مومنوں پر واجب ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود بھیجا کریں ۔ چنانچہ اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتاہے:
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (احزاب،ع۷)
تحقیق اللّٰہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والو! تم ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو۔([1] )
اس آیت میں تاکید کے لئے جملہ اسمیہ لایا گیا ہے جس کے شروع میں بغر ض تاکید مزید حرف تاکید مذکور ہے۔ اس جملہ کی خبر فعل مضارع ہے جو افادۂ استمرار تجددی کرتاہے۔ اللّٰہ تعالٰی فرماتاہے کہ میں اور میرے تمام فرشتے ( جن کی گنتی مجھے ہی معلوم ہے ) پیغمبر پر درود بھیجتے رہتے ہیں اے مومنو! تم بھی اس وظیفہ میں میری اور میرے فرشتوں کی اقتداء کرو۔ ([2] )
واضح رہے کہ خدا کے درود بھیجنے سے مراد رحمت کا نازل کرنا اور فرشتوں اور مومنوں کے درود سے مراد اُن کا بارگاہ رب العزت میں تَضَرُّع ودعا ء کرناہے کہ وہ اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر رحمت و برکت نازل فرمائے۔
مومنوں کی طرف سے درود بھیجنے میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعظیم ہے اور بھیجنے والوں کا بھی فائدہ ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللّٰہ تعالٰی اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔([3] )مسلمانو! رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اس شان محبوبیت اور عظمت جاہ کو دیکھئے کہ امت کا ایک بندہ حقیر و ذلیل ، حبیب خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود بھیجتا ہے تو اس کا بدلہ خودرب جلیل جَلَّ شَانُہٗ دیتا ہے اور ایک کے مقابلہ میں دس رحمتیں نازل فرماتاہے۔رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے طفیل سے یہ شرف صرف اسی امت کو عطاء ہوا ہے کیونکہ اس امت کے سوا کسی اور امت کو ا پنے پیغمبر پر درود و سلام بھیجنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
درود شریف کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ درود شریف اجابت ِدُعا([4] )کا ذریعہ ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا تَوَسُّل بالنبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے۔ دلائل الخیرات شریف میں ہے کہ حضرت ابو سلیمان عبدالرحمن بن عطیہ دارانی ( متوفی ۲۱۵ھ)([5] ) نے فرمایا کہ جب تم خدا تعالٰی سے کچھ مانگو تو دعا سے پہلے اور پیچھے درود شریف پڑھ لیا کرو کیونکہ اللّٰہ تعالٰی دونوں طرف کے درود شریف کو تو اپنے کرم سے قبول کرہی لیتا ہے اور یہ اس کے کرم سے بعید ہے کہ درمیان کی چیز کو رد کردے۔([6] ) علامہ فاسی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ شرح دلائل الخیرات میں لکھتے ہیں کہ بعض کے نزدیک امام دارانی کے قولِ مذکور کا تتمہ یوں ہے: ’’اور ہر ایک عمل مقبول ہوتا ہے یا مر دود سوائے درود شریف کے کہ وہ مقبول ہی ہوتا ہے مردود نہیں ہوتا۔‘‘([7] ) امام باجی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ([8] )نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ جب تم اللّٰہ تعالٰی سے کچھ مانگو تو اپنی دعا میں درود شریف شامل کرو کیونکہ درود شریف مقبول ہوتاہے اور اللّٰہ تعالٰی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ بعض کو قبول کرے اور بعض کو رد کرے۔ شیخ ابو طالب مکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جب تم اللّٰہ تعالٰی سے کچھ مانگو تو پہلے درود شریف پڑھو۔ کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کی شان سے بعید ہے کہ اس سے دو حاجتیں مانگی جائیں جن میں سے ایک کو پورا کردے اور دوسری کو رد کردے۔ اس روایت کو امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں نقل کیا ہے۔([9] ) امام عراقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا کہ میں نے اس روایت کو مرفوع نہیں پایا وہ ابوالدرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر موقوف ہے۔([10] ) ’’شفاء شریف‘‘ میں ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ درود شریف کے درمیان کی دعاء رد نہیں کی
جاتی۔([11] ) ابو محمد جبر نے اس روایت کو کتاب ’’شرف المصطفیٰ‘‘ سے منسوب کیاہے۔ کذافی ‘’مطالع المسرات’‘۔([12] )
علامہ شامی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سلف کے قول( کہ درود شریف کبھی رد نہیں ہوتا) کی تاویل و تصحیح یوں کی ہے کہ درود شریف (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ)دعا ہے اور دعا کبھی مقبول ہوتی ہے اور کبھی مردود۔ مگر درود شریف عموم دعاء سے مستثنیٰ ہے کیونکہ نص قرآنی سے ثابت ہے کہ اللّٰہ تعالٰی اپنے رسول پر درود بھیجتارہتا ہے۔ اس نے اپنے مومن بندوں پر احسان کیا ہے کہ ان کو بھی درود بھیجنے کاحکم دیاہے تاکہ ان کو زیادہ فضل و شرف حاصل ہوجائے۔ ورنہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو تو اپنے پروردگار کا درود ہی کافی ہے۔ پس مومن کا اپنے رب سے طلب دُرود کرنا قطعاً مقبول ہے کیونکہ خدا تعالٰی خود خبردے رہا ہے کہ میں اپنے رسول پر درود بھیجتا رہتا ہوں ۔ باقی تمام دعائیں اور عبادتیں اس کے برعکس ہیں ۔ لہٰذا درود شریف کے مقبول ہی ہونے کی سند نص قرآنی ہے۔ رہااس پر ثواب کا ملنا، سووہ چند عوارِض سے مشروط ہے اور وہ عوارِض یہ ہیں : قلب غافل سے پڑھنا، ریا و سمعہ کے لئے پڑھنا،([13] )کسی حرام چیز پر استعمال کرنا، وغیرہ۔کذافی رد المحتار۔([14] )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضہ شریف کی زیارت بالاجماع سنت اور فضیلت عظیمہ ہے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث آئی ہیں جن میں سے چند ’’وفاء الوفاء‘‘ سے یہاں پیش کی جاتی ہیں ۔([15] )
{1} مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِی.جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت ثابت ہوگئی۔([16] )
(دارقطنی و بیہقی وغیرہ )
{2} مَنْ زَارَ قَبْرِیْ حَلَّتْ لَہٗ شَفَاعَتِی.’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے واسطے میری شفاعت ثابت ہوگئی۔([17] ) (بزار)
{3} مَنْ جَآئَ نِیْ زَا ٓئِرًا لَا تَحْمِلُہٗ حَاجَۃٌ اِلَّا زِیَارَتِیْ کَانَ حَقًّا عَلَیَّ اَنْ اَکُوْنَ لَہٗ شَفِیْعًا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔جو میری زیارت کو اس طرح آیا کہ میری زیارت کے سوا کوئی اور چیز ا س کو نہ لائی تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔([18] ) ( کبیر واوسط طبرانی۔ امالی دارقطنی وغیرہ۔)
{4}مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِیَ بَعْدَ وَفَاتِیْ کَانَ کَمَنَ زَاَرنِیْ فِیْ حَیَاتِیْ۔ جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی وہ مثل اس کے ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔([19] ) ( دار قطنی و طبرانی وغیرہ )
{5} مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْ ۔جس نے بیت اللّٰہ کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی ا س نے مجھ پر ستم کیا۔([20] )
(کامل ابن عدی )
{6}مَنْ زَارَنِیْ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ کُنْتُ لَہٗ شَھِیْدًا وَشَفِیْعًا۔جس نے مدینہ آکر میری زیارت کی میں اس کے لئے گواہ اور شفیع ہوں گا۔(5) ( سنن دار قطنی)
{7}مَنْ زَارَ قَبْرِیْ اَوْ مَنْ زَارَنِیْ کُنْتُ لَہٗ شَفِیْعًا اَوْ شَھِیْدًا وَ مَنْ مَاتَ فِیْ اَحَدِ الْحَرَمَیْنِ بَعَثَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فِی الْاٰمِنِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۔جس نے میری قبرکی زیارت کی (یافرمایا) جس نے میری زیارت کی میں اس کے لئے شفیع یا گواہ ہوں گااور جو شخص حرمین میں سے ایک میں مرگیا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کو قیامت کے دن امن والوں میں اٹھائے گا۔ ([21] ) (ابو داؤد طیالسی)
{8}مَنْ زَارَنِیْ مُتَعَمِّدًا کَانَ فِیْ جَوَارِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۔ جس نے بالقصد میری زیارت کی وہ قیامت کے دن میری پناہ میں ہوگا۔([22] ) (ابو جعفر عقیلی )
{9}مَنْ زَارَ نِیْ بَعْدَ مَمَاتِیْ فَـــکَاَ نَّمَا زَارَ نِیْ فِیْ حَیَاتِیْ وَمَنْ مَاتَ بِاَحَدِ الْحَرَمَیْنِ بُعِثَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی اور جو حرمین شریفین میں سے ایک میں مرگیا وہ قیامت کے دن امن والوں کے زمرہ میں اٹھایاجائے گا۔([23] ) (دارقطنی وغیرہ )
{10} مَنْ حَجَّ اِلٰی مَکَّۃَ ثُمَّ قَصَدَنِیْ فِیْ مَسْجِدِیْ کُتِبَتْ لَہٗ حَجَّتَانِ مَبْرُوْرَتَانِ ۔ جس نے مکہ میں حج کیا پھر میری مسجد میں میری زیارت کی اس کے لئے دو مقبول حج لکھے گئے۔([24] ) ( مسند فردوس)
اَحادیث مذکورہ بالا کے علاوہ کتاب اللّٰہ سے بھی یہی ثابت ہوتاہے۔ چنانچہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرماتاہے:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (نساء، ع ۹)
اور اگر یہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تیرے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور پیغمبر اُن کیلئے بخشش مانگتے تو وہ خدا کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔([25] )
اس آیت میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت شریف میں حاضر ہوکر توبہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے مگر قبول توبہ کے لئے ایک تیسرے امر گناہ گار انِ امت کے لئے اِسْتِغْفارِ رسول کی بھی ضرورت بیان ہوئی ہے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا تمام مومنوں کے لئے طلب مغفرت فرمانا تو ثابت ہی ہے کیونکہ حضور کوحکم الٰہی یوں ہے:
وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ-
اور تواپنے سبب سے مومنین اور مومنات کیلئے بخشش مانگ۔([26] )
ظاہر بالبداہت ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس حکم کی تعمیل کی۔ پس اگر باقی دوامر (گنہگاروں کا بغرض توسل حاضر خدمت ہونا اورطلب مغفرت کرنا ) پائے جائیں تو وہ مجموعہ مُتَحَقَّق ہوجائے گاجو موجب قبول توبہ و رحمت الٰہی ہے۔
آیت زیر بحث استغفر لھمکا عطف جاء وک پرہے اس لئے اس کا مقتضا یہ نہیں کہ اِستغفارِ رسول اِستغفارِ عاصیان کے بعد ہو۔ علاوہ ازیں ہم تسلیم نہیں کرتے کہ حضو ر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام وفات شریف کے بعد گنہگار انِ اُمت کیلئے طلب مغفرت نہیں فرماتے کیونکہ حضور ( بلکہ تمام انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) وفات شریف کے بعد زندہ ہیں اور عاصیان امت کے لئے طلب مغفرت فرماتے ہیں ۔ چنانچہ بزارنے صحیح راویوں کے ساتھ حضرت عبداللّٰہ بن مسعودرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ‘’حَیَاتِیْ خَیْرٌ لَکُمْ تُحَدِّثُوْنَ وَ اُحَدِّثُ لَکُمْ وَ وَفَاتِیْ خَیْرٌ لَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ اَعْمَالَکُمْ فَمَا رَاَیْتُ مِنْ خَیْرٍ حَمِدْتُ اللّٰہَ عَلَیْہِ وَ مَا رَاَیْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللّٰہَ لَکُمْ۔ ‘‘([27] )
میری زندگی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ تم مجھ سے (حلال و حرام) پوچھتے ہو میں تمہیں (بذریعہ وحی) احکام سناتا ہوں اور میری وفات بھی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ تمہارے اعمال میرے سامنے پیش ہوا کریں گے۔ میں اچھے عملوں کو دیکھ کر اللّٰہ کا شکر کروں گا اور برے عملوں کو دیکھ کر تمہارے واسطے مغفرت کی دعا کیا کروں گا۔
پس آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حیات شریف ہی میں عاصیانِ امت کو بشارت دے دی کہ میں وفات شریف کے بعد بھی ان کے لئے استغفار کیا کروں گا اور حضور کے کمالِ رحمت سے معلوم ہے کہ جو شخص اپنے رب سے طلب مغفرت کرتا ہوا حضورکی بارگاہ عالی میں حاضر ہوتا ہے آپ اس کے لئے استغفار فرماتے ہیں ۔ اسی واسطے علمائے کرام نے تصریح فرمادی ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کایہ رتبہ آپ کی وفات شریف سے منقطع نہیں ہوا۔
جو شخص یہ کہتاہے کہ اس آیت کا حکم آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حالت حیات شریف کے ساتھ ہی مختص ہے وہ غلطی پر ہے کیونکہ یہ اصولی قاعدہ ہے کہ عموم الفاظ کا اعتبار ہوتاہے نہ کہ موردخاص کا۔ صحابہ کرام اور تابعین عموم الفاظ قرآنی سے حجت پکڑتے رہے باوجود یہ کہ وہ آیتیں خاص موقعوں پر نازل ہوئیں ۔ (اتقان للسیوطی) اسی طرح آیت زیر بحث اگرچہ ایک خا ص قوم کے حق میں حالت حیاتِ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں نازل ہوئی لیکن جہاں یہ وصف ( عاصیانِ اُمت کا حضور سید الابرار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں گناہوں کی معافی کے لئے حاضر ہونا) پایاجائے گا عموم حالت کے موافق اس کا حکم بھی عام اور ہر دو حالت حیات وبعد الوفات کو شامل ہوگا۔ چنانچہ علمائے کرام نے عموم سے ہر دو حالتیں سمجھی ہیں اور جو شخص قبر شریف پر حاضر ہو اس کے واسطے مستحب خیال کیا ہے کہ وہ اس آیت کو پڑھے اور اللّٰہ تعالٰی سے مغفرت مانگے۔ امام عُتْبی(امام شافعی کے استاد) کی حکایت اس باب میں مشہو ر ہے اور مذاہب اربعہ کے علماء نے اسے اپنے مناسک میں نقل کیا ہے اور اسے مستحسن سمجھ کر آداب زیارت میں شامل کیا ہے۔([28] ) ہم اس حکایت کو ان شاء اللّٰہ تعالٰی بحث توسل میں لائیں گے۔([29] )
صحابہ کرام کے زمانہ سے آج تک اہل اسلام حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضہ شریف کی زیارت اورحضور سے توسل واستغاثہ کرتے رہے ہیں ۔ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُُ نے اہل بیت المقدس سے صلح کی تو کعب احبار رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام لائے۔ حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان سے خوش ہوئے اور فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ مدینہ منورہ چلو اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبر شریف کی زیارت سے فائدہ اٹھاؤ۔ حضرت کعب احبار نے جواب دیا کہ ہاں ۔([30] ) (زرقانی علی المواہب)
حافظ ابو عبداللّٰہ محمد بن موسیٰ بن نعمان اپنی کتاب ‘’ مِصْبَاحُ الظَّلَام’‘ میں لکھتے ہیں کہ حافظ ابو سعید سمعانی نے بروایت علی ابن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نقل کیا ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دفن شریف
کے تین دن بعد ایک اعرابی ہمارے پاس آیا اس نے اپنے آپ کو قبر شریف پر گرادیااور قبر شریف کی کچھ مٹی اپنے سر پر ڈالی اور عرض کیا: یارسول اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ نے جو کچھ فرمایا وہ ہم نے سن لیا اللّٰہ تعالٰی نے آپ پر قرآن نازل کیا جس میں ارشاد فرمایا: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ آیہ([31] )میں نے ظلم کیا میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ میرے حق میں طلب مغفرت فرمائیں ۔قبر شریف سے آواز آئی کہ تجھے بخش دیاگیا۔([32] )
مسند امام ابی حنیفہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں بروایت امام منقول ہے کہ حضرت ایوب سختیانی تابعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہآئے جب وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبر شریف کے نزدیک پہنچے تو اپنی پیٹھ قبلہ کی طرف اور منہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک کی طرف کرلیا اور رَوئے۔([33] ) توسل کی دیگر مثالیں عنقریب مذکور ہوں گی۔ اِنْ شَائَ اللّٰہ تَعَالٰی۔
ذیل میں چند آداب زیارت بیان کیے جاتے ہیں ۔ زائرین کو چاہیے کہ ان کو ملحوظ رکھیں ۔
{1}… زائرین کو مناسب ہے کہ زیارت روضہ شریف کے ساتھ مسجد نبوی کی زیارت اور اس میں نماز پڑھنے کی بھی نیت کریں ۔ اگر مجردزیارت کی نیت کریں تو اَولیٰ ہے۔ دوسری بار اگر موقع ملے تو ہر دوکی نیت کریں ۔
{2}… مدینہ منورہ کے راستہ میں درود و سلام کی کثرت رکھیں ۔
{3}… راستے میں مساجد اور آثارِ شریفہ جورسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے منسوب ہیں ان کی زیارت کریں اور ان میں نماز پڑھیں ۔
{4}…جب مدینہ منورہ کے مکانات نظرآنے لگیں تو بپاس ادب پیدل ہوجائیں اور درود و سلام بھیجیں اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے یا داخل ہوکر غسل کریں اور تبدیل لباس کرکے خوشبولگائیں ۔
{5}…پہلے مسجد نبوی میں داخل ہوکر دورکعت تحیۃ المسجد پھر دوگانۂ شکر ادا کریں کہ اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دروازے پر پہنچادیا۔
{6}… دوگانۂ شکر کے بعد روضہ شریف پر حاضر ہوں ۔ زیارت کے وقت اپنی پیٹھ قبلہ کی طرف اور منہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک کی طرف کریں اور جالی مبارک کے قریب کھڑے ہوکر نہایت ادب و خشوع سے سلام عرض کریں اور اگر کسی دوست وغیرہ نے حضرت نبوی میں سلام بھیجا ہوتو اس کی طرف سے سلام پہنچائیں ۔
{7}… حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سلام سے فارغ ہوکر ایک ہاتھ اپنی دائیں طرف کو ہٹ کر حضرت صدیق اکبررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں سلام عرض کریں ۔ پھر ایک ہاتھ اور دائیں طرف کو ہٹ کر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں سلام عرض کریں ۔
{8}…بعدا زاں اپنی پہلی جگہ پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک کے سامنے کھڑے ہوکر درود وسلام عرض کریں ۔ پھر گناہوں سے توبہ کرکے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے وسیلہ سے دعا مانگیں ۔
{9}… اَیامِ قیام مدینہ منورہ میں نماز فرض ہویا نفل مسجد نبوی میں پڑھا کریں ۔
{10} …مسجد قُبا میں جاکر نماز پڑھیں اور آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے آثارِ شریفہ ودیگر مزارات کی زیارت کریں ۔
بعض لوگ انبیائے کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیاء وشہداء عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کے مشاہدو مقابر کی طرف سفر کرنے کو ناجائز قراردیتے ہیں اور حدیث ‘’ لا تشد الرحال’‘ کو بطور ِدلیل پیش کرتے ہیں ۔ وہابیہ کے مورث اعلیٰ ابن تیمیہ نے تو کھلے الفاظ میں فتویٰ دے دیا کہ حضور سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضہ شریف کی زیارت کے قصد سے سفر کرنا سفر معصیت ہے جس میں نماز قصر نہ کرنی چاہیے۔ بنابریں زائرین کے علاوہ فرشتے بھی جو ہر روز صبح و شام آسمان سے اتر کر روضہ شریف پر حاضر ہوتے اور درود شریف پڑھتے ہیں اسی معصیت میں مبتلا ہیں ۔ یہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جناب میں کمال درجے کی گستاخی ہے۔
ابن تیمیہ کے اس فتوے سے شام و مصر میں بڑا فتنہ برپا ہوا۔ شامیوں نے ابن تیمیہ کے بارے میں استفتاء کیا۔ علامہ برہان بن الفرکاح فزاری نے قریباً چالیس سطر کا مضمون لکھ کر اسے کافر بتایا۔ علامہ شہاب بن جہبل نے اس سے اتفاق کیا۔ مصر میں یہی فتویٰ مذاہب اربعہ کے چاروں قضاۃ پر پیش کیاگیا۔ بدر بن جماعہ شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے لکھ دیا کہ مفتی یعنی ابن تیمیہ کو ایسے فتاویٰ باطلہ سے بز جرو توبیخ منع کیا جائے اگر بازنہ آئے تو قید کیا جائے۔ محمد بن الجریری انصاری حنفی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے لکھا کہ اسی وقت بلاکسی شرط کے قید کیا جائے۔ محمد بن ابی بکر مالکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کہا کہ اسے اس قسم کی زجرو توبیخ کی جائے کہ ایسے مفاسد سے باز آجاوے۔ احمد بن عمر مقدسی حنبلی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بھی ایسا ہی لکھا۔([34] ) نتیجہ یہ ہو ا کہ ابن تیمیہ شعبان ۷۲۶ھ میں دمشق میں قلعہ میں قید کیاگیا اور قید ہی میں ۲۰ذیقعدۃ الحرام ۷۲۸ھ کو اس دنیا سے رخصت ہوا۔([35] )
حدیث زیر بحث صحیح بخاری کے باب فضل الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ میں بروایت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وارد ہے جس میں مذکور ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ وَ مَسْجِدِ الْاَقْصٰی ۔کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین مسجد وں یعنی مسجد حرام و مسجد رسول و مسجد اقصی کی طرف۔([36] ) اور باب مسجد بیت المقدس میں بروایت ابو سعید خدری بدیں الفاظ مذکور ہے: لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی وَ مَسْجِدِی ۔([37] )
اسی طرح امام مسلم نے حدیث ابو ہریرہ کوباب فضل المساجد الثلثۃ میں او ر حدیث ابو سعید خدری کو باب سفر المرأۃ مع محرم الی الحج وغیرہ میں ذکر کیا ہے۔ حدیث ابو سعید خدری مشکوٰۃ شریف میں باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ میں مذکور ہے۔
مختلف ابواب پر نظر ڈالنے سے معلو م ہوتا ہے کہ حدیث زیر بحث میں بہ نسبت دیگر مساجد کے مساجد ثلاثہ میں نماز کی فضیلت کا بیان ہے کیونکہ یہ تینوں مساجد ان فضائل سے مختص ہیں جو دوسری مسجدوں میں نہیں پائے جاتے۔ لہٰذا اس حدیث کو مشاہد ومقابر سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس مدعا کے اثبات کے لئے ہم وجوہ ذیل پیش کرتے ہیں ۔
وَجہ اَول: حدیث زیر بحث میں استثناء مُفَرَّغ ہے۔ پس اس کے لئے ایسے عام مستثنیٰ منہ کی تقدیر کی ضرورت ہے جو مستثنیٰ اور غیر کو شامل ہوا ور مستثنیٰ سے مناسبت قریبہ رکھتا ہو۔ جیسا کہ نوع فرد سے اور جنس نوع سے۔ اسی واسطے مَا جَائَ نِیْ اِلَّا زَیْدٌ میں شی یا جِسْم یا حَیْوَان کو مقدر نہیں کرتے بلکہ رَجُل یا اَحَد کو مقدر کرتے ہیں اور ما کسوتہ الا جبّۃ میں کسوت کو اور ما صلیت الا فی المسجد میں فی مکان یا فی موضع کو مقدر کیاجاتاہے۔ ( مُطَوَّل وحواشی) پس صورت زیر بحث میں مستثنیٰ منہ ایسا ہونا چاہیے جو مساجد ثلاثہ اور دیگر مساجد کو شامل اور مساجد کے ساتھ نسبت قریبہ رکھتا ہواور وہ سوائے لفظ مسجد کے اور کوئی نہیں ۔
و جہ دُوُم: حدیث زیر بحث کی ترجمہ باب بخاری سے مطابقت اور اسی باب کی دوسری حدیث سے مناسبت ہے۔ یہ مناسبت و مطابقت صاف بتارہی ہے کہ مستثنیٰ منہ مسجد ہے کیونکہ امام بخاری عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے یہ باب مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت کے بارے میں باندھاہے۔ اس باب کی پہلی حدیث(لا تشد الرحال) میں مقصود مساجد ثلاثہ میں نماز کی فضیلت بہ نسبت دیگر مساجد کے ہے تاکہ ترجمہ باب کے مطابق ہو۔ یہ نہ کہا جائے کہ پہلی حدیث میں لفظ صلوٰۃ نہیں ہے کیونکہ مساجد ثلاثہ کی طرف رحلت سے مراد ان میں نماز کا قصد ہے۔ اسی باب کی دوسری حدیث جو حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: صَلٰوۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ ھٰذَا خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ صَلٰوۃٍ فِیْ مَا سِوَاہُ اِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَام ۔([38] ) (میری اس مسجد میں نماز بہتر ہے ہزار نمازوں سے دوسری مسجدوں میں سوائے مسجد
حرام کے ) ترجمہ باب کے مطابق ہے او ر پہلی حدیث کے معنی کو ظاہر کرتی ہے اور نص ہے اس امر پر کہ ادائے نماز پر تضاعف ثواب میں ([39] )مساجد ثلاثہ کو دیگر تمام مساجد پر فضیلت ہے کیونکہ الا المسجد الحرام کا مستثنیٰ منہ مساجد ہے جو بعض روایات میں صراحۃً مذکور ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے: عن سعید بن المسیب عن ابی ھریرۃ قال،قَالَ رَسُوْلُاللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم:’’ صَلٰوۃٌ فِیْ مَسْجِدِی ھٰذَا خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ صَلٰوۃٍ فِیْ غَیْرِہٖ مِنَ الْمَسَاجِدِ اِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَام ۔’‘([40] )اور مسلم ہی میں حدیث میمونہ میں ہے: سَمِعْتُ رَسُوْلَاللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ صَلٰوۃٌ فِیْہِ اَفْضَلُ مِنْ اَلْفِ صَلٰوۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ مِنَ الْمَسَاجِدِ اِلَّا مَسْجِدَ الْکَعْبَۃِ([41] )پس ظاہر ہوا کہ حدیث لا تشد الرحال میں مستثنیٰ منہ مسجد ہے لہٰذا مساجد ثلاثہ کے سوا دنیا کی کسی مسجد کی طرف بقصد نماز سفر کرنا ممنوع ہے او رجو کسی اور ضرورت کے لئے ہووہ ممنوع نہیں ۔
و جہ سوم: حدیث زیر بحث کے بعض طرق پر مرادو مقصود کی تصریح اور مستثنیٰ منہ کا ذکر موجود ہے اور وہ مسندامام احمد میں یوں مذکورہے: حدثنی ھاشم حدثنی عبد الحمید حدثنی شھر سَمِعْتُ اَبَا سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ وَذُکِرَ عِنْدَہٗ صَلٰوۃٌ فِی الطُّوْرِ فَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لَا یَنْبَغِی لِلْمُطِیِّ اَنْ تُشَدَّ رِحَالُہٗ اِلٰی مَسْجِدٍ یُبْتَغٰی فِیْہِ الصَّلٰوۃُ غَیْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی وَمَسْجِدِیْ ھٰذَا۔([42] ) (قسطلانی وعمدۃ القاری)
ترجمہ:( بحذف اسناد) شہر (بن حوشب) کابیان ہے کہ میں نے سناابا سعید خدری کواوران کے پاس طورمیں نماز کا ذکر آیا۔ پس کہا کہ فرمایا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے شتران سواری کے کجاوے کسی مسجد کی طرف بقصد نماز نہ باندھے جانے چاہئیں سوائے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور میری اس مسجد کے۔ انتہی۔ پس حدیث زیر بحث کی تفسیر حدیث ہی سے ہوگئی اور یہ بہتر ین تفسیر ہے۔
و جہ چہارم: حدیث زیر بحث کی شرح میں جمہور محدثین و شراح اور اکابر فقہائے حنفیہ و شافعیہ کے اقوال ہیں جو ہمارے
مدعا کے مؤید ہیں ۔ نظر براختصار ہم ان کو یہاں نقل نہیں کرتے جسے شوق ہووہ فتح الباری ، عمدۃ القاری، ارشاد الساری، نووی علی المسلم، احیاء العلوم للغزالی اور جذب القلوب للشیخ عبدالحق الدہلوی وغیرہ میں دیکھ لے۔
خلاصۂ مضمون یہ ہوا کہ حدیث’’ لا تشد الرحال‘‘مساجد کے بارے میں ہے۔ اس کی روسے مساجد ثلاثہ کی طرف بدیں غرض سفر کرنا کہ ان میں نماز ادا کرنے سے تضاعف ثواب حاصل ہوجائز ہے۔ دنیا کی کسی اور مسجد کی طرف اس غرض کے لئے سفر کرنانہ چاہیے کیونکہ وہ درجہ میں مُتَساوی ہیں کسی کو کسی پر باعتبارِ کثرتِ ثواب فضیلت نہیں ۔ ہاں کسی اور مطلب کے لئے دوسری مساجد کی طرف بھی سفر کرنا جائز ہے۔ مثلاً کسی مسجد میں کوئی بزرگ رہتے ہیں ان کی زیارت یاان سے استفاضہ کے لئے اس مسجد کی طرف سفر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح کسی مسجد کے صنائع غریبہ([43] ) کو دیکھنے کے لئے سفر کرنا بھی ممنوع نہیں ۔ مقابرو مشاہد انبیاء کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِمُ السَّلَام و اولیاء عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَامکی زیارت کے لئے سفر کرنا حدیث زیر بحث کی نہی کے تحت میں داخل نہیں بلکہ جائزو مشروع و مستحب اور موجب خیر و برکت ہے۔ جب حوائج دنیا کے لئے سفر کرنا بالاتفاق جائزہے تو حوائج آخرت بالخصوص ان میں سے جو اَکد ہے([44] )یعنی حضور سید الاوّلین و الآخرین، امام المرسلین، خاتم النبیین، سیدناو مولیٰنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّم کے روضہ منورہ کی زیارت کے لئے سفر کرنا بطریق اَولیٰ جائز و مستحسن ہے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْنکے عہد مبارک سے اس وقت تک مسلمانوں کا اسی پر عمل رہا ہے۔ اس کا انکار حرمان و شقاوت([45] ) کی علامت ہے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے بارگاہ الٰہی میں دعا کرنا مستحسن ہے۔ اس کو مختلف الفاظ، توسل و استغاثہ و تشفع و توجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بعض وقت توسل بالنبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یوں ہوتا ہے کہ آپ سے کوئی چیز طلب کی جائے بدیں معنی کہ آپ اس میں تسبب پر قادر ہیں کہ اللّٰہ تعالٰی سے سوال کریں یا شفاعت فرمائیں ۔ اس کا مطلب بھی حضور سے طلب دعاہے۔
حضور عَلَیْہِ السَّلام سے توسل واستغاثہ فعل انبیاء ومر سلین عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور سیر تِ سلف صالحین ہے اور یہ توسل حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ولادت شریف سے پہلے، ولادت شریف کے بعد عالم برزخ میں اور عرصاتِ قیامت میں ثابت ہے جس کی توضیح ذیل میں کی جاتی ہے۔
جب حضرت آدمعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے لغزش سر زد ہوئی تو انہوں نے آخر کاریوں دعاکی: یَارَبِّ اَسْاَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِیْ۔ اے میرے پروردگار! میں تجھ سے بحق محمد سوال کرتاہوں کہ میری خطا معاف کر دے۔
اللّٰہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم ! تو نے محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) کو کس طرح پہچانا حالانکہ میں نے ان کو پیدا نہیں کیا۔ حضرت آدم نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! جب تونے مجھ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے سراٹھایااور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا۔ لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ۔ پس میں جان گیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اسی کو ذکر کیاہے جو تیرے نزدیک محبوب ترین خلق ہے۔ اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا: اے آدم ! تو نے سچ کہا وہ میرے نزدیک احب الخلق ہیں چونکہ تم نے ان کے وسیلہ سے دعاء مانگی ہے میں نے تم کو معاف کردیا۔ اگر محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) نہ ہوتے میں تم کو پیدا نہ کرتا۔([46] ) (حاکم و طبرانی )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی بعثت سے پہلے یہود اپنے دشمنوں پر فتح پانے کیلئے دعا میں حضور انور ہی کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں وارد ہے:
وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّذِیْنَ كَفَرُوْاۚ- (بقرہ، ع۱۱)
اور وہ اس سے پہلے کا فروں پر فتح مانگا کرتے تھے۔([47] )
حافظ ابو نعیم نے دلائل میں عطا ء و ضحاک کے طریق سے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا یہ قول نقل
کیاہے کہ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بعثت سے پہلے یہودِ بنی قریظہ و نضیر کافروں پر فتح کی دعا مانگا کرتے تھے اور دعامیں یوـں کہا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْتَنْصِرُکَ بِحَقِّ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ اَنْ تَنْصُرَنَا عَلَیْہِم۔([48] )خدایا! ہم تجھ سے بحق نبی امی دعا مانگتے ہیں کہ توہم کو ان پر فتح دے، اور فتح پایا کرتے تھے۔( تفسیر درمنثور للسیوطی)
صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حیات شریف میں دیگر حاجات کی طرح آپ سے طلب دعائ، طلب شفاعت بروز قیامت یا طلب دعاء مغفرت بھی کیا کرتے تھے۔ صرف چند مثالیں ذیل میں درج کی جاتی ہیں ۔ اگر زیادہ مطلوب ہوں تو ’’شفاء السقام‘‘ کا مطالعہ کیجئے!
{۱}…عَنْ اَنَسٍرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَشْفَعَ لِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَقَالَ اَنَا فَاعِلٌ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! فَاَیْنَ اَطْلُبُکَ قَالَ اطْلُبْنِیْ اَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِیْ عَلَی الصِّرَاطِ قُلْتُ فَاِنْ لَمْ اَلْقَکَ عَلَی الصِّرَاطِ قَالَ فَاطْلُبْنِیْ عِنْدَ الْمِیزَانِ قُلْتُ فَاِنْ لَمْ اَلْقَکَ عِنْدَ الْمِیْزَانِ قَالَ فَاطْلُبْنِیْ عِنْدَ الْحَوْضِ لَا اُخْطِیئُ ہَذِہِ الثَّلَاثَ مَوَاطِنَ ([49] ) (مشکوٰۃ شریف بحوالہ ترمذی، باب الحوض والشفاعۃ)
حضرت اَنس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ آپ قیامت کے دن میری شفاعت فرمادیجئے۔ فرمایا: ’’میں کردوں گا۔‘‘ میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں آپ کو کہاں ڈھونڈوں ؟ فرمایا:’’ پہلے مجھے صراط پر ڈھونڈنا۔‘‘ میں نے عرض کیا: اگر میں آپ کو وہاں نہ پاؤں ؟ فرمایا کہ پھر میزان کے پاس ڈھونڈنا۔ میں نے عرض کیا: اگر میزان کے پاس آپ کو نہ پاؤں ؟ فرمایا:’’ تو پھر حوض کے پاس مجھے ڈھونڈنا کیونکہ میں ان تین جگہوں کو نہ چھوڑوں گا۔
{۲}…حضرت سَواد بن قارِب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ایمان لاتے ہوئے عرض کرتے ہیں : وَکُنْ لِیْ شَفِیْعًا یَوْمَ لَا ذُوْشَفَاعَۃٍ بِمُغْنٍ فَتِیْـلاً عَنْ سَوَادِ بْنِ قَارِب ۔([50] )(استیعاب لابن عبد البر) اورآپ میرے
شفیع بنیں جس دن سوادبن قارب کو کوئی شفاعت کرنے والا ذرا بھی فائدہ نہ پہنچاسکے گا۔
{۳}… حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حسب عادت تجارت کے لئے یمن گئے ہوئے تھے۔ آپ کی غیر حاضری میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مبعوث ہوئے۔ عسکلان بن عواکن حمیری ([51] ) نے سن کر اپنے ایمان کا اظہار اشعار میں کیا۔ وہ اشعار حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی وساطت سے خدمت اقدس میں ارسال کیے۔ ان میں سے د و شعر یہ ہیں :
اشھد باللّٰہ ربّ موسٰی انک ارسلت بالبطاح
فکن شفیعی الی ملیک یدعو البرایا الی الصّلاح
میں اللّٰہ کی قسم کھاتاہوں جو موسیٰ کارب ہے کہ آپ وادیٔ مکہ میں رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ پس آپ میرے شفیع بنیں اس بادشاہ کی طرف جو خلائق کو نیکی کی طرف بلاتاہے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ اشعار سن کر فرمایا : اَمَا اِنَّ اَخَا حِمْیَرْ مِنْ خَوَّاصِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ رُبَّ مُؤْمِنٌ بِیْ وَ لَمْ یَرَ نِیْ وَ مُصَدِّقٌ بِیْ وَ مَا شَھِدَ نِیْ اُولٰئِکَ اِخْوَانِیْ حقًّا ۔([52] )
(اصابہ، ترجمہ عسکلان۔ نیز کنز العمال، سادس، ص۴۲۱)
آگاہ رہو! بے شک حمیری بھائی خواص مومنین سے ہیں اور بعض مجھ پر ایمان لانے والے ہیں حالانکہ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا اور میری تصدیق کرنے والے ہیں حالانکہ و ہ میرے پاس حاضر نہیں ہوئے وہ حقیقت میں میرے بھائی ہیں ۔
{۴} …حضرت مازِن بن غَضُوبہ طائی خطامی([53] ) عمان کی ایک بستی میں ایک بت کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بعثت کی خبر سن کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام لائے۔ آپ نے بارگاہ رسالت
میں اپنی بے اعتدالیوں کا ذکر کیا اور طالب دعا ہوئے۔ چنانچہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعا کی برکت سے وہ رذائل مبدل بفضائل ہوگئے۔ اس بارے میں آپ نے یہ اشعار کہے ہیں :
الیک رسول اللّٰہ خبت مطیتی تجوب الفیافی من عُمان الی العَرج
لتشفع لی یاخیرمن وطیء الحصا فیغفر لی ربی و ارجع بالفلج
الی معشر جانبت فی اللّٰہ دینھم فلا دینہم دینی ولا شرجھم شرجی
( اصابہ بحوالہ طبرانی وبیہقی وغیرہ۔ نیزاستعیاب ابن عبدالبر ) ([54] )
یا رسول اللّٰہ ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں نے اپنی اونٹنی آپ کی طرف دوڑائی جو عمان سے عرج تک بیابانوں کو طے کرتی تھی تاکہ آپ میری شفاعت فرمائیں ۔ اے بہترین ان میں کے جنہوں نے سنگریزوں کو پامال کیا پس میرا رب میرے گناہ بخش دے اور میں کامیاب ہوکر اس گروہ کی طرف جاؤں جن کے دین سے میں اللّٰہ کے واسطے کنارہ کش ہوگیا۔ پس ان کی رائے میری رائے نہیں اور نہ ان کاطریق میرا طریق ہے۔
{۵}… حضرت عثمان بن حنیف صحابی کا بیان ہے کہ ایک نابینا پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا کہ آپ اللّٰہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے عافیت بخشے۔ حضور نے فرمایا کہ اگر تو چاہے میں دعا کر دیتا ہوں او ر اگر چاہے تو صبر کر، صبر تیرے واسطے اچھا ہے۔ اس نے عرض کیا کہ خدا سے دعا فرمائیے! آپ نے اس سے ارشاد فرما یا کہ اچھی طرح وضو کرکے یوں دعا کرنا:’’ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَ اَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ([55] )اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ ۔ ‘‘یااللّٰہ ! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتاہوں اور تیرے نبی نبی الرحمۃ کا وسیلہ پیش کرتاہوں ۔ یا محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں
آپ کا وسیلہ پیش کیاہے اپنی اس ضرورت میں تاکہ وہ پوری ہو۔ یا اللّٰہ ! تو میرے حق میں حضور کی شفاعت قبول فرما۔
اس حدیث کو ترمذی ونسائی نے روایت کیاہے۔ ترمذی نے کہا: ھذا حدیث حسن صحیح غریب۔ امام بیہقی و طبرانی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ مگر امام بیہقی نے اتنا اور کہاہے کہ اس نابینا نے ایسا ہی کیا اور بینا ہوگیا۔([56] )
{۶} …حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں رات کو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمکی خدمت اقدس میں رہا کرتا تھا۔ آپ کے وضو کے لئے پانی لادیا کرتا تھا اور دیگر خدمت ( جامہ و مسواک و شانہ وغیرہ) بھی بجالایا کرتا تھا۔ ایک روز آپ نے مجھ سے فرمایا: سَلْ(مانگ) میں نے عرض کیا: اَسْئَلُکَ مُرَافِقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ میں آپ سے بہشت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں ۔آپ نے فرمایا کہ یہ مرتبہ بہت بڑاہے کچھ اور مانگ! حضرت رَبیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا کہ میرا مقصود تو یہی ہے جو عرض کردیا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ (اس مقصد کے حصول میں ) تو میری مدد کر بد یں طور([57] ) کہ نماز بہت پڑھا کر او ر سجدوں میں دعا کیا کر۔([58] ) (مشکوٰۃ بحوالہ مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب السجودو فضلہ) مطلب یہ کہ میں کوشش کروں گا تو بھی کچھ کیا کر۔’’ اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات‘‘ میں اس حدیث کے تحت میں ہے۔ واز اطلاق سوال کہ فرمود سل (بخواہ) و تخصیص نہ کرد بمطلوبے خاص معلوم مے شود کہ کار ہمہ بد ست ہمت و کرامت اوستصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہر چہ خواہد ہر کرا خواہد باذن پروردگار خود بد ہد۔([59] )
وفات شریف کے بعد بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم مصائب وحروب و حاجات میں آپ کو پکارا کرتے اور آپ سے استغاثہ کیا کرتے تھے۔ دیکھو اَمثلہ ذیل:
{۱}… صاحب ِ’’مواہب لدنیہ‘‘ بحوالہ ابن منیر لکھتے ہیں کہ جب رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال
شریف ہواتو اس صدمہ سے آپ کے اصحاب کرام کا عجب حال ہورہا تھا۔ حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روتے ہوئے حاضر ہوئے اور حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک سے کپڑا اٹھا کر یوں عرض کرنے لگے: و لو ان موتک کان اختیارا لجدنا لموتک بالنفوس اذکرنا یامحمد عند ربک ولنکن من بالک۔([60] )اگر آ پ کی موت میں ہمیں اختیار دیا جاتا تو ہم آپ کی موت کے لئے اپنی جانیں قربان کردیتے۔ یا محمد! اپنے پروردگار کے پاس ہمیں یاد کرنا اور ضرور ہمارا خیال رکھنا۔
{۲}…وفات شریف کے تین دن بعد اعرابی کا قبر شریف پر حاضر ہونا اور آپ سے توسل کرنا بروایت علی ابن ابی طالب کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پہلے آچکا ہے۔
{۳}… مالک الدار راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں قحط پڑا۔ ایک شخص (بلال بن حارث صحابی ) نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر یوں عرض کیا: یارسول اللّٰہ ! اپنی امت کے لئے بارش کی دعا فرمائیں ! وہ ہلاک ہورہی ہے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں ا س شخص سے فرمایا کہ عمر کے پاس جاکر میرا سلام کہو اور بشارت دو کہ بار ش ہوگی اور یہ بھی کہہ دو کہ نرمی اختیار کرے۔ اس شخص نے حاضر ہو کر خبردی۔ حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہ سن کر روئے۔ پھرکہا: اے رب! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اس چیز میں کہ جس سے میں عاجز ہوں ۔([61] ) ( وفاء الوفا ء بحوالہ بیہقی وابن ابی شیبہ)
{۴}…ایک سال مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑا۔ لوگوں نے حضرت عائشہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے فریا د کی۔ حضرت ممدوحہ نے فرمایا کہ تم رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر اس میں ایک روشندان آسمان کی طرف کھول دو تاکہ قبر شریف اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ خوب بارش ہوئی اور گھاس اُگی اور اونٹ ایسے فربہ ہوگئے کہ چربی سے پھٹنے لگے۔ اس سال کو ‘’عامُ الفَتْق ‘‘کہتے تھے۔([62] )
علامہ قاضی زین الدین مراغی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ قحط کے وقت روشندان کا کھولنا اس وقت تک اہل مدینہ کا طریقہ ہے۔ وہ قبہ خضراء مقدسہ کے اسفل میں بجانب قبلہ کھول دیتے ہیں اگرچہ قبر شریف اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی ہے۔([63] )
علامہ سمہودی (متوفی ۹۱۱ھ) لکھتے ہیں : ’’آج کل اہل مدینہ کا طریقہ یہ ہے کہ حجرہ شریف کے گرد جو مقصورہ ہے اس کا وہ دروازہ جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے چہرہ مبارک کے سامنے ہے کھول دیتے ہیں اور وہاں جمع ہوتے ہیں ۔([64] )
{۵}… ابن جریر طبری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ۱۸ھ کے واقعات میں بالاسناد نقل کرتے ہیں کہ حضرت عاصم بن عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ ایک سال حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں امساک باراں ہوا ([65] )مواشی لاغر ہوگئے۔ اہل بادِیہ ([66] )میں سے قبیلہ مزینہ کے ایک اہل خانہ نے اپنے صاحب ( حضرت بلال بن حارث صحابی) سے کہا کہ ہمیں غایت درجہ کی تکلیف ہے تو ہمارے واسطے ایک بکری ذبح کر۔ اس نے کہا کہ بکریوں میں کچھ رہا نہیں ۔ اہل خانہ اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اس نے ان کے واسطے ایک بکری ذبح کی جب کھال اتاری تو سرخ ہڈیاں دکھائی دیں ۔ اس پر وہ پکار اٹھا یامحمداہ ۔۔۔الخ ([67] ) (تاریخ الامم و الملوک، جزء رابع، ص ۲۲۴۔کامل ابن اثیر)
{۶}… حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے قَنْسَیرین سے حضرت کعب بن ضَمْرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک ہزار سواردے کر فتح حلب کے لئے روانہ کیا اور فرمادیا کہ میں تمہارے پیچھے آرہاہوں ۔ ادھر یوقنا حاکم حلب کو اس کے جاسوسوں نے خبر دی کہ عرب ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ تمہارے شہر کی فتح کے ارادہ سے آرہے ہیں اور وہ شہر سے چھ میل کے فاصلہ پر ہیں ۔ یوقنا نے لشکر کو تیار کرکے آدھا اپنے ساتھ لیا اور آدھا کمین گاہ میں مقرر کیا۔جب حضرت کعب
رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نظر یوقنا کے لشکر پر پڑی تو اپنے لشکریوں سے کہا کہ میرے اندازہ میں دشمن کا لشکر پانچ ہزار ہے جس کا تم مقابلہ نہیں کرسکتے۔ غرض مقابلہ ہوا یہاں تک کہ مسلمانوں کی فتح مبین کا یقین ہوگیا مگر اسی اثنا میں کمین گاہ سے یوقنا کا لشکر آپڑا۔ جس کے سبب سے لشکر اسلام کا ایک فرقہ بھاگنے لگا۔ دوسرے فرقہ نے اہل کمین کا مقابلہ کیا۔تیسرا فرقہ حضرت کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ تھا جو مسلمانوں کے لئے بڑے بے چین تھے اور ان کے بچانے کے لئے کوشش کر رہے تھے اور گرداوا دیتے ہوئے ([68] )یوں پکار رہے تھے:
‘’یامحمد یامحمد یانصراللّٰہ انزل یامعشر المسلمین اثبتوا انما ھی ساعۃ ویأتی النصر وانتم الاعلون’‘
یا محمد ! یا محمد! اے نصرت الٰہی! نزول فرما، اے مسلمانوں کے گروہ! ثابت قدم رہو، یہی ایک گھڑی ہے مدد آنے والی ہے تمہارا ہی بول بالاہے۔
( فتوح الشام ،مطبوعہ مصر ، جزء اول، ص ۱۵۱)([69] )
{7}… حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عبداللّٰہ بن قَرْط صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ہاتھ اپنا خط ابو عُبَیْدَہ بن الجَرَّاح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نام یرموک بھیجا اور سلامتی کی دعا کی۔ عبداللّٰہ جب مسجد سے نکلے تو خیال آیا کہ مجھ سے خطا ہوئی کہ میں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضہ شریف پر سلام عرض نہیں کیا۔ اس لئے وہ روضہ شریف پر حاضر ہوئے۔ وہاں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرات علی ابن ابی طالب و عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ حاضر تھے۔ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ([70] ) حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی گود میں اور امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضر ت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی گود میں تھے۔ حضرت عبداللّٰہ نے حضرت علی و حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے عرض کیا کہ کامیابی کے لئے دعا فرمائیں ۔ ہر دو نے روضہ شریف پر ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی:
اللّٰھم انا نتو سّل بھذا النبی المصطفٰی والرسول المجتبٰی الذی توسّل بہٖ اٰدم فاجیبت دعوتہ وغفرت خطیئتہٗ
الا سہلت علی عبد اللّٰہ طریقہ وطویت لہ البعید وایدت اصحاب نبیک بالنصر انک سمیع الدعاء ۔
یا اللّٰہ! ہم اس نبی مصطفیٰ ورسول مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ جن کے وسیلہ سے
حضرت آدم کی دعاء قبول ہوگئی اور ان کی خطاء معاف ہوگئی کہ تو عبداللّٰہ پر اس کا راستہ آسان کر دے اور بعید کو نزدیک
کردے اور اپنے نبی کے اصحاب کی مدد فتح سے کردے۔ بے شک تو دعا کا سننے والاہے۔
اس کے بعد حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عبداللّٰہ سے فرمایا کہ اب جائیے! اللّٰہ تعالٰی حضرات عمرو عباس و علی و حسن و حسین وازواج رسول اللّٰہ کی دعا ء کو ردنہ کرے گا کیونکہ انہوں نے اللّٰہ کی بارگاہ میں اس نبی کا وسیلہ پکڑا ہے جو اکرم الخلق ہیں ۔([71] ) ( فتوح الشام، جزء اول، ص۱۰۵)
{8} اِبن السُّنِّی ( متوفی ۳۶۴ھ) کی کتا ب میں ہَیْثم بن حَنْش سے روایت ہے کہ اس نے کہا:’’ ہم حضرت عبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے پاس تھے۔ ان کا پاؤں سوگیا توایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ یاد کیجئے اس کو جو آپ کے نزدیک سب لوگوں سے پیارا ہے۔ اس پر حضرت ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے کہا: یا محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) پس گویا آپ بند سے کھول دیئے گئے اور کتاب ابن السنی ہی میں مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے پاس ایک شخص کا پاؤں سوگیا۔ آپ نے اس سے کہا : تویاد کراس کو جو تجھے سب لوگوں سے پیارا ہے۔ یہ سن کر اس نے کہا:یا محمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)یہ کہتے ہی اس کے پاؤں کی خوابید گی جاتی رہی۔([72] ) (کتاب الاذکار للنووی، ص ۱۳۵) حضرت ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کے پاؤں سوجانے کی روایت الادب المفرد للبخار ی ص ۱۱۳میں بھی ہے۔
{9} ایک شخص کسی حاجت کے لئے حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا کرتا تھا مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور اس کی حاجت پر غورنہ فرماتے۔ وہ ایک روز حضرت عثمان بن حُنَیف سے ملا اور ان سے شکایت کی۔ حضرت ابن حُنَیف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس سے کہا کہ وضو کر کے مسجد میں جااور دو رکعت پڑھ کر یوں دعا کر: اَللّٰھُمَّ اِنِّی
اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہٗ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَجَّہٗ بِکَ اِلٰی رَبِّکَ اَنْ تُقْضِیَ حَاجَتِی(یہاں اپنی حاجت کا نام لینا) اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دروازے پر حاضر ہوا۔ دربان آیا اور اس کاہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے اپنے برابر فرش پر بٹھایا اور دریافت حال کرکے اس کی حاجت پوری کردی۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اتنے دنوں میں اس وقت تم نے اپنا مطلب بیان کیا۔ آیندہ جو حاجت تمہیں پیش آیا کرے ہمارے پاس آکر بتادیا کرو۔ وہ وہاں سے رخصت ہوکر ابن حُنَیف سے ملا اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے ایسی اچھی دعا بتائی۔ ابن حُنَیْف نے کہا کہ میں نے اپنی طرف سے نہیں بتائی۔ ایک روز میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک نابینانے اپنی بینائی کے جاتے رہنے کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: اگر تم چاہو میں دعا کردیتا ہوں یاصبر کرو۔ اس نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے بہت دشواری ہے کوئی میرا عصا پکڑنے والا نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ دوگانہ ادا کرکے یہ دعا پڑھنا:اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہٗ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ …الخ ابن حُنَیْف کا بیان ہے کہ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ شخص آیا گویا اس کو کوئی تکلیف ہی نہ ہوئی تھی۔([73] )
اس قصے میں خود حضور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے نابینا کو طریق توسل تعلیم فرمایاہے یہی طریق ایک صحابی سکھا رہے ہیں اور یہی عمل آج تک امت میں جاری ہے۔ اس روایت کو طبرانی نے معجم کبیر میں نقل کیا ہے اور امام بیہقی نے بھی روایت کیاہے۔
{10} ہَیْثم بن عدی نے ذکر کیا ہے کہ بنو عامر( قبیلہ نابغہ جعدی) بصرہ میں کھیتوں میں مواشی([74] ) چرایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ابو موسیٰ اَشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ان کے طلب کرنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے ابو موسیٰ کو دیکھتے ہی یوں آوازدی: یا آل عامر ! یہ سن کر نابغہ جعدی بھی اپنی قوم کے ساتھ نکلا۔ ابو موسیٰ نے اس سے پوچھا کہ تم کس واسطے نکلے ہو؟ نابغہ نے جواب دیا کہ میں نے اپنی قوم کی دعوت قبول کی ہے۔ اس پرابو موسیٰ نے نابغہ کو
تازیانے لگائے۔ نابغہ نے اس بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :
فان تک لابن عفان امیناق فلم یبعث بک البر الامینا
و یا قبر النبی و صاحبیہ الا یا غوثنا لو تسمعونا
(استیعاب لابن عبدالبر) ([75] )
{1}… اگر تو ابن عَفّان کا امین ہے تو اس نے تجھے مہربان امین نہیں بھیجا۔
{2}… اے قبر نبی کی اور آپ کے دو صاحب کی دیکھنا اے ہمارے فریاد رس ! کا ش آپ سنیں ۔
حضرت نابغہ جعدی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ صحابی ہیں ۔ آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے تشدد کا استغاثہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے کیا ہے اور ’’یاغَوْثَنَا‘‘کہہ کر پکارا ہے۔
{11} معجم کبیر و اوسط میں بروایت اَنس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ منقول ہے کہ جب حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی و الدہ فاطمہ بنت اسد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا انتقال ہوگیا تو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماس کے سر ہانے آبیٹھے اور فرمایا: اے میری ماں کے بعد میری ماں ! اللّٰہ تجھ پر رحم کرے اور اس کی تعریف کی اور اسے اپنی چادر میں کفنایا۔ پھر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرات اُسامہ بن زید، ابو ایوب انصاری، عمربن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُماور ایک سیاہ فام غلام کو بلایا۔ انہوں نے قبر کھودی۔ جب لحدتک پہنچے تو خود حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لحد([76] ) اپنے دست مبارک سے کھودی اور آپ اس میں لیٹ گئے۔ پھر یوں دعا کی:’’ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاُمِّیْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ اَسَدٍ وَ وَسِّعْ عَلَیْھَا مُدْخَلَھَا بِحَقِّ نَبِیِّکَ وَ الْاَنْبِیَائِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِیْ فَاِنَّکَ اَ رْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ۔’‘یااللّٰہ ! میری ماں فاطمہ
بنت اسد کو بخش دے اور اس پر اس کی قبر کو کشادہ کردے۔ بوسیلہ اپنے نبی کے اور ان نبیوں کے جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں کیونکہ توارحم الراحمین ہے۔( وفاء الوفاء، جزء ثانی، ص ۸۹) ([77] )
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بچپن میں ابو طالب کی کفالت میں تھے تو ابو طالب کی زوجہ فاطمہ بنت اسد نے کھلانے پلانے میں آپ کا خاص خیال رکھا تھا۔ یہ اسی احسان کا بدلہ تھا کہ آپ نے فاطمہ کو اپنی چادر میں کفنایا تاکہ آتش دوزخ سے محفوظ رہے اور آپ اس کی لحد میں لیٹ گئے تاکہ اسے راحت و آرام ملے۔ یہ روایت نظربر ‘’بحق نبیک’‘ حیات شریف میں تو سل کی دلیل ہے اور نظر بر ‘’الانبیاء الذین من قبلی’‘ بعدوفات توسل کی دلیل ہے۔
صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد آج تک یہ توسل و استغاثہ جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ حضرت اما م الائمہ سیدنا ابو حنیفہ نعمان بن ثابت تابعی کوفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا حال یوں عرض کررہے ہیں : ؎
یا سید السادات جئتک قاصدا ارجوا رضاک واحتمی بحماک
انت الذی لولاک ما خلق امرء کلا و لا خلق الوریٰ لو لاک
انا طامع بالجود منک ولم یکن لابی حنیفۃ فی الانام سواک
{1}…اے سید سادات! میں قصد کرکے آپ کے پاس آیا ہوں ، میں آپ کی خوشنودی کا امیدوار اور آپ کے سبزہ زار میں پناہ گزیں ہوں ۔
{2}… آپ کی وہ مقدس ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کبھی کوئی آدمی پیدا نہ ہوتا اور نہ کوئی مخلوق پیدا ہوتی۔
{3}…میں آپ کے جو دو کرم کا امید وار ہوں ۔ آپ کے سوا خلقت میں ابو حنیفہ کا کوئی سہارا نہیں ۔ (انتہی) ([78] )
حضرت ایوب سختیانی تابعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے توسل کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اما م مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے خلیفہ منصور عباسی کو جو طریق دعا بتایا اس میں بھی توسل بالنبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
اعرابی کا قصہ( جس کو ائمہ نے عُتْبِیسے نقل کیا ہے ) چاروں مذہب کے علماء نے مناسک میں ذکر کیا ہے اور اسے
آداب زیارت میں شمار کیاہے۔ ’’ابن عسا کر‘‘نے اسے اپنی تاریخ میں اور ابن جوزی نے ‘’مثیر الغرام الساکن الی اشرف الاماکن’‘میں بروایت محمد بن حرب ہلالی اس طر ح لکھاہے کہ عُتْبِی([79] )نے کہا کہ میں مدینہ میں داخل ہوا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبر شریف کی زیارت کرکے حضور کے سامنے بیٹھ گیا۔ ایک اعرابی نے آکر زیارت کی اور یوں عرض کیا: یاخیر الرسل! اللّٰہ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل کی جس میں یوں ارشاد فرمایا:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (نساء،ع ۹)
اور اگر یہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور پیغمبر انکے لئے بخشش مانگتا تو اللّٰہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔([80] )
میں آپ کی خدمت میں آپ کے پروردگار سے گناہوں کی مغفرت کا طالب اور آپ کی شفاعت کا امیدوار بن کر حاضر ہوا ہوں ۔ پھر اس نے روکر یہ اشعار پڑھے:
یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہٗ فطاب من طیبھن القاع والاکم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہٗ فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
{1}…اے سب سے بہتر جس کی ہڈیاں میدان میں مدفون ہیں پس ان کی خوشبو سے پست اور اونچی زمینیں مہک گئیں ،
{2}…میری جان اس قبر پر فدا جس میں آپ ساکن ہیں ۔ اس میں پاکیزگی ہے او ر اس میں جو دوکرم ہے۔
بعد ازاں اس اعرابی نے توبہ کی اور چلاگیا۔میں سوگیا تو میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خواب میں دیکھا کہ فرمارہے ہیں : ’’تم اس شخص سے ملو اور اسے بشارت دو کہ اللّٰہ نے میری شفاعت سے اس کے گناہ معاف کردیئے۔ ‘‘ میری آنکھ کھلی تو میں اس کی تلاش میں نکلا مگر وہ نہ ملا۔([81] )
قصہ اَعرابی میں جو آیت قرآن مذکورہے وہ باتفاق مفسرین مثبت توسل ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی ا ٓیت ذیل سے بھی توسل ثابت ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۵) (مائدہ، ع۶)
اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ([82] )
اس آیت میں خدا کی طرف وسیلہ ڈھونڈنے کا حکم ہے۔ وسیلہ سے مراد خواہ خاص شخص ہویا عمل صالح بہر صورت توسل بہ سیدالرسل ثابت ہے کیونکہ اشخاص کی طرح اَعمال صالحہ بھی مخلوق الٰہی ہیں ۔ جیسا کہ آیہ:
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶)
اللّٰہ نے پیدا کیا تم کو اور تمہارے عمل کو([83] )
سے ظاہر ہے۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَشرف الخَلْق و اَکرم الخَلْق و افضل الخَلْق ہونے میں کلام نہیں ۔ پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اشرف الوسائل و اقرب الو سائل الی اللّٰہ ہیں لہٰذا آپ سے توسل بطریق اَولیٰ جائزو مستحسن ہے۔
مختصر یہ کہ انبیاء کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور اولیائے عظام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَامسے توسل واستغاثہ مستحسن ہے اور یہی مذہب اہل سنت و جماعت ہے۔ ہم یہاں صرف علامہ ابن حاج مالکی ( متوفی ۷۳۷ھ) کا قول نقل کرتے ہیں جو مُتَشَدِّدِین میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی کتاب مدخل میں زیارتِ قبور کے بارے میں یوں تحریر فرماتے ہیں :
ثم یتوسّل باھل تلک المقابر اعنی بالصالحین منھم فی قضاء حوائجہ و مغفرۃ ذنوبہٖ ثم یدعوا لنفسہٖ و لوالدیہ و لمشایخہ و لا قاربہٖ و لاھل تلک المقابر و لاموات المسلمین و لاحیائھم و ذریتھم الی یوم الدین و لمن غاب عنہ من اخوانہ و یجار الی اللّٰہ تعالٰی بالدعاء عندھم و یکثر التوسل بھم الی اللّٰہ تعالٰی لانہ سبحانہ و تعالٰی اجتباھم و شرفھم وکرمھم فکما نفع بھم فی الدنیا ففی الاخرۃ اکثر فمن اراد حاجۃ فلیذھب الیھم و یتوسّل بھم فانھم الواسطۃ بین اللّٰہ تعالٰی و خلقہ و قد تقرر فی الشرع و علم ما
للّٰہ تعالٰی بھم من الاعتناء و ذلک کثیر مشھور و ما زال الناس من العلماء و الاکابر کابرا عن کابر مشرقا و مغربا یتبرکون بزیارۃ قبورھم و یجدون برکۃ ذلک حسا و معنی و قد ذکر الشیخ الامام ابو عبد اللّٰہ بن النعمان رحمہ اللّٰہ فی کتابہ المسمی بسفینۃ النجاء لاھل الالتجاء فی کرامات الشیخ ابی النجاء فی اثناء کلامہ علی ذلک ما ھذا لفظہ تحقق لذوی البصائر و الاعتبار ان زیارۃ قبور الصالحین محبوبۃ لاجل التبرک مع الاعتبار فان برکۃ الصالحین جاریۃ بعد مما تھم کما کانت فی حیا تھم و الدعاء عند قبور الصالحین و التشفع بھم معمول بہ عند علماء نا المحققین من ائمۃ الدین انتھٰی([84] )
پھر زائر اپنی قضائے حاجات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے ان قبر والوں یعنی ان میں سے صالحین سے توسل کرے پھر اپنی ذات کے لئے اور اپنے والدین و مشائخ واقارب واہل مقابر کے لئے اور مسلمان مُردوں اور زندوں کے لئے اور قیامت تک ان کی اولاد کے لئے اوراپنے غائب بھائیوں کے لئے دعا کرے اور ان اہل قبور کے پاس اللّٰہ تعالٰی سے عاجزی وزاری سے دعا کرے اور باربار ان کو اللّٰہ تعالٰی کے تقرب کا وسیلہ بنائے کیونکہ اللّٰہ سبحانہ و تعالٰی نے ان کو برگزیدہ بنایا اور بزرگ بنایا اور گرامی بنایا۔ پس جس طرح اس نے دنیامیں ان کے ذریعہ سے فائدہ پہنچایا آخرت میں اس سے زیادہ نفع پہنچائے گا۔ جو شخص کوئی حاجت چاہے اسے چاہیے کہ ان کے پاس جائے اور ان سے توسل کرے کیونکہ وہ اللّٰہ تعالٰی اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہیں اور شرع میں ثابت و معلوم ہے کہ ان پر اللّٰہ تعالٰی کی کتنی توجہ و مہربانی ہے او ر وہ کثیرو مشہور ہے اور مشرق و مغرب میں علماء واکابر قدیم سے ان کی قبروں کی زیارت کو مبارک سمجھتے رہے ہیں اور ظاہر و باطن میں اس کی برکت محسوس کرتے رہے ہیں ۔ امام ابو عبداللّٰہ بن نعمان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی کتاب ‘’سفینۃ النجائ’‘ میں یوں لکھتے ہیں ۔ ’’ اصحاب بصائر و اعتبار کے نزدیک یہ امر ثابت ہے کہ صالحین کی قبروں کی زیارت بغرضِ تبرک و حصولِ عبرت پسندیدہ ہے۔ کیونکہ صالحین کی برکت ان کی موت کے بعد اسی طرح جاری ہے جیسا کہ ان کی زندگی میں تھی اور ائمہ دین میں سے ہمارے علمائے محققین کے نزدیک صالحین کی قبروں پر دعا کرنا اور ان سے طلب شفاعت کرنا معمول بہ ہے۔‘‘
و اما عظیم جناب الانبیاء و الرسل صلوات اللّٰہ وسلامہ علیھم اجمعین فیأتی الیھم الزائر و یتعین علیہ قصد ھم من الاماکن البعیدۃ فاذا جاء الیھم فلیتصف بالذل و الانکسار و المسکنۃ و الفقر و الفاقۃ و الحاجۃ و الاضطرار و الخضوع و یحضر قلبہ و خاطرہ الیھم و الی مشاھدتھم بعین قلبہ لا بعین بصرہ لانھم لا یبلون ولا یتغیرون ثم یثنی علی اللّٰہ تعالٰی بما ھو اھلہ ثم یصلی علیھم ویترضی عن اصحابھم ثم یترحم علی التابعین لھم باحسان الی یوم الدین ثم یتوسل الی اللّٰہ تعالٰی بہم فی قضاء ماربہ و مغفرۃ ذنوبہ و یستغیث بھم و یطلب حوائجہ منھم و یجزم بالاجابۃ ببرکتھم و یقوی حسن ظنہ فی ذٰلک فانھم باب اللّٰہ المفتوح و جرت سنتہ سبحٰنہ و تعالٰی فی قضاء الحوائج علی ایدیھم و بسببھم و من عجز عن الوصول الیھم فلیرسل بالسلام علیھم و یذکر ما یحتاج الیہ من حوائجہ و مغفرۃ ذنوبہ و ستر عیوبہ الی غیر ذلک فانھم السادۃ الکرام والکرام لایردون من سألھم ولا من توسّل بھم ولا من قصد ھم ولا من لجأ الیھم ھذا الکلام فی زیارۃ الانبیاء و المرسلین علیہم الصلٰوۃ و السلام عموما ۔([85] )
رہا انبیاء و مرسلین صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلامُہُ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی بارگاہ عالی، سوزائر ان کے پاس جائے او ر اسے چاہیے کہ دو ر درازمقامات سے ان کا قصد کرے۔ جب ان کے پاس پہنچے تو ذُل([86] ) و انکسار ومسکنت و فقر و فاقہ و حاجت و اضطرار و خشوع ظاہر کرے او ر اپنے دل کو ان کی طرف متوجہ کرے اور چشم دل سے ( نہ کہ چشم بصر سے) ان کے مشاہدے میں مشغول ہوجائے کیونکہ وہ بوسیدہ و متغیر نہیں ہوتے پھر اللّٰہ تعالٰی کی مناسب ثناء کے بعدا ن پر درود بھیجے اور ان کے اصحاب کے لئے رضائے خداطلب کرے اور ان کے تابعین تاقیامت کے لئے رحمت طلب کرے۔ پھر قضائے حاجات اور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے ان کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنائے اور ان سے استغاثہ کرے اور اپنی حاجتیں ان سے مانگے اور ان کی برکت سے اجابت کا یقین کرے اور اس بار ے میں اپنے حسن ظن کو قوی کرے کیونکہ وہ خدا کا کھلا دروازہ ہیں اور خدا کی یہ سنت جاریہ ہے کہ وہ ان کے ہاتھوں پر اوران کے سبب سے قضائے حاجات فرماتا ہے جو شخص ان کی خدمت میں پہنچنے سے عاجز ہو اُسے چاہیے کہ کسی دوسرے کے ہاتھ اپنا سلام پہنچائے او ر اپنی حوائج و مغفرتِ ذُنوب و ستر عیوب
وغیرہ کا ذکر کرے کیونکہ وہ ساداتِ کرام ہیں اور کرام رَد نہیں کرتے اس کو جواُن سے سوال کرے اور نہ اس کو جو اُن سے توسل کرے اور نہ اس کو جواُن کا قصد کرے اور نہ ا س کو جواُن کی پناہ لے۔ یہ کلام عام انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی زیارت کے بارے میں ہے۔
و اما فی زیارۃ سید الاوّلین و الاٰخرین صلوات اللّٰہ علیہ و سلامہ فکل ما ذکر یزید علیہ اضعافہ اعنی فی الانکسار و الذل و المسکنۃ لانہ شافع المشفّع الذی لا ترد شفاعتہ و لا یخیب من قصدہ و لا من نزل بساحتہ و لا من استعان او استغاث بہ اذ انہ علیہ الـصلٰوۃ و السلام قطب دائرۃ الکمال و عروس المملکۃ ۔([87] )
رہا زیارت سیدالاوّلین والآخرین صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلامُہُ سو انکسار و ذُل ومسکنت جن کا ذکر اوپر ہو اان کا اِظہار اس بارگاہ عالی میں کئی گنا زیادہ کرے کیونکہ حضور شافع مشفع ہیں کہ جن کی شفاعت رَد نہیں ہوتی اور وہ محروم نہیں رہتا جو آپ کا قصد کرے یا آپ کے آنگن میں اُترے یا آپ سے مدد مانگے یا آپ سے اِستغاثہ کرے کیونکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام قطب دائرہ کمال اور عروس([88] ) مملکت ہیں ۔
قال اللّٰہ تعالٰی فی کتابہ العزیز:(لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی) قال علماؤنا رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیھم: راٰی صورتہ علیہ الصلٰوۃ و السلام فاذا ھو عروس المملکۃ فمن توسّل بہ او استغاث بہ او طلب حوائجہ منہ فلا یرد و لا یخیب لما شھدت بہ المعاینۃ و الا ثار و یحتاج الی الادب الکلی فی زیارتہ علیہ الصلٰوۃ و السلام و قد قال علماؤنا رحمۃ اللّٰہ علیھم: ان الزائر یشعر نفسہ بانّہ واقف بین یدیہ علیہ الصلٰوۃ و السلام کما ھو فی حیا تہ اذ لا فرق بین موتہ و حیا تہ اعنی فی مشاھدتہ لامتہ و معرفتہ باحوالھم و نیّا تھم و عزائمھم و خواطرھم و ذلک عندہ جلی لاخفاء فیہ فان قال القائل ھذہ الصفات مختصۃ بالمولٰی سبحانہ وتعالٰی فالجواب ان کل من انتقل الی الاٰخرۃ من المؤمنین فھم یعلمون احوال الاحیاء غالبا وقد وقع ذلک فی الکثرۃ بحیث المنتھٰی
من حکایات وقعت منھم و یحتمل ان یکون علمہم بذلک حین عرض اعمال الاحیاء علیہم و یحتمل غیر ذلک و ھذہ اشیاء مغیبۃ عنا وقد اخبر الصادق علیہ الصلٰوۃ و السلام بعرض الاعمال علیھم فلابد من وقوع ذلک و الکیفیۃ فیہ غیر معلومۃ و اللّٰہ اعلم بھا وکفی فی ھذا بیانا قولہ علیہ الصلٰوۃ و السلام (المؤمن ینظر بنور اللّٰہ) انتھٰی ۔ و نور اللّٰہ لا یحجبہ شیء ھذا فی حق الاحیاء من المؤمنین فکیف من کان منھم فی الدار الاخرۃ و قد قال الامام ابو عبد اللّٰہ القرطبی فی تذکرتہ ما ھذا لفظہ قال ابن المبارک اخبرنا رجل من الانصار عن المنھال بن عمرو و حدثنا انہ سمع سعید بن المسیب یقول لیس من یوم الا و تعرض علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اعمال امتہ غدوۃ و عشیۃ فیعرفھم بسیماھم و اعمالھم فلذلک یشھد علیھم۔ قال اللّٰہ تعالٰی (فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱)) قال و قد تقدم ان الاعمال تعرض علی اللّٰہ تبارک و تعالٰی یوم الخمیس و یوم الاثنین و علی الانبیاء و الاٰباء و الامھات یوم الجمعۃ ولا تعارض فانہ یحتمل ان یختص نبینا علیہ الصلٰوۃ و السلام بالعرض کلّ یوم و یوم الجمعۃ مع الانبیآء ۔ (انتھٰی) ([89] )
اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتا ہے:
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى(۱۸)
البتہ تحقیق دیکھا حضرت نے اپنے رب کی نشانیوں سے بڑی کو([90] )
ہمارے علماء رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی نے اس کی تاویل میں کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلامنے شب معراج میں اپنی ذات شریف کی صورت کو ملکوت میں دیکھا تو ناگاہ آپ عروسِ مملکت تھے پس جس نے حضور سے توسل یا استغاثہ کیا یا حضور سے اپنی حاجتیں مانگیں اس کی دعا رد نہیں ہوتی اور و ہ محروم نہیں رہتا۔ جیسا کہ معائنہ و آثار اس پر شاہد ہیں ۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی زیارت میں پور ے اَدَب کی ضرورت ہے۔ ہمارے علماء رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی نے فرمایا ہے کہ زائر سمجھے کہ میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے سامنے ایسا کھڑا ہوں جیسا کہ حضو ر کی حیات شریف میں ، کیونکہ اپنی امت کے مشاہدے اور ان کے اَحوال و نیات و عزائم و خواطر کی معرفت میں حضور کی موت وحیات یکساں ہے اور یہ آپ کے نزدیک ظاہر ہے اس میں کوئی پوشیدگی نہیں ۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ یہ صفات تو اللّٰہ تعالٰی سے مختص ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ مومنوں
میں سے جو عالم برزخ میں چلے جاتے ہیں وہ زندوں کے حالات اکثر جانتے ہیں ۔ چنانچہ حکایتوں میں نہایت کثرت سے ایسے واقعات مذکور ہیں اور احتمال ہے کہ مردوں کو زندوں کے حالات کا علم اس وقت ہو جاتا ہو جبکہ ان پر زندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں اس کے سوا اور بھی احتمال ہے۔ یہ چیزیں ہم سے پوشیدہ ہیں حالانکہ خود حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے خبر دی ہے کہ زندوں کے اَعمال مردوں پر پیش ہوتے ہیں ۔ پس اس کے وقوع میں شک نہیں مگر ہمیں اس کی کیفیت معلوم نہیں خدا کو خوب معلوم ہے اس کے بیان میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا یہ قول کافی ہے: ’’مومن خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ اور خدا کے نور کے لئے کوئی چیز حاجب نہیں([91] )یہ تو زندہ مومنوں کے حق میں ہے، ان میں سے جو دارِ آخرت میں چلا جاتا ہے اس کا کیا حال ہوگا۔ امام ابو عبداللّٰہ قرطبی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی کتاب ‘’ تذکرہ ‘‘ میں یوں فرمایا ہے:
عبداللّٰہ بن مبارک رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ راوی ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نے ہمیں خبردی کہ مِنْہال بن عمرو نے سعید بن مُسَیّب کو سنا کہ فرماتے تھے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ امت کے اعمال صبح و شام نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمپر پیش نہ کیے جاتے ہوں ۔ پس حضور ان کو ان کے چہروں سے اور ان کے اعمال سے پہچانتے ہیں اسی واسطے آپ اپنی امت پر شہادت دیں گے۔باری تعالٰی کا ارشاد ہے:
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱)
پس کیونکر ہوگا جس وقت ہم لائیں گے ہر امت سے گواہی دینے والا اور لائیں گے ہم تجھ کو ان پر گواہ ۔([92] )
اور پہلے آچکا ہے کہ اَعمال اللّٰہ تعالٰی پر پنجشنبہ([93] ) اور دو شنبہ([94] ) کو اور پیغمبروں اور باپوں اور ماؤں پر جمعہ کے دن پیش ہوتے ہیں ۔ اس میں کوئی تعارُض نہیں کیونکہ احتمال ہے کہ اَعمال کا ہر روز پیش ہونا ہمارے بنی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام سے مختص ہو اور جمعہ کے دن پیش ہونا حضور سے اور دوسرے پیغمبروں عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام سے مخصوص ہو۔
فالتوسّل بہ علیہ الصلٰوۃ و السلام ھو محل حط احمال الاوزار و اثقال الذنوب و الخطایا لان برکۃ
شفاعتہ علیہ الصلٰوۃ و السلام و عظمھا عند ربہ لا یتعاظمھا ذنب اذ انھا اعظم من الجمیع فلیستبشر من زارہ ویلجأ الی اللّٰہ تعالٰی بشفاعۃ نبیہ علیہ الصلٰوۃ و السلام من لم یزرہ اللھم لا تحرمنا من شفاعتہ بحرمتہ عندک اٰمین یارب العٰلمین ومن اعتقد خلاف ھذا فھو المحروم ۔([95] )
پس حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے توسل کرنا گناہوں اور خطاؤں کے بوجھوں کے ساقط ہونے کا محل ہے کیونکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی شفاعت کی برکت اور اللّٰہ کے نزدیک آپ کی عظمت کے سامنے کوئی گناہ بڑا نہیں اس لئے کہ آپ کی شفاعت سب سے بڑھ کر ہے۔ پس چاہیے کہ خوش ہووے وہ شخص جس نے حضو ر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی زیارت کی جو شخص زیارت کے لئے حاضر نہ ہوسکا و ہ حضور کو شفیع بناکر خدا کی پناہ لے۔ اللّٰھم لا تحرمنا من شفاعتہ بحرمتہ عندک اٰمین یارب العلمین ۔ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے وہ محروم ہے۔
امام محمد بن موسیٰ بن نعمان مراکشی فاسی مالکی ( متوفی ۶۸۳ھ) نے ۶۳۹ھ میں حج سے واپس آکر اپنی کتاب ‘’مصباح الظلام فی المستغیثین بخیر الانام فی الیقظۃ والمنام’‘ تصنیف کی۔ علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس میں سے چند مثالیں ایسے اشخاص کی نقل کی ہیں کہ جنہوں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے استغاثہ کیا یا حضور کی قبر شریف کے پاس آپ سے کچھ مانگا اور ان کو ان کا مطلوب حاصل ہوگیا۔ ہم ذیل میں ’’وفاء الوفائ‘‘ کے علاوہ دیگر کتب سے بھی توسل واستغاثہ کے چند واقعات نقل کرتے ہیں ۔
{1} حافظ محمد بن منکدر (متوفی ۲۰۵ھ ) کا بیان ہے کہ ایک شخص نے میرے والد کے پاس اَسی 80 دِینار بطورِ امانت رکھے اور وہ یہ کہہ کر جہاد پر چلاگیا کہ میری واپسی تک اگر تمہیں ضرورت پیش آئے تو خرچ کرلینا۔ والد نے قحط سالی کے سبب سے وہ دینار خرچ کرلئے اس شخص نے واپس آکر اپنی امانت طلب کی۔ والد نے جواب دیا: کل میرے پاس آنا اور رات مسجد نبوی میں گزاری کبھی قبر شریف سے لپٹتے اور کبھی منبر ِمُنِیف([96] ) سے یہاں تک کہ قبر شریف سے استغاثہ کرتے کرتے صبح ہونے کو آئی۔ ناگاہ تاریکی میں ایک شخص نمودار ہوا، وہ کہہ رہاتھا:’’ اے ابو محمد! یہ لو۔‘‘ والد نے ہاتھ بڑھا یا تو کیا دیکھتے
ہیں کہ وہ ایک تھیلی ہے جس میں اَسی 80 دِینار ہیں ۔ صبح کو والد نے وہی دینار اس شخص کو دے دیئے۔([97] )
{2} اما م ابو بکر مُقْری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قول ہے کہ میں ، طبرانی اور ابوا لشیخ حرم نبوی میں فاقہ سے تھے جب عشاء کا وقت آیا تو میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبر شریف پر حاضر ہو کر عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہم بھوکے ہیں ۔‘‘ یہ عرض کرکے میں لوٹا۔ ابو القاسم ( طبرانی ) نے مجھ سے کہا کہ بیٹھورزق آئے گا یا موت۔ ابوبکر کا بیان ہے کہ میں اور ابوالشیخ سو گئے اور طبرانی بیٹھے ہوئے کچھ دیکھ رہے تھے۔ ایک علوی نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہم نے کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ دو غلام ہیں جن میں سے ہر ایک کے پاس کھانے سے بھری ہوئی ایک زنبیل ہے۔ ہم نے بیٹھ کے کھایا او ر خیال کیا کہ بقیہ کو غلام لے لے گا مگر وہ باقی کو ہمارے پاس چھوڑ گئے۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو علوی نے ہم سے کہا: کیا تم نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے فریاد کی تھی کیونکہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں مجھے حکم دیا کہ میں تمہارے پاس کچھ لے جاؤں ۔([98] )
{3}ابن جلاد کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور فاقہ سے تھا۔ میں نے قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: میں آپ کا مہمان ہوں ۔ اتنا عرض کرکے میں سوگیا، خواب میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی آدھی میں نے کھالی آنکھ کھلی تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔([99] )
{4}ابو الخیر اقطع ذکر کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور فاقہ سے تھا پانچ دن اسی طرح رہا پھر قبر شریف پر حاضر ہوا اور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرات شیخین پر سلام عرض کیا اور یوں گویاہوا: ’’یارسول اللّٰہ! میں آپ کا مہمان ہوں ۔‘ ‘ یہ عرض کرکے میں قبر شریف کے پیچھے سو گیا۔ میں نے خواب میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے دائیں طرف اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُبائیں طرف اور حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سامنے ہیں ۔ مجھے حضرت علی نے ہلایا اور کہا کہ اٹھو! رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے ہیں ۔ میں نے اٹھ کر حضور کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ حضور نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی۔ آدھی میں نے کھالی آنکھ
کھلی تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔([100] )
{5} ابو عبداللّٰہ محمد بن زُرْعَہ صوفی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ذکر کرتے ہیں کہ میں او ر میرے والد اور ابو عبداللّٰہ بن خفیف مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ ہم رات کو بھوکے رہے۔ میں ابھی بالغ نہ ہوا تھا اور اپنے والد سے با ر بار کہتا تھا کہ میں بھوکا ہوں ۔ میرے والد نے قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)آج رات میں آپ کا مہمان ہوں ۔‘‘ یہ عرض کرکے والد مراقب ہوگئے۔([101] )کچھ دیر کے بعد انہوں نے سر اٹھایا تو کبھی روتے کبھی ہنستے۔ ان سے سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ آپ نے کچھ درہم میرے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ ہاتھ جو کھولا تو اس میں وہ درہم موجود تھے۔ اللّٰہ تعالٰی نے ان درہموں میں اتنی برکت دی کہ ہم شیراز آگئے اور وہاں بھی ان میں سے خرچ کرتے رہے۔([102] )
{6} احمد بن محمد صوفی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ میں تین مہینے بیابان میں پھرتا رہا۔ پھر مدینہ منورہ میں داخل ہوا اور روضہ شریف پر حاضر ہوکر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر اور حضرات شیخین پر سلام عرض کیا پھر سوگیا۔ خواب میں مجھے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: ’’ اے احمد ! تم آگئے ہو؟ ‘‘ میں نے عرض کیا کہ ہاں ! میں بھوکا ہوں اور آپ کا مہمان ہوں ۔ حضور نے فرمایا کہ اپنے ہاتھ کھولو! میں نے ہاتھ کھول دیئے۔ حضور نے میرے دونوں ہاتھ درہموں سے بھر دیئے۔ میری آنکھ کھلی تو دونوں ہاتھ درہموں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے نانِ میدہ اور فالودہ خریدا او ر کھایا پھر اسی وقت صحرا کی راہ لی۔([103] )
{7} حافظ ابو القاسم بن عساکر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنی تاریخ میں بالاسناد نقل کیا ہے کہ ابو القاسم ثابت بن احمد بغدادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک شخص نے مدینہ منورہ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبر شریف کے پاس نماز صبح کے لئے اذان دی اور اس میں الصلوۃ خیر من النوم کہا خدامِ مسجد میں سے ایک نے یہ سن کر اس پر
تھپڑ مارا۔ اس شخص نے روکر عرض کیا: ’’ آپ کے حضور میں میرے ساتھ یہ سلوک کیاجاتاہے۔‘‘ اسی وقت اس خادم پر فالج گرا اسے وہاں سے اٹھاکر گھر لے گئے اور وہ تین دن کے بعد مرگیا۔([104] )
{8} منجملہ روایات ابن نعمان یہ ہے کہ میں نے ابو اسحاق ابراہیم بن سعید سے سنا کہ میں مدینہ منورہ میں تھا میرے ساتھ تین فقیر تھے ہم فاقہ میں مبتلا ہوئے۔ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت شریف میں حاضر ہو کر عرض کیا: ’’یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمارے پاس کچھ نہیں ہمیں تین مُد([105] )کافی ہیں خواہ کسی چیز کے ہوں ۔‘‘ اس کے بعد ایک شخص مجھ سے ملا اس نے مجھے تین مُد عمدہ کھجوریں عطا کیں ۔([106] )
{9} امام ابن نعمان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہی بروایت ابو العباس بن نفیس مُقْری ضریر نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں مدینہ منورہ میں تین دن بھوکا رہا۔ میں نے قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں بھوکا ہوں ۔‘‘ یہ عرض کرکے میں سوگیا۔ ایک لڑکی نے پاؤں مار کر مجھے جگادیا وہ مجھے اپنے گھر لے گئی اور گیہوں کی روٹی اورگھی اور کھجوریں پیش کیں اور کہا:’’ابو العباس ! کھاؤ! میرے جد بزرگوار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے یہ کھانا تیار کرنے کا حکم دیا ہے تمہیں جب بھو ک لگے ہمارے پاس آجایا کرو۔‘‘([107] )
{10تا13} علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے مَسْمُوعات یوں بیان کرتے ہیں : میں نے شریف ابو محمد عبدالسلام بن عبدالرحمن حسینی فاسی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں مدینہ منورہ میں تین دن رہا مجھے کھانے کو کچھ نہ ملامیں نے منبر شریف کے پاس دو گانہ اد اکرکے یوں عرض کیا: ’’ اے میرے جدبزرگوار ! میں بھوکا ہوں اور آپ سے ثرید مانگتا ہوں ۔‘‘ یہ عرض کرکے میں سو گیا ناگاہ ایک شخص نے مجھے جگادیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے پاس ایک چوبی پیالہ([108] ) ہے جس میں ثرید ، گھی، مصالحہ اور گوشت ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کھالو۔ میں نے پوچھا کہ تم یہ کہاں سے لائے ہو۔ اس
نے جواب دیا کہ میرے بچے تین دن سے اسی کھانے کی تمنا کرتے تھے آج اللّٰہ تعالٰی نے کچھ کشائش کر دی تو میں نے یہ کھانا تیار کیا پھر میں سوگیا۔ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خواب میں دیکھا کہ فرمارہے ہیں کہ تمہارا ایک بھائی مجھ سے اسی کھانے کی آرزوکرتاہے تم اس میں سے اس کو بھی کھلاؤ۔ ([109] )
میں نے شیخ ابو عبداللّٰہ محمد بن ابی الامان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یہ کہتے سنا کہ میں مدینہ منورہ میں محراب فاطمہ کے عقب میں تھا۔ شریف مکثر قاسمی محراب مذکور کے پیچھے سوئے ہوئے تھے۔وہ اٹھ کر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت شریف میں حاضر ہوئے اور ہمارے پاس مسکراتے ہوئے آئے۔ شمس الدین صواب خادم روضہ شریف نے ان سے مسکرانے کا سبب دریافت کیا۔ انہوں نے بیان کیاکہ میں فاقہ سے تھا اپنے گھر سے نکل کر بیت فاطمہ میں آیااور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اِستغاثہ کیا کہ میں بھوکا ہوں ۔ خواب میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے دودھ کا پیالہ عطافرمایا۔ میں نے پی لیا اور سیراب ہوگیا۔ دیکھ لو یہ موجود ہے اور اپنے منہ میں سے اپنے ہاتھ پر تھوک کر دکھلادیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ ان کے منہ میں دودھ تھا۔([110] )
میں نے عبداللّٰہ بن حسن دِ مْیاطی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو بیان کرتے سنا کہ مجھ سے عبدالقادر تِیْنسی نے حکایت کی کہ میں فقیروں کی طرح سفر کررہا تھا۔ میں نے مدینہ منورہ میں حاضر ہوکر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کچھ عرض کیا اور بھوک کی شکایت کی پھر میں وہیں سوگیا۔ ایک نوجوان نے مجھے جگا دیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ اس نے ثرید کاایک پیالہ اورکئی قسم کی کھجوریں اور بہت سی روٹیاں پیش کیں ۔ میں نے کھانا کھایا۔ اس نے گوشت ونان و تَمَر ([111] ) سے میرا توشہ دان بھر دیااور بیان کیا کہ میں نماز چاشت کے بعد سویا ہوا تھا خواب میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں یہ کھانا پہنچادوں ۔ حضو ر نے مجھے تمہاری جگہ بھی بتادی اور فرمادیا کہ تم نے حضور سے یہی تمنا کی تھی۔([112] )
میں نے اپنے دوست علی بن ابراہیم بوصیری کو فرماتے سناکہ عبدالسلام بن ابی القاسم صِقِلّی ذکر کرتے تھے کہ ایک ثقہ شخص نے جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا مجھ سے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ میں تھا۔ میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں کمزور ہورہا تھا ایک روز حجرہ شریف کے پاس آکر میں نے عرض کیا: ’’یا سیدَ الاوّلین والآخِرین! میں مصر کا رہنے والا ہوں پانچ ماہ سے آپ کی خدمت میں ہوں ، کمزور ہوگیا ہوں ۔ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا سے دعا فرمایئے! میں اللّٰہ سے اور آپ سے سوال کرتا ہوں کہ میرے پاس کوئی بندہ ایسا بھیج دے جو مجھے پیٹ بھر کر کھانا کھلائے یا مجھے اپنے ساتھ لے جائے۔ ‘‘میں یہ عرض کرکے منبر شریف کے پاس بیٹھ گیا۔ ناگاہ ایک شخص حجرہ میں داخل ہوا اس نے کچھ کلام کیا اور کہا: اے جدّ بزرگوار! اے جدبزرگوار! پھر میری طرف آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر باب جبریل سے نکلا اوربقیع میں سے ہوتا ہواایک خیمہ میں پہنچاوہاں اس نے غلام و کنیز سے کہا کہ اپنے مہمان کے لئے کھانا تیار کرو۔ چنانچہ غلام لکڑیا ں چن لایا اور کنیزنے اناج پیس کر روٹی پکائی روٹی کے ساتھ گھی اور کھجوریں تھیں ۔ میں آدھی روٹی سے سیر ہوگیا۔ اس نے باقی آدھی اور دو صاع کھجوریں میرے توشہ دان میں ڈال دیں ۔ جب میں فارغ ہواتو اس نے میرا نام پوچھا۔ میں نے بتلا دیا۔ پھر مجھ سے کہا کہ تجھے خدا کی قسم ! میرے جدّ بزرگوار کے پاس پھر شکایت نہ کرنا کیونکہ انہیں ناگوار گزرتا ہے۔ آج سے بھوک کے وقت تیرا رزق تیرے پاس آجایا کرے گا یہاں تک کہ سفر کے لئے تجھے کوئی ساتھی مل جائے پھر اس نے اپنے غلام سے کہا کہ ان کو حجرہ شریف میں پہنچا دو۔ جب میں غلام کے ساتھ بقیع میں آیا تو میں نے اس سے کہا کہ اب تم لوٹ جاؤ۔ میں پہنچ جاؤں گا۔ اس نے کہا: یاسیدی! میں تو آپ کو حجرہ شریف میں پہنچا کر ہی آؤں گا۔ مبادا ([113] )رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرے آقا کو بتادیں ۔ غرض مجھے حجرہ شریف میں پہنچا کر چلا گیا۔ میں چار روز توشہ دان میں سے کھاتا رہا۔ پھر مجھے بھوک لگی تو وہی غلام مجھے کھانا دے گیا۔ بعد ازاں ایسا ہی ہوتا رہا کہ جب بھی مجھے بھوک لگتی کھانا پہنچ جاتا یہاں تک کہ ایک جماعت کے ساتھ میں ینبع کی طرف نکلا۔([114] )
{14} علامہ سَمْہُودی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں تھا۔ مصر کے حاجیوں کا قافلہ
تجارت کو آیا۔ میرے ہاتھ میں خلوت کی کنجی([115] ) تھی جس میں میری کتابیں تھیں ۔ ایک مصری عالم نے کہا کہ میرے ساتھ روضہ شریف میں چلو۔ جب میں واپس آیا تو مجھے کنجی نہ ملی۔ میں نے ہر چند مختلف جگہ تلاش کی مگر نہ ملی۔ یہ مجھ پر بہت ناگوار گزرا کیونکہ اس وقت مجھے کنجی کی سخت ضرورت تھی۔ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’یاسیدی! یارسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میری خلوت کی کنجی گم ہوگئی ہے مجھے اس کی ضرورت ہے میں آپ کے پاس دروازے سے مانگتا ہوں ۔‘‘ یہ عرض کر کے میں واپس آیا تو ایک لڑکے کو جسے میں نہ پہچانتا تھا خلوت کے قریب دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں وہ کنجی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں یہ کہاں سے ملی؟ اس نے جواب دیا کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے موا جہ شریف کے پاس تھی میں نے وہاں سے اٹھالی۔([116] )
{15}علامہ قَسْطَلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ’’مواہب لدنیہ‘‘ میں اپنا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ کئی سال مجھے ایک بیماری لاحق رہی جس کے علاج سے اطبا عاجز آگئے میں نے ۲۸ جُمَادَی الا ُوْلیٰ ۸۹۳ھ کی رات کو مکہ مشرفہ میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے استغاثہ کیا۔ خواب میں میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے پاس ایک کاغذ ہے۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ اذن شریف نبوی کے بعد حضرت شریفہ سے یہ احمد بن قسطلانی کی دو اہے۔ جب میری آنکھ کھلی تو واللّٰہ میں نے اس بیماری کا کوئی نشان نہ پایااور نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی برکت سے شفا حاصل ہوگئی۔([117] )
{16}علامہ قَسْطَلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنا دوسرا واقعہ یوں ذکر کرتے ہیں کہ ۸۸۵ھ ([118] )میں زیارت شریف کے بعد میں مصر کو آرہا تھا کہ مکہ کے راستے میں ہماری خادمہ غزال حبشیہ پر کئی روز آسیب کا اثررہا۔ اس بار ے میں میں نے نبی
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے استغاثہ کیا۔ خواب میں ایک شخص نظر آیا جس کے ساتھ وہ جن تھا۔ اس نے کہا: اس جن کورسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ میں نے اس جن کو ملامت کی اور اس سے حلف لیا کہ آیندہ اس خادمہ کے پاس نہ آئے گا۔ میری آنکھ کھلی تو خادمہ پرآسیب کا کچھ اثر نہ تھا۔ گویا اس کو قید سے رہا کردیا گیا ہے وہ عافیت میں رہی یہاں تک کہ میں نے ۸۹۴ھ میں اس کو علیحدہ کردیا۔([119] )
{17} علامہ یوسف نبہانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں کہ کثیر بن محمد بن رِفاعہ نے بیان کیا کہ ایک شخص عبدالملک بن سعیدبن خیار بن ابجر([120] ) کے پاس آیا۔ اس نے اس شخص کا پیٹ ٹٹولا اور کہاکہ تجھے لاعلاج بیماری ہے۔ اس نے پوچھا: کیا بیماری ہے ؟ ابن ابجر نے کہا کہ دُبَیْلَہ ۔([121] ) یہ سن کر وہ لوٹ آیااور اس نے تین باریوں دعا مانگی:
اللّٰہ اللّٰہ اللّٰہ رَبِّیْ لَا اُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَتَوَجَّہٗ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ
اَتَوَجَّہٗ بِکَ اِلٰی رَبِّکَ وَرَبِّیْ اَنْ یَرْحَمَنِیْ مِمَّا بِیْ رَحْمَۃً یُغْنِیْنِیْ بِھَا عَنْ رَحْمَۃٍ مِنْ سِوَاہُ ۔
اللّٰہ ، اللّٰہ ، اللّٰہ میرا پروردگار ہے میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ یا اللّٰہ ! میں تیری بارگاہ میں تیرے نبی محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنبی رحمت کے وسیلے سے پیش ہوتا ہوں ۔ یا محمد! میں آپ کے اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ کے وسیلے سے پیش ہوتا ہوں کہ وہ اس بیماری میں مجھ پر ایسی رحمت کرے کہ جس سے کسی غیر کی رحمت سے مجھے بے نیاز کردے۔اس دعا کے بعد وہ پھر ابن ابجرکے پاس گیا، اس نے اس کا پیٹ ٹٹولا تو کہا کہ تو تندرست ہوگیا ہے تجھے کوئی بیماری نہیں ۔([122] )
{18} ابو عبداللّٰہ سالم معروف بہ خواجہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں دریائے نیل کے ایک جزیرہ میں ہوں کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک مگر مچھ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے میں اس سے ڈرگیا۔ ناگاہ ایک شخص نے جو
میرے ذہن میں آیا کہ وہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں مجھ سے فرمایا کہ جب تو کسی سختی میں ہوتو یوں پکار ا کر:’’ اَنَا مُسْتَجِیْرٌ بِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ۔’‘ یارسول اللّٰہ ! میں آپ کی پناہ کا طلب گار ہوں ۔اتفاق سے ان ہی ایام میں ایک نابینا نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کا ارادہ کیا۔ میں نے اس سے اپناخواب بیان کردیا اور کہہ دیا کہ جب تو کسی سختی میں مبتلا ہوتو یوں پکارا کر: اَنَا مُسْتَجِیْرٌ بِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ ۔ وہ روانہ ہوکر رابِغْ میں پہنچا وہاں پانی کی قلت تھی اس کا خدمت گار پانی کی تلاش میں نکلا۔ راوی کا قول ہے کہ اس نابینا نے مجھ سے ذکر کیا کہ میرے ہاتھ میں مشک خالی رہ گئی۔ میں پانی کی تلاش سے تنگ آگیا۔ اسی اثناء میں مجھے تمہارا قول یاد آگیا۔ میں نے کہا: ‘’اَنَا مُسْتَجِیْرٌ بِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہ’‘ اسی حال میں ناگاہ ایک شخص کی آواز میرے کان میں پڑی کہ تو اپنی مشک بھر لے۔ میں نے مشک میں پانی کے گرنے کی آواز سنی یہاں تک کہ وہ بھر گئی۔ میں نہیں جانتا کہ وہ شخص کہا ں سے آگیا۔([123] )
{19} ابو الحسن علی بن مصطفیٰ عَسْقَلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ذکر کرتے ہیں کہ ہم بحر عَیْذاب میں کشتی میں جدہ کو روانہ ہوئے سمندر میں طغیانی آگئی۔ ہم نے اپنا اسباب سمندر میں پھینک دیا۔ جب ہم ڈوبنے لگے تو نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے استغاثہ کرنے لگے اور یوں پکارنے لگے۔ یا محمد اہ! یا محمد اہ!۔ ہمارے ساتھ مغر ب کا ایک نیک دل شخص تھاوہ بولا: حاجیو! گھبراؤ مت۔ تم بچ جاؤ گے کیونکہ ابھی میں خواب میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی زیارت سے مشرف ہوا ہوں میں نے حضور سے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) آپ کی امت آپ سے استغاثہ کر رہی ہے۔ حضور نے حضرت ابو بکر صدیقرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ مدد کرو۔ مغربی کا قول ہے کہ میں اپنی آنکھ سے دیکھ رہا تھا کہ حضرت صدیق اکبر سمندر میں گھس گئے۔ انہوں نے کشتی کے پتوار([124] ) پر اپنا ہاتھ ڈالا اور کھینچتے رہے یہاں تک کہ خشکی سے جالگے۔ چنانچہ ہم صحیح و سالم رہے اور اس کے بعد بجز خیر ہم نے کچھ نہ دیکھا اور صحیح و سالم خشکی پر پہنچ گئے۔([125] )
{20} علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ’’شواہد الحق‘‘ میں عبدالرحمن جزولی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے نقل کرتے ہیں کہ و ہ فرماتے تھے کہ میری آنکھ ہر سال خراب ہوجایا کرتی تھی۔ ایک سال مدینہ منورہ میں میری آنکھ دکھنے لگی میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر فریاد کی: ’’یا رسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں آپ کی حمایت میں ہوں اور میری آنکھ دکھ رہی ہے۔‘‘ پس مجھے آرام ہوگیااور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی برکت سے اب تک مجھے آنکھ کی تکلیف نہیں ہوئی۔ ([126] )
{21} علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ‘’شواہد الحق ‘‘ میں کتاب ‘’ الاشارات الی معرفۃ الزیارات’‘ سے نقل کرتے ہیں کہ اس کے مصنف شیخ ابو الحسن علی ابن ابی بکر السابح الہروی ( متوفی بحلب ۶۱۱ھ) کہتے ہیں کہ جزیرہ میں ایک شہر تونہ([127] ) ہے۔ وہاں مشہد نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور مشہد علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ موجود ہیں ۔ میں نے جزیرہ والوں سے ان مشاہد کی نسبت دریافت کیا کہ کیا یہ نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور علی مرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نام پر بنائے گئے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ قصہ تفصیل طلب ہے پھر ایک خوبصورت شیخ کو بلا کر بتلایا کہ یہ شخص جذام میں مبتلا ہوگیا تھا۔ لوگوں نے اس کی بیماری سے ڈر کر اسے جزیرہ کے ایک طرف نکال دیا تھا۔ ایک رات اس نے ایسا غل مچایا کہ لوگ وہاں پہنچ گئے اور اسے تندرست کھڑا دیکھا۔ جب اس کا حال دریافت کیا گیا تو اس نے بیان کیا کہ اس جگہ میں نے خواب میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھا کہ فرماتے ہیں : یہاں مسجد بنواؤ۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) میں بیمار ہوں ۔ لوگ میری بات کا یقین نہ کریں گے۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ایک شخص کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے علی! اس کا ہاتھ پکڑو۔ حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں تندرست ہوکر کھڑا ہوگیاجیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔
اما م ابن نعمان مصنف ‘’مصباح الظلام’‘ فرماتے کہ میں نے اس مسجد کو دیکھا ہے۔ ہمارے استاد حافظ دِمْیاطی اور دیگر شیوخ اس قصہ کا ذکر کرتے تھے اور اس کو صحیح بتاتے تھے۔ یہ قصہ وہاں مشہور ہے اس مسجد کو مسجد النبی کہتے ہیں ۔([128] )
{22} علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی کتا ب ‘’سعادت الدارین’‘ میں خود اپنے استغاثہ کا قصہ یوں تحریر فرماتے ہیں کہ کسی ناخد اتر س دشمن نے میرے اوپر ایسا افتراء باندھا کہ سلطان عبدالحمید خان نے حکم دیا کہ مجھے معزول کرکے دور علاقہ میں بھیج دیا جائے۔ یہ سن کرمجھے بے قراری ہوئی۔ جمعرات کا دن تھا۔ جمعہ کی رات میں نے ایک ہزار دفعہ استغفار پڑھا اور تین سو پچاس باریہ درود شریف پڑھا:
’’اللّٰھم صلّ علٰی سیّدِنا محمّدٍ وّعلٰی اٰل سیّدِنا محمّدٍ قَدْ ضَاقَتْ حِیْلَتی اَدْرِکْنِی یا رسولَ اللّٰہ‘‘
مجھے نیندآگئی ،آخر رات پھر جاگا اور ہزار دفعہ درود شریف پڑھ کر حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے استغاثہ کیا۔ جمعہ کی شام ہی کو سلطان کی طرف سے تار آگیا کہ مجھے بحال رکھا جائے۔ اللّٰہ تعالٰی سلطان کو نصرت دے اور مفتری([129] ) کو رسوا کرے۔ والحمد للّٰہ ربّ العٰلمین ۔([130] )
{23}امام شرف الدین بوصیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ( متوفی ۶۹۴ھ) اپنے قصیدۂ بردہ کا سبب تصنیف یوں بیان فرماتے ہیں :’’ میں نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَدْح میں بہت سے قصیدے لکھے جن میں سے بعضے وزیر زین الدین یعقوب بن زُبیر کی درخواست پر تصنیف ہوئے۔ بعدا زاں ایسا اتفاق ہوا کہ میں مرض فالج میں مبتلا ہوگیااور اس سے میرا نصف بدن بے کار ہوگیا۔ میرے جی میں آیا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی مَدْح میں ایک اور قصیدہ لکھوں ۔ چنانچہ میں نے یہ قصیدہ بردہ تیار کیا اور بتوسل حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارگاہ باری تعالٰی میں اپنی عافیت کے لئے دعا کی۔ میں نے اس قصیدے کو باربار پڑھا او ر آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے توسل سے دعا کی او ر سوگیا۔ ( اب دیکھئے احمد مختار کی مسیحائی اور محمد عربی کی چارہ فرمائی ) خواب میں زیارت ہوئی۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اپنا دست شفا میرے مفلوج حصہ پر پھیرا اور اپنی چادر (بردہ) مبارک مجھ پر ڈال دی۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنے تئیں تندرست و قوی پایا۔ میں نے اس قصیدے کا ذکر کسی سے نہ کیا تھا۔ مگر جب میں صبح کو گھر سے نکلا تو راستے میں ایک درویش نے مجھ سے کہا کہ وہ قصیدہ مجھے عنایت فرمائیے۔ جو آپ نے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مد ح میں لکھا ہے۔ میں نے کہا۔ آپ کو نسا قصیدہ طلب فرماتے ہیں ؟ وہ بولے جو تم نے بحالت مرض لکھاہے اور اس
کا مطلع بھی بتادیا اور یہ بھی فرمایا کہ خدا کی قسم ! رات کو یہی قصیدہ ہم نے دربار نبوی میں سنا ہے۔ جب یہ پڑھا جارہاتھا تو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اس کوسن سن کر جھوم رہے تھے۔ جیسا کہ بادِ نسیم کے جھونکے سے میوہ دار درخت کی شاخیں جھومتی ہیں ۔ حضورِ اَنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کو پسند فرمایا اور پڑھنے والے پر ایک چادر ڈال دی۔ یہ سن کر میں نے اپنا خواب بیان کیا اور یہ قصیدہ اس درویش کو دے دیا۔ اس نے لوگوں سے ذِکر کردیا اور یہ خواب مشہور ہوگیا۔([131] )
{24} شیخ شمس الدین محمد بن محمد جزری شافعی ( متوفی ۷۳۴ھ) اپنی مشہور کتاب ‘’حصن حصین من کلام سید المرسلین’‘ کے دیباچہ میں اپنے استغاثہ کا یوں ذکر کرتے ہیں :’’ جب میں اس کی ترتیب و تہذیب پوری کرچکا تو مجھے ایسے دشمن (امیر تیمور) نے طلب کیا کہ اللّٰہ کے سوا کوئی اس کو دفع نہیں کرسکتاتھا۔ میں اس دشمن سے چھپ کر بھاگ گیا اور اس کتا ب کو میں نے اپنا حصین([132] ) بنایا۔ میں نے حضور سیدالمرسلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو خواب میں دیکھا۔ میں حضور کے بائیں جانب بیٹھا ہو ا ہوں ۔ حضور گویا فرمارہے ہیں کہ تو کیا چاہتا ہے ؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ ! میرے لئے اور مسلمانوں کے لئے اللّٰہ سے دعا کیجئے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے دونوں دست مبارک اٹھائے میں دیکھ رہا تھا، آپ نے دعا مانگی پھر دست مبارک چہرے پر ملے۔ یہ زیارت شب ِپنجشنبہ([133] ) کو ہوئی اور شب ِیک شنبہ([134] ) کو دشمن بھاگ گیا۔ اللّٰہ تعالٰی نے ان اَحادیث کی برکت سے جو اس کتاب میں ہیں مجھے اور مسلمانوں کو دشمن سے نجات دی‘‘۔([135] )
{25} فقیہ ابو محمد اِشْبِیلی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی کتاب ’’فضیلت حج‘‘ میں لکھا ہے کہ اہل غرناطہ میں سے ایک شخص کو ایسا مرض لاحق ہوگیاکہ اس کے علاج سے اَطِبَّا عاجز ہوگئے اور شفاء سے مایوس ہو گئے۔ وزیر ابو عبداللّٰہ محمد بن ابی الخصال نے ایک نامہ بحضور نبی کریمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لکھا اور اس مریض کی شفاء کے لئے اشعار میں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے توسل کیا۔ یہ نامہ کسی کے ہاتھ مدینہ منورہ کو بھیج دیاگیا۔ جب وہ اشعار حضور
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے روضہ شریف پر پڑھے گئے تو بیمار اپنے وطن میں اسی وقت تندرست ہوگیا۔ نامہ لے جانے والے نے واپس آکر اسے دیکھا تو ایسا تندرست پایا کہ گویا وہ کبھی بیمارہی نہ ہواتھا۔([136] )
{26} ابو محمد عبداللّٰہ بن محمداَزدی کحال جو اَندلس میں ایک نیک شخص تھا۔ بیان کرتا ہے کہ اندلس میں ایک شخص کا بیٹا قید ہوگیا۔ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں رسو ل اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے فریاد کرنے کے لئے اپنے شہر سے نکلا۔ راستے میں کوئی اس کا واقف ملا۔ اس نے کہا: کہاں جاتے ہو۔ اس شخص نے جواب دیا کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے فریاد کرنے جاتا ہوں کیونکہ رومیوں نے میرے بیٹے کو گرفتار کرلیاہے اور تین سو دینار زرِ فدیہ قرار دیا ہے۔ مجھ میں استطاعت نہیں ۔ اس واقف نے کہا کہ نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے استغاثہ ہر جگہ مفید ہے۔([137] )مگر وہ نہ ماناجب مدینہ منورہ میں پہنچا تو روضۂ شریف پر حاضر ہو کر اپنا حال عرض کیا اور حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے توسل کیا۔ اس نے خواب میں دیکھاکہ نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرمارہے ہیں کہ تم اپنے وطن کو لوٹ جاؤ۔ جب وہ اپنے شہر میں واپس آیا تو اپنے بیٹے کو موجود پایا۔ اس سے حال دریافت کیا تو بیٹے نے کہا کہ فلاں رات مجھ کو اور بہت سے قیدیوں کو خدا تعالٰی نے رہائی دی۔ وہ رات وہی تھی جس میں اس کا باپ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔([138] ) ( شواہد الحق)
{27} ابراہیم بن مرزوق بیانی کا بیان ہے کہ جزیرۂ شقر کاایک شخص قید ہوگیا اور بیڑیوں اور کاٹھ([139] )میں ٹھوک دیا گیا۔ وہ یارسول اللّٰہ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )پکار پکار کر فریاد کرتاتھا۔ اس کے بڑے دشمن نے طنز ا ً کہا کہ اس
سے کہو کہ تمہیں چھڑادے۔ جب رات ہوئی تو ایک شخص نے اسے بلایا اور کہا کہ اذان کہو۔ وہ بولا:تم نہیں دیکھتے کہ میں کس حال میں ہوں ؟ پھر اس نے اذان کہی، جس وقت وہ’’ اشہد ان محمدا رسول اللّٰہ’‘(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )پر پہنچا تو اس کی بیڑیاں وغیرہ خود بخود ٹوٹ گئیں او ر اس کے سامنے ایک باغ نمودار ہوا۔ وہ باغ میں پھر رہا تھا کہ اسے ایک راستہ مل گیا جس سے وہ جزیرۂ شقر میں جا پہنچا اور اس کا قصہ اس کے شہر میں مشہور ہوگیا۔([140] ) ( شواہد الحق)
{28} سیدی محمد بن سعید بصری الاصل قریشی شافعی ( متوفی ۸۳۹ھ) کے خلاف شاہ یمن نے کچھ طلب دنیا کے لئے لکھ دیا تھا۔ اس پر آ پ نے حضور تاجدار مدینہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جناب میں یوں تو سل واستغاثہ کیا:
ما لی سوی جاہ النّبیّ محمّد جاہ بہ احمی و ابلغ مقصدی
فکم بہ زال العنا عنی و قد اعدمت فی ظن العذول المعتدی
یاقلب لاتجزع وکن خیر امریٔ اضحٰی یرجی غارۃ من احمد
فعسٰی توافیک الفوائد ممسیًا ولعلّ تا تیک البشائر فی غد
میرے واسطے نبی محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم )کے جاہ کے سوا کوئی ایسا جاہ نہیں کہ جس کے وسیلے سے میں محفوظ رہوں اور اپنے مقصد کو پہنچوں ۔کیونکہ بہت دفعہ آپ کے وسیلہ سے میری تکلیف دور ہوگئی کیونکہ میں ملامت کرنے والے ستمگر کے گمان میں محتاج و ہیچ تھا۔ اے دل تو بے صبر ی نہ کر اور اچھا مرد بن جو احمدسے غارت کا امیدوار رہے ۔کیونکہ قریب ہے تجھے شام کو فائدے پہنچیں گے اور امید ہے تجھے کل بشار تیں آئیں گی۔
آپ نے اس نظم کو تمام نہ کیا تھا کہ نیند آگئی۔ خواب میں حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرت ابو بکر و عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کی زیارت ہوئی۔ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ہم غارت کے لئے آگئے ہیں ۔ تو ہر رات ہم پر ایک ہزار درود بھیجا کر۔ سورج غروب نہ ہونے پایا تھا کہ منصور کی بیماری کی خبر آئی۔ پھر تیسرے دن وہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔([141] ) ( جامع الکرامات للنبہانی۔ بحوالہ مناوی جزء اول ص ۱۵۶)
{29} سیدی ابو العباس مری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا بیان ہے کہ میں جہاز پر سوار ہوگیا۔ تلاطم کے سبب سے ہم ڈوبنے
لگے۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی: اَللّٰھُمَّ بِحُرْمَۃِ نَبِیِّکَ الْاُمِّیِّ اَنْقِذْنِیْ وَ سَلِّمْنِیْ ۔ ([142] )یااللّٰہ ! تو اپنے نبی مصطفٰے کے طفیل مجھے بچالے اور سلامت رکھ۔میں اس دعا سے فارغ نہ ہواتھا کہ مجھے جہاز کے گرد فرشتے نظر آئے جنہوں نے مجھے سلامتی کی بشارت دی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو خوشخبری دی کہ اِنْ شَائٓ اللّٰہ تعالٰی تم کل صبح صحیح و سالم موضع مریہ میں پہنچ جاؤ گے۔([143] ) ( جامع الکرامات بحوالہ مصباح الظلام۔ جزء اول ص ۲۷۷)
{30}امام شرف الدین بوصیری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے قصیدہ ہمزیہ میں یوں فریاد کرتے ہیں :
و ا تینا الیک انضاء فقر حملتنا الی الغنی انضاء
وانطوت فی الصّدورحاجات نفس ما لھا عن ندی یدیک انطواء
فاغثنا یا من ہو الغوث و الغی ث اذا اجھد الوری اللاواء
اور ہم گناہوں کے بوجھ سے نحیف و ناتواں ہوکر آپ کے پاس آئے ہیں ۔ دبلی اُونٹنیاں ہمیں بارگاہ غنا میں لائی ہیں اور ہمارے دلوں میں ذاتی حاجتیں ہیں ۔ جن کے لئے آپ کے دست مبارک کی سخاوت سے چارہ نہیں ۔پس ہماری مدد کیجئے۔ اے فریاد رس وباراں جب کہ خلقت قحط سے تنگ آجائے۔([144] )
{31} شیخ الاسلام حافظ ابوا لفتح تقی الدین بن دقیق العید (متوفی ۱۱ صفر ۷۱۲ھ) توسل و استغاثہ کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
اقول لرکب سائرین لیثرب ظفرتم بتقریب النبی المقرب
فبثوا الیہ کل شکوی و متعب وقصوا علیہ کل سؤل ومطلب
و انتم بمرائی للرسول و مسمع ستحمون فی مغناہ خیر حمایۃ
و تکفون ماتخشون ای کفایۃ و تبدو لکم من عندہ کل ایۃ
فحلوا من التعظیم ابعد غایۃ فحق رسول اللّٰہ اکبر ما رعی
( طبقات الشافعیۃ الکبری للتاج السبکی ترجمہ ابن دقیق العید ) ([145] )
میں یثرب جانے والے شتر سواروں سے کہتا ہوں کہ تم کو نبی مقرب کی زیارت نصیب ہو۔تم حضو ر سے ہرایک مرض و مشقت عرض کردینا اور ہر ایک درخواست و مطلب بیان کردینا۔اس حال میں کہ رسول اللّٰہ تمہیں دیکھتے اور تمہاری بات سنتے ہوں گے اورحضور کی منزل میں تمہاری خوب حفاظت ہوگی۔ اور جس چیز سے تم ڈرتے ہو اس سے خوب بچاؤ ہوگااور حضور کے ہاں سے تمہارے واسطے ہر نشان ظاہرہوگا۔پس تم غایت درجہ کی تعظیم سے اترنا کیونکہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حق ان سب سے بڑا ہے جن کی رعایت کی جانی ضروری ہے۔
{32}علامہ کمال الدین زَمْلَکانی انصاری ( متوفی ۱۶رمضان ۷۳۷ھ) جنہوں نے مسئلہ زیارت واِستغاثہ میں اپنے ہمعصر ابن تیمیہ کی تردید میں ایک رسالہ لکھاہے، اپنے قصیدہ مد حیہ میں یوں فرماتے ہیں :
یا صاحب الجاہ عند اللّٰہ خالقہ ما رد جاھک الا کل افاک
انت الوجیہ علی رغم العداء ابدا انت الشفیع لفتاک و نساک
یا فرقۃ الزیغ لا لقیت صالحۃ و لا سقی اللّٰہ یوما قلب مرضاک
ولا حظیت بجاہ المصطفٰی ابدا و من اعانک فی الدنیا و دالاک
یاافضل الرسل ویا مولی الانام ویا خیر الخلائق من انس و املاک
ھا قد قصدتک اشکوبعض ماصنعت بی الذنوب وھذا ملجاء الشاکی
قد قیدتنی ذنوبی عن بلوغ مدی قصدی الی الفوز منھا فھی اشراکی
فاستغفر اللّٰہ لی واسألہ عصمتہ فیما بقی وغنی من غیر امساک
علیک من ربک اللّٰہ الصلوۃ کما منا علیک السلام الطیب الزاکی
( فوات الوفیات ، جزء ثانی ص ۲۵۱) ([146] )
اے خدا ئے خالق کے نزدیک قدرو منزلت والے! سوائے دَروغ گو([147] ) کے کسی نے آپ کے جاہ و منزلت کو رد نہیں کیا دشمنوں کی خواہش کے برعکس آ پ ہمیشہ آبرو والے ہیں ۔ آپ دلیروں او ربہادروں کے شفیع ہیں ۔ اے فرقۂ کج رَو ! تو کسی نیکی کو نہ پائے اور نہ خدا کسی روز تیرے مریضوں کے دل سیراب کرے اور نہ تو جاہ مصطفی سے کبھی فائدہ اٹھائے اور نہ دنیا میں تیرے مددگار اور دوست فائدہ اٹھائیں ۔ اے افضل الرسل اے تمام مخلوقات کے آقا۔ اے تمام انس و ملائک سے بہتر ! لو میں آپ کی طرف متوجہ ہوتاہوں تاکہ میں آپ سے اپنے گناہوں کے سلوک کی شکایت کروں اور آپ کی بارگاہ ہی فریاد کرنے والے کاملجاہے۔میرے گناہوں نے مجھے میرے غایت قصد تک پہنچنے سے روک کر اپنے میں پھنسا لیا۔ پس وہ میرا جال ہیں پس آپ خدا سے میرے لئے مغفرت طلب کیجئے اور آئندہ اس سے حفاظت اورغنا بلا اِمساک کی دعا کیجئے۔ آ پ پر آپکے پروردگار اللّٰہ کی طرف سے درود ہو۔ جیسا کہ ہماری طرف سے آپ پر عمدہ پاک سلام ہو۔
{33} مشہور مؤرخ قاضی عبدالرحمن معروف بہ ابن خلدون مالکی( متوفی ۸۰۸ھ ) یوں استغاثہ کرتے ہیں :
ھب لی شفاعتک التی ارجو بھا صفحا جمیلا عن قبیح ذنوبی
ان النجاۃ وان اتیحت لامریٔ فبفضل جاھک لیس بالتشبیب
انی دعوتک واثقا باجابتی یاخیر مدعو و خیر مجیب
( المقالات الوفیہ فی الرد علی الوہابیہ) ([148] )
مجھے اپنی شفاعت عطا فرمایئے۔ جس سے میں اپنے برے گناہوں کی معافی کی امید کر سکوں اگر نجات کسی مرد کے لئے مقدر ہے تو وہ آپ کے جاہ کے طفیل سے ہے۔ تشبیب سے نہیں ۔ میں آپ کو پکارتا ہوں مجھے قبولیت کا یقین ہے اے خیر مدعو! اے خیر مجیب!
{34} شیخ شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی بن حجر عَسْقَلانی ( متوفی ۸۵۳ھ) یوں عرض کرتے ہیں :
نبی اللّٰہ یا خیر البرایا بجاھک اتقی فصل القضاء
و ارجو یا کریم العفو عما جنتہ یدای یا رب الحباء
فقل یااحمد بن علی اذھب الی دار النعیم بلا شقاء
( المقالات الوفیہ) ([149] )
اے اللّٰہ کے نبی! اے تمام مخلوق سے بہتر! حضور ہی کی قدرو منزلت کے طفیل قیامت میں میرا بچاؤ ہوگا۔ اے کریم اے
صاحب جو دو عطاء ! میں ان گناہوں کی جو مجھ سے ہوئے ہیں معافی کی امید کرتاہوں ۔ حضو ر فرما دیں کہ اے احمد بن علی جنت میں بغیر مشقت کے چلا جا۔
{35} امام عمربن الوردی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یوں عرض کرتے ہیں :
یارب بالھادی البشیر محمد وبدینہ العالی علی الادیان
ثبت علی الاسلام قلبی واھدنی للحق وانصرنی علی الشیطان
( المقالات الوفیہ) ([150] )
اے میرے پروردگار ہادی بشیر حضرت محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے طفیل سے اور حضور کے دین کی برکت سے جو سب دینوں پر غالب ہے میرے دل کو اسلام پر ثابت رکھ اور حق کی طرف میری رہنمائی کر اور مجھے شیطان پر غلبہ دے۔
{36} مولیٰنا شاہ ولی اللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قصیدہ ہمزیہ میں اس طرح استغاثہ فرماتے ہیں :
رسول اللّٰہ یاخیر البرایا نوالک ابتغی یوم القضاء
اذا ما حل خطب مدلھم فانت الحصن من کل البلاء
الیک توجھی وبک استنادی وفیک مطامعی وبک ارتجائی([151] )
اے اللّٰہ کے رسول اے تمام خلق سے بہتر قیامت کے دن میں آپ کی عطاء بخشش چاہتا ہوں جب کوئی سخت مصیبت پیش آوے تو حضو ر ہی ہر بلا کے بچاؤ کے لئے قلعہ ہیں حضور ہی کی طرف میری توجہ ہے اور حضور ہی میرا سہارا ہیں اور حضور ہی سے بھلائی کی طمع اور حضور ہی سے امید ہے۔
{37} مولیٰنا شاہ عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے قصیدہ اطیب النغم کی تضمین میں یوں فرماتے ہیں :
مدار وجود الکون فی کل لحظۃ ومفتاح باب الجود فی کل عسرۃ
و متمسک الملھوف فی کل شدۃ ومعتصم المکروب فی کل غمرۃ
ومنتجع الغفران من کل تائب الیک قد العین حین ضراعۃ([152] )
آپ ہر لحظہ وجود عالم کے دارومدار ہیں اور ہر مشکل میں سخاوت کے دروازے کی کنجی ہیں اور ہر شدت میں پریشان بے قرار کی پناہ ہیں اور ہر مصیبت میں آفت رسیدہ کا سہارا ہیں اور ہر ایک توبہ کرنے والے کے لئے بخشش کا وسیلہ ہیں ۔ خشوع وخضوع کے وقت آپ ہی کی طرف آنکھ اٹھتی ہے۔
{38} استاد کبیر شیخ حمداللّٰہ شبراوی مصری رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زیارت کے وقت یوں عرض کرتے ہیں :
یارسول اللّٰہ انی مذنب و من الجود قبول المذنب
یانبی اللّٰہ مالی حیلۃ غیر حبی لک یا خیر نبی
عظم الکرب ولی فیک رجاء فیہ یارب فرج کربی (مقالات وفیہ) ([153] )
یا رسول اللّٰہ ! میں گنہگارہوں ۔ گنہگار کی عرض کا قبول کرنا جودو کرم ہے۔ یانبی اللّٰہ یاسید الانبیاء آپ کی محبت کے سوا میرا کوئی حیلہ نہیں ۔ میرا اندوہ غم بڑا ہے۔ مجھے آپ سے امید ہے۔ اے پرورد گار ! حضور کے طفیل سے میرا غم دور کردے۔
{39} حضرت حاجی حافظ شاہ محمد امداد اللّٰہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دربار نبوی میں یوں عرض کرتے ہیں :
کرم فرماؤ ہم پر اور کرو حق سے شفاعت تم ہمارے جرم و عصیاں پر نہ جاؤ یا رسول اللّٰہ
پھنسا ہوں بے طرح گردابِ غم میں ناخدا ہوکر میری کشتی کنارے پر لگاؤ یا رسول اللّٰہ
جہاز امت کا حق نے کردیا ہے آپکے ہاتھوں بس اب چاہو تراؤ یا ڈباؤ یا رسول اللّٰہ ( رسالہ دردنامہ غمناک) ([154] )
{40} مولوی([155] ) قاسم نانوتوی نے لکھا ہے:
مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا نہیں ہے قاسم بیکس کا کوئی حامیٔ کار
یہ ہے اجابت حق کو تری دعا کا لحاظ قضائے مبرم و مشروط کی نہیں ہے پکار
خدا ترا تو جہاں کا ہے واجب الطاعۃ جہا ں کو تجھ سے تجھے اپنے حق سے ہے سروکار( قصائدقاسمی)
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی خلافت میں ۱۸ھمیں جسے عام الرمادۃ کہتے ہیں سخت قحط پڑا چوپائے اور انسان بھوک کی شدت سے مرنے لگے۔ لوگوں نے تنگ آکر حضرت فاروق اعظم سے استسقاء کے لئے درخواست کی جسے امام بخاری نے یوں نقل کیاہے:
عن انس بن مالک ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہکان اذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبد المطلب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فقال اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبینا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ۔( باب سوال الناس الامام الا ستسقاء اذاقحطوا) ([156] )
انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب لوگوں میں قحط پڑا عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے بارش کی دعا کی اور یوں عرض کیا: یا اللّٰہ ! ہم تیری جناب میں اپنے نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے۔ پس تو ہمیں بارش عطا کردیتا تھااور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں ۔ پس ہمیں بارش عطا کر( قول راوی ) پس بارش ہو رہی تھی۔
ابن تیمیہ اور ان کے مقلدین نجدیہ کہتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے جو رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کو چھوڑ کر حضرت عباس سے توسل کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بعد وفات شریف توسل جائز نہیں ۔ ورنہ حضرت امیر المومنین عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایسا نہ کرتے۔ ابن تیمیہ کا یہ اجتہاد ایجادِ بندہ ہے۔ علماء اہل سنت میں سے آج تک کسی نے اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا۔ حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان میں حیات و وفات میں اس طرح فرق کرنا کمال درجہ کی شقاوت ہے۔ جیسا کہ آگے بیان ہوگا۔ مسئلہ زیارت و توسل کی مخالفت کا خمیازہ جو ابن تیمیہ کو بھگتنا پڑا ہم اس کی طرف پہلے اشارہ کر آئے ہیں ۔ اب ہم حدیث زیر بحث کی نسبت بطریق اختصار حسب ذیل گزارش کرتے ہیں :
صحابہ کرا م رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس دعاء باراں میں نام نامی حضرت عباس کو وسیلہ نہیں بنایا۔ بلکہ یوں عرض کیا کہ اے پروردگار ہم تیری جناب میں اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں ۔ اگر چہ نام نامی لے کر وسیلہ پکڑنا بھی جائز تھا مگر اس موقع پر فاروق اعظم اور دیگر صحابہ کرام کو حضرت عباس کی قرابت نبوی جتلا کر گویا حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ہی کا وسیلہ پیش کرنا منظور تھا۔ چنانچہ خود حضرت عباس اپنی زبان مبارک سے اقرار کرتے ہیں جیسا کہ’’ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘ میں بدیں الفاظ مذکورہے۔
و فی حدیث ابی صالح فلما صعد عمر و معہ العباس المنبر قال عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ : اللھم انا توجھنا الیک بعم نبیک وصنو ابیہ فاسقنا الغیث و لا تجعلنا من القانطین ثم قال قل یا ابا الف ضل فقال العباس اللھم لم ینزل بلاء الا بذنب و لم یکشف الابتوبۃ و قد توجہ بی القوم الیک لمکانی من نبیک۔ (الحدیث) ([157] )
اور حدیث ابو صالح میں ہے کہ جب حضرت عمرو حضرت عباس منبر پر چڑھے تو حضرت عمر نے عرض کیا: یا اللّٰہ ہم تیری جناب میں تیرے نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا کو جو بجائے والدنبی کے ہیں پیش کرتے ہیں تو ہمیں بارش عطا فرما اور ہمیں ناامید نہ کر۔ پھر کہا: اے عباس تم بھی دعا کرو۔ حضرت عباس نے یوں دعا کی: یااللّٰہ ! نہیں اتری کوئی بلا مگر گناہ کے سبب سے اور نہیں دور ہوئی مگرتوبہ سے اور قوم نے اس واسطے میرا وسیلہ پکڑا ہے کہ میرا تعلق تیرے نبی سے ہے۔
خود حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بیان سے بھی صاف پایا جاتا ہے کہ یہاں حقیقت میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے توسل ہے۔ حافظ ابن عبدالبر’’ا ستیعاب‘‘ میں حضرت عباس بن عبدالمطلب کے حالات میں لکھتے ہیں :
وروینا من وجوہ عن عمر انہ خرج یستسقی وخرج معہ بالعباس فقال:اللھم انا نتقرب الیک بعم نبیک صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ونستشفع بہ فاحفظ فیہ نبیک صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کما حفظت الغلامین لصلاح ابیھما۔ (الحدیث) ([158] )
حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ہمیں کئی وجہ سے روایت پہنچی ہے کہ وہ اپنے ساتھ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو لے کر نکلے اور عرض کیا: یااللّٰہ! ہم بوسیلہ تیرے نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا کے تیری جناب میں حاضر ہوتے ہیں اور ان کو اپنا شفیع بناتے ہیں ۔ پس تو اس میں اپنے نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رعایت کر جیسا کہ تو نے ان دو یتیم بچوں کی رعایت ان کے باپ کی نیکی کے سبب کی(کہ ان کی گرتی دیوار کو سیدھا کھڑا کردیا) ۔
حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رعایت کا مطلب یہی ہے کہ قرابت نبوی کو ملحوظ رکھ کر بارش کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرما۔ تاریخ کامل ابن اثیر میں بھی یہی مضمون تقریباً ان ہی الفاظ میں مذکور ہے۔ ([159] )
’’عمدۃ القاری‘‘ میں یہ روایت بھی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جب مرتدین کے مقابلہ میں لشکر اسلام کور وانہ کیا تو آپ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ مُشَایِعَت([160] )کے واسطے شہر سے باہر نکلے اور کہا:یاعباس استنصر و انا اومن فانی ارجو ان لا یخیب دعوتک لمکانک من نبی اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔([161] )
اے عباس ! مدد کی دعا مانگو اورمیں آمین کہتا جاؤں کیونکہ مجھے امید ہے کہ تمہاری دعا بیکا ر نہ جائے گی بو جہ اس کے کہ تمہارا نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے تعلق ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو وسیلہ بنانا صرف قرابت نبوی کے سبب سے تھا اور یہ توسل بالنبی ہے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ۔ بایں ہمہ اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ حدیث زیر بحث میں حضرتِ فاروق اعظم نے حضرتِ عباس کی ذاتِ خاص سے بلا تعلق قرابت نبوی کے وسیلہ پکڑا ہے تو اس سے حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی ذات پاک سے وسیلہ پکڑنے کا انکار نہیں نکلتا۔ حضور کے وسیلہ ہونے اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ذریعہ سے دعا مانگنے کا ثبوت مطلقا اسی حدیث میں موجود ہے۔ اب اس مطلق توسل کو کہ عام ہے حالت حیات اور وفات سے، مقید بحالت حیات کرنا اور حالت وفات کی نفی کرنا کس قاعدہ سے ہے اور دلالاتِ اَرْبعۂ علم اصول (عبارۃ النص واشارۃ النص ودلالۃ النص و اقتضاء النص) میں سے کون سی دلالت اس نفی توسل پر دلالت کرتی ہے۔ ہر گز کوئی دلالت نفی توسل پر دلالت نہیں کرتی۔ یہ اِجتہاد بے بنیاد کسی علمی قاعدے پر مبنی نہیں کیونکہ اگر مثلاایک شخص میں ایک وصف پایا جائے تو وہ دوسرے شخص میں اس وصف کے نہ پائے جانے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ پس اس صورت میں حدیث زیر بحث سے توسل بالنبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علاوہ اہل بیت و دیگر صلحاء امت سے توسل کا جواز ثابت ہوتاہے اور حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مختلف اوقات میں ہر دو طریق پر عمل کیا ہے۔
یہاں نجد یہ کی طر ف سے یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اس موقعہ پر صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے ر سول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم( جو افضل ذریعہ ہیں ) کو چھوڑ کر دوسر ا وسیلہ کیوں اختیار کیا۔ اس کا جواب کئی طرح سے دیا گیا ہے۔
اولاً: حافظ ابن عبدا لبر ’’استیعاب‘‘ ( ترجمہ عباس بن عبدا لمطلب ) میں یوں لکھتے ہیں :
قال ابو عمر: وکان سبب ذلک ان الارض اجدبت اجدابا شدیدا علی عھد عمر زمن الرمادۃ و ذلک سنۃ سبع عشرۃ فقال کعب یاامیر المؤمنین ان بنی اسرائیل کانو اذا اصابھم مثل ھذا استسقوا بعصبۃ الانبیاء فقال عمر: ھذا عم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم وصنو ابیہ و سید بنی ھاشم فمشی الیہ عمر و شکا الیہ ما فیہ الناس من القحط ثم صعد المنبر و معہ عباس۔۔۔۔الخ([162] )ابو عمر نے کہا کہ اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت عمر کے
عہد میں عام الرمادۃ میں سخت خشک سالی تھی اور یہ ۱۷ھ تھا۔ حضرت کعب نے کہا: اے امیر المومنین بنی اسرائیل میں جب ایسا قحط پڑتا تھا تو وہ پیغمبر وں کی ایک جماعت کے وسیلہ سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے۔ یہ سن کرحضرت عمر نے فرمایایہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمکے چچا اور بمنزلہ والد نبی اور سید بنی ہاشم ہیں ۔ پس حضرت عمرنے حضرت عباس سے قحط کی شکایت کی جس میں لوگ مبتلاتھے۔ پھر منبر پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت عباس بھی تھے۔
پس یہاں بھی قرابت نبوی کی و جہ سے توسل ہے جو توسل بالنبی ہے۔صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
ثانیاً: علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ‘’الجو ہرالمنظّم’‘ ص۷۷([163] ) میں فرماتے ہیں :وکان حکمۃ توسلہ بہ دون النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم و قبرہ اظھار غایۃ التواضع لنفسہ و الرفعۃ لقرابۃ النبی ففی توسلہ بہ توسل بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلموزیادۃ ۔([164] )گویا نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماور آپ کی قبر شریف کو چھوڑ کر حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے توسل کرنے میں حکمت بمقابلۂ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنی تواضع کا ظاہر کرنا اور قرابت ِنبوی کی رفعت کا اظہار تھا۔ پس حضرت عباس سے توسل توسل بالنبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمہے اور زیادت ہے۔
ثالثاً: شیخنا العلامہ مولانا مشتاق احمد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے رسالہ ‘’دفع التامل عن التوسل بسید الرسل’‘ ص۱۷ میں یوں تحریر فرماتے ہیں :
یہ علم کلام کا مسئلہ مسلمہ ہے کہ ولی کی کرامت اس نبی کا معجزہ ہے جس کی امت میں وہ ولی ہے۔ یہ جو کرامت حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس موقع استسقاء پر ظاہر ہوئی کہ ان کی دعا سے مِینہ برسا،یہ معجزہ رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ہوا۔ یہاں افضل ذریعہ کو صحابہ نے چھوڑا نہیں بلکہ اور زیادہ اَفضلیت کو جتلادیا کہ ہمارے پاس ایسا افضل ذریعہ ہے جس کے ادنیٰ غلاموں یا جس کے قرابت داروں کے وسیلہ بنانے سے خداوند کریم دعا قبول فرمالیتا ہے۔ انتہی([165] )
ان نجدیہ سے پوچھنا چاہیے کہ تمہارا دعویٰ توسل بالحدیث ہے اور حدیث صحیح میں وارد ہے کہ قیامت کے دن سب لوگ بغرض شفاعت دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کے پاس یکے بعد دیگر ے جائیں گے۔ پھر اخیر میں حضور سید المرسلینصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ شفاعت عظمیٰ کے بعد جو حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے مختص ہے۔ علماء اور شہدا ء امت بھی گنہگاروں کے لئے جو دوزخ میں ہوں گے شفاعت فرمائیں گے۔ پس وہاں افضل ذریعہ چھوڑ کر دوسرے وسیلے کیوں اختیار کیے جائیں گے۔ اس حدیث سے تو ظاہر ہے کہ افضل ذریعہ کی موجود گی میں دیگر وسائل اختیار کرنا جائز ہے۔ غرض توسل بالنبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جائز، توسل باہل البیت والصلحاء جائز، ایک وقت میں ہر دو معاً جائز اور مختلف اوقات میں علیحدہ علیحدہ بھی جائز ہیں ۔
رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال شریف کے بعد صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو کئی موقعوں پر توسل کی ضرورت پڑی ہے۔ جن میں سے استغاثہ و توسل زیر بحث ایک مثال ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے ایسے مواقع پر کس طرح توسل کیا ہے۔ اس کتاب میں ایسی دس مثالیں پہلے مذکورہو چکی ہیں ۔ جن کاما حصل ہم یہاں بالترتیب دہراتے ہیں :
{1}…حضور اقدسصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال شریف ہوچکا ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ چہرہ مبارک سے چادر اٹھا کر یوں پکارتے ہیں : اذکرنا یا محمد عند ربک و لنکن من بالکاے محمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں اپنے پروردگار کے پاس یاد کرنا اور ضرور ہمارا خیال رکھنا۔
{2}… دفن شریف کے تیسرے روز ایک اعرابی مزار مقدس پر حاضر ہوکر عرض کرتا ہے: ’’ یا رسول اللّٰہ ! میں آپ کے پاس آیاہوں تاکہ آپ میرے حق میں دعا ئے مغفرت فرمائیں ‘‘۔ قبر شریف سے آواز آئی کہ تجھے بخش دیا گیا۔
{3}…عہد فاروقی میں قحط پڑا۔حضرت بلال بن حارث صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ مزار شریف پر حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں : یارسول اللّٰہ! آپ کی امت ہلاک ہورہی ہے۔ بارش کی دعا فرمائیں ۔ حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خواب میں حضرت بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے میرا سلام کہو اور بارش کی بشارت دواور ان سے یہ بھی کہہ دو کہ دین میں نرمی اختیار کریں ۔ چنانچہ بلال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت فاروقِ اعظم رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو یہ خبر سنائی۔ آپ سن کر رو پڑے۔ اگر بعد وفات شریف توسل جائز نہ ہوتا تو امیر المومنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُضرور منع کرتے۔
{4}… ایک سال مدینہ منورہ میں قحط پڑا۔ لوگ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے فریاد کرتے ہیں ۔ حضرت ممدوحہ فرماتی ہیں کہ روضہ شریف پرحاضر ہوکر ایک روشندان آسمان کی طرف کھول دو چنانچہ ایسا ہی کیا جاتا ہے اور خوب بارش ہوتی ہے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ میں سے کسی نے اس توسل پر اعتراض نہ کیا بلکہ بعد میں یہ طریق توسل اہل مدینہ میں جاری رہتا ہے حضرت صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی علمی قابلیت محتاج بیان نہیں ۔ اگر وفات شریف کے بعد توسل ناجائز ہوتا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سکوت نہ فرماتے۔ یہ جواز توسل پر اجماع سکوتی ہے۔
{5}… عہد فاروقی میں عام الرما دہ ہی کا واقعہ ہے کہ حضرت بلال بن حارث صحابی اپنے اہل خانہ کے اصرار پر ایک بکری ذبح کرتے ہیں ۔ کھال اتارنے پر سرخ ہڈیاں نظر آئیں تو یوں پکارتے ہیں : یامحمد اہ !
{6}… عہد فاروقی ہی میں ۱۵ھ میں مسلمانوں کا مقابلہ یوقنا حاکم ِحلب کے لشکر جرار سے ہوتاہے۔ حضرت کعب بن ضمرہ لشکر اسلام کے بچانے کے لئے بے چین ہورہے ہیں اور یوں پکار رہے ہیں : یامحمد یامحمد یانصراللّٰہ انزل۔ یامحمد ! یامحمد! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اے نصرت الٰہی ! نزول فرما۔
اس لشکر اسلام میں کس قدر صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم شامل ہوں گے مگر کسی نے اس استغاثہ پر اعتراض نہیں کیا۔
{7}… ۱۳ھ میں حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنا خط عبداللّٰہ بن قَرْط صحابی کے ہاتھ حضرت ابو عُبَیْدَہ بن الجَرَّاح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نام یرموک بھیجتے ہیں اور بوسیلۂ حضور رسول اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سلامتی کی دعا کرتے ہیں ۔ جاتے وقت حضرت عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ روضہ اقدس پر حاضر ہوتے ہیں ۔ وہاں آپ کی درخواست پر حضرت عباس و حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما روضہ شریف پر ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کرتے ہیں :اللھم انا نتوسل بھذا النبی المصطفی والرسول المجتبی۔۔الخ۔ یااللّٰہ! ہم اس نبی مصطفی رسول مجتبیٰ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں ۔۔۔الخ۔
اس موقع پر حضراتِ حسنین و حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ بھی اس دعا میں شریک ہیں ۔ اس کے بعد حضرت علی حضرت عبداللّٰہ سے فرماتے ہیں کہ اب جایئے۔ اللّٰہ تعالٰی عمرو عباس وعلی وحسن و حسین وازواج رسول اللّٰہ کی دعا کو ردنہ کرے گا۔ اس لئے کہ انہوں نے اللّٰہ تعالٰی کی جناب میں اپنے نبی کا وسیلہ پکڑا ہے جو اکرم الخلق ہیں ۔
{8}… حضرت ابن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا پاؤں سو گیا۔ آپ پکارتے ہیں : یامحمدصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اور خوابید گی دور ہوجاتی ہے۔
{9}… ایک شخص کسی حاجت کے لئے بار بار حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے مگر حضرت خلیفہ توجہ نہیں فرماتے۔ حضرت عثمان بن حُنَیف صحابی ا س شخص کو وہ طریق توسل بتاتے ہیں جو خود حضور رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک نابینا کو بتایا تھا جس میں یہ الفاظ ہیں : اللھم انی اسئلک و ا توجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی ا توجہ بک الی ربک ان تقضی حاجتی۔ وہ شخص اس پر عمل کرتا ہے اور کامیاب ہوتاہے۔ یہی عمل آج تک مشائخ امت میں جاری ہے۔
{10}…بنو عامر ( قبیلہ حضرت نابغہ جعدی )بصرہ میں کھیتوں میں اپنے مویشی چرایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ابو موسیٰ اَشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ان کے طلب کرنے کے لئے بھیجتے ہیں ۔ حضرت نابغہ اپنی قوم کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں ۔ حضرت ابو موسیٰ ان کو تازیانے لگاتے ہیں ۔ حضرت نابغہ صحابی اس تشدد کی فریاد آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور حضرات شیخین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے یوں کرتے ہیں : فیا قبر النبی وصاحبیہ الایاغوثنا لوتسمعونا۔ پس اے قبر نبی کی اور آپ کے دو صحابہ کی دیکھنا اے ہمارے فریاد رس کاش آپ سنیں ۔
میں نے یہ مثالیں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی اس واسطے دہرائی ہیں کہ مومنوں کے ایمان کو تازگی بخشتی ہیں ۔اس عشرہ کاملہ کے علاوہ قرآن کریم کی دو آیتوں سے توسل زیر بحث کا ثبوت خود حضور اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا انبیائے سابقین عَلَیْہِمُ السَّلام سے توسل حضرات تابعین کا توسل بالنبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اعرابی کا قصہ بروایت امام عُتْبِی (متوفی ۲۲۸ھ) جسے علماء مذاہب اربعہ نے آداب زیارت میں شمار کیا ہے۔ پھر اس زمانے تک
توسل کی اور چالیس مثالیں ، یہ سب کچھ اس کتاب میں پہلے آچکا ہے۔ زیادہ کی ضرورت نہیں ۔
قارئین کرام ! غور کا مقام ہے حضور رسول اکرمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ابتداء آفرینش سے تاقیامت واسطہ و وسیلہ و ذریعہ ہیں ۔ چنانچہ خلق عالم میں آپ ہی واسطہ تھے۔ عالم اَرواح میں انبیاء کرام کی روحوں نے جو علوم و معارف حاصل کیے وہ آپ ہی کے واسطہ و ذریعہ سے کیے۔ اس عالم میں اَنبیاء کرا م کو جو مشکلات پیش آئیں اور جو انعامات الٰہی ان پر ہوئے ان مشکلات کا حل اوران انعامات کا حصول آپ ہی کے واسطہ سے تھا۔ دنیا میں وجود عنصری کے ساتھ تشریف لانے پر خالق و مخلوق میں واسطہ آپ ہی کی ذات اقدس تھی۔ آپ کا ارشاد مبارک ہے: ’’ دیتا خدا ہے ، بانٹتا میں ہوں ۔‘‘ ([166] )صحابہ کرام قضاء حاجات کے لئے اللّٰہ تعالٰی کی جنا ب میں آپ ہی کا واسطہ پیش کیا کرتے تھے۔ وفات شریف کے بعد بھی زمانہ صحابہ کرام سے آج تک ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے اور تاقیامت رہے گا۔ عرصات قیامت میں تمام امتوں کی مشکل کا حل آپ ہی کے واسطہ سے ہوگا۔ اندریں حالات منکرین کا توسل بعد الوفات سے انکار نہایت حیرت انگیز ہے۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اپنی قبر شریف میں بحیات حقیقیہ دنیو یہ زندہ ہیں ۔ آپ کے تصر فات بد ستور جاری ہیں ۔ اسی واسطے آ پ کی امت میں قطب واَوتاد وابدال تاقیامت ہوتے رہیں گے۔ آپ کی دنیوی زندگی میں جس اعلیٰ وصف کے سبب سے آپ سے توسل کیا جاتاتھا، وہ وفات شریف کے بعد بھی بد ستور ثابت ہے کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں ۔ اسی طرح وصف رحمۃ للعالمین بھی بعد الوفات آپ میں موجود ہے کیونکہ آپ کا ارشاد مبارک ہے کہ میری حیات اور میری ممات دونوں تمہارے واسطے بہتر ہیں ۔([167] )جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ بایں ہمہ آپ کی حیات و ممات میں فرق کرنا اور توسل بعدالوفات کا انکار کرنا یقیناً حرمان و شقاوت کی علامت ہے۔ اللّٰہ تعالٰی ہدایت دے بجاہ حبیبہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّم ۔
{4}عرصاتِ قیامت میں شفاعت و توسل :
ا س کتاب میں شفاعت کا ذکر پہلے آچکاہے۔ شفاعت کے جس قدر اَنواع ہیں وہ سب حضور سید المرسلین صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ثابت ہیں ۔ جن میں سے بعض حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مختص ہیں اور بعض میں مشارکت ہے۔ قیامت میں سب سے پہلے جوبابِ شفاعت کھولیں گے وہ آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہوں گے۔ اس لئے حقیقت میں تمام شفاعتیں حضو رصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی کی طرف راجع ہیں اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہی صاحب شفاعت علی الاطلاق ہیں ۔ وہ اَنواع حسب ذیل ہیں :
اوَّل : شفاعت عظمیٰ ہے جو تمام خلائق کو عام ہے اور حضور کو مختص ہے۔ میدانِ حشر میں طول وقوف کے سبب سے سب لوگ گھبراجائیں گے اور بغرضِ شفاعت اَنبیائے کرام عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے پاس یکے بعد دیگرے جائیں گے مگر سب کی طرف سے یہی جواب ملے گا کہ ہم اس کے اہل نہیں ۔ آخر کار حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوں گے اور حضور انالھا (میں اس کااہل ہوں ) فرماتے ہوئے بارگاہِ رب العزت میں طول وقوف سے نجات اور تعجیل حساب کے لئے شفاعت فرمائیں گے۔
دوم: ایک جماعت کے حق میں بغیر حساب بہشت میں داخل ہونے کیلئے شفاعت ہوگی۔ چنانچہ حضو ر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی شفاعت سے ستر ہزار آدمی بے حساب بہشت میں جائیں گے۔ ان ستر ہزار کے ساتھ اور بہت سے بھی بے حساب جنت میں چلے جائیں گے۔ بعض کے نزدیک یہ نوع بھی آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے مخصوص ہے۔
سوم: وہ اقوام جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہیں ، شفاعت سے جنت میں جائیں گے۔
چہارم: جو لوگ دوزخ کے مستحق ومستوجب ہیں وہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شفاعت سے بہشت میں چلے جائیں گے۔
پنجم: ایک جماعت کے رفع درجات کے لئے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شفاعت فرمائیں گے۔
ششم: گنہگار لوگ جو دوزخ میں ہونگے وہ شفاعت سے نکل آئینگے۔ یہ شفاعت تمام انبیاء و ملائکہ و شہد اء میں مشترک ہے۔
ہفتم: استفتاح جنت کے لئے شفاعت ہوگی۔
ہشتم: جو لوگ عذابِ دائمی کے مستحق ہونگے ان (میں سے بعض) کے عذاب میں تخفیف کے لئے ہوگی۔
نہم: خاص اہل مدینہ کے لئے ہوگی۔
دہم:آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضہ شریف کے زائرین کے لئے ہوگی۔([168] )
(اشعۃ اللمعات جلد رابع ص ۴۰۴)
اب اَخیر میں توکلی مدینہ منورہ کی طرف منہ کرکے روتا ہو ا دربا ر رسالت میں یوں عرض کررہاہے:’’ یارسول اللّٰہ ! قیامت میں ا س مسکین ،عاجز، بے نوا،سراپاگناہ محمد نور بخش توکلی کی شفاعت فرمادیجئے گا۔‘‘ ھٰذا اٰخر الکلام فی سیرۃ خیر الانام علیہ الف الف تحیۃ و سلام ۔
رَبِّ تَقَــبَّلْ مِنِّیْ ھٰذِہِ الْھَدِیَّۃَ الطَّفِیْفَۃَ لِجَنَابِ حَبِیْبِکَ الْخَصِیْبِ عَلَیْہِ اُ لُوْفُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّحِیَّۃِ وَ اجْعَلْھَا اِلٰی حُصُوْلِ رِضَاکَ وَنَیْلِ شَفَاعَتِہٖ وَسِیْلَۃً اَللَّھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَّبِعِیْنَ لِشَرِیْعَتِہِ الْمُتَّصِفِیْنَ بِمُحَبَّتِہِ الْمُھْتَدِیْنَ بِھَدْیِہٖ وَسِیْرَتِہٖ وَ تَوَفَّنِیْ عَلٰی سُنَّتِہٖ وَ مِلَّتِہٖ وَ لَا تَحْرِمْنِیْ فَضْلَ شَفَاعَتِہٖ وَ احْشُرْنِیْ فِیْ اَتْبَاعِہِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِیْنَ وَ اَشْیَاعِہِ السَّابِقِیْنَ وَ اَصْحَابِ الْیَمِیْنِ اَ للّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِشُیُوْْخِیْ وَ لِسَآئِرِ الْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ بِرَحْمَتِکَ یَا رَحْمٰنُ یَارَحِیْمُ یَاغَفَّارُ یَاوَھَّابُ ھٰذَا وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلاَمُ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلاَنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَ اَ زْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ وَ اَوْلِیَائِ اُمَّتِہٖ
وَ اَتْبَاعِہٖ اَجْمَعِیْنَ ۔
نمبر شمار |
نام کتاب |
مؤلف / مصنف/متوفی |
مطبوعات/سن طباعت |
1 |
قرآن مجید |
کلامِ الٰہی |
مکتبۃ المدینہ، کراچی |
2 |
کنز الایمان |
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان، متوفی ۱۳۴۰ھ |
مکتبۃ المدینہ، کراچی |
3 |
المحرر الوجیز |
ابو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن الاندلسی المحاربی متوفی۵۴۲ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۲۰۰۷ء |
4 |
تفسیر الطبری |
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری ،متوفی ۳۱۰ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۰ھ |
5 |
التفسیر الکبیر |
امام فخر الدین محمد بن عمر بن حسین رازی، متوفی ۶۰۶ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۰ھ |
6 |
روح البیان |
مولی الروم شیخ اسماعیل حقی بروسی، متوفی۱۱۳۷ھ |
کوئٹہ ۱۴۱۹ھ |
7 |
روح المعانی |
ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی، متوفی ۱۲۷۰ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت۱۴۲۰ھ |
8 |
خزائن العرفان |
صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی، متوفی۱۳۶۷ھ |
مکتبۃ المدینہ، کراچی |
9 |
الاتقان فی علوم القرآن |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
10 |
مسند الطیالسی |
امام سلیمان بن داود بن جارود طیالسی، متوفی ۲۰۳ ھ |
دارالمعرفہ ،بیروت |
11 |
المسند |
امام احمد بن محمد بن حنبل، متوفی ۲۴۱ھ |
دار الفکر، بیروت۱۴۱۴ھ |
12 |
سنن الدارمی |
امام حافظ عبد اللّٰہ بن عبدالرحمن دارمی، متوفی۲۵۵ھ |
دارالکتاب العربی بیروت۱۴۰۷ھ |
13 |
صحیح البخاری |
امام ابوعبد اللّٰہ محمد بن اسماعیل بخاری ،متوفی ۲۵۶ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ھ |
14 |
الادب المفرد |
امام ابوعبد اللّٰہ محمد بن اسماعیل بخاری ، متوفی ۲۵۶ ھ |
تاشقند ایران،۱۳۹۰ھ |
15 |
صحیح مسلم |
امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری، متوفی ۲۶۱ھ |
دار المغنی،عرب شریف ۱۴۱۹ھ |
16 |
سنن ابن ماجہ |
امام ابو عبد اللّٰہ محمد بن یزید ابن ماجہ، متوفی ۲۷۳ھ |
دار المعرفہ، بیروت۱۴۲۰ھ |
17 |
سنن ابی داود |
امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی، متوفی ۲۷۵ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۱ھ |
18 |
سنن الترمذی |
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی، متوفی ۲۷۹ھ |
دار المعرفہ، بیروت۱۴۱۴ھ |
19 |
سنن الدار قطنی |
امام علی بن عمر دار قطنی، متوفی ۲۸۵ھ |
مدینۃ الاولیائ، ملتان ۱۴۲۰ھ |
20 |
نوادر الاصول |
ابو عبد اللہ محمد بن علی بن حسن حکیم ترمذی، متوفی ۳۲۰ھ |
مکتبہ امام بخاری |
21 |
البحر الزخار المعروف بمسند البزار |
امام ابو بکر احمد عمرو بن عبد الخالق بزار، متوفی ۲۹۲ھ |
مکتبۃالعلوم و الحکم ، المدینۃ المنورۃ ۱۴۲۴ھ |
22 |
سنن النسائی |
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، متوفی۳۰۳ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۶ھ |
23 |
الضعفاء |
ابوجعفرمحمدبن عمروبن موسیٰ بن حمادالعقیلی، متوفی۳۲۲ہ |
دارالصمیعی السعودیۃ ۱۴۲۰ھ |
24 |
المعجم الکبیر |
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی، متوفی ۳۶۰ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۲ھ |
25 |
المعجم الاوسط |
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ |
دار احیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۲۲ھ |
26 |
المعجم الصغیر |
امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی ،متوفی ۳۶۰ھ |
دار الکتب العلمیہ،بیروت ۱۴۰۴ھ |
27 |
الکامل في ضعفاء الرجال |
امام ابو احمد عبداﷲ بن عدی جرجانی، متوفی ۳۶۵ ھ |
دار الکتب العلمیہ،بیروت ۱۴۱۸ھ |
28 |
المستدرک علی الصحیحین |
امام ابو عبد اللّٰہ محمد بن عبد اللّٰہ حاکم نیشاپوری، متوفی ۴۰۵ھ |
دار المعرفہ، بیروت ۱۴۱۸ھ |
29 |
حلیۃ الاولیاء |
حافظ ابو نعیم احمد بن عبد اللّٰہ اصفہانی شافعی، متوفی ۴۳۰ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۱۹ھ |
30 |
شعب الایمان |
امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی، متوفی ۴۵۸ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۱ھ |
31 |
السنن الکبری |
امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیہقی ،متوفی ۴۵۸ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۴ھ |
32 |
فردوس الاخبار |
حافظ ابو شجاع شیرویہ بن شہرداربن شیرویہ دیلمی، متوفی۵۰۹ھ |
دار الفکر،بیروت ۱۴۱۸ھ |
33 |
تاریخ دمشق لابن عساکر |
علامہ علی بن حسن، متوفی ۵۷۱ ھ |
دار الفکر، بیروت ۱۴۱۵ھ |
34 |
مشکاۃ المصابیح |
علامہ ولی الدین تبریزی، متوفی ۷۴۲ھ |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ |
35 |
الجامع الصغیر |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۵ھ |
36 |
الفوز الکبیر فی اصول التفسیر |
شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی، متوفی ۱۱۷۶ ھ |
باب المدینہ، کراچی |
37 |
جامع اسباب النزول |
شیخ خالد عبد الرحمن العک |
باب المدینہ، کراچی |
38 |
الحصن والحصین |
ابو خیر محمد بن محمد بن محمد بن الجزری متوفی۸۳۳ھ |
مکتبۃ العصریہ بیروت۲۰۰۴ء |
39 |
کتاب الاذکار للنووی |
امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی، متوفی ۶۷۶ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۹۹۹ء |
40 |
شرح النووی علی المسلم |
امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی، متوفی ۶۷۶ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۰۱ھ |
41 |
فتح الباری |
امام حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، متوفی ۸۵۲ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۰ھ |
42 |
عمدۃ القاری |
امام بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی، متوفی ۸۵۵ھ |
دارالفکر، بیروت ۱۴۱۸ھ |
43 |
ارشاد الساری |
شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی، متوفی ۹۲۳ھ |
دار الفکر، بیروت۱۴۲۱ھ |
44 |
مرقاۃ المفاتیح |
علامہ ملا علی بن سلطان قاری ،متوفی۱۰۱۴ھ |
دار الفکر، بیروت ۱۴۱۴ھ |
45 |
فیض القدیر |
علامہ محمد عبد الرء ُوف مناوی، متوفی۱۰۳۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۲ھ |
46 |
اشعۃ اللمعات |
شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی، متوفی ۱۰۵۲ ھ |
کوئٹہ۱۳۳۲ھ |
47 |
مراٰۃ المناجیح |
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی، متوفی۱۳۹۱ھ |
ضیاء القرآن پبلی کیشنز |
48 |
نزھۃ القاری |
علامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی، متوفی۱۴۲۰ھ |
برکاتی پبلشرزکھارادرکراچی۲۰۰۰ء |
49 |
شرح النسائی للسیوطی |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الجیل بیروت |
50 |
المدخل |
علامہ محمد بن محمد ابن الحاج،متوفی۷۳۷ ھ |
دار الکتب العلمیہ بیروت ،۱۴۱۵ھ |
51 |
المیزان الکبرٰی |
عبدالوہاب بن احمد بن علی احمدشعرانی، متوفی ۹۷۳ھ |
مصطفی البابی، مصر |
52 |
رد المحتار |
محمد امین ابن عابدین شامی، متوفی ۱۲۵۲ھ |
دار المعرفہ، بیروت۱۴۲۰ھ |
53 |
بہارشریعت |
مفتی محمد امجد علی اعظمی، متوفی۱۳۶۷ھ |
مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی۲۰۰۸ء |
54 |
الحاوی للفتاوی |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الفکر، بیروت |
55 |
کتاب الزہد |
امام عبد اللّٰہ بن مبارک مروزی، متوفی ۱۸۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت |
56 |
احیاء علوم الدین |
امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی، متوفی ۵۰۵ھ |
دار صادر، بیروت۲۰۰۰ء |
57 |
مکتوبات امام ربانی |
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، متوفی ۱۰۳۴ھ |
کوئٹہ |
58 |
جامع کرامات الأولیاء |
امام یوسف بن اسماعیل نبہانی، متوفی ۱۳۵۰ ھ |
مرکز اہلسنت برکات رضاہند ۱۴۲۲ھ |
59 |
العقد الفرید |
الفقیہ احمد بن محمد بن عبد ربہ الاندلیسی ۳۲۸ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۷ھ |
60 |
کشف الغمۃ |
عبدالوہاب بن احمد بن علی بن احمدشعرانی، متوفی ۹۷۳ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۹ھ |
61 |
شرح الصدور |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
مرکز اہلسنت برکات رضا(ہند) |
62 |
مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی |
شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۵۲ھ |
گمبٹ ضلع خیر پور |
63 |
التذکرۃ فی احوال الموتی وامور الاٰخرۃ |
ابو عبد اللّٰہ محمد بن احمد انصاری قرطبی، متوفی ۶۷۱ھ |
دار السلام ریاض۲۰۰۸ء |
64 |
انیس الطالبین (مترجم) |
صلاح بن مبارک بخاری متوفی ۷۹۳ھ |
قادری رضوی کتب خانہ لاہور |
65 |
نفحات الانس(مترجم) |
مولانا عبد الرحمن الجامی ۸۹۸ھ |
شبیر برادرز لاہور |
66 |
السیرۃ النبویۃ لابن ہشام |
ابو محمد عبدالملک بن ہشام، متوفی ۲۱۳ھ |
دار الکتب العلمیۃ بیروت۱۴۲۲ھ |
67 |
الشمائل المحمدیہ للترمذی |
امام محمد بن عیسیٰ الترمذی، متوفی۲۷۹ھ |
داراحیاء التراث بیروت |
68 |
دلائل النبوۃ |
امام ابو بکر احمد بن الحسین بن علی بیہقی، متوفی ۴۵۸ ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت ۱۴۲۳ھ |
69 |
الشفا بتعریف حقوق المصطفی |
القاضی ابو الفضل عیاض مالکی، متوفی ۵۴۴ھ |
مرکز اہلسنت برکات رضا ہند ۱۴۲۳ھ |
70 |
الروض الانف |
الامام ابوالقاسم عبد الرحمن بن عبداللہ الخثعی السہیلی، متوفّٰی ۵۸۱ھ |
دار الکتب العلمیۃ بیروت |
71 |
الخصائص الکبری |
امام جلال الدین بن ابی بکر سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت |
72 |
المواہب اللدنیۃ |
شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی، متوفی ۹۲۳ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۶ھ |
73 |
الجوہر المنظم |
شیخ الاسلام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیتمی، متوفی ۹۷۴ھ |
مکتبہ قادریہ، لاہور۱۹۸۷ء |
74 |
مدارج النبوۃ |
شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی، متوفی ۱۰۵۲ ھ |
نوریہ رضویہ لاہور۱۹۹۷ء |
75 |
نسیم الریاض |
شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر خفاجی، متوفی ۱۰۶۹ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۱ھ |
76 |
شرح المواہب |
محمدزرقانی بن عبدالباقی بن یوسف، متوفی۱۱۲۲ھـ |
دارالکتب العلمیہ۱۴۱۷ھ |
77 |
حجۃ اللّٰہ علی العالمین |
اما م یوسف بن اسماعیل نبہانی، متوفی۱۳۵۰ ھ |
مرکز اہل سنت برکات رضا، ہند |
78 |
السیرۃ الحلبیۃ |
ابو الفرج نور الدین علی بن ابراہیم حلبی متوفی ۱۰۴۴ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۲ھ |
79 |
وفاء الوفاء للسمہودی |
نور الدین علی بن احمد السمہودی متوفی۹۱۱ھ |
داراحیاء التراث بیروت |
80 |
زاد المعاد |
ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر دمشقی متوفی۷۵۱ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۱ھ |
81 |
دلائل النبوۃ لابی نعیم |
حافظ ابو نعیم احمد بن عبد اللّٰہ اصفہانی شافعی، متوفی ۴۳۰ھ |
مکتبۃ العصریہ بیروت۲۰۰۹ء |
82 |
طبقات الشافعیۃ الکبری |
امام ابو حسن تاج الدین بن علی بن عبد الکافی السبکی متوفی۷۷۱ھ |
المکتبہ الشاملہ۱۴۱۳ھ |
83 |
الکامل فی التاریخ |
عز الدین ابن الأثیرمتوفی۶۳۰ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۹۹۸ء |
84 |
فتوح الشام |
محمد بن عمر بن واقد السہمی الاسلمی بالولاء ، المدنی، الواقدی المتوفی۲۰۷ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۲۰۰۵ء |
85 |
أخلاق النبی وآدابہ لابی الشیخ الاصبہانی |
حافظ عبد اللہ بن محمد الاصبہانی متوفی۳۶۹ |
دارالکتاب العربی بیروت۲۰۰۷ء |
86 |
مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات (مترجم) |
امام علامہ محمد مہدی فاسی متوفی ۱۱۰۹ھ |
نوریہ رضویہ پبلیکیشنز لاہور۲۰۰۳ء |
87 |
شواھد الحق |
اما م یوسف بن اسماعیل نبہانی، متوفی۱۳۵۰ ھ |
مرکز اہل سنت برکات رضا، ہند |
88 |
سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علی سید الکونین |
اما م یوسف بن اسماعیل نبہانی، متوفی۱۳۵۰ ھ |
دارالکتب العلمیہ، بیروت۱۴۲۲ھ |
89 |
الطبقات الکبریٰ |
محمد بن سعد بن منیع ھاشمی، متوفی۲۳۰ھ |
دارالکتب العلمیہ،بیروت۱۹۹۷ء |
90 |
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب |
ابو عمر یوسف عبداللہ بن محمد بن عبدالبرقرطبی، متوفی۴۶۳ھ |
دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۲ھ |
91 |
الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ |
امام الحافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی ،متوفی۸۵۲ھ |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۵ھ |
92 |
أسد الغابۃ |
امام حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی، متوفی ۸۵۲ھ |
دار الکتب العلمیہ، بیروت۱۴۱۷ھ |
93 |
فوات الوفیات |
محمد بن شاکر بن احمد اکتبی متوفی۷۶۴ھ |
دار صادر بیروت۷۴-۱۹۷۳ء |
94 |
حیاۃ الحیوان الکبرٰی |
کمال الدین محمد بن موسی دمیری ،متوفی ۸۰۸ھ |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۵ھ |
95 |
المستطرف فی کل فن مستظرف |
شہاب الدین محمد بن ابی احمد ابی الفتح ، متوفی۸۵۰ھ |
دار الفکربیروت۱۴۱۹ھ |
96 |
سبل الھدی والرشاد |
محمد بن یوسف صالحی شامی، متوفی ۹۴۲ھ |
دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۱۴ھ |
97 |
المغنی عن حمل الاسفار |
ابو الفضل زین الدین العراقی متوفی۸۰۶ھ |
مکتبہ طبریہ الریاض |
98 |
مَذاہب اسلام |
مولوی محمد نجم الغنی خان رامپوری |
ضیاء القران پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور |
99 |
عقیدۃ الشہدۃ شرح قصیدۃ البردۃ |
علامہ عمر بن احمد الخرپوتی متوفی |
باب المدینہ کراچی |
100 |
القصیدۃ النونیۃ |
محمد بن ابی بکر ابن قیم متوفی۷۵۱ھ |
مکتبہ قاہرہ شاملہ۱۴۱۷ھ |
101 |
بستان المحدثین |
شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی، متوفی ۱۲۳۹ھ |
باب المدینہ کراچی |
102 |
قصیدہ نعمانیہ للامام الاعظم |
علامہ شیخ شہاب الدین احمد بن حجر مکی متوفی۹۷۳ھ |
مکبۃ الحقیقۃ استنبول ترکی |
103 |
قصیدہ اطیب النغم |
شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی، متوفی ۱۱۷۶ ھ |
ضیاء القران پبلی کیشنز لاہور۱۹۹۹ء |
104 |
نفح الطیب من غصن الاندلس الرطیب |
احمد بن محمد المقری التلمسانی متوفی۱۰۴۱ھ |
دار صادر بیروت |
105 |
تکملۃ السیف الصقیل |
محمد زاہد بن الحسن الکوثری |
المکتبۃ الازہریۃ للتراث مصر |
106 |
نہایۃ الایجاز فی درایۃ الاعجاز |
امام فخر الدین محمد بن عمر بن حسین رازی، متوفی ۶۰۶ھ |
دار صادر بیروت۱۴۲۴ھ |
107 |
غیاث اللغات |
مولانا محمد غیاث الدین |
باب المدینہ کراچی |
108 |
القصیدتان (البردۃ للبوصیری) |
امام محمد شرف الدین بوصیری متوفی۶۹۵ھ |
ضیاء القران پبلی کیشنز لاہور۲۰۰۴ء |
109 |
المنح المکیۃ فی شرح الھمزیۃ |
شہاب الدین احمد بن محمدبن علی بن حجر ہیتمی شافعی متوفی۹۷۴ھ |
دار المنہاج بیروت۲۰۰۵ء |
01…صحابہ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنکا عشق رسول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات :274)
02…بہارشریعت ،جلد اوّل (حصہ 1 تا 6) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:1360)
03…بہارشریعت جلددوم(حصہ 7تا13)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات:1304)
04 …اُمہات المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات :59)
05…عجائب القراٰن مع غرائب القراٰن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات :422)
06…گلدستہ عقائد واعمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات:244)
07…بہارشریعت (سولہواں حصہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات:312)
08…تحقیقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات:142)
09… اچھے ماحول کی برکتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات:56)
10… جنتی زیور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات :679)
11…علم القرآن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:244)
12…سوانح کربلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:192)
13… اربعین حنفیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات:112)
14…کتاب العقائد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:64)
15…منتخب حدیثیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:246)
16…اسلامی زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات :170)
17 …آئینۂ قیامت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات :108)
18تا24…فتاوی اہل سنت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (سات حصے)
25… حق وباطل کا فرق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات:50)
26…بہشت کی کنجیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:249)
27…جہنم کے خطرات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:207)
28…کراماتِ صحابہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:346)
29…اخلاق الصالحین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:78)
30…سیرت مصطفی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:875)
31…آئینۂ عبرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:133)
32…بہارشریعت جلد سوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(کل صفحات :1332)
33…جنت کے طلبگاروں کے لئے مدنی گلدستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:470)
34…فیضانِ نماز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:49)
35…19دُرُودوسلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:16)
36…فیضانِ یٰسٓشریف مع دعائے نصف شعبان المعظم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (کل صفحات:20)
[1] … ترجمۂکنزالایمان: بیشک اللّٰہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والوان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔(پ۲۲،الاحزاب:۵۶)۔علمیہ
[2] … یہاں وظیفہ سے مراد کام ہے ۔ عوام میں وظیفہ کے جو معنی مشہور ہیں وہ مراد نہیں۔علمیہ
[3] … صحیح مسلم،کتاب الصلوٰۃ،باب الصلاۃ علی النبی،الحدیث:۴۰۸، ص۲۱۶۔علمیہ
[4] … دعا کی قبولیت
[5] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ ابو سلمان ‘‘ہے جبکہ دلائل الخیرات اور مطالع المسرات میں ’’ ابو سلیمان ‘‘ ہے لہٰذاکتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ ابو سلمان ‘‘ کے بجائے ’’ ابو سلیمان ‘‘ لکھا ہے۔علمیہ
[6] … دلائل الخیرات مع مطالع المسرات(مترجم)،فصل فی فضل الصلاۃ علی البنی۔۔۔الخ، ص۱۰۰۔علمیہ
[7] … مطالع المسرات (مترجم)،فصل فی فضل الصلاۃ علی النبی۔۔۔الخ، ص۱۰۲-۱۰۳۔علمیہ
[8] … سیرتِ رسولِ عربی کے بعض نسخوں میں یہاں ’’ امام خفاجی ‘‘ اور بعض میں ’’ امام باجی ‘‘ لکھا ہے، مطالع المسرات کے حوالے سے ہم نے ’’ امام باجی ‘‘ لکھا ہے۔علمیہ
[9] … احیاء علوم الدین، کتاب الاذکاروالدعوات،الباب الثانی فی آداب الدعائ۔۔۔الخ، ج۱، ص۴۰۶۔علمیہ
[10] … المغنی عن حمل الاسفار فی الاسقار فی تخریج ما فی الاحیاء من الاخبار علی ھامش الاحیائ،کتاب الاذکار والدعوات، الباب الثانی،ج ۱، ص۴۰۶…۔علمیہ
[11] … الشفاء،القسم الثانی فیما یجب علی الانام،الباب الرابع فی حکم الصلوۃ علیہ،فصل:فی المواطن التی تستحب فیھا، ج۲، ص۶۶۔علمیہ
[12] … مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات (مترجم)،ص۱۰۲۔علمیہ
[13] … دکھاوے اور شہرت کے لیے پڑھنا۔
[14] … رد المحتار،کتاب الصلوۃ ، مطلب فی ان الصلاۃ علی النبی۔۔۔الخ،ج۲، ص۲۸۳و۲۸۵۔علمیہ
[15] … وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ،الفصل الاول فی الزیارۃ نصا۔۔۔الخ، ج۲، الجزء ۴،ص۱۳۳۹ تا۱۳۶۱۔علمیہ
[16] … سنن الدارقطنی، کتاب الحج ، باب ماجاء فی زیارۃ قبر النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، الحدیث:۲۶۹۵ ، ج۳، ص۳۳۴۔علمیہ
[17] … وفاء الوفاء،الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ،الفصل الاول فی الزیارۃ نصا۔۔۔الخ، ج۲، الجزء ۴،ص۱۳۳۹۔علمیہ
[18] … المعجم الاوسط للطبرانی،من اسمہ عبدان،الحدیث:۴۵۴۶،ج۳،ص۲۶۶۔علمیہ
[19] … المعجم الکبیرللطبرانی، مجاہد عن ابن عمر،الحدیث:۱۳۴۹۷،ج۱۲،ص۳۱۰۔علمیہ
[20] … شعب الایمان للبیہقی ، الخامس و العشرون باب فی المناسک ، فضل الحج و العمرۃ ، الحدیث : ۴۱۵۷ ، ج۳ ، ص۴۹۰۔علمیہ
[21] … مسند ابی داود الطیالسی،الافراد،ج۱،ص۱۲۔علمیہ
[22] … کتاب الضعفاء للعقیلی،۱۹۷۷ہارون بن قزعۃ(مدینی)،ج۴،ص۱۴۷۷وشعب الایمان للبیہقی،الخامس والعشرون باب فی المناسک،فضل الحج والعمرۃ،الحدیث:۴۱۵۲،ج۳،ص۴۸۸۔علمیہ
[23] … سنن الدارقطنی،کتاب الحج،باب ماجاء فی زیارۃ قبر...الخ،الحدیث:۲۶۹۴،ج۳، ص۳۳۴۔علمیہ
[24] … فردوس الاخبار،باب المیم، فصل مَن حج،الحدیث:۵۷۰۵،ج۲،ص۲۵۲۔علمیہ
[25] … ترجمۂکنزالایمان : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ۵،النساء:۶۴)۔علمیہ
[26] … ترجمۂکنزالایمان:اور اے محبوب اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔
(پ۲۶،محمد:۱۹)۔علمیہ
[27] … مسند البزّار، زاذان عن عبداللہ، الحدیث:۱۹۲۵،ج۵،ص۳۰۸۔علمیہ۔
[28] … دیکھو وفاء الوفاء للسمہودی اور شفاء السقام للسبکی۔…وفاء الوفاء ، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ ، الفصل الاول فی الزیارۃ نصا۔۔۔الخ، ج۲، الجزئ۴، ص۱۳۶۰۔علمیہ
[29] … یہ حکایت صفحہ 717پر ملا حظہ فرمائیے!
[30] … شرح الزرقانی علی المواھب،المقصدالعاشر۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ۔۔۔الخ،ج۱۲، ص۱۸۳۔علمیہ
[31] … ترجمۂکنزالایمان:اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں۔ (پ۵،النساء:۶۴)۔علمیہ
[32] … وفاء الوفاء، جزء ثانی، ص۴۱۲۔…(وفاء الوفاء،الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ،الفصل الاول فی الزیارۃ نصا۔۔۔الخ، ج۲، الجزئ۴،ص۱۳۶۱۔علمیہ)
[33] … وفاءالوفاءء، جزء ثانی، ص ۴۲۴۔…(وفاء الوفائ، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء ۴، ص۱۳۷۷۔علمیہ)
[34] … تکملۃ السیف الصقیل فی الرد علی ابن زفیل، فصل فی حیاۃ الانبیاء ،ص۱۲۵۔علمیہ
[35] … السیف الصقیل فی الرد علی ابن زفیل تکملہ علامہ کوثری،ص ۱۵۶۔۱۲منہ…(سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس رسالے کا نام ’’ السیف الصقیل فی الرد علی ابن زخیل ‘‘ لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے، صحیح ’’ السیف الصقیل فی الرد علی ابن زفیل ‘‘ہے،یہ امام ابوالحسن تقی الدین السبکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ َتعَالٰی عَلَیْہ(متوفی۷۵۶) کی تالیف ہے جس پر امام محمد زاہد بن الحسن الکوثری رَحْمَۃُ اللّٰہِ َتعَالٰی عَلَیْہ (متوفی۱۳۷۸) نے’’تکملہ‘‘ بنام ’’ تبدید الظلام المخیم من نونیۃ ابن القیم‘‘ تحریر فرمایا ہے۔علمیہ )
[36] … الصحیح البخاری،کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃوالمدینۃ،باب فضل الصلاۃ فی مسجد۔۔۔الخ،الحدیث:۱۱۸۹، ج۱، ص۴۰۱۔علمیہ
[37] … صحیح البخاری،کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب مسجد بیت المقدس،ج۱، الحدیث: ۱۱۹۷، ص۴۰۳۔علمیہ
[38] … الصحیح البخاری،کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ،باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، الحدیث: ۱۱۹۰،ج۱، ص۴۰۱۔علمیہ
[39] … ثواب زیادہ ہونے میں۔
[40] … صحیح مسلم،کتاب الحج ، باب فضل الصلاۃبمسجدی مکۃ والمدینۃ، الحدیث:۵۰۶،ص۷۲۱۔علمیہ
[41] … صحیح مسلم،کتاب الحج ، باب فضل الصلاۃبمسجدی مکۃ والمدینۃ، الحدیث:۵۱۰،ص۷۲۲۔علمیہ
[42] … المسند لامام احمد بن حنبل،مسند ابی سعید الخدری،الحدیث:۱۱۶۰۹،ج۴،ص۱۲۸۔علمیہ
[43] … مسجد کی منفرد بناوٹ یا اس کی نقش و نگاری وغیرہ یا خود وہ مسجد جو فن تعمیر کا کوئی شاہکارہو۔
[44] … یعنی جن کی تاکید آئی ہے۔
[45] … بدبختی و محرومی۔
[46] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزئ۴،ص۱۳۷۱- ۱۳۷۲۔علمیہ
[47] … ترجمۂکنزالایمان:اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔ (پ۱،البقرۃ:۸۹)۔علمیہ
[48] … الدر المنثور فی التفسیر الماثور،سورۃ التوبۃ، تحت الآیۃ :۸۹،ج۱، الجزء۱،ص۲۱۶۔علمیہ
[49] … مشکاۃالمصابیح،کتاب احوال القیامۃوبدء الخلق،باب الحوض والشفاعۃ،الحدیث:۵۵۹۵،ج۲،ص۳۲۶۔علمیہ
[50] … الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حرف السین،باب سواد،ترجمۃ۱۱۱۴، ج۲،ص۲۳۴۔علمیہ
[51] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ حیری ‘‘ لکھا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے، صحیح ’’ حِمْیَرِی ‘‘ہے اصابہ وغیرہ میں اسی طرح ہے خود مصنف نے بھی آگے عربی عبارت ’’ اما ان اخا حمیر من خواص ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ ‘‘ میں حمیر لکھا ہے ۔علمیہ
[52] … الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،۶۴۴۳-عسکلان بن عواکن الحمیری،ج۵ ، ص۹۸۔علمیہ
[53] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ ماذن بن عضوبہ ‘‘ لکھا ہے لیکن اصابہ اور استیعاب وغیرہ میں ’’ مازن بن غضوبہ ‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے یہاں ’’ ماذن بن عضوبہ ‘‘کے بجائے اصابہ کے مطابق ’’ مازن بن غضوبہ ‘‘ لکھا ہے۔ علمیہ
[54] … الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حرف المیم ،باب مازن،ترجمۃ۲۲۷۳ ،ج۳، ص۴۰۰ و الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ۷۶۰۱- مازن بن الغضوبۃ،ج۵،ص۵۲۰
[55] … یَا مُحَمَّدُ پکارنے کے بارے میں اعلی حضرت ، مولانا امام احمد رضا ن عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اپنے رسالہ تَجَلِّی الْیَقِیْنِ بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن میں تحریر فرماتے ہیں:علماء تصریح فرماتے ہیں:حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو نام لے کر ندا کرنی حرام ہے، اور واقعی محلِ انصاف ہے جسے اس کا مالک ومولیٰ تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تجاوز کرے بلکہ امام زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا:اگر یہ لفظ کسی دعا میں وارد ہو جو خود نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمنے تعلیم فرمائی جیسے دعائے یَا مُحَمَّدُ إِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّیْتاہم اسکی جگہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ، یَانَبِیَّ اللّٰہ چاہیے، حالانکہ الفاظِ دعا میں حتی الو َسْع تغییر نہیں کی جاتی۔ (فتاوی رضویہ،ج۳۰،ص۱۵۷)
[56] … وفاء الوفاء، جزء ثانی، ص ۴۲۰۔…(وفاء الوفائ، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ ، ج۲، الجزء ۴، ص۱۳۷۲۔علمیہ)
[57] … اس طرح۔
[58] … مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلوۃ،باب السجودوفضلہ،الحدیث:۸۹۶،ج۱، ص۱۸۴۔علمیہ
[59] … اشعۃ اللمعات،کتاب الصلوۃ،باب السجود وفضلہ،تحت الحدیث:۸۹۶،ج۱،ص۴۲۴-۴۲۵۔علمیہ
[60] … المواھب اللدنیۃ مع زرقانی،المقصد العاشر۔۔۔الخ ، الفصل الاول فی اتمامہ تعالی نعمتہ علیہ بوفاتہ ۔۔۔الخ ، ج۱۲، ص۱۴۳۔علمیہ
[61] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۷۴۔علمیہ
[62] … سنن دارمی، باب مااکرم اللّٰہ تعالیٰ نبیہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم بعد موتہ۔…(سنن الدارمی،باب ما اکرم اللّٰہ تعالی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد موتہ، باب۱۵،الحدیث:۹۲،ج۱،ص۵۶۔علمیہ)
[63] … قاضی زین الدین ابو بکر بن حسین بن عمر عثمانی مراغی نزیل مدینہ منورہ (متوفی ۸۱۶ھ)نے مدینہ منور ہ کے حالات میں اپنی کتاب تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم دارالہجرۃ لکھی ہے جس کے مبیضہ سے وہ ۷۶۶ھ میں فارغ ہوئے۔ کشف الظنون۔…(وفاء الوفاء ، الباب الرابع ۔۔۔الخ،الفصل الحادی والعشرون، ج۱، الجزئ۲،ص۵۶۰۔علمیہ)
[64] … وفاء الوفاء ، جز ء اول ، ص۳۹۸۔…(وفاء الوفاء ، الباب الرابع ۔۔۔الخ ، الفصل الحادی و العشرون ، ج۱، الجزئ۲، ص۵۶۰۔علمیہ)
[65] … بارش نہ ہوئی۔
[66] … دیہات میں رہنے والے۔
[67] … الکامل فی التاریخ لابن اثیر،سنۃ ثمان عشرۃ،ذکر القحط وعام الرمادۃ،ج۲،ص۳۹۷۔علمیہ
[68] … جھنڈا لہراتے ہوئے۔
[69] … فتوح الشام،ذکر فتح مدینۃ حلب وقلاعھا،ج۱،ص۲۴۰۔علمیہ
[70] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہ عبارت یوں ہے: ’’ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہحضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی گود میں اور امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضر ت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی گود میںتھے۔ ‘‘لیکن ’’ فتوح الشام‘‘ میں اس کے برعکس ہے یعنی’’ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی گود میں اور امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہحضر ت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی گود میںتھے۔ ‘‘ مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے چونکہ ’’ فتوح الشام‘‘ کا حوالہ دیا ہے لہٰذا ہم نے کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے اس عبارت کو ’’ فتوح الشام‘‘ کے مطابق لکھا ہے۔ و اللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
[71] … فتوح الشام،جبلۃ بن الایھم،ج۱،ص۱۶۸ملخصا۔علمیہ
[72] … کتاب الاذکار،کتاب الاذکارالمتفرقۃ،باب ما یقولہ اذاخدرت رجلہ،الحدیث:۸۶۳۔۸۶۴،ص۲۴۳ والادب المفرد، باب مایقول الرجل اذا خدرت رجلہ، ص ۲۶۲۔علمیہ
[73] … وفاء الوفاء، جز ء ثانی، ص ۴۲۰۔ …وفاء الوفائ،الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ،ج۲،الجزء ۴، ص۱۳۷۳ ۔علمیہ
[74] … چوپائے۔گائے،بکری،اونٹ وغیرہ۔
[75] … الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،حرف النون،ترجمۃ النابغہ جعدی۲۶۷۷، ج۴،ص۸۰۔علمیہ
[76] … عمر بن شیبہ نے عبدالعزیز بن عمران سے نقل کیا ہے کہ نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سوائے پانچ اشخاص کی قبروں کے اور کسی کی قبر میں نہیں اترے۔ ان پانچ میںتین عورتیں اوردو مرد ہیں بدیں تفصیل: حضرت خدیجۃ الکبری، عائشہ صدیقہ کی والدہ ام رومان، حضرت علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد، ابن خدیجہ اور عبداللّٰہ بن نہم مزنی ملقب بہ ذوالبجادین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن۔ وفاء الوفائ، جزء ثانی، ص ۸۷۔ ۱۲منہ
[77] … وفاء الوفاء ، الباب الخامس فی مصلی النبی فی الاعیاد۔۔۔الخ،الفصل السادس فی تعیین قبور۔۔۔الخ،قبر فاطمۃ بنت اسد، ج۲، الجزئ۳،ص۸۹۸-۸۹۹ملخصاً ۔علمیہ
[78] … قصیدہ نعمانیہ للامام الاعظم ابی حنیفۃ نعمان بن ثابت رضی اللّٰہ تعالی عنہ…والمستطرف،الباب الثانی والاربعون فی المدح۔۔۔الخ ج۱،ص۳۹۱۔۳۹۳۔علمیہ
[79] … محمد بن عبید اللّٰہ بن عمروبن معاویہ بن عمروبن عتبہ بن ابی سفیان صخر بن حرب (متوفی ۲۲۸ھ )۱۲منہ
[80] … ترجمۂکنزالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریںتو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ۵،النساء:۶۴)۔علمیہ
[81] … وفاء الوفاء، جز ء ثانی، ص ۴۱۱۔…(وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی بقیۃ ادلۃ الزیارۃ۔۔۔الخ، ج۲، الجزء ۴، ص۱۳۶۰- ۱۳۶۱۔علمیہ)
[82] … ترجمۂکنزالایمان:اے ایمان والواللّٰہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈواور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔
(پ۶،المائدۃ:۳۵)۔علمیہ
[83] … ترجمۂکنزالایمان:اور اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو۔(پ۲۳،الصّٰفّٰت:۹۶)۔علمیہ
[84] … المدخل لابن الحاج، فصل فی زیارۃ القبور،ج۱،الجزء۱،ص۱۸۴۔علمیہ
[85] … المدخل لابن الحاج، فصل فی زیارۃ القبور،ج۱،الجزء۱،ص۱۸۶۔علمیہ
[86] … کمزوری۔
[87] … المدخل لابن الحاج ، فصل فی زیارۃ القبور،ج۱، الجزء۱، ص۱۸۶۔علمیہ
[88] … عروس کے لئے سب چیزیں آراستہ کی جاتی ہیں۔ سب اس کی خدمت کرتے ہیں اور اس کا حکم مانتے ہیں اور اس کوخوش کرنے کے اسباب مہیا کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمملک و ملکوت میں اللّٰہ تعالیٰ کے خلیفہ مطلق ہیں۔ بسائط و مرکبات میں آپ کا تصرف ہے اور یہ عالم آپ ہی کے لئے بنا ہے۔ پس آپ عروس مملکت ہیں۔ کذافی مطالع المسرات۔۱۲منہ
[89] … المدخل لابن الحاج، فصل فی زیارۃ القبور،ج۱، الجزئ۱، ص۱۸۷۔علمیہ
[90] … ترجمۂکنزالایمان:بیشک اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔(پ۲۷،النجم:۱۸)۔علمیہ
[91] … یعنی خدا کے نور سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔
[92] … ترجمۂکنزالایمان: تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔
(پ۵،النسائ:۴۱)۔علمیہ
[93] … جمعرات۔
[94] … پیر۔
[95] … المدخل لابن الحاج، فصل فی تحت فصل فی زیارۃ القبور،ج۱،الجزئ۱،ص ۱۸۷۔علمیہ
[96] … سب سے بلند رتبہ منبر۔
[97] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۰ ۔علمیہ
[98] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۰ ۔علمیہ
[99] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۱ ۔علمیہ
[100] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۱۔علمیہ
[101] … یعنی گردن جھکا کر اللّٰہ عزوجل اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں متوجہ ہو گئے ۔
[102] … وفاء الوفاء،الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۱ ۔علمیہ
[103] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۱ ۔علمیہ
[104] … علامہ سمہودی اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ابوبکر مقری کا واقعہ وفاء لابن الجوزی میں ہے۔ باقی واقعات مذکورہ بالاکوابن جوزی کے علاوہ اوروں نے بھی ذکر کیا ہے۔…(وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۲۔علمیہ
[105] … ایک قدیم پیمانہ۔
[106] … وفاء الوفاء،الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۲ ۔علمیہ
[107] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴، ص۱۳۸۵۔علمیہ
[108] … لکڑی کا پیالہ۔
[109] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴، ص۱۳۸۲ ۔علمیہ
[110] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴، ص۱۳۸۳ ۔علمیہ
[111] … کھجور۔
[112] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴،ص۱۳۸۳ ۔علمیہ
[113] … کہیں ایسا نہ ہوکہ۔
[114] … وفاء الوفاء، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء۴، ص۱۳۸۳۔۱۳۸۴۔علمیہ
[115] … حجرے یا کمرے کی چابی۔
[116] … وفاء الوفاء جزء ثانی، ص ۴۲۹۔…(وفاء الوفائ، الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ، ج۲، الجزء ۴، ص۱۳۸۵۔علمیہ)
[117] … المواھب اللدنیۃ مع زرقانی،المقصد العاشر۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرھ الشریف ۔۔۔الخ ، ج۱۲،ص۲۲۲۔علمیہ)
[118] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’۵۸۵ھ ‘‘ لکھا ہے یقینایہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ ’’۵۸۵ھ ‘‘ میں تو علامہ قَسْطَلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت بھی نہیں ہوئی تھی،آپ کا سن ولادت ’’ ۸۵۱ ھ ‘‘ہے ،مواہب لدنیہ اور حجۃ اللّٰہعلی العالمین میں لکھا ہے کہ یہ واقعہ ’’۸۸۵ھ ‘‘ میں پیش آیالہٰذا ہم نے یہی سن لکھا ہے۔ واللّٰہ تعالی اعلم۔ علمیہ
[119] … المواھب اللدنیۃ مع زرقانی،المقصد العاشر۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرھ۔۔۔الخ، ج۱۲،ص۲۲۲-۲۲۳۔علمیہ
[120] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاں ’’ خیار بن جبر‘‘ اور آگے دو مقامات پر ’’ ابن جبیر‘‘ لکھا ہے لیکن ’’ حجۃ اللّٰہ علی العالمین‘‘ میں’’ خیار بن ابجر‘‘ہے لہٰذا کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے تینوں مقامات پر ، ’’جبر ‘‘ اور ’’جبیر‘‘ کی جگہ ’’ ابجر‘‘ لکھا ہے ۔علمیہ
[121] … پیٹ کی ایک بیماری کا نام ہے۔۱۲منہ
[122] … حجۃ اللّٰہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین، ص۷۹۰۔…(حجۃ اللّٰہ علی العلمین ، القسم الرابع۔۔۔الخ ، الباب الثانی فیما وقع بعد وفاتہ۔۔۔الخ، الفصل الثانی فی ذکرمن استغاث بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ،ص۵۶۷-۵۶۸۔علمیہ)
[123] … حجۃ اللّٰہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین، ص۷۸۶۔…(حجۃ اللّٰہ علی العلمین، القسم الرابع۔۔۔الخ،الباب الثانی فیما وقع بعد وفاتہ۔۔۔الخ، الفصل الثانی فی ذکرمن استغاث بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ،ص۵۶۴۔۵۶۵۔علمیہ)
[124] … کشتی کا رخ موڑنے کی لکڑی۔
[125] … حجۃ اللّٰہ علی العالمین ص۷۸۷۔…(حجۃ اللّٰہ علی العلمین، القسم الرابع۔۔۔الخ،الباب الثانی فیما وقع بعد وفاتہ۔۔۔الخ، الفصل الثانی فی ذکرمن استغاث بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔۔۔الخ،ص۵۶۵۔علمیہ)
[126] … شواھد الحق،الباب السادس۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی ذکر من استغاث بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۲۲۸ ۔علمیہ
[127] … شواہد الحق میں اس کتاب کا نام’’الاشارات فی معرفۃ الزیارات‘‘ اور شہر کا نام ’’ توتہ‘‘ لکھا ہے ، واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ علمیہ
[128] … شواھد الحق،الباب السادس۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی ذکر من استغاث بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۲۳۴ ۔علمیہ
[129] … جھوٹ و اِفترا باندھنے والا۔
[130] … سعادۃ الدارین فی الصلاۃ علی سید الکونین، فصل فی الاستغاثۃ بہ ۔۔۔الخ،ص۴۸۷۔علمیہ
[131] … فوات الوفیات للعلامۃ محمد بن شاکر بن احمد کتبی متوفی ۷۶۴ھ ترجمہ محمد بن سعید بوصیری۔…(کشف الظنون، باب القاف، ج۲،ص۱۳۳۲۔علمیہ)
[132] … محافظ۔
[133] … جمعرات۔
[134] … اتوار۔
[135] … الحصن والحصین،مقدمۃ المؤلف،ص۱۵۔علمیہ
[136] … وفاء الوفاء جزء ثانی ص ۴۳۰۔…(وفاء الوفاء،الباب الثامن ۔۔۔الخ،الفصل الثالث فی توسل الزائر۔۔۔الخ،ج۲،الجزء۲، ص۱۳۸۷ ۔علمیہ)
[137] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میںیہ عبارت یوں ہے: ’’ اس واقف نے کہا کہ نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے استغاثہ ہر جگہ مفید نہیں ہے۔‘‘یقینا یہ کتابت کی غلطی ہے جس کی وجہ سے ’’ نہیں ‘‘ زائد لکھا گیا ہے کیونکہ ’’ شواہد الحق‘‘ میں عبارت یوں ہے: ’’ فقال لہ إن التشفع بالنبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم فی کل مکان نافع ‘‘ لہٰذا ہم نے اس عبارت کو’’ شواہد الحق‘‘ کے مطابق لکھا ہے اور جو ’’ نہیں ‘ ‘ زائد تھا اسے حذف کر دیا ہے۔علمیہ
[138] … شواھد الحق،الباب السادس۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی ذکر من استغاث بہ، ص۲۲۵۔علمیہ
[139] … موٹی لکڑی جس میں سوراخ کرکے مجرموں کے پاؤں ٹھوک دیتے ہیں۔
[140] … شواھد الحق،الباب السادس۔۔۔الخ،الفصل الثانی فی ذکر من استغاث بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ص۲۲۶ ۔علمیہ
[141] … جامع کرامات الاولیاء،محمد بن سعید البصری العدنی،ج۱، ص۲۵۹-۲۶۰۔علمیہ
[142] … ’’مِصباح الظَّلام‘‘ اور ’’جامع کرامات الاولیاء ‘‘ میں الفاظ یوں ہیں : اللھم بحرمۃ نبیک المصطفی عندک الا ما انقذتنا و سلمتنا ۔ ہو سکتا ہے مصنف رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پاس جو نسخہ ہو اس میں اسی طرح ہو یا انہوں نے بطور معنی اس دعا کو نقل کیا ہو۔ واللّٰہ تعالی اعلم بالصواب۔علمیہ
[143] … مصباح الظلام،ص۱۱۹و جامع کرامات الاولیائ،ابوالعباس المری،ج۱،ص۴۶۰۔علمیہ
[144] … المنح المکیۃ فی شرح الھمزیۃ لابن حجر الہیتمی،رقم الاشعار۳۸۴-۳۸۶،ص۶۱۔علمیہ
[145] … الطبقات الشافعیۃ الکبری، الطبقۃ السابعۃ فیمن توفی...الخ، الجز ۹،ص۲۱۹۔علمیہ
[146] … فوات الوفیات، حرف المیم،الباب کمال الدین ابن الزملکانی،ج۴،ص۱۰۔علمیہ
[147] … جھوٹا۔
[148] … نفح الطیب من غصن الاندلس الرطیب، بقیۃ ترجمۃ ابن خلدون عن الاحاطۃ ، الجز۷،ص ۱۸۳۔علمیہ
[149] … المقالات الوفیۃ
[150] … المقالات الوفیۃ
[151] … قصیدہ اطیب النغم ، قصیدہ ھمزیہ، فصل ششم،ص۲۲۰-۲۲۱۔علمیہ
[152] … قصیدہ اطیب النغم کی تضمین
[153] … المقالات الوفیۃ
[154] … رسالۃ درد نامہ غمناک
[155] … سیرت ِ رسول عربی کے سابقہ مطبوعوں میں یہاں تکریم کے الفاظ ہیں لیکن فرقہ وہابیہ اور ان کے اکابرین کے رد پر کتاب ’’انوارِ آفتابِ صداقت ‘‘ (از قاضی فضل احمد نقشبندی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ )پر علامہ مولانا نور بخش توکلی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی تقریظ موجود ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: ’’ فرقہ وہابیہ نجدیہ کی تردید میں یہ مجموعہ بڑا کار آمد ہے۔‘‘ اور یہ بھی تحریر فرمایا : ’’مصنف نے ہر جگہ عقیدۂ اہلسنت کے ثبوت میں دلائل واضحہ اور براہین قاطعہ پیش کئے ہیں اور ان مسائل پر قلم اٹھایا ہے جن کی تردید اس زمانۂ پرآشوب میں نہایت ضروری ہے۔‘‘ لہٰذا تکریم کے الفاظ ،کتابت کی غلطی پر محمول کرتے ہوئے ہم نے حذف کر دئیے ہیں۔ علمیہ
[156] … صحیح البخاری،کتاب الاستسقائ،باب سؤال الناس الامام۔۔۔الخ، الحدیث:۱۰۱۰،ج۱، ص۳۴۶۔
[157] … عمدۃ القاری،کتاب الاستسقائ،باب سؤال الناس الامام۔۔۔الخ، تحت الحدیث:۱۰۱۰،ج۵، ص۲۵۵۔علمیہ
[158] … الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،حرف العین،باب عباس،ج۲،ص۳۶۱۔علمیہ
[159] … الکامل فی التاریخ لابن اثیر،سنۃ ثمان عشرۃ،ذکر القحط وعام الرمادۃ،ج۲،ص۳۹۸۔علمیہ
[160] … فوج کو رخصت کرتے وقت کچھ فاصلے تک اس کے ساتھ جانا۔
[161] … عمدۃ القاری،کتاب الاستسقاء،باب سؤال الناس الامام۔۔۔الخ، تحت الحدیث:۱۰۱۰،ج۵، ص۲۵۵۔علمیہ
[162] … الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،حرف العین،باب عباس،ج۲،ص۳۶۰۔علمیہ
[163] … سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں یہاںعلامہ ابن حجر ہیتمی مکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے رسالے کا نام ’’ جو ہرمعظم‘‘ لکھا ہے جو کہ یقینا کتابت کی غلطی ہے، صحیح نام ’’ الجوہرالمنظّم‘‘ ہے۔ نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے روضۂ اقدس کی زیارت کے آداب و فضائل وغیرہ سے متعلق علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی یہ ایک عمدہ تالیف ہے۔علمیہ
[164] … الجوھرالمنظم،الفصل السابع،ص۶۲۔علمیہ
[165] … دفع التامل
[166] … صحیح بخاری،کتاب العلم،من یرد اللہ بہ۔۔۔الخ،الحدیث:۷۱،ج۱،ص۴۳۔علمیہ
[167] … الجامع الصغیر للسیوطی،الحدیث:۳۷۷۰،ص۲۲۹۔علمیہ
[168] … اشعۃ اللمعات، کتاب الفتن،باب الحوض والشفاعۃ،ج۴،ص۴۰۴۔علمیہ