اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

وضو کا طریقہ(حنفی)

یہ رِسالہ اوّل تا آخِر پورا پڑھئے، قَوی اِمکان ہے

کہ آپکی کئی غَلَطیاں   آپکے سامنے آجائیں  ۔

دُرُود شریف کی فضیلت

            سرکارِ دو عالَم، نورِ مجسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسُول مُحتَشم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ معظَّم ہے: ’’جس نے دن اور رات میں   میری طرف شوق و محبت کی وجہ سے تین تین مرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ عَزَّ وَجَلَّپر حق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اوراُس رات کے گناہ بخش دے۔‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱۸ص۳۶۲حدیث۹۲۸ )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عُثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا عشقِ رسُول

          حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بار ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو کیا پھریَکایک مُسکرانے اور رُفَقاء سے فرمانے لگے: جانتے ہو میں   کیوں   مسکرایا ؟


 

پھرخود ہی اِس سُوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں   نے دیکھا سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  وُضو فرمایا تھا اور بعدِ فراغت مسکرائے تھے اورصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانسے فرمایا تھا :جانتے ہو میں   کیوں   مسکرایا ؟پھر میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود ہی فرمایا: ’’جب آدمی وُضو کرتا ہے توچہرہ دھونے سے چِہرے کے اور ہاتھ دھونے سے ہاتھوں   کے او ر سر کا مَسح کرنے سے سر کے اور پاؤں   دھونے سے پاؤں   کے گناہ جھڑ جاتے ہیں  ۔‘‘ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۱ص۱۳۰حدیث۴۱۵)

وُضُو کرکے خَنداں   ہوئے شاہِ عثماں                 کہا: کیوں   تَبسُّم بھلا کر رہا ہوں  ؟

جوابِ سُوالِ مخاطب دیا پھر         کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ؟ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سرکارِ خیرُالانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی ہر ہر ادا اور ہر ہر سُنَّت کو دیوانہ وار اپناتے تھے۔نیز اس روایت سے گناہ دھونے کا نسخہ بھی معلوم ہو گیا ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّوُضو میں   کُلّی کرنے سے منہ کے، ناک میں   پانی ڈال کر صاف کرنے سے ناک کے، چِہرہ دھونے سے پَلکوں  سَمَیت سارے چہرے کے، ہاتھ دھونے سے ہاتھ کیساتھ ساتھ ناخنوں   کے نیچے کے، سَر (اور کانوں   ) کا مسح کرنے سے سر کے ساتھ ساتھ کانوں   کے اور پاؤں   دھونے سے پاؤں   کے ساتھ ساتھ پاؤں   کے ناخنوں   کے نیچے کے گناہ بھی جھڑ جاتے ہیں   ۔


 

گناہ جھڑنے کی حکایت

            اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّوُضو کرنے والے کے گناہ جھڑتے ہیں  ، اِس ضمن میں   ایک ایمان افروز حکایت نقل کرتے ہوئیحضرتِ علّامہ عبدالوہّاب شَعرانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے  ہیں  :ایک مرتبہ سیِّدُناامامِ اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جامِع مسجِد کوفہ کے وُضو خانے میں   تشریف لے گئے توایک نوجوان کو وُضوبناتے ہوئے دیکھا ،اس سے وضو(میں   استعمال شدہ پانی )کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا :اے بیٹے! ماں   باپ کی نافرمانی سے توبہ کرلے۔اُس نے فوراً عرض کی: میں   نے توبہ کی۔ایک اورشخص کے وُضو(میں   اِستِعمال ہونے والے پانی )کے قطرے ٹپکتے دیکھے ،آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُس شخص سے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائی! توزِنا سے توبہ کرلے۔ اس نے عرض کی: میں   نے توبہ کی۔ایک اورشخص کے وُضوکے قطرات ٹپکتے دیکھے تواسے فرمایا:شراب نوشی اور گانے باجے سننے سے توبہ کر لے ۔ اس نے عرض کی: میں   نے توبہ کی۔سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ پرکَشف کے باعِث چُونکہ لوگوں   کے عُیُوب ظاہِر ہوجاتے تھے لہٰذا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے بارگاہِ خداوندیعَزَّوَجَلَّمیں   اِس کشف کے ختم ہوجانے کی دُعامانگی :اللہعَزَّوَجَلَّنے دُعاقَبول فرمالی جس سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو وُضو کرنے والوں   کے گناہ جھڑتے نظر آنا بند ہوگئے ۔(اَلمِیزانُ الْکُبریٰ ج۱ ص۱۳۰)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

وضو کا ثواب نہیں   ملے گا

           اعمال کا دارومدار نیّتوں   پر ہے: اگر کسی عمل میں   اچّھی نیّت نہ ہو تو اُس کا ثواب نہیں   ملتا۔ یہی حال وضو کا بھی ہے،چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت  مُخَرَّجَہجلد اول‘‘ صَفْحَہ292پر ہے:و ضو پر ثواب پا نے کے لیے حُکمِ الٰہی بجا لانے کی نیّت سے وُضو کرنا ضرور ہے ورنہ وُضو ہو جائے گا ثواب نہ پائے گا۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :وضو میں   نیّت نہ کرنے کی عادت سے گنہگار ہو گا، اس میں   نیّت سنّتِ مؤ کَّدہ ہے۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ  ج۴ ص ۶۱۶)

سارا بدن پاک ہوگیا !

            دو حدیثوں   کا خُلاصہ ہے:جس نے بسم اللّٰہ کہہ کر وُضو کیا اس کاسر سے پاؤں   تک سارا جسم پاک ہو گیا اور جس نے بغیر بسم اللّٰہ کہے وُضو کیا اُس کا اُتنا ہی بدن پاک ہو گا جتنے پر پانی گزرا۔              (سُننِ دارقُطنی ج۱ص۱۰۸،۱۰۹حدیث۲۲۸،۲۲۹)

     حضرتِ سیِّدُناابُوہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِمدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ،فیض گنجینہ،صاحِبِ مُعَطّر پسینہ ،باعثِ نُزُولِ سکینہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابُوہریرہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)جب تم وُضوکر و توبسم اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ کہہ لیاکروجب تک تمھارا وُضوباقی رہے گااُس وَقْت تک تمھارے فِرِشتے(یعنی کِراماً کاتِبِین ) تمہارے لئے نیکیاں  لکھتے رہیں  گے۔‘‘  (اَلْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی ج۱ص۷۳حدیث  ۱۸۶)


 

باوُضو سونے کی فضیلت

          حدیثِ پاک میں   ہے: باوُضو سونے والا روزہ رکھ کر عبادت کرنے والے کی طرح ہے ۔(کَنْزُ الْعُمّال ج۹ص۱۲۳حدیث۲۵۹۹۴)

با وُضُو مرنے والا شہید ہے

        مدینے کے تاجدار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے حضرتِ سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا:بیٹا! اگر تم ہمیشہ باوُضو رہنے کی اِستِطاعت رکھو تو ایسا ہی کرو کیونکہ ملکُ الموت جس بندے کی روح حالتِ وُضو میں   قبض کرتا ہے اُس کیلئے شہادت لکھ دی جاتی ہے۔   (شُعَبُ الْاِیمان ج ۳ ص ۲۹ حدیث ۲۷۸۳)

  میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  :ہمیشہ باوُضو رہنا مُستحَب ہے ۔

مُصیبتوں   سے حفاظت کا نسخہ

        اللہ عَزَّ وَجَلَّنے حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامسے فرمایا: ’’اے موسیٰ !اگر بے وُضو ہونے کی صورت میں   تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو خود اپنے آپ کو ملامت کرنا۔‘‘  (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۲۹رقم۲۷۸۲)’’ فتاوٰی رضویہ‘‘ میں   ہے :ہمیشہ باوُضُو رہنا اسلام کی سُنَّت ہے۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۷۰۲)

"احمد رضا "کے سات حُرُوف کی نسبت سے ہر وقت باوُضو رہنےکے سات فضائل

میرے آقا امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : بعض


 

عارِفین (رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن)نے فرمایا:جو ہمیشہ باوُضو رہے اللہتعالٰی اُس کو سات فضیلتوں   سے مُشرّف فرمائے :

{1} ملائکہ اس کی صُحبت میں   رَغبت کریں   {2} قَلم اُس کی نیکیاں   لکھتا رہے{3} اُس کے اَعضاء تسبیح کریں   {4} اُس سے تکبیرِ اُولیٰ فوت نہ ہو {5}جب سوئے اللہ تعالٰی کچھ فرشتے بھیجے کہ جِنّ و انس کے شَر سے اُس کی حِفاظت کریں   {6}سکراتِ موت اس پر آسان ہو{7} جب تک باوُضو ہو امانِ الٰہی میں   رہے ۔       (اَیْضاً ص۷۰۲،۷۰۳)

دُگنا ثواب

            یقیناسردی ،تھکن یا نزلہ، زُکام ، دردِ سر اوربیماری میں   وُضو کرنا دشوار ہوتا ہے مگر پھر بھی کوئی ایسے وقت وُضو کر ے جبکہ وُضو کرنا دشوار ہو تو اس کو بحکمِ حدیث دُگنا ثواب ملے گا۔(اَلْمُعْجَمُ الْاَوْسَط لِلطَّبَرَانِی ج۴ص۱۰۶حدیث ۵۳۶۶)

سردی میں   وُضُو کرنے کی حکایت

       حضرتِ عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے غلام ،حمرا ن سے وُضو کے لیے پانی مانگا اور سردی کی رات میں   باہر جانا چاہتے تھے حمران کہتے ہیں  : میں  پانی لایا، انہوں   نے منہ ہاتھ دھوئے تو میں   نے کہا:اللہآپ کو کفایت کرے رات تو بَہُت ٹھنڈی ہے۔ اس پر فرمایا کہ: میں   نے رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے سنا ہے کہ’’ جو بندہ وضوئے کامل کرتا ہےاللہتعالٰی اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘ (مسندِ  بزار ج۲ص۷۵حدیث۴۲۲،  بہارِ شریعت ج۱ ص ۲۸۵)


 

وُضو کا طریقہ(حنفی)

              کعبۃُ اللّٰہ شریف کی طرف منہ کر کے اُونچی جگہ بیٹھنا مستحَب ہے۔ وُضو کیلئے نیّت کرنا سنّت ہے، نیّت نہ ہو تب بھی وضو ہو جا ئے گامگر ثواب نہیں   ملے گا۔ نیّت دل کے ارادے کو کہتے ہیں   ،دل میں   نیّت ہوتے ہوئے زَبان سے بھی کہہ لینا افضل ہے لہٰذا زبان سے اِس طرح نیّت کیجئے کہ میں   حُکمِ الٰہیعَزَّ وَجَلَّبجا لانے اور پاکی حاصل کرنے کیلئے وُضو کر رہا ہوں   ۔ بسمِ اللّٰہکہہ لیجئے کہ یہ بھی سنّت ہے ۔بلکہ بسمِ اللّٰہِ وَالحمدُ لِلّٰہ کہہ لیجئے کہ جب تک باوُضو رہیں   گے فِرشتے نیکیاں   لکھتے رہیں   گے۔  ([1])اب دونوں   ہاتھ تین تین بارپَہنچوں   تک دھوئیے، (نل بند کرکے ) دونوں   ہاتھوں   کی اُ نگلیوں  کا خِلال بھی کیجئے ۔ کم از کم تین تین بار دائیں   بائیں  اُوپر نیچے کے دانتوں   میں  مِسواک کیجئے اور ہر بارمِسواک کو دھولیجئے۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں   : ’’مسواک کرتے وقت نَماز میں   قراٰنِ مجید کی  قِراء َت(قِرا۔ء ت) اور   ذِکرُ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّکے لئے مُنہ پاک کرنے کی نیّت کرنی چاہئے۔‘‘    ([2])اب سیدھے ہاتھ کے تین چُلّو پانی سے( ہر بار نل بند کرکے) اس طرح تین کُلّیاں   کیجئے کہ ہر بارمُنہ کے ہر پرزے پر (حلق کے کَنارے تک ) پانی بہ جائے ،اگر روزہ نہ ہو تو غَرغَرہ بھی کرلیجئے۔ پھر سیدھے ہی ہاتھ کے تین چُلّو (اب ہر بار آدھا چُلّو پانی کافی ہے ) سے ( ہر بار نل بند کرکے) تین بار ناک میں   نرم گوشت تک پانی چڑھائیے اور اگر روزہ نہ ہو تو ناک کی جڑ تک پانی پہنچائیے، اب(نل


 

بند کرکے) اُلٹے ہاتھ سے ناک صاف کرلیجئے اور چھوٹی اُنگلی ناک کے سُوراخوں   میں   ڈالئے ۔ تین بار سارا چِہرہ اِس طرح دھوئیے کہ جہاں   سے عادَتاًسر کے بال اُگنا شروع ہوتے ہیں   وہاں   سے لیکرٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کی لَو سے دوسرے کان کی لَو تک ہر جگہ پانی بہ جائے ۔ اگر داڑھی ہے اور اِحرام باندھے ہوئے نہیں   ہیں   تو( نل بند کرنے کے بعد) اِسطرح خِلال کیجئے کہ اُنگلیوں   کو گلے کی طرف سے داخِل کر کے سامنے کی طرف نکالئے ۔ پھر پہلے سیدھا ہاتھ اُنگلیوں   کے سرے سے دھونا شروع کر کے کہنیوں   سمیت تین بار دھوئیے ۔اِسی طرح پھر اُلٹا ہاتھ دھولیجئے۔ دونوں   ہاتھ آدھے بازو تک دھونا مستحب ہے ۔اکثر لوگ چُلّو میں   پانی لیکر پہنچے سے تین بار چھوڑ دیتے ہیں   کہ کہنی تک بہتا چلا جاتا ہے اس طرح کرنے سے کہنی اور کلائی کی کروٹوں   پر پانی نہ پہنچنے کا اندیشہ ہے لہٰذا بیان کردہ طریقے پر ہاتھ دھوئیے۔ اب چُلّو بھر کر کہنی تک پانی بہانے کی حاجت نہیں   بلکہ ( بِغیر اجازتِ صحیحہ ایسا کرنا) یہ پانی کا اِسرا ف ہے۔اب(نل بند کرکے) سر کا مسح اِس طرح کیجئے کہ دونوں   اَنگوٹھوں   اور کلمے کی اُنگلیوں   کو چھوڑ کر دونوں   ہاتھ کی تین تین اُنگلیوں   کے سِرے ایک دوسرے سے مِلا لیجئے اور پیشانی کے بال یا کھال پر رکھ کر کھینچتے ہوئے گُدّی تک اِس طرح لے جائیے کہ ہتھیلیاں   سَر سے جُدا ر ہیں  ، پھر گدّی سے ہتھیلیاں   کھینچتے ہوئے پیشانی تک لے آئیے،([3])کلمے کی اُنگلیاں   اور اَنگوٹھے اِس دَوران سَر پر باِلکل مَس نہیں


 

 ہونے چاہئیں   ، پھر کلمے کی اُنگلیوں   سے کانوں   کی اندرونی سَطح کا اور اَنگوٹھوں   سے کانوں   کی باہَری سَطح کا مَسح کیجئے اورچُھنگلیاں   (یعنی چھوٹی انگلیاں   ) کانوں   کے سُوراخوں   میں   داخِل کیجئے اور اُنگلیوں   کی پُشت سے گردن کے پچھلے حصّے کامَسح کیجئے۔ بعض لوگ گلے کا اور دھلے ہوئے ہاتھوں   کی کہنیوں   اور کلائیوں   کا مَسْح کرتے ہیں   یہ سنّت نہیں   ہے۔ سر کا مسح کرنے سے قبل ٹونٹی اچھی طرح بند کر نے کی عادت بنالیجئے  بِلا وجہ نل کُھلا چھوڑ دینا یا اَدھورا بند کرنا کہ پانی ٹپک کر ضائع ہوتارہے اِسراف وگُنا ہ ہے ۔پہلے سیدھا پھر اُلٹا پاؤں   ہر بار اُنگلیوں   سے شُروع کرکے ٹخنوں   کے او پر تک بلکہ مستحَب ہے کہ آدھی پِنڈلی تک تین تین باردھولیجئے۔ دونوں   پاؤں   کی اُنگلیوں   کا خِلال کرنا سنّت ہے۔(خِلال کے دَوران نل بند رکھئے ) اس کا مُستحَب طریقہ یہ ہے کہ اُلٹے ہاتھ کی چھنگلیا سے سیدھے پاؤں   کی چھنگلیا کا خِلا ل شروع کر کے اَنگوٹھے پر ختم کیجئے اور اُلٹے ہی ہاتھ کی چھنگلیا سے اُلٹے پاؤں   کے انگوٹھے سے شروع کر کے چھنگلیاپر ختم کرلیجئے۔(عامۂ کُتُب)

                حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں  :ہر عُضْو دھوتے وقت یہ امّید کرتا رہے کہ میرے اِس عُضْو کے گناہ نکل رہے ہیں   ۔(اِحیاء الْعُلوم ج۱ص۱۸۳ مُلَخَّصاً )

وضو کے بچے ہوئے پانی میں   70بیماریوں   سے شِفا

            لوٹے وغیرہ سے وضو کرنے کے بعد بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینے میں   شفا ہے چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنَّت ، مولیٰنا شاہ اما م احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن


 

’’فتاوٰی رضویہ‘‘ مُخَرَّجہ جلد 4صَفْحَہ 575تا576پر فرماتے ہیں  :بَقِیَّۂ وضو(یعنی وضو کے بچے ہوئے پانی) کے لیے شرعاً عَظَمت و احترام ہے اور نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ثابِت کہ حُضُور نے وُضو فرما کر بقیہ آب(یعنی بچے ہوئے پانی) کو کھڑے ہو کر نوش فرمایا اور ایک حدیث میں   روایت کیا گیا کہ اس کا پینا ستَّر مَرَض سے شفا ہے۔تو وہ ان اُمُور میں   آبِ زمزم سے مُشابَہَت رکھتا ہے ایسے پانی سے استنجا مناسب نہیں   ۔’’ تنویر‘‘ کے آدابِ وضو میں   ہے: ’’وضو کے بعد وُضو کا پَسمَاندہ (یعنی بچا ہوا پانی) قبلہ رُخ کھڑے ہو کرپئے۔‘‘علّامہ عبد الغنی نابُلُسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں  : میں   نے تجرِبہ کیا ہے کہ جب میں   بیمار ہوتا ہوں   تو وُضو کے بَقِیَّہ(بَ ۔قِیْ۔یَہ) پانی سے شِفا حاصِل ہو جاتی ہے۔ نبیِّ صادِق صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس صحیح طبِّ نبوی میں   پائے جانیوالے ارشادِ گرامی پر اعتماد کرتے ہوئے میں   نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جنّت کے آٹھوں  دروازے کُھل جاتے ہیں 

            حدیثِ پاک میں   ہے: جس نے اچّھی طرح وُضو کیا اور پھر آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اورکَلِمۂ شہادت پڑھا اُس کے لئے جنّت کے آٹھوں   درواز ے کھول دیئے جاتے ہیں   جس سے چاہے اندر داخِل ہو۔    (سُنَنِ دارمی ج ۱ ص ۱۹۶حدیث ۷۱۶)

نظر کبھی کمزور نہ ہو

                                            جو وُضو کے بعد آسمان کی طرف دیکھ کر سُورۂ اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ پڑھ لیا کرے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّاُس کی نظر کبھی کمزور نہ ہوگی۔               (مَسائلُ القُراٰن ص۲۹۱)


 

 وُضو کے بعد تین بار سورۂ قَدر پڑھنے کے فضائل

            حدیثِ مبارَک میں   ہے:جو وُضو کے بعد ایک مرتبہ سُوْرَۃُ الْقَدْر  پڑھے تو وہ صِدِّیقین میں   سے ہے اور جو دو مرتبہ پڑھے تو شُہداء میں   شمار کیا جائے اور جو تین مرتبہ پڑھے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّمیدانِ محشر میں  اسے اپنے انبیاء کے ساتھ رکھے گا۔ (کَنْزُالْعُمّال ج۹ص۱۳۲رقم۲۶۰۸۵،اَلحاوی لِلفتاوٰی للسُّیوطی ج۱ص۴۰۲)

وُضو کے بعد پڑھنے کی دُعا

 ( اوّل و آخِر دُرود شریف)

          جو وُضو کرنے کے بعد یہ کلمات پڑھے:

سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااَنْتَ اَسْتَغْفِرُ کَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ ۔

ترجَمہ: اےاللہ!تو پاک ہے اور تیرے لئے ہی تمام خوبیاں   ہیں   میں   گو اہی دیتا ہوں  کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں   ،میں  تجھ سے بخشش چاہتاہوں  اور تیری بارگاہ میں   تو بہ کرتاہوں  ۔

  تواس پرمُہر لگا کر عرش کے نیچے رکھ دیا جائے گا اورقِیامت کے دن اس پڑھنے والے کودے دیا جائے گا ۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۲۱ رقم ۲۷۵۴)

وُضو کے بعد یہ دُعا بھی پڑھ لیجئے

( اوّل و آخِر دُرود شریف)

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ  ۔( تِرمِذی ج۱ص۱۲۱حدیث۵۵)

ترجَمہ : اےاللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے کثرت سے توبہ کرنے والوں   میں   بنا دے اورمجھے پاکیزہ رہنے والوں   میں   شامل کردے ۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد


 

لفظ "اللہ" کےچار حروف کی نسبت سے وُضو کے  چارفرائض

          ٭ چہرہ دھونا ٭ کہنیوں   سمیت دونوں   ہاتھ دھونا٭ چوتھائی سر کا مسح کرنا ٭ٹخنوں   سمیت دونوں   پاؤں   دھونا۔(عالَمگیری ج۱ص۳،۴،۵،بہارِ شریعت ج ۱ ص ۲۸۸ )

دھونے کی تعریف

            کسی عُضو(عُضْ۔وْ) دھونے کے یہ معنیٰ ہیں   کہ اُس عُضْوْ کے ہر حصّے پر کم از کم دو قطرے پانی بہ جائے۔ صرف بھیگ جانے یا پانی کو تیل کی طرح چپڑ لینے یا ایک قَطرہ بہ جانے کو دھونا نہیں   کہیں   گے نہ اِس طرح وُضو یا غسل ادا ہو گا۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۲۱۸،بہارِ شریعت ج۱ص۲۸۸)

"کرم یا ربَّ العٰلَمین "کے چودہ حُرُوف کی نسبت  سے وضو کی 14 سنتیں

             ’’وُضُو کا طریقہ ‘‘(حنفی )میں   بعض سنّتوں   اورمُستحبّات کا بیان ہوچُکا ہے اس کی مزید وَضاحت مُلاحظہ فرمائیے:٭نِیّت کرنا ٭بسم اللہ پڑھنا۔ اگر وُضو سے قبل بسم اللہ


 

وَالْحَمْدُ لِلّٰہ کہہ لیں   تو جب تک باوُ ضو رہیں   گے فرِشتے نیکیاں   لکھتے رہیں   گے  ٭ دونوں   ہاتھ پہنچوں   تک تین بار دھونا ٭ تین بار مِسواک کرنا ٭ تین چُلّو سے تین بار کُلّی کرنا٭ روزہ نہ ہو تو غر غرہ کرنا ٭تین چُلّو سے تین بار ناک میں   پانی چڑھانا ٭ داڑھی ہو تو ( احرام میں   نہ ہونے کی صورت میں   )  اس کا خِلال کرنا ٭ ہاتھ اور٭ پاؤں   کی اُنگلیوں   کاخِلال کرنا ٭  پورے سر کا ایک ہی بار مَسح کرنا ٭ کانوں   کا مَسح کرنا ٭ فرائض میں   ترتیب قائم رکھنا (یعنی فرض اَعضاء میں   پہلے منہ پھر ہاتھ کہنیوں   سمیت دھونا پھر سرکا مسح کرنا اورپھر پاؤں   دھونا ) اور ٭پے در پے وُضو کرنا یعنی ایک عُضوسوکھنے نہ پائے کہ دوسراعُضو دھو لینا ۔ (بہارِ شریعت ج ۱ص۲۹۳،۲۹۴مُلَخَّصاً)

"یَا رَسُولَ اللہ تیرے در کی فضاؤں کو سلام"  کے انتیس حروف کی نسبت سے وضو کے 29 مُسْتَحَبَّات

             ٭ قبلہ رُو٭اونچی جگہ ٭بیٹھنا ٭ پانی بہاتے وَقت اَعضاء پر ہاتھ پھیرنا ٭ اطمینا ن سے وُضو کرنا ٭ اَعضائے وُضو پر پہلے پانی چپڑلینا خصوصاً سردیوں   میں   ٭ وضو کرنے میں   بغیرضرورت کسی سے مدد نہ لینا ٭سیدھے ہاتھ سے کلی کرنا ٭ سیدھے ہاتھ سے ناک میں   پانی چڑھانا ٭ اُلٹے ہاتھ سے ناک صاف کرنا ٭ اُلٹے ہاتھ کی چھنگلیا ناک میں   ڈالنا ٭ اُنگلیوں   کی پُشت سے گردن کی پُشت کا مَسْح کرنا ٭ کانوں   کامَسْح کرتے وقت


 

 بھیگی ہوئی چھنگلیاں   (یعنی چھوٹی انگلیاں   ) کانوں   کے سُوراخوں   میں   داخِل کرنا ٭ اَنگوٹھی کو حَرَکت دینا جب کہ ڈِھیلی ہو اور یہ یقین ہو کہ اِس کے نیچے پانی بہ گیا ہے، اگر سخت ہو تو حَرَکت دیکر انگوٹھی کے نیچے پانی بہانا فرض ہے ٭ مَعذورِ شَرْعی (اس کے تفصیلی اَحکام اِسی رسالے کے صَفحَہ32 تا 35  پرمُلاحَظہ فرما لیجئے ) نہ ہو تو نَماز کا وقت شُروع ہونے سے پہلے ہی وُضو کر لینا ٭جو کامل طور پر وُضو کرتا ہے یعنی جس کی کوئی جگہ پانی بہنے سے نہ رَہ جاتی ہو اُس کا کُوؤں  (یعنی ناک کی طرف آنکھوں   کے دونوں   کونے ) ٹخنوں   ، ایڑیوں  ، تلووں  ، کونچوں  (یعنی ایڑیوں   کے اوپر موٹے پٹھّے) گھائیوں  (یعنی اُنگلیوں   کے درمیان والی جگہوں  ) اورکُہنیوں   کا خصوصِیّت کے ساتھ خیال رکھنا اور بے خیالی کرنے والوں   کے لئے تو فَرض ہے کہ ان جگہوں   کا خاص خیال رکھیں   کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ جگہیں  خشک رَہ جاتی ہیں   اور یہ بے خیالی ہی کا نتیجہ ہے ایسی بے خیالی حرام ہے اور خیال رکھنا فرض٭ وُضو کا لوٹا اُلٹی طرف رکھئے اگر طشت یا پَتیلی وغیرہ سے وُضو کریں   تو سیدھی جانِب رکھئے ٭ چِہرہ دھوتے وقت پیشانی پر اس طرح پھیلا کر پانی ڈالنا کہ اُوپر کا کچھ حصّہ بھی دُھل جائی٭  چِہرے اور٭ ہاتھ پاؤں   کی روشنی وسیع کرنا یعنی جتنی جگہ پانی بہانا فرض ہے اس کے اطراف میں   کچھ بڑھانا مَثَلاً ہاتھ کُہنی سے اوپر آدھے بازو تک اور پاؤں   ٹخنوں   سے اوپر آدھی پِنڈلی تک دھونا٭دونوں   ہاتھوں   سے مُنہ دھونا ٭ ہاتھ پاؤں   دھونے میں   اُنگلیوں   سے شُروع کرنا ٭ہر عُضْو دھونے کے بعد اس پر ہاتھ پھیرکر بُوندیں   ٹپکا دینا تا کہ بدن یا کپڑے پر نہ ٹپکیں   خصوصاً جبکہ مسجد میں


 

 جانا ہوکہ فرشِ مسجد پر وُضو کے پانی کے قطرے گرانا مکروہ ِتحریمی ہے ٭ ہر عُضْوْ کے دھوتے وقت اورمَسْح کرتے وَقت نیّتِ وُضو کا حاضِر رَہنا ٭ ابتِداء میں  بسم اللہکے ساتھ ساتھ دُرُود شریف اورکَلِمۂ شہادت پڑھ لینا٭ اَعْضائے وُضو بِلا ضَرورت نہ پونچھئے اگر پونچھنا ہو تب بھی بِلا ضَرورت باِلکل خشک نہ کیجئے کچھ تَری باقی رکھئے کہ بروزِ قِیامت نیکیوں   کے پلڑے میں   رکھی جائے گی ٭ وُضو کے بعد ہاتھ نہ جَھٹکیں   کہ شیطان کا پنکھا ہے ٭بعدِ وُضو مِیانی (یعنی پاجامے کا وہ حصّہ جو پیشاب گاہ کے قریب ہوتا ہے ) پر پانی چھِڑَکنا۔ (پانی چھڑکتے وقت مِیا نی کو کُرتے کے دامن میں   چھپائے رکھنا مناسِب ہے نیز وُضو کرتے وَقت بھی بلکہ ہر وقت پردے میں   پردہ کرتے ہوئے میانی کو کُرتے کے دامن یا چادر وغیرہ کے ذَرِیعے چھپائے رکھنا حیا کے قریب ہے ) ٭ اگر مکروہ وقت نہ ہو تو دو رَکعَت نَفل ادا کرنا جسے تَحِیَّۃُ الْوُضُوکہتے ہیں  ۔(بہارِ شریعت ج۱ص۲۹۳۔ ۳۰۰ )

"کاش! کامل وُضو نصیب  ہو" کے سولہ حروف کی نسبت سے وضو کے 16 مکروہات

          ٭وُضوکیلئے ناپاک جگہ پر بیٹھنا ٭ ناپاک جگہ وُضو کا پانی گرانا ٭ اَعْضائے وُضو سے لوٹے وغیرہ میں   قَطرے ٹپکانا (منہ دھوتے وقت بھرے ہوئے چُلّو میں   عُمُوماًچِہرے سے پانی کے قطرے گرتے ہیں   اس کا خیال رکھئے)٭قِبلے کی طرف تھوک یا بلغم ڈالنا یاکُلّی کرنا


 

 ٭بے ضرورت دنیا کی بات کرنا ٭ زِیادَہ پانی خرچ کرنا (صدرُ الشَّریعہمفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیبہارِ شریعت مُخَرَّجَہ جلد اوّل صَفحَہ 302 تا303پر فرماتے ہیں  : ناک میں   پانی ڈالتے وقت آدھا چُلّو کافی ہے تواب پورا چُلّو لینا اِسراف ہے)٭اتنا کم پانی خرچ کرنا کہ سنّت ادا نہ ہو ( ٹونٹی نہ اتنی زِیادہ کھولیں   کہ پانی حاجت سے زیادہ گرے نہ اتنی کم کھولیں   کہ سنّت بھی ادا نہ ہو بلکہ مُتَوَسِّط ہو)  ٭ منہ پر پانی مارنا ٭ منہ پر پانی ڈالتے وَقت پھونکنا ٭ ایک ہاتھ سے منہ دھونا کہ رِفاض وہُنود کا شِعار ہے ٭گلے کا مَسح کرنا ٭ اُلٹے ہاتھ سے کُلّی کرنا یا ناک میں   پانی چڑھانا ٭ سیدھے ہاتھ سے ناک صاف کرنا ٭تین جدید پانیوں   سے تین بار سر کامَسح کرنا ٭ دھوپ کے گرم پانی سے وُضو کرنا ٭ہونٹ یا آنکھیں   زور سے بند کرنا اور اگر کچھ سُو کھا رَ ہ گیاتو وُضو ہی نہ ہو گا۔ وُضو کی ہر سنّت کا ترک مکروہ ہے اِسی طرح ہر مکروہ کا ترک سنّت ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۰۰۔۳۰۱)

دھوپ کے گرم پانی کی وَضاحت

         صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی    عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہبہارِ شریعت مُخَرَّجَہجلد اوّلصَفْحَہ301 کے حاشیہ پر لکھتے ہیں   : ’’جو پانی دھوپ سے گرم ہوگیا اس سے وُضو کرنا مُطلَقاً مکروہ نہیں   بلکہ اس میں   چند قُیُود ہیں  ، جن کا ذکر پانی کے باب میں   آئے گا اور اس سے وُضو کی کراہت تنزیہی ہے تحریمی نہیں  ۔‘‘پانی کے باب میں   صَفْحَہ334 پر لکھتے ہیں  :’’جو پانی گرم ملک میں   گرم موسم میں


 

   سونے چاندی کے سوا کسی اور دھات کے برتن میں   دھوپ میں   گرم ہو گیا، تو جب تک گرم ہے اس سے وُضو اور غُسل نہ چاہیے، نہ اس کو پینا چاہیے بلکہ بدن کو کسی طرح پہنچنا نہ چاہیے، یہاں   تک کہ اگر اس سے کپڑ ا بھیگ جائے تو جب تک ٹھنڈا نہ ہو لے اس کے پہننے سے بچیں   کہ اس پانی کے اِستِعمال میں   اندیشہ ٔبرص(یعنی بدن پر سفید داغ کا اندیشہ) ہے ، پھر بھی اگر وُضو یا غُسل کر لیا تو ہو جائے گا۔‘‘ (بہارِشریعت ج۱ص۳۰۱،۳۳۴)

مُسْتَعْمل پانی کا اَہَمّ مسئلہ

            اگر بے وُضو شخص کا ہاتھ یا اُنگلی کا پَورایا ناخُن یا بدن کا کوئی ٹکڑا جو وُضو میں   دھویا جاتاہو جان بوجھ کر یا بھول کردَہ در دَہ (10×10)سے کم پانی (مَثَلاً پانی سے بھری ہوئی بالٹی یا لوٹے وغیرہ ) میں   پڑجائے تو پانی مُسْتَعمَل(یعنی استعمال شُدہ) ہو گیا اوراب وُضو اور غسل کے لائق نہ رہا ۔اِسی طرح جس پرغُسل فرض ہو اس کے جسم کا کوئی بے دُھلا ہو ا حصّہ پانی سے چُھو جائے تو وہ پانی وُضو اور غُسل کے کام کانہ رہا ۔ہاں   اگر دُھلا ہاتھ یا دُھلے ہوئے بدن کا کوئی حصّہ پڑجائے تو حَرَج نہیں۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۳۳)( مُسْتَعمَل پانی اور وُضو و غسل کے تفصیلی اَحکام سیکھنے کیلئے بہارِشریعت حصّہ 2کا مطالَعَہ فرما یئے )

مٹّی ملے پانی سے وُضو ہو گا یا نہیں 

            ٭پانی میں   ریت کیچڑ مل جائے تو جب تک رقیق(یعنی پانی پَتلا) رہے اس سے وُضو جائز ہے۔ اَقُول (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : ’’میں   کہتا ہوں  ‘‘)مگر بِلا ضَرورت کیچڑ ملے ہوئے


 

 (پانی)سے وُضو کرنا منع ہے کہ مُثلہ یعنی صورت بگاڑنا ہے اور یہ شرعاً حرام ہے(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہ ج ۴ ص۶۵۰) (معلوم ہوا منہ پر اس طرح مٹّی ملنا کہ صورت بگڑ جائے یا منہ کالا کرنا جیسا کہ بعض اوقات چور کا کوئلے وغیرہ سے منہ کالا کر دیتے ہیں   یہ حرام ہے قصداً کافر کا بھی مُثلہ کرنا یعنی چہرہ بگاڑنا جائز نہیں  )٭جس پانی میں   کوئی بدبُو دار چیز مل جائے اس سے وُضو مکروہ ہے خصوصاً اگر اس کی بدبُو نَماز میں   باقی رہے کہ(اِس سے نماز) مکروہِ تحریمی ہو گی۔ (اَیضاً ص۶۵۰ )

پان کھانے والے متوجّہ ہوں   

           میرے آقا اعلٰی حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،  ولیِ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرتَبت،پروانۂِ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین  ومِلَّت، حامیِ سنّت ، ماحِیِ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  : پانوں   کے کثرت سے عادی خُصُوصاً جبکہ دانتوں   میں   فَضا(گیپ) ہو تجرِبے سے جانتے ہیں   چھالیہ کے باریک ریزے اور پان کے بَہُت چھو ٹے چھوٹے ٹکڑے اِس طرح منہ کے اَطراف و اَکناف میں   جاگیر ہوتے ہیں  ( یعنی منہ کے کونوں   اور دانتوں   کے کھانچوں   میں   گھس جاتے ہیں  ) کہ تین بلکہ کبھی دس بارہ کُلّیاں   بھی اُن کے تَصفِیۂ تام( یعنی مکمّل صفائی) کو کافی نہیں   ہوتیں   ،نہ خِلال اُنہیں   نکال سکتا ہے نہ مسواک،سوا کُلّیوں   کے کہ پانی مَنافِذ( یعنی سوراخوں  ) میں   داخِل ہوتا اور جنبشیں   دینے( یعنی ہِلانے) سے جمے ہوئے باریک


 

 ذرّوں  کو بَتَدریج چھڑا چھڑا کر لاتا ہے، اس کی بھی کوئی تَحدید( حد بندی )نہیں   ہوسکتی اور یہ کامل تصفیہ(تص۔فِیَہ یعنی مکمّل صفائی) بھی بَہُت مُؤکَّد(یعنی اِس کی سخت تاکید) ہے متعدَّد احادیث میں   ارشاد ہوا ہے کہ:’’ جب بندہ نَماز کو کھڑا ہوتا ہے فِرِشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھتا ہے یہ جو پڑھتا ہے اِس کے منہ سے نکل کر فِرِشتے کے منہ میں   جاتا ہے اُس وقت اگر کھانے کی کوئی شے اُس کے دانتوں   میں   ہوتی ہے ملائکہ کو اُس سے ایسی سخت ایذ ا ہوتی ہے کہ اور شے سے نہیں  ہوتی ۔‘‘

            حُضُورِ اکرم ،نورِ مجسّم ،شاہِ بنی آدم ،رسولِ مُحتَشَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: جب تم میں   سے کوئی رات کو نَماز کیلئے کھڑا ہو تو چاہئے کہ مِسواک کرلے کیونکہ جب وہ اپنی نَماز  میں   قرا ء ت(قِرَا۔ء ت) کرتا ہے تو فِرِشتہ اپنا منہ اِس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اِس کے منہ سے  نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں   داخِل ہوجاتی ہے ۔   ([4])اور ’’طَبَرانینے کبِیر ‘‘میں   حضرت ِ سیِّدُنا ابو ایُّوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کی ہے کہ دونوں   فِرِشتوں   پر اس سے زِیادہ کوئی چیزگِراں   نہیں   کہ وہ اپنے ساتھی کو نَماز پڑھتا دیکھیں   اور اس کے دانتوں   میں   کھانے کے ریزے پھنسے ہوں  ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیرج۴ص۱۷۷حدیث۴۰۶۱، فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ ص۶۲۴۔ ۶۲۵)

تصوُّف کا عظیم مَدَنی نسخہ

       حُجَّۃُ الاسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالیفرماتے ہیں   :وُضو سے فراغت کے بعد جب آپ نَماز کی طرف متوجّہ ہوں   اُس وقت یہ تصوُّر کیجئے


 

  کہ جن ظاہِری اَعضاء پر لوگوں   کی نظر پڑتی ہے و ہ تو بظاہِر طاہِر ( یعنی پاک) ہوچکے مگر دل کو پاک کئے بِغیر بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں   مُناجات کرنا حیا کے خِلاف ہے کیوں   کہاللہ عَزَّ وَجَلَّ دلوں  کوبھی دیکھنے والاہے ۔مزید فرماتے ہیں   :ظاہِری وُضو کرلینے والے کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دل کی طہارت ( یعنی صفائی) توبہ کرنے اور گناہوں   کو چھوڑنے اور عمدہ اَخلاق اپنانے سے ہوتی ہے ۔جو شخص دل کو گناہوں   کی آلودَگیوں   سے پاک نہیں   کرتا فَقَط ظاہِری طہارت (یعنی صفائی ) اور زَیب و زینت پر اِکتِفاء کرتا ہے اُس کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو بادشاہ کو مَدعو کرتا ہے اور اپنے گھر کو باہَر سے خوب چمکاتا ہے اور رنگ و روغن کرتا ہے مگر مکان کے اندر ونی حصّے کی صفائی پر کوئی توجُّہ نہیں   دیتا ۔اب ایسی صورت میں   جب بادشاہ اُس کے مکان کے اندر آکر گندگیاں   دیکھے گا تو وہ ناراض ہوگا یا راضی یہ ہر ذی شُعُور خود سمجھ سکتا ہے ۔  (اِحْیَاءُ الْعُلوم ج۱ص۱۸۵مُلَخَّصاً)

"صبر کر" کےپانچ حُروف کی نسبت سے زَخم وغیرہ سے خون نکلنے  کے 5اَحکا م

                 ٭ خون،پِیپ یا زَرد پانی کہیں   سے نکل کر بہا اور ا سکے بہنے میں   ایسی جگہ پہنچنے کی صَلاحِیَّت تھی جس جگہ کا وُضو یا غسل میں   دھونا فَرض ہے تو وُضو جاتا رہا۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۳۰۴ ) ٭ خون اگر چمکا یا اُبھرا اور بہا نہیں   جیسے سُوئی کی نوک یا چاقو کاکَنارہ لگ جاتا ہے اور خون


 

اُبھر یا چمک جاتا ہے یاخِلال کیا یا مِسواک کی یا اُنگلی سے دانت مانجھے یا دانت سے کوئی چیزمَثَلاً سیب وغیرہ کاٹا اس پر خون کا اثر ظاہِر ہو ایا ناک میں   اُنگلی ڈالی اِس پر خون کی سُرخی آگئی مگر وہ خون بہنے کے قابِل نہ تھا وُضو نہیں   ٹوٹا ۔ (اَیْضاً)٭  اگر بَہا مگر بہ کر ایسی جگہ نہیں   آیا جس کا غسل یا وُضو میں   دھونافَرض ہو مَثَلاً آنکھ میں   دانہ تھا اور ٹوٹ کر اندر ہی پھیل گیا باہَرنہیں   نکلا یا پیپ یاخون کان کے سُوراخوں   کے اندر ہی رہا باہَر نہ نکلا تو ان صورَتوں   میں   وُضو نہ ٹوٹا  (اَیْضاً ص۲۷) ٭ زخم بے شک بڑاہے رَطُوبت چمک رہی ہے مگر جب تک بہے گی نہیں   وُضو نہیں   ٹوٹے گا۔(اَیضًا)٭ زخم کا خون بار بار پونچھتے رہے کہ بہنے کی نَوبت نہ آئی تو غور کرلیجئے کہ اگر اتنا خون پونچھ لیا ہے کہ اگر نہ پونچھتے تو بہ جاتا تو وُضو ٹوٹ گیا ،نہیں   تو نہیں  ۔(اَیْضًا)

سردی سے اَعضاء پھٹ جائیں   تو......

         سردی وغیرہ سے اَعضا ء پھٹ گئے دھو سکے دھوئے ،ٹھنڈا پانی نقصان کرے تو گَرم پانی اگر کر سکتا ہو کرنا واجِب ، اگر گرم سے بھی نقصان ہو تو مَسح کرے، اگرمَسح بھی نقصان دے تو اس پر جو پٹّی بندھی یا دوا کا ضِماد (یعنی لیپ)ہے اُس پر پانی بہائے ، یہ بھی ضَرَر(یعنی نقصان) دے تو اس پٹّی یاضِما د(یعنی لیپ۔PASTE) پورے پرمَسح کرے اس سے( بھی) نقصان ہو تو چھوڑ دے،مُعاف ہے۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہ   ج ۴ ص۶۲۰)


 

وضو میں   مہندی اور سرمے کا مسئلہ

            ٭عورت کے ہاتھ پاؤں   پر مہندی کا جِرم لگا رَہ گیا اور خبر نہ ہوئی تو وُضو و غسل ہو جائے گا ۔ہاں   جب اِطِّلاع ہو چھڑا کر وہاں   پانی بہا دے۔  (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہج ۴ ص ۶۱۳) ٭  سُرمہ آنکھ کے کُوئے (یعنی آنکھ کے کونے) یا پلک میں   رہ گیا اور اطِّلاع نہ ہوئی ظاہِر اً حَرَج نہیں   اور بعد ِنَماز کُوئے(آنکھ کے کونے) میں   محسوس ہوا تو اَصلاً باک(یعنی بالکل اندیشہ) نہیں  ۔(مطلب یہ کہ نماز ہو گئی)              (اَیضاً)

انجکشن لگانے سے وُضو ٹوٹے گا یا نہیں   ؟

            ٭گوشت میں   انجکشن لگانے میں   صِرف اِسی صورت میں   وُضو ٹوٹے گا جب کہ بہنے کی مقدار میں  خون نکلی٭جب کہ نَس کا انجکشن لگاکر پہلے خون اُوپر کی طرف کھینچتے ہیں   جو کہ بہنے کی مقدار میں   ہوتا ہے لہٰذا وُضو ٹوٹ جاتا ہے ٭ اِسی طرح گلوکوز وغیرہ کی ڈرِپ نَس میں   لگوانے سے وُضو ٹوٹ جائیگا کیوں   کہ بہنے کی مقدار میں   خون نکل کر نلکی میں   آجاتا ہے ۔ ہاں   بہنے کی مقدار میں   خون نلکی میں   نہ آئے تو وُضو نہیں   ٹوٹے گا  ٭سِرِنج کے ذَرِیعے ٹیسٹ کرنے کے لئے خون نکالنے سے وُضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ بہنے کی مقدار میں   ہوتا ہے اسی لئے یہ خون پیشاب کی طرح ناپاک بھی ہوتا ہے، خون سے بھری ہوئی شیشی جیب میں   رکھ کر نماز پڑھی،نہ ہوئی نیز خون یا پیشاب کی شیشی اگر چِہ اچّھی طرح بند ہو مسجِد کے اندر بھی نہیں   لا سکتے ،لائیں   گے تو گنہگار ہوں   گے۔


 

دُکھتی آنکھ کے آنسو

          ٭آنکھ کی بیماری کے سبب جو آنسو بہا وہ ناپاک ہے اور وُضو بھی توڑ د یگا ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۱۰) افسوس! اکثر لوگ اِس مسئلے (مَس ۔ئَ ۔ لَے) سے ناواقِف ہوتے ہیں   اور دُکھتی آنکھ سے بوجہِ مرض بہنے والے آنسو کو اور آنسوؤں   کی مانند سمجھ کر آستین یا کرتے کے دامن وغیرہ سے پونچھ کر کپڑے ناپاک کرڈالتے ہیں   ٭ نابِیناکی آنکھ سے جو رَطُوبت بوجہِ مَرَض نکلتی ہے وہ ناپاک ہے اور اس سے وُضو بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ ( ماخوذ از بہارِ شریعت ج ۱ ص ۳۰۶ )

پاک اور ناپاک رَطوبت

           ٭ جورَطوبَت انسانی بدن سے نکلے اور وُضو نہ توڑے وہ ناپاک نہیں  ۔ مَثَلاًخون یا پیپ بہ کر نہ نکلے یا تھوڑی قے کہ منہ بھر نہ ہو پاک ہے ۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۰۹)

چھالا اور پُھڑیا

          ٭ چھالا نوچ ڈالا اگر اس کا پانی بہ گیا تو وُضو ٹوٹ گیا ورنہ نہیں   ۔ (اَیْضاً ص ۳۰۵) ٭پھڑیا باِلکل اچّھی ہو گئی اس کی مُردہ کھال باقی ہے جس میں   اوپر منہ اور اندر خَلا ہے اگر اس میں  پانی بھر گیا اور دبا کر نکالا تو نہ وُضو جائے نہ وہ پانی ناپاک ۔ ہاں   اگر اُس کے اندر کچھ تَری خون وغیرہ کی باقی ہے تو وُضو بھی جاتا رہے گا اور وہ پانی بھی ناپاک ہے۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۳۵۵۔۳۵۶)  ٭ خارِش یا پھُڑیوں   میں   اگر بہنے والی رَطُوبت نہ ہو صِرف چِپک ہو اور کپڑا اس سے بار بار چھو کر چاہے کتنا ہی سَن جائے پاک ہے۔(بہارِشریعت ج ۱ ص ۳۱۰ )


 

٭ناک صاف کی اس میں   سے جَما ہو ا خون نکلا وُضو نہ ٹوٹا،انسب (یعنی زِیادہ مناسِب )  یہ ہے کہ ُوضو کرے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۲۸۱)

قَے سے وُضوکب ٹوٹتا ہے ؟

         ٭  منہ بھر قے کھانے، پانی یا صَفْرا (یعنی پیلے رنگ کا کڑوا پانی ) کی وُضو توڑ دیتی ہے ۔ جو قَے تَکَلُّف کے بِغیر نہ روکی جا سکے اسے منہ بھر کہتے ہیں  ۔  منہ بھر قَے پیشاب کی طرح ناپاک ہوتی ہے اسکے چھینٹوں   سے اپنے کپڑے اور بدن کو بچانا ضَروری ہے۔ (ماخوذ ازبہارِشریعت ج۱ص۳۰۶،۳۹۰ وغیرہ)

ہنسنے کے اَحکام

            {1} رُکوع و سُجُود والی نَماز میں   بالِغ نے قَہقَہہ لگا دیا یعنی اتنی آواز سے ہنسا کہ آس پاس والوں   نے سنا تو وُضو بھی گیا اورنَماز بھی گئی، اگر اتنی آواز سے ہنسا کہ صِرف خود سنا تونَماز گئی وُضوباقی ہے، مُسکرانے سے نہ نماز جائے گی نہ وُضو۔  مُسکرانے میں   آواز باِلکل نہیں   ہوتی صرف دانت ظاہِر ہوتے ہیں  (مَراقِی الْفَلاح  ص ۶۴ ) {2}بالِغ نے نَمازِ جنازہ میں   قَہقَہہ لگایا تو نَماز ٹوٹ گئی وُضو باقی ہے۔(اَیْضاً ) {3} نَماز کے علاوہ قَہقَہہ لگانے سے وُضو نہیں   جاتا مگر دو بارہ کر لینا مُستحب ہے۔ (مَراقِی الْفَلاح ص۶۰)ہمارے میٹھے میٹھے آقا   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی بھی قَہقَہہ نہیں   لگایا لہٰذا ہمیں   بھی کوشِش کرنی چاہیے کہ یہ سنّت بھی زِندہ ہو اور ہم زور زور سے نہ ہنسیں   ۔فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:


 

  اَلقَہْقَہَۃُ مِنَ الشّیطٰن وَالتَّبَسُّمُ مِنَ اللّٰہِ تَعالٰی یعنی قَہقَہہ شیطا ن کی طر ف سے ہے اور مُسکرانا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ہے۔(اَلْمُعْجَمُ الصَّغِیر لِلطَّبَرَانِیّ ج۲ص۱۰۴)

کیا ستر دیکھنے سے وُضو ٹوٹ جاتا ہے ؟

            عوام میں   مشہور ہے کہ گُھٹنا یا ستر کُھلنے یا اپنا یا پرایا سَتْر دیکھنے سے وُضو ٹوٹ جاتا ہے یہ باِلکل غَلَط ہے۔ ہاں   وُضو کے آداب سے ہے کہ ناف سے لے کر دونوں  گُھٹنوں   سَمیت سب سَتْر چُھپا ہو بلکہ اِستِنجا کے بعد فوراً ہی چُھپا لینا چاہئے کہ بغیر ضَرورت سَتْرکُھلا  رکھنا مَنْع اور دوسروں   کے سامنے سَتْر کھولنا حرام ہے۔ (بہارِشریعت ج۱ص۳۰۹)

غسل کا وُضو کافی ہے

     غسل کے لیے جو وُضو کیا تھا وُہی کافی ہے خواہ بَرَہْنہ( بَ۔رَہْ۔نَہ ) نہائیں  ۔ اب غسل کے بعد دوبارہ وُضو کرنا ضَروری نہیں   بلکہ اگر وُضو نہ بھی کیا ہو تو غسل کر لینے سے اَعضائے وُضو پر بھی پانی بہ جاتا ہے لہٰذا وُضو بھی ہو گیا ، کپڑے تبدیل کرنے سے بھی وُضو نہیں   جاتا ۔

تھوک میں   خون

            {1}مُنہ سے خو ن نکلا اگر تھو ک پر غالِب ہے تو وُ ضو ٹو ٹ جا ئے گا ورنہ نہیں  ، غَلَبے کی شناخت یہ ہے کہ اگر تھوک کا رنگ سُرخ ہو جا ئے تو خون غالِب سمجھا جا ئے گااور وُضو ٹوٹ جائیگایہ سُرخ تھوک نا پا ک بھی ہے۔ اگر تھو ک زَرد(یعنی پیلا) ہو تو خون پر تھوک غالِب مانا جا ئے گا لہٰذا نہ وُضو ٹو ٹے گا نہ یہ زَرد تھو ک ناپاک۔           (بہارِشریعت ج۱ص۳۰۵)


 

{2}مُنہ سے اتنا خون نکلا کہ تھو ک سُرخ ہو گیا اور لوٹے یا گلا س سے منہ لگا کرکُلّی کے لئے پانی لیا تو لو ٹا گلا س اورکُل پانی نَجِس ہو گیا لہٰذا ایسے مو قع پر چُلّو میں   پانی لے کر اِحتِیاط سے کُلّی کیجئے اور یہ بھی احتیا ط فر ما ئیے کہ چھینٹے اُڑ کر آ پکے کپڑوں   وغیرہ پر نہ پڑیں  ۔

وُضو میں   شک آنے کے 5 اَحکام

          ٭ اگر دَورانِ وُضو کسی عُضْو کے دھونے میں   شک واقِع ہو اور اگر یہ زندَگی کا پہلا واقِعہ ہے تو اِس کو دھولیجئے اور اگر اکثر شک پڑا کرتا ہے تو اس کی طرف توجُّہ نہ دیجئے۔ اِسی طرح اگر بعدِ وُضو بھی شک پڑے تو اِس کا کچھ خیال مت کیجئے۔ (بہارِشریعت ج۱ص۳۱۰)٭ آپ باوُضو تھے اب شک آنے لگا کہ پتا نہیں   وُضو ہے یا نہیں  ، ایسی صورت میں   آپ باوُضو ہیں   کیونکہ صرف شک سے وُضو نہیں   ٹوٹتا ۔(اَیْضاً ص۳۱۱) ٭ وسوَ سے کی صورت میں   اِحتیاطاً وُضو کرنا اِحتیاط نہیں   اِتِّباعِ شیطان ہے(اَیْضاً) ٭یقینا آپ اُس وقت تک باوُضو ہیں   جب تک وُضو ٹوٹنے کا ایسا یقین نہ ہوجائے کہ قَسَم کھاسکیں  ٭ کوئی عُضْو دھونے سے رَہ گیا ہے مگر یہ یاد نہیں   کون سا عُضْو تھا تو بایاں   ( یعنی اُلٹا ) پاؤں   دھولیجئے ۔      (دُرِّمُختار ج ۱ ص ۳۱۰)

سونے سے وُضو ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کا بیان

          نیند سے وُضو ٹوٹنے کی دو شَرطیں   ہیں   :{1} دونوں   سُرِین اچّھی طرح جمے ہوئے نہ ہوں   {2} ایسی حالت پر سویا جو غافِل ہوکر سونے میں   رُکاوٹ نہ ہو۔جب دونوں   شَرطیں   جمع ہوں   یعنی سُرِین بھی اچّھی طرح جمے ہوئے نہ ہوں   نیز ایسی حالت میں   سویا ہو جو


 

 غافِل ہوکر سونے میں   رُکاوٹ نہ ہو تو ایسی نیندسے وُضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر ایک شَرط پائی جائے اور دوسری نہ پائی جائے تو وُضو نہیں   ٹوٹے گا۔

      سونے کے وہ دس انداز جن سے وُضو نہیں   ٹوٹتا :{1} اس طرح بیٹھنا کہ دونوں   سرین زمین پر ہوں   اور دونوں   پاؤں   ایک طرف پھیلائے ہوں   ۔(کُرسی ،ریل اور بس کی سیٹ پر بیٹھنے  کا بھی یِہی حکم ہے ) {2} اس طرح بیٹھنا کہ دونوں   سُرِین زمین پر ہوں   اور پِنڈلیوں   کو دونوں   ہاتھوں   کے حلقے میں   لے لے خواہ ہاتھ زمین وغیرہ پر یا سرگُھٹنوں   پر رکھ لے {3} چار زانویعنی پالتی( چوکڑی) مارکر بیٹھے خواہ زمین یا تَخت یا چارپائی وغیرہ پر ہو {4} دو زانو سیدھا بیٹھا ہو{5} گھوڑے یا خَچَّر وغیرہ پر زِین رکھ کر سُوار ہو{6} ننگی پیٹھ پر سُوار ہو مگر جانور چڑھائی پر چڑھ رہا ہو یا راستہ ہَموار ہو{7} تکیہ سے ٹیک لگاکر اس طرح بیٹھا ہو کہ سُرین جمے ہوئے ہوں   اگر چِہ تکیہ ہٹانے سے یہ گر پڑے {8} کھڑا ہو {9}رُکوع کی حالت میں   ہو{10} سنّت کے مطابِق جس طرح مرد سجدہ کرتا ہے اِس طرح سجدہ کرے کہ پیٹ رانوں   اور بازوپہلوؤں   سے جُدا ہوں   ۔مذکورہ صورَتیں   نَماز میں   واقِع ہوں   یا علاوہ نَماز ،وُضو نہیں   ٹوٹے گا اورنَماز بھی فاسِد نہ ہوگی اگرچِہ قصداً سوئے، البتّہ جو رُکن باِلکل سوتے ہوئے ادا کیا اُس کا اِعادہ ( یعنی دوبارہ ادا کرنا)ضَروری ہے اور جاگتے ہوئے شروع کیا پھر نیند آگئی تو جو حصّہ جاگتے اداکیا وہ ادا ہوگیابَقِیّہ ادا کرنا ہوگا۔

          سونے کے وہ دس انداز جن سے وُضو ٹوٹ جاتا ہے :{1} اُکڑوں   یعنی پاؤں


 

 کے تلووں   کے بَل اِس طرح بیٹھا ہو کہ دونوں   گُھٹنے کھڑے رہیں   {2} چِت یعنی پیٹھ کے بَل لیٹا ہو{3} پَٹ یعنی پیٹ کے بَل لیٹا ہو{4} دائیں   یا بائیں   کروٹ لیٹا ہو{5} ایک کُہنی پر ٹیک لگاکر سوجائے {6} بیٹھ کر اِس طرح سویا کہ ایک کروَٹ جھکا ہو جس کی وجہ سے ایک یا دونوں   سرین اُٹھے ہوئے ہوں   {7} ننگی پیٹھ پر سُوار ہو اور جانور پستی(یعنی نچان )  کی جانب اُتر رہا ہو{8} پیٹ رانوں   پر رکھ کر دو زانو اِس طرح بیٹھے سَویا کہ دونوں   سرین جَمے نہ رہیں   {9} چار زانُو یعنی چَوکڑی مارکر اِس طرح بیٹھے کہ سر رانوں   یاپِنڈلیوں   پر رکھا ہو {10} جس طرح عورَت سَجدہ کرتی ہے اس طرح سَجدہ کے انداز پر سویا کہ پیٹ رانوں   اور بازوپہلوؤں   سے ملے ہوئے ہوں   یا کلائیاں   بچھی ہوئی ہوں   ۔مذکورہ صورَتیں   نَماز میں   واقِع ہوں   یا نَما ز کے علاوہ وُضو ٹوٹ جائے گا ۔پھر اگر ان صورَتوں   میں   قصدًا سویا تو نَماز فاسِد ہوگئی اور بِلاقَصد سویا تو وُضو ٹوٹ جائے گا مگر نَماز باقی ہے۔بعدِ وُضو (مخصوص شرائط کے ساتھ ) بقیّہ نماز اسی جگہ سے پڑھ سکتا ہے جہاں   نیند آئی تھی ۔شرائط نہ معلوم ہوں   تو نئے سرے سے پڑھ لے ۔ (ماخوذ اَزفتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۳۶۵تا ۳۶۷)

وُضو ئے انبیائے کرام عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اورنیند مبارک

      انبیاء عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا وُضو سونے سے نہیں   جاتا۔فائدہ: انبیاء عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی آنکھیں   سوتی ہیں   دل کبھی نہیں   سوتا ٭بعض نَو اقِضِ وُضو (یعنی بعض وضو توڑنے والی چیزیں  )انبیاء عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے لیے یُوں  ناقِضِ وُضو(وُضوٹوٹنے کا سبب) نہیں   کہ ان کا


 

 وُقوع(یعنی واقِع ہو نا)ہی اُن سے مُحال(یعنی ناممکن) ہے جیسے جنون (یعنی پاگل پن )یا نَماز میں   قَہقَہہ٭غشی (یعنی بے ہوشی) بھی انبیاء عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے جسمِ ظاہِر پرطاری ہو سکتی ہے، دل مبارَک اِس حالت میں   بھی بیدار و خبردار رہتا۔       (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہ   ج ۴ ص ۷۴۰)

مساجِد کے وُضو خانے

       مِسواک کرنے سے بعض اَوقات دانتوں   میں   خون آجاتا ہے اور تھوک بھی سرخ ہونے کی وجہ سے ناپاک ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ احتیاط نہیں   کی جاتی ۔ مساجِد کے وُضو خانے بھی اکثر کم گہرے ہوتے ہیں   جس کی وجہ سے سُرخ تھوک والی کُلّی کے چھینٹے کپڑوں   یا بدن پر پڑتے ہیں   ،نیز گھر کے حمام کے پختہ فرش پر وُضو کرتے وقت اِس سے بھی زِیادہ چھینٹے پڑتے ہیں   ۔

گھر میں   وُضو خانہ بنوائیے

            آج کل بَیسِن( ہاتھ دھونے کی کُونڈی ) پر کھڑے کھڑے وُضو کرنے کا رَواج ہے جوکہ خِلافِ مُستحَب ہے۔ افسوس ! لوگ آسائشوں   بھری بڑی بڑی کوٹھیاں   تو بناتے ہیں   مگر اِس میں   وُضو خانہ نہیں   بنواتے !سُنَّتوں   کا دَرد رکھنے والے اسلامی بھائیوں   کی خدمتوں   میں   مَدَنی اِلتِجا ہے کہ ہوسکے تو اپنے مَکان میں   کم از کم ایک ٹونٹی کا وُضو خانہ ضَرور بنوائیے۔اِس میں   یہ احتیاط ضَرور رکھئے کہ ٹونٹی کی دھار براہِ راست فرش پر گرنے کے بجائے ڈھلوان پر گرے ورنہ دانتوں   میں   خون وغیرہ آنے کی صورت میں   بدن یا لباس پر چھینٹے اُڑنے کا مسئلہ رہے گا اگر آپ محتاط وضو خانہ بنوانا چاہتے ہیں   تو اِسی رسالے کے پیچھے دئیے ہوئے نقشے سے


 

رہنمائی حاصِل کیجئی٭ ڈَبلیو سی( W.C.) میں   پانی سے استنجا کرنے کی صورت میں   عموماً دونوں  پاؤں   کے ٹخنوں   کی طرف چھینٹے آتے ہیں   لہٰذا فراغت کے بعد احتیاطاً پاؤں   کے یہ حصّے دھولینے چاہئیں   ۔

وُضو خانہ بنوا نے کا طریقہ

         ایک نل کے گھریلووُضو خانے کی کل مساحت یعنی لمبائی ساڑھے بِیالیس اِنچ اور چوڑائی پونے انچاس اِنچ، اُونچائی زمین سے پونے چودہ اِنچ،اس کے اوپر مزیدساڑھے سات اِنچ اونچی نشست گاہ (SEAT) جس کا عرض (یعنی چوڑائی)ساڑھے بتّیس اِنچ اور لمبائی ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک یعنی زینے کی مانند ، اِس نشست گاہ اور سامنے کی دیوار کا درمیانی فاصِلہ25 اِنچ ،آگے کی طرف اس طرح ڈھلوان (slope) بنوائیے کہ نالی ساڑھے سات اِنچ سے زِیادہ نہ ہو ، پاؤں   رکھنے کی جگہ قدم کی لمبائی سے معمولی سی زِیادہ مَثَلاً کل سوا گیارہ اِنچ ہو اور اِس ساری جگہ کا اگلا حصّہ ساڑھے چار اِنچ کھردرا رکھئے تاکہ رگڑ کر پاؤں   کا میل (خصوصاً سردیوں   میں   ) چھڑایا جاسکے ۔ L(ایل) یا  u(یو)ساخت کا ’’مکسچر نَل‘‘ نالی کی زمین سے 32انچ اوپر ہو،نل کی ترکیب اِس طرح رکھئے کہ پانی کی دھار ڈھلوان (slope)پر گرے اور آپ کیلئے دانتوں   کے خون وغیرہ نَجاست سے بچناآسان ہو۔ حسبِ ضَرورت ترمیم کرکے مساجِد میں   بھی اِسی ترکیب سے وُضو خانہ بنوایا جاسکتا ہے ۔ نوٹ: اگر ٹائلز لگوانی ہوں   تو کم از کم ڈھلوان میں   سفید رنگ کی لگوائیے تاکہ مسواک کرنے میں   اگر دانتوں   سے خون آتا ہو تو تھوک وغیرہ میں  نظر آجائے۔


 

"یا رسُولِ خدا" کے نو حُروف کی نِسبت سے وُضو خانے کے 9مَدَنی پھول

{1} ممکِن ہو تو اِسی رِسالے کے پیچھے دیئے ہوئے نقشے سے رہنمائی حاصِل کرکے اپنے گھر میں   وُضو خانہ بنوائیے۔

{2}(معمار کے دلائل سُنے بغیر) دئیے ہوئے نقشے کے مطابِق بنے ہوئے گھریلو وُضو خانے کے بالائی ( یعنی پاؤں   رکھنے والے ) فرش کی ڈھلوان (slope) دو انچ رکھئے ۔

 {3} اگر ایک سے زِیادہ نل لگوانے ہوں   تو دو نلوں   کے درمیان 25 اِنچ کا فاصِلہ رکھئے ۔

 {4} وُضو خانے کی ٹونٹی میں   حسبِ ضَرورت کپڑا  یاپلا سٹک کی نپل لگالیجئے ۔

{5}اگر پائپ دیوار کے باہَر سے لگوائیں   تونشست گاہ ضرورتاً ایک یا دو انچ مزید دور کرلیجئے ۔

{6}بہتر یہ ہے کہ کچّا کام کرواکر ایک آدھ باراُس پر بیٹھ کر یا وُضو کرکے ا چّھی طرح دیکھ لینے کے بعد پختہ کروائیے ۔

{7} وضو خانے یا حمّام وغیرہ کے فرش پر ٹائلز لگوانے ہوں   تو کھر دَ ر ے (Slip Resistance Tilesلگوائیے تا کہ پھسلنے کا خطرہ کم ہو جائے ۔

{8} پاؤں   رکھنے کی جگہ کاسِرا(یعنی کَنارا) اور اس کی ڈھلان کے کم از کم دو دو انچ حصّے پر ٹائلز نہ ہو بلکہ وہ  حصّہ سیمنٹ سے کھردر۱ اور گول بنوائیے تاکہ ضرورتاً پاؤں   رگڑ کرمیل چھڑایا جا سکے۔


 

 {9}باورچی خانہ ،غسل خانہ، بیتُ الخلاء کا فرش،کھلا صحن، چھت ،مسجد کا وضو خانہ اور جہاں   جہاں   پانی بہانے کی ضَرورت پڑتی ہے ان مقامات کے فرش کی ڈَھلوان (slope) معمار جو بتائے اُس سے بِلا جھجک ڈیڑھ گُنا (مَثَلاً وہ دو انچ کہے تو آپ تین انچ) رکھوائیے ۔مِعمار تو یِہی کہے گا کہ آپ فکر مت کیجئے ایک قطرہ بھی پانی نہیں   رُکے گا اگر آپ اِس کی باتوں   میں   آ گئے  تو ہوسکتا ہے ڈھلوان برابر نہ بنے لہٰذااُس کی بات پر اعتماد نہیں   کریں   گے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّاس کا فائدہ آپ خود ہی دیکھ لیں   گے کیو ں   کہ مُشاہَدہ یہی ہے کہ اکثر فرش وغیرہ پر جگہ جگہ پانی کھڑا رَہ جاتا ہے۔

 جن کا وُضو نہ رہتا ہو اُن کیلئے 6 اَحکام

{1} قطرہ آنے ،پیچھے سے رِیح خارِج ہونے، زَخم بہنے ،دُکھتی آنکھ سے بوجہِ مَرَض آنسو بہنے، کان ،ناف،پِستان سے پانی نکلنے ، پھوڑے یا ناسُور سے رَطوبَت بہنے اور دست آنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر کسی کو اس طرح کا مرض مسلسل جاری رہے اور شُروع سے آخِر تک پورا ایک وقت گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نَمازِ فرض ادا نہ کر سکا وہ شَرعاًمعذور ہے، ایک وُضو سے اُس وقت میں   جتنی نَمازیں   چاہے پڑھے ۔اس کا وُضو اُس مَرَض سے نہیں   ٹوٹے گا۔(بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۵، دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج۱ص۵۵۳)اِس مسئلے کو مزید آسان لفظوں   میں   سمجھانے کی کوشِش کرتا ہوں   ۔ اِس قسم کے مریض اور مریضہ اپنے معذورِشَرعی ہونے نہ ہونے کی جانچ اس طرح کریں   کہ کوئی سی بھی دو فرض نَمازوں   کے درمیانی وَقت میں   کوشِش


 

 کریں   کہ وُضو کر کے طہارت کے ساتھ کم از کم فرض رَکعتیں   ادا کی جا سکیں  ۔ پورے وَقت کے دَوران بار بار کوشِش کے باوُجُود اگر اتنی مُہْلَت(مُہ۔لَت) نہیں   مل پاتی،وہ اس طرح کہ کبھی تو دَورانِ وُضو ہی عُذر لا حِق ہو جاتا ہے اور کبھی وُضُو مکمَّل کر لینے کے بعد نَماز ادا کرتے ہوئے ، حتّٰی کہ آخِری وَقت آ گیا تو اب انہیں   اجازت ہے کہ وُضو کر کے نَماز ادا کریں   نَماز ہو جائے گی، اب چاہے دورانِ ادائیگیٔ نَماز، بیماری کے باعِث نَجاست بدن سے خارج ہی کیوں   نہ ہو رہی ہو۔فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں   : کسی شخص کی نکسیر پھوٹ گئی یا اس کازخم بہ نکلا تو وہ آخِری وَقت کا انتظار کرے اگر خون مُنقَطَع نہ ہو(بلکہ مسلسل یا وقفے وقفے سے جاری رہے) تو وقت نکلنے سے پہلے وُضو کر کے نَماز ادا کرے۔       (اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج۱ص۳۷۳۔۳۷۴)  

  {2}فرض نَماز کا وقت جانے سے معذور کا وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے کسی نے عَصر کے وقت وُضو کیا تھا تو سورج غُروب ہوتے ہی وُضو جاتا رہا اور اگر کسی نے آفتاب نکلنے کے بعد وُضو کیا تو جب تک ظُہر کا وقت ختم نہ ہو وُضو نہ جائے گا کہ ابھی تک کسی فرض نَماز کا وقت نہیں   گیا۔ فرض نَماز کا وقت جاتے ہی معذور کا وُضو جاتا رہتا ہے اور یہ حکم اس صورت میں   ہوگا جب معذور کاعُذر دَورانِ وُضویا بعدِ وُضوظاہِرہو، اگر ایسا نہ ہو اور دوسرا کوئی حَدَث (یعنی وضو توڑنے والا معاملہ) بھی لاحِق نہ ہو تو فرض نَماز کا وقت جانے سے وُضو نہیں   ٹوٹے گا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۶، دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج۱ص۵۵۵)


 

 {3} جب  عُذر ثابِت ہو گیا تو جب تک نَماز کے ایک پُورے وقت میں   ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے مَعذورہی رہے گا ۔مَثَلاً کسی کو سارا وقت قطرہ آتا رہا اور اتنی مُہْلَت ہی نہ ملی کہ وُضو کر کے فرض ادا کر لے تو معذور ہو گیا ۔اب دوسرے اوقات میں   اتنا موقع مل جاتا ہے کہ وُضو کر کے نماز پڑھ لے مگر ایک آدھ دفعہ(دَف۔عَہ) قطرہ آجاتا ہے تو اب بھی معذور ہے ۔ ہاں  اگر پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ایک بار بھی قطرہ نہ آیا تو معذور نہ رہا پھر جب کبھی پہلی حالت آئی(یعنی سارا وقت مسلسل مرض ہوا ) تو پھر معذور ہو گیا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۵)

 {4} معذور کا وُضو اس چیز سے نہیں   جاتا جس کے سبب معذور ہے ہاں   اگر دوسری کوئی چیز وُضو توڑنے والی پائی گئی تو وُضو جاتا رہا مَثَلاً جس کورِیح خارِج ہونے کا مرض ہے قطرہ نکلنے سے اُس کا وُضو ٹوٹ جائے گا ۔اور جس کو قطرے کا مرض ہے اس کا رِیح خارِج ہونے سے وُضو جاتا رہے گا ۔    (ایضاً ص ۵۸۶)

{5} معذور نے کسی حَدَث (یعنی وضو توڑنے والے عمل ) کے بعد وُضو کیا اور وضو کرتے وقت وہ چیز نہیں   ہے جس کے سبب معذورہے پھر وُضو کے بعد وہ عُذر والی چیز پائی گئی تو وُضو ٹوٹ گیا(یہ حکم اِس صورت میں   ہوگا جب معذور نے اپنے عُذر کے بجائے کسی دوسرے سبب کی وجہ سے وُضوکیا ہو اگر اپنے عُذر کی وجہ سے وُضوکیا تو بعد وُضوعذر پائے جانے کی صورت میں   وضو نہ ٹوٹے گا) مَثَلاً جس کو قطرہ آتا تھا اس کی رِیح خارِج ہوئی اور اُس نے وُضو کیااور وُضو کرتے وقت قطرہ بند تھا اور وُضو کرنے کے بعد قطرہ آیا تو وُضو ٹوٹ گیا ۔ ہاں   اگر وُضو کے درمیان قطرہ جاری تھا تو نہ گیا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۷، دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج۱ص۵۵۷)


 

{6}  معذور کو ایسا عُذر ہو کہ جس کے سبب کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں   تو اگر ایک دِرہم سے زیادہ ناپاک ہو گئے اور جانتا ہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر پاک کپڑوں   سے نَماز پڑھ لوں   گا تو پاک کر کے نَماز پڑھنا فرض ہے اور اگر جانتا ہے کہ نَماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی ناپاک ہو جائے گا تو اب دھونا ضَروری نہیں   ۔ اِسی سے پڑھے اگرچِہ مُصلّٰی بھی آلُودہ ہو جائے تب بھی اس کی نَماز ہو جائے گی۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۳۸۷)

 ( معذور کے وضو کے تفصیلی مسائلفتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہ    جلد4صَفحَہ367  تا375 ،بہارِ شریعت جلد1صَفحَہ385تا387سے معلوم کرلیجئے )

 سات مُتَفَرِّقات

          {1} پیشاب ،پاخانہ ،مَنی ،کیڑا یا پتھری مرد یا عورت کے آگے یا پیچھے سے نکلیں   تو وُضو جاتا ر ہے گا۔(عالَمگیری ج۱ص۹) {2}  مرد یا عورت کے پیچھے سے معمولی سی ہوا بھی خارِج ہوئی وُضو ٹوٹ گیا۔ مرد یا عورت کے آگے سے ہوا خارِج ہوئی وُضو نہیں   ٹوٹے گا ۔ (ایضاً،بہارِ شریعت ج۱ص۳۰۴){3} بے ہوش ہو جانے سے وُضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص۱۲){4} بعض لوگ کہتے ہیں   کہ خِنزیر کا نام لینے سے وُضو ٹو ٹ جا تا ہے یہ غَلَط ہے {5} دَورانِ وُضو اگر رِیح خارج ہویا کسی سبب سے وُضو ٹوٹ جائے تو نئے سِرے سے وُضو کرلیجئے پہلے دُھلے ہوئے اَعضاء بے دُھلے ہو گئے۔ (ماخوذ اَزفتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج ۱ ص ۲۵۵ )  {6} قراٰنِ پاک یااُس کی کسی آیت کویا کسی بھی زبان میں   قراٰن پاک کاترجَمہ ہواُس کو


 

بے وُضو چُھوناحرام ہے(بہارِ شریعت ج۱ص۳۲۶،۳۲۷ وغیرہ) {7} آیت کوبے چُھوئے دیکھ کر یا زَبانی بے وُضو پڑھنے میں   حَرَج نہیں   ۔

آیت لکھے  ہوئے کاغذ کے پچھلے حصّے کے چھونے کا اَہم مَسئَلہ

          کتاب یا اخبار میں   جس جگہ آیت لکھی ہے خاص اُس جگہ کو بلا وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں   اُسی طرف ہاتھ لگایاجس طرف آیت لکھی ہے خواہ اس کی پشت پر(یعنی لکھی ہوئی آیت کے عین پیچھے) دونوں   ناجائز ہیں  ( آیت یا اُس کے عین پچھلے حصّے کے عِلاوہ)، باقی وَرَق کے چُھونے میں   حَرَج نہیں  ، پڑھنا بے وُضو جائز ہے۔ نہانے کی حاجت ہو تو (پڑھنا بھی)حرام ہے۔ وَاللّٰہ تعالٰی اَعلم۔   (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۴ص۳۶۶)  

بے وضو قرانِ مجید کو کہیں   سے بھی نہیں   چھو سکتا

            بے وُضو آیت کوچُھونا تو خود ہی حرام ہے اگرچِہ آیت کسی اور کتاب میں   لکھی ہو مگر قراٰنِ مجید کے سادہ حاشیہ بلکہ پٹھوں   بلکہ چولی(یعنی جو کپڑا یا چمڑا گتّے کے ساتھ چپکا یا سلا ہواس) کا بھی چُھونا حرام ہے ہاں  ’’ جُزدان‘‘ میں   ہو تو جُزدان کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔بے وُضو اپنے سینے سے بھی مُصحَف شریف کو مَس نہیں   کر(یعنی چُھو نہیں  ) سکتا۔بے وُضو کی گردن پر لمبی چادر کا ایک کونا پڑا ہوا ہے اور وہ اس کے دوسرے کونے کو ہاتھ پر رکھ کر مصحف شریف چُھونا چاہے اگر چادر اتنی لمبی ہے کہ اُس شخص کے اٹھنے بیٹھنے سے دوسرے گوشے(یعنی کونے) تک حرکت نہ پہنچے گی تو جائز ہے ورنہ نہیں  ۔(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہ   ج۴ ص ۷۲۴،۷۲۵)


 

وُضومیں   پانی کا اِسراف

            آج کل اکثر لوگ وُضُو میں   تیز نل کھول کربے تَحاشہ پانی بہاتے ہیں   ، حتیّٰ کہ بعض تو وُضو خانے پر آتے ہی نل کھو ل دیتے ہیں  ، اس کے بعد آستین چڑھاتے ہیں  ، اُتنی دیر تک مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّپانی ضائِع ہوتا رہتا ہے ،اِسی طرح مَسْح کے دَوران اکثریت نل کھلا چھوڑ  دیتی ہے!ہم سب کو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر کر اِسراف سے بچنا چاہئے ،قِیامت کے روز ذرّے ذرّے اور قطرے قطرے کا حساب ہوگا ۔ اِسراف کی مَذَمَّت میں   چار احادیثِ مبارَکہ سنئے اور خوفِ خدا وندی عَزَّوَجَلَّ سے لرزئیے:

{1}جاری نَہر پر بھی اسراف

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمِنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے گلشن کے مہکتے پھول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَحضرتِ سیِّدُنا سَعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُپر گزرے تووہ وضو کررہے تھے۔ ارشاد فرمایا:یہ اِسراف کیسا؟ عرض کی:کیا وُضو میں   بھی اِسراف ہے ؟ فرمایا:’’ہاں   اگرچِہ تم جاری نَہر پر ہو۔‘‘ (سُنَنِ اِبن ماجہج۱ص۲۵۴حدیث۴۲۵)

اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتوی

            میرے آقا اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِاِس حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں   :حدیث نے نَہرِ جاری میں   بھی اِسراف ثابِت فرمایا اور اِسراف شَرع میں    مذموم ہی ہوکر آیا ہے ۔آیۂ کریمہ :


 

وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) (پ ۸،الانعام:۱۴۱)

(ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں  ۔)

   مُطلَق ہے تو یہ اِسراف بھی مذموم و ممنوع ہی ہوگا بلکہ خود اِسراف فی الوُضو میں  بھی  صِیغۂ نَہی وارِد اور نَہی حقیقۃً مُفیدِ تَحریم۔ (یعنی وضو میں   اسراف کی نہی (مُمانَعَت) کا حکم آیا ہے اور حقیقت میں   مُمانَعَت کا حکم حرام ہونے کا فائدہ دیتا ہے)(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۷۳۱)

مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان کی تفسیر

            مُفسّرِ شہیر حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّاناعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِکے فتویٰ میں   پیش کردہ سُوْرَۃُ الْاَنْعَام کی آیتِ کریمہ نمبر 141کے تَحت بے جا خَرچ ( یعنی اِسراف)کی تفصیل بیان کرتے ہوئے رقم طَراز ہیں:’’ناجائز جگہ پر خَرچ کرنا بھی بے جا خَرچ ہے اور سارا مال خَیرات کرکے بال بچّوں   کو فقیر بنا دینا بھی بے جا خرچ ہے،ضَرورت سے زِیادہ خرچ بھی بے جا خرچ ہے اِسی لئے اَعضائے وُضو کو (بلا اجازتِ شَرعی) چار بار دھونا اِسراف مانا گیا ہے۔‘‘(نورُالعرفان ص۲۳۲)

{2}اِسراف نہ کر

     حضرتِ سیِّدُنا عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں   : اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب ،  دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک شخص کو وُضو کرتے دیکھا ،فرمایا:اِسراف نہ کر اِسراف نہ کر ۔     (سُنَنِ اِبن ماجہج۱ص۲۵۴حدیث ۴۲۴ )


 

{3}اِسراف شیطانی کام ہے

         حضرت سیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے رِوایت ہے :وُضُو میں   بَہُت ساپانی بہانے  میں   کچھ خیر (بھلائی )نہیں   اور وہ کام شیطان کی طرف سے ہے ۔ (کَنْزُ الْعُمّال ج۹ص۱۴۴حدیث۲۶۲۵۵ )

{4}جنّت کا سفیدمَحَل مانگنا کیسا؟

     حضرتِ سیِّدُنا عبد اللّٰہ ابنِ مُغَفَّلرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے بیٹے کواِس طرح دعا مانگتے سنا کہ الٰہی عَزَّوَجَلَّ ! میں   تجھ سے جنّت کا داہنی (یعنی سیدھی) طرف والا سفید مَحَل مانگتا ہوں   ۔ تو فرمایا کہ اے میرے بچّے! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے جنّت مانگو اور دوزخ سے اُس کی پناہ مانگو۔ میں   نے رسول اللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو فرماتے سنا کہ اِس اُ مّت میں   وہ قوم ہوگی جو وُضو اور دُعامیں   حد سے تجاوز کیاکرے گی ۔    (سُنَنِ ابوداوٗد ج۱ص۶۸حدیث۹۶)

       مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں  :دعامیں   تجاوُز( یعنی حد سے بڑھنا)تو یہ ہے کہ ایسی بات کا تعیّن کیا جائے جس کی ضَرورت نہیں   جیسے ان کے صاحبزادے نے کیا۔ فردوس( جو کہ سب سے اعلیٰ جنّت ہے اُس کا) مانگنا بَہُت بہتر ہے کہ اِس میں   شخصی تعیّن(یعنی اپنی طرف مقرَّر کرنا) نہیں   نوعیتَقَرُّر (نوع یعنی قِسم مقرَّر کرنا) ہے اس کا حکم دیا گیا ہے۔            (مِراٰۃالمناجیح ج۱ص۲۹۳)


 

بُرا کیا، ظُلم کیا

            ایک اَعرابی نے خدمتِ اقدس حُضورسیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں   حاضِر ہوکر وُضو کے بارے میں   پوچھا :حُضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُنہیں   وُضو کرکے دِکھایا جس میں   ہَر عُضْوْ تین تین بار دھویا پھر فرمایا:وُضو اِس طرح ہے ،تو جو اِس سے زائد کرے یا کم کرے اُس نے بُرا کیا اور ظُلم کیا ۔ (سُنَنِ نَسائی ص۳۱حدیث۱۴۰)

اِسراف صرف دو صورتوں   میں   ہی گناہ ہے

          میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کھتے ہیں  : یہ وعید اس صورت میں   ہے کہ جب یہ اِعتِقاد رکھتے ہوئے زیادہ کرے کہ زیادہ کرناہی سنّت ہے ۔اور اگر تثلیث (یعنی تین بار دھونے) کو سنّت مانا اور وُضو پر وُضو کے ارادے یا شک کے وقت اطمینانِ قلب کے لئے یا تبرید (تَب۔رِید یعنی ٹھنڈک کے حُصول)یاتَنظِیف(تَن۔ظِیف یعنی صفائی) کے لیے زیادہ کیا یاکسی حاجت کی وجہ سے کمی کی تو کوئی حَرَج نہیں  ۔صرف دو صورتوں   میں  اِسراف ناجائز و گناہ ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی گناہ میں   صَرف و استعمال کریں  ، دوسرے بیکار محض مال ضائع کریں  ۔وُضو وغسل میں   تین بار سے زائد پانی ڈالنا جب کہ غَرَضِ صحیح(یعنی جائز مقصد) سے ہو ہر گز اِسراف نہیں   کہ جائز غَرَض میں   خَرچ کرنانہ خود مَعصِیَت(یعنی نافرمانی) ہے نہ بیکار اِضاعت(یعنی ضائِع کرنا)۔(فتاوٰی رضویہ ج۱ جزب ص۹۴۰ تا ۹۴۲)

عملی طور پر وُضو سیکھئے

      میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ سکھانے کیلئے خود عملی طور


 

پر وُضو کرکے دوسرے کودِکھاناسرکارِ مدینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ثابت ہے ۔ مُبلّغین کو چاہئے کہ اِ س حدیثِ پاک پر عمل کرتے ہوئے بِغیراِسراف کے صِرف حسبِ ضَرورت پانی بہاکر تین تین بار اَعضاء دھوکر وُضو کرکے اسلامی بھائیوں   کو دکھائیں  ۔  بِلا ضَرورتِ شرعی کوئی عُضْوْ چار بار نہ دُھلے اِس کاخیال رکھا جائے،پھر جو بخوشی اپنی اِصلاح کروانا چاہے وہ بھی وُضو کرکے مُبلِّغ کو دِکھائے اوراپنی غَلَطیاں   دور کروائے۔ دعوتِ اسلامی کے سُنَّتوں   کی تربیت کے مَدَنی قافِلوں   میں   عاشِقانِ رسُول کی صحبت میں   یہ مَدَنی کام اَحسن طریقے پر ہوسکتا ہے ۔دُرُست وُضو کرنا ضَرور ضَرور ضَرور سیکھ لیجئے ۔صرف ایک آدھ بار وُضو کا طریقہ پڑھ لینے سے صحیح معنوں   میں   وُضو کرنا آجائے یہ بَہُت مشکل ہے ، بار بارمَشق کرنی ہوگی۔وُضو سیکھنے کیلئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی جاری کردہ  V.C.Dبنام: ’’وضو کا طریقہ ‘‘ دیکھنا انتہائی مفید ہے ۔

مسجِد اور مدرَسے کے پانی کا اِسراف

            مسجِد و مدرَسے وغیرہ کے وُضو خانے کا پانی ’’وقف‘‘ کے حکم میں   ہوتا ہے ۔اِس پانی اور اپنے گھر کے پانی کے اَحکام میں  فَرق ہوتاہے۔جو لوگ مسجِد کے وُضو خانے پر    بے دردی کے ساتھ پانی بہاتے ہیں   بلکہ وُضو میں   بِلا ضَرورت فَقَط غَفلت یاجَہالت کے سبب تین سے زائد مرتبہ اَعضا ء دھوتے ہیں   وہ اِس مُبارَک فتوے پر خوب غور فرمائیں   ،خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے لرزیں   اور توبہ کریں   ۔چُنانچہمیرے آقا اعلٰی حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،


 

  ولیِ نِعمت،عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبت،پروانۂِ شمعِ رِسالت،مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامیِ سنّت ، ماحِیِ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت،باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  :  اگروَقف پانی سے وُضو کیا تو زِیادہ خَرچ کرنا باِلاِتِّفاق حرام ہے کیوں   کہ اِس میں   زِیادہ خَرچ کرنے کی اجازت نہیں   دی گئی اور مدارِس کا پانی اِسی قسم کا ہوتا ہے جو کہ صرف ان ہی لوگوں   کیلئے وَقف ہوتا ہے جو شَرْعی وُضو کرتے ہیں   ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۶۵۸)

                میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جو اپنے آپ کو اِسراف سے نہیں   بچا پاتا اُسے چاہئے کہ مَملو کہ ( یعنی اپنی مِلکِیت کے ) مَثَلاً اپنے گھر کے پانی سے وُضو کرے۔ مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّاس کا یہ مطلب نہیں   کہ ذاتی پانی کے اِسراف کی کُھلی چھوٹ ہے بلکہ گھر میں   خوب مَشق کرکے شَرعی وُضو سیکھ لے تاکہ مسجِد کے پانی کا اِسراف کرکے حرام کا مُرتکب نہ ہو۔

"احمد رضا" کے سات حروف کی نسبت سے اعلٰی حضرت کی طرف سے اِسراف سے بچنےکی 7تدابیر

{1} بعض لوگ چُلّو لینے میں   پانی ایسا ڈالتے ہیں   کہ اُبل جاتا ہے حالانکہ جو گرا بیکا ر گیا اس سے احتیاط چاہئے ۔


 

 {2}ہرچُلّو بھرا ہونا ضَروری نہیں   بلکہ جس کام کیلئے لیں   اُس کا اندازہ رکھیں   مَثَلاً ناک میں   نَرم بانسے(یعنی نرم ہڈی) تک پانی چڑھانے کوپورا چُلّو کیا ضَرور نِصف (یعنی آدھا)بھی کافی ہے بلکہ بھرا چُلّو کُلّیکیلئے بھی درکار نہیں  ۔

{3} لوٹے کی ٹونٹی مُتَوسِّط مُعتَدِل (یعنی درمِیانی)چاہئے کہ نہ ایسی تنگ کہ پانی بَدیَر ( یعنی دیر میں   ) دے نہ فراخ( یعنی کُشادہ) کہ حاجت سے زِیادہ گرائے، اس کا فرق یُوں   معلوم ہوسکتا ہے کہ کٹوروں   میں   پانی لے کر وُضو کیجئے تو بَہُت خرچ ہوگا یونہی فراخ( یعنی کُشادہ ) ٹونٹی سے بہانا زِیادہ خرچ کا باعث ہے۔ اگر لوٹا ایسا ( یعنی کُشادہ ٹونٹی والا)ہو تو احتیاط کرے پُوری دھار نہ گرائے بلکہ باریک۔(نل کھولنے میں   بھی انہیں   باتوں   کا خیال رکھئے)

{4}اَعضاء دھونے سے پہلے اُن پر بھیگا ہاتھ پھیرلے کہ پانی جلد دوڑتا ہے اور تھوڑا ( پانی )، بَہُت(سے پانی ) کا کا م دیتا ہے ،خصوصاً موسِمِ سرما( یعنی سردیوں  ) میں   اِس کی زِیادہ حاجت ہے کہ اَعضاء میں   خشکی ہوتی ہے اور بہتی دھار بیچ میں   جگہ خالی چھوڑدیتی ہے جیسا کہ مُشاہَدہ(یعنی دیکھی بھالی بات) ہے ۔

{5}کلائیوں   پر بال ہوں   تو تَرشوا(یعنی کٹوا)دیں   کہ اُن کا ہونا پانی زِیادہ چاہتاہے اورمُونڈنے سے بال سخت ہوجاتے ہیں   اور تَراشنا مشین سے بہتر کہ خوب صاف کردیتی ہے اور سب سے احسن و افضل نورہ( ایک طرح کا بال صفا پاؤڈر) ہے کہ ان اَعضاء میں   یِہی سنّت سے ثابِت ۔ چُنانچِہ

    امُّ المؤمنینسیِّدَتُنا امِّ سَلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں   : رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ


 

 جب نورہ کا استِعمال فرماتے تو سَتْرِ مقدّس پر اپنے دستِ مبارَک سے لگاتے اور باقی بدنِ منوَّر پر اَزْوَاجِ مُطہَّرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّلگادیتیں   ۔      ( اِبن ماجہج۴ص۲۲۶ حدیث ۳۷۵۱)

          اور ایسا نہ کریں   تو دھونے سے پہلے پانی سے خوب بِھگولیں   کہ سب بال بِچھ جائیں   ورنہ کھڑے بال کی جَڑ میں   پانی گزر گیا اور نوک سے نہ بہا تو وُضو نہ ہوگا۔

 {6}دست و پا( ہاتھ و پاؤں  ) پراگر لوٹے سے دھار ڈالیں   تو ناخنوں   سے کہنیوں   یا( پاؤں   کے )گَٹّوں   کے اوپر(یعنی ٹخنوں  ) تک عَلَی الْاِتِّصال( یعنی مسلسل ) اُتاریں   کہ ایک بار میں   ہر جگہ پر ایک ہی بار گرے، پانی جبکہ گررہاہے اور ہاتھ کی رَوانی( ہل جُل) میں   دیر ہوگی تو ایک جگہ پر مکرَّر ( یعنی بار بار) گرے گا ۔( اور اس طرح اِسراف کی صورت پیدا ہو سکتی ہے)

{7} بعض لوگ یوں   کرتے ہیں   کہ ناخن سے کُہنی تک یا( پاؤں   کے) گٹّے تک بہاتے لائے پھر دوبارہ سہ بارہ کیلئے جو ناخن کی طرف لے گئے تو ہاتھ نہ روکا بلکہ دھار جاری رکھی ایسا نہ کریں   کہ تثلیث کے عوض(یعنی تین بار کے بجائے) پانچ بار ہوجائے گا بلکہ ہربار کُہنی یا( پاؤں   کے )گٹّے تک لاکر دھار روک لیں   اور رُکا ہوا ہاتھ ناخنوں   تک لے جاکر وہاں   سے پھر اِجرا ء ( پانی جاری) کریں   کہ سنَّت یِہی ہے کہ ناخن سے کُہنیوں  یا گَٹّو ں  (ٹخنوں  ) تک پانی بہے نہ اس کا عکس۔(یعنی الٹ۔مطلب یہ کہ کہنی یا گَٹّے سے ناخنوں   کی طرف پانی بہاتے ہوئے لے جانا سنّت نہیں   )

            قولِ جامِع یہ ہے کہ سلیقے سے کام لیں   ۔امامِ شافِعی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے کیا خوب فرمایا:’’سلیقے سے اُٹھاؤ تو تھوڑا بھی کافی ہوجاتا ہے اور بد سلیقگی پر تو بہت( سا) بھی کِفایت


 

 نہیں   کرتا ۔‘‘ (اَز اِفاداتِ فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱ص۷۶۵۔۷۷۰)

"یا رب اِسراف سے بچا" کے چودہ حُروف کی نسبت سے                    اِسراف سے بچنے کیلئے 14 مَدَنی پھول

{1} آج تک جتنا بھی ناجائز اِسراف کیا ہے ،اُس سے توبہ کرکے آیندہ بچنے کی بھرپور کوشش شروع کیجئے ۔

{2}غور وفکر کیجئے کہ ایسی صورت مُتعیَّن(یعنی مقرَّر) ہوجائے کہ وُضو اور غسل بھی سنّت کے مطابِق ہو اور پانی بھی کم سے کم خرچ ہو ۔اپنے آپ کو ڈرائیے کہ قِیامت میں   ایک ایک ذرّے اور قطرے قطرے کا حساب ہوناہے ۔اللّٰہ تبارَکَ وَتَعالٰی پارہ 30 سُورَۃُ الْزِلْزَالآیت نمبر 7اور8میں   ارشاد فرماتا ہے:

فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهٗؕ(۷)وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗ۠(۸)

ترجَمَۂ کنزالایمان: تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا اورجو ایک ذرّہ بھر بُرائی کرے اسے دیکھے گا۔

{3} وُضو کرتے وقت نل احتِیاط سے کھولئے ،دَورانِ وُضو مُمکنہ صورت میں   ایک ہاتھ نل کے دستے پر رکھئے اور ضَرورت پوری ہونے پر بار بار نل بند کرتے رہئے ۔


 

{4}نل کے مقابلے میں   لوٹے سے وُضو کرنے میں   پانی کم خَرچ ہوتا ہے جس سے ممکن ہو وہ لوٹے سے وُضو کرے ،اگر نل کے بِغیر گزارا نہیں   تو مُمکِنہ صورت میں   یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ جن جن اَعضاء میں   آسانی ہو وہ لوٹے سے دھولے ۔نل سے وُضو کرنا جائز ہے ،بس کسی طرح بھی اِسراف سے بچنے کی صورت نکالنی چاہئے ۔

 {5} مِسواک ،کُلّی ،غَرغَرہ ،ناک کی صفائی،داڑھی اور ہاتھ پاؤں   کی اُنگلیوں   کا خِلال اور مسح کرتے وقت ایک بھی قطرہ نہ ٹپکتا ہو یوں   اچّھی طرح نل بند کرنے کی عادت بنائیے ۔

{6}باِلخصوص سردیوں   میں   وُضو یاغسل کرنے نیز برتن اور کپڑے وغیرہ دھونے کیلئے گرم پانی کے حُصُول کی خاطِر نل کھول کر پائپ میں   جمع شُدہ ٹھنڈاپانی یوں   ہی بہا دینے کے بجائے کسی برتن میں   پہلے نکال لینے کی ترکیب بنائیے۔

{7}ہاتھ یا منہ دھونے کیلئے صابون کا جھاگ بنانے میں   بھی پانی احتیاط سے خرچ کیجئے ۔ مَثَلاً ہاتھ دھونے کیلئے چُلّو میں   پانی کے تھوڑے قطرے ڈال کر صابون لیکر جھاگ بنایا جاسکتا ہے اگر پہلے سے صابون ہاتھ میں   لے کر پانی ڈالیں   گے تو پانی زِیادہ خرچ ہوسکتا ہے۔

 {8}استِعمال کے بعد ایسی صابون دانی میں   صابون رکھئے جس میں   پانی بالکل نہ ہو ،پانی میں  رکھ دینے سے صابون گُھل کر ضائِع ہوگا ۔ہاتھ دھونے کے بیسن کے کناروں   پر بھی صابون نہ رکھا جائے کہ پانی کی وجہ سے جلدی گُھل جاتا ہے۔

{9}پی چکنے کے بعد گلاس میں   بچا ہوا پانی پھینک دینے کے بجائے دوسرے کو پلا دیجئے یا


 

کسی اور استعمال میں   لیجئے۔

{10}پھل،کپڑے ،برتن اورفرش بلکہ چائے کا کپ یا ایک چمچ بھی دھوتے وقت نیز نل  کھول کر اِس قَدر زِیادہ غیر ضَروری پانی بہانے کاآج کل رَواج ہے کہ حُسّاس اور دل جلے آدمی سے دیکھا نہیں   جاتا !!!اے کاش !      ع:

 شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں   مِری بات

 {11}اکثرمسجدوں  ، گھروں  ، دفتروں   ، دوکانوں   وغیرہ میں   خوامخواہ دن رات بتّیاں   جلتی A.C اور پنکھے چلتے رہتے ہیں   ، ضَرور ت پوری ہوجانے کے بعدبتّیاں  ، پنکھے اورA.C. اور کمپیوٹر وغیرہ بند کردینے کی عادت بنائیے ،ہم سبھی کو حسابِ آخرت سے ڈرنا اور ہر معامَلے میں   اِسراف سے بچتے رہنا چاہئے۔

 {12}استنجا خانے میں   لوٹا استعمال کیجئے کہ فوارے سے طہارت کرنے میں   پانی بھی زِیادہ خرچ ہوتاہے اور پاؤں   بھی اکثر آلود ہ ہوجاتے ہیں   ۔ہر ایک کو چاہئے کہ ہر بارپیشاب کرنے کے بعد ایک لوٹا پانی لے کر W.C.کے کناروں   پر تھوڑا سا بہائے پھر قدرے اوپر سے( مگر چھینٹوں   سے بچتے ہوئے) بڑے سوراخ میں   ڈال دیا کرے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّبدبو اور جراثیم کی افزائش میں   کمی ہوگی۔’ ’’فلش ٹینک‘‘ سے صفائی میں   پانی بہت زِیادہ صَرف ہوتا ہے ۔

{13} نل سے قطرے ٹپکتے رہتے ہوں   تو فوراً اِسکا حل نکالئے ورنہ پانی ضائع ہوتا رہے گا۔بسا اوقات مساجِد و مدارِس کے نل ٹپکتے رَہتے ہیں   مگر کوئی پوچھنے والا نہیں   ہوتا !اِنتظامیہ کو اپنی ذِمّہ داری سمجھتے ہوئے اپنی آخِرت کی بہتری کیلئے فوراً کوئی ترکیب کرنی چاہئے۔


 

{14} کھانا کھانے ،چائے یا کوئی مشروب پینے ،پھل کاٹنے وغیرہ مُعامَلات میں   خوب احتیاط فرمائیے تاکہ ہر دانہ، ہرغذا ئی ذرّہ اور ہر قطرہ استِعمال ہوجائے ۔

 40مَدَنی پھولوں   کا رضوی گلدستہ

(تمام مدنی پھول فتاوٰی رضویہ مخرجہ جلد 4 کے آخرمیں   دیئے ہوئے’’ فوائدِ جلیلہ‘‘ صفحہ 613تا746سے لئے گئے ہیں  )

     ٭وُضو میں   آنکھیں   زور سے نہ بند کرے مگر وُضو ہو جائے گا ٭اگر لب (یعنی ہونٹ) خوب زور سے بند کر کے وُضو کیا اور کُلّی نہ کی وُضو نہ ہو گا٭وُضو کا پانی روزِ قِیامت نیکیوں   کے پلّے میں   رکھا جائیگا۔(مگریاد رہے ! ضَرورت سے زیادہ پانی گرانا اِسراف ہے) ٭مِسواک موجود ہو تو اُنگلی سے دانت مانجنا ادائے سنّت وحُصُولِ ثواب کے لیے کافی نہیں   ، ہاں   مسواک نہ ہو تو اُنگلی یا کَھر کَھرا(یعنی کُھردَرا) کپڑا اَدائے سنَّت کر دے گا اور عورَتوں   کے لیے مِسواک موجود ہو جب بھی مِسّی کافی ہی٭انگوٹھی ڈِھیلی ہو تو وُضو میں   اُسے پھرا کر پانی ڈالنا سنَّت ہے اور تنگ ہو کہ بے جُنبِشدئیے پانی نہ پہنچے تو فرض۔ یِہی حکم بالی(یعنی کان کے زَیور) وغیرہ کا ہے ٭اعضاء کامَل مَل کر دھونا وُضو اور غسل دونوں   میں   سنَّت ہی٭ اَعضا ء وُضو دھونے میں   حدِّ شَرعی سے اِتنی خفیف تحریر(یعنی ہر طرف سے معمولی سا) بڑھانا جس سے حدِّ شَرعی تک اِستِیعاب (یعنی مکمَّل ہونے)میں   شُبہ نہ رہے واجِب ہے ٭وُضو میں   کُلّی یا ناک میں   پانی ڈالنے کاتَرک مکروہ ہے اور اس کی عادت ڈالے تو گُنہگار ہو گا ۔ یہ مسئلہ وہ لوگ خوب یادرکھیں   جو کُلیاں   ایسی نہیں   کرتے کہ حَلق تک ہر چیز کو دھوئیں   اوروہ کہ پانی جن کی ناک کو(فَقَط) چُھو جاتا ہے سُونگھ کر اوپر نہیں   چڑھاتے یہ سب لوگ گنہگار ہیں   


 

اور غسل میں   تو ایسا نہ ہو تو سِرے سے نہ غسل ہو گا نہ نَماز ٭وُضو میں   ہرعُضو کاپورا تین بار دھونا سنَّتِ مُؤَکَّدہ ہے،تَرک کی عادت سے گنہگار ہو گا ٭وُضو میں   جلدی نہ چاہئے بلکہ دَرَنگ (یعنی اطمینان )و احتیاط کے ساتھ کرے۔ عوام میں  جو مشہور ہے کہ’’ وُضو جوانوں   کا سا، نماز بوڑھوں   کی سی‘‘ یہ وُضو کے بارے میں   غَلَط ہے ٭مُنہ دھونے میں   نہ گالوں   پر ڈالے  نہ ناک پر نہ زور سے پیشانی پر، یہ سب افعال جُہّال(یعنی جاہلوں  ) کے ہیں   بلکہ باآہِستگی بالائے پیشانی(یعنی پیشانی کے اُوپر) سے ڈالے کہٹھوڑی سے نیچے تک بہتا آئے ٭وُضو میں   منہ سے گرتا ہوا پانی مَثَلاً کلائی پر لیا اور(کلائی پر) بَہا لیا(یعنی منہ دھونے میں   منہ سے گرنے والے پانی سے ہاتھ کی کلائی نہیں   دھو سکتے کہ) اِس سے وُضو نہ ہوگا اور غسل میں  (مُعاملہ جُدا ہے) مَثَلاً سر کا پانی پاؤں   تک جہا ں   جہاں   گزرے گا پاک کرتا جائیگا وہاں   نئے پانی کی ضَرورت نہیں   ٭ آدَمی وُضو کرنے بیٹھا پھر کسی مانِع (یعنی رُکاوٹ) کے سبب تمام(یعنی مکمَّل) نہ کر سکا تو جتنے اَفعال کیے اُن پر ثواب پائیگا اگر چِہ وُضو نہ ہوا٭جس نے خود ہی قَصد(یعنی ارادہ) کیا کہ آدھا وُضو کرے گا وہ ان اَفعال پر ثواب نہ پائیگا، یُونہی جو وُضو کرنے بیٹھا اور بِلا عُذر ناقِص(یعنی ادھورا) چھوڑدیا وہ بھی جتنے اَفعال بجا لایا اُن پر مستحقِ ثواب نہ ہونا چاہیی٭اگر سر پر مینہ(یعنی بارِش) کی بُوندیں   اِتنی گریں  کہ چہارُم (یعنی چوتھائی ) سر بھیگ گیا مَسح ہو گیا اگر چِہ  اس شخص نے ہاتھ لگایا نہ قَصد(یعنی نہ نیّت وارادہ )کیا ٭ اَوس (یعنی شبنم) میں   سر بَرَہنہ(یعنی ننگے سر) بیٹھا اور اُس سے چہارُم سر کے قَدَ ر بھیگ گیا مَسح ہو گیا ٭ اتنے گَرم یا اتنے سر د پانی سے وُضو مکروہ ہے جو بدن پر اچّھی طرح نہ ڈالا جائے، تکمیلِ سنّت نہ کرنے دے، اور اگر


 

 کوئی فرض پورا کرنے سے مانِع(یعنی رُکاوٹ) ہوا تو وُضو ہی نہ ہوگا ٭ پانی بیکا ر صَرف(یعنی خرچ) کرنا یا پھینک دینا حرام ہے۔ (اپنے یا دوسر ے کے پینے کے بعد گلاس یا جگ کابچا ہوا پانی خواہ مخواہ پھینک دینے والے توبہ کریں  اور آیندہ اِس سے بچیں  )٭ ناف سے زَرد پانی بہ کر نکلے وُضو جاتا رہی٭خون یا پیپ آنکھ میں   بہا مگر آنکھ سے باہَر نہ گیاتو وُضو نہ جائے گا اُسے کپڑے سے پونچھ کر پانی میں   ڈال دیں   تو (پانی) ناپاک نہ ہوگا٭زَخم پر پٹّی بندھی ہے اُس میں   خون وغیرہ لگ گیا اگر اس قابِل تھا کہ بندِش نہ ہوتی توبَہ جاتا تو وُضو گیا ورنہ نہیں   ،  نہ پٹّی ناپاک  ٭قطرہ اُتر آیا یا خون وغیرہ ذَکَر (یعنی عُضو تَناسُل)کے اندر بَہا جب تک اُس کے سُوراخ سے باہَر نہ آئے وُضو نہ جائیگا اور پیشاب کاصِرف سوراخ کے  منہ پر چمکنا (وُضو توڑنے کیلئے )کافی ہے ٭نابالِغ نہ کبھی بے وُضو ہو نہ جُنُب(یعنی بے غُسلا) ۔ انہیں  (یعنی نابالغان  کو) وُضو و غسل کاحکم عادت ڈالنے اورآداب سکھانے کے لیے ہے ورنہ کسی حَدَث (یعنی وضو توڑنے والے عمل)سے ان کا وُضونہیں   جاتا نہ جِماع سے ان پر غسل فرض ہو ٭باوُضو نے ماں   باپ کے کپڑے یا ان کے کھانے کے لیے پھل یا مسجِد کا فرش ثواب کے لیے دھویا پانی مُستَعمَل نہ ہوگا اگر چِہ یہ اَفعال قُربَت(یعنی رضائے الٰہی) کے ہیں  ٭نابالغ کا پاک ہاتھ یا بدن کا کوئی جز اگرچہ بے وُضو ہو پانی میں   ڈالنے سے قابلِ وُضو رہے گا٭بدن سُتھرا رکھنا، مَیل دُور کرنا،شَرع میں   مطلوب ہے کہ اسلام کی بِنا(یعنی بنیاد) سُتھرائی (یعنی پاکیزگی و صفائی)پر ہے۔ اِس نیّت سے باوُضو نے بدن دھویا تو قُربت(یعنی کارِ ثواب) بے شک ہے مگر پانیمُستَعمَل نہ ہوا ٭مُستَعمَل پانی پاک ہے اس سے کپڑا دھو سکتے ہیں   مگر اس سے وُضو


 

نہیں   ہو سکتا اور اس کا پینا یا اس سے آٹا گوندھنا مکروہِ(تنزیہی) ہی٭پَرایا پانی بے اجازت لے گیا اگر چِہ زبردستی یا چُرا کر اس سے وُضو ہو جائے مگر حرام ہے۔ البتّہ کسی کے مَملوک(یعنی ملکیَّت کے) کنویں   سے اُس کی مُمانَعَت پر بھی پانی بھر لیا اس کا استِعمال جائز ہے ٭جس پانی میں   مائے مُستَعمَل کی دھار پہنچی یا واضِح قطرے گرے اس سے وُضو نہ کرنا بہتر ٭ جاڑے میں   وُضو کرنے سے سردی بَہُت معلوم ہو گی اس کی تکلیف ہو گی مگر کسی مرض کا اندیشہ نہیں   تو  تَیَمُّم کی اجازت نہیں   ٭شیطان کے تھوک اور پھونک سے نَماز میں   قطرے اور رِیح  کاشُبہ ہو جاتا ہے، حکم ہے کہ جب تک ایسا یقین نہ ہو جس پر قسم کھا سکے اِس (وسوسے )پرلحاظ نہ کرے، شیطان کہے کہ تیرا وضو جاتا رہا تو دل میں  جوا ب دے لے کہ خبیث تو جھوٹا ہے اور اپنی نَماز میں   مشغول رہے ٭ مسجِد کو ہرگِھن کی چیز سے بچانا واجِب ہے اگر چِہ پاک ہو جیسے لُعابِ دَہَن(منہ کی رال،تھوک،بلغم) آب ِبینی ( مَثَلاًرِینٹھ یا ناک سے نزلے کا بہنے والا پانی) آبِ وُضو٭ تَنبِیْہ: بعض لوگ کہ وُضو کے بعد اپنے منہ اور ہاتھوں   سے پانی پونچھ کر مسجِد میں   ہاتھ جھاڑتے ہیں   (یہ) محض حرام اور ناجائز ہے۔٭پانی میں   پیشاب کرنا مُطلَقاً مکروہ ہے اگر چِہ دریا میں   ہو ٭جہاں   کوئی نَجاست پڑی ہو تِلاوت مکروہ ہی٭پانی ضائِع کرنا حرام ہے ٭مال ضائِع کرناحرام ہی٭زمزم شریف سے غسل و وُضو بِلا کراہت جائز ہے( اورپیشاب وغیرہ کر کے )ڈَھیلے (سے خشک کر لینے )  کے بعد(آبِ زم زم سے) اِستنجا مکروہ اور نَجاست دھونا(مثلاً پیشاب کے بعد ٹِشوپیپر وغیرہ سے سُکھائے بغیر)گناہ٭(وہ )اِسراف کہ(جو) نا جائز و گناہ ہے (وہ)صرف (ان)دو صورَتوں   میں   ہوتا ہے، ایک یہ کہ کسی گناہ


 

 میں  صَرف (یعنی خرچ)و استِعمال کریں  ، دوسرے بیکارمحض مال ضائِع کریں   ٭غسلِ میِّت سکھانے کے لیے مُردے کو نہلایا او راُسے غسل دینے کی نیّت نہ کی وہ بھی پاک ہو گیا اور زِندوں   پر سے بھی فرض اُتر گیا کہ فِعل بِالقصد کافی ہے، ہاں   بے نیّت ثواب نہ ملے گا۔

            یا ربِّ مصطفٰے عَزَّ وَجَلَّ!ہمیں   اِسراف سے بچتے ہوئے شرعی وضو کے ساتھ ہر وقت باوضو رہنا نصیب فرما۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

با وضو مرنے والا شہید ہے

فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم:اگر تم ہمیشہ باوضو رہنے کی استطاعت رکھو تو ایسا ہی کرو کیونکہ ملکُ الموت جس بندے کی روح حالت وضو میں قبض کرتا ہے اُس کیلئے شہادت لکھ دی جاتی ہے۔ (شُعَبُ الْاِیمان ،ج ۳ ،ص ۲۹ ،حدیث :۲۷۸۳)

غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و

بے حساب  جنّت الفردوس  میں

آقا کے پڑوس کا طالب

۵ ذوالحجۃ الحرام ۱۴۳۵ھ

2014-10-01

یہ رسالہ پڑھ کر دوسرے کو دے دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ، گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ، اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔


 

ولادت میں   آسانی کا نُسخہ

 (مریم بی بی کا پھول)

         مریم بی بی کا پھول([5]) دردزہ(بچے کی ولادت کا درد) شروع ہونے پر کسی کھلے برتن یا ڈبے میں   پانی میں   ڈال دیا جائے تو جیسے جیسے تر ہوتا جائے گا یہ کھلتا جائے گا اور اَللّٰہُ ربُّ العِزّت  کی عنایت سے مریم بی بی کے پھول کی بَرَکت سے بچے کی ولادت میں   آسانی ہوتی ہے۔

بغیر آپریشن ولادت ہوگئی

(مریم بی بی کے پھول کا فائدہ)

     دعوتِ اسلامی کے جامعۃ المدینہ کے ایک مدرِّس مَدَنی اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میرے دوسرے بچّے کی ولادت کا دن تھا ،میرے بچّوں   کی امّی اَسپتال کے مخصوص کمرے (لیبر روم)میں   جاچکی تھیں  ، کچھ ہی دیر بعد مجھے مَدَنی مُنّے کی ولادت کی خوشخبری ملی ۔اَسپتال کی انتظار گاہ میں   ایک شخص سے ملاقات ہوئی تو اُس نے باتوں   باتوں   میں   مریم بی بی کے پھول کا ذِکر کیا تومیرے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ اگر دردِ زہ(بچے کی ولادت کا درد) شروع ہونے پر اس سُوکھے پھول کوکسی کھلے برتن یا ڈبے میں   پانی میں   ڈال دیا جائے تو جیسے جیسے تر ہوتا جائے گا یہ کھلتا جائے گا اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کی ولادت میں   آسانی ہوتی ہے ۔ پھر کم وبیش دو سال کے بعد جب تیسرے بچے کی ولادت کامَرحَلہ آیا تو لیڈی ڈاکٹر نے میرے بچّوں   کی امّی


 

 کو ذِہنی طور پر آپریشن کے ذَرِیعے ولادت کے لئے تیّار رہنے کا کہا ، مجھے مریم بی بی کے پھول کا خیال آیا تو میں   نے پنساری(دیسی دواؤں  ) کی دکان سے مریم بوٹی حاصل کرلی اور جب وقتِ ولادت قریب آیا تو اُسے پانی میں   ڈال دیا ،اللہ تعالٰی  کے کرم سے بغیر آپریشن مَدَنی مُنّی  کی ولادت ہوگئی ۔ ایک عرصے بعد چوتھے بچّے پر بھی ڈاکٹر نے آپریشن کنفرم کردیا لیکن میں   نے دیگر اَورادو وظائف (جو مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’ گھریلو علاج ‘‘میں   موجود ہیں  )کے ساتھ ساتھ مریم بوٹی کا بھی استعمال کیا ،یوں   ایک بار پھر بغیر آپریشن مَدَنی منی کی ولادت ہوگئی ۔ اس کے کم وبیش دو سال بعد جب پانچویں   بچے کی ولادت متوقع تھی تو ہم نے اپنے گھر کے قریبی اَسپتال میں   رُجوع کیا ، وہاں   بھی ڈاکٹر نے میڈیکل رَپورٹس اور اپنے تجرِبے کی روشنی میں   آپریشن کا ہی کہا ، میں   نے کوشش کرکے رقم کا بھی انتظام رکھا اور اَورادو وظائف کے ساتھ ساتھ وقتِ ولادت قریب ہونے پر مریم بوٹی بھی کھلے منہ والے ڈبے میں   پانی میں   ڈال دی ، ڈاکٹر نے بغیر آپریشن ولادت کے لئے کافی کوشش کے بعد آپریشن کے لئے رقم جمع کروانے کا بولا کہ اب آپریشن کے علاوہ چارہ نہیں   اور آپریشن کا انتظام شروع کردیا، رقم بینک میں   تھی میں   اَسپتال کے قریبی اے ٹی ایم مشین سے رقم نکال لایا اور کاؤنٹر پر جمع کروا دی ، لیکن آپریشن سے پہلے ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے تندرست و توانا مَدَنی مُنّا پیدا ہونے کی خوش خبری مل گئی ۔ مریم بوٹی کے استعمال کا میں   نے چار یا پانچ اسلامی بھائیوں   کو مشورہ دیااُن میں   سے کئی ایک کو ڈاکٹر نے آپریشن کا بول رکھا تھا ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ان کے یہاں   بھی بغیر آپریشن ولادتیں   ہو گئیں   ۔  


 

مآخذ و مراجع

کتاب

مطبوعہ

کتاب

مطبوعہ

قراٰنِ مجید

 

کنز العمال

دار الکتب العلمیۃ بیروت

نورالعرفان

پیر بھائی کمپنی مرکز الاولیاء لاہور

مراٰۃالمناجیح

ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور

سنن ابوداوٗد

دار احیاء التراث العربی بیروت

 البحر الرائق

کوئٹہ

سنن نسائی

دار الکتب العلمیۃ بیروت

درمختار وردالمحتار

دار المعرفۃ بیروت

سنن ابن ماجہ

دار المعرفۃ بیروت

عالمگیری

دار الفکر بیروت

مسند امام احمد

دار الفکر بیروت

مراقی الفلاح

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

معجم کبیر

دار احیاء التراث العربی بیروت

الحاوی للفتاوٰی

دار الفکر بیروت

معجم اوسط

دار الکتب العلمیۃ بیروت

میزان الکبریٰ

دار الکتب العلمیۃ بیروت

معجم صغیر

دار الکتب العلمیۃ بیروت

احیاء العلوم

دار صادر بیروت

مسند بزار

مکتبۃ العلوم و الحکم مدینہ منورہ

مسائل القراٰن

رومی پبلیکیشنز مرکز الاولیاء لاہور

سنن دارمی

باب المدینہ کراچی

فتاوٰی رضویہ

 رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور

سنن دارقطنی

مدینۃ الاولیاء ملتان

بہار شریعت

مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی

شعب الایمان

دار الکتب العلمیۃ بیروت

٭٭٭٭٭

 

٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 



[1] ۔۔۔اَلْمُعْجَمُ الصَّغیر لِلطَّبَرَانِی ج۱ص۷۳حدیث  ۱۸۶

[2] ۔۔۔   اِحیاءُ الْعُلوم ج۱ص۱۸۲

[3] ۔۔۔   سرپر مسح کا ایک طریقہ یہ بھی تحریر ہے اِس میں با لخصوص اسلامی بہنوں کیلئے زیادہ آسانی ہے چُنانچِہ لکھا ہے:مسحِ سرمیں ادائے سنَّت کو یہ بھی کافی ہے کہ انگلیاں سر کے اگلے حصّے پر رکھے اور ہتھیلیاں سر کی  کروٹوں پر اور ہاتھ جما کر گُدّی تک کھینچتا لے جائے۔            (فتاویٰ رضویہ مخرجہ ج۴ص۶۲۱)

[4] ۔۔۔ شُعَبُ الْاِیمان ،ج۲،ص۳۸۱،رقم۲۱۱۷

[5] ۔۔۔ : اسے’’ مریم بوٹی‘‘ اور’’ مریم کا پنجہ ‘‘بھی کہتے ہیں ،پنجے کی شکل خشک حالت میں ہوتی ہے ۔ پنساری (دیسی دوائوں) کی دکان سے ملنا ممکن ہے مکّے مدینے میں مقامی عورتیں اور بچّے زمین پر رکھ کر چیزیں بیچتے ہیں اور ان کے پاس بھی مل سکتا ہے،اس کی خاصیَّت اور برکت سے واقف عاشقانِ رسول وہاں سے تبرکاً وطن لاتے اور دوسروں کو تحفۃً پیش کرتے ہیں۔ جس کودیں اُس کو استعمال کا طریقہ سمجھانا ضَروری ہے۔ کم پرانا ہوتو زیادہ بہتر ہے۔