سمجھا جا ئے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا علم اللّٰہ تعالٰی کے علم کے مساوی ہے کیونکہ دونوں میں بلحاظ کیفیت وکمیت بڑا فرق ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کا علم بغیر ذرائع ووسائل، ذاتی، قدیم۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا علم عطائی، حادث ہے۔ اسی طرح کمیت میں بھی فرق بین ہے کیونکہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کا علم اللّٰہ تعالٰی کے علم سے وہ نسبت بھی نہیں رکھتا جو قطرے کو سمندر سے ہوتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری (تفسیر کہف) میں قصہ حضرت موسیٰ وحضرت خضر عَلَیْہِمَا السَّلام میں ہے:’’ قال و جاء عصفور فوقع علی حرف السفینۃ فنقر فی البحر نقرۃ فقال لہ الخضر ما علمی و علمک من علم اللّٰہ الا مثل ما نقص ھذا العصفور من ھذا البحر۔([143] )

          فرمایا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کہ ایک چڑ یا کشتی کے کنارے پر آکر بیٹھی اس نے اپنی   چونچ سَمُنْدَر میں ڈُبو ئی۔ حضرت خضر عَلَیْہِ السَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا کہ میرا علم اور آپ کا علم اللّٰہ  تعالٰی کے علم کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں جتنا (پانی ) اس چڑیا نے سَمُنْدَر میں سے اپنی چو نچ میں لے لیا۔

           شیخ اسمٰعیل حقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں آیہ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا


 

 شَآءَۚ- ([144] )کے تحت میں یوں لکھتے ہیں :

          قال شیخنا العلامۃ ابقاہ اللّٰہ بالسلامۃ فی الرسالۃ الرحمانیۃ فی بیان الکلمۃ الفرقانیۃ : علم الاولیاء من علم الانبیاء بمنزلۃ قطرۃ من سبعۃ ابحر وعلم الانبیاء من علم نبینا محمد علیہ الصلٰوۃ والسلام بھذہ المنزلۃ وعلم نبینا من علم الحق سبحانہ بھذہ المنزلۃ ۔([145] )

            ہمارے استادعلامہ نے، اللّٰہ ان کو سلامت رکھے، ‘’ الرسالۃ الرحمانیہ فی بیان الکلمۃ العرفانیہ  ‘‘ میں فرمایا کہ اولیاء کا علم انبیاء کے علم کے مقابلہ میں بمنز لہ ایک قطرہ کے ہے سات سمندروں میں سے اور انبیا ء کا علم ہمارے نبی محمد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے علم کے ساتھ یہی نسبت رکھتا ہے اور ہمارے نبی کا علم حق سبحانہ کے علم کے ساتھ یہی نسبت رکھتا ہے۔

          صاحب قصیدہ بر دہ شریف فرماتے ہیں :

وَ  کُلُّھُمْ  مِّنْ   رَّسُوْلِ  اللّٰہِ  مُلْتَمِسٌ                                       غَرْفًا مِّنَ الْبَحْرِ اَوْ رَشْفًا مِنَ الدِّیَمٖ

وَ   وَاقِفُوْنَ    لَدَیْہِ    عِنْدَ    حَدِّھِمٖ                                                                 مِنْ نُّقْطَۃِ الْعِلْمِ اَوْ مِنْ شَکْلَۃِ الْحِکَمٖ([146] )

ترجمہ منظوم

ہیں رسول اللّٰہ کے فیضان سے سیر اب سب

وہ کسی کے حق میں شبنم ہیں کسی کے حق میں یم

اس کی پیشی میں کھڑے ہیں اپنی اپنی حد پہ سب

ہے کوئی تو نقطہ علم کوئی اعراب حکم

          ان شعروں کی تشریح ومطلب یہ ہے کہ اللّٰہ  تعالٰی نے سب سے پہلے سید نا محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کی رُوحِ پاک کو پیدا کیا پھر اسے خِلْعَتِ نبوت سے سر فراز فرمایا وہ رُوحِ پاک عالم اَرواح میں دیگر انبیا عَلَیْہِمُ السَّلام


 

 کی روحوں کو تعلیم دیا کرتی تھی ہر ایک رُوح نے حسب قابلیت واِستِعد اد حضور عَلَیْہِ الصلٰوۃُ السَّلام  کی رُوح سے اِستفادۂ      علم کیا۔کسی نے حضور کے علم کے ’’بحر زَخار‘‘ سے بقدر ایک چلو کے لیا اور کسی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فیضان کی لگا تار بارشوں سے بقدر ایک قطرہ یا گھونٹ کے لیا۔’’علوم ومعارِف‘‘ جو انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی روحِ اَقدس سے حاصل کئے ان کی غایت ونہایت ([147] ) حضور کے علم کے دفتر کا فقط ایک نقطہ یا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے معارف کے دفتر کا محض ایک اعراب ہے۔

           جو شخص حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم غیب کا مطلقاً انکا ر کر تا ہے اسے آیۂ ذیل اور اس کا شانِ نزول مطا لعہ کر نا چاہیے:

وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(۶۵)لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْؕ- (توبہ،ع۸)

اور البتہ اگر تو ان سے پو چھے تو البتہ وہ کہیں گے سوائے اسکے نہیں کہ ہم بول چال کر تے تھے اور کھیلتے تھے تو کہہ دے کیا تم اللّٰہ سے اور اسکے کلام اور اسکے رسول سے ٹھٹھا کرتے ہو بہانے مت بناؤ تحقیق تم اپنے ایمان کے بعد کا فر ہو گئے۔([148] )

           علامہ جلال الدین سُیُو طی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  تفسیر ’’دُرِّ منثور‘‘ ( جزء ثالث، ص۲۵۴ ) میں فرماتے ہیں کہ ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر اور ابن ابی حاتم وابو الشیخ نقل کرتے ہیں کہ امام مجاہد نے اللّٰہ تعالٰی کے قول: وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-کاشان نزول یہ بیان کیا ہے:

          قال رجل من المنافقین یحدثنا محمد ان ناقۃ فلان بواد کذا وکذا فی یوم کذا وکذا وما یدریہ  الغیب([149] ) منافقین میں سے ایک شخص نے کہا کہ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) ہمیں بتاتے ہیں کہ فلاں شخص کی اونٹنی فلاں دن فلاں وادی میں تھی وہ غیب کیا جانیں ۔


 

           مطلب یہ کہ ایک شخص کی اونٹنی گم ہو گئی تھی آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ وہ فلاں وادی میں ہے۔ ایک منافق بولا: وہ غیب کی خبر یں کیا جانیں ، اس پر اللّٰہ  تعالٰی نے فرمایا کہ منافقین جو بطریق استہزاء کہتے ہیں کہ حضرت غیب کی خبر کیا جانیں اور اس کے لئے بہانے بنا تے ہیں ، ان سے کہہ دیجئے کہ اس استہزاء کے سبب تم کا فر ہو گئے۔یہ قصہ غز وۂ تبو ک میں پیش آیا تھاجسے ہم بروایت ابن اسحاق و واقدی پہلے نقل کر آئے ہیں ۔

          ’’ اخباربالمغیبات‘‘([150] ) کی دو قسمیں ہیں : ایک تو وہ جو قرآن مجید میں مذ کور ہیں ،دوسرے وہ جو احادیث میں وارد ہیں ۔  قسم اوَّل کا ذکر اعجاز القرآن میں ہو چکا، قسم دُوُم کی چند اور مثالیں یہ ہیں :

           کفار پر اپنی امت کے غلبہ کی خبر دینا۔حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو یمن کی طرف روانہ کر تے وقت فرمادینا کہ اس سال کے بعد تو مجھے نہ پا ئے گا۔ حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو راستے کے امن کی خبر دینا اور فرمادینا کہ اگر تیری زندگی دراز ہوئی تو دیکھ لے گا کہ ایک عورت حِیْرَہ سے تنہاسفرکر کے خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا۔ صحیفہء قریش جسے انہوں نے بحفاظت تمام خانہ کعبہ کی چھت میں رکھا تھا اس کی نسبت تین سال کے بعد بتا دینا کہ اللّٰہکے نام کے سوا باقی کو دیمک چاٹ گئی ہے۔ حضرت فاطمۃالز ہر اکی نسبت فرمانا کہ اہل بیت میں سے میری وفات کے بعد وہ سب سے پہلے میرے پاس پہنچے گی۔ ام المومنین حضرت زینب کی نسبت یوں فرمانا کہ میری وفات کے بعد میرے اَزواج میں سے سب سے پہلے جو مجھ سے ملے گی وہ دراز دست (لمبے ہاتھ والی) ہے۔ ابی بن خلف کی نسبت خبر دینا کہ یہ میرے ہاتھ سے قتل ہو گا۔ اصحمہ نجاشی کی موت کی خبر دینا جس دن اس نے حبشہ میں وفات پائی۔ شب معراج کی صبح کو قریش کے قافلوں کی خبر دینا جو تجارت کے لئے شام کو گئے ہوئے تھے۔ غارِ ثور سے نکلنے کے بعد مدینہ کے راستے میں سر اقہ بن مالک سے فرمانا کہ تو کسریٰ کے کنگن پہنا یا جائے گا۔ سلسلہ خلافت اور خلفائے ثلا ثہ حضرت عمرو عثمان وعلی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شہادت کی خبر دینا، واقعہ جمل وصفین کی خبر دینا، وباء عمواس کی خبر دینا، حضرت اما م حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے دو گروہ اسلام میں ذریعۂ صلح ہو نے کی خبر دینا، حضرت امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی شہادت کی خبر دینا، حضرت امیر معاو یہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ولایت کی خبر دینا، حضرت عمار بن یاسر رَضِیَ


 

اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے فرما دینا کہ تجھے باغی گر وہ قتل کر ے گا، خلفا ئے بنی امیہ وبنی عباس کے حالات کی خبر دینا، حجاج ظالم اور مختار کذاب کی خبر دینا، حضرت عبد اللّٰہ  بن زبیر کی نسبت فرمانا کہ یہ بیت اللّٰہ  شریف کو بچائے گایہاں تک کہ شہید ہو جائے گا، خوارج ور افضہ وقدر یہ ومرجئہ وز ناد قہ کی خبر دینا ، امت کے تہتر فرقے ہو نے اور ان میں سے ایک کے ناجی ہو نے کی خبر دینا، غزوۂ احد میں خبر دینا کہ حضرت حنظلہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں ، بدر کے میدان جنگ میں کفار قریش کے مر نے کی جگہوں کا الگ تھلگ نشان دینا کہ یہاں فلاں کا فر مر ے گا اور وہاں فلاں ، جنگ بدر کے خاتمہ پر اپنے چچا عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے بتا دینا کہ تم اپنی بیوی ام الفضل کے پاس مکہ میں مال چھوڑ آئے ہو حالانکہ عباس وام الفضل کے سوا کسی اور کو اس مال کا علم نہ تھا، غزوۂ بنی المصطلق سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ کے قریب فرما دینا کہ یہ تیز ہوا ایک بڑے منافق (رفاعہ بن زید بن التابوت ) کی موت کے لئے چلی ہے، حضرت اقرع بن شقی العکی سے حالت بیماری میں فرمادینا: تو اس بیماری میں نہیں مرے گا بلکہ ملک شام میں ہجرت کرے گا اور وہیں وفات پائے گا اور رملہ میں دفن ہو گا، فتح مکہ کی تیار یوں کے وقت حاطب بن ابی بَلتَعَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے خط کی خبر دینا جواس نے اہل مکہ کو ان تیار یوں سے مطلع کرنے کے لئے لکھا تھا اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ وغیرہ سے بتا دینا کہ اس حلیہ کی ایک عورت اس خط کو لے جارہی ہے اور تم اسے فلاں جگہ جا پکڑ و گے، وفدعبد القیس کے آنے کی خبر دینا، غز وۂ موتہ جو مدینہ منورہ سے ایک مہینہ کی مسافت پر ملک شام میں ہو رہا تھا اس کی نسبت خبر دینا کہ حضرت زید وجعفر وابن رواحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْیکے بعد دیگر ے شہید ہوگئے اور آخر حضرت خالد نے فتح پائی، مقام تبو ک میں جو شام ومدینہ کے درمیان ہے فرمادینا کہ آج مدینہ میں حضرت معاویہ لیثی نے انتقال فرمایا اور وہیں ان کی نماز پڑھنا، کسریٰ وقیصر کے ہلاک ہو نے اور فارس وروم کے فتح ہو نے کی خبر دینا، لبید بن عاصم یہودی کے جادو کی خبر دینا، مومنین ومنافقین کے اَسرار کی خبر دینا، حضرت اویس قرنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی خبر دینا، بنا ئے بغداد و بصرہ و کوفہ کی خبر دینا، امام ابو حنیفہ ومالک وشافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکی بشارت دینا وغیرہ وغیرہ یہ تمام امور اسی طرح وقوع میں آئے جس طرح حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خبر دی تھی۔

          قیامت کی نشانیاں جو آپ نے بیان فرمائیں وہ ان کے علاوہ ہیں اور وہ تین قسم کی ہیں : پہلی دو قسموں کو آثارِ صغریٰ سے تعبیر کیاجا تا ہے اور تیسری کو آثارِ کبریٰ کہتے ہیں ۔

اوّل:   وہ آثار جو وقوع میں آچکے مثلاً حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وفات شریف، تمام صحابہ کرام رَضِیَ


 

اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمکا اس دنیا سے رحلت فرمانا، حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا شہید ہونا، تاتاریوں کا فتنہ، حجازکی آگ، جھوٹے دجالوں کا دعوائے رسالت کے ساتھ نکلنا، بیت المقد س اور مدائن کافتح ہو جانا، سلطنت عرب کا زائل ہو جانا، تین خسوف کا وقوع، (ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک جزیرۂ عرب میں ) ([151] )  قتل اور فتنوں اور زلزلوں کی کثرت، مسخ و قذف، ریح احمر ، انقطاع طریق حج،   ([152] ) کعبۃ اللّٰہ سے حجر اسو د کا اٹھ جانا،  ([153] ) کثرت موت وغیرہ۔

دوم:  وہ آثار جو ظہور میں آچکے اور زیادہ ہو رہے ہیں حتی کہ قسم سو م سے مل جائیں گے۔مثلا عابد وں کا جاہل ہو نا، قاریوں کا فا سق ہو نا، چاند وں کا اتنا بڑا نظر آنا کہ کہاجائے یہ دوسری رات کا چاندہے، بارش کا زیادہ ہو نا اور روئیدگی ([154] )  کا کم ہونا، قاریوں کی کثرت اور فقہاء کی قلت، امیر وں کی کثرت اور امینوں کی قلت، فاسقوں کا سر دار قبیلہ اور فاجر وں کا حاکم بازار بننا، مومن کا اپنے قبیلہ میں نقد   ([155] ) سے زیادہ ذلیل ہو نا، تجارت کی کثرت، عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ شریک تجارت ہونا، قطع رحم کر نا، کاتبوں کی کثرت اور علماء کی قلت، جھوٹی گواہی کا ظاہر ہو نا، امانت کو غنیمت سمجھنا، زکوٰۃ کو تاوان خیال کر نا، علم دین کو دنیا کی خاطر سیکھنا، عقوقِ والدین([156] ) کی کثرت، بڑوں کی عزت نہ ہونا، چھوٹوں پر رحم نہ کیا جانا، اولا دِ زِنا کی کثرت، اونچے محلوں پر فخر کر نا، مسجد وں میں دنیا کی باتیں کر نا، نماز پڑھا نے کے لئے مسجد وں میں اماموں کا نہ ملنا، بغیر شروط و ارکان نمازیں پڑھنا حتیٰ کہ پچاس میں سے ایک نماز کا بھی قابل قبول نہ ہونا، مسجد وں کی آرائش کر نا، مسجدوں


 کو راستے بنا نا، قریبی لڑکی سے اس کی مفلسی کے سبب نکاح نہ کرنا اور کسی دَنیۃ الاصل ([157] )  سے اس کی دولتمند ی کے سبب نکاح کر لینا، ناحق مال لینا، حلال درہم کانہ پایا جانا، سائل کا محروم رہنا، اسلام کا غریب ہونا، لوگوں میں کینہ وبغض ہونا، عمر یں کم ہونا، درختوں کے پھلوں کاکم ہونا، جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا جاننا، مال حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی منافقانہ مدح کرنا، خطباء کا جھوٹ بولنا، حکام کا ظلم کرنا، نجومیوں کو سچاجاننا، قضاء وقدر کو حق نہ جاننا، مرد کا عورت یا دوسرے مرد سے لواطت کرنا، جہاد نہ کرنا، مالداروں کی تعظیم کرنا، کبیرہ گناہوں کو حلال جاننا، سود اور رشوت کھانا، قرآن کو مزامیر بنانا، درندوں کے چمڑوں کے فرش بنا نا، ریشم پہننا، جہالت وزنا وشراب نو شی کی کثرت، خائن کو امین اور امین کو خائن سمجھنا، گانے والی لونڈیوں کا رکھنا، آلات لہو کا حلال سمجھنا، حدود شرعیہ کا جاری نہ ہونا، عہد تو ڑنا، عورتوں کا مر دوں سے اور مردوں کا عورتوں سے مشابہت پیدا کر نا، اخیر امت کا اوَّل امت کو برا کہنا، مردوں کا عمامے چھوڑ کر عجمیوں کی طرح تاج پہننا، قرآن کو تجارت بنا نا، مال میں سے اللّٰہ  کا حق ادا نہ کر نا، جو اء کھیلنا، باجے بجانا، کم تولنا، جاہلوں کو حاکم بنانا، مسجدیں بنانے پر فخر کرنا، مردوں کی قلت اور عورتوں کی کثرت یہاں تک کہ ایک مر دپچا س عورتوں کا متکفل ہو گاوغیرہ وغیرہ۔([158] )

 سوم:  آثار کبریٰ جن کے بعد ہی قیامت آجائے گی یہ آثا ر یکے بعد دیگر ے پے درپے ظاہر ہونگے جیسے سلک مروارید ([159] ) سے موتی گرتے ہیں ، اما م مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ظہور سے شروع ہو کر نفخ صور پر ختم ہو جائیں گے۔ ان کا بیان جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حدیثوں میں پا یا جاتا ہے اس کا خلاصہ حسب معلومات خود نیچے درج کیا جا تا ہے:

          جب آثا رِصغریٰ سب ظاہر ہو چکیں گے تو اس وقت نصاریٰ کا غلبہ ہو گا، ایک مدت کے بعد خالد بن یزید بن ابی سفیان اموی کی اولاد سے ایک شخص سفیان نام جانب دمشق سے ظاہر ہو گا جس کی ننھیال قبیلہ قلب ہو گا وہ اہل بیت کو بری طرح قتل کرے گا، شام ومصر کے اطراف میں اس کا حکم جاری ہو گا۔ اسی اثناء میں شاہ روم کی عیسائیوں کے ایک فرقہ سے جنگ اور دوسرے سے صلح ہو گی، لڑنے والا فرقہ قُسْطَنْطِیْنِیَّہ پر قبضہ کر لے گا، شاہ روم ملک شام میں آجا ئے گا اور دوسرے فرقہ کی مدد سے ایک خونریز لڑائی کے بعد فتح پائے گا، دشمن کی شکست کے بعد فر قۂ موافق میں سے ایک شخص بول اٹھے گا کہ یہ فتح صلیب کی بر کت سے ہوئی ہے۔ اسلامی لشکر میں سے ایک شخص اسے مار پیٹ کرے گا اور کہے گا: نہیں بلکہ اسلام


کی برکت سے ایسا ہوا ہے۔ الغرض دونوں اپنی اپنی قوم کو مدد کے لئے پکار یں گے اور ’’خانہ جنگی‘‘ شروع ہو جائے گی ([160] )  جس میں بادشاہِ اسلام شہید ہو جائے گا اور دونوں عیسائی فریق باہم صلح کرلیں گے اس طرح شام میں عیسائی راج ہو جائے گا۔ بقیتہ السیف([161] )  مسلمان مدینہ منورہ چلے آئیں گے اور عیسائیوں کی حکومت مدینہ منورہ کے قریب خیبر تک پھیل جائے گی۔ اس وقت اہل اسلام کو امام مہد ی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی تلاش ہو گی۔

حضرت امام مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ

          حضرت امام مدینہ سے مکہ تشریف لے آئیں گے،اہل مکہ کی ایک جماعت حجر اسود و مقام ابراہیم کے درمیان آپ سے بیعت کرے گی حالانکہ آپ اس منصب امامت پر راضی نہ ہوں گے،آپ کا اسم گر امی محمد، باپ کا نا م عبداللّٰہ  اور ماں کا نام آمنہ ہو گا۔ آپ حضرت فاطمۃ الزہر اء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا  کی اولاد سے ہوں گے۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی عمر مبارک اس وقت چالیس سال ہو گی۔

           ان حالات میں مَاوَر ائُ النہر سے ایک شخص حارث حراث نام اہل اسلام کی مدد کے لئے ایک لشکر بھیجے گا جس کا مقدمہ منصور کے زیر کمان ہو گا، ([162] )  یہ لشکرراستہ ہی میں بہت سے عیسائیوں اور بددینوں کا صفایا کرے گا۔ ظالم سفیان جس کا اوپر ذکر ہوا اپنا لشکر امام مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے مقابلہ کے لئے بھیجے گا جو شکست کھائے گا ۔اس کے بعد خود سفیان لشکر کے ساتھ مقابلہ کے لئے آئے گا اور مقام بیداء میں مکہ ومدینہ کے درمیان لشکر سمیت زمین میں دھنس جائے گا،صرف ایک شخص بچے گا جو امام مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اس واقعہ کی خبر دے گا، حضرت امام کی اس کرامت کی خبر دور دور پہنچ جائے گی۔شام کے اَبد ال اور عراق کے اَوتاد آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے دست مبارک پر بیعت کریں گے،([163] )


 

فوج مدینہ کے علاوہ باقی عرب و یمن کے لوگ بکثرت آپ کے لشکر میں داخل ہو جائیں گے۔

          اَفواج اسلام کی خبر سن کر نصاریٰ بھی ممالک روم وغیرہ سے لشکر جرار لے کر شام میں جمع ہو جائیں گے۔لشکر کفار میں اَسّی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے تلے بار ہ ہزار سوار ہوں گے۔امام مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہمکہ سے بغرضِ زیارت مدینہ منورہ جائیں گے اور وہاں سے ملک شام پہنچیں گے۔ حلب یا دمشق کے نواح میں لشکر کفار سے مقابلہ ہو گا۔ حضرت امام کے لشکر کا تہائی حصہ بھاگ جائے گا جن کی موت کفر پر ہو گی اور ایک تہائی شہادت سے مشرف ہو گا اور باقی تہائی فتح پائے گا۔دوسرے روز امام موصوف نصاریٰ کے مقابلہ کے لئے نکلیں گے۔مسلمانوں کی ایک جماعت عہد کرے گی کہ بغیر فتح پائے یا شہید ہو ئے میدان سے واپس نہ آئیں گے۔یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ اگلے روز پھر ایک جماعت یہی عہد کرے گی اور جام شہادت نوش کرے گی۔اسی طرح تیسرے دن بھی وقوع میں آئے گا۔ چو تھے روز بقیہ اہل اسلام کفار پر فتح پائیں گے مگر اس سے کسی کو خوشی نہ ہو گی کیونکہ اس لڑائی میں بہت سے خاندان ایسے ہوں گے جن میں فیصد ی ایک بچاہوگا۔ اس کے بعد امام موصوف نظم ونسق میں مشغول ہوں گے اور دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے پھر ایک سخت لڑائی کے بعد قسطنطنیہ فتح ہو جائے گا۔([164] )

دَجال لعین

          جب اَہل اِسلام غنا ئم قسطنطنیہ تقسیم کر رہے ہوں گے تو شیطان آواز دے گا کہ دجال تمہارے اَہل واولاد میں آگیا ہے۔ یہ سنتے ہی غنائم چھوڑ کر دجال کی طرف متوجہ ہوں گے اور دس سوار بطورِ طلیعہ ([165] ) خبر لا نے کے لئے بھیجیں گے ان کی نسبت حضور رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں ان کے نام، ان کے باپوں کے نام، ان کے


 

گھوڑ وں کے رنگ پہچا نتا ہوں اور وہ اس وقت روئے زمین پر بہتر ین سواروں میں سے ہوں گے۔([166] )یہ افواہ غلط ثابت ہو گی،لشکر اسلام جب قسطنطنیہ سے روانہ ہو کر شام پہنچے گا تو جنگ عظیم سے ساتویں سال شام وعراق کے درمیان ایک راستے سے دجال ظاہر ہوگا۔ ([167] ) اسکے ظہور سے پہلے دوسال قحط رہے گا۔ تیسرے سال دو ران قحط ہی میں اس کا ظہور ہوگا۔

            دجال کی ایک آنکھ اور ایک اَبر و بالکل نہ ہو گی بلکہ وہ جگہ ہموار ہوگی۔ مَمْسُوحُ العَیْن ہونے ([168] ) کے سبب سے اسے مسیح الدجال کہتے ہیں ۔ وہ ایک بڑے گدھے پر سوار ہو گا اور اس کی پیشانی کے درمیان ’’ک اف ر‘‘ (کافر ) لکھا ہو گا جسے صرف اہل ایمان کاتب و غیر کاتب پڑھ لیں گے۔ وہ روئے زمین پر پھر ے گا اور لوگوں کو اپنی اُلوہیت کی دعوت دے گا اور وہ اسی غرض کے لئے اپنے سر ایا ([169] )مختلف اَطراف میں بھیجے گا۔اس کے ساتھ ایک باغ ہو گا جسے وہ جنت کہے گا اور ایک آگ ہو گی جسے دوز خ بتا ئے گا۔ موافقین کو وہ اپنی بہشت میں اور مخالفین کو اپنی دوزخ میں ڈالے گا۔ مگر حقیقت میں وہ بہشت دوزخ کی خاصیت رکھتی ہو گی اور دوز خ باغ بہشت کے مانند ہو گی۔ اس کے پاس اشیا ئے خور دنی کا بڑا ذ خیر ہ ہوگا، اس میں سے جسے چاہے دے گا، لوگوں کی آزمائش کے لئے اس سے خارقِ عادت امور ظاہر ہوں گے۔ جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے ان کے لئے آسمان کو حکم دے گا تو مینہ برسنے لگ جائے گا، زمین کو حکم دے گا تو گھاس اور زراعت بکثرت اُگا ئے گی، جو انکار کریں گے ان سے مینہ اور زراعت ونباتات کو روک دے گا، ایک ویرانے میں پہنچے گا تو زمین سے کہے گا کہ اپنے خزانے نکال دے چنانچہ اس ویرانے کے خزانے اس کے پیچھے چلیں گے، بعض آدمیوں سے کہے گا کہ میں تمہارے مر دہ ماں باپ کو زندہ کر دیتا ہوں اگر تم میری خدا ئی پر ایمان لاؤ۔ پھر وہ شیطانوں کو حکم دے گا کہ زمین میں سے ان کے ماں باپ کے ہم شکل ہو کر نکلو۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ اسی طرح اس کے لشکری ایک مومن کو پیش کریں گے وہ دیکھتے ہی کہہ دے گا کہ لوگو! یہ تو دجال ہے جس کا ذکر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کر دیا ہے۔ یہ سن کر دجال حکم دے گا کہ اس کو لٹاکر اس کا سر توڑ دو۔ ایسا ہی کیا جائے گاپھر دجال اس سے پوچھے گا: کیا تومجھ پر ایمان نہیں لاتا؟ مومن جواب دے گا کہ تو جھوٹا مسیح ہے۔ پھر دجال کے حکم سے سر سے پاؤں تک اس کے


 

 دو ٹکڑے کیے جا ئیں گے۔ دجال دونوں ٹکڑوں کے درمیان چلے گا اور کہے گا: اٹھ۔ وہ اٹھ بیٹھے گا۔ دجال کہے گا: کیا تو مجھ پر ایمان لاتا ہے؟ مومن جواب دے گا: اب تو مجھے خوب یقین ہو گیا کہ تو جھوٹا دجال ہے اور کہے گا:اے لوگو! میرے بعد یہ کسی اور سے ایسا نہ کر سکے گا۔ بعد ازاں دجال اسے ذبح کر نا چاہے گا مگر نہ کر سکے گا اور اسے اپنی دوزخ میں پھینک دے گا مگر وہ اس مومن کے لئے جنت ہو جائے گی۔ حضور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ہے کہ وہ مومن اللّٰہ کے نزدیک بڑا شہید ہوگا۔ الغرض د جال مختلف مقامات پر جائے گا، شام سے اِصفہان میں پہنچے گا، وہاں ستر ہزار یہودی اس کے پیروبن جائیں گے۔ پھرتا پھراتا سرحدیمن پر پہنچ جائے گا وہاں سے مکہ معظمہ کا قصد کرے گا مگر فرشتوں کی محافظت کے سبب اس میں داخل نہ ہوسکے گا پھر مدینہ منورہ میں پہنچے گا، اس وقت مدینہ طیبہ کے سات دروازے ہوں گے ہر دروازے پر دودوفرشتے محافظ ہوں گے اس لئے شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے گا، یہاں سے وہ لوگوں کو گمراہ کر تا ہوا شام کی طرف روانہ ہوگا۔([170] )

حضرت عیسٰی عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام

          قبل اس کے کہ دجال دِمَشْق میں پہنچے امام مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وہاں پہنچ کر جنگ کی تیاری کرچکے ہوں گے۔ اسی اَثنا میں اچانک اللّٰہ  تعالٰی حضرت مسیح بن مریم عَلَیْہِمَا السَّلامکو آسمان سے بھیجے گا۔آپ دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہو ئے زرد رنگ کا جوڑا ز یب تن کیے ہوئے نہایت نورانی شکل میں د مشق کے مشرقی جانب سفید منارہ پر اتریں گے اور اس امت کی تکریم وتعظیم کی جہت سے حضرت امام مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ پھر لشکر اسلام لشکر دجال پر حملہ کرے گا گھمسان کا معرکہ ہوگا اس وقت دم عیسیٰ کی یہ خاصیت ہو گی کہ جہاں تک آپ کی نظر


 

 کی رسائی ہو گی وہاں تک آپ کا سانس بھی پہنچے گا اور جس کا فر تک وہ پہنچے گا ہلاک ہو جائے گا اور دجال بھاگ جائے گا مگر حضرت مسیح عَلَیْہِ السَّلام اس کو بیت المقدس کے قریب موضع لد کے دروازے میں جالیں گے اور نیز ہ سے اس کاکام تمام کردیں گے۔لشکر اسلام لشکر دجال کے قتل وغارت میں مشغول ہو جائے گا۔لشکر دجال میں جو یہود ہوں گے ان کو کوئی چیز پناہ نہ دے گی یہاں تک کہ رات کے وقت اگر کوئی یہودی پتھر یاد رخت کی آڑ میں چھپاہو گا تو وہ پتھر یا درخت بول اٹھے گا کہ یہاں یہودی ہے اس کو قتل کر دو۔

           زمین پر دجال کا فتنہ چالیس دن رہے گا جن میں سے ایک دن ایک سال، ایک دن ایک مہینے اور ایک دن ایک ہفتہ کے مانند ہو گا۔ باقی دن معمولی دنوں کے مانند ہوں گے۔ صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے دریافت کیا: جو دن ایک سال کے برابر ہو گاکیا اس میں ایک دن کی نمازیں کافی ہوں گی؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں ایک سال کی نمازیں اس دن میں تخمینہ سے ادا کرنی ہوں گی۔

          دجال کے فتنہ کے رفع ہونے کے بعد حضرت مسیح عَلَیْہِ السَّلام اصلاحات میں مشغول ہوں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے اور کفار سے جزیہ قبول نہ کیا جائے گا۔ سوائے قبول اسلام اور قتل کے دوسرا حکم نہ ہو گا۔ سب کا فر مسلمان ہوجائیں گے۔ امام مہدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی خلافت ۷یا ۸ یا ۹ سال ہوگی اسکے بعد آپ کا وصال ہوگا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام  آپ کے جنازہ کی نماز پڑھائیں گے۔([171] )

یاجوج وماجوج

          اس کے بعد لوگ امن وامان کی زندگی بسر کر تے ہوں گے کہ اللّٰہ  تعالٰی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کی طرف وحی بھیجے گا کہ میں ایسے بند ے نکالنے والاہوں کہ کسی میں ان کے ساتھ لڑنے کی طاقت وقدرت نہیں ہے۔تم میرے خالص بندوں کو کوہِ طور کی طرف لے جاؤ۔ آپ عَلَیْہِ السَّلام قلعۂ طور میں پناہ گزیں ہو کر سامانِ حرب ورَسد کے مہیا کرنے میں


 

مشغول ہوں گے۔اس وقت یا جوج و ماجوج نکل پڑیں گے۔ یہ لوگ یافِث بن نوح کی اولاد سے ہیں ان کا مُلک قطب شمالی کی طرف  ہفت اِقلیم([172] ) سے باہر بتا یا جاتا ہے۔اس کے جانب ِشمال سَمُنْدَر ہے جو سال بھر منجمد رہتا ہے۔ مشرق و مغرب میں دیوار وں کی مثل دو پہاڑ ہیں ان کے درمیان کی ایک گھاٹی سے نکل کر وہ اس طرف کے لوگوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ سکندر ذوالقرنین نے ان کو ایک آ  ہنی دیوار کے ذریعہ سے بند کر دیا تھا جس کی بلند ی ان دونوں پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچتی ہے اور موٹا ئی ساٹھ گز ہے۔ وہ دن بھر اس دیوار کے تو ڑ نے میں لگے رہتے ہیں مگر رات کو قدرت الٰہی سے وہ دیوار ویسی ہی ہو جاتی ہے۔ جب ان کے نکلنے کا وقت آئے گا تو وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ لوگ ٹڈی دَل کی طرح ہر طرف پھیل جائیں گے اور بے دریغ قتل وغارت کریں گے۔ ان کی کثرت کا یہ حال ہے کہ جب ان کی پہلی جماعت بحیرۂ طبر یہ میں (جو دس میل لمبا ہے ) پہنچے گی تو اس کا تمام پانی پی جائے گی اوراس طرح سکھادے گی کہ دوسری جماعت بعد والی جب آئے گی تو دیکھ کر کہے گی کہ یہاں کبھی پانی تھا؟ پھر وہ قتل وغارت کر تے ہوئے قدس کے پہاڑ خمر میں پہنچیں گے تو کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کا تو صفایا کر دیاچلو آسمان والوں کو بھی مار ڈالیں پھر وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے جن کو اللّٰہ      تعالٰی خون آلود کر کے لوٹا دے گا۔وہ دیکھ کر خوش ہو ں گے کہ اب تو ہمارے سوا کوئی نہیں رہا۔ محصورین ( حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام اور آپ کے اصحاب ) میں قحط کا یہ عالم ہو گا کہ گائے کا کلہ سو سو دینا ر سے بھی زیادہ قیمتی ہو گا۔ پس محصور ین دعا کریں گے۔ اس پر اللّٰہ  تعالٰی ان میں مرضِ نغف بھیجے گا۔ یہ ایک دانہ ہو تا ہے جو اونٹ اور بھیڑ بکری کی گردنوں میں نکلتا ہے اور طاعون کی طرح ہلاک کر دیتا ہے۔ اس مرض میں یا جوج وماجوج یکبارگی ہلاک ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام اور آپ کے اصحاب میدان کی طرف آئیں گے اور زمین میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہ پائیں گے جوان کی چربی وگند گی سے پُر نہ ہو۔ پھر آپ مع اصحاب دست بد عاہوں گے تو اللّٰہ تعالٰی ایسے پر ند ے بھیجے گا جن کی گر دنیں شتر ان بختی  کی مانند([173] ) ہوں گی۔ وہ پر ندے ان کی لا شوں کو وہاں پھینک دیں گے جہاں اللّٰہ تعالٰی چاہے۔ پھر اللّٰہ  تعالٰی ایک عالمگیر بارش بھیجے گا جس سے زمین بالکل صاف ہو جائے گی۔اس بارش کی برکت سے زمین کی پیداوار میں بڑی ترقی ہو گی یہاں تک کہ ایک انار ایک جماعت کے لئے کافی ہو گا۔حیوانات کا دود ھ اس کثرت سے


 

 ہوگا کہ ایک اونٹنی کا دودھ ایک قبیلہ کے لئے کافی ہوگا اور ایک بکری کا دودھ ایک کنبہ ([174] ) کے لئے کافی ہوگا۔ قومِ یا جوج وماجوج کی کمانیں ، ترکش اور تیر مومنوں کے لئے سات سال ایندھن کا کام دیں گے۔ حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام دنیا میں چالیس سال رہیں گے،آپ کا نکاح ہو گا اور اولا د پیدا ہوگی، پھرآپ انتقال فرمائیں گے اور حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے روضہ مطہرہ میں دفن ہوں گے۔

          حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے بعد قبیلہ قحطان میں سے ایک شخص جہجاہ نام یمن کے رہنے والے آپ کے خلیفہ ہوں گے اورامور خلافت کو عدل وانصاف کے ساتھ سر انجام دیں گے۔([175] ) جہجاہ کے بعد چند اَور بادشاہ ہوں گے جن کے عہد میں رسوم کفر وجہل شائع ہو جائیں گی اور علم کم ہو جائے گا۔اسی اَثنا میں ایک مکان مشرق میں اورایک مغرب میں زمین میں دھنس جائے گاجن میں منکرین تقد یر ہلاک ہو جائیں گے۔

دُخان (دھواں )

          اس کے بعد ایک بڑا دُھواں آسمان سے نمودار ہو گا جو چالیس روزر ہے گا۔ اس سے مسلمان زُکام میں مبتلا ہو جائیں گے۔کا فر وں اور منافقوں پر بیہوشی طاری ہوجائے گی۔ بعض ایک دن بعض دودن اور بعض تین دن کے بعد ہوش میں آئیں گے۔([176] )

 آفتاب کا مغرب سے نکلنا

          اس کے بعد ماہِ ذِی الحجہ میں یوم نحر کے بعد رات اس قدر لمبی ہو جائے گی کہ بچے چلا اٹھیں گے، مسافرتنگ دل


 

اور مویشی چر اگاہ کے لئے بے قرارہوں گے یہاں تک کہ لوگ بے چینی کی وجہ سے نالہ وزاری کریں گے اور تو بہ توبہ پکاریں گے۔آخر تین چار رات کی مقدار اس رات کے دراز ہونے کے بعد اضطراب کی حالت میں آفتاب مغرب سے چاند گرہن کی مانند تھوڑ ی سی روشنی کے ساتھ نکلے گا۔ اس کے بعد تو بہ کا دروازہ بند ہو جائے گااور اس دن آفتاب اتنا بلند ہو کر غروب ہو گا جتنا کہ چاشت کے وقت ہو تا ہے۔ پھر حسب معمول مشرق کی طرف سے نکلتا رہے گا۔([177] )

دَا بۃ الْا َرض

          دوسرے روز لوگ اسی کا ذکر کر رہے ہوں گے کہ کوہِ صَفَازَلز لہ سے پھٹ جائے گا اور اس سے ایک عجیب شکل کا جانور نکلے گا جسے دابۃ الا رض کہتے ہیں ۔ وہ چہرے میں آدمی سے، گردن میں اُونٹ سے، دُم میں بیل سے، سر ین میں ہر ن سے، سینگوں میں بارہ سنگے سے،ہاتھوں میں بندر سے اور کانوں میں ہاتھی سے مشابہ ہوگا۔ پہلے یمن میں پھر نجد میں ظاہر ہو کر غائب ہو جائے گا۔پھر دوبارہ مکہ مشرفہ میں ظاہر ہوگا اس کے ایک ہاتھ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کا عصااور دوسرے میں حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلام کی انگوٹھی ہو گی۔ وہ ایسی تیز ی سے شہر وں کا دورہ کر ے گا کہ کوئی بھاگنے والا اس سے نہ بچ سکے گا۔ وہ اہل ایمان کی پیشانی پر عصائے موسیٰ سے ایک نورانی خط کھینچ دے گا جس سے تمام چہرہ نورانی ہو جائے گا اور کفار کی ناک یا گردن پر خاتم سلیمان([178] ) سے مہر کردے گا جس سے ان کا چہرہ سیا ہ اور بے رونق ہو جائے گا۔([179] )

خانۂ کعبہ کا گرایا جانا

          اس کے بعد ایک ٹھنڈی ہوا چلے گی جس کے سبب سے ہر صاحب ایمان کی بغل میں درد پیدا ہو گا۔افضل فاضل سے، فاضل نا قص سے اور ناقص فاسق سے پہلے مر نے شروع ہو جائیں گے یہاں تک کہ کوئی اہل ایمان باقی نہ رہے گا۔ بعد ازاں کفارِ حبشہ کا غلبہ ہو گا اور ان کی سلطنت قائم ہو گی وہ خانۂ کعبہ کو ڈھادیں گے، حج موقوف ہوجائے گا، قرآن مجید


 

 دلوں ، زبانوں اور کا غذوں سے اُٹھ جائے گا،خداترسی اور خوفِ آخر ت دلوں سے اُٹھ جائے گا، شرم وحیانہ رہے گی، آدمی گدھوں اور کتوں کی مانند دوستوں کے سامنے جماع کریں گے، ([180] ) حکام کا ظلم اور رعایا کی ایک دوسرے پر دست درازی رفتہ رفتہ بڑھ جائے گی جس سے شہر وقصبات ویر ان ہو جائیں گے۔قحط و وَباکا ظہور ہو گا۔

 ایک بڑی آگ

          اس وقت ملک شام میں کچھ اَرْزانی ([181] )  ہو گی۔دیگر ممالک کے لوگ اہل وعیال سمیت شام کو روانہ ہوں گے۔ اسی اَثنا میں ایک بڑی آگ جنوب کی طرف سے نمودار ہو گی وہ ان کا تعاقب کرے گی یہاں تک کہ وہ شام پہنچ جائیں گے پھر وہ آگ غائب ہو جائے گی۔([182] )

نفخ صور

          اس کے بعد چار پانچ سال لوگ عیش وعشرت کے ساتھ غفلت میں زندگی بسر کریں گے۔ بت پرستی عام ہوگی۔ کوئی اللّٰہ اللّٰہ کہنے والا نہ ہو گا۔یکایک جمعہ کے روز جو یوم عاشورا بھی ہو گا صبح کے وقت اللّٰہ تعالٰی اِسرافیل عَلَیْہِ السَّلام کو صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ صورکی آواز کے صدمہ سے تمام جہان فنا ہوجائے گا، زمین وآسمان کے ٹکڑے ہو جائیں گے، چاند، سورج اور تمام ستارے ٹوٹ کر گر پڑیں گے، دریاخشک ہو جائیں گے، آگ بجھ جائے گی، سوائے ذاتِ باری تعالٰی کے کوئی باقی نہ رہے گا، اس وقت اللّٰہ تعالٰی فرمائے گا: ’’    لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَؕ- ‘‘([183] ) (آج سلطنت کس کی ہے )پھر خود ہی جواب دے گا: لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ(۱۶) ([184] ) (اس ایک اللّٰہ کی جو قہار ہے)ایک مدت کے بعد بار ِدِیگر ([185] )  نئے آسمان اور نئی زمین


 

 پیدا ہو گی پھر حضرت اسر افیل عَلَیْہِ السَّلام دوبارہ صور پھونکیں گے اس کی آواز سے سب مُردوں کے جسم دوبارہ وہی بن جائیں گے اور زند ہ ہو کر قبر وں سے اٹھیں گے۔ ([186] ) اسی کو قیامت کہتے ہیں قیامت کے واقعات جو قرآنِ مجید واحادیث شریفہ میں مذکور ہیں مثلاً مُردوں کا ان ہی اَجساد کے ساتھ زندہ ہو کر اٹھنا، آفتاب کازمین کے قریب آجانا، حساب ِ اعمال ہونا، ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء کا نیک و بد اعمال کی گواہی دینا، نیکوں کو نامہ اعمال کا سامنے کی طرف سے دائیں ہاتھ میں ملنا اور بدوں کو پشت کی طرف سے بائیں ہاتھ میں ملنا، اعمال کا ترازو میں تُلنا، پل صراط سے گزرنا، مومنوں کا اپنے مرتبہ کے موافق کسی کا بجلی کی طرح، کسی کا دوڑ تے گھوڑ ے کی طرح ، کسی کا اُڑ تے پر ندے کی طرح ، کسی کا معمولی چال سے پل صراط عبور کر جانا اور منافقین وکفار کا کٹ کٹ کر دوزخ میں گر نا، حوض کو ثر کے لذیذ وسرد پانی کے پینے سے مومنوں کی سب کلفتوں کا دور ہو جانا اور جنت میں داخل ہو نا وغیرہ۔ ان سب کے لئے ایک علیحد ہ کتاب در کا رہے یہاں بطور نمونہ ذیل میں دو تین پیشگوئیوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔

حجاز کی آگ

          صحیحین ([187] )  میں بروایت سعید بن المسیب مذکور ہے کہ حضرت ابو ہر یرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مجھے خبر دی کہ رسول اللّٰہ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ایک آگ حجاز کی زمین سے نکلے گی جو بصریٰ ([188] )میں اونٹوں کی گر دنیں روشن کرے گی۔ ([189] )

          مذکورہ بالا پیشین گوئی کے مطابق وہ آگ سر زمین حجا ز میں ظاہر ہو ئی۔اس کے ظہور سے پہلے کئی زلزلے آئے جو اس کا پیش خیمہ تھے۔ چنانچہ ماہ جُمَادَی الا ُوْلیٰ ۶۵۴؁ھ کی اَخیر تاریخ کو مدینہ منورہ میں کئی دفعہ زلزلہ آیا مگر چو نکہ خفیف


 

 تھا اس لئے بعض لوگوں کو محسوس نہ ہوا۔سہ شنبہ کے روز ([190] ) سخت زلزلہ آیا جسے عام وخاص سب نے محسوس کیا۔ شب ِچہار شنبہ ([191] ) ۳جمادی الا خریٰ کو رات کے اَخیر تہائی حصہ میں مدینہ میں ایسا سخت زلز لہ آیا کہ لوگ ڈرگئے اور اس کی ہیبت سے دل کانپ گئے۔زلز لے کا یہ سلسلہ جمعہ کے دن تک رہا۔اس کی آواز بجلی سے بڑھ کر تھی ، زمین کانپتی تھی اور دیوار یں ہل رہی تھیں یہاں تک کہ صرف دن کے وقت اٹھا رہ دفعہ حرکت ہو ئی۔جمعہ کو چاشت کے وقت زلز لہ بند ہو گیا دو پہر کے وقت مدینہ منورہ سے تقریبا ایک منزل جانب شرق یہ آگ نمودارہو ئی اس کے ظاہر ہو نے کی جگہ سے آسمان کی طرف بکثرت دھواں اٹھا جس نے افق کو گھیر لیاجب تاریکی چھاگئی اور رات آگئی تو آگ کے شعلے تیز ہوگئے یہ آگ ایک ایسے بڑے شہر کی مانند معلوم ہو تی تھی جس کے گردایک فصیل ہو اور اس فصیل پر کنگرے اور برج اور مینار ہوں غرض اس آگ کو دیکھ کر اہل مدینہ ڈر گئے۔([192] ) چنانچہ قاضی سنان حسینی کا بیان ہے کہ ’’میں امیر مدینہ عزالدین منیف بن شیحہ ([193] )کے پاس گیا  اور اس سے کہا کہ عذاب نے ہم کو گھیر لیا ہے۔اللّٰہ کی طرف رجوع کر۔ یہ سن کر اس نے اپنے تمام غلام آزاد کر دیئے اور لوگوں کے اموال ان کو واپس کردیئے پھر وہ اپنے قلعہ سے نکل کر حرم شریف میں آیا۔اس نے اور تمام اہل مدینہ حتی کہ عورتوں اور بچوں نے جمعہ اور ہفتہ کی رات حرم شریف میں گز اری اور باغات میں کوئی ایسا نہ رہا جو حرم شریف میں نہ آیا ہو۔ لوگ رات کو گر یہ وزاری اور تضرع کر تے تھے اور حجر ہ شریف کے گرد ننگے سراپنے گنا ہوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑ گڑ اکر دعا مانگ رہے تھے اور نبی الرحمۃ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پناہ طلب کررہے تھے۔‘‘

           قطب قسطلانی جواس وقت مکہ میں مقیم تھے، ان کا بیان ہے کہ یہ آگ بڑھتی ہوئی حر ّہ اور وادیٔ شظات کے متصل آپہنچی اور وادیٔ شظات میں سے جس کے ایک طرف وادیٔ حمزہ  ہے گز ر کرحرم نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مقابل ٹھہر گئی۔ اس آگ کے شعلے ایسے تیز تھے کہ شجر وحجر جو اس کے راستے میں آتا اسے پارہ پارہ کر دیتی اور پگھلا دیتی۔ غرض


 

 اس رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تربت شریف کی بر کت سے یہ آگ حرم شریف سے خارج ہی رہی اور وہاں سے پیچھے ہٹ کر اپنا رخ جانب شمال کر لیا اور۵۲دن تک روشن رہی۔

           یہ آگ مکہ ، ینبع اور تیماء سے دکھائی دیتی تھی اور شہر بصریٰ کے لوگوں کو اس کی روشنی میں اونٹوں کی گر دنیں نظر آگئیں جیساکہ حدیث شریف میں وار دہے۔مؤر خین کاقول ہے کہ یہ آگ چار فرسنگ لمبی اور چار میل چوڑی اور ڈیڑھ قامت عمیق وادی میں چلتی تھی۔اس کی حرارت سے پتھر رانگ کی مانند پگھل جاتا تھا۔اس طرح وادی کے اخیر میں حر ّہ کے منتہا کے نزدیک پگھلے ہو ئے پتھر جمع ہو تے گئے اور آخرکار وادیٔ شظات کے وسط میں کو ہِ وعیرہ کی طرف ایک سد ّ (دیوار) بن گئی۔اس سد کے آثار ہنوزباقی ہیں اور اہل مدینہ اسے حبس کہتے ہیں ۔ مدینہ منورہ میں اس آگ کا ظہور ایسا مشہور ہے کہ مؤر خین کے نزدیک حد تواتر کو پہنچا ہوا ہے۔([194] ) کذا فی وفاء الوفاء للسمھودی۔

          امام نووی ( متوفی ۶۷۶؁ھ) جو اس زمانے میں مو جود تھے۔اس آگ کی نسبت شرح صحیح مسلم (مطبوعہ انصاری، جلد ثانی، کتاب الفتن، ص۳۹۳) میں یوں تحریر فرماتے ہیں :

          وقد خرجت فی زماننا نار بالمدینۃ سنۃ اربع و خمسین و ستمائۃ و کانت نارًا عظیمۃ جدا خرجت من جنب المدینۃ  الشرقی وراء الحرۃ تواتر العلم بھا عند جمیع اھل الشام و سائر البلدان و اخبرنی من حضرھا من اھل المدینۃ ۔([195] )

          اور تحقیق ہمارے زمانے میں ۶۵۴؁ھ میں مدینہ میں ایک آگ نکلی اور نہایت بڑی آگ تھی جو مدینہ کے شرقی جانب سے حر ّہ کے پیچھے نکلی۔شام اور باقی شہروں کے تمام با شند وں کو بطریق تو اتر اس کا علم ہوا اور مجھے اہل مدینہ میں سے ایک شخص نے خبر دی جس نے اس آگ کو دیکھا۔

           علامہ تاج الدین سبکی (متوفی ۷۷۱؁ھ ) طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ( جزء خامس، ص ۱۱۲) میں لکھتے ہیں کہ جب ماہ


 

جمادی الا خریٰ ۶۵۴؁ھ کی پانچویں تا ریخ ہو ئی تو مدینۃ النبی میں اس آگ کا ظہور ہوا اور اس سے پہلے کی دو راتوں میں ایک بڑی آواز ظاہر ہو ئی پھر ایک بڑا ز لزلہ آیاپھر قریظہ کے قریب حر ّہ میں آگ ظاہر ہوئی۔اہل مدینہ اپنے گھر وں سے اسے دیکھتے تھے۔اس آگ کی روئیں پانی کی طرح جاری ہوئیں اور پہاڑ آگ بن کر رواں ہو ئے۔یہ آگ حاجیوں کے راستۂ عراقی کی طرف روانہ ہو ئی پھر ٹھہر گئی اور زمین کو کھا نے لگی۔رات کے اخیر حصہ سے چاشت کے وقت تک اس میں سے ایک بڑی آواز آتی تھی۔ لوگوں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مدد طلب کی اور گناہ ترک کر دیئے۔یہ آگ ایک مہینہ سے زیادہ روشن رہی۔یہ وہی آگ ہے جس کی خبر جناب مصطفیٰ صَلَواتُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے دی تھی۔کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ’’قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سر زمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی جس سے بصر یٰ میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔‘‘ ایک شخص سے جو رات کے وقت بصریٰ میں تھا روایت ہے کہ اس کو اس آگ کی روشنی میں اونٹوں کی گردنیں نظر آگئیں ۔([196] )

تاتاریوں کا فتنہ اور حادثۂ بغداد

          حضرت ابو بکر ہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ([197] ) سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میری امت کے لوگ ایک پست زمین میں جس کا نام بصر ہ ہوگا ایک دریاکے نزدیک اتریں گے جس کو دجلہ کہتے ہیں ۔ اس دریاپر ایک پل ہو گا۔بصرہ کے باشند ے بکثرت ہوں گے اور وہ شہر مسلمانوں کے بڑے شہروں میں سے ہوگا جب آخر زمانہ آئے گا تو قنطورا کے بیٹے آئیں گے جن کے چہرے فراخ اور آنکھیں چھوٹی ہوں گی یہاں تک کہ وہ اس دریا کے کنارے پر اتریں گے۔اس وقت بصر ہ کے باشندے تین گر وہ ہو جائیں گے۔ ایک گروہ بیلوں کی دموں ([198] ) اور بیابان میں پناہ لے گا اور ہلاک ہو جائے گا اور


 

 ایک گروہ اپنی جانوں کے لئے طالب امان ہوگا اور ہلاک ہو جائے گا اور ایک گروہ اپنی اولاد کو پس پشت ڈال دے گا اور ان سے لڑے گا،وہی حقیقی شہید ہوں گے۔اس حدیث کو ابو داؤد ([199] )نے روایت کیا ہے۔ ([200] )

           اس حدیث میں قنطوراء سے مراد تا تاری لوگ یعنی ترک ہیں کیونکہ قنطوراء حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلام کی ایک لو نڈی کا نام ہے جس کی نسل سے یہ لوگ ہیں ۔ ان کے چہروں کے کشادہ اور آنکھوں کے چھوٹا ہونے میں کسی کو کلام نہیں ۔ البتہ حدیث میں بصر ہ کا لفظ ہے مگر اس سے مراد شہر بغداد ہے کیونکہ دریائے دجلہ اور پل بغداد میں ہیں نہ کہ بصر ہ میں ۔ونیز ترک لڑائی کے لئے اس کیفیت سے جوحدیث میں مذکورہے بصر ہ میں نہیں آئے بلکہ بغداد میں آئے ہیں جیسا کہ مشہور ومعروف ہے۔ حدیث میں بصرہ کا ذکر اس لئے ہے کہ بغداد کی نسبت بصرہ قدیم شہر ہے جس کے مضافات میں سے وہ گاؤں اور مواضع تھے جن میں شہر بغداد بنا۔ علاوہ ازیں بغداد کے نزدیک ایک گاؤں کانام ([201] ) بھی بصرہ ہے۔ ([202] )

          یہ پیشین گوئی ماہ محرم ۶۵۶؁ھ میں پو ری ہو ئی جب کہ چنگیز خاں تاتا ری کے پوتے ’’ہلا کو‘‘ نے شہر بغداد پر لشکر کشی کی۔اس کی مختصر کیفیت ([203] )یہ ہے کہ اس وقت بغداد میں خاندان عباسیہ کا آخری خلیفہ معتصم باللّٰہ مسند خلافت پر متمکن تھا۔اس کا وز یر مؤید الدین محمد بن علی العلقمیفاضل وادیب مگر رافضی تھا اور اس کے دل میں اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے کینہ وبغض تھا۔وزیر مذکور شہزاد ہ ابو بکر اور امیر کبیر رکن الدین دُوَیدار کابھی دشمن تھاکیونکہ یہ دونوں اہل سنت تھے اور انہوں نے یہ سن کر کہ کرخ  ([204] )کے رافضیوں نے اہل سنت سے تعرض کیا ہے ([205] )کرخ کو لوٹ لیا تھا اور روافض کو


 

 سخت سزائیں دی تھیں ۔([206] )ابن علقمی چو نکہ بظاہر ان کے خلاف کچھ نہ کر سکتا تھا اس لئے اس نے پو شید ہ طور پر بذریعہ کتابت تا تا ریوں کو عراق پر حملہ کر نے کی تر غیب دی۔ ہلاکو کے دربار میں حکیم نصیر الدین طوسی رافضی تھا جس نے ابن علقمی کی ترغیب کو اور سہار اد یا اور آخر کارہلاکو کو بغداد پر چڑھائی کے لئے آمادہ کر دیاچنانچہ ہلا کو بڑی تیاری کے ساتھ بغداد پر چڑھ آیا۔لشکر بغداد بسر کر دگی رکن الدین دُوَید ار مقابلہ کے لئے بڑھا اور بغداد سے دو منزل کے فاصلہ پر ہلا کو کے مقدمہ لشکر سے جس کا سر دار تایجو تھا مٹھ بھیڑ ہوئی۔ ([207] ) بغدادیوں کو شکست ہو ئی کچھ تہ تیغ([208] ) ہو ئے ،کچھ پا نی میں ڈوب گئے اور باقی بھاگ گئے۔ تا یجو آگے بڑھا اور دریائے دجلہ کے مغر بی کنارہ پرا ترا۔ہلاکو نے مشرق سے حملہ کیا اور بغداد کو گھیر لیا۔اس وقت ابن علقمی نے خلیفہ کو صلح کا مشور ہ دیا اور کہا کہ میں صلح کی شرائط ٹھہرا نے جاتا ہوں ۔ چنانچہ وہ گیا اور واپس آکر خلیفہ معتصم سے کہنے لگا: اے امیر المومنین! ہلا کو کی دلی خواہش ہے کہ اپنی بیٹی کا نکاح آپ کے بیٹے امیر ابو بکر سے کر دے اور آپ کو منصب خلافت پرقائم رکھے مگر وہ صرف آپ سے اتنا چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت تسلیم کر لیں پھر وہ اپنا لشکر لے کر واپس چلا جائے گا۔لہٰذا آپ اس پر عمل کریں کیونکہ اس طرح مسلمان خونریز ی سے بچ جائیں گے۔یہ سن کر خلیفہ مع ار کان و اَعیانِ سلطنت ([209] ) طالب امن وامان ہو کر نکلا۔وہاں پہنچا تو وہ ایک خیمہ میں اتارا گیا۔ پھر وزیر مذکور شہر میں آیا اور علماء وفقہاء سے کہا کہ آپ شہزاد ہ کے عقدمیں شامل ہوں ۔ چنانچہ وہ بغداد سے نکلے اور قتل کیے گئے۔اسی طرح عقد کے بہانہ سے ایک کے بعد دوسرا گر وہ بلایا گیا اور قتل کیا گیا۔پھر خلیفہ کے حاشیہ نشین ([210] ) طلب ہوئے اور قتل کیے گئے۔ پھر خلیفہ کی سب اولا د قتل ہوئی۔

           خلیفہ کی نسبت کہا گیا ہے کہ کا فر ہلا کو نے اسے رات کے وقت بلا یا اور کئی باتیں دریافت کیں ۔پھر اس کے قتل کا حکم دیا۔ ہلاکو ظالم سے کہا گیا کہ اگر خلیفہ کا خون گرایا جائے گا تو دنیا تا ریک ہو جائے گی اور تیرا ملک تباہ ہو جائے گا کیونکہ وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا کی اولا دمیں سے ہے اور دنیا میں خلیفۃ اللّٰہ ہے۔اس پر وہ سنگدل حکیم نصیر الدین طوسی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ وہ مار ڈالا جائے مگر اس کا خون نہ گرایا جائے۔ چنانچہ بتا ریخ ۲۸ محرم  ۶۵۶؁ھ اس


 

بیچارے کو ایک بوری میں بند کر کے ہتھوڑ وں سے مار ڈالا گیا۔ بعضے کہتے ہیں کہ ا سے لاتوں سے مارڈالا گیا اور اس کے امیر وں سے ایک کو بھی زند ہ نہ چھوڑ ا گیا۔پھر شہر بغداد میں خونر یز ی شروع ہوئی۔اکثر باشند ے شہید ہوئے۔ تیس دن سے کچھ اوپر قتل جاری رہا۔کہا گیا ہے کہ مقتولین کی کل تعداد اٹھا رہ لاکھ تھی۔

          اس کے بعد امان دی گئی جو لوگ چھپے ہو ئے تھے ا ن میں سے اکثر تو زمین کے نیچے ہی طرح طرح کی مصیبتوں سے مر گئے۔جو زند ہ نکل آئے انہوں نے بڑی دقتیں اٹھائیں پھر گھروں کو کھود کر بے شمار دفینے نکالے گئے۔پھر نصاریٰ بلا ئے گئے تاکہ علانیہ شراب خوری کریں اور سور کا گو شت کھا ئیں اور مسلمان بھی ان کے ساتھ شریک ہوں ۔ ستم گار ہلاکو سوار ہو کر قصر خلافت تک آیا اور حرم کی بے آبر وئی کی۔ وہ محل ایک عیسا ئی کو دیا گیامسجد وں میں شراب بہادی گئی اور مسلمانوں کو علانیہ اذان دینے سے منع کیا گیا۔([211] )  لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم ۔

          یہ سب کچھ صرف بغداد میں ہوا۔ بغداد کے علاوہ اور جگہ بھی تاتاریوں نے بہت کچھ کیا۔ اسی واسطے کہاگیا ہے کہ تاتاریوں کے فتنہ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی فتنہ وقوع میں نہیں آیا ہے۔ خلیفہ معتصم باللّٰہ کے ساتھ خاندان عباسیہ کا خاتمہ ہو گیابلکہ یوں سمجھو کہ عرب کی سلطنت روئے زمین سے اٹھ گئی جو قرب قیامت کے آثار میں سے ہے۔

           شیخ سعد ی    عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الہَادِی( متوفی ۶۹۱ھ؁) نے جوحادثۂ بغداد کے وقت زندہ تھے معتصم باللّٰہ کا ایک نہایت درد ناک مر ثیہ لکھا ہے جس میں سے چند اشعا ر ذیل میں درج کیے جاتے ہیں ۔

{1}

آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمین    بر زوالِ ملک معتصم امیرالمومنین

آسمان پر واجب ہے کہ امیر المومنین معتصم کی سلطنت کی تباہی پر زمین پر خون بر سائے۔

{2}

اے محمد گر قیامت را برآری سر ز خاک   سر برآرد ایں قیامت درمیانِ خلق بیں

          اے محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اگرآپ قیامت کو تربت شریف سے نکلیں گے تو ابھی نکل کرخلقت میں یہ


 

 قیامت دیکھ لیجئے۔

{3}

نازنینانِ حرم را خونِ حلق نازنین        زاستاں بگذشت مارا خونِ دل از آستیں

محل کے نازپروردوں کا خون ڈیوڑ ھی سے بہ گیا اور ہمارے دل کا خون آستین سے ٹپک نکلا۔

{4}

زینہار از دورِ گیتی و انقلاب روزگار        در خیالِ کس نہ گشتی کانچناں گردد چنیں

          زمانے کی گر دش اور دنیا کے انقلاب سے پنا ہ مانگنی چاہیے۔یہ بات کسی کے خیال میں نہ آتی تھی کہ یوں سے یوں ہو جائے گا۔

{5}

دید ہ بردار اے کہ دیدی شوکتِ بیت الحرام         قیصرانِ روم سر بر خاک و خاقاں بر زمیں

          اے مخاطب! تو نے بیت الحرام کی سی شان وشوکت دیکھی ہے۔جہاں روم کے قیصر خاک پر سرر گڑتے تھے اور چین کے خاقان زمین پر بیٹھتے تھے۔

{6}

خونِ فرزندانِ عمّ مصطفیٰ شد ریختہ       ہم بر آں خا کے کہ سلطانا ں نہاد ند ے جبیں

          ذر اآنکھ اٹھا کر دیکھ کہ حضرت مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بنی عم ([212] )کا خون اس خاک پر بہایا گیا ہے جہاں بڑے بڑے بادشاہ ماتھا ر گڑتے تھے۔

{7}

دجلہ خوں ناب است زیں پس گر نہد سر در نشیب  خاکِ نخلستانِ بطحا را کند باخوں عجیں

          دریائے دجلہ کا پانی خون ہو گیا ہے۔اگر پستی کی طرف بہے گا تو نخلستانِ بطحا کی خاک کو خون سے رنگیں کر


 

 دے گا۔

 کعبہ شریف کی حجابت  ([213] )

          ہم پہلے فتح مکہ میں اس کے متعلق حضرت عثمان بن طلحہ کی روایت نقل کر آئے ہیں جس میں تین پیشین گو ئیاں ہیں ۔ایک یہ کہ ہجرت سے پہلے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عثمان بن طلحہ سے فرمادیا تھا کہ ایک دن یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی۔ سو اسی کے مطابق فتح مکہ کے روز و قوع میں آیا۔ دوسری یہ کہ آپ نے قریش کی نسبت فرمایا تھا کہ وہ اس دن بجا ئے ہلاک وذلیل ہو نے کے زندگی و عزت پائیں گے۔ اسی کے مطابق فتح مکہ کے دن واقع ہوا۔ قریش نے اسلام میں داخل ہو کر دارین میں حیات طیبہ حاصل کی اور عزت پا ئی۔واقع میں وہ اس سے پہلے ذلت کی زندگی بسر کر رہے تھے کہ ان بتو ں کے آگے سر جھکا تے تھے جنہیں خودانہیں کے ہاتھوں نے تراشا تھا۔ فتح کے دن وہ اس ذلت سے نکل گئے اور ان کو خدا ئے وحدہٗ لاشریک کی عبادت کا شرف حاصل ہوا۔ تیسری یہ کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے حضرت عثمان بن طلحہ کو کنجی دیتے وقت فرمایا کہ یہ کنجی ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی، ظالم کے سوا کوئی اسے تم سے نہ چھینے گا۔ چنانچہ آج تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال ہو چکے ہیں کہ خانہ کعبہ کی کنجی حضرت عثمان بن طلحہ کے خاندان میں رہی۔ اب ابن سعود نجدی نے جو سلوک اس خاندان سے کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ نجدی مذکور حسب ار شاد رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ظالم ہے۔ اللّٰہ  تعالٰی اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے طفیل سے اس فتنہ نجد یہ کا جلدی خاتمہ کر دے۔ آمین ثم آمین۔

محاسنِ ظاہر ی وبا طنی

           حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے او صافِ جمیلہ واخلاقِ جلیلہ منجملہ دلائل و ثبوت ہیں ۔چنانچہ آپ کی طلاقت،  ([214] ) آپ کا حسن منظر اور آپ کا اعتدالِ صورت ایسا تھا کہ اپنوں کا تو کیا ذکر، بیگا نے بھی جب رُوئے


 

 مبارک ([215] ) کو دیکھتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے: ھذا الوجہ لیس بوجہ کذاب ( یہ جھوٹے کا چہر ہ نہیں ہے ) ان شمائل کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حسنِ اخلاق وآداب پر غور کریں ۔آپ اُمی تھے،آپ کی ولادت ایسے شہر میں ہوئی جہاں کوئی ذریعۂ تعلیم نہ تھانہ آپ نے کبھی وطن کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جا کر علم حاصل کیا بلکہ اُمیوں ہی میں یتیمی کی حالت میں نشوو نما پا ئی علوم ومعارف سے قطع نظر یہ مکارم اَخلاق اور محاسن آداب آپ نے بجزوحی الٰہی کہاں سے سیکھے۔

           الغرض جو شخص بنظر انصاف آپ کی صورت ، آپ کی سیر ت، آپ کے اَفعال اور آپ کے اَحوال کا مطالعہ کرتا ہے اسے آپ کی نبوت کی صحت میں ذر ابھی شک نہیں رہتا کیونکہ جو اَوصاف آپ میں مجتمع تھے وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے یا آپ کے زمانہ میں کبھی کسی میں جمع نہیں ہو ئے اور نہ قیامت تک ہوں گے۔

نصاریٰ کا اعتراض

          معجزوں کا اکثر ذکر قرآن میں پایا جاتا ہے مگر کوئی آیت ایسی نظر نہیں آتی جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت محمد صاحب نے معجز ے دکھا ئے ہیں بلکہ بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں معجزے نہ دکھانے کا سبب درج ہے اور بعض ایسی بھی ہیں جن میں وہ صاف ظاہر کر تے ہیں کہ میں معجزے دکھا نے کو نہیں بھیجاگیا۔سورۂ عنکبوت میں یوں مر قوم ہے:

وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(۵۰) (عنکبوت، ع۵)

کہتے ہیں کہ اگر اس کے خدا کی طرف سے کوئی نشانی اس پر نازل نہ ہو گی تو ہم ایمان نہ لائیں گے پس (اے محمد) آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں خدا کے پاس ہیں میں تو ایک نصیحت کرنے والا ہوں ۔([216] )

           پھر سورۂ بنی اسر ائیل میں لکھا ہے :

وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَؕ-

کوئی چیز ہمیں مانع نہیں ہوئی کہ تجھے معجزوں کے ساتھ بھیجیں مگر یہ کہ اگلے پیغمبر وں کو جو ہم نے معجز ے دے کر بھیجا تھا تو انہیں لوگوں


 

نے جھٹلا یا۔([217] )

           اس مضمون کو طو یل کر نا ضروری نہیں اس لئے کہ قرآن کا ہر بے تعصب پڑھنے والا اس قول کی تصدیق کرے گا کہ اکثر محمدی ( مسلمان ) مصنف معجزوں کا ذکر کر کے محمدصاحب سے منسوب کر تے ہیں مگر یہ بات خود محمدصاحب کی باتوں کے خلاف ہے کہ بالکل قابل اعتبار نہیں ۔

( خطوط بنا م جوانانِ ہند۔پنجاب رلیجس بک سوسائٹی لود ھیانہ امریکن مشن پریس ۱۸۹۰ئ؁، صفحہ ۲۴۳۔۲۴۴)

جواب

          عیسائی لوگ مسلمانوں پر اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں مگر انہیں اپنے گھر کی بھی خبر نہیں ۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کے معجزات کی نسبت جو کچھ انا جیل اربعہ ([218] )میں آیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :

{1} مَتّٰی، ([219] )باب ۱۲، آیہ ۳۸۔۳۹میں ہے کہ بعض فقیہیوں اور فریسیوں نے مسیح سے ایک نشان طلب کیاجس کے جواب میں آپ نے فرمایا :

           ’’ اس زمانہ کے بد اور حرامکا ر لوگ نشان ڈھونڈ تے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھا یا نہ جائے گاکیونکہ جیسا یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہے ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔‘‘

          اسی طرح متی، باب ۱۶، آیہ ۱۔۴ میں ہے کہ فریسیوں اور صدوقیوں([220] )نے آزمائش کے لئے حضرت مسیح سے آسمانی نشان طلب کیا مگر یہاں بھی آپ نے وہی جواب دیا کہ یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان انہیں نہ دکھایا جائے گا۔ اگر بنظر غور دیکھیں تو یہ جواب بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ سوال تو آسمانی نشان کا تھا اور جواب میں زمینی نشان کا وعدہ ہوا۔ سوال اَز آسماں جواب اَز رِیسماں ۔([221] )باوجود اس کے اسی انجیل میں مسیح عَلَیْہِ السَّلام سے بہت سے معجز ے منسوب


 

کیے گئے ہیں چنانچہ پانچ روٹیوں سے چار ہزار آدمیوں کا پیٹ بھر ا ( باب ۱۴، آیہ ۱۵۔۲۱) اور دریاپر اپنے پاؤں سے چلے (باب۱۴، آیہ۲۵) پھر سات روٹیوں سے چار ہزار کو کھلایا (باب۱۵،آیہ ۳۸) پھر دو اندھوں کوبینا کیا (باب ۲۰، آیہ ۳۰۔۳۴) پھر انجیر کے درخت کو سکھا دیا (باب ۲۱،آیہ۱۹) وغیرہ۔ اسی طرح جب سردار کاہنوں اور قوم کے بزرگوں نے حضرت مسیح عَلَیْہِ السَّلام سے ان کے اختیار کی بابت پو چھا (باب۱۲،آیہ۲۳۔۲۴) تب بھی آپ نے کچھ صاف جواب نہ دیا۔

{2} مرقس، باب۸، آیہ۱۱۔۱۳ میں ہے کہ فریسیوں نے مسیح کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کرکہا: ’’اس زمانے کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں میں تم سے سچ کہتاہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہ دیا جائے گا۔‘‘

          یہاں یو نس نبی عَلَیْہِ السَّلام کے نشان کا کوئی ذکر نہیں ۔بایں ہمہ ([222] ) اس انجیل میں بھی اندھے کو چنگا ([223] )کرنا، چار ہزار کو سات روٹیوں سے سیر کر نا، کو ڑھی کو چنگا کرنا ([224] )وغیرہ معجزات حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام کی طرف منسوب کیے گئے ہیں ۔

{3} لوقا،([225] )باب۱۱، آیہ۱۴۔۱۶و۳۰ میں ہے کہ مسیح نے ایک دیو کو نکالا مگر دیکھنے والوں نے اس معجزے کو تسلیم نہ کیا بلکہ آزمائش کے لئے ایک آسمانی نشان مانگا۔ آپ نے یونس نبی کے نشان کا وعدہ فرمایا۔ اس انجیل میں اور بھی بہت سے معجزات آپ سے منسوب کیے گئے ہیں ۔ مسیح نے ہیرودیس کو کوئی معجزہ نہیں دکھایا حالانکہ ہیر ودیس آپ کے معجزات دیکھنے کا خواہشمند تھا۔ آپ سے اس نے بہتیری باتیں پو چھیں پر آپ نے کچھ جواب نہ دیا۔

{4}یو حنا، باب۶، آیہ ۳۰میں ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح سے کہا: ’’پس توکو نسا نشان دکھا تا ہے تاکہ ہم دیکھ کر تجھ پرا یمان لاویں ۔‘‘ یہاں بھی حضرت عیسیٰ نے کوئی معجزہ نہیں دکھایابلکہ یونس نبی کے نشان کا بھی وعدہ نہ فرمایا با یں ہمہ اس انجیل میں بھی بہت سے معجزے حضرت مسیح سے منسوب ہیں ۔

          اب ہم اس اعتراض کے تحقیقی جواب کی طرف متوجہ ہو تے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی


 

 عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس قدر معجزات دکھائے کہ کسی نبی نے اپنی امت کو نہیں دکھا ئے۔اور وہ ایسے متواتر و مشہور طریقوں سے ثابت ہیں کہ دنیا کے کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں پا ئی جاتی۔ ( جیسا کہ اس کتاب کے ناظرین پر روشن ہے) مگر کفارِ قریش کے مکابرہ ([226] ) کا یہ عالم تھا کہ وہ معجزات گو یا ان کے نزدیک معجزے ہی نہ تھے اس لئے سر کشی وعنا دکے سبب انہوں نے اور نشانیاں طلب کیں جو عطا نہ کی گئیں ۔ جن دو آیتوں سے معترض نے استدلال کیا ہے۔ان میں ایسی نشانیوں کے نہ ملنے کی وجہ مذکور ہے جس کی تفصیل ذیل میں درج ہے:

وَ مَا مَنَعَنَاۤ اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّاۤ اَنْ كَذَّبَ بِهَا الْاَوَّلُوْنَؕ-وَ اٰتَیْنَا ثَمُوْدَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوْا بِهَاؕ-وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(۵۹) ( بنی اسرئیل، ع۶)

ہم کو نہیں روکا نشانیاں بھیجنے سے کسی شے نے مگر یہ کہ جھٹلا یا ان کو اگلوں نے اور ہم نے دی ثمو د کو او نٹنی سو جھانے کو پھر اس کا حق نہ مانا اور ہم نہیں بھیجتے نشانیاں مگر ڈرا نے کو۔([227] )

          اس آیت کا خلاصۂ تفسیر یہ ہے کہ باری تعالٰی فرماتا ہے کہ قریش جو باوجود معجزاتِ کثیرہ دیکھنے کے اور نشانیاں (مثلاً کوہِ صفاکا سونا ہو جانا،مکہ کے پہاڑ وں کا دور کیا جانا تا کہ زمین قابل زراعت ہو جائے اور نہر وں کا جاری ہو نا تا کہ با غا ت لگ جائیں )  طلب کرتے ہیں ۔ان نشانیوں کے دینے سے ہمیں اس امر([228] )نے روکا ہے کہ اس قسم کی نشانیاں ہم نے پہلی امتوں کو طلب کر نے پر عطا کیں مگر وہ ایمان نہ لا ئے اور ہلاک ہوئے۔ چنانچہ قوم ثمود نے، جن کی ہلاکت کے آثار بو جہ قربِ دِیار، یہ قریش آتے جاتے دیکھتے ہیں ، حضرت صالح عَلَیْہِ السَّلام سے نشانی طلب کی اور ہم نے ان کی دعا سے پتھر سے اونٹنی نکالی مگر اس قوم نے اس سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ اس کے پاؤں کاٹ ڈالے اس لئے وہ لوگ ہلاک ہوگئے۔ ہماری عادت یوں ہی جاری ہے کہ ہم کسی قوم کے سوال پر ایسی آیات کو صرف عذابِ استیصال ([229] )سے ڈرانے کے لئے بطورِ پیش خیمہ بھیجا کر تے ہیں ۔ اگر وہ قوم ان آیات پر ایمان نہ لائے تو ہم ضروران پر عذابِ استیصال نازل کر دیتے ہیں ۔


 

 اسی طرح اگر کفار قریش کے سوال پر وہ نشانیاں ہمارے حبیب کی دعا سے عطا کی جائیں تو یہ بھی انہیں ([230] )  کی طرح تکذیب کریں گے اور عذابِ استیصال کے مستوجب([231] ) ہوں گے مگر ہم نے بمقتضائے حکمت([232] ) اس امت کو عذابِ استیصال سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا ہم نے وہ نشانیاں ان کو عطا نہیں کیں ۔

وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(۵۰)اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠(۵۱)

اور کہتے ہیں کیوں نہ اتریں اس پر کچھ نشانیاں اس کے رب سے تو کہہ نشانیاں تو ہیں اختیار میں اللّٰہ  کے اور میں تو سنا دینے والا ہوں کھول کر کیا ان کو بس نہیں کہ ہم نے تجھ پر اتاری کتاب کہ ان پر پڑھی جاتی ہے۔ بیشک اس میں بڑی رحمت ہے اور سمجھانا ان لوگوں کو جو مانتے ہیں ۔([233] )

           ان آیتوں کا خلاصہ یہ ہے: اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے کہ کفارِ قریش باوجود ملا حظۂ آیات([234] ) سر کشی وعناد کے سبب سے ہمارے حبیب پاک کی نسبت کہتے ہیں کہ ان پر ایسی نشانیاں کیوں نہیں اُتریں جیسا کہ ناقۂ صالح اور عصائے موسیٰ اور مائدۂ عیسیٰ ہیں ۔ اے ہمارے حبیب ! ان کفار سے کہہ دیجئے کہ ایسی نشانیاں اللّٰہ  کی قدرت و حکم میں ہیں وہ ان کو حسب مقتضائے حکمت نازل کر تا ہے۔میرا کام تو یہ ہے کہ ان آیات کے ساتھ جو مجھے ملی ہیں کفارکو ڈراؤں نہ یہ کہ وہ نشانیاں لاؤں جو وہ عنادو تعنت سے طلب کر تے ہیں ۔ اس کے بعد اللّٰہ  تعالٰی ان کفار کی تر دید میں جو ایسی نشانیاں


 

 طلب کر تے ہیں یوں فرماتا ہے: کیا ان کو ایک نشانی کا فی نہیں جو تمام نشانیوں سے مستغنی ([235] ) کر دینے والی ہے یعنی قرآن کریم جو ہم نے تجھ پر اتارا ہے وہ ایک زندہ معجزہ ہے ہر مکان وزمان میں ان پر پڑھا جاتا ہے اور ہمیشہ کے لئے ان کے ساتھ رہے گا۔ اس میں بڑی رحمت اور تذکرہ ہے ایمان والوں کے لئے نہ ان کے لئے جو عنادر کھتے ہیں ۔

          اس تقریر سے واضح ہو گیا کہ آیاتِ بالاسے معجزات کی نفی نہیں پائی جاتی بلکہ ان میں باوجودِ کثرتِ معجزات ان خاص نشانیوں کے نہ ملنے کی وجہ بیان ہو ئی ہے جو کفار نے محض عناد سے طلب کیں ۔لہٰذا عیسا ئیوں کا یہ کہنا کہ قرآن میں کوئی آیت نظر نہیں آتی جس سے ثابت ہو کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معجزے دکھائے صرف عنا د پر مبنی ہے وہ اپنے منہ سے بڑا بول بو لتے ہیں ۔(یہودا ہ، ۱۶)

كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُ جُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْؕ-اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا(۵) (کہف، ع۱)

کیا بڑی بات ہو کر نکلتی ہے ان کے منہ سے سب جھوٹ ہے جو کہتے ہیں ۔([236] )

’’علم غیب‘‘ کے متعلق قرآنی مدنی پھول

             ’’ وَ  مَا  كَانَ  اللّٰهُ  لِیُطْلِعَكُمْ  عَلَى  الْغَیْبِ  وَ  لٰكِنَّ  اللّٰهَ  یَجْتَبِیْ  مِنْ  رُّسُلِهٖ  مَنْ  یَّشَآءُ   ۪-  ‘‘اور اللّٰہ کی شان یہ نہیںکہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دے دے ہاںاللّٰہ  چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔ شانِ نزول:رسول کریمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ خلقت و آفرنیش سے قبل جب کہ میری امت مٹی کی شکل میں تھی اسی وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے براہِ استہزاء کہا کہ محمد مصطفےصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَکا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا کون کفر کرے گا باوجود یکہ ہم ان کے ساتھ ہیں اور وہ ہمیں نہیں پہچانتے اس پر سید عالمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَنے منبر پر قیام فرماکر اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن کرتے ہیں آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ عبداللّٰہ بن حذافہ سہمی نے کھڑے ہو کر کہا :میرا باپ کون ہے یارسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَفرمایا :حذافہ پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے انہوں نے فرمایا: یارسول اللّٰہ! ہم اللّٰہ کی ربوبیت، اسلام کے دین ہونے ،قرآن کے امام ہونے ،آپ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں۔ حضور نے فرمایا :کیا تم باز آؤ گے کیا تم باز آؤ گے پھر منبر سے اترآئے۔(بخاری وغیرہ کتب کثیرہ)قران وحدیث سے ثابت ہوا کہ سید عالمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلَہٖ وَسَلَّمَ کو قیامت تک کی تما م چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا ہے۔ اور حضور کے علم غیب میں طعن کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ (ماخوذ از:خزائن العرفان، آل عمران، تحت الآیت:۱۷۹)


 

       آٹھواں باب

آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے فضائل وخصائص کا بیان

          حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے فضائل و کمالات کا احاطہ طاقت بشری سے خارج ہے۔ علمائے ظاہر و باطن سب یہاں عاجز ہیں ۔ چنانچہ حضرت خواجہ صالح بن مبارک بخار ی خلیفہ مجاز حضرت خواجہ خواجگان سید بہاؤالدین نقشبندی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ’’انیس الطالبین‘‘ ص ۹میں لکھتے ہیں :

          اجماع اہل تصوف است کہ صدیقیت نزدیک ترین مقامے و مرتبہ ایست بہ نبوت وسخن سلطان العار فین ابو یزید بسطامی است قُدِّسَ سِرُّہٗ کہ آخرنہایت صدیقان اول احوالِ انبیاء است واز کلمات قدسیہ و ایشانست کہ نہایت مقام عامۂ مومناں بدایت مقامِ اولیا ست ونہایت مقام اولیاء بدایت مقام شہیدان است و نہایت مقام شہیداں بدایت مقام صدیقان است و نہایت مقام صدیقاں بدایت مقام انبیاء است و نہایت مقام انبیاء بدایت مقام رسل است و نہایت مقام رسل بدایت مقام اولوالعزم است و نہایت مقام اولوالعزم بدایت مقام مصطفیٰ است صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم و مقام مصطفیٰ را نہایت پیدا نیست جز حق جَلَّ وَ عَلَاکسے نہایت مقام وے را نداند و در روزِازل مقام ارواح و بروزِ میثاق ہم بریں مراتب بود کہ ذکر کردہ شد ودر روز ِقیامت ہم بریں مراتب باشد۔([237] )

          صوفیۂ کرام کا اس امر پر اتفا ق ہے کہ نبوت کے سب سے نزدیک مقام و مرتبہ’’ صدیقیت‘‘ ہے۔ اور سلطان العارفین ابو یزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہٗ کا قول ہے کہ صدیقوں کے مقام کی نہایت نبیوں کے مقام کی ابتداء ہے۔ اور انکے کلمات قدسیہ میں سے ہے کہ عامۂ مومنین کے مقام کی غایت ([238] ) اولیاء کے مقام کی ابتداء ہے اور اولیاء کے مقام کی غایت شہیدوں کے مقام کی ابتداء اورشہیدوں کے مقام کی غایت صدیقوں کے مقام کی ابتداء ہے اور صدیقوں کے مقام کی غایت نبیوں کے مقام کی ابتداء ہے ،اور نبیوں کے مقام کی غایت رسولوں کے مقام کی ابتداء ہے، اور رسول کے مقام کی غایت اولو العزم  کے مقام کی ابتداء ہے، اور اولوالعزم کے مقام کی غایت حضرت مصطفیٰ کے مقام کی ابتداء ہے۔ صَلَّی اللّٰہُ


 

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت مصطفیٰ کے مقام کی کوئی انتہاء نہیں اور حق جَلَّ وَعَلَا کے سوا اور کوئی آپ کے مقام کی انتہا نہیں جانتا روزازل میں میثاق کے دن روحوں کا مقام ان ہی مراتب پر تھا جو مذکور ہوئے اور قیامت کے دن بھی ان ہی مراتب پر ہوگا۔

          شیخ ابو الحسن خرقانی قُدِّسَ سِرُّہٗ (متوفی روز عاشورہ ۴۲۵ھ؁) یوں فرماتے ہیں :

          ’’سہ چیز را غایت ندانستم غایت درجات مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ندانستم و غایت کید نفس ندانستم و غایت معرفت ندانستم۔ ‘‘ (نفحات الانس) ([239] )

          مجھے ان تین چیزوں کی غایت وحد معلوم نہ ہوئی: حضرت مصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درجات، مکر نفس، معرفت۔

امام شرف الدین بوصیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (متوفی ۶۹۴؁ھ) اپنے قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں :

دَعْ مَا ادَّعَتْہُ النَّصَارٰی فِیْ نَبِیِّھِمٖ                                          وَاحْکُمْ بِمَا شِئْتَ مَدْحًا فِیْہِ وَاحْتَکِمٖ

فَانْسُبْ اِلٰی ذَاتِہٖ مَاشِئْتَ مِنْ شَرَفٍ                    وَانْسُبْ اِلٰی قَدْرِہٖ مَا شِئْتَ مِنْ عِظَمٖ

فَاِنَّ فَضْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَیْسَ لَہٗ  حَدٌّ فَیُعْرِبَ عَنْہُ نَاطِقٌ بِفَمٖ ([240] )

 

چھوڑ کر دعویٰ وہ جس کے ہیں نصاریٰ مدعی   چاہو  جو  مانو  اسے  زیبا  ہے  اللّٰہ  کی  قسم!

جو شرف چاہو کرومنسوب اس کی ذات سے   کوئی عظمت کیوں نہ ہو ہے منزلت سے اسکی کم

حد نہیں رکھتی فضیلت کچھ رسول اللّٰہ کی     لب کشائی کیا کریں اہل عرب اہل عجم

 شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ’’مدارج النبوت‘‘ میں یوں فرماتے ہیں :   ؎

ہر رتبہ کہ بود در امکان برو ست ختم      ہر نعمتے کہ داشت خدا شد برو تمام ([241] )

شیخ سعدی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  رقم طراز ہیں :


 

یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَرْ                                  مِنْ  وَّجْھِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ

لاَ یُمْکِنُ  الثَّنَآئُ  کَمَا  کَانَ  حَقُّہٗ                                                    بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اے صاحب جمال! اے سید البشر! آپ کے روشن چہرہ سے چاند روشن ہے آپ کی ثنا کماحقہ ممکن نہیں قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ہی بزرگ ہیں ۔

          جو معجزات و کمالات و فضائل دیگر انبیائے کرام صَلَواتُ اللّٰہِ عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن میں جدا جدا موجود تھے ان سب کے نظائریا ان سے بھی بڑھ کر حضورانوربِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ کی ذات شریف میں مجتمع تھے۔    ؎

حسن یوسف دم عیسیٰ یدبیضا داری         آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

بغرض توضیح صرف چند مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں :

انبیائے سابقین  عَلَیْہِمُ السَّلام

{1} حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامآپ کو اللّٰہ  تعالٰی نیتمام چیزوں کے ناموں کا علم دیا آپ کو فرشتوں نے سجدہ کیا۔

سید نا و مولیٰنا محمد مصطفی  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم

سیدناومولیٰنا محمد مصطفی احمد مجتبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کو اللّٰہ  تعالٰی نے اَسماء کے علاوہ مُسَمَّیات کا بھی علم دیا([242] ) جیسا کہ حدیث’’ طبرانی‘‘ و ’’مسند فردوس‘‘ کے حوالہ سے پہلے آچکا ہے۔ آپ پر اللّٰہ  اور اللّٰہ کے فرشتے درود بھیجتے رہتے ہیں اور مومنین بھی سلام و درود بھیجتے ہیں ۔ یہ شرف اتم و اکمل ہے کیونکہ سجدہ تو ایک دفعہ ہوکر منقطع ہوگیا اور درود و سلام ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور اَعَم بھی کیونکہ سجدہ تو صرف فرشتوں سے ظہور میں آیا اور درود میں اللّٰہ اور فرشتے اور مومنین شامل ہیں ۔ علاوہ ازیں امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ’’تفسیر کبیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اللّٰہ  تعالٰی نے فرشتوں کو اس لئے سجدہ کا حکم دیا تھا کہ نور محمدی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلامکی پیشانی میں تھا۔([243] )


 

{2}حضرت ادریس عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کو اللّٰہ تعالٰی نے آسمان پر اٹھایا۔

 آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اللّٰہ  تعالٰی نے شب معراج میں آسمانوں کے اوپر مقام قاب قوسین تک اٹھایا۔([244] )

{3}حضرت نُوح عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو غرق ہونے سے نجات دی۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وجود کی برکت سے آپ  کی امت عذاب استیصال ([245] ) سے محفوظ رہی وَ مَا كَانَ ([246] ) اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- ([247] ) اللّٰہ تعالٰی نے کشتی نوح کو بھی آ پ ہی کے نور کی برکت سے غرق ہونے سے بچایا کیونکہ اس وقت نورِ محمدی حضرت([248] ) سام کی پیشانی میں تھا۔([249] )

{4}ہُودعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ و َالسَّلام  آپکی مدد کیلئے اللّٰہ تعالٰی نے ہوا بھیجی۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ بادصبا([250] )سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد مغربی ہوا سے ہلاک کی گئی۔([251] )

{5}حضرت صالح عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کے لئے اللّٰہ تعالٰی نے پتھر میں سے اونٹنی نکالی آپ فصاــحت میں یگانہ رُوزگار تھے۔

اُونٹ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اطاعت کی اور آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے  کلام کیا۔ فصاحت میں کوئی آپ کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ ([252] )


 

{6}حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  اللّٰہ تعالٰی نے آپ کیلئے آگ کوٹھنڈا کردیا۔

آپ ہی کے([253] ) نو رکی برکت سے حضرت ابراہیم خلیل اللّٰہ پرآگٹھنڈی ہو گئی۔([254] )آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت شریف پر فارس کی آگ جو ہزار برس سے نہ بجھی تھی گل ہو گئی۔ شب معراج  میں  کرۂ نار سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا گزرہوا اور کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی امت میں بھی ایسے بزرگ گزرے ہیں کہ آگ میں ڈالے گئے اور سلامت رہے چنانچہ ابو مسلم  خولانی([255] ) وذُوَیب بن کلیب۔ ([256] )

آپ کو مقام خلت عطا ہوا اسی واسطے آپ کو خلیل اللّٰہ کہتے ہیں ۔

آپ کونہ صرف درجہ خلت عطا ہوا بلکہ اس سے بڑھ کر درجہ محبت عطاہو ا اسی واسطے آپ کو حبیب اللّٰہ کہتے ہیں ۔([257] )

 آپ  نے اپنیقوم کے بت خانے کے بت توڑے۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خانہ کعبہ کے گرد اور اوپر جوتینسو ساٹھ بت نصب تھے محض ایک لکڑی کے اشارے سے یکے بعد دیگرے گرا دئیے۔

آپ نے خانہ کعبہ بنایا۔

 آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھی خانہ کعبہ بنایا اور حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا تاکہ آپ کی امت کے لوگ طواف وہاں سے شروع کیا کریں ۔


{7}حضرت اسمٰعیل عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کو والد بزرگوار ذبح کرنے لگے  تو آپ نے صبر کیا۔

اس کی نظیر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا شق صدر ہے جو وقوع میں آیا حالانکہ ذبح اسمٰعیل وقوع میں نہ آیا بلکہ ان کی جگہدنبہ ذبح  کیا گیا۔([258] )

{8}حضرت یعقوب عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کو جب برادرانِ یوسف نے خبردی کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیاہے تو آپ نے بھیڑیے کو بلا کر پوچھا بھیڑیا بولاکہ میں نے یوسف کو نہیں کھایا۔  (خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص۱۸۲)

آپ سے بھی بھیڑیے نے کلام کیا جیساکہ پہلے آچکا ہے۔([259] )

آپ فراق یوسف میں مبتلا ہوئے اور صبر کیا یہاں تک کہغم کے مارے آپ کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور قریب تھا کہ ہلاک ہو جاتے۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم اپنے صاحبزادے ابراہیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی دائمی مفارقت میں مبتلاہوئے مگر آپ نے صبر کیا حالانکہ اس وقت اور کوئی صاحبزادہ آپ کا نہ تھا۔

{9}حضرت یوسف عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کو اللّٰہ  تعالٰی نے بڑا حسن وجمال عطا فرمایا۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ایسا حسن عطا ہواکہ کسی کو نہیں ہوا حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلام کو تو نصف حسن ملا تھامگر آ پ کو تمام ملا۔([260] )


 

آپ خوابو ں کی تعبیر بیان کرتے تھے مگر قرآن مجید میں صرف تین خوابوں کی تعبیر  آپ سے وارد ہے۔

آپ سے تعبیر رویا کی کثیر مثالیں احادیث میں مذکور ہیں ۔

آپ اپنے والدین اور وطن کے فراق میں مبتلا ہوئے۔

آپ نے اہل اور رشتہ داروں اور دوستوں او ر وطن کو چھوڑکر ہجرت کی۔

{10}حضرت ایوب عَلٰی نَبِیِّنَا و َعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ صابر تھے۔

صبر میں آپ کے احوال حد حصر سے خارج ہیں ۔

{11}حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کو یدبیضا عطا ہوا۔

آپ کی پشت مبارک پر مہر نبوت تھی، علاوہ ازیں آپ سراپا نور تھے، اگر آپ نے نقاب بشریت نہ اوڑھا ہوتا توکوئی آپ کے جمال کی تاب نہ لاتا۔

آپ نے عصا مار کر پتھر سے پانی جاری کردیا۔

آپ نے اپنی انگلیوں سے چشموں کی طر ح پانی جاری کردیا۔([261] )یہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ پتھر سے پانی کا نکلنا متعارف ہے مگر خون وگوشت میں سے متعارف نہیں       آپ کو عصا عطا ہوا جو اژدہا بن جاتا تھا۔

ستون حنانہ جو کھجور کا ایک خشک تنا تھا آپ کے فراق میں رویا اور اس سے اس بچہ کی سی آواز نکلی جو ماں کے فراق میں رو رہا ہو۔([262] )

آپ نے کوہِ طُور پر اپنے رب سے کلام کیا۔

آپ نے عرش پر مقامِ قاب قوسین میں اپنے رب سے کلام کیا اور دیدارِ الہٰی سے بھی بہرہ ور ہوئے اور حالت تمکین میں رہے۔   ؎

موسیٰ زہوش رفت بیک پرتو صفات

تو  عین  ذات  می  نگری  در تبسّمے


 

آپ نے عصا سے بحیرۂ قلزم کو دو پارہ کردیا۔

آپ نے انگشت شہادت سے چاند کو دو ٹکڑے کردیا۔([263] )معجزۂ کلیم تو زمین پر تھا اور یہ آسمان پر وہاں عصا کا سہارا تھا اور یہاں صرف انگلی کا اشارہ۔

{12}حضرت یُوشع عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کے لئے آفتاب ٹھہرایا گیا۔

آپ کے لئے بھی آفتاب غروب ہونے سے روکا گیا۔([264] )

آ پ نے حضرت موسیٰ کے بعد جبارین سے جہاد کیا۔

 آپ نے بدر کے دن جبارین سے جہاد کیا اور ان پر فتح پائی آپ وفات شریف تک جہاد کرتے رہے اور جہاد قیامت تک آپ کی امت میں جاری رہے گا۔

{13}حضرت داؤد عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامآپ کے ساتھ پہاڑ تسبیح پڑھتے تھے۔

آ پ کے دست مبارک میں سنگریزوں نے تسبیح پڑھی بلکہ آپ نے دوسروں کے ہاتھ میں بھی کنکروں سے تسبیح پڑھو ادی۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے طعام میں سے تسبیح کی آواز آیا کرتی تھی کیونکہ پہاڑ تو خشوع و خضوع سے متصف ہیں مگر طعام سے تسبیح معہود ([265] ) نہیں ۔

پرندے آپ کے مسخر کر دئیے گئے۔

پرندوں کے علاوہ حیوانات (اونٹ، بھیڑیئے، شیر وغیرہ) آپ کے مسخرو مطیع کر دئیے گئے۔

آپ کے ہاتھ میں لوہا موم کی طرح نرم ہوجاتا۔

 آپ کے لئے شب معراج میں صخرۂ بیت المقدس خمیر کی مانند ہوگیا تھا پس آپ نے اس سے اپنا براق باندھا۔  ([266] ) (دلائل حافظ ابو نعیم اصفہانی )

آپ نہایت خوش آواز تھے۔

آ پ بھی نہایت خوش آواز تھے چنانچہ ترمذی نے حدیث انس میں نقل کیا ہے: 


وکان نبیکم احسنھم وجھا و احسنھم صوتا۔([267] )

{14}حضرت سلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام آپ کو ملک عظیم عطا ہوا۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو اللّٰہ  تعالٰی نے اختیار دیا کہ نبوت کے ساتھ ملک لیں یا عبودیت آپ نے عبودیت کو پسند فرمایا بایں ہمہ اللّٰہ تعالٰی نے خزائن الارض کی کنجیاں آپ کو عطا فرمائیں اور آپ کو اختیار دیا کہ جس کو چاہیں عطا کریں ۔

آپ کے تخت کو جہاں چاہتے ہوا اُڑا لے جاتی صبح سے زوال تک ایک مہینہ کی مسافت اور زوال سے شام تک ایک مہینے کی مسافت طے کرتے تھے۔

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شب معراج میں براق عطا ہوا جو ہوابلکہ بجلی سے بھی تیز رفتار تھا۔([268] )

جن بقَہْر و غلبہ آپ کے مطیع تھے۔     جن بطوع و رغبت آپ پر ایمان لائے۔

 آپ پرندوں کی بولی سمجھتے تھے۔

آپ اونٹ بھیڑیے وغیرہ حیوانات کا کلام سمجھتے تھے آپ سے پتھر نے کلام کیا جسے آپ نے سمجھ لیا۔

{15}حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامآپ مردوں کو  زندہ اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے تھے۔

آپ نے مردوں کو زندہ اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو  اچھا کیا۔ جب خیبر فتح ہوا تو وہاں کی ایک یہودی عورت نے  آپ کو زہر آلود بکری کا گوشت بطور ہدیہ بھیجا آپ نے بکری کا بازو لیا اور اس میں سے کچھ کھایا وہ بازو بولا کہ مجھ میں زہر ڈالا گیا ہے۔([269] )یہ مردے کو زندہ کرنے سے بڑھکر ہے کیونکہ یہ میت کے ایک جزو کا زندہ ہونا ہے حالانکہ اس کا بقیہ جواس سے الگ تھا مردہ ہی تھا۔


 

آپ نے مٹی سے پرندہ بنا دیا۔

غزوۂ بدر میں حضرت عکاشہ بن محصن کی تلوار ٹوٹ گئی آپ نے ان کو ایک خشک لکڑی دے دی جب انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر ہلائی تو وہ سفید مضبوط لمبی تلوار بن گئی۔([270] )

آپ نے گہوارہ میں لوگوں سے کلام کیا۔

آپ نے ولاد ت شریف کے بعد کلام کیا۔

 آپ بڑے زاہدتھے۔

آپ کا زہد سب سے زیادہ تھا۔

خصائص سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

          فضائل و معجزات مذکور ہ بالا تو وہ ہیں جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور دیگر انبیاء کرامعَلَیْہِمُ السَّلامکے درمیان مشترک ہیں ۔ انکے علاوہ اور فضائل و معجزات وغیرہ ہیں جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مخصوص ہیں ۔ ان کو آپ کے خصائص کہتے ہیں ۔ یہ خصائص بھی بکثرت اور حدوحصر سے خارج ہیں ۔ علامہ جلال الدین سیوطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بیس سال بڑی محنت سے احادیث و آثارو کتب تفسیر وشروح حدیث وفقہ و اصول وتصوف میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے خصائص کا تتبع ([271] )کیا اور ‘’خصائص کبریٰ’‘ اور ‘’ انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب’‘  تصنیف فرمائیں جن میں ہزار سے زائد خصائص مذکور ہیں ۔ جَزاہُ اللّٰہُ عَنَّا خَیْرَ الْجَزائ۔ ([272] ) قطب شعرانی نے ‘’ کَشْفُ الغُمَّہ ‘‘ میں اپنے استاد علامہ سیوطی کے خط سے یہی خصائص نقل کیے ہیں ۔([273] )

          یہ خصائص چار قسم کے ہیں ،اوَّل:  وہ واجبات جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے مختص ہیں مثلاً نماز تہجد۔ دوم : وہ احکام جو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی پر حرام ہیں دوسروں پر نہیں مثلاً تحریم زکوٰۃ۔ سوم: وہ مباحات جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے مختص ہیں مثلاً نماز بعد عصر۔ چہارم: وہ فضائل و کرامات جو حضور انور بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ


 

سے مخصوص ہیں ۔([274] ) اس مختصر میں صرف قسم چہارم میں سے بعض خصائص ذکر کیے جاتے ہیں ۔

{1} اللّٰہ تعالٰی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سب نبیوں سے پہلے پیدا کیا اور سب سے اخیر میں مبعوث فرمایا۔([275] )

{2} عالم اَرواح ہی میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نبوت سے سر فراز فرمایاگیا اور اسی عالم میں دیگر انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی روحوں نے آپ کی روح انور سے استفاضہ کیا۔ ([276] )

{3} عالم اَرواح میں دیگر انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی روحوں سے اللّٰہ تعالٰی نے عہدلیاکہ اگر وہ حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے کو پائیں تو آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں۔ ([277] )

{4} یوم اَلَسْتُ میں سب سے پہلے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بلٰی کہا تھا۔ ([278] )

{5} حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور تمام مخلوقات حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہی کیلئے پیدا کیے گئے۔  ([279] )

{6} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم مبارک عرش کے پایہ پر اور ہرایک آسمان پر اور بہشت کے درختوں اور محلات پر اور حوروں کے سینوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان لکھا گیا ہے۔([280] )

{7}کتب الہامیہ سابقہ تورات وانجیل وغیرہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بشارت درج ہے۔ ([281] )

{8} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بنی آدم کے بہترین قرون، قرناً بعد قرن سے اور بہترین قبائل و خاندان سے


 

 ہیں ۔ یعنی برگزیدہ ترین برگزیدگاں اور بہترین بہتراں اور مہترین مہتراں ([282] ) ہیں ۔  ([283] )

{9} حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے لے کر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے والد ماجد تک اور حضرت حواء سے لے کر حضور کی والدہ ماجدہ تک حضور کا نسب شریف سفاح (زنا) سے پاک و صاف رہا ہے۔([284] )

{10}حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت شریف کے وقت بت اوندھے گر پڑے اور جنوں نے اشعار پڑھے۔([285] )

{11} حضور ختنہ کیے ہوئے، ناف بریدہ اور آلودگی سے پاک و صاف پیدا ہوئے۔ ([286] )

{12} پیدائش کے وقت آپ حالت سجدہ میں تھے اور ہر دو انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔ ([287] )

{13}آپ کے ساتھ پیدائش کے وقت ایسا نو ر نکلا کہ اس میں آپ کی والدہ ماجدہ نے ملک شام کے محل دیکھ لئے۔([288] )

{14} فرشتے حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گہوارے کو ہلایا کرتے تھے۔ آپ نے گہوارے میں کلام کیا۔ چنانچہ آپ چاند سے باتیں کیاکرتے۔ جس وقت آپ اس کی طرف انگشت مبارک سے اشارہ فرماتے وہ آپ کی طرف جھک آتا۔([289] )

{15} بعثت سے پہلے گرمی کے وقت اکثر بادل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سایہ کرتا تھا اور درخت کا سایہ آپ کی طرف آجاتا تھا۔([290] )


 

{16} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سینہ مبارک چاردفعہ شق کیا گیا۔ یعنی حالت رضاعت میں ، دس برس کی عمر شریف میں ، غارِ حرا میں ابتدائے وحی کے وقت، شب معراج میں ۔ جیسا کہ پہلے مذکور ہوا۔ ([291] )

{17} اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ہر عضو کا ذکر کیا ہے جس سے حق جَلَّ وَعَلَا کی کمالِ محبت وعنایت پائی جاتی ہے۔       

قلب مبارک

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱) (نجم،ع۱)([292] )

نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ(۱۹۳) عَلٰى قَلْبِكَ (شعرائ،ع۱۱)([293] )

زبان مبارک

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) (نجم،شروع) ([294] )

فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ (دخان،ع۳)([295] )

چشم مبارک

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷) (نجم،ع۱)([296] )

چہرہ مبارک

قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ- (بقرہ،ع۱۷)([297] )

ہاتھ مبارک اور گردن مبارک

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ (بنی اسرائیل،ع۳)([298] )

سینہ مبارک اور پشت مبارک

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَۙ(۲) الَّذِیْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَۙ(۳) (انشراح،شروع) ([299] )

{18} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا اسم مبارک (محمد) اللّٰہ تعالٰی کے اسم مبارک (محمود) سے مشتق ہے۔([300] )

{19} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اسمائے مبارکہ میں سے تقریباً ستر نام وہی ہیں جو اللّٰہ  تعالٰی کے ہیں ۔

{20} حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاایک اسم مبارک احمد ہے۔ آپ سے پہلے جب سے دنیا پیدا ہوئی کسی کا یہ نام نہ تھاتاکہ اس بات میں کسی کو شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے کہ کتب سابقہ الہامیہ میں جو احمد کا ذکر ہے وہ آ پ ہی ہیں ۔([301] )

{21}آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ کا پروردگار بہشت کے طعام و شراب سے کھلاتا پلاتاتھا۔

{22} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے پیچھے سے ایسا دیکھتے جیسا کہ سامنے سے دیکھتے۔ رات کو اندھیرے میں ایسا دیکھتے جیسا کہ دن کے وقت اور روشنی میں دیکھتے۔([302] )

{23} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دہن مبارک کا لعاب آبِ شور ([303] ) کو میٹھا بنادیتااور شیر خوار بچوں کے لئے دودھ کا کام دیتا۔  ([304] )

{24} جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی پتھر پر چلتے تو اس پر آ پ کے پائے مبارک کا نشان ہوجاتا۔چنانچہ مقام ابر اہیم میں ہے اور سنگ مکہ میں آپ کی کہنیوں کا نشان مشہور ہے۔

{25} حضو ر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بغل شریف پاک و صاف او ر خوشبودار تھی۔ اس میں کسی قسم کی بوئے ناخوش نہ تھی۔ ([305] )

{26} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آواز مبارک اتنی دور تک پہنچتی کہ کسی دوسرے کی نہ پہنچتی چنانچہ جب آپ


 

خطبہ دیا کرتے تھے تو نوجوان لڑکیاں اپنے گھروں میں سن لیا کرتی تھیں ۔([306] )

{27}آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قوت سامعہ سب سے بڑھ کر تھی یہاں تک کہ اکثر اِژدحامِ ملائک کے سبب سے آسمان میں جو آواز پیدا ہوتی ہے آپ وہ بھی سن لیتے تھے۔

          حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام ابھی سدرۃ المنتہی میں ہوتے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انکے بازوؤں کی آواز سن لیتے تھے اور جب وہ وہاں سے آپ کی طرف وحی کیلئے اترنے لگتے تو آپ انکی خوشبو سونگھ لیتے۔ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کی آواز بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سن لیا کرتے تھے۔

{28} خواب میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی چشم مبارک سوجاتی مگر دل مبارک بیدار رہتا۔ بعض کہتے ہیں کہ دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام  کا بھی یہی حال تھا۔([307] )

{29}آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی جمائی اور انگڑائی نہیں لی اور نہ کبھی آپ کو احتلام ہوا۔ دیگر انبیائے کرام بھی اس فضیلت میں مشترک ہیں ۔([308] )

{30} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا پسینہ مبارک کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔ ([309] )

{31} حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میانہ قد مائل بہ درازی تھے، مگر جب دوسروں کے ساتھ چلتے یا بیٹھتے تو سب سے بلند نظرآتے([310] ) تاکہ باطن کی طر ح ظاہری صورت میں بھی کوئی آپ سے بڑا معلوم نہ ہو۔

{32} حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا سایہ نہ تھا کیونکہ آپ نورہی نور تھے اور نو رکا سایہ نہیں ہوتا۔ ([311] )

{33} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدن شریف پر مکھی نہ بیٹھتی اور کپڑوں میں جوں نہ پڑتی۔ ([312] )


 

{34} جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تو فرشتے (بغرضِ حفاظت) آپ کے پیچھے ہوتے اسی واسطے آپ نے اـصحاب کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرمایا کہ تم میرے آگے چلو اور میری پیٹھ فرشتوں کے واسطے چھوڑ دو۔ ([313] )

{35} حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا خون اور تمام فضلات پاک تھے بلکہ آپ کے بول کا پینا شفاء تھا۔([314] )

{36}حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے براز کو زمین نگل جایا کرتی تھی اور وہاں سے کستوری کی خوشبو آیا کرتی تھی۔([315] )

{37} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس گنجے کے سر پر اپنا دست شفاء پھیرتے اسی وقت بال اُگ آتے اور جس درخت کو لگاتے وہ اسی سال پھل دیتا۔

{38} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جس سر پر اپنا دست مبارک رکھتے آپ کے دست مبارک کی جگہ کے بال سیاہ ہی رہا کرتے کبھی سفید نہ ہوتے۔

{39} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رات کے وقت دولت خانے میں تبسم فرماتے تو گھر روشن ہوجاتا۔

{40}حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بدن مبارک سے خوشبو آتی تھی۔ جس راستے سے آپ گزرتے اس میں بوئے خوش رہتی جس سے پتہ چلتا کہ آپ یہاں سے گزرے ہیں ۔

{41}جس چوپائے پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوار ہوتے وہ بول و براز نہ کرتا جب تک کہ آپ سوار رہتے۔

{42}آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعثت پر کاہنوں کی خبریں منقطع ہوگئیں اور شہابِ ثاقب کے ساتھ آسمانوں کی حفاظت کردی گئی اور شیاطین تمام آسمانوں سے روک دیئے گئے۔

{43} حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کا قرین ومؤکل (جن) اسلام لے آیا۔

{44} شب معراج میں حضو ر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے لئے براق مع زین ولگام آیا۔

{45}حضو ر انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شب معراج میں جسد مبارک کے ساتھ حالت بیداری میں آسمانوں سے


 

 اوپر تشریف لے گئے ۔   ؎

بلکہ جائے کہ جانبود آنجا       محرمے جز خدا نبود آنجا

اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے پروردگار جَلَّ شَانُہ کو آنکھوں سے دیکھا اور اس کے ساتھ کلام کیا۔ اسی رات آپ بیت المقدس میں نما ز میں دیگر انبیائے کرا م اور فرشتوں کے امام بنے۔

{46} بعضے غزوات میں فرشتے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ہوکر دشمنوں سے لڑے۔

{47} ہم پہ واجب ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درودو سلام بھیجیں ۔ پہلی امتوں پر واجب نہ تھا کہ اپنے پیغمبروں پر درود بھیجیں ۔

{48}قرآن کریم اور دیگر کتب الہامیہ ([316] )میں اللّٰہ  تعالٰی کی طرف سے سوائے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اور کسی پیغمبر پر درود وارد نہیں ۔

{49} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اللّٰہ  تعالٰی نے وہ کتاب عطا فرمائی جو تحریف سے محفوظ اور بلحاظ لفظ و معنی معجز ہے۔ حالانکہ آپ اُمی تھے، لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے اور نہ عالموں کی صحبت میں رہے تھے۔([317] )

{50}حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو زمین کے خزانو ں کی کنجیاں عطا کی گئیں ۔ چنانچہ آپ کا ارشاد مبارک


 

ہے: اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌوَ اللّٰہُ یُعْطِیْ (میں تو بانٹنے والا ہوں اور اللّٰہ   دیتا ہے) ان خزانوں میں سے جو کچھ کسی کو ملتا ہے وہ آپ ہی کے دست مبارک سے ملتا ہے کیونکہ آ پ حضرت باری تعالٰی کے خلیفۂ مُطْلَق و نائب کل ہیں ۔ جو کچھ چاہتے ہیں باذنِ الٰہی عطافرماتے ہیں ۔

{51}اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جوامع کلم عطا فرمائے ہیں یعنی آپ کے کلام شریف میں فصاحت  و بلاغت اور غوامض معانی اور بدائع حکم اور محاسن عبارات بلفظ موجز و لطیف سب پائے جاتے ہیں ۔

{52}اللّٰہ تعالٰی نے آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو ہر شے کاعلم دیا یہاں تک کہ روح اور ان امور خمسہ کا علم بھی عنایت فرمایا جو سورۂ لقمان کے اخیر میں مذکور ہیں ۔ ([318] )

{53}حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سارے جہان (انس و جن و ملائک) کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔

{54} حضو رانو رعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  سارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔

{55} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے رعب کا یہ حال تھا کہ دشمن خواہ ایک ماہ کی مسافت پر ہوتا آپ اس پررعب سے فتح پاتے اور وہ مغلوب ہوجاتا۔ یہ تخصیص بہ نسبت دیگر انبیائے کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ہے۔ سلاطین و جبابرہ ([319] ) کا معاملہ خارج از مبحث ہے۔

{56} آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے (اور آپ کی امت کے لئے) غنائم ([320] )حلال کردی گئیں ۔ آپ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں ۔

{57} آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے (اور آپ کی امت کے لئے) تمام روئے زمین سجدہ گاہ اور پاک کرنے والی بنادی گئی جہاں نماز کا وقت آجائے اور پانی نہ ملے تیمم کرکے وہیں نماز پڑھ لی جائے۔ دوسری امتوں کے لئے پانی کے سوا کسی اور چیز کے ساتھ طہارت نہ تھی اور نماز بھی معین جگہ کنیسہ وغیرہ کے سوا اور جگہ جائز نہ تھی۔

{58} چاند کا ٹکڑے ہونا، شجر وحجر کا سلام کرنا اور رسالت کی شہادت دینا، حنانہ  ([321] ) کا رونا اورا نگلیوں سے چشمے کی طر ح پانی جاری ہونا، یہ سب معجزات آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو عطا ہوئے۔

{59} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  خاتم النبیین ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کوئی نیا نبی نہ آئے گا۔

{60} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شریعت تمام انبیاء سابقین کی شریعتوں کی ناسخ ہے اور قیامت تک رہے گی۔

{61}حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم  کو اللّٰہ  تعالٰی نے کنایہ سے خطاب فرمایا، بخلاف دیگر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام کے کہ انہیں ان کے نام سے خطاب کیاہے۔ دیکھو آیات ذیل:

{۱} وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) ۱،ع۴)([322] )

{۲} وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) ۱۶،طہ،ع۷)([323] )

{۳} قِیْلَ یٰنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَكٰتٍ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَكَؕ-۱۲،ہود،ع۴)([324] )

{۴} وَ نَادٰى نُوْحُ ﰳابْنَهٗ وَ كَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِیْنَ(۴۲) ۱۲،ہود،ع۴)([325] )

{۵} یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاۚ-۱۲،ہود،ع۷)([326] )

{۶} وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷)

۱،بقرہ،ع۱۵)([327] )


 

{۷} قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ(۱۴۴) ۹،اعراف،ع۱۷)([328] )

{۸} فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ ﱪ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ(۱۵) ۲۰،قصص،ع۲)([329] )

{۹} اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَ عَلٰى وَ الِدَتِكَۘ- ۷،مائدہ،ع۱۵)([330] )

{۱۰} قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴) ۷،مائدہ،ع۱۵)([331] )

{۱۱} یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-۲۳،ص،ع۲)([332] )

{۱۲} وَ وَهَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌؕ(۳۰) ۲۳،ص،ع۳)([333]  )


 

{۱۳} یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ۱۶،مریم،ع۱)([334]  )

{۱۴} كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-۳،آل عمران،ع۴)([335]  )

{۱۵} یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍؕ-۱۶،مریم،ع۱)([336]  )

{۱۶} وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) ۱۷،انبیآء،ع۶)([337]  )

          مگر ہمارے آقائے نامدار بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ  کو اللّٰہ  تعالٰی یوں خطاب فرماتا ہے :

{۱} یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠(۶۴) ۱۰،انفال،ع۸)([338]  )

{۲} یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-۶،مائدہ،ع۱۰)([339]  )

{۳} یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ۲۹،مزمل،شروع) ([340]  )

{۴} یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱) ۲۹،مدثر،شروع) ([341]  )

           جہاں اللّٰہ تعالٰی نے حضور کے نام مبارک کی تصریح فرمائی ہے وہاں ساتھ ہی رسالت یا کوئی اور وصف بیان فرمایا ہے ۔ دیکھو آیاتِ ذیل


 

{۱}  وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ-پ۴، آل عمران، ع۱۵)([342]  )

{۲}  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-۲۶، فتح، ع۴)([343]  )

{۳}  مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ۲۲، احزاب، ع۵)([344]  )

{۴} وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ-كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ(۲) ۲۶، محمد، ع۱)([345]  )

          جہاں اللّٰہ تعالٰی نے اپنے خلیل و حبیب کا یکجا ذکر کیا ہے وہاں اپنے خلیل کا نام لیا ہے اور اپنے حبیب کو نبوت کے ساتھ یاد فرمایا ہے ۔چنانچہ یوں ارشاد ہوا:

          اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاؕ-وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ(۶۸) ۳، آل عمران، ع۷)([346]  )

{62}حضور کو نام مبارک کے ساتھ خطاب کرنے سے اللّٰہ  تعالٰی نے منع فرمایا حالانکہ دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کو نام کے ساتھ خطاب کیا کرتی تھیں ۔دیکھو آیاتِ ذیل

{۱}  قَالُوْا یٰمُوْسَى اجْعَلْ لَّنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمْ اٰلِهَةٌؕ-۹، اعراف، ع۱۶) ([347]  )


 

{۲}  اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-

 ۷، مائدہ، ع۱۵)([348]  )

{۳}  قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۵۳)

۱۲، ہود، ع۵)([349]  )

{۴} قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَاۤ اَتَنْهٰىنَاۤ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ(۶۲) ۱۲، ہود، ع۶)([350]  )

          مگر ہمارے آقائے نامدار بِاَبِیْ ہُوَ وَاُمِّیْ کی نسبت یوں ارشادِ باری ہوتاہے :

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-۱۸،نور،ع۹)([351]  )

{63} حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا نام مبارک اللّٰہ تعالٰی نے اپنی کتاب پاک میں طاعت و معصیت، فرائض واحکام، وعدہ ووعید اور انعام واکرام کا ذکرکرتے وقت اپنے پاک نام کے ساتھ یاد فرمایا ہے۔ دیکھو آیاتِ ذیل:

{۱}  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- ([352]  ) ۵، نسائ،ع۸)

{۲} یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰) ([353]  ) ۹، انفال، ع۳)


 

{۳}  وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)

                                                                                         (پ۱۰، توبہ، ع۹)([354]  )

{۴} اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُؕ-۱۸،نور، ع۹)([355]  )

{۵}  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-۹، انفال، ع۳)([356]  )

{۶} وَ  مَنْ  یُّطِعِ  اللّٰهَ  وَ  رَسُوْلَهٗ  یُدْخِلْهُ  جَنّٰتٍ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَاؕ-وَ  ذٰلِكَ  الْفَوْزُ  الْعَظِیْمُ(۱۳)وَ  مَنْ  یَّعْصِ   اللّٰهَ  وَ  رَسُوْلَهٗ  وَ  یَتَعَدَّ  حُدُوْدَهٗ  یُدْخِلْهُ  نَارًا  خَالِدًا  فِیْهَا   ۪-  وَ  لَهٗ  عَذَابٌ  مُّهِیْنٌ۠(۱۴) ۴، نساء، ع۲)([357]  )

{۷}  اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷) ۲۲، احزاب، ع۷)([358]  )


 

{۸} بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ(۱) ۱۰، توبہ، شروع) ([359]  )

{۹} وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ﳔ وَ رَسُوْلُهٗؕ-۱۰، توبہ، ع۱)([360]  )

{۱۰} اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةًؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠(۱۶) ۱۰، توبہ، ع۲)([361]  )

{۱۱}  اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ(۶۳) ۱۰، توبہ، ع۸)([362]  )

{۱۲}  اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِؕ-۶، مائدہ، ع۵)([363]  )

{۱۳}  قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ

الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠(۲۹) ۱۰، توبہ، ع۴)([364]  )

{۱۴} قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِۚ-۹، انفال، شروع) ([365]  )

{۱۵} وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۱۳) ۹، انفال، ع۲)([366]  )

{۱۶} فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-۵، نسائ، ع۸)([367]  )

{۱۷} وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۙ-وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤۙ-اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۠(۵۹) ۱۰، توبہ، ع۷)([368]  )

{۱۸} وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ ۱۰، شروع) ([369]  )

{۱۹} وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚ-۱۰، توبہ، ع۱۰)([370]  )

{۲۰} وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۹۰) ۱۰، توبہ، ع۱۲)([371]  )


 

{۲۱} وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَۚ-وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُؕ-۲۲، احزاب، ع۵)([372]  )

{64}اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ذکر بلند کیاہے۔ چنانچہ اذان اورخطبے اور تشہد میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کے ساتھ آ پ کا ذکر بھی ہے۔

{65} حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر آ پ کی امت پیش کی گئی اور جو کچھ آپ کی امت میں قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب آپ پر پیش کیا گیا بلکہ باقی امتیں بھی آپ پر پیش کی گئیں جیسا کہ حضرت آد م عَلَیْہِ السَّلام   کو ہر چیز کا نام بتایا گیا۔

{66}آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ  تعالٰی کے حبیب ہیں اور محبت و خلت اور کلام ورویت کے جامع ہیں ۔

{67}جو کچھ اللّٰہ  تعالٰی نے پہلے نبیوں کوانکے مانگنے کے بعد عطافرمایا وہ آپ کو بن مانگے عنایت فرمایا۔ دیکھو امثلہ ذیل:

(الف)حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام نے خدا تعالٰی سے سوال کیا:

وَ لَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَۙ(۸۷)  (شعراء، ع ۵)

اور رسوانہ کر مجھ کو جس دن جی کر اٹھیں ۔([373]  )

        حضور سرورانبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور آپ کی امت کے بارے میں خدا تعالٰی یوں ارشاد فرماتا ہے :

یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗۚ- (تحریم، ع۲)

 جس دن اللّٰہ رسوانہ کرے گا نبی کو اور ان کو جو ایمان لائے ہیں اس کے ساتھ۔([374]  )

             یہاں سوال سے پہلے بشارت ہے۔

(ب) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :

وَ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ(۳۵) ( ابراہیم، ع ۶)

 مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت سے بچا۔([375]  )


حضور سرور انبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حق میں بن مانگے خدا فرماتاہے:

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) (احزاب، ع۴)

اللّٰہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں اے گھر والو اور ستھرا کرے تم کو ستھرا کرنا۔ ([376]  )

          یہ ابلغ ہے اس سے جو حضرت ابراہیم خلیل اللّٰہ کے حق میں ہوا کیونکہ دعائے خلیل تو فقط عبادتِ اَصنام([377]  ) کی نفی کے لئے تھی اور یہ ہرگناہ و نقص کو عام ہے۔ وہ تو اپنے بیٹوں کے حق میں خاص تھی اوریہ عام ہے ہر ایک کوکہ شامل ہے اس کو بیت حضور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کایعنی آ پ کے ازَواج مطہرات اور اولاد وغیرہ۔

(ج) حضرت خلیل اللّٰہ  عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :

وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ(۸۵) (شعراء، ع۵)

مجھے جنت نعیم کے وارثوں میں سے کر۔([378]  )

          حضور سرورِاَنبیاء      صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حق میں بن مانگے خدا فرماتا ہے :   

اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (کوثر)

ہم نے تجھ کو کوثر عطاکیا۔([379]  )

وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) (ضحی)

اور آگے دے گا تجھ کو تیرا رب پھر تو راضی ہوجائے گا۔([380]  )

(د)حضرت خلیل اللّٰہ عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :

وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۸۴) (شعراء، ع۵)

یعنی آئندہ امتوں میں قیامت تک میرا ذکر جمیل قائم رکھ۔ ([381]  )

          حضور سرور انبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو خدا تعالٰی نے بن مانگے اس سے بڑھ کر عطا فرمایا۔ چنانچہ سورۂ  الم نشرح میں وارد ہے:


 

وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴)

اورہم نے تیرا نام بلند کیا۔([382]  )

          لہٰذا حضور ازعرش تا فرش مشہور ہیں اور نماز و خطبہ و اذان میں اللّٰہ کے نام مبارک کے ساتھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا نام مبارک مذکور ہے اور عرش پر، قصورِ بہشت([383]  ) پر، حوروں کے سینوں پر، درختانِ بہشت کے پتوں پر اور فرشتوں کی چشم وابروپر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم شریف لکھا ہوا ہے اور آپ سے پہلے جس قدر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام گزرے ہیں وہ سب آپ کے ثنا خواں رہے ہیں اور قیامت کو ثناخواں ہوں گے۔

(ہ) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام یوں دعا کرتے ہیں :

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵) (طہ، ع۲)

اے میرے پروردگار میرا سینہ میرے واسطے روشن کر دے([384]  )

          حضور سرور انبیاء     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے بن مانگے یوں ارشاد ہوتا ہے:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ (انشراح، شروع)

کیا ہم نے تیرے واسطے تیرا سینہ روشن نہیں کیا۔([385]  )

(و) حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام نے خدا تعالٰی سے کتاب کا سوال کیا۔ اللّٰہ  تعالٰی نے ان سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا پھر دس راتیں اور زیادہ کی گئیں ۔ بعد ازاں کتاب تورات عطاہوئی۔

          مگر حضور سرور انبیاء صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر بغیر کسی وعدۂ سابق کے نزولِ قرآن شروع ہوا۔ چنانچہ باری تعالٰی یوں ارشاد فرماتاہے :

وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّلْقٰۤى اِلَیْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ (قصص، ع۹)

اور توقع نہ رکھتا توکہ اتاری جائے تجھ پر کتاب مگر فضل ہوکر تیرے رب کی طرف سے۔ ([386]  )

{68}اللّٰہ تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رسالت پر قسم کھائی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں وارد ہے:

یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳)

یسٓ! قسم ہے قرآن محکم کی تحقیق تو البتہ پیغمبروں سے ہے۔

{69}اللّٰہ  تعالٰی نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زندگی اور آپ کے شہرکی اور آپ کے زمانے کی قسم کھائی ہے :

(الف)

لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۷۲) (حجر، ع۵)       

یعنی تیر ی زندگی کی قسم ! وہ (قوم لوط) البتہ اپنی مستی میں سرگرداں ہیں ۔([387]  )

اللّٰہ تعالٰی نے کسی اور پیغمبرکی زندگی کی قسم نہیں کھائی۔

(ب)

لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) (سورۂ بلد)     

میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی حالانکہ تو اترنے والاہے اس شہر میں ۔([388]  )

           اس آیت میں اللّٰہ  تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شہر یعنی مکہ معظّمہ کی قسم کھائی ہے جسے پہلے ہی سے شرف ذاتی حاصل تھا مگر حضورِ انور کے نزول سے اور شرف حاصل ہوگیا۔ ‘’ مدارج النبوت ‘‘ میں یوں لکھاہے:

          ’’ در مواہب لدنیہ([389]  )میگوید کہ روایت کردہ شدہ است از عمربن الخطاب  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہ گفت مر آنحضرت را   بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !بہ تحقیق رسیدہ است فضیلت تو نزد خدا بمرتبہ کہ سوگند خورد خدا تعالٰی بحیات تو نہ بحیات سائر انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلام ورسیدہ است فضیلت تو نزد خدا تعالٰی بحدیکہ سوگند خورد بخاک پائے تو وہ گفت لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) یعنی سوگند خوردن ببلد کہ عبارت است از زمین کہ بے سپر میکند آنرا پائے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوگند بخاک پائے حضرت رسالت است ونظر بحقیقت معنی صاف و پاک است کہ غبارے


 

براں نمے نشیند۔ ‘‘([390]  )  

(ج)

وَ الْعَصْرِۙ(۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) (سورۂ عصر)

قسم ہے زمانہ کی ! تحقیق انسان ٹوٹے میں ہے۔ ([391]  )

{70} حضو ر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے وحی کی تمام قسموں کے ساتھ کلام کیا گیا۔

{71}حضور کا رؤیا([392]  ) وحی ہے یہی حال تمام پیغمبروں کا ہے۔ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام

{72}حضور سرورکائنات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر حضرت اسرافیل عَلَیْہِ السَّلام نازل ہوئے جو آپ سے پہلے کسی اور نبی پر نازل نہیں ہوئے۔

{73}حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  بہترین اولاد آدم ہیں ۔

{74}آپ کے پچھلے اگلے گناہ (بالفرض والتقدیر ) معاف کیے گئے ہیں یعنی اگر آپ سے کسی گناہ (تر ک اولیٰ جسے بلحاظ آپ کے منصب جلیل کے گناہ سے تعبیر کیاجائے) کا صدور تصور کیاجائے تو اس کی معافی کی بشارت خدا نے دے دی ہے۔ حالانکہ ایسا تصور میں نہیں آسکتا کیونکہ آپ سے کبھی کوئی گناہ (خواہ ترک اولیٰ ہی ہو) صادر نہیں ہوا۔ کسی دوسرے پیغمبر کوخدا تعالٰی نے حیات دنیوی میں ایسی مغفرت کی بشارت نہیں دی۔

{75}حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  اللّٰہ کے نزدیک اکرم الخلق ہیں اس لئے دیگر انبیاء و مرسلین اور ملائک سے افضل ہیں ۔

{76} اجتہاد میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم سے خطاء (بر تقدیر تسلیم و قوع) جائز نہیں ۔

{77} قبر میں میت سے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت سوال ہوتا ہے۔

{78} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد آپ کی اَزواجِ مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ  سے نکاح حرام کیا گیا۔


 

{79}حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواج مطہرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ  کے اَشخاص واَجسام کا اِظہار خواہ چادروں میں پوشیدہ ہوں (باستثنائے ضرورت) جائز نہ تھا، اسی طرح ان پر شہادت وغیرہ کے لئے منہ ہاتھ کا ننگا کرنا حرام تھا۔

{80} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیوں کی اولاد آپ کی طرف منسوب ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسن اور امام حسین  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما آپ کے صاحبزادے کہلاتے ہیں ۔

{81} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صاحبزادیوں پر تزوج حرام تھا یعنی اگر آپ کی کوئی صاحبزادی کسی مرد کے نکاح میں ہوتو اس مرد پر حرام تھاکہ کسی دوسری عورت سے بھی نکاح کرے۔

{82}جس محراب کی طرف حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز پڑھی اس میں کسی کو اجتہاد و تحری سے دائیں بائیں ہونا جائز نہیں اور اگر کوئی شخص ایسا کرے اور اصرار کرے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں اسی طرح تھی تو وہ کافر ہوگیا اور اگر یہ تاویل کرے کہ یہ محراب جو اب ہے وہ نہیں جو حضور کے زمانہ میں تھی بلکہ اس میں تغیر آگیا ہے تو وہ کافر نہیں ہوتا۔

{83}جس نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوخواب میں دیکھا اس نے بیشک آپ ہی کو دیکھا کیونکہ شیطان آپ کی صورت شریف کی طرح نہیں بن سکتا۔ اس بات پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ جس صورت سے کسی نے آپ کوخوا ب میں دیکھا اس نے آپ ہی کو دیکھا۔ تفاوت آئینے کے حال میں ہے، جس کا آئینۂ خیال زیادہ صاف اور اسلام کے نور سے زیادہ منور ہے اس کا دیکھنا درست تر ا ور کامل تر ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ شیطان کسی نبی کی صورت میں متمثل نہیں ہوسکتا۔

{84} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اسم شریف یعنی محمد کسی کانام رکھنا مبارک اور دنیا اور آخرت میں نافع ہے مگر ا بو لقاسم کنیت رکھنے میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے اسم و کنیت کے درمیان جمع کرنے سے منع کیا ہے اور افراد یعنی اسم و کنیت میں سے ایک کارکھنا جائز بتایا ہے۔ تفصیل مطولات میں ([393]  )  دیکھنی چاہیے۔

{85}کسی کے لئے جائز نہیں کہ اپنی انگوٹھی پر’’ محمد رسول اللّٰہ‘‘ نقش کرائے جیسا کہ حضور کی انگوٹھی پر تھا۔


 

{86} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حدیث شریف کے پڑھنے کے لئے غسل و وضوکرنا اور خوشبو ملنا مستحب ہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ حدیث شریف کے پڑھنے میں آواز دھیمی کی جائے جیسا کہ حضور کی حیات شریف میں جس وقت آپ کلام کرتے حکم الٰہی تھا کہ آپ کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو۔ آپ کے وصال شریف کے بعد آپ کا کلام مروی و ماثور عزت و رفعت میں مثل اس کلام کے ہے جو آپ کی زبان سے سنا جاتا تھا لہٰذا کلام ماثور کی قراء ت کے وقت بھی وہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے اور یہ بھی مستحب ہے کہ حدیث شریف اونچی جگہ پر پڑھی جائے اور پڑھتے وقت کسی کی تعظیم کے لئے خواہ کیسا ہی ذی شان ہو کھڑا نہ ہووے کیونکہ یہ خلاف ادب ہے۔

{87} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حدیث شریف کے قاریوں کے چہرے تازہ و شادماں رہیں گے۔

{88} جس شخص نے بحالت ِایمان ایک لمحہ یا ایک نظر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھ لیا اسے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوگیاطویل صحبت شرط نہیں ۔ ہاں تابعی ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ صحابی کی صحبت میں دیر تک رہا ہو۔

{89} حضو ر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے تمام صحابۂ کرام  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم  عادل ہیں لہٰذا شہادت و روایت میں ان میں سے کسی کی عدالت سے بحث نہ کی جائے جیسا کہ دیگر راویوں میں کی جاتی ہے۔ کیونکہ صحابۂ کرام کی تعدیل ظواہر کتاب و سنت سے ثابت ہے۔

{90} نمازی تشہد میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے یوں خطاب کرتاہے:’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ‘‘ (آپ پر سلام اے نبی )اور آپ کے سوا کسی اور مخلوق کو اس طرح خطاب نہیں کرتا۔ شب معراج میں اللّٰہ  تعالٰی نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو انہیں الفاظ سے خطاب کیا تھا۔ فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ نمازی کو چاہیے کہ تشہد میں شب معراج کے واقعہ کی حکایت واخبار کا ارادہ نہ کرے بلکہ انشاء کا قصد کرے کہ گویا وہ اپنی طرف سے اپنے نبی پر سلام بھیجتاہے۔ اگر حکایت واخبار کی نیت ہوگی تو وہ سلام نمازی کانہ ہوگا اور تشہد جوواجب ہے ادانہ ہوگا لہٰذا نماز واجب الاعادہ ہوگی۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ’’احیا ء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ نمازی کو چاہیے کہ اپنے قلب میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم او ر آپ کے جسم کریم کو حاضر کرکے کہے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ۔ ([394]  )


 

          شیخ عبدالحق محدث دہلوی ‘’ اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات’‘ میں لکھتے ہیں :

          ’’ونیز آنحضرت ہمیشہ نصب العین مومناں وقرۃ العین عابدان است در جمیع احوال و اوقات خصوصاً درحالت عبادت و آخر آں کہ وجود نورانیت وانکشاف دریں محل بیشتر وقوی تراست۔ وبعضے از عرفا گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقت محمدیہ است در ذرائر موجودات و افراد ممکنات۔ پس آنحضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است۔ پس مصلی را باید کہ ازیں معنی آگاہ باشد وازیں شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت متنوروفائض گردد۔ ‘‘([395]  )     

          امام عبدالوہاب شعرانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ میزانِ کبریٰ ( باب صفۃ الصلوٰۃ ) میں لکھتے ہیں کہ میں نے سیدی علی خواص رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ شارع نے نمازی کو التحیات میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود وسلام بھیجنے کا اس لئے امر کیا ہے کہ غافلوں کو آگاہ کردے کہ تم جوا للّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے بیٹھے ہو اس دربار میں تمہارے نبی موجود ہیں ، کیونکہ آپ بارگاہ الٰہی سے کبھی جدا نہیں ہوتے اس واسطے نمازی آپ کو سلام کے ساتھ روبرو خطاب کرتے ہیں ۔([396]  )

{91} جس مومن کوحضور پکاریں اس پر آپ کو جواب دینا واجب ہے خواہ وہ نماز میں ہو۔ حضرت ابو سعید بن معلی کا بیان ہے کہ میں مسجد میں نمازپڑھ رہا تھا مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پکارا میں نہ آیا نماز سے فارغ ہوکر حاضر خدمت ہوا اور میں نے عرض کیا کہ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اللّٰہ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا :

اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (انفال، ع ۳)  

قبول کرو خدا اور رسول کا پکارنا جب وہ پکارے تمہیں اس چیز کیلئے جو تم کو زندہ کرے۔ ([397]  )(صحیح بخاری، تفسیر سورۂ انفال ) ([398]  )


 

          اگر کوئی مومن آپ کو جواب نہ دے تو بالاتفاق گنہگار ہے۔ اس کی نماز کے بارے میں اختلاف ہے کہ باطل ہوجاتی ہے یا نہیں ۔

{92}حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں جیسا کہ آپ کے غیر پر ہے۔ حدیث صحیحین میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جس شخص نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ آگ میں اپنا ٹھکانا بنالے۔ ‘‘([399]  )  ایسے شخص کی روایت خواہ وہ توبہ کرے ہر گز قبول نہ کی جائے گی۔ بعضوں کے نزدیک رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر عمداً جھوٹ باندھنا کفر ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ سخت گناہ عظیم و کبیرہ ہے۔

{93} حضور انورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ازواج مطہرات     رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے حجروں کے باہر سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پکارنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (حجرات، ع۱)

البتہ وہ لوگ جو پکارتے ہیں تجھ کو حجروں کے باہر سے ان میں اکثر عقل نہیں رکھتے اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تو ان کی طرف نکلتا تو یہ البتہ ان کے لئے بہتر ہوتا اور اللّٰہ  بخشنے والا مہربان ہے۔([400]  )

{94}حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے بلند آواز سے کلام کرنا حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔

{95}آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم معصوم ہیں گناہ صغیرہ اور کبیرہ سے عمداً اور سہواً قبل ا ز نبوت اور بعد نبوت۔ یہی مذہب مختار ہے۔

{96} حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر جنون اور لمبی بے ہوشی طاری نہیں ہوئی کیونکہ یہ منجملہ نقائص ہیں ۔ علامہ سبکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا کہ پیغمبروں پر نابینائی وارد نہیں ہوتی کیونکہ یہ نقص ہے۔ کوئی پیغمبر نابینا نہیں ہوا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلام کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ وہ نابینا تھے سو وہ ثابت نہیں ۔ ( برتقدیر ثبوت و ہ نابینا ئی مضر نہیں کیونکہ وہ تحقیق


 

نبوت کے بعد طاری ہوئی) رہے حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلام سوان کی آنکھوں پر پردہ آگیاتھااور وہ پردہ دور ہوگیا۔ مشہور یہ ہے کہ کوئی پیغمبر اصم( بہرا )نہ تھا۔

{97}حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی برآء ت وتنز یہ خو د اللّٰہ  تعالٰی نے فرمادی بخلاف دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کے کہ اپنے مُکَذِّبین([401]  )   کی تردید وہ خود کیا کرتے تھے۔ چنانچہ قوم نوح نے جب ان سے کہا :

اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۶۰)

تحقیق ہم تجھے صریح گمراہی میں دیکھتے ہیں ۔([402]  )  

          ان کی نفی خود حضرت نوح عَلَیْہِ السَّلام نے کی جب ان سے کہا:

قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۱) ۸، اعراف، ع۸)

اے میر ی قوم مجھ میں گمراہی نہیں ولیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔([403]  )  

          قوم ہود نے ان سے کہا:

اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۶۶)

تحقیق ہم تجھ کو بیوقوفی میں دیکھتے ہیں اور تجھے جھوٹوں سے گمان کرتے ہیں ۔([404]  )  

          اس پر ہودعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا:

یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۷) ۸، اعراف، ع۹)

 اے میری قوم مجھ میں بیوقوفی نہیں ولیکن میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں ۔([405]  )  

          فرعون نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام سے کہاتھا:

اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا(۱۰۱)

تحقیق میں تجھے اے موسیٰ! جادو کیا ہوا گمان کرتا ہوں ۔([406]  )


          اس پر حضرت موسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے فرمایا:

وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّكَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا(۱۰۲) ۱۵، بنی اسرائیل، ع۱۲)

 اور تحقیق میں تجھے اے فرعون ہلاک کیا گیا گمان کرتا ہوں ۔([407]  )

          قوم شعیب نے ان سے کہا:

اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ-وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ(۹۱) (ہود، ع۸)

تحقیق البتہ ہم تجھ کو اپنے درمیان کمزور دیکھتے ہیں اگر تیری برادری نہ ہوتی تو البتہ ہم تجھ کو سنگسار کر دیتے اور تو ہم پر قدرت والا نہیں ۔([408]  )

          حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلام اس کا جواب یوں دیتے ہیں :

یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(۹۲) (ہود، ع۸)

اے میری قوم !کیا میری برادری تم پر اللّٰہ سے زیادہ عزیز ہے اور تم نے اسکو اپنی پیٹھ پیچھے ڈالا ہوا ہے، تحقیق میرا پروردگار گھیرنے والاہے اس چیز کو کہ تم کرتے ہو۔ ([409]  )

         کفار نے ہمارے آقا ئے نامدار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نسبت جو طعن و تنقیص کی حق سبحانہ نے بذات خود اسکی تردید فرمادی جس سے حضورعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی شان محبوبیت عیاں ہے۔ چند مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں :



[1] ان مثالوں کے لئے بخاری ومسلم وترمذی اور دلائل ابی نعیم ودلائل بیہقی اور طبرانی دیکھو ۔۱۲منہ

[2] الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۲۷۷۔انس بن مالک،ج۱،ص۲۷۶-۲۷۷۔ علمیہ

[3] جنت۔

[4] اسد الغابۃ،۳۳۶۴۔عبدالرحمن بن عوف،ج۳،ص۴۹۶۔۵۰۰  ۔علمیہ

[5] المستدرک علی الصحیحین،کتاب المغازی و السرایا،ذکر رمیۃ سعد یوم احد۔۔۔الخ، الحدیث:۴۳۷۰، ج۳، ص۵۶۶  ۔علمیہ

[6] سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب، الحدیث:۳۷۰۳،ج۵،ص۳۸۴  ۔علمیہ

[7] صحیح البخاری،کتاب الوضوئ،باب وضع الماء عند الخلائ، الحدیث:۱۴۳،ج۱،ص۷۴  ۔علمیہ

[8] مشکوٰۃ بحوالہ صحیحین، باب فی المعجزات۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث: ۵۸۹۶،ج۲،ص۳۸۷  ۔علمیہ)

[9] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ گھاٹی ِکدار ‘‘ لکھا ہے یہ ہمیں نہیں ملا، البتہ الخصائص الکبریٰ  اور دیگر کتب میں اس طرح ہے   ’’ حتی اذا کنت بثنیۃ کداء وقع نور بین عینی ‘‘   لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے اس وادی کا نام ’’ کدار‘‘ کے بجائے’’ کداء ‘‘  لکھا ہے ۔علمیہ

[10] الخصائص الکبریٰ،باب ما وقع فی اسلام الطفیل بن عمرو الدوسی،ج۱،ص۵ ۲۲  ۔علمیہ

[11] دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ما جاء فی دعائہ لنابغۃ۔۔۔الخ،ج۶،ص۲۳۲  ۔علمیہ

[12] ٹھیک۔

[13] الخصائص الکبری للسیوطی،باب دعائہ لثابت بن زید،ج۲،ص۲۸۳  ۔علمیہ

[14] دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ما جاء فی دعائہ لعروۃ البارقی۔۔۔الخ،ج۶،ص۲۲۰  ۔علمیہ

[15] دلائل النبوۃ للبیہقی،باب اتباع سراقۃ بن مالک۔۔۔الخ،ج۲،ص۴۸۴۔۴۸۵ملتقطاً وملخصاً  ۔علمیہ

[16] شرح الزرقانی علی المواہب،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام،ج۴،ص۳۲۵  ۔علمیہ

[17] صحیح بخاری، تفسیر سورۂ دخان۔  (صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الدخان،الحدیث:۴۸۲۲۔۴۸۲۴،ج۳، ص۳۲۳ملتقطاً  ۔علمیہ)

[18] دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ما جاء فی الجمع بین قولہ: اذا ہلک قیصر۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۹۳۔۳۹۴ملتقطاً  ۔علمیہ

[19] الخصائص الکبریٰ، باب الآیۃ فی الحکم ابن ابی العاص،ج۲،ص۱۳۲  ۔علمیہ

[20] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ محلم بن جشامہ ‘‘ لکھا ہے جبکہ’’ دلائل النبوۃ للبیہقی ‘‘ اور دیگر کتب میں’’ مُحَلِّم بن جَثَّامہ ‘‘ ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ محلم بن جشامہ ‘‘  کے بجائے’’ مُحَلِّم بن جَثَّامہ ‘‘ لکھا ہے۔علمیہ

[21] دلائل النبوۃ للبیہقی،باب: السریۃ التی قتل فیھا محلم۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۰۶  ۔علمیہ

[22] عرب کے دیہات میں رہنے والا۔

[23] یعنی مدینہ کے اطراف میں بادل تھا اور مینہ برستا تھا مگر مدینہ پر نہ بادل تھا نہ مینہ برستا تھا۔۱۲منہ

[24] قنات ایک وادی کانام ہے جو طائف کی طرف سے آتی ہے اور کوہِ احد میں شہداء کی قبروں تک پہنچتی ہے۔۱۲منہ

[25] صحیح البخاری،کتاب الجمعۃ،باب الاستسقاء فی الخطبۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۹۳۳،ج۱،ص۳۲۱  ۔علمیہ

[26] صحیح بخاری، تفسیر سورۂ دخان۔

[27] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تفجر الماء ببرکتہ۔۔۔الخ،ج۷، ص۳۶۔ ۳۷ملخصاً  ۔علمیہ

[28] المعجم الکبیرللطبرانی،باب ما اسند الی عثمان بن حنیف،الحدیث:۸۳۱۱،ج۹،ص۳۱  ۔علمیہ

[29] یہ واقعہ صفحہ نمبر708      پر مُلاحظہ فرمائیے!

[30] مشرق کی طرف منہ کرکے۔

[31] دل جوئی۔

[32] روکنے۔

[33] معززین۔

[34] یعنی تمام عیسائی انہیں کی طرف رجوع کرتے تھے۔

[35] آمادہ نہ ہوئے۔

[36] ترجمۂکنزالایمان:عیسیٰ کی کہاوت اللّٰہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا پھر اے محبوب جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آ ؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللّٰہ  کی لعنت ڈالیں۔(پ۳، اٰل عمرٰن:۵۹۔۶۱)   ۔علمیہ

[37] کم سن۔

[38] زرقانی علی المواہب بروایت ابن ابی شیبۃ وابی نعیم وغیرہما، جزء رابع، ص۴۳۔

[39] ابن سعد کی روایت میں ہے کہ عاقب اور سید کچھ مدت بعد جلد مدینہ آئے اور حضور کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہوئے۔۱۲منہ (المواھب اللدنیۃ وشرح زرقانی،المقصد الثانی،الوفدالرابع عشر،ج۵،ص۱۸۶-۱۹۰ ملتقطًاوملخصًا  ۔علمیہ)

[40] صحیح بخاری، باب علامات النبوت فی الاسلام۔

[41] صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث: ۳۵۷۶، ج۲،ص۴۹۳  ۔علمیہ

[42] یقینی طور پر ثابت ہے۔

[43] اطاعت گزار۔ 

[44] بطور معجزہ۔

[45] ان میں سے۔

[46] اس حدیث کو امام احمد و نسائی نے روایت کیا ہے۔ ( مواہب لدنیہ) اور حافظ ابو نعیم نے بھی دلائل میں نقل کیاہے۔۱۲منہ

[47] اس پر پانی لاد کر لایا کرتے تھے

[48] بے عقل جانور

[49] حق دار۔

[50] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع ۔۔۔الخ،سجودالجمل۔۔۔الخ، ج۶،ص ۵۳۸-۵۴۰  ۔علمیہ

[51] اس حدیث کو ابو داودنے روایت کیاہے۔ (تیسیر الوصول۔مواہب لدنیہ)۱۲منہ

[52] کان کے پیچھے والے حصے پر۔

[53] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع ۔۔۔الخ،سجودالجمل۔۔۔الخ، ج۶،ص ۵۴۳   ۔علمیہ

[54] دلائل حافظ ابو نعیم، ص ۱۳۵۔امام احمد و بزارنے بھی اسے روایت کیا ہے۔ (نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض، جزء ثالث، ص ۸۰)۱۲منہ

[55] دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل الثامن عشر،الحدیث:۲۷۶،الجزئ۲،ص۲۲۶  ۔علمیہ

[56] اس قصہ کو شرح السنہ میں اور ابن عبدالبر نے استیعاب میں اورابن الجوزی نے کتاب الوفامیں نقل کیا ہے۔ (مشکوٰۃ باب فی المعجزات، فصل ثالث)۱۲منہ

[57] یہ واقعہ صفحہ نمبر109      پر مُلاحظہ فرمائیے!

[58] مشکوٰۃ، باب فی المعجزات بحوالہ شرح السنہ۔ خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۶۲میں ہے کہ اس حدیث کو امام احمد و حافظ ابو نعیم نے بسند صحیح روایت کیاہے۔۱۲منہ  (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،فصل الثانی، الحدیث: ۵۹۲۷،ج۲، ص۳۹۴-۳۹۵  ۔علمیہ)

[59] بقول واقدی اس کانام اہبان بن اوس اسلمی تھا جو حرۃ الوبرہ میں ریوڑ چرارہاتھا۔ اہبان مذکور صحابی ہیں جنہوں نے حضر ت امیر معاویہ کے زمانہ میں انتقال فرمایا۔۱۲منہ

[60] حرۃ الوبرہ مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام کانام ہے۔ دیکھو وفاء الوفاء للعلامۃ السمہودی۔۱۲منہ

[61] مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی، باب اشراط الساعۃ۔…(الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی ضروب الحیوانات،باب قصۃ الذئب، ج۲، ص۱۰۲  ۔علمیہ)

[62] اس حدیث کو حافظ ابو نعیم اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔ خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۶۳۔…(الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی ضروب الحیوانات،باب قصۃ الذئب،ج۲، ص۱۰۴  ۔علمیہ)          

[63] جنگل۔

[64] شیر کی کنیت ہے۔۱۲منہ

[65] اس حدیث کو ابن سعد وابو یعلی و بزار وابن منذر وحاکم و بیہقی وابو نعیم نے نقل کیا ہے اور حاکم نے صحیح کہاہے اور بغوی وابن عساکر نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۶۵۔…(الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی ضروب الحیوانات،باب قصۃ الاسد،ج۲، ص۱۰۸  ۔علمیہ)   

[66] گوہ۔

[67] اس حدیث کو بزار وابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ (مواہب لدنیہ) ۱۲منہ

[68] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع کلام الشجر لہ۔۔۔الخ،ج۶،ص۵۱۳۔علمیہ

[69] عرب کے دیہات میں رہنے والا۔

[70] مشکوٰۃ، باب فی المعجزات۔  ( مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۲۵، ج۲، ص۳۹۴۔علمیہ)

[71] اس حدیث کو امام احمد نے اور امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور دارمی وترمذی وحاکم وبیہقی وابو نعیم وابویعلی وابن سعد نے روایت کیا ہے اور ترمذی اور حاکم نے صحیح کہاہے۔ (خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص۳۶)۱۲منہ

[72] عرب کے دیہات میں رہنے والا۔

[73] الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی ضروب الحیوانات،باب فی قدوم الاعرابی من بنی عامر بن صعصعۃ،ج۲،ص۵۹۔علمیہ

[74] اس حدیث کوا مام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے۔ ( مشکوٰۃ، باب فی المعجزات، فصل اول)۱۲منہ

[75] مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۸۸۵،ج۲، ص۳۸۳۔علمیہ

[76] بے جان چیزیں،جیسے ریت، پتھر وغیرہ۔

[77] بیت المقدس کا بڑا پتھر۔

[78] ترمذی شریف، مطبوعہ مطبع احمد ی، جلد ثانی، ص ۲۲۳۔

[79] سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی اٰیات اثبات نبوۃ النبی۔۔۔ الخ، الحدیث:۳۶۴۶،ج۵،ص ۳۵۹۔علمیہ

[80] اس حدیث کو بزار و طبرانی و ابو نعیم و بیہقی نے روایت کیاہے۔ (خصائص کبریٰ۔ مواہب  لدنیہ)۱۲منہ

[81] ابن عسا کر کی روایت میں حدیث انس میں حضرت عثمان غنی کے بعد یوںآیا ہے: ثم صیرھنّ فی ایدینا رجلاً رجلاً فما سبحت حصاۃ منھنّ (خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص ۷۵)پھر حضور نے ان سنگریزوں کو ہم میںسے ایک ایک کے ہاتھ میں رکھامگر ان میں سے کسی سنگریزے نے تسبیح نہ پڑھی۔ ۱۲منہ

[82] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جوحضرت ابوذر کو باوجودیکہ وہ مجلس میں اوروں کی نسبت آپ سے زیادہ قریب تھے سنگریز ے نہ دیئے بلکہ ان کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر و عمرو عثمان کو دیئے اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابوذر خلفاء میں سے نہ تھے۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ وَجَہَہُ بظاہر اس موقع پر حاضر نہ تھے۔۱۲منہ

[83] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶،ص ۴۹۵۔۴۹۷والخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی انواع الجمادات،باب تسبیح الحصی و الطعام، ج۲،ص۱۲۴ ملخصًا۔علمیہ

[84] دیکھو شفائے قاضی عیاض۔۱۲منہ

[85] الشفائ،الباب الرابع۔۔۔الخ،فصل ومثل ھذا فی سائر الجمادات،الجزئ۱،ص۳۰۷۔علمیہ

[86] صحیح بخاری، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔

[87] صحیح البخاری،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام، الحدیث:۳۵۷۹، ج۲،ص۴۹۵ ۔علمیہ

[88] اس حدیث کو بیہقی نے دلائل میں بالطّوالت روایت کیاہے اور ابن ماجہ نے بالاختصار نقل کیا ہے۔ (مواہب لدنیہ)  حافظ ابو نعیم نے بھی دلائل میں اسے روایت کیاہے۔۱۲منہ

[89] ان کے نام مبارک یہ ہیں: فضل، عبداللّٰہ، عبیداللّٰہ، قاسم، معبد، عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم یہ سب ام الفضل کے  بطن سے تھے۔۱۲منہ

[90] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶، ص۵۰۴-۵۰۵۔علمیہ

[91] اس حدیث کو اما م بخاری وامام احمد و ترمذی وابوحاتم نے روایت کیاہے۔ ( مواہب لدنیہ )۱۲منہ

[92] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶، ص۵۰۶۔علمیہ

[93] یہ حدیث نسائی وترمذی ودارقطنی میں ہے۔ (مواہب لدنیہ)۱۲منہ

[94] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ،ج۶، ص۵۰۹۔علمیہ

[95] یعنی جو تجھ پر ہیں ان میں سے ہر ایک نہیں ہے مگر نبی یاصدیق یا شہید۔ مطلب یہ کہ ان میں سے ہر ایک اوصاف ثلاثہ سے خارج نہیں۔۱۲منہ

          (یعنی ان میں کوئی ایک نبی ، کوئی ایک صدیق اور کوئی ایک شہید ہے ۔علمیہ)

[96] عشرۂ مبشر ہ جو دس صحابی ہیں۔ جن کورسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنت کی بشارت دی۔ ان کے نام مبارک یہ ہیں: حضرت ابو بکر و عمرو عثمان و علی و طلحہ و زبیر وسعد ابن ابی وقاص وعبدالرحمن بن عوف وابو عبیدہ بن جراح و سعید بن زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم۔۱۲منہ

[97] دیکھو مواہب لدنیہ اور مدارج النبوۃ۔…(المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تسبیح الطعام۔۔۔الخ، ج۶، ص۵۰۹۔۵۱۲ملخصًاوملتقطًا۔علمیہ)

[98] اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیاہے۔(مشکوٰۃ، باب فی المعجزات)۱۲منہ

[99] مشکوٰۃ اور بخاری شریف میں یہاں یہ الفا ظ بھی ہیں :  ’’حتی أخذہا فضمہا إلیہ فجعلت تئن أنین الصبی الذی یسکت ‘‘  اور اس ستون کے پاس آکر اسے اپنے سے چمٹالیا وہ سسکیاں بھر نے لگا اس بچے کی طرح جسے چپ کرایا جاتا ہے ۔ بقیہ حدیث اسی طرح ہے جو مصنف نے ذکر کی ہے۔علمیہ

[100] مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۰۳، ج۲،ص۳۸۸ ۔علمیہ

[101] ترجمۂکنزالایمان: حق آیا اور باطل مٹ گیابیشک باطل کو مٹنا ہی تھا (پ۱۵،بنی اسراء یل:۸۱)۔علمیہ

[102] ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہاللّٰہ  نے پھینکی۔ (پ۹، الانفال:۱۷)۔علمیہ

[103] صحیح مسلم، غزوۂ حنین۔

[104] صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر،باب فی غزوۃحنین،الحدیث:۱۷۷۷،ص۹۸۰۔علمیہ

[105] یعنی حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا غیب جاننا اور جو ہوچکا اور جو ہوگا اس کے بارے میں بتانا یہ بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا معجزہ ہے۔علمیہ

[106] یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکو علم غیب خود سے ہے اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جو غیب کی خبریں ارشاد فرمائیں ان کا علم اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔علمیہ

[107] ترجمۂکنزالایمان:اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(پ۲،البقرۃ:۱۴۳)۔علمیہ

[108] ترجمۂکنزالایمان:یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم خفیہ طور پر تمہیں بتاتے ہیں۔(پ۳،اٰل عمرٰن:۴۴)۔علمیہ

[109] ترجمۂکنزالایمان:اور اللّٰہ  کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگوتمہیں غیب کا علم دیدے ہاں اللّٰہچن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔(پ۴،اٰل عمرٰن:۱۷۹) ۔علمیہ

[110] ترجمۂکنزالایمان:اور اللّٰہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللّٰہ  کا تم پر بڑا فضل ہے۔  

(پ۵،النسائ:۱۱۳)  

[111] ترجمۂکنزالایمان:یہ غیب کی خبریں ہیں کہ ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیںانہیں نہ تم جانتے تھے نہ تمہاری قوم اس سے پہلے ۔

(پ۱۲،ہود:۴۹)  

[112] ترجمۂکنزالایمان:یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے جب انہوں نے اپنا کام پکا کیا تھا اور وہ داؤں چل رہے تھے۔(پ۱۳،یوسف:۱۰۲) ۔علمیہ

[113] ترجمۂکنزالایمان:اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔(پ۲۷،النجم:۱۰)۔علمیہ

[114] ترجمۂکنزالایمان:غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

(پ۲۹،الجن:۲۶۔۲۷)۔علمیہ 

[115] ایمان والے۔

[116] تفسیر روح البیان،سورۃ البقرۃ،تحت الایۃ:۱۴۳،ج۱،الجزئ۲،ص۲۴۸۔علمیہ

[117] پ۲،البقرۃ:۱۴۳۔علمیہ           

[118] یعنی نیند کی حالت۔

[119] مکتوبات احمدیہ، جلد اول، مکتوب ۹۹۔…(مکتوبات امام ربانی،دفتر اول،حصہ دوم،مکتوب۹۹،ج۱،ص۹۹۔علمیہ)

[120] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد العاشر، الفصل الثانی فی زیارۃ قبرھ الشریف ۔۔۔الخ،ج۱۲،ص۱۹۵۔علمیہ

[121] امت کو ملاحظہ فرمانے اور ان کے حالات،نیتیں ارادے اور دلی خیالات کا علم ہونے میں۔

[122] المدخل،فصل فی زیارۃ القبور،الوجہ الثالث،ج۱،ص۱۹۰۔علمیہ

[123] انتباہ الاذکیاء فی حیات الانبیائ، مطبوعہ مطبع محمدی واقع لاہور۔…(الحاوی للفتاوی،کتاب البعث،انباء الاذکیاء بحیاۃ الانبیائ، ج۲، ص۱۸۴۔علمیہ)

[124] مشکوٰۃ، کتاب الفتن، فصل اول۔

[125] مشکاۃکتاب الفتن،الفصل الاول،الحدیث:۵۳۷۹،ج۲،ص۲۷۸ ۔علمیہ

[126] صحیح مسلم، جلد ثانی، کتاب الفتن۔

[127] صحیح مسلم،کتاب الفتن۔۔۔الخ،باب اخبار النبی فی ما یکون الی۔۔۔الخ، الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶۔علمیہ

[128] صحیح مسلم، کتاب الفتن۔…(صحیح مسلم،کتاب الفتن۔۔۔الخ،باب ھلاک ھذھ الامۃ بعضھم۔۔۔الخ، الحدیث:۲۸۸۹، ص۱۵۴۴ ۔علمیہ)

[129] صحیح البخاری،کتاب الفتن،باب قول النبی ویل للعرب۔۔۔الخ،الحدیث:۷۰۶۰، ج۴،ص۴۳۱۔علمیہ

[130] عبارت است ازحصو ل تمام علوم جزئی وکلی واحاطۂ آں۔ اشعۃ اللمعات۔۱۲منہ

[131] ترجمۂکنزالایمان:اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی اور اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے۔(پ۷،الانعام:۷۵)۔علمیہ

[132] مشکوٰۃ، کتاب الصلوٰۃ، باب المساجد۔  …(مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلوۃ،باب المساجد ومواضع الصلاۃ،الحدیث: ۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲۔علمیہ)

[133] مشکوٰۃ، کتاب الایمان، باب الایمان بالقدر، فصل ثانی۔…(مشکاۃ المصابیح،کتاب الایمان،باب الایمان بالقدر، الحدیث: ۹۶،ج۱،ص۳۹۔علمیہ)

[134] مواہب لدنیہ، مقصد ثامن، فصل ثالث۔ (المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الثامن،الفصل الثالث فی انبائہ بالانباء المغیبات،ج۱۰،ص۱۲۶۔علمیہ)

[135] مواہب لدنیہ، مقصد ثامن، فصل ثالث۔  (المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی، المقصد الثامن،الفصل الثالث فی انبائہ با لانباء المغیبات،ج۱۰،ص۱۲۳۔علمیہ)

[136] پانی و مٹی میں۔

[137] خصائص کبریٰ للسیوطی، جز ء ثانی، ص ۱۹۷۔…(شرح الزرقانی علی المواھب،المقصد الرابع،الفصل الثانی فیما خصہ اللّٰہ بہ۔۔۔الخ،ج۷، ص۷۹۔علمیہ)

[138] مواہب لدنیہ، کتاب فی المعجزات والخصائص، الفصل الثانی فیما خصہ اللّٰہ  تعالیٰ بہ من المعجزات۔ ایک روایت میں میری امت کی بجائے دنیا کالفظ ہے۔ دیکھو زرقانی۔…( المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع، الفصل الثانی فیما خصہ اللّٰہ بہ۔۔ ۔۔الخ،ج۷،ص۷۹۔علمیہ)

[139] القصیدتان،البردۃ للبوصیری،الفصل العاشر فی ذکر المناجات،ص۳۶۔علمیہ

[140] شعر۔

[141] شرح شیخ زادہ علی ہامش عقیدۃ الشہدۃ، تحت فان من جودک الدنیا۔۔۔۔الخ،ص۲۱۹۔علمیہ

[142] ترجمۂکنزالایمان:اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے۔(پ۵،النسائ:۱۱۳)۔علمیہ

[143] صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الکھف،باب واذ قال موسی لفتاہ لا ابرح ۔۔۔الخ،الحدیث:۴۷۲۵، ج۳، ص۲۶۶۔علمیہ

[144] ترجمۂکنزالایمان:اور وہ نہیں پاتے اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے۔(پ۳،البقرۃ:۲۵۵) ۔علمیہ

[145] تفسیر ’’روح البیان          ‘‘  میں اس رسالے کا نام ’’ الرسالۃ الرحمانیۃ فی بیان الکلمۃ العرفانیۃ ‘‘  لکھا ہے ممکن ہے مصنف کے پاس  ’’روح البیان‘‘ کا جو نسخہ ہو اس میں ’’ الرسالۃ الرحمانیۃ فی بیان الکلمۃ الفرقانیۃ ‘‘ ہی ہو (کتابت کی غلطی کا بھی احتمال ہے)۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم …(تفسیر روح البیان،سورۃ البقرۃ،تحت الایۃ:۲۵۵،ج۱،الجزئ۳،ص۴۰۳)۔علمیہ

[146] القصیدتان، البردۃ للبوصیری، الفصل الثالث فی مدح رسول اللّٰہ،ص۱۲-۱۳۔علمیہ

[147] ابتداء و انتہا۔

[148] ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللّٰہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہوبہانے نہ بنا ؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر۔ (پ۱۰،التوبۃ:۶۵۔۶۶)۔علمیہ

[149] الدر المنثور فی التفسیر الما ثور،سورۃ التوبۃ،تحت الایۃ:۶۵،ج۴، الجزئ۱۰،ص۲۳۰۔علمیہ

[150] غیب کی خبریں دینا۔

[151] صحیح مسلم،کتاب الفتن۔۔۔الخ،باب فی الآیات التی۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۰۱،ص۱۵۵۱۔علمیہ    

[152] حج کا موقوف ہو جانا۔

[153] حضرت سیدنا امام یوسف بن اسمٰعیل نبہانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں: ’’ حج موقوف ہونے کا واقعہ          ۳۲۰  ؁ ھ میں ہوااور فرقۂ قرامطہ کے فتنہ کے سبب بغداد شریف سے ۳۲۷  ؁ ھ تک حج کا سلسلہ موقوف رہا ۔ اسی طرح ۳۲۴  ؁ھ میں عراق سے آنے والے حاجیوں کو راستے سے واپس لوٹنا پڑا کیونکہ اُصَیغَر اَعرابی نے انہیں باج (ٹیکس)لیے بغیر گزرنے سے روک دیا،اہل یمن و شام بھی حج نہ کرسکے ،صرف مصریوں نے حج کی سعادت پائی۔ خلافت بنو عثمان میں، شیخ علوان حموی کے دور میں بھی شام کے راستے سے حج کا سلسلہ کئی سال موقوف رہا ۔اور حجر اسود اُکھیڑ کر لے جانے کا واقعہ خلیفہ مُقْتَدِربِاللّٰہ کے دور میں ہوااس نے جب حاجیوں کے ہمراہ منصور دیلمی کو مکہ مکرمہ روانہ کیا اور قافلہ مکہ مکرمہ پہنچا تو اسی دوران دشمن خدا ابو طاہر قَرْمَطی یوم ترویہ کو وہاں پہنچ گیا اس نے مسجد حرام میں ہزاروں حاجیوں کو قتل کیا، حجر اسود کو اپنے گرز سے توڑ ڈالا اور اکھیڑ کر لے گیا ۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ تک حجر اسود قَرَامِطہ کے قبضہ میں رہا پھرجب عباسی خلیفہ مطیع کے دور میں یہ مغلوب ہوئے تو حجر اسود کو لا کر دوبارہ کعبۃ اللّٰہ شریف کی دیوار میں نصب کردیا گیا۔ (حجۃ اللّٰہ علی العالمین،القسم الرابع،الباب الثانی،الفصل الثالث،ص۵۸۹)علمیہ

[154] ہریالی،سبزہ۔

[155] نقد بفتح نون وقاف۔ ایک قسم کی بدشکل بکری ہوتی ہے جس کے ہاتھ پائوں چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ ذلت میں ضرب المثل ہے۔ چنانچہ کہا جاتاہے: اَذَلُّ مِنَ النَّقَدِیعنی نقد سے زیادہ ذلیل۔ اس کی جمع نقاد ہے۔        

[156] ماں باپ کی نافرمانی۔     

[157] حقیر۔       

[158] حلیۃ الاولیائ،عبداللّٰہ بن عبید بن عمر،الحدیث:۴۴۴۸،ج۳،ص۴۱۰-۴۱۱وسنن الترمذی، کتاب الفتن،باب ما جاء فی علامۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۲۲۱۸،ج۴،ص۹۰وصحیح البخاری،کتاب العلم،باب رفع العلم وظہورالجھل،الحدیث:۸۱،ج۱،ص۴۷وبھار شریعت،ج۱،حصہ اول،ص۱۱۶-۱۱۹۔علمیہ       

[159] موتیوں کے ہار۔         

[160] سنن ابی داود،اول کتاب الملاحم،باب مایذکر من ملاحم الروم،الحدیث:۴۲۹۲-۴۲۹۳،ج۴، ص۱۴۸-۱۴۹ اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن،باب اشراط الساعۃ،ج۴،ص۳۳۸۔علمیہ     

[161] بچے ہوئے۔ 

[162] سنن ابی داود،کتاب المھدی،الحدیث:۴۲۸۲۔۴۲۸۴۔۴۲۸۶،ج۴،ص۱۴۴-۱۴۵سنن ابی داود،کتاب المھدی،الحدیث:۴۲۹۰،ج۴،ص۱۴۷۔علمیہ 

[163] سنن ابی داود،کتاب المھدی،الحدیث:۴۲۸۶،ج۴،ص۱۴۵اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن،باب اشراط الساعۃ، ج۴،ص۳۳۸۔علمیہ

 1  صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب فی فتح قسطنطینیۃ۔۔۔الخ،الحدیث:۳۴-(۲۸۹۷ ص۱۵۴۸-۱۵۴۹، سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب الملاحم، الحدیث: ۴۰۸۹،ج ۴، ص۴۱۶صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اقبال الروم۔۔۔الخ،الحدیث: ۳۷۔(۲۸۹۹ص ۱۵۴۹سنن ابی داؤد، کتاب المھدی، الحدیث: ۴۲۸۲، ج ۴، ص ۱۴۴۔علمیہ     

[164] وہ لشکر جو فوج سے آگے دشمن کی نقل و حرکت کا پتا لگانے کے لیے بھیجا جائے ۔

[165] صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اقبال الروم۔۔۔الخ،الحدیث :۳۷۔(۲۸۹۹ص ۱۵۵۰۔علمیہ

[166] صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اقبال الروم۔۔۔الخ،الحدیث :۳۷۔(۲۸۹۹ص ۱۵۵۰۔علمیہ

[167] سنن ابی داؤد، اوّل کتاب الملاحم، باب فی تواتر الملاحم،الحدیث: ۴۲۹۶، ج ۴، ص۱۵۰۔علمیہ

[168] کانا،ایک آنکھ نہ ہونا۔

[169] فوجی دستے۔

[170] المسند للامام احمد بن حنبل، الحدیث : ۱۴۹۵۹،ج ۵، ص ۱۵۶و فیض القدیر،حرف الدال،فصل فی المحلی بال من ہذاالحروف،ج ۳،ص ۷۱۹صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال۔۔۔الخ، الحدیث: ۱۱۰ (۲۹۳۷ص ۱۵۶۹صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال۔۔۔الخ، الحدیث : ۱۰۳۔ (۲۹۳۳ص ۱۵۶۷شرح المسلم للنووی، کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب ذکر الدجال، ج ۷ ، الجزء ۱۸، ص ۶۰صحیح مسلم ،کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی صفۃ الدجال۔۔۔الخ، الحدیث :۱۱۳۔(۲۹۳۳) ، ص ۱۵۷۱مشکاۃ المصابیح،کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعۃ۔۔۔الخ،الحدیث :۵۴۹۱،ج ۲، ص۳۰۲ سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن ، باب فتنۃ الدجال۔۔۔الخ، الحدیث :۴۰۷۷،ج ۴، ص ۴۰۶۔علمیہ

[171] سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن،باب فتنۃ الدجال۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۰۷۷،ج۴،ص۴۰۶۔۴۰۷ سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال ۔۔۔الخ، الحدیث :۴۰۷۵،ج۴،ص۴۰۲ مشکاۃ المصابیح، کتاب الفتن ، باب اشراط الساعۃ،الحدیث :۵۴۵۶، ج ۲، ص ۲۹۳۔علمیہ

[172] سات مملکتیں:عرب، ایران، توران، چین، ہند، مصر، یونان یا پھر تما م ممالک۔

[173] دو کوہانوں والے بڑے اُونٹوں کی گردن کی طرح۔

[174] خاندان۔

[175] سنن الترمذی،کتاب الفتن،باب ماجاء فی فتنۃ الدجال، الحدیث :۲۲۴۸،ج۴،ص۱۰۴۔۱۰۵…مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی الساعۃ ، تحت الحدیث :۵۴۷۵،ج۹،ص ۳۸۸…فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب الفتن،باب یاجوج ماجوج،تحت الحدیث:۷۱۳۶،ج۱۴،ص۹۱۔۹۲…صحیح مسلم ،کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب لاتقوم الساعۃ۔۔۔الخ،الحدیث :۶۰۔(۲۹۱۰۰۶۱۔(۲۹۱۱) ، ص ۱۵۵۶…التذکرۃ فی احوال الموتی وامور الاٰخرۃ (مترجم)حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمین پر قیام کرنے کی مدت ۔۔۔الخ، ج۲،ص ۶۱۶۔علمیہ

[176] تفسیر الطبری ، سورۃ الدخان، تحت الاٰیتان: ۱۰۔۱۱، الحدیث : ۳۱۰۶۱، ج ۱۱، ص ۲۲۷۔علمیہ

[177] الدرالمنثور فی التفسیر المأثور، الانعام :۱۵۸،ج۳،ص ۳۹۲۔۳۹۷۔علمیہ

[178] حضرت سیدنا سلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ السَّلام کی مبارک انگوٹھی۔

[179] الدرالمنثور فی التفسیر المأثور، النمل : ۸۲،ج۶،ص۳۷۹۔۳۸۱…سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب دابۃ الارض، الحدیث :۴۰۶۶، ج ۴، ص ۳۹۳۔۳۹۴۔علمیہ

[180] سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن، باب اشراط الساعۃ ، الحدیث :۴۰۷۵،ج۴،ص۴۰۶…صحیح البخاری، کتاب الحج، باب قول اللّٰہ تعالٰی جعل اللّٰہ الکعبۃ۔۔۔إلخ، الحدیث:۱۵۹۱،ج ۱، ص ۵۳۶،عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، باب قول اﷲ تعالٰی جعل اللّٰہ الکعبۃ۔۔۔إلخ،تحت الحدیث: ۱۵۹۱،ج۷،ص۱۵۵۔۱۵۶۔علمیہ

[181] فراوانی۔

[182] مرقاۃ المفاتیح، کتاب الفتن، باب العلامات بین یدی۔۔۔إلخ،تحت الحدیث:۵۴۶۴، ج ۹ ، ص ۳۶۷۔علمیہ

[183] ترجمۂکنزالایمان:آج کس کی بادشاہی ہے۔(پ۲۴،المؤمن:۱۶) ۔علمیہ

[184] ترجمۂکنزالایمان:ایک اللّٰہ سب پر غالب کی۔ (پ۲۴،المؤمن:۱۶)۔علمیہ           

[185] دوبارہ۔

[186] صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب ذھاب الایمان آخر الزمان ،الحدیث :۲۳۴،ص۸۸…شعب الایمان، باب فی حشر الناس۔۔۔إلخ،فصل فی صفۃ یوم القیامۃ ، الحدیث :۳۵۳،ج۱، ص ۳۱۲۔۳۱۳۔علمیہ

[187] صحیح بخاری و مسلم، کتاب الفتن۔ امام بخاری کی ولادت ۱۹۲ھ؁ میں اور وفات ۲۵۶ھ؁ میں، امام مسلم کی ولادت ۲۰۴ھ؁ میں اور وفات ۲۶۱ھ؁ میں ہوئی۔۱۲منہ

[188] ملک شام کے ایک شہر کانام۔۱۲منہ

[189] صحیح مسلم،کتاب الفتن۔۔۔الخ،باب لاتقوم الساعۃ حتی تخرج نار من ارض الحجاز،الحدیث:۲۹۰۲،ج۱، ص:۱۵۵۲۔علمیہ

[190] بروز منگل۔

[191] بدھ کی شب۔

[192] مفصّل حالات کے لیے دیکھو وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ للعلامۃ السمہودی المتوفی ۹۹۱ ھ؁ ،جزء اول، صفحہ ۹۹ تا ۱۰۶۔۱۲منہ

[193] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں امیر مدینہ کا نام ’’ عزالدین منیف بن شیمہ ‘‘  لکھا ہے یہ ہمیں نہیں ملا، البتہ ’’ وفاء الوفا للسمہودی ‘‘ اور دیگر کتب میں ’’ عِزُّالدین مُنیف بن شِیْحَۃ ‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ عزالدین منیف بن شیمہ ‘‘ کے بجائے ’’عزالدین مُنیف بن شِیْحَۃ ‘‘ لکھا ہے۔و اللّٰہ تعالی اعلم۔علمیہ

[194] وفاء الوفاء باخبار دارا لمصطفی،الباب الثانی۔۔۔الخ،الفصل السادس عشر فی ظھور نار الحجاز۔۔۔الخ،ج۱،الجزء ۱، ص۱۴۲-۱۵۰ملخصاً۔علمیہ

[195] شرح النووی علی صحیح مسلم،کتاب الفتن۔۔۔الخ،باب لاتقوم الساعۃ حتی تخرج نار من ارض الحجاز،تحت الحدیث:۲۹۰۱،الجزء الثامن عشر،ج۹،ص۲۸ ۔علمیہ

[196] طبقات الشافعیۃ الکبری، الطبقۃ السادسۃ فیمن توفی۔۔۔إلخ،الجزء ۸، ص ۲۶۶۔علمیہ

[197] سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس حدیث کے راوی کانام حضرت ’’ابو بکر صدیق ‘‘لکھا ہے یقینایہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ (جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے )’’ابوداود‘‘اوردیگر کتب میں یہ حدیث حضرت ’’ابو بکرہ ‘‘ سے مروی ہے لہٰذاہم نے یہاں حضرت ’’ابو بکر صدیق ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کے بجائے حضرت ’’ابو بکرہ  ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ )لکھا ہے۔  واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ علمیہ        

[198] یعنی اہل و عیال اور مال و اسباب کو بیلوں پر لادکر جنگل کو چلے جائیں گے۔۱۲منہ

[199] ابو دائود کی ولادت ۲۰۲ھ؁ میں اور وفات ۲۷۵ھ؁ میں ہوئی۔۱۲منہ

[200] مشکوٰۃ، کتاب الفتن،باب الملاحم، فصل ثانی۔۱۲منہ(مشکاۃ المصابیح،کتاب الفتن،باب الملاحم،الحدیث:۵۴۳۲، ج۲،ص۲۸۹۔علمیہ)

[201] اشعۃ اللمعات ترجمہ مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب الملاحم۔

[202] اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن،باب الملاحم،ج۴، ص۳۲۸۔علمیہ

[203] مفصل حالات کے لئے دیکھو طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للتاج السبکی المتوفی ۷۷۱؁ھ، جزء خامس، ص۱۱۰تا ۱۱۶۔۱۲ منہ

[204] کرخ بفتح اول وثانی و خائے معجمہ دہے است قریب بغداد وقیل محلّہ ازبغدا د۔ غیاث اللغات۔۱۲منہ

[205] مزاحمت کی ہے۔

[206] غیاث اللغات،باب کاف عربی، فصل کاف مع راء مھملۃ،ص۵۶۲۔علمیہ

[207] لڑائی ہوئی۔

[208] قتل۔

[209] مصاحبین و وزرائ۔

[210] مصاحبین و معززین۔

[211] طبقات الشافیعۃ الکبری، الطبقۃ السادسۃ فیمن توفی۔۔۔إلخ، الجز۸، ص ۲۶۹۔۲۷۲۔علمیہ

[212] چچا کے بیٹے۔

[213] کعبہ شریف کی دربانی اور کنجی کی پاسبانی۔

[214] خوش بیانی۔

[215] چہرہِ انور۔

[216] ترجمۂکنزالایمان:اور بولے کیوں نہ اتریں کچھ نشانیاں ان پر ان کے رب کی طرف سے تم فرماؤ نشانیاں تو اللّٰہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں۔(پ۲۱،العنکبوت:۵۰)۔علمیہ

[217] ترجمۂکنزالایمان:اور ہم ایسی نشانیاں بھیجنے سے یوں ہی باز رہے کہ انہیں اگلوں نے جھٹلایا۔ (پ۱۵،    بنی اسرٰء یل:۵۹)۔علمیہ

[218] چاروں انجیلوں۔         

[219] ایک انجیل کا نام۔

[220] حضرت سیدنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلام  کے دور مبارک کا ایک فرقہ جو قیامت کا منکر تھا۔

[221] کہاوت ہے یعنی سوال کچھ اور جواب کچھ  ۔

[222] اس کے باوجود۔         

[223] ٹھیک یعنی انکھیارا۔

[224] کوڑھی کو اچھا کرنا۔

[225] ایک انجیل کا نام۔

[226] غرور و تکبر۔

[227] ترجمۂکنزالایمان:اور ہم ایسی نشانیاں بھیجنے سے یوں ہی باز رہے کہ انہیں اگلوں نے جھٹلایا اور ہم نے ثمود کو ناقہ دیا آنکھیں کھولنے کو تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو۔ (پ۱۵، بنی اسرٰء یل:۵۹)۔علمیہ

[228] بات۔

[229] ایسا عذاب جو انہیں بالکل نیست و نابود کر دے۔

[230] مَاۤ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَاۚ-اَفَهُمْ یُؤْمِنُوْنَ(۶) (انبیاء، ع۱)نہیں مانا ان سے پہلے کسی بستی نے جس کو ہلاک کیاہم نے اب یہ کیا مانیں گے۔ترجمۂکنزالایمان: ان سے پہلے کوئی بستی ایمان نہ لائی جسے ہم نے ہلاک کیا تو کیا یہ ایمان لائیں گے۔ (پ۱۷،الانبیائ:۶)۔علمیہ  

[231] لائق۔

[232] ازروئے حکمت۔علمیہ…حکمت یہ کہ ان میں سے بعض ایمان لائیں گے اور بعض کی نسل سے مومن پیدا ہوں گے۔ فافہم۔۱۲منہ

[233] ترجمۂکنزالایمان:اور بولے کیوں نہ اتریں کچھ نشانیاں ان پر ان کے رب کی طرف سے تم فرماؤ نشانیاں تو اللّٰہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو یہی صاف ڈر سنانے والا ہوں اور کیا یہ انہیں بس نہیں کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔ (پ۲۱،العنکبوت:۵۰۔۵۱)۔علمیہ

[234] نشانیاں دیکھنے کے باوجود۔

[235] بے نیاز۔

[236] ترجمۂکنزالایمان:کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نِرا جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ (پ۱۵،الکہف:۵)

[237] انیس الطالبین (مترجم قسم اوّل، ولی اور ولایت کی تعریف، ص ۳۴۔علمیہ

[238] انتہاء۔

[239] نفحات الانس۔

[240] القصیدتان، البردۃ للبوصیری، الفصل الثالث فی مدح رسول اللّٰہ، ص ۱۳۔علمیہ

[241] مدارج النبوت۔

[242] یعنی نہ صرف تمام چیزوں کے ناموں کا علم دیا بلکہ ان چیزوں کا بھی علم عطا فر دیا۔

[243] التفسیر الکبیر،سورۃ البقرۃ،تحت الایۃ:۲۵۳،ج۲،الجزئ۳،ص۵۲۵۔علمیہ

[244] پ ۲۷، سورۃالنجم:۹۔علمیہ

[245] ایسا عذاب جو انہیں بالکل نیست و نابود کر دے۔

[246] یعنی اللّٰہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دینے کا جس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہیں۔۱۲منہ

[247] ترجمۂکنزالایمان:اور اللّٰہ  کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔

 (پ۹،الانفال:۳۳)۔علمیہ  

[248] دیکھو زرقانی علی المواہب، جزء ثالث، ص ۵۴۔۱۲منہ

[249] شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالاول۔۔۔الخ، غزوہ تبوک۔۔۔الخ،ج۴،ص۱۰۴۔علمیہ

[250] خصائص کبریٰ بحوالہ صحیحین، جزء اول، ص ۲۳۰۔

[251] شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالاول۔۔۔الخ،غزوہ خندق۔۔۔الخ،ج۳،ص۵۵۔علمیہ

[252] الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی ضروب الحیوانات،باب قصۃ الجمل،ج۲،ص۹۵۔علمیہ

[253] جب غزوۂ تبوک کے بعد رمضان   ۹ھ ؁میں حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو حضرت عباس نے آپ کی اجازت سے آپ کی مدح میں چند شعر کہے۔ ان میں سے ایک شعر یہ ہے:

 وردت نار الخلیل مکتتما        فی صلبہ انت کیف یحترق

          آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت خلیل اللّٰہعَلَیْہِ السَّلَام  کی آگ میں پوشیدہ داخل ہوئے آپ ان کی پشت میں تھے وہ کیسے جل سکتے تھے۔

        طبرانی وغیرہ نے اس قصہ کو روایت کیاہے۔ دیکھو مواہب وزرقانی، غزوۂ تبوک۔۱۲منہ

[254] شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالاول۔۔۔الخ، غزوہ تبوک۔۔۔الخ،ج۴، ص۱۰۵۔علمیہ

[255] خصائص کبریٰ، جزء ثانی، ص۷۹۔

[256] الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ…الخ،باب:الایۃ فی عدم  احراق النار…الخ،ج۲،ص۱۳۳۔علمیہ

[257] زرقانی علی المواہب، جزء خامس، ص۱۹۳۔(التفسیر الکبیرسورۃ البقرۃ،تحت الایۃ:۲۵۳، الحجۃ السابعۃ عشر، ج۲، الجزئ۶، ص۵۲۴۔علمیہ)

[258] شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالخامس۔۔۔الخ، فی تخصیصہ بخصائص  المعراج،ج۸، ص۲۸-۲۹۔علمیہ

[259] الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی ضروب الحیوانات،باب:قصۃ الذئب ،ج۲، ص۱۰۴۔علمیہ

[260] الخصائص الکبریٰ، باب اختصاصہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم بأنہ اوّل النبیّین۔۔۔إلخ،ج ۲، ص ۳۱۵۔علمیہ

[261] الخصائص الکبریٰ،ذکر بقیۃ المعجزات ۔۔۔الخ،باب:نبع الماء من بین  اصابعہ۔۔۔الخ،ج۲،ص۶۷۔علمیہ

[262] الخصائص الکبریٰ،ذکر معجزاتہ فی ضروب الجمادات،باب:حنین الجذع،  ج۲،ص۱۲۶۔علمیہ

[263] شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالرابع فی معجزاتہ الدالۃ۔۔۔الخ،ج۶،ص۴۷۷۔علمیہ

[264] شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالرابع فی معجزاتہ الدالۃ۔۔۔الخ، رد الشمس لہ ۔۔۔الخ،ج۶،ص۴۸۴-۴۸۵۔علمیہ

[265] یعنی معروف۔

[266] دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل الثلاثون فی ذکر مؤازاۃ الانبیائ،الرقم۵۳۹،الجزئ۲،ص۳۵۳۔علمیہ

[267] الشمائل المحمدیۃ،باب:ما جاء فی قراء ۃ رسول اللّٰہ،الحدیث:۳۰۳، ص۱۸۳ و فتح الباری لابن حجر،کتاب مناقب الانصار،باب المعراج،تحت الحدیث:۳۸۸۸،ج۷،ص۱۷۹۔علمیہ

[268] مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل، باب:فی المعراج، الحدیث:۵۸۶۳،ج۲،ص۳۷۷ ۔علمیہ

[269] المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ، غزوہ خیبر۔۔۔الخ،ج۳، ص۲۹۰۔علمیہ

[270] المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الاول،باب:غزوۃ بدر الکبری،ج۲،ص۳۰۱۔علمیہ

[271] نقل۔

[272] اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  انہیں ہماری طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔

[273] کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ،کتاب النکاح،القسم الثامن: فیما اختص بہ من الکرامات و الفضائل،الجزئ۲،ص۶۲۔علمیہ

[274] کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ، کتاب النکاح ، الباب الاوّل فی بیان جملۃ من خصائص۔۔۔إلخ، ج ۲، ص ۵۳، ۶۴۔علمیہ

[275] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ، ج۱، ص۷۶۔علمیہ

[276] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱، ص۶۳۔علمیہ

[277] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی ، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱، ص۷۷۔علمیہ

[278] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی ، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱،ص۶۷۔علمیہ

[279] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ،ج۱، ص۸۹-۹۱ملخصًا۔علمیہ

[280] الخصائص الکبریٰ، باب:خصوصیتہ بکتابۃ اسمہ الشریف مع اسم اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۲-۱۳۔علمیہ

[281] الخصائص الکبریٰ، باب:ذکرہ فی التوراۃ والانجیل و سائر الکتب۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۸۔علمیہ

[282] مہتر کی جمع،مہتر :سردار،بزرگ۔

[283] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۳۰۔علمیہ

[284] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی، المقصد الاول۔۔۔الخ،فی تشریف اللّٰہ تعالی لہ ۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۲۷۔علمیہ

[285] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،فی مدۃ حملہ ج۱، ص۱۹۷ملتقطًا۔علمیہ

[286] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ، باب:ذکر تزویج  عبد اللّٰہ امنۃ ، ج۱،ص۲۳۲ملتقطًا۔علمیہ

[287] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،باب:ذکر تزویج عبد اللّٰہ امنۃ ، ج۱،ص۲۰۹ملتقطًا۔علمیہ

[288] الخصائص الکبریٰ،باب:ما ظھر فی لیلۃ مولودہ من المعجزات۔۔۔الخ،ج۱،ص۷۹۔علمیہ

[289] الخصائص الکبریٰ، باب: مناغاتہ للقمر وھو فی مھدھ ،ج۱،ص۹۱۔علمیہ

[290] الخصائص الکبریٰ، باب: سفر النبی مع عمہ ابی طالب الی الشام ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۴۳۔علمیہ

[291] الخصائص الکبریٰ، باب: ما ظھر  فی زمان رضاعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ، ج۱،ص۹۳ملتقطاوالمواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی،المقصد الاول۔۔۔الخ،باب:شق صدرہ، ج۱،ص۲۸۸ملتقطا۔علمیہ

[292] ترجمۂکنزالایمان:دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ (پ۲۷،النجم:۱۱)۔علمیہ

[293] ترجمۂکنزالایمان:اُسے روح الا مین لے کر اترا تمہارے دل پر۔ (پ۱۹،الشعرائ:۱۹۳۔۱۹۴)۔علمیہ

[294] ترجمۂکنزالایمان:اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔(پ۲۷،النجم:۳)۔علمیہ

[295] ترجمۂکنزالایمان: تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کیا۔(پ۲۵،الدخان:۵۸)۔علمیہ

[296] ترجمۂکنزالایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔ (پ۲۷،النجم:۱۷)۔علمیہ

[297] ترجمۂکنزالایمان:ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔(پ۲، البقرۃ:۱۴۴)۔علمیہ

[298] ترجمۂکنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ۔ (پ۱۵، بنی اسرٰء یل:۲۹)۔علمیہ

[299] ترجمۂکنزالایمان:کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیااور تم پر سے تمہاراوہ بوجھ اتار لیا جس نے تمہاری پیٹھ توڑی تھی۔ (پ۳۰، الم نشرح :۱۔۳) ۔علمیہ  

[300] الخصائص الکبریٰ، باب:اختصاصہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باشتقاق اسمہ الشریف ۔۔۔الخ،ج۱،ص۱۳۴۔علمیہ

[301] شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالثانی۔۔۔الخ،الفصل الاول فی اسمائہ ۔۔۔الخ،ج۴، ص۲۳۲۔۲۳۴ ملخصًا۔علمیہ

[302] الخصائص الکبریٰ، باب:المعجزۃ والخصائص فی عینیہ الشریفتین،  ج۱،ص۱۰۴ملتقطًا والخصائص الکبریٰ، باب: المعجزۃ والخصائص فی عینیہ الشریفتین،ج۱،ص۱۰۴۔علمیہ

[303] کڑوا پانی۔

[304] الخصائص الکبریٰ،باب:الایات فی فمہ الشریف وریقہ واسنانہ،ج۱،ص۱۰۵ والخصائص الکبریٰ،باب:الایات فی فمہ الشریف وریقہ واسنانہ،ج۱،ص۱۰۵۔علمیہ

[305] سنن دارمی،المقدمۃ،باب فی حسن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم،الحدیث:۶۳،ج۱،ص۴۵۔علمیہ

[306] الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی صوتہ وبلوغہ حیث لا یبلغہ،ج۱،ص۱۱۳۔علمیہ

[307] الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی نومہ،ج۱،ص۱۱۸۔علمیہ

[308] الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی حفظہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاحتلام، ج۱، ص۱۲۰۔علمیہ

[309] الخصائص الکبریٰ،باب:الاٰیۃ فی عرقہ الشریف،ج۱،ص۱۱۶۔علمیہ

[310] الخصائص الکبریٰ،باب:الایۃ فی طولہ،ج۱،ص۱۱۶۔علمیہ

[311] الخصائص الکبریٰ،باب:الایۃ فی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل، ج۱، ص۱۱۶۔علمیہ

[312] الخصائص الکبریٰ،باب:فی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لا ینزل الذباب۔۔۔الخ، ج۱،ص۱۱۷۔علمیہ

[313] المواھب اللدنیۃ مع شرح زرقانی ، المقصد الثالث ۔۔۔الخ، الفصل الاول فی کمال خلقتہ  وجمال صورتہ، ج۵، ص۵۲۳۔علمیہ

[314] الخصائص الکبریٰ، باب: الاستشفاء ببولہ ،ج۱، ص۱۲۲۔علمیہ

[315] الخصائص الکبریٰ، باب:المعجزۃ فی بولہ ،ج۱، ص۱۲۰۔۱۲۱۔علمیہ

[316] آسمانی کتابیں۔

[317] علامہ ابو الولید باجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’ قرآنِ پاک میںہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّم نزولِ قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اورنہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ۔اس سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّم کا امی ہونا متحقق ہوگیا (کیونکہ اہل کتاب کہتے تھے کہ ہماری کتابوں میں نبی آخر الزماں کی صفت یہ مذکور ہے کہ وہ امی ہوں گے نہ لکھیں گے نہ پـڑھیں گے )اور یہ نفی نزولِ قرآن سے پہلے کے زمانہ کے ساتھ مقید ہے لہٰذا نزولِ قرآن کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّم کا لکھنا پڑھنا تصریح قرآن کے منافی نہیں بلکہ یہ آپ کا معجزہ ہے اور یہ دوسرا معجزہ ہے کہ آپ نے بغیر کسی دنیاوی استاذ کی تعلیم کے پڑھا بھی اور لکھا بھی۔‘‘ ابن دحیہ فرماتے ہیں کہ اس مسئلے میں علمائے کرام کی ایک جماعت نے علامہ ابو الولید باجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی موافقت فرمائی ہے جن میں ابوذر ہروی، ابوالفتح نیشاپوری اور افریقہ و دیگر ممالک کے علماء رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی شامل ہیں۔بعض علماء نے فرمایا کہ علامہ باجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی دلیل ابن ابی شیبہ کی یہ حدیث ہے: حضرت عون بن عبداللّٰہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّمنے وفات نہ پائی یہاں تک کہ آپ نے لکھا اور پڑھا۔ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری ملاحظہ فرمائیں۔(فتح الباری لابن حجر،کتاب المغازی،  باب عمرۃ القضائ، تحت الحدیث:۴۲۵۱،۴۲۵۲،ج۷،ص۴۲۹ ملخصاً)۔علمیہ  

[318] کشف الغمہ للشعرانی بحوالہ خصائص للسیوطی، جزء ثانی، ص ۳۶۔(الخصائص الکبریٰ، باب: اختصا صہ بالنصر  بالرعب مسیرۃ شھرامامہ۔۔۔الخ ،ج۲، ص۳۳۵۔علمیہ)

[319] ظلم کرنے والے۔

[320] غنیمتیں۔

[321] ستونِ حنانہ۔

[322] ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے ۔ (پ۱،البقرۃ:۳۵)۔علمیہ

[323] ترجمۂکنزالایمان:آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔(پ۱۶،طہ:۱۲۱)۔علمیہ

[324] ترجمۂکنزالایمان:فرمایا گیا اے نوح کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کیساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر۔(پ۱۲،ہود:۴۸)۔علمیہ

[325] ترجمۂکنزالایمان:اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا اور وہ اس سے کنارے تھا اے میرے بچے ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔(پ۱۲،ہود:۴۲)۔علمیہ

[326] ترجمۂکنزالایمان:اے ابراہیم اس خیال میں نہ پڑ۔(پ۱۲،ہود:۷۶)۔علمیہ

[327] ترجمۂکنزالایمان:اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بیشک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ۱،البقرۃ:۱۲۷)۔علمیہ

[328] ترجمۂ کنزالایمان:فرمایا اے موسیٰ میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اور اپنے کلام سے تو لے جو میں نے تجھے عطا فرمایا اور شکر والوں میں ہو۔(پ۹،الاعراف:۱۴۴)۔علمیہ

[329] ترجمۂکنزالایمان:تو موسیٰ نے اس کے گھونسا مارا تو اس کا کام تما م کردیا کہا یہ کام شیطان کی طرف سے ہوابیشک وہ دشمن ہے کھلا گمراہ کرنے والا۔(پ۲۰،القصص:۱۵)۔علمیہ

[330] ترجمۂکنزالایمان:جب اللّٰہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ یاد کر میرا احسان اپنے اوپر اور اپنی ماں پر۔(پ۷،المائدۃ:۱۱۰)۔علمیہ    

[331] ترجمۂکنزالایمان:عیسیٰ ابن مریم نے عرض کی اے اللّٰہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ (پ۷،المائدۃ:۱۱۴) ۔علمیہ

[332] ترجمۂکنزالایمان:اے داؤد بیشک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللّٰہ کی راہ سے بہکادے گی۔(پ۲۳،ص:۲۶)۔علمیہ

[333] ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے داؤد کوسلیمان عطا فرمایا کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا۔ (پ۲۳،ص:۳۰)۔علمیہ

[334] ترجمۂکنزالایمان:اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ۱۶،مریم:۷)۔علمیہ  

[335] ترجمۂکنزالایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے۔ (پ۳،اٰل عمرٰن:۳۷)۔علمیہ  

[336] ترجمۂکنزالایمان:اے یحییٰ کتاب مضبوط تھام۔(پ۱۶، مریم:۱۲)

[337] ترجمۂکنزالایمان:اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث۔

(پ۱۷،الانبیائ:۸۹)۔علمیہ  

[338] ترجمۂکنزالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللّٰہ  تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔

(پ۱۰،الانفال:۶۴)۔علمیہ

[339] ترجمۂکنزالایمان:اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے۔ (پ۶،المائدۃ:۶۷)۔علمیہ

[340] ترجمۂکنزالایمان:اے جھرمٹ مارنے والے۔(پ۲۹،المزّمّل:۱)۔علمیہ  

[341] ترجمۂکنزالایمان:اے بالا پوش اوڑھنے والے۔(پ۲۹،المدّثّر:۱)۔علمیہ  

[342] ترجمۂکنزالایمان:اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ۴، اٰل عمرٰن:۱۴۴)۔علمیہ  

[343] ترجمۂکنزالایمان:محمد اللّٰہ کے رسول ہیں۔ (پ۲۶،الفتح:۲۹)۔علمیہ  

[344] ترجمۂکنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیںہاں اللّٰہ کے رسول ہیںاور سب نبیوں میں پچھلے اوراللّٰہ سب کچھ جانتا ہے۔(پ۲۲،الاحزاب:۴۰) ۔علمیہ  

[345] ترجمۂکنزالایمان:اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا اور وہی ان کے رب کے پاس سے حق ہے اللّٰہنے ان کی برائیاں اتار دیں اور ان کی حالتیں سنوار دیں۔ (پ۲۶،محمد:۲)۔علمیہ  

[346] ترجمۂکنزالایمان:بیشک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ حق دار وہ تھے جو ان کے پیرو ہوئے اور یہ نبی اور ایمان والے اور ایمان والوں کا والی اللّٰہ ہے ۔(پ۳،اٰل عمران:۶۸)۔علمیہ  

[347] ترجمۂکنزالایمان:بولے اے موسیٰ ہمیں ایک خدا بنادے جیسا ان کے لئے اتنے خدا ہیں۔ (پ۹،الاعراف:۱۳۸)۔علمیہ  

[348] ترجمۂکنزالایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے۔

(پ۷،المائدۃ:۱۱۲)۔علمیہ  

[349] ترجمۂکنزالایمان:بولے اے ہود تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں۔(پ۱۲،ہود:۵۳) ۔علمیہ  

[350] ترجمۂکنزالایمان:بولے اے صا لح اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے کیا تم ہمیں اس سے منع کرتے ہو کہ اپنے باپ دادا کے معبودوں کو پوجیں اور بیشک جس بات کی طرف ہمیں بلاتے ہو ہم اس سے ایک بڑے دھوکہ ڈالنے والے شک میں ہیں۔ (پ۱۲،ہود:۶۲) ۔علمیہ  

[351] ترجمۂکنزالایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ۱۸،النور:۶۳)۔علمیہ

[352] ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والوحکم مانو اللّٰہ  کا اور حکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔ (پ۵، النساء:۵۹)۔علمیہ  

[353] ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والو اللّٰہ  اور اس کے رسول کا حکم مانواور سن سنا کر اس سے نہ پھرو۔ (پ۹، الانفال:۲۰)۔علمیہ

[354] ترجمۂکنزالایمان:اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اوراللّٰہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللّٰہ رحم کرے گابیشک اللّٰہ غالب حکمت والا ہے۔(پ۱۰، التوبۃ:۷۱)۔علمیہ

[355] ترجمۂکنزالایمان:ایمان والے تو وہی ہیں جو اللّٰہ  اور اس کے رسول پر یقین لائے اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لئے جمع کئے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک ان سے اجازت نہ لے لیں ۔(پ۱۸، النور:۶۲)۔علمیہ

[356] ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والواللّٰہ و رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔ (پ۹، الانفال:۲۴)۔علمیہ

[357] ترجمۂکنزالایمان:اور جو حکم مانے اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کا اللّٰہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی اور جو اللّٰہ   اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی کل حدوں سے بڑھ جائے اللّٰہ اسے آگ میں داخل کرے گا جس میں ہمیشہ رہے گا اور اس کے لئے خواری کا عذاب ہے۔(پ۴، النسائ:۱۳۔۱۴)۔علمیہ

[358] ترجمۂکنزالایمان:بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللّٰہ اور اس کے رسول کو ان پر اللّٰہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللّٰہ نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(پ۲۲، الاحزاب:۵۷)۔علمیہ

[359] ترجمۂکنزالایمان:بیزاری کا حکم سنانا ہے اللّٰہ   اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ قائم نہ رہے ۔(پ۱۰، التوبۃ:۱)۔علمیہ

[360] ترجمۂکنزالایمان:اور منادی پکار دینا ہے اللّٰہ   اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں میں بڑے حج کے دن کہ اللّٰہ   بیزار ہے مشرکوں سے اور اس کا رسول۔(پ۱۰، التوبۃ:۳)۔علمیہ

[361] ترجمۂکنزالایمان:کیا اس گمان میں ہو کہ یونہی چھوڑ دیئے جاؤ گے اور ابھی اللّٰہ نے پہچان نہ کرائی ان کی جو تم میں سے جہاد کریں گے اور اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا محرم راز نہ بنائیں گے اور اللّٰہ   تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ۱۰، التوبۃ:۱۶)۔علمیہ

[362] ترجمۂکنزالایمان:کیا انہیں خبر نہیں کہ جو خلاف کرے اللّٰہ  اور اس کے رسول کا تو اس کے لئے جہنم کی آ گ ہے کہ ہمیشہ اس میں رہے گا یہی بڑی رسوائی ہے۔(پ۱۰، التوبۃ:۶۳)۔علمیہ

[363] ترجمۂکنزالایمان:وہ کہ اللّٰہ   اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کئے جائیں یا سولی دئیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردئیے جائیں۔(پ۶، المائدۃ:۳۳)۔علمیہ

[364] ترجمۂکنزالایمان:لڑو اُن سے جو ایمان نہیں لاتے اللّٰہ پر اور قیامت پر اور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللّٰہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دئیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر۔(پ۱۰،التوبۃ:۲۹)۔علمیہ

[365] ترجمۂکنزالایمان:تم فرماؤ غنیمتوں کے مالک اللّٰہ  و رسول ہیں۔(پ۹، الانفال:۱)۔علمیہ

[366] ترجمۂکنزالایمان:اور جو اللّٰہ  اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بیشک اللّٰہ   کا عذاب سخت ہے۔ (پ۹، الانفال:۱۳)۔علمیہ

[367] ترجمۂکنزالایمان:پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللّٰہ   و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللّٰہ   و قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔

(پ۵، النسائ:۵۹)۔علمیہ

[368] ترجمۂکنزالایمان:اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ   و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللّٰہ   کا رسول ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے۔ (پ۱۰، التوبۃ:۵۹)۔علمیہ

[369] ترجمۂکنزالایمان:اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لوتواس کا پانچواں حصہ خاص اللّٰہ اور رسول (کاہے)۔ (پ۱۰، الانفال:۴۱)۔علمیہ

[370] ترجمۂکنزالایمان:اور انہیں کیا برا لگا یہی نا کہ اللّٰہ   و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔ (پ۱۰، التوبۃ:۷۴)۔علمیہ

[371] ترجمۂکنزالایمان:اور بہانے بنانے والے گنوار آئے کہ انہیں رخصت دی جائے اور بیٹھ رہے وہ جنہوں نے اللّٰہ و رسول سے جھوٹ بولا تھا جلد ان میں کے کافروں کو دردناک عذاب پہونچے گا۔ (پ۱۰،التوبۃ:۹۰)۔علمیہ

[372] ترجمۂکنزالایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللّٰہ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے اور اللّٰہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللّٰہ  کو ظاہر کرنا منظور تھااور تمہیں لوگوں کے طعنے کا اندیشہ تھا اور اللّٰہ   زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا خوف رکھو۔(پ۲۲، الاحزاب:۳۷)۔علمیہ

[373] ترجمۂکنزالایمان:اور مجھے رسوا نہ کرنا جس دن سب اٹھائے جائیں گے۔(پ۱۹، الشعرائ:۸۷)۔علمیہ

[374] ترجمۂکنزالایمان:جس دن اللّٰہ رسوا نہ کرے گا نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کو۔ (پ۲۸، التحریم:۸)۔علمیہ

[375] ترجمۂکنزالایمان:اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کے پوجنے سے بچا ۔ (پ۱۳، ابراہیم:۳۵)۔علمیہ

[376] ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والوکہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

(پ۲۲، الاحزاب:۳۳)۔علمیہ

[377] … بت پرستی۔

[378] ترجمۂکنزالایمان:اور مجھے ان میں کر جو چین کے باغوں کے وارث ہیں۔ (پ۱۹، الشعراء:۸۵)۔علمیہ

[379] ترجمۂکنزالایمان:اے محبوب بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ (پ۳۰، الکوثر:۱)۔علمیہ

[380] ترجمۂکنزالایمان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔ (پ۳۰، الضحی:۵)۔علمیہ

[381] ترجمۂکنزالایمان:اور میری سچی ناموری رکھ پچھلوں میں۔ (پ۱۹،الشعراء:۸۴)۔علمیہ

[382] ترجمۂکنزالایمان:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ (پ۳۰،الم نشرح:۴)۔علمیہ

[383] … جنت کے محل۔

[384] ترجمۂکنزالایمان:اے میرے رب میرے لئے میرا سینہ کھول دے۔ (پ۱۶،طہ:۲۵)۔علمیہ

[385] ترجمۂکنزالایمان: کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔(پ۳۰،الم نشرح:۱)۔علمیہ

[386] ترجمۂکنزالایمان:اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ کتاب تم پر بھیجی جائے گی ہاں تمہارے رب نے رحمت فرمائی۔

(پ۲۰،القصص:۸۶)۔علمیہ  

[387] ترجمۂکنزالایمان:اے محبوب تمہاری جان کی قسم بیشک وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں۔ (پ۱۴،الحجر:۷۲)۔علمیہ

[388] ترجمۂکنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔ (پ۳۰،البلد:۱۔۲)۔علمیہ

[389] المواہب الدنیہ مع شرح الزرقانی،المقصد السادس،الفصل الخامس،ج۸، ص۴۹۳۔علمیہ

[390] مدارج النبوت، باب سوم، وصل مناقب جلیلہ،ج۱، ص۶۵ ۔علمیہ

[391] ترجمۂکنزالایمان:اس زمانۂ محبوب کی قسم بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے۔ (پ۳۰،العصر:۱۔۲)۔علمیہ

[392] خواب مبارک۔

[393] یعنی سیرت کی بڑی کتب میں مثلا  سبل الہدٰی و الرشاد ، شرح الزرقانی علی المواہب وغیرہ۔علمیہ

[394] احیاء علوم الدین ، کتاب اسرارالصلوۃ۔۔۔الخ ، باب الثالث فی الشروط الباطنیہ۔۔۔ الخ ، ج۱، ص۲۲۹۔علمیہ

[395] اشعۃ اللمعات ،کتاب الصلوۃ ، باب: التشھد ،تحت الحدیث:۹۰۹، ج۱ ،ص۴۳۰۔علمیہ

[396] میزان الکبری الشعرانیہ للشعرانی،الجزء الاول،باب صفۃ الصلاۃ،ص۱۹۸۔علمیہ

[397] ترجمۂکنزالایمان:اللّٰہ ورسول کے بلانے پر حاضر ہوجب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔

        (پ۹،الانفال:۲۴)۔علمیہ

[398] صحیح البخاری ، کتاب التفسیر ،باب: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ ۔۔۔الخ،الحدیث:۴۶۴۷، ج۳ ص۲۲۹ وایضاً باب ماجاء فی فاتحۃ الکتاب،ج۳،ص ۱۶۳،الحدیث:۴۴۷۴۔علمیہ

[399] صحیح البخاری ، کتاب العلم  ، باب اثم  من کذب علی النبی،الحدیث :۱۰۷، ج۱، ص۵۷۔علمیہ

[400] ترجمۂکنزالایمان:بیشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیںاور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور اللّٰہ  بخشنے والا مہربان ہے۔(پ۲۶،الحجرات:۴۔۵)۔علمیہ

[401] جھٹلانے والے۔

[402] ترجمۂکنزالایمان:بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔(پ۸، الاعراف:۶۰)۔علمیہ

[403] ترجمۂکنزالایمان: اے میری قوم مجھ میں گمراہی کچھ نہیں میں تو رب العالمین کا رسول ہوں۔ (پ۸،الاعراف:۶۱)۔علمیہ

[404] ترجمۂکنزالایمان:بیشک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بیشک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔ (پ۸،الاعراف:۶۶)۔علمیہ

[405] ترجمۂکنزالایمان: اے میری قوم مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں۔ (پ۸،الاعراف:۶۷)۔علمیہ

[406] ترجمۂکنزالایمان:اے موسیٰ میرے خیال میں تو تم پر جادو ہوا ۔(پ۱۵، بنی اسراء یل:۱۰۱)۔علمیہ

[407] ترجمۂکنزالایمان:اور میرے گمان میں تو اے فرعون تو ضرور ہلاک ہونے والا ہے۔ (پ۱۵، بنی اسراء یل:۱۰۲)۔علمیہ

[408] ترجمۂکنزالایمان:بیشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیںاور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں۔ (پ۱۲،ہود:۹۱)۔علمیہ

[409] ترجمۂکنزالایمان: اے میری قوم کیا تم پر میرے کنبہ کا دباؤ اللّٰہ سے زیادہ ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا بیشک جو کچھ تم کرتے ہو سب میرے رب کے بس میں ہے۔ (پ۱۲، ہود: ۹۲)۔علمیہ